عشق مجازی سے لے کر عشق حقیقی تک



تحریر مدثرحسین
عشق عربی زبان کا لفظ ہے محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا کر جنوں کہلاتی ہے۔ عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ عشق نا ممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے ۔ کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔ غرض ہر عشق کے مدارج مختلف ہیں۔ کوئی عشق مجازی میں ہی گھر کر رہ جاتا ہے۔ تو کوئی عشق ِ مجازی سے حقیقی تک رسائی حاصل کرکے حقیقی اعزازو شرف حاصل کرتا ہے۔
اقبال کے یہاں عشق اور ان کے مترادفات و لوازمات یعنی وجدان ، خود آگہی، باطنی شعور ، جذب ، جنون ، دل ، محبت ، شوق ، آرزو مندی ، درد ، سوز ، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار، تواتر، انہماک سے ملتا ہے ۔اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورات میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔اس کے متعلق اقبال کیا کہتے ہیں اقبال ہی کی زبان سے سنتے چلیے ، یہ ان کی نظم ”محبت “ سے ماخوذ ہے۔
تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفس ہائے مسیح ِ ابن مریم سے
ذرا سی پھر ربو بیت سے شانِ بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر ِ شبنمسے
پھر ان اجزاءکو گھولا چشمہ حیوان کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے
یہ ہے وہ محبت کا جذبہ عشق جو اقبال کے دائرہ فکر و فن کا مرکزی نقطہ ہے۔ یہی تخلیق کا ئنات سے لے کر ارتقائے کائنات تک رموزِ فطرت کا آشنا اور کارزارِ حیات میں انسان کا رہنما و کار کُشا ہے۔ بقول اقبال کائنات کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ، اس کی فضا بے جان اور بے کیف تھی۔
عشق از فریادِ ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد!
ورنہ ایں بزمِ خموشاں ہیچ غوغائے نداشت
عشق مجازی کا طالب عشق مجازی تک ہی محدود ره جاتا ہے یہ نظریہ غلط ہے کہ عشق مجازی ہی عشق حقیقی تک پہنچاتا ہے عشق مجازی میں ذلت و رسوائی ہے عشق حقیقی میں مستی و سرور ہے عشق مجازی کا طالب تا زندگی ذلت و رسوائی کی پستیوں میں پستا رہتا ہے اور عشق حقیقی کا طالب عشق کی تمام منازل طہہ کرتا ہوا اپنے خالق و مالک حقیقی کو پا لیتا ہے۔ عشق مجازی کے طالب کو دنیا لعنت ملامت اور دھکے دیتی ہے جبکہ عشق کے حقیقی کا طالب کے قدم چومتی ہے عشق مجازی ویرانی ہی ویرانی ہے عشق حقیقی سکون ہی سکون ہے مستی ہی مستی ہے سرور ہی سرور ہے۔ عشق مجازی کا طالب اپنے محبوب کو دیکھ کر سکون پاتا ہے اور عشق حقیقی کا طالب ہر وقت اپنے مطلوب کے جلوؤں میں غرق رہتا ہے اور اس کا کوئی سانس ایسا نہیں ہوتا جو اپنے محبوب کی یاد سے غافل جاتا ہے سلطان باھو فرماتے ہی۔ یک دم غافل سو دم کافر۔ یعنی عشق حقیقی کے طالب کا اگر ایک سانس بھی اپنے محبوب کی یاد سے غافل جاۓ تو جان لے وه سو دم کافر ہے نماز اور دیگر اعبادات کی قضا ہے مگر عشق حقیقی کے طالب کا اگر ایک سانس بھی اپنے محبوب کے ذکر سے غافل ہو جاۓ تو اس کی قضا کوئی قضا نہیں۔ عشق مجازی کی ایک حد ہے جہاں پہنچ کر عشق مجازی ریزه ریزه ہو کر ہوس کی آگ میں جل جاتا ہے مگر عشق حقیقی کی کوئی انتہا نہیں عشق حقیقی کے طالب کی تڑپ ہر سانس کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے جو نہ تو مرنے کے بعد ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی جنت کے لالچ سے ۔ سب مومن جنت میں داخل ہو جائیں گے مگر عشق حقیقی کا طالب انکار کریں دیں گے خدا ان سے پوچھے گا کہ تم جنت میں داخل کیوں نہیں ہوتے تو عشق حقیقی کے طالب فرمائیں گے اے مولا ہمیں تیری جنت نہیں تو چاہیۓ۔ اے مولا ھم نے تیری عبادت تیری جنت کے لالچ اور تیری جہنم کے خوف نہیں کی تھی بلکہ تیری رضا اور تجھے خوش کرنے کیلۓ کی تھی تاکہ تو ھم سے خوش ہو جاۓ اے میرے مولے تیرے آگے تیری جنت کی کیا اوقات ہے۔
حضرت رابعہ بصری ایک بار عشق کی کیفیت میں پانی سے بھرا گھڑا اٹھا کر چلی جا رہی تھیں کہ کسی نے پوچھا۔ اے مائی یہ پانی کا گھڑا تو کہاں اٹھاۓ جا رہی ہے
آپ کیفیت عشق میں فرماتی ہیں کہ آج میں جنت کو آگ لگا دوں اور دوزخ کو بجھا دوں گی تاکہ لوگ جنہم کے خوف اور جنت کے لالچ سے خدا کی عبادت نہ کریں۔ ایک بار دعا کرتیں ہیں کہ اے مولا اگر میں تیری عبادت جہنم کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے جہنم میں ڈال اور اگر تیری جنت کے لالچ میں کرتی ہوں تو جنت کو مجھ سے دور کر دے
یہ ہوتے ہیں عشق حقیقی کا طالب جو اپنا ہرکام اپنے محبوب کی رضا اور خوشی کیلۓ کرتے ہیں نہ تو انہیں دنیا کی طلب ھوتی ہے اور نہ آخرت کی بلکہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے مالک کو راضی کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس کے لیے وه اپنے آپ کو مٹا دیتے ہیں اپنی خودی کو ختم کرفنا فی الله ہو جاتے ہیں اپنے نفس کو کچل ڈالتے ہیں دنیا اور اہل عیال کی محبت اپنے دل سے نکال ڈالتے ہیں کیونکہ عشق قربانی پر قربانی مانگتا ہے
مٹا دے اپنی ہستی کو اے اقبال
اگر کچھ مرتبہ چاہیۓ تو
حضرت ابراھیم بن ادھم کافی دل جنگل و بیابانوں میں خدا کی حمد و ثنا کرتے رہے کافی عرصہ بعد ان کی ملاقات اپنے بیٹے سے ہوئی بیٹے کو دیکھ کر باپ کی محبت تڑپی تو ابراھیم بن ادھم کی کانوں میں آواز آئی۔ دعوا میرے عشق کا اور دل میں رکھتا ہے اپنے بیٹے کی محبت کو دل میں یا مجھے رکھ یا اپنے بیٹے کو"
آپ نے عاجزی سے فرمایا میرے مولا مجھے تیرے علاوه کسی کی محبت عزیز نہیں میں تیرے لیۓ اپنے بیٹے کی محبت قربان کرنے کو تیار ہو ۔ فیصلہ ہو گیا ابراھیم بن ادھم کو بیٹا وہیں گرا اور فوت ہو گیا
یہ ہوتا ہے عشق اور یہ ہوتی ہے قربانی عشق حقیقی اتنا سہل نہیں اس کے لیے اپنا آپ ختم کرنا پڑتا ہےنفس کی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں عشق حقیقی ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہ صرف خاص لوگوں کو ہی میسر آتا ہے عین الفقر میں حضرت سلطان باھو لکھتے ہیں کہ الله تعالی حضرت موسی سے فرماتے ہیں کہ جس کو میں اپنا عشق عطا کرنا چاھو اسے اپنی پہچان کرواتا ہوں جب وه میری پہچان کر لیتا ہے تو وه مجھے دیکھ لیتا ہے اور جب وه مجھے دیکھ لیتا ہے تو میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب وه میرا عاشق بن جاتا ہے تو مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اور اے موسی جب وه مجھ سے عشق کرنے لگ جاتا ہے تو میں اسے قتل کر دیتا ہے اور اس کے قتل کا قصاص میں خود ہوں۔ بقول اقبال
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
عشق حقیقی کے طالب کو اگر آگ میں بھی ڈال دے تو اسے آگ محسوس نہیں ہوتی جل کر راکھ بھی ہو جاۓ تو عشق کی تپش ختم نہیں ہوتی۔ اس کے جسم کا ایک ایک ذره بھی علیحده کر دیا جاۓ تو اسے تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ یہ بڑی معرفت کی بات ہے ذرا اس باب پر غور کیجۓ گا کہ ھم نے اکثر کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ جب کو شہید ہوتا ہے تو اسے تکلیف نہیں ہوتی کہ باوقت شہادت اسے الله کا دیدار ہوتا ہے اور وه قیامت کے دن بھی بار بار شہادت کی خواہش کرے گا اب آئیں عشق حقیقی کے طالب کی طرف تو حضرت سلطان باھو عین الفقر میں لکھتے ہیں کہ "الله عشق حقیقی )اسم الله ذات کے طالب( کو دن میں ستر ہزار مرتبہ اپنا دیدار کرواتا ہے"
طالب مولا کو تکلیف اس لیۓ نہیں ہوتی کہ وه ہر وقت خدا تعالی کے دیدار میں غرق رہتا ہے اس کے بدن کی بوٹی بوٹی بھی علیحده کر دی جاۓ تو اسے تکلیف نہ ہو۔ اس کی مثالیں ہمیں صحابہ کرام کی حیات مبارکہ سے باکثرت ملتیں ہیں کہ حضرت عمر نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کا غلام آپ پر حملہ کرکے آپ کو لہولہان کر دیتا ہے مگر آپ بدستور نماز میں غرق رہتے ہیں جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں سے پوچھتے ہیں جو کیا ہوا۔آپ کی طرف خوف بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو لوگوں کے بتانے پر آپ کو علم ہوتا ہے کہ آپ پر حملہ ہوا ہے۔
یہ ہوتا ہے عشق ۔ اب لوگوں نے یہ قرینہ بنا لیا ہے کہ عشق کے مجازی کے نام پر لڑکیوں کی عصبتوں سے اپنے ہوس کی آگ بجھا کر اسے عشق حقیقی تک پہنچے کی باتیں کرتے ہیں۔ جو سراسر غلط ہے اور جہالت کی انتہا ہے۔ عشق حقیقی اور مجازی بالکل دو متضاد چیزیں ہیں جیسے نور اور ظلمت ایک دوسرے کے متضاد ہیں یا ظلمت ره سکتی ہے یا نور یا عشقی حقیقی ره سکتا ہے یا عشق مجازی۔ عشق کے حقیقی کے طالب فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں ذره برابر بھی دنیا کی کسی چیز کی محبت ہوئی وه عشق حقیقی تک کبھی نہیں پہنچ سکتا اپنے دل میں دنیا رکھ یا پھر مالک حقیقی۔
عشق کی حقیقی باتیں کرتے رہیں تو ختم نہ ہوں مگر یہاں صرف عشق حقیقی اور عشق مجازی کا مفہوم سمجھانا مقصود تھا جس کو کچھ زر پرستوں نے زر کے لالچ میں ایک غلط اور جاہلانہ مفہوم دے کرعوام کو گمراه کرنے کی کوشش کی ہے یہ اک یہودی پروپگینڈه ہے کیونکہ عشق ہر میدان میں فتح یاب ہوتا آیا ہے بیشک عشق کو شکست دنیا ناممکن ہے
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
 عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
بقول مولانا روم،
” عقل جُزئی قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا ہے اور عشق ایک جست میں زمان و مکان والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے۔

مرد خدا کا عمل ، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل ِ حیات ، موت ہے اس پر حرام
عشق دمِ جبرئیل ، عشق دل ِ مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی تقویم میں، عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
 نئی نسل کوعشق کے نام سے گمراه کرکے عشق حقیقی کی بجاۓ ظلمت کی راه دیکھائی جا سکتی ہے جب عشق مالک حقیقی کو چھوڑ کر عوام الناس سے ہو گا تو وه گمراه ہو گا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔