جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیربے نیام قسط نمبر 12

0 comments
شمشیر بے نیام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ الله کی  تلوارپارٹ12
عمرؓ کا دور، اسلام کی پوری تاریخ کا سنہرا دور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان پوری طرح متحد تھے اور ان کی افواج روم اور ایران کے خلاف فتح پر فتح حاصل کیے جا رہی تھیں۔ بلوچستان سے لے کر مصر تک علاقہ اسی دور میں فتح ہوا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے ان علاقوں کے عام لوگوں کو قیصر و کسری کی غلامی سے نکال کر انہیں مذہبی اور دنیاوی امور میں آزادی عطا کی اور ایک نیا نظام معاشرت ترتیب دیا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان کوئی قابل ذکر اختلافات نہیں ہوئے، تفصیل سے پڑھئے
اس وجہ سے اس دور سے متعلق تاریخی سوالات بھی بہت کم ہیں۔عمرؓ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ خالدؓکو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ ابو عبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں "سیف من سیوف اﷲ" یعنی اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے د ور میں انہوں نے عراق کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا اور اب شام میں اپنی غیر معمولی جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ خالدؓ اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمرؓ نے انہیں معزول کیوں کیا جبکہ خالدؓ کی کارکردگی غیر معمولی تھی؟
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سب سے نمایاں یہ تھی کہ خالدؓ جنگو ں میں اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے بہت زیادہ خطرات مول لے لیا کرتے تھے۔ آپ فی الحقیقت خطروں میں کود پڑنے والے انسان تھے اور بسا اوقات تھوڑی سی فوج کے ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑتے اور اسے شکست دے ڈالتے۔ ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی احتیاط کے باوجود اس معاملے میں خالدؓکو ڈھیل دیتے تھے۔ اس کے برعکس عمرؓ کی طبیعت محتاط تھی اور وہ مسلمانوں کو اندھا دھندخطروں میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو امین الامت ابو عبیدہؓ کے ما تحت کر دیا تاکہ وہ اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ، خالدؓ کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے سے روکیں اور ان کی جنگی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔
خالدؓ کافی عرصہ تک ابو عبیدہؓ کی کمان میں لڑتے رہے۔ ابو عبیدہؓ تمام پلاننگ انہی کے مشورے سے کرتے تھے اور یہ دونوں کمانڈر مل کر جنگی تیاری کرتے تھے۔ تاہم اس پلان پر عمل درآمد خالدؓ کروایا کرتے تھے۔ چار سال بعد عمرؓ نے انہیں تمام جنگی خدمات کو چھوڑ کر مدینہ آنے کا حکم دیا۔ طبری نے اس سلسلے میں سیف بن عمر کی روایت نقل کی ہے جو کہ نہایت ہی ضعیف راوی ہے اور جھوٹی روایات کے لیے مشہور ہے۔ اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ معاذ اﷲ عمرؓ، خالدؓ سے متعلق دل میں کینہ رکھتے تھے۔ خلافت سنبھالتے ہی انہوں نے خالدؓ کو معزول کر کے مدینہ واپس بلا لیا، ان کی تذلیل کی اور ان کا آدھا مال لے کر بیت المال میں داخل فرما دیا۔ ان کا خیال تھا کہ خالدؓ نے معاذ اﷲ مال غنیمت میں خیانت کی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی ناقابل اعتماد اور ضعیف روایت ہے اور ان دونوں بزرگوں پر بہتان ہے۔ہاں ایسا ضرور ممکن ہے کہ خالدؓ سے مال غنیمت کے حصوں کی تقسیم میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ عمرؓ نے حساب کیا تو ان کی طرف کچھ رقم زائد نکلی جو عمرؓ نے ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر دی اور شام کے لوگوں کو تحریر لکھ کر بھیجی جس میں خالدؓ کی معزولی کی وجوہات بیان کیں۔ روایت یہ ہے:جب خالد، عمر کے پاس پہنچے تو ان سے شکایت کی اور کہا: "میں نے آپ کی یہ شکایت مسلمانوں کے سامنے بھی بیان کی تھی۔ واﷲ! آپ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔"عمرؓ نے فرمایا: "یہ بتائیے کہ آپ کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟" انہوں نے جواب دیا: "مال غنیمت اور میرے مقرر حصوں سے۔ ساٹھ ہزار سے زائد جو رقم ہو ، وہ آپ )بیت المال( کی ہے۔" اس پر عمرؓ نے ان کے ساز و سامان کی قیمت لگائی تو ان کی طرف بیس ہزار نکلے۔ اس رقم کو انہوں نے بیت المال میں داخل کر دیا تو عمرؓ نے فرمایا: "خالد! واﷲ! آپ میرے نزدیک نہایت ہی معزز شخصیت ہیں۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آج کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"عدی بن سہیل کی روایت ہے کہ عمرؓر نے تمام شہر والوں کو لکھ کر بھیجا: "میں نے خالد کو ناراضگی یا بددیانتی کی وجہ سے معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ ان پر بے حد بھروسہ اور اعتماد نہ کریں اور کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس لیے میں نے چاہا کہ انہیں حقیقت معلوم ہو جائے کہ درحقیقت اﷲ تعالی ہی کارساز ہے ، اس لیے انہیں کسی فتنے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔")طبری(دلچسپ بات ہے کہ یہ روایت بھی سیف بن عمر ہی نے روایت کی ہے اور ان صاحب کی دونوں روایتوں میں تضاد موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری روایت ہی درست ہے۔ اس روایت سے خالدؓ کی معزولی کی ایک اور وجہ سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے اندر یہ تصور پیدا ہو گیا تھا کہ جو فتوحات ہو رہی ہیں، وہ خالدؓ کی موجودگی کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح سے ان میں شخصیت پرستی پیدا ہو۔
اگلا معرکہ ایک ہی ہفتے بعد آگیا۔ابو عبیدہؓ کو فوج کی کمان لیے ابھی ایک ہی ہفتہ گزرا تھا انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک اجنبی ان سے ملنے آیا ہے۔اپنے آپ کو عربی ظاہر کرتا ہے لیکن عیسائی ہے۔ابو عبیدہؓ نے اسے بلالیا۔اجنبی تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ابو عبیدہؓ نے سب کو باہر نکال دیا۔’’کیا مسلمان سالارِ اعلیٰ ایک عیسائی عرب پر اعتبار کرے گا؟‘‘اس عیسائی نے کہا۔’’اگر مالِ غنیمت کی ضرورت ہے تو ایک جگہ بتاتا ہوں حملہ کریں اور مالامال ہوجائیں۔‘‘’’پہلے یہ بتا کہ تو ہم پر اتنی مہربانی کرنے کیوں آیا ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’رومی تیرے ہم مذہب ہیں تو انہیں کیوں نقصان پہنچا رہا ہے؟‘‘’’اپنے وطن کی محبت کی خاطر۔‘‘ عیسائی نے جواب دیا۔’’رومی میرے ہم مذہب تو ہیں لیکن زندہ عیسائیوں کو شیروں کے آگے رومیوں نے ہی ڈالا تھااور عیسیٰ کو مصلوب کرنے والے رومی ہی تھے۔ میں ان کی شہنشاہی دیکھ رہا ہوں ۔یہ رعایا کو انسان نہیں سمجھتے۔میں نے مفتوحہ علاقوں میں آپ کی حکومت بھی دیکھی ہے آپ رعایا کو انسانیت کا درجہ دیتے ہیں۔میں رومیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوں۔میرے دل میں صرف اپنا ہی نہیں پوری انسانیت کا درد ہے۔میں مسلمان نہیں لیکن میں یہ تو فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں عربی ہوں،اور عرب کے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘اس عیسائی عرب نے ابو عبیدہؓ کو متاثر کر لیا۔ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا کہ وہ کون سی جگہ بتا رہا ہے؟جہاں حملہ کرنا ہے۔’’ابوالقدس!‘‘ عیسائی عرب نے جواب دیا اور یہ بتا کرکے یہ مقام ابوالقدس کتنی دور اورکہاں ہے، ابو عبیدہؓ کو بتایا۔’’دو تین دنوں بعد وہاں ایک میلہ شروع ہونے والا ہے۔اس میں دور دور کے تاجر بیچنے کیلئے مال لائیں گے۔بڑی قیمتی اشیاء کی دکانیں لگیں گی۔ بڑے دولت مندخریدار آئیں گے۔اگر آپ کو مالِ غنیمت چاہیے تو چھوٹا سا ایک دستہ بھیج کر سارے میلے کا مال سمیٹ لیں۔‘‘’’کیا اس میلے کی حفاظت کیلئے رومی فوج کا کوئی دستہ وہاں ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’نہیں ہو گا۔‘‘عیسائی عرب نے جواب دیا۔’’میں یہ جانتاہوں کہ بحیرہ روم کے ساحلی شہر طرابلس میں رومی فوج موجود ہے۔ وہاں سے فوج اتنی جلدی ابوالقدس نہیں پہنچ سکتی۔آپ کیلئے میدان صاف ہے ۔‘‘وہ جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔کہنے لگا۔’’ مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رکنا چاہیے۔‘‘وہ چلا گیا۔
ابو عبیدہؓ نے اس میلے کو موٹا اور آسان شکار سمجھا۔ انہوں نے اپنے مشیر سالاروں کو بلایا جن میں خالدؓ بھی شامل تھے۔ابو عبیدہؓ نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ عیسائی عرب انہیں کیا بتا گیا ہے۔’’یہ مالِ غنیمت ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابوالقدس دشمن کا علاقہ ہے،اور اس دشمن کے ساتھ ہماری جنگ ہے۔جنگ کی صورت میں میلے پر ہمارا چھاپہ جائز ہے۔اس سے رومیوں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے باری باری سب کو دیکھا اور کہنے لگے۔’’تم میں کون اس چھاپہ مار کاروائی کیلئے جانا چاہتا ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ کی نظریں خالدؓ کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔نظریں خالدؓ پر جما لینے کا مطلب یہی تھا کہ خالدؓ اپنے آپ کو اس چھاپہ کیلئے پیش کریں گے۔لیکن خالدؓ اس طرح خاموش بیٹھے رہے جیسے اس کام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ظاہر ہے ابو عبیدہؓ کو خالدؓ کی خاموشی اور بے رُخی سے بہت مایوسی ہوئی ہو گی۔انہیں یہ خیال بھی آیا ہو گا کہ خالدؓ کا یہ رویہ ان کی معزولی کا ردِ عمل ہے۔وہاں ایک نوجوان بھی موجود تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی ابھی ابھی آئی تھی۔’’میں جاؤں گا۔‘‘یہ نوجوان بول اٹھا۔’’یہ فیصلہ سالارِ اعلیٰ کریں گے کہ میرے ساتھ کتنی نفری ہو گی۔‘‘ ’’کیا تو ابھی کم سن نہیں ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔اور ایک بار پھر خالدؓکی طرف دیکھا۔مگر خالدؓ لاتعلق بیٹھے تھے۔’’امین الامت !‘‘نوجوان نے جواب دیا۔’’میں مدینہ سے آیا ہی کیوں ہوں۔میں کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہوں۔کیا میرے بزرگ بھول گئے ہیں کہ میرے سر پر اپنے شہید باپ کا قرض ہے۔امین الامت میں کم سن ضرور ہوں لیکن اناڑی نہیں ہوں ۔بزدل نہیں ہوں۔کچھ سیکھ کر آیا ہوں۔ کیا میرے بزرگ میری حوصلہ شکنی کریں گے؟‘‘’’خداکی قسم ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’تیری حوصلہ شکنی نہیں ہو گی،پانچ سو سواروں کا دستہ لے لے۔تو اس دستے کا سالار ہو گا۔‘‘ابو عبیدہؓ نے ایک کم سن لڑکے کو پانچ سو سواروں کا سالار غالباً یہ سوچ کر بنا دیا تھاکہ یہ چھاپہ نہایت آسان تھا وہاں پر کوئی فوج نہیں تھی جو ان سواروں کے مقابلے میں آتی۔یہ نوجوان کوئی عام سا لڑکا نہیں تھا۔ اس کا نام عبداﷲتھا اور وہ رسولِ کریمﷺکے چچا زاد بھائی جعفرؓ کا بیٹھا تھا۔جعفرؓ موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے
اس رات چاند پورا تھا۔شعبان کی پندرہ تاریخ تھی۔ عیسوی سن کے مطابق یہ ۱۴ اکتوبر ۶۳۴ء کی رات تھی۔نوجوان عبداﷲپانچ سو سواروں کو ساتھ لے کر رات میں روانہ ہوئے۔ان کے ساتھ عاشقِ رسولﷺ اور نامور مجاہد ابو ذر غفاریؓ بھی تھے۔یہ دستہ اس وقت روانہ کیا گیا تھا جب میلہ شروع ہو چکا تھا۔عبداﷲکا دستہ صبح طوع ہو چکی تھی جب وہاں پہنچا۔میلہ کیا تھا وہ تو خیموں شامیانوں اور قناطوں کا ایک گاؤں آباد تھا اور یہ گاؤں بہت ہی خوبصورت تھا۔دکانوں پر بڑا ہی قیمتی مال سجا ہوا تھا میلے کی رونق جاگ اٹھی۔عبداﷲنوجوان تھا وہ اپنے آپ کو اناڑی نہیں سمجھتا تھا لیکن اناڑی پن کا ہی مظاہرہ کیا۔سب سے پہلے انہیں ایک دو جاسوس یہ دیکھنے کیلئے بھیجنے چاہیے تھے کہ رومی فوج کا کوئی دستہ قریب کہیں وجود ہے یا نہیں،اور میلے میں جو لوگ آئے ہوئے ہیں وہ بہروپ میں رومی فوجی تو نہیں۔اس نے وہاں جاتے ہی حملے کاحکم دے دیا۔پانچ سو مسلمان سوار میلے کے اردگرد گھیرا ڈالنے لگے،اور اچانک کم و بیش پانچ ہزار رومی سوار جانے کہاں سے نکل آئے،اور وہ میلے اور مسلمان سواروں کو نرغے میں لینے لگے۔پانچ سو کا مقابلہ پانچ ہزار سے تھا اور صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ مسلمان سوار گھیرے میں آگئے تھے۔ ان کی تباہی لازمی تھی۔یہ پانچ ہزار رومی سالار میلے کی حفاظت کیلئے وہاں قریب ہی موجود تھے۔انہیں معلوم تھا کہ مسلمان بہت تیز پیشقدمی کیا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان فوج اچانک آجائے اور میلے کو لوٹ لے۔مسلمان سوار رومی سواروں کے گھیرے سے نکلنے کیلئے گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ لیکن کہاں پانچ سو اور کہاں پانچ ہزار ؟مسلمان جدھر جاتے تھے ادھر سے روک لیے جاتے تھے۔میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگوں کی چیخ و پکار تھی۔دکاندار اپنامال سمیٹ رہے تھے،اور جن کے پاس رقمیں تھیں وہ بھاگ رہے تھے۔کئی ایک گھوڑوں تلے کچلے گئے۔مسلمان ہر میدان میں قلیل تعداد میں لڑے ہیں۔اس سے انہیں اپنے سے کئی گنا زیادہ لشکر سے لڑنے اور فتح یاب ہونے کا تجربہ تھا انہوں نے پانچ سو کی تعداد میں پانچ ہزار کا گھیرا توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔انہوں نے کسی کی ہدایت کے بغیر ہی اپنے آپ کو گول ترتیب میں کر لیا اور رومیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔عبداﷲلڑ سکتا تھا، اس خطرناک صورتِ حال میں اپنے سواروں کی قیادت نہیں کر سکتا تھا۔وہ سپاہیوں کی طرح بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ ابوذرغفاریؓ بھی جان پر کھیل کر لڑ رہے تھے۔تمام سوار آگے بڑھ بڑھ کر رومیوں پر حملے کر رہے تھے،اور رومیوں کے حملے روکتے بھی تھے۔ان کی گول ترتیب اس طرح تھی کہ سب کے منہ باہر کی طرف تھے یعنی ان کا عقب تھا ہی نہیں۔جس پر دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا۔
رومیوں نے جب مسلمان کو اس انوکھی ترتیب میں دیکھا تو وہ سٹپٹائے اور آگے بڑھنے میں محتاط ہو گئے۔لیکن ان کی تعداد دس گنا تھی،اور وہ لڑناجانتے تھے۔ان کے محتاط ہونے سے صرف یہ فرق پڑا تھا کہ مسلمانوں کی تباہی تھوڑی سی دیر کیلئے ملتوی ہو گئی تھی۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پانچ سو سوار پانچ ہزار سواروں کے نرغے سے زندہ نکل آتے۔یہ پانچ سو مجاہدین اپنے سالارِ اعلیٰ کی ایک خطرناک لغزش کی سزا بھگت رہے تھے۔ابو عبیدہؓ امین الامت تھے، زہدوتقویٰ میں بے مثال تھے۔ صحابہ کرامؓ میں ان کا مقام سب سے بلند تھا۔لیکن حکومت کرنے کیلئے اور فوج کی قیادت کیلئے اور جنگی امور اور کاروائیوں میں فیصلے کرنے کیلئے صرف ان اوصاف کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اوصاف بعض حالات میں قوم اور فوج کو لے ڈوبتے ہیں۔ابو عبیدہؓ کی سادگی کا یہ اثر کہ انہوں نے ایک عیسائی پر اعتماد کیا اور محض مالِ غنیمت کی خاطر پانچ سو سواروں کو ایک نوجوان کی قیادت میں یہ معلوم کیے بغیر بھیج دیا کہ وہاں دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔ابو عبیدہؓ اپنے سالاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دمشق فتح ہو چکا تھا،اگلی پیش قدمی کا منصوبہ تیار ہو رہا تھا،اور فوج آرام کر رہی تھی۔ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ابو عبیدہؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا ۔سوار کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خیمہ میں داخل ہو گیا۔وہ ہانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘ اس نے ابو عبیدہؓ کو مخاطب کیا۔’’وہ سب مارے جا چکے ہوں گے،وہ گھیرے میں آئے ہوئے ہیں۔‘‘’’کون؟ ‘‘ابو عبیدہؓ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔’’کس کی بات کر رہے ہو؟کون کس کے گھیرے میں آیا ہوا ہے؟‘‘’’ابوالقدس!‘‘سوار نے کہا۔’’ابو القدس کے پانچ سو سواروں کی بات کررہا ہوں……ان کی مدد کو جلدی پہنچیں۔ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے ان سب نے لکھا ہے کہ یہ واحد سوار تھا جو میلے میں بھگدڑ مچ جانے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رومیوں کے گھیرے سے نکل آیا تھا۔ابھی گھیرا مکمل نہیں ہوا تھا۔اس مجاہد نے اندازہ کر لیا تھا کہ اس کے ساتھیوں کا کیا انجام ہو گا۔اس نے انتہائی تیز رفتار سے گھوڑا دوڑایا اور دمشق پہنچا تھا۔اس نے بڑی تیزی سے بولتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ ابو القدس کے میلے میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ابو عبیدہؓ کا رنگ زرد ہو گیا۔انہوں نے خالدؓکی طرف دیکھا۔خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کا گہرا تاثر تھا۔’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے التجا کے لہجے میں کہا۔’’اﷲکے نام پر ابو سلیمان!تیرے سوا انہیں گھیرے سے اور کوئی نہیں نکال سکتا۔جاؤ فوراً جاؤ۔
’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘خالدؓنے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے حکم کے انتظار میں تھا امین الامت!‘‘’’مجھے معاف کر دینا ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں نے تیری نیت پر شک کیا تھا۔اس لیے حکم نہ دیا۔میرا خیال تھا کہ معزولی نے تیرے اوپر بہت برا اثر کیا ہے۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھ پر ایک بچے کو سالارِ اعلیٰ مقرر کر دیا جائے گا تو میں اس کا بھی مطیع رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مجھے تو رسول اﷲ)ﷺ( کے امین الامت نے کہا ہے۔کیا میں ایسے گناہ کی جرات کر سکتا ہوں کہ تیرا حکم نہ مانوں؟میں تو تیرے قدموں کی خاک کی برابری بھی نہیں کر سکتا……اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘مورخ واقدی لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،اور وہ کچھ دیر ابن الولیدؓ کو دیکھتے رہے۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’جا ابو سلیمان! اپنے بھائیوں کی جانیں بچا۔‘‘تاریخوں میں ایسی تفصیلات نہیں ملتیں کہ خالدؓ اپنے ساتھ کتنے سَو یا کتنے ہزار سوار لے کر گئے تھے۔باقی حالات مختلف تاریخوں میں بیان کیے گئے ہیں۔خالدؓنے برہنہ مجاہد ضرار بن الازور کو ساتھ لے لیا تھا اور ان دونوں کے پیچھے مسلمان رسالہ سر پٹ گھوڑے دوڑاتا جا رہا تھا۔خالدؓ اور ضرار تو گھرے ہوئے مجاہدین کی مدد کو چلے گئے ، پیچھے ابو عبیدہؓ کی حالت بگڑ گئی۔’’اﷲ، اﷲ، اﷲ! ‘‘وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر گڑگڑانے لگے۔’’خلیفۃ المسلمین عمر نے مجھے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت کے لالچ میں مجاہدین کو ایسی مشکل میں نہ ڈالنا کہ ان کی جانیں ضائع ہو جائیں۔عمر نے لکھا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ بھال کر لینا……مجھے معاف کر دینا اﷲ! مجھ سے یہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔میں نے ایک عیسائی کی بات کو سچ مانا اور میں نے ایک کمسن لڑکے کو پانچ سو سواروں کی کمان دے دی اور اسے اتنابھی نہ کہا کہ وہ اپنے دستے کو دور روک کر ہدف کی دیکھ بھال ضرور کرلے۔‘‘ابو عبیدہؓ کے رفیق سالار انہیں تسلیاں دیتے رہے لیکن ابو عبیدہؓ نے جو پانچ سو قیمتی سواروں کو اپنی لغزش کی بھٹی میں جھونک دیا تھا اس پر وہ مطمئن نہیں تھے۔خالدؓ اور ضرار اپنے سواروں کے ساتھ انتہائی رفتار سے ابوالقدس پہنچ گئے۔وہاں مجاہدین کی حالت بہت بری تھی۔خالدؓ کے حکم سے ان کے سواروں نے تکبیر کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ان نعروں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ گھیرے میں آئے ہوئے مسلمان سواروں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اور رومیوں پر دہشت طاری ہو۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنانعرہ بلند کیا:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
رومیوں نے پہلے معرکوں میں یہ نعرہ سنا تھا۔اس نعرے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے انہیں جس حالت میں کاٹا اور بھگایا تھا، اسے تو وہ باقی عمر نہیں بھول سکتے تھے۔رومی سوار اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمانوں کو تو بھول ہی گئے۔خالدؓ نے اپنے سواروں کو پھیلا کر برق رفتار حملہ کرایا تاکہ رومیوں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں آنے کی مہلت ہی نہ ملے۔خالدؓ کو اپنی ایک کمزوری کا احسا س تھا۔وہ دمشق سے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ابو القدس تک پہنچے تھے۔گھوڑے تھک گئے تھے۔ان کے جسموں سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔خالدؓ کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کو جلدی بھگایا جائے ورنہ گھوڑے جواب دے جائیں گے۔ضرار بن الازور نے اپناوہی کمال دکھایا جس پر وہ رومیوں میں مشہور ہو گئے تھے۔انہوں نے اپنی خود ، زرہ، اور اپنی قمیض بھی اتار پھینکی، اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔رومی سوار اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔وہ اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمان سواروں میں سے کئی ایک کو شہید اور زیادہ ترکو شدید زخمی کر چکے تھے،ان میں سے جو بچ گئے تھے، انہیں خالدؓ کے آجانے سے نیا حوصلہ ملا۔رومی خالدؓ اور ضرار کے سواروں کے مقابلے کیلئے مُڑے تو پیچھے سے ان بچے کچھے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیاجو کچھ دیر پہلے تک ان کے نرغے میں آئے ہوئے تھے۔معرکہ خونریز اور تیز تھا۔اب رومی گھیرے میں آگئے تھے۔ان کی تعداد زیادہ تھی۔وہ سکڑتے تھے تو ان کے گھوڑوں کو کھل کر حرکت کرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔مسلمان سواروں نے انہیں بری طرح کاٹا اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ رومی سوار معرکے سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔آخر وہ اپنی بہت سی لاشوں اور شدید زخمیوں کو پیچھے چھوڑکر بھاگ گئے۔ان مسلمان سواروں کا جانی نقصان کم نہ تھا جو رومیوں کے گھیرے میں لڑتے رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ میلے کا سامان اکٹھا کیا جائے۔انہوں نے بہت سے مجاہدین کو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے پر لگا دیا۔خالدؓ کی اپنی یہ حالت تھی کہ ان کے جسم پر کئی زخم آئے تھے اور ان کے کپڑے خون سے سرخ ہو گئے تھے۔انہیں ان زخموں کی جیسے پرواہ ہی نہیں تھی۔زخم خالدؓ کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ان کے جسم پر اس وقت تک اتنے زخم آچکے تھے کہ مزید زخموں کی جگہ ہی نہیں تھی۔خالدؓ واپس دمشق آئے۔وہ جو مالِ غنیمت ساتھ لائے تھے وہ بہت زیادہ اور قیمی تھا۔زخمی ہو کر گرنے والے اور مرنے والے رومیوں کے سینکڑوں گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے مگر اس مالِ غنیمت کیلئے بڑی قیمتی جانوں کی قیمت دی گئی تھی۔
ابو عبیدہؓ کو اس جانی نقصان پر بہت افسوس تھا۔البتہ انہیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ خالدؓ نے اپنے خلاف یہ شک دور کر دیاتھا کہ معزولی کی وجہ سے ان میں پہلے والی دلچسپی اور جوش و خروش نہیں رہا۔خالدؓنے اپنا جسم زخمی کراکے یہ ثابت کر دیاتھا کہ معزولی کا ان پر ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے مدینہ بھیجا، اور اس کے ساتھ عمرؓ کو پوری تفصیل بھی لکھی کہ انہوں نے کیا کاروائی کی تھی۔اس سے کیا صورتِ حال پیدا ہوئی اور خالدؓ نے کیا کارنامہ کیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بے تحاشہ تعریف لکھی۔ہر محاذسے اور ہر میدان سے رومی پسپا ہو رہے تھے۔رومیوں کا شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں تھا۔اس کے ہاں جو بھی قاصد آتا تھا وہ ایک ہی جیسی خبر سناتا تھا:’’اس قلعے پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔‘‘’’فلاں میدان سے بھی اپنی فوج پسپا ہو گئی ہے۔‘‘’’مسلمان فلاں طرف پیشقدمی کر گئے ہیں۔‘‘’’ہمارے فلاں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا ہے۔‘‘ہر قل کے کانوں میں اب تک کوئی نئی بات پڑی ہی نہیں تھی۔نیند میں بھی وہ یہی خبریں سنتا ہو گا۔اس کے وزیر مشیر اور سالار وغیرہ اب اس کے سامنے کوئی شکست کا پیغام لے کر جانے سے ڈرتے تھے۔لیکن انہیں اس کے سامنے جانا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ شکست کی باتیں کرنی اور سننی پڑتی تھیں۔وہ انطاکیہ کی ایک شام تھی۔انطاکیہ کی شامیں حسین ہوا کرتی تھیں۔یہ شہر سلطنتِ روما کا ایک اہم اور بارونق شہر تھا۔روم کے اعلیٰ حکام، امراء اور وزراء یہاں رہتے تھے۔اب تو کچھ عرصے سے شہنشاہِ روم ہرقل نے اسے عارضی دارالحکومت اور فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تھا۔رومی جنگجو تھے۔اُس دور میں ان کی سلطنت دنیا کی سب سے وسیع اورمستحکم سلطنت تھی۔استحکام کی وجہ یہ تھی کہ روم کی فوج مستحکم تھی۔اسلحہ کی برتری اور نفری کی افراط کے لحاظ سے یہ فوج اپنے دشمنوں کیلئے دہشت ناک تھی۔اس فوج نے اور اس کے سالاروں اور دیگر اعلیٰ حکام نے انطاکیہ کو پر رونق شہر بنا رکھا تھا۔عیش و عشرت کا ہرسامان موجود تھا۔وہاں قحبہ خانے تھے۔رقص اور نغمے تھے اور وہاں نسوانی حسن کی چلتی پھرتی نمائش لگی رہتی تھی۔وہاں شامیں مسکراتی اور راتیں جاگتی تھیں لیکن اب انطاکیہ کی شامیں اداس ہو گئی تھیں۔
فوجی یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ جب کوئی نیا دستہ آتا تھا تو قحبہ خانوں کی رونق بڑھ جاتی تھی اور چلتی پھرتی طوائفوں میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مگر انطاکیہ میں باہر سے جو فوجی آتے تھے وہ زخمی ہوتے تھے، اور جو زخمی نہیں ہوتے تھے ان کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہوتی تھی،ہر فوجی شکست کی تصویر بناہوتا تھا۔ان کی چال میں اور ان کے چہروں پر شکست صاف نظر آتی تھی۔ غیر عورتیں ان کے قریب کیوں آتیں، ان کی اپنی بیویاں انہیں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتی تھیں۔ان رومی فوجیوں نے روم کی جنگی روایات کو توڑ دیا تھا،قیصرِ روم کی عظمت کو پامال کر دیا تھا۔انطاکیہ میں جو رومی عورتیں تھیں، انہوں نے ہرقل کو بھی نہیں بخشا تھا،وہ شام انطاکیہ کی ایک افسردہ شاموں میں سے ایک شام تھی۔ہرقل شاہی بگھی پر کہیں سے آرہا تھا۔اس کے آگے آٹھ گھوڑے شاہانہ چال چلتے آرہے تھے۔ان کے سوار ہرقل کے محافظ تھے۔ان سواروں کی شان نرالی تھی۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جن کی انیاں اوپر کو تھیں ، اور ہر برچھی کی انی سے ذرا نیچے ریشمی کپڑے کی ایک ایک جھنڈی تھی۔بگھی کے پیچھے بھی آٹھ دس گھوڑ سوار تھے۔ایک شور اٹھا۔’’ شہنشاہ کی سواری آرہی ہے۔‘‘لوگ اپنے شہنشاہ کو دیکھنے کیلئے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے ان میں عورتیں بھی تھیں۔عورتیں عموماً اپنے دروازوں کے سامنے یا منڈیروں پر کھڑی ہو کر اپنے شہنشاہ کو گزرتا دیکھا کرتی تھیں لیکن اس شام چند ایک عورتیں ہرقل کے راستے میں آگئیں۔اگلے دو سوار محافظوں نے گھوڑے دوڑائے اور عورتوں کو راستے سے ہٹانے لگے۔لیکن عورتیں غل مچانے لگیں کہ وہ اپنے شہنشاہ سے ملنا چاہتی ہیں۔دواور سوار آگے بڑھے کیونکہ عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ہرقل کی بگھی ان تک پہنچ گئی۔وہ عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔اس نے بگھی رکوالی اور اُتر آیا۔’’چھوڑ دو انہیں۔‘‘ہرقل نے گرج جیسی آواز میں کہا۔’’انہیں مجھ تک آنے دو۔‘‘وہ آگے گیا،اور عورتوں نے اسے گھیر لیا۔وہ سب بول رہی تھیں۔
’’میں کچھ نہیں سمجھ رہا۔‘‘ہرقل نے بلند آواز سے کہا۔’’کوئی ایک بولو، میں سنوں گا۔‘‘’’شہنشاہِ روم!‘‘ ایک عورت بولی۔’’توکچھ نہیں سمجھے گا۔‘‘’’جس نے سلطنتِ روم کی تباہی برداشت کرلی ہے وہ غیرت والی عورت کی بات نہیں سمجھے گا۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔’’ہم سب رومی ہیں۔ہم مقامی نہیں۔یہاں کی عورتیں تیرے راستے میں نہیں آئیں گی۔رومی چلے جائیں، عرب کے مسلمان آجائیں، انہیں کیا! بے عزتی تو ہماری ہو رہی ہے۔ بے عزتی روم کی ہو رہی ہے۔‘‘’’اب آگے بولو۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جوکہنا ہے وہ کہو۔‘‘’’کیا تو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تو نے ہمیں مسلمانوں کے حوالے کرناہے؟‘‘ایک عورت نے کہا۔’’اس کے سوا اور کوئی بات کانوں میں نہیں پڑتی کہ فلاں شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور وہاں کی رومی عورتیں مسلمانوں کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔‘‘’’ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تو ہمیں آگے جانے دے۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔’’گھوڑے برچھیاں اور تلواریں ہمیں دے دے۔‘‘’’جس فوج سے فارسی بھی ڈرتے تھے۔‘‘ایک اور بولی۔’’وہ فوج اب ڈرے ہوئے، زخمی اور بھگوڑے سپاہیوں کا ہجوم بن گئی ہے۔‘‘’’یہاں اب روم کا جو بھی فوجی آتا ہے کسی نہ کسی قلعے یا میدان سے بھاگا ہوا آتا ہے۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔ہرقل کے محافظ ڈر رہے تھے کہ شہنشاہِ روم کا عتاب ان پر گرے گا کہ وہ چند ایک عورتوں کو اس کے راستے سے نہیں ہٹا سکے۔تماشائی اس انتظار میں تھے کہ ہرقل ان تمام عورتوں کو گھوڑوں تلے کچل دینے کا حکم دے گا لیکن ہرقل خاموشی سے ، تحمل اور بردباری سے عورتوں کے طعنے سن رہا تھا۔شاید اس لئے کہ وہ مقامی نہیں رومی عورتیں تھیں۔’’ہماری فوج بزدل ثابت ہوئی ہے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں بزدل نہیں ہو گیا۔شکست کھا کر جو بھاگ آئے ہیں وہ پھر لڑیں گے ۔میں نے شکست کو قبول نہیں کیاہے۔‘‘’’پھر ہمارا شہنشاہ کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ایک عورت نے پوچھا۔’’تم جلد ہی سن لو گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں زندہ ہوں۔میں جو سوچ رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔فتح اور شکست ہوتی ہی رہتی ہے۔وہ قوم ہمیشہ دوسروں کی غلام رہتی ہے جو شکست کو تسلیم کر لیتی ہے۔میں تمہیں کسی کا غلام نہیں بننے دوں گا،مسلمانوں نے جہاں تک آنا تھا وہ آچکے ہیں۔اب میری باری ہے۔وہ میرے پھندے میں آگئے ہیں۔اب وہ زندہ واپس نہیں جائیں گے۔انہوں نے جو لیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ دیں گے……میرے لیے دعا کرتی رہو، تم بہت جلد خوشخبری سنو گی……اور تم اپنے خاوندوں کے، اپنے بھائیوں کے، اپنے باپوں کے، اور اپنے بیٹوں کے حوصلے بڑھاتی رہو۔‘‘’’ہم ان پر اپنے گھروں کے دروازے بند کر دیں گی۔‘‘ایک عورت نے کہا۔’’تم انہیں گلے لگاؤ گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب وہ فاتح بن کر تمہارے سامنے آئیں گے۔‘‘عورتوں نے اپنے شہنشاہ کوراستہ دے دیا۔
ہرقل نے ان عورتوں کی محض دل جوئی نہیں کی تھی، مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ شکست تسلیم کرنے والا جنگجو تھا ہی نہیں، اور وہ شہنشاہ بعد میں اور سپاہی پہلے تھااور وہ اپنے دور کا منجھا ہوا جرنیل تھا۔یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ خالدؓ کی ٹکر کا جرنیل تھا اور جنگی چالوں میں اس کی مہارت کا انداز اپنا ہی تھا۔اگر وہ صرف شہنشاہ ہوتا تو اپنی سواری کے راستے میں ان عورتوں کی رکاوٹ کو برداشت نہ کرتا۔ انہیں سزا دیتا لیکن اس نے ان عورتوں سے حوصلہ لیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ کسی طرف سے شکست کی اور اس کی فوج کی پسپائی کی اطلاع آتی تھی تو اس کے حکام اس کے سامنے آنے سے گریز کرتے تھے۔ایسا ہی ایک موقع تھا کہ اس کا ایک سالار جو مشیر کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے سامنے گیا۔اس سالار کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر تھا وہ ہرقل نے بھانپ لیا۔’’کیا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’مرج الدنیاج سے قاصد آیا ہے۔‘‘سالار نے کہا۔’’تو کہتے کیوں نہیں کہ وہ ایک اور پسپائی کی خبر لایا ہے۔‘‘ہرقل نے جوشیلے لہجے میں کہا۔’’اپنے دلوں سے میرا خوف نکالتے کیوں نہیں؟شکست اور پسپائی کے نام سے گھبراتے کیوں ہو؟……بولو؟‘‘’’ہاں شہنشاہ!‘‘سالار نے کہا۔’’قاصد پسپائی کی خبر لایا ہے……اور وہاں سے بھاگے ہوئے سپاہی یہاں آنا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘’’آنے دو انہیں!‘‘ ہرقل نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصہ نہیں تھا، اور اس کے لہجے میں شاہانہ جلال بھی نہیں تھا۔’’ان کا حوصلہ بڑھاؤ، کوئی انہیں شکست اور پسپائی کا طعنہ نہ دے۔یہی سپاہی شکست کو فتح میں بدلیں گے۔‘‘’’سپاہیوں کا حوصلہ تو بحال ہو جائے گا۔‘‘سالار نے کہا۔’’لیکن لوگوں کا حوصلہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔لوگ مسلمانوں کو جنات اور بھوت سمجھنے لگے ہیں، ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں جو لوگوں کو بزدل بنا رہی ہیں۔‘‘’’جانتے ہو یہ افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے اپنے سالار، کماندار، اور سپاہی۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ تو بے جگری سے لڑتے تھے لیکن ان کا مقابلہ جنات سے ہو گیا۔‘‘’’شہنشاہِروم!‘‘سالار نے کہا۔’’مسلمانوں کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے……ہمارے جس شہر کے لوگ ان سے صلح کا معاہدہ کرلیتے اور جزیہ ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ مسلمان بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ان کی عورتوں اور ان کی جوان لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ان کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں، ان کے مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں، یہ خبریں سارے علاقے میں پھیل جاتی ہیں، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی فوج کا ساتھ چھوڑ دیتے اور اسے صلح پر مجبور کردیتے ہیں…… اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔‘‘’’اس کا علاج صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ اور اس کا بندوبست ہو رہا ہے۔‘‘
ابوالقدس میں ہرقل کو جو چوٹ پڑی تھی، اس نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔اسے اس معرکے کی تفصیلی اطلاع ملی تھی، ابو عبیدہؓ ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔رومی خوش تھے کہ مسلمانوں کا ایک دستہ تو پھندے میں آیا لیکن خالدؓاور ضرار نے بروقت پہنچ کر نہ صرف رومیوں کا پھندہ توڑ ڈالا تھا، بلکہ انہیں ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا کر مالِ غنیمت سے مالامال ہو کر لوٹے تھے۔ہرقل کو مسلمانوں کی برق رفتاری نے پریشان کر دیا تھا۔اس نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں کی فوج ایک سے دوسری جگہ حیران کن تیزی سے پہنچتی تھی اور میدانِ جنگ میں سالاروں کی جنگی چالوں پر ان کے دستے بہت ہی تیزی سے جگہ بدلتے اور چالوں کو کامیاب کرتے تھے۔اس کے بعد تو جیسے ہرقل نے راتوں کو سونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس نے اسی روز اپنی سلطنت کے دور دراز گوشوں تک قاصد دوڑا دیئے تھے۔اس نے حکم یہ بھیجاتھا کہ زیادہ سے زیادہ فوجی دستے انطاکیہ بھیج دیئے جائیں، وہ سلطنت کی تمام تر فوج تو اکٹھی نہیں کر سکتا تھا، ہر جگہ فوج کی ضرورت تھی۔اس نے اتنے دستے مانگے تھے جن کے آجانے سے کسی بھی جگہ کا دفاع کمزور نہیں ہوتا تھا۔جن علاقوں سے دستے آئے، ان میں شمالی شام، یورپ کے چند شہر، اور جزیرے شامل تھے۔ہرقل نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ دستے بہت تیزی سے آئیں۔جب یہ آنے لگے تو ان میں سے بعض کو انطاکیہ میں رکھا گیا اور دوسروں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے سے ذرا ہی دور ایک مقام بیسان پر بھیج دیاگیا۔ہرقل نے اپنے مشیروں اور سالاروں کو بلایا۔ ان میں سقلار، شنس، اور تھیوڈورس خاص طور پر قابلِ ذکر تھے ان تینوں کو محاذوں سے بلایا گیا تھا۔ہرقل نے ان سب کو بتایا کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے اس نے کیا بندوبست کیا ہے اور سالاروں نے کیا کرنا ہے۔’’تم نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان کس طرح لڑتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔’’شکست اور پسپائیوں سے تمہیں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ان سے تمہیں تجربہ حاصل ہوا ہے۔اگر تم نے کچھ نہیں سیکھا تو تمہارے لیے یہی اک راستہ ہے۔ جاؤ اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلو۔ قیصرِ روم کی عظمت کو مسلمانوں کے قدموں میں ڈال دو اور صلیب کو بحیرہ روم میں پھینک کر مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔تمہیں اپنی جانیں اپنی بیویاں اور اپنے مال و اموال زیادہ عزیز ہیں۔اسی کانتیجہ ہے کہ عرب کے لٹیروں کا ایک گروہ تمہیں شکست پہ شکست دیتا چلاجا رہاہے۔‘‘سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ہرقل کی نگاہیں ہر ایک پر گھوم گئیں۔’’شہنشاہِ روم!‘‘ اس کے سالار تھیوڈورس نے سکوت توڑا۔’’ہم پیچھے ہی نہیں ہٹتے آئیں گے۔میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے زندہ آیا تو شکست کھاکر نہیں آؤں گا۔اگر میں نے شکست کھائی تو میری لاش بھی یہاں نہیں آئے گی۔‘‘اس ایک سالار کے بولنے سے نہ صرف سناٹا ٹوٹا بلکہ سب میں جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔سب نے ہرقل کو یقین دلایا کہ انہیں سلطنت روم سے زیادہ اور کوئی چیز عزیز نہیں -
’’میں نے مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کیلئے جو بندوبست کیا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب تک ہماری فوج مختلف جگہوں پر بٹ کر لڑتی رہی ہے۔ ایک جگہ سے ہمارے فوجی بھاگے تو انہوں نے دوسری جگہ جاکر وہاں کے دستوں میں بددلی پھیلائی اور اپنے آپ کوشکست کے الزام سے بچانے کیلئے ایسی باتیں کیں جن سے وہاں کے دستوں پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی۔اب میں فوج کو یکجا کرکے لڑاؤں گا……‘‘’’تم نے دیکھا ہے کہ میں نے کہاں کہاں سے دستے منگوائے ہیں اور کس قدر لشکر جمع ہو گیا ہے۔میری نظر دمشق پر ہے لیکن ہم دمشق پر حملہ نہیں کریں گے نہ اس کا محاصرہ کریں گے۔ہم دمشق سے دور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں زیادہ نفری کے دستوں سے لڑاکر مسلمانوں کے رسد کے وہ راستے بند کردیں گے جو عرب سے دمشق کو جاتے ہیں۔ ہم دمشق میں یا اس کے گردونواح میں کوئی لڑائی نہیں لڑیں گے، بلکہ مسلمان تنگ آکر لڑنا بھی چاہیں گے تو ہم انہیں نظر انداز کریں گے۔ہم ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ وہ لڑنے کے قابل رہ ہی نہیں جائیں گے۔انہیں نہ کہیں سے رسد پہنچ سکے گی نہ کمک۔شہر کے لوگ ہی قحط سے تنگ آکر انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیں گے۔اگر وہ دمشق سے نکل گئے تو ہم کہیں بھی ان کے قدم جمنے نہ دیں گے۔یہ بھی خیال رکھو کہ ہماری فوجوں کا اجتماع ایسے خفیہ طریقہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہیں ہو گی۔‘‘ہرقل کا تو خیال تھا کہ اس کے لشکر کا اجتماع خفیہ رکھا گیاہے لیکن مسلمانوں کے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ کے ساتھ خالدؓتھے۔خالدؓ نے نہایت مضبوط اور تیز جاسوسی نظام ترتیب دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ بن ولید کو سوار دستے کا سالار بنا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنا مشیر بھی سمجھتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق ابو عبیدہؓ سالاری کی مہارت رکھتے تھے اور جنگی امور کو بھی پوری طرح سمجھتے تھے لیکن ان میں وہ تیز رفتاری نہیں تھی جو خالدؓ میں تھی۔خالدؓ اپنے فیصلوں میں بڑے خوفناک قسم کے خطرے بھی مول لے لیا کرتے تھے۔اس کے برعکس ابو عبیدہؓ احتیاط کے قائل تھے۔اپنی اس عادت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے خالدؓ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھا۔وہ کوئی بھی منصوبہ بناتے یا فیصلہ کرتے تھے تو اس میں خالدؓ کے مشوروں کو خاص طور پر شامل کیاکرتے تھے۔
خالدؓ جاسوسی اور دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ توجہ دیاکرتے تھے۔اب یہ ان کی ذمہ داری نہیں رہی تھی کیونکہ یہ ذمہ داری سالارِ اعلیٰ کی تھی، اور خالدؓدوسرے سالاروں کی طرح ایک عام سالار تھے، لیکن اپنی معزولی کے باوجود وہ اپنے فرائض سے بے انصافی گوارا نہیں کرتے تھے۔انہوں نے جاسوسی کے نظام پر پہلے کی طرح توجہ دیئے رکھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جاسوس رومیوں کی سلطنت کے اندردور تک چلے گئے تھے۔ایک روز ایک جاسوس آیا۔وہ بہت دور سے آیا تھا۔اس نے بتایا کہ رومیوں کاایک لشکر بحیرہ روم کے راستے کشتیوں پر آیا ہے۔اس جاسوس نے اپنے ان جاسوسوں سے رابطہ کیا جو اور آگے تک گئے ہوئے تھے۔وہ ان سب کی اطلاع لے کر بڑی ہی تیز رفتار سے دمشق پہنچااور یہ اطلاع دی کہ رومیوں نے کم و بیش ایک لاکھ نفری کا لشکر دریائے اردن کے مغرب میں جمع کر لیا ہے۔تاریخ کے مطابق بیسان کے مقام پر دسمبر ۶۳۴ء کے آخری اور ذیعقد ۱۳ ھ کے پہلے ہفتے میں رومیوں کی فوج کا یہ اجتماع ہوا تھا۔جاسوس نے اپنے اندازے کے مطابق اس لشکر کی تعداد ایک لاکھ بتائی تھی اصل میں رومی فوج کی تعداد اسّی ہزار تھی۔اتنی بڑی تعداد اکٹھی کرنے کا مطلب یہی لیا جا سکتا تھا کہ رومی بہت بڑی جنگی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔’’میرے عزیز ساتھیو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے سالاروں سے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔شکر ادا کرو اﷲکی ذاتِ باری کا جس نے ہمیں ہر میدان میں فتح عطا کی ……میں تمہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں جہاں سے ہماری واپسی ناممکن ہو گئی ہے۔ا ﷲنے ہمیں بہت سخت امتحان میں ڈالا ہے۔اگرہم اس امتحان میں پورے اترے تو یہ ایک روایت بن جائے گی جو ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔مت بھولنا کہ ہم نہ مالِ غنیمت کیلئے لڑ رہے ہیں، نہ ہمارا مقصد اقتدار ہے۔ اﷲاور اسکے رسول )ﷺ(نے ہمیں بنی نوع انسان کو ظلمت اور غلامی سے نجات دلانے کا فرض سونپا ہے،اب دشمن نے ہمارے سامنے دیواریں کھڑی کر دی ہیں……‘‘’’رومی کم و بیش ایک لاکھ کا لشکر لے کر آئے ہیں۔اس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اور یہی ہو سکتا ہے کہ رومی دمشق پر حملہ کریں گے۔اگر دمشق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کہیں قدم جمانا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔دشمن نے بحیرہ روم سے انطاکیہ، بیروت اور ایک دو اور بندرگاہوں پر یورپ سے فوج لا اتاری ہے۔ہمیں سب سے پہلے دمشق کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے لیکن ہم ایک ہی جگہ پر جمع نہیں ہو جائیں گے۔‘‘
’’ہماری تعداد اس وقت کتنی ہوگی؟‘‘ایک سالار نے پوچھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا۔’’ہماری تعداد پہلے سے کچھ زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’پچھلی لڑائیوں میں جو مجاہدین زخمی ہوئے تھے وہ الحمدﷲصحت یاب ہوکرواپس آچکے ہیں۔میرے اندازے کے مطابق ہماری نفری تیس ہزار تک ہو جائے گی۔ہمیں ایک سہولت اور حاصل ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجاہدین نے کافی آرام کر لیا ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے اور خالدؓ نے مل کر منصوبہ تیار کیا کہ رومیوں کے اس لشکر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔امیر المومنین عمرؓ نے محاذ پرلڑنے والے سالاروں پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کسی بڑی جنگ کا منصوبہ بنا کر ان سے منظور کرایا جائے۔عمرؓ غیر معمولی فہم و فراست کے مالک تھے۔بعض جگہوں کی پلاننگ وہ خود مدینہ بیٹھ کر کرتے اور محاذ کو بھیجتے تھے۔ابو عبیدہؓ نے اس پابندی کے مطابق ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو روانہ کر دیا۔ اسے جو پیغام دیا گیا اس میں نئی صورتِ حال لکھی گئی تھی اور مجوزہ منصوبہ بھی تحریر تھا۔وقت بہت تھوڑا تھا۔دشمن بے تحاشا نفری ساتھ لایا تھا۔کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کس لمحے وہ کیا کارروائی شروع کرد ے، لیکن مسلمانوں نے پیغام رسانی کا نظام اتنا تیز اور محفوظ بنا رکھا تھا کہ تھوڑے سے وقت میں دور کے فاصلے پر پیغام پہنچ جاتاتھا۔امیرالمومنینؓ نے صورتِ حال اور منصوبے کا جائزہ لیا۔اس میں کچھ ردوبدل کیا، اور منصوبے کی منظوری دے دی، یزیدؓ بن ابی سفیان دمشق میں تھے،وہ سالار بھی تھے اور دمشق کے حاکم بھی۔انہیں پیغام بھیجا گیا کہ دشمن کیا صورتِ حال پیدا کر رہا ہے،اور وہ بدستور دمشق میں رہیں۔انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ دمشق کے شمال مغرب پر جاسوسوں کی دیکھ بھال کرنے والے آدمیوں کے ذریعہ نظر رکھیں کیونکہ توقع یہی ہے کہ رومی ادھر سے حملہ کریں گے۔سالار شرجیلؓ بن حسنہ اپنے دستوں کے ساتھ اس علاقے میں تھے جس میں بیسان اور فحل واقع تھے۔خلیفہ عمرؓ نے خاص طور پر لکھا تھا کہ سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو اس جنگ کیلئے سالار مقرر کیا جائے جس کی رومی تیاری کر کے آئے ہیں۔خالد کو اس فوج کے ہراول دستے کی سالاری سونپی گئی تھی۔جنوری ۶۳۵ء کے دوسرے ہفتے میں ان دستوں نے جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی، کوچ کیا۔انہیں بیسان سے کچھ دور فحل کے مقام تک پہنچنا تھا۔یہ دستے جب فحل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں رومی فوج نہیں تھی۔ وہاں روم کی پوری فوج کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خبر ملی کہ چند ایک دستے وہاں موجود ہیں لیکن یہ دستے جا چکے تھے۔وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ رومیوں کے دستے بیسان چلے گئے ہیں جہاں ان کے پورے لشکر کا اجتماع ہے۔
مسلمان آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن دریاکے دونوں طرف دور دور تک دلدل تھی، جس میں گزرنا ممکن نہیں تھا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ دلدل دریا کے دونوں کناروں سے لے کر ایک ایک میل دور تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ علاقہ سطح سمندر سے کئی سو فٹ نیچیے اور وہاں اُس دور میں نشیب زیادہ تھے۔دیکھاگیا کہ وہاں دریاکے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے پھر یہ پانی کہاں سے آگیا تھا جس نے اس نشیبی علاقے کو دلدل بنا ڈالا تھا؟’’کچھ دور اوپر جا کر دیکھیں۔‘‘اک مقامی آدمی نے بتایا۔’’فحل میں رومی فوج کے دستے رہتے تھے۔وہ یہاں سے چلے گئے۔اوپر کی طرف جا کر انہوں نے دریا میں پتھروں کا بند باندھا اور دونوں کنارے توڑ دیئے۔اس طرح اوپر سے یہ پانی یہاں آکر جمع ہو گیااور پھیلتا چلا گیا۔‘‘رومیوں نے مسلمانوں کو روکنے کا بڑا سخت انتظام کیا تھا۔رومیوں نے غالباً یہ سوچا تھا کہ مسلمان صحرا میں یا میدان میں چلنے اور لڑنے کے عادی ہیں اور وہ دلدل میں سے نہیں گزرسکیں گے۔اگر انہوں نے یہ سوچا تھا تو بالکل ٹھیک سوچا تھا۔دلدل مسلمانوں کیلئے بالکل نئی چیز تھی۔ان کیلئے تو چٹانیں اور پہاڑیاں بھی نئی چیز تھیں۔لیکن انہوں نے پہاڑی علاقوں میں بھی لڑائیاں لڑی تھیں اور دشمن کو شکست دی تھی۔وہ دلدل میں سے بھی گزر جاتے لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔سالار شرجیلؓ نے دلدل سے کچھ دور ہٹ کر اپنے دستوں کو ایک ترتیب میں کر دیا۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے۔سوار دستے کی کمان ضرار بن الازور کو دی گئی تھی۔خالدؓکو وہ دستے دیئے گئے جنہیں بیسان کی طرف جانا تھا۔خالدؓ ہراول میں تھے۔کچھ آگے گئے تو دلدل نے ان کے پاؤں جکڑ لیے۔خالدؓ اپنی عادت کے مطابق دلدل میں سے گزرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن دلدل زیادہ ہی ہوتی گئی اور وہ مقام آگیا جہاں دلدل میں سے پاؤں نکالنا بھی ناممکن ہو گیا۔چنانچہ وہ دلدل میں سے نکلنے لگے۔نکلنا بھی دشوار ہو گیا۔بڑی کوشش کے بعد خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ دلدل سے نکلے اور واپس فحل آگئے۔رومی سالار سقلار تجربہ کار سالار تھا۔وہ جنگ کیلئے بالکل تیارتھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس دھوکے کو کامیاب سمجھتا تھا کہ مسلمان دلدل میں سے نہیں نکل سکیں گے۔اسی دلدلی علاقے میں ایسی جگہ بھی تھی جہاں پانی کے نیچے زمین بہت سخت تھی اور وہاں کیچڑ نہیں تھا۔وہاں سے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا-
اس قسم کے راستے کا علم صرف رومیوں کو تھا۔سقلار نے اپنے لشکر سے کچھ دستے الگ کیے اورانہیں ایک جگہ اکٹھا کیا۔’’عظمتِ روم کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنے لشکرسے کہا۔’’آج تمہارا دشمن پھندے میں آگیا ہے۔مسلمان دلدل میں سے نہیں گزر سکے۔انہوں نے دلدل سے پرے فحل کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ہم اسی دلدل میں سے جس میں سے مسلمان نہیں گزر سکے انہیں گزر کر دکھائیں گے۔وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے آگے دلدل ہے جو انہیں ہم سے محفوظ رکھے گی ہم رات کو حملہ کریں گے۔ اس وقت وہ اپنے پڑاؤ میں گہری نیند سوئے ہوئے ہوں گے……‘‘’’اے رومیو!یہ رات کی لڑائی ہو گی جو آسان نہیں ہوتی لیکن آج تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے خون کا بدلہ لینا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، تمہیں اپنا شکار سویا ہوا ملے گا۔کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل کر جائے۔ان کے گھوڑے ان کے ہتھیار اور ان کے پاس ہمارا لوٹا ہوا جومال ہے یہ سب تمہارا ہے۔اگر تم ان سب کو ختم کر دو گے تو سمجھو تم نے اسلام کو ختم کر دیا اور یہی ہمارا مقصدہے۔شہنشاہ ہرقل کا یہ وہم دور کر دو کہ ہم مسلمانوں کو شکست دے ہی نہیں سکتے۔‘‘رومی سپاہی یہ سن کر کہ وہ اپنے دشمن کو بے خبری میں جالیں گے، جوش سے پھٹنے لگے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پہلی لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے کئی بھاگے بھی تھے۔وہ دانت پیس رہے تھے۔وہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہے تھے۔۲۳جنوری ۶۳۵ء بمطابق ۲۷ ذیعقد ۱۳ھ کا سورج غروب ہوگیا تورومیوں کے سالار سقلار نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔شام بڑی تیزی سے تاریک ہوتی گئی۔سقلار نے پیش قدمی کا حکم دے دیا۔اسے دلدل میں سے گزرنے کا راستہ معلوم تھا۔اپنے دستوں کو اس نے اس راستے میں سے گزارا۔جب تمام دستے گزر آئے تو سقلار نے انہیں اس ترتیب میں کر لیا جس ترتیب میں حملہ کرنا تھا۔یہ حملہ نہیں شبخون تھا اور یہ یک طرفہ کارروائی تھی۔اس ترتیب میں سقلار نے اپنے دستوں کو فحل کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا۔وہ خود سب سے آگے تھا۔اس نے پیش قدمی کی رفتارتیز رکھی تاکہ مسلمانوں کو ان کے آنے کی خبر ہوبھی جائے تو انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی جائے۔رومی اس جگہ پہنچ گئے جہاں مسلمانوں کا پڑاؤ تھا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا، سقلارجاسوسوں کو کوسنے لگا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ پڑاؤ فلاں جگہ ہے۔اسے اﷲاکبر کے نعرے کی گرج سنائی دی۔اس کے ساتھ ہی مشعلیں جل اٹھیں۔سقلار نے دیکھا کہ مسلمان نہ صرف بیدار ہیں بلکہ لڑنے کی ترتیب میں کھڑے ہیں۔سالار شرجیلؓ محتاط سالا رتھے۔انہیں یہاں آکر جب معلوم ہوا تھا کہ یہ دلدل کہاں سے آگئی ہے تو انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ رومیوں نے ان کا صرف راستہ ہی نہیں روکا بلکہ وہ کچھ اور بھی کریں گے۔رومی یہی کر سکتے تھے کہ حملہ کردیں۔چنانچہ شرجیلؓ نے شام کے بعد اپنی فوج کو سونے کے بجائے لڑائی کیلئے تیار کرا لیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے جاسوس دلدل کے اردگرد پھیلا دیئے تھے۔رومی جب دلدل میں سے گزر رہے تھے، ایک جاسوس نے شرجیلؓکو اطلاع دے دی کہ دشمن آرہا ہے۔شرجیلؓ نے اپنے دستوں کو ایک موزوں جگہ جو انہوں نے دیکھ لی تھی، جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔’’مدینہ والو!‘‘ سقلار نے بلند آواز سے مسلمانوں کو للکارا۔’’آگے آؤ۔ اپنا اور اپنی فوج کا انجام دیکھو۔‘‘’’حملہ کرنے تم آئے ہو۔‘‘شرجیلؓ نے للکار کا جواب للکار سے دیا۔’’آگے تم آؤ۔ تم اس دلدل سے نکل آئے ہو، اب ہماری دلدل سے نکل کر دیکھو……رومیو! کل صبح کا سورج نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘للکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔آخر سقلار نے اپنے ایک دستے کو حملے کاحکم دے د یا۔اس نے یہ چال چلی تھی کہ اس کا دستہ حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئے گا تو مسلمان بھی اس کے ساتھ الجھے ہوئے آگے آجائیں گے۔ لیکن شرجیلؓ نے پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ دفاعی لڑائی لڑنی ہے۔اس کے مطابق مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔رومی موجوں کی صورت میں ان پر حملہ کرتے تھے اور مسلمان حملہ روکتے تھے۔اپنی ترتیب نہیں توڑتے تھے۔سالار شرجیلؓ رات کے وقت چال چلنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ان کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔اسے وہ کارگر انداز سے دن کی روشنی میں ہی استعمال کر سکتے تھے۔سقلار غالباً اس دھوکے میں آگیا تھا کہ مسلمانوں میں لڑنے کی تاب نہیں رہی۔اس خیال سے اس نے موج در موج حملوں میں اضافہ کر دیا۔لیکن مسلمانوں نے اپنی صفوں کوٹوٹنے نہ دیا۔وہ آگے بڑھ کر حملہ روکتے پھر اپنی جگہ پرآجاتے۔رومی ہر حملے میں اپنے زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ایک حملے کی قیادت سقلار نے خود کی۔وہ اپنے دستے کو للکارتا ہوا بڑی تیزی سے آگے گیا۔مشعلوں کی روشنی میں مسلمانوں نے رومیوں کا پرچم دیکھ لیا۔چند ایک مجاہدین رومیوں میں گھس گئے اور سقلار کو گھیر لیا۔اس کے محافظوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔محافظ بے جگری سے لڑے،اور اس دوران سقلار نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اپنے محافظوں کے حصار سے جہاں بھی نکلتا مسلمان اسے روک لیتے تھے۔ ایک مجاہد اس معرکے سے نکل گیا اور اس نے سالار شرجیلؓ کو بتایا کہ اب کے رومیوں کو اتنی جلدی پیچھے نہ جانے دینا کیونکہ کچھ مجاہدین نے رومیوں کے سالار کو نرغے میں لے رکھا ہے۔شرجیلؓ نے اس اطلاع پر اپنے چند ایک منتخب جانباز رومیوں کے قلب میں گھس جانے کیلئے بھیج دیئے۔تھوڑی ہی دیر بعد مجاہدین کے نعرے سنائی دینے لگے۔’’خدا کی قسم!ہم نے رومی سالار کو مار ڈالا ہے۔‘‘’’رومیو اپنا پرچم اٹھاؤ۔‘‘’’اپنے سالار کی لاش لے جاؤ رومیو!‘‘رومیوں نے دیکھا ان کا پرچم انہیں نظر نہیں آرہا تھا اور انہیں اپنے سالار کی للکار بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ان میں بددلی پھیلنے لگی، لیکن کسی نائب سالار نے پرچم اٹھا لیااور لڑائی جاری رکھی۔
سورج طلوع ہوا، لیکن میدانِ جنگ کی گرد و غبار میں اسے کوئی دیکھ ہی نہ سکا۔مسلمان بھی شہید ہوئے تھے لیکن رومیوں کی اموات زیادہ تھیں۔ میدان میں ان کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ان کے زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے رینگ رینگ کر گھوڑوں تلے کچلے جانے سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میدان رومیوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔’’اسلام کے علمبردارو!‘‘ سالار شرجیلؓ کی للکار اٹھی۔’’تم نے رومیوں کو انہی کے خون میں نہلا دیاہے۔تم نے ساری رات ان کے حملے روکے ہیں، اب ہماری باری ہے۔‘‘’’اﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ شرجیلؓ نے اپنے دائیں پہلو کے ایک دستے کو آگے بڑھایا۔ رومی حملہ روکنے کیلئے تیار تھے لیکن رات وہ حملے کرتے اور پیچھے ہٹتے رہے تھے ان کے جسم تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ شرجیلؓ نے اپنی فوج کی جسمانی طاقت کو ضائع نہیں ہونے دیا تھا اسی لیے وہ دفاعی لڑائی لڑاتے رہے تھے۔شرجیلؓ کے دائیں پہلو کے ایک دستے نے باہر کی طرف ہو کرحملہ کیا اس سے رومیوں کے اس طرف کا پہلو پھیلنے پر مجبور ہو گیا۔شرجیلؓ نے فوراً ہی رومیوں کے دوسرے پہلو پر بھی ایسا ہی حملہ کرایا اور اس پہلو کو بھی قلب سے الگ کردیا۔رومیوں کے پہلو دور دور ہٹ گئے تو شرجیلؓ نے قلب کے دستوں کو اپنی قیادت میں بڑے شدید حملے کیلئے آگے بڑھایا۔رومی رات کے تھکے ہوئے تھے، اور ان کا سالار بھی مارا گیا تھا۔صاف نظر آرہا تھا کہ ان میں لڑنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے دشمن کے پہلوؤں کو اور زیادہ پھیلاتے چلے گئے وہ اب اپنے قلب کے دستوں کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کے سالار معمولی سالار نہیں تھے،وہ تاریخ ساز سالار ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے،اور قلب کے چندایک دستوں کے سالار خالدؓتھے۔رومیوںکے لیے خالدؓ دہشت کادوسرا نام بن گیا تھا۔گھوڑ سوار دستوں کے سالار ضرار بن الازور تھے جو سلطنت روم کی فوج میں اس لئے مشہور ہو گئے تھے کہ وہ میدان میں آکر خود اور قمیض اتار کر کمر سے برہنہ ہو جاتے تھے،اورلڑتے تھے۔انفرادی معرکہ ہوتا یا وہ دستے کی کمان کر رہے ہوتے وہ اس قدر تیزی سے پینترا بدلتے تھے کہ دشمن دیکھتا رہ جاتا تھااور ان کی برچھی میں پرویا جاتا تھایا تلوار سے کٹ جاتا تھا۔مسلمانوں کی نفری بہت کم تھی۔ اس کمی کو ان سالاروں نے ذاتی شجاعت، جارحانہ قیادت اور عسکری فہم و فراست سے پورا کیااور سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب رومی نفری افراط کے باوجود منہ موڑنے لگی۔رومیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ تتر بتر ہو کر بھاگا نہیں کرتے تھے۔ان کی پسپائی منظم ہوتی تھی۔لیکن فحل کے معرکے سے وہ بے طرح بھاگنے لگے۔ان کی مرکزی قیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کا جانی نقصان اتنا ہوا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی بلکہ اتنا زیادہ خون دیکھ کر ان پر خوف طاری ہو گیا تھا-
ان کی ایسی بے ترتیب پسپائی کی وجہ اور بھی تھی۔ان کا سالار سقلار انہیں دلدل میں سے نکال لایا تھا اسے معلوم تھاکہ کہاں سے زمین سخت ہے جہاں پاؤں کیچڑ میں نہیں دھنسیں گے مگر اب ان کے ساتھ وہ سالار نہیں تھا۔اس کی لاش میدانِ جنگ میں پڑی تھی۔سپاہیوں نے اس لئے بھاگنا شروع کر دیا کہ وہ جلدی جلدی دلدل میں وہ راستہ دیکھ کر نکل جائیں۔سالار شرجیلؓ نے دشمن کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو انہیں دلدل کا خیال آگیا۔انہوں نے دشمن کے تعاقب کا حکم دے دیا۔مسلمان پیادے اور سوار نعرے لگاتے ان کے پیچھے گئے، تو رومی اور تیز دوڑے لیکن دلدل نے ان کا راستہ روک لیا۔ہڑ بونگ اور افراتفری میں انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دلدل میں سے وہ کہاں سے گزر آئے تھے۔ان کے پیچھے بھی موت تھی اور آگے بھی موت تھی وہ دلدل میں داخل ہو گئے اور اس میں دھنسنے لگے۔مسلمان بھی دلدل میں چلے گئے اور انہیں بری طرح کاٹا۔جو رومی دلد ل میں اور آگے چلے گئے تھے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا گیا۔دریاکا پانی چھوڑ کر رومیوں نے جو دلدل پیدا کی تھی کہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں وہ دلدل رومیوں کیلئے ہی موت کا پھندا بن گئی تھی۔فحل میں لڑے جانے والے اس معرکے کو ذات الروغہ یعنی کیچڑکی لڑائی کہا جاتا ہے۔اس میں سے بہت تھوڑے سے رومی بچ سکے تھے وہ بیسان چلے گئے تھے۔اس معرکے میں دس ہزار رومی مارے گئے تھے،اور جو زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں رہ گئے تھے ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔سالار شرجیلؓ نے وہاں زیادہ رکنامناسب نہ سمجھا۔وہ دشمن کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہنا چاہتے تھے۔تاکہ دشمن پھر سے منظم نہ ہو سکے۔انہوں نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوچند ایک دستوں کے ساتھ فحل میں رہنے دیااور خود باقی ماندہ فوج کے ساتھ آگے بڑھے۔ لیکن دلدل نے پھر ان کا راستہ روک لیا۔انہوں نے دو تین زخمی رومیوں سے پوچھا کہ دلدل سے پار جانے کا راستہ کون سا ہے؟رومی زخمیوں نے انہیں ایک اور راستہ بتا دیا یہ بڑا ہی دور کا راستہ تھا۔لیکن دلدل سے گزرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا دوسرا راستہ اختیار کرنے میں۔شرجیلؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان دستوں کے ساتھ فحل میں چھوڑ دیا، اور دلدل سے دور ہٹ کراس راستے سے گزر گئے جو رومی زخمیوں نے انہیں بتایا تھا۔انہیں دریائے اردن بھی عبور کرنا پڑا انہوں نے آگے بڑھ کر بیسان کا محاصرہ کرلیا۔بیسان میں رومیوں کی خاصی نفری تھی۔ ہرقل نے نفری کے بل بوتے پر مسلمانوں کو فیصلہ کن بلکہ تباہ کن شکست دینے کا انتظام کیا تھا۔ اس کے منصوبے کی پہلی ہی کڑی ناکام ہو گئی تھی فحل کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی چند ایک ہی خوش قسمت تھے جو دلدل میں سے نکل گئے تھے۔ان کی پناہ بیسان ہی تھی۔
بیسان کا رومی سالار اس خبر کے انتظار میں تھا کہ اس کے ساتھی سالار سقلار نے مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیا ہے اور مسلمانوں کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل گیا ہے لیکن چوتھی شام بیسان میں پہلے رومی زخمی داخل ہوئے۔ زخمی ہونے کے علاوہ ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔تھکن اور خوف سے ان کی آنکھیں باہر کو آرہی تھیں ان کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے اور وہ پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں تھے۔بیسان میں داخل ہوتے ہی انہیں بیسان کے فوجیوں نے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آگے کیا ہوا ہے؟’’کاٹ دیا!‘‘ ایک سپاہی نے خوف اور تھکن سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب کو کاٹ دیا۔‘‘’’مسلمانو¬ں کو کاٹ دیا؟‘‘ان سے پوچھا گیا۔’’نہیں! ‘‘سپاہی نے جواب دیا۔’’انہوں نے کاٹ دیا۔کیچڑ نے مروادیا۔‘‘اس کے ساتھ کچھ اور سپاہی بھی تھے۔ان کی جسمانی اور ذہنی حالت بھی اسی سپاہی جیسی تھی انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں سنائیں جن میں مایوسی اور دہشت تھی۔ ان کی یہ باتیں اس رومی فوج میں پھیل گئیں جو بیسان میں مقیم تھی۔اس فوج میں ایسے سپاہی بھی تھے جو کسی نہ کسی معرکے میں مسلمانوں سے لڑ چکے تھے انہوں نے فحل سے آئے ہوئے سپاہیوں کی باتوں میں رنگ آمیزی کی۔اس کااثر رومیوں پر بہت برا پڑا۔’’میں کہتا ہوں وہ انسان ہیں ہی نہیں۔‘‘ایک سپاہی نے مسلمانوں کے متعلق کہا۔’’ہماری فوج جہاں جاتی ہے مسلمان جیسے وہاں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘’’ان کی تعداد ہم سے بہت کم ہوتی ہے۔‘‘ایک اور سپاہی نے کہا۔’’لیکن لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد ہم سے زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔‘‘دہشت کے مارے ہوئے ان زخمی سپاہیوں کی باتیں جوہوا کی طرح بیسان کے کونوں کھدروں تک پہنچ گئی تھیں جلد ہی سچ ثابت ہو گئیں۔ایک شور اٹھا۔’’ مسلمان آگئے ہیں۔مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی بیسان کے اندر ہڑبونگ مچ گئی۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی قلعے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔دروازے بند ہو چکے تھے ۔ وہ اب اندر ہی چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔درہم و دینار اور سونا وغیرہ گھروں کے فرشوں میں دبانے لگے۔
رومی فوج قلعے کی دیواروں پر اور بُرجوں میں جا کھڑی ہوئی۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے للکار کر کہا۔’’خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘اس کے جواب میں اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں لیکن مسلمان ان کی زد سے دور تھے۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے ایک بار پھر اعلان کیا۔’’ہتھیار ڈال دو۔جزیہ قبول کرلو۔نہیں کرو گے تو بیسان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔تم سب مردہ ہو گے یا ہمارے قیدی۔ ہم کسی کو بخشیں گے نہیں۔‘‘رومی فوج میں تو مسلمانوں کی دہشت اپنا کام کر رہی تھی لیکن اس فوج کے سالار اور دیگر عہدیدار جنگجو تھے۔اپنی عسکری روایات سے اتنی جلدی دستبردار ہونے والے نہیں تھے۔انہوں نے نہ ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی نہ جزیہ کی ادائیگی قبول کی۔مسلمان ایک رات اور ایک دن مسلسل لڑے تھے، پھر انہوں نے بھاگتے رومیوں کا تعاقب کیا، پھر بیسان تک آئے تھے۔انہیں آرام کی ضرورت تھی۔شرجیلؓ نے انہیں آرام دینے کیلئے فوری طور پر قلعے پر دھاوا نہ بولا۔البتہ خود قلعے کے اردگرد گھوڑے پر گھوم پھر کر دیکھتے رہے کہ دیوار کہیں سے کمزور ہے یا نہیں یا کہیں سے سرنگ لگائی جا سکتی ہے؟سات آٹھ روز گزر گئے۔رومی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمان قلعے پر ہلہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔لیکن رومی سالار یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس کی اپنی فوج کی ہمت ماند پڑی ہوئی ہے۔اس نے اپنی فوج کے جذبے کو بیدار کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کر دے اور قلعے کی لڑائی کا فیصلہ قلعے سے باہر ہی ہو جائے۔اگلے ہی روز قلعے کے تمام دروازے کھل گئے اور ہر دروازے سے رومی فوج رکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلی۔اس میں زیادہ تر سوار دستے تھے،انہوں نے طوفان کی مانند مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کیلئے یہ صورتِ حال غیر متوقع تھی۔ان کی نفری بھی دشمن کے مقابلے میں کم تھی۔پہلے تو ایسے لگتا تھا جیسے رومی مسلمانوں پر چھا گئے ہیں اور مسلمان سنبھل نہیں سکیں گے لیکن سالار شرجیلؓ عام سی قسم کے سالار نہیں تھے۔انہوں نے دماغ کو حاضر رکھا اور قاصدوں کو دوڑا دوڑا کر اور خود بھی دوڑ دوڑ کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کو کہا۔مسلمانوں نے اس حکم پر فوری عمل کیا، اور پیچھے ہٹنے لگے،اس کے ساتھ ہی شرجیلؓ نے بہت سے مجاہدین کو قلعے کے دروازوں کے قریب بھیج دیا۔ان میں زیادہ تر تیر انداز تھے۔ان کیلئے یہ حکم تھا کہ رومی واپس دروازوں کی طرف آئیں تو ان پر اتنی تزی سے تیر پھینکے جائیں کہ وہ دروازوں سے دور رہیں۔
شرجیلؓ اور ان کے کمانداروں نے اپنے دستوں کو محاصرے کی ترتیب سے میدان کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔وہ اتنا پیچھے ہٹ آئے تھے کہ رومی قلعے سے دور آگئے۔اب شرجیلؓ نے اپنے انداز سے جوابی حملہ کیا۔رومی اپنے حملے میں اتنے مگن تھے کہ وہ بکھرے رہے۔مسلمانوں نے حملہ کیا تو رومی بے ترتیبی کی وجہ سے حملے کا مقابلہ نہ کر سکے۔وہ قلعے کی طرف دوڑے تو اُدھر سے مسلمانوں کے تیروں نے انہیں گرانا شروع کر دیا۔مسلمانوں کی تیر اندازی بہت ہی تیز اور مہلک تھی۔رومیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا، اب جذبہ بالکل ہی ختم ہو گیا،رومیوں کا جانی نقصان اتنا زیادہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔آخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور شرجیلؓ کی شرطیں ماننے پر آمادگی ظاہر کر دی۔انہوں نے جزیہ اور کچھ محصولات کی ادائیگی کرنے کی شرط بھی قبول کر لی،اور قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔فروری ۶۵۳ء )ذی الحج ۱۳ھ(کے آخری ہفتے میں بیسان مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔اس وقت ابو عبیدہ ؓاور خالدؓ فحل کے شمالی علاقے میں پیشقدمی کر رہے تھے۔انطاکیہ کے بڑے گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔یہ بہت بڑا گھنٹہ تھا۔اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی تھی۔نور کے تڑکے کی خاموشی میں اس کی ’’ڈن ڈناڈن‘‘ اور زیادہ اونچی سنائی دے رہی تھی۔یہ ۶۳۵ء )۱۴ھ( کے مارچ کا مہینہ تھا۔گرجے کا گھنٹہ تو بجا ہی کرتا تھااور لوگ اس کی آواز میں تقدس محسوس کرتے تھے۔ان پر ایسا اثر طاری ہو جاتا تھا جو ان کی روحوں کو سرشار کر دیا کرتا تھا۔مگر مارچ ۶۳۵ء کی ایک صبح اس گھنٹے کی مترنم آواز میں کچھ اور ہی تاثر تھا۔اس تاثر میں مایوسی بھی تھی اور خوف بھی۔اس گھنٹے کی آوازیں شہنشاہ ہرقل کے محل میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ہرقل سونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو جاگنے کا وقت تھا لیکن وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔محاذ کی خبریں اسے سونے نہیں دیتی تھیں،اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنے اور انہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ بیکار ثابت ہو رہے تھے۔مسلمان بڑھے چلے آرہے تھے،ہرقل راتوں کو جاگتا اور نئے سے نئے منصوبے بناتا تھا۔
لیکن اس کا ہر ارادہ اور ہر منصوبہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداجاتا تھا۔ایک نہایت حسین اور جوان عورت اس کے کمرے میں آئی، وہ اس کی نئی بیوی زاران تھی۔’’شہنشاہ آج رات بھی نہیں سوئے۔‘‘زاران نے کہا۔’’کیوں نہیں آپ ان سالار اور سپاہیوں کو سب کے سامنے تہہ تیغ کردیتے جو شکست کھا کر واپس آتے ہیں؟وہ اپنی جانیں بچا کربھاگ آتے ہیں اور دوسرے سپاہیوں میں بددلی پھیلاتے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل پلنگ پر لیٹا ہوا تھا، زاران اس کے پاس بیٹھ گئی۔ہرقل اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔’’زاران!‘‘ اس نے رُک کر کہا۔’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، تم کہتی ہو کہ بچ کہ آنے والوں کو میں قتل کردوں۔میں ان کا خدا نہیں۔یہی ہیں جنہوں نے فارسیوں کو میرے قدموں میں بٹھادیا تھا۔فارسی ایسے کمزور تو نہیں تھے،ہماری ٹکرکی قوم ہے۔مسلمانوں نے انہیں بھی ہر میدان میں شکست دی ہے۔اب وہ ہمیں بھی شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔میں مسلمانوں کی قدر کرتا ہوں۔اگر ہمارے سالاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہیں۔بلکہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں۔ان کے سالاروں میں عقل زیادہ ہے۔‘‘’’تو کیا شہنشاہ مایوس ہو گئے ہیں؟‘‘زاران نے پوچھا۔’’نہیں!‘‘¬ہرقل نے کہا۔’’یہ مایوسی نہیں۔ایک جنگجو ایک جنگجو کی تعریف کر رہا ہے۔مسلمان اوچھے دشمن نہیں۔اگر وہ مجھ سے ہتھیار ڈلوالیں گے تو تم میرے پاس ہی رہو گی۔وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینیں گے۔‘‘زاران اس کا دل بہلانے آئی تھی۔اس کے کچھے تنے اعصاب کو سہلانے آئی تھی۔وہ ہرقل کی چہیتی بیوی تھی۔وہ ہرقل کو بہلانا جانتی تھی۔ لیکن ہرقل نے اسے زیادہ توجہ نہ دی۔گرجے کا گھنٹہ بج رہاتھا۔’’لوگ گرجے کو جا رہے ہیں۔‘‘زاران نے کہا۔’’سب آپ کی فتح کیلئے دعائیں کریں گے۔‘‘ہرقل نے زاران کو کنکھیوں دیکھاجیسے اس عورت نے اس پر طنز کیا ہو۔ہرقل نے زاران کی بات کوبھونڈا سا مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔’’صرف دعائیں شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتیں زاران!‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جاؤ! مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘شہنشاہ ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی کہ اس کے سالار سقلار نے مسلمانوں کا راستہ روکنے اور انہیں پھنسانے کیلئے جو دلدل پھیلائی تھی، اسی دلدل میں اس کے اپنے سپاہیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور فحل کے مقام پر سالار سقلار مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے،اور بیسان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے-
ہرقل کا یہ منصوبہ تباہ ہو چکا تھا کہ دمشق پر حملہ نہیں کرے گا، نہ اس کا محاصرہ کرے گا بلکہ اپنی فوج کو دمشق سے دور رکھ کر دمشق کو جانے والے راستے بند کر دے گا۔ پھر مسلمانوں کو بکھیر کر لڑائے گا۔مگرمسلمانوں نے اس کے منصوبے کی پہلی کڑی کو ہی فحل کے مقام پر توڑ دیاتھا۔روم کا شہنشاہ ہرقل ہمت ہارنے والا آدمی نہیں تھا۔اس کی زندگی جنگ و جدل میں گزری تھی۔خد انے اسے ایسی عقل دی تھی جس سے اس نے بڑے خطرناک حالات کارخ اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔اسے روم کی شہنشاہی ۶۱۰ء میں ملی تھی۔اس وقت روم کی سلطنت میں شمالی افریقہ کا کچھ حصہ ، یونان اور کچھ حصہ ترکی کا شامل تھا۔روم کی شہنشاہی تو اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض تھی لیکن ہرقل کو جب اس کا تخت و تاج ملااس وقت یہ شہنشاہی سکڑ چکی تھی اور زوال پزیر تھی۔ہرقل نے اپنے دورِ حکومت کے بیس سال دشمنوں کے خلاف لڑتے اور محلاتی سازشوں کو دباتے گزار دیئے تھے۔اس کی شہنشاہی کے دشمن معمولی قوتیں نہیں تھیں۔ایک طرف فارس کی شہنشاہی تھی۔دوسری طرف بربر تھے۔جو بڑے ظالم اور جنگجو تھے،ان کے علاوہ ترک تھے جن کی جنگی طاقت اور مہارت مسلمہ تھی۔ہرقل کی غیر معمولی انتظامی فہم و فراست اور عسکری قیادت کی مہارت تھی کہ اس نے تینوں دشمنوں کو شکست دے کر روم کی شہنشاہی کو شام اور فلسطین تک پھیلایا اور مستحکم کیا تھا۔اتنے طاقتور دشمنوں کے خلاف متواتر معرکہ آراء رہنے سے ہرقل کی فوج تجربہ کار اور منظم ہو گئی تھی۔منظم بھی ایسی کہ پسپا ہوتے وقت بھی تنظیم کو برقرار رکھتی تھی۔ہرقل کی فوج میں صرف رومی ہی نہیں تھے ، کئی اور اقوام کے لوگ اس میں شامل تھے ۔شام اور فلسطین کے عیسائی بھی تھے، ان عیسائیوں پر اسے کلی طور پر بھروسہ نہیں تھا۔ان کے متعلق ہرقل کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ مالِ غنیمت کیلئے لڑتے ہیں اور جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے یہ بھاگ اٹھتے ہیں۔مسلمانوں کو وہ عرب کے بدو کہا کرتا تھا،اس نے مسلمانوں کو لٹیرے بھی کہا تھا لیکن اس نے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا کہ اب اس کا مقابلہ ایک ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ عسکری فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کے سامنے ایک مقصد ہے۔ہرقل مسلمانوں کے مقصد کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔یہ مذہب کا معاملہ تھا لیکن وہ جان گیا تھا کہ مسلمان زمین کی خاطر اور اپنی شہنشاہی کے قیام اور وسعت کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے بلکہ وہ ایک عقیدے پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
’’میں اپنی فوج میں وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکتا جو مسلمانوں میں ہے۔‘‘اسی روز اس نے اپنے ان سالاروں کو جو انطاکیہ میں موجود تھے، بلا کر کہا۔’’اپنے سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اپنے عقیدے کی خاطر لڑیں۔انہیں بتاؤ کہ جن جگہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ، وہاں کے لوگ اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرتے جا رہے ہیں۔انہیں کہو کہ کچھ اور نہیں تو اپنے ذاتی وقار کی خاطر لڑو۔اپنی جوان بہنوں اور بیٹیوں کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے لڑو۔‘‘اس نے اپنے سالاروں کو محاذ کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا۔’’تو کیا اب تم محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اپنا منصوبہ بدلنا پڑے گا؟‘‘اس نے اپنے سالاروں سے پوچھا۔’’ہمیں مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ طاقت سے حملہ کرنا چاہیے۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’وہ تو میں کرنا ہی چاہتا ہوں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں اتنی زیادہ اور ہر لحاظ سے اتنی طاقتور فوج تیار کر رہا ہوں جسے دیکھ کر پہاڑ بھی کانپیں گے۔ہم جو علاقے کھو چکے ہیں۔ ان کا ہمیں غم نہیں ہو نا چاہے۔یہ سب واپس آجائیں گے۔میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں نے بیس سال مسلسل لڑ کر سلطنتِ روم کی عظمت کو بحال کیا تھا۔اب بھی کرلوں گا، لیکن تم مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے تو میری ناکامی یقینی ہے۔‘‘سالاروں نے باری باری اسے جوشیلے الفاظ میں یقین دلایا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔’’جوش باتوں میں نہیں میدانِ جنگ میں دکھایا جاتا ہے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’یہ میں جانتا ہوں کہ تم جانیں قربان کر دو گے لیکن تاریخ یہ دیکھے گی کہ تمہاری جانیں کس کام آئیں اور تم دشمن کو مار کر مرے تھے یا لڑائی میں مارے جانے والے سپاہیوں کی طرح صرف مارے گئے تھے……‘‘’’اب سنو ہمیں کیا کرنا ہے۔میں نے دمشق پر حملہ نہیں کرنا تھا لیکن اب ہمیں دمشق کو محاصرے میں لے کر اس شہرپر قبضہ کرنا ہے۔وہاں سے جو اطلاعیں آئی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ دمشق کا دفاع کمزور ہے۔وہاں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے۔یہ ہمارا فوجی مرکز تھا جسے مسلمانوں نے اپنا مرکز بنالیا ہے۔یہ ہمیں واپس لینا چاہیے۔‘‘اس نے ایک سالار شنس سے کہا کہ وہ حمص سے اپنے دستے لے کر دمشق پہنچے۔’’اور تھیوڈورس! ‘‘اس نے اپنے ایک اور سالار سے کہا۔’’تم اپنے ساتھ زیادہ نفری لے کر دمشق کو روانہ ہو جاؤ۔کوچ بہت تیز ہو تاکہ مسلمانوں کا کوئی امدادی دستہ تم سے پہلے دمشق نہ پہنچ جائے۔شنس تمہاری مدد کیلئے تمہارے قریب رہے گا۔دمشق پر قبضہ کر کے ہم اسے اڈہ بنالیں گے……اب دنیا کو بھول جاؤ۔ اپنی بیویوں اور اپنی داشتاؤں کو بھول جاؤ۔جسے ایک بار شکست ہو جائے اسے کھانے پینے کابھی ہوش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ہرقل نے تاریخی اہمیت کے الفاظ کہے۔’’جو قوم اپنی شکست کو بھول جاتی ہے۔اسے زمانہ بھول جاتا ہے،اور جو قوم اپنے دشمن سے نظریں پھیر لیتی ہے وہ ایک روز اسی دشمن کی غلام ہو جاتی ہے……تمہاری عظمت سلطنت کی عظمت کے ساتھ وابستہ ہے۔سلطنت کی عظمت کا دفاع نہیں کرو گے تو بے وقار زندگی بسر کررو گے،اور گمنام مرو گے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کے بولنے کے انداز میں رعب، عزم اور ٹھہراؤ تھا۔اس کا انداز تحکمانہ نہیں تھا لیکن اس کے الفاظ اس کے سالاروں پر وہی تاثر پیدا کر رہے تھے جو وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔سالار تھیوڈورس اور سالار شنس اسی وقت نئے احکام اور ہدایات کے ساتھ روانہ ہو گئے۔اس وقت ابو عبیدہؓ اور خالدؓ فحل کے شمال کی طرف جا رہے تھے۔مسلمانوں کی فوج اب پہلے والی فوج نہیں رہی تھی۔خالدؓ جب سالارِ اعلیٰ تھے تو انہوں نے اسے منظم کر دیا تھا۔مجاہدین تو پہلے بھی منظم ہی تھے۔ان کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، نظریہ اور عقیدہ ایک تھا۔اور سالار سے سپاہی تک جنگ کے مقصد سے آگاہ تھے۔پھر بھی اسے فارس اور روم کی فوجوں کی طرح منظم کرناضروری تھا۔وہ خالدؓنے کر دیا تھا۔جاسوسی اور دیکھ بھال کو بھی باقاعدہ اور موثر بنا دیا گیا تھا۔اسکے علاوہ خالدؓنے ایک سوار دستہ تیار کیا تھا جو متحرک رہتا اور انتہائی رفتار سے وہاں پہنچ جاتا جہاں مدد کی ضرورت ہوتی تھی مگر ان کی تعداد تھوڑی تھی۔وہ روز بروز تھوڑی ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے وطن سے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔وہ اسلام کا تاریخ ساز دور تھا۔اﷲ نے انہیں یہ فرض سونپا تھا کہ وہ روایات تخلیق کریں اور اس راستے کا تعین کریں جو آنے والے ہر دور میں مسلمانوں کی روایات اور فتح اسلام کا راستہ بن جائے۔شمع رسالت مسلمانوں کے لہو سے ہی فروزاں رہ سکتی تھی اور مسلمانوں کو ہر دور اور ہر میدان میں قلیل تعداد میں رہنا تھا۔وہ جو ۶۳۵ء کے اوائل میں شام اور فلسطین میں آگے ہی آگے بڑھے جا رہے تھے۔انہوں نے اپنا آپ اور اپنا سب کچھ اسلام کی قربان گاہ میں رکھ دیا تھا۔وہ ایک مقدس لگن سے سرشار تھے۔تلواروں کی جھنکار اور تیروں کے زناٹے اور زخمیوں کی کربناک آوازیں ان کیلئے وجد آفریں موسیقی بن گئی تھیں۔ان کے رکوع و سجود بھی تلواروں کی چھاؤں میں ہوتے تھے۔وہ اب گوشت پوست کے جسم نہیں، دین و ایمان اور جذبہ ایثار کے پیکر بن گئے تھے جو روح کی قوتوں سے حرکت کرتے تھے اور یہ حرکت بہت ہی تیز تھی۔ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ حمص کی جانب جا رہے تھے۔وہ فحل سے چلے تھے جہاں سے حمص تقریباً اسّی میل دور تھا۔ان کے راستے میں دمشق پڑتا تھا جو کم و بیش تیس میل دور تھا۔لیکن ان سالاروں نے دمشق سے کچھ دور سے گزر جاناتھا۔دمشق اور فحل کے درمیان ایک سر سبز علاقہ تھا،جو بہت خوبصورت اور روح پرور تھا،اس سبزہ زار کا نام مرج الروم تھا۔مسلمان دستوں کو کچھ دیر کیلئے وہاں رکنا تھا۔وہ اس سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے کہ ایک گھوڑ سوار جو فوجی معلوم نہیں ہوتا تھا راستے میں کھڑا ملا۔وہ کوئی شکاری معلوم ہوتا تھا۔جب دونوں سالار اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پہلو میں کر لیا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔’’کیا خبر ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا۔’’رومی ہمارے منتظر ہیں۔‘‘گھوڑ سوار نے جواب دیا۔’’تعداد ہم سے زیادہ ہے۔حمص کی طرف دشمن کا ایک لشکر آرہا ہے۔‘‘یہ گھوڑ سوار کوئی شکاری یا اجنبی نہیں تھا یہ ایک مسلمان جاسوس تھا، جو شکاریوں کے بہروپ میں بہت آگے نکل گیا تھا،وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے چند اور ساتھی بھی آگے گئے ہوئے تھے ۔
جاسوسی اتنا آسان کام نہیں تھا کہ دشمن کی نقل وحرکت دیکھی اور واپس آکر اپنے سالاروں کر اطلاع دے دی۔دشمن کے جاسوس بھی آگے آئے ہوئے ہوتے تھے،وہ جاسوسی کے علاوہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کا کوئی جاسوس ان کے علاقے میں نہ آیا ہوا ہو۔پتہ چل جانے کی صورت میں وہ جاسوس پکڑا یا مارا جاتا تھا۔اس جاسوس نے سبزہ زار میں جس رومی فوج کی موجودگی کی اطلاع دی تھی، مؤرخوں کے مطابق وہ رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور وہ رومی فوج آرہی تھی اس کا سالار شنس تھا۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’کیا تو یہ نہیں سوچ رہا کہ ہم ان رومیوں کو نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں؟ ہماری منزل حمص ہے۔‘‘’’نہیں!‘‘ خالدؓ نے جواب دیا۔’’ان دو فوجوں کے ادھر آنے کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ دمشق کے راستوں کی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔مجھے دمشق خطرے میں نظر آرہاہے۔‘‘’’اگر رومی دو حصوں میں آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی دو حصوں میں ہو جائیں؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’دو حصوں میں ہی ہونا پڑے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اﷲہمارے ساتھ ہے۔ہماری راہنمائی اﷲکرے گا۔‘‘’’اﷲتجھے سلامت رکھے! ‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مجاہدین کو بتا دیں؟‘‘خالدؓ رکابوں میں کھڑے ہو گئے اور اپنی فوج کو رکنے کا اشارہ کیا۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘ ابوعبیدہؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں اپنی فوج سے کہا۔’’د شمن نے ہمارا راستہ روک لیا ہے۔کیا تم نے کفر کے پہاڑوں کے سینے چاک نہیں کیے؟ کیا شرک اور ارتداد کی چٹانوں کو تم نے پہلے روندا نہیں؟ یہ رومی لشکر جو ہمارے راستے میں کھڑ اہے۔ تعداد میں زیادہ ہے۔لیکن اس میں ایمان کی طاقت نہیں جو تم میں ہے۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔باطل کے ان پجاریوں کے ساتھ نہیں۔اﷲکی خوشنودی کو اپنے دل میں رکھو اور اپنے آپ کو ایک اور معرکے کیلئے تیار کرو۔‘‘’’ہم تیار ہیں۔‘‘مجاہدین کے نعرے گرجنے لگے۔’’ہم تیار ہیں……لبیک ابو عبیدہ……لبیک ابو سلیمان!‘‘ایسا جوش و خروش جس میں گھوڑے بھی کھر مارنے لگے ہوں او ایسے گرجدار نعرے جیسے مجاہدین کا یہ لشکر تروتازہ ہو اور پہلی بار کوچ کر رہا ہو۔یہ ایمان کی تازگی اور روحوں کا جوش تھا۔بعض مؤرخوں نے مرج الروم کی لڑائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس کی جنگی تفصیلات دو یورپی مؤرخوں نے لکھی ہیں جن میں ہنری سمتھ قابلِ ذکر ہے۔اس نے اسے جنگی مبصر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھا ہے-
ان تحریروں کے مطابق ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو الگ کرکے اس طرح تقسیم کر لیا کہ دونوں سالار ایک دوسرے کی مدد کو بھی پہنچسکیں۔دونوں حصوں کا ہراول مشترک تھااور ہراول سے آگے دیکھ بھال کا بھی انتظام تھا۔دونوں سالار اس زمین پر اجنبی تھے۔دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہو سکتا تھا۔دو مسلمان جاسوسوں کو جو بہت آگے چلے گئے تھے ، ایک شتر سوار ملااور رک گیا۔’’میرے دوستو!‘‘اس نے مسلمان جاسوسوں سے کہا۔’’تم اُدھر سے آرہے ہو اور میں اُدھر جا رہا ہوں۔سنا ہے اُدھر سے مسلمان لشکر آرہا ہے۔اگر تم نے اس لشکر کو دیکھاہو تو بتا دو۔ میں راستہ بدل دوں گاکہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرا اونٹ مجھ سے چھین لیں۔‘‘’’اور تو یہ بتا کہ آگے کہیں رومی لشکر موجود ہے؟‘‘مسلمان جاسوس نے پوچھااور کہنے لگا۔’’ہمیں بھی وہی ڈر ہے جو تجھے ہے۔رومی ہم سے گھوڑے چھین لیں گے۔‘‘’’رومی لشکر کا تو کہیں نام و نشان نہیں۔‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔’’کس نے بتایا ہے تمہیں؟‘‘’’مرج الروم سے آنے والوں نے!‘‘ایک مسلمان جاسوس نے جواب دیا۔’’کسی نے غلط بتایا ہے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں اُدھر ہی سے آرہا ہوں۔‘‘دونوں مسلمان جاسوس کسی بہروپ میں گھوڑوں پر سوار تھے ۔ایک نے شتر سوار کی ٹانگ پکڑکر اتنی زور سے کھینچی کہ وہ اونٹ کی پیٹھ سے زمین پر جا پڑا۔دونوں مسلمان بڑی تیزی سے گھوڑوں سے کودے اور شتر سوار کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔تلواریں نکال کر نوکیں اس کی شہہ رگ پر رکھ دیں۔’’تم عیسائی عرب ہو۔‘‘ایک جاسوس نے اسے کہا۔’’اور رومیوں کے جاسوس ہو……انکار کرو۔ہم تمہارے دونوں بازو کندھوں سے کاٹ دیں گے……موج الروم کی پوری خبر سناؤ۔‘‘اس نے جان بخشی کے وعدے پر تسلیم کر لیا کہ وہ رومیوں کا جاسوس ہے اور ا س نے یہ بھی بتا دیا کہ رومی سالار تھیوڈورس اپنے دستوں کے ساتھ پہلے ہی مرج الروم میں موجود تھا اور دوسرا سالار شنس بھی کچھ دیر پہلے پہنچ گیا ہے۔اس رومی جاسوس کو پکڑ کر پیچھے لے گئے اور اسے سالار ابو عبیدہؓ اور سالار خالدؓ کے حوالے کر دیاگیا۔جب مجاہدین کا لشکر مرج الروم کے سبزہ زار کے قریب گیا تو رومی لشکر دو بڑے حصوں میں لڑائی کیلئے تیار کھڑا تھا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے دستوں کو اس جگہ رومی لشکر کے سامنے روکا جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو رومی سالار شنس کے دستوں کے سامنے صف آراء کیا۔رومیوں نے کوئی حرکت نہ کی۔وہ شاید مسلمان کو حملے میں پہل کا موقع دینا چاہتے تھے۔لیکن خالدؓ نے پہل نہ کی۔ابو عبیدہؓ کو بھی انہوں نے پہلے حملہ نہ کرنے دیا۔دونوں مسلمان سالار حیران تھے کہ رومی آگے بڑھ کر حملہ کیوں نہیں کرتے۔حالانکہ ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔مسلمان اسے ایک چال سمجھ کر آگے نہ بڑھے۔
سورج غروب ہو گیا۔دونوں طرف کی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں اور سپاہیوں کو کچھ دیر سونے کی اجازت دے دی گئی۔مؤرخوں نے لکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے عادی تھے لیکن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے اس لیے خالدؓ ان کی موجودگی میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔لیکن ان کی فطرت میں جو جنگجو سپاہی تھا وہ انہیں سونے نہیں دے رہا تھا۔خالدؓ بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔دشمن ان کے سامنے موجود تھا اور لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ایک تو وجہ یہ تھی کہ انہیں نیند نہیں آرہی تھی اور ایک وجہ اور تھی جو انہیں بے قرار کرتی جا رہی تھی۔یہ شاید ان کی چھٹی حس تھی ۔انہوں نے رومیوں کے پڑاؤ کی طرف سے ہلکی ہلکی آوازیں بھی سنی تھیں۔انہیں شک ہونے لگا کہ دشمن سویا نہیں اور کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف ہے۔آدھی رات کے بہت بعدکا وقت تھا، جب خالدؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پڑاؤ میں خراماں خراماں چلتے پڑاؤ سے نکل گئے۔وہاں سبزہ ہی سبزہ تھااور درخت بہت تھے۔خالدؓ جھاڑیوں اوردرختوں کی اوٹ میں دشمن کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستوں کو ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں رومی فوج کا ایک بھی سپاہی نہیں تھا۔کوئی سنتری نہ تھا جو انہیں روکتا۔ شام کے وقت انہوں نے وہاں رومی دستوں کو پڑاؤ ڈالتے دیکھا تھا۔رات ہی رات وہ کہاں چلے گئے؟ کچھ اور آگے جا کر انہیں ایسی نشانیاں ملیں جن سے صاف پتا چلتا تھا کہ فوج نے یہاں قیام کیا تھا۔خالدؓ اس طرف چلے گئے جدھر رومیوں کی فوج کے دوسرے حصے کا پڑاؤ تھا۔خالدؓ کو دور سے ہی پتا چل گیا کہ فوج وہاں موجود ہے۔وہ چھپتے چھپاتے اور آگے چلے گئے۔رومی سنتری گھوم پھر رہے تھے۔خالدؓدشمن کے پڑاؤ کے اردگرد بڑھتے گئے۔ چاندنی میں انہیں دشمن کا کیمپ دکھائی دے رہا تھا۔خالدؓ کو یقین ہو گیا کہ رومیوں کی آدھی فوج کہیں چلی گئی ہے۔خالدؓ بڑی تیزی سے چلتے ابوعبیدہؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں بتایا کہ رومیوں کی آدھی فوج لاپتا ہو گئی ہے۔’’کہاں چلی گئی ہو گی؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’جہاں بھی گئی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اسے وہیں پہنچانے کیلئے دن میں رومیوں نے لڑائی سے گریز کیا تھا۔‘‘کچھ دیر دونوں سالار اسی پر تبادلہ خیال کرتے رہے،کہ رومیوں کی فوج کا ایک حصہ کہاں غائب ہو گیا ہے،مؤرخوں کے مطابق یہ سالار تھیوڈورس کے دستے تھے جو چلے گئے تھے۔پیچھے سالار شنس رہ گیا تھا۔اس کے دستوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی۔صبح ہوتے ہی رومی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ابو عبیدہؓ پہلے ہی تیار تھے۔انہوں نے رومیوں پر حملہ کر دیا۔انہوں نے اپنے دستوں کو حسبِ معمول تین حصوں میں تقسیم کر لیا تھااور حملہ دشمن کے پہلوؤں پر کیا تھا۔خود انہوں نے دشمن کے قلب پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جہاں انہیں سالار شنس کا پرچم دکھائی دے رہا تھا۔
مجاہدین نے دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کیااور ابو عبیدہؓ آگے بڑھے اور شنس کو مقابلے کیلئے للکارا۔شنس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے گیا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ا س کی طرف گئے ۔دونوں سالاروں نے ایک دوسرے پر وار کیااور دونوں کی تلواریں ٹکرائیں۔شنس نے ذرادور جا کر گھوڑا موڑا لیکن ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا۔فوراً ہی موڑ کر پھر ایڑ لگائی۔شنس ابھی سیدھا بھی نہیں ہوا تھا کہ ابو عبیدہؓ کی تلوار ا س کے کندھے پر پڑی لیکن اس کی زرہ نے اسے بچا لیا۔دونوں کے گھوڑے پھر دوڑتے ایک دسرے کی طرف آئے تو شنس نے وار کرنے کیلئے تلوار اوپرکی۔ابو عبیدہؓ نے برچھی کی طرح وار کر کے تلوار اس کی بغل میں اتاردی۔ذرا ہی آگے جا کر گھوڑے کو موڑا۔شنس کو زخم پریشان کر رہا تھا۔وہ اپنے گھوڑے کو بروقت نہ موڑ سکا۔ابو عبیدہؓ نے اس کی ایک ٹانگ پر بھر پور وار کیااور ٹانگ کاٹ ڈالی۔شنس گر رہا تھا جب ابو عبیدہ ؓپھر واپس آئے اور شنس کی گردن کو ڈھلکا ہوا دیکھ کر گردن پر وار کیا۔شنس کا پورا سر تو نہ کٹا لیکن الگ ہو کرلٹکنے لگا۔پھر اس کی لاش گھوڑے سے اس طرح گری کہ ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ابو عبیدہؓ نے شنس کے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔گھوڑا بدک کر دوڑ پڑااور اپنے سوار کی لاش گھسیٹتا پھرا۔اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا جہاں کھلبلی بپا ہو چکی تھی۔کیونکہ اس کا سالار مارا گیا تھا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن مجاہدین نے ان کے عقب میں جاکر ان کیلئے بھاگ نکلنا مشکل کر دیا۔پھر بھی بہت سے رومی نکل گئے اور حمص کا رخ کرلیا۔یہ معرکہ مارچ ۶۳۵ء )محرم الحرام ۱۴ ھ (میں لڑا گیا تھا۔اسی صبح دمشق کے باہر بھی خونریزی ہو رہی تھی۔پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دمشق مسلمانوں کے قبضے میں تھا لیکن وہاں مسلمان فوج کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔دمشق میں حاکمِ شہر اور سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔شہنشاہِ ہرقل کا منصوبہ یہ تھا کہ دمشق میں مسلمان فوج کی تعداد کم ہے اس لیے اسے آسانی سے ختم کیا جا سکے گا۔اس نے یہ کام اپنے ایک تجربہ کار سالار تھیوڈورس کو سونپا تھا۔دمشق کے دفاع کا ایک انتظام یہ بھی تھا کہ دیکھ بھال کیلئے چند آدمی شہر سے دور دور گھومتے پھرتے رہتے تھے۔اس صبح یزیدؓ بن ابی سفیان کو اطلاع ملی کہ رومی فوج آرہی ہے ۔دمشق پر ہر لمحہ حملے کی توقع رہتی تھی، رومی کوئی ایسے گئے گزرے تو نہیں تھے کہ اپنی شہنشاہی کا کھویا ہوا اتنا بڑاشہر واپس لینے کی کوشش نہ کرتے۔ یزیدؓ بن ابی سفیان ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے تھے، انہوں نے رومی فوج کے آنے کی اطلاع ملتے ہی اپنے دستوں کو شہرکے باہر صف آراء ہونے کا حکم دیا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھااور انہیں محصور ہونا پسند بھی نہیں تھا۔وہ میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے بھی لڑ جاتے تھے۔رومی چونکہ جنوب مغرب کی طرف سے آرہے تھے اس لیے یزیدؓ نے اپنے دستے کو اسی سمت جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا، رومی فوج سامنے آئی تو پتا چلا کہ اس کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ان رومی دستوں کا سالار تھیوڈورس تھا۔وہ انطاکیہ سے بیروت کے راستے دمشق کو فتح کرنے آرہا تھا۔جب مرج الروم پہنچا تو ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی زیرِ قیادت مجاہدین کی فوج آگئی۔اسے دمشق پہنچنا تھا وہ وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا۔مؤرخ واقدی ،ابنِ ہشام اور ابو سعید لکھتے ہیں کہ اس نے بڑی کارگر ترکیب سوچ لی، ایک یہ کہ مسلمانوں کے سامنے مرج الروم میں صف آراء رہا لیکن لڑائی سے گریز کرتا رہا۔رات ہوگئی تو نہایت خاموشی سے اپنے دستوں کو دمشق لے گیا۔ رومی سالار شنس پیچھے رہ گیا۔اس کے ذمے یہ کام تھا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کو یہیں روکے رکھے۔اس مقام سے دمشق بیس میل بھی نہیں تھا۔تھیوڈورس صبح کے وقت دمشق کے مضافات تک پہنچ گیا۔وہ جب دمشق کے قریب گیا تو مسلمانوں کے قلعے کے باہر منتظر پایا۔یہ دمشق کے دفاعی دستے تھے جن کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔تھیوڈورس کو معلوم تھا کہ دمشق کے دفاع میں مسلمانوں کی یہی نفری ہے جو باہر کھڑی ہے۔اس نے اپنے دستوں کو للکار کر کہا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کچل ڈالو۔دمشق تمہارا ہے۔’’مجاہدو!‘‘ یزیدؓبن ابی سفیان نے اپنے دستوں سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’دمشق تمہاری آبرو ہے۔ دشمن شہر کی دیوار کے سائے تک بھی نہ پہنچے۔کفر کے طوفان کو شہر سے باہر روک لو۔‘‘یہ جوش و جذبات کی للکار تھی۔جس نے مجاہدین کو گرما دیا،لیکن حقیقت بڑی تلخ تھی۔کہ دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ اور کمک کی کوئی صورت نہیں تھی۔نہ صرف یہ کہ دمشق ہاتھ سے جارہا تھا بلکہ مجاہدین میں سے کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔مجاہدین جہاں بھی لڑے کم تعداد میں لڑے لیکن کمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ وہ یزیدؓ کے دستوں کو آسانی سے گھیرے میں لے سکتے تھے۔ہرقل نے یہی کچھ سوچ کر وہاں زیادہ نفری بھیجی تھی اور تھیوڈورس اس کا آزمودہ سالار تھا۔تھیوڈورس نے مسلمانوں کو دیکھ کر اپنے دستوں کو روکا نہیں ،ا س نے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ دونوں پہلوؤں کی طرف سے ہوا تھا۔یزیدؓ بن ابی سفیان سمجھ گئے کہ رومی انہیں اندر کی طرف سکڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔یزیدؓ بن ابی سفیان نے اپنے دستے کو اور زیادہ پھیلا دیا اور سوار دستے سے کہا کہ وہ دشمن کے پہلوؤں پر جانے کی کوشش کریں لیکن رومی تو سیلاب کی مانند تھے مسلمان جذبے سے حملے روک رہے تھے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔وہ دفاعی لڑائی لڑنے پر مجبور تھے جوابی حملہ نہیں کر سکتے تھے-
رومی شہر کی طرف جانے کیبھی کوشش کر رہے تھے۔یزیدؓ نے اس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔انہوں نے شہر کے ہر دروزے کے سامنے اور کچھ دور تیر انداز کھڑے کر رکھے تھے اور ان کے ساتھ تھوڑی تھوڑی تعداد میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ سورج سر کے اوپر آگیا ۔آدھا دن گزر گیا تھا مجاہدین ابھی تک رومیوں کے موج در موج حملے روک رہے تھے اور ان کے نعروں اور للکار میں ابھی جان موجود تھی،اس وقت تک زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے ان کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی۔ رومی نفری کی افراط کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے تھے لیکن مسلمانوں کے جسم اب جواب دینے لگے تھے۔گھوڑے بھی تھک گئے تھے۔دوپہر کے بعد مجاہدین کو صاف طور پرمحسوس ہونے لگا کہ شکست ان کے بہت قریب آگئی ہے۔وہ پسپائی کے عادی نہیں تھے۔انہوں نے کلمہ طیبہ کا بلند ورد شروع کر دیا اور اس کوشش میں لہو لہان ہونے لگے کہ حملہ روک کر حملہ کریں بھی ۔ان کی تنظیم ٹوٹ گئی تھی اور وہ اب انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔سالار یزیدؓ بن ابی سفیان سپاہی بن چکے تھے ۔وہ اپنے علم برداد اور محافظوں سے کہتے تھے کہ علم نہ گرنے دینا۔بڑی جلدی وہ وقت آگیا جب مجاہدین کو یقین ہو گیا کہ ایک طرف دشمن کی قید اور دوسری طرف موت ہے۔وہ جیتے جی یہ نہیں سننا چاہتے تھے کہ دشمن دمشق پر قابض ہو گیاہے۔عین اس وقت جب مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے جانوں کی بازی لگا دی تھی ،رومیوں کے عقب میں شور اٹھااور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں میں بھگدڈ مچ گئی۔ دمشق کے دفاع میں لڑنے والوں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور رومیوں پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ان کی تنظیم درہم برہم ہو گئی اور ان کے حملے بھی ختم ہو گئے۔’’اسلام کے جانثاروں !‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے بلند آواز سے کہا۔’’اﷲکی مدد آگئی ہے۔ حوصلے بلند رکھو۔‘‘حقیقت یہ تھی کہ یزیدؓ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ رومیوں کے عقب میں کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے رومیوں پر حملے کاحکم دے دیا۔ رومیوں کو حملہ روکنے کا بھی ہوش نہ رہا ۔یزیدؓ بن ابی سفیان پہلو کی طرف نکل گئے۔ محافظ ان کے ساتھ تھے، وہ رومیوں کے عقب میں جار ہے تھے۔ شوروغوغا اس قدر زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی صرف یہ پتا چلتا تھا کہ رومیوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہو گئی ہے۔
کچھ اور آگے گئے تو یزیدؓ کے کانوں میں آواز پڑی:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
’’دمشق کے محافظو! ‘‘یزیدؓ بن ابی سفیان گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہوئے پیچھے آئے۔’’خدا کی قسم! ابنِ ولید آگیا ہے۔ابو سلیمان پہنچ گیاہے۔اﷲکی مدد پہنچ گئی ہے۔اﷲکو پکارنے والوں! اﷲنے ہماری سن لی ہے۔خداکی قسم !رومی اپنی قبروں پر لڑ رہے ہیں۔فتح حق پرستوں کی ہوگی۔‘‘ اس دور کی تحریری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یزیدؓ پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور ایسی ہی دیوانگی ان کے دستے پر طاری ہو گئی اور ا س کے ساتھ ہی رومیوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔یزیدؓ بن ابی سفیان کیلئے خالدؓ کا آجانا ایک معجزہ تھا۔لیکن خالدؓ اتنی جلدی آ کیسے گئے؟ ہم پھر گزشتہ رات مرج الروم چلے چلتے ہیں جہاں خالدؓ چھپ چھپ کر رومیوں کے کیمپ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کی فوج کا وہ حصہ جو دن کے وقت ان کے سامنے صف آراء تھا وہاں نہیں ہے۔خالدؓ کو یقین ہو گیاکہ یہ حصہ کہیں چلا گیا ہے۔تو انہوں نے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ سے بات کی۔ خالدؓ دور اندیش تھے انہیں شک ہوا کہ رومیوں کی فوج کا یہ حصہ دمشق کی جانب گیا ہے اور رومیوں کا مقصد صرف یہ ہو سکتا ہے کہ دمشق پر قبضہ کر لیا جائے۔’’ہرقل معمولی دماغ کا آدمی نہیں۔‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’اسے معلوم ہو گا کہ دمشق میں ہمای نفری بہت تھوڑی ہے میں اس کے سوااور کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ دمشق خطرے میں ہے۔اگر تو مجھے اجازت دے تو میں دمشق پہنچ جاؤں۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی سلامتی ہو ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تجھے اجازت دیتا ہوں اور تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔یہ جو رومی پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اپنے سوار دستے کو تیار کر کے دمشق کو روانہ ہو گئے۔ راستے میں کئی نشانیاں اور کئی آثا ر انہیں یقین دلاتے رہے کہ اس راستے پر ایک فوج گزری ہے۔تھیوڑورس آدھی رات سے پہلے مرج الروم سے روانہ ہو گیا۔ خالدؓ رات کے آخری پہر روانہ ہوئے اور دمشق اس وقت پہنچے جب مسلمان ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں کمک کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔خالدؓ کو وہاں وہی نظر آیا جو انہوں نے سوچا تھا۔ انہوں نے عقب سے رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ خالدؓ کو رومیوں کا پرچم نظر آیا تو اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔انہیں تھیوڈورس بوکھلاہٹ کے عالم میں دکھائی دیا۔ اسے دمشق اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اس کی فوج فتح کے قریب پہنچ کر کٹنے لگی تھی۔’’میں رومیوں کا قاتل ہوں۔‘‘ خالدؓ نے تھیوڈورس کو للکارا۔’’میں وہیں سے آیا ہوں جہاں سے رات کو تو آیا تھا۔‘‘تھیوڈورس نے تلوار نکال لی۔دونوں سالاروں کے محافظ الگ ہٹ گئے۔ خالدؓ نے تھیوڈورس کے دو تین وار بے کار کر دیئے اور اس کے اردگرد گھوڑا دوڑاتے رہے۔تھیوڈورس کو بھرپور وار کر نے کیلئے موزوں پوزیشن نہیں مل رہی تھی۔ وہ خالدؓ کے رحم و کرم پر تھا وہ مانا ہوا جنگجو سالار تھا لیکن اس کا مقابلہ ایسے سالار کے ساتھ آپڑا تھا جو ہر لمحہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔
آخر اس نے بڑے غصے میں خالدؓ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ نے ایک پینترا بدل کر اپنے آپ کو تھیوڈورس کی زد سے دور کر لیا اور دوسرے پینترے میں ایسا وار کیا کہ تھیوڈورس گھوڑے پر بھی دوہرا ہو گیا۔خالدؓ کے دوسرے وار نے اسے ختم کر دیا۔اب رومیوں کے کرنے کا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ بھاگیں اور اپنی جانیں بچائیں۔ وہ رومی خوش قسمت تھے جو زندہ نکل گئے۔ مالِ غنیمت میں زرہ، خودیں ،ہتھیار، اور گھوڑے قابلِ ذکر تھے۔ادھر ابو عبیدہؓ نے دوسرے رومی سالار شنس کو ختم کر دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو اس حکم کے ساتھ روانہ کر دیا کہ وہ حمص پہنچ کر وہاں کا محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓ خود ایک اور اہم مقام بعلبک کی طرف روانہ ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ ان دونوں جگہوں کا محاصرہ طول پکڑے گا اور مقابلہ بڑا سخت ہو گا لیکن )مؤرخوں کے مطابق( مسلمانوں کی تلوار کی دہشت وہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان کے حسنِ اخلاق نے کیا۔ مسلمان جدھر جاتے تھے وہاں کے لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہو چکا ہوتا تھا کہ مسلمان کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتے اور وہ انہی شرطوں کے پابند رہتے ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔اس دور کی فاتح فوجیں سب سے پہلے مفتوح شہر کی خوبصورت عورتوں پر ہلہ بولتی تھیں۔ پھر لوگوں کے گھر لوٹ لیتیں اور گھروں کو آگ لگا دیتی تھیں۔یہ اس زمانے کا رواج تھا اور اسے فاتح فوجوں کا حق سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس رواج کو نہ اپنایا بلکہ نہتے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو عبیدہؓ بعلبک پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا تو وہاں جو رومی دستہ تھا اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔خالدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو رومی سالار ہربیس باہر آگیا اور امن کے سمجھوتے کی پیش کش کی۔ابو عبیدہؓ بھی پہنچ چکے تھے ان کے حکم سے رومی سالار سے دس ہزار دینار اور زر بفت کی ایک سو قباؤں کا مطالبہ کیا گیا جو رومی سالار نے قبول کر لیا۔معاہدہ یہ ہوا کہ مسلمان ایک سال تک حمص پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر اس دوران روم کی فوج نے اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی معمولی سی بھی جنگی کارروائی کی تو مسلمان صلح کے معاہدے کو منسوخ سمجھ کر جوابی کارروائی کریں گے۔
اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی شہر کے دروازے کھل گئے اور مسلمان فوج داخل ہوئی۔ مؤرخ ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حمص کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ مسلمان دکانوں میں جاتے اور جو چیز لیتے اس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے مجاہدین کو تحفے پیش کیے تو مجاہدین نے ان کی بھی قیمت ادا کی۔وہ کہتے تھے کہ مسلمان تحفے کو مالِ غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی مسلمان اپنے طورپر کوئی مالِ غنیمت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ صلح کے معاہدے کے بعد اسلام مالِ غنیمت کو جائز نہیں سمجھتا۔ایسے مقامات بھی آئے جہاں کے لوگوں نے مسلمان فوج کا باقاعدہ استقبال کیا، مثلاً نومبر ۶۳۵ ء )رمضان ۱۴ ھ( مسلمان فوج حمص سے حما گئی تو شہری باہر آگئے اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ۔معرۃ النعمان کے شہریوں نے مسلمانوں کا استقبال اس طرح کیا کہ پہلے سازندے ساز بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے باہر آئے۔ان کے پیچھے معززین آئے اور جزیہ پیش کرکے شہر ابو عبیدہؓ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد ان قصبوں اور شہروں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔’’مسلمان ہمارے جال میں آگئے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔’’میں سردیوں کے انتظار میں تھا۔ عرب کے یہ مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں اور اونٹنی کا ہی دودھ پیتے ہیں۔ ریگستان کے ان باشندوں نے کبھی اتنی سردی نہیں دیکھی۔یہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی سردی ان کے جوش اور جذبے کو منجمند کر دے گی۔پھر موسم سرما ختم ہونے تک مسلمان ختم ہو جائیں گے۔ہم انہیں بڑی آسانی سے شکست دیں گے۔ ان کے خیمے انہیں سردی سے نہیں بچا سکیں گے۔‘‘ ہرقل نے حکم دیا کہ حمص سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیاجائے۔کچھ دنوں بعد ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ رومیوں کی کمک حمص پہنچ گئی ہے۔ رومیوں کی اس کارروائی کے بعد حمص کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓکہیں اور تھے اور اطلا ع ملتے ہی وہ اپنے دستوں کو ساتھ لے کر حمص جا پہنچے۔ خالدؓ پہلے پہنچے تھے وہ حمص کے قریب گئے تو باہر رومی فوج لڑنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔خالدؓ نے اس فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی پیچھے ہٹتے گئے اور قلعے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازے بند کردیئے۔اس کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بھی اپنے دستوں کے ساتھ آن پہنچے۔’’ابو سلیان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’یہ محاصرہ تیرا ہے اور تو اس کا سالار ہے۔‘‘ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو دیا۔خلیفۃ المسلمین عمرؓ کے احکام کے مطابق سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ ہی تھے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔