اتوار، 5 اپریل، 2015

0 comments
ظہیر الدین بابر کا شمار ایشیائی تاریخ کی دلچسپ ترین شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیاں اتنی گوناگوں ہیں اور انکے کمالات اتنے متنوع ہی
 کہ آدمی حیرت میں پڑجاتاہے۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ’بابر ‘ایک بہادر جنگجو، ایک اعلی درجہ کے کھلاڑی ، مصنف ، سوانح نگار اور قدرتی مناظر کے دلدادہ تھے۔انھوں نے افغانستان اور ہندوستان میں کئی خوبصورت باغ لگوائے۔ ہندوستان میں بعض نفیس ترین عمارتیں بنوائیں اور اس ملک کو ایک اعلی طرزِتعمیر سے روشناس کرایا۔
بابر کی اہمیت ہماری نگاہوں میں اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ چنگیز اور ہلاکو جیسی تباہ کن اور جہاں سوز شخصیتوں کی نسل سے ہیں،جن کی غارت گری کی داستانیں آج بھی دنیا کو لرزہ بر اندام کردیتی ہیں۔ بابر نے ایک بے قرار طبیعت ورثے میں پائی تھی ۔اس بے قراری میں بابر نے کچھ ذاتی خصوصیات کی آمیزش کرکے ایک ایسی شخصیت کو جنم دیا، جس نے سردوگرم کے باہمی امتزاج سے نارونور کی شکل اختیار کرلی تھی۔ بابر ’عمر شیخ مرزا ‘حاکمِ فرغانہ کے فرزند تھے ۔ عمر شیخ مرزا ’تیمور ‘کے پڑپوتا تھے۔ بابر کی والدہ چنگیز کی نسل سے تھیں، اس طرح سے بابر میں ترک کا حوصلہ اور اہلیت ،اور منگول کی بے قرار قوت یکجاہوگئیں تھیں۔بابر نے لکھاہے کہ انکے والد ایک صاحب علم ،سخی اور بہادر شخص تھے ۔وہ اتنا طاقت ور تھے کہ ایک مکے سے آدمی کو گرا سکتے تھے لیکن ان کی نگاہ میں دولت کی کوئی وقعت نہ تھی۔
بابر کو یہ تمام خصوصیت وراثت میں بدرجہ اتم حاصل ہوئیں۔ بابر کی والدہ امور خانہ داری میں مہارت کے علاوہ ترکی اور فارسی کی فاضلہ تھیں ۔ بابر نے والدین سے دل ودماغ کی یہ کیفیت ورثے میں پائیں ۔ بابر کا بچپن فرغانہ کے دارالخلافہ میں گزرا ۔وہ ورزشوں کے دلدارہ تھے۔ تیراکی سے تو انھیں جنون کی حد تک لگا تھا۔ وہ بے خطر منجمد ندیوں میں کود جاتے ۔تیراکی میں وہ اتنا نڈر تھے کہ بعد میں جب انھوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو راستے میں جتنے بھی دریا آئے، ان سب کو تیر کر پار کیا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ گنگا کو پار کرکے بغیر کسی وقفے کے دوبارہ تیر کر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔بابر سیاحت اور مناظر قدرت کا بھی بے حد شائق تھے، سفرو سیاحت کے وہ اتنادلدادہ تھے کہ کسی بھی جگہ انھوں نے عید الفطر دوبارہ نہیں منائی ۔ بابر کا بچپن کچھ ایسے ماحول میں گزرا کہ انکے ذہن و جسم اتنے مضبوط ہوگئے کہ عمر کی سختیوں کو وہ نہایت صبر اور خندہ پیشانی سے جھیل لیا۔ بابر گیارہ برس کے تھے کہ انکے والد کا سایہ انکے سرسے اٹھ گیا۔ بابر کے والد کی یہ غیر متوقع موت ایک حادثہ میں واقع ہوئی۔ اس کم سنی میں بابر کے لئے فرغانہ جیسی ریاست کو سنبھالنا کوئی آسان کا م نہ تھا۔ بابر کے اکثر و بیشتر رشتہ دار خودغرض اور حکومت کی تاک میں تھے اور ہمسایہ ریاستوں کے حکمرانوں کا رویہ معاندانہ تھا، ان کا رویہ آخر کار باہمی جنگ کی صورت میں نمودار ہوا۔ بابر تخت نشینی کے بعد دس سال ایک مسلسل جدوجہد، لگاتارشکست اور مایوسی کی ایک طویل اور المناک داستان ہے، جس میں کہیں کہیں کامیابی کا نشان ملتاہے۔ ایک بار وہ ایک مہینہ تک مسلسل سمرقند میں محاصرہ میں رہے۔ بابر اوراس کے ساتھیوں پر بڑا مشکل وقت آن پڑا۔ آخر بابر کو شہر دشمن کے حوالے کرنا پڑا۔ اس کی مصیبتوں کا کوئی اختتام نظر نہ آرہاتھا، رشتہ دار اور رفیقِ کار سب چھوڑ گئے، کوئی بھی جگہ ایسی نہ تھی جہاں سے اسے کسی مدد کی توقع ہو، ایک عرصے تک اپنے آبائی ملک کے جنگلوں میں آوارہ پھرنے کے بعد تاشقند کے ’خوانین ‘کے پاس پناہ لی۔ بابر مسلسل ذلت اور مایوسی سے اتنا بد دل ہو چکا تھا کہ اس نے ہر چیز کو چھوڑ چھاڑ کر چین کی طرف ہجرت کر جانے کا ارادہ کرلیا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اگر بابر اس وقت چین کا رخ کرتا تو یقیناًہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا وجود نہ ہوتا اور اس ملک کی تاریخ کسی اور انداز میں لکھی جاتی۔
ایسے وقت میں بابر کے دوچچوں نے بابر کو مدد دی اوراس نے سلطنت کا بیشتر حصہ چھڑا لیا، تاہم یہ فتح عارضی ثابت ہوئی۔ بابر کو پھر ایک بار وطن کو خیر باد کہہ کر جنگلوں میں پناہ لینی پڑی۔ تقریبا ایک سال تک بابر اپنی والدہ اور چند وفا دار ساتھیوں کے ہمراہ جنگلوں کی خاک چھانتا پھرا، اس وقت بے گھراور دشمنوں میں گھرے ہوئے بابر کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اگرچہ اس نے حوصلہ نہ ہارا بلکہ سختیوں نے اس کے ارادوں کو مضبوط تر کردیا ۔لیکن نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنے آبائی وطن کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے کی ٹھان لی۔ بابر اس وقت اکیس برس کا تھا اور اس عرصہ میں وہ بدقسمتی کی انتہا کو چھوچکا تھا۔ بابر ان مصائب وآلام کی چکی میں پس کے رہ گیا ہوتا مگر آزمائشوں اور مصیبتوں کے اس لامتناہی سلسلے کا بابر نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا۔ حقیقت میں یہی تلخ تجربے بعد کی آنے والی ہندوستانی مہموں میں بابر کے مددگار ثابت ہوئے۔ بابرنے قسمت آزمائی کے لئے کابل کا رخ کیا ۔اس کا چچا حاکم کا بل میں فوت ہوچکا تھا اور تخت پر ارغوانی منگول قابض ہوچکے تھے، بابر کے ساتھیوں کی تعدا ددوتین سو کے لگ بھگ تھی۔ رسد اور فوجی ساز وسامان ناکافی تھے، مگر راستے میں کئی اور لوگ بابر کے ساتھ شامل ہوگئے۔ آخر کار جس قسمت نے اپنے ملک میں اس کی یاوری نہ کی تھی، ایک غیر ملک میں اس پر ہوگئی۔ بابر نے منگولوں کو شکست دی اور کابل پر قبضہ کرلیا۔ کابل کے تخت کو محفوظ کرنے کے بعد بابر نے اردگرد کے علاقوں میں فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے غزنی کو فتح کیا اور درہ خیبر سے ہوتا ہوا کوہاٹ تک آیا۔ کچھ عرصے کے بعد قندھار بھی فتح ہوگیا تاہم بابر کو سمر قند نہ بھولا تھا۔ جہاں اسے اتنی مایوسیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آخر کار میں اس نے سمر قند پر حملہ کردیااور سمرقند کے تخت پر فاتح کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوگیا۔
ایک بار پھر بابر کو ازبکوں کے ہاتھوں زک اٹھانی پڑی اور اسے مجبورا کابل واپس لوٹنا پڑا،جہاں آئندہ پانچ برس تک وہ اپنی طاقت مضبوط کرتا رہا، ناقابل تسخیر اور پہاڑی علاقوں والے افغانستان سے بابر نے اپنی نگاہ جنوب مشرقی میدانی علاقے کی طرف اٹھائی اور اس سر زمین کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنایا اور اپنی سلطنت اس جانب پھیلانے کا ارادہ کیا ۔
اس نے اپنی ’’ہندمہم ‘‘کا آغاز کیا اور پانچ بار حملہ آور ہوا۔ ان حملوں میں سے دوسرا، چوتھا اور پانچواں حملہ اہمیت کا حامل تھا۔ دوسرے حملے میں اس نے بھیرہ اور دریائے جہلم اور چناب کے درمیان کے علاقے پرقبضہ کیا ۔ چوتھے حملے میں اس نے لاہور اور مشرقی پنجاب کے ایک حصے پر قبضہ کیا، دوسرے سال وہ پنجاب میں نظم ونسق برقرار رکھنے کی غرض سے آیا۔ اس طرح سے 21اپریل 1526ء کو بابر اور دہلی کے سلطان ابراھیم لودھی کا مقابلہ پانی پت کے مشہور میدان میں ہوا۔ بابر کابل سے ہزار کا لشکر لایا تھا۔ راستے میں کئی افغان سردار اس کے ساتھ مل گئے۔ اس کے لشکر کی تعداد چھبیس ہزار سے زائد نہ تھی۔ اس کے مقابلے میں لودھی کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ سے بھی متجاوز تھی، اس کے علاوہ ابراھیم لودھی کے پاس ہاتھیوں کا بھی ایک لشکر تھا اور اس کے پاس ضروریات کے لامحدود ذخیرے تھے او ر وسائل بے شمار تھے مگر وہ جنگی قابلیت سے عاری تھا ۔ بابر کی شخصیت کا جو اثرتھا ، وہ اثر اپنے آدمیوں پر ابراہیم لودھی کا نہ تھا ۔ اس کے علاوہ بابر کے ساتھ نووارد افغان جو ہر لحاظ سے میدان جنگ میں ہندوستانی فوجوں سے برتر تھے ، انہیں اپنے وطن کی دوری کا بھی اندازہ تھا، انکا فوجی ڈسپلن بھی اچھا تھا، فرمانبرداری بھی زیادہ تھی، ان کے گھوڑے بھی بہتر تھے۔ اس کے علاوہ ان کا سردار ایک تجربہ کار جرنیل تھا جس کی پوری عمر جنگ وجدال میں گزری تھی ۔ پانی پت کے میدان میں بابر نے اپنی جنگی مہارت کا ثبوت دیا۔ اس نے فوجیوں اورتوپوں کے منطقی انتظام سے لودھی لشکر میں افراتفری پیدا کرکے شکست کی کیفیت پیدا کردی ۔ لودھی لشکر کے پاوں اکھڑ گئے۔ ابراہیم لودھی خود میدان جنگ میں قتل ہوگیا اور لودھی سلطنت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔ ہندوستان کی سلطنت لودھی خاندان سے مغلیہ خاندان میں منتقل ہوگئی ۔ تختِ دہلی پر قبضہ بابر کی ایک عظیم الشان حصولیابی تھی ۔تاہم اس کی زندگی دہلی کی فتح کے بعدبھی کوئی پھولوں کی سیج نہ تھی ۔ دہلی سلطنت پر قبضہ کے کچھ ہی وقت کے بعد 17 مارچ 1527ء کو بابر کو راجپوتوں کے ایک زبردست متحدہ لشکر کا مقابلہ کرنا پڑا۔اس لشکر کی کمان مشہور ومعروف راجپوت سردار راناسانگا کے ہاتھ میں تھی۔ راجپوتوں کی بے پناہ تیاری کی خبریں بابر کے کیمپ میں پہنچ رہی تھیں۔ بابر نے حالات کا جائزہ لیا اور اس بڑے خطرے کے پیش نظر اپنے سب سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے بڑے زوردار الفاظ میں خطاب کیا۔ا ور دوران خطاب اس نے وعدہ کیا کہ اگر اللہ تبارک وتعالی مجھے اس جنگ میں فتح عطا کرے تو پھر میں عمر بھر شراب کو ہاتھ نہ لگاؤں گا اورنہ ہی داڑھی منڈواؤں گا۔ اس جنگ میں بڑے زور کا رن پڑا ، مگر میدان بابر کے ہاتھ رہا۔راجپوتی فوج کو شکست فاش ہوئی۔
بابر اب بلاخوف ہندوستان کے بادشاہ تھے۔ ’’کنوہہ کی جنگ‘‘نے دشمنوں کی ہمت اورلوگوں کے زعم توڑ دئیے تھے۔ تاہم بابر اس سلطنت عظیم کا ثمرہ نہ حاصل کر سکا، بے پناہ اور ان تھک محنت ومشقت کے سبب اس کے جسم میں تھکن کے آثار نمایاں ہوگئے۔ اسے آرام کی ضرورت تھی مگر آرام کہاں تھا۔ اس کا کام ابھی ختم نہ ہوا تھا۔فتح کنوہہ کے بعد تین برس تک بابر حاصل کردہ سلطنت کی مضبوطی میں ہمہ تن مصروف رہا۔ عین اسوقت جب بابر اپنے بیٹے ہمایوں کو سلطنت کا کاروبار سونپنے والا تھا، ہمایوں سخت بیمار ہوگیا، اس کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ کوئی قیمتی چیز صدقہ کی جائے۔ اس قیمتی چیز سے مراد ’کوہ نور ‘نامی ہیرا تھا جو ہمایوں کے قبضے میں تھا۔ مگر بابر نے اس ہیرے سے بھی کوئی زیادہ قیمتی چیز شہزادے کے کیلئے صدقہ کرنی چاہی اور وہ خود بابر کی جان تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بابر تین بار شہزادے کے پلنگ کے گرد گھومااور پھر مصلی بچھا کر بیٹھ گیا اور قلب صمیم سے دعا مانگی۔ بارِ الہی ! شہزادے کی مرض مجھے لگا دے اور شہزادے کو بچا لے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شہزادہ ٹھیک ہوگیا اور بابر بستر مرگ پر لیٹ گئے ۔ بابر نے آگرہ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ بابر کی عمر اس وقت اڑتالیس برس تھی۔ اس چالیس سال کی عمر میں بابر کے لئے ہردن ایک نئے معرکے اور چیلج سے سامنا رہا۔بابر بے شک ایک ہیرو کی طرح جیئے اور ایک ہیرو کی طرح مرے۔ بابر بے شک ایک بہادر، جانباز اور حوصلہ مند جرنیل تھے لیکن انکی زندگی کے بعض دیگر پہلو بھی بڑے دلچسپ ہیں ،بحیثیت انسان بابر ملنسار، سخی اور مہربان تھے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں وہ کبھی نہیں جھجکے، البتہ وہ جھوٹے اورمکار لوگوں کو کبھی معاف نہ کرتے تھے۔ اپنے رشتہ داروں کے معاملے میں اس کی صلح رحمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ زندگی کے ابتدائی دور میں اسکے کئی رشتہ داروں نے اس سے بیوفائی کی اور اس پر زیادتیاں کیں لیکن جب وہ صاحب اقتدار ہوا تو اس نے کبھی ان سے بد سلوکی نہیں کی ۔ وہ ہمیشہ معاف کرنے اور بھول جانے کا عادی تھے۔ بابر نے کبھی کوئی ایسا کام پسند نہ کیا جس میں کمینگی کا شائبہ ہو یا اس میں کوئی سازشی پہلو ہو۔ اسے اپنی عزت وشرف نہایت عزیز تھی۔ ان کے چچوں کوخوانین سمر قند جنہوں نے کھوئی ہوئی سلطنت دلوانے میں اس کی مدد کی تھی۔ ایک بار انہوں نے بابر سے کہا کہ جاکر بایزید ا خسی کو دھوکے سے گرفتا رکرے مگر بابر نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ مکر وفریب اور دھوکا بازی اسکا شیوہ نہیں، اپنے آباء واجداد اور اولاد کی فطرت کے برعکس بابر نے کبھی دولت کو عزیز نہ جانا۔ جب اسکے بھائی نے سمرقند کے خزانے پر قبضہ کر لیا جس پر اس کا کوئی حق نہ تھا تو بابر نے اس سے کوئی تعرض نہ کیا اور اسے خزانہ رکھ لینے کی اجازت دے دی۔ اسی طرح جب شہزادہ ہمایوں نے اس کی اجازت کے بغیر دہلی کے خزانوں پر قبضہ کرلیا تو بابر نے اس کی سخت سرزنش کی۔بابر کی قناعت کا اندازاس سے ہوجاتا ہے کہ جب ہمایوں نے اسے ’’کوہ نور ‘‘ہیرا پیش کیا تو بابر نے لینے سے انکار کردیا۔ وہ خاصیت جس کے سبب اپنے پیروکاروں کے دل جیت لیتے تھے، وہ انکی طبع تھی۔ وہ بڑی سے بڑی مصیبت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمسکراسکتے تھے۔ بابر ایک سچے مسلمان تھے اور خدائی مدد پر انھیں کامل بھروسا تھا۔انھوں نے تمام فتوحات کو خداکے رحم وکرم کا نتیجہ سمجھا، انھیں دعا کے بے پناہ اثر پر یقین تھا، جب کبھی وہ کسی کام کو شروع کرتے تھے تو پہلے اللہ تعالی سے کامیابی کی دعاکرتے۔ بابر فقط ایک عظیم فاتح ہی نہ تھے،وہ ایک فاضل، سوانح نگار ، مصنف ، اور شاعر بھی تھے ۔وہ اعلیٰ زوق سلیم کے مالک تھے،انھیں نظم ونثر دونوں میں ایک ساتھ قدرتی طرز نگارش کا نہایت بڑا ملکہ حاصل تھا۔ بابر نامہ جس میں انھوں نے اپنی سوانح حیات قلمبند کئے ہیں ،ایک ایسی تصنیف ہے جسے بے دریغ ’گِبن ‘اور ’نیوٹن ‘کے خود نوشتہ سوانح حیات کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ تصنیف سادگی اور دیانتداری جس کی خصوصیت ہے، جملہ نقاد حضرات سے خراج تحسین وصول کرچکی ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اس میں سچ ہی سچ ہے حتی کہ مبالغہ آرائی سے بھی پاک ہے۔ اس میں بابر کی زندگی کے واقعات تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ جہاں جہاں بابر پھرے،ان جگہوں کے متعلق بھی لکھا گیاہے اور جن جن شخصیتوں سے انھیں واسطہ پڑا ،ان کے متعلق بھی کافی معلومات دی گئی ہیں ۔ بابر نے کہیں بھی اپنی فتح یا شکست کے بیان میں مبالغہ آرائی کی کوشش نہیں کی۔ بابر کو اخلاق کی منظر کشی میں ید طولے ہے ۔وہ چند جملوں میں کسی شخصیت کی حقیقی تصویر کھینچ دیتے ہیں گویا کہ وہ شخصیت آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے ۔حیرانی ہوتی ہے کہ بابر نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کر لیا ۔کیونکہ اسے فکر سخن یا اپنی سوانح حیات کے لکھنے کے لئے بہت کم تنہائی میسر رہی۔ وہ کبھی تو شعر جنگ سے پہلے کہتے تھے یا کبھی جب وہ باہر سیروشکار کے لئے نکلتے تھے۔ اس کے علاوہ بابر خود ایک اعلی خوش نویس تھے۔ انھوں نے کتابت کی ایک نئی طرز ایجاد کی جس کا نام انھوں نے ’’خط باری ‘‘ رکھا۔ انھوں نے اس طرز میں قران حکیم لکھ کر اسے مکہ بھیجا۔ بابر کے طوفانی جنگی لائحہ عمل اور معرکے بابر کے علمی ذوقِ وجدان کو کند نہ کر سکے۔بے پناہ اور مسلسل مصائب وآلام کے باوجود بابر اپنے ذوق سلیم کی پرورش کرتے رہے اور کبھی اپنی زندگی بے کیف نہ ہونے دی ۔ جس سہولت اور خوبصورتی سے بابر نے مختلف کیفیات کو شعر کے سانچے میں ڈھالنے کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل داد ہے۔
موسیقی کے ساز وآہنگ کا ذوق بابر کی ہمہ گیر طبیعت میں حد کمال کو پہنچا ہوا تھا، اس بات کا تذکرہ خود ا نھوں نے اپنی سوانح میں کیا ہے۔ ان کی تمام تقریبوں کی رونق موسیقی سے دوبالا کی جاتی تھی۔ اکبر، جہانگیر اور شاہجہان کو موسیقی کی محبت بابر سے ورثے میں ملی۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر جیسے کوئی خوبصورت پہاڑ یا دریایا کوئی خوبصورت باغ یا پھولوں کی کیاری دیکھ کر ضرور انکے منہ سے کوئی نہ کوئی تعریفی جملہ نکل جاتا تھا، جس سادگی اور صفائی سے وہ قدرت کے حسن کو بیان کرتے ہیں،وہ انکے احساس کی گہرائی پر دلالت کرتا ہے۔ گل ولالہ کا کوئی منظر انکی طبیعت میں ایک وجدانی کیفیت پیدا کرنے کے لئے کافی تھا۔جب وہ ہندوستان آئے تو اس ملک کو طبعی جمال سے یکسر عاری پایا۔ اس کمی کے سبب انھیں عمومااپنے گل وثمر سے بھر پور وطن کی یاد آتی رہتی تھی۔ بابر نے سرزمین ہند کی جو خدمات کی ہیں ،ان میں ایک خدمت ’’فن باغبانی‘‘ کا رواج بھی ہے۔ وہ ایسے باغوں کے دلدادہ تھے جن میں فوارے، آبشاریں اور پھولوں کی کیاریاں اپنی بہار دکھا رہی ہوں ۔ درختوں اور پھولو ں سے متعلق انکی معلومات بے حد وسیع تھیں ۔انھوں نے کابل میں دس باغ لگوائے۔ جمنا کے کنارے ان کا لگایا ہو ا ’رام باغ ‘بعد میں چل کر جہانگیر اور شاہجہان کے ’شالا مار ‘اور ’نشاط باغ ‘کا پیشروثابت ہوا۔ بابر کو عمارتیں بنانے کا شوق بچپن سے تھا۔ غزنی، قندھار اور کابل میں انھوں نے مسجدیں ، مقبرے اور کاروان سرا ئے بنوائے ۔ ہندوستان میں انھوں نے قسطنطنیہ سے معمار بلوائے۔ انکی ذاتی نگرانی میں آگرہ ، فتح پور، سیکری اور گوالیار میں کئی خوبصورت عمار تیں تعمیر کی گئیں۔ وہ مسجد جو بابر نے پانی پت میں ابراھیم لودھی پر فتح حاصل کرنے کی خوشی میں بنوائی وہ ابتک موجود ہے۔ بابر کے پوتوں نے بابر سے ہی تعمیراتی ذوق سیکھا حتی کہ یہ ذوق ترقی کرتا ہوا ایک خاص شکل اختیار کر گیاجسے ’مغلیہ فن تعمیر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔