منگل، 5 مئی، 2015

حسن سراپائے رسول ﷺ

0 comments

پیش لفظ
اِبتدائیہ
انسان حُسنِ صورت و سیرت کا حسین اِمتزاج ہے
باب۔ ۔ ۔ اَوّل : پیکرِ حُسن و جمال
1۔ افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر
2۔ حُسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہورِ کامل
3۔ کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی
4۔ حُسنِ سراپا کے بارے میں حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کا قول
5۔ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا رازدان
6۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقاضائے ایمان
7۔ پیکرِ مقدس کی رنگت
  • روایات میں تطبیق
8۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : پیکر نظافت و لطافت
9۔ بے سایہ پیکرِ انور
10۔ پیکرِ دلنواز کی خوشبوئے عنبریں
  • وادی بنی سعد میں خوشبوؤں کے قافلے
  • خوشبو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ اطہر کا حصہ تھی
  • بعد از وصال بھی خوشبوئے جسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنبر فشاں تھی
  • جسمِ اقدس کے پسینے کی خوشبوئے دلنواز
  • عطرکا بدلِ نفیس۔ ۔ ۔ پسینۂ مبارک
  • خوشبو والوں کا گھر
  • اب تک مہک رہے ہیں مدینے کے راستے
  • آرزوئے جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

باب دُوُم : حسنِ سراپا کا ذکرِ جمیل

1۔ حلیۂ مبارک کا حسین تذکرہ
2۔ چہرۂ اقدس۔ ۔ ۔ ماہِ تاباں
  • اصحابِ رسول، اوراقِ قرآن اور چہرۂ انور
  • روئے منور کی ضَوء فشانیاں
  • چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاند سے تشبیہ
  • چہرۂ مبارک : صداقت کا آئینہ
  • سالارِ قافلہ کی بیوی کی شہادت
3۔ سرِ انور
4۔ موئے مبارک
5۔ جبینِ پُرنور
6۔ اَبرُو مبارک
7۔ چشمانِ مقدسہ
8۔ بصارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر معمولی کمال
9۔ ناک مبارک
10۔ رُخسارِ روشن
11۔ لبِ اقدس
12۔ دہنِ مبارک
13۔ دندانِ اقدس
14۔ زبان مبارک
15۔ آواز مبارک
16۔ ریشِ اقدس
17۔ گوشِ اقدس
18۔ گردنِ اقدس
19۔ دوش مبارک
20۔ بازوئے مقدّس
21۔ دستِ اقدس
  • خوشبوئے دستِ اقدس
  • دستِ مبارک کی ٹھنڈک
22۔ دستِ اقدس کی برکتیں
  • دست مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے
  • دست مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے
  • دست مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اتر آیا
  • دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی
  • دستِ اقدس کے لمس سے کھجور کی شاخ روشن ہوگئی
  • توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ
  • دست شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑگئی
  • دست اقدس کی فیض رسانی
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوتِ حافظہ
23۔ انگشتانِ مبارک
24۔ ہتھیلیاں مبارک
25۔ بغل مبارک
26۔ سینۂ اقدس
27۔ قلبِ اطہر
28۔ بطنِ اقدس
  • ایک ایمان افروز واقعہ
  • شکمِ اطہر پر ایک کی بجائے دو پتھر
29۔ ناف مبارک
30۔ پشت اقدس
31۔ مہرِ نبوت
  • مہرِ نبوت; آخری نبی کی علامت
32۔ مبارک رانیں
33۔ زانوئے مبارک
34۔ پنڈلیاں مبارک
35۔ قدمین شریفین
36۔ انگشتانِ پا مبارک
37۔ مبارک تلوے
38۔ مبارک ایڑیاں
39۔ قدمین شریفین کی برکات
40۔ قدِ زیبائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  • نمایاں قد کی حکمتیں
  • بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیر قصر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدئہ و دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔
    در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ (ص) ست
    آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ (ص) ست
    (حضرت محمد مصطفیٰ کا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے۔)
    چمنستانِ دہر کے ہنگامے اور رونقیں اس گل چیدہ کی مرہون منت ہیں جو مبداء فیض نے اس کائناتِ رنگ و بو کی افزائش حسن کے لئے منتخب فرمایا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں کیا خوب کہہ گئے ہیں:
    ہو نہ ہو یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
    یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
    بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
    فروغِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم عالمی تحریک، تحریکِ منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ اپنے قیام سے ہی امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان کے اندر یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہو جانے میں ہے۔ چنانچہ بانی تحریک قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جب اِحیاء اِسلام کے عظیم علمی و فکری اور روحانی مشن کا آغاز کیا تو ’شمائل الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ کو بطور خاص اپنی گفتگو کا موضوع بنایا اور اس محبت بھرے تذکار کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے اور ان میں عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں کرتے رہے۔ جن لاکھوں لوگوں نے ان ایمان افروز خطابات کو شوق سے سنا اُن کی دنیا ہی بدل گئی۔ زیرِنظر کتاب میں قائد انقلاب مدظلہ کے انہی خطبات کو کتابی شکل دے کر نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نصیب فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

    محمد تاج الدین کالامی
    ریسرچ سکالر
    فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
  • اُس حسنِ مطلق نے دنیا کے نظاروں کو اِس قدر حسین بنایا ہے کہ اِنسان اس دِل کش اور جاذبِ نظر ماحول میں بار بار گم ہو جاتا ہے۔ کبھی زمین کی دلفریب رعنائیاں اُس کے دامنِ دل کو کھینچتی ہیں تو کبھی اَفلاک کی دِلکش وُسعتیں، کبھی ہواؤں کی جاوداں و جانفزا کیفیتیں اُس کے لئے راحتِ جاں بنتی ہیں تو کبھی فضاؤں میں گونجنے والے نغماتِ حسن اس کی توجہ کو مہمیزعطا کرتے ہیں۔ یہ کائناتِ آب و گِل حسن و عشق کے ہنگاموں کا مرکز ہے جس میں حسن کبھی گلِ لالہ کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے عیاں ہوتا ہے اور کبھی اُن کی دلفریب مہک سے۔ نغماتِ حسن کبھی آبشاروں میں سنائی دیتے ہیں اور کبھی دریاؤں اور نہروں کے سکوت میں۔ کہیں باغات کی دِلکش رونقیں چہرۂ حسن کو بے نقاب کرتی ہیں اور کہیں صحراؤں کی خاموشیاں۔ کہیں سمندروں کا بہاؤ حسن میں ڈھلتا دِکھائی دیتا ہے تو کہیں سبزہ زاروں کا پھیلاؤ۔ الغرض ہر سُو حسن کی جلوہ سامانیاں ہیں اور نگاہ و دِل خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
    عالمِ آفاق کے نغماتِ حُسن کی صدائے بازگشت اَنفسی کائنات کے نہاں خانوں میں سنائی دے رہی ہے اور کائناتِ خارجی کی بے کراں وُسعتوں میں بھی، غرض یہ کہ حسین خواہشات ہر سُو مچل رہی ہیں۔ یہی خواہشات خوگرِ حُسن بھی ہیں اور پیکرِ حُسن بھی۔ تخیلات بھی حُسن سے سکون پاتے ہیں اور تصوّرات بھی اُسی کے مشتاق ہیں۔ اہلِ دل کبھی حُسن کو جلوَت میں تلاش کرتے ہیں، کبھی خلوَت میں۔ کوئی جلوۂ حُسن میں مست ہے اور کوئی تصورِ حُسن میں بے خود۔ اِس کارگہِ حیات میں ہر کوئی حُسن کا متلاشی ہے۔ کوئی ذوق و شوق کے مرحلے میں ہے تو کوئی جذب و کیف کے مقام پر، کوئی سوز و مستی میں ہے، کوئی وجد و حال میں، لیکن شبستانِ عشق میں ہر کسی کو نورِ حسن ہی کی کوئی نہ کوئی شعاع میسر ہے۔ دل کہتا ہے کہ حُسن کے دِلفریب جلوے جو اِس قدر کثرت سے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں، کہیں نہ کہیں اُن کا منبع ضرور ہو گا، کہیں نہ کہیں وہ سرچشمۂ حُسن یقیناً موجود ہو گا جہاں سے سب کے سب جمالیاتی سُوتے پھوٹ رہے ہیں۔ ہر خوب سے خوب تر کا وجود اور حسیں سے حسیں تر کا نشان یہ بتلاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں حُسن و رعنائی کا آخری نظارہ بھی ہو گا، تلاشِ حُسن کا سفر کہیں تو ختم ہوتا ہو گا۔ آنکھیں کہتی ہیں، بیشک کہیں وہ آخری تصویرِ حسن بھی ہو گی جسے دیکھ کر جذبۂ تسکین کو بھی سکوں آ جائے۔ رُوح پکارتی ہے بلاشبہ کہیں وہ حریمِ ناز بھی ہو گا جہاں سب بے چینیاں ختم ہو جائیں اور راحتیں تکمیل کو پہنچ جائیں۔
    آؤ! اُس حسن کی تلاش میں نکلیں اور اُس جمال کو اپنائیں جس کی ادائے ناز سے جہانِ رنگ و بو میں ہر سُو حسن و جمال کی جلوہ آرائی ہے۔ آؤ! جادۂ عشق کے رَہ نوردو! اِس صحرائے حیات میں دیکھو، وہ طُور پر سے ایک عاشق کی ندا آ رہی ہے، فضائے طلب میں اُس کی صدائے عشق بلند ہو رہی ہے، رُوح کے کانوں سے سنو، آواز آ رہی ہے :
    رَبِّ أَرِنِیْ أَنْظُرْ إِلَيکَ.
    القرآن، الاعراف، 7 : 143
    ’’اے میرے ربّ! مجھے (اپنا جلوہ) دِکھا کہ میں تیرا دِیدار کر لوں۔‘‘
    نظارۂ حسن کی طلب کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ آپ علیہ السلام کس حسن کو پکار رہے ہیں؟ اُسی حُسن کو جو حُسنِ مطلق ہے، حُسنِ ازل ہے، حُسنِ کامل ہے، حُسنِ حقیقت ہے، اور جو ہر حُسن کا منبع و مصدر ہے، اور ہر حُسن کی اصل ہے۔ حسین جس کے حُسن کا تصوّر نہیں کر سکتے، جمیل جس کے جمال کا گمان نہیں کر سکتے۔
    آپ علیہ السلام کو حریمِ ناز سے کیا جواب ملتا ہے! اِرشاد ہوا :
    لَنْ تَرَانِیْ.
    القرآن، الاعراف، 7 : 143
    ’’تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے۔‘‘
    پھر۔۔۔ عشق کی بیتابی دیکھ کر، اُس نے حُسنِ ذات کی بجائے حُسنِ صفات کا صرف ایک نقاب اُلٹا مگر
    فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّه لِلْجَبَلِ جَعَلَه دَکًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا.
    القرآن، الاعراف، 7 : 143
    ’’پھر جب اُس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حُسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدتِ اَنوار سے) اُسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔‘‘
    موسیٰ زِ ہوش رفت بیک پرتوِ صفات
    رُوحِ بیتاب پکارنے لگی : اے حسنِ مطلق! بیشک تو ہی حسین و جمیل ہے اور تو حسن و جمال سے محبت کرتا ہے، لیکن آنکھیں ترس گئی ہیں کہ تیرے حسنِ کامل کا نظارہ کسی پیکرِ محسوس میں دِکھائی دے تو اُسے دیکھیں۔
    کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آ لباسِ مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
    اے لامکاں میں بسنے والے حسنِ تمام! عالمِ مکاں میں بھی اپنے حسنِ کامل کی جلوہ سامانی کر۔ تو عالمِ ہوّیت میں تو نور فگن ہے ہی، مطلعِ بشریت کو بھی اپنے پرتوِ حُسن و نور سے روشن کر۔ تو حسنِ بے مثال ہے، لَيسَ کَمِثْلِهِ شَئْO (اُس کے جیسا کوئی نہیں) کا مصداق تیرا ہی جمال ہے، تو ہی ہے جو کسی کے حسنِ سراپا کو اپنی شانِ مظہریت سے نوازتا ہے تاکہ عاشقانِ صادِق عالمِ ہست و بود میں تیرے حسن کا نقشِ کامل دیکھ سکیں، تیرے نور کا مظہرِ اَتمّ دیکھ سکیں۔ حریمِ ناز سے صدا آتی ہے : اَے حسن و جمالِ حق کے متلاشی! تیری تلاش تجھے مل چکی، تیرا سوال پورا ہو چکا، تیری مُراد بر آ چکی۔ اے متلاشئ حسنِ مطلق! یوں تو ہر سُو میرے ہی حسن کے جلوے ہیں :
    فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اﷲِ.
    القرآن، البقره، 2 : 115
    ’’تم جدھر بھی رُخ کرو اُدھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)۔‘‘
    لیکن میرے محبوبِ مکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سراپا عالمِ خلق میں میرے پرتوِ حسن کی کامل جلوہ گاہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطلعِ ذات پر میرا آفتابِ حُسن شباب پر ہے۔ اُس پیکرِ حسن و نور کو دیکھ، یہی مظہرِ حسنِ حقیقت ہے اور یہی منظرِ جمالِ مطلق۔
    جب یہ حقیقت واضح ہو چکی تو آؤ اُس حسنِ سراپا کی بات کریں جس سے مُردہ دِلوں کو زندگی، پژمُردہ رُوحوں کو تازگی و شیفتگی اور بے سکون ذِہنوں کو اَمن و آشتی کی دولت میسر آتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے حضرتِ اِنسان کو اَشرفُ المخلوقات بنایا ہے اور اُس کی تخلیق و تقوِیم بہترین شکل و صورت میں فرمائی ہے، اِرشادِ ربانی ہے :
    لَقَدْ خَلَقْنَا اْلإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِيْمٍO
    القرآن، التين، 95 : 4
    ’’بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایاo‘‘
    اِس آیۂ کریمہ کا مفہوم بصراحت اِس اَمر پر دلالت کر رہا ہے کہ خلاّقِ عالم نے اِنسان کو دِیگر اَوصاف کے علاوہ بہترین شکل و صورت عطا فرمائی ہے اور اُسے بہ اِعتبارِ حسنِ صورت کائنات میں تخلیق کردہ ہر ذِی رُوح پر فوقیت اور برتری سے نوازا ہے۔

    اِنسان حسنِ صورت و سیرت کا حسین اِمتزاج ہے

    اِنسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں : ایک ظاہر اور دُوسرا باطن۔ ظاہری پہلو اَعضاء و جوارِح سے تشکیل پاتا ہے۔ اِس تشکیل و ترتیب میں سر سے پاؤں تک تمام اَعضاء کے باہمی تناسب سے جو ہیئت ہمارے سامنے آتی ہے اُسے شکل و صورت کا نام دیا جاتا ہے۔ اَعضاء کے تناسب میں اگر اِعتدال و توازُن کارفرما ہو اور کوئی عضو ایسا نہ ہو جو بے جوڑ ہونے کی بنا پر اِنسانی جسم میں بے اِعتدالی کا مظہر قرار پائے تو ایسی صورت بلاشبہ حسین صورت سے تعبیر کی جائے گی جبکہ اِنسان کی باطنی شخصیت میں اَوصاف حمیدہ اور پسندیدہ عادات و خصائل کا جمع ہو جانا حسنِ سیرت کہلاتا ہے۔
    تاریخ کے مختلف اَدوار میں اُن تمام برگزیدہ انبیاء و رُسل کی شخصیات، جو راہِ اِنسانیت سے ہٹے ہوئے لوگوں کی رُشد و ہدایت پر مامور ہوتے رہے، حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کا حسین اِمتزاج ہیں۔ یہ وہ اَفراد تھے جن کا مقصدِ بعثت اور نصبُ العین ہر دَور میں گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اِنسانوں کو نورِ ہدایت سے حق و راستی کی جانب رہنمائی عطا کرنا تھا۔ اِس لئے اُن کے باطن کے ساتھ ساتھ اُن کے ظاہر کو بھی ہمیشہ پُرکشش بنایا گیا تاکہ لوگوں کی طبیعتیں مکمل طور پر اُن کی طرف راغب اور مانوس ہوں۔
    اِس بزمِ ہستی میں وہ مبارک شخصیت جس میں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے تمام محامد و محاسن بدرجۂ اَتمّ سمو دیئے گئے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ اگر تمام ظاہری و باطنی محاسن کو ایک وُجود میں مجتمع کر دیا جائے اور شخصی حُسن و جمال کے تمام مظاہر جو جہانِ آب و گِل میں ہر سُو منتشر دِکھائی دیتے ہیں، ایک پیکر میں اِس طرح یکجا دِکھائی دیں کہ اُس سے بہتر ترکیب و تشکیل ناممکن ہو تو وہ حُسن و جمال کا پیکرِ اَتمّ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ عالمِ اِنسانیت میں سرورِ کائنات فخرِ موجودات نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیتِ عبدِ کامل ظاہری و باطنی حسن و جمال کے اُس مرتبۂ کمال پر فائز ہیں جہاں سے ہر حسین کو خیراتِ حُسن مل رہی ہے۔ حُسن و جمال کے سب نقش و نگار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورتِ اَقدس میں بدرجۂ اَتمّ اِس خوبی سے مجتمع کر دیئے گئے ہیں کہ ازل تا اَبد اِس خاکدانِ ہستی میں ایسی مثال ملنا ناممکن ہے۔ گویا عالمِ بشریت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات جامعِ کمالات بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ شاہکار قرار پائے جسے دیکھ کر دِل و نگاہ پکار اُٹھتے ہیں :
    زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
    کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
    جان لینا چاہئے کہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوِ مرتبت، رُوحانی کمالات و خصائص اور باطنی فضائل و محامد کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے مثل حسن و جمال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زِندۂ جاوید معجزہ ہے، جس کا تذکرہ کم و بیش سیرت کی تمام کتب میں موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کو جاننے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورتِ طیبہ کا ایک تحریری مرقع دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطۂ نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔

    1۔ افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
    أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.
    ’’(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔‘‘
    القرآن، الانعام، 6 : 90
    آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء علیھم السلام کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
    1۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ مذکورہ آیت کے تحت اِمام قطبُ الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
    أنه يتعين أن الإقتداء المأمور به ليس إلا في الأخلاق الفاضلة و الصفات الکاملة، کالحلم و الصبر و الزهد و کثرة الشکر و التضرع و نحوها، و يکون في الآية دليل علي أنه صلي الله عليه وآله وسلم أفضل منهم قطعا لتضمنها، أن اﷲ تعالٰي هدي أولئک الأنبياء عليهم الصلٰوة و السلام إلٰي فضائل الأخلاق و صفات الکمال، و حيث أمر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يقتدي بهداهم جميعًا امتنع للعصمة أن يقال : أنه لم يتمثل، فلا بدّ أن يقال : أنه عليه الصلٰوة والسلام قد امتثل و أتي بجميع ذالک، و حصل تلک الأخلاق الفاضلة التي في جميعهم، فاجتمع فيه من خصال الکمال ما کان متفرقاً فيهم، و حينئذٍ يکون أفضل من جميعهم قطعا، کما أنه أفضل مِن کل واحدٍ منهم.
    ’’یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔‘‘
    آلوسي، روح المعاني، 7 : 217
    درجِ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    هو إستنباطٌ حسنٌ.
    ’’یہ بہت ہی خوبصورت اِستنباط ہے۔‘‘
    2۔ آیتِ مذکورہ کے حوالے سے اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    إحتج العلماء بهذه الآية علٰي أن رسولنا صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من جميع الأنبياء عليهم السلام.
    ’’اہلِ علم نے اِس آیتِ مقدسہ سے اِستدلال کیا ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیھم السلام سے اَفضل ہیں۔‘‘
    رازی، التفسير الکبير، 13 : 70
    3۔ اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ اِس موقف کی وجہِ اِستدلال کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    أنه تعالٰی لما ذکر الکل أمر محمد صلی الله عليه وآله وسلم عليه الصلوة والسلام بأن يقتدي بهم بأسرهم، فکان التقدير کأنه تعالٰي أمر محمد صلي الله عليه وآله وسلم صلي الله عليه وآله وسلم أن يجمع من خصال العبودية و الطاعة کل الصفات التي کانت مفرقة فيهم بأجمعهم.
    ’’آیتِ مذکورہ سے قبل اللہ رب العزت نے دیگر جلیل القدر انبیاء و رسل کا اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ذِکر فرمایا اور آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ (محبوب!) اُن (انبیاء و رُسل) کی ذواتِ مطہرہ میں جو بھی فرداً فرداً اَوصافِ حمیدہ ہیں اُن اَوصافِ حمیدہ کو اپنی ذات کے اندر جمع فرما لیجئے۔‘‘
    رازي، التفسير الکبير، 13 : 71
    اِمام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر آیتِ مذکورہ کا مفہوم اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
    فکأنه سبحانه قال : ’’إنا أطلعناک علي أحوالهم و سيرهم، فاختر أنت منها أجودها و أحسنها، وکن مقتديا بهم في کلها.‘‘ و هذا يقتضي أنه اجتمع فيه من الخصال المرضية ما کان متفرقاً فيهم فوجب أن يکون أفضل منهم.
    ’’گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اے نبی مکرم! ہم نے آپ کو انبیاء و رُسل کے اَحوال اور سیرت و کردار سے آگاہ کر دیا۔ اَب آپ ان تمام (انبیاء و رُسل) کی سیرت و کردار کو اپنی ذات میں جمع فرما لیں۔‘‘ اِسی آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ تمام اَخلاقِ حسنہ اور اَوصاف حمیدہ جو متفرق طور پر انبیاء و رُسل میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ میں اپنے شباب و کمال کے ساتھ جمع ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل ماننا لازمی ہے‘‘۔
    رازي، التفسير الکبير، 6 : 196
    4۔ رسولِ اوّل و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم را فضائل و کمالات بود، کہ اگر مجموع فضائلِ انبیاء صلوات اﷲ علیھم اجمعین را در جنب آن بنہند راجح آید۔
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی‘‘۔
    محدث دهلوي، شرح سفر السعادت : 442
    اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔
    5۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں :
    خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود.
    ’’(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیاء و رُسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں۔‘‘
    محدث دهلوي، مرج البحرين

    2۔ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہورِ کامل

    حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔
    1۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر.
    ’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
    3. دارمي، السنن، 1 : 44، مقدمه، رقم : 57
    4. ابو يعلي، المسند، 13 : 464، رقم : 7477
    5. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196
    6. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 1417
    7. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 167
    2۔ حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں :
    ما رأيتُ من ذي لمة أحسن في حلّة حمراء من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635
    4. ابو داؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
    5. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
    6. دارمي، السنن، 1 : 33
    7. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
    8. ابن عساکر، السيرة النبويه، 2 : 160
    9. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9325
    10. نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5233
    11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 450
    12. ابن قدامه، المغني، 1 : 341
    13. شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 151
    3۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا :
    أکان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف؟
    ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟ ‘‘
    تو اُنہوں نے کہا :
    لا، بل مثل القمر.
    ’’نہیں‘‘، بلکہ مثلِ ماہتاب تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب ما جاء في خلق رسول اﷲ
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، أبواب المناقب، رقم : 3636
    3. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281
    5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 198، رقم : 6287
    6. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 64
    7. ابو يعليٰ، المسند، 13 : 451، رقم : 7456
    8. روياني، المسند، 1 : 225، رقم : 310
    9. ابن الجعد، المسند، 1 : 375، رقم : 2572
    10. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 10
    11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 417
    12. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 381
    13. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573، رقم : 3359
    14. ابو علا مبارک پوري، تحفة الاحوذي، 10 : 80
    4۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
    فأشفقتُ أن أوقظه من نومه لحسنه و جماله، فدنوتُ منه رويداً، فوضعتُ يدي علي صدره فتبسّم ضاحکاً، ففتح عينيه ينظر إليّ، فخرج من عينيه نورٌ حتي دخل خلال السماء.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔‘‘
    نبهانی، الانوار المحمديه : 29
    5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دِیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کأنّما صِيغَ من فضة.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔‘‘
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241
    2. ابن جوزي، الوفاء : 412
    3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 297، رقم : 5437
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 19
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22
    6. مناوي، فيض القدير، 5 : 69
    3۔ کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی
    ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا۔
    1۔ اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے :
    لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعيننا رؤيته صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔‘‘
    زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241
    2۔ قولِ مذکور کے حوالے سے اِمام نبہانی رحمۃ اﷲ علیہ حافظ اِبن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :
    وَ ما أحسن قول بعضهم : لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں کیا گیا نہایت ہی حسین و جمیل قول ہے۔‘‘
    نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101
    1۔ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں :
    وَ ما کان أحد أحبّ إليّ مِن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لا أجل في عيني منه، و ما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له و لو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه.
    ’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121
    2. ابو عوانه، المسند، 1 : 70، 71، رقم : 200
    3. ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 1 : 157، رقم : 418
    4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 259
    5. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 190، رقم : 315
    6. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 30
    2۔ اِنسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُوئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے، وہ خود فرماتے ہیں :
    لما نظرتُ إلي أنواره صلي الله عليه وآله وسلم وضعتُ کفي علي عيني خوفاً من ذهاب بصري.
    ’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔‘‘
    (1) نبهاني، جوهر البحار، 2 : 450
    حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    وَ أَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
    وَ أَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
    خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
    کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
    (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت بنائی ہے۔)
    حسان بن ثابت، ديوان : 21
    5۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    آنحضرت بتمام از فرق تا قدم ہمہ نور بود، کہ دیدۂ حیرت درجمالِ با کمالِ وی خیرہ میشد مثل ماہ و آفتاب تاباں و روشن بود، و اگر نہ نقاب بشریت پوشیدہ بودی ہیچ کس را مجال نظر و اِدراکِ حسنِ اُو ممکن نبودی.
    ’’حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اَطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر و تاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ ہائے حسن لباس بشری میں مستور نہ ہوتے تو رُوئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔‘‘
    محدث دهلوي، مدارج النبوة، 1 : 137
    6۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ علماءِ محققین کے حوالے سے فرماتے ہیں :
    أنَّ جمال نبينا صلي الله عليه وآله وسلم کان في غاية الکمال... لکن اﷲ سترعن أصحابه کثيرًا من ذالک الجمال الزاهر و الکمال البهر، إذ لو برز إليهم لصعب النظر إليه عليهم.
    ’’ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن و جمالِ اَوجِ کمال پر تھا۔۔۔ لیکن ربِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مخفی رکھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اُٹھانا بھی مشکل ہو جاتا۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 2 : 9
    7۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر ’قصیدہ بُردہ شریف‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :
    أنه إذا ذکر علي ميت حقيقي صارحياً حاضراً، و إذا ذکر علٰي کافر و غافل جعل مؤمنا و هول ذاکرًا لکن اﷲ تعاليٰ ستر جمال هذا الدر المکنون و کمال هذا الجوهر المصون لحکمة بالغة و نکتة سابقة و لعلها ليکون الايمان غيبيًّا و الأمور تکليفيًّا لا لشهود عينيا و العيان بديهيا أولئلا يصيرمزلقة لأقدام العوام و مزلة لتضر الجمال بمعرفة الملک العلاّم.
    ’’اگر خدائے رحیم و کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہوجائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدۂ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔‘‘
    ملا علي قاري، الزبدة في شرح البردة : 60
    8۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اﷲ علیہ کو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو اُنہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بعض لوگ اُنہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہو جاتے تھے، لیکن کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے اللہ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے، اگر وہ کما حقہ آشکار ہو جاتا تو لوگوں پر محوِیت وبے خودی کا عالم اِس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا۔‘‘
    شه ولي الله، الدرّ الثمين : 39
    9۔ اِمام محمد مہدی الفاسی رحمۃ اﷲ علیہ نے الشیخ ابو محمد عبدالجلیل القصری رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
    و حسن يوسف عليه السلام وغيره جزء من حسنه، لأنه علي صورة اسمه خلق، و لو لا أن اﷲ تبارک و تعاليٰ ستر جمال صورة محمد صلي الله عليه وآله وسلم بالهيبة و الوقار، و أعميٰ عنه آخرين لما استطاع أحد النظر إليه بهذه الأبصار الدنياوية الضعيفة.
    ’’حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔‘‘
    محمد مهدي الفاسي، مطالع المسّرات : 394
    10۔ مولانا اشرف علی تھانوی شیم الحبیب کے حوالے سے اِس بات کی تائید یوں کرتے ہیں :
    أقول : و أمَّا عَدَمُ تعشُّقِ العوام عليه کما کان علي يوسف عليه السلام فلغيرة اﷲ تعاليٰ حتي لم يظهر جماله کما هو علي غيره، کما أنه لم يظهر جمال يوسف کما هو إلا علي يعقوب أو زليخا.
    ’’میں کہتا ہوں کہ (باوُجود ایسے حسن و جمال کے) عام لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُس طور پر عاشق نہ ہونا جیسا حضرت یوسف علیہ السلام پر عاشق ہوا کرتے تھے بسبب غیرتِ الٰہی کے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال جیسا تھا غیروں پر ظاہر نہیں کیا، جیسا خود حضرت یوسف علیہ السلام کا جمال بھی جس درجہ کا تھا وہ بجز حضرت یعقوب علیہ السلام یا زلیخا کے اوروں پر ظاہر نہیں کیا۔‘‘
    (2) اشرف علي تهانوي، نشر الطيب : 217
    بقول شاعر :
    خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے
    جہاں میں لاکھوں ہی طور بنتے جو اِک بھی اُٹھتا حجاب تیرا

    4۔ حسنِ سراپا کے بارے میں حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کا قول

    سرخیلِ قافلۂ عشق حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رِوایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بالمشافہ زیارت کے لئے حاضر نہ ہو سکے، لیکن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے اپنے اُس عاشقِ زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وِصال کے بعد اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اُسے یہ خرقہ دے دینا اور اُسے میری اُمت کے لئے دعائے مغفرت کے لئے کہنا۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے اُن کے آبائی وطن ’قرن‘ پہنچے اور اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنایا۔ اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دونوں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار بھی کیا ہے؟ اُنہوں نے اِثبات میں جواب دِیا تو مسکرا کر کہنے لگے :
    لَمْ تَرَيَا مِن رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اِلَّا ظِلَّه.
    ’’تم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا محض پرتو دیکھا ہے۔‘‘
    نبهاني، جواهر البحار، 3 : 67
    ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ بعض صوفیا کرام کے حوالے سے فرماتے ہیں :
    قال بعض الصوفية : أکثر الناس عرفوا اﷲ عزوجل و ما عرفوا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، لأنّ حجابَ البشريّة غطتْ أبصارَهم.
    ’’بعض صوفیا فرماتے ہیں : اکثر لوگوں نے اللہ ربّ العزت کا عرفان تو حاصل کرلیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عرفان اُنہیں حاصل نہ ہوسکا اِس لئے کہ بشریت کے حجاب نے اُن کی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 10
    شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    وَ إنَّ مجموع نوره صلي الله عليه وآله وسلم لو وضع علي العرش لذاب... و لو جمعت المخلوقات کُلَّها و وضع عليها ذٰلِکَ النور العظيم لتهافتت و تساقطت.
    ’’اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورِ کامل کو عرشِ عظیم پر ظاہر کردیا جاتا تو وہ بھی پگھل جاتا۔ اِس طرح اگر تمام مخلوقات کو جمع کرکے اُن پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوارِ مقدّسہ کو ظاہر کردیا جاتا تو وہ فنا ہو جاتے۔‘‘
    عبدالعزيز دباغ، الابريز : 272
    سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
    شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اِسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    انبیاء مخلوق اند از اسماءِ ذاتیہ حق و اولیاء از اسماءِ صفاتیہ و بقیہ کائنات از صفاتِ فعلیہ و سید رسل مخلوق ست از ذاتِ حق و ظہورِ حق در وے بالذات ست.
    ’’تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام تخلیق میں اللہ ربّ العزت کے اَسمائے ذاتیہ کے فیض کا پرتو ہیں اور اولیاء (اللہ کے) اَسمائے صفاتیہ کا اور باقی تمام مخلوقات صفاتِ فعلیہ کا پَر تَو ہیں لیکن سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ذاتِ حق تعالیٰ کے فیض سے ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات میں اللہ ربّ العزت کی شان کا بالذّات ظہور ہوا۔‘‘
    محدث دهلوي، مدارج النبوة، 2 : 771
    اِسی مسئلے پر اِمام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    لمّا تعلّقت إرادة الحق تعالي بإيجاد خلقه و تقدير رزقه، أبرز الحقيقة المحمدية من الأنوار الصمدية في الحضرة الأحدية، ثم سلخ منها العوالم کلها علوها و سفلها علي صورة حکمه.
    ’’جب خدائے بزرگ و برتر نے عالم خلق کو ظہور بخشنے اور اپنے پیمانۂ عطا کو جاری فرمانے کا ارادہ کیا تو اپنے انوارِ صمدیت سے براہ راست حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہِ احدیت میں ظاہر فرمایا اور پھر اس ظہور کے فیض سے تمام عالم پست و بالا کواپنے امر کے مطابق تخلیق فرمایا۔‘‘
    قسطلاني، المواهب اللّدنيه، 1 : 55
    اِسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا تھا :
    يا أبابکر! والذي بعثني بالحق! لم يعلمني حقيقة غير ربي.
    ’’اے ابوبکر! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میری حقیقت میرے پروردگار کے سوا کوئی دُوسرا نہیں جانتا۔‘‘
    محمدفاسي، مطالع المسرات : 129
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مذکورہ بالا تمام اَقوال کی نہ صرف توثیق کرتا ہے بلکہ اُن پر مہرِ تصدیق بھی ثبت کرتا ہے۔

    5۔ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا راز دان

    جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کی حقیقت کو اپنی مخلوقات سے مخفی رکھا اور تجلیاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پردوں میں مستورفرمایا، اِسی طرح آپ اکے اوصافِ ظاہری کو بھی وہی پروردگارِ عالم خوب جانتا ہے۔ محدثین، مفسرین اور علمائے حق کا یہ اعتقاد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصافِ ظاہری کی حقیقت بھی مکمل طور پر مخلوق کی دسترس سے باہر ہے۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین اور تابعین عظام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ بطور تمثیل ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کو اُن کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لئے کہ
    آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
    1۔ امام ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    و من وصفه صلي الله عليه وآله وسلم فإنما وصفه علي سبيل التمثيل وإلا فلا يعلم أحد حقيقة وصفه إلا خالقه.
    ’’جس کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَوصاف بیان کئے بطور تمثیل ہی کئے ہیں، اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔‘‘
    بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 19
    2۔ امام علی بن برہان الدین حلبی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    کانت صفاته صلي الله عليه وآله وسلم الظاهرة لا تدرک حقائقها.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفاتِ ظاہرہ کے حقائق کا اِدراک بھی ممکن نہیں۔‘‘
    حلبی، السيرة الحلببه، 3 : 434
    3۔ اِمام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    هذه التشبيهات الواردة في حقه عليه الصلوة والسلام إنما هي علي سبيل التقريب و التمثيل و إلا فذاته أعلي.
    ’’اَسلاف نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطورِ تمثیل ہے، ورنہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور مقام اُس سے بہت بلند ہے۔‘‘
    قسطلاني، المواهب اللدنيه، 1 : 249
    4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
    مرا در تکلم در اَحوال و صفاتِ ذاتِ شریفِ وی و تحقیق آں حرجے تمام است کہ آں مُتشابہ ترین مُتشابہات است نزدِ من کہ تاویلِ آں ہیچ کس جُز خدا نداند و ہر کسے ہر چہ گوید بر قدر و اندازۂ فہم و دانش گوید و اُو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از فہم و دانشِ تمام عالم برتر است.
    ’’میں نے حضور علیہ السلام کے محامد و محاسن پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے ہمیشہ ہچکچاہٹ محسوس کی ہے، کیونکہ (میں سمجھتا ہوں کہ) وہ ایسے اہم ترین متشابہات میں سے ہیں کہ اُن کی حقیقت پروردگارِ عالم کے سوا کوئی دُوسرا نہیں جانتا۔ جس نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف بیان کی اُس نے اپنے فہم و فراست کے مطابق بیان کی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس تمام اہلِ عالم کی فہم و دانش سے بالا ہے۔‘‘
    (1) محدث دهلوي، شرح فتوح الغيب : 340

    6۔ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقاضائے اِیمان

    اَقلیمِ رسالت کے تاجدار حضور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسندِ محبوبیت پر یکتا و تنہا جلوہ اَفروز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطن بھی حسنِ بے مثال کا مرقع اور ظاہر بھی اَنوار و تجلیات کا آئینہ دار ہے۔ جہاں نقطۂ کمال کی انتہاء ہوتی ہے وہاں سے حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِبتدا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو بے مثل ماننا اِیمان و اِیقان کا بنیادی جزو ہے۔ کسی شخص کا اِیمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باعتبار صورت و سیرت اِس کائناتِ ہست و بود کی تمام مخلوقات سے اَفضل و اَکمل تسلیم نہ کرلے۔
    1۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    من تمام الإيمان به إعتقادٌ أنه لم يجتمع فِي بَدَنِ آدمي من المحاسن الظاهرة الدالة علي محاسنه الباطنة، ما اجتمع في بَدَنِه عليه الصلوة و السلام.
    ’’کسی شخص کا اِیمان اُس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ اِعتقاد نہ رکھے کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُجودِ اَقدس میں ظاہری و باطنی محاسن و کمالات ہر شخص کی ظاہری و باطنی خوبیوں سے بڑھ کر ہیں۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 10
    2۔ شیخ اِبراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    و مِمَّا يتعيّن علي کلّ مکلّف أن يعتقد أنّ اﷲ سبحانه تعالي أوجد خَلْقَ بدنه صلي الله عليه وآله وسلم علي وجه لم يُوجد قبله ولابعده مثله.
    ’’مسلمانانِ عالم اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر شخص کے لئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ربِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اطہر کو اِس شان سے تخلیق فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مثل نہ بنایا۔‘‘
    بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 14
    3۔ اِمام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں :
    إنّ من تمام الإيمان به صلي الله عليه وآله وسلم الإيمان بأنّ اﷲ تعاليٰ جعل خلق بدنه الشريف علي وجه لم يظهر قَبْلَه و لا بعده خلق آدمي مثله صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ اِیمان کی تکمیل کے لئے (بندۂ مومن کا) یہ اِعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور نہ بعد میں ہی کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل حسین و جمیل بنایا۔‘‘
    قسطلاني، المواهب اللدنيه، 1 : 248
    4۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر اِیمان کی تکمیل کے موضوع پر اِمام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
    مِن تمامِ الإيمان به عليه الصلوة و السلام : الإيمان به بأنّه سبحانه خلق جسده علي وجه لم يظهرْ قبله و لا بعده مِثله.
    ’’اِیمان کی تکمیل کے لئے اِس بات پر اِیمان لانا ضروری ہے کہ ربِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وُجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال تخلیق فرمایا ہے۔‘‘
    سيوطي، الجامع صلي الله عليه وآله وسلم لصغير، 1 : 27
    5۔ اِمام عبدالرؤف مناوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    و قد صرّحوا بأنّ مِن کمال الإيمان إعتقاد أنه لم يجتمعْ في بدن إنسان من المحاسن الظاهرة، ما اجتمع في بدنه صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’تمام علماء نے اِس اَمر کی تصریح کر دی ہے کہ کسی اِنسان کا اِیمان اُس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ عقیدہ نہ رکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں پائے جانے والے محامد و محاسن کا کسی دُوسرے شخص میں موجود ہونا ممکن ہی نہیں۔‘‘
    مناوي، شرح الشمائل برحاشيه جمع الوسائل، 1 : 22
    6۔ مذکورہ عقیدے پر پختہ یقین رکھنے کے حوالے سے حافظ ابنِ حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول ہے :
    انه يجب عليک أن تعتقد أنّ من تمام الإيمان به عليه الصلوة و السلام : الإيمان بأن اﷲ تعالٰي أوجد خلق بدنه الشريف علي وجه، لم يظهر قبله و لا بعده في آدمي مثله صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’(اے مسلمان!) تیرے اُوپر واجب ہے کہ تو اِس اِعتقاد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِیمانِ کامل کا تقاضا سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کو حسین و جمیل اور کامل بنایا ہے اُس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے یا بعد میں کسی بھی شخص کو نہیں بنایا۔‘‘
    نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101

    7۔ پیکرِ مقدّس کی رنگت

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مبارک کی رنگت سفید تھی، لیکن یہ دودھ اور چونے جیسی سفیدی نہ تھی بلکہ ملاحت آمیز سفیدی تھی جو سُرخی مائل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رنگت کو چاندی اور گلاب کے حسین امتزاج سے نسبت دی ہے، کسی نے سفید مائل بہ سُرخی کہا ہے اور کسی نے سفید گندم گوں بیان کیا ہے۔
    1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
    کان أنورهم لوناً.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگ روپ کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ پُرنور تھے۔‘‘
    بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ جسمِ اطہر کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس لوناً.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔‘‘
    1. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 321
    2۔ یہی روایت ابن سعد نے ’الطبقات الکبريٰ (1 : 9415)‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
    3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أزهر اللون.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید چمکدار تھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
    2. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 61
    3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 228
    4۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے :
    و لا بالأبيض الأمهق و ليس بالادم.
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3355
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 2347
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، ابواب المناقب، رقم : 3623
    4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6387
    5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 409، رقم : 9310
    6. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328
    7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412
    8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 413، 418
    9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 569، رقم : 3354
    10. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 31، رقم : 17
    11. طبري، تاريخ، 2 : 221
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ نہ تو بالکل سفید اور نہ ہی گندمی تھا۔‘‘
    5۔ حضرت جریری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ کو جب یہ کہتے سنا :
    رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما علي وجه الأرض رجل رأه غيري.
    ’’میں نے رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے اور آج میرے سوا پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف نصیب ہوا ہو۔‘‘
    تو میں عرض پرداز ہوا :
    فکيف رأيته؟
    آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسا دیکھا؟
    تو اُنہوں نے میرے سوال کے جواب میں فرمایا :
    کان أبيض مليحا مقصَّدًا.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذبِ نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1820، کتاب الفضائل، رقم : 2340
    2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 454
    3. بزار، المسند، 7 : 205، رقم : 2775
    4. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 276، رقم : 790
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 417، 418
    6. فاکهي، اخبار مکه، 1 : 326، رقم : 664
    7۔ امام ترمذی حضرت ابو طفیل رحمۃ اﷲ علیہ ہی سے روایت کرتے ہیں :
    کان أبيض مليحا مقصداً.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذب نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 26
    2. خطيب بغدادي، الکفايه في علم الروايه، 1 : 137
    8۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض مُشرباً بِحُمْرة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین امتزاج تھا۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 116، رقم : 944
    2. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 8
    3. ابن حبان، الثقات، 7 : 448، رقم : 10865
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
    5. مناوي، فيض القدير، 5 : 70
    6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 23
    7. امام صالحي، سُبل الهدي والرشاد، 2 : 10
    9۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان أبيض تعلوه حمرة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین مرقع تھا۔‘‘
    1. روياني، مسند الروياني، 2 : 318، رقم : 1280
    2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 183، رقم : 10397
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
    4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 323
    10۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    کان لونُ رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسمر.
    ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت (کی سفیدی) گندم گوں تھی۔‘‘
    1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 197، رقم : 2686
    2. مقدسي، الأحاديث المختاره، 5 : 309، رقم : 1955
    3. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 521، رقم : 2115
    4. ابن جوزي، الوفا : 410
    11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    أبيض کأنّما صيغ مِن فضّة.
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 25، رقم : 11
    2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید رنگت والے تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔‘‘
    شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    اما لونِ آنحضرت روشن و تاباں بود و اتفاق دارند جمہور اصحاب بربیاض لونِ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، و وصف کردند او را بابیض و بعضے گفتند کان ابیض ملیحا و در روایتے ابیض ملیح الوجہ و ایں احتمال داردکہ مراد وصف کہ بیاض و ملاحت و صفت زائدہ برائے بیان حسن و جمال و لذت بخشی و دلربائی دیدار جان افزای ویا باشد.
    عبدالحق محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 26
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک رنگ خوب روشن اور چمکدار تھا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس پر متفق ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید تھا، اسی چیز کو احادیثِ نبوی میں لفظ ’’ابیض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں ’’کان ابیض ملیحا‘‘ اور بعض روایات میں ’’ابیض ملیح الوجہ‘‘جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان سے مراد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ کی سفیدی بیان کرنا مقصود ہے، باقی ملاحت کا ذکر بطور صفتِ زائدہ ہے اور اس لئے اس کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے جو لذت اور تسکینِ روح و جاں حاصل ہوتی ہے، اس پر دلالت کرے۔‘‘
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُسن و جمال بے مثال تھا۔ جسمِ اطہر کی رنگت، نور کی کرنوں کی رِم جھم اور شفق کی جاذبِ نظر سُرخی کا حسین امتزاج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کو کائنات کی کسی مخلوق سے بھی تشبیہ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی الفاظ میں جلوہ ہائے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے، اس لئے کہ ہر لفظ اور ہر حرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس سے فروتر ہے۔ یہاں جذبات واحساسات کی بیساکھیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

    روایات میں تطبیق

    امام عبدالروف مناوی رحمۃ اﷲ علیہ ان تمام روایات کو بیان فرمانے کے بعد رقمطراز ہیں :
    فثبت بمجموع هذه الروايات أن المراد بالسمرة حمرة تخالط البياض، و بالبياض المثبت ما يخالط الحمرة، و أما وصف لونه في أخبار بشدة البياض فمحمول علي البريق و اللمعان کما يشير إليه حديث کأن الشمس تحرک في وجهه.
    ’’ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ جن میں لفظ سمرہ کا ذکر ہے، وہاں اس سے مراد وہ سُرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو، اور جن میں سفیدی کا ذکر ہے اس سے مُراد وہ سفید رنگ ہے جس میں سُرخی ہو اور بعض روایات میں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رنگ کو بہت زیادہ سفید بیان کیا گیا ہے، اس سے مراد اس کی چمک دمک ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں آفتاب محوِ خرام رہتا ہے۔‘‘
    مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 1 : 13
    ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ’جمع الوسائل‘ میں امام عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
    قال العسقلاني : تبين من مجموع الروايات أنّ المراد بالبياض المنفي ما لا يخالطه الحمرة، و المراد بالسمرة الحمرة التي يخالطها البياض.
    ’’امام عسقلانی نے فرمایا : ان تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صرف سفیدی سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اور ’’سمرہ‘‘ سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13

    8۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : پیکرِ نظافت و لطافت

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی وجاہت اور حسن و رعنائی قدرت کا ایک عظیم شاہکار تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفاست پسندی اور نظافت و طہارت کی عادت شریفہ نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرتاپا پاکیزگی کا پیکر تھے۔ جسم اطہر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک و صاف تھا۔
    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رقيق البشرة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس نہایت نرم و نازک تھا۔‘‘
    ابن جوزي، الوفا : 409
    2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت ابوطالب فرماتے ہیں :
    واﷲ ما ادخلته فراشي فاذا هو في غاية اللين.
    ’’خدا کی قسم! جب بھی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ بستر میں لٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو نہایت ہی نرم و نازک پایا۔‘‘
    رازي، التفسير الکبير، 31 : 214
    3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    ما مَسِسْتُ حريرًا ولا ديباجا ألين من کف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو مَس نہیں کیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہو۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البر والصلة، رقم : 2015
    4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 230، رقم : 13823
    5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
    6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
    7. ابو يعلي، المسند، 6 : 128، رقم : 3400
    8. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری صفائی و پاکیزگی کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے، نفاست پسندی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اگرچہ جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش سے پاک تھا اور قدرت نے اس پاکیزگی کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لباس اور جسم کی ظاہری پاکیزگی کو بھی خصوصی اہمیت دیتے تھے۔
    شبِ میلاد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اس وقت بھی ہر لمحہ پاکیزگی اور طہارت کا مظہر بن گیا، عام بچوں کے برعکس جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش اور میل کچیل سے پاک تھا۔
    4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
    ولدته نظيفاً ما به قذر.
    خفاجي، نسيم الرياض، 1 : 363
    ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح پاک صاف جنم دیا کہ آپ کے جسم پر کوئی میل نہ تھا۔‘‘
    5۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے :
    ولدته أمّه بغير دم و لا وجع.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر خون اور تکلیف کے جنم دیا۔‘‘
    ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 165
    تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کی سی شانِ نظافت اللہ رب العزت نے آج تک کسی کو عطا نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں حسن و جمال کے پیکر اتم تھے وہاں نظافت و طہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔

    9۔ بے سایہ پیکرِ نور

    کتب احادیث میں درج ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس جسم اتنا لطیف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔
    1۔ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    کان لا ظلّ لشخصه في شمس و لا قمر لأنه کان نورًا.
    ’’سورج اور چاند (کی روشنی میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے۔‘‘
    1. قاضي عياض، الشفا، 1 : 522
    2. ابن جوزي، الوفا : 412
    3. خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 : 321
    4. نسفي، المدارک، 3 : 135
    5. مقري، تلمساني، فتح المتعال في مدح النعال : 510
    2۔ امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ الخصائص الکبريٰ میں روایت نقل فرماتے ہیں :
    ان ظله کان لا يقع علي الأرض، وأنه کان نورًا فکان إذا مشي في الشمس أو القمر لا ينظر له ظلّ.
    1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 122
    2. ابن شاهين، غاية السؤل في سيرة الرسول، 1 : 297
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا۔‘‘
    3۔ امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    لم يکن لها ظل في شمس و لا قمر.
    زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 524
    ’’شمس و قمر (کی روشنی) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہوتا۔‘‘

    10۔ پیکرِ دلنواز کی خوشبوئے عنبریں

    تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں خوشبو کو پسند فرماتے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک سے بھی نہایت نفیس خوشبو پھوٹتی تھی جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا مشامِ جاں معطر رہتا۔ جسمِ اطہر کی خوشبو ہی اتنی نفیس تھی کہ کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہ تھی۔ دُنیا کی ساری خوشبوئیں جسمِ اطہر کی خوشبوئے دلنواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنھا سے بہت سی روایات مروی ہیں۔
    امام ابو نعیم رحمۃ اﷲ علیہ اور خطیب رحمۃ اﷲ علیہ نے صبحِ میلاد کے حوالے سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا ایک دلنشین قول یوں نقل کیا ہے :
    نظرتُ إليه فإذا هو کالقمر ليلة البدر، ريحه يسطع کالمسک الأذفر.
    زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 531
    ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح پایا، جس سے تروتازہ کستوری کے حلّے پھوٹ رہے تھے۔‘‘

    (1) وادئ بنو سعد میں خوشبوؤں کے قافلے

    حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رضاعت کے لئے اپنے گھر کی طرف لے کر چلیں تو راستے خوشبوؤں سے معطر ہو گئے۔ وادئ بنو سعد کا کوچہ کوچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اقدس کی نفیس خوشبو سے مہک اٹھا۔
    1۔ حضرت حلیمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں :
    و لما دخلت به إلي منزلي لم يبق منزل من منازل بني سعد إلا شممنا منه ريح المسک.
    ’’جب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لائی تو قبیلہ بنو سعد کا کوئی گھر ایسا نہ تھا کہ جس سے ہم نے کستوری کی خوشبو محسوس نہ کی۔‘‘
    صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 387
    2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے بارے میں ایک روایت حضرت ابوطالب کے حوالے سے بھی ملتی ہے، وہ فرماتے ہیں :
    فإذا هو في غاية اللين وطيب الرائحة کأنه غمس في المسک.
    رازي، التفسير الکبير، 31 : 214
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر نہایت ہی نرم و نازک اور اس طرح خوشبو دار تھا جیسے وہ کستوری میں ڈبویا ہوا ہو۔‘‘
    3۔ خوشبوؤں کا قافلہ عمر بھر قدم قدم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس لوناً وأطيب الناس ريحاً.
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 321
    ’’رسول اﷲا رنگ کے لحاظ سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے اور خوشبو کے لحاظ سے سب سے زیادہ خوشبودار۔‘‘

    (2) خوشبو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ اطہر کا حصہ تھی

    اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ وہ خوشبو جو آپ استعمال کرتے۔ ذاتِ اقدس کسی خوشبو کی محتاج نہ تھی بلکہ خود خوشبو جسمِ اطہر سے نسبت پاکر معتبر ٹھہری۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو کا استعمال نہ بھی فرماتے تب بھی جسمِ اطہر کی خوشبو سے مشامِ جاں معطر رہتے۔
    1۔ امام نووی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    کانت هذه الريح الطيبة صفتها و إن لم يمس طيبا.
    نووي، شرح صحيح مسلم، 2 : 256
    ’’مہک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی صفات میں سے تھی، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی۔‘‘
    2۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اﷲ علیہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں :
    ان هذه الرائحة الطيبة کانت رائحة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من غير طيب.
    صالحي، سبل الهدي والرشاد، 2 : 88
    ’’یہ پیاری مہک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مقدسہ کی تھی نہ کہ اُس خوشبو کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استعمال فرماتے تھے۔‘‘
    3۔ امام خفاجی رحمۃ اﷲ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس منفرد خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    ريحها الطيبة طبعياً خلقياً خصه اﷲ به مکرمة و معجزة لها.
    خفاجي، نسيم الرياض، 1 : 348
    ’’اللہ تعالیٰ نے بطور کرامت ومعجزہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر میں خلقتاً اور طبعاً مہک رکھ دی تھی۔‘‘
    4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    یکے از طبقاتِ عجیبِ آنحضرت طیبِ ریح است کہ ذاتی وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بود بی آنکہ استعمال طیب از خارج کند و ہیچ طیب بداں نمی ر سد.
    محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 29
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بغیر خوشبو کے استعمال کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو آتی جس کا مقابلہ کوئی خوشبو نہیں کر سکتی۔‘‘
    5۔ علامہ احمد عبدالجواد الدومی رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم طيبا من غير طيب، و لکنه کان يتطيب و يتعطر توکيدا للرائحة و زيادة في الإذکاء.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس خوشبو کے استعمال کے بغیر بھی خوشبودار تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے باوجود پاکیزگی و نظافت میں اضافے کے لئے خوشبو استعمال فرمالیتے تھے۔‘‘
    دومي، الاتحافات الربانيه : 263
    6۔ شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    و قد کان صلي الله عليه وآله وسلم طيب الرائحة، و ان لم يمس طيبا کما جاء ذلک في الأخبار الصحيحة لکنه کان يستعمل الطيب زيادة في طيب الرائحة.
    ’’احادیثِ صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر سے خوشبو کی دلآویز مہک بغیر خوشبو لگائے آتی رہتی۔ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو کا استعمال فقط خوشبو میں اضافہ کے لئے کرتے۔‘‘
    ابراهيم بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 109

    (3) بعد از وصال بھی خوشبوئے جسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنبرفشاں تھی

    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    غسلت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فذهبت أنظر ما يکون من الميت، فلم أجد شيئا، فقلت : طبت حيا و ميتا.
    ’’میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا، جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے خارج ہونے والی کوئی ایسی چیز نہ پائی جو دیگر مُردوں سے خارج ہوتی ہے تو پکار اٹھا کہ اللہ کے محبوب! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری حیات اور بعد از وصال دونوں حالتوں میں پاکیزگی کا سرچشمہ ہیں۔‘‘
    قاضي عياض، الشفا، 1 : 89
    2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا :
    وسطعت منه ريح طيبة لم نجد مثلها قط.
    قاضي عياض، الشفا، 1 : 89
    ’’(غسل کے وقت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو کے حلّے شروع ہوئے کہ ہم نے کبھی ایسی خوشبو نہ سونگھی ہے۔‘‘
    3۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے :
    فاح ريح المسک في البيت لما في بطنه.
    ’’تمام گھر اس خوشبو سے مہک اٹھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اطہر میں موجود تھی۔‘‘
    ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 161
    4۔ یہ روایت ان الفاظ میں بھی ملتی ہے کہ جب شکمِ اطہر پر ہاتھ پھیرا تو :
    إنتشر في المدينة.
    ’’پورا مدینہ اس خوشبو سے مہک اٹھا۔‘‘
    5۔ اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے :
    وضعت يدي علي صدر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم مات، فمر بي جمع أکل وأتوضأ ما يذهب ريح المسک من يدي.
    ’’میں نے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ اقدس پر ہاتھ رکھا۔ اس کے بعد مدت گزر گئی، کھانا بھی کھاتی ہوں، وضو بھی کرتی ہوں (یعنی سارے کام کاج کرتی ہوں) لیکن میرے ہاتھ سے کستوری کی خوشبو نہیں گئی۔‘‘
    سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 274

    (4) جسمِ اقدس کے پسینے کی خوشبوئے دلنواز

    1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان ريح عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ريح المسک، بأبي و أمي! لم أر قبله و لا بعده أحدا مثله.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے میں نے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔‘‘
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 319
    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ کائناتِ ارض و سماوات کی ہر خوشبو سے بڑھ کر خوشبودار تھا۔ یہ خوشبو خوشبوؤں کے جھرمٹ میں اعلیٰ اور افضل ترین تھی۔ پسینے کی خوشبو لاجواب اور بے مثال تھی۔
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    ما شممت عنبراً قط ولا مسکا و لا شيئا أطيب من ريح رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 2330
    2. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البر والصلة، رقم : 2015
    4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 200
    5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
    6. ابو يعلي، المسند، 6 : 463، رقم : 3866
    7. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
    8. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
    9. ابو نعيم، مسند أبي حنيفه، 1 : 51
    10. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 285، رقم : 346
    11. ابن حبان، الصحيح، 14 : 221، رقم : 6303
    ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے پسینے) کی خوشبو سے بڑھ کر خوشبودار عنبر اور کستوری یا کوئی اور خوشبودار چیز کبھی نہیں سونگھی۔‘‘
    3۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے کا ذکرِ جمیل حضرت علی رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
    کان عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في وجهه اللؤلؤ، و ريح عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أطيب من ريح المسک الأذفر.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر پسینے کے قطرے خوبصورت موتیوں کی طرح دکھائی دیتے اور اس کی خوشبو عمدہ کستوری سے بڑھ کر تھی۔‘‘
    صالحي، سبل الهدي والرشاد، 2 : 86

    (5) عطر کا بدلِ نفیس۔۔۔ پسینہ مبارک

    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جسمِ اطہر کے مقدس پسینے کو محفوظ کرلیتے اور وقتاً فوقتاً اُسے بطور عطر استعمال میں لاتے کہ اُس جیسا عطر روئے زمین پر دستیاب نہیں ہو سکتا۔
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ آقائے محتشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں قیلولہ بھی فرماتے۔ ایک دن میری والدہ ماجدہ حضرت امِ سلیم رضی اﷲ عنھا کسی کام سے گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں، اُن کی عدم موجودگی میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر میں جلوہ افروز ہوئے اور قیلولہ فرمایا :
    فقيل لها : هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم نائم في بيتک علي فراشک.
    ’’انہیں اطلاع ملی کہ آپ کے ہاں تو سرور کونین حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما رہے ہیں۔‘‘
    انہوں نے یہ مژدۂ جانفزا سنا تو جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف لوٹیں اور دیکھا کہ سیدالمرسلین حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما رہے ہیں اور جسمِ مقدس پر پسینے کے شفاف قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں اور یہ قطرے جسمِ اطہر سے جدا ہوکر بستر میں جذب ہو رہے ہیں۔
    آگے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    جاء ت أمي بقارورة فجعلت تَسلُت العرق فيها.
    ’’میری والدہ ماجدہ نے ایک شیشی لے کر اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کو جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘
    اس اثنا میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری امی جان کو مخاطب کر کے فرمایا :
    ما هذا الذي تصنعين؟
    ’’تو يہ کيا کر رہي ہے؟ ‘‘
    امی جان نے احتراماً عرض کی :
    هذا عرقک نجعله في طيبنا و هو من أطيب الطيب.
    ’’(یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم!) یہ آپ کا مبارک پسینہ ہے، جسے ہم اپنے خوشبوؤں میں ملاتے ہیں اور یہ تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر خوشبودار ہے۔‘‘
    ایک روایت کے مطابق حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کا جواب کچھ یوں تھا :
    نرجو برکته لصبياننا.
    ’’ہم اسے (جسمِ اطہر کے پسینے کو) اپنے بچوں کو برکت کے لئے لگائیں گے۔‘‘
    حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    أصبتِ.
    ’’تو نے درست کیا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
    2. نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينه، رقم : 5371
    3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 221
    4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 1 : 254، رقم : 1135
    5. طيالسي، المسند، 1 : 276، رقم : 2078
    6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
    7. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
    8. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
    9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 428

    (6) خوشبو والوں کا گھر

    ایک صحابی سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں، عنقریب میری بیٹی کی شادی ہونے والی ہے لیکن میرے پاس اسے دینے کے لئے کوئی خوشبو نہیں، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں میری مدد فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا :
    إيتني بقارورة واسعة الرأس و عود شجرة.
    ’’ایک کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی کا کوئی ٹکڑا لے آؤ۔‘‘
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی سنتے ہی وہ صحابی مطلوبہ شیشی اور لکڑی لے کر پھر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی سے اپنی مبارک کلائی کا پسینہ۔۔۔ جو خوشبوؤں کا خزینہ تھا۔۔۔ اس شیشی میں جمع فرمایا۔ وہ شیشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے سے بھر گئی۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    خذه و أمر بنتک تطيب به.
    ’’اِسے لے جا اور اپنی بیٹی سے کہہ کہ اسے خوشبو کے طور پر استعمال کرے۔‘‘
    خوش نصیب صحابی وہ شیشی جس میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کلائی مبارک کا پسینہ اپنے دستِ اقدس سے جمع فرمایا تھا لے کر اپنے گھر پہنچے اور گھر والوں کو عطائے رسول کی نوید سنائی۔ اس صحابی کے افرادِ خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کلائی مبارک کے پسینے کو بطور خوشبو استعمال فرمایا تو ان کے گھر کی فضا جسمِ اقدس کے پسینے کی خوشبو سے مہک اٹھی، در و دیوار جھوم اٹھے۔ یہ مقدس خوشبو صرف ان کے گھر تک محدود نہ رہی بلکہ ساکنانِ شہرِ خنک نے بھی اس خوشبوئے رسول کو محسوس کیا اور اس کی کیفیت میں گم رہے۔ پورے شہر میں ان کا گھر بیت المطیبین (خوشبو والوں کا گھر) کے نام سے مشہور ہو گیا، کتب احادیث میں درج ہے :
    فکانت اذا تطيب شم أهل المدينة رائحة ذلک الطيب فسموا بيت المطيبين.
    ’’جب بھی وہ خوش نصیب خاتون خوشبو لگاتی تو جملہ اہل مدینہ اس مقدس خوشبو کو محسوس کرتے، پس اس وجہ سے وہ گھر ’خوشبو والوں کا گھر‘ سے مشہور ہو گیا۔‘‘
    یوں نسبتِ رسول نے ان کا نام تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔
    1. ابو يعلي، المسند، 11 : 185، 186، رقم : 6295
    2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 190، 191، رقم : 2895
    3. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 59، رقم : 41
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 255، 256
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 283
    6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 44، رقم : 27
    7. مناوي، فيض القدير، 5 : 80
    8. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 3 : 86

    (7) اب تک مہک رہے ہیں مدینے کے راستے

    حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر سے گزرتے وہ راستے بھی مہک اُٹھتے، راہیں قدم بوسی کا اعزاز حاصل کرتیں اور خوشبوئیں جسمِ اطہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتیں۔ مدینے کی گلیاں آج بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبوؤں سے معطر ہیں۔ شہرِدلنواز کے بام و در سے لپٹی ہوئی خوشبوئیں آج بھی کہہ رہی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی راستوں سے گزرا کرتے تھے، انہی فضاؤں میں سانس لیا کرتے تھے، اسی آسمان کے نیچے خلقِ خُدا میں دین و دُنیا کی دولت تقسیم فرمایا کرتے تھے۔
    1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا مرّ في طريق من طرق المدينة وجدوا منه رائحة الطيب، و قالوا : مرّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من هذا الطريق.
    سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 67
    ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے جس کسی راستے سے گزر جاتے تو لوگ اس راہ میں ایسی پیاری مہک پاتے کہ پُکار اُٹھتے کہ ادھر سے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا گزر ہوا ہے۔‘‘
    2۔ امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :
    لم يکن النبي صلي الله عليه وآله وسلم يمر في طريق فيتبعه أحد إلا عُرف أنه سلکه من طيب عرفه.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس راستے سے بھی گزر جاتے تو بعد میں آنے والا شخص خوشبو سے محسوس کر لیتا کہ ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا ہے۔‘‘
    بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 399 - 400، رقم : 1273

    (8) آرزوئے جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    اظہارِ عشق کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں، خوشبوئے وفا کے پیرائے بھی جدا جدا ہوتے ہیں، کبھی کوئی صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر مانگ لیتے ہیں کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور کوئی حصولِ برکت کے لئے جسمِ اطہر کے پسینے کو شیشی میں جمع کر لیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں قیلولہ فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس پسینہ اور موئے مبارک جمع کر لیتے تھے اور اُنہیں ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملا لیا کرتے تھے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت کی :
    أن يجعل في حنوطه من ذٰلک السُّکِ.
    ’’(اُن کے وصال کے بعد) وہ خوشبو ان کے کفن کو لگائی جائے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستيذان، رقم : 5925
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 461، رقم : 11036
    ان کی اس آرزو کو بعد از وصال پورا کیا گیا۔ حضرت حمید سے روایت ہے :
    لما توفي أنس بن مالک جعل في حنوطه مسک فيه من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ وصال کر گئے تو ان کی میت کے لئے اس خوشبو کو استعمال کیا گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
    1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 406، رقم : 6500
    2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 25
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21
    5. شيباني، الاحآد والمثاني، 4 : 238، رقم : 2231
    نہ تو قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیطۂ تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات محاسنِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے۔ کائناتِ ارض و سماوات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان کرتے ہیں :
    ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
    آں کہ از خاکش بروید آرزو
    یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست
    یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ (ص) است
     (دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں ہے۔)
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ لامحدود کا اِحاطہ ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی مثال تو بحر بیکراں کی سی ہے جس میں کوئی ایک آدھ موج اچھل کر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور دور دور تک پھیلے سمندر کی گہرائیوں میں اترنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ بعینہ حقیقت حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی کسی فرد بشر کی بات نہیں کہ محدود نظر اس کا کما حقہ اِدراک کر ہی نہیں سکتی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ شمائل اور حلیہ مبارک کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہر امتی کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے عشق و محبت کا تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے اور اس کے شوقِ زیارت کو جِلا ملتی رہے۔ ذیل میں حلیۂ مبارک کا ذکرِ جمیل ہم اس امید پر کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے لئے توشۂ آخرت بن جائے اور ہماری یہ ادنیٰ سی کاوش بارگہ ایزدی میں شرف قبولیت پا کر ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا موجب بنے۔

    1۔ حلیۂ مبارک کا حسین تذکرہ

    کتبِ اَحادیث و سیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان کردہ روایات کے مطالعہ سے جو کچھ ہم جان سکے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس نہ تو مائل بہ فربہی تھا اور نہ ہی نحیف و ناتواں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی ساخت سرتاپا حسنِ اِعتدال کا مرقع تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ اعضائے مبارکہ میں ایسا حسین تناسب پایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا یہ گمان بھی نہ کر سکتا تھا کہ فلاں عضو دُوسرے کے مقابلے میں فربہ یا نحیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی ساخت اِتنی متناسب اور کمالِ موزونیت کی مظہر تھی کہ اُس پر فربہی یا کمزوری کا حکم نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ فربہی اور دُبلاپن کی دونوں کیفیتیں شخصی وجاہت اور جسمانی حسن و وقار کے منافی سمجھی جاتی ہیں، چنانچہ اﷲ ربّ العزت کو یہ بات کیونکر گوارا ہو سکتی تھی کہ کوئی اُس کے کارخانۂ قدرت کے شاہکارِ عظیم کی طرف کسی خلافِ حسن و وقار اَمر کا گمان بھی کر سکے۔
    خدائے عزوجل نے بالیقین اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل اور تمام عیوب و نقائص سے مبّرا تخلیق کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، کمال درجہ حسین و متناسب اور دِلکشی و رعنائی کا حامل اور حسن و خوبی کا خزینہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَعضائے مبارکہ کی ساخت اِس قدر مثالی اور حسنِ مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اُسے دیکھ کر ایک حسنِ مجسم پیکرِ اِنسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین سراپا کی مدح میں ہر وقت رطبُ الّلساں رہتے تھے۔ اُن کی بیان کردہ روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ حسنِ ساخت کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس اور شکم مبارک دونوں ہموار تھے، تاہم سینہ نہایت حسنِ اِعتدال کے ساتھ بطنِ مبارک کی نسبت ذرا آگے کی طرف اُبھرا ہوا تھا۔ طب و صحت کے مسلمہ اُصولوں کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل و اَکمل طور پر متناسبُ الاعضاء اور وجیہُ الصورت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات میں حسنِ تام اپنی تمام تر دلآویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں متشکل نظر آتا تھا کہ بقولِ شاعر :
    زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
    کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر تا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ اطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن کو دیکھ کر بیخود اور مبہوت ہو کر رہ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماورا تھا اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوُجود بھی اُسے کماحقہ بیان کرنے سے عاجز تھے :
    دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار!
    گلچینِ بہارِ تو زداماں گلہ دارد!
     (نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حسن کے پھول کثیر ہیں، تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے۔)
    صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے جمیل اور صورتِ زیبا کے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے تھے۔اپنے من کی تشنگی کا مداوا کرتے کشتِ دیدہ و دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے گلاب بوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اُنہیں سکون و طمانیت اور فرحت و راحت کی دولت نصیب ہوتی، اِیمان کو حلاوَت اور قلب و جاں کو تقوِیت ملتی۔
    1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا اِمام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فخما مفخما، يتلألآ وجهه تلآلؤ القمر ليلة البدر، أطوَل من المربوع و أقصر من المشذب، عظيم الهامة، رجل الشعر، إن انفرقت عقيقته فرقها، و إلا فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه، إذا هو وفره، أزهر اللون، واسع الجبين، أزج الحواجب سوابغ في غير قرن، بينهما عرق يدره الغضب، أقني العرنين، له نور يعلوه يحسبه من لم يتأمله أشم، کث اللحية، سهل الخدين، ضليع الفم، مفلج الأسنان، دقيق المسربة، کآن عنقه جيد دمية في صفاء الفضة، معتدل الخلق، بادن متماسک، سواء البطن و الصدر، عريض الصدر، بعيد ما بين المنکبين، ضخم الکراديس، أنور المتجرد، موصول ما بين اللبة و السرة بشعر يجري کالخط، عاري الثديين والبطن مما سوي ذالک، أشعر الذراعين والمنکبين و أعالي الصدر، طويل الزندين، رحب الراحة، شثن الکفين و القدمين، سائل الأطراف . . . آو قال : شائل الأطراف . . . خمصان الأخمصين، مسيح القدمين، ينبو عنهما الماء، إذا زال زال قلعا، يخطو تکفيا، و يمشي هونا، ذريع المشية إذا مشي کأنما ينحط من صبب، و إذا التفت التفت جميعا، خافض الطرف، نظره إلي الأرض أکثر من نظره إلي السماء، جل نظره الملاحظة، يسوق آصحابه و يبدأ من لقي بالسلام.
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35 - 38، رقم : 8
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
    3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    7. ابن کثير، شمائل الرسول : 50، 51
    8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 286، 287
    9. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 191
    10. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
    11. مقريزي، اِمتاع الآسماع، 2 : 177
    12. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 155
    13. ابن حبان، الثقات، 2 : 145
    14. ابن حبان، اخلاق النبيا، 4 : 282
    15. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 7 : 258، رقم : 9743
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم المرتبت اور بارعب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، قد مبارک متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے نسبتاً پست تھا۔ سرِ اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے بل کھائے ہوئے تھے، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے متجاوز ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک چمکدار، پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے، ابرو مبارک جدا جدا تھے، ایک دُوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان ایک مبارک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔ بینی مبارک مائل بہ بلندی تھی اور اُس پر ایک چمک اور نور تھا، جو شخص غور سے نہ دیکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی تھی، رخسار مبارک ہموار (اور ہلکے) تھے، دہن مبارک اِعتدال کے ساتھ فراخ تھا، سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اتنی خوبصورت اور باریک تھی (جیسے کسی گوہرِ آبدار کو تراشا گیا ہو اور) وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارک پُرگوشت اور معتدل تھے اور ایک دُوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھے (لیکن) سینۂ اقدس فراخ (اور قدرے اُبھرا ہوا) تھا، دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی تھیں، بدن مبارک کا جو حصہ کپڑوں سے باہر ہوتا روشن نظر آتا۔ ناف اور سینہ کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک دھاری تھی (اور اس لکیر کے علاوہ) سینۂ اقدس اور بطن مبارک بالوں سے خالی تھے، البتہ بازوؤں، کندھوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ پر کچھ بال تھے، کلائیاں دراز تھیں اور ہتھیلیاں فراخ، نیز ہتھیلیاں اور دونوں قدم پُرگوشت تھے، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوے قدرے گہرے اور قدم ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان سے فوراً ڈھلک جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے مگر تواضع کے ساتھ چلتے، زمین پر قدم آہستہ پڑتا نہ کہ زور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبک رفتار تھے اور قدم ذرا کشادہ رکھتے، (چھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھاتے تھے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو مکمل متوجہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی، گوشۂ چشم سے دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی (یعنی غایتِ حیا کی وجہ سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے)، چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو آگے کر دیتے اور جس سے ملتے سلام کہنے میں خود ابتدا فرماتے۔‘‘
    تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ دلنشیں کو اللہ رب العزت نے ایسا حسین بنایا کہ ہر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی حلاوتوں میں گم ہو کر رہ جاتا۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن بے مثال کا تذکرہ حسن بلاغت کا شاہکار ہے۔ انہوں نے کمال جامعیت کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رعنائیوں کا ذکر کیا ہے۔
    2۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے سے بھرپور ایک روایت ملتی ہے جس میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک، جسمانی تناسب، اعضائے مبارکہ کے حسنِ اِعتدال اور اوصافِ حمیدہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
    ليس بالطويل الممغّط و لا بالقصير المتردد، و کان ربعة من القوم، و لم يکن بالجعد القطط، و لا بالسبط، کان جعداً رجلاً، و لم يکن بالمطهم و لا بالمکلثم، و کان في الوجه تدويرٌ، آبيض مشرب، آدعج العينين، آهدب الآشفار، جليل المشاش و الکتد، آجرد ذومسربة، شثن الکفين و القدمين، إذا مشي تقلع، کآنما يمشي في صبب، و إذا التفت التفت معاً، بين کتفيه خاتم النبوة و هو خاتم النبيين، آجود الناس صدراً، و آصدق الناس لهجة، و آلينهم عريکة، و آکرمهم عشرة، مَن رآه بديهة هابه، و من خالطه معرفة آحبه، يقول ناعته : لم آر قبله ولا بعده مثله صلي الله عليه وآله وسلم .
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 599، رقم : 3638
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 32، رقم : 7
    3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 416
    4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
    5. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 29
    6. ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 247
    7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
    8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 269
    9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124
    10. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 153
    11. مبارکپوري، تحفة الآحوذي، 10 : 82
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد مبارک میں نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ پست قد بلکہ میانہ قد کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔ جسمِ اطہر میں فربہ پن نہ تھا۔ چہرہ مبارک (بالکل گول نہ تھا بلکہ اُس) میں تھوڑی سی گولائی تھی، رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں۔ کندھوں کے سرے اور درمیان کی جگہ پُر گوشت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اقدس پر زیادہ بال نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک پُرگوشت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو قدموں کو قوت سے اُٹھاتے گویا نیچے اُتر رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے پورے بدن کو پھیر کر توجہ فرماتے۔ دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، سب سے زیادہ سخی دل والے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے اور خاندان کے لحاظ سے سب سے زیادہ افضل تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک دیکھتا پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا، جوں جوں قریب آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانوس ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے لگتا۔ (الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) حلیہ بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا پہلے دیکھا نہ بعد میں۔‘‘
    3۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلنشیں تذکرہ ایک اور مقام پر حضرت ام معبد رضی اﷲ عنہا سے بھی مروی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پڑاؤ کیا جہاں ایک پختہ عمر عورت کا خیمہ تھا۔ وہ اکثر مسافروں کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیا کرتی تھی۔ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا، اس کا شوہر ریوڑ چرانے کے لئے باہر گیا ہوا تھا، گھر میں صرف ایک لاغر بکری تھی جو ریوڑ کے ساتھ جانے سے قاصر تھی۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معجزتاً اس بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کے لمس سے اُس بکری کے خشک تھنوں میں اِتنا دودھ بھر آیا کہ وہاں موجود تمام لوگ سیر ہو گئے مگر دودھ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اُمِ معبد کا شوہر بکریاں چرانے کے بعد واپس آیا تو گھر میں دودھ سے لبالب برتن دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس موقع پر اُم معبد نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا :
    رآيتُ رجلاً ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه، حسن الخلق، لم تعبه ثجلة و لم تزر به صعلة، وسيم قسيم، في عينيه دعجٌ، و في آشفاره وطفٌ، و في صوته صحلٌ، آحور، آکحل، آزج، آقرن، شديد سواد الشعر، في عُنقه سطعٌ، و في لحيته کثافة، إذا صمت فعليه الوقار، و إذا تکلم سما و علاه البهاء، کان منطقه خرزات نظم يتحدرن، حلو المنطق، فصل، لا نزر و لا هذر، آجهر الناس و آجمله من بعيد، و آحلاه و آحسنه من قريب، ربعة، لا تشنؤه من طول و لا تقتحمه عين من قصر، غصن بين غصنين فهو آنضر الثلاثة منظراً، و آحسنهم قدراً، له رفقاء يحفون به، إذا قال استمعوا لقوله، و إذا آمر تبادروا إلي آمره، محفود محشود، لا عابث و لا مفند.
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230، 231
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 10
    3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : ، 49، 7 : 105
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
    5. حسان بن ثابت، ديوان : 57 58
    6. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 310
    7. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 253
    8. ابن حبان، الثقات، 1 : 125
    9. ابن عبد البر، الاستيعاب، 4 : 1959
    10. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 139
    11. صالحي، سبل الهدي و الرشاد، 3 : 348
    ’’میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کا حسن نمایاں اور چہرہ نہایت ہشاش بشاش (اور خوبصورت) تھا اور اَخلاق اچھے تھے۔ نہ رنگ کی زیادہ سفیدی اُنہیں معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اُن میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بہت خوبرو اور حسین تھے۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں اور پلکیں لمبی تھیں۔ اُن کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم و سرمگین، دونوں ابرو باریک اور ملے ہوئے تھے۔ بالوں کی سیاہی خوب تیز تھی۔ گردن چمکدار اور ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی، جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ گفتگو واضح ہوتی، نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ۔ دُور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے دیکھیں تو سب سے زیادہ خوبرو، (شیریں گفتار اور) حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا، نہ اِتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں معیوب جانیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ تھے جو خوب سرسبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ساتھی ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرماتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو کر غور سے سنتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے تو وہ فوراً اسے بجا لاتے۔ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ترش رو تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی جاتی۔‘‘
    حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمہ وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل کرتا۔ اُمِ معبد بے ساختہ اپنی زبان میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی کر چکی تو اس کے شوہر نے مسحورکن انداز میں انتہائی عقیدت اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً یہی وہ شخص ہے قریش جس کی زندگی کے درپے ہیں۔ اگر میں انہیں پا لیتا تو ضرور ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرتا، اگر ممکن ہوا تو میں اب بھی انہیں ضرور پاؤں گا۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی نظر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے اقدس کی وجاہت اور بے پناہ حسن و جمال سے مبہوت ہو کر رہ جاتا لیکن جوں جوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش اور جاذبِ نظر شخصیت سے مسحور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہو جاتا۔ جسے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب کی نعمت میسر آتی وہ ہمیشہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گرویدہ ہو جاتا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی اِنتہائی شاق گزرتی۔
    ان روایات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک اور سراپائے مبارک کو خالقِ کائنات نے ہر قسم کے عیب اور نقص و سقم سے یکسر مبرّا و منزّہ تخلیق کیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کے دوران کسی حاسد کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انگشت نمائی کا حوصلہ نہ ہوا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن و جمال کو بیان کرنے کے لئے اہلِ قلب و نظر نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔ شاعروں نے خامہ فرسائی کی حد کر دی لیکن کوئی بھی اس مہبطِ حسن اِلٰہی کی رعنائیوں کا اِحاطہ نہ کر سکا اور بالآخر سب کو اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرنا پڑا۔ کسی نے یوں کہا :
    مصحفے را ورق ورق دیدم
    ہیچ سورت نہ مثل صورت اوست
    اور کسی کو یوں کہنا پڑا :
    حسنِ یوسف، دم عیسٰی، یدِ بیضا داری
    آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
    غالب جیسے قادرالکلام شاعر نے اپنی عجز بیانی کا اظہار یوں کیا :
    غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
    کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد (ص) است
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپائے اَقدس تناسبِ آعضاء کا بہترین شاہکار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسی و ظاہری پہلو حد درجہ دلکش اور جاذبِ نظر تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں مرکزِ نگاہ ہوتے تھے اور دیکھنے والی ہر آنکھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے انور کے حسن و جمال کی رعنائیوں میں کھوئی رہتی اور بیان کرنے والا جہاں بھی ہوتا اُسی حسن کے چرچے کرتا۔ آئندہ صفحات میں ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عمل کی اِتباع میں تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین اور متناسب اعضائے مبارکہ کا ذکر کریں گے۔

    2۔ چہرۂ اقدس . . . ماہِ تاباں

    حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔
    اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلیء قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
    قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
    ’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘
    القرآن، البقره، 2 : 144
    ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :
    وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO
    ’قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO‘‘
    القرآن، الضحٰی، 93 : 1 - 3
    ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
    والانسب بهذا المقام في تحقيق المرام أن يقال أن في الضحي إيماء إلي وجهه صلي الله عليه وآله وسلم کما أن في الليل أشعارا إلي شعره عليه الصلوة والسلام.
    ’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
    ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 82
    امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
    الضُّحٰی : بوجهها، و الليل : شعره.
    ’’ضحی سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔‘‘
    زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 8 : 444
    امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے سوال اُٹھاتے ہیں : کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ اور پھر خود ہی جواب مرحمت فرماتے ہیں :
    نعم، و لا إستبعاد فيه و منهم من زاد عليه، فقال : و الضُّحيٰ : ذکور أهل بيته، و الليل : أناثهم.
    ’’ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔‘‘
    رازي، التفسير الکبير، 31 : 209
    دیگر تفاسیر مثلاً ’تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘، ’تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ اور ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔

    اصحابِ رسول، اوراقِ قرآن اور چہرۂ انور

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چہرۂ انور کو کھلے ہوئے اوراقِ قرآن سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایامِ وصال میں یارِ باوفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا :
    کَاَنَّ وجهه ورقةُ مصحفٍ.
    ’’گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔‘‘
    1. بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 648
    2. مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419
    3. ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 1624
    4. نسائی، السنن الکبريٰ، 4 : 261، رقم : 7107
    5. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 110، 163، 196
    6. ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 6875
    7. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم : 9754
    8. ابويعلي، المسند، 6 : 250، رقم : 3548
    9. حميدي، المسند، 2 : 501، رقم : 1188
    10. ابوعوانه، المسند، 1 : 445، رقم : 1647
    11. بيهقی، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4875
    12. ابونعيم، المسند المستخرج، 2 : 43، رقم : 936
    13. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 216
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسی شعورِ جمال کو محدثِ کبیر امام عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
    و وجه التشبيه حسن الوجه وصفا البشرة وسطوع الجمال لما افيض عليه من مشاهدة جمال الذات.
    ’’چہرۂ انور کے حسن و جمال، ظاہری نظافت و پاکیزگی اور چمک دمک کا (قرآنِ مجید کے ورق سے) تشبیہ دینا اس وجہ سے ہے کہ یہی وہ روئے مقدس ہے جو جمالِ خُداوندی کے مشاہدہ سے فیض یاب ہوا۔‘‘
    مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 2 : 255
    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور اپنی صورت پذیری میں قرآنِ حکیم کے اوراق جیسی چمک دمک کا مظہرِاتم تھا کیونکہ یہی وہ روئے منور ہے جس نے اللہ رب العزت کے حسن و جمال کے مشاہدے سے فیض پایا۔
    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کو قرآن مجید کے ورق سے تشبیہ دینے کے حوالے سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
    عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.
     (جس طرح ورقِ مصحف کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے حسی اور معنوی نور پر مشتمل ہو کر دیگر تمام کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اسی طرح) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بھی اپنے) حسن و جمال، چہرہ انور کی نظافت و پاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں۔‘‘
    نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 179
    آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمال الہٰیہ کے عکس کا پرتو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس سراپا مظہریتِ حق کی شان کا حامل تھا اس لیے اس چہرۂ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :
    من رآني فقد رأي الحق، فإن الشيطٰن لا يتکونني.
    1. بخاري، الصحيح، 6 : 2568، کتاب التعبير، رقم : 6596
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 55
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 7 : 45
    ’’جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن الشيطان لا يستطيع أن يتشبه بي، فمن رآني في النوم فقد رآني.
    1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 361، 362
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 322، رقم : 393
    3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272
    ’’بیشک شیطان میری صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔‘‘
    امام نبہانی، امام احمد بن ادریس رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے حدیث مذکورہ کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
    من رآني فقد رآي الحق تعالٰي.
    نبهاني، جواهرالبحار، 3 : 63
    ’’جس نے مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق تعالیٰ کو دیکھا۔‘‘
    حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا، اس لئے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا۔
    حاجي امداد الله، شمائم امداديه، 49 : 50
    شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو جمالِ خُداوندی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
    اما وجہِ شریفِ ویا مراٰتِ جمالِ الٰہی است، و مظہرِ انوارِ نامتناہی وے بود.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور ربِ ذُوالجلال کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔‘‘
    محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 5

    روئے منور کی ضوء فشانیاں

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ تاباں کی ضوفشانی اللہ رب العزت کے انوار و تجلیات سے مستعار و مستنیر ہے جو آفتاب جہاں تاب کے مانند ہر سو جلوہ فگن ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے فیض یاب ہوتے تو ان کی آنکھوں میں نور اور سینوں میں ٹھنڈک بھر جاتی، ان کے دل اس حسن جہاں آراء کے جلوؤں سے کبھی بھی سیر نہ ہوتے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ پیکرِ حسن ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ آرا رہے اور وہ اس حسنِ سرمدی کے حیات آفریں چشمے سے زندگی کی خیرات حاصل کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی درخشانی و تابانی ہنگامی اور عارضی نہ تھی بلکہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے انوار کی رِم جھم جاری رہتی تھی۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں اس قدر دل آویزی اور کشش و جاذبیت رکھی تھی کہ ہر طالبِ دیدار ہمہ وقت تمنائی رہتا کہ روئے مقدس کو دیکھتا ہی چلا جائے اور وہ جلوہ گاہِ حسن کبھی اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو۔
    1۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجهاً و أحسنهم خلقاً.
    ’’حضور پُرنورا چہرۂ انور اور اپنے اخلاقِ حسنہ کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1330، کتاب المناقب، رقم : 3356
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2337
    3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 160
    2۔ سفرِ ہجرت جاری تھا، کاروانِ ہجرت اُمِ معبد کے پڑاؤ پر رُکا تو اُمِ معبد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئی اور تصویرِ حیرت بن گئی۔ وہ بے ساختہ پُکار اُٹھی :
    رأيت رجلا ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه.
    ’’میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی صفائی و پاکیزگی بہت صاف اور کھلی ہوئی ہے، چہرہ نہایت ہشاش بشاش ہے۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظاہری حُسن و جمال جو باوجود اس کے کہ کئی پردوں میں مستور تھا، دیکھ کر انسانی آنکھ حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتی اور کائنات کی جملہ رعنائیاں قدومِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار ہو ہو جاتیں۔
    3۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    مَا رَآيتُ شَيآ أحسن من رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کأنّ الشمس تجري في وجهه.
    ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر حسین و جمیل کسی اور کو نہیں پایا (یعنی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے روئے منور کی زیارت کرکے یوں محسوس ہوتا) گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور میں آفتابِ روشن محوِ خرام ہے۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 380، رقم : 8930
    2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 350، رقم : 8588
    3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 215، رقم : 6309
    4. ابن مبارک، کتاب الزهد، 1 : 288، رقم : 838
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
    6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 209
    7. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 151
    8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573
    4۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ربیع بنت معوذ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل پوچھے تو اُنہوں نے کہا :
    يا بني! لو رأيته رأيت الشمس طالعة.
    ’’اے میرے بیٹے! اگر تو ان کی زیارت کرتا تو (گویا حسن و جمال میں) طلوع ہوتے سورج کی زیارت کرتا۔‘‘
    1. دارمي، السنن، 1 : 44، رقم : 61
    2. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 116، رقم : 3335
    3. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 274، رقم : 696
    4. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 151، رقم : 1420
    5. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 200
    6. هيثمي، مجمع الزوائد : 8 : 280
    7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1838، رقم : 3336
    5۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا :
    آکَان وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف؟
    ’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور تلوار کی مانند تھا؟‘‘
    اُنہوں نے جواباً کہا :
    لا، بل مثل القمر.
    ’’نہیں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس تلوار کے مانند نہیں) بلکہ چاند کی طرح (چمکدار اور روشن) تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3636
    3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281
    4. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 64
    5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 198، رقم : 6287
    6. روياني، المسند، 1 : 224، 225، رقم : 310
    7. ابن جعد، المسند، 1 : 375، رقم : 2572
    8. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 10
    9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416، 417
    10. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 163
    11. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 152
    6۔ یہی سوال حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
    لا، بل کان مثل الشمس و القمر وکان مستديرا.
    ’’نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سورج اور چاند کی طرح (روشن) تھا اور گولائی لئے ہوئے تھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1823، کتاب الفضائل، رقم : 2344
    2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21037
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 235
    4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 147
    5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 224، رقم : 1926
    7۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
    کان في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تدوير.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور گول تھا (جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے)۔‘‘
    1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 39
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213
    یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے چہرۂ انور کو گول کہا توان کا مقصود چہرۂ انور کو محض چاند سے تشبیہ دینا تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ روئے منور بالکل گول نہ تھا اور نہ لمبا بلکہ اعتدال و توازن کا ایک شاہکار تھا۔
    شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
    مثل القمر المستدير هو أنور من السيف لکنه لم يکن مستديراً جداً، بل کان بين الإستدارة و الإستطالة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منورگولائی میں چاند کی طرح اور چمک دمک میں تلوار سے بڑھ کر تھا۔ لیکن چہرۂ اقدس نہ بالکل گول تھا اور نہ لمبا ہی تھا، بلکہ ان کے درمیان تھا (یعنی چہرۂ انور توازن و اعتدال کا عمدہ ترین نمونہ تھا)۔‘‘
    بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 25

    چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاند سے تشبیہ

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانی و ضوفشانی دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بے ساختہ اسے چاند سے تشبیہ دینے لگتے۔ جب وہ تاروں بھرے آسمان میں پورے چاند کو دیکھتے تو اس کے حسنِ شب تاب سے ان کی خوش نصیب نگاہیں بے اختیار چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اٹھ جاتیں، جس کے حسن عالم تاب نے تمام جہاں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔
    1۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    وَکَانَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا سُرّ استنار وجهه، حتي کأنه قطعة قَمَر، وکنا نعرف ذلک منه.
    ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور سے نُور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں، یوں لگتا جیسے چہرۂ اقدس چاند کا ٹکڑا ہو اور اس سے ہم جان لیتے (کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کے عالم میں ہیں)۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1305، کتاب المناقب، رقم : 3363
    2. بخاري، الصحيح، 4 : 1718، کتاب التفسير، رقم : 4400
    3. مسلم، الصحيح، 4 : 2127، کتاب التوبه، رقم : 2769
    4. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 360، رقم : 11232
    5. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 458، رقم : 27220
    6. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 424، رقم : 37007
    7. حاکم، المستدرک، 2 : 661، رقم : 4193
    8. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 55، 69، رقم : 95، 134
    9. ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 220
    10. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 197
    11. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 163، رقم : 251
    2۔ یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے زانوؤں پر سر رکھ کر استراحت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرہ انور کی قریب سے زیارت کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ فرماتے ہیں :
    کان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کدارة القمر.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور (چودھویں کے) چاند کے (حلقہ اور) دائرہ کی مانند (دکھائی دیتا) تھا۔‘‘
    1. ابن جوزي، الوفا : 412
    2. هندي، کنزالعمال، 7 : 162، رقم : 18526
    3۔ حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرخ چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت کرتا بالآخر دل بے اختیار ہو کر پُکار اُٹھا :
    فلهو عندي أحسن من القمر.
    ’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نزدیک چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
    2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 1 : 224
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196
    ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
    فنور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم ذاتي، لا ينفک عنه ساعة في الليالي و الأيام، و نور القمر مکتسب مستعار ينقص تارة ويخسف أخرٰي.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا نُور دن رات میں کبھی جدا نہیں ہوتا کیونکہ چاند کے برعکس یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذاتی وصف ہے، چاند کا نور تو سُورج سے مستعار ہے، اس لئے اس میں کمی بھی آجاتی ہے حتیٰ کہ کبھی تو بالکل بے نُور ہو جاتا ہے۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل علي الشمائل المحمديه، 1 : 56
    4۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روئے منور کے حوالے سے فرماتے ہیں :
    يتلألؤ وجهه تلألؤالقمر ليلة البدر.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور چودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتا تھا۔‘‘
    ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35، رقم : 8
    5۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
    و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجها و أنورهم لونا، لم يصفه واصف قط الا شبه وجهه بالقمر ليلة البدر، وکان عرقه في وجهه مثل اللؤلو.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑھ کر حسین و جمیل اور خوش منظر تھے۔ جس شخص نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف و ثناء کی اُس نے چہرۂ انور کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح (چمکتے) تھے۔‘‘
    1. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 312
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور کو چاند سے تشبیہ دینے کے حوالے سے ابن دحیہ کہتے ہیں :
    لآن القمر يؤنس کل من شاهده و يجْمَعُ النور من غير أذي حَرّ، و يتمکن من النظر إليه بخلاف الشمس التي تُعشي البصر فتمنع من الرؤية.
    صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 41
    ’’چونکہ چاند اپنے دیکھنے والے کو مانوس کرتا ہے، چاند سے روشنی کا حصول گرمی کے بغیر ہوتا ہے اور اُس پر نظر جمانا بھی ممکن ہوتا ہے، بخلاف سورج کے کہ اس کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور (کسی چیز کو) دیکھنے سے عاجز آ جاتی ہیں۔‘‘
    شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
    إنما آثر القمر بالذکردون الشمس لأنه صلي الله عليه وآله وسلم محا ظلمات الکفر کما أن القمر محا ظلمات الليل.
    ’’ (چہرۂ انور کو) سورج سے تشبیہ نہ دے کر چاندسے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر کی تاریکیوں کو اسی طرح دور کر دیا جس طرح چاند اندھیری رات کی تاریکیوں کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
    ابراهيم بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 19
    6۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
    ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دخل عليها مسروراً، تبرق أسارير وجهه.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاداں و فرحاں تھے، چہرۂ اقدس کے تمام خدو خال نُور کی طرح چمک رہے تھے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، باب صفة الانبياء، رقم : 3362
    2. مسلم، الصحيح، 2 : 1081، کتاب الرضاع، رقم : 1459
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 440، کتاب الولاء والهبة، رقم : 2129
    4. ابو داؤد، السنن، 2 : 280، کتاب الطلاق، رقم : 2267
    5. نسائي، السنن، 6 : 184، کتاب الطلاق، رقم : 3493
    6. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 82، رقم : 24570
    7. دارقطني، السنن، 4 : 240، رقم : 131
    8. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 447، رقم : 13833
    9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 265، رقم : 21061
    10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 63
    امام ابن اثیر رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    فی صفته عليه الصلوة والسلام : إذا سُر فکأنّ وجهه المرآة، وکأن الجدر تلاحک وجهه، أي يري شخص الجدر في وجهه صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں سے تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو روئے منور آئینے کی طرح (شفاف اور مجلا) ہو جاتا گویا کہ دیواروں کا عکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں صاف نظرآتا۔‘‘
    ابن اثير، النهايه، 4 : 238، 239
    7۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں حفصہ بنت رواحہ سے سوئی عاریتاً لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک وہ میرے ہاتھ سے گر گئی اور تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے :
    فتبينت الابرة من شعاع نور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے نکلنے والے نُور کی وجہ سے مجھے اپنی گم شدہ سوئی مل گئی۔‘‘
    1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 325
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 107

    چہرۂ مبارک . . . صداقت کا آئینہ

    حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں کہ اسلام کے دامنِ رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لئے آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔
    فلما استبنت وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عرفت أنّ وجهه ليس بوجه کذابٍ.
    ’’پس جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاچہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پُکار اُٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 652، ابواب صفة القيامه، رقم : 2485
    2. ابن ماجه، السنن، 1 : 423، کتاب اقامةالصلوة والسنه فيها، رقم : 1334
    3. حاکم، المستدرک، 3 : 14، رقم : 4283
    4. حاکم، المستدرک، 4 : 176، رقم : 7277
    5. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451
    6. دارمي، السنن، 1 : 405، رقم : 1460
    7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 502، رقم : 4422
    8. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 216، رقم : 3361
    9. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 248، رقم : 25740
    10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 235
    11. ابن عبدالبر، الدريه، 1 : 85
    12. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 4 : 118
    13. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 314
    حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو بمني أو بعرفات، وقد أطاف به الناس، قال : فتجئ الآعراب فإذا رأوا وجهه، قالوا : هذا وجهٌ مبارک.
    ’’میں منٰی یا عرفات کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ (بیکس پناہ) میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے لوگ جوق درجوق آ رہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔‘‘
    1. ابوداؤد، السنن، 2 : 144، کتاب الحج، رقم : 1742
    2. بخاري، الادب المفرد، 1 : 392، رقم : 1148
    3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 261، رقم : 3351
    4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 28، رقم : 8701
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 269

    سالارِ قافلہ کی بیوی کی شہادت

    طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافاتِ مدینہ میں پڑاؤ ڈالا، ہمارے قافلے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ اُس وقت تک ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے، آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارا سُرخ اُونٹ پسند آگیا، اُونٹ کے مالک سے سودا طے ہوا، لیکن اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رقم نہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سُرخ اُونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اہلِ قافلہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سُرخ اُونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اُونٹ ایک اجنبی کے حوالے کر دیا ہے، اگر اُونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہو گا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالارِ قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی :
    لاتلاوموا، فإني رأيت وجه رجل لم يکن ليحقرکم، ما رأيت شيئا أشبه بالقمر ليلة البدر من وجهه.
    ’’تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو، بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہہ نہیں دیکھا۔‘‘
    1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 518، رقم : 6562
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 668، رقم : 4219
    3. ابن اسحاق، السيرة، 4 : 216
    4. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 200
    5. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 649
    جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ’’میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد ہوں، یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کر لو۔‘‘ تو ہم نے خوب سیر ہو کر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کر لی۔

    3۔ سرِ انور

    سردارِ دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور مناسب حد تک بڑا اور حسنِ اِعتدال کے ساتھ وقار و تمکنت کا مظہرِ اتم دکھائی دیتا تھا۔ اس سے دیکھنے والے کے دل و دماغ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سردارِ قوم ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی وجاہت و عظمت کا دائمی تاثر قائم ہوتا۔
    1۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرآس.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ اقدس موزونیت کے ساتھ بڑا تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 204، کتاب المناقب، رقم : 3637
    2. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 89، 96، 101، 127
    3. بخاري، الادب المفرد : 445، باب الجفاء، رقم : 1315
    4. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 8
    5. حاکم، المستدرک، 2 : 662، رقم : 4194
    6. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 93، رقم : 152
    7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 149، رقم : 1414
    8. بزار، المسند، 2 : 118، 253، 256
    9. طيالسي، المسند، 1 : 24، رقم : 171
    10. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 350، 368، رقم : 731، 751
    11. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
    12. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221
    2۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عظيم الهامة.
    ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35، رقم : 8
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 217، رقم : 6311
    3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31807
    4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 116
    5. ابو يعلٰي، المسند، 1 : 187، 303، رقم : 217
    6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
    7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
    8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    9. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    سر کا غیر معمولی طور پر بڑا یا چھوٹا ہونا انسانی شخصیت کے ظاہری حسن کو عیب دار بنا دیتا ہے۔ جبکہ اعتدال و موزونیت کے ساتھ سر کا بڑا ہونا وقار و رعنائی، عقل و دانش اور فہم و بصیرت کی دلیل ہے۔ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
    عظم الرأس دليلٌ علي کمال القوٰي الدماغية، و هو آية النجابة.
    ’’سرِ (اقدس) کا بڑا ہونا دماغی قویٰ کے کامل ہونے کے ساتھ ساتھ سردارِ قوم ہونے کی بھی دلیل ہے۔‘‘
    بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 13
    اعتدال کے ساتھ سر کا بڑا ہونا قابلِ ستائش ہے جیسا کہ عبدالرؤف مناوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
    و عظم الرآس ممدوٌح لآنه آعون علي الإدراکات و الکمالات.
    ’’سر کا بڑا ہونا قابلِ ستائش ہوتا ہے، کیونکہ یہ اَمر (حقائق کی) معرفت اور کمالات کے لئے معین و مددگار ہوتا ہے۔‘‘
    مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 1 : 42

    4۔ موئے مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور پر مبارک بال نہایت حسین اور جاذب نظر تھے، جیسے ریشم کے سیاہ گچھے، نہ بالکل سیدھے اور نہ پوری طرح گھنگھریالے بلکہ نیم خمدار جیسے ہلالِ عید، اور ان میں بھی اِعتدال، توازُن اور تناسب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔
    اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلفوں کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا :
    وَ اللَّيْلِ اِذَا سَجٰیO
    ’’ (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔‘‘
    القرآن، الضحٰی، 93 : 2
    یہاں تشبیہ کے پیرائے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کا ذکر قسم کھا کر کیا گیا جو دراصل محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی قسم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور علیہ السلام سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی نگاہیں ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا طواف کرتی رہتیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خمدار زلفوں کے اسیر تھے اور اکثر اپنی محفلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبریں کا تذکرہ والہانہ انداز سے کیا کرتے تھے۔
    1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان شعرالنبي صلي الله عليه وآله وسلم رجلا، لا جعْدَ و لا سبط.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں نہ تو مکمل طور پر خمدار تھیں اور نہ بالکل سیدھی اکڑی ہوئی بلکہ درمیانی نوعیت کی تھیں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5566
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
    4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 220
    2۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو اُن کی لمبائی کے پیمائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز سے بیان کیا ہے۔ اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی لمۃ (چھوٹی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے، جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    ما رأيت من ذي لمة آحسن في حلة حمراء من رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ، شعره يضرب منکبه.
    ’’میں نے کانوں کی لو سے نیچے لٹکتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
    2. بخاري، الصحيح، 5 : 2211، کتاب اللباس، رقم : 5561
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
    4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب الفضائل، رقم : 3635
    5. ابوداؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
    6. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
    7. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
    8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 223
    9. ابن حبان اصبهاني، اخلاق النبيا، 4 : 277، رقم : 4
    3۔ کتبِ حدیث میں درج ہے کہ ایک دفعہ ابو رمثہ تمیمی رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، بعد میں اُنہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبرین کا تذکرہ یوں کیا :
    وله لمة بهما ردع من حناء.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 163
    2. ابن حبان، الصحيح، 13 : 337، رقم : 5995
    3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9328
    4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 279، رقم : 716
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 438
    4۔ صحیح بخاری کی روایت میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ سیاہ کے حسن و جمال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    له شعر يبلغ شحمة اليسري، رأيته في حلة حمرآء لم آر شيئًا قط أحسن منه.
    ’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں کی لو تک نیچے لٹکتی رہتیں، میں نے سرخ جبہ میں حضور اسے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘
    بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3358
    5۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے :
    و کان له شعر فوق الجُمّة و دون الوفرة.
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 233، ابواب اللباس، رقم : 1755
    2. ابوداؤد، السنن، 4 : 82، کتاب الترجل، رقم : 4187
    ابوداؤد کی عبارت میں فوق الوفرۃ و دون الجمۃ کے الفاظ ہیں۔
    6۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معنبر زلفیں قدرے بڑھ جاتیں اور کانوں کی لوؤں سے تجاوز کرنے لگتیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی وفرۃ (لٹکتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہنے لگتے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کا حسین تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی زلفِ مشکبار کا تذکرہ یوں کیا :
    کان نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذو وفرة.
    ’’حضور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔‘‘
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 149
    7۔ اگر شبانہ روز مصروفیات کے باعث بال مبارک نہ ترشوانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں بڑھ کر مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فرطِ محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی جمۃ (کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے۔
    حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مربوعاً بعيد ما بين المنکبين، وکانت جمته تضرب شحمة آذنيه.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کانوں کی لو کو چھوتی تھیں۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 48، رقم : 26
    2. ابن قيم، زاد المعاد، 1 : 177
    3. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 572
    8۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :
    ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يضرب شعره منکبيه.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کاندھوں کو چوم رہی ہوتی تھیں۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
    2. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3358
    3. ابو داؤد، السنن، 4 : 19، کتاب اللباس، رقم : 4072
    4. نسائي، السنن، 8 : 134، کتاب الزينه، رقم : 5233
    9۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے مبارک کا ذکر محبت بھرے انداز میں کمالِ وارفتگی کے ساتھ کرتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنبر بار زلفوں کا ذکر کرتے ہوئے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن الشعر.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔‘‘
    1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 317
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217
    10۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    رجل الشعر إن انفرقت عقيقته‘ فرقها و إلا فلا يجاوز شعرة شحمة آذنيه إذا هو و فره.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک خمیدہ تھے، اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ بسہولت نکل آتی تو نکال لیتے تھے ورنہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
    2. جلي، السيرة الحلبيه، 3 : 435
    3. ابن حبان بستي، الثقات، 2 : 145
    4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 15، رقم : 414
    11۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم شديد سواد الرأس واللحية.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سرِ انور کے بال گہرے سیاہ رنگ کے تھے۔‘‘
    1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 17
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 418
    12۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرائشِ گیسو کے مبارک معمول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسدل ناصيته سدل آهل الکتاب، ثم فرق بعد ذلک فرق العرب.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشانی آقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے پیچھے ہٹا دیتے تھے جیسا کہ اہلِ کتاب کرتے ہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہلِ عرب نکالا کرتے۔‘‘
    1. ابن حبان بستي، الثقات، 7 : 34، رقم : 8879
    2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 437، رقم : 4545

    5۔ جبینِ پُرنور

    تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی فراخ، کشادہ، روشن اور چمکدار تھی جس پر ہر وقت خوشی و اطمینان اور سرور و مسرت کی کیفیت آشکار رہتی۔ جو کوئی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر نظر ڈالتا تو اُس پر موجود خاص چمک دمک اور تابانی دیکھ کر مسرور ہو جاتا، اُس کا دل یک گونہ سکون اوراطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جاتا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشادہ اور پر نور پیشانی مبارک ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی انور پر کبھی بھی اُکتاہٹ اور بیزاری کی کیفیت نہیں دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پھولوں کی طرح تر و تازہ اور ماہِ تاباں کی طرح روشن و آبدار تھی، جس پر کبھی شکن نظر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے لئے آنے والوں سے اِس قدر خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے نقوش مخاطبین کے دلوں پر نقش ہو جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے موانست، چاہت اور اپنائیت کا اِحساس لے کر لوٹتے۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم واسع الجبين.
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشادہ پیشانی والے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
    2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
    3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    5. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، 155، رقم : 1430
    6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
    2۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوصافِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے تو کہتے :
    کان مفاض الجبين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کشادہ تھی۔‘‘
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
    2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
    3۔ کتب سیر و تاریخ میں ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی خبر دی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے خصوصاً سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا :
    الصلت الجبين.
    ’’ (وہ نبي) کشادہ پیشانی والے ہیں۔‘‘
    1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 345
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 378
    3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 78
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 62
    4۔ حافظ ابن ابی خیثمہ بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجلي الجبين، إذا طلع جبينه من بين الشعر أو طلع من فلق الشعر أو عند الليل أو طلع بوجهه علي الناس، تراء ي جبينه کأنه السراج المتوقد يتلألآ، کانوا يقولون هو صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی روشن تھی۔ جب موئے مبارک سے پیشانی ظاہر ہوتی، یا دن کے وقت ظاہر ہوتی، یا رات کے وقت دکھائی دیتی یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے تشریف لاتے تو اُس وقت جبینِ انور یوں نظر آتی جیسے روشن چراغ ہو جو چمک رہا ہو۔ یہ حسین اور دلکش منظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
    1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
    2. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 202
    5۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا ایک دن چرخہ کات رہی تھیں اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پاپوش مبارک کو پیوند لگا رہے تھے۔ اس حسین منظر کے حوالے سے آپ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں :
    فجعل جبينه‘ يعرق، و جعل عرقه يتولد نوراً، فبهت، فنظر إليّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : ما لک يا عائشة بهت؟ قلت : جعل جبين يعرق، وجعل عرقک يتولد نوراً، و لو رآ ک آبو کبير الهذلي لعلم آنک آحق بشعر.
    ’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر پسینہ آیا، اُس پسینہ کے قطروں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھی، میں اُس حسین منظر کو دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : عائشہ ! تجھے کیا ہوگیا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے ہیں جن سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر ابوکبیر ھذلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس کیفیت کا مشاہدہ کرلیتا تو وہ جان لیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں۔‘‘
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی گفتگو سنی تو از رہِ استفسار فرمایا کہ ابوکبیر ھذلی نے کونسا شعر کہا ہے؟ اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے یہ شعر پڑھا :
    فإذا نظرتُ إلي أسرة وجهه
    برقت کبرق العارض المتهلل
    (جب میں نے اُس کے رخِ روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی یوں چمکی جیسے برستے بادل میں بجلی کوند جائے۔)
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
    شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن پیشانی کا لفظی مرقع اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے :
    متی يبد في الداجي البهيم جبينه
    يلح مثل مصباح الدجي المتوقد
     (رات کی تاریکی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔)
    1. حسان بن ثابت، ديوان : 67
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 422، رقم : 15204
    3. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 149
    4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21

    6۔ اَبرو مبارک

    حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک گہرے سیاہ، گنجان اور کمان کی طرح خمیدہ و باریک تھے۔ دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ چھپی رہتی لیکن جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ اور جلال کی کیفیت میں ہوتے تو وہ رگ اُبھر کر نمایاں ہو جاتی جسے دیکھ کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جان لیتے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہیں۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أزج الحواجب سوابغ في غير قرن، بينهما عرق يدره الغضب.
     ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک (کمان کی طرح) خمدار، باریک اورگنجان تھے۔ ابرو مبارک جدا جدا تھے اور دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 2، رقم : 8
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
    4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35 : 24
    5. ابن جوزي، الوفا : 392
    2۔ باریک ابروؤں کے بارے میں ایک اور روایت یوں ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دقيق الحاجبين.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک نہایت باریک تھے۔‘‘
    1. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 74
    2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ابروؤں کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا، اس کا اندازہ روئے منور کو بغور دیکھنے سے ہی ہوتا تھا ورنہ عام حالت میں یوں لگتا تھا کہ اُن کے درمیان سرے سے کوئی فاصلہ ہی نہیں۔ جیساکہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مقرون الحاجبين.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابرو مقدس آپس میں متصل تھے۔‘‘
    1. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 245
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
    3. حاکم، المستدرک، 3 : 391، رقم : 5484
    4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 22
    بادی النظر میں مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں تعارض محسوس ہوتا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ ابرو مبارک ملے ہوئے نہ تھے جبکہ دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ ابرو مبارک ملے ہوئے تھے۔ ائمہ نے ان دونوں روایات کے درمیان تطبیق یوں کی ہے :
    الفرجة التي کانت بين حاجبيه يسيرة، لا تبين إلا لمن دقق النظر.
    ’’دونوں ابروؤں کے درمیان اتنا کم فاصلہ تھا جو صرف بغور دیکھنے سے محسوس ہوتا تھا۔‘‘
    حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 323

    7۔ چشمانِ مقدسہ

    اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی وجیہ، خوبصورت اورروشن چہرۂ اقدس عطا فرمایا تھا۔ اس چہرۂ انور کی رعنائی و زیبائی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت اور فراخ آنکھیں چار چاند لگا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں پُرکشش جاذبِ نظر اورحسن و زیبائی کا بے مثال مرقع تھیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں خوب سیاہ، کشادہ، خوب صورت اور پُرکشش تھیں۔
    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان أدعج العينين.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں کشادہ اور سیاہ تھیں۔‘‘
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 410
    3. بيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272
    2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں گہری سیاہ، دراز اور گھنی تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان أهدب أشفار العينين.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں نہایت دراز تھیں۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 414
    2. مناوي، فيض القدير، 5 : 74
    3۔ قافلۂ ہجرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پڑاؤ پر پہنچا تو وہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر تصویرِ حیرت بن گئیں، حسنِ مصطفی کی منظر کشی کرتے ہوئے وہ فرماتی ہیں :
    فی أشفاره وطف.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز ہیں۔‘‘
    1. حسان بن ثابت، ديوان : 58
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279
    5. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 179
    6. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
    7. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 23
    4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کے اندر پتلی مبارک نہایت سیاہ تھی، اُن میں کسی اور رنگ کی جھلک نہ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    وکان أسود الحدقة.
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
    2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 16
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 32
    4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
    ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پتلی نہایت ہی سیاہ تھی۔‘‘
    5۔ پتلی کے علاوہ آنکھوں کا بقیہ حصہ سفید تھا مگر اُس میں سرخی ہم آمیز یعنی گھلی ہوئی نظر آتی تھی، یوں لگتا تھا کہ اس میں ہلکا سا سرخ رنگ کسی نے گھول کر ملا دیا ہے اور دیکھنے والے کو وہ سرخ ڈورے دکھائی دیتے تھے۔
    حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أشکل العينين.
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3647
    2. مسلم، الصحيح، 2 : 258، کتاب الفضائل، رقم : 2339
    3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کے سفید حصے میں سرخ رنگ کے ڈورے دکھائی دیتے تھے۔‘‘
    6۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں قدرتی طور پرسرمگیں تھیں اور جو ان چشمانِ مقدسہ کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔
    حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کنتُ إذا نظرتُ إليه، قلتُ : أکحل العينين وليس بأکحل.
    ’’میں جب بھی آقا اکی چشمانِ مقدسہ کا نظارہ کرتا تو اُن میں سرمہ لگا ہونے کا گمان ہوتا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت سرمہ نہ لگایا ہوتا۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3645
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 186
    3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97
    4. ابن جوزي، الوفا : 393
    7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہماسے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب نے فرمایا :
    کان الصبيان يصبحون رُمصاً شعثا، و يصبح رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، دهيناً کحيلاً.
    ’’عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال الجھے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 120
    2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 283
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 141
    4. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 189
    5. ملا علی قاری، جمع الوسائل، 1 : 31
    8۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت آنکھیں بڑی حیادار تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کی طرف آنکھ بھر کر تکتے ہوئے نہ دیکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں غایت درجہ شرم و حیاء کی وجہ سے زمین کی طرف جھکی رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکثر گوشۂ چشم سے دیکھنے کی عادت تھی، جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے :
    خافض الطرف، نظره إلي الآرض آکثر من نظره إلي السماء.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 38، رقم : 8
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
    4. سيوطی، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
    گوشۂ چشم سے دیکھنا کمال شفقت و الفت کا انداز لئے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں بغایت درجہ شرم و حیاء پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا مگر جب کبھی اللہ رب العزت کا پیغام آتا اور نزولِ وحی کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نظریں آسمان کی طرف اُٹھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلٹ پلٹ کر آسمان کی طرف نگاہ کرتے جیسے تبدیلیء قبلہ کا حکم نازل ہوا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرۂ انور کو بار بار اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کیفیت کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا :
    قَدْ نَريٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَآءِ.
    القرآن، البقره، 2 : 144
    ’’ (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    8۔ بصارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر معمولی کمال

    اللہ رب العزت نے انسان کو کائناتِ خارجی کے مشاہدے کے لئے بصارت اور کائناتِ داخلی کے مشاہدے کے لئے بصیرت عطا فرمائی۔ مؤخر الذکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی بصیرت کہہ کر نورِ خدا قرار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
    إتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور اﷲ.
    ’’مردِ مومن کی فراست (اور بصیرت) سے ڈرا کرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 298، ابواب التفسير، رقم : 3127
    2. بخاري، التاريخ الکبير، 7 : 354، رقم : 1529
    3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 387، رقم : 663
    4. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 312، رقم : 3254
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 268
    6. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 46
    7. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 10 : 43
    8. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 326
    9. ابونعيم، حلية الأولياء، 6 : 118
    10. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 233
    جب ایک مردِ مومن کی بصیرت کا یہ عالم ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ رب العزت کے محبوب و مقرب بندے اور رسول ہیں ان کی بصیرت کی ہمہ گیر وسعتوں اور رفعتوں کا عالم کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا کسی بھی فردِ بشر کے بس کی بات نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باطنی بصیرت اور ظاہری بصارت دونوں خوبیاں بڑی فیاضی اور فراخدلی سے عطا کی گئیں۔ عام انسانوں کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیچھے بھی دیکھنے پر قدرت رکھتے تھے اور رات کی تاریکی میں دیکھنا بھی آپ کے لئے ممکن تھا۔
    1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    هل ترون قبلتي هاهنا؟ فو اﷲ! ما يخفي عليّ خشو عکم و لا رکوعکم، إني لأرا کم من وراء ظهري.
    ’’تم میرا چہرہ قبلہ کی طرف دیکھتے ہو؟ خدا کی قسم! تمہارے خشوع (وخضوع) اور رکوع مجھ سے پوشیدہ نہیں، میں تم کو اپنے پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 161، کتاب المساجد، رقم : 408
    2. مسلم، الصحيح، 1 : 319، کتاب الصلوة، رقم : 424
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 73
    4. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 386
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
    6. ابن جوزي، الوفاء : 349، رقم : 508
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    أيها الناس! إني إمامکم فلا تسبقوني بالرکوع و لا بالسجود، ولا بالقيام ولا بالا نصراف فإني أراکم أمامي و من خلفي.
    ’’اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں، تم رکوع، سجود، قیام اور نماز ختم کرنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کرو، میں تمہیں اپنے سا منے اور پچھلی طرف (یکساں) دیکھتا ہوں۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 1 : 180، کتاب الصلوة، رقم : 426
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 125
    3. ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 107، رقم : 1716
    3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يري باليل في الظلمة کما يري بالنهار من الضوء.
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں بھی اسی طرح دیکھتے تھے جیسے دن کی روشنی میں۔‘‘
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 75
    2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 272
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
    4. حلبي، انسان العيون، 3 : 386
    5. ابن جوزي، الوفا : 349، رقم : 510
    4۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    أني أرَي ما لا ترون.
    ’’میں وہ سب کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 556، ابواب الزهد، رقم : 2312
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 510
    3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 173
    4. بزار، المسند، 9 : 358
    5. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 58
    6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 52، رقم : 13115
    7. شعب الايمان، 1 : 484، رقم : 783
    8. ابن کثير، البدايه والنهايه 9، 1 : 42
    9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
    5۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
    إن اﷲ زوي لِيَ الأرض، فرأيتُ مشارقها و مغاربها.
    ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے شرق و غرب کو دیکھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 2215، کتاب الفتن و اشراط الساعة، رقم : 2889
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 472، ابواب الفتن، رقم : 2176
    3. ابوداؤد، السنن، 4 : 97، کتاب الفتن والملاحم، رقم : 4252
    4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 278، رقم : 22448
    5. ابن حبان، الصحيح، 16 : 221، رقم : 7238
    6. ابن ابي شيبه، المصنف، 11 : 458، رقم : 11740
    6۔ حضرت عمر صسے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن اﷲ قد رفع لي الدنيا، فأنا أنظر إليها و إلي ما هو کائن فيها إلي يوم القيامة، کأنما آنظر إلي کفي هذه.
    ’’بیشک اللہ نے میرے لئے دنیا اٹھا کر میرے سامنے کردی۔ پس میں دنیا میں جو واقع ہو رہا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اُسے یوں دیکھ رہا ہوں جیسے میں اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
    1. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 287
    2. نعيم بن حماد، السنن، 1 : 27
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 185
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 7 : 204
    7۔ حضرت عقبہ بن عامر صسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
    إن موعدکم الحوض، و إني لأنظر إليه من مقامي هذا.
    ’’بیشک (میرے ساتھ) تمہاری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اُسے یہاں اِس مقام سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 4 : 1486، کتاب المغازي، رقم : 3816
    2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 154
    3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 679
    8۔ حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :
    ما من شئي کنت لم آره إلا قد رأيته في مقامي هذا، حتي الجنة والنار.
    ’’کوئی ایسی شے نہیں جو میں نے نہیں دیکھی مگر اس مقام پر دیکھ لی یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کو بھی)۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 79، کتاب الوضوء، رقم : 182
    2. مسلم، الصحيح، 2 : 624، کتاب الکسوف، رقم : 905
    3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 383، رقم : 3114
    4. ابوعوانه، المسند، 1 : 151
    5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 338، رقم : 6153
    9۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی بصارت کی گہرائی اور گیرائی کا یہ عالم تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو عرشِ معلٰی سے تحت الثریٰ تک ساری کائنات بے حجاب ہو کر نظر کے سامنے آجاتی۔ قرآن اس بات پر شاہد عادل ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کے لئے عرض کی کہ ’’رَبِّ آرِنِی (اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا)‘‘ تو باری تعالیٰ نے اپنی صفاتی تجلی کوہِ طور پر پھینکی جس کے نتیجے میں کوہِ طور جل کر خاکستر ہوگیا اور آپ علیہ السلام غش کھا کر گرگئے۔ یہ بے ہوشی کا عالم سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر 40 دن تک طاری رہا اور جب چالیس دن کی بیہوشی سے افاقہ ہوا تو اُس صفاتی تجلی کے انعکاس کی وجہ سے اُن کی بصارت کی دور بینی کا عالم یہ تھا کہ آپ تیس تیس میل کے فاصلے پر سے کالے رنگ کے پتھر میں سیاہ رات کے اندر چیونٹی کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔
    قاضي عياض، الشفاء، 1 : 43
    جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو اللہ تعالی کی صفاتی تجلی کے اِنعکاس سے اتنی بصارت مل سکتی ہے تو وہ ہستی جس نے تجلیاتِ الٰہیہ کا براہِ راست مشاہدہ کیا اُن کی چشمانِ مقدس کی بصارت کا کیا عالم ہوگا! شبِ معراج چشمانِ مصطفوی اللہ کی تجلیات کو نہ صرف دیکھتی رہیں بلکہ انہیں اپنے اندر جذب بھی کرتی رہیں۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغيٰO
    نہ نگاہ جھپکی نہ حد سے بڑھیo
    القرآن، النجم، 53 : 17
    حضور علیہ السلام نے خود فرمایا :
    رأيتُ ربي في آحسن صورة . . . فوضع يده بين کتفي فوجدتُ بردها بين يدي، فتجلّي لي کل شيء، و عَرَفْتُ.
    ’’میں نے اللہ رب العزت کو (اس کی شان کے مطابق) خوبصورت شکل میں دیکھا، اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے (اللہ کے دستِ قدرت کا فیض) ٹھنڈک (کی صورت میں) اپنے سینے کے اندر محسوس کیا جس کے بعد ہر شے میرے سامنے عیاں ہو گئی۔‘‘
    ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 367، ابواب التفسير، رقم : 3234
    10۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :
    فعلمت مَا في السمٰوٰت والارضِ.
    ’’پس میں نے آسمانوں اور زمین کی ہر شے کو جان لیا۔‘‘
    1. جامع الترمذي، 5 : 366، رقم : 3233
    2. دارمي، السنن، 2 : 51، رقم : 2155
    3. ابويعلي، المسند، 4 : 475، رقم : 2608
    4. ابن عبدالبر، التمهيد، 24 : 323، رقم : 918
    5. خطيب بغدادي، مشکوة المصابيح، 69 - 70

    9۔ ناک مبارک

    تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک کمال درجہ قوتِ شامہ کی حامل اور نکہتوں کی امین تھی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بینی مبارک زیادہ بلند نہ تھی لیکن دیکھنے والوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ قدرے اُونچی دکھائی دیتی تھی۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مائل بہ بلندی تھی۔ وہ درمیان میں قدرے بلند اور باریک تھی، موٹی اور بھدی نہ تھی، طوالت میں اِعتدال پسندی کی مثال تھی، موزونیت اور تناسب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی صناعِ ازل کا شاہکار دکھائی دیتی تھی۔
    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دقيق العرنين.
    1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
    2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بینی مبارک حسن اور تناسب کے ساتھ باریک تھی۔‘‘
    2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی چمک دمک اور آب و تاب سے نوازا تھا کہ اُس سے ہر وقت نور پھوٹتا تھا۔ اُسی چمک کا نتیجہ تھا کہ ناک مبارک بلند دکھائی دیتی تھی لیکن جو شخص غور سے دیکھتا تو وہ کہتا کہ مائل بہ بلندی ہے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أقني العرنين، له نورٌ يعلوه، يحسبه من لم يتأمله أشم.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک اونچی تھی جس سے نور کی شعاعیں پھوٹتی رہتی تھیں، جو شخص بینی مبارک کو غور سے نہ دیکھتا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا (حالانکہ ایسا نہیں تھا)۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17، 31
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130

    10۔ رُخسارِ روشن

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخسار نہ زیادہ اُبھرے ہوئے تھے اور نہ اندر کی طرف دھنسے ہوئے، بلکہ اِعتدال و توازن کا دلکش نمونہ تھے۔ سرخی مائل سفید کہ گلاب کے پھولوں کو بھی دیکھ کر پسینہ آ جائے، چمک ایسی کہ چاند بھی شرما جائے، گداز ایسا کہ شبنم بھی پانی بھرتی دکھائی دے، نرماہٹ ایسی کہ کلیوں کو بھی حجاب آئے۔ رخسار مبارک دیکھنے والے کو ہموار نظر آتے تھے مگر غیر موزوں اِرتفاع کا کہیں نشان تک نہ تھا۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سهل الخدين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک ہموار تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 90
    3. طبري، الکامل في التاريخ، 2 : 221
    4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
    5. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17
    6. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
    7. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 436
    یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ’الخد الآسیل‘ (2) کے الفاظ آئے ہیں، ’سہل‘ اور’ آسیل‘ کے فرق کے حوالے سے شیخ محمد بن یوسف صالحی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
    1. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 19
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 127
    ليس في خديه نتوء و إرتفاع، و قيل : أراد أن خديه صلي الله عليه وآله وسلم أسيلان قليل اللحم رقيق الجلد.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک میں غیر موزوں ارتفاع نہ تھا، اور کہا جاتا ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخسار مبارک ’اسیلان‘ تھے یعنی اُن پر گوشت کم اور اُن کی جلد نرم تھی۔
    1. صالحي، سبل الهديٰ و الرشاد، 2 : 29
    2. ابن کثير، شمائل الرسول : 42
    2۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ أبيض الخد.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک نہایت ہی چمکدار تھے۔‘‘
    صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29
    3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض الخدين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سفید رنگ کے تھے۔‘‘
    صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29

    11۔ لبِ اقدس

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک سرخی مائل تھے، لطافت و نزاکت اور رعنائی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھے۔
    1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب کی لطافت و شگفتگی کے حوالے سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن عباد اﷲ شفتين وألطفهم ختم فم.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب اللہ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے اور بوقتِ سکوت نہایت ہی شگفتہ و لطیف محسوس ہوتے۔‘‘
    1. نبهاني، الانوار المحمديه : 200
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 303
    3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 203
    2۔ لب مبارک وا ہوتے تو دہن پھول برساتا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان في کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ترتيل أو ترسيل.
    ’’آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی گفتگو میں ایک نظم اور ٹھہراؤ ہوتا۔‘‘
    1. ابوداؤ، السنن، 4 : 281، کتاب الادب، رقم : 4838
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 300، رقم : 26294
    3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 207، رقم : 5550
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 375
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 375
    3۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے، کلام بڑا واضح ہوتا جس میں کوئی اِبہام اور اُلجھاؤ نہ ہوتا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
    آن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحدث حديثا، لوعدّه العاد لأحصاه.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس قدر ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے کہ اگر کوئی شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1307، کتاب المناقب، رقم : 3374
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 2493
    3. حميدي، المسند، 1 : 120، رقم : 247
    4. ابن جوزي، الوفا، 2 : 454
    حضرت اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے :
     (کلامه) فصلٌ لا نزر و لا هذر.
    ’’گفتگو نہایت فصیح و بلیغ ہوتی، اس میں کمی بیشی نہ ہوتی۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    2. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 49، رقم : 3605
    3. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4674
    4. ابن کثير، شمائل الرسول : 46
    5. صيبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 779

    12۔ دہن مبارک

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضليع الفم.
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہنِ مبارک فراخ تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب المناقب، رقم : 3647
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب لمناقب، رقم : 3646
    3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97، رقم : 20952
    4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
    5. طيالسي، المسند، 1 : 104، رقم : 765
    6. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1904
    7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
    8. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 22
    9. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    دہنِ اقدس چہرۂ انور کے حسن و جمال کو دوبالا کرتا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے جو کلمہ ادا ہوتا حق ہوتا، حق کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ یہ علم و حکمت کا چشمۂ آبِ رواں تھا جس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا :
    وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیO
    ’اور وہ اپنی (یعنی نفس کی) خواہش سے بات ہی نہیں کرتےo وہ تو وہی فرماتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے) اُن پر وحی ہوتی ہےo‘‘
    القرآن، النجم، 53 : 3، 4
    غصہ کی حالت میں بھی دہنِ اقدس سے کلمۂ حق ہی ادا ہوتا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو حیطۂ تحریر میں لے آیا کرتے تھے کیونکہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُن سے فرمایا تھا :
    أکتب، فوالذي نفسي بيده! ما يخرج منه إلاحق.
    ’’لکھو (جو بات میرے منہ سے نکلتی ہے)، اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘
    1. ابوداؤد، السنن، 3 : 315، کتاب العلم، رقم : 3646
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 313، رقم : 26428
    3. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 415، رقم : 756
    4. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 207
    5. حسن رامهرهزي، المحدث الفاصل، 1 : 366
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، اللہ کا فرمان، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نطق، نطقِ اِلٰہی، جس میں خواہشِ نفس کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کبھی کبھی دل لگی بھی فرما لیا کرتے تھے۔ خوش کلامی، مزاح اور خوش مزاجی کے جواہر سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو مزین ہوتی لیکن اُس خوش طبعی، خوش مزاجی یا خوش کلامی میں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا، مزاح اور دل لگی میں بھی جو فرماتے حق فرماتے۔

    13۔ دندانِ اقدس

    تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک باریک اور چمکدار تھے، سامنے کے دندان مبارک کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا۔ تبسم فرماتے تو یوں لگتا کہ دندان مبارک سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے تو دانتوں کی باریک ریخوں سے اس طرح نور کی شعاعیں نکلتیں کہ در و دیوار چمک اُٹھتے۔
    1۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أفلج الثنيتين، إذا تکلم رئي کالنور يخرج من بين ثناياه.
    1. دارمي، السنن، 1 : 44، باب في حسن النبيا، رقم : 58
    2. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 235، رقم : 767
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتیں۔‘‘
    2۔ مسکراتے تو جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں، چہرۂ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا :
    إذا افترّ ضاحکاً إفترّ عن مثلَ سَنَا البرق و عن مثل حبّ الغمام، إذا تکلّم رئی کالنور يخرج من ثناياه.
    ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے، جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔‘‘
    1. قاضي عياض، الشفا، 1 : 39
    2. سيوطي، الخصائص الکبري، 1 : 131
    3. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 185، رقم : 226
    3۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ نے دندان مبارک کی خوبصورتی اور چمک کا نقشہ اِن الفاظ میں کھینچا ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يفْتِرُ عن مثل حب الغمام.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت تبسم کی حالت میں اولوں کے دانوں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 423
    2. ابن جوزی، الوفا : 395
    3. ابن کثير، البدايه والنهايه، (السيرة)، 6 : 32
    4۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    مبلّج الثنايا و في رواية عنه بَرّاق الثنايا.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک بہت چمکدار تھے۔‘‘
    1. نبهاني، الانوار المحمديه : 199
    2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 18
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 129
    5۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک کا مسوڑھوں میں جڑاؤ اور جماؤ نہایت حسین تھا، جیسے انگوٹھی میں کوئی ہیرا ایک خاص تناسب کے ساتھ جڑ دیا گیا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن الثغر.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام دانت مبارک نہایت خوبصورت تھے۔‘‘
    1. بخاري، الادب المفرد، 1 : 395، رقم : 1155
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
    3. حلبي، انسان العيون، 3 : 436
    4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 30
    امام بوصیری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دندان مبارک کو چمکدار موتی سے تشبیہ دی ہے :
    کأنّما اللّؤلؤ المکنون فی صدفٍ
    من معدنی منطق منه و مبتسم
    (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک اس خوبصورت چمکدار موتی کی طرح ہیں جو ابھی سیپ سے باہر نہیں نکلا۔)

    14۔ زبان مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان حق و صداقت کی آئینہ دار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حق ترجمان کا اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا۔ جب نزولِ وحی ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے جلدی جلدی محفوظ کرنے کے آرزو مند ہوتے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
    لَا تُحَرِّکْ بِه لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهO
    (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیںo‘‘
    القرآن، القيامه، 75 : 16
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان فضول اور لایعنی باتوں سے پاک تھی، اس لئے کہ زبانِ اقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ وحیِ الٰہی تھا جس میں سرے سے غلطی اور خطا کا کوئی اِمکان ہی نہیں تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰيO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰيO
    ’’اور وہ اپنی (یعنی نفس کی) خواہش سے بات ہی نہیں کرتےo وہ تو وہی فرماتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے) اُن پر وحی ہوتی ہےo‘‘
    القرآن، النجم، 53 : 3، 4
    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخزن لسانه إلا فيما يعنيه.
    ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبانِ اقدس کو لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے۔‘‘
    1ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 277، باب ما جاء في تواضع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 337
    2. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 158
    3. ابن قيم، زاد المعاد، 1 : 182

    15۔ آواز مبارک

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آواز دلآویزی اور حلاوت کی چاشنی لئے ہوئے حسنِ صوت کا کامل نمونہ تھی۔ لہجہ انتہائی دلکش، باوقار اور بارعب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر یوں گفتگو فرماتے کہ بات دل میں اتر جاتی اور مخاطب دوبارہ سننے کی خواہش کرتا۔
    1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    ما بعث اﷲ نبياً قط إلا بعثه حسن الوجه، حسن الصوت، حتي بعث نبيکم صلي الله عليه وآله وسلم ، فبعثه حسن الوجه حسن الصوت.
    ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس بھی نبی کو مبعوث فرمایا خوبصورت چہرہ اور خوبصورت آواز دے کر مبعوث فرمایا حتیٰ کہ تمہارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو انہیں بھی خوبصورت چہرے اور خوبصورت آواز کے ساتھ مبعوث فرمایا۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 376
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 261، رقم : 321
    3. ابن کثير، البديه والنهايه، 6 : 286
    4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124
    5. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 434
    2۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نمازِ عشا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
    سمعتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقرأ ﴿وَالتِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ﴾ في العشاء، و ما سمعتُ أحداً أحسن صوتاً منه أو قراءةً.
    ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمازِ عشاء میں سورۃ التین کی تلاوت فرماتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوش الحان اور اچھی قرآۃ والا نہیں پایا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 266، کتاب الاذان، رقم : 735
    2. مسلم، الصحيح، 1 : 339، کتاب الصلوٰة، رقم : 464
    3. ابن ماجه، السنن، 1 : 273، کتاب إقامة الصلوة والسنة فيها، رقم : 835
    4. احمد بن حنبل، مسند، 4 : 302
    5. ابو عوانه، مسند، 1 : 477، رقم : 1771
    6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 194، رقم : 2888
    3۔ سفرِ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمِ معبد رضی اﷲ عنہا کے ہاں قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کے بارے میں اُمِ معبد رضی اﷲ عنہا کا کہنا ہے :
    في صوته صلي الله عليه وآله وسلم صَحَلٌ.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز میں دبدبہ تھا۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 50، رقم : 3605
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    4. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
    5. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 446
    4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نغمگی اور حسنِ صوت سے کمال درجہ مزین تھی۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن النغمة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لب و لہجہ نہایت حسین تھا۔‘‘
    1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 91
    2. زرقاني، شرح المواهب، 5 : 446
    5۔ مبداء فیض نے حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس منفرد وصفِ جمیل سے نواز رکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دور دور تک پہنچ جاتی۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    خطبنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي أسمع العواتق في خدورهن.
    ’’حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو پردہ نشین خواتین کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردوں کے اندر (یہ خطبہ) سنایا۔‘‘
    1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
    2. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 125، رقم : 3778
    3. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 186، رقم : 11444
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 94
    5. نبهاني، الانوار المحمديه : 207
    6۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرماہوئے اور لوگوں سے بیٹھنے کو کہا :
    فسمعه عبد اﷲ بن رواحة و هو في بني غنم فجلس في مکانه.
    ’’اس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ محلہ بنی غنم میں تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز مبارک سنی اور وہیں بیٹھ گئے۔‘‘
    1. نبهاني، الانوار المحمديه، 207
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
    3. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 160
    7۔ خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی، اس اجتماعِ عظیم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا تو اِجتماع میں شریک ہر شخص نے خطبہ سنا۔
    حضرت عبدالرحمن بن معاذ تمیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کنا نسمع ما يقول و نحن في منازلنا، فطفق يعلمهم مناسکهم.
    ’’ہم اپنی اپنی جگہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ سن رہے تھے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو مناسکِ حج کی تعلیم دے رہے تھے۔‘‘
    1. ابوداؤد، السنن، 2 : 198، کتاب الحج، رقم : 1957
    2. نسائي، السنن، 5 : 249، کتاب مناسک الحج، رقم : 2996
    3. بيهقي، سنن الکبريٰ، 5 : 138، رقم : 9390
    4. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 160

    16۔ ریشِ اقدس

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی اور گنجان ہوتے ہوئے بھی باریک اور خوبصورت تھی، ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔ بالوں کا رنگ سیاہ تھا، سرخ و سفید چہرے کی خوبصورتی میں ریشِ مبارک مزید اِضافہ کرتی۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس سفید بال ریش مبارک میں آگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں کے ہالے میں چھپے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوا دیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور مردانہ وجاہت پر حرف نہ آئے۔
    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرأس و اللحية.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 2 : 626، رقم : 4194
    2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 96
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 216
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
    5. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221
    6. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 17
    2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسود اللحية.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سیاہ رنگ کی تھی۔‘‘
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 433
    3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125، رقم : 4194
    3۔ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنھا جنہیں سفرِ ہجرت میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، اپنے تاثرات اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کثيف اللحية.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریشِ اقدس گھنی تھی۔‘‘
    1. ابن جوزي، الوفا : 397
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 10
    3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 184
    4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 38
    5. مناوي، فيض القدير، 5 : 77
    4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کث اللحية.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔‘‘
    1. نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5232
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه1 : 36، رقم : 8
    3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 796
    4. بزار، المسند، 2 : 253، 660
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    5۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں یوں گویا ہوئے :
    کان . . . أسود اللحية حسن الشعر . . . مفاض اللحيين.
    (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) ریش مبارک سیاہ، بال مبارک خوبصورت، (اور ریش مبارک) دونوں طرف سے برابر تھی۔
    1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320
    2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280
    6۔ عمر مبارک میں اضافے کے ساتھ ریش مبارک کے بالوں میں کچھ سفیدی آ گئی تھی۔ حضرت وہب بن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    رأيتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و رأيتُ بياضاً من تحت شفته السفلٰي العنفقة.
    میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے۔
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3352
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 216
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 434
    7۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا پر قربان ہو ہو جاتے تھے، حیاتِ مقدسہ کی جزئیات تک کا ریکارڈ رکھا جا رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    و ليس في رأسه و لحيته عشرون شعرة بيضآءَ.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سر مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3354
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 3347
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، کتاب المناقب، رقم : 3623
    4. امام مالک، الموطا، 2 : 919، رقم : 1639
    5. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 130
    6. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 599، رقم : 6886
    7. ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6378
    8. ابو يعلي، المعجم، 1 : 55، رقم : 25
    9. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328
    10. شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412
    11. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 308
    8۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال سفید تھے جنہیں خضاب لگانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خضاب وغیرہ استعمال نہیں کیا اس حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    و لم يختضب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، إنما کان البياض في عنفقته و في الصَّدغين وفي الرأس نبذ.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیوں اور سر مبارک میں چند بال سفید تھے۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1821، کتاب الفضائل، رقم : 2341
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 310، رقم : 14593
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 232
    9۔ ریشِ اقدس طویل تھی نہ چھوٹی، بلکہ اِعتدال، توازُن اور تناسب کا اِنتہائی دلکش نمونہ اور موزونیت لئے ہوئے تھی۔
    کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر تراشا کرتے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 100، ابواب الادب، رقم : 2762
    2. عسقلاني، فتح الباري، 10 : 350
    3. زرقاني، شرح المؤطا، 4 : 426
    4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 263
    5. محمد بن عبدالرحمن مباکفوري، تحفة الاحوذي، 8 : 38
    6. قرطبي، تفسير، الجامع الأحکام القرآن، 2 : 105
    7. ابن جوزي، الوفا : 609
    8. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 161
    9. نبهاني، الانوار المحمديه : 214
    10. شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 142

    17۔ گوشِ اقدس

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوشِ اقدس خوبصورتی اور دلکشی میں بے مثال اور اِعتدال و توازُن کا حسین اِمتزاج تھے۔
    1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں :
    تخرج الأذنان ببياضهما من تحت تلک الغدائر، کأنما توقد الکواکب الدرية بين ذالک السواد.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلفوں کے درمیان دو سفید کان یوں لگتے جیسے تاریکی میں دو چمکدار ستارے چمک رہے ہوں۔‘‘
    ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 335
    2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے قاضی بنا کر یمن بھیجا گیا تو ایک یہودی عالم نے مجھے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے لئے کہا۔ جب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا مبارک بیان کر چکا تو اُس یہودی عالم نے کچھ مزید بیان کرنے کی استدعا کی۔ میں نے کہا کہ اس وقت مجھے یہی کچھ یاد ہے۔ اُس یہودی عالم نے کہا : اگر مجھے اجازت ہو تو مزید حلیہ مبارک میں بیان کروں۔ اُس کے بعد وہ یوں گویا ہوا :
    فی عينيه حمرةٌ، حسن اللحية، حسن الفم، تام الأذنين.
    1. ابن کثير، شمائل الرسول : 16
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس میں سرخ ڈورے ہیں، ریش مبارک نہایت خوبصورت، دہنِ اقدس حسین و جمیل اور دونوں کان مبارک (حسن میں) مکمل ہیں۔‘‘
    مختصر یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہر عضو کو اللہ تعالیٰ نے عمومی افعال کی انجام دہی کے علاوہ ایک معجزہ بھی بنایا تھا۔ عام انسانوں کے کان مخصوص فاصلے تک سننے کی استطاعت رکھتے ہیں، مگر جدید آلات کی مدد سے دُور کی باتیں بھی سنتے ہیں لیکن آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت سماعت عطا فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوتے، اوپر کسی آسمان کا دروازہ کھلتا تو خبر دیتے کہ فلاں آسمان کا دروازہ کھلا ہے۔
    حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گوشِ اقدس کی بے مثل سماعت پر حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إنی أريٰ ما لا ترون، وأسمع ما لا تَسمعون.
    ’’میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 556، ابواب الزهد، رقم : 2312
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 554، رقم : 3883
    3. احمدبن حنبل، المسند، 5 : 173
    4. بزار، مسند، 9 : 358، رقم؛ 3925
    5. بيهقي، شعب الايمان، 1 : 484 رقم : 783
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطاب صرف صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار تک ہی مخصوص و محدود نہ تھا بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے موجودہ ترقی یافتہ دور کے لئے بھی ایک چیلنج ہے۔
    آج ساری کائنات میں سائنس و ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے ماہرین اپنی تمام تر ترقی اور اپنی بے پناہ ایجادات کے باوجود کائنات کی ان پوشیدہ حقیقتوں اور رازوں کو جان سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں جنہیں چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے پردہ دیکھ لیا اور اُن کی حقیقت کو جان لیا تھا۔ حضور علیہ السلام کے دائرہ سماعت سے کوئی آواز باہر نہ تھی۔
    اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا :
    دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
    کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
    4۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر تھیں۔ اسی دوران حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے کسی کے سلام کا جواب دیا پھر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے فرمایا :
    هذا جعفر بن أبي طالب مع جبريل و ميکائيل و إسرافيل، سلموا علينا فردي عليهم السلام.
    1حاکم، المستدرک، 3 : 232، رقم : 4937
    2. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 88، رقم : 6936
    3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 272
    4. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 487
    5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 211
    ’’یہ جعفر بن ابی طالب ہیں، جو حضرت جبریل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیھم السلام کے ساتھ گزر رہے تھے۔ پس انہوں نے ہمیں سلام کیا، تم بھی ان کے سلام کا جواب دو۔‘‘
    5۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نجّار کے قبرستان سے گزر رہے تھے :
    فسمع أصوات قوم يعذبون في قبورهم.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبور میں) ان مُردوں کی آوازوں کو سماعت فرمایا جن پر عذابِ قبر ہو رہا تھا۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 175
    2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 120، رقم : 3757
    3. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 103، رقم : 268
    4. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 608، رقم : 1445
    5. ازدي، مسند الربيع، 1 : 197، رقم : 487

    18۔ گردنِ اقدس

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس دستِ قدرت کا تراشا ہوا حسین شاہکار تھی، چاندی کی طرح صاف و شفاف، پتلی اور قدرے لمبی تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک گردن اِس طرح تھی جیسے کوئی صورت یا مورتی چاندی سے تراشی گئی ہو اور اُس میں اُجلاپن، خوش نمائی، صفائی اور چمک دمک اپنے نقطۂ کمال تک بھر دی گئی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس کی خوبصورتی اس ندرت سے کہیں زیادہ تھی۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کأن عنقه جيدٌ دمية في صفاء الفضة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک کسی مورتی کی طرح تراشی ہوئی اور چاندی کی طرح صاف تھی۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 8
    2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
    3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    5. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
    2۔ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
    وفي عنقه سطع.
    ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس قدرے لمبی تھی۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
    3. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    5. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
    6. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 3 : 192
    7. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 310
    8. حلبي، انسان العيون، 2 : 227
    3۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے :
    وکان أحسن عباد اﷲ عنقاً، لا ينسب إلي الطول و لا إلي القصر.
    ’’اور اللہ کے بندوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تھی، نہ زیادہ طویل اور نہ زیادہ چھوٹی۔‘‘
    1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 336
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
    4۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک سونے اور چاندی کے رنگوں کا حسین اِمتزاج معلوم ہوتی تھی۔ گردنِ اقدس کو چاندی کی صراحی سے بھی تشبیہ دی گئی۔ حضرت حافظ ابوبکر بن ابی خیثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس عنقاً، ما ظهر من عنقه للشمس و الرياح فکأنّه إبريق فضة مشرب ذهباً يتلأ لأ في بياض الفضة وحمرة الذهب، و ما غيبت الثياب من عنقه فما تحتها فکأنّه القمر ليلة البدر.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ مبارک تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ دھوپ یا ہوا میں گردن کا نظر آنے والا حصہ چاندی کی صراحی کے مانند تھا، جس میں سونے کا رنگ اس طرح بھرا گیا ہو کہ چاندی کی سفیدی اور سونے کی سُرخی کی جھلک نظر آتی ہو اور گردن کا جو حصہ کپڑوں میں چھپ جاتا وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوتا۔‘‘
    صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 43

    19۔ دوش مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے مضبوط اور قدرے فربہی لئے ہوئے تھے، بالکل پتلے شانے نہ تھے بلکہ خاص گولائی میں تھے۔ دونوں شانوں کی ہڈیوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا، جس نے سینۂ اقدس کو فراخ اور دراز کر دیا تھا۔
    1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مضبوط کندھوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . عظيم مشاش المنکبين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں کے جوڑ توانا اور بڑے تھے۔‘‘
    1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
    4. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 19
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 126
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی دیہاتی آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قمی رضی اللہ عنہ کھینچ لیتا تو :
    فکأنما أنظر حين بدا منکبه إلي شقة القمر من بياضه صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’دوشِ اقدس سفیدی اور چمک کے باعث یوں نظر آتے جیسے ہم چاند کا ٹکڑا ملاحظہ کر رہے ہوں۔‘‘
    صالحي، سُبل الهديٰ والرشاد، 2 : 43
    3۔ کتب سیر و احادیث میں جلیل القدر صحابہ کرام حضرت علی المرتضیٰ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ہند بن ابی ہالہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنھم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں کے فاصلے کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے :
    کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم مربوعاً بعيد ما بين المنکبين.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد کے تھے، دونوں کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3358
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635
    4. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة) 6 : 11
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
    ملا علی قاری رحمۃ اللّٰہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفتِ عالیہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    کان إذا جلس يکون کتفه أعلٰي من الجالس.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب (کسی مجلس میں) تشریف فرما ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے تمام اہلِ مجلس سے بلند نظر آتے۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13

    20۔ بازوئے مقدّس

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازوئے اقدس خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، طوالت کے اِعتبار سے اِعتدال کا خوبصورت اور دلکش نمونہ تھے، کلائیوں پر بال مبارک تھے، بازو اور کلائیاں سفید اور چمکدار تھیں اور حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار تھیں۔
    اس حوالے سے امام بيہقی بیان کرتے ہیں :
    وکان عبل العضدين والذراعين، طويل الزندين.
    بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مچھلیاں سفیداور چمکداراور کلائیاں لمبی تھیں۔‘‘
    2۔ حضرت ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . أشعر الذراعين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک کلائیوں پر بال موجود تھے۔‘‘
    1ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    3. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
    3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عظيم الساعدين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازو (اعتدال کے ساتھ) بڑے تھے۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
    2. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة) 6 : 19
    4۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول صلي الله عليه وآله وسلم سَبْط القصب.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازو مبارک اور پنڈلیاں موزوں ساخت کی تھیں۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414

    21۔ دستِ اقدس

    آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اِنتہائی نرم اور ملائم تھے، شبنم کے قطروں سے بھی نازک، پھولوں کا گداز بھی اس کے آگے پانی پانی ہو جائے، دستِ اقدس سے ہمہ وقت خوشبوئیں لپٹی رہتیں، مصافحہ کرنے والا ٹھنڈک محسوس کرتا، اَنگشت مبارک قدرے لمبی تھیں، چاند کی طرف اُٹھتیں تو وہ بھی دولخت ہو جاتا۔
    6ھ میں حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، کفار و مشرکینِ مکہ آمادۂ فتنہ و شر ہیں۔ سفراء کا تبادلہ جاری ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو تے ہیں۔ دوسری طرف بیعتِ رضوان کا موقع آتا تو اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے :
    إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO
    القرآن، الفتح، 48 : 10
    ’’(اے رسول!) بلاشبہ جو لوگ آپ سے (آپ کے ہاتھ پر) بیعت کرتے ہیں فی الحقیقت وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، (گویا) اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے، پھر جو کوئی عہد کو توڑے تو عہد کے توڑنے کا نقصان اُسی کو ہو گا اور جو اللہ سے اپنا اِقرار پورا کرے (اور مرتے دم تک قائم رہے) تو اللہ تعالیٰ عنقریب اُسے بڑا اجر دے گا (اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا )o‘‘
    ایک دوسرے مقام پر ارشادِ خُداوندی ہے :
    وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمٰی.
    ’’اور (اے حبیبِ محتشم) جب آپ نے (اُن پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ تعالیٰ نے مارے تھے۔‘‘
    القرآن، الانفال، 8 : 17
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس نہایت نرم و گداز تھے۔ حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں :
    أتيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخذتُ بيده فإذا هي ألين من الحرير وأبرد من الثلج.
    ’’میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 272، رقم : 7110
    2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 97، رقم : 9237
    3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 282
    4. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 3 : 323، رقم : 3859
    5. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 74
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    مَا مَسسْتُ حريراً و لا ديباجاً ألين من کف النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو نہیں چھوا جو نرمی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے بڑھ کر ہو۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البروالصلة، رقم : 2015
    4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
    5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
    6. احمد بن جنبل، المسند، 3 : 200، رقم؛ 13096
    7. ابو يعلي، المسند، 6 : 405، رقم : 3762
    8. عبد بن حميد، المسند، 1 : 402، رقم : 13163
    9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 413
    10. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 170

    خوشبوئے دستِ اقدس

    1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھوں سے ہر وقت بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی تھی۔ حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باری باری سب بچوں کے رُخساروں پر ہاتھ پھیرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے رُخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔
    فوجدتُ ليده برداً أو ريحاً کأنما أخرجها من جؤنة عطّار.
    ’’پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے ابھی عطار کی ڈبیہ سے نکالا ہو۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 2329
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 323، رقم : 31765
    3. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 228، رقم : 1944
    4. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573
    2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ہمیشہ معطر رہتے، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرتے وہ کئی کئی دن دستِ اقدس کی خوشبو کی سرشاری کو مشامِ جان میں محسوس کرتے رہتے :
    وکأن کفه کف عطار طيب مسها بطيب أو لا مسها، فإذا صافحه المصافح يظل يومه يجد ريحاً و يضعها علي رأس الصبي فيعرف من بين الصبيان من ريحها علي رأسه.
    ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ عطار کے ہاتھوں کی طرح معطر رہتے، خواہ خوشبو لگائیں یا نہ لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرنے والا شخص سارا دن اپنے ہاتھوں پر خوشبو پاتا اور جب کسی بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیتے تو وہ (بچہ) خوشبوئے دستِ اقدس کے باعث دوسرے بچوں سے ممتاز ٹھہرتا۔‘‘
    1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 337
    2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305

    دستِ مبارک کی ٹھنڈک

    1۔ خوشبو کے علاوہ سردارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا لمس انتہائی خوشگوار ٹھنڈک کا کیف انگیز احساس بخشتا تھا۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، اس کے بعد :
    و قام الناس، فجعلوا يأخذون يديه فيمسحون بهما وجوههم، قال : فأخذت بيده فوضعُتها علي وجهي، فإذا هي أبرد من الثلج، و أطيب رائحة من المسک.
    ’’لوگ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ انور اپنے چہرے پر پھیرا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3360
    2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 309
    3. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 67، رقم : 1638
    4. دارمي، السنن، 1 : 366، رقم : 1367
    5. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 115، رقم : 294
    2۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت سے میرے سر اور سینے پر اپنا دستِ اقدس پھیرا۔ اس سے یہ کیفیت پیدا ہوئی :
    فما زلتُ أجد برده علي کبدي فما يخال إلي حتي الساعة.
    ’’میں ہمیشہ اپنے جگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خنکی پاتا رہا، مجھے خیال ہے کہ اس (موجودہ) گھڑی تک وہ ٹھنڈک پاتا ہوں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2142، کتاب المرضيٰ، رقم : 5335
    2. نسائي، السنن الکبريٰ؛ 4 : 67، رقم : 6318
    3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 171
    4. بخاري، الادب المفرد، 1 : 176، رقم : 499
    5. مقدسي، الأحاديث المختاره، 3 : 212، رقم : 1013

    22۔ دستِ اقدس کی برکتیں

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر و برکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کردیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :

    ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا

    اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :

    (1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے

    حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
    فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!

    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
    حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم يمسح الورم فيذهب.
    میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 72
    2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
    3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
    4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
    6. بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
    7. ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
    (2) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں:
    قال لي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ادن مني، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ.اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
    2. عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم : 5763
    3. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم : 4326

    (3) دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اُتر آیا

    سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور علیہ السلام کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
    فدعا بها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإنائِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتيّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھردیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 56
    3. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم : 3485
    4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
    5. هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
    6. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
    7. عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
    8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
    9. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
    10. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
    تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاںبیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
    حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی۔

    (4) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی

    غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آ کر شمشیرِ آبدار بن گئی۔
    فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّی العون.
    ’’جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
    1. ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
    2. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
    3. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
    4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 308
    5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 188
    7. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم : 418
    جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔
    فرجع في يد عبداﷲ سيفاً.
    ’’جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔‘‘
    1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 359
    2. أزدي، الجامع، 11 : 279
    3. ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم : 4586

    5۔ دستِ اقدس کے لمسِ سے کھجور کی شاخ روشن ہو گئی

    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا :
    إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان.
    ’’اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
    1. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ، 1 : 219
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
    3. ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم : 1660
    4. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
    6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
    7. مناوي، فيض القدير، 5 : 73
    حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی۔

    (6) توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ

    بيہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
    أدع عشرة، فدعوت عشرة فأکلوا حتٰي شبعوا ثم کذالک حتٰي أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
    ’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔‘‘
    1. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 : 117
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
    3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
    4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
    5. اسحاق بن راهويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
    6. بيهقي، الخصاص الکبريٰ، 2 : 85
    7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631
    یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔

    (7) دستِ شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی

    حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِ رسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں :
    فبسطتُ رجلي، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط.
    ’’میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 80
    3. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
    4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
    5. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
    6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
    7. ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 : 294

    (8) دستِ اقدس کی فیض رسانی

    حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
    فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا۔‘‘
    1. ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
    2. عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 337
    4. احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
    5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 122

    (9) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوت حافظہ

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده.
    ’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
    4. ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
    5. ابو يعلٰي، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 329
    7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
    8. عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
    9. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
    10. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 : 174
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں۔

    23۔ انگشتانِ مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی انگلیاں خوبصورت، سیدھی اور دراز تھیں۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم . . . سائل الأطراف.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
    2۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت انگلیوں کو چاندی کی ڈلیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
    کأن أصابعه قضبان فضة.
    1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
    2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 40
    3. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیاں مبارک چاندی کی ڈلیوں کی طرح تھیں۔‘‘
    انہی مقدس انگلیوں کے اشارے پر چاند وجد میں آجایا کرتا تھا، شق القمر کا معجزہ انہی مقدس انگلیوں کے اُٹھ جانے سے ظہور میں آیا، انہی مقدس انگلیوں سے پانی کے چشمے رواں ہوگئے۔
    3۔ حضرت میمونہ بنت کردم رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں :
    خرجت في حجة حجها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فرأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وطول اصبعه التي تلي الابهام أطول علي سائر أصابعه، و قال : في موضع آخر روي عن أصابع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، أن المشيرة کانت أطول من الوسطي، ثم الوسطي أقصر منها، ثم البنصر من الوسطي.
    ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر باہر نکلی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگوٹھے کے ساتھ شہادت والی انگلی کی لمبائی کو دیکھا کہ وہ باقی سب انگلیوں سے دراز ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگلیوں کے بارے میں دوسری جگہ روایت ہے کہ اشارے کرنے والی انگلی (شہادت والی انگلی) درمیانی انگلی سے لمبی تھی، درمیانی انگلی شہادت والی سے چھوٹی اور انگوٹھی والی انگلی درمیانی انگلی سے چھوٹی تھی۔
    1. مناوي، فيض القدير، 5 : 195
    2. حکيم ترمذي، نوادر الاصول في أحاديث الرسول، 1 : 167، 168
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 268، رقم : 471
    4. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 2 : 15

    24۔ ہتھیلیاں مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور نورانی ہتھیلیاں کشادہ اور پرگوشت تھیں۔ اس بارے میں متعدد روایات ہیں :
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . رحب الراحة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں فراخ تھیں۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    4. ابن حبان، الثقات، 2 : 146
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
    6. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
    7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
    8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 422
    9. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 52
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    وکان بسط الکفين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5567
    2. عسقلاني، فتح الباري، 10 : 359
    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں میں نرماہٹ، خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک منفرد وصف تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دستِ شفقت پھیرتے تو اُس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں اِحساس ہوتا جیسے برف جسم کو مَس کر رہی ہو۔
    حضرت عبداللہ بن ہلال انصاری رضی اللہ عنہ کو جب اُن کے والدِ گرامی دعا کے لئے حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئے تو اُس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور اُن کے سر پردستِ شفقت پھیرا۔ وہ اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں :
    فما أنسيٰ وضع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يده علي رأسي حتي وجدتُ بردها.
    هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 399
    ’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دستِ شفقت کی ٹھنڈک اور حلاوت کو میں کبھی نہیں بھولا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سر پر رکھا۔‘‘

    25۔ بغل مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلیں سفید، صاف و شفاف اور نہایت خوشبودار تھیں، جس کے بارے میں کتب احادیث و سیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے متعدد احادیث مروی ہیں :
    1۔ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وضو کا پانی پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر اُنہیں دُعا دی اور اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند فرمایا۔ وہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ :
    و رأيتُ بياض إبطيه.
    ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفید ی دیکھی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2345، کتاب المناقب، رقم : 6020
    2. مسلم، الصحيح، 4 : 1944، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2498
    3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 240، رقم : 8187
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 460
    2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کی خوشبودار ہونے کے حوالے سے بنی حریش کا ایک شخص اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے والدِ گرامی کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا، اُس وقت حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو اُن کے اقرارِ جرم پر سنگسار کیا جارہا تھا۔ مجھ پر خوف سا طاری ہوگیا، ممکن تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گرپڑتا :
    فضمني إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فسال عليّ مِن عرقِ إبطه مثل ريحِ المسکِ.
    ’’پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ لگالیا (گویا گرتے دیکھ کر مجھے تھام لیا) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کا پسینہ مجھ پر گرا جو کستوری کی خوشبو کی مانند تھا۔‘‘
    1. دارمي، السنن، 1 : 34، رقم : 64
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 116
    3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 461
    4. عسقلاني، الاصابه، 2 : 57
    5. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 170
    6. ذهبي، ميزان الاعتدال، 2 : 193
    انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے عموماً پسینہ کی وجہ سے ناپسندیدہ بو آتی ہے، حضور ختمی مرتب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کے حسن و جمال میں اضافے کا موجب بنا اور وہ خوش نصيب صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جنہيں حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مبارک و مقدس بغلوں کے پسينے کي خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کي سعادت حاصل ہوئي، وہ عمر بہر اُس سعادت پر نازاں رہے۔

    26۔ سینۂ اقدس

    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ، کشادہ اور ہموار تھا۔ جسمِ اطہر کے دوسرے حصوں کی طرح حسنِ تناسب اور اعتدال و توازن کا نادر نمونہ تھا۔ سینۂ انور سے ناف مبارک تک بالوں کی ایک خوشنما لکیر تھی، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاسینۂ اقدس بالوں سے خالی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انورقدرے ابھرا ہوا تھا، یہی وہ سینۂ انور تھا جسے بعض حکمتوں کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کے مختلف مرحلوں میں کئی بار چاک کر کے انوار و تجلیات کا خزینہ بنایا گیا اور اسے پاکیزگی اور لطافت و طہارت کاگہوارہ بنا دیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ فراخی، کشادگی، وسعت اور حسن تناسب میں اپنی مثال آپ تھا۔
    1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سینۂ اقدس کے فراخ اور کشادہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . عريض الصدر.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انور فراخی (کشادگی) کا حامل تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
    6. ابن حبان، الثقات : 2 : 146
    7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    8. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
    2۔ اس حوالے سے امام بيہقی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ہے :
    و کان عريض الصدر ممسوحه کأنه المرايا في شدتها و إستوائها، لا يعدو بعض لحمه بعضاً، علي بياض القمر ليلة البدر.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ اور کشادہ، آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا، کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا اور سفیدی اور آب و تاب میں چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔‘‘
    بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
    3۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فسيح الصدر.
    ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس سینے میں وسعت پائی جاتی تھی۔‘‘
    ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 330

    27۔ قلبِ اطہر

    نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر علوم و معارف کا گنجینہ اور انوار و تجلیاتِ الٰہیہ کا خزینہ تھا۔ چونکہ اس بے مثال قلبِ انور پر قرآنِ حکیم کا نزول ہونا تھا، اسے شرحِ صدر کے بعد منبعِ رُشد و ہدایت بنا دیا گیا تاکہ تمام کائناتِ جن و انس ابدالآباد تک اُس سے اِیمان و اِیقان کی روشنی کشید کرتی رہے۔
    خود قرآنِ مجید کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔
    ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
    وَالنَّجْمِ إِذَا هَوٰيO
    ’’قسم ہے ستارے (یعنی نور مبین) کی جب وہ (معراج سے) اُتراo‘‘
    القرآن، النجم، 53 : 11
    قاضی عیاض حضرت جعفر بن محمد سے وَالنَّجْمِ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
    النجم : هو قلب محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    نجم سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ انور ہے۔
    قاضي عياض، الشفا، 1 : 23
    دوسرے مقام پر قرآن مجید نے قلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
    مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَاٰيO
    ’’جو (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) دیکھا قلب نے اُسے جھوٹ نہ جانا (سمجھ لیا کہ یہ حق ہے)o‘‘
    القرآن، النجم، 53 : 11
    اللہ ربُ العزت نے قرآن حکیم میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر اور سینۂ اقدس کا ایک ہی مقام پر تمثیلی پیرائے اور استعاراتی انداز میں یوں ذکر فرمایا :
    اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ.
    ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اُس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دُنیا میں روشن ہوا) اُس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ فانوسِ (قلبِ محمدی) میں رکھا ہے۔‘‘
    القرآن، النور، 24 : 25
    امام خازن رحمۃ اﷲ علیہ اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا :
    أخبرني عن قوله تعالٰي : مَثَلُ نُوْرِه کَمِشْکٰوةٍ.

    ’’مجھے باری تعالیٰ کے ارشاد . . . اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے . . . کے بارے میں بتائیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟‘‘
    حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
    هذا مثل ضربه اﷲ لنبيها، فالمشکٰوة صدره، والزجاجة قلبه، والمصباح فيه النبوة توقد من شجر مبارکة هي شجرة النبوة.
    ’’(آیتِ مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکٰوۃ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس مراد ہے، زجاجۃ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر ہے، جبکہ مصباح سے مراد وہ صفتِ نبوت ہے جو شجرۂ نبوت سے روشن ہے۔‘‘
    خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 5 : 56
    اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الٰہیہ کا خزینہ بنایا۔
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ منور سوز و گداز اور محبت و شفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کر سکتے تھے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی رقیق القلب تھے، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے، اُن کا غم بانٹتے اور اُن کے زخموں پر شفا کا مرہم رکھتے، ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، حرفِ تسلی سے اُن کا حوصلہ بڑھاتے اور اُنہیں اِعتماد کی دولت سے نوازتے۔ قرآنِ مجید کا فرمان ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم دل اور رقیق القلب نہ ہوتے تو پروانوں کا ہجوم شمعِ رسالت کے گرد اِس طرح جمع نہ ہوتا۔
    ارشادِ ربانی ہے :
    فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.
    ’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘
    القرآن، آل عمران، 3 : 59
    اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوئے دل نوازی اور بندہ پروری کا ذکر اس شعر میں کس حسن و خوبی سے کیا ہے :
    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
    اللہ ربُ العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قلبِ بیدار عطا کیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن عيني تنامان و لا ينام قلبي.
    ’’بیشک میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 385، ابواب التهجد، رقم : 1096
    2. مسلم، الصحيح، 1 : 509، کتاب صلاة المسافرين و قصرها، رقم : 737
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 1 : 302، 738، ابواب الصلوة، رقم : 439
    4. ابوداؤد، السنن، 2 : 40، کتاب الصلوة، رقم : 1341
    5. نسائي، السنن، 3 : 234، کتاب قيام اليل و تطوع النهار، رقم : 1697
    6. مالک، الموطأ، 1 : 120، رقم : 263
    7. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 104
    8. ابن حبان، الصحيح، 6 : 186، رقم : 2430
    9. ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 30، رقم : 49
    10. بيهقي، السنن الکبريٰ، 1 : 122، رقم : 597
    11. ابو نعيم، حلية الأولياء، 10 : 384

    28۔ بطنِ اقدس

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکمِ اطہر سینۂ انور کے برابر تھا، ریشم کی طرح نرم اور ملائم، چاندی کی طرح سفید، چودھویں کے چاند کی طرح حسین اور چمکدار، حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا جنہیں دورانِ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک نہ تو بہت بڑھا ہوا تھا اور نہ بالکل ہی پتلا۔ اُن سے مروی روایت کے الفاظ ہیں :
    1. لم تعبه ثُجلة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیٹ کے بڑا ہونے کے (جسمانی) عیب سے پاک تھے۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
    2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
    5. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 139
    2۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . سواء البطن والصدر.
    ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک اور سینۂ انور برابر تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155
    3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    7. ابن حبان، الثقات، 2 : 146
    8. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 156
    9. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 52
    3۔ حضرت اُمِ ہلال رضی اللّٰہ عنہا تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اطہر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
    ما رأيتُ بطن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قط إلا ذکرت القراطيس المثنية بعضها علي بعض.
    ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بطنِ اقدس کوہمیشہ اِسی حالت میں دیکھا کہ وہ یوں محسوس ہوتا جیسے کاغذ تہہ در تہہ رکھے ہوں۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
    2. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 413، رقم : 1006
    3. طيالسي، المسند، 1 : 225، رقم : 1619
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280
    5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 64، رقم : 6457
    6. صيداوي، معجم الشيوخ، 3 : 739، رقم : 355
    4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اقدس پر بال نہ تھے، ہاں بالوں کی ایک لکیر سینۂ انور سے شروع ہوکر ناف پر ختم ہوجاتی تھی :
    ليس في بطنه و لا صدره شعر غيره.
    ’’اُس لکیرکے علاوہ سینۂ انور اور بطنِ اقدس پر بال نہ تھے۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 410
    2. طبري، تاريخ، 2 : 221
    3. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 318
    5۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض الکشحين.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں پہلو سفید تھے۔‘‘
    1. بخاري الادب المفرد، 1 : 99، رقم : 255
    2. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 414، 415

    ایک ایمان افروز واقعہ

    حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بہت زندہ دل تھے، محفل میں تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی مزاحیہ گفتگو کرتے کہ اہلِ محفل کشتِ زعفران کی طرح کھل اُٹھتے اور اُن کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھر جاتیں۔ ایک دن وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں کسی بات پر خوش طبعی کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفنن طبع کے طور پر اُن کے پہلو پر ہاتھ سے ہلکی سے چپت لگائی۔ حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ عرض پیرا ہوئے :
    ’’یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مارنے سے مجھے تکلیف پہنچی ہے‘‘۔ والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی کی یہ بات سنی تو فرمایا :
    ’’اگر ایسا ہے تو تم مجھ سے اس کا بدلہ لے لو‘‘۔ وہ صحابی جو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے خود اور وارفتہ ہو رہے تھے، عرض گزار ہوئے :
    ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جب آپ نے مجھے ہاتھ مارا تھا اُس وقت میرا جسم ننگا تھا۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پشت اقدس پر سے قمیص مبارک اُٹھا دی اور فرمایا : لو اپنا بدلہ لے لو۔ اس پر وہ جان نثارِ رسول رضی اللہ عنہ وجد میں آ کر جھوم اُٹھا :
    فاحتضنه، فجعل يقبل کشحه، فقال : بأبي أنت و أمي يا رسول اﷲ! أردتُ هذا.
    ’’پس اُس صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لپٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلوئے اطہر کے بوسے لینا شروع کر دیئے، اور عرض کی : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا مقصد صرف یہی تھا۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 328، رقم : 5262
    2. ابو داؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5224
    3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 49
    4. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 206، رقم : 557
    5. مقدسي، الاحاديث المختارة، 4 : 276
    6. زيلعي، نصب الراية، 4 : 259
    7. ذهبي، سيرأعلام النبلا، 1 : 342
    8. عسقلاني، الدراية في تخريج أحاديث الهداية، 2 : 232
    9. عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 53

    شکمِ اطہر پر ایک کی بجائے دو پتھر

    والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی۔ غزوہ احزاب میں خندق کی کُھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے فاقہ کی شکایت کی اور عرض کیا کہ میں نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بطنِ اقدس سے کپڑا ہٹایا جہاں دو پتھر بندھے تھے۔ حدیثِ مبارکہ میں اِس کا ذکر اس طرح ہوا ہے :
    فرفع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن بطنه عن حجرين.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شکمِ اطہر سے کپڑا اُٹھایا تو اُس پر دو پتھر بندھے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 585، ابواب الزهد، رقم : 2371
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه : 27، باب ماجاء في عيش النبيا
    3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 53
    4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 14 : 156
    5. ابن ابي عاصم، کتاب الزهد، 1 : 175
    6. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 96، رقم : 4964
    7. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 33
    8. مزي، تهذيب الکمال، 12 : 170
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقر کو غنا پر ترجیح دی، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ارض و سماوات بلکہ کل جہاں کے تمام خزانوں کے مالک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب کریم نے قاسم بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ فقر کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل و عیال نے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہ کھایا، اکثر جَو کی روٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا ہوتی۔
    1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں :
    وکان أکثرخبزهم خبز الشعير.
    ’’آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا اکثر و بیشتر جَو کی روٹی ہوتی تھی۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 580، ابواب الزهد، رقم : 2360
    2. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 91
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 275
    4. ابو نعيم، حلية الاولياء، 3 : 342
    5. منادي، فيض القدير، 3 : 199
    2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    و ما أکل خبزاً مرققاً حتي مات.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری دم تک پتلی روٹی نہیں کھائی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2369، کتاب الرقاق، رقم : 6085
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 581، ابواب الزهد، رقم : 2363
    3. نسائي، السنن الکبريٰ، 4 : 150، رقم : 6638
    3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
    ما شبع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من خبز شعير يومين متتابعين حتي قبض.
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 579، رقم : 2357
    2. طيالسي، المسند، 1 : 198، رقم : 1389
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل دو دن جَو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے۔‘‘
    4۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دفعہ بعض لوگوں نے دعوت کی، اور اُنہیں کھانے کو بکری کا بُھنا ہوا گوشت پیش کیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس عاشقِ زار کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا زمانہ یاد آگیا اور وہ معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے :
    خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من الدنيا ولم يشبع من خبز الشعير.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں وصال فرما گئے کہ آپ نے تادم وصال جَو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2066، کتاب الأطعمة، رقم : 5098
    2. ابويعلي، المسند، 8 : 35، رقم : 5541
    3. بيهقي، شعب الايمان، 5 : 30، رقم : 4658
    4. ازدي، مسند الربيع، 1 : 352، رقم : 900

    29۔ ناف مبارک

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدائش کے وقت ہی کئی حوالوں سے ممتاز اور منفرد اوصاف کے حامل تھے۔ عام انسانوں کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اِس حال میں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ تھے۔
    1۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ’الشفاء (1 : 42)‘ میں ایک روایت نقل کی ہے :
    کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد وُلِد مختوناً، مقطوع السرة.

    ’’بیشک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بُریدہ پیدا ہوئے۔‘‘
    2۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما اپنے والدِ گرامی سے روایت فرماتے ہیں :
    وُلد رسولُ اﷲ مختوناً مسرورًا يعني مقطوع السرة، فأعجب بذلک جده عبدالمطلب، وقال : ليکونن لبني هذا شأن عظيم.
    1. ابن عبد البر، الاستيعاب، 1 : 51
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 103
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِ امجد حضرت عبدالمطلب اس پر متعجب ہوئے اور فرمایا میرا یہ بیٹا یقیناً عظیم شان کا مالک ہو گا۔‘‘
    3۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں :
    ان رسول صلي الله عليه وآله وسلم وُلد مختوناً مسروراً يعني مقطوع السرة.
    ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے۔‘‘
    1. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 657، رقم : 4177
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 103
    4. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 50
    5. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 336، رقم : 314

    30۔ پشتِ اقدس

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کشادہ اور خوبصورتی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھی، دونوں مقدس کندھوں کے درمیان مہرِنبوت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَO الَّذِي اَنْقَضَ ظَهْرَکَO
    ’’اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اُتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo‘‘
    القرآن، الم نشرح، 94 : 2، 3
    1۔ حضرت محرش بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے آقائے نامدار علیہ السلام کو عمرہ کا اِحرام باندھتے ہوئے دیکھا :
    فنظرتُ إلي ظهره کأنها سبيکة فضة.
    ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمرِ مبارک کی جانب نظر اٹھائی تو اُسے چاندی کے ٹکڑے کی طرح پایا۔‘‘
    1. احمدبن حنبل، المسند، 5 : 380، رقم : 23273
    2. نسائي، السنن، 5 : 220، کتاب مناسک الحج، رقم : 2864
    3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 474، رقم : 4234
    4. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 231، رقم : 13230
    5. حميدي، المسند، 2 : 380، رقم : 863
    6. طبراني، المعجم الکبير، 20 : 327، رقم : 772
    7. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 570
    8. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22
    9. مزي، تهذيب الکمال، 27 : 286
    10. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 2 : 324
    11. مناوي، فيض القدير، 5 : 69
    12. عبدالباقي، معجم الصحابه، 3 : 90
    2۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے :
    و کان واسع الظهر.
    بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کشادہ تھی۔‘‘
    3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا ہی سے ایک دوسری روایت بھی مذکور ہے :
    و کان طويلَ مسْرُبة الظهر.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریڑھ کی ہڈی لمبی تھی۔‘‘
    بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304

    31۔ مہرِ نبوت

    خالقِ کائنات نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو امتیازاتِ نبوت عطا کر کے انہیں عام انسانوں سے ممتاز پیدا کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ ربّ العزت نے عظمت و رِفعت کا وہ بلند مقام عطا کیا کہ جس تک کسی فردِ بشر کی رسائی ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی جو اس حکمِ ایزدی کی تصدیق کرتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، ان کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے مقفل کر دیا گیا ہے۔ یہ مہرِ نبوت دونوں کندھوں کے درمیان ذرا بائیں جانب تھی۔
    1۔ حضرت عبداللہ بن سرجیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    فنظرتُ إلي خاتمِ النبوة بين کتفيه عند ناغض کتفه اليسريٰ.
    ’’میں نے مہرِ نبوت دونوں کندھوں کے درمیان بائیں کندھے کی ہڈی کے قریب دیکھی۔‘‘
    مسلم، الصحيح، 4 : 1823، کتاب الفضائل، رقم : 2346
    2۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت ابراہیم بن محمد کہتے ہیں :
    کان علي إذا وصف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فذکر الحديث بطوله، وقال : بين کتفيه خاتم النبوة وهو خاتم النبيين صلي الله عليه وآله وسلم .
    ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات گنواتے تو طویل حدیث بیان فرماتے اور کہتے کہ دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیيّن تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 599، ابواب المناقب، رقم : 3638
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
    3. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 30
    4. ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 248
    3۔ مہرِ نبوت خوشبوؤں کا مرکز تھی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    فالتقمتُ خاتم النبوة بفيّ، فکان ينمّ عليّ مسکاً.
    ’’پس میں نے مہرِ نبوت اپنے منہ کے قریب کی تو اُس کی دلنواز مہک مجھ پر غالب آرہی تھی۔‘‘
    صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 53
    صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہرِنبوت کی ہیئت اور شکل و صورت کا ذکر مختلف تشبیہات سے کیا ہے : کسی نے کبوتر کے انڈے سے، کسی نے گوشت کے ٹکڑے سے اور کسی نے بالوں کے گچھے سے مہرِ نبوت کو تشبیہ دی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تشبیہ ہر شخص کے اپنے ذوق کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
    1۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان خاتم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يعني الذي بين کتفيه غدّة حمراء مثل بيضة الحمامة.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی، جو کبوتر کے انڈے کی مقدار سرخ ابھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 602، ابواب المناقب، رقم : 3644
    2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21036
    3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 209، رقم : 6301
    4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31808
    5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1908
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 425
    2۔ حضرت ابو زید عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ نے اس مہرِ نبوت کو بالوں کے گچھے جیسا کہا۔ ایک دفعہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اپنے پشتِ مبارک پر مالش کرنے کی سعادت بخشی تو اُس موقع پر اُنہوں نے مہرِ اقدس کا مشاہدہ کیا۔ حضرت علیاء (راوی) نے عمرو بن اخطب سے اُس مہرِنبوت کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے کہا :
    شعر مجتمع علي کتفه.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں کے درمیان چند بالوں کا مجموعہ تھا۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 341، رقم : 22940
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 663، رقم : 4198
    3. ابويعلي، المسند، 12 : 240، رقم : 6846
    4. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 514، رقم : 2096
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 426
    3۔ حضرت ابونضرۃ عوفی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
    سألتُ أبا سعيد الخدري عن خاتم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يعني خاتم النبوة، فقال : کان في ظهره بضعة ناشزة.
    ’’میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر یعنی مہرِ نبوت کے متعلق دریافت کیا تو اُنہوں نے جواب دیا : وہ (مہرِ نبوت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس میں ایک اُبھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 46، رقم : 22
    2. بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 44، رقم : 1910
    3. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 222

    مہرِنبوت آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ہے

    مہرِ نبوت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی علامت ہے، سابقہ الہامی کتب میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک علامت اُن کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کا موجود ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ کتاب جنہوں نے اپنی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا اس نشانی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کی تصدیق کر لینے کے بعد ہی ایمان لائے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔ آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصولِ علم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔
    اسی سلسلے میں اُنہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ الہامی کتب کے اُس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ قریب ہے۔ یہ نبی دینِ ابراہیمی کے داعی ہوں گے۔ اور پھر غموریا کے اُس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہرِ دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔ پادری اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، تلاشِ حق کے مسافر نے غموریا کو خداحافظ کہا اور سلمان فارسی شہرِنبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے لیکن تلاشِ حق کے مسافر کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتشِ شوق اور بھی تیز ہو گئی، یہ تاجر اُنہیں مکہ لے آئے، جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اور اُنہیں مدینہ جو اُس وقت یثرب تھا، کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی . . . یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا۔
    غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیں، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا . . . ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کام کر رہے تھے، کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے سنا کہ اُن کا یہودی مالک کسی سے باتیں کر رہا تھا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے۔
    حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا، اور تلاشِ حق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسولِ ذی حشما کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔
    دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی۔ تاجدارِکائنات اجنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاںا کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے.
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 698، رقم : 6544
    2. بزار، المسند، 6 : 463 - 465، رقم : 2500
    3. طبراني، معجم الکبير، 6 : 222 - 224، رقم : 6065
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 75 - 80
    5. ابونعيم اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 40

    32۔ مبارک رانیں

    حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک رانیں بھی جسم کے دوسرے حصوں کی طرح سفید، چمکدار اور متناسب تھیں۔
    1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ خیبر کے لیے گئے تو ہم نے صبح کی نماز، خیبر کے نزدیک اندھیرے میں ادا کی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہوئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے اور میں اُن کے پیچھے بیٹھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی گلیوں میں جا رہے تھے اور میرا گھٹنا آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران سے لگتا تھا۔
    ثم حسر الإزار عن فخذه حتي إنّي أنظر الي بياض فخذ نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ران مبارک سے تہبند ہٹائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران مبارک کی سفیدی دیکھی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 1 : 145، ابواب الصلوة في الثياب، رقم : 364
    2. مسلم، الصحيح، 2 : 1044، کتاب النکاح، رقم : 1365
    3. نسائي، السنن، 6 : 132، کتاب النکاح، رقم : 3380
    4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 229، رقم : 3055
    5. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 78
    محدّثین کرام نے بیان کیا ہے کہ جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں جلوہ افروز ہوتے تو بعض کے اقوال کے مطابق رانیں شکمِ اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں لیکن بعض محدثین کا کہنا ہے کہ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھٹنوں پر زور دے کر بھی تشریف فرما ہوتے۔
    حضرت ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يجلس القرفصاء.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو رانین شکمِ اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 273، رقم : 794
    2۔ ترمذي نے الشمائل المحمديہ ( 1 : 115، رقم : 128) ميں قبلہ بنت مخرمہ سے روايت لي ہے۔
    3۔ بيہقی نے السنن الکبريٰ (3 : 235، رقم : 5707) میں قبلہ بنت مخرمہ سے روایت لی ہے۔
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 40
    5۔ ابن قیم نے زادالمعاد، 1 : 170 میں قبلہ بنت مخرمہ سے روایت لی ہے۔

    33۔ زانوئے مبارک

    آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوڑوں کی ہڈیاں بھی موزونیت، اِعتدال اور وجاہت کی آئینہ دار تھیں۔ کتبِ احادیث و سیر میں جا بجا اُن کی جلالت اور عظمت کا ذکر ملتا ہے۔
    1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . ضخم الکراديس.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنے پُرگوشت تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 5
    2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 96
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 244
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 16
    5. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 437
    2۔ ایک روایت میں مذکور ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . جليل المشاش.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 33، رقم : 7
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
    3. ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 248
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 29
    5. ابن جوزي، الوفا : 406
    6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
    7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 149، رقم : 1415

    34۔مبارک پنڈلیاں

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پنڈلیاں نرم و گداز، چمکدار اور خوبصورت تھیں، باریک تھیں، موٹی نہ تھیں۔ صحابۂ کرام ثحصولِ برکت اور اظہارِ محبت کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پنڈلیوں کو مس کرتے اور اُن کا بوسہ لینے کا اعزاز حاصل کرتے۔
    1۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پنڈلیاں کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چشمِ تصور میں آج بھی اس منظر کی یاد اسی طرح تازہ ہے :
    کأني أنظر إلي وبيص ساقيه.
    ’’گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1307، کتاب المناقب، رقم : 3373
    2. مسلم، الصحيح، 1 : 360، کتاب الصلوٰة، رقم : 503
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 1 : 376، ابواب الصلوٰة، رقم : 197
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 308
    5. ابن حبان، الصحيح، 6 : 153، رقم : 2394
    6. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 326، رقم : 2995
    7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 156، رقم : 5285
    8. عبدالرزاق، المصنف، 1 : 467، رقم : 1806
    9. ابو عوانه، المسند، 2 : 50
    10. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 102، رقم : 249
    11. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 450، 451
    2۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان في ساقي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حموشة.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پنڈلیاں پتلی تھیں۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3645
    2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97
    3. حاکم، المستدرک، 2 : 662، رقم : 4196
    4. ابويعلي، المسند، 13 : 453، رقم : 4758
    5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 244، رقم : 2024
    3۔ سَو اونٹوں کے لالچ نے سراقہ کو کاروانِ ہجرت کے تعاقب پر اُکسایا۔ اس تعاقب کے دوران اُنہیں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پنڈلیوں کی زیارت ہوئی۔ وہ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں :
    فلما دنوتُ منه و هو علي ناقته، جعلتُ أنظر إلي ساقه کأنها جمارة.
    ’’پس جب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے، تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پنڈلی کی زیارت ہوئی، یوں لگا جیسے کھجور کا خوشہ پردے سے باہر نکل آیا ہو۔‘‘
    1. ابن کثير، شمائل الرسول : 12
    2. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 134، رقم : 6602
    3. ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 17
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 22

    35۔قدمین شریفین

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین نرم و گداز، پُرگوشت، دلکش و خوبصورت اور مرقع جمال و زیبائی تھے۔
    1۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان أحسن البشر قدماً.
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
    2. ابن اسحاق، السيرة، 2 : 122
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 25، رقم : 7
    4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
    5. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 79
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے۔‘‘
    2۔ حضرت انس، حضرت ابوہریرہ، حضرت ہند بن ابی ہالہ اور دیگر متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں :
    کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم شثن القدمين و الکفين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھلیاں اور دونوں پاؤں مبارک پُرگوشت تھے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5568
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3637
    3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 127
    4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 217، رقم : 6311
    5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ 1 : 415
    3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم ضخم القدمين.
    ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمینِ مقدسہ اعتدال کے ساتھ بڑے تھے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5568
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 125
    3. روياني، المسند، 2 : 283، رقم : 1362
    4. ابويعلي، المسند، 5 : 256، رقم : 2875
    5۔ ابن سعد نے ’الطبقات الکبريٰ (1 : 414 )‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔

    4۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین دیکھنے میں ہموار دکھائی دیتے تھے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . مسيح القدمين.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین ہموار اور نرم تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 37
    2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414
    3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
    5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 287
    7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    8. ابن کثير البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32

    36۔ اُنگشتانِ پا مبارک

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں کی اُنگلیاں حسن اعتدال اور حسن تناسب کے ساتھ قدرے لمبی تھیں۔ حضرت میمونہ بنت کردم رضی اللّٰہ عنھا سے مروی ہے کہ مجھے اپنے والد گرامی کی معیت میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور دستِ اقدس میں چھڑی تھی۔ میرے والدِ گرامی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں کو تھام لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔ اُس وقت مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین کی انگلیوں کی زیارت نصیب ہوئی :
    فما نسيتُ فيما نسيتُ طول أصبع قدمه السبابة علي سائر أصابعه.
    ’’پس میں آج تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کی سبابہ (انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی) کا دوسری انگلیوں کے مقابلہ میں حسنِ طوالت نہیں بھولی۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 366
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 145، رقم : 13602
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 304
    4. عسقلاني، الاصابه، 8 : 133، رقم : 11786

    37۔ مبارک تلوے

    آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک تلوے قدرے گہرے تھے، زمین پر نہ لگتے تھے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . شثن القدمين . . . خمصان الأخمصين.
    ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمینِ مقدسہ پُر گوشت تھے اور تلوے قدرے گہرے تھے۔‘‘
    1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 37، رقم : 8
    2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
    3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
    4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
    5. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
    ایک دوسری روایت میں تلووں کے برابر ہونے کا ذکر بھی ہے :
    کان . . . يطأ بقدمه جميعاً ليس لها أخمص.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے وقت پورا پاؤں زمین پر لگاتے، کوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جو زمین پر نہ لگتا۔‘‘
    1. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 395، رقم : 1155
    2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280
    3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 245
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 19، 22
    ان روایات کی محدثین نے جو تطبیق کی ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ تلووں کی گہرائی معمولی سی تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرامِ ناز سے آہستہ قدم اُٹھاتے تو پاؤں کے تلوے زمین پر نہ لگتے، لیکن جب زور سے قدم اُٹھاتے اور قدرے سختی سے پاؤں زمین پر رکھتے تو تلوے بھی نقوشِ پا میں شامل ہو جاتے۔

    38۔ مبارک ایڑیاں

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین کی ایڑیاں بھی مرقعِ حسن و جمال تھیں، ایڑیوں پر گوشت کم تھا۔
    حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . منهوس العَقَبَيْن.
    ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ایڑیوں پر گوشت کم تھا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 4 : 1820، کتاب الفضائل، رقم : 2339
    2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 38، 39، رقم : 9
    3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 86
    4. طيالسي، المسند، 1 : 104، رقم : 765
    5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1904
    6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
    7. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 17، 22
    8. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124

    39۔ قدمین شریفین کی برکات

    جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنا قدمِ مبارک رکھ کر تعمیر کعبہ کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر گداز ہوا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
    1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    أنّ النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان إذا مشي علي الصخر غاصت قدماه فيه و أثرت.
    ’’ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
    1. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
    2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
    2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا :
    عطشتُ و ليس عندي مائٌ، فنزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ضرب بقدمه الأرض، فخرج الماء، فقال : اشرب.
    ’’مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے چچا جان!) پی لیں۔‘‘
    1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 152، 153
    2. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 76
    3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 170
    4. خفاجي، نسيم الرياض، 3 : 507
    جب اُنہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اُسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
    3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
    فضر بني برجله، و قال :
    ’’اللهم اشفه، اللهم عافه‘‘ فما اشتکيت وجعي ذالک بعد.
    ’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی : اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہو گئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔‘‘
    1. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 261، رقم : 10897
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 560، ابواب الدعوات، رقم : 3564
    3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 83، 107
    4. طيالسي، المسند، 1 : 21، رقم : 143
    5. ابويعلي، المسند، 1 : 328، رقم : 409
    6. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 7 : 357
    4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمِ مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    والذي نفسي بيده لقد رأيتها تسبق القائد.
    قسم اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘
    1. ابو عوانه، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 235، رقم : 14132
    3. حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
    5۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اُونٹ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
    فضربه برجله و دعا له، فسار سيراً لم يسرمثله.
    ’’تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
    1. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
    2. مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
    3. نسائي، السنن، 7 : 297، کتاب البيوع، رقم : 4637
    4. ابن حبان، 14 : 450، رقم : 6519
    5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 337، رقم : 10617
    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اُن سے دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
    بخير قد أصابته برکتک.
    ’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1083، کتاب الجهاد والسير، رقم : 2805
    2. مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
    3. ابو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843

    40۔ قدِزیبائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد و قامت بھی حسنِ تناسب کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا۔ عالمِ تنہائی میں ہوتے تو دیکھنے والے کو محسوس ہوتا کہ سرورِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد کے مالک ہیں اور اگر اپنے جاں نثاروں کے جھرمٹ میں ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بلند اور نمایاں دکھائی دیتے۔ ظاہری حسن میں بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل نہ تھا، قامت و دلکشی اور رعنائی و زیبائی میں بھی سب سے ممتاز نظر آتے تھے۔
    1۔ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنھا اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ربعة لا تشنؤه عين من طول، و لا تقتحمه عين من قصر، غصن بين غصنين، فهو أنضر الثلاثة منظراً، و أحسنهم قداً.
    1. ابن کثير، شمائل الرسول : 46
    2. حاکم، المستدرک، 3 : 11، رقم : 4274
    3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
    4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 3 : 192
    5. ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 56
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدِ انور نہایت خوبصورت میانہ تھا، نہ ایسا طویل کہ دیکھنے والے کو پسند نہ آئے اور نہ ایسا پست کہ حقیر دکھائی دے۔ (قدِ انور) دو شاخوں کے درمیان تروتازہ (شگفتہ) شاخ کے مانند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھنے میں تینوں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یارِ غار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ) میں سب سے زیادہ بارونق اور قد کے اعتبار سے حسین دکھائی دے رہے تھے۔‘‘
    2۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    وما مشي مع أحد إلا طاله.
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ چلنے والے سے بلند قامت نظر آتے تھے۔‘‘
    1. ابنِ عساکر، السيرة النبويه، 3 : 154
    2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 116
    3. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 434
    4. انصاري، غاية السول في خصائص الرسول ا، 1 : 306
    3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدِ زیبا کے بارے میں فرماتے ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس قواماً، و أحسن الناس وجهاً.
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قامت زیبائی اور چہرۂ اقدس کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔‘‘
    ابنِ عساکر، السيرة النبويه، 3 : 157
    احادیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجوم میں ہوتے تو سب سے نمایاں دکھائی دیتے، مجلس میں جلوہ فرما ہوتے تو بھی اہلِ محفل میں سربلند نظر آتے۔
    ملا علی قاری رحمہ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
    کان إذا جلس يکون کتفه أعلي من الجالس.
    ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کسی مجلس میں) بیٹھتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانے مبارک دوسرے بیٹھنے والوں سے بلند ہوتے۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13

    نمایاں قد کی حکمتیں

    1۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    و لعل السر في ذلک أنه لا يتطاول عليه أحد صورة کما لا يتطاول عليه معني.
    ’’حکمت اس میں یہ ہے کہ جس طرح باطنی محامد و محاسن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بلند نہیں، اسی طرح ظاہری قدو قامت میں بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ نہیں سکتا۔‘‘
    ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13
    سب سے نمایاں اور سر بلند ہونے کی دوسری حکمت یہ ہے :
    في الطول مزية خص بها تلويحاً بأنه لم يکن أحد عند ربه أفضل منه لا صورة و لا معنيً.
    ’’یہ بلندی اس لئے تھی کہ ہر ایک پر یہ بات آشکار ہو جائے کہ اللہ ربُ العزت کے ہاں ظاہری و باطنی اَحوال میں اُس ذاتِ اقدس (رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی افضل نہیں۔‘‘
    ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 153
    2۔ امام خفاجی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
    وَ لم يخلق أطول من غيره لخروجه عن الإعتدال الأکمل المحمود، و لکن جعل اﷲ له هذا في رأي العين معجزة خصّه اﷲ تعالي بها، لئلا يري تفوّق أحد عليه بحسبِ الصورة، و ليظهر من بين أصحابه تعظيماً له بما لم يسمع لغيره، فإذا فارق تلک الحالة زال المحذور و علم التعظيم فظهرکما له الخلقي.
    خفاجي، نسيم الرياض، 1 : 521
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدِانور زیادہ طویل پیدا نہیں کیا گیا کیونکہ حد سے زیادہ طویل ہونا اِعتدال کے منافی ہے اور قابلِ تعریف نہیں۔ ہاں اس کے باوجود اللہ ربُ العزت نے دیکھنے والی آنکھوں میں یہ بات پیدا کر دی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند نظر آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت اِس لئے عطا کی تھی کہ کوئی صورت کے لحاظ سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلند دکھائی نہ دے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ ضرورت نہ رہتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کمال پر دکھائی دیتے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ہوئی تھی۔‘‘
    3۔ امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدِ انور کو طویل پیدا فرما دیتا، لیکن ربِ قادر نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میانہ قدہی عطا فرمایا، البتہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعجاز تھا کہ دیکھنے والے محسوس کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے سربلند ہیں اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظیر نہیں۔
    أن ذلک يري في أعين الناظرين فقط، وجسده باق علي أصل
    خلقته، علي حد . . . فمثل ارتفاعه المعنوي في عين الناظر، فرآه رفعةً حسيةً.
    زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 485
    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف لوگوں کی نظروں میں بلند دکھائی دیتے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر اس حال میں بھی اصل خلقت پر (میانہ) ہی رہتا . . . ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعتِ معنوی کو ہی اللہ ربُ العزت نے دیکھنے والے کی آنکھ میں رفعتِ حسی بنا دیا تھا۔‘‘
    امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ مزید رقمطراز ہیں :
    وَ ذلک کي لا يتطاول عليه أحد صورةً، کما لا يتطاول معنًي.
    شرح زرقاني المواهب اللدنيه، 5 : 485
    ’’اور ایسا اس لئے تھا تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ جس طرح معنوی اور باطنی لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی بلند نہیں اسی طرح ظاہر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بڑھ نہیں سکتا۔‘‘

    1۔ القرآن الحکیم
    2۔ آلوسی، محمود بن عبد اللہ حسینی (1217۔1270ھ / 1802۔1854ء)۔ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی۔ لبنان: دار احیاء التراث العربی۔
    3۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان کوفی (159۔235ھ / 776۔ 849ء)۔ المصنف۔ ریاض، سعودی عرب: مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔
    4۔ ابن ابی حاتم رازی، ابو محمد عبد الرحمن (240۔367 / 854۔938)۔ تفسیر القرآن العظیم۔ سعودی عرب: مکتبہ نزار مصطفی الباز، 1419 / 1999۔
    5۔ ابن ابی عاصم، ابوبکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (206۔287ھ / 822۔ 900ء)۔ الزہد، قاہرہ، مصر: دارالریان للتراث، 1408ھ۔
    6۔ ابن اثیر، ابو السعادات مبارک بن محمد بن محمد بن عبد الکریم بن عبدالواحد شیبانی جزری (544۔606ھ / 1149۔1210ء)۔ الکامل فی التاریخ۔ بیروت، لبنان: دار صادر، 1399ھ / 1979ء۔
    7۔ ابن اثیر، ابو السعادات مبارک بن محمد بن محمد بن عبد الکریم بن عبدالواحد شیبانی جزری (544۔606ھ / 1149۔1210ء)۔ النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر۔ قم، ایران: مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، 1364ھ۔
    8۔ ابن اسحاق، محمد بن اسحاق بن یسار، (85۔151ھ)۔ سیرۃ ابن اسحاق، معہد الدراسات والابحاث للتعریب۔
    9۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام حرانی (661۔728ھ / 1263۔1328ء)۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ بیروت، لبنان: دار ابن حزم، 1417ھ۔
    10۔ ابن جزی، محمد بن احمد (693ھ / 1294ء)۔ کتاب التسہیل لعلوم التنزیل۔ بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی۔
    11۔ ابن جعد، ابو الحسن علی بن جعد بن عبید ہاشمی (133۔230ھ / 750۔845ء)۔ المسند، بیروت، لبنان: مؤسسہ نادر، 1410ھ / 1990ء۔
    12۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اللہ (510۔579ھ / 1116۔1201ء)۔ صفوۃ الصفوہ۔ بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیہ، 1409ھ / 1989ء۔
    13۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اللہ (510۔579ھ / 1116۔1201ء)۔ الوفا باَِحوال المصطفیٰ۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1408ھ / 1988ء۔
    14۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔354ھ / 884۔965ء)۔ الثقات۔ بیروت، لبنان: دار الفکر، 1395ھ / 1975ء۔
    15۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔354ھ / 884۔965ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالہ، 1414ھ / 1993ء۔
    16۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔852ھ / 1372۔1449ء)۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ بیروت، لبنان: دار الجیل، 1412ھ / 1992ء۔
    17۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔852ھ / 1372۔1449ء)۔ الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ، بیروت، لبنان۔
    18۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔852ھ / 1372۔1449ء)۔ فتح الباری۔ لاہور، پاکستان: دار نشر الکتب الاسلامیہ، 1401ھ / 1981ء۔
    19۔ ابن خزیمہ، ابو بکر محمد بن اسحاق (223۔311ھ / 838۔924ء)۔ الصحیح، بیروت، لبنان: المکتب الاسلامی، 1390ھ / 1970ء۔
    20۔ ابن راہویہ، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم بن عبداللہ (161۔ 237ھ / 778۔851ء)۔ المسند۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب: مکتبۃ الایمان، 1412ھ / 1991ء۔
    21۔ ابن سعد، ابو عبد اللہ محمد (168۔230ھ / 784۔845ء)۔ الطبقات الکبریٰ۔ بیروت، لبنان: دار بیروت للطباعہ و النشر، 1398ھ / 1978ء۔
    22۔ ابن شاہین، عبدالباسط بن خلیل، غایۃ السول فی سیرۃ الرسول۔ بیروت، لبنان: عالم الکتب، 1988ء۔
    23۔ ابن عبد البر، ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد (368۔463ھ / 979۔1071ء)۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ بیروت، لبنان: دار الجیل، 1412ھ۔
    24۔ ابن عبد البر، ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد (368۔463ھ / 979۔1071ء)۔ التمہید۔ مغرب (مراکش): وزات عموم الاوقاف و الشؤون الاسلامیہ، 1387ھ۔
    25۔ ابن عساکر، ابو قاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ بن عبد اللہ بن حسین دمشقی (499۔571ھ / 1105۔1176ء)۔ تاریخ / تہذیب دمشق الکبیر۔ بیروت، لبنان: دارالمیسرہ، 1399ھ / 1979ء۔
    26۔ ابن عساکر، ابو قاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ بن عبد اللہ بن حسین دمشقی (499۔571ھ / 1105۔1176ء)۔ السیرۃ النبویہ۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی، 1421ھ / 2001ء۔
    27۔ ابن قدامہ، المقدسی، عبداﷲ بن احمد، ابو محمد، (620ھ)۔ المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی۔ بیروت، لبنان: دارالفکر، 1405ھ۔
    28۔ ابن قیم، محمد ابی بکر، ایوب الزرعی، ابو عبداﷲ، (691۔751ھ)۔ زادالمعاد فی ہدیہ خیر العباد۔ الکویت: مکتبۃ المنار الاسلامیہ، 1986ء۔
    29۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔774ھ / 1301۔1373ء)۔ البدایہ و النہایہ۔ بیروت، لبنان: دار الفکر، 1419ھ / 1998ء۔
    30۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔774ھ / 1301۔1373ء)۔ تفیسر القرآن العظیم۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ، 1400ھ / 1980ء۔
    31۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔774ھ / 1301۔1373ء)۔ شمائل الرسول، بیروت، لبنان: دارالمعرفۃ۔
    32۔ ابن ماجہ، ابو عبد اﷲ محمد بن یزید قزوینی (209۔273ھ / 824۔887ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1419ھ / 1998ء۔
    33۔ ابن مبارک، ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن واضح مروزی (118۔181ھ / 736۔ 798ء)۔ کتاب الزہد۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    34۔ ابن ہشام، ابو محمد عبد الملک حمیری (م213ھ / 828ء)۔ السیرۃ النبویہ۔ بیروت، لبنان: دارالحیل، 1411ھ۔
    35۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سبحستانی (202۔275ھ / 817۔889ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان: دار الفکر، 1414ھ / 1994ء۔
    36۔ ابوالحسین، عبدالباقی بن قائع، (265۔351ھ) معجم الصحابۃ۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب: مکتبۃ الغرباء الاثریۃ، 1418ھ۔
    37۔ ابو علا مبارک پوری، محمد عبد الرحمن بن عبد الرحیم (1283۔1353ھ)۔ تحفۃ الاحوذی۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    38۔ ابو عوانہ، یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم بن زید نیساپوری (230۔316ھ / 845۔ 928ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ، 1998ء۔
    39۔ ابو نعیم، احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔1038ء)۔ حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء۔ بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی، 1400ھ / 1980ء۔
    40۔ ابو نعیم، احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔1038ء)۔ دلائل النبوہ۔ حیدرآباد، بھارت: مجلس دائرہ معارف عثمانیہ، 1369ھ / 1950ء۔
    41۔ ابو نعیم، احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔1038ء)۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1996ء۔
    42۔ ابو نعیم، احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔1038ء)۔ مسند الامام ابی حنیفہ۔ ریاض، سعودی عرب: مکتبۃ الکوثر، 1415ھ۔
    43۔ ابو یعلی، احمد بن علی بن مثنی بن یحیی بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔307ھ / 825۔919ء)۔ المسند۔ دمشق، شام: دار المامون للتراث، 1404ھ / 1984ء۔
    44۔ ابویعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحیی بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔307ھ / 825۔919ء)۔ المعجم، فیصل آباد، پاکستان: ادارۃ العلوم و الاثریہ، 1407ھ۔
    45۔ احمد بن حنبل، ابو عبد اللہ بن محمد (164۔241ھ / 780۔855ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان: المکتب الاسلامی، 1398ھ / 1978ء۔
    46۔ ازدی، معمر بن راشد (151ھ)۔ الجامع۔ بیروت، لبنان: مکتبۃ الایمان، 1995ء۔
    47۔ ازدی، ربیع بن حبیب بن عمر بصری، الجامع الصحیح مسند الامام الربیع بن حبیب۔ بیروت، لبنان: دارالحکمۃ، 1415ھ۔
    48۔ اشرف علی تھانوی، مولانا (1280۔1362ھ / 1863۔1943ء)۔ نشر الطیب۔ کراچی، پاکستان: ایچ۔ ایم سعید کمپنی، 1989ء۔
    49۔ اصبہانی، ابی محمد عبداﷲ بن محمد بن جعفر بن حبان (369ھ)۔ اخلاق النبیا و آدابہ، ریاض، سعودی عرب: دارالمسلم، 1998ء۔
    50۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔256ھ / 810۔ 870ء)۔ الادب المفرد۔ بیروت، لبنان: دار البشائر الاسلامیہ، 1409ھ / 1989ء۔
    51۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔256ھ / 810۔ 870ء)۔ التاریخ الصغیر۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ، 1406ھ / 1986ء۔
    52۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔256ھ / 810۔ 870ء)۔ التاریخ الکبیر۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    53۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔256ھ / 810۔ 870ء)۔ الصحیح، بیروت، لبنان + دمشق، شام: دار القلم، 1401ھ / 1981ء۔
    54۔ بزار، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بصری (210۔292ھ / 825۔905ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان: 1409ھ۔
    55۔ بیجوری، ابراہیم بن محمد (1276ھ)۔ المواہب اللدنیہ حاشیہ علی الشمائل المحمدیہ۔ مصر: مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، 1375ھ / 1956ء۔
    56۔ بيہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔458ھ / 994۔ 1066ء)۔ دلائل النبوہ۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1405ھ / 1985ء۔
    57۔ بيہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔458ھ / 994۔ 1066ء)۔ السنن الکبریٰ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب: مکتبہ دار الباز، 1414ھ / 1994ء۔
    58۔ بيہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔458ھ / 994۔ 1066ء)۔ شعب الایمان۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1410ھ / 1990ء۔
    59۔ بيہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔458ھ / 994۔ 1066ء)۔ الاعتقاد۔ بیروت، لبنان: دارالآفاق الجدید، 1401ھ۔
    60۔ بيہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔458ھ / 994۔ 1066ء)۔ المدخل الی السنن الکبریٰ۔ الکویت: دارالخلفاء للکتاب الاسلامی، 1404ھ۔
    61۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمیٰ (210۔279ھ / 825۔ 892ء)۔ الجامع الصحیح۔ بیروت، لبنان: دار الغرب الاسلامی، 1998ء۔
    62۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی (210۔279ھ / 825۔ 892ء)۔ الشمائل المحمدیہ۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1412ھ۔
    63۔ تلمسانی، احمد بن محمد بن احمد بن یحییٰ المقرئی (1441ھ)۔ فتح المتعال فی مدح النعال۔ قاہرہ، مصر: دارالقاضی عیاض للتراث۔
    64۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔405ھ / 933۔1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ بیروت۔ لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1411 / 1990۔
    65۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔405ھ / 933۔1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ مکہ، سعودی عرب: دار الباز للنشر و التوزیع۔
    66۔ حسان بن ثابتص، ابن منذر جزرجی (م54ھ / 674ء)۔ دیوان۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1414ھ / 1994ء۔
    67۔ حسام الدین ہندی، علاء الدین علی متقی (م 975ھ)۔ کنز العمال۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالہ، 1399 / 1979۔
    68۔ حسینی، ابراہیم بن محمد (1054۔1120ھ)۔ البیان و التعریف۔ بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی، 1401ھ۔
    69۔ حکیم ترمذی، ابو عبد اللہ محمد بن علی بن حسن بن بشیر(1)۔ نوادر الاصول فی احادیث الرسول۔ بیروت، لبنان: دار الجیل، 1992ء۔
    70۔ حلبی، علی بن برہان الدین (1404ھ)۔ السیرۃ الحلبیۃ۔ بیروت، لبنان: دارالمعرفہ، 1400ھ۔
    71۔ حمیدی، ابو بکر عبداللہ بن زبیر (م219ھ / 834ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ + قاہرہ، مصر: مکتبۃ المنتبی۔
    72۔ خازن، علی بن محمد بن ابراہیم بن عمر بن خلیل (678۔741ھ / 1279۔1340ء)۔ لباب التاویل فی معانی التنزیل۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ۔
    73۔ خطیب بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت (392۔ 463ھ / 1002۔1071ء)۔ تاریخ بغداد۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    74۔ خطیب بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت (392۔ 463ھ / 1002۔1071ء)۔ الکفایۃ فی علم الروایۃ۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب: المکتبۃ العلمیہ،
    75۔ خطیب بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت (392۔ 463ھ / 1002۔1071ء)۔ مشکوٰۃ المصابیح۔ بیروت، لبنان: دارالفکر، 1411ھ / 1991ء۔
    76۔ خفاجی، ابو عباس احمد بن محمد بن عمر (979۔1069ھ / 1571۔1659ء)۔ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1421ھ / 2001ء۔
    77۔ دارمی، ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن (181۔255ھ / 797۔869ء)۔ السنن، بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
    78۔ دار قطنی، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان (306۔385ھ / 918۔995ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ، 1386ھ / 1966ء۔
    79۔ دومی، احمد عبدالجواد، الاتحافات الربانیہ۔ مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، 1381ھ۔
    80۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد الذہبی (673۔748ھ)۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال۔ بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیہ، 1995ء۔
    81۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد الذہبی (673۔748ھ)۔ سیر اعلام النبلاء۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالۃ، 1413ھ۔
    82۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد الذہبی (673۔748ھ)۔ تذکرۃ الحفاظ۔ حیدر آباد دکن، بھارت: دائرۃ المعارف العثمانیہ، 1388ھ / 1968ء
    83۔ رازی، محمد بن عمر بن حسن بن حسین بن علی تیمی (543۔606ھ / 1149۔1210ء)۔ التفسیر الکبیر۔ تہران، ایران: دار الکتب العلمیہ۔
    84۔ رامہر مزی، حسن بن عبدالرحمن (260۔360ھ)۔ المحدث الفاصل بین الراوی والواعی۔ بیروت، لبنان: دارالفکر، 1404ھ۔
    85۔ رویانی، ابو بکر فی بن ہارون (م 307ھ)۔ المسند۔ قاہرہ، مصر: مؤسسہ قرطبہ، 1416ھ۔
    86۔ زرقانی، ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف بن احمد بن علوان مصری ازہری مالکی (1055۔1122ھ / 1645۔1710ء)۔ شرح المواہب اللدنیہ۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1417ھ / 1996ء۔
    87۔ زرقانی، ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف بن احمد بن علوان مصری ازہری مالکی (1055۔1122ھ / 1645۔1710ء)۔ شرح الموطا۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1411ھ۔
    88۔ زیلعی، عبداﷲ بن یوسف، ابو محمد الحنفی (762ھ)۔ نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ۔ مصر: دارالحدیث، 1357ھ۔
    89۔ سیوطی، جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان (849۔911ھ / 1445۔1505ء)۔ الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    90۔ سیوطی، جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان (849۔911ھ / 1445۔1505ء)۔ الخصائص الکبریٰ۔ فیصل آباد، پاکستان: مکتبہ نوریہ رضویہ۔
    91۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔1250ھ / 1760۔1834ء)۔ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار۔ بیروت، لبنان: دار الفکر، 1402ھ / 1982ء۔
    92۔ شہاب، ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ بن جعفر بن علی بن حکمون بن ابراہیم بن محمد بن مسلم قضاعی (م 454ھ / 1062ء)۔ المسند، بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالہ، 1407ھ / 1986ء۔
    93۔ شیبانی، ابوبکر احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد (206۔287ھ / 822۔900ء)۔ الآحاد و المثانی۔ ریاض، سعودی عرب: دار الرایہ، 1411ھ / 1991ء۔
    94۔ شیبانی، عبداﷲ بن احمد بن حنبل (213۔290ھ)۔ السنۃ۔ دمام: دارابن قیم، 1406ھ۔
    95۔ شاہ ولی اﷲ، محدث دہلوی، (1174ھ / 1762ء)۔ الدرالثمین۔
    96۔ صالحی، ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بن علی بن یوسف شامی (م 942ھ / 1536ء)۔ سبل الہدیٰ و الرشاد۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1414ھ / 1993ء۔
    97۔ ضیاء مقدسی، محمد بن عبد الواحد حنبلی (م 643ھ)۔ الاحادیث المختارہ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب: مکتبۃ النہضۃ الحدیثیہ، 1410ھ / 1990ء۔
    98۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔360ھ / 873۔971ء)۔ المعجم الاوسط۔ ریاض، سعودی عرب: مکتبۃ المعارف، 1405ھ / 1985ء۔
    99۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔360ھ / 873۔971ء)۔ المعجم الصغیر، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1403ھ / 1983ء۔
    100۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔360ھ / 873۔971ء)۔ المعجم الکبیر، موصل، عراق: مطبعۃ الزہراء الحدیثہ۔
    101۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔360ھ / 873۔971ء)۔ المعجم الکبیر۔ قاہرہ، مصر: مکتبہ ابن تیمیہ۔
    102۔ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224۔310ھ / 839۔923ء)۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ، 1400ھ / 1980ء۔
    103۔ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224۔310ھ / 839۔923ء)۔ تاریخ الامم والملوک۔ بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیہ، 1407ھ۔
    104۔ طیالسی، ابو داؤد سلیمان بن داؤد جارود (133۔204ھ / 751۔819ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان: دار المعرفہ۔
    105۔ عبد بن حمید، ابو محمد بن نصر الکسی (م 249ھ / 863ء)۔ المسند۔ قاہرہ، مصر: مکتبۃ السنہ، 1408ھ / 1988ء۔
    106۔ عبدالحق محدث دہلوی، شیخ (958۔1052ھ / 1551۔1642ء)۔ مدارج النبوہ۔ کانپور، بھارت: مطبع منشی نولکشور۔
    107۔ عبدالحق محدث دہلوی، شیخ (958۔1052ھ / 1551۔1642ء)۔ شرح سفر السعادت۔ کانپور، بھارت: مطبع منشی نولکشور۔
    108۔ عبد الحق محدث دہلوی، شیخ (958۔1052ھ / 1551۔1642ء)۔ شرح فتوح الغیب۔ کانپور، بھارت: مطبع منشی نولکشور۔
    109۔ عبدالرزاق، ابوبکر بن ہمام بن نافع صنعانی (126۔211ھ / 744۔826ء)۔ المصنف۔ بیروت، لبنان: المکتب الاسلامی، 1403ھ۔
    110۔ عبدالعزیز الدباغ (م 1132ھ / 1720ء)۔ الابریز۔ مصر: طابع: عبدالحمید احمد الحنفی۔
    111۔ عجلونی، ابو الفداء اسماعیل بن محمد بن عبد الہادی بن عبد الغنی جراحی (1087۔ 1162ھ / 1676۔1749ء)۔ کشف الخفا و مزیل الالباس۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالہ، 1405ھ۔
    112۔ فاکہی، ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق بن عباس مکی (م 272ھ / 885ء)۔ اخبار مکہ فی قدیم الدہر و حدیثہ۔ بیروت، لبنان: دار خضر، 1414ھ۔
    113۔ فاسی، محمد المہدی بن احمد بن علی یوسف (1033۔1109ھ / 1624۔1698ء)۔ مطالع المسرات۔ فیصل آباد، پاکستان: مکتبہ نوریہ رضویہ۔
    114۔ قاضی عیاض، ابو الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرو بن موسیٰ بن عیاض بن محمد بن موسیٰ بن عیاض یحصبی (476۔544ھ / 1083۔1149ء)۔ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰا۔ بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی۔
    115۔ قاضی عیاض، ابو الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرو بن موسیٰ بن عیاض بن محمد بن موسیٰ بن عیاض یحصبی (476۔544ھ / 1083۔1149ء)۔ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰا۔ ملتان، پاکستان: عبدالتواب اکیڈمی۔
    116۔ قرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد بن یحییٰ بن مفرج اُموی (284۔380ھ / 897۔990ء)۔ الجامع لاحکام القرآن۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی۔
    117۔ قسطلانی، ابو العباس احمد بن محمد بن ابی بکر بن عبد الملک بن احمد بن محمد بن محمد بن حسین بن علی (851۔923ھ / 1448۔1517ء)۔ المواہب اللدنیہ۔ بیروت، لبنان: المکتب الاسلامی، 1412ھ / 1991ء۔
    118۔ کنانی، احمد بن ابی بکر بن اسماعیل (762۔840ھ)۔ مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ۔ بیروت، لبنان: دارالعربیۃ، 1403ھ۔
    119۔ مالک، ابن انس بن مالکص بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔179ھ / 712۔795ء)۔ الموطا۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی، 1406ھ / 1985ء۔
    120۔ محب طبری، ابو جعفر احمد بن عبد اللہ بن محمد بن ابی بکر بن محمد بن ابراہیم (615۔694ھ / 1218۔1295ء)۔ الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ۔ بیروت، لبنان: دار الغرب الاسلامی، 1996ء۔
    121۔ مزی، ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن بن یوسف بن عبد الملک بن یوسف بن علی (654۔742ھ / 1256۔1341ء)۔ تہذیب الکمال۔ بیروت، لبنان: مؤسسۃ الرسالہ، 1400ھ / 1980ء۔
    122۔ مسلم، ابن الحجاج قشیری (206۔ 261ھ / 821۔875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی۔
    123۔ مقریزی، ابو العباس احمد بن علی بن عبد القادر بن محمد بن ابراہیم بن محمد بن تمیم بن عبد الصمد (769۔845ھ / 1367۔1441ء)۔ اِمتاعُ الاَسماع۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1420ھ / 1999ء۔
    124۔ ملا علی قاری، نور الدین بن سلطان محمد ہروی حنفی (م 1014ھ / 1606ء)۔ شرح الشفا۔ مصر، 1309ھ۔
    125۔ ملا علی قاری، نور الدین بن سلطان محمد ہروی حنفی (م 1014ھ / 1606ء)۔ جمع الوسائل فی شرح الشمائل۔ کراچی، پاکستان: نور محمد، اصح المطابع۔
    126۔ ملا علی قاری، نور الدین بن سلطان محمد ہروی حنفی (م 1014ھ / 1606ء)۔ الزبدہ فی شرح البردہ۔
    127۔ ممدوح، محمود سعید۔ رفع المنارہ۔ قاہرہ، مصر: دار الامام الترمذی، 1418ھ / 1997ء۔
    128۔ مناوی، عبدالرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین (952۔1031ھ / 1545۔1621ء)۔ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ مصر: مکتبہ تجاریہ کبریٰ، 1356ھ۔
    129۔ مناوی، عبدالرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین (952۔1031ھ / 1545۔1621ء)۔ شرح الشمائل علی جمع الوسائل۔ کراچی، پاکستان: نور محمد، اصح المطابع۔
    130۔ منذری، ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی بن عبد اللہ بن سلامہ بن سعد (581۔656ھ / 1185۔ 1258ء)۔ الترغیب و الترہیب۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
    131۔ نبہانی، یوسف بن اسماعیل بن یوسف النبہانی (1265۔1350ھ)۔ الانوار المحمدیہ من المواہب اللدنیہ۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی، 1417ھ / 1997ء۔
    132۔ نبہانی، یوسف بن اسماعیل بن یوسف النبہانی (1265۔1350ھ)۔ جواہر البحار فی فضائل النبی المختار۔ بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیہ، 1419ھ / 1998ء۔
    133۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔303ھ / 830۔915ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1416ھ / 1995ء۔
    134۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔303ھ / 830۔915ء)۔ السنن الکبریٰ۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ، 1411ھ / 1991ء۔
    135۔ نسفی، ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود (م 710ھ / 1310ء)۔ المدارک۔ دار احیاء الکتب العربیہ۔
    136۔ نووی، ابو زکریا، یحییٰ بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حزام (631۔677ھ / 1233۔1278ء)۔ تہذیب الاسماء و اللغات۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔
    137۔ نووی، ابو زکریا، یحیی بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حزام (631۔677ھ / 1233۔1278ء)۔ شرح صحیح مسلم۔ کراچی، پاکستان: قدیمی کتب خانہ، 1375ھ / 1956ء۔
    138۔ ہبۃ اﷲ بن الحسن بن منصور اللالکائی، ابوالقاسم (418ھ)۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ من الکتاب والسنۃ و اجماع۔ ریاض، سعودی عرب: دار طیبۃ، 1402ھ۔
    139۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ مجمع الزوائد۔ قاہرہ، مصر: دارالریان للتراث + بیروت، لبنان: دارالکتاب العربی، 1407ھ / 1987ء۔
    140۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ موارد الظمآن اِلی زوائد ابن حبان۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔