جمعہ، 17 اپریل، 2015

شاطر چور

0 comments
ساہوکاروں کے ایک قصبے میں دو چور رہتے تھے۔ بڑے دھاڑی، جتھے والے‘ جس کو تاکا ننگا کر کے چھوڑا، جس گھر میں گھسے پوری صفائی کر دی‘ مگر جب لوٹا بھرپور اسامی کو! غریبوں کو کبھی نہیں ستایا، بلکہ امیروں کی دولت سے بیسیوں بیوائوں، سیکڑوں اندھے دھندوں کی ہمیشہ مدد کی۔ سفید پوش بھوکوں کا ان سے گزارہ چلتا تھا۔
اتفاق سے ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی۔ ایک دوسرے کی گھات میں رہنے لگے۔ ہر پیشے میں ایک شرافت ہوتی ہے۔ دشمن ہو کر بھی وضعداری کا پاس رہا۔ خون کے پیاسے تھے، تاہم ایک دوسرے کی آبرو پر ہاتھ نہ ڈالا۔ پولیس نے اپنی اپنی جگہ دونوں کو گانٹھنا چاہا۔ کیا مجال ہے کہ کسی نے ساتھ دیا یا پرائی دوستی کو تیسرے ہاتھ سے قطع کرانے کی ٹھانی۔ یہاں تک کہ دونوں بوڑھے ہو کر خانہ نشین ہو گئے۔
جوانی کی کمائی پر عمر کے باقی دن کاٹنے لگے۔ ان دونوں کا ایک ایک لڑکا تھا۔ چوروں کے بیٹے سوداگر یا منشی تو ہونے سے رہے۔ مثل مشہور ہے کہ باپ پرپوت پتا پر گھوڑا ،بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ ان کا بھی چوری ڈکیتی کی ہی باتوں میں جی لگتا۔ جب دیکھا کہ چوری کے سوا ان کی طبیعت کا لگائو کسی دوسری طرف نہیں تو خیال کیا کہ پھر بے استادے کیوں رہیں؟ دونوں اپنے اپنے لڑکے کو لے کر ایک پرانے استاد کے پاس پہنچے۔
چوروں کا گرو گھنٹال بستی کے باہر قبرستان میں تکیہ جمائے بیٹھا تھا۔ دور دور سے لوگ چوری کی گھاتیں سیکھنے آیا کرتے تھے، چناںچہ دونوں لڑکوں کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور دونوں باقاعدہ شاگرد ہو گئے۔ چوری علم سینہ ہے، سفینے میں کہاں‘ پھر بے عمل علم کس کام کا؟ اس فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے پورے پچیت استاد کی ضرورت ہے۔ اناڑی چور ہمیشہ مار کھاتے ہیں۔ دیوار پھاندنا، کونبل کرنا، تالے توڑنا آسان نہیں۔ چوری کہنے کو تو معمولی بات ہے لیکن اس کی نُدرتوں کو دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ یہ محض اُچکاپن نہیں، بڑا دلیرانہ و عاقلانہ ہنر ہے۔
کئی برس گز گئے اور دونوں لڑکے اچھے اچھے سورمائوں کے کان کاٹنے لگے۔ بڑی بڑی چوریوں میں شریک ہوئے۔ مسافروں کو خوب جُل دیے‘ مگر استاد کو ابھی پورا اطمینان نہ تھا۔ جب تک وہ ان کا الگ الگ امتحان نہ لے لیتا کیسے نیابت کی پگڑی باندھتا؟ اس لیے ایک دن دونوں ہونہار شاگردوں کو بلا کر کہا ’’چھورو! تم سیکھ تو سب کچھ گئے ہو پر اپنے ہاتھ پائوں سے تو کوئی ہنر دکھائو۔‘‘ جھبرا ’’استاد جو کہو۔ حکم ہو تو آج ہی لکھی بنیے کی بہو کے کڑے اتار لائوں؟‘‘
دھنا: جوالا کے پوت کی سگائی ہے۔بڑا مال ہوگا۔ رات کو لگا دوں کونبل؟ استاد: نہ رے، یہ کام ابھی کرنے کے نہیں‘ پھر کر لینا۔ میں تو جب جانوں کہ فقیرا میواتی کے چھپر کے اوپر جو تونبے (کدو) پڑے ہیں، ان میں سے بیچ کا تونبا توڑ لائو۔ جھبرا:’’ واہ استاد! یہ بھی کوئی کمال ہے؟‘‘ دھنا: ’’اچھی کہی۔ اس بے چارے بڈھے بڑھیا کے تونبے میں کیا رکھا ہے۔
استاد: ’’ارے میرا بھی تو بڑھاپا ہے‘ سٹھیا گیا ہوں۔ دیکھیو، لائیو بیچ ہی والا تونبا! تم دونوں میں جو تونبا لائے گا بس وہی پکا چور ہے۔ کل ہی پگڑی بندھ جائے گی۔‘‘ دونوں استاد کی بات پر ہنستے اور اس کی بے وقوفی کا دل ہی دل میں مذاق اڑاتے اپنے اپنے گھر گئے۔ فقیرا میواتی کبھی خاصا مال دار کاشت کار تھا۔ ادھر بڑھاپا آیا‘ ادھر کئی جوان بچے مرے۔ کمر ٹوٹ گئی۔ ہار کر بیٹھ گیا۔ دو میاں بیوی تھے۔ جھونپڑی کے آس پاس کچھ ترکاریاں بو لیتا انہی کی آمدنی پر گزارا کرتا۔ اس نے تونبوں کی ایک بیل بھی لگا رکھی تھی۔
ان کی پرورش کا ایسا ڈھب اسے آ گیا کہ جب وہ پک جاتے تو دور دور سے لوگ لینے آتے۔  چھپر برسوں پرانا تھا۔ اسی پر تونبوں کی بیل چڑھی رہتی اور جب تک تونبے پک کر تیار نہ ہو جاتے، دونوں بڈھے بڑھیا چھپر کے نیچے بیٹھے ان کی دیکھ بھال کیا کرتے۔ بیل کی خاطر چھپر مرمت بھی نہ کرتے۔ رات کو دونوں میں سے کوئی نہ کوئی جاگتا رہتا کہ ایسا نہ ہو ‘ اندھیرے اجالے کوئی قصبے کا لونڈا چھپر پر چڑھ پکے ہوئے تونبے توڑ لے جائے۔
جھبرا تو گھر جا کر یہ سوچتا ہی رہا کہ استاد نے یہ کیسی چوری بتائی ہے۔ مذاق تو نہیں کیا؟ بھلا تونبے کا چرانا بھی کوئی کاریگری ہے۔ چار ٹکے کا تونبا اور مفت کی جان جوکھوں۔ فقیرا بڈھا تو ہے پر اس کی دھاک ساری بستی مانتی ہے۔ چھپرکا بانس بانس گلا ہوا‘ یہ کیا بات ہوئی‘ لیکن دھنا اپنے استاد کے حکم کا بندہ تھا۔ وہ فقیرا کی جھونپڑی کو دیکھتا ہوا گھر آیا۔
آدھی رات ہونے کو آئی‘ تو اس نے ایک بلی پکڑی۔ ایک رسی کمر سے باندھی اور ایک چاقوانٹی میںلگا کرروانہ ہوا۔ جھونپڑی کے برابر میں نیم کا درخت تھا۔ چپکے سے آکر اس پر چڑھ گیا اور کان لگا کر سننے لگا کہ فقیرا اور اس کی بڑھیا جاگتے ہیں یا سو گئے۔ جب خراٹوں کی آواز کے سوا کوئی آواز نہ آئی تو نیم کی ٹہنی میں جھول کرآہستہ سے چھپر پر اترا۔ چھپر میں اتنی سہار کہاں تھی‘ پرانا ٹھاٹر چرچر کرنے لگا۔ گلا ہوا پھونس گرنا شروع ہوا۔ بڑھیا کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے چھپر پر کسی کی آہٹ پا کر میاں کو جگا دیا۔ ’’سنتے ہو جگو کے باپ، کوئی نامراد چھپر پہ اپنی گور پوت رہا ہے۔‘‘
بڈھا کروٹ لے کر بولا ’’کیا ہے؟ تیرا تو دماغ چل گیا ہے۔ پڑی رہ! رات کو بھی سونے نہیں دیتی۔‘‘ اتنے میں پھر کھڑبڑ ہوئی اور چھپر میں سے مٹی جھڑی۔ بڑھیا کہنے لگی ’’ارے میرا دماغ نہ چلا ہے۔ ذرا باہر نکل کر تو دیکھ‘ تونبے لے جائے گا تو پھر روئے گا۔‘‘ دھنا نے جو بڑھیا کو یہ کہتے سنا تو جھٹ بلی کا گلا دبایا۔ وہ زور زور سے خُر خُر میائوں میائوں کرنے لگی۔
بلی کی آواز سن کر بڈھا بہت جھلایا اور بولا ’’کہتا نہیں کہ تُو بائولی ہو گئی ہے۔ سن یہ تیری میاّ بول رہی ہے۔ تجھے رات دن چور دکھائی دیتے ہیں۔ نہ آپ سوئے نہ سونے دے۔ چپکی پڑ جا‘ اب کے بولی تو مار بیٹھوں گا۔‘‘ بڈھا بڑھیا تُو تُو میں میں کرتے رہے اور دھنا نے چاقو نکال کر درمیان والا تونبا کاٹ لیا۔ وہ پندرہ بیس سیر سے کم نہ تھا۔ اسے سنبھال کر اترے کیوں کر؟ چھپر کمزور اور اتنا بوجھ۔ اِدھر فقیر پڑا خفا ہو رہا تھا، مگر بڑھیا برابر سر تھی کہ ایسی نیند بھی کس کام کی؟ گھر لٹ جائے اور تُو پڑا پڑا باتیں ملایا کرے۔ یہ تو کوئی تونبے کا چور ہے۔
خیر دونوں میں تکرار بڑھنے لگی۔ وہ کہتا تھا کہ بلی ہے۔ یہ کہتی تھی کہ نہیں‘ کوئی ہمارا بیری ہے۔ بڑھیا طعنے دے دے کر کہہ رہی تھی کہ اچھا باہر نکل کر دیکھ تو لے پھر کہیو۔ بڈھا کہتا تھا کہ ایسا ہی وہم ہے‘ اٹھ کر تو ہی دیکھ لے نا۔ دھنا ڈرا کہ کہیں لڑتے جھگڑتے یہ باہر نہ آ جائیں یا بڑھیا چیخ چیخ کر پڑوسیوں کو نہ جگا دے۔ پولیس کی چوکی بھی سامنے ہے۔ کوئی سپاہی نہ آ کر دھر لے۔
یہ خیال آتے ہی دھنا نے بلی کو اٹھا کر زور سے چھپر پردے مارا۔ چھپر کا پھونس تو گلا ہوا تھا ہی، بلی چھپر پھاڑ کر نیچے گری اور سیدھی بڑھیا کے منہ پر جا پڑی۔ ایک تو بلی جھلائی ہوئی دوسرے بڑھیا نے جو گھبرا کر ہاتھ چلائے تو بلی کا گلا دب گیا۔ اس نے تڑپ کر ایسا پنجہ مارا کہ بڑھیا کا منہ کھسوٹ لیا۔
بڑھیا لہو لہان ہو کے ہائے ہائے کرنے لگی۔ بڈھا جھنجھلا کر کہہ بولا ’’اب مزا آیا۔ کہہ رہے تھے کہ سو جا اری سو جا۔ نہ مانی۔ لے اب کرموں کو رو۔ نہ غل مچاتی نہ بلاڑی گر کر پنجہ مارتی۔ بڑی آئی تونبوں کی رکھوالی کرنے والی۔ پڑ گئی نا ٹھنڈک…‘‘ دھنا کو ایسا موقع خدا دے، اس نے تونبے کو رسی میں باندھ کر نیچے لٹکایا اور نیم کی ٹہنی پکڑ، چھلانگ مار تونبا کندھے پر رکھ یہ جا وہ جا۔ صبح ہوتے ہی تونبا استاد کے سامنے پیش کیا اور ساری واردات کہہ سنائی۔ استاد نے شاباشی دی، کمر ٹھونکی اور کہا کہ جا اب تو پکا ہو گیا ہے۔ چوری کر چاہے ڈاکا مار۔ اوسان سے کام لیجیو‘ ہر جگہ پورا اترے گا۔
باپ کو جو بیٹے کے امتحان میں پاس ہونے کی خبر لگی وہ بھی بہت خوش ہوا۔ کہنے لگا کہ کاش تو رانی کے گلے سے نولکھا ہار اتار لائے۔ دھنا کا جوان خون باپ کی بات سن کر کھول گیا۔ منہ سے تو کچھ نہ بولا‘ لیکن راج محل پہنچنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ قلعے کے دروازے پر جاتا، پہرے والوںکے پاس بیٹھتا، چلمیں پیتا، اندر آنے جانے والوںسے انجان بن کر بھید لیتا۔ رانی کے اٹھنے، بیٹھنے، جاگنے سونے کے حالات سنتا۔ اسی اثنا میںاتفاق سے خاص رانی کی ایک باندی مل گئی۔ وہ بڑی مٹکو تھی۔ دھنا بھی خاصا سجیلا جوان تھا۔ اس سے جو میل جول بڑھا تو ڈیوڑھی والے بھی جان پہچان گئے۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا!
ایک رات کہ خوب اندھیری گھری ہوئی، دھنا نے چوری کی ٹھانی۔ کالے کپڑے پہن ایک نوک دار کٹار کمر میںاڑسی، ہتھوڑی اور کچھ لمبی لمبی سی میخیں بغل میں دبا، مٹھائی کا دونا ہاتھ میں لے محل کے دروازے پر پہنچا۔ پہرے داروں کو مٹھائی بانٹتا اور اپنی آشنا باندی کی ٹوہ لیتا زنانی ڈیوڑھی میں پہنچا۔ رانی اوپر کی بارہ دری میں سوتی تھی۔ زینے کے کواڑ بند، چوبداروں کا پہرہ لگا ہوا تھا، اوپر جائے تو کس طرح؟ اِدھر چوکیدار اُدھر اونچی دیوار۔
خواب گاہ کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ روشنی جھلک رہی تھی۔ میخیں ٹھونک کر چڑھتا ہے‘ تو ہتھوڑے کی آواز کا ڈر۔ زنانی ڈیوڑھی کے چوک میں ایک گھڑیالی ٹنگی ہوئی تھی۔ دل میں سوچا‘ اب بارہ بجنے والے ہیں، گھڑیالی بجے گی اور پہرہ بدلا جائے گا۔ اس کی ٹکور کے ساتھ میخیں ٹھونکنی چاہئیں اور پہرے بدلنے کی گڑبڑ میں اوپر پہنچ جائوں۔ چناںچہ تھوڑی دیر میں گھڑیالی پر موگری پڑنی شروع ہوئی اور یہ میخیں ٹھونکتا ہوا چلا۔ ادھر گھڑیالی کی جھنجھناہٹ ختم ہوئی اور یہ کھڑکی کے اندر تھا۔
کمرے میں خاموشی تھی، دبے پائوں داخل ہوا۔ دیکھتا کیا ہے کہ باہر کی طرف دو سیجیں بچھی ہوئی ہیں۔ ایک پر راجا بے خبر پڑا سو رہا ہے اور دوسری پر رانی۔ رانی کے سرہانے ایک عورت بیٹھی ہے، نیند میں چور، آنکھیں بند! یہ عورت داستان گو تھی۔ رانی کو کہانی سنے بغیر نیند نہ آتی تھی۔ اس وقت بھی عورت نے کوئی قصہ شروع کر رکھا تھا۔ جھونٹے پر جھونٹے آ رہے تھے، مگرکیا مجال ہے کہ زبان رکے۔ دھنا پہلے تو کہانی سنتا رہا اور جب کہانی کا مطلب سمجھ میں آگیا تو چپکے چپکے پیچھے سے جا کر اسے بے ہوشی کا فتیلہ سونگھا دیا۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔
اسے کمرے کے اندر لا کپڑے اتارے اور آپ اس کی صورت بن رانی کے سرہانے جا بیٹھا۔ اس دوران رانی نے کروٹ لی۔ ہر کام میں اوسان بڑی چیز ہیں‘ گھونگھٹ نکال کہانی کہنے لگا۔ رانی پھر سو گئی۔ کروٹ لینے میں ہار سامنے آ پڑا تھا۔ دھنا نے جلدی سے اتار لیا اور پنجوں کے بل زینے سے اتر پہرے والوں سے دروازہ کھلوایا۔ انھوں نے کہانی کہنے والی سمجھ کر پھاٹک کھول دیا۔ یہ کولے پھڑکاتا اور بڑبڑاتا کہ بھلی نوکری ہے‘ آپ تو آرام کریں اور ہمارا مغز خالی ہو، چوبداروں، پہرے والوں سے نوکا جھوکی کرتا صاف نکل آیا۔
گھر آ کر خوب مزے سے سویا۔ سویرے جو باپ کی آنکھ کھلی‘ تو ہار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بیٹے کو گلے لگایا اور کہا ’’لے بس اب موج کر، ہم نے بھی کہہ دیا کہ تو استاد ہے۔ باپ دادا کا نام روشن کرے گا، پر دیکھیو کسی غریب اور دکھیا کو نہ ستائیو۔ میری بات کو بھولیو متی‘ نہیں تو سارے کٹم کی ناک کٹ جائے گی۔‘‘
ادھر تو دھنا کے باپ کے ہاںخوشی منائی جا رہی تھی ادھر رانی جو اٹھی تو گلے میںسے نولکھا ہار غائب۔ چیخ مار کر کمرے میںبھاگی۔ وہاں کہانی کہنے والی بیہوش پڑی تھی۔ ڈر کے مارے گھگھی بندھ گئی۔ راجا صاحب جو اٹھے تو وہ بھی ماجرا دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ قلعے کے اتنے پہروں سے نکل کر ایسا کون چور تھا جو ہار لے گیا۔ بچاری کہانی کہنے والی بھی مرتے مرتے بچی۔ اندھیر کی بات ہے۔ سپاہی، چوبدار، ڈیوڑھی بان سب اندھے ہو گئے۔ آخر آیا کدھر سے اور گیا کس طرح؟ الوپ انجن لگا کر آیا تھا یا کوئی برکی ماری کہ کسی نے آتے دیکھا نہ جاتے؟
غصے میں بھرا ہوا باہر آیا۔ راج محل کا سارا محافظ عملہ طلب کیا گیا۔ تحقیقات میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، مگر سوائے اس کے کہ دیوار میں چند میخیں ٹھکی ہوئی ہیں اور آدھی رات کے بعد کہانی کہنے والی راج کی نوکرانی ضرور خلاف معمول اپنے گھر گئی تھی، چور کا ذرا پتا نہ چلا کہ اندر کس طرح آیا اور کدھر سے گیا۔
جھلا کر راجا نے تمام نوکروں کو خوب سزائیں دیں۔ کسی کو پٹوایا، کاٹھ میں ٹھونکا، کسی پر جرمانہ کیا۔ کتنے ہی جیل میںبھر دیے اور شہر میں ڈھنڈورا پھروا دیا کہ جو چور کا کھوج لگائے گا، اس کی راج میں بڑی عزت ہو گی، انعام ملیں گے۔ جب کئی دن گزر گئے اور چور کا کسی نے پتا نہ دیا‘ تو راجا نے خود ایک ترکیب نکالی۔ دو توڑے اشرفیوں کے اونٹ پر لاد حکم دیا کہ روز رات کو اسے لے کر گلی گلی کوچے کوچے گشت لگاتے پھرو۔ ایک طرف تو اپنے جاسوس چھوڑ دیے کہ ہر جگہ گھات لگائے بیٹھے رہیں۔ جو اونٹ پر ہاتھ ڈالے اُسے پکڑ لیں اور دوسری طرف ساری ریاست میں یہ منادی کرا دی کہ جس نے رانی کے گلے کا ہار چرایا ہے، اس کی استادی تو جب ہے کہ اونٹ پر سے اشرافیاں چرا لے۔
دو راتیں یونہی گزر گئیں کسی نے اونٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، بلکہ سرشام شہر سنسان ہو جاتا۔ چراغ جلتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا گھستے۔ تیسری رات آئی۔ ساربان اونٹ لے کر نکلا۔ بازار بند، سڑکوں پر نہ آدم نہ آدم زاد۔ پھرتے پھرتے ایک چوراہے پر پیپل کے نیچے دیکھا کہ ایک جوگی لوگ چھالا بجھائے بھبوت ملے، دھونی رمائے بیراگی پر ماتھے ٹیکے بیٹھا ہے۔ جانور جو سامنے سے گزرا‘ تو اس نے گردن اٹھا کر اونٹ والے سے کہا:
’’بچہ! راجا تو مورکھ ہے۔ کہیں اس طرح چور پکڑے جاتے ہیں؟‘‘
ساربان: سادھوجی اپنا کیا بس، حاکم کا حکم۔ آپ ہی دیا کریں۔ چور پکڑا جائے‘ تو اپنا بھی کچھ بھلا ہو۔‘‘ جوگی: ’’اچھا ادھر آ، کیا یاد کرے گا۔ ذرا چلم تو اٹھا لے سلفے کے اور دو چار دم لگا۔ چور بھی آیا جاتا ہے۔‘‘ جوگی نے یہ فقرے کچھ ایسے انداز سے کہے کہ اونٹ والا نکیل چھوڑ جوگی کے پاس آ گیا۔ ڈنڈوت کی چلم اٹھائی۔ چوگی نے ایک پوٹلی میں سے سلفہ نکال کر دیا۔ آگ کا کیا گھاٹا تھا۔ اونٹ والے نے سلفہ جما چلم بھری، پہلے جوگی نے جھوٹ جھوٹ ایک دو دم لگائے پھر ساربان کو دے کر بولا: ’’لگا کس کر دم۔ گرو کا بچن جھوٹا نہیں پڑے گا۔‘‘
ساربان بھی پرانا چرسیا تھا۔ کئی دن کے بعد چلم ہاتھ آئی تھی۔ صافی لگا کر جو کھینچتا ہے تو بالشت بھر کی لو اٹھا دی۔ نجانے دھتورا ملا ہوا تھا یا جوگی کی کوئی کرامت تھی کہ دم مارتے ہی چاروں شانے چت… لمبا لمبا لیٹ گیا۔ جوگی نے جو اصل میں دھنا تھا، جھپٹ کر اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر سے نکل اپنے قصبے کا راستہ لیا۔ راتوں رات گھر پہنچ اشرفیاں گلا‘ سونے کی اینٹیں بنا لیں۔ اونٹ کو مار کر انگنائی کی اندھی کھوئی میں ڈال، زمین برابر کر دی۔
یہاں کی تو یہ رہی، وہاں مخبروں نے جو اونٹ کو غائب دیکھا، تو ہوش جاتے رہے۔ تو چل میں آیا‘ گلی گلی کوچہ کوچہ چھان مارا۔ آخر چوراہے پر ساربان بے ہوش، زبان نکلی ہوئی، جھاگ منہ سے جاری بے سدھ پڑا ہوا ملا۔ اسی حالت میں اٹھا کر راجا کے پاس لے گئے۔
بازپرس ہوئی۔ ساربان کے اوسان درست ہوئے، تو اس نے ڈرتے ڈرتے ساری کیفیت بیان کی۔ راجا غصے کے مارے آئے تو جائے کہاں، مگر کیا کرتا‘ گھریاں گھونٹ کر بیٹھ گیا۔  دو دن کا غوطہ دے کر پھر ڈھنڈورا پٹوایا کہ ملک خدا کا‘ حکم راجا کا، چور ہو یا ساہوکار جو اونٹ کا پتا لگائے ‘ اس کو راج دربار سے ایک ہزار اشرفیاں انعام ملیں گی۔ یہ خبر جھبرے کو بھی ملی۔ لالچ نے آنکھیں بند کر دیں۔ آدمی میں برے پیشے کا ہو یا اچھے کا، بہت سی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وضع داری کا پاس نہیں رہتا۔ بلا محنت مفت میں مال مارنا چاہتا ہے۔ دھنا کی چالاکیوں سے وہ واقف تھا۔ سوچا کہ ہو نہ ہو یہ اسی کا کام ہے۔ حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ پکا ارادہ کر لیا کہ جو کچھ بھی ہو اسے پکڑوا کر چھوڑوں گا۔ میرا گھر بگڑے اور دھنا سونا رولے۔ نام نہیں جو اس کو تھوتھے تیروں نہ اُڑوایا ہو۔
مثل مشہور ہے کہ بیری سوئے نہ سونے دے۔ جھبرے نے ساری بستی چھان مری اور جب کسی طرح اونٹ کا کھوج نہ لگا‘ تو اس نے یہ ترکیب نکالی کہ ایک اندھی بڑھیا کا بھیس بھرا اور اونٹ کی ہڈی کا سوال کرنا شروع کیا۔ ہندوئوں کی آبادی میں اونٹ کی ہڈی کا کیا کام‘ جھڑکیاں گالیاں کوسنے کھاتا‘ رات کے اندھیرے میں دھنا کے گھر پہنچا اور دکھیاری بڑھیا کی سی آواز بنا کر کہنے لگا ’’رانی! میں پیسہ نہیں مانگتی، کپڑا نہیں۔ اونٹ کی ذرا سی ہڈی ہو تو دے دو بھگوان تمھارا بھلا کرے گا‘ بیٹی! میں بھکارن نہیں۔ مامتا کی ماری دکھیاری ہوں۔ میرا اکلوتا جوان بیٹا بیمار ہے۔ حکیم کہتے ہیں کہ اونٹ کی ہڈی گھس کر پلا۔ اپنے بچوں کے صدقے میں میرے بچے کی جان بچا لو۔
دھنا موجود نہ تھا‘ اس کی بیوی بڑھیا کا انوکھا سوال سن کر دروازے پر آئی۔ یہ اس کے پائوں پر لوٹ گیا۔ ایسا بلکا کہ عورت ذات موم ہو گئی۔ سمجھی کہ واقعی کوئی مصیبت زدہ ہے۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگی ’’مائی رو نہیں‘ میں اونٹ کی ہڈی ابھی لائی۔ ذرا بیٹھ جائو۔‘‘ اور اندر جا کر زمین کھودی۔ اتفاق سے اونٹ کی ایک ٹانگ اوپر ہی تھی۔ اسے کاٹ ہڈی کا ٹکڑا بڑھیا کے حوالے کیا۔ بنی ہوئی بڑھیا نے دھنا کی بیوی کی بلائیں لیں اور دعائیں دیتی چلی گئی۔
جھبرے کی خوشی کا کیا پوچھنا، مدعا ہاتھ میں تھا۔ رات کاٹنی مشکل ہو گئی۔ صبح سویرے سویرے دربار میں پہنچ راجا کو سارا بھید دیا۔ راجا نے سپاہی ساتھ کر دیے۔ دھنا اور اس کا باپ گرفتار ہوئے۔ اونٹ کی لاش کنویں میں سے نکلی۔ سونے کی اینٹیں اور بہت کچھ مال برآمد ہوا۔ اسی سلسلے میں پولیس نے اور گھروں کی تلاشی لی۔ جھبرے اوراس کے باپ کے ہاں سے بھی بیسیوں چوری کی چیزیں نکلیں، لیکن دھنا اور اس کے باپ نے باوجود تشدد اور انعام کے لالچ کے اپنی آن نہ چھوڑی… جھبرے کی نسبت ایک حرف منہ سے نہیں نکالا۔ نہ ہار کا پتا دیا نہ اشرفیوں کی چوری کا اقرار کیا۔
راجا نے چاروں کو پھانسی کی سزا دے دی۔ جھبرا شاہی گواہ بن کر بھی قانون کی گرفت سے نہ بچا، بلکہ اس کی موت غداروں کی تھی۔ وہ رو رہا تھا اور دھنا خوش تھا کہ اس نے مرتے ہوئے بھی اپنے پیشے کی لاج رکھی۔ چور دونوں تھے‘ فرق صرف رذالت‘ شرافت اور بہادری کا تھا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔