جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیر بے نیام قسط نمبر 06

0 comments
شمشیر بے نیام۔خالد بن ولید رضی اللہ عنہ-الله کی  تلوار-پارٹ 6
خالدؓ اس وقت یمامہ میں تھے۔ان کیدونوں نئی بیویاں لیلیٰ ام تمیم اوربنتِ مجاعہ ان کے ساتھ تھیں۔امیر المومنینؓ کا پیغام ملتے ہی خالدؓ یمامہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے ۔’’کیا مثنیٰ بن حارثہ کا نام تم نے کبھی سنا ہے؟‘‘خلیفہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’سنا ہے۔‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’اور یہ بھی سنا ہے کہ فارسیوں کے خلاف اس نے ذاتی قسم کی جنگ شروع کر رکھی ہے ،لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کی ذاتی جنگ ذاتی مفاد کیلئے ہے یا وہ اسلام کی خاطر لڑ رہا ہے۔‘‘’’وہ یہاں آیا تھا۔‘‘امیر المومنین نے کہا۔’’جہاد جو اس نے شروع کر رکھا ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔میں نے اس لئے تمہیں بلایا ہے کہ تم سے مشورہ کر لوں کہ مثنیٰ ہم سے جو مدد مانگتا ہے وہ اسے دی جائے یا اس وقت کا انتظار کیا جائے جب ہم فارسیوں کی اتنی بڑی قوت کے خلاف لڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔ تفصیل سے  پڑھئے
وہ کس قسم کی جنگ لڑ رہا ہے؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو پوری تفصیل سے بتایا کہ مثنیٰ شب خون کی نوعیت کی جنگ لڑ رہاہے اور اس وقت تک وہ کتنی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔’’اس کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے خالد!‘‘خلیفہ ؓ نے کہا۔’’کہ اس نے زرتشتوں کے محکوم مسلمانوں کو متحد رکھا ہوا ہے اور ان میں ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ انہوں نے زرتشتوں کے ظلم و ستم میں اپنے سینوں میں اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ابلہ اور عراق کے دوسرے علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں،وہ فارسیوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ان حالات میں اپنے عقیدوں کو سینے سے لگائے رکھنا بے معنی سا بن جاتا ہے ،وہ مسلمان صرف اتنا کہہ دیں کہ مدینہ اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو ان کے سارے مصائب ختم ہو جائیں گے۔یہ مثنیٰ اور اس کے چند ایک ساتھیوں کا کمال ہے کہ انہوں نے ان حالات میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو اسلام سے منحرف ہونے نہیں دیا۔اس کے علاوہ انہیں اپنے عقیدے کا اتنا پکا بنارکھا ہے کہ وہ زرتشتوں کے خلاف زمین دوز کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مثنیٰ نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا،مسلمان کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو مسلمان غیر مسلموں کے جوروستم کا نشانہ بنے ہوئے ہوں ان کی مدد کو پہنچیں۔‘‘’’کیا تم یہ مشورہ دیتے ہو کہ ہمیں ایرانیوں سے ٹکر لے لینی چاہیے؟‘‘خلیفہؓ نے پوچھا۔’’ہاں امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ٹکر کیوں نہ لی جائے؟……یہاں تو صورتِ حال کچھ اور ہے۔جیسا کہ آپ نے بتایا ہے کہ مثنیٰ نے وہاں کچھ کامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور اس نے ہمارے حملے کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔
شب خون اور چھاپے مارنے والے اتنا ہی کر سکتے ہیں جتنا مثنیٰ نے کیا ہے۔وہ کسی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتے۔قبضہ کرنا منظم لشکر کا کام ہے۔یہ کام ہمیں ہر قیمت پرکر نا چاہیے۔اگر ہم نے مثنیٰ کی کامیابیوں کو آگے نہ بڑھایا تو اس کے دو نقصان ہوں گے۔ایک یہ کہ یہ کامیابیں ضائع ہو جائیں گی،اور دوسرے یہ کہ زرتشت مثنیٰ اور تمام مسلمانوں سے بہت برا انتقام لیں گے۔اس کے علاوہ فارسی دلیر ہو جائیں گے۔‘‘’’جیسا کہ مثنیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے ایرانیوں کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ ان کے حوصلے مجروح ہو گئے ہیں ،اگر انہیں دم لینے کا موقع دے دیا گیا تو وہ اپنے محکوم مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اس خطرے کو ختم کرکے وہ اس سرحدی علاقے کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر لیں گے۔اپنے علاقوں کو محفوظ کرنے کیلئے وہ اپنی سرحد کے باہر کے علاقوں پر بھی قابض ہو سکتے ہیں،اس خطرے سے محفوظ رہنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہم مثنیٰ کی مدد کو پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ زرتشت ہماری طرف بڑھیں ہم انہیں ان کے اپنے علاقے سے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں۔‘‘
خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کو یہ ہدایت دے کر رخصت کر دیا کہ وہ اپنے لشکر کو ساتھ لے کر عراق کی طرف پیش قدمی کریں۔’’خالد! ‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تمہارے لشکر میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بڑے لمبے عرصے سے گھروں سے دور لڑ رہے ہیں۔انہیں فارسیوں جیسے طاقتور دشمن کے خلاف لڑانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔بہتر صورت یہ ہو گی کہ تم رضا کاروں کی ایک فوج بناؤ ۔اس میں ایسے آدمیوں کو رکھو جو مرتدین کے خلاف لڑ چکے ہیں تمہارے ساتھ کچھ ایسے آدمی بھی ہوں گے جو مرتدین کے ساتھ تھے ۔شکست کھا کر انہوں نے اپنی خیریت اسی میں سمجھی کہ وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو جائیں،ایسے کسی آدمی کو اپنے لشکر میں نہ رکھنا۔ہم بڑے طاقتور دشمن کو للکارنے جا رہے ہیں۔میں اس لئے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’کیا آپ مجھے یہ اجازت دے رہے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے لشکر سے نکال دوں؟‘‘’’نکال دینا اور بات ہے ولید کے بیٹے!‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم اپنے لشکر سے یہ کہنا کہ جو آدمی اپنے گھر کو جانا چاہتا ہے اسے جانے کی اجازت ہے۔پھر دیکھنا تمہارے ساتھ کون رہتا ہے ،اگر تمہارا لشکر بہت کم رہ گیا تو خلافت اس کی کمی کو کسی نہ کسی طرح پورا کرے گی……جاؤ ولید کے بیٹے! اﷲ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ عزم اور ایمان کے پکے تھے،انہوں نے عراق پر حملے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر وہ ہر حال میں ہر قیمت پر پورا عمل کرنا چاہتے تھے۔خالدؓ تو چاہتے ہی یہی تھے کہ انہیں لڑنے کا موقع ملتا رہے۔انہوں نے خلیفہ کے ارادے کو اور زیادہ پختہ کردیا۔عراق کے اس علاقے میں جہاں دجلہ اور فرات ملتے ہیں ،مسلمانوں کی بستیاں تھیں۔یہ مسلمان مجبوری اور مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔اب وہاں کی صورت حال یہ ہو گئی کہ وہ پہلے کی طرح مظلوم اور مقہور رہے جیسے وہ چلتی پھرتی لاشیں ہوں۔لیکن ان کے گھروں میں ایسی سرگرمی شروع ہو گئی کہ وہ چھپ چھپ کر برچھیاں اور کمان بنانے لگے،انہیں مثنیٰ بن حارثہ کی طرف سے جو پیغام ملتا تھا وہ سرگوشیوں میں گھر گھر پہنچ جاتاتھا۔مثنیٰ کے چھاپہ ماروں نے عراق کی سرحد سے دور ایک دشوار گزار علاقے میں اپنا اڈہ بنا رکھا تھا۔برچھیاں اور تیر و کمان جو گھروں میں چوری چھپے تیار ہوتے تھے ،وہ رات کی تاریکی میں اس اڈے تک پہنچ جاتے تھے۔بستیوں سے جوان آدمی بھی غائب ہونے لگے ۔ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر اور ان کے فوجی قافلوں پر مسلمانوں کے شب خون پہلے سے زیادہ ہو گئے۔یہ مسلمان در پردہ ایک فوج کی صورت میں منظم ہو رہے تھے اور اس فوج کی نفری بڑھتی جا رہی تھی۔
یمامہ میں خالدؓ کی فوج میں صورت ِ حال اس کے الٹ ہو گئی۔خالدؓنے جب اپنی فوج میں جاکر یہ اعلان کیا کہ جو کوئی اپنے گھر کو واپس جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے،تو اس کے دس ہزار نفری کے لشکر میں صرف دو ہزار آدمی رہ گئے۔آٹھ ہزار آدمی مدینہ کو روانہ ہو گئے ۔خالدؓ نے خلیفہ ؓکے نام پیغام لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کے پاس صرف دو ہزار کی نفری رہ گئی ہے ۔خالدؓ نے زور دے کر لکھا کہ انہیں فوری طور پر کمک کی ضرورت ہے۔امیر المومنین ابو بکرؓ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے،خالد ؓکے قاصد نے انہیں خالدؓ کا تحریری پیغام دیا۔خلیفہ ؓنے یہ خط بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا۔اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مجلس میں ان کے جو مشیر اور دیگر افراد بیٹھے ہیں وہ سن لیں تاکہ کوئی مشورہ دے سکیں۔’’امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے کہا۔’’خالد کیلئے کمک بہت جلدی چلی جانی چاہیے۔دو ہزار نفری سے زرتشتوں کے خلاف لڑائی کی سوچی بھی نہیں جا سکتی۔‘‘’’قعقاع بن عمرو کو بلاؤ۔‘‘امیر المومنین ؓنے حکم دیا۔تھوڑی دیر بعد گٹھے ہوئے جسم کا ایک قد آور نوجوان خلیفہ ؓکے سامنے آن کھڑا ہوا۔’’قعقاع!‘‘امیر المومنینؓ نے اس نوجوان سے کہا۔’’خالد کو کمک کی ضرورت ہے ۔تیاری کرو اور فوراً یمامہ پہنچو اور اس سے کہو کہ میں ہوں تمہاری کمک۔‘‘ ’’یا امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے حیران ہو کر کہا۔’’خدا کی قسم !آپ مذاق نہیں کر رہے لیکن اس سالار کو جس کی آٹھ ہزار فوج اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہو،صرف ایک آدمی کی کمک دینا مذاق لگتا ہے۔‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھے۔انہوں نے قعقاعؓ بن عمرو کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور سکون کی آہ لے کربولے۔’’مجاہدی­ن کے جس لشکر میں قعقاع جیساجوان ہوگاوہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔قعقاعؓ اسی وقت گھوڑے پر سوارہوا اورمدینہ سے نکل گیا۔مشہورمورخ طبری، ابنِ اسحٰق ،واقدی اور سیف بن عمر نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایک ایسا واقعہ ہو چکا تھا۔ایک سالار عیاض بن غنم نے محاذ سے مدینہ میں قاصد بھیجا تھا کہ کمک کی ضرورت ہے۔ خلیفہ ابو بکرؓ نے صرف ایک آدمی عبد بن عہف الحمیری کو کمک کے طور پر بھیجا تھا۔اس وقت بھی اہلِ مجلس نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور امیرالمومنین ؓنے یہی جواب دیا تھا جو قعقاع ؓکو خالدؓ کے پاس بھیجنے پر دیا۔حقیقت یہ تھی کہ خلیفہ ابو بکرؓ خالدؓ کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن مدینہ میں کمک نہیں تھی۔صرف یہی ایک محاذ نہیں تھا ،اس وقت تمام کے تمام مشہور سالار مختلف محاذوں پر لڑ رہے تھے،اور یہ ساری جنگ ارتداد کے خلاف لڑی جا رہی تھی۔اسلام کے دشمن دیکھ چکے تھے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا بڑا مہنگا سودا ہے۔چنانچہ اسلام کو کمزور کرکے ختم کرنے کا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے اپنے طریقوں سے پیروکار بنا لیے،متعدد ایسے قبیلے جو اسلام قبول کر چکے تھے،اسلام سے منحرف ہو گئے اور اسلام سے انحراف کا یہ سلسلہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ارتداد کے فتنے کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔خلیفہ ابو بکرؓ کی خلافت اسی فتنے کے خلاف بر سر پیکار رہی۔اس فتنے کو وعظوں اور تبلیغی لیکچروں سے نہیں دبایا جا سکتا تھا۔اس کیلئے مسلح جہاد کی ضرورت تھی۔یہ جنگی پیمانے کی مہم تھی جسے سر کرنے کیلئے مدینہ فوج سے خالی ہو گیا تھا۔کمزور محاذوں کو کمک دینے کیلئے دوسرے محاذوں سے فوج بھیجی جاتی تھی۔امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو صرف ایک آدمی دینے پر اکتفا نہ کیا،انہوں نے دو طاقتور قبیلوں مفر اور ربیعہ ۔کے سرداروں کو پیغام بھیجے کہ خالدؓ کو زیادہ سے زیادہ آدمی دیں۔
صرف ایک آدمی؟قعقاع ؓبن عمرو جب خالدؓ کے پاس پہنچا تو خالدؓ نے اپنے خیمے میں غصے سے ٹہلتے ہوئے کہا۔’’صرف ایک آدمی؟کیا میں نے امیر المومنین کو بتایا نہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار لڑنے والے رہ گئے ہیں؟اور خلافت مجھ سے توقع رکھتی ہے کہ میں فارس کی اس فوج سے ٹکر لوں جو زرہ میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘’’میرے سالار!‘‘قعقاعؓ نے کہا۔’’میں آٹھ ہزار کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔خدا کی قسم !کوئی کمی رہنے بھی نہیں دوں گا۔وقت آنے دیں۔جس رسولﷺ کا کلمہ پڑھتا ہوں اس کی روح مقدس کے آگے تمہیں شرمسار نہیں ہونے دوں گا۔‘‘’’میں یمامہ میں بیٹھا نہیں رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایسے کہا جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہوں۔’’مثنیٰ میرا انتظار کر رہا ہو گا۔میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گا،لیکن……‘‘خالد­خاموش ہو گئے۔انہوں نے اوپر دیکھا اور سرگرشی میں کہا ۔’’خدائے عزوجل!میں نے تیرے نام کی قسم کھائی ہے۔اپنے نام کی خاطر میری مدد کر۔مجھے ہمت اور استقلال عطا فرما کہ میں اس آگ میں کود کر اسے ٹھنڈا کر دوں جس کی زرتشت عبادت کرتے ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں اور محمدﷺتیرے رسول ہیں۔‘‘’’کیا تو ہمت ہار رہا ہے ولید کے بیٹے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو نے نہیں کہاتھا کہ اﷲ کی راہ میں لڑنے والوں کی اﷲ مدد کرتا ہے؟‘‘’’میں ہمت نہیں ہاروں گا۔‘‘خالد نے کہا۔’’میں شکست کا عادی نہیں…… اﷲ مددکرے گا۔خدا کی قسم!میں جاہ و جلال کا طلبگار نہیں ۔مجھے فارس کے بادشاہ کا تخت نہیں چاہیے ۔مجھے وہ زمین چاہیے جو اﷲ کی ہے،اور اس پر بسنے والے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیوا ہوں گے۔‘‘وہ دو ہزار مجاہدین جو خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے ،یمامہ کے ایک میدان میں خالدؓ کے ساتھ کھڑے تھے ۔خالد ؓگھوڑے پرسوار تھے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالدؓ اپنی اس قلیل فوج سے بڑی بلند آواز اسے مخاطب ہوئے۔’’اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کا نام دور دور تک پہنچانے کیلئے چنا ہے۔وہ جنہیں اپنے گھر اور اپنے مال و عیال عزیز تھے وہ چلے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے گلا نہیں،انہوں نے خاک و خون کے راستوں پر ہمارا ساتھ دیا تھا ۔بڑے لمبے عرصے تک وہ ہمارے ہم سفر رہے۔ اﷲ انہیں جہاد کا صلہ عطا فرمائے۔ تم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس کا اجر میں نہیں اﷲ دے گا ۔ہم بہت ہی طاقتور دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ مت دیکھو ہماری تعداد کتنی ہے۔
بدر کے میدان میں تم کتنے اور قریش کتنے تھے ۔احد میں بھی مسلمان تھوڑے تھے ۔میں اس وقت مسلمانوں کے دشمن قبیلے کا فرد تھا۔ تم میں بھی ایسے موجود ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے بدر کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ کیا ہم نے کہا نہیں تھا کہ ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہم گھوڑوں کے سموں تلے کچل ڈالیں گے؟کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم جو تعداد میں بہت زیادہ تھے ان کے ہاتھوں پسپا ہوئے تھے جو تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ کیوں ……؟ایسا کیوں ہوا تھا……؟اس لئے کہ مسلمان حق پرتھے،اور اﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج تم حق پرست ہو۔‘‘خالدؓ کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو انہوں نے کھول کر اپنے سامنے کیا۔ ’’امیر المومنین نے ہمارے نام ایک پیغام بھیجا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے میں خالد بن ولید کو فارسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے بھیج رہا ہوں۔ تم سب خالد کی قیادت میں اس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک تمہیں خلافت کی طرف سے حکم نہیں ملتا۔خالد کا ساتھ نہ چھوڑنا اور دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو بزدلی نہ دکھانا،تم ان میں سے ہو جنہوں نے اس اجازت کے باوجود کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں۔اﷲ کی تلوار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔تم نے اپنے لیے وہ راستہ منتخب کیا ہے جو اﷲ کی راہ کہلاتا ہے۔تصور میں لاؤاس ثوابِ عظیم کو جو اﷲ کی راہ پر چلنے والوں کو ملتا ہے۔اﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو۔تمہاری کمی وہی پوری کرے گا۔اسی کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار رہو۔‘‘ایک مورخ ازدی نے اس خط کا پورا متن اپنی تاریخ میں دیا ہے۔ معلوم نہیں ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے جن کی تحریریں مستند مانی جاتی ہیں اس خط کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ان دو ہزار مجاہدین کو کسی وعظ کی یا اشتعال انگیزی کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ تو رضاکارانہ طور پر خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ ان میں بیشتر ایسے تھے جنہوں نے رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیااور آپﷺ کی قیادت میں لڑائیاں لڑی تھیں۔حضورِ اکرمﷺ کے وصال کے بعد وہ یوں محسوس کرتے جیسے آپﷺکی روحِ مقدس ان کی قیادت کر رہی ہو۔
رسول اﷲﷺ کے ان شیدایوں نے خالدؓ کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہوکر یمامہ کے گردونواح میں نکل گئے اور بستی بستی جا کر لوگوں کو گھوڑ سواری کے مختلف کرتب دکھانے لگے۔مثلا دوڑتے گھوڑوں سے اترنا اور سوار ہونا ،سرپٹ دوڑتے گھوڑوں سے نشانے پر تیر چلانا، نیزہ بازی اور گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے تیغ زنی کے کمالات۔وہ جوانوں کو فوج میں بھرتی ہو جانے پر اکساتے اور انہیں بتاتے کہ جنگ میں جا کر انہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے ۔اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو ایرانی آکر انہیں اپنا غلام بنا لیں گے۔جو ان سے بیگار لے گی ،انہیں دیں گے بھی کچھ نہیں ،اور ان کی جوان بہنوں ،بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کریں گے۔اس خطے نے ایرانیوں کا دورِ حکومت دیکھا تھا ۔پھر انہوں نے جھوٹے پیغمبروں کی شعبدے بازیاں دیکھی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کی حکومت دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ان کے انداز ،طور طریقے او رہن سہن بادشاہوں جیسے یا حکمرانوں جیسے نہیں تھے۔ وہ عام لوگوں کی طرح رہتے ،عام لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ان کی عورتوں کی عزت محفوظ تھی۔
ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن مسیلمہ جیسے شعبدے باز نے انہیں گمراہ کیا اور اسلام کے راستے سے ہٹا لیا تھا۔انہوں نے مسیلمہ کی نبوت کو مسلمانوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے دیکھا اور مسیلمہ کی جنگی قوت کو مسلمانوں کی قلیل نفری کی بے جگری کے آگے ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا تھااور وہ محسوس کر رہے تھے کہ سچا عقیدہ اور نظریہ اسلام ہی ہے۔جو جھوٹ کی طاقتوں کو کچل دیتا ہے اور وہ غیبی طاقت جو سچے کو جھوٹے پر حق کو باطل پر فتح دیتی ہے وہ اسلام میں مضمر ہے ۔چنانچہ یہ لوگ خالدؓ کی فوج میں شامل ہونے لگے ۔یہ خالدؓ کے مجاہدین کی کوششوں کا حاصل تھا۔یمامہ میں شور اٹھا ۔کچھ لوگ دوڑتے ہوئے بستی سے باہر چلے گئے۔عورتیں چھتوں پر جا چڑھیں،افق سے گرد کی گھٹائیں اٹھ رہی تھیں اوریمامہ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔’’آندھی آ رہی ہے۔‘‘’’لشکر ہے ……کسی کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘’’ہوشیار……خبردار……تیار ہوجاؤ۔‘‘خالدؓ ایک قلعہ نما مکان پر جا چڑھے۔یہ آندھی نہیں۔کسی کی فوج تھی۔مرتدین کے سوا اور کس کی فوج ہو سکتی تھی؟خالدؓ کو افسوس ہونے لگا کہ کس برے وقت انہوں نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں چلے جائیں۔گرد کے جو بادل اٹھتے نظر آ رہے تھے یہ بہت بڑے لشکر کی گرد تھی۔خالدؓ کے پاس صرف دو ہزار نفری تھی یا وہ نفری تھی جو ابھی ابھی فوج میں شامل ہوئی تھی۔اس پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔لیکن اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔یمامہ کی آبادی تھی۔اس میں لڑنے والے آدمی موجود تھے۔لیکن یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ یہ لوگ دشمن سے مل جائیں گے،اور یہ خطرہ بھی کہ یہ پیٹھ پر وار کریں گے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالد ؓنے قلعہ نما مکان کی چھت سے للکار کر کہا۔’’بہت بڑے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔اﷲ کے سوا تمہارا مددگار کوئی نہیں۔‘‘خالد چپ ہو گئے کیونکہ انہیں دفوں اور ڈھولوں کی دھمک سنائی دینے لگی تھی۔حملہ آور دف بجاتے نہیں آیا کرتے۔دھمک بلند ہوتی جا رہی تھی۔خالدؓ نے اُدھر دیکھا۔گرد بہت قریب آ گئی تھی،اور اس میں چھپے ہوئے اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے تھے۔گرد کے دبیز پردے میں آنے والا لشکر نعرے لگانے لگا۔’’اسلام کے پاسبانو!‘‘خالد ؓنے اوپر سے چلا کر کہا۔’’اﷲ کی مدد آ رہی ہے۔آگے بڑھو، استقبال کرو، دیکھو! یہ کون ہیں؟‘‘خالدؓ دوڑتے نیچے اترے ۔اپنے گھوڑے پر کود کر سوار ہوئے اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بستی سے نکل گئے۔آنے والا لشکر بستی سے کچھ دور رک گیااور دو گھوڑ سوار آگے بڑھے ۔خالدؓ ان تک پہنچے اور گھوڑے سے اترے۔وہ دونوں سوار بھی اتر آئے۔وہ مضر اور ربیعہ قبائل کے سردار تھے۔
’’مدینہ سے اطلاع آئی تھی کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’میں چار ہزار آدمی ساتھ لایا ہوں۔ان میں شتر سوار بھی ہیں،گھوڑ سوار بھی ہیں اور پیادے بھی۔‘‘’’اور چار ہزار کی تعداد میرے قبیلے کی ہے۔‘‘دوسرے سردارنے کہا۔خالدؓ نے فرطِ مسرت سے دونوں کو اپنے بازوؤں میں لے لیااور خوشی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولے۔’’اﷲ کی قسم!اﷲ نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔‘‘خالدؓ کے پاس اب دس ہزار نفری کا لشکر جمع ہو گیا تھا۔انہوں نے مضر اور ربیعہ کے سرداروں کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ انہیں کہاں جانا ہے اور دشمن کتنا طاقتور ہے۔’’ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں ولید کے بیٹے!‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ہماری منزل وہی ہے جوتمہاری ہے۔‘‘’’مدینہ سے ہمیں اطلاع ملی ہے کہ امیرِلشکر تم ہو۔‘‘دوسرے سردار نے کہا۔’’جہاں کہو گے چلیں گے۔دشمن جیسا بھی ہو گا لڑیں گے۔‘‘خالدؓ نے ایرانی سلطنت کے ایک حاکم ہرمزکے نام پیغام لکھوایا۔اس وقت عراق ایران کی شہنشاہی کا ایک صوبہ تھا۔اس کا حاکم یا امیر ہرمز تھا۔جس کی حیثیت آج کل کے گورنر جیسی تھی۔اس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے۔وہ بڑا ہی بد طینت ،جھوٹا اور فریب کار تھا۔ کمینگی میں اس کا نام ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔خالدؓ نے اس کے نام خط میں لکھوایا:’’تم اسلام قبول کرلو گے تو تمہارے لیے امن ہو گا۔اگر نہیں تواپنا علاقہ سلطنت ِ اسلامیہ میں شامل کر دو۔اس کے حاکم تم ہی رہو گے اور مدینہ کی خلافت کو جزیہ ادا کرتے رہو گے۔اس کے عوض تمہاری اورتمہارے لوگوں کی سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔اگر یہ بھی منظور نہیں تو اپنی سلامتی کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔ اﷲ ہی جانتا ہے کہ تمہارا انجام کیا ہوگا۔فتح و شکست اﷲ کے اختیار میں ہے لیکن میں تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہم وہ قوم ہیں جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنی کہ تمہیں زندگی عزیز ہے۔میں نے اﷲ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘خالدؓ نے یہ خط ایک ایلچی کو دے کر کہا کہ وہ دو محافظ اپنے ساتھ لے جائے اور جس قدر تیز جا سکتا ہے ،یہ پیغام ہرمز تک پہنچائے اور جواب لائے۔’’تمہاری واپسی تک میں یمامہ میں نہیں ہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہا۔’’مجھے عراق کی سرحد پر کہیں ڈھونڈ لینا۔اُبلہ کو یاد رکھنا۔وہاں سے تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں کہاں ہوں۔‘‘ایلچی کی روانگی کے فوراً بعدخالد ؓنے دس ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔خالدؓ کو پتا نہیں تھا کہ اﷲ کی ابھی اور مدد اس کی منتظر ہے۔امیرالمومنینابو بکرؓ نے شمال مشرقی عرب کے علاقوں میں آباد تین قبیلوں کے سرداروں مذعور بن عدی،ہرملہ اور سُلمہ، کو پیغام بھیجے تھے کہ اپنے اپنے قبیلے کے زیادہ سے زیادہ ایسے آدمی مثنیٰ بن حارثہ کے پاس لے جائیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہو اور جو پیٹھ دکھانے والے نہ ہوں۔انہیں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ خالد ؓاپنی فوج لے کر آ رہا ہے اور وہ ان کا اور اپنے لشکر کا سالارِ اعلیٰ ہوگا۔
ابلہ اور دیگر ایسے علاقوں میں جہاں عربی مسلمان ایرانیوں کے محکوم تھے،صورتِ حال کچھ اور ہی ہو چکی تھی۔پہلے مثنیٰ بن حارثہ نے ان بستیوں کے چند ایک جوشیلے جوانوں کو ایرانیوں کی فوجی چوکیوں اور فوجی قافلوں پر شبخون مارنے کیلئے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔لیکن اب اس محکوم آبادی میں سے ایک فوج تیار کرنی تھی۔کچھ فوج تو ا س نے اپنے قبیلے بکر بن وائل سے تیار کر لی تھی،جو مدینہ کے ایک سالار علاء بن حضرمی کے دوش بدوش عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑی بھی تھی۔مثنیٰ نے ایرانیوں کے محکوم مسلمانوں کو اطلاع بھیج دی تھی کہ جس قدر جوان آدمی وہاں سے نکل کر باہر آسکیں ،آ جائیں۔
مسلمانوں کا وہاں سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔کیونکہ زرتشتوں کی فوج مسلمانوں کی بستیوں پر کڑی نظر رکھتی تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ان پر شبخون مارنے والے یہی مسلمان ہیں۔اب ایران کی فوج کو نئے احکام ملے تھے۔یہ احکام جاری کرنے والا عراقی صوبے کا حاکم ہرمز تھا۔چند ہی دن پہلے کا واقعہ تھا کہ خالد ؓکا ایلچی ہرمز کے دربار میں پہنچا۔یہ شہنشاہوں کا دربار تھا۔ہرمز کو جب اطلاع دی گئی تھی کہ مدینہ کے سالار خالدؓ کا ایلچی آیا ہے تو ہرمزنے چہرے پر نفرت اور رعونت کے آثارپیدا کر لئے تھے۔’’میں کسی مسلمان کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘اس نے کہا تھا۔’’لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں آیا ہے؟‘‘
’’زرتشت کی قسم!‘‘ایک درباری نے اٹھ کر ہرمز سے کہا۔’’خالد کا ایلچی کوئی پیغام لایا ہوگا۔ جو اس کی اپنی موت کا پیغام ثابت ہو گا۔‘‘’’لے آؤ اسے اندر!‘‘ہرمز نے کہا۔خالد ؓکا ایلچی دو محافظوں کے ساتھ بڑے تیز قدم اٹھاتا ہرمز کے دربار میں داخل ہوااور سیدھا ہرمز کی طرف گیا۔دو برچھی برداروں نے سامنے آ کر اسے روکا لیکن وہ دونوں کے درمیان سے گزر کر ہر مز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔’’السلام و علیکم!‘‘ایلچی نے کہا۔’’ہرمز آتش پرست کو خالد بن ولید سالارِ مدینہ کا سلام پہنچے جن کا ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘’’ہم اس سالار کاسلام قبول نہیں کریں گے جس کے ایلچی میں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ہمارے جاہ وجلال کو پہچان سکے۔‘‘ہرمز نے حقارت سے کہا۔’’کیا مدینہ میں جنگلی اور گنوار آباد ہیں ؟کیا تمہیں نہیں بتایا گیا کہ تم ایک شاہی دربار میں جا رہے ہو،تمہیں دربار کے آداب نہیں سکھائے گئے؟‘‘
’’مسلمان صرف اﷲ کے دربار کے آداب سے آگاہ ہوتا ہے۔‘‘ایلچی نے جرات سے سر کچھ اور اونچا کر کے کہا۔’’اس انسان کواسلام کوئی حیثیت نہیں دیتا جو اﷲ کے بندوں پر اپنے دربار کا رعب گانٹھتا ہے۔میں تمہارا درباری نہیں،اس سالار کا ایلچی ہوں جسے اﷲ کے رسولﷺ نے اﷲ کی تلوار کہا ہے۔‘‘’’ہرمز کے سامنے وہ تلوار کند ہو جائے گی۔‘‘ہرمز نے فرعونوں کے سے لہجے میں کہا اور ہاتھ بڑھا کرتحکمانہ لہجے میں بولا۔’’لاؤ تمہارے اﷲ کی تلوار نے کیا پیغام بھیجا ہے؟‘‘ایلچی نے پیغام اس کے ہاتھ میں دے دیا ،جو وہ اس طرح پڑھنے لگا جیسے ازراہِ مذاق اس نے ایک کاغذ ہاتھ میں لے لیا ہو۔پیغام پڑھ کر اس نے اسے مٹھی میں اس طرح چُڑ مُڑ کردیا جیسے یہ ایک ردّی کا ٹکڑا ہو،جسے وہ پھینک دے گا۔’’کیا کیڑے مکوڑے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک چٹان سے ٹکر لے سکیں گے؟‘‘ہرمزنے کہا۔’’کیا مدینہ والوں کو کسی نے نہیں بتایا کہ ہرقل بھی اس چٹان سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ چکا ہے؟کیا ہم تمہیں اپنی فوج کی ایک جھلک دِکھائیں تاکہ تم اپنے سالار کو اور اپنے بوڑھے خلیفہ کو بتا سکو کہ عراق کی سرحد کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کریں؟‘‘’’مجھے سالارِ اعلیٰ نے صرف یہ حکم دیا تھا کہ یہ پیغام ہرمز تک پہنچا کر اس کا جواب لاؤں۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’میں تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔‘‘
’’تم جیسے ایلچی کے ساتھ ہم یہ سلوک کرتے ہیں کہ اسے قید خانے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’اگر ہم رحم کریں تو اسے قید خانے کی اذیت سے بچانے کیلئے جلاد کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘‘’’میری جان میرے اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ایلچی نے پہلے سے زیادہ جرات سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہوتے تو تمہیں علم ہوتا کہ مہمان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔لیکن اﷲ کے منکر اور آگ کے پجاری سے اس سے بہتر سلوک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔مجھے جلاد کے حوالے کر دو لیکن یہ سوچ لو کہ مسلمان میرے اور میرے محافظوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ہرمز بدک کر سیدھا ہو بیٹھا۔غصے سے اس کی آنکھیں لال سرخ ہو گئیں۔ویسی ہی سرخی اس کے چہرے پر بھی آگئی۔جیسے کہ وہ خالدؓ کے اس ایلچی کو کچا چبا جائے گا۔’’نکال دو اسے ہمارے دربار سے۔‘‘ہرمز نے گرج کر کہا-
چار پانچ درباری جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں،تیزی سے آگے بڑھے، ایلچی کے دونوں محافظوں نے تلواریں نکال لیں، پہلے وہدونوں ایلچی کے پیچھے کھڑے تھے، اب وہ ایلچی کے پہلوؤں میں اس طرح کھڑے ہو گئے کہ ان کی پیٹھیں ایلچی کی طرف تھیں۔
’’ہرمز!‘‘ ایلچی نے بارعب آوازمیں کہا۔’’جنگجو میدانِ جنگ میں لڑا کرتے ہیں، اپنی طاقت کا گھمنڈ اپنے دربار میں نہ دِکھا،مجھے اپنے سالار کے پیغام کا جواب مل گیا ہے،۔تجھے ہماری کوئی شرط قبول نہیں……کیا یہی ہے تیرا جواب؟‘‘’’نکل جاؤ اس دربار سے۔‘‘ہر مز نے غصے سے کانپتی ہوئی بلند آواز سے کہا۔’’اپنے سالار سے کہنا کہ میری طاقت کو میدانِ جنگ میں آزمالے۔‘‘ہرمز کے برچھی بردار درباری اس کے اشارے پر رک گئے تھے۔ ایلچی کے محافظوں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں۔ایلچی پیچھے کومڑا اور تیز قدم دربار سے نکل گیا۔دونوں محافظ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ہرمز نے مٹھی کھولی، جس میں خالد کا پیغام چڑ مڑ کیا ہوا تھا۔ چونکہ یہ پیغام باریک کھال پر لکھا ہوا تھا اس لیے یہ مٹھی کھولتے ہی سیدھا ہو گیا۔ ہرمز نے یہ پیغام فارس کے شہنشاہ اُردشیر کی طرف اس اطلاع کے ساتھ بھیج دیا کہ وہ مسلمانوں سے مقابلے کیلئے فوری طور پر سرحد کی طرف کوچ کر رہا ہے اور وہ مسلمانوں کو سرحد سے دور ہی ختم کر دے گا۔’’ہرمز کا اقبال بلند ہو۔‘‘اس کے ایک درباری نے کہا۔’’جس دشمن کو آپ سرحد سے دور ہی ختم کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے ہی سرحد کے اندر موجود ہے۔‘‘ہرمز نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔’’یہ وہ عربی مسلمان ہیں۔‘‘اس درباری نے کہا۔’’جو دجلہ اور فرات کے اس علاقے میں آباد ہیں جہاں یہ دونوں دریا ملتے ہیں ۔یہ علاقہ ابلہ تک چلا جاتا ہے۔انہوں نے کبھی کی سلطنتِ ایران کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔مدینہ والوں نے ہم پر حملہ کیا تو یہ مسلمان ان سے مل جائیں گے۔‘‘’’میں ایک عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں۔‘‘ایک فوجی مشیر نے کہا۔’’کئی دنوں سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ مسلمان جو لڑنے کے قابل ہیں یعنی جوان ہیں ۔وہ اپنی بستیوں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔وہ یقینا مثنیٰ بن حارثہ تک پہنچ رہے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فوج کی صورت میں منظم ہو رہے ہیں۔‘‘’’کیا تم نے فرار کا یہ سلسلہ روکنے کیلئے کوئی کارروائی کی ہے؟‘‘ہرمز نے پوچھا۔’’فوجی دستے باقاعدہ نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘فوجی مشیر نے جواب دیا۔’’اس کے باوجود مسلمان غائب ہو رہے ہیں……?‘‘ہرمز نے غصے اور طنز سے کہا۔’’سرحدی چوکیوں کو ابھی حکم بھیجو کہ مسلمانوں کی بستیوں پر چھاپے مارتے رہیں۔ہر بستی کی تمام آبادی کو باہر نکال کر دیکھیں کہ کتنے آدمی غائب ہیں اور وہ کب سے غائب ہیں ؟جس گھر کا آدمی غائب ہو اس گھر کو آگ لگا دو۔کوئی مسلمان سرحد کی طرف جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ کر قتل کر دو یا دور سے اس پر تیر چلا دو۔‘‘اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بستی تھی جو سرحد کے بالکل قریب تھی۔ایرانی فوج کی تھوڑی سی نفری نے اس بستی میں جا کر اعلان کیا کہ بچے سے بوڑھے تک باہر نکل آئیں۔سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو باہر نکالنا شروع کر دیا۔عورتوں کو الگ اور مردوں کو الگ کھڑا کر دیا گیا۔سپاہیوں کا انداز بڑا ہی ظالمانہ تھا۔وہ گالیوں کی زبان میں بات کرتے اور ہر کسی کودھکے دے دے کر اِدھر سے اُدھر کرتے۔انہوں سے اعلان کیا کہ اُن آدمیوں کے نام بتائے جائیں اور ان کے گھر دِکھائے جائیں جو بستی میں نہیں ہیں۔تمام آبادی خاموش رہی۔’’جواب دو۔‘‘ایرانی کمانڈر نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔اسے کوئی جواب نہ ملا۔کمانڈر نے آگے بڑھ کر ایک بوڑھے آدمی کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا اور اس سے پوچھا کہ اس ہجوم میں کون کون نہیں ہے؟’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔
کمانڈر نے نیام سے تلوار نکال کر بوڑھے کے پیٹ میں گھونپ دی اور تلوار زور سے باہر کو کھینچی۔بوڑھا دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر گر پڑا۔کمانڈر پھر ایک بار لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔اچانک ایک طرف سے آٹھ دس گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ان کے سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔ایرانی فوجی دیکھنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ کون ہیں۔ان میں سے کئی ایک کے جسموں میں برچھیاں اتر چکی تھیں اور گھوڑے جس طرح آئے تھے اسی طرح سرپٹ دوڑتے بستی سے نکل گئے۔ایرانی فوجیوں کی تعداد چالیس پچاس تھی، ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ان میں سے آٹھ دس زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔گھوڑوں کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی تھی جو دور ہٹتی گئی اور اب پھر قریب آنے لگی تھی۔اب فوجیوں نے بھی برچھیاں اور تلواریں تان لیں اور اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے گھوڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔پیچھے سے بستی کی آبادی ان کے اوپر ٹوٹ پڑی۔ان سپاہیوں میں سے وہی زندہ رہے جو کسی طرف بھاگ نکلے تھے۔جب سوار بستی میں پہنچے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے کیونکہ ان کی راہ میں بستی کے لوگ حائل تھے ۔جو ایرانی فوجیوں کا کشت و خون کر رہے تھے۔اس سے پہلے مسلمانوں نے یوں کھلے بندوں ایرانی فوج پر حملے کرنے کی جرات کبھی نہیں کی تھی ۔ایک ایرانی سپاہی پر ہاتھ اٹھانے کی سزا یہ تھی کہ ہاتھ اٹھانے والے کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا تھا۔اب یہاں کے مسلمان اس لئے دلیر ہو گئے تھے کہ اُنہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ کی فوج آ گئی ہے۔جن سواروں نے ایرانیوں پر حملہ کیا تھا وہ کچھ اس بستی کے رہنے والے جوان تھے، کچھ دوسری بستیوں کے تھے۔یہ محض اتفاق تھا کہ وہ مثنیٰ بن حارثہ کی طرف جاتے ہوئے اس بستی کے قریب سے گزر رہے تھے۔انہوں نے اس بستی کی آبادی کو باہر کھڑے دیکھا اور ایرانی فوجیوں کو بھی دیکھا۔وہ چھپ کر آگے نکل سکتے تھے لیکن ایرانی کمانڈر نے بوڑھے کے پیٹ میں تلوار گھونپی تو سب نے آپس میں صلاح و مشورے کئے بغیر گھوڑوں کے رُخ اس طرف کر لئے ۔ایرانی فوجیوں نے تو انہیں جاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا۔یہ اﷲ کی مدد تھی جو اس مظلوم بستی کو بر وقت مل گئی۔یہ بستی تو خوش قسمت تھی کہ اسے مدد مل گئی اور ایرانیوں کی بھیانک سزا سے بچ گئی۔مسلمانوں کی دوسری بستیوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ہر بستی کے ہر گھر کی تلاشی ہر رہی تھی۔یہ دیکھا جا رہا تھا کہ کتنے آدمی غائب ہو چکے تھے ۔ہر بستی میں ایرانی کئی آدمیوں کو قتل کررہے تھے۔بعض مکانوں کو انہوں نے نذرِ آتش بھی کر دیا۔
تین چار روز یہ سلسلہ چلا۔اس کے بعد ایرانی فوج کو بستیوں کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔ہرمز اپنی فوج لے کر آگیا۔سرحدی فوج کو بھی اس نے اپنے ساتھ لے لیا اور سرحد سے نکل گیا۔اس کا ارادہ یہ تھاکہ۔۔۔
کہ خالدؓ کو وہ سرحد سے دور روک لے گا۔ہرمز کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔مارچ ۶۳۳ء کاتیسرا ہفتہ تھا جب خالدؓ نے یمامہ سے دس ہزار فوج لے کر کوچ کیا تھا ۔یہ محرم ۱۲ ھ کا مہینہ تھا۔ان کی پیش قدمی بھی بہت تیز تھی۔ہرمز اپنی فوج کے ساتھ اپنی سرحد سے بہت دور کاظمہ کے مقام پر پہنچ گیا اور فوج کو وہیں خیمہ زن کر دیا۔یہ مقام یمامہ اور اُبلہ کے راستے میں پڑتا تھا۔ہرمز کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی پیش قدمی کو دیکھنے والے موجود ہیں۔خالدؓ ابھی کاظمہ سے دور تھے کہ انہیں عراق کی سمت سے آتے ہوئے دو شتر سوار ملے۔انہوں نے خالدؓ کو بتایا کہ زرتشتوں کی فوج کاظمہ میں خیمہ زن ہے۔خالدؓ نے وہیں سے رستہ بدل دیا۔یہ شتر سوار مثنیٰ کے بھیجے ہوئے تھے۔انہوں نے خالد ؓکو یہ بھی بتایا کہ وہ حفیر کے مقام تک اس طرح پہنچ جائے کہ زرتشتوں کی فوج کے ساتھ اس کی ٹکر نہ ہو۔شتر سواروں نے خالد ؓکو ایک خوشخبری یہ سنائی کہ ان کیلئے آٹھ ہزار نفری کی فوج تیار ہے۔یہ فوج اس طرح تیار ہوئی تھی کہ مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ نے دو دو ہزار لڑنے والے جوان اکھٹے کر لئے تھے ۔اس طرح خالدؓ کی فوج کی تعداد اٹھارہ ہزار ہوگئی۔خالدؓ نے اپنی پیش قدمی کا راستہ اس طرح بدل دیا کہ کاظمہ کے دورسے گزر کر حفیر تک پہنچ سکیں ،لیکن ہرمز کے جاسوس بھی صحرا میں موجود تھے۔انہوں نے خالدؓ کے لشکر کو دور کے راستے سے جاتے دیکھ لیا۔آگے وہ راستہ تھا جو حفیر سے نبّاج کی طرف جاتا تھا۔ہرمز نے اپنی فوج کو خیمے اکھاڑنے اور بہت تھوڑے وقت میں حفیر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا۔حفیر کے اردگرد پانی کے کنوئیں موجود تھے۔ہرمز نے وہاں خالدؓ سے پہلے پہنچ کر خیمے گاڑدیئے۔اس طرح پانی ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔خالدؓ ابھی حفیر سے کچھ دور تھے کہ ایک بار پھردونوں شتر سوار ان کے راستے میں آگئے،اور خالدؓ کو اطلاع دی کے دشمن حفیر کے مقام پرپانی کے کنوئیں پر قابض ہو چکا ہے۔خالدؓ نے کچھ اور آگے جا کر ایسی جگہ پڑاؤ کا حکم دے دیا جہاں دور دور تک پانی کی ایک بوند نہیں مل سکتی تھی۔فوج نے وہاں پڑاؤ تو ڈال دیا لیکن خالد ؓکو بتایا گیا کہ فوج میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے کہ پڑاؤ ایسی جگہ کیا گیا ہے جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں۔’’میں نے کچھ سوچ کر یہاں پڑاؤ کیا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمام لشکر سے کہو کہ اگر دشمن پانی پر قابض ہے تو پریشان نہ ہوں۔ہماری پہلی لڑائی پانی کیلئے ہو گی۔پانی اسی کو ملے گا جو جان کی بازی لگا کر لڑے گا،تم نے دشمن کو پانی سے محروم کردیا تو سمجھو تم نے جنگ جیت لی۔‘‘سالارِ اعلیٰ کایہ پیغام سارے لشکر کو سنا دیا گیااور سب ایک خونریز جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔اب لشکر کی نفری اٹھارہ ہزار ہو گئی تھی۔مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ دودوہزار آدمی ساتھ لئے خالدؓ سے آملے تھے۔خالد ؓنے جو ایلچی ہرمز کے پاس بھیجا تھا ،وہ بھی اسی پڑاؤ میں خالدؓ کے پاس آیا اور بتایا کہ ہرمز نے اس کے ساتھ کیسا توہین آمیز سلوک کیا ہے۔’’اس کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نے اس کا دماغ خراب کر رکھاہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا،کہا۔’’خدا یہ نہیں دیکھتا کہ کسی انسان کے سر پر کیا رکھا ہے ۔خدا تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر کے اندر کیا ہے۔اس کے عزائم کیا اور اس کی نیت کیا ہے اور وہ سوچتا کیا ہے؟‘‘
’’ایک لاکھ درہم کی ٹوپی؟‘‘خالدؓ نے حیران ہو کرپوچھا۔’’کیا ہرمز اتنی قیمتی ٹوپی پہنتا ہے؟‘‘’’فارس کی شہنشاہی کا ایک دستور ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کے ہاں حسب و نسب اور حیثیت کو دیکھ کر اس کے مطابق ٹوپی پہنائی جاتی ہے جو ان کے شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔زیادہ قیمتی ٹوپی صرف وہ افراد پہنتے ہیں جو اعلیٰ حسب و نسب کے ہوں اور جنہوں نے رعایا میں بھی اور شاہی دربار میں بھی توقیر اوروجاہت حاصل کر رکھی ہو۔اس وقت ہرمز سب سے زیادہ قیمتی ٹوپی پہنتا ہے ۔کوئی اور ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نہیں پہن سکتا۔اس ٹوپی میں بیش قیمت ہیرے لگے ہوئے ہیں اور اس کی کلغی بھی بہت قیمتی ہے۔‘‘’’فرعونوں نے اپنے سروں پر خدائی ٹوپیاں سجا لی تھیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کہاں ہیں وہ ؟کہاں ہیں ان کی ٹوپیاں؟مجھے کسی کی بیش قیمت ٹوپی مرعوب نہیں کر سکتی، نہ کسی کی ٹوپی تلوار کے وار کو روک سکتی ہے۔مجھے یہ بتاؤکہ آتش پرستوں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے اور میدانِ جنگ میں کتنی تیزی سے نقل و حرکت کرتی ہے؟‘‘’’فارس کے سپاہی کی زِرہ اور ہتھیار دیکھ کر خوف سا آتا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے خالد ؓکو بتایا۔’’سرپر لوہے کی زنجیروں کی خود،بازوؤں پر کسی اور دھات کے خول اور ٹانگیں آگے کی طرف سے موٹے چمڑے یا دھات سے محفوظ کی ہوئیں ،ہتھیار اتنے کہ ہر سپاہی کے پاس ایک برچھی ایک تلوار ،ایک وزنی گُرز ،ایک کمان اورایک ترکش ہوتی ہے جس میں ہر سپاہی تیس تیر رکھتا ہے۔‘‘’’اورلڑنے میں کیسے ہیں؟‘‘’’جرات اور عقل سے لڑتے ہیں۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کی دلیری مشہور ہے۔‘‘
’’مثنیٰ!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’کیا تم نے محسوس نہیں کیاکہ آتش پرستوں کے سپاہی کتنے کمزور ہیں اور ان کی جرات کی حد کیا ہے؟……ان کی جرات کی حد آہنی خود اور بازوؤں اور ٹانگوں پر چڑھائے ہوئے خولوں تک ہے۔وہ نہیں جانتے کہ جذبہ لوہے کو کاٹ دیا کرتا ہے۔لوہے کی تلوار اور برچھی کی انّی جذبے کو نہیں کاٹ سکتی۔زِرہ اور دھات یاچمڑے کے خول حفاظت کے جھوٹے ذریعے ہیں۔ایک خول کٹ گیا تو سپاہی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔پھر اس میں اتنی سی جرات رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی اوربھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ اﷲ کے سپاہی کی زِرہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے ……میں تمہیں فارسیوں کی ایک اور کمزوری دِکھاؤں……؟ــ‘‘خالدؓ نے قاصد سے کہا۔’’سالاروں اور کمانداروں کو فوراً بلاؤ۔‘‘
’’فوریطور پر کاظمہ کی طرف کوچ کرو۔‘‘خالد ؓنے حکم دیا۔’’اور کوچ بہت تیز ہو۔‘‘ہرمز حفیرہ کے علاقے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔وہ کاظمہ سے اپنی فوج کو یہاں لایا تھا۔کیونکہ خالدؓ کا لشکر حفیرہ کی طرف آ گیا تھا۔اب یہ لشکر پھر کاظمہ کی طرف جا رہا تھا۔دونوں فوجوں کی چند ایک گھوڑ سوار ایک دوسرے کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے تھے ۔ہرمز کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر کاظمہ کی طرف کوچ کر گیا ہے توہرمز نے اپنی فوج کو کاظمہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ہرمز کو اُبلہ کی بہت فکر تھی۔یہ ایرانیوں کی بادشاہی کا بہت اہم شہر تھا۔یہ تجارتی مرکز تھا۔ہندوستان کو تاجروں کے قافلے یہیں سے جایا کرتے تھے،اور ہندوستان خصوصاًسندھ کا مال اسی مقام پر آیا کرتا تھا۔یہ ایران کا فوجی مرکز بھی تھا۔اس علاقے کے رہنے والے مسلمانوں کو دبائے رکھنے کیلئے اُبلہ میں فوج رکھی گئی تھی۔ہرمز کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کا لشکر اُبلہ تک نہ پہنچ سکے۔ہرمزکو ابلہ پہلے سے زیادہ خطرے میں نظر آنے لگا کیونکہ مسلمان اُبلہ کے جنوب میں کاظمہ کی طرف جا رہے تھے۔مسلمانوں کیلئے کوچ اتنا مشکل نہ تھا۔جتنا ایرانیوں کیلئے دشوار تھا۔مسلمانوں کے پاس اونٹ اور گھوڑے خاصے زیادہ تھے۔سپاہی ہلکے پھلکے تھے۔وہ آسانی سے تیز چل سکتے تھے،ان کے مقابلے میں ایرانی سپاہی زِرہ اور ہتھیاروں سے لدے ہوئے تھے اس لئے وہ تیز چل نہیں سکتے تھے۔ایک دو دن پہلے ہی وہ کاظمہ سے حفیرہ آئے تھے۔اس کوچ کی تھکن ابھی باقی تھی کہ انہیں ایک بار پھر کوچ کرنا پڑا اور وہ بھی بہت تیز تاکہ مسلمانوں سے پہلے کاظمہ کے علاقے میں پہنچ جائیں ۔اس کوچ نے راستے میں ہی انہیں تھکا دیا۔ہرمز کی فوج جب کاظمہ میں مسلمانوں کے بالمقابل پہنچی تونڈھال ہو چکی تھی۔مسلمان سپاہی صحرائی لڑائیوں اور صحرا میں نقل و حرکت کے عادی تھے۔خالد ؓنے ہرمز کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ وہ اپنے لشکر کوآرام نہیں کرنے دے گا۔لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔خود قلب میں رہے۔دائیں اور بائیں پہلوؤں کی کمان عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کے پاس تھی۔عاصم بن عمرو، قعقاع بن عمرو کے بھائی تھے اور عدی بن حاتم قبیلہ طے کے سردار تھے جو دراز قد مضبوط جسم والے بڑے بہادر جنگجو تھے۔خالدؓ کو اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرتے دیکھ کر ہرمز نے بھی اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔قلب میں وہ خود رہا اور دونوں پہلوؤں کی کمان شاہی خاندان کے د و افراد قباذ اور انوشجان کو دی۔ہرمز دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج پسینے میں نہا رہی ہے۔اور سپاہیوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔انہیں آرام کی ضرورت تھی لیکن مسلمان جنگی ترتیب میں آ چکے تھے۔ہرمز نے اپنی فوج کی ترتیب ایسی رکھی کہ کاظمہ شہر اس کی فوج کے پیچھے آ گیا۔ان کے سامنے ریگستانی میدان تھا اور ایک طرف بے آب و گیاہ ٹیلہ نما پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔
خالدؓ نے اپنی فوج کو اس طرح آگے بڑھایا کہ یہ پہاڑی سلسلہ اُن کی پشت کی طرف ہو گیا۔اپریل ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے کا ایک دن تھا جب مسلمان پہلی بار آتش پرست ایرانیوں کے مقابل آئے۔
’’اگر خالدؓ بن ولید مارا جائے تو یہ معرکہ بغیر لڑے ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ہر مز کے ایک سالار نے اسے کہا۔’’مسلمان جو اتنی دور سے آئے ہیں،اپنے سالار کی موت کے بعد ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘
’’فوج سے کہو زنجیریں باندھ لیں۔‘‘ہرمز نے سالار سے کہا۔’’میں ان کے سالار کا بندوبست کرتا ہوں۔سب سے پہلے یہی مرے گا۔‘‘اس نے سالار کو بھیج کر اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں کچھ بتایا۔
زنجیریں باندہ لینے کا مطلب یہ تھا کہ ایرانی فوج کے سپاہی اپنے آپ کو اس طرح زنجیروں سے باندھ لیتے تھے کہ پانچ سے دس سپاہی ایک لمبی زنجیر میں بندھ جاتے تھے۔ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے لڑ سکتے تھے۔زنجیریں باندھ کر لڑنے سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی سپاہی بھاگ نہیں سکتا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ کہ ان کے دشمن کے گھوڑ سوار جب ان پر ہلہ بولتے تھے تو سپاہی زنجیریں سیدھی کر دیتے۔زنجیریں گھوڑوں کی ٹانگوں کے آگے آ جاتیں اور گھوڑے گر پڑتے تھے۔لیکن زنجیروں کا بہت بڑا نقصان یہ تھا کہ ایک زنجیر میں سے بندھے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک دو زخمی یا ہلاک ہو جاتے تو باقی بے بس ہو جاتے اور دشمن کا آسان شکار بنتے تھے۔اس جنگ کو جو ہرمز اور خالدؓ کے درمیان لڑی گئی،جنگِ سلاسل یعنی زنجیروں کی جنگ کہتے ہیں۔مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایرانی اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رہے ہیں تو وہ حیران ہونے لگے۔کسی نے بلند آواز سے کہا۔’’وہ دیکھو!فارسی اپنے آپ کو ہمارے لیے باندھ رہے ہیں۔‘‘’’فتح ہماری ہے۔‘‘خالدؓ نے بلند ٓواز سے کہا۔’’اﷲ نے ان کے دماغوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘خالدؓ نے کچھ سوچ کر کاظمہ سے حفیر اور حفیر سے کاظمہ کو کوچ کیا تھا۔وہ فائدہ انہیں نظر آ گیا تھا۔ہرمزکی و ہ فوج جو زِرہ اور ہتھیاروں سے لدی ہوئی تھی ،لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی تھک گئی تھی۔خالدؓ نے ایرانیوں کو آرام کی مہلت ہی نہیں دی تھی۔اب ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا ۔خالدؓنے سوچ لیا کہ و ہ کیا چال چلیں گے،اور ایرانیوں کو کس طرح لڑائیں گے۔ہرمز نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان ایسی جگہ آ کر رک گیا جہاں زمیں کٹی پھٹی اورکہیں کہیں ٹیلے تھے۔اس کے محافظ اس سے کچھ دور آکر رک گئے۔’’کہاں ہے خالد!‘‘ہرمز نے للکار کر کہا۔’’آ!پہلے میرا اور تیرا مقابلہ ہو جائے۔‘‘یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے دونوں فوجوں کے سالار ذاتی مقابلوں کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔دونوں فوجوں کے آدمی انفرادی طور پر آگے جا کر تلواروں سے بھی لڑتے تھے اور کشتی بھی کرتے تھے ۔نتیجہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوتا تھا۔جنگِ سلاسل میں ہرمز نے خود آگے آ کر خالدؓ کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔ہرمز مانا ہوا جنگجو اور بہادر آدمی تھا۔تیغ زنی کی مہارت کے علاوہ اس کے جسم میں بہت طاقت تھی۔خالدؓ کی عمر اڑتالیس سال ہو چکی تھی۔وہ جنگی چالوں کے ماہر تھے ۔ان کے جسم میں اچھی خاصی طاقت تھی لیکن ہرمز زیادہ طاقتور تھا۔اس کی للکار پر خالدؓ نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ہرمز کے سامنے جا رکے۔ہرمز گھوڑے سے اترا اور خالدؓ کو گھوڑے سے اترنے کا اشارہ کیا۔دونوں نے تلواریں نکال لیں۔دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے۔پینترے بدلے ،گھوم گھوم کر ایک دوسرے پر آئے مگر تلواریں آپس میں ہی ٹکراتی رہیں۔پھر خالدؓ کے ہاتھوں اور پینتروں میں پھرتی آگئی۔دونوں فوجیں شوروغل بپا کر رہی تھیں۔ہرمزمحسوس کرنے لگاتھا کہ وہ خالدؓ کی تلوار سے بچ نہیں سکے گا۔وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تلوارپھینک دی۔
’’تلواریں فیصلہ نہیں کر سکیں گی۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’آخالد!ہتھیار کے بغیر آ،اور کشتی لڑ۔‘‘خالدؓ تلوار پھینک کر کشتی کیلئے آگے بڑھے اور دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔کشتی میں ہرمزکا پلّہ بھاری نظر آتا تھا لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ ہرمز کی چال کچھ اور تھی۔اس نے اپنے محافظوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھاکہ جب وہ خالد ؓکو اتنی مضبوطی سے پکڑ لے کہ خالدؓ ہلنے کے قابل نہ رہیں تو محافظ دونوں کو اس طرح گھیرے میں لے لیں کہ ان کی نیت اور ارادے پر شک نہ ہو۔یعنی وہ تماشائی بنے رہیں اور ان میں سے ایک محافظ خنجر نکال کرخالد کاپیٹ چاک کر دے۔جنگجو اس طرح دھوکا نہیں دیا کرتے تھے لیکن ہرمز کمینگی کی وجہ سے مشہور تھا۔ہرمزکے محافظ آگے بڑھ آئے اور اپنی فوج کی طرح نعرے لگاتے نرغے کی ترتیب میں ہوتے گئے ۔وہ گھوڑوں پر سوار نہیں تھے ۔وہ گھیرا تنگ کرتے گئے حتیٰ کے دونوں کے قریب چلے گئے ۔خالدؓ کی توجہ بٹ گئی۔ہرمز نے پھرتی سے خالد ؓکے دونوں بازو اس طرح جکڑ لیے کہ اس کے بازو خالد ؓکی بغلوں میں تھے ۔محافظ اور قریب آ گئے۔ہرمز نے اپنی زبان میں محافظوں سے کچھ کہا۔خالدؓ ا س کی زبان تو نہ سمجھ سکے ،اشارہ سمجھ گئے۔انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور جسم کی تمام تر طاقت صرف کرکے اتنی زور سے گھومے کے ہرمزکو بھی اپنے ساتھ گھمالیا۔پھر خالدؓ ایک جگہ کھڑے گھومتے رہے۔ہرمز کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے۔خالدؓ نے ہرمز کے بازواپنی بغلوں میں جکڑ لیے تھے اور اپنے ہاتھ ہرمز کی بغلوں میں لے جاکر اسے گھماتے رہے۔اس طرح محافظوں کا دائرہ کھلتا گیااور ان میں سے کسی کو بھی آگے بڑھ کر خالد ؓپر وارکرنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن خالدؓ کا یہ داؤ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔وہ تھک چکے تھے۔اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ نہ دیکھ سکے۔گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کا ٹتا گذر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے۔ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچل ڈالا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔گھوڑا آگے جا کر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے۔باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جاملا۔یہ سوار نوجوان قعقاعؓ بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابو بکر صدیق ؓ نے کمک کے طور پر خالد ؓکی طرف بھیجا اور کہا تھا۔’’جس لشکر میں قعقاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔‘‘اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے خالدؓاور ہرمزکو دیکھا۔ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھااور خالدؓ اس کی پیٹھ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔خنجر سے ہرمزکاخون ٹپک رہا تھا ،قعقاعؓ نے ہرمزکے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑ لگا کر محافظوں پر جا ہلّہ بولااورخالدؓ کو بچا لیا تھا۔خالد ؓہرمز کی لاش سے اٹھے ۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالدؓ کے ہاتھ میں تھی اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کر کے خالدؓ نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا۔ان کے پہلے سے دیئے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پرحملہ کیا۔ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بد دل ہو گئے تھے لیکن اپنی روائتی شجاعت سے وہ دستبردارنہ ہوئے۔ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی۔ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی۔وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے۔نظر یہی آ رہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جا سکے گی یا یہ کہ انہیں شکست دینے کیلئے بے شمار جانیں قربان کرنا پڑیں گی۔
ایرانی سپاہی پانچ پانچ، سات سات،دس دس، ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اورہر طرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔خالدؓ نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑ سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑناپڑتا ۔اپنے پیادوں کو بھی خالدؓنے اسی طرح استعمال کیا۔ایرانی پیادوں کو بھاگنا دوڑنا پڑا۔ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کر سکتے تھے۔آخر ایرانیوں میں تھکن اور سستی کے آثار نظر آنے لگے۔انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں،وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ہتھیاروں کی برتری وبالِ جان بن گئی،ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی،ان کے قلب کی کمان تو پہلے ہی ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ۔ان کے پہلوؤں کے سالاروں قباذ اور انوشجان نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دے دیا۔پسپا وہی ہو سکے جو زنجیروں میں بندھے نہیں تھے ۔ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ۔یہ تو آتش پرستوں کا قتلِ عام تھا جوسورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا۔شام تاریک ہو گئی تو یہ خونی سلسلہ رکا۔مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتور دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کر دیاکہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ،جذبہ لڑا کرتا ہے۔اگلے روز مالِ غنیمت اکھٹا کیا گیا۔خالد ؓنے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا،چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کر دیئے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکرؓ کو بھیج دیا۔ہر مز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی بھی خالدؓ نے خلیفہ ؓکو بھیج دی۔خلیفہ ؓنے یہ ٹوپی خالدؓ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مالِ غنیمت جیتنے والے کا حق ہوتا ہے۔یہ ٹوپی خالدؓ کی ملکیت تھی۔’’یہ دیکھو……باہر آؤ……دیکھو یہ کیا ہے!‘‘مدینہ کی گلیوں میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ لوگ دوڑتے گھروں سے باہر آنے لگے۔ ’’جانور ہے۔‘‘’’نہیں ،خدا کی قسم! ہم نے ایسا جانور کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’یہ جانور نہیں، خدا کی عجیب مخلوق ہے۔‘‘عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے۔ سب کے چہروں پر حیرت تھی۔ بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔جنہوں نے خدا کی اس عجیب مخلوق کو پکڑ رکھا تھا وہ ہنس رہے تھے اور وہ آدمی بھی ہنس رہا تھا جو اس عجیب مخلوق کی گردن پر بیٹھا تھا۔’’یہ کیا ہے؟لوگ پوچھ رہے تھے۔ اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘’’اسے ہاتھی کہتے ہیں ۔‘‘ہاتھی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’یہ جنگی جانور ہے۔یہ ہم نے فارس والوں سے چھینا ہے۔‘‘جنگِ سلاسل میں جب ایرانی زرتشت بھاگے تھے تو یہ ہاتھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔تقریباً تمام مورخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ خالد ؓنے مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کو بھیجا تھا اس میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ مدینہ والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اس ہاتھی کو مدینہ شہر میں گھمایا پھرایا گیا۔تو لوگ حیران ہو گئے اور بعض ڈر بھی گئے۔ وہ اسے جانور نہیں خدا کی عجیب مخلوق کہتے تھے ۔ہاتھی کے ساتھ اس کا ایرانی مہاوت بھی تھا ۔
اس ہاتھی کو چند دن مدینہ میں رکھا گیا ۔کھانے کے سوا اس کااور کوئی کام نہ تھا۔ مدینہ والے اس سے کام لینا جانتے بھی نہیں تھے ۔اس کے علاوہ صرف ایک ہاتھی سے وہ کرتے بھی کیا ؟امیر المومنینؓ نے اس کے مہاوت کو ہاتھی سمیت رہا کر دیا ،کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ یہ ہاتھی مدینہ سے کہاں چلا گیا تھا۔دجلہ اور فرات آج بھی بہہ رہے ہیں ،ایک ہزار تین سو باون سال پہلے بھی بہہ رہے تھے ،مگر اس روانی میں اور آج کی روانی میں بہت فرق ہے۔ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے دجلہ اور فرات کی لہروں میں اسلام کے اولین مجاہد کے جوشیلے اور پر عزم نعروں کا ولولہ تھا ان دریاؤں کے پانیوں میں شہیدوں کا خون شامل تھا۔شمع رسالتﷺ کے شیدائی اسلام کو دجلہ اور فرات کے کنارے کنارے دور آگے لے جا رہے تھے۔زرتشت کی آگ کے شعلے لپک لپک کر مسلمانوں کا راستہ روکتے تھے۔ مسلمان بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ان کا بڑھنا سہل نہیں تھا ۔وہ فارسیوں کی شہنشاہی میں داخل ہو چکے تھے ،ان کی نفری اور جسموں کی تازگی کم ہوتی جا رہی تھی اور دشمن کی جنگی قوت ہیبت ناک تھی۔کبھی یوں لگتا تھا جیسے آتش پرست فارسیوں کی جنگی طاقت مسلمانوں کے قلیل لشکرکو اپنے پیٹ میں کھینچ رہی ہے۔اپریل ۶۳۳ء کا تیسرا اور صفر ۱۲ ہجری کا پہلا ہفتہ تھا خالد ؓکاظمہ کے مقام پر آتش پرست ایرانیوں کو شکست دے کر آگے ایک مقام پر پہنچ گئے تھے ۔انہوں نے دو ہی ہفتے پہلے ایرانیوں کو شکست دی تھی۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی شہنشاہی سے ٹکرلی تھی جس کی جنگی قوت سے زمین کانپتی تھی۔امیرالمومنین ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ ابھی ہم اتنی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ٹکر لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ورنہ زرتشت مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ان کے عزائم ایسے ہی تھے وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے اور اپنی بادشاہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔امیر المومنین ؓنے خالدؓ کو یمامہ سے بلاکر زرتشتوں کے خلاف بھیجا تھا۔خالد ؓکو رسولِ کریمﷺ نے سیف اﷲ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب خلیفہ اول ابو بکرؓ نے بھی کہا تھا ’’ا ﷲکی تلوار کے بغیر ہم فارس کی بادشاہی سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔‘‘خالد ؓنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اﷲ کی تلوار ہیں۔فارس کی شہنشاہی کی گدی مدائن میں تھی ۔فارس کا شہنشاہ اردشیر مدائن میں شہنشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھا تھا۔اس کی گردن ان شہنشاہوں کی طرح اکڑی ہوئی تھی جواپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔ اس کے تخت کے دائیں بائیں ایران کا حسن مچل رہا تھا۔وہ تخت سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ابلہ کے محا ذ سے قاصد آیا ہے۔’’فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے شاہانہ رعونت سے کہا۔’’اس کے سوا وہ اور کیا خبر لایا ہوگا کہ ہرمز نے مسلمانوں کو کچل ڈالا ہے۔کیا حیثیت ہے عرب کے ان بدوؤں کی۔جنہوں نے کھجور اور جَوکے سوا کھانے کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
قاصد دربار میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اور اسکی چال بتارہی تھی کہ وہ اچھی خبر نہیں لایا۔اس نے ایک بازو سیدھا اوپر کیا اور جھک گیا۔’’سیدھے ہو جاؤ۔‘‘اردشیر نے فاتحانہ لہجے میں کہا۔’’ ہم اچھی خبر سننے کیلئے اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔کیا مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔بولو ،تم کیوں خاموش ہو؟‘‘’’زرتشت کی ہزار رحمت تختِ فارس پر!‘‘ قاصد نے دربار کے آداب کے عین مطابق کہا۔’’شہنشاہ اردشیر کی شہنشاہی ……‘‘’’خبر کیا لائے ہو؟‘‘اردشیر نے گرج کر پوچھا۔’’عالی مقام !ہرمز نے کمک مانگی ہے۔‘‘ قاصد نے کہا۔’’ہرمز نے ؟‘‘اردشیر چونک کر آگے کو جھکا اور ا س نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ کمک مانگی ہے؟کیا وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے؟کیا وہ پسپا ہو رہاہے؟ہم نے سنا تھا کہ مسلمان لٹیروں کے ایک گروہ کے مانند ہیں۔کیا ہوگیا ہے ہرمز کو؟کیا اس نے سپاہ کو زنجیروں سے نہیں باندھا تھا؟بولو۔‘‘دربار پر سناٹا طاری ہو گیا۔جیسے وہاں کوئی بھی نہ ہو اور درودیوار چپ چاپ ہوں۔’’شہنشاہِ فارس کی شہنشاہی افق تک پہنچے۔‘‘قاصد نے کہا ۔’’زنجیریں باندھی تھیں مگر مسلمانوں نے ایسی چالیں چلیں کہ یہی زنجیریں ہماری سپاہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔‘‘’’مدینہ والوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘’’بہت تھوڑی شہنشاہِ فارس۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ہمارے مقابلے میں ان کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی لیکن……‘‘ ’’دور ہو جا ہماری نظروں سے۔‘‘شہنشاہ اردشیر گرجا اور ذرا سوچ کر بولا۔’’قارن کو بلاؤ۔‘‘قارن بن قریانس ایرانی فوج کا بڑا ہی قابل اور دلیر سپاہ سالار تھا۔وہ بھی ہرمزکی طرح لاکھ درہم کا آدمی تھا اور ہرمز کی ٹوپی کی طرح ٹوپی پہنتا تھا۔اطلاع ملتے ہی دوڑا آیا۔’’قارن!‘‘ اردشیر نے کہا۔’’کیا تم اس خبر کو سچ مان سکتے ہو کہ ہرمزنے مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمک مانگی ہے۔‘‘اردشیر نے درباریوں پر نگاہ دوڑائی تو تمام درباری اٹھ کھڑے ہوئے ۔سب تعظیم کوجھکے اور باہر نکل گئے ۔اردشیر قارن کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔’’کیا یہ قاصد مسلمانوں کا آدمی تو نہیں جو ہمیں دھوکا دینے آیا ہو۔‘‘’’مسلمان اتنی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘قارن نے کہا۔’’میدانِ جنگ میں ذراسی غلطی پانسا پلٹ دیا کرتی ہے۔اگر ہرمز نے کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کمک کی ضرورت ہے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا مسلمانوں میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ہماری فوج کو پسپا کر سکیں ؟‘‘اردشیر نے کہا۔
’’ان میں ہمت ہی نہیں بے پناہ جرات بھی ہے۔‘‘قارن نے کہا۔’’وہ اپنے عقیدے کی جنگ لڑتے ہیں ،ابلہ کے علاقے میں ہم نے مسلمانوں کو اس قدر ذلیل کر کے رکھا ہوا ہے کہ وہ کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔لیکن انہوں نے زمین دوز حملے کرکے اور شب خون مار مار کر اس علاقے کی کئی چوکیاں صاف کر دی ہیں۔ آج تک انہوں نے جتنی جنگیں لڑی ہیں ان میں انہوں نے کسی ایک میں بھی شکست نہیں کھائی ۔ہر جنگ میں ان کی سپاہ خاصی تھوڑی ہی رہی ہے ان کے پاس گھوڑوں کی بھی کمی تھی۔‘‘’’وہ لڑنے والے ہی ایسے تھے ۔‘‘شہنشاہ اردشیر نے کہا۔’’ان میں کوئی بھی ہماری فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘’’لیکن مسلمانوں نے مقابلہ کر لیا ہے۔‘‘قارن نے کہا ۔’’اور ہمارا اتنا زبردست سالار ہرمز کمک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ شہنشاہِ فارس! دشمن کو اتناحقیر نہیں جاننا چاہیے ۔ہمیں اپنے گریبان میں دیانت داری سے جھانکنا ہو گا ۔فارس کی شہنشاہی کا طوطی بولتا تھا لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ رومی ہم پر غالب آ گئے تھے اور ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم رومیوں کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔اس نئی صورتِ حال کا جائزہ دیانت داری سے لیں شہنشاہِ فارس!ہرمز نے اگر کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس کے لشکر پر غالب آ گئے ہیں۔‘‘’’میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے کہ تم ہی ہرمز کی مددکو پہنچو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’اگر ہرمز گھبرا گیا ہے تو اس کی مدد کیلئے اگر اس سے بہتر سالار نہ جائے تو اسی جیسے سالار کو جانا چاہیے۔تم ایسا لشکر تیار کرو جسے دیکھتے ہی مسلمان سوچ میں پڑ جائیں کہ لڑیں یا مدینہ کو بھاگ جائیں۔فوراً قارن فوراً۔‘‘قارن نے اسے سلام کیااور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چل پڑا۔’’ایرانیوں کا سالار قارن بن قریانس تازہ دم لشکر لے کر اُبلہ کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ پوری امید لے کر جا رہا تھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرکے لوٹے گا۔وہ اپنے لشکر کو دجلہ کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ لے جا رہا تھا۔اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔اس نے مذارکے مقام پر لشکر کودریائے دجلہ پار کرایا اور جنوب میں دریائے معقل تک پہنچ گیا۔جب وہ دریائے معقل کے پار گیا تو اسے ہرمز کے لشکر کی ٹولیاں آتی دِکھائی دیں۔سپاہی بڑی بری حالت میں تھے۔’’تم پر زرتشت کی لعنت ہو۔‘‘قارن نے پہلی ٹولی کو روک کر اور ان کی حالت دیکھ کر کہا۔’’کیا تم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگے آ رہے ہو؟‘‘’’سپہ سالار ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘ٹولی میں سے ایک سپاہی نے کہا۔’’دونوں پہلوؤں کے سالار قباذاور انوشجان بھی بھاگ آئے ہیں۔وہ شاید پیچھے آ رہے ہوں۔‘‘قارن بن قریاس ہرمز کی موت کی خبر سن کر سُن ہو کہ رہ گیا۔اس نے یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیں کی کہ ہرمز کس طرح مارا گیا ہے ۔قارن کا سر جھک گیا تھا۔اس نے جب سر اٹھایا تو دیکھا کہ فارس کے فوجیوں کی قطاریں چلی آ رہی تھیں۔اپنے تازہ دم لشکر کو دیکھ کر بھاگے ہوئے یہ فوجی وہیں رکنے لگے۔اتنے میں ہرمز کی فوج کے دوسرے سالار قباذ اور انوشجان بھی آ پہنچے ،انہیں دور سے آتا دیکھ کر قارن نے اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔گھوڑا چل پڑا۔قارن نے اپنے دونوں شکست خوردہ سالاروں کے سامنے جا گھوڑا روکا۔’’میں سن چکا ہوں ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘قارن نے کہا۔ ’’لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ تم دونوں بھاگ آئے ہو۔کیا تم گنوار اور اجڈ عربوں سے شکست کھا کر آئے ہو؟میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ تم بزدل ہو اور تم اس رتبے اور عہدے کے قابل نہیں ہو……کیاتم نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟‘‘
’’کیوں نہیں چاہتے!‘‘قباذ نے کہا۔’’ہم کہیں چھپنے کیلئے پیچھے نہیں آئے ،ہمیں ہرمز کی شیخیوں نے مروایا ہے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ اسلامی فوج کے پاس بڑے ہی قابل اور جرات والے سالار ہیں لیکن وہ اتنے بھی قابل نہیں کہ ہماری فوج کو یوں بھگا دیتے۔‘‘’’قارن!‘‘ انوشجان نے کہا۔’’ہماری فوجی قیادت میں یہی سب سے بڑی خرابی ہے ،جس کا مظاہرہ تم نے بھی کیا ہے۔تم نے عرب کے ان مسلمانوں کو اجڈ اور گنوار کہا ہے۔ہرمز بھی ایسے ہی کہتا تھا لیکن ہم نے میدانِ جنگ میں اس کے الٹ دیکھا ہے۔‘‘’’تم نے ان میں کیا خوبی دیکھی ہے جو ہم میں نہیں؟‘‘قارن نے پوچھا۔’’یہ پوچھو کہ ہم میں کیا خامی ہے جو ان میں نہیں؟‘‘انوشجان نے کہا۔’’ہم اپنے دس دس بارہ بارہ سپاہیوں کو ایک ایک زنجیر سے باندھ دیتے ہیں کہ وہ جم کر لڑیں اور بھاگیں نہیں۔اسی لیے ہم آمنے سامنے کی جنگ لڑتے ہیں۔مسلمانوں نے جب ہماری سپاہ کو پابندِ سلاسل دیکھا تو انہوں نے دائیں بائیں کی چالیں چلنی شروع کر دیں۔ہماری سپاہ گھوم پھر کر لڑنے سے قاصر تھی۔یہ تھی وجہ کہ ہمارا اتنا طاقتور لشکر شکست کھا گیا۔‘‘’’ہمارے پاس باتوں کا وقت نہیں۔‘‘قباذ نے کہا۔’’مسلمان ہمارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔‘‘اُن کے تعاقب میں مثنیٰ بن حارثہ دو ہزار نفری کی فوج کے ساتھ آرہے تھے۔مثنیٰ بن حارثہ اسلام کے وہ شیدائی تھے جنہوں نے ایرانیوں کے خلاف زمین دوز جنگی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔اُنہی کی ترغیب پر امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو بلا کر ایرانیوں کے خلاف بھیجا تھا۔ایرانیوں کے تعاقب میں جانا غیر معمولی طور پر دلیرانہ اقدام تھا۔تعاقب کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اپنے مستقر سے دور ہٹتے ہٹتے ایرانیوں کے قلب میں جا رہے تھے ۔جہاں ان کا گھیرے میں آجانا یقینی تھا۔لیکن یہ خالدؓ کا حکم تھا کہ ایرانیوں کا تعاقب کیا جائے۔اس حکم کے پیچھے ایرانیوں کے خلاف وہ نفرت بھی تھی جو مثنیٰ بن حارثہ کے دل میں بھری ہوئی تھی۔جنگِ سلاسل ختم ہو گئی اور ایرانی بھاگ اٹھے تو خالدؓ نے دیکھا کہ ان کا لشکر تھک گیا ہے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بلایا۔’’ابنِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر یہ بھاگتے ہوئے فارسی زندہ چلے جائیں توکیا تم اپنی فتح کو یقینی سمجھو گے؟‘‘’’خدا کی قسم ولیدکے بیٹے!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔’’مجھے صرف حکم کی ضرورت ہے۔یہ میرا شکار ہے۔‘‘’’توجاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دو ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور زیادہ سے زیادہ ایرانیوں کو پکڑ لاؤ اور جو مقابلہ کرے اسے قتل کر دو……میں جانتا ہوں کہ میرے جانباز تھک گئے ہیں لیکن میں شہنشاہِ فارس کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم زمین کے دوسرے سرے تک ان کا تعاقب کریں گے۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ نے دو ہزار سوار لیے اور بھاگتے ہوئے ایرانیوں کے پیچھے چلے گئے۔ایرانیوں نے دور سے دیکھ لیا کہ ان کا تعاقب ہو رہا ہے تو وہ بِکھر گئے،انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کُرز اور ہتھیار پھینک دیئے تھے۔مثنیٰ کیلئے تعاقب کا اور ایرانیوں کو پکڑنے کا کام دشوار ہو گیا تھا کیونکہ ایرانی ٹولی ٹولی ہو کر بکھرے پھر وہ اکیلے اکیلے ہو کر بھاگنے لگے۔اس کے مطابق مثنیٰ کے سوار بھی بکھر گئے۔مثنیٰ بن حارثہ کو آگے جاکر اپنے سواروں کو اکھٹا کرنا پڑا کیونکہ آگے ایک قلعہ آگیا تھا۔یہ قلعہ ــ ’’حصن المراٗۃ‘‘کے نام سے مشہور تھا۔یہ ایک عورت کا قلعہ تھا۔اسی لیے اس کا نام حصن المراٗۃ مشہور ہو گیا تھا۔یعنی عورت کا قلعہ۔مثنیٰ نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا کیونکہ خیال یہ تھا کہ ایرانی اس قلعے میں چلے گئے ہوں گے۔قلعے سے مزاحمت کے آثار نظر آ رہے تھے۔دودن محاصرے میں گزر گئے تو مثنیٰ کو احساس ہوا کہ وہ جس کام کیلئے آئے تھے و ہ تو رہ گیا ہے۔مثنیٰ کا ایک بھائی مُعنّٰی ان کے ساتھ تھا۔’’مُعنّٰی!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے ا سے کہا۔’’ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ میں ایرانیوں کے تعاقب میں آیا تھا اور مجھے اس قلعے نے روک لیا ہے؟‘‘’’مثنیٰ بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو تم مجھے کہتے کہ اس قلعے کو تم محاصرے میں رکھو اورمیں ایرانیوں کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘’’ہاں معنّٰی!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے تم پر بھروسہ نہیں۔یہ قلعہ ایک جوان عورت کا ہے اور تم جوان آدمی ہو۔خدا کی قسم!میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’میرے باپ کے بیٹے!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھ پر بھروسہ کر اور آگے نکل جا۔مجھے تھوڑے سے سوار دے جا پھر دیکھ کون سر ہوتا ہے۔……قلعہ یا میں……!اگر تویہیں بندھا رہا تو بھاگتے ہوئے فارسی بہت دور نکل جائیں گے۔‘‘’’اگر میرا دماغ ٹھیک کام کرتاہے تو میں کچھ اور سوچ کر ادھر آیا ہوں۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میں اس اﷲکا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ جس کے نبی ہیں کہ اس نے ہمیں خالد بن ولید جیسا سپہ سالار دیا ہے۔مدینہ کی خلافت سے جو اسے حکم ملا تھا وہ اس نے پورا کر دیا ہے لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں۔وہ فارس کی شہنشاہی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے پر تُلا ہوا ہے۔وہ مدائن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔‘‘’’عزم اور چیز ہے میرے بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’عزم کو پورا کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ولید کا بیٹا تیر کی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔میرے باپ کے بیٹے !تیر بھی خطا ہو سکتا ہے ۔ذرا سی رکاوٹ اسے روک بھی سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد کو وہیں رک جانا چاہیے جہاں اس نے فارسیوں کو شکست دی ہے؟‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم ایک بات بھول رہے ہو،شہنشاہِ فارس کو اپنی شہنشاہی کاغم ہے اور ہمیں اپنے اﷲ کی ناراضگی کا ڈر ہے۔اردشیر اپنے تخت و تاج کو بچانا چاہتا ہے۔لیکن ہم شاہِ دو جہاں ﷺ کی آن کی خاطر لڑ رہے ہیں……سمجھنے کی کوشش کرو میرے بھائی !یہ بادشاہوں کی نہیں عقیدوں کی جنگ ہے۔ہمارے لیے یہ اﷲ کا حکم ہے کہ ہم اس کے رسول ﷺکا پیغام دنیا کے آخری کونے تک پہنچائیں۔ہمارا بچھونا یہ ریت ہے اور یہ پتھر ہیں۔ہم تخت کے طلبگار نہیں۔‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’نہیں !‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’تم ابھی پوری بات نہیں سمجھے۔تم بھول رہے ہو کہ ہمیں ان مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے جو فارسیوں کے زیرِ نگیں تھے اور جن پر فارسیوں نے ظلم و تشدد کیا تھا۔خالد فارسیوں کا یہ گناہ کبھی نہیں بخشے گا،وہ مظلوم مسلمان مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے…… میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ میں فارسیوں کے تعاقب میں نہیں آیا۔میں فارس کے اس لشکر کی تلاش میں آیا ہوں جو ہرمز کی شکست خوردہ فوج کی مدد کیلئے آ رہا ہوگا ۔مجھے پوری امید ہے کہ ان کی کمک آ رہی ہو گی۔میں اسے راستے میں روکوں گا۔‘‘’’پھر اتنی باتیں نہ کرو مثنیٰ!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھے کچھ سوار دے دواور تم آگے نکل جاؤ……یہ خیال رکھنا کہ فارسی اگر آ گئے تو ان کی تعداد اور طاقت زیادہ ہو گی۔آمنے سامنے کی ٹکر نہ لینا۔جا میرے بھائی۔میں تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘کسی بھی مؤرخ نے سواروں کی صحیح تعداد نہیں لکھی جومثنیٰ اپنے بھائی معنّٰی کو دے کر چلے گئے تھے۔بعض مؤرخوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ سواروں کی تعداد تین سوسے کم اور چار سو سے زیادہ نہیں تھی۔معنّٰی نے اتنے سے سواروں سے ہی قلعے کا محاصرہ کر لیا۔اور قلعے کے دروازے کے اتنا قریب چلا گیا جہاں وہ تیروں کی بڑی آسان زد میں تھا۔دروازے کے اوپر جو بُرج تھا اس میں ایک خوبصورت عورت نمودار ہوئی۔’’تم کون ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘عورت نے بلند آواز میں معنّٰی سے پوچھا۔’’ہم مسلمان ہیں۔‘‘معنّٰی نے اس سے زیادہ بلند آواز میں جواب دیا ۔’’ہم میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں آئے ہیں۔اگر تم نے قلعے میں اُنہیں پناہ دی ہے تم انہیں ہمارے حوالے کر دو۔ہم چلے جائیں گے۔‘‘’’یہ میرا قلعہ ہے۔‘‘عورت نے کہا۔’’بھاگے ہوئے فارسیوں کی پناہ گاہ نہیں۔یہاں کوئی فارسی سپاہی نہیں۔‘‘’’خاتون!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ہم پر تیرا احترام لازم ہے۔ہم مسلمان ہیں۔عورت پر ہاتھ اٹھانا ہم پر حرام ہے خواہ وہ قلعہ دار ہی ہو۔اگر تم فارس کی جنگی طاقت کے ڈر سے اس کے سپاہی ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتیں تو سوچ لو کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فارس کی اس ہیبت ناک جنگی طاقت کو شکست دی ہے۔ایسا نہ ہو کہ تم پر ہمارے ہاتھوں زیادتی ہو جائے ۔ہم اسلام کے اُس لشکر کا ہراول ہیں جوپیچھے آ رہا ہے۔‘‘’’میں نے مسلمانوں کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘عورت نے کہا۔’’میرا قلعہ تمہارے لشکر کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔‘‘’’تمہاراقلعہ محفوظ رہے گا۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’شرط یہ ہے کہ قلعے کا دروازہ کھول دو۔ہم اندر آ کر دیکھیں گے۔تمہارے کسی آدمی اور کسی چیز کو میرے سوار ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ہم اپنی تسلی کر کے چلے جائیں گے۔اگر یہ شرط پوری نہیں کروگی تو تمہاری اور تمہاری فوج کی لاشیں اس قلعے کے ملبے کے نیچے گل سڑ جائیں گی۔‘‘
’’قلعہ کا دروازہ کھول دو۔‘‘عورت کی تحکمانہ آواز سنائی دی۔اس آواز کے ساتھ ہی قلعے کا دروازہ کھل گیا۔معنّٰی نے اپنے سواروں کو اشارہ کیا۔تین چار سو گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے ۔معنّٰی نے انہیں صرف اتنا کہا کہ قلعے کی صرف تلاشی ہوگی ۔کسی چیز اور کسی انسان کو ہاتھ تک نہیں لگایا جائے ۔معنّٰی کا گھوڑاقلعے میں داخل ہو گیا۔اس کے تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے قلعے میں گئے۔معنّٰی نے ایک جگہ رک کر قلعے کی دیواروں پر نظر دوڑائی۔ہر طرف تیر انداز کھڑے تھے۔نیچے اسے کہیں بھی کوئی سپاہی نظر نہ آیا۔معنّٰی کے سوار قلعے میں پھیل گئے تھے۔
’’تم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘عورت نے معنّٰی سے کہا۔’’میں فارسیوں سے ڈرتی ہوں۔اس قلعے میں کوئی بھی طاقتور لشکر آئے گاتو میں اس کے رحم و کرم پر ہوں گی۔مسلمانوں کومیں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘’’اور تم انہیں ساری عمر یاد رکھو گی۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ خدا کی قسم!تم باقی عمر ان کے انتظار میں گذاردوگی۔ مسلمانوں کیلئے حکم ہے کہ قلعوں کو نہیں دلوں کو سر کرو لیکن قلعے والوں کے دل قلعے کی دیواروں جیسے سخت ہو جائیں،تو پھر ہمارے لئے کچھ اور حکم ہے۔ہم جب اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو فارس کی طاقت بھی ہمارے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔کیاتم نے انہیں بھاگتے دیکھا نہیں؟کیا وہ ادھر سے نہیں گذرے؟‘‘’’گذرے تھے۔‘‘قلعے دار عورت نے جواب دیا۔’’ذرا سی دیر کیلئے یہاں رکے بھی تھے۔انہوں نے بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں سے بھاگ کر آ رہے ہیں۔وہ دس بارہ آدمی تھے۔میں حیران تھی کہ اتنے ہٹے کٹے سپاہی خوف سے مرے جا رہے ہیں۔میں اس پر بھی حیران تھی کہ وہ کون ہیں جنہوں نے فارس کے اس لشکر کو اس قدر دہشت ذدہ کر کے بھگا دیاہے۔تم نے جب کہا کہ تم ہو وہ لوگ جنہوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے۔تو میری ہمت جواب دے گئی۔میں نے قلعے کا دروازہ خوف کے عالم میں کھولا تھا۔میں تم سے اور تمہارے سواروں سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ہی نہیں سکتی تھی۔مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا کہ تم اپنے متعلق جو کہہ رہے ہو۔وہ سچ کہہ رہے ہو۔‘‘یہ خاتون معنّٰی کو اس عمارت میں لے گئی جہاں وہ رہتی تھی۔وہ تو شیش محل تھا۔اس کے اشارے پر دو غلاموں نے شراب اور بھنا ہوا گوشت معنّٰی کے سامنے لا رکھا۔معنّٰی نے ان چیزوں کو پرے کر دیا۔’’ہم شراب نہیں پیتے۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’اور میں یہ کھانا اس لئے نہیں کھاؤں گا کہ تم نے مجھے ایک طاقتور فوج کا آدمی سمجھ کر خوف سے مجھے کھانا پیش کیا ہے ۔میں اسے بھی حرام سمجھتا ہوں۔‘‘’’کیا تم مجھے بھی حرام سمجھتے ہو؟‘‘اس خوبصورت اور جوان عورت نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں دعوت کا تاثرتھا۔’’ہاں !‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’مفتوحہ عورت کو ہم شراب کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔وہ اس وقت تک ہم پر حرام رہتی ہے جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمارے عقد میں نہ آ جائے۔‘‘معنّٰی کو اطلاع دی گئی کہ اس کے سوار قلعے کی تلاشی لے کر آگئے ہیں ۔معنّٰی تیزی سے اٹھا اور اسی تیزی سے باہر نکل گیا۔سواروں کے کمانداروں نے معنّٰی کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے تلاشی کس طرح لی ہے اور کیا کچھ دیکھا ہے۔کہیں بھی انہیں کوئی ایرانی سپاہی نظر نہیں آیا تھا۔اس عورت کا اپنا قبیلہ تھا جس کے آدمی تیروں،تلواروں اور برچھیوں وغیرہ سے مسلح تھے۔ان میں معنّٰی کے سواروں کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ قلعے کی مالکن نے انہیں لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔اس قلعے کو اپنی اطاعت میں لینا ضروری تھا۔کیونکہ یہ کسی بھی موقع پر ایرانیوں کے کام آ سکتا تھا۔معنّٰی نے اِدھر ُادھر دیکھا۔وہ عورت اسے نظر نہ آئی۔معنّٰی اندر چلا گیا۔’’کچھ ملا میرے قلعے سے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’میرے لیے شک رفع کرنا ضروری تھا۔اور اب یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے کسی سوار نے تمہارے کسی آدمی یا عورت کو یا میں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘عورت نے کہااور ذرا سوچ کر بولی۔’’لیکن تم چلے جاؤ گے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی۔‘‘
’’کیا تم ایرانیوں کا خطرہ محسوس کر رہی ہو؟‘‘معنّٰی نے پوچھا۔’’یا تمہارے دل میں مسلمانوں کا ڈر ہے؟‘‘’’دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں۔‘‘عورت نے جواب دیا۔’’مجھے تنہا ئی کا ڈر ہے۔تم چلے جاؤ گے تو مجھے تنہائی کا احساس ہوگا۔جو تمہارے آنے سے پہلے نہیں تھا۔‘‘معنّٰی نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔’’تم اپنے فرض میں اتنے الجھے ہوئے ہوکہ تمہیں یہ احساس بھی نہیں کہ تم ایک جوان آدمی ہو۔‘‘عورت نے کہا۔’’فاتح سب سے پہلے مجھ جیسی عور ت کو اپنا کھلونا بناتے ہیں۔میں نے تم جیسا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔اب دیکھا ہے تو دل چاہتا ہے کہ دیکھتی ہی رہوں۔کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگی؟‘‘معنّٰی نے اسے غور سے دیکھا۔سر سے پاؤں تک پھر پاؤں سے سر تک دیکھا۔اسے ایک آواز سنائی دی۔’’ـخدا کی قسم! میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’کیاتم ہوش میں نہیں ہو؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’میں شاید ضرورت سے زیادہ ہوش میں ہوں۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’تم مجھے اچھی لگی ہو یا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔اس وقت مجھے تمہارا قلعہ اچھا لگ رہا ہے۔‘‘’’کیا میرا یہ تحفہ قبول کرو گے؟‘‘عورت نے کہا۔’’طاقت سے قلعہ سر کرنے کے بجائے مجھ سے یہ قلعہ محبت کے تحفے کے طور پر لے لو تو کیا یہ اچھا نہیں رہے گا؟‘‘’’محبت!‘‘م­عنّٰی نے زیرِ لب کہا۔پھر سر جھٹک کر جیسے بیدار ہوگیا ہو۔کہنے لگا۔’’محبت کا وقت نہیں۔میں تمہارے ساتھ شادی کر سکتا ہوں۔اگر تم رضا مند ہو تو پہلے اپنے سارے کے سارے قبیلے سمیت اسلام قبول کرو۔‘‘’’ میں نے قبول کیا۔‘‘عورت نے کہا۔’’میں اس مذہب پر جان بھی دے دوں گی جس کے تم پیروکار ہو۔‘‘دو مؤرخوں طبری اور ابنِ رُستہ نے اس خاتون کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔لیکن دونوں کی تحریروں میں اس خاتون کا نام نہیں ملتا۔شہنشاہِ فارس اردشیر آگ بگولہ ہوا جا رہا تھا۔اسے ہرمز پر غصہ آ رہا تھا جس نے کمک مانگی تھی۔کمک بھیجنے کے بعد اسے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کہ میدانِ جنگ کی صورتِ حال کیا ہے۔وہ دربار میں بیٹھتا تو مجسم عتاب بنا ہوتا۔محل میں وہ کہیں بھی ہوتا تو اس کیفیت میں ہوتا کہ بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوتا۔تیز تیز ٹہلنے لگتا۔اور بلا وجہ کسی نہ کسی پر غصہ جھاڑنے لگتا۔اس روز وہ باغ میں ٹہل رہا تھا۔جب اسے اطلاع ملی کہ قارن کا قاصد آیا ہے۔بجائے اس کے کہ وہ قاصد کوبلاتا ، وہ قاصد کی طرف تیزی سے چل پڑا۔’’کیا قارن نے ان صحرائی گیدڑوں کو کچل ڈالا ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’شہنشاہِ­فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’جان بخشی ہو۔شہنشاہ کا غلام اچھی خبر نہیں لایا۔‘‘
’’کیا قارن نے بھی کمک مانگی ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’نہیں شہنشاہِ فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’سالار ہرمز مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیاہے۔‘‘’’ماراگیا ہے؟‘‘اردشیر نے حیرت سے کہا۔’’کیا ہرمز کو بھی مارا جا سکتا ہے؟نہیں نہیں یہ غلط ہے۔یہ جھوٹ ہے۔‘‘اس نے گرج کر قاصد سے پوچھا۔’’تمہیں یہ پیغام کس نے دیا ہے؟‘‘’’سالار قارن بن قریاس نے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’ہمارے دو سالار قباذ اور انوشجان پسپا ہو کر آ رہے تھے ۔باقی سپاہ بھی جو زندہ تھی،ایک ایک دو دو کر کے انکے پیچھے آ رہی تھی۔دریائے معقل کے کنارے وہ ہمیں آتے ہوئے ملے ۔انہوں نے بتایا کہ سالار ہرمز نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا تو ان کاایک سالار خالد بن ولید ہمارے سالار کے مقابلے میں آیا۔سالار ہرمز نے اپنے محافظوں کو ایک طرف چھپا دیا تھا۔انہوں نے مسلمانوں کے سالار کو گھیرے میں لے کر قتل کرنا تھا۔انہوں نے اسے گھیرے میں لے بھی لیا تھا۔لیکن کسی طرف سے ایک مسلمان سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں تلوار تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سالار ہرمز کے چھ سات محافظوں کو ختم کر دیا۔عین اس وقت مسلمانوں کے سالار نے سالار ہرمز کو گرالیااور خنجر سے انہیں ختم کر دیا۔‘‘اردشیر کا سر جھک گیااور وہ آہستہ آہستہ محل کی طرف چل پڑا۔جب وہ محل میں پہنچا تو اس نے یوں دیوار کا سہارا لے لیا۔جیسے اسے ٹھوکر لگی ہو اور گرنے سے بچنے کیلئے اس نے دیوار کا سہارالے لیا ہو۔وہ اپنے کمرے تک دیوار کے سہارے پہنچا۔کچھ دیر بعد محل میں ہڑبونگ سی مچ گئی،طبیب دوڑے آئے۔اردشیر پر کسی مرض کا اچانک حملہ ہو گیا تھا۔یہ صدمے کا اثر تھا۔فارس کی شہنشاہی شکست سے نا آشنا رہی تھی۔اسے پہلی ضرب رومیوں کے ہاتھوں پڑی تھی اور فارس کی شہنشاہی کچھ حصے سے محروم ہو گئی تھی۔اب اس شہنشاہی کواس قوم کے ہاتھوں چوٹ پڑی تھی جسے اردشیر قوم سمجھتا ہی نہیں تھا۔اردشیر کیلئے یہ صدمہ معمولی نہیں تھا۔قارن بن قریاس ابھی دریائے معقل کے کنارے پر خیمہ زن تھا ۔اس نے وہاں اتنے دن اس لئے قیام کیا تھا کہ ہرمز کی فوج کے بھاگے ہوئے کماندار اور سپاہی ابھی تک چلے آ رہے تھے۔قارن انہیں اپنے لشکر میں شامل کرتا جارہاتھا۔ہرمز کے دونوں سالار قباذ اور انوشجان اس کے ساتھ ہی تھے ۔وہ اپنی شکست کا انتقام لینے کا عہد کیے ہوئے تھے۔ان کے کہنے پر قارن پیش قدمی میں محتاط ہو گیا تھا۔قیام کے دوران اس کے جاسوس اسے اطلاعیں دے رہے تھے کہ مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں۔ان اطلاعوں سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان واپس نہیں جائیں گے بلکہ آگے آ رہے ہیں۔خالدؓ نے جنگِ سلاسل جیتنے کے بعد کاظمہ، ابلہ اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔جب وہ ان آبادیوں میں گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے چِلّا چِلّا کرخالد زندہ باد……اسلام زندہ باد……خلافتِ مدینہ زندہ باد کے نعرے لگائے ۔وہ سر سبز اور شاداب علاقہ تھا۔عورتوں نے خالدؓ اور اس کے محافظوں کے راستے میں پھول پھینکے۔اس علاقے کے مسلمانوں کو بڑی لمبی مدت بعد ایرانی جورواستبداد سے نجات ملی تھی۔
’’خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’ہمارے جوان بیٹوں کے خون کا انتقام……انتقام……خالد انتقام……‘‘یہ ایک شور تھا ،للکار تھی اورخالدؓ اس شور سے گزرتے جا رہے تھے۔’’ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔‘‘خالدؓ نے وہاں کے مسلمانوں سے کہا۔’’ہم انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘مسلمانوں کے ایک وفد نے خالدؓ کو بتایا کہ اس علاقے کے غیر مسلموں پر وہ بھروسہ نہ کرے۔’’یہ سب فارسیوں کے مددگار ہیں۔‘‘وفد نے خالد ؓکو بتایا۔’’مجوسیوںنے ہمیشہ ہمارے خلاف مخبری کی ہے۔ہمارے بیٹے جب فارسی فوج کی کسی چوکی پر شب خون مارتے تھے تو مجوسی مخبری کر کے ہمارے بیٹوں کو گرفتار کرا دیتے تھے۔‘‘’’تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو گرفتار کر لو۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔’’اور مسلمانوں میں سے جو اسلامی لشکر میں آنا چاہتے ہیں ‘آجائیں۔‘‘’’وہ پہلے ہی مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘خالدؓ کوجواب ملا۔فوراً ہی مجوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پکڑ دھکڑشروع ہوگئی۔ان میں سے صرف انہیں جنگی قیدی بنایا گیا جن کے متعلق مصدقہ شہادت مل گئی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کی تھیں یا مخبری کی تھی۔نظم و نسق کیلئے اپنے کچھ آدمی کاظمہ میں چھوڑ کر خالدؓ آگے بڑھ گئے۔اب ان کی پیش قدمی کی رفتار تیز نہیں تھی کیونکہ کسی بھی مقام پر ایرانیوں سے لڑائی کا امکان تھا۔خالد ؓنے اپنے جاسوس جو اس علاقے کے مسلمان تھے ،آگے اور دائیں بائیں بھیج دیئے تھے۔مثنیٰ بن حارثہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔وہ دریائے معقل عبور کرنا چاہتا تھا لیکن دور سے اسے ایرانیوں کی خیمہ گاہ نظر آئی۔وہ بہت بڑا لشکر تھا ۔مثنیٰ کے پاس ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ سوارتھے۔اتنی تھوڑی تعداد سے مثنیٰ ایرانی لشکر سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔’’ہمیں یہیں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘مثنیٰ کے ایک ساتھی نے کہا۔’’یہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے کر ختم کر سکتا ہے۔‘‘’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’اگر ہم پیچھے ہٹے تو فارسیوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ہمارے سپہ سالار خالد نے کہا تھا کہ پیشتر اس کے کہ فارسیوں کے دلوں سے ہماری دہشت ختم ہو جائے ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ہمیں اپنی دہشت برقرار رکھنی ہے۔میں آگ کے ان پجاریوں کی فوج کو یہ تاثر دوں گا کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم لڑنے کیلئے بھی تیار رہیں گے۔اگر لڑنا پڑا تو ہم ان سے وہی جنگ لڑیں گے جو ایک مدت سے لڑ رہے ہیں……ضرب لگاؤ اور بھاگو……کیا تم ایسی جنگ نہیں لڑ سکتے؟‘‘مثنیٰ نے ایک سوار کو بلایا اور اسے کہا۔’’گھوڑے کو ایڑ لگاؤ ۔سپہ سالار خالد بن ولید کاظمہ یا ابلہ میں ہوں گے ۔انہیں بتاؤ کہ معقل کے کنارے فارس کا ایک لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔انہیں کہنا کہ میں اس لشکر کو
آگے نہیں بڑھنے دوں گااور آپ کا جلدی پہنچنا ضروری ہے۔‘‘
خالدؓ پہلے ہی کاظمہ سے چل پڑے تھے۔انہیں گھوڑوں اور بار بردار اونٹوں کیلئے چارے اور لشکر کیلئے کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی۔اس علاقے کے مسلمانوں نے ہر چیز کا بندوبست کر دیا تھا۔خالد ؓکا رستہ کوئی اور تھا۔وہ ابلہ سے کچھ دور کھنڈروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔سامنے ایک گھوڑ سوار بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا۔خالدؓ نے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ وہ آگے جا کر دیکھیں یہ کون ہے۔محافظوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آنے والے سوار کو راستہ میں جالیا۔اس سوار نے گھوڑا روکا نہیں۔دونوں محافظوں نے اپنے گھوڑے اس کے پہلوؤں پر کرلئے اور اس کیساتھ آئے۔’’مثنیٰ بن حارثہ کا پیغام لایا ہے۔‘‘دور سے ایک محافظ نے کہا۔’’فارس کا ایک تازہ دم لشکر دریائے معقل کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔‘‘مثنیٰ کے قاصد نے خالد ؓکے قریب آکر رکتے ہوئے کہا۔’’تعداد کا اندازہ نہیں۔آپ کے اورمثنیٰ کے لشکر کی تعداد سے اس لشکر کی تعداد سات آٹھ گنا ہے۔فارس کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘’’مثنیٰ کہاں ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’فارسیوںکے سامنے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’مثنیٰ نے حکم دیا ہے کہ کوئی عسکری پیچھے نہیں ہٹے گا اور ہم فارسیوں کو یہ تاثر دیں گے کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول ہیں……مثنیٰ نے پیغام دیا ہے کہ جلدی پہنچیں۔‘‘خالد ؓنے اپنی فوج کی رفتار تیز کردی اور رخ ادھر کر لیا جدھر مثنیٰ بن حارثہ تھے۔خالد ؓکی فوج مثنیٰ کے سواروں سے جاملی۔خالد ؓنے سب سے پہلے دشمن کا جائزہ لیا۔وہ مثنیٰ کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر کھڑے تھے۔دشمن جنگ کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔’’فارسی ہمیں آمنے سامنے کی لڑائی لڑانا چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے مثنیٰ سے کہا۔’’دیکھ رہے ہو ابنِ حارثہ……انہوں نے دریا کو اپنے پیچھے رکھا ہے۔‘‘’یہ فارسی صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے ان کے ایک قیدی سے پتا چلا ہے کہ ان کے دو سالار جن کے خلاف ہم لڑے ہیں زندہ پیچھے آ گئے ہیں ۔ایک کا نام قباذ ہے اور دوسرے کا نام انوشجان۔انہوں نے اپنے سپہ سالار کو بتایا ہوگا کہ ہمارے لڑنے کے انداز کیسے ہیں۔اسی لیے انہوں نے اپنے عقب کو ہم سے اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ اپنے پیچھے دریا کو رکھا ہے……زیادہ نہ سوچ ولید کے بیٹے!میں ان کے خلاف زمین کے نیچے سے لڑتا رہا ہوں۔‘‘’’اﷲتجھے اپنی رحمت میں رکھے ابن ِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اﷲتمہارے ساتھ ہے ……میں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہم دریاپار نہیں کر سکتے۔‘‘’’اﷲکا نام لے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے امید ہے کہ ہم ان کی صفیں اس طرح درہم برہم کر دیں گے کہ ہمیں ان کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور پیچھے سے ان پر آنے کا موقع مل جائے گا ۔میرے سوار رک کر لڑنے والے نہیں ۔یہ گھوم پھر کر لڑنے والے ہیں۔انہیں آگے دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔مشکل یہ پیش ٓئے گی کہ انہیں پیچھے کس طرح لایا جائے۔فارسیوں کو دیکھ کر تو یہ شعلے بن جاتے ہیں۔انہوں نے فارسیوں کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ابنِ ولید !تم جانتے ہو انہوں نے کس قسم کی غلامی دیکھی ہے۔فارس کے ان آتش پرستوں نے اس علاقے کے مسلمانوں کوانسانوں کی طرح زندہ رہنے کے حق سے محروم رکھا تھا۔‘‘
’’ہم زرتشت کی اس آگ کو سرد کر دیں گے ابنِ حارثہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ خود مانیں گے کہ عبادت کے لائق صرف ایک اﷲہے۔جس کی راہ میں ہم اپنی جانیں قربان کرنے آئے ہیں……آؤ ‘میں زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں چاہتا۔یہ جس طرح رکے ہوئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ محتاط ہیں اور ان پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے……تم اپنے سواروں کے ساتھ قلب میں رہو۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بہت سوچا کہ کسی طرح انہیں چالیں چلنے کا موقع مل جائے لیکن ایرانیوں کا سالار قارن بن قریاس دانشمند آدمی تھا۔اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ کس طرح لڑتا ہے۔قارن نے اپنے شکست خوردہ سالاروں قباذ اور انوشجان کو پہلوؤں پر رکھااور اپنے لشکر کوآگے لے آیا۔اس لشکر کی اپنی ہی شان تھی۔پتہ چلتا تھا کہ کسی شہنشاہ کی فوج ہے۔ان کے قدموں کے نیچے زمین ہلتی تھی۔ادھر یثرب کے سرفروش تھے۔ظاہری طور پر ان کی کوئی شان نہیں تھی۔ ایرانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہتھیار بھی کمتر رکھتے تھے۔لباس بھی یونہی سے تھے اور ان کی تعداد ایرانیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔خالدؓ نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو ہزاروں قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ٹاپوں کے ساتھ کلمہ طیّبہ کا ورد کوئی اور ہی تاثر پیدا کر رہا تھا۔یہ فوج تھکی ہوئی تھی اور زرتشت تازہ دم تھے۔دونوں فوجوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو خالدؓ نے اپنی فوجوں کو روک لیا۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے سوار دستے کے ساتھ خالدؓ کے پیچھے تھے۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر خالدؓ کے مقرر کیے ہوئے دو سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔اس دور کی جنگوں کے دستور کے مطابق زرتشتوں کا سپہ سالار قارن آگے آیااور اس نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔’’مدینہ کا کوئی شتربان میرے مقابلے میں آ سکتا ہے؟‘‘اس نے دونوں فوجوں کے درمیان آکر اور للکار کر کہا۔’’میرے مقابلے میں آنے والا یہ سوچ کر آئے کہ میں شہنشاہِ فارس کا سپہ سالار ہوں۔‘‘’’میں ہوں تیرے مقابلے میں آنے والا۔‘‘خالدؓ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور للکارے۔’’قارن آ اور اپنے سالار ہرمز کے قتل کا انتقام لے۔میں ہوں اس کا قاتل۔‘‘خالدؓ ابھی قارن سے کچھ دور ہی تھے کہ خالدؓ کے عقب سے ایک گھوڑا تیزی سے آیا اور خالدؓ کے قریب سے گزر گیا۔
’’پیچھے رہ ابنِ ولید!‘‘یہ گھوڑ سوار للکارا۔’’آتش پرستوں کا یہ سالار میرا شکار ہے۔‘‘
خالدؓ نے دیکھا۔وہ ایک مسلمان سوار معقل بن الاعشی تھا وہ پہلوانی اور تیغ زنی میں مہارت اور شہرت رکھتا تھا۔یہ ڈسپلن کے خلاف تھا کہ کوئی سپاہی یا سوار اپنے سالار پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ وقت ایسا تھا کہ بندہ و صاحب اور محتاج و غنی ایک ہو گئے تھے۔سپاہی اور سوار جنگ کا مقصد سمجھتے تھے۔جو جذبہ سپاہیوں میں تھا وہی سالاروں میں تھا ۔معقل بن الاعشی یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کا سالار ایک آتش پرست کے ہاتھوں گھائل ہو۔خالدؓ اپنی سپاہ کے جذبے کو سمجھتے تھے ۔وہ رک گئے۔انہوں نے اپنے اس سوار کے جذبہ کو مارنے کی کوشش نہ کی۔معقل کے گھوڑے کی رفتار تیز تھی۔گھوڑا ایرانیوں کے سالار قارن بن قریاس سے آگے نکل گیا۔معقل نے آگے جا کر گھوڑے کو موڑا اور قارن کو للکارا۔قارن نے پہلے ہی تلوار اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔اس کے سر پر زنجیروں والا خود تھا۔اور اس کا اوپر کا دھڑ زرہ میں تھا۔اس کی ٹانگوں پر موٹے چمڑے کے خول چڑھے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پر انتقام کے تاثرات کے بجائے تکبر تھا جیسے لوہے اور موٹے چمڑے کا یہ لباس اسی مسلمان کی تلوار سے بچا لے گا۔قارن نے اپنے گھوڑے کی باگ کوجھٹکا دیا۔دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے کے اردگرد ایک دو چکر لگا کر آمنے سامنے آگئے۔’’اے آگ کے پوجنے والے!‘‘معقل نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’میں سپاہی ہوں ،سالار نہیں ہوں۔‘‘قارن کے چہرے پر رعونت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو گئے۔دونوں گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ان کے سواروں کی تلواریں بلند ہوئیں۔پہلے وار میں تلواریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور دونوں سوار پیچھے ہٹ گئے۔گھوڑے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف آئے۔تلواریں ایک بار پھر ہوا میں ٹکرائیں۔اس کے بعد گھوڑے پیچھے ہٹ ہٹ اور گھوم گھوم کر ایک دوسرے کی طرف آئے ۔دونوں سوار اک دوسرے پر وار کرتے رہے۔آخری بار قارن نے تلوار بلند کی معقل نے وہ وار روکنے کے بجائے اس کی بغل کو ننگا دیکھا تو تلوار برچھی کی طرح اس کی بغل میں اتنی زور سے ماری کہ تلوار قارن کے جسم میں دور تک اتر گئی۔قارن کے اسی ہاتھ میں تلوار تھی جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔قارن گھوڑے پر ایک طرف کو جھکا۔معقل نے اب اس کی گردن دیکھ لی۔جس سے قارن کے آہنی خود کی زنجیریں ہٹ کر پیچھے کو لٹک آئی تھیں۔معقل نے پوری طاقت سے گردن پر ایسا وار کیا کہ تکبر اور رعونت سے اکڑی ہوئی گردن صاف کٹ گئی۔مسلمانوں کے لشکر سے دادوتحسین اور اﷲاکبر کے نعرے رعد کی طرح کڑکنے لگے۔قارن بن قریاس کا سر زمین پر پڑا تھا۔اس کے زنجیروں والے خود کے نیچے اس کی حیثیت کے مطابق ایک لاکھ درہم کے ہیروں والی ٹوپی تھی۔ایسی ہی ٹوپی ہرمز کے سر پر بھی تھی۔قارن کا باقی دھڑ گھوڑے سے لڑھک گیالیکن اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا ۔معقل نے قارن کے گھوڑے کو ٹھُڈا مارا۔گھوڑاقارن کے جسم کو گھسیٹتا دونوں فوجوں کے درمیان بے لگام دوڑنے لگا۔ایرانیوں کے لشکر پر موت کا سنّاٹا طاری تھا۔
آتش پرستوں کی صفوں سے دو گھوڑے آگے آئے۔’’کون ہے ہمارے مقابلے میں آنے والا؟‘‘ان دو میں سے ایک گھوڑ سوار للکارا۔’’ہم اپنے سپہ سالار کے خون کا انتقام لیں گے۔‘‘’’میں اکیلا دونوں کیلئے کافی ہوں۔‘‘خالدؓنے دشمن کی للکار کا جواب دیا اور ایڑ لگائی۔انہیں للکارنے والے دونوں ایرانی سالار قباذ اور انوشجان تھے۔اچانک خالدؓ کے عقب سے دو گھوڑے آئے۔جواس کے دائیں بائیں سے آگے نکل گئے۔خالد ؓکو ایک للکار سنائی دی۔’’پیچھے ہو ولید کے بیٹے!ان دونوں سالاروں نے ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔اب ہم انہیں بھاگنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓ کے لشکر کے دوسرے سوار نے کہا۔
خالدؓ نے دیکھا یہ دونوں سوار جو اس کے قریب سے گزر کر دشمن کے مقابلے پر چلے گئے تھے اس کے لشکر کے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔ان دونوں نے کپڑوں کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور وہ جن کے مقابلے میں گئے تھے وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔مسلمان سالاروں کو اپنے اﷲپر بھروسہ تھا اور آتش پرست اس زرہ پر یقین رکھتے تھے جو انہوں نے پہن رکھی تھی۔انہیں معلوم نہ تھا کہ تلوار کے وار کو آہن نہیں عقیدہ روکا کرتا ہے۔دونوں طرف تجربہ کار سالار تھے۔جو تیغ زنی کی مہارت رکھتے تھے۔ان کی تلواریں ٹکرانے لگیں۔مسلمانوں کی تلواریں آتش پرستوں کی زرہ کو کاٹنے سے قاصر تھیں اس لئے وہ محتاط ہو کر وار کرتے تھے تاکہ تلواروں کی دھار کو نقصان نہ پہنچے۔عاصم اور عدی اس تاک میں تھے کہ دشمن کا کوئی نازک اور غیر محفوظ جسم کاحصہ سامنے آئے تو وہ معقل کی طرح وار کریں۔آخرکار ان دونوں نے باری باری معقل کی ہی طرح اپنے اپنے دشمن کے قریب جا کر انہیں موقع دیا کہ وہ اوپر سے تلوار کا وار کریں۔آتش پرستوں کے سالاروں نے وہی غلطی کی جو قارن نے کی تھی۔انہوں نے بازو اوپر کیے اور تلواریں ان کی بغلوں میں داخل ہو گئیں اور دونوں کی تلواریں گر پڑیں۔خالدؓ نے جب دیکھا کہ زرتشتوں کا سپہ سالار مارا گیا اور اس کے بعد اس کے دونوں سالار بھی جنہیں اپنے لشکر کو منظم طریقے سے لڑانا تھا،مارے گئے ہیں تو خالدؓ نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دے دیا۔ایرانیوں کے لشکر میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو اپنے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت لیے ہوئے جنگِ سلاسل سے بھاگے تھے۔اب انہوں نے اپنے تین سالاروں کو مرتے دیکھا تو انکی دہشت میں اضافہ ہو گیا۔انہوں نے یہ دہشت اپنے سارے لشکر پر حاوی کر دی۔لشکر کاحوصلہ تو پہلے ہی مجروح ہو چکا تھا۔یہ لشکر مقابلے کیلئے بہرحال تیار ہو گیا۔ایرانیوں کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ ان کے پیچھے دریا تھا جس نے ان کے عقب کو محفوظ کیا ہوا تھا۔اس دریا کا دوسرا فائدہ انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ اس میں بڑی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں جو لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔پسپاہونے کیلئے ان کشتیوں نے ان کے کام آناتھا۔انہیں یہ ڈر بھی نہ تھا کہ مسلمان تعاقب میں آسکیں گے۔
خالدؓ کے حملے کاانداز ہلّہ بولنے والا یا اندھا دھند ٹوٹ پڑنے والا نہیں تھا۔انہوں نے ایک ہی بار اپنے تمام دستے جنگ میں نہ جھونک دیئے۔انہوں نے قلب کے دستوں کو باری باری آگے بھیجا اور انہیں ہدایت یہ دی کہ وہ دشمن کی صفوں کے اندر نہ جائیں بلکہ دشمن کو اپنے ساتھ آگے لانے کی کوشش کریں۔اس کے ساتھ ساتھ خالدؓ پہلوؤں کو اسطرح پھیلاتے چلے گئے کہ وہ دشمنوں پر پہلوؤں سے حملہ کر سکیں۔دشمن کے سپہ سالار اور دو سالاروں کی لاشیں گھوڑوں کے سُموں تلے کچلی مسلی گئی تھیں۔یہ فارس کی شہنشاہی کا غرور تھا جو مسلمانوں کے گھوڑوں تلے کچلا جا رہا تھا۔اس صورتِ حال میں آتش پرستوں کے حوصلے مر سکتے تھے۔بیدار نہیں ہو سکتے تھے۔مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار ان کے پاؤں اکھاڑ رہی تھی۔’’زرتشت کے پجاریو!اﷲکو مانو……‘‘’’ہم ہیں محمد ﷺکے شیدائی……‘‘اور اﷲاکبر کے نعروں سے فضاکانپ رہی تھی۔ جوش وخروش تو مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں کا تھا۔ان کی للکار الگ تھلگ تھی۔’’اپنے غلاموں کی ضرب دیکھو۔‘‘’’آج ظالموں سے خون کا حساب لیں گے۔‘‘’’بلاؤ اردشیر کو……‘‘’’زرتشت کو آواز دو۔‘‘ایرانی سپاہ کے حوصلے جواب دینے لگے۔ان کی دوسری کمزوری نے ان کے جسم توڑ دیئے۔یہ کمزوری ان کے ہتھیاروں کا اور زِرہ کا بوجھ تھا۔وہ تھکن محسوس کرنے لگے۔خالدؓ نے جو اپنی سپاہ کے ساتھ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے،بھانپ لیا کہ آتش پرست ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں۔انہوں نے جس شدت سے مقابلے اور جوابی حملوں کا آغاز کیا تھا۔اس شدت میں نمایاں کمی نظر آنے لگی۔خالدؓ نے اپنے قاصد پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عدی کی طرف اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ اپنے اپنے پہلوؤں کو اور باہر لے جا کر بیک وقت دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کریں۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے قلب کے پیچھے رکھے ہوئے محفوظہ )ریزرو(کے دستے کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا۔ان دستوں کو جو پہلے موج در موج کے اندا ز سے حملے کر رہے تھے ،خالد ؓنے پیچھے ہٹا لیا تاکہ وہ جوش و خروش میں ایسی تھکن محسوس نہ کرنے لگیں جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ایرانی لشکر مسلمانوں کے نئے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ان کا جانی نقصان بہت ہو چکا تھا۔اب وہ بِکھرنے لگے۔مسلمانوں نے دیکھا کہ پیچھے جو ایرانی سپاہی تھے وہ دریا کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔اس وقت مسلمانوں کو وہ کشتیاں دکھائی دیں جو سینکڑوں کی تعداد میں دریا کے کنارے بندھی تھیں۔’’کشتیاں توڑ دو۔‘‘ایک مسلمان کی للکار سنائی دی۔’’دشمن بھاگنے کیلئے کشتیاں ساتھ لایا ہے۔‘‘ایک اور للکار سنائی دی۔جب یہ للکار خالدؓ تک پہنچی تو انہوں نے دائیں بائیں قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کرواور ان کی کشتیاں توڑ دو یا ان پر قبضہ کرلو۔قبضہ کر لینے کی صورت میں یہ کشتیاں خالدؓ کے لشکر کے کام آ سکتی تھیں،اُنہیں بھی دریا پار کرنا تھا۔جب یہ حکم سالاروں تک اور سالاروں سے سپاہیوں تک پہنچاتو یہی ایک للکار بلند ہونے لگی۔
’’کشتیوں تک پہنچو……کشتیاں بیکار کر دو……کشتیاں پکڑ لو۔‘
اس للکار نے آتش پرستوں کا رہا سہا دم خم بھی توڑ دیا۔زندہ بھاگ نکلنے کا ذریعہ یہی کشتیا ں تھیں جو مسلمانوں نے دیکھ لی تھیں۔ایرانیوں نے لڑائی سے منہ موڑ کر کشتیوں کا رخ کیا۔وہ ایک دوسرے سے پہلے کشتیوں میں سوارہونے کیلئے دھکم پیل کرنے لگے۔ان کی حالت ڈری ہوئی بھیڑوں کی مانند ہو گئی۔جو ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کیا کرتی ہیں۔ایرانی سپاہیوں نے کشتیوں پر سوار ہونے کیلئے گھوڑے چھوڑ دیئے۔حالانکہ کشتیاں اتنی بڑی تھیں کہ ان پر گھوڑے بھی لے جائے جا سکتے تھے۔یہ تھا وہ موقع جب مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں آتش پرستوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔وہ کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش میں کٹ رہے تھے۔ان میں سے جوکشتیوں میں سوار ہو گئے اور رسّے کھول کر کشتیاں کنارے سے ہٹا لے گئے ،ان میں زیادہ تر مسلمانوں کے تیروں کا نشانہ بن گئے ۔پھر بھی کچھ خوش نصیب تھے جو بچ کر نکل گئے۔تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں تیس ہزار ایرانی فوجی مارے گئے۔زخمیوں کی تعداد کسی نے نہیں لکھی۔تصور کیاجا سکتا ہے کہ جہاں اتنی اموات ہوئیں وہاں زخمیوں کی تعداد ان کے ہی لگ بھگ ہو گی۔اس کا مطلب یہ تھاکہ شہنشاہِ فارس کی اس جنگی قوت کابت ٹوٹ گیا تھا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔اﷲکی تلوار نے کِسریٰ کی طاقت اور غرور پر کاری ضرب لگائی تھی جس نے مدائن میں کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔دریائے معقل کے کنارے خون میں ڈوب گئے تھے۔میدانِ جنگ کا منظر بڑا ہی بھیانک تھا۔دور دور تک لاشیں اور تڑپتے زخمی بکھرے نظر آتے تھے۔زخمی گھوڑے دوڑتے پھرتے اور زخمیوں کو روندتے پھررہے تھے۔مجاہدین ِ اسلام اپنے زخمی ساتھیوں کو اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔میدان خون سے لال ہو گیا تھا۔خالدؓ ایک بلند جگہ پر کھڑے میدانِ جنگ کو دیکھ رہے تھے۔ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا آیا۔اس نے خالدؓ کے قریب آکر گھوڑا روکا۔وہ مثنیٰ بن حارثہ تھے۔گھوڑا خالدؓکے پہلوکے ساتھ کرکے مثنیٰ گھوڑے پر ہی خالدؓ سے بغلگیر ہو گئے۔
’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں نے آج مظلوم مسلمانوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔‘‘’’ابھی نہیں ابنِ حارثہ!‘‘خالد ؓنے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔’’ابھی تو ابتداء ہے۔ہمارے لیے اصل خطرہ اب شروع ہوا ہے۔کیا تم نے ان کشتیوں کی تعداد نہیں دیکھی ؟کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ کشتیاں کتنی بڑی اور کتنی مضبوط تھیں؟اور تم نے یہ بھی دیکھا ہو گاکہ فارسیوں کے پاس سازوسامان کس قدر زیادہ ہے۔ان کے وسائل بڑے وسیع ہیں۔ہم اپنے وطن سے بہت دورآگئے ہیں۔ہمیں اب انہی سے ہتھیار اور رسد چھین کر اپنی ضرورت پوری کرنی ہے۔یہ کام آسان نہیں ہے ابنِ حارثہ۔اور میرے لیے یہ بھی آسان نہیں ہے کہ میں ان دشواریوں اور محرومیوں سے گھبراکر یہیں سے واپس چلا جاؤں۔‘‘’’ہم واپس نہیں جائیں گے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے پرعزم لہجے میں کہا۔’’ہمیں کسریٰ کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔ہمیں ان آتش پرستوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ جھوٹے ـ’’خدا‘‘کسی کی دستگیری نہیں کر سکتے۔‘‘
خالدؓنے اپنے سالاروں کو بلایا۔اس سے پہلے وہ مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دے چکے تھے۔’’ہماری مشکلات اب شروع ہوئی ہیں۔خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم اس وقت دشمن کی سرزمین پر کھڑے ہیں ۔یہاں کے درخت اور یہاں کے پتھر اور اس مٹی کا ذرہ ذرہ ہمارا دشمن ہے۔یہاں کے لوگ ہمارے لیے اجنبی ہیں ۔ان لوگوں پر فارس کی شہنشاہی کی دہشت طاری ہے،یہ لوگ اردشیر کو فرعون سمجھتے ہیں۔یہ بڑی مشکل سے مانیں گے کہ کوئی ایسی طاقت بھی ہے جس نے فارس کی شہنشاہی کا بت توڑ ڈالاہے……‘‘’’میرے رفیقو!یہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے بغیر ہم یہاں اک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ہم کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ہم محبت سے ان کے دل موہ لینے کی کوشش کریں گے اور جس پر ہمیں ذرا سا بھی شک ہوگا کہ وہ ہمیں ظاہری طور پر یا درپردہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہاہے ۔ہم اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیں گے۔ہم ان لوگوں کو غلام بنانے نہیں آئے۔ہم انہیں غلامی سے اور باطل کے عقیدوں سے نجات دلانے آئے ہیں۔جو علاقے ہم نے لے لیے ہیں ان کے انتظامی امور کی طرف فوری توجہ دینی ہے۔یہاں مسلمان بھی آباد ہیں ۔وہ یقینا ہمارا ساتھ دیں گے ،لیکن میرے دوستو! کسی پر صرف اس لئے اعتبار نہ کرلینا کہ وہ مسلمان ہے غلامی اتنی بری چیز ہے کہ انسانوں کی فطرت بدل ڈالتی ہے……‘‘’’یہاں کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر ان سے معلوم کرنا ہے کہ شہنشاہِ فارس کے حامی کون کون ہیں؟ان کی چھان بین کرکے ان کے درجے مقرر کرنے ہیں۔ جن پر ذرا سا بھی شک ہو اسے گرفتار کر لو اور جو غیر مسلم سچے دل سے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی دعوت دو……میں مختلف شعبے قائم کر رہا ہوں۔ــ‘‘خالدؓ نے مفتوحہ علاقوں کے باشندوں پر سب سے زیادہ توجہ دی۔انہوں نے اعلان کیاکہ جو غیر مسلم باشندے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں گے ان سے جذیہ وصول کیا جائے گا اور مسلمان انہیں اپنی پناہ میں سمجھیں گے ۔ان کی ضروریات اور ان کی جان و مال کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔اس اعلان کے ساتھ ہی بیشتر باشندے مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے ۔خالدؓ نے اس علاقے سے جذیہ اور محصولات وغیرہ جمع کرنے کیلئے ایک شعبہ قائم کر دیا جس کا نگران ــ’’سوید بن مقرن‘‘ کو مقررکیا گیا ۔دوسرا شعبہ جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ جاسوسی کا شعبہ تھا اب باقاعدہ اور ماہرانہ جاسوسی کی ضرورت تھی۔ خالدؓ نے اسی وقت اپنے جاسوس جو اسی علاقے کے رہنے والے مسلمان تھے دریائے فرات کے پاربھیج دیئے ۔جب مالِ غنیمت جمع ہو گیا تو دیکھا کہ یہ جنگِ سلاسل کی نسبت خاصا زیادہ تھا۔خالدؓ نے اس کے پانچ حصے کیے۔ چار اپنی سپاہ میں تقسیم کرکے پانچواں حصہ مدینہ بھیج دیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے خالد ؓکو اتنا سنجیدہ ااور اتنا متفکر کبھی نہیں دیکھا گیاتھا جتنا وہ اب تھے۔
مئی ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے جو ماہِ صفر ۱۲ ہجری کا تیسرا ہفتہ تھا زرتشت کے پجاریوں کیلئے دریائے فرات کا سر سبز و شاداب خطہ جہنم بن گیا تھا۔ کس قدر ناز تھا انہیں اپنی جنگی طاقت پر، اپنی شان و شوکت پر ،اپنے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر، وہ تو فرعونوں کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تھے اور کسریٰ دہشت کی علامت بنتا جا رہا تھا ۔دجلہ اور فرات کے سنگم کے وسیع علاقے میں خالدؓ نے جنہیں رسولِ اکرمﷺ نے اﷲکی تلوار کا خطاب دیاتھا فارس کے زرتشتوں کو بہت بری شکستیں دی تھیں اور ان کے ہرمز قارن بن قریانس ،انوشجان اور قباذ جیسے سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لیکن کسریٰ اردشیر نے ابھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔اس کے پاس ابھی بے پناہ فوج موجود تھی اور مدینہ کے مجاہدین کو وہ اب بھی بدو اور صحرائی لٹیرے کہتا تھا ۔اس نے شکست تسلیم تو نہیں کی تھی لیکن شکست اور اپنے نام ور سالاروں کی مسلمانوں کے ہاتھوں موت کا جو اسے صدمہ ہوا تھا اسے وہ چھپا نہیں سکا تھا ۔ہرمز کی موت کی اطلاع پر وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دہرا ہو گیا تھا ۔اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ایسے مرض کا آغاز ہو چکا تھا جس نے اسے بستر پر گرا دیا تھا۔ مؤرخوں نے اس مرض کو صدمہ کا اثر لکھاہے۔’’کیا میرے لیے شکست اور پسپائی کے سوا اب کوئی خبر نہیں رہ گئی ؟‘‘اس نے بستر پہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گرج کر کہا ۔’’کیا مدینہ کے مسلمان جنات ہیں؟کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتے؟اور وار کر جاتے ہیں۔‘‘طبیب، اردشیر کی منظورِ نظر دوجواں سال بیویاں اور اس کا وزیر حیران و پریشان کھڑے اس قاصد کو گھور رہے تھے جو ایرانیوں کی فوج کی ایک اور شکست اور پسپائی کی خبر لایا تھا۔اس کے آنے کی جب اطلاع اندر آئی تو طبیب نے باہر جاکر قاصد سے پوچھا تھا کہ وہ کیا خبر لایا ہے؟ قاصد نے خبر سنائی تو طبیب نے اسے کہا تھا کہ وہ کسریٰ کو ابھی ایسی بری خبر نہ سنائے کیونکہ اس کی طبیعت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔لیکن یہ قاصد کوئی معمولی سپاہی نہیں تھا کہ وہ طبیب کا کہا مان جاتا ۔وہ پرانا کماندار تھا۔ اس کا عہدہ سالاری سے دو ہی درجہ کم تھا۔اسے کسی سالار نے نہیں بھیجا تھا ۔اسے بھیجنے کیلئے کوئی سالار زندہ نہیں بچا تھا۔طبیب کے روکنے سے وہ نہ رکا اس نے کہا کہ اسے کسریٰ کی صحت کا نہیں، فارس کی شہنشاہی اور زرتشت کی عظمت کا غم ہے۔اگر شہنشاہ اردشیرکو اس نے دجلہ اور فرات کی جنگی کیفیت کی پوری اطلاع نہ دی تو مسلمان مدائن کے دروازے پر آ دھمکیں گے ۔اس نے طبیب کی اور کوئی بات نہ سنی ،اندر چلا گیااور اردشیر کو بتایا کہ مسلمانوں نے فارس کی فوج کو بہت بری شکست دی ہے۔اردشیر لیٹاہوا تھا ،اٹھ بیٹھا ،غصے سے اس کے ہونٹ اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔’’شہنشاہِ فارس!‘‘ کماندار نے کہا۔’’مدینہ والے جنات نہیں ۔وہ سب کو نظر آتے ہیں لیکن……‘‘ ’’کیا قارن مر گیا تھا؟‘‘اردشیر نے غصے سے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہ !‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’وہ ذاتی مقابلے میں مارا گیاتھا۔اس نے دونوں فوجوں کی لڑائی تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘’’مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ قباذ اور انوشجان بھی اس کے ساتھ تھے۔‘‘’’وہ بھی قارن کے انجام کو پہنچ گئے تھے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’وہ قارن کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے ۔دونوں نے اکھٹے آگے بڑھ کر مدینہ کے سالاروں کو للکارا اور دونوں مارے گئے۔شہنشاہِ فارس! کیا فارس کی اس عظیم شہنشاہی کو اس انجام تک پہنچنا ہے؟نہیں نہیں……گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، اگر کسریٰ نے صدمے سے اپنے آپ کو یوں روگ لگالیا تو کیا ہم زرتشت کی عظمت کو مدینہ کے بدوؤں سے بچا سکیں گے؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’میں کماندار ہوں ۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ۔میں زرتشت کا جانثا ر ہوں۔‘‘’’دربان کو بلاؤ۔‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’تم نے مجھے نیا حوصلہ دیا ہے۔مجھے یہ بتاؤکیا مسلمانوں کی نفری زیادہ ہے؟کیا ان کے پاس گھوڑے زیادہ ہیں؟کیا ہے ان کے پاس؟‘‘دربان اندر آیااور حکم کے انتظار میں جھک کر دہرا ہو گیا۔’’سردار اندرزغر کو فوراًبلاؤ۔‘‘اردشیر نے دربان سے کہااور کماندار سے پوچھا ۔’’کیا ہے ان کے پاس؟ بیٹھ جاؤ اور مجھے بتاؤ۔‘‘’’ہمارے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ان میں لڑنے کا جذبہ ہے ۔میں نے ان کے نعرے سنے ہیں۔وہ نعروں میں اپنے خدا اور رسول )ﷺ(کو پکارتے ہیں ۔میں نے ان میں اپنے مذہب کا جنون دیکھا ہے۔ وہ اپنے عقیدے کے بہت پکے ہیں اور یہی ان کی طاقت ہے۔ہر میدان میں انکی تعداد تھوڑی ہے۔‘‘’’ٹھہر جاؤ۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’اندرزغر آ رہا ہے۔مجھے اپنے اس سالار پر بھروسہ ہے۔ اسے بتاؤ کہ ہماری فوج میں کیا کمزوری ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھاگ آتی ہے۔‘‘’’اندرزغر!‘‘ اردشیر بستر پرنیم دراز تھا۔اپنے ایک اور نامور سالار سے کہنے لگا۔’’کیا تم نے سنا نہیں۔کہ قارن بن قریان بھی مارا گیا ہے۔قباذ بھی مارا گیا اور انوشجان بھی مارا گیا ہے۔‘‘اندرزغر کی آنکھیں ٹھہر گئیں جیسے حیرت نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ہو۔’’اسے بتاؤ کماندار!‘‘ اردشیر نے کماندار سے کہا۔’’کیا میں ان حالات میں زندہ وہ سکوں گا؟‘‘کماندار نے سالار اندرزغر کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں دریائے معقل کے کنارے کس طرح شکست دی ہے اور یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ مدائن کی فوج کس طرح بھاگی ہے۔’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’ہم اب ایک اور شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔مسلمانوں سے صرف شکست کا انتقام نہیں لینا ۔ان کی لاشیں فرات میں بہا دینی ہیں ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ فوج لے کر جاؤ۔ تم اس علاقے سے واقف ہو۔ تم بہتر سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کو کہاں گھسیٹ کر لڑانا چاہیے۔‘‘’’وہ ریگستان کے رہنے والے ہیں ۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’اور وہ ریگستان میں ہی لڑ سکتے ہیں۔میں انہیں سر سبز اور دلدلی علاقے میں آنے دوں گااور ان پر حملہ کروں گا۔میری نظر میں دلجہ موزوں علاقہ ہے۔‘‘اس نے کماندار سے پوچھا ۔’’ان کے گھوڑ سوار کیسے ہیں؟‘‘’’ان کے سوار دستے ہی ان کی اصل طاقت ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ان کے سوار بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔دوڑتے گھوڑوں سے ان کے چلائے ہوئے تیر خطا نہیں جاتے ۔ان کے سواروں کا حملہ بہت ہی تیز ہوتا ہے۔وہ جم کر نہیں لڑتے۔ایک ہلہ بول کر اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘’’یہی وہ راز ہے جو ہمارے سالار نہیں سمجھ سکتے۔‘‘اندرزغر نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔’’مسلمان آمنے سامنے کی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے ۔ہم ان سے کئی گنا زیادہ فوج لے جائیں گے۔ میں انہیں اپنی فوج کے نیم دائرے میں لے کر مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے آمنے سامنے کی لڑائی لڑیں ۔‘‘’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’یہاں بیٹھ کر منصوبہ بنا لینا آسان ہے لیکن دشمن کے سامنے جا کر اس منصوبے پر اس کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اس کماندار نے ایک بات بتائی ہے اس پر غور کرو۔یہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کے وفادار ہیں اور وہ اپنے خدا اور اپنے رسول کا نام لے کر لڑتے ہیں۔کیا ہماری فوج میں اپنے مذہب کی وفاداری ہے؟‘‘
’’اتنی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے اور اس پر بھی غور کرو اندرزغر!مسلمان اپنے علاقے سے بہت دور آ گئے ہیں۔یہ ان کی کمزوری ہے۔ یہاں کے لوگ ان کے خلاف ہوں گے۔‘‘ ’’نہیں شہنشاہ!‘‘کماندار نے کہا۔’’فارس کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ ان کا سلوک ایسا ہے کہ لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔وہ قتل صرف انہیں کرتے ہیں جن پر انہیں کچھ شک ہوتا ہے۔‘‘’’یہاں کے وہ عربی لوگ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتے جو عیسائی ہیں۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’میرے دل میں ان لوگوں کی جو محبت ہے اسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔میں انہیں اپنی فوج میں شامل کروں گا۔ ہم یہاں کے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ باغی رہے ہیں۔ان پر ہمیں کڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ان کی وفاداریاں مدینہ والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘’’ان مسلمانوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ برا سلوک کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’انہیں اٹھنے کے قابل نہ چھوڑو۔‘‘’’ہم نے انہیں مویشیوں کا درجہ دے رکھا ہے۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’انہیں بھوکا رکھا ہے۔ان کے کھیتوں سے ہم فصل اٹھا کر لے آتے ہیں اور انہیں صرف اتنا دیتے ہیں جس پر وہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں۔لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے باز نہیں آتے۔ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔‘‘’’یہی ان کی قوت ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ورنہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔کپڑوں میں ملبوس آدمی زرہ پوش کر قتل نہیں کر سکتا۔مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا ہے۔‘‘’’میں اس قوت کو کچل ڈالوں گا ۔‘‘اردشیر نے بلند آواز سے کہا۔’’اندرزغر ابھی ان مسلمانوں کو نہ چھیڑنا جو ہماری رعایا ہیں۔انہیں دھوکا دو کہ ہم انہیں چاہتے ہیں۔پہلے ان کا صفایا کرو جنہوں نے ہماری شہنشاہی میں قدم رکھنے کی جرات کی ہے۔اس کے بعد ہم ان کا صفایا کریں گے جو ہمارے سائے میں سانپوں کی طرح پل رہے ہیں۔‘‘اسی روز اردشیر نے اپنے وزیر اندرزغر اور اس کے ماتحت سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم مدینہ پر حملہ کرتے اور اسلام کا وہیں خاتمہ کر دیتے۔لیکن حملہ انہوں نے کر دیا ہے اور ہماری فوج ان کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔’’صرف دو معرکوں میں ہمارے چار سالار مارے گئے ہیں۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ان چاروں کو میں اپنی جنگی طاقت کے ستون سمجھتا تھا۔لیکن ان کے مر جانے سے کسریٰ کی طاقت نہیں مر گئی۔سب کان کھول کر سن لو جو سالار یا نائب سالار شکست کھا کر واپس آئے گا اسے میں جلاد کے حوالے کر دوں گا۔اس کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی ختم کر لے یا کسی اور طرف نکل جائے۔فارس کی سرحد میں قدم نہ رکھے۔‘‘
’’اندرزغر تم مدائن اور اردگرد سے جس قدر فوج لے جانا چاہو، لے جاؤ۔سالار بہمن کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر فوج کے ساتھ فرات کے کنارے دلجہ کے مقام پر پہنچ جائے۔تم اس سے جلدی دلجہ پہنچ جاؤ گے وہاں خیمہ زن ہو کر بہمن کا انتظار کرنا جونہی وہ آجائے دنوں مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنا۔ان کا کوئی آدمی اور کوئی ایک جانور بھی زندہ نہ رہے۔ان کی تعداد تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔میں کوئی مسلمان قیدی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں ان کی لاشیں دیکھنا چاہتا ہوں۔میں دیکھنے آؤں گا کہ ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار ان کی لاشوں کے درمیان پڑے ہیں۔تمہیں زرتشت کے نام پر حلف اٹھانا ہوگا کہ فتح حاصل کرو گے یا موت۔‘‘’’اندرزغردونوں فوجوں کاسپہ سالار ہوگا۔اندرزغر تمہارے ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ بھی سوچ لو کہ مسلمان اور آگے بڑھ آئے اور ہمیں ایک اور شکست ہوئی تورومی بھی ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔‘‘’’شہنشاہِ فارس اب شکست کی آواز نہیں سنیں گے۔‘‘سالار اندرزغرنے کہا۔’’مجھے اجازت دیں کہ میں عیسائیوں کو اپنے ساتھ لے لوں اس سے میری فوج میں بے شمار اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘’’تم جو بہتر سمجھتے ہو وہ کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’لیکن میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔اگر عیسائی تمہارے ساتھ وفا کرتے ہیں تو انہیں ساتھ لے لو۔‘‘یہ عراق کا علاقہ تھا ۔جہاں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور یہ عیسائی جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے عراق کے اس علاقے میں اکھٹے ہوتے رہے اور یہیں آباد ہو گئے۔ان میں وہ بھی تھے جو کسی وقت ایرانیوں کے خلاف لڑے اور جنگی قیدی ہو گئے تھے۔ایرانیوں نے انہیں اس علاقے میں آباد ہونے کیلئے آزاد کر دیا تھا۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔انہیں مثنیٰ بن حارثہ جیساقائد مل گیا تھا جس نے انہیں پکا مسلمان بنادیا تھا۔ مسلمانوں پر تو ایرانی بے پناہ ظلم و تشدد کرتے تھے لیکن عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے زرتشتی سالار اندرزغر ہرمز کی طرح ظالم نہیں تھا۔مسلمانوں پر اگر وہ ظلم نہیں کرتا تھا تو انہیں اچھا بھی نہیں سمجھتا تھا ۔عیسائیوں کے سا تھ اس کا سلوک بہت اچھا تھا،اسے اب عیسائیوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے ان کے قبیلے بکر بن وائل کے بڑوں کو بلایا۔وہ اطلاع  ملتے ہی دوڑے آئے۔’’اگر تم میں سے کسی کو میرے خلاف شکایت ہے تو مجھے بتاؤ۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’میں اس کا ازالہ کروں گا۔‘‘’’کیایہ بہتر نہیں ہوگا کہ سالار ہمیں فوراًبتا دے کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔’’ہم آپ کی رعایا ہیں۔ہمیں شکایت ہوئی بھی تو نہیں کریں گے۔‘‘’’ہمیں کوئی شکایت نہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’آپ نے جو کہنا ہے وہ کہیں۔‘‘’’مسلمان­بڑھے چلے آ رہے ہیں۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’شہنشاہَِ فارس کی فوج انہیں فرات میں ڈبو دے گی۔لیکن ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔ ہمیں تمہارے جوان بیٹوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اگر شہنشاہِ فارس کی فوج اسلامی فوج کو فرات میں ڈبو دے گی تو آپ کو ہمارے بیٹوں کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟‘‘وفد کے بڑوں میں سے ایک نے پوچھا۔’’ہم سن چکے ہیں کہ فارس کی فوج کے چار سالار مارے گئے ہیں۔ آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہیں؟ہم آپ کی رعایا ہیں،ہمیں حکم دیں۔ہم سرکشی کی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘’’میں کسی کو اپنے حکم کا پابند کرکے میدانِ جنگ میں نہیں لے جانا چاہتا۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔’’ میں تمہیں تمہارے مذہب کے نام پر فوج میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ہمیں زمین کے کسی خطے کیلئے نہیں اپنے مذہب اور اپنے عقیدوں کے تحفظ کیلئے لڑنا ہے۔ مسلمان صرف اس لئے فتح پر فتح حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں ۔جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے مسلمان جذیہ وصول کرتے ہیں۔‘‘’’کیا یہ غلط ہے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو اس لئے اپنے گھروں سے بھاگے تھے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسلمان آجائیں اور تمہاری عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں؟کیا تم برداشت کر لو گے کہ مسلمان تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں ؟ذرا غور کرو تو سمجھو گے کہ ہمیں تمہاری نہیں بلکہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ہم تمہیں ایک فوج دے رہے ہیں ۔اسے اور زیادہ طاقتور بناؤ اور اپنے مذہب کو ایک بے بنیاد مذہب سے بچاؤ۔‘‘اندرزغرنے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ وہ اسی وقت واپس گئے اور )مؤرخوں کی تحریر کے مطابق (اپنے قبیلے کی ہر بستی میں جاکر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتا چلا آ رہا ہے ۔وہ صرف اسی کوبخشتے ہیں جو ان کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ وہ جوان اور کم سن لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔’’اپنی لڑکیوں کو چھپا لو۔‘‘’’مال ہ دولت زمین میں دبا دو۔‘‘’’عورتیں بچوں کو لے کر جنگلوں میں چلی جائیں۔‘‘’’جوان آدمی ہتھیار گھوڑے اور اونٹ لے کر ہمارے ساتھ آ جائیں۔‘‘
’’شہنشاہِ فارس کی فوج ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘’’یسوع مسیح کی قسم! ہم اپنی عزت پر کٹ مریں گے۔‘‘’’اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ایک شور تھا،للکار تھی جو آندھی کی طرح دشت و جبل کو جن و انس کو لپیٹ میں لیتی آ رہی تھی۔کوئی بھی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟کس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے؟کدھر سے آ رہا ہے؟ جوش و خروش تھا۔ عیسائی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ بیویاں خاوندوں کو اور بہنیں بھائیوں کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ایک فوج تیار ہوتی جا رہی تھی جس کی نفری تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسریٰ کی فوج کے کماندار وغیرہ آ گئے تھے۔ وہ ان لوگوں کو ایک جگہ اکھٹاکرتے جا رہے تھے جو کسریٰ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے آ رہے تھے۔
ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہو رہے تھے ۔سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا ۔بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا۔ بستی دن کی طرح بے دار اور سر گرم تھی۔دو آدمی جو اس بستی والوں کیلئے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہو گئے۔’’ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں ۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں اور شاید مدائن تک چلے جائیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘’’تم ہو کون؟‘‘کسی نے ان سے پوچھا۔’’مذہب کیا ہے تمہارا؟‘‘دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں اور اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں۔’’پھر تم مدائن جا کر کیا کرو گے؟ ‘‘انہیں ایک بوڑھے نے کہا ۔’’تم تنومند ہو ۔تمہارے جسموں میں طاقت ہے ۔کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے؟کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے؟‘‘’’نہیں!‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ۔ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں۔‘‘وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔ ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے ۔’’سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو؟‘‘کماندار نے کہا۔’’ہاں۔‘‘ایکنے کہا۔’’ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔‘‘’’ہاں ہو رہی ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو؟‘‘’’عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں ۔ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے۔تمہارے ساتھ رہیں گے۔ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھا جاتی ہے۔‘‘’’اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ۔‘‘اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا۔پھر ایرانی کماندار سے کہا۔’’ہمیں معمولی دماغ کے آدمی نہ سمجھنا۔ہم تمہیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیاہے؟اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور تم لوگ انہیں کہاں لا کر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو۔ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتا دینا۔‘‘ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈہ زمین میں گاڑھ دیا گیا۔یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے ۔انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیاکہ کماندار بہت متاثر ہوا۔’’اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آ رہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کر سکتے ہیں۔‘‘’’دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے آ رہی ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘’’بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آئیں۔‘‘ایک اجنبی عیسائی نے کہا۔
’’وہ مختلف سمتوں سے آ رہی ہیں۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزغر کی زیرِ کمان آ رہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک نامور سالار بہمن جازویہ لا رہا ہے۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکھٹی ہوں گی۔ ان کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہو گا ۔چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیئے ہیں۔‘‘’’تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘دوسرے نے کہا ۔’’تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے۔ مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانت دیکھی ہے ۔تم سالار نہیں تو نائب سالار کے عہدے کے لائق ضرور ہو۔‘‘’’تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ہم اپنے گھوڑے لے آئیں؟‘‘ دونوں میں سے ایک نے کہا۔’’ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے۔‘‘’’صبح کوچ ہو رہا ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کیلئے جا رہے ہیں ایک جگہ جمع کیاجا رہا ہے۔تم ان کے ساتھ آ جانا۔ میں تمہیں مل جاؤں گا۔‘‘دونوں بستی سے نکل گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور جا کر ایک درخت کے ساتھ باندھ دیئے اور بستی میں پیدل گئے تھے۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑپڑے اور اپنے گھوڑوں پر جا سوار ہوئے ۔’’کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف!‘‘ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہمیں پہنچنا پڑے گا خواہ اڑکر پہنچیں۔‘‘بن آصف نے کہا ۔’’یہ خبر ابنِ ولید تک بر وقت نہ پہنچی توہماری شکست لازمی ہے۔گھوڑے تھکے ہوئے نہیں۔اﷲکا نام لو اور ایڑھ لگا دو۔‘‘دونوں نے ایڑھ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے۔’’اشعر !‘‘بن اآصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا۔’’یہ تو طوفان ہے ۔اب آ تش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو، کئی ہزار ہو گی۔‘‘’’میں نے اپنے سالار ابنِ ولید کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے اشعر؟‘‘بن آصف نے کہا۔’’ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آ گئے ہیں۔‘‘
’’اﷲہمارے ساتھ ہے۔‘‘اشعر نے کہا۔’’آتش پرست اس زمین کیلئے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم اﷲ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے۔‘‘یہ دونوں گھوڑ سوار خالدؓ کے اس جاسوسی نظا م کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالدؓ نے فارس کی سرحد کے اندر آ کر قائم کیا تھا۔انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آ گئے ہیں۔جہاں اﷲ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔خالد ؓنے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے ہر طرف اپنے ٓنکھیں بچھا رکھی تھیں۔
خالدؓ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے۔سوار کود کر اترے۔ خالدؓ نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کران کے قریب جا رکے ۔گھوڑوں کا پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ان کی سانسیں پھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔’’اشعر!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟‘‘’’اندر چلو، ذرا دم لے لو۔‘‘’’دم لینے کا وقت نہیں سالار!‘‘بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔’’آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ہم نے یہ خبرعیسائیوں کی ایک بستی سے لی ہے ۔بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے، یہ مدائن کی فوج کے ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔دوسری فوج بہمن جازویہ کی زیرِ کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔‘‘’’کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘اشعر نے جواب دیا۔’’دونوں فوجیں دلجہ میں اکھٹا ہوں گی۔‘‘’’اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کماندار نے یہی بتایا ہے۔‘‘بن آصف بولا۔ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا ۔اس نے خالد ؓکو بتایا کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔یہ بھی ایک جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا۔جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔مگر ہوا یوں کے اندرزغر پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا ۔اس لئے اردشیر اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو دن بعد روانہ ہوا۔کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند تھی ۔اردشیر نے کہا تھا کہ وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔چنانچہ اس نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔
اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھاکر بھاگے تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے ۔وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج کا قتلِ عام ہوا تھا۔انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔اس لیے وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت بہت بری تھی۔ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔ اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا،کشتیاں خون سے بھر گئی تھیں۔زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی،کشتیاں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں،اور دور دور کنارے سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف چل پڑے تھے۔وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے تھے۔ پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے دیکھا تو بھاگ اٹھے۔وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل کر لیا گیا۔کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے ۔ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے ۔بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے تھے۔’’پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو۔‘‘ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی ۔شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں ،مسلمانوں کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جوایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے تھے۔
خالدؓ کے جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی انہیں دی کہ پچھلے معرکے کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی مدائن سے آنے والی فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔’’میرے عزیرساتھیو!‘‘خالدؓنے انہیں کہا۔’’ ہم یہاں صرف اﷲکے بھروسے پر لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توہم فارس کی فوج سے ٹکر لینے کے قابل نہیں۔اپنے وطن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں کمک نہیں مل سکتی۔ ہم واپس بھی نہیں جائیں گے ۔ہم فارسیوں کو اور کسریٰ کو نہیں آگ کے خداؤں کو شکست دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’میں تم سب کے چہروں پر تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری آنکھیں بھی تھکی تھکی سی ہیں اور تمہاری باتوں میں بھی تھکن ہے لیکن ربِ کعبہ کی قسم !ہماری روحیں تھکی ہوئی نہیں۔ ہمیں اب روح کی طاقت سے لڑناہے ۔‘‘’’ایسی باتیں زبان پر نہ لا ابنِ ولید!‘‘ایک سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ ہمارے چہروں پر تھکن کے آثار ہیں مایوسی کے نہیں ۔‘‘’’ہمارے ارادوں میں کوئی تھکن نہیں ابنِ ولید۔‘‘دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’ہم نے آرام کر لیا ہے ۔سپاہ نے بھی آرام کر لیا ہے۔‘‘’’میں اسی لیے یہاں خیمہ زن ہوگیاتھا کہ اﷲکے سپاہی آرام کر لیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’تمہارے ارادے تھکے ہوئے نہیں تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں دوسری باتیں کرنا چاہتا ہوں جو زیادہ ضروری ہیں۔تم نے دیکھا ہے کہ ہم نے فارسیوں کو پہلے معرکے میں شکست دی تو وہ پھر ہمارے سامنے آ گئے ۔ان کے ساتھ ان کے وہ سپاہی بھی آ گئے جو پہلے معرکے سے بھاگے تھے ۔اب مجھے پھر اطلاع ملی ہے کہ دوسرے معرکے سے بھاگے ہوئے سپاہی مدائن سے آنے والی فوج کے سا تھ راستے میں ملتے آ رہے ہیں۔ اب تمہیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اگلے معرکے میں آتش پرستوں کا کوئی سپاہی زندہ نہ جا سکے ۔ہلاک کرو یا پکڑ لو۔ کسریٰ کی فوج کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہوں۔‘‘’’ہمارا اﷲ یونہی کرے گا۔‘‘تین چار آوازیں سنائی دیں۔’’سب اﷲکے اختیار میں ہے ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ ہم اسی کی خوشنودی کیلئے گھروں سے اتنی دور آگئے ہیں ۔اب جو صورت ہمارے سامنے ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جواب آ رہی ہے ،ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔لیکن پسپائی کو دل سے نکال دو۔تازہ اطلاعوں کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئی ہے۔آج رات فرات کو بھی عبورکر لے گی،پھر وہ دلجہ پہنچ جائے گی،ان کی دوسری فوج بھی آ رہی ہے۔ہمارے جاسوس اس کا کوچ دیکھ رہے ہیں اور مجھے اطلاعیں دے رہے ہیں……‘‘’’خدائے ذوالجلال ہماری مدد کر رہا ہے ۔یہ اسی کی ذاتِ باری کا کرم ہے کہ فارس کی یہ دوسری فوج جو اک سالار بہمن جاذویہ کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔اس کی رفتار تیز نہیں ۔وہ پڑاؤ زیادہ کر رہی ہے۔ہم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر لے سکتے ہیں ۔میری عقل اگر صحیح کام کر رہی ہے تو میں یہی ایک بہتر طریقہ سمجھتا ہوں کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کے ساتھ آ رہی ہے وہ دلجہ تک جلدی پہنچ جائے گی۔پیشتر اس کے کہ بہمن کی فوج بھی اس سے آ ملے،ہم اندرزغر پر حملہ کر دیں گے ،کیا میں نے بہتر سوچا ہے؟‘‘
’’اس سے بہتر اورکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘سالار عاصم نے کہا۔’’مجھے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرہی ہے۔اس فوج میں عیسائیوں کی فوج کے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں جو لڑنا تو جانتے ہوں گے لیکن انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکے کا تجربہ نہیں ۔میں انہیں ایک مسلح ہجوم کہوں گا ۔دشمن کی دوسری کمزوری وہ سپاہی ہیں جو پچھلے معرکے سے بھاگے ہوئے مدائن کی فوج کو راستے میں ملے تھے۔مجھے یقین ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہوں گے۔انہوں نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو تلواروں تیروں اور برچھیوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے،پسپائی کی صورت میں وہ سب سے پہلے بھاگیں گے۔‘‘’’خدا کی قسم عمرو!‘‘خالدؓ نے پرجوش آواز میں کہا۔’’تجھ میں وہ عقل ہے جو ہر بات سمجھ لیتی ہے۔‘‘خالدؓ نے ان سب پر نگاہ دوڑائی جو وہاں موجود تھے۔انہوں نے کہا۔’’تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجھ سکاہو۔لیکن دشمن کے اس پہلو کو نہ بھولنا کہ اس کے پاس سازوسامان اور رسد اور کمک کی کمی نہیں۔صرف اندرزغر کی فوج ہماری فوج سے چھ گنا زیادہ ہے۔میں نے جو طریقہ سوچا ہے وہ موزوں اور موثر ضرور ہوگا لیکن آسان نہیں۔لڑنا سپاہ نے ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔پھر بھی انہیں اچھی طرح سے سمجھا دوکہ ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے اور ہم مدائن میں ہوں گے یا خدائے بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے۔‘‘دومؤرخوں طبری اور یاقوت نے لکھا ہے کہ یہ فہم و فراست کی جنگ تھی۔اگر تعداد اور سازوسامان اور دیگر جنگی احوال وکوائف کو دیکھا جاتا تو آتش پرستوں اور مسلمانوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔خالدؓ کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ان کی راتیں گہری سوچ میں گذر رہی تھیں۔خیمہ گاہ میں وہ چلتے چلتے رک جاتے اور گہری سوچ میں کھو جاتے۔انہیں زمین پر بیٹھ کر انگلی سے مٹی پر لکیریں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔خالدؓ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس نہ آنے کا عہدکر چکے تھے۔انہوں نے حسبِ معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔پہلے کی طرح دائیں اور بائیں پہلوؤں پر سالارعاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا۔اپنے ساتھ انہوں نے صرف ڈیڑھ ہزار نفری رکھی جن میں پیدل تھے اور گھڑ سوار بھی۔اس تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کاحکم دیا ۔یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اس اطلاع کے مطابق دیا کہ اندرزغر کی فوج دریائے فرات عبور کر رہی ہے۔خالد ؓنے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ آتش پرست دلجہ میں جونہی پہنچیں ،وہ اس کے سامنے ہوں۔یہ جنگی فہم وفراست کا غیر معمولی مظاہرہ تھا۔ایسے ہی ہوا ،جیسے انہوں نے سوچاتھا۔اندرزغرکی فوج دلجہ پہنچی تو اسے خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرناتھا۔فوج اتنے لمبے سفر کی تھکی ہوئی خیمے گاڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شور بپا ہو گیا کہ بہمن جاذویہ کی فوج آ رہی ہے۔تما م سپاہ اس کے استقبال میں خوشی کا شوروغل مچانے لگی لیکن یہ شور اچانک خاموش ہو گیا۔’’یہ مدینہ کی فوج ہے۔‘‘کسی نے بلند آواز سے کہااور اس کے ساتھ یہ کئی آوازیں سنائی دیں۔’’دشمن آگیا ہے……تیار……ہوشیار۔‘
اندرزغر گھوڑے پر سوار آگے گیااور اچھی طرح دیکھا۔یہ خالدؓ کی فوج تھی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاؤ ڈال رہی تھی،یہ فوج خیمے نہیں گاڑ رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان لڑائی کیلئے تیار ہیں۔’’سالارِ اعلیٰ!‘‘اندرزغرکو ایک سالار نے کہا۔’’ہماری دوسری فوج نہیں پہنچی۔معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی دور ہے۔ورنہ ہم ان مسلمانوں کو ابھی کچل ڈالتے۔یہ تیار ہیں اور ہماری سپاہ تھکی ہوئی ہے۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کی تعداد کتنی تھوڑی ہے۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’بمشکل دس ہزار ہوں گے۔میں انہیں چیونٹیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ان کے گھوڑ سوار دستے کہاں ہیں؟‘‘’’کہاں ہو سکتے ہیں؟‘‘اس کے سالار نے کہا۔’’کھلا میدان ہے، جو کچھ ہے صاف نظر آ رہا ہے۔‘‘’’معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سالاروں کو اور کمانداروں کو ایک ایک کے چھ چھ نظر آتے رہے ہیں۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’شکست کھا کر بھاگنے والوں نے مدائن میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کا رسالہ بڑا زبردست ہے اور اس کے سوار لڑنے کے اتنے ماہر ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتے……مجھے تو ان کارسالہ کہیں نظر نہیں آرہا۔‘‘’’ہمیں جھوٹی اطلاعیں دی گئی ہیں۔‘‘سالار نے کہا۔’’ہم بہمن کا انتظارنہیں کریں گے،اس کے آنے تک ہم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے ہوں گے۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے ۔وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے یا خالد ؓکے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ تھے ۔آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔اندرزغر کیلئے یہ فتح بڑی آسان تھی۔خالد ؓنے اتنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی۔جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں وہ ہموار میدان تھا ۔اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں۔ ایک ٹیکری آگے جا کر مڑ گئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکھا تھا ۔ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہو گئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے۔خالدؓ نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغرنے اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا۔آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے۔لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی ۔اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔’’زرتشت کے پجاریو!‘‘اندرزغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا۔’’ یہ ہیں وہ مسلمان جن سے ہمارے ساتھیوں نے شکست کھائی ہے۔انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، کیا ان سے شکست کھا کر تم ڈوب نہیں مرو گے۔کیا تم انہیں فوج کہو گے؟یہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا گروہ ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ جائے۔‘‘وہ دن یونہی گزر گیا۔سالار ایک دووسرے کی فوج کو دیکھتے اور اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدھی کرتے رہے۔اگلے روز خالدؓ نے اپنی فوج کو حملے کا حکم دے دیا۔فارس کی فوج تہہ در تہہ کھڑی تھی۔مسلمانوں کا حملہ تیز اور شدید تھا لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کوپیچھے ہٹنا پڑا۔ دشمن نے اپنی اگلی صف کو پیچھے کرکے تازہ دم سپاہیوں کو آگے کر دیا۔خالدؓ نے ایک اور حملے کیلئے اپنے چند ایک دستوں کو آگے بھیجا۔ گھمسان کا معرکہ رہا لیکن مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔آتش پرستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ نیم زرہ پوش بھی تھے۔ مسلمانوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئے ہوں ۔
خالدؓ نے کچھ دیر اور حملے جاری رکھے مگر مجاہدین تھکن محسوس کرنے لگے۔متعدد مجاہدین زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔ خالدؓ نے اس خیال سے کہ ان کی فوج حوصلہ نہ ہار بیٹھے خود حملے کیلئے سپاہیوں کے ساتھ جانے لگے۔اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رہا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ آتش پرست ان پر قہقہے لگا رہے تھے۔اس وقت تک مسلمانوں نے خالدؓ کی زیرِ کمان جتنی لڑائیاں لڑی تھیں ان میں یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں میں اپنے سالارکے خلاف احتجاج کیا۔احتجاج دبا دبا ساتھا لیکن فوج میں بے اطمینانی صاف نظر آنے لگی۔ خالدؓ جیسے عظیم سالار کے خلاف سپاہیوں کی بے اطمینانی عجیب سی بات تھی۔وہ پوچھتے تھے کہ اپنا سوار دستہ کہاں ہے؟ وہ محسوس کر رہے تھے کہ خالدؓ اپنے مخصوص انداز سے نہیں لڑ رہے۔خالدؓ سپاہیوں کی طرح ہر حملے میں آگے جاتے تھے پھر بھی ان کے سپاہیوں کو کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔دشمن کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر بھی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ انہیں شکست نظر آنے لگی تھی۔آتش پرستوں نے ابھی ایک بھی ہلہ نہیں بولا تھا۔ اندرزغر مسلمانوں کو تھکا کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ مسلمان تھک چکے تھے ۔خالدؓاپنی فوج کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے اسی لیے انہوں نے حملے روک دیئے تھے ،وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا چال چلیں کہ آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیو ہیکل آدمی سامنے آیا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر کہاکہ جس میں میرے مقابلے کی ہمت ہے آگے آ جائے۔یہ ہزار مرد پہلوان اور تیغ زن تھا۔فارس میں ’’ہزار مرد‘‘ کا لقب اس جنگجو پہلوان کو دیا جاتا تھا جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ ہزار مردکا مطلب تھا کہ یہ ایک آدمی ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔اندرزغر اس دیو کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا ۔مسلمانوں میں اس کے مقابلے میں اترنے والا کوئی نہ تھا۔ خالدؓ گھوڑے سے کود کر اترے تلوار نکالی اور ہزار مرد کے سامنے جا پہنچے۔ کچھ دیردونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں اور دونوں پینترے بدلتے رہے۔آتش پرست پہلوان مست بھینسالگتا تھا ۔اس میں اتنی طاقت تھی کہ اس کا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دیتا ۔خالد ؓنے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وار کم کر دیئے اسے وار کرنے کا موقع دیتے رہے تاکہ وہ تھک جائے اس پر انہوں نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ خود تھک کر چور ہو گئے ہوں۔
ایرانی پہلوان خالدؓ کو کمزور اور تھکا ہوا آدمی سمجھ کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔کبھی تلوار گھماکر کبھی اوپر سے نیچے کو وار کرتا اور کبھی وار کرتا اور ہاتھ روک لیتا ۔وہ طنزیہ کلامی بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں لاپرواہ سا ہو گیا۔ ایک بار اس نے تلوار یوں گھمائی جیسے خالدؓ کی گردن کاٹ دے گا۔ خالد ؓیہ وار اپنی تلوار پر روکنے کے بجائے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے۔ پہلوان کا وار خالی گیا تو وہ گھوم گیا۔اس کا پہلو خالدؓ کے آگے ہو گیا۔خالدؓ اسی کے انتظا رمیں تھے انہوں نے نوک کی طرف سے پہلوان کے پہلو میں تلوار کا اس طرح وار کیا کہ برچھی کی طرح تلوار اس کے پہلو میں اتار دی۔وہ گرنے لگا تو خالدؓ نے اس کے پہلو سے تلوار کھینچ کر ایسا ہی ایک اور وار کیا،اور تلوار اس کے پہلو میں دور اندر تک لے گئے ۔طبری اور ابو یوسف نے لکھا ہے کہ پہلوان گرا اور مر گیا۔خالدؓ اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کھانا دیا جائے۔ انہیں کھانا دیا گیا جو انہوں نے ہزار مرد کی لاش پر بیٹھ کر کھایا ۔اس انفرادی معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے میں جان ڈال دی۔
آتش پرست سالار اندرزغر نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان تھک گئے ہیں چنانچہ اس نے حملے کا حکم دے دیا ۔اسے بجا طور پراپنی فتح کی پوری امید تھی ۔یہ آتش پرست سمندر کی موجوں کی طرح آئے، مسلمانوں کو اب کچلے جانا تھا۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ایک ایک مسلمان کا مقابلہ دس دس بارہ بارہ آتش پرستوں سے تھا۔اب ہر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رہا تھا اس کے باوجود انہوں نے ڈسپلن کا دامن نہ چھوڑا اور بھگدڑ نہ مچنے دی۔اس موقع پر بھی سپاہیوں کو خیال آیا کہ خالدؓ اپنے پہلوؤں کو اس طریقے سے کیوں نہیں استعمال کرتے جو ان کا مخصوص طریقہ تھا۔خالد ؓخود سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون تھا۔جو ان کے کسی زخم سے نکل رہا تھا۔چونکہ ایرانیوں کی نفری زیادہ تھی اس لئے جانی نقصان انہی کا زیادہ ہو رہا تھا۔اندرزغر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹالیا اور تازہ دم دستوں سے دوسرا حملہ کیا۔یہ حملہ زیادہ نفری کا تھا۔مسلمان ان میں نظر ہی نہیں آتے تھے اندرزغر کا یہ عہد پورا ہو رہا تھا کہ ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔اندرزغر نے مسلمانوں کا کام جلدی تمام کرنے کیلئے مزید دستوں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔اب تو مسلمانوں کیلئے بھاگ نکلنا بھی ممکن نہ رہا۔وہ اب زخمی شیروں کی طرح لڑ رہے تھے۔ خالدؓ اس معرکے سے آگے نکل گئے تھے ،ان کا علمبردار ان کے ساتھ تھا۔انہوں نے علم اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر کیا اور ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا پھر علم علمبردار کو دے دیا،یہ ایک اشارہ تھا ۔اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ کے پہلوؤں میں جو ٹیکریاں تھیں ان میں سے دو ہزار گھوڑ سوار نکلے ۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے آگے کر لیں، گھوڑے سر پڑ دوڑے آ رہے تھے۔ وہ ایک ترتیب میں ہو کر آتش پرستوں کے عقب میں آ گئے ۔جنگ کے شوروغل میں آتش پرستوں کو اس وقت پتا چلا کہ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا ہے جب مسلمانوں کے گھوڑ سوار ان کے سر پر آ گئے۔یہ تھے مسلمان کے وہ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈھونڈ رہا تھا ۔خود خالدؓ کی سپاہ پوچھ رہی تھی کہ اپنے سواار دستے کہاں ہیں۔خالد ؓنے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکھ کر یہ طریقہ اختیار کیا کہ رات کو تمام گھوڑ سواروں کو ٹیکری کے عقب میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اپنی فوج کو بھی پتا نہ چل سکے۔ان کے علم کے دائیں بائیں ہلنے کا اشارہ مقرر کیا تھا گھوڑوں کو ایسی جگہ چھپایا گیا تھا جو دشمن سے ڈیڑھ میل کے لگ بھگ دور تھیں۔وہاں سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کو گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے ان دو ہزار گھوڑ سواروں کے کماندار بُسر بن ابی رہم اور سعید بن مرّہ تھے۔ جب صبح لڑائی شروع ہوئی تھی تو ان دونوں کے کمانداروں نے گھوڑ سوار وں کو پابرکاب کر دیا تھا اور خود ایک ٹیکری پر کھڑے ہوکر اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹی ،توخالد ؓ نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے کی ہوئی تھی۔ پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے لڑتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا کررکھا ہوا تھا انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔جب گھوڑ سواروں نے دشمن پر عقب سے ہلہ بولا تو پہلوؤں کے ان دونوں سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پھیلا کر آتش پرستوں کو گھیرے میں لے لیا۔دشمن کو دھوکا دینے کیلئے خالدؓنے اپنا محفوظہ)ریزرو( بھی معرکے میں پہلے ہی جھونک دیا تھا۔
آتش پرستوں کے فتح کے نعرے آ ہ وبکا میں تبدیل ہو گئے ۔مسلمان گھوڑ سواروں کی برچھیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جا رہی تھیں۔دشمن میں بھگدڑ تو ان ہزاروں عیسائیوں نے مچائی جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا اور اس بھگدڑ میں اضافہ دشمن کے ان سپاہیوں نے کیا جو پہلے معرکوں سے بھاگے ہوئے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔جنگ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرد ہو گئی ۔بعض مؤرخوں نے دلجہ کے معرکے کو دلجہ کا جہنم لکھا ہے۔ آتش پرستوں کیلئے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تھا۔اتنا بڑا لشکر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ بھاگ رہے تھے کٹ رہے تھے ۔گھوڑ ے تلے روندے جا رہے تھے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اندرزغر زندہ بھاگ گیا لیکن مدائن کی طرف جانے کے بجائے اس نے صحرا کا رخ کیا ،اسے معلوم تھا کہ اگر وہ واپس گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالے کر دے گا۔وہ صحرا میں بھٹکتا رہا اور بھٹک بھٹک کر مر گیا۔دوسرے آتش پرست سالار بہمن جاذویہ کی فوج ابھی تک دلجہ نہیں پہنچی تھی ۔مسلمانوں کو ایسا ہی ایک اور معرکہ لڑنا تھا ۔ آتش پرستوں کے دوسرے سالار بہمن جاذویہ کو بھی دلجہ پہنچنا تھا اور کسریٰ اردشیر کے مطابق اس کے لشکر کو اپنے ساتھی سالار اندرزغر کے لشکر کے ساتھ مل کر خالدؓ کے لشکر پر حملہ کرنا تھا مگر وہ دلجہ سے کئی میل دور تھااور اسے یقین تھا کہ وہ اور اندرزغر مسلمانوں کو تو کچل ہی دیں گے، جلدی کیا ہے ۔اس کا لشکر آخری پڑاؤ سے چلنے لگا تو چار پانچ سپاہی پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔ان میں دو زخمی تھے اور جو زخمی نہیں تھے ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں ۔تھکن اتنی کہ وہ قدم گھسیٹ رہے تھے ۔چہروں پر خوف اور شب بیداری کے تاثرات تھے اور ان تاثرات پر دھول کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔’’کون ہو تم؟‘‘ان سے پوچھا گیا۔’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’ہم سالار اندرزغر کے لشکر کے سپاہی ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے تھکن اور خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب مارے گئے ہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔’’ وہ انسان نہیں ہیں۔‘‘ ایک اور کراہتے ہوئے بولا۔’’ تم نہیں مانو گے ……تم یقین نہیں کرو گے دوستوں!‘‘ ’’یہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘جاذویہ کے لشکر کے ایک کماندار نے کہا۔’’ یہ بھگوڑے ہیں اور سب کو ڈرا کر بے قصور بن رہے ہیں ۔انہیں سالار کے پاس لے چلو ۔ہم ان کے سر قلم کر دیں گے۔ یہ بزدل ہیں۔‘‘ انہیں سالار بہمن جاذویہ کے سامنے لے گئے ۔’’تم کون سی لڑائی لڑ کر آرہے ہو؟‘‘جاذویہ نے کہا۔’’ لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے ۔میرا لشکر تو ابھی……‘‘
’’محترم سالار!‘‘ ایک نے کہا۔’’جس لڑائی میں آپ نے شامل ہونا تھا وہ ختم ہو چکی ہے ۔سالار اندرزغر لاپتا ہیں ،ہمارے تیغ زن پہلوان ہزار مرد مسلمانوں کے سالارکے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ہم جیت رہے تھے ،مسلمانوں کے پاس گھوڑ سوار دستے تھے ہی نہیں تھے ۔ہمیں حکم ملا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کاٹ دو ۔ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، ہم ان کے جسموں کی بوٹیاں بکھیرنے کیلئے نعرے لگاتے اور خوشی کی چیخیں بلند کرتے آگے بڑھے۔ جب ہم ان سے الجھ گئے تو ہمارے پیچھے سے نا جانے کتنے ہزار گھوڑ سوار ہم پر آ پڑے۔ پھر ہم میں سے کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔‘‘’’سالاراعلی مقام!‘‘زخمی سپاہی نے ہانپتے ہوئے کہا ۔’’سب سے پہلے ہمارا جھنڈا گرا۔ کوئی حکم دینے والا نہ رہا۔ہر طرف نفسا نفسی اور بھگدڑ تھی۔مجھے اپنوں کی صرف لاشیں لظر آتی تھیں۔‘‘’’میں کس طرح یقین کر لوں کہ اتنے بڑے لشکر کو اتنے چھوٹے لشکر نے شکست دی ہے ؟‘‘جاذویہ نے کہا۔اتنے میں اسے اطلاع دی گئی کہ چند اور سپاہی آ ئے ہیں ۔انہیں بھی اس کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔یہ تیرہ چودہ سپاہی تھے ۔ان کی حالت اتنی بری تھی کہ تین چار گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئے۔’’تم مجھے ان میں سب سے زیادہ پرانے سپاہی نظر آتے ہو۔‘‘جاذویہ نے ایک ادھیڑ عمر سپاہی سے جس کا جسم توانا تھا ‘کہا۔’’کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں نے جو سنا ہے یہ کہاں تک سچ ہے؟تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بزدلی کی ، میدانِ جنگ سے بھاگ آنے کی اور جھوٹ بولنے کی سزا کیا ہے؟‘‘’’اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ سالار اندرزغر کی فوج مدینہ کی فوج کے ہاتھوں کٹ گئی ہے تو ایسا ہی سچ ہے جیسا آپ سالار ہیں اور میں سپاہی ہوں۔ ‘‘اس پرانے سپاہی نے کہا۔’’اور یہ ایسے ہی سچ ہے جیسے وہ آسمان پر سورج ہے اور ہم سب زمین پر کھڑے ہیں۔میں نے مسلمانوں کے خلاف یہ تیسری لڑائی لڑی ہے۔ ان کی نفری تینوں لڑائیوں میں کم تھی۔بہت کم تھی۔زرتشت کی قسم !میں جھوٹ بولوں تو یہ آگ مجھے جلا دے جس کی میں پوجا کرتا ہوں۔ ان کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جو نظر نہیں آتی ‘ان کی یہ طاقت اس وقت ہم پر حملہ کرتی ہے جب انہیں شکست ہونے لگتی ہے۔‘‘’’مجھے اس لڑائی کا بتاؤ۔‘‘ سالار بہمن جاذویہ نے کہا۔’’تمہارے لشکر کو شکست کس طرح ہوئی؟‘‘اس سپاہی نے پوری تفصیل سے سنایا کہ کس طرح مسلمان اچانک سامنے آ گئے اور انہوں نے حملہ کر دیا اور اس کے بعد یہ معرکہ کس طرح لڑا گیا۔
’’ان کی وہ جو طاقت ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔‘‘سپاہی نے کہا۔’’ وہ گھوڑ سوار دستے کی صورت میں سامنے آئی۔اس دستے میں ہزاروںگھوڑے تھے ان کے حملے سے پہلے یہ گھوڑے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ اتنے ہزار گھوڑوں کو کہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ہمارے پیچھے دریا تھا‘ گھوڑے دریا کی طرف سے آئے اور ہمیں اس وقت پتا چلا جب مسلمان سواروں نے ہمیں کاٹنا اور گھوڑوں تلے روندنا شروع کر دیا تھا۔اعلی مقام! یہ ہے وہ طاقت جس کی میں بات کر رہا ہوں ۔‘‘’’تم میں ایمان کی طاقت ہے۔‘‘خالدؓ اپنے لشکر سے خطاب کر رہے تھے۔’’ یہ خدائے وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ تم میں صرف بیس ایما ن والے ہوئے تو وہ دو سو کفار پر غالب آ ئیں گے۔‘‘ آتش پرستوں کا لشکر اور ان کے ساتھی عیسائی بھاگ کر دور نکل گئے تھے ۔ میدانِ جنگ میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ایک طرف مالِ غنیمت کا انبار لگا ہوا تھا۔خالدؓ اس انبار کے قریب اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے خطاب کر رہے تھے۔ ’’خدا کی قسم!‘‘ خالدؓ کہہ ر ہے تھے ۔’’قرآن کا فرمان تم سب نے عملی صورت میں دیکھ لیا ہے ۔کیا تم آ تش پرستوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا نہیں گئے تھے؟آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ کمال خالد بن ولید کا تھا کہ اس نے اپنے سواروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اس وقت استعمال کیا جب دشمن مسلمانوں کو کاٹنے اور کچلنے کیلئے آگے بڑھ آیا تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ کرشمہ ایمان کی قوت کا تھا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے رسولﷺکی ذات پر ایمان لاتے ہیں۔میرے دوستو !ہمیں اور آگے جانا ہے ۔یہ آتش پرستوں کی نہیں اﷲکی سرزمین ہے اور ہمیں زمین کے آخری سرے تک اﷲکا پیغام پہنچانا ہے۔‘‘میدانِ جنگ فتح و نصرت کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی سپاہ میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔معلوم ہوا کہ اب کے مالِ غنیمت پہلی دونوں جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ خالدؓ نے حسبِ معمول مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھجوا دیا۔ اس وقت تک آتش پرستوں کے سالار بہمن جاذویہ کو پوری طرح یقین آ گیا تھا کہ اندرزغر کا لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے اور اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔ بہمن جاذویہ نے اپنے ایک سالار جابان کو بلایا۔ ’’تم اندرزغر کا انجام سن چکے ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’ ہمارے لیے کسریٰ کا حکم یہ تھا کہ ہم دلجہ میں اندرزغر کے لشکر سے جا ملیں ۔اب وہ صورت ختم ہو گئی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’ہم اور جو کچھ بھی کریں ۔‘‘جابان نے کہا ۔’’ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’لیکن جابان!‘‘ جاذویہ نے کہا ۔’’ہمیں اب کوئی کارروائی اندھا دھند بھی نہیں کرنی چاہیے ۔مسلمان ہمیں تیسری بار شکست دے چکے ہیں۔ کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب ہم مدینہ کے لشکر کو صحرائی لٹیرے اور بدو کہا کرتے تھے۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘’’ہماری ان تینوں شکستوں کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا جو بھی سالار مدینہ والوں سے ٹکر لینے گیا وہ اس انداز سے گیا جیسے  وہ چند ایک صحرائی قزاقو ں کی سرکوبی کیلئے جا رہا ہو ۔‘‘جابا ن نے کہا۔’’جو بھی گیا وہ دشمن کو حقیر اور کمزور جان کر گیا۔ہماری آنکھیں پہلی شکست میں ہی کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ آپ نے بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘’’سب سے پہلی سوچ تو مجھے یہ پریشان کررہی ہے۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’کہ کسریٰ اردشیر بیمار پڑا ہے ۔میں جانتا ہوں ا سے پہلی دو شکستوں کے صدمے نے بستر پر ڈال دیا ہے ایک اور شکست کی خبر اسے لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شکست کی خبر پہنچانے والے کو وہ قتل ہی کرا دے۔‘‘’’لیکن جاذویہ!‘‘ جابان نے کہا۔’’ہم کسریٰ کی خوشنودی کیلئے نہیں لڑ رہے ۔ہمیں زرتشت کی عظمت اور آن کی خاطر لڑنا ہے۔‘‘
’’میں تم سے ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں جابان !‘‘جاذویہ نے کہا۔’’تم دیکھ رہے ہو کہ کسریٰ نے ہمیں جو حکم دیا تھا وہ بے مقصد ہو چکا ہے ۔میں مدائن چلا جاتا ہوں ۔کسریٰ سے نیا حکم لوں گا۔ میں اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بھی یہ کہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جاؤ اور مسلمانوں کو کچل ڈالو ۔اسے ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ جنگی طاقت صرف ہمارے پاس نہیں ،میں نے مان لیا ہے کہ لڑنے کی جتنی اہلیت اور جتنا جذبہ مسلمانوں میں ہے وہ ہمارے یہاں نا پید ہے۔ جابان! طاقت کے گھمنڈ سے کسی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھوں گا۔‘‘جابان نے کہا۔’’آپ کوچ کو روک دیں اور مدائن چلے جائیں۔‘‘’’کوچ روک دو۔‘‘جاذویہ نے حکم کے لہجے میں کہا۔’’لشکر کو یہیں خیمہ زن کر دو۔ میری واپسی تک تم لشکر کے سالار ہو گے۔‘‘’’اگر آپ کی غیر حاضری میں مسلمان یہاں تک پہنچ گئے یا ان سے آمنا سامناہو گیا تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے ؟‘‘جابان نے پوچھا۔’’ کیا میں ان سے لڑوں یا آپ کے آنے تک جنگ شروع نہ کروں ؟‘‘’’تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میری واپسی تک تصادم نہ ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔آتش پرستوں کے لشکر کا کوچ روک کر اسے وہیں خیمہ زن کر دیا گیا اور بہمن جاذویہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر مدائن کو روانہ ہوگیا۔بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اوردوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے ۔یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے ۔ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آ رہے تھے مگر راستے میں مر گئے تھے ۔یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں ،بچے اور بوڑھے نکل گئے ۔ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں ۔بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے ۔پھر صدمہ انہیں ہوا جب کے عزیز واپس نہیں آئے تھے، بستیوں میں عورتوں کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی ۔وہ اونچی آواز سے روتی تھیں۔’’پھر تم زندہ کیوں آ گئے ہو؟‘‘ ایک عورت نے شکست کھا کر آنے والوں سے چلّاچلّاکر کہا۔’’ تم ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہیں کیوں نہیں رہے۔‘‘یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی ۔’’تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں۔جاؤ اور شکست کا انتقام لو۔مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس نے کچھ عرصے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے زیرِ اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے تھے ۔ان مسلمانوں میں سے کئی خالد ؓکی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے تھے ۔
طبری اور ابنِ قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ بیشتر مؤرخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لئے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے اپنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جا کر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسے طاقتور شہنشاہی کو نا صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست بھی دے چکے تھے۔’’اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔‘‘ بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا۔’’ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔‘‘عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا۔یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی ۔ا سلئے وہ عجلی کہلاتا تھا ۔مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔ ’’کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو؟‘‘ ایک بوڑھے عیسائی نے کہا۔’’ میدانِ جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو۔‘‘’’میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔‘‘ اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا۔’’ ہمارے ساتھ جومسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے ۔پہلے انہیں کہا جائے کہ عیسائیت میں واپس آ جائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ عبدالاسود نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہی میں کیسی تباہی مچائی تھی۔انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہو کر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کر دیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچوں کو قتل کر جائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگا دے گا۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘’’پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے؟‘‘ایک نے پوچھا۔’’تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے دلجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔‘‘’’شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے ۔‘‘عبدالاسود نے کہا۔’’ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔تم ٹھیک کہتے ہو ۔مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔‘‘عیسائیوں کے سرداروں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو سکیں وہ دریائے فرات کے کنارے اُلیّس کے مقام پر اکھٹے ہو جائیں اور ان کا سردارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہو گا۔قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ان کے زخم تازہ تھے ۔مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ‘لڑنے کیلئے نکل آ ئے ۔یہ لوگ اس قد ربھڑکے ہوئے تھے کہ جوان لڑکیاں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔
عراقی عیسائیوں کے عزائم، جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کاایک فوج کی صورت میں اجتماع خالدؓ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالدؓکی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات بڑی صاف نظر آنے لگی تھی۔ وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔وہ کسی کے حکم کے بغیر خالدؓکیلئے جاسوسی کررہے تھے۔خالدؓ کے لشکر کے حوصلے بلند تھے۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بے شمار مالِ غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا لیکن خالد ؓجانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں ۔مجاہدین کے لشکر کوآرام ملا ہی نہیں تھا ۔وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدانِ جنگ میں لڑتے رہے تھے ۔’’انہیں مکمل آرام کرنے دو۔‘‘خالدؓ اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے۔’’ ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی۔ جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گااور ان دستوں کو بھی یہیں بلا لو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے چھوڑ آئے تھے۔ تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آ رہا؟‘‘’’وہ گذشتہ رات سے نظر نہیں آیا۔‘‘ایک سالار نے جواب دیا۔ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیئے جو قریب آرہے تھے ۔گھوڑا خالدؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا۔’’مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے۔‘‘ کسی نے خالد ؓکو بتایا۔مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالدؓ کے خیمے میں داخل ہوا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے !‘‘مثنیٰ نے پر جوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کے بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا ۔’’خدا کی قسم ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’تیری چال ڈھا ل اور تیرا جوش بتا رہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔‘‘’’خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابنِ ولید !‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہو کر الیس کے مقام پر جمع ہونے کیلئے چلا گیا ہے۔ان کے سرداروں نے دروازے بند کر کے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیاہے۔‘‘ ’’کیا یہی خبر لانے کیلئے تو رات سے کسی کو نظر نہیں آیا ؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں !‘‘مثنیٰ نے جواب دیا۔’’وہ میرا قبیلہ ہے‘ میں جانتاتھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔میں اپنا حلیہ بدل کر انکے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا۔میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کیلئے مدائن چلے گئے ہیں اور وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تم پسند نہیں کرو گے جس طرح ہم نے دلجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح ہم عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیں۔‘‘’’خدا تیری عمر دراز کرے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’طریقہ یہی بہتر ہے کہ دشمن کا سرا ٹھنے سے پہلے ہی کچل دیاجائے۔‘‘خالدؓنے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان سے مشورہ مانگ رہے ہوں ۔
’’ان کی وہ جو طاقت ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔‘‘سپاہی نے کہا۔’’ وہ گھوڑ سوار دستے کی صورت میں سامنے آئی۔اس دستے میں ہزاروںگھوڑے تھے ان کے حملے سے پہلے یہ گھوڑے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ اتنے ہزار گھوڑوں کو کہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ہمارے پیچھے دریا تھا‘ گھوڑے دریا کی طرف سے آئے اور ہمیں اس وقت پتا چلا جب مسلمان سواروں نے ہمیں کاٹنا اور گھوڑوں تلے روندنا شروع کر دیا تھا۔اعلی مقام! یہ ہے وہ طاقت جس کی میں بات کر رہا ہوں ۔‘‘’’تم میں ایمان کی طاقت ہے۔‘‘خالدؓ اپنے لشکر سے خطاب کر رہے تھے۔’’ یہ خدائے وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ تم میں صرف بیس ایما ن والے ہوئے تو وہ دو سو کفار پر غالب آ ئیں گے۔‘‘ آتش پرستوں کا لشکر اور ان کے ساتھی عیسائی بھاگ کر دور نکل گئے تھے ۔ میدانِ جنگ میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ایک طرف مالِ غنیمت کا انبار لگا ہوا تھا۔خالدؓ اس انبار کے قریب اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے خطاب کر رہے تھے۔ ’’خدا کی قسم!‘‘ خالدؓ کہہ ر ہے تھے ۔’’قرآن کا فرمان تم سب نے عملی صورت میں دیکھ لیا ہے ۔کیا تم آ تش پرستوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا نہیں گئے تھے؟آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ کمال خالد بن ولید کا تھا کہ اس نے اپنے سواروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اس وقت استعمال کیا جب دشمن مسلمانوں کو کاٹنے اور کچلنے کیلئے آگے بڑھ آیا تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ کرشمہ ایمان کی قوت کا تھا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے رسولﷺکی ذات پر ایمان لاتے ہیں۔میرے دوستو !ہمیں اور آگے جانا ہے ۔یہ آتش پرستوں کی نہیں اﷲکی سرزمین ہے اور ہمیں زمین کے آخری سرے تک اﷲکا پیغام پہنچانا ہے۔‘‘میدانِ جنگ فتح و نصرت کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی سپاہ میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔معلوم ہوا کہ اب کے مالِ غنیمت پہلی دونوں جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ خالدؓ نے حسبِ معمول مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھجوا دیا۔ اس وقت تک آتش پرستوں کے سالار بہمن جاذویہ کو پوری طرح یقین آ گیا تھا کہ اندرزغر کا لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے اور اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔ بہمن جاذویہ نے اپنے ایک سالار جابان کو بلایا۔ ’’تم اندرزغر کا انجام سن چکے ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’ ہمارے لیے کسریٰ کا حکم یہ تھا کہ ہم دلجہ میں اندرزغر کے لشکر سے جا ملیں ۔اب وہ صورت ختم ہو گئی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’ہم اور جو کچھ بھی کریں ۔‘‘جابان نے کہا ۔’’ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’لیکن جابان!‘‘ جاذویہ نے کہا ۔’’ہمیں اب کوئی کارروائی اندھا دھند بھی نہیں کرنی چاہیے ۔مسلمان ہمیں تیسری بار شکست دے چکے ہیں۔ کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب ہم مدینہ کے لشکر کو صحرائی لٹیرے اور بدو کہا کرتے تھے۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘’’ہماری ان تینوں شکستوں کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا جو بھی سالار مدینہ والوں سے ٹکر لینے گیا وہ اس انداز سے گیا جیسے وہ چند ایک صحرائی قزاقو ں کی سرکوبی کیلئے جا رہا ہو ۔‘‘جابا ن نے کہا۔’’جو بھی گیا وہ دشمن کو حقیر اور کمزور جان کر گیا۔ہماری آنکھیں پہلی شکست میں ہی کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ آپ نے بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘’’سب سے پہلی سوچ تو مجھے یہ پریشان کررہی ہے۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’کہ کسریٰ اردشیر بیمار پڑا ہے ۔میں جانتا ہوں ا سے پہلی دو شکستوں کے صدمے نے بستر پر ڈال دیا ہے ایک اور شکست کی خبر اسے لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شکست کی خبر پہنچانے والے کو وہ قتل ہی کرا دے۔‘‘’’لیکن جاذویہ!‘‘ جابان نے کہا۔’’ہم کسریٰ کی خوشنودی کیلئے نہیں لڑ رہے ۔ہمیں زرتشت کی عظمت اور آن کی خاطر لڑنا ہے۔‘‘
’’میں تم سے ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں جابان !‘‘جاذویہ نے کہا۔’’تم دیکھ رہے ہو کہ کسریٰ نے ہمیں جو حکم دیا تھا وہ بے مقصد ہو چکا ہے ۔میں مدائن چلا جاتا ہوں ۔کسریٰ سے نیا حکم لوں گا۔ میں اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بھی یہ کہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جاؤ اور مسلمانوں کو کچل ڈالو ۔اسے ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ جنگی طاقت صرف ہمارے پاس نہیں ،میں نے مان لیا ہے کہ لڑنے کی جتنی اہلیت اور جتنا جذبہ مسلمانوں میں ہے وہ ہمارے یہاں نا پید ہے۔ جابان! طاقت کے گھمنڈ سے کسی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھوں گا۔‘‘جابان نے کہا۔’’آپ کوچ کو روک دیں اور مدائن چلے جائیں۔‘‘’’کوچ روک دو۔‘‘جاذویہ نے حکم کے لہجے میں کہا۔’’لشکر کو یہیں خیمہ زن کر دو۔ میری واپسی تک تم لشکر کے سالار ہو گے۔‘‘’’اگر آپ کی غیر حاضری میں مسلمان یہاں تک پہنچ گئے یا ان سے آمنا سامناہو گیا تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے ؟‘‘جابان نے پوچھا۔’’ کیا میں ان سے لڑوں یا آپ کے آنے تک جنگ شروع نہ کروں ؟‘‘’’تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میری واپسی تک تصادم نہ ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔آتش پرستوں کے لشکر کا کوچ روک کر اسے وہیں خیمہ زن کر دیا گیا اور بہمن جاذویہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر مدائن کو روانہ ہوگیا۔بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اوردوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے ۔یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے ۔ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آ رہے تھے مگر راستے میں مر گئے تھے ۔یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں ،بچے اور بوڑھے نکل گئے ۔ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں ۔بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے ۔پھر صدمہ انہیں ہوا جب کے عزیز واپس نہیں آئے تھے، بستیوں میں عورتوں کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی ۔وہ اونچی آواز سے روتی تھیں۔’’پھر تم زندہ کیوں آ گئے ہو؟‘‘ ایک عورت نے شکست کھا کر آنے والوں سے چلّاچلّاکر کہا۔’’ تم ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہیں کیوں نہیں رہے۔‘‘یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی ۔’’تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں۔جاؤ اور شکست کا انتقام لو۔مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس نے کچھ عرصے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے زیرِ اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے تھے ۔ان مسلمانوں میں سے کئی خالد ؓکی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے تھے ۔
طبری اور ابنِ قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ بیشتر مؤرخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لئے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے اپنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جا کر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسے طاقتور شہنشاہی کو نا صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست بھی دے چکے تھے۔’’اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔‘‘ بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا۔’’ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔‘‘عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا۔یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی ۔ا سلئے وہ عجلی کہلاتا تھا ۔مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔ ’’کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو؟‘‘ ایک بوڑھے عیسائی نے کہا۔’’ میدانِ جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو۔‘‘’’میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔‘‘ اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا۔’’ ہمارے ساتھ جومسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے ۔پہلے انہیں کہا جائے کہ عیسائیت میں واپس آ جائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ عبدالاسود نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہی میں کیسی تباہی مچائی تھی۔انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہو کر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کر دیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچوں کو قتل کر جائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگا دے گا۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘’’پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے؟‘‘ایک نے پوچھا۔’’تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے دلجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔‘‘’’شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے ۔‘‘عبدالاسود نے کہا۔’’ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔تم ٹھیک کہتے ہو ۔مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔‘‘عیسائیوں کے سرداروں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو سکیں وہ دریائے فرات کے کنارے اُلیّس کے مقام پر اکھٹے ہو جائیں اور ان کا سردارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہو گا۔قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ان کے زخم تازہ تھے ۔مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ‘لڑنے کیلئے نکل آ ئے ۔یہ لوگ اس قد ربھڑکے ہوئے تھے کہ جوان لڑکیاں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔
عراقی عیسائیوں کے عزائم، جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کاایک فوج کی صورت میں اجتماع خالدؓ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالدؓکی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات بڑی صاف نظر آنے لگی تھی۔ وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔وہ کسی کے حکم کے بغیر خالدؓکیلئے جاسوسی کررہے تھے۔خالدؓ کے لشکر کے حوصلے بلند تھے۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بے شمار مالِ غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا لیکن خالد ؓجانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں ۔مجاہدین کے لشکر کوآرام ملا ہی نہیں تھا ۔وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدانِ جنگ میں لڑتے رہے تھے ۔’’انہیں مکمل آرام کرنے دو۔‘‘خالدؓ اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے۔’’ ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی۔ جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گااور ان دستوں کو بھی یہیں بلا لو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے چھوڑ آئے تھے۔ تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آ رہا؟‘‘’’وہ گذشتہ رات سے نظر نہیں آیا۔‘‘ایک سالار نے جواب دیا۔ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیئے جو قریب آرہے تھے ۔گھوڑا خالدؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا۔’’مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے۔‘‘ کسی نے خالد ؓکو بتایا۔مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالدؓ کے خیمے میں داخل ہوا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے !‘‘مثنیٰ نے پر جوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کے بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا ۔’’خدا کی قسم ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’تیری چال ڈھا ل اور تیرا جوش بتا رہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔‘‘’’خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابنِ ولید !‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہو کر الیس کے مقام پر جمع ہونے کیلئے چلا گیا ہے۔ان کے سرداروں نے دروازے بند کر کے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیاہے۔‘‘ ’’کیا یہی خبر لانے کیلئے تو رات سے کسی کو نظر نہیں آیا ؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں !‘‘مثنیٰ نے جواب دیا۔’’وہ میرا قبیلہ ہے‘ میں جانتاتھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔میں اپنا حلیہ بدل کر انکے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا۔میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کیلئے مدائن چلے گئے ہیں اور وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تم پسند نہیں کرو گے جس طرح ہم نے دلجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح ہم عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیں۔‘‘’’خدا تیری عمر دراز کرے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’طریقہ یہی بہتر ہے کہ دشمن کا سرا ٹھنے سے پہلے ہی کچل دیاجائے۔‘‘خالدؓنے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان سے مشورہ مانگ رہے ہوں ۔
’’ہونا تو ایسا ہی چاہیے۔‘‘سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’لیکن لشکر کی جسمانی حالت دیکھ لیں۔ کیا ہمارے لیے یہ فائدہ مند نہ ہوگا کہکم از کم دو دن لشکر کو آرام کرنے دیں؟‘‘’’ ہاں ابنِ ولید!‘‘دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلی تین فتوحات کے نشے میں ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔‘‘’’ابنِ حاتم!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’میں تیرے اتنے اچھے مشورے کی تعریف کرتا ہوں لیکن یہ بھی سوچ کہ ہم نے دودن عیسائیوں کو دے دیئے تو کیاایسا نہیں ہو گا کہ فارس کا لشکر ان سے آن ملے؟‘‘’’ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘عدی بن حاتم نے کہا۔’’لیکن بہتر یہ ہو گا کہ آتش پرستوں کے لشکر کو آنے دیں۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بکر بن وائل کے عیسائیوں سے الجھے ہوں اور آتش ہرست عقب سے ہم پر آپڑیں۔جس جس کو ہمارے خلاف لڑنا ہے اسے اس میدان میں آنے دیں جہاں وہ لڑنا چاہتے ہیں۔‘‘’’ابنِ ولید !‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا ۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ عیسائیوں پر حملے کی پہل میں کروں؟‘‘’’تو نے ایسا کیوں سوچا ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’اس لیے کہ جتنا انہیں میں جانتا ہوں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’اور میں اس لیے بھی سب سے آگے ہو کر ان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے قبیلے کے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے انہیں قتل کر دیا جائے۔میں انہیں کہوں گا کہ دیکھو کون کسے قتل کر رہا ہے؟‘‘’’اس وقت ہماری نفری کتنی ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’اٹھارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔‘‘ایک سالار نے جواب دیا۔’’جب ہم فارس کی سرحد میں داخل ہوئے تھے تو ہماری نفری اٹھارہ ہزار تھی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اس علاقے کے مسلمانوں نے میری نفری کم نہیں ہونے دی۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ان تین جنگوں میں بہت سے مسلمان شہید اور شدید زخمی ہوئے تھے ۔بعض نے لکھا ہے کہ نفری تقریباًآدھی رہ گئی تھی لیکن مثنیٰ بن حارثہ کے قبیلے نے نفری کی کمی پوری کر دی تھی۔آتش پرستوں کا سالار بہمن جاذویہ اردشیر سے نیا حکم لینے مدائن پہنچ چکا تھا ۔لیکن شاہی طبیب نے اسے روک لیا۔
’’اگر کوئی اچھی خبر لائے ہو تو اندر چلے جاؤ۔‘‘طبیب نے کہا۔’’اگر خبر اچھی نہیں تو میں تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘’’خبر اچھی نہیں۔‘‘جاذویہ نے کہا۔’’ہماری فوج تیسری بار شکست کھا چکی ہے۔اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔‘‘’’جاذویہ!‘­‘طبیب نے کہا۔’’اردشیر کیلئے اس سے زیادہ بری خبر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔اندرزغر کو تو کسریٰ اردشیر اپنی جنگی طاقت کا سب سے زیادہ مضبوط ستون سمجھتا تھا۔جب سے یہ سالار گیا ہے،شہنشاہ دن میں کئی بار پوچھتا رہا کہ اندرزغر مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال کر واپس آیا ہے یا نہیں؟تھوڑی دیر پہلے بھی اس نے پوچھا تھا۔‘‘
’’محترم طبیب!‘‘جاذویہ نے کہا۔’’کیا ہم ایک حقیقت کو چھپا کر غلطی نہیں کر رہے؟کسریٰ کو کسی نہ کسی دن تو پتا چل ہی جائے گا۔‘‘’’جاذویہ!‘‘طبیب نے کہا۔’’میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم نے یہ خبر شہنشاہ کو سنائی تو اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔‘‘جاذویہ وہیں سے لوٹ گیا لیکن اپنے لشکر کے پاس جانے کی بجائے اس خیال سے مدائن میں رُکا رہا کہ اردشیر کی صحت ذرا بہترہوگی تو وہ اسے خود شکست کی خبر سنائے گا۔اور اسکے ساتھ وعدہ کرے گا کہ وہ مسلمانوں سے تینوں شکستوں کا انتقام لے گا۔اس روز یا ایک دو روز بعد عیسائیوں کا ایک وفد اردشیر کے پاس پہنچ گیا۔اس کا طبیب اور شاہی خاندان کا کوئی بھی فرد قبل از وقت نہ جان سکا کہ یہ وفد کس مقصد کیلئے آیا ہے۔اردشیر کوچونکہ معلوم تھا کہ عیسائیوں نے اس لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اس لیے اس نے بڑی خوشی سے ان عیسائیوں کو ملاقات کی اجازت دے دی۔اس وفد نے اردشیر کو پہلی خبر ی سنائی کہ سالار اندرزغر شکست کھا گیا ہے۔’’اندرزغر شکست نہیں کھا سکتا۔‘‘اردشیر نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔’’کیا تم لوگ مجھے یہ جھوٹی خبر سنانے آئے ہو؟……کہاں ہے اندرزغر؟اگر ا س کی شکست کی خبر صحیح ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ جس روز وہ مدائن میں قدم رکھے گا وہ اس کی زندگی کا آخری روز ہو گا۔‘‘’’ہم جھوٹی خبر سنانے نہیں آئے۔‘‘وفد کے سربراہ نے کہا۔’’ہم آپ کی اس تیسری شکست کو فتح میں بدلنے کا عہد لے کر آئے ہیں لیکن آپ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘اردشیر کچھ دیر چپ چاپ خلا ء میں گھورتا رہا،اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔دواؤں کا اس پر الٹا اثر ہو رہاتھا۔اب تیسری شکست کی خبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔اس کا طبیب اس کے پاس کھڑاتھا۔’’کسریٰکو اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔‘‘طبیب نے کہا۔’’معزز مہمان اس وقت چلے جائیں تو کسریٰ کیلئے بہتر ہوگا۔‘‘عیسائیوںکا وفد اٹھ کھڑا ہوا۔’’ٹھہرو!‘‘اردشیر نے نحیف آواز میں کہا۔’’تم لوگوں نے شکست کو فتح میں بدلنے کی بات کی تھی۔تم کیا چاہتے ہو؟‘‘’’اپنے کچھ دستے جن میں سوار زیاد ہ ہوں ہمیں دے دیں۔‘‘وفد کے سردارنے کہا۔’’ہمارا پورا قبیلہ الیس پہنچ چکا ہوگا۔‘‘’’جو مانگو گے دوں گا۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’بہمن جاذویہ کے پاس چلے جاؤاور اس کا لشکر اپنے ساتھ لے لو۔جاذویہ دلجہ کے قریب کہیں ہوگا۔‘‘’’بہمن جاذویہ مدائن میں ہے۔‘‘کسی نے اردشیر کو بتایا۔’’وہ شہنشاہ کے پاس آیا تھا لیکن طبیب نے اسے آپ تک آنے نہیں دیا۔‘‘’’اسے بلاؤ!‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔‘‘
جب جاذویہ اردشیر کو بتا رہا تھا کہ اسے میدانِ جنگ تک پہنچنے کاموقع ہی نہیں ملا۔اس وقت الیس میں صورتِ حال کچھ اور ہو چکی تھی۔جاذویہ اپنے دوسرے سالار جابان کو لشکر دے آیا تھا اور اس نے جابان سے کہا تھا کہ وہ اسکی واپسی تک مسلمانوں سے لڑائی سے گریز کرے۔جابان الیس کے کہیں قریب تھا۔اسے ایک اطلاع یہ ملی کہ عیسائیوں کا ایک لشکر الیس کے گردونواح میں جمع ہے اور دوسری اطلاع یہ ملی کہ مسلمانوں کا لشکر الیس کی طرف بڑھ رہا ہے،جابان کیلئے حکم تو کچھ اور تھا لیکن اس اطلاع پر کہ مسلمان پیش قدمی کررہے ہیں،وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔اس نے اپنے لشکر کو کوچ کاحکم دیا اور الیس کا رخ کر لیا۔ابھی جاذویہ واپس نہیں آیا تھا،جابان تک اردشیر کا بھی کوئی حکم نہیں پہنچا تھا۔چونکہ وہ وہاں موجود تھا ا س لئے یہ اس کی ذمہ دار ی تھی کہ مسلمانوں کو روکے،تاریخ میں بکر بن وائل کے ان عیسائیوں کی تعداد کا کوئی اشارہ نہیں ملتاجو الیس میں لڑنے کیلئے پہنچے تھے۔ان کا سردار اور سالارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی تھا ۔وہ مدائن سے اپنے وفدکی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ انتظار کرنے والے سالار نہیں تھے۔انہوں نے اپنی فوج کو تھوڑا سا آرام دینا ضروری سمجھا تھا پھر انہوں نے الیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔رفتار معمول سے کہیں زیادہ تیز رکھی۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے جانبازوں کادستہ لیے باقی لشکر سے الگ تھلگ جا رہا تھا۔’’اﷲکے سپاہیو!‘‘مثنیٰ نے راستے میں اپنے دستے سے کہا۔’’یہ لڑائی تم اس طرح لڑو گے جس طرح ہم کسریٰ کی سرحدی چوکیاں تباہ کرنے کیلئے لڑتے رہے ہیں……چھاپہ مار لڑائی……شب خون……تم ان لوگوں سے لڑنے جا رہے ہو جو تمہاری طرح لڑنا نہیں جانتے۔انہیں تم جانتے ہو۔وہ تمہارے ہی قبیلے کے لوگ ہیں ۔ہم انہیں بھگا بھگا کر لڑائیں گے۔اسی لیے میں نے تمہیں لشکر سے الگ کر لیا ہے۔لیکن یہ خیال رکھنا کہ ہم اسی لشکر کے سالار کے ماتحت ہیں اور یہ بھی خیال رکھنا کہ یہ مذاہب کی جنگ ہے،دو باطل عقیدے تمہارے مقابلے میں ہیں ۔تمہیں ثابت کرنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے……خدا کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف ہمیشہ مخبری کی اورآتش پرستوں کے ہاتھوں ہمارے گھروں کو نذرِ آتش کرایا ہے۔‘‘سواروں کا یہ دستہ پر جوش نعرے لگانے لگالیکن مثنیٰ نے روک دیا او رکہا کہ خاموشی برقرار رکھنی ہے دشمن کو اس وقت پتا چلے کہ ہم آ گئے ہیں جب ہماری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں۔عیسائیوں کا لشکر الیس کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے مدائن سے اپنے وفد کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ ’’ہوشیار!دشمن آ رہاہے۔‘‘عیسائی لشکر کے سنتریوں نے واویلا بپا کر دیا ۔’’خبر دار…… ہوشیار…… تیار ہو جاؤ۔‘‘ہڑبونگ مچ گئی۔ان کے سرداروں نے درختوں پر چڑھ کر دیکھا ایک لشکر چلا آ رہا تھا۔ سرداروں نے درختوں کے اوپر سے ہی حکم دیا کہ تیر انداز اگلی صف میں آ جائیں۔ یہ لوگ چونکہ باقاعدہ فوجی نہیں تھے اس لئے ان میں نظم و ضبط اور صبر و تحمل کی کمی تھی۔ وہ لوگ ہجوم کی صورت میں لڑنا جانتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے صف بندی کر لی۔
آنے والا لشکر قریب آ رہا تھا ‘جب یہ لشکر اور قریب آیا تو سرداروں کو کچھ شک ہونے لگا تب ایک سالار نے کہا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس طرف سے آرہا ہے جس طرف بہمن جاذویہ کالشکر ہونا چاہیے تھا۔ سالار نے دو گھوڑسواروں کو یہ کہہ کر دوڑا دیا کہ جا کر دیکھو کہ یہ کس کا لشکر ہے۔’’یہ دوست ہیں۔‘‘ ایک سوار نے پیچھے مڑ کر بلند آواز سے کہا۔’’یہ فارس کی فوج ہے۔‘‘’’یسوع مسیح کے پجاریو!‘‘درخت سے سالارِ اعلیٰ نے چلا کر کہا ۔’’تمہاری مدد کیلئے مدائن سے فوج آ گئی ہے۔‘‘عیسائی نعرے لگانے لگے اور تھوڑی دیر بعد جابان کا لشکر عیسائیوں کے پڑاؤ میں آگیا۔ جابان نے اس تمام لشکر کی کمان لے لی اور عیسائی سرداروں سے کہا کہ اب وہ اس کے حکم اور ہدایات کے پابند ہوں گے۔ جابان نے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے پرجوش تقریر کی جس میں اس نے انہیں بتایا کہ اب انہیں پہلی تینوں شکستوں کا انتقام لینا ہے۔’’اور تم اپنی جوان عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو۔‘‘ جابان نے کہا۔’’ اگر تم ہار گئے تو یہ عورتیں مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوں گی۔انہیں وہ لونڈیاں بنا کر لے جائیں گے انہی کی خاطر اپنی جانیں لڑا دو۔‘‘عیسائیوں کی صفوں میں جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ تو پہلے ہی انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اب اپنے ساتھ فارس کاایک منظم لشکر دیکھ کر وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے تھے۔مدینہ کی فوج کی پیش قدمی خاصی تیز تھی۔ مثنیٰ اپنے دستے کے ساتھ دائیں طرف کہیں آگے نکل گیا تھا۔ وہ سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ درختوں کی بہتات تھی ‘ہری جھاڑیاں اور ا ونچی گھاس بھی تھی۔ تھوڑی دور جاکر آدمی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا ‘یہ وہ علاقہ تھا جہاں فارس کے بڑے بڑے افسر سیر و تفریح اور شکار وغیرہ کیلئے آیا کرتے تھے ۔الیس سے آگے حیرہ ایک شہر تھا جس کی اہمیت تجارتی اور فوجی لحاظ سے خاصی زیادہ تھی ۔آبادی کے لحاظ سے یہ عیسائیوں کا شہرتھا جو ہر لحاظ سے خوبصورت شہر تھا۔’’اور یہ بھی ذہن میں رکھو ۔‘‘جابان لشکر کے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔’’کہ آگے حیرہ ہے ۔تم جانتے ہو کہ حیرہ ہماری بادشاہی کا ایک ہیرہ ہے۔اگرمسلمان اس شہر تک پہنچ گئے تو نا صرف یہ کہ کسریٰ کا دل ٹوٹ جائے گا بلکہ فارس کے پورے لشکر کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے،حیرہ مدائن سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘سبزہ زار میں ایک گھوڑ سوار جیسے تیرتا چلا آرہاہو۔خالد ؓاپنے لشکر کے وسط میں تھے کسی اور کو اس سوارکی طرف بھیجنے کے بجائے انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس سوار کو راستے میں جا لیا۔وہ مثنیٰ بن حارثہ کے دستے کا ایک سوار تھا۔ ’’ابنِ حارثہ کا پیغام لایا ہوں۔‘‘ سوار نے خالدؓ سے کہا۔’’الیس کے میدان میں آتش پرستوں کی فوج بھی آ گئی ہے۔ ابنِ حارثہ نے کہا ہے کہ سنبھل کر آگے آئیں۔‘‘’’فوراً واپس جاؤ!‘‘ خالدؓ نے سوار سے کہا ۔’’اور مثنیٰ سے کہو کے اڑ کر مجھ تک پہنچے۔‘‘
مثنیٰ کا قاصد یوں غائب ہو گیا جیسے اسے زمین نے نگل لیا ہو۔ اس کے گھوڑے کے ٹاپ کچھ دیر تک سنائی دیتے رہے جو درختوں میں سے گزرتی ہوا کی شاں شاں میں تحلیل ہو گئے۔خالدؓ واپس اپنے لشکر میں آئے اور اپنے سالاروں کو بلا کر انہیں بتایا کہ آگے صرف بکر بن وائل کے لوگ ہی نہیں بلکہ مدائن کا لشکر بھی ان کے ساتھ آ ملا ہے۔انہوں نے اپنے سالاروں کو یہ بھی بتایا کہ مثنیٰ بن حارثہ آرہا ہے۔انہوں نے پہلے کی طرح سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو دائیں اور بائیں پہلو میں رکھا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مثنیٰ یوں آن پہنچا جیسے وہ واقعی اڑ کر آیا ہو۔’’ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے فارس کے لشکر کوعیسائیوں کے ساتھ دیکھا ہے؟‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے صرف دیکھا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے جانبازی کا مظاہرہ کرکے بہت کچھ معلوم کر لیا تھا ۔اس نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے انہوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ مدائن کی فوج عیسائیوں سے آملی ہے۔مثنیٰ نے پوری معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔رات کو اس نے اپنے ساتھ تین سوار لیے اور دشمن کے پڑاؤ کے قریب جا کر گھوڑوں سے اترے اور انہیں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیااور وہاں سے وہ چھپ چھپ کر اور جہاں ضرورت پڑی وہاں پیٹ کے بل رینگ کر پڑاؤ کے نزدیک چلے گئے۔ آتش پرستوں کے سنتری پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے یہ صفر ۱۲ ہجری کے وسط کی راتیں تھیں ۔آدھے چاند کی چاندنی تھی جو فائدہ بھی دے سکتی تھی نقصان بھی۔دو سنتری ان کے سامنے سے گزر گئے ،انہیں پیچھے سے جا کر پکڑا جا سکتا تھا لیکن ان کے پیچھے پیچھے ایک گھوڑ سوار آرہا تھا ۔اس نے اپنے سنتریوں کو آواز دے کر روک لیااور ان کے پاس آ کر انہیں بیدار اور ہوشیار رہنے کو کہنے لگا ۔وہ کوئی کماندار معلوم ہوتا تھا ۔’’مسلمان رات کو تو حملہ نہیں کر سکتے۔‘‘ایک سنتری نے کہا۔’’ پھر بھی ہم بیدار اور ہوشیار ہیں۔‘‘’’تم سپاہی ہو ۔‘‘گھوڑ سوار نے حکم کے لہجے میں کہا ۔’’جو ہم کماندار جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔مسلمانوں کا کچھ پتا نہیں وہ کس وقت کیاکر گزریں۔انہیں عام قسم کا دشمن نہ سمجھوا ورتم نے مثنیٰ بن حارثہ کا نام نہیں سنا ؟کیا تم نہیں جانتے کہ کسریٰ نے مثنیٰ کے سر کی کتنی قیمت مقررکر رکھی ہے؟ تم اگراسے زندہ یامردہ پکڑ لاؤ یا اس کا صرف سر پیش کر دو تو تم مالامال ہو جاؤ گے۔لیکن تم اسے پکڑ نہیں سکو گے۔ وہ جن ہے کسی کو نظر نہیں آتا……چلو آگے چلو۔ اپنے علاقے کا گشت کرو۔‘‘سنتری آگے نکل گئے اور گھوڑ سوار وہیں کھڑ ا رہا۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے تین جانبازوں کے ساتھ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔گھوڑ سوار اس طرف جانے کے بجائے جس طرف سنتری چلے گئے تھے دوسری طرف چلا گیا۔گھوڑے پر اسے پکڑناخطرے سے خالی نہیں تھا۔ مثنیٰ نے اپنے ایک جانباز کے کان میں کچھ کہااور گھوڑ سوار کماندار کو دیکھا ۔وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔
مثنیٰ قریب کے ایک درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے جانباز نے ذرا اونچی آواز میں کچھ کہا ۔کماندار نے گھوڑا روک لیا۔جانباز نے اسے واپس آنے کو کہا۔وہ اس آواز پر واپس آرہا تھا اچانک درخت سے مثنیٰ کودا اور گھوڑ سوار کے اوپر گرااور اسے گھوڑے سے گرا دیا۔مثنیٰ کے ایک آدمی نے دوڑ کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور دو نے کماندار کو دبوچ لیااور اس کا منہ باندھ دیا۔اسے اور اسکے گھوڑے کو وہاں سے دور لے گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کھولے اور وہاں سے اتنے دور نکل گئے جہاں وہ چیختا چلاتا تو بھی اس کی آواز اس کے پڑاؤ تک نہ پہنچتی ۔’’زندہ رہنا چاہتے ہو تو بتاؤ کہ تمہاری فوج کہاں سے آئی ہے؟‘‘مثنیٰ نے تلوار کی نوک اس کی شہہ رگ پر رکھ کر پوچھا۔وہ بہمن جاذویہ کے لشکر کا کماندار تھا۔اس نے جان بچانے کی خاطر سب کچھ بتا دیا‘ یہ بھی کہ جاذویہ مدائن چلا گیا ہے اور اس کی جگہ  جابان سالار ہے اور بکر بن وائل کا لشکرا نہیں اتفاق سے مل گیا ہے ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس قبیلے کے کچھ سردار مدائن سے فوج اپنے ساتھ لائیں گے ۔’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ مدینے کی فوج کہاں ہے ؟‘‘مثنیٰ نے ا س سے پوچھا۔’’وہ بہت دور ہے۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ہم اس پر حملہ کرنے جا رہے ہیں‘شاید دو روز بعد۔‘‘جب اس سے ہر ایک بات معلوم ہو گئی تو اسے ہلاک کر کے لاش وہیں دفن کر دی گئی۔سورج طلوع ہو چکا تھا جب مثنیٰ بن حارثہ خالد ؓکو یہ روداد سنا رہا تھا۔’’تعداد کا اندازہ کیا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’صحیح اندازہ مشکل ہے ابنَِ ولید!‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ہماری اور ان کی تعداد کا تناسب وہی ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہم سے چار گنا نہیں تو تین گنا سے یقینا زیادہ ہیں ۔‘‘خالدؓنے اپنی فوج کو روکانہیں تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور دشمن کو بے خبری میں جا لیں۔ انہوں نے چلتے چلتے اپنے سالاروں سے مشورے لیے‘ خود سوچا اور احکام دیئے۔ ان عربوں کے متعلق آتش پرستوں کے سب سے زیادہ جری اور تجربہ کار سالار ہرمز نے کہا تھا کہ یہ لوگ صحرا کے رہنے والے ہیں اور صحرا میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ ہر مز نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ انہیں دجلہ اور فرات کے اس علاقے میں لڑائے گا جس میں درخت‘ جھاڑیاں ‘گھاس اور کہیں کہیں دلدل ہے ۔لیکن ہرمز کے خواب اسی سر سبز اور دلدلی
علا قے میں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے تھے۔
’’خداکی قسم! تم اب دریاؤں اور جنگلوں میں بھی لڑ سکتے ہو۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’اس زمین پر تم نے اتنے طاقتور دشمن کوتین شکستیں دیں ہیں ۔تم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے ہمارے دشمن کے لڑنے کا طور طریقہ کیا ہے۔ مثنیٰ نے بتایا ہے کہ دشمن اگر اسی میدان میں ہوا جہاں وہ پڑاؤ کیے ہوئے ہے تو یہ ذہن میں رکھ لو کہ یہ میدان دو دریاؤں )دریائے فرا ت اور دریائے خسیف(کے درمیان ہے ۔میدان ہموار ہے ۔لیکن درختوں اور سبزے کی بہتات ہے۔دوڑتے گھوڑوں پر تمہیں درختوں کا اور ان کے جھکے ہوئے ٹہنیوں کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ ان ٹہنیوں سے ٹکرا کر مارے جاؤ گے۔‘‘’’میدان محدود بھی ہے۔ہمیں دشمن کو کسی قسم کا دھوکا دینے کا اور چالیں چلنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ ہمیں آمنے سامنے کا معرکہ لڑنا پڑے گا۔ابنِ عمرو اور ابنِ حاتم پہلوؤں کے سالار ہوں گے ۔انہیں جب بھی اور جیسا بھی موقع ملا ،یہ اس کے مطابق نقل و حرکت کریں گے ۔اپنے کمانداروں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں جذبے کی شدت اور جسمانی پھرتی اور مضبوط حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ابنِ حارثہ !تم ہمارے پابند ہو کر نہیں لڑو گے ۔تمہارے ساتھ پہلے طے ہو چکا ہے کہ تم اپنے انداز کا معرکہ لڑو گے لیکن تم یہ احتیاط کرو گے کہ تمہارے سوار ہمارے راستے میں نہ آئیں۔ تم نے اپنے سواروں کو یہی تربیت دے رکھی ہے انہیں اسی طرح استعمال کرو لیکن اندھا دھند نہیں۔نظم و ربط بہت ضروری ہے۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو۔ تو نے جیسا کہا ہے تجھے ویسا ہی نظر آئے گا۔ کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں اپنے دستے میں چلا جاؤں؟‘‘ ’’میں تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں حارثہ کے بیٹے!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’جا میدانِ جنگ میں ملیں گے یا میدانِ حشر میں۔‘‘مثنیٰ نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور پلک جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔اس کے ساتھ اس آتش پرست کماندار کا گھوڑا بھی تھا جسے اس نے قتل کر دیا تھا وہ یہ گھوڑا خالد ؓکے لشکر کو دے گیا تھا۔اتنی تھوڑی تعدداد میں اور اتنے محدود وسائل کے بھروسے مدینے کے مجاہدین اس لشکر پر حملہ کرنے جا رہے تھے جس کی تعداد ان سے تین گنا سے بھی زیادہ تھی اور جس کے ہتھیار بھی بہتر تھے اور جنکے سر لوہے کی خودوں سے اور چہرے لوہے کی زنجیروں سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ان کی ٹانگوں پر جانوروں کی موٹی اور خشک کھالوں کے خول چڑھے ہوئے تھے ۔مجاہدین کے دلوں میں کوئی خوف نہ تھا ‘ذہنوں میں کوئی وہم اور وسوسہ نہ تھا۔ ان کے سامنے ایک پاک اور عظیم مقصد تھا ان کی نگاہوں میں ان کے اﷲ اور رسولﷺ اور اپنے مذہب کی عظمت تھی ۔اپنی جانوں کی کوئی اہمیت نہ تھی سوائے اس کے کہ ان کی جان اﷲ کی دی ہوئی ہے اور اسے اﷲ کی راہ میں ہی قربان کر نا ہے۔ اپنی زندگی دے کر وہ اسلام کو زندہ رکھنے کا عہد کیے ہوئے تھے ۔وہ گھروں سے اپنی بیویوں سے اپنی ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں سے دور ہی دور ہٹتے جا رہے تھے۔ان کے شب وروز خاک و خون میں گزر رہے تھے ۔زمین ان کا بچھونا تھی اور اوپر آسمان تھا‘باطل کی چٹانوں سے ٹکرانا کفر کے طلاطم کو چیرنا اور دشمنانِ دین کے عزائم کو کچلنا ان کی عبادت تھی۔ان کی زبانوں پر اﷲ کا نام تھا‘ وہ تلوار کا وار کرتے تھے تو اﷲ کا نام لیتے تھے اور تلواروں سے کٹ کر گرتے تھے تو اﷲ کا نام لیتے تھے۔ زخمی ہوتے تو اﷲ کو پکارتے تھے۔لاریب ایمان کی پختگی اور جذبے کی دیوانگی ان کے ہتھیار تھے اور یہی ان کی ڈھا ل تھی۔
وہ اس وقت دشمن کے سامنے پہنچے جب دشمن کا دوپہر کاکھانا تیار ہو چکا تھا ۔ان کے سالار جابان کے حکم سے لشکر کیلئے خاص کھانا تیار کیا گیا تھا۔ مؤرخ طبری ‘ابنِ ہشام اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ فارس کی فوج کو سانڈوں کی طرح پالاجاتا تھا۔ سپاہیوں کو مرغن کھانے کھلائے جاتے تھے ۔فارس کے شہنشاہوں کا اصول بلکہ عقیدہ تھا کہ مضبوط اور مطمئن فوج ہی سلطنت ، تخت و تاج کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔فارسی سالار جابان نے اس سے زیادہ مرغن اور پر تکلف کھانا تیار کرایا تھا جو فوج کو عام طور پر ملا کرتا تھا۔ اس کھانے کا ذکر تاریخوں میں بھی آیا ہے ۔بے شمار جانور ذبح کر دیئے گئے تھے ۔گوشت کے علاوہ کئی چیزیں پکائی گئی تھیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جابان اپنے لشکر کی خاطر تواضع کر رہا تھا کہ سپاہی خلوصِ دل سے لڑیں گے اور اچھے سے اچھا کھانے کیلئے زندہ رہیں گے۔کھانا چونکہ خاص تھا اس لئے اس کی تیاری میں معمول سے زیادہ وقت لگ گیا۔ دن کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا جب کھانا تیار ہوا۔لشکر بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا ۔جب لشکر کو اطلاع دی گئی کہ کھانا تیار ہو گیا ہے اور لشکر کھانے کیلئے بیٹھ جائے عین اس وقت گشتی سنتریوں نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کی فوج سر پر آگئی ہے۔خالد ؓاپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے کہ دشمن کو ان کی آمد کی خبر قبل از وقت نہ ہو۔ انہوں نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا تھا۔ آتش پرستوں اور عیسائیوں میں ہڑبونگ سی بپا ہو گئی۔ سالار اور کماندار چلا چلا کر دونوں لشکروں کو جنگ کی تیاری اور صف بندفی کا حکم دے رہے تھے مگر لشکر کے سامنے جو رنگا رنگ کھانے رکھے جا رہے تھے انہیں لشکر چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ طبری کی تحریر شاہد ہے کہ لشکر سے بڑی بلند آواز اٹھی کہ مسلمانوں کے پہنچنے تک وہ کھانا کھا لیں گے ۔بیشتر سپاہی کھانے میں مصروف ہو گئے۔خالدؓ کی فوج جنگی ترتیب میں بالکل سامنے آگئی ۔یہ فوج حملے کیلئے بالکل تیار تھی۔ آتش پرستوں اور عیسائیوں میں وہ بھی تھے جو مسلمانوں سے شکست کھا چکے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹتے دیکھاتھا۔وہ مسلمانوں کو دیکھ کر ہی ڈر گئے تھے۔’’کھانا چھوڑ دو۔‘‘ان میں سے کئی ایک نے واویلا بپا کر دیا۔’’ ان مسلمانوں کو موقع نہ دو ۔کاٹ دیں گے ……مار دیں گے ……تیار ہو جاؤ۔‘‘ وہ کھانا چھوڑ کر لڑنے کی تیاری کرنے لگے۔ باقی لشکر اپنے سالاروں اور کمانداروں کا بھی حکم نہیں مان رہا تھا ،وہ سب بھوک سے مرے جا رہے تھے۔ لیکن جنہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ دیکھے ہوئے تھے ان کی خوف ذدہ ہڑبونگ دیکھ کر سارا لشکر کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔؂ مدینے کے مجاہدین اور آگے چلے گئے ۔خالد ؓ انہیں احکام دے رہے تھے۔دشمن نے ابھی گھوڑوں پر زینیں کسنی تھیں اور سارے لشکر کو زرہ پہننی تھی۔جابان نے مہلت حاصل کرنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس دور کے رواج کے مطابق عیسائیوں کے سردار عبدالاسود عجلی کو ذاتی مقابلے کیلئے آگے کر دیا۔
’’کس میں ہمت ہے جو میرے مقابلے کیلئے آئے گا۔‘‘عبدالاسود نے اپنے لشکر سے آگے آ کر مسلمانوں کو للکار ا۔’’جسے میری تلوار سے کٹ کر مرنے کا شوق ہے وہ آگے آ جائے۔‘‘’’میں ہوں ولید کا بیٹا !‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر بلند کی اور گھوڑے کو ایڑھ لگائی ۔’’میں ہوں جس کی تلوار تجھ جیسوں کے خون کی پیاسی رہتی ہے۔گھوڑے کی پیٹھ پر رہ ،اور اپنا نام پکار۔‘‘’’میں ہوں عبدالاسود عجلی ۔‘‘اس نے بلند آواز سے کہا۔’’ نام عجلان کا بلند ہو گا۔‘‘خالدؓ کا گھوڑا س کے قریب سے گزر گیا۔ آگے جا کر مڑا ،اور خالدؓ نے تلوار تان لی ،عبدالاسود نے بھی تلوار نکال لی تھی، خالدؓ نے دوڑتے گھوڑے سے اس پر وار کیا ۔لیکن یہ وار خطا گیا ،عبدالاسود نے بھی خالد ؓکی طرف گھوڑا دوڑادیا اور ایک بار پھر دونوں سوار آمنے سامنے آئے۔اب کہ عبدالاسود نے وار کیا۔خالدؓ نے وار اس طرح روکا کہ ان کی تلوار عبدالاسود کی تلوار کے دستے پر لگی جہاں اس عیسائی سردار کا ہاتھ تھا اس کے اس ہاتھ کی دو انگلیوں کے اوپر کے حصے صاف کٹ گئے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔عبدالاسود نے بھاگ کر نکلنے کے بجائے بلند آواز میں کہا کہ اسے برچھی دی جائے۔اس کے لشکر میں سے ایک آدمی نکلا جس کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔وہ دوڑتا ہوا اپنے سردار کی طرف آیا۔ خالد ؓنے اس کا راستہ روکنے کیلئے گھوڑے کا رخ اس کی طرف کر دیا ۔وہ آدمی پیادہ تھا ۔اس نے خالد ؓسے بچنے کیلئے برچھی اپنے سردار کی طرف پھینکی ۔خالدؓ پہنچ گئے تھے برچھی آرہی تھی جسے خالدؓ کے سر کے اوپر سے گزرنا تھا ۔عبدالاسود نے برچھی پکڑنے کیلئے دونوں ہاتھ بلند کر رکھے تھے۔ خالدؓ نے برچھی کو تلوار ماری ۔برچھی کٹ تو نہ سکی لیکن انکا مقصد پورا ہو گیا۔برچھی راستے میں رک گئی اور گر پڑی۔ خالدؓ نے گھوڑے کا رُخ عبدالاسود کی طرف کر دیا۔ اب یہ شخص وار سے صرف بچ سکتا تھا وار کو روکنا اب اس کے بس کی بات نہیں تھی۔خالدؓ نے بغرضِ تماشہ اسے اِدھر اُدھر بھگایا۔’’ابنِ ولید!‘‘خالدؓ کے ایک سالار نے بلند آواز سے کہا۔’’ اسے ختم کرو…… دشمن تیار ہو رہا ہے۔‘‘ خالدؓ نے گھوڑے کی رفتار تیز کرکے اور اسود کے قریب سے گزرتے تلوار برچھی کی طرح ماری ۔عبدالاسود نے گھوڑے کے ایک پہلو پر جھک کر بچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی تلوار اسکے دوسرے پہلو میں اتر گئی۔ عبدالاسود سنبھل گیا لیکن وہ بھاگا نہیں۔خالدؓ نے اب پیچھے سے آکر اس پر ایساوار کیا کہ اس کی گردن اس طرح کٹی کہ سر ڈھلک کر ایک کندھے پر چلا گیا گردن پوری نہیں کٹی تھی۔ادھر عیسائیوں کا سردار عبدالاسود گھوڑے سے گرا اور دریائے فرات کی طرف سے بے شمار گھوڑوں کے دوڑنے کا شور سنائی دیا ۔گھوڑے سر پٹ دوڑتے آ رہے تھے ۔اس پہلو پر عیسائیوں کا لشکر تھا ،گھوڑ سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔گھوڑے عیسائیوں کے لشکر میں جا گھسے اور سواروں کی برچھیوں نے انہیں چھلنی کرنا شروع کر دیا۔عیسائیوں کی توجہ سامنے مسلمانوں کی طرف تھی،وہ مقابلے کیلئے سنبھل نہ سکے۔’’میں ہوں حارثہ کا بیٹا مثنیٰ!‘‘ اس شورو غو غا میں سے ایک للکار سنائی دے رہی تھی۔’’ ہم بھی تم میں سے ہیں…… میں ہوں مثنیٰ بن حارثہ۔‘‘
یہ مثنیٰ کا سوار دستہ تھا جسے اس نے خالد ؓکو بتا کر لشکر سے الگ رکھا تھا ۔وہ چھاپا مارجنگ لڑنے کا ماہر تھااور اس جنگ میں لڑائی کا یہ طریقہ بے حد ضروری تھا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ میدانِ جنگ بمشکل دو میل وسیع تھا ‘اس کے دائیں اور بائیں دریا تھے۔خالدؓ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اس میدان میں وہ اپنی مخصوص جنگی چالیں نہیں چل سکیں گے۔اپنے سالاروں سے انہوں نے کہا تھا کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں وہ صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ دشمن پر بہت تیز اور شدید حملہ کیاجائے بلکہ حملہ موج دو موج ہو یعنی ایک دستے دشمن سے ٹکر لے کر پیچھے ہٹے اور دوسرا دستہ حملہ کرے خالدؓ نے اپنی فوج کو اسی قسم کے حملوں کی تربیت دے رکھی تھی اور اکثر اس کی مشق کراتے رہتے تھے۔خالد ؓنے حملے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے پہلوؤں کے دستوں کو بھی اس حملے میں جھونک دیا۔ حملے کی پہلی فوج کی قیادت خالدؓ نے خود کی ۔پہلوؤں کے سالاروں عاصم اور عدی نے بھی اپنے اپنے دستے کے ساتھ جاکر خود حملہ کیا۔ آتش پرستوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ وہ تازہ دم تھے مجاہدین تھکے ہوئے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فائدہ مل گیا کہ آتش پرست ابھی پوری طرح لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔یورپی مؤرخوں نے صاف لکھا ہے کہ فارس کی فوج ذہنی طور پر بھی لڑنے کیلئے تیار نہیں تھی ۔یہ فوج بھوکی تھی اور اسے وہ کھانا چھوڑنا پڑا تھا جو اس کیلئے خاص طور پر پکوایا گیا تھا۔ اس کھانے کیلئے تو انہوں نے مسلمانوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔مسلمانوں کو اس پہلے حملے میں خون کی خاصی قربانی دینی پڑی ۔آتش پرستوں نے تیار نہ ہوتے ہوئے بھی کئی مسلمانوں کو گھائل کر دیا۔ خالدؓپیچھے ہٹے اور دوسرے دستوں کر آگے بڑھایا۔آتش پرستوں کو تعدادکی افراط کا فائدہ حاصل تھا ۔ایک ایک مجاہد کا مقابلہ چار چار پانچ پانچ آتش پرستوں اور عیسائیوں سے تھا ۔دشمن کو اس فائدے سے محروم کر نے کیلئے مثنیٰ کا سوار دستہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا ۔اس نے سواروں کو متعدد ٹولیوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔یہ ٹولیاں باری باری گھوڑے سر پٹ دوڑاتی بگولوں کی طرح کبھی پہلو سے کبھی عقب سے آتیں اور کفار کے کئی آدمیوں کو برچھیوں سے کاٹتی گزر جاتیں۔ اس طرح دشمن کی توجہ اپنے عقب پر بھی چلی گئی لیکن مثنیٰ کے سوار رک کر نہیں لڑتے تھے۔ان سواروں نے دشمن کی ترتیب درہم برہم کیے رکھی ۔مثنیٰ کی اس کارروائی سے خالدؓ نے پورا فائدہ اٹھایا۔’’بنو بکر!‘‘ میدانِ جنگ میں ایک اعلان سنائی دینے لگا ۔’’اور زرتشت کے پجاریو !جم کر لڑو۔مدائن سے بہمن جاذویہ کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘یہ اعلان بار بار سنائی دیتا تھا۔خالدؓ کو یہ اعلان کچھ پریشان کر رہا تھا ۔انہوں نے پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ ہر طرف دھیان رکھیں۔ خالدؓ نے اپنے محفوظہ کے دستوں کو بھی خبر دار کر دیا کہ عقب سے حملے کا خطرہ ہے۔
تقریباً تما م مؤرخین نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ مدائن سے کوئی لشکر نہیں لا رہا تھا کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ وہ جابان کی مدد کیلئے کیوں نہیں پہنچ سکا تھا ۔ایک مؤرخ یاقوت نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ اپنے لشکر میں شامل ہونے کیلئے واپس آ رہا تھا راستے میں اسے اس لڑائی سے بھاگے ہوئے کچھ سپاہی مل گئے۔ جنہوں نے اسے الیس کی جنگ کا حال سنایا ،جاذویہ آگے آنے کے بجائے وہیں رک گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ شکست اس کے کھاتے میں نہ لکھی جائے۔ بہرحال اس اعلان نے کہ مدائن سے جاذویہ فوج لا رہا ہے مسلمانوں میں نئی روح پھونک ڈالی۔خالدؓنے اعلان کیا کہ مدائن کے لشکر کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس لشکر کا صفایا کر دو لیکن آتش پرست اور عیسائی چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔خالد ؓ دعا تو کرتے ہی تھے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ خالد ؓگھوڑے سے اترے ‘زمین پر گھٹنے ٹیکے اور ہاتھ بلند کر کے دعا کی ۔’’خدائے ذوالجلال! ہمت عطا فرما کہ ہم اس لشکرکو نیچا دِکھا سکیں ۔میں عہدکرتا ہوں کہ میں تیرے دین کے دشمنوں کے خون کا دریا بہا دوں گا۔‘‘اب کہ خالدؓ نے نئے جوش و خروش سے حملے کروائے ۔پہلوؤں کے دونوں سالاروں نے دشمن کو نیم دائرے میں لے لیا۔ عقب سے مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں نے اپنی چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں۔دو تین گھنٹے بعد صاف نظر آنے گا کہ دشمن کے قدم اُکھڑ رہے ہیں۔چونکہ دشمن کی تعداد زیادہ تھی اس لئے اس کے مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔یہ حالت دیکھ کر عیسائیوں اور آتش پرستوں کے وہ لوگ جو پہلی تین جنگوں سے زندہ بھاگ نکلے تھے ،حوصلہ ہار بیٹھے اور جانیں بچانے کیلئے میدانِ جنگ سے کھسکنے لگے،پھر لشکر کے دوسرے لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگے ۔یہ صورت دیکھ کر مسلمانوں نے اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کردی۔پھر اچانک یوں ہوا کہ کفار نے بھاگنا شروع کر دیا۔’’تعاقب کرو!‘‘خالدؓ نے اپنے تمام لشکر میں قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیئے اور بلند آواز میں اعلان بھی کرایا۔’’انہیں بھاگنے مت دو……انہیں قتل بھی نہ کرو……زندہ پکڑ لاؤ۔‘‘اس اعلان کا کفار پر ایک اثر تو یہ ہوا کہ انہوں نے بھاگنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیئے۔ بعض نے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھنا بہتر سمجھا۔مثنیٰ کے سواروں نے انہیں گھیر گھیر کر پیچھے لانا شروع کر دیا۔جنگ ختم ہو چکی تھی۔میدانِ جنگ لاشوں اور تڑپتے اور بے ہوش زخمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ایک طرف وہ کھانا محفوظ پڑا تھا جو دشمن کے لشکر کیلئے تیار کیا گیا تھا ۔خالدؓ کے حکم سے مجاہدین کھانے پر بیٹھ گئے ۔جو سپاہی بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر لا رہے تھے وہ بھی کھانا کھانے لگے۔خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔’’اﷲنے یہ کھانا تمہارے لیے تیار کرایا تھا۔اطمینان سے کھاؤ۔‘‘مسلمان مختلف کھانے دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے،انہوں نے ایسے کھانے پہلے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے ۔وہ جَو کی روٹی، اونٹنی کا دودھ اور کھجوریں کھانے والے لوگ تھے۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ دشمن کے جن آدمیوں کو زندہ پکڑ کر لایا جا رہا تھا انہیں خالد ؓکے حکم سے خسیف کے کنارے لے جاتے اور ان کے سر اس طرح کاٹ دیئے جاتے کہ سر دریا میں گرتے تھے۔ ان کے دھڑ اس طرح کنارے پر پھینکے جاتے کہ ان کا خون دریا میں جاتا تھا ،اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں کے حساب سے تھی۔غیر مسلم مؤرخوں اور مبصروں نے خالد ؓکے اس حکم کو ظالمانہ فعل کہا ہے لیکن خالدؓ کہتے تھے کہ انہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ وہ کفار کے خون کادریا بہا دیں گے۔دریاکے اوپر بند بندھا ہوا تھا۔جس نے دریا کا پانی روکا ہوا تھا اس لیے خون دریا میں جمتا جا رہا تھا ۔کسی نے خالد ؓکو مشورہ دیا کہ خون کا دریا صرف اس صورت میں بہے گا کہ بند کھول دیا جائے چنانچہ بند کھول دیا گیا ۔جب اتنا زیادہ خون پانی میں ملا تو پانی سرخ ہو گیا اور خون کا دریا بہنے لگا۔اسی لیے تاریخ میں اس دریا کو دریائے خون لکھا گیا ہے۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بچ نکلنے والوں اور ہتھیار ڈالنے والوں کا قتلِ عام اس لیے کرایا تھا کہ یہ سپاہی ایک جنگ سے بھاگ کر اگلی جنگ میں پھر سامنے آ جاتے تھے ۔اس کا علاج خالدؓ نے یہ سوچا کہ دشمن کے کسی ایک بھی سپاہی کو زندہ نہ رہنے دیا جائے ۔کہتے ہیں کہ تین دن آتش پرستوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ملاکر دریائے خون کی جنگ میں جو آتش پرست اور عیسائی مارے گئے ان کی تعداد ستّر ہزار تھی۔شہنشاہِ فارس اردشیرجونوشیرواں عادل کا پرپوتا تھا،ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا جو شاہی طبیبوں کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔اتنا تو وہ جانتے تھے کہ پے در پے تین شکستوں کا صدمہ ہے لیکن صدمہ آخر جسمانی مرض کی صورت اختیار کر گیا تھا۔اس کا علاج دوائیوں سے ہونا چاہیے تھا لیکن یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دوائیوں کونہیں بلکہ دوائیاں اسے کھا رہی ہوں۔
اردشیر پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔وہ جو اپنے وقت کا فرعون تھا ،سحر کے دیئے کی طرح ٹمٹما رہا تھا۔طبیب اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ اردشیر تک جنگ کی کوئی بری خبر نہ پہنچے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔وہ جب بولتا تھاتو یہی بولتا تھاکہ آگے کی کیاخبر ہے؟’’خبریں اچھی آرہی ہیں۔‘‘طبیب جو ہر وقت حاضر رہتا تھا اسے جواب دیتا اور اسے صدمے سے بچانے کیلئے کبھی کہتا ۔’’مسلمان پچھتا رہے ہیں کہ وہ کس دیو کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔‘‘کبھی کہتا ۔’’فارس کی شہنشاہی ایک چٹان ہے۔اس سے جو بھی ٹکرایا اس نے اپنا سر پھوڑ لیا۔‘‘اور کبھی اس کی چہیتی ملکہ یہ کہہ کر اس کا دل مضبوط کرتی ۔’’عرب کے بدو کسریٰ کے جاہ و جلال کی تاب نہیں لا سکتے۔‘‘
ان تسلیوں اور ان حوصلہ افزاء الفاظ کا کسریٰ اردشیر پر دوائیوں کی طرح الٹا یہی اثر ہو رہا تھا۔اس کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی اور اس کے چہرے پر اداسیوں کی پر چھائیاں کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی گئیں۔اس کی من پسند رقاصہ نے اس کے سامنے حسین ناگن کی طرح اپنے جسم کو بہت بل دیئے ۔اس نے اپنا جسم نیم عریاں کیا۔اردشیر کے علیل چہرے پر اپنے عطر بیز ریشم جیسے ملائم بالوں کا سایہ کیا۔پھر عریاں ہو کر رقص کی اداوؤں سے کسریٰ کے روگی وجود کو سہلانے کے جتن کیے مگر ایسے لگتا تھا جیسے مورنی جنگل میں ناچ رہی ہو اور ناچ کا طلسم جنگل کی ہواؤں میں اڑتا جا رہا ہو۔اس کی پسندیدہ مغنّیہ جو اردشیر کو مسحور کر لیا کرتی تھی ، اس کا سحر بھی رائیگاں گیا۔یہ رقاصہ اور مغنّیہ فارس کے حسن کے شاہکار تھے۔فارس کا حسن تو کسریٰ کے حرم میں پھولوں کی طرح کھِلا ہوا تھا۔ان پھولوں میں ادھ کھِلی کلیاں بھی تھیں،اردشیر ان کے مخملیں جسموں کی بو باس سے مدہوش رہا کرتا تھا ،مگر اب ایک ایک کو اسکی تنہائی کا ساتھی بنایا گیا تو اردشیر نے کسی کو بھی قبول نہ کیا۔اس کے سرد جسم میں نوخیز جوانی کی تپش ذرا سی حرارت بھی پیدا نہ کر سکی۔’’بیکار ہے…… سب بیکار ہے۔‘‘ملکہ نے باہر آ کر اس بوڑھے شاہی طبیب سے کہا جس کے متعلق فارس کے کونے کونے تک مشہور تھا کہ اسے دیکھ کر موت منہ موڑ جاتی ہے ۔ملکہ نے رندھی ہوئی آواز میں اسے کہا۔’’کیا آپ کا علم اور تجربہ بھی بیکار ہے ؟کیا یہ محض ڈھونگ ہے؟کیاآپ کسریٰ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں لا سکتے؟کون کہتا ہے آپ موت کا منہ موڑ دیا کرتے ہیں؟‘‘’’زرتشت کی رحمتیں ہوں تجھ پر ملکہ فارس !‘‘بوڑھے طبیب نے کہا۔’’نہ کسی کی موت میرے ہاتھ میں ہے نہ کسی کی زندگی میرے ہاتھ میں ہے ۔میں زندگی اور موت کے درمیان کمزور سی ایک دیوار ہوں۔موت کے ہاتھ اتنے مضبوط اور توانا ہیں کہ اس دیوار کو دروازے کے کواڑ کی طرح کھول لیتے ہیں اور مریض کو اٹھا لے جاتے ہیں اور میرا علم اور میرا تجربہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘‘’’الفاظ……محض الفاظ۔‘‘ ملکہ نے فرش پر بڑی زور سے پاؤں مار کر کہا۔’’ کھوکھلے الفاظ ……کیا الفاظ کسی دکھیارے کا دکھ مٹا سکتے ہیں؟ کسی روگی کو روگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟کیا آپ کے الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ کسریٰ کے روگ کو چوس لیں؟‘‘’’نہیں ملکہ فارس!‘‘ طبیب نے بڑے تحمل سے کہا اورکانپتے ہوئے ہاتھ سے ملکہ کے بازو کو پکڑا اور اسے بٹھا کر کہا ۔’’الفاظ کسی کے دکھ اور کس کے روگ کو مٹا نہیں سکتے ۔البتہ دکھ اور روگ کی اذیت کو ذرا کم کر دیا کرتے ہیں۔حقیقت کے سامنے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے اور حقیقت اگر تلخ ہو تو عالم کے منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ یوں لگتے ہیں جیسے خزاں میں شجر کے زرد پتے گر رہے ہوں۔سوکھے ہوئے ان پتوں کو پھر ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں۔‘‘’’ہم کسریٰ کو حقیقت سے بے خبر رکھ رہے ہیں ۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’میں انہیں رقص و نغمے سے بہلانے کی……‘‘ ’’کب تک؟‘‘بوڑھے طبیب نے کہا۔’’ملکہ کسریٰ! تم کسریٰ سے اس حقیقت کو کب تک چھپائے رکھو گی؟ یہ رقص اور یہ نغمے اور یہ مخمل جیسے نرم وملائم اور نو خیز جسم کسریٰ اردشیرکا دل نہیں بہلا سکتے ۔اگر کسریٰ صرف شہنشاہ ہوتے تو وہ اپنے آپ کو بڑے حسین فریب دے سکتے تھے ۔فرار کے بڑے دلکش راستے اختیار کر سکتے تھے لیکن وہ جنگجو بھی ہیں۔ انکے گھوڑے کے سموں نے زمین کے تختے کو ہلا ڈالا تھا فارس کی اتنی عظیم شہنشاہی کسریٰ کے زورِبازو کا حاصل ہے۔‘‘
’’اس شہنشاہی کو انہوں نے رومیوں کی طاقتور فوج سے بچایاہے کسریٰ نے لڑائیاں لڑی ہیں ۔بڑے خونریز معرکے لڑے ہیں ۔اب وہ جنگجو اردشیر بیدار ہو گیا ہے ۔اب رقص و نغمہ اور یہ طلسماتی جوانیاں ان پر الٹا اثر کر رہی ہیں۔ اب وہ کسی رقاصہ اور کسی مغنّیہ کو نہیں ہرمز کو بلاتے ہیں۔اندرزغر کی پوچھتے ہیں۔بہمن جاذویہ اور انوشجان کو پکارتے ہیں۔ کہاں ہیں ان کے یہ سالار ؟تم انہیں کیا دھوکا دو گی؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ملکہ نے آہ بھر کر کہا۔’’کچھ بھی نہیں۔آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن کچھ تو بتائیں میں کچھ نہیں سمجھ سکتی ،کیا آپ مسلمانوں کو جانتے ہیں ؟یہاں چند عیسائی آئے تھے وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتااور میں نے دیکھاہے کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ہم نے جن مسلمانوں کو آباد کرکے انہیں اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جنہیں ہم کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھتے تھے وہی مدینہ والوں کا بازو بن گئے ہیں اور ہمارا لشکر ان کے آگے بھاگا بھاگا پھر رہا ہے۔‘‘’’یہ عقیدے کی طاقت ہے ملکہ فارس!‘‘طبیب نے کہا۔’’تو کیا ان کاعقیدہ سچا ہے؟‘‘’’نہیں ملکہ فارس!‘‘بوڑھے طبیب نے کہا۔’’ایک بات کہوں گا جو شائد تمہیں اچھی نہ لگے۔ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ بادشاہی صرف اﷲکی ہے اور بندے اسکے حکم کے پابند ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اُس اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔کیا تم اس راز کو سمجھی ہو ملکہ کسریٰ؟‘‘’’نہیں بزرگ طبیب!‘‘ملکہ نے جواب دیا۔’’میں نہیں سمجھ سکی ۔بادشاہی تو ایک خاندان اور اس کے ایک فرد کی ہوتی ہے۔‘‘’’اس کا انجام تم دیکھ رہی ہو ملکہ کسریٰ !‘‘طبیب نے کہا۔’’آج وہ ایک انسان جو اپنے آپ کوانسانوں کا شہنشاہ سمجھتا ہے‘ بے بس اور مجبور اندر پڑا ہے اوراپنی بادشاہی کو بچانہیں سکتا ۔اس کالشکر پسپا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان سپاہیوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک خاندان اور ایک انسان کی شہنشاہی کی خاطر اپنی جانیں دیں اور وہ جو ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں وہ بھاگتے ہوئے مر رہے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ مالِ غنیمت تو ہے ہی نہیں پھر لڑیں کیوں ؟وہ تمہارے خزانے سے ماہانہ وصول کرنے کیلئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور مسلمان؟‘‘ ’’مسلمان!‘‘ طبیب نے کہا۔’’مسلمان کسی ایک انسان کے آگے جواب دہ نہیں۔وہ اﷲکی خوشنودی کیلئے لڑتے ہیں اور اپنے امیر کاحکم مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی کم تعداد میں بھی طوفان کی طرح بڑھے آرہے ہیں۔ملکہ فارس! عقیدہ اپنا اپنا اور مذہب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ میں علم اور تجربے کی بات کرتا ہوں ۔جب ایک خاندان اور ایک انسان اپنے آپ کو شہنشاہ بنا لیتا اور انسانوں کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی فوج کو بھی اور اپنی رعایا کوبھی تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔‘‘’’میں نہیں سمجھ سکتی ۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’میں سمجھنا نہیں چاہتی۔میں صر ف یہ چاہتی ہوں کہ کسریٰ صحت یاب ہو جائیں۔کچھ کرو بزرگ طبیب کچھ کرو۔‘‘’’کچھ نہیں ہو سکتا ملکہ فارس!‘‘طبیب نے کہا۔’’کچھ نہیں ہو سکتا۔صرف یہ خبر لے آؤ کہ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال دیا گیا ہے یاخالد بن ولید کو زنجیروں میں باندھ کر کسریٰ کے دربار میں لے آؤ۔تو کسری اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘’’ایسی خبر کہاں سے لاؤں؟‘‘ملکہ نے رنجیدہ اور شکست خوردہ لہجے میں کہا۔’’مدینہ کے اس سالار کو کیسے زنجیروں میں باندھ کر لے آؤں؟ اگر میرے سالار شکست کھا کر زندہ آ جاتے تو میں ان کی ٹانگیں زمین میں گاڑھ کر ان پر کتے چھوڑ دیتی۔‘‘وہ سر جھکائے ہوئے چل پڑی۔
ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا اور محل کے باہررکا۔ ملکہ دوڑتی باہر گئی۔ بوڑھا طبیب بھی اس کے پیچھے گیا۔وہ ایک کماندار تھا گھوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانو ہو گیا ‘اس کا منہ کھلا ہوا تھاآنکھیں سفید ہو گئی تھیں۔ چہرے پر صرف تھکن ہی نہیں گھبراہٹ بھی تھی۔’’کوئی اچھی خبر لائے ہو ؟‘‘ملکہ نے پوچھا اور شاہانہ جلال سے بولی۔’’ اٹھو اور فوراً بتاؤ۔‘‘’’کوئی اچھی خبر نہیں۔‘‘کماندار نے ہانپتی ہوئی آواز سے کہا۔’’مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا ہے ۔ انہوں نے ہمارے ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خسیف کے کنارے اس طرح قتل کر دیا ہے کہ دریا میں خون چل پڑا ۔دریا خشک تھا مسلمانوں کے سالار نے اوپر سے دریا کا بند کھلوا دیا تو بادقلی خون کادریا بن گیا۔‘‘’’تم کیوں زندہ واپس آ گئے ہو؟‘‘ملکہ نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔’’کیا تم میرے ہاتھوں کٹنے کیلئے آئے ہو؟‘‘’’میں اگلی جنگ لڑنے کیلئے زندہ آ گیا ہوں ‘‘۔کماندار نے جواب دیا۔’’ میں چھپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ ہوتے دیکھتا رہا ہوں ۔‘‘’’خبر دار!‘‘ ملکہ نے حکم دیا ۔’’یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ۔ شہنشاہِ فارس کو……‘‘ ’’شہنشاہِ فارس یہی خبر سننے کیلئے زندہ ہے۔‘‘اردشیر کی آواز سنائی دی۔ ملکہ نے اور طبیب نے دیکھا ۔اردشیر ایک ستون کے سہارے کھڑا تھا ۔دوبڑی حسین اورنوجوان لڑکیوں نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ ’’یہاں آؤ۔‘‘اس نے کماندا ر کو حکم دیا۔’’میں نے محسوس کر لیا تھا کوئی آیا ہے ۔کہو کیا خبر لائے ہو؟‘‘کماندار نے ملکہ اور طبیب کی طرف دیکھا ۔’’ادھر دیکھو !‘‘اردشیر نے گرج کر کہا۔’’بولو۔‘‘کماندار نے وہی خبر سنا دی جو وہ ملکہ کو سنا چکا تھا۔ کسریٰ اردشیر آگے کو جھک گیا ۔دونوں لڑکیوں نے اسے سہارا دیا۔ ملکہ نے لپک کر اس کا سر اوپراٹھایا ۔بوڑھے طبیب نے اس کی نبض پر انگلیاں رکھیں۔ملکہ نے طبیب کی طرف دیکھا ۔طبیب نے مایوسی سے سر ہلایا۔’’فارس ‘کسریٰ اردشیر سے محروم ہو گیا ہے۔‘‘ طبیب نے کہا۔محل میں ہڑبونگ مچ گئی۔اردشیرکی لاش اٹھا کر اس کے اس کمرے میں لے گئے جہاں اس نے کئی بار کہاتھا کہ عرب کے ان لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔اس نے اسی کمرے میں ولید کے بیٹے خالدؓ اور حارثہ کے بیٹے مثنیٰ کو زندہ یا مردہ لانے کاحکم دیا تھا۔اپنے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اس کمرے میں اس کی لاش پڑی تھی۔ وہ شکستوں کے صدمے سے ہی مر گیا تھا۔ملکہ نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسریٰ کی موت کی خبر نہ پہنچنے دی جائے ۔مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا داخل ہوا۔اس کاسوار چلّارہاتھا۔’’کہاں ہے ولید کا بیٹا؟‘‘گھوڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آ رہا تھا۔’’باہرآ ابنِ ولید!‘‘خالدؓ بڑی تیزی سے سامنے آئے۔’’ابنِ ولید!‘‘سوار کہتا آ رہا تھا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔تیری دہشت نے اردشیر کی جان لے لی ہے۔‘‘’’کیا تو پاگل ہو گیا ہے ابنِِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے آگے بڑھ کر کہا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔