ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر 4

0 comments
اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے پہلی بار جلال انصر کو تب قریب سے دیکھا جب ایک دن وہ چاروں کالج کے لان میں بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں، وہ وہاں کسی کام سے آیا تھا۔ رسمی سی علیک سلیک کے بعد وہ زینب کے ساتھ چند قدم دور جا کھڑا ہوا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ ایک عجیب سی مسرت اور سر خوشی کا احساس اسے گھیرے میں لے رہا تھا۔
وہ چند منٹ زینب سے بات کرنے کے بعد وہیں سے چلا گیا۔ امامہ اس کی پشت پر نظریں جمائے اس وقت تک اسی دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ اس کے اردگرد بیٹھی اس کی فرینڈز کیا باتیں کر رہی تھیں، اسے اس وقت اس کا کوئی احساس نہیں تھا جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تو یکدم جیسے دوبارہ اپنے ماحول میں واپس آ گئی۔
جلال انصر سے اس کی دوسری ملاقات زینب کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس دن وہ کالج سے واپسی پر زینب کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی۔ زینب کچھ دنوں سے ان سب کو اپنے ہاں آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ باقی سب نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا تھا، مگر امامہ اس دن اس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی تھی۔ اس کے گھر آ کر اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ شاید اس احساس کی وجہ جلال انصر سے اس گھر کی نسبت تھی۔
وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی اور زینب چائے تیار کرنے کے لئے کچن میں گئی تھی۔ جب جلال ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔ امامہ کو وہاں دیکھ کر کچھ چونک گیا۔ شاید اسے امامہ کو وہاں دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔
"السلام علیکم! کیا حال ہے آپ کا؟" جلال نے شاید اس طرح بے دھڑک اندر داخل ہونے پر اپنی جھینپ مٹانے کے لئےکہا۔ امامہ نے رنگ بدلتے چہرے کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
"زینب کے ساتھ آئی ہیں آپ؟" اس نے پوچھا۔
"جی۔"
"زینب کہاں ہے۔ میں دراصل اس کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اس کی کوئی دوست یہاں موجود ہے۔" کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔
"آپ بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔" امامہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ ٹھٹک گیا۔
"شکریہ۔" وہ کچھ حیران نظر آیا۔" آپ نے کہاں سنی ہے؟"
"ایک دن میں نے زینب کو فون کیا تھا جب تک فون ہولڈ رہا مجھے آپ کی آواز آتی رہی، پھر زینب سے آپ کے بارے میں پتا چلا۔ میں اس نعتیہ مقابلے میں بھی گئی تھی جہاں آپ نےوہ نعت پڑھی تھی۔"
وہ بے اختیار کہتی چلی گئی۔ جلال انصر کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حیران ہو یا خوش۔
"بہت اچھی تو نہیں، بس پڑھ لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے۔" اس نے حیرت کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے سفید چادر میں لپٹی اس دبلی پتلی دراز قامت لڑکی کو دیکھا جس کی گہری سیاہ آنکھیں کوئی بہت عجیب سا تاثر لئے ہوئے تھیں۔ اپنی آواز کی تعریف وہ بہت سوں سے سن چکا تھا مگر اس وقت اس لڑکی کی تعریف اس کے لئے قدرے غیر معمولی تھی اور جس انداز میں اس نے یہ کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ عجیب۔
وہ پلٹ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔ وہ ویسے بھی لڑکیوں سے گفتگو میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور پھر ایک ایسی لڑکی سے گفتگو جس سے وہ صرف چہرے کی حد تک واقف تھا۔
امامہ ایک عجیب سی مسرت کے عالم میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے جلال انصر سے بات کی تھی۔ اپنے سامنے۔۔۔۔۔ خود سے اتنے قریب۔۔۔۔۔ وہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے کچھ آگے کارپٹ پر اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔ تصور کی آنکھ سے وہ اسے ابھی بھی وہیں دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ان کی اگلی ملاقات ہاسپٹل میں ہوئی۔ پچھلی دفعہ اگر امامہ دانستہ طور پر زینب کے گھر گئی تھی تو اس بار یہ ایک اتفاق تھا۔ امامہ، رابعہ کے ساتھ وہاں آئی تھی جسے وہاں اپنی کسی دوست سے ملنا تھا۔ ہاسپٹل کے ایک کوریڈور میں فائنل سٹوڈنٹس کے ایک گروپ میں اس نے جلال انصر کو دیکھا۔ اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔ کوریڈور میں اتنا رش تھا کہ وہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور اس وقت پہلی بار امامہ کو احسا س ہوا کہ اسے سامنے دیکھ کر اس کے لئے رک جانا کتنا مشکل کام تھا۔ رابعہ کی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اس کا دھیان مکمل طور پر باہر ہی تھا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ رابعہ کے ساتھ اس کی دوست کے کمرے سے باہر آئی تھی۔ اب وہاں فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کا وہ گروپ نہیں تھا۔ امامہ کو بے اختیار مایوسی ہوئی۔ رابعہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے باہر نکل رہی تھی جب سیڑھیوں پر ان دونوں کا آمنا سامنا جلال سے ہو گیا۔ امامہ کے جسم سے جیسے ایک کرنٹ سا گزر گیا تھا۔
"السلام علیکم۔ جلال بھائی! کیسے ہیں آپ؟" رابعہ نے پہل کی تھی۔
"اللہ کا شکر ہے۔"
اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"آپ لوگ یہاں کیسے آ گئے؟" اس بار جلال نے امامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں اپنی ایک فرینڈ سے ملنے آئی تھی اور امامہ میرے ساتھ آئی تھی۔" رابعہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی جبکہ امامہ خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
اس کی آواز سنتے ہوئے وہ ایک بار پھر ٹرانس میں آ رہی تھی۔ اس نے بہت کم لوگوں کو اتنے شستہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے سنا تھا، جس لہجے میں وہ بات کر رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں ہر بار اس کی آواز سنتے ہی اس کے کانوں میں اس کی پڑھی ہوئی وہ نعت گونجنے لگتی تھی۔ اسے عجیب سا رشک آ رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے۔
جلال نے رابعہ سے بات کرتے ہوئے شاید اس کی محویت کو محسوس کیا تھا، اسی لئے بات کرتے کرتے اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا وہ اس شخص کے اور قریب چلی جائے۔ جلال سے نظریں ہٹا کر اردگرد گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے اس نے تین بار لاحول پڑھی۔"شاید اس وقت شیطان میرے دل میں آ کر مجھے اس کی طرف راغب کر رہا ہے۔" اس نے سوچا مگر لاحول پڑھنے کے بعد بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی جلال کے لئے ویسی ہی کشش محسوس کر رہی تھی۔
اسجد سے اتنے سالوں کی منگنی کے بعد بھی کبھی اس نے اپنے آپ کو اس کے لئے اس طرح بےاختیار ہوتے نہیں دیکھا تھا جس طرح وہ اس وقت ہو رہی تھی۔ وہاں کھڑے اسے پہلی بار جلال سے بہت زیادہ خوف آیا۔ میں کیا کروں گی اگر میرا دل اس آدمی کو دیکھ کر اسی طرح بے اختیار ہوتا رہا، آخر اسے دیکھ کر مجھے۔۔۔۔۔ اس نے جیسے بے بسی کے عالم میں سوچا۔ میں اتنی کمزور تو کبھی بھی نہیں تھی کہ اس جیسے آدمی کو دیکھ کر اس طرح۔۔۔۔۔ اس نے اپنے وجود کو موم کا پایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"بھائی! آپ فارغ ہیں؟" اس رات زینب دروازے پر دستک دے کر جلال کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"ہاں ، آ جاؤ۔" اس نے اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر زینب کو دیکھا۔
"آپ سے ایک کام ہے۔" زینب اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
"کیا کام ہے؟"
"آپ ایک کیسٹ میں اپنی آواز میں کچھ نعتیں ریکارڈ کر دیں۔" زینب نے کہا۔ جلا ل نے حیرت سے اس کی فرمائش سنی۔
"کس لئے؟"
"وہ میری دوست ہے امامہ اس کو آپ کی آواز بہت پسند ہے اس لئے۔۔۔۔۔ اس نے مجھ سے فرمائش کی اور میں نے ہامی بھر لی۔" زینب نے تفصیل بتائی۔
جلال اس فرمائش پر مسکرایا۔ امامہ سے کچھ دن پہلی ہونے والی ملاقات اسے یاد آ گئی۔
"یہ وہی لڑکی ہے جو اس دن یہاں آئی تھی؟" جلال نے سرسری انداز میں پوچھا۔
"ہاں وہی لڑکی ہے، اسلام آباد سے یہاں آئی ہے۔"
"اسلام آباد سے؟ ہاسٹل میں رہ رہی ہے؟" جلال نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
"جی ہاسٹل میں رہ رہی ہے، کافی اچھا خاندان ہے اس کا، بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں اس کے فادر۔۔۔۔۔ مگر امامہ سے مل کے ذرا محسوس نہیں ہوتا۔" زینب نے بے اختیار امامہ کی تعریف کی۔
"کافی مذہبی لگتی ہے۔ میں نے اسے ایک دو بار تمہارے ساتھ کالج میں بھی دیکھا ہے۔ کالج میں بھی چادر اوڑھی ہوتی ہے اس نے۔ یہاں کالج کی"آب و ہوا" کا ابھی تک اثر نہیں ہوا اس پر۔" جلال نے کہا۔
"بھائی! اس کی فیملی بھی خاصی مذہبی ہے کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی ہے اسی طرح ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کافی کنزرویٹو لوگ ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی فیملی خاصی تعلیم یافتہ ہے۔ نہ صرف بھائی بلکہ بہنیں بھی۔ یہ گھر میں سب سے چھوٹی ہے۔" زینب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔" تو پھر آپ کب ریکارڈ کر کے دیں گے؟" زینب نے پوچھا۔
"تم کل لے لینا۔ میں ریکارڈ کر دوں گا۔" جلال نے کہا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ جال کچھ دیر کسی سوچ میں ڈوبا رہا پھر دوبارہ اس کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا جسے وہ پڑھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ان کی اگلی ملاقات لائبریری میں ہوئی تھی۔ اس بار امامہ اسے وہاں موجود دیکھ کر بے اختیار اس کی طرف چلی گئی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد امامہ نے کہا۔
"میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔"
جلال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔" کس لئے؟"
"اس کیسٹ کے لئے، جو آپ نے ریکارڈ کر کے بھجوائی تھی۔" جلال مسکرایا۔
"نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کبھی کوئی مجھ سے ایسی فرمائش کر سکتا ہے۔"
"آپ بہت خوش قسمت ہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں۔۔۔۔۔ کس حوالے سے؟" جلال نے ایک بار پھر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ہر حوالے سے۔۔۔۔۔ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔"
"آپ کے پاس بھی تو بہت کچھ ہے۔"
وہ جلال کی بات پر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ جلال کو شبہ ہوا کہ اس کی آنکھوں میں کچھ نمی نمودار ہوئی تھی مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ وہ اب نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
"پہلے کچھ بھی نہیں تھا، اب واقعی سب کچھ ہے۔" جلال نے مدھم آواز میں اسے کہتے سنا وہ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"آپ اتنی محبت سے رسوال ﷺ کا نام لیتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ۔۔۔۔۔" اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال خاموشی سے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔" چند لمحے بعد وہ آہستہ سے بولی۔
"سب لوگوں کو تو اس طرح کی محبت نہیں ہوتی جیسی محبت آپ کو حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ ہو بھی جائے تو ہر کوئی اس طرح اس محبت کا اظہار نہیں کر سکتا کہ دوسرے بھی رسول ﷺ کی محبت میں گرفتار ہونے لگیں۔ محمد ﷺ کو بھی آپ سے بڑی محبت ہو گی۔" اس نے نظریں اٹھائیں ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نمی نہیں تھی۔
"شاید مجھے وہم ہوا تھا۔" جلال نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
"یہ میں نہیں جانتا، اگر ایسا ہو تو میں واقعی بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے واقعی حضور اکرم ﷺ سے بڑی محبت ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ہر ایک کو اللہ اس محبت سے نہیں نوازتا۔"
وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اسے کبھی کسی شخص کے سامنے اس طرح کا احساس کمتری نہیں ہوا تھا، جس طرح کا احساس کمتری وہ جلال انصر کے سامنے محسوس کرتی تھی۔
"شاید میں بھی نعت پڑھ لوں۔ شاید میں بھی بہت اچھی طرح اسے پڑھ لوں مگر میں۔۔۔۔۔ میں جلال انصر کبھی نہیں ہو سکتی۔ کبھی بن ہی نہیں سکتی۔ کبھی میری آواز سن کر کسی کا وہ حال نہیں ہو سکتا جو جلال انصر کی آواز سن کر ہوتا ہے۔" وہ لائبریری سے نکلتے ہوئے مسلسل مایوسی کے عالم میں سوچ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جلال انصر سے ہونے والی چند ملاقاتوں کے بعد امامہ نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ کبھی اس کا سامنا نہ کرے، نہ اس کے بارے میں سوچے، نہ زینب کے گھر جائے۔ حتیٰ کہ اس نے زینب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی اپنی طرف سے بہت محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی ہر حفاظتی تدبیر برے طریقے سے ناکام ہوتی گئی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امامہ کی بے بسی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور پھر اس نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔
"اس آدمی میں کوئی چیز ایسی ہے، جس کے سامنے میری ہر مزاحمت دم توڑ جاتی ہے۔" اور شاید اس کا یہ اعتراف ہی تھا جس نے اسے ایک بار پھر جلال کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ پہلے اس کے لئے اس کی بے اختیاری لاشعوری تھی پھر اس نے شعوری طور پر جلال کو اسجد کی جگہ دے دی۔
"آخر کیا برائی ہے اگر میں اس شخص کا ساتھ چاہوں جس کی آواز مجھے بار بار اپنے پیغمبر ﷺ کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ میں کیوں اس شخص کے حصول کی خواہش نہ کروں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر میں اس شخص کو اپنا مقدر بنائے جانے کی دعا کروں، جس کے لئے میں انس رکھتی ہوں اور جس کے کردار سے میں واقف ہوں۔ کیا برا ہے اگر میں یہ چاہوں کہ میں جلال انصر کے نام سے شناخت پاؤں۔ اس واحد آدمی کے نام سے جسے سنتے، جیسے دیکھتے مجھے اس پر رشک آتا ہے۔" اس کے پاس ہر دلیل، ہر توجیہہ موجود تھی۔
بہت غیر محسوس طور پر وہ ہر اس جگہ جانے لگی جہاں جلال کے پائے جانے کا امکان ہوتا اور وہ اکثر وہاں پایا جاتا۔ وہ زینب کو اس وقت فون کرتی، جب جلال گھر پر ہوتا کیونکہ گھر پر ہوتے ہوئے فون ہمیشہ وہی ریسیو کرتا۔ دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی گفتگو رفتہ رفتہ طویل ہونے لگی پھر وہ ملنے لگے۔
جویریہ ، رابعہ یا زینب تینوں کو امامہ اور جلال کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ جلال اب ہاؤس جاب کر رہا تھا اور امامہ اکثر اس کے ہاسپٹل جانے لگی۔ باقاعدہ اظہار محبت نہ کرنے کے باوجود وہ دونوں اپنے لئے ایک دوسرے کے جذبات کے واقف تھے۔ جلال جانتا تھا کہ امامہ اسے پسند کرتی تھی اور یہ پسندیدگی عام نوعیت کی نہیں تھی۔ خود امامہ بھی یہ جان چکی تھی کہ جلال اس کے لئے کچھ خاص قسم کے جذبات محسوس کرنے لگا ہے۔
جلال اس قدر مذہبی تھا کہ اس نے کبھی اس کا بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا، نہ صرف یہ کہ وہ محبت کرے گا بلکہ اس طرح اس سے ملا کرے گا۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ بہت غیر محسوس انداز میں ہوتا گیا۔ اس نے کبھی زینب سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس کے اور امامہ کے درمیان کسی خاص نوعیت کا تعلق ہے۔ اگر وہ یہ انکشاف کر دیتا تو زینب اسے یقیناً امامہ کی اسجد کے ساتھ طے شدہ نسبت سے آگاہ کر دیتی۔ بہت شروع میں ہی وہ امامہ کی ایسی کسی نسبت کے بارے میں جان لیتا تو وہ امامہ کے بارے میں بہت محتاط ہو جاتا پھر کم از کم امامہ کے لئے اس حد تک انوالو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس حد تک وہ ہو چکا تھا۔
ان کے درمیان ہونے والی ایسی ہی ایک ملاقات میں امامہ نے اسے پرپوز کیا تھا۔ اسے امامہ کی جرات پر کچھ حیرانی ہوئی تھی کیونکہ کم از کم وہ خود بہت چاہنے کے باوجود ابھی یہ بات نہیں کہہ سکا تھا۔
"آپ کا ہاؤس جاب کچھ عرصے میں مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد آپ کیا کریں گے؟" امامہ نے اس دن اس سے پوچھا تھا۔
"اس کے بعد میں سپیشلائزیشن کے لئے باہر جاؤں گا۔" جلال نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اس کے بعد؟"
"اس کے بعد واپس آؤں گا اور اپنا ہاسپٹل بناؤں گا۔"
"آپ نے اپنی شادی کے بارے میں سوچا ہے؟" اس نے اگلا سوال کیا تھا۔ جلال نے حیران مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔
"امامہ! شادی کے بارے میں ہر ایک ہی سوچتا ہے۔"
"آپ کس سے کریں گے؟"
"یہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔"
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔" مجھ سے شادی کریں گے؟"
جلال دم بخود اسے دیکھنے لگا۔ اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔" آپ کو میری بات بری لگی ہے؟"
امامہ نے اسے گم صم دیکھ کر پوچھا۔ وہ یک دم جیسے ہوش میں آ گیا۔
"نہیں، ایسا نہیں ہے۔" اس نے بے اختیار کہا۔" یہ سوال مجھے تم سے کرنا چاہئیے تھا۔ تم مجھ سے شادی کروگی؟"
"ہاں ۔" امامہ نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اور آپ؟"
"میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہاں ، آف کورس۔ تمہارے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتا ہوں۔" اس نے اپنے جملے پر امامہ کے چہرے پر ایک چمک آتے دیکھی۔
"میں ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کو تمہارے ہاں بھجواؤں گا۔"
وہ اس بار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چپ سی ہو گئی۔"جلال! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں آپ سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کر لوں؟"
جلال اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔" کیا مطلب؟"
"ہو سکتا ہے میرے پیرنٹس اس شادی پر تیار نہ ہوں۔"
"کیا تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"نہیں۔"
"تو پھر تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو؟"
"کیونکہ میں اپنے پیرنٹس کو اچھی طرح جانتی ہوں۔" اس نے رسانیت سے کہا۔
جلال یک دم کچھ پریشان نظر آنے لگا۔" امامہ! میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ تمہارے پیرنٹس کو ہم دونوں کی شادی پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔"
"مگر ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ اس صورت میں مجھ سے شادی کر لیں گے؟"
جلال کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ امامہ اضطراب کے عالم میں اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد جلال نے اپنی خاموشی کو توڑا۔
"ہاں، میں تب بھی تم ہی سے شادی کروں گا۔ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اب کسی دوسری لڑکی سے شادی کر سکوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ تمہارے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں لیکن اگر وہ نہیں ہوتے تو پھر ہمیں ان کی مرضی کے بغیر شادی کرنی ہو گی۔"
"کیا آپ کے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں گے؟"
"ہاں ، میں انہیں منا لوں گا۔ وہ میری بات نہیں ٹالتے۔" جلال نے فخریہ انداز سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ہیلو کی آواز پر پلٹی۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر سالار کھڑا تھا۔ وہ اپنے اسی بے ڈھنگے حلیے میں تھا۔ ٹی شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اور وہ خود جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کے ردِ عمل کا اظہار کرے۔
سالار کے ساتھ تیمور بھی تھا۔
"آؤ۔ اس لڑکی سے ملواتا ہوں تمہیں۔" سالار نے امامہ کو کتابوں کی دوکان پر دیکھا تو قریب چلا آیا۔
تیمور نے گردن موڑ کر دیکھا اور حیرانی سے کہا۔" اس چادر والی سے؟"
"ہاں۔" سالار نے قدم بڑھائے۔
"یہ کون ہے؟" تیمور نے پوچھا۔
"یہ وسیم کی بہن ہے۔" سالار نے کہا۔
"وسیم کی؟ مگر تم اس سے کیوں مل رہے ہو؟ وسیم اور اس کی فیملی تو خاصی کنزرویٹو ہے۔ اس سے مل کر کیا کرو گے؟" تیمور نے امامہ پر دور سے ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"پہلی بار نہیں مل رہا ہوں، پہلے بھی مل چکا ہوں۔ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟" سالار نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے میگزین ہاتھ میں پکڑے پکڑے ایک نظر سالار کو اور ایک نظر اس کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا جو تقریباً سالار جیسے حیلے میں ہی تھا۔
"ہاؤ آر یو؟" سالار نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا۔
"فائن۔" امامہ نے میگزین بند کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
"یہ تیمور ہے، وسیم سے اس کی بھی خاصی دوستی ہے۔" سالار نے تعارف کرایا۔
امامہ نے ایک نظر تیمور کو دیکھا پھر ہاتھ کے اشارے سے شاپنگ سنٹر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔" وسیم وہاں ہے۔"
سالار نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا اور پھر کہا۔
"مگر ہم وسیم سے ملنے تو نہیں آئے۔"
"تو؟" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
"آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔"
"مگر میں تو آپ کو نہیں جانتی، پھر آپ مجھ سے کیا بات کرنے آئے ہیں؟"
امامہ نے سردمہری سے کہا۔ اسے سالار کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔ کاش یہ کسی سے نظریں جھکا کر بات کرنا سیکھ لیتا، خاص طور پر کسی لڑکی سے۔ اس نے میگزین دوبارہ کھول لیا۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں؟" سالار مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔" آپ کے گھر کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔"
"یقیناً ہے مگر میں آپ کو"ذاتی" طور پر نہیں جانتی۔" اس نے اسی رکھائی سے میگزین پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
"چند ماہ پہلے آپ نے ایک رات میری جان بچائی تھی۔" سالار نے مذاق اڑانے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔
"میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا۔ میرے سامنے کوئی بھی مر رہا ہوتا، میں یہی کرتی۔ اب مجھے ایکسکیوز کریں، میں کچھ مصروف ہوں۔"
سالار اس کے کہنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تیمور نے اس کے بازو کو ہولے سے کھینچ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ شاید اسے وسیم کے حوالے سے امامہ کا لحاظ تھا مگر سالار نے اپنا بازو چھڑا لیا۔
"میں اس رات آپ کی مدد کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ آپ نے مجھے پروفیشنل طریقے سے ٹریٹمنٹ نہیں دیا تھا۔"
اس بار سالار نے سنجیدگی سے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر میگزین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
"آپ کا اشارہ اگر اس تھپڑ کی طرف ہے تو ہاں وہ بالکل پروفیشنل نہیں تھا اور میں اس کے لئے معذرت کرتی ہوں۔"
"میں نے اسے مائنڈ نہیں کیا۔ میرا اشارہ اس طرف نہیں تھا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مجھے توقع تھی کہ آپ اس تھپڑ کو مائنڈ نہیں کریں گے۔"(کیونکہ اسی کے مستحق تھے اور ایک نہیں دس) اس نے جملے کا آدھا حصہ ضبط کر لیا۔
"ویسے آپ کا اشارہ کس طرف تھا؟"
"بے حد تھرڈ کلاس طریقے سے بینڈیج کی تھی آپ نے میری اور آپ کو پراپر طریقے سے بلڈ پریشر تک چیک کرنا نہیں آتا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے چیونگم کی ایک اسٹک اپنے منہ میں ڈالی۔ امامہ کے کان کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
"افسوس ناک بات ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایسے معمولی کام نہ آتے ہوں، جو کسی بھی عام آدمی کو آتے ہیں۔"
اس بار اس کا انداز پھر مذاق اڑانے والا تھا۔
"میں ڈاکٹر نہیں ہوں، میڈیکل کے ابتدائی سالوں میں ہوں، پہلی بات اور جہاں تک unprofessional ہونے کا تعلق ہے تو اگلی بار سہی، آپ نے تو ابھی اس طرح کی کئی کوششیں کرنی ہیں۔ میں آہستہ آہستہ آ پ پر پریکٹس کر کے اپنا ہاتھ صاف کر لوں گی۔"
ایک لمحہ کے لئے وہ کچھ نہیں بول سکا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ یوں جیسے وہ اس کی بات پر محظوظ ہوا تھا مگر شرمندہ نہیں اور اس نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔
"اگر آپ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔"
"کوشش کر رہی ہیں تو آپ اس میں ناکام ہوں گی۔ میں جانتی ہوں، آپ شرمندہ نہیں ہوتے، یہ صفت صرف انسانوں میں ہوتی ہے۔" امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
"آپ کے خیال میں، میں کیا ہو؟" سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"پتا نہیں، ایک vet اس بارے میں آپ کو زیادہ بہتر گائیڈ کر سکے گا۔" وہ اس بار اس کی بات پر ہنسا۔
"دو پیروں پر چلنے والے جانور کو ہر میڈیکل ڈکشنری انسان کہتی ہے اور میں دو پیروں پر چلتا ہوں۔"
"ریچھ سے لے کر کتے تک ہر چار پیروں والا جانور دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ اگر اسے ضرورت پڑے یا اس کا دل چاہے تو۔"
"مگر میرے چار پیر نہیں اور میں صرف ضرورت کے وقت نہیں، ہر وقت ہی دو پیروں پر چلتا ہوں۔" سالار نے عجیب سے انداز میں اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے چار پیر نہیں ہیں، اسی لئے میں نے آپ کو vet سے ملنے کو کہا ہے۔ وہ آپ کو آپ کی خصوصیات کے بارے میں صحیح بتا سکے گا۔"
امامہ نے سرد آواز میں کہا۔ وہ اسے زچ کرنے میں واقعی کامیاب ہو چکا تھا۔
"ویسے جتنی اچھی طرح سے آپ جانوروں کے بارے میں جانتی ہیں، آپ ایک بہت اچھی vet ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کے علم سے خاصا متاثر ہوا ہوں میں۔"امامہ کے چہرے کی سرخی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔"اگر آپ میری vet بن جاتی ہیں تو میں آپ کے بتائے ہوئے مشورے کے مطابق آپ ہی کے پاس آیا کروں گا تاکہ آپ میرے بارے میں ریسرچ کر کے مجھے بتا سکیں۔"
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی، صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھا اور ایسے شخص کے ساتھ لمبی گفتگو کرنا آ بیل مجھے مار کہ مترادف تھا اور وہ یہ حماقت کر چکی تھی۔
"ویسے آپ کیا فیس چارج کریں گی؟" وہ بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"یہ وسیم آپ کو بتا دے گا۔" امامہ نے اس بار اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
"چلیں ٹھیک ہے، یہ میں وسیم سے پوچھ لوں گا۔ اس طرح تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔"
وہ اس کی دھمکی کو سمجھنے کے باوجود مرعوب نہیں ہوا اور اس نے امامہ کو یہ جتا بھی دیا۔ تیمور نے ایک بار پھر اس کا بازو پکڑ لیا۔
"آؤ سالار! چلتے ہیں، مجھے ایک ضروری کام یاد آ رہا ہے۔" اس نے عجلت کے عالم میں سالار کو اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹنے کی کوشش کی مگر سالار نے توجہ نہیں دی۔
"چلتے ہیں یار! اس طرح کھینچو تو مت۔"وہ اس سے کہتے ہوئے ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"بہرحال یہ سب مذاق تھا، میں واقعی آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ نے اور وسیم نے کافی مدد کی میری، گڈ بائے۔"
وہ کہتے ہوئے واپس مڑ گیا۔ امامہ نے بے اختیار ایک سکون کا سانس لیا۔ وہ شخص واقعی کریک تھا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وسیم جیسا شخص کیسے اس آدمی کے ساتھ دوستی رکھ سکتا ہے۔
وہ ایک بار پھر میگزین کے ورق الٹنے لگی۔" سالار آیا تھا تمہارے پاس؟" وسیم نے اس کے پاس آ کر پوچھا۔ دور سے سالار اور تیمور کو دیکھ لیا تھا۔
"ہاں۔" امامہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک بار پھر میگزین دیکھنے لگی۔
"کیا کہہ رہا تھا؟" وسیم نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
"مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم نے اس جیسے شخص کے ساتھ دوستی کیسے کر لی ہے۔ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ بے ہودہ اور بدتمیز لڑکا نہیں دیکھا۔" امامہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔"میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور ساتھ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے بینڈیج تک ٹھیک سے کرنی نہیں آتی، نہ میں بلڈ پریشر چیک کر سکتی ہوں۔"
وسیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔" اس کو دفع کرو، یہ عقل سے پیدل ہے۔"
"میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں اسے دو ہاتھ اور لگاؤں، اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ منہ اٹھا کر اپنے دوست کو لے کر پہنچ گیا ہے یہاں۔ بھئی! کس نے کہا ہے تم سے شکریہ ادا کرنے کو اور مجھے تو وہ دوسرا لڑکا بھی خاصا برا لگا اور وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس کے ساتھ بھی دوستی ہے۔" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"دوستی تو نہیں، بس جان پہچان ہے۔" وسیم نے وضاحت پیش کی۔" تمہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حلیہ دیکھا تھا تم نے ان دونوں کا۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز تھی، نہ لباس پہننے کا سلیقہ اور منہ اٹھا کر شکریہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔ بہرحال تم اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے لڑکوں سے جان پہچان کی بھی تمہیں۔"
امامہ نے میگزین رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے تنبیہ کی اور پھر باہر جانے کے لئے قدم بڑھا دئیے۔ وسیم بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔
"مگر میں ایک بات پر حیران ہوں یہ جس حالت میں تھا اسے کیسے یاد ہے کہ میں نے اس کی بینڈیج اچھی نہیں کی تھی یا بلڈپریشر لینے میں مجھے دقت ہو رہی تھی۔" امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ ایسے ہی ہاتھ پاؤں جھٹک رہا ہے۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اپنے اردگرد ہونے والی چیزوں کو بھی observe کر رہا ہے۔"
"ایسے بینڈیج واقعی خراب کی تھی تم نے اور اگر میں تمہاری مدد نہ کرتا تو بلڈپریشر کی ریڈنگ لینا بھی تمہیں لینا نہیں آتی۔ کم از کم اس بارے میں وہ جو بھی کہہ رہا تھا ٹھیک کہہ رہا تھا۔" وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں، مجھے پتا ہے۔" امامہ نے اعتراف کرنے والے انداز میں کہا۔"مگر میں اس وقت بہت نروس تھی۔ میں پہلی بار اس طرح کی صورت حال کا شکار ہوئی تھی پھر اس کے ہاتھ سے نکلنے والا خون مجھے اور خوف زدہ کر رہا تھا اور اوپر سے اس کا رویہ۔۔۔۔۔ کسی خود کشی کرنے والے انسان کو اس طرح کی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا میں نے۔"
"اور تم ڈاکٹر بننے جا رہی ہو، وہ بھی ایک قابل اور نامور ڈاکٹر، ناقابل یقین۔" وسیم نے تبصرہ کیا۔
"اب کم از کم تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔" امامہ نے احتجاج کیا۔" میں نے اس لئے تمہیں یہ سب نہیں بتایا کہ تم مذاق اڑاؤ۔" وہ لوگ پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور ان کے درمیان محسوس کر رہی تھی۔
اس نے ایک دو بار جلال کو ہاسپٹل فون کیا، مگر ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ وہ مصروف ہے۔ وہ زینب کو اگر کالج سے لینے بھی آتا تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی سی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی۔
"کافی دن ہو گئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لئے میں خود چلی آ ئی۔" امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔"
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔"زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لئے اس وقت آئی ہوں۔"
وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔" ہاں صحیح ہے، مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔"
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔"جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟" ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
"نہیں ، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔" جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
"کیا آپ دس منٹ باہر آ کر میری بات سن سکتے ہیں؟"
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر جاتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈوڑائی۔ یہ شاید اس کے لئے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔"آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟"
"کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟" جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
"آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔"
"ہاں، کر رہا ہوں۔"
امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے اس بات کا اعتراف کر لے گا۔
"کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔" وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکی۔"کیوں؟"
"یہ بتانا ضروری نہیں۔" اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہا۔
"میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا رویہ یک دم کیوں تبدیل ہو گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اس کی۔" امامہ نے کہا۔
"ہاں وجہ ہے مگر میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔"
"میں؟" وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔"میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں؟"
"یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔"جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
"کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟"
"جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔" امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
"چاہتی تھی۔۔۔۔۔ مگر تم نے بتایا تو نہیں۔۔۔۔۔ دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔"
"جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔" امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔" میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟"
"مگر تم نے کیا یہی ہے۔" جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"جلال میں۔۔۔۔۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"ٹریپ کیا؟" اس نے زیرلب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
"تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرتا ہوں۔"
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
"شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔" جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"اوہ کم آن۔" جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔" یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لئے اسلام قبول کر لیا۔" اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
"جلال! میں آپ کے لئے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لئے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہو گئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔"
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔"
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
"تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟"
"نہیں، میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔"مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آ پ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔"
"چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کر دیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ میری جگہ پر ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لئے کتنی مجبور ہو گئی تھی۔"
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
"کیا آپ کے دل میں میرے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لئے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟"
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
"امامہ ! بیٹھ جاؤ۔۔ پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔ اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتی۔"
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔
"میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔"
"جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔"
"تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہارا خاندان۔۔۔۔۔"
"میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔" امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
"کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟" کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
"یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔" جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" اور بالفرض میں یہ کام کرنے کا سوچ لوں تو بھی نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔" جلال نے اپنی مجبوری بتائی۔
"مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہو جائیں گے۔" امامہ نے کہا۔
"میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی مالی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آ کر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔"
جلال نے اسے یاد دلایا۔
"پھر؟" امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
"پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیرئیر بھی خراب نہیں کر سکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لئے کچھ کروں گا۔"
وہ بات کرتے کرتے رکا۔"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کر دیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہو گا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف انہیں بتائے بغیر مجھ سے شادی کی؟"
وہ جلال کا چہرہ دیکھنے لگی۔" میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہ میری بات مانیں گے یا نہیں۔ میں۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ مایوسی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"میری فیملی میں آج تک کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے باہر کسی لڑکے سے شادی نہیں کی۔ اس لئے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا ردِعمل کیا ہو گا مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ ان کا ردِعمل بہت برا ہو گا۔ بہت برا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھاؤں۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہئیے کہ میرے بابا کو کتنی شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف میرے لئے تو وہ سب کچھ نہیں بدل دیں گے۔"
"اگر مجھے اپنی فیملی سے مدد کی توقع ہوتی تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔"
دھیمے لہجے میں اپنے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
"امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منا لوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہئیے۔"
وہ پرسوچ مگر الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
امامہ نے سوچا۔" میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"یہ احمقانہ تجویز اسجد کے علاوہ کسی دوسرے کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔" امامہ نے اپنی بھابھی سے کہا۔
"نہیں اسجد نے یا اس کے گھر والوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بابا خود تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔" امامہ کی بھابھی نے رسانیت سے جواب دیا۔
"بابا نے کہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ جب میں نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا تب ان کا دور دور تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ تو انکل اعظم سے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ میرے ہاؤس جاب کے بعد ہی میری شادی کریں گے۔ پھر اب اچانک کیا ہوا؟"امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
"کوئی دباؤ ہو گا مگر مجھے تو امی نے یہی بتایا تھا کہ یہ خود بابا کی خواہش ہے۔" بھابھی نے کہا۔
"آپ انہیں بتا دیں کہ مجھے ہاؤس جاب سے پہلے شادی نہیں کرنی۔"
"ٹھیک ہے میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی مگر بہتر ہے تم اس سلسلے میں خود بابا سے بات کرو۔" بھابھی نے اسے مشورہ دیا۔
بھابھی کے کمرے سے جانے کے بعد بھی وہ کچھ پریشانی سے وہیں بیٹھی رہی۔ یہ اطلاع اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ اس کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی ہاؤس جاب تک اس کی شادی کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا اور ہاؤس جاب کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائے گی کہ خود کو سپورٹ کر سکے یا اپنی جلال سے شادی کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ تب تک جلال بھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کر کے سیٹ ہو جاتا اور ان دونوں کے لئے کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا مگر اب اچانک اس کے گھر والے اس کی شادی کی بات کر رہے تھے۔ آخر کیوں؟"
"نہیں اسجد اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے خودان سے بات کی ہے۔"
اس رات وہ ہاشم مبین کے کمرے میں موجود تھی۔ اس کے استفار پر ہاشم مبین نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔
"بات بھی کر لی ہے؟ آپ مجھ سے پوچھے بغیر کس طرح میری شادی ارینج کر سکتے ہیں۔" امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
ہاشم مبین نے کچھ سنجیدگی سے اسے دیکھا۔" یہ نسبت تمہاری مرضی سے ہی طے ہوئی تھی۔ تم سے پوچھا گیا تھا۔" انہوں نے جیسے اسے یادہانی کرائی۔
"منگنی کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ شادی کی بات اور ہے۔۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہاؤس جاب سے پہلے آپ میری شادی نہیں کریں گے۔" امامہ نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا۔
"تمہیں اس شادی پر اعتراض کیوں ہے۔ کیا تم اسجد کو پسند نہیں کرتیں؟"
"بات پسند یا ناپسند کی نہیں ہے۔ اپنی تعلیم کے دوران میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آئی اسپیشلسٹ بننا چاہتی ہوں۔ اس طرح آپ میری شادی کر دیں گے تو میرے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔"
"بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ تم اپنی فیملی میں دیکھو ۔۔۔۔۔کتنی۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
امامہ نے ان کی بات کاٹ لی۔ "وہ لڑکیاں بہت ذہین اور قابل ہوتی ہوں گی۔ میں نہیں ہوں۔ میں ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتی ہوں۔"
"میں اعظم بھائی سے بات کر چکا ہوں، وہ تو تاریخ طے کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔" ہاشم مبین نے اس سے کہا۔
"آپ میری ساری محنت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ یہی کرنا تھا تو آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ اس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہ کرتے۔" امامہ نے ان کی بات پر ناراضی سے کہا۔
"جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تب کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ تب حالات اور تھے اب۔۔۔۔۔"
امامہ نے ان کی بات کاٹی۔" اب کیا بدل گیا ہے۔۔۔۔۔حالات میں کون سی تبدیلی آئی ہے جو آپ میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں؟"
"میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اسجد تمہاری تعلیم میں تمہارے ساتھ پورا تعاون کرے گا۔ وہ تمہیں کسی چیز سے منع نہیں کرے گا۔" ہاشم مبین نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"بابا مجھے اسجد کے ساتھ تعاون کی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ مجھے میری تعلیم مکمل کرنے دیں۔" امامہ نے اس بار قدرے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"امامہ تم فضول ضد مت کرو۔۔۔۔۔ میں وہی کروں گا جو میں طے کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔" میں ضد نہیں کر رہی درخواست کر رہی ہوں۔ بابا پلیز میں ابھی اسجد سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔" اس نے ایک بار پھر اسی ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"تمہاری نسبت کو چار سال ہونے والے ہیں اور یہ ایک بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے خود کچھ عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے منگنی توڑ دی تو۔"
"تو کوئی بات نہیں کوئی قیامت نہیں آئے گی وہ منگنی توڑنا چاہیں تو توڑ دیں بلکہ ابھی توڑ دیں۔"
"تمہیں اس شرمندگی اور بے عزتی کا احساس نہیں ہے، جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا۔"
"کیسی شرمندگی بابا! یہ ان لوگوں کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ اس میں ہماری تو کوئی غلطی نہیں ہو گی۔" اس نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر تم عقل سے پیدل ہو۔" ہاشم مبین نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
"بابا! کچھ نہیں ہو گا لوگ دو چار دن باتیں کریں گے پھر سب کچھ بھول جائیں گے۔آپ اس بارے میں خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔" امامہ نے قدرے بے فکری اور لاپرواہی سے کہا۔
"تم اس وقت بہت فضول باتیں کر رہی ہو۔ فی الحال تم یہاں سے جاؤ۔" ہاشم مبین نے ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ بادل ناخواستہ وہاں سے چلی آئی مگر اس رات وہ خاصی پریشان رہی۔
اگلے دن وہ واپس لاہور چلی آئی۔ ہاشم مبین نے اس سے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہیں کی لاہور آ کر وہ قدرے مطمئن ہو گئی اور ہر خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔
ہاشم مبین نے اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکالا تھا، وہ ایک محتاط طبیعت کے انسان تھے۔
وہ امامہ کے بارے میں پہلی بار اس وقت تشویش میں مبتلا ہوئے تھے، جب سکول میں تحریم کے ساتھ جھگڑے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس واقعے کے بعد انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر امامہ کی نسبت اسجد کے ساتھ طے کر دی تھی۔ ان کا خیال تھا اس طرح اس کا ذہن ایک نئے رشتے کی جانب مبذول ہو جائے گا اور اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ یا سوال پیدا ہوا بھی تو اس نئے تعلق کے بعد وہ اس بارے میں زیادہ تردد نہیں کرے گی۔ ان کا یہ خیال اور اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
امامہ کا ذہن واقعی تحریم کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ اسجد میں وہ پہلے بھی کچھ دلچسپی لیتی تھی مگر اس تعلق کے قائم ہونے کے بعد اس دلچسپی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہاشم نے اسے بہت مطمئن اور مگن دیکھا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح تمام مذہبی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔
مگر اس بار جو کچھ وسیم نے انہیں بتایا تھا اس نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ فوری طور پر یہ نہیں جان سکے مگر انہیں یہ ضرور علم ہو گیا کہ امامہ کے عقائد اور نظریات میں خاصی تبدیلی آ چکی تھی اور یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے تشویش کا باعث تھا۔
وہ اپنی بڑی بیٹیوں کی طرح اسے بھی اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور یہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اسے شادی کے بعد خاندان ہی میں جانا تھا۔ وہ خاندان بہت تعلیم یافتہ تھا۔ خود ان کا ہونے والا داماد اسجد بھی امامہ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاشم مبین کے لئے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے اسے گھر بٹھا لینا آسان نہیں تھا، کیونکہ اس صورت میں اسے اعظم مبین کو اس کی وجہ بتانی پڑتی اور امامہ سے سخت ناراض ہونے کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعظم مبین اور ان کا خاندان امامہ کے ان بدلے ہوئے عقائد کے بارے میں جان کر برگشتہ اور بدظن ہوں اور پھر شادی کے بعد وہ اسجد کے ساتھ بری زندگی گزارے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو اس بات کو راز رکھنے کی تاکید کی تو دوسری طرف امامہ کی منت سماجت پر اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
امامہ صبیحہ کے لیکچر اٹینڈ کرنے اور اس کے وہاں جانے یا جلال سے ملنے کے معاملے میں اس قدر محتاط تھی کہ اس کا یہ میل جول ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آ سکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جویریہ اور رابعہ کو بھی ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھے ہوئے تھی۔ ورنہ اس کے بارے میں ضرور کوئی نہ کوئی خبر اِدھر اُدھر گردش کرتی اور ہاشم مبین تک بھی پہنچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ہاشم مبین اس کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے، مگر امامہ کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
ان کے دماغ میں جو واحد حل آیا تھا وہ اس کی شادی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی شادی کر دینے سے وہ خود امامہ کی ذمہ داری سے مکمل طور پر آزاد ہو جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس طرح اچانک اس کی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔
"جلال! میرے پیرنٹس اسجد سے میری شادی کر دینا چاہتے ہیں۔" لاہور آنے کے بعد امامہ نے سب سے پہلے جلال سے ملاقات کی تھی۔
"مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ وہ تمہاری ہاؤس جاب تک تمہاری شادی نہیں کریں گے۔" جلال نے کہا۔
"وہ ایسا ہی کہتے تھے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی تعلیم شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہوں۔ اسجد لاہور میں گھر لے لے گا تو میں زیادہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکوں گی۔"
جلال اس کے چہرے سے اس کی پریشانی کا اندازہ کر سکتا تھا۔ جلال بھی یک دم فکر مند ہو گیا۔
"جلال ! میں اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔ میں کسی صورت اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔" وہ بڑبڑائی۔
"پھر تم اپنے پیرنٹس کو صاف صاف بتا دو۔" جلال نے یک دم کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
"کیا بتا دوں؟"
"یہی کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔"
"آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کریں گے۔۔۔۔۔ مجھے انہیں پھر سب کچھ ہی بتانا پڑے گا۔" وہ بات کرتے کرتے کچھ سوچنے لگی۔
"جلال ! آپ اپنے پیرنٹس سے میرے سلسلے میں بات کریں۔ آپ انہیں میرے بارے میں بتائیں۔ اگر میرے پیرنٹس نے مجھ پر اور دباؤ ڈالا تو پھر مجھے پنا گھر چھوڑنا پڑے گا، پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔"
"امامہ! میں اپنے پیرنٹس سے بات کروں گا۔ وہ رضامند ہو جائیں گے۔ میں جانتا ہوں میں انہیں منا سکتا ہوں۔ " جلال نے اسے یقین دلایا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
اگلے چند ہفتے وہ اپنے پیپرز کے سلسلے میں مصروف رہی، جلال سے بات نہ ہو سکی۔ آخری پیپر والے دن وسیم اسے لینے کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ وہ اسے وہاں یوں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
"وسیم! میں ابھی تو نہیں جا سکتی۔ آج تو میں پیپرز سے فارغ ہوئی ہوں مجھے ابھی یہاں کچھ کام ہیں۔"
"میں کل تک یہیں ہوں۔ اپنے دوست کے ہاں ٹھہر جاتا ہوں جب تک تم اپنے کام نمٹا لو پھر اکٹھے چلیں گے۔" وسیم نے اس کے لئے مدافعت کا آخری راستہ بھی بند کر دیا۔
"میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔"امامہ نے کچھ بے دلی سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وسیم اسے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔
"تم اپنی چیزیں پیک کر لو۔ اب تم ساری چھٹیاں وہاں گزار کر ہی آنا۔" اسے واپس مڑتے دیکھ کر وسیم نے کہا۔
اس نے سر ہلا دیا مگر اس کا اپنی تمام چیزیں پیک کرنے یا اسلام آباد میں ساری چھٹیاں گزارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ چند دن وہاں گزار کر کسی نہ کسی بہانے سے واپس لاہور آ جائے گی اور یہ ہی اس کی غلط فہمی تھی۔
رات کے کھانے پر وہ سب گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی اور سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"پیپرز کیسے ہوئے تمہارے؟" ہاشم مبین نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"بہت اچھے ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح۔" اس نے چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"ویری گڈ۔ چلو پیپرز کی ٹینشن تو ختم ہوئی۔ اب تم کل سے اپنی شاپنگ شروع کر دو۔"
امامہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔" شاپنگ؟کیسی شاپنگ؟"
"فرنیچر کی اور جیولر کے پاس پہلے چلے جانا تم لوگ۔ باقی چیزیں تو آہستہ آہستہ ہوتی رہیں گی۔"
ہاشم مبین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس بار اپنی بیوی سے کہا۔
"بابا! مگر کس لئے؟" امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔"تمہاری امی نے بتایا نہیں تمہیں کہ ہم نے تمہاری شادی کی تاریخ طے کر دی ہے۔"
امامہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر لپیٹ میں جا گرا۔ ایک لمحے میں اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
"میری شادی کی تاریخ؟" اس نے بے یقینی سے باری باری سلمیٰ اور ہاشم کو دیکھا جو اس کے تاثرات پر حیران نظر آ رہے تھے۔
"ہاں تمہاری شادی کی تاریخ۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"یہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ مجھے بتائے بغیر۔" ہونق چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
"تم سے پچھلی دفعہ بات ہوئی تھی، اس سلسلے میں۔" ہاشم مبین یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
"اور میں نے انکار کر دیا تھا۔میں۔"
ہاشم مبین نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔" میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں اسجد کے گھر والوں سے بات کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے تیز آواز میں کہا۔
ڈائیننگ ٹیبل پر یک دم گہری خاموشی چھا گئی کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔
امامہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔" آئی ایم سوری بابا، مگر میں اسجد سے ابھی شادی نہیں کر سکتی۔آپ نے یہ شادی طے کی ہے۔ آپ ان سے بات کر کے اسے ملتوی کر دیں ورنہ میں خود ان سے بات کر لوں گی۔" ہاشم مبین کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"تم اسجد سے شادی کرو گی اور اسی تاریخ کو جو میں نے طے کی ہے۔ تم نے سنا؟" وہ بے اختیار چلائے۔
“It’s not fair” امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اب تم مجھے یہ بتاؤ گی کیا فئیر ہے اور کیا نہیں۔ تم بتاؤ گی مجھے؟" ہاشم مبین کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
"بابا! جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔" امامہ بےا ختیار رونے لگی۔
"کر رہا ہوں زبردستی پھر میں حق رکھتا ہوں۔" وہ چلائے۔ امامہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ بھنیچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ تیزی سے ڈائیننگ روم سے نکل آئی۔
"میں اس سے بات کرتی ہوں، آپ پلیز کھانا کھائیں۔ اتنا غصہ نہ کریں۔ وہ جذباتی ہے اور کچھ نہیں۔" سلمیٰ نے ہاشم مبین سے کہا اور خود وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ا ن کے کمرے سے نکلتے ہی وسیم کو دیکھ کر امامہ بے ختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ نکل جاؤ۔"اس نے تیزی سے وسیم کے پاس جا کر اسے دھکا دینے کی کوشش کی وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟"
"جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر تم مجھے یہاں لے آئے ہو۔ مجھے اگر لاہور میں پتا چل جاتا کہ تم اس لئے مجھے اسلام آباد لا رہے ہو تو میں کبھی یہاں نہ آتی۔" وہ دھاڑی۔
"میں نے وہی کیا جو مجھ سے بابا نے کہا۔ بابا نے کہا تھا میں تمہیں نہ بتاوں۔" وسیم نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم یہاں میرے پاس کیوں آئے ہو۔ بابا کے پاس جاؤ۔ ان کے پاس بیٹھو۔ بس یہاں سے دفع ہو جاؤ۔" وسیم ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے نکل گیا۔
امامہ اپنے کمرے میں جا کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کے پیروں سے صحیح معنوں میں زمین نکل چکی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ اس طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اتنے قدامت پرست یا کٹر نہیں تھے جتنے وہ اس وقت ہو گئے تھے۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر جلال سے کانٹیکٹ کرنا ہے۔ وہ یقیناً اب تک اپنے پیرنٹس سے بات کر چکا ہو گا۔ اس سے بات کر کے کوئی نہ کوئی رستہ نکل آئے گا۔
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہی۔ اس کے کمرے میں دوبارہ کوئی نہیں آیا۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک سب سونے کے لئے جا چکے ہوں گے۔ اس نے جلال کے گھر کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ فون کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار نمبر ملایا۔ آدھ گھنٹہ تک اسی طرح کالز کرتے رہنے کے بعد اس نے مایوسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔ وہ جویریہ یا رابعہ کو فون نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ہاسٹل میں تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے صبیحہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے والد نے فون اٹھایا۔
"بیٹا! صبیحہ تو پشاور گئی ہے اپنی امی کے ساتھ۔" صبیحہ کے والد نے امامہ کو بتایا۔
"پشاور۔" امامہ کے دل کی دھڑکن رک گئی۔
"اس کے کزن کی شادی ہے۔ وہ لوگ ذرا پہلے چلے گئے ہیں۔ میں بھی کل چلا جاؤں گا۔" اس کے والد نے بتایا۔"کوئی پیغام ہو تو آپ مجھے دے دیں میں صبیحہ کو پہنچا دوں گا۔"
"نہیں شکریہ انکل!" وہ ان کے ساتھ اس سارے معاملے میں کیا بات کر سکتی تھی۔
اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے ڈیپریشن میں اضافہ ہونے لگا۔ اگر میرا جلال سے کانٹیکٹ نہ ہوا تو، اس کا دل ایک بار پھر ڈوبنے لگا۔
ایک بار پھر اس نے جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا اور تب ہی کسی نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ سن ہو گئی ہاشم مبین اس کے پیچھے کھڑے تھے۔
"کس کو فون کر رہی ہو؟" ان کے لہجے میں بے حد ٹھہراؤ تھا۔
"دوست کو کر رہی تھی۔" امامہ نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ ان سے نظریں ملا کر جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
"میں ملا دیتا ہوں۔" انہوں نے سرد آواز میں کہتے ہوئے ری ڈائل کا بٹن دبا دیا اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ امامہ زرد چہرے کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ وہ کچھ دیر تک اسی طرح ریسیور کان سے لگائے کھڑے رہے پھر انہوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ یقیناً دوسری طرف کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔
"کون سی دوست ہے یہ تمہاری جس کو تم اس وقت فون کر رہی ہو۔" انہوں نے درشت لہجے میں امامہ سے پوچھا۔
"زینب۔۔۔۔۔" فون کی ا سکرین پر زینب کا نمبر تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہاشم مبین کو زینب پر کسی قسم کا شک ہو اور وہ جلال تک جا پہنچیں، اس لئے اس نے ان کے استفار پر جلدی سے اس کا نام بتا دیا۔
"کس لئے کر رہی ہو؟"
"میں اس کے ذریعے جویریہ تک ایک پیغام پہنچانا چاہتی ہوں۔" اس نے تحمل سے کہا۔
"تم مجھے وہ پیغام دے دو، میں جویریہ تک پہنچا دوں گا، بلکہ ذاتی طور پر خود لاہور دے کر آوں گا۔"
"امامہ! مجھے صاف صاف بتاؤ کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو تم؟" انہوں نے کسی تمہید کے بغیر اچانک اس سے پوچھا۔ وہ انہیں کچھ دیر دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"ہاں!"
ہاشم مبین دم بخود رہ گئے۔"کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو؟" انہوں نے بے یقینی سے اپنا جملہ دہرایا۔ امامہ نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہاشم مبین نے بے ختیار اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا۔
"مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا تم سے، مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔" وہ غصہ میں تنتنا سے گئے۔ امامہ گم صم اپنے گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ یہ پہلا تھپڑ تھا جو ہاشم مبین نے اس کی زندگی میں اسے مارا تھا اور امامہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تھپڑ اسے مارا گیا تھا۔ وہ ہاشم مبین کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی پھر بھی انہوں نے۔۔۔۔۔ اس کے گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے۔
"اسجد کے علاوہ میں تمہاری شادی کہیں اور نہیں ہونے دوں گا۔ تم اگر کسی اور لڑکے میں انٹرسٹد ہو بھی تو اسے ابھی اور اسی وقت بھول جاؤ۔ میں کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔۔ اور دوبارہ اگر میں نے تمہیں فون کے پا س بھی دیکھا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔"
وہ اسی طرح گال پر ہاتھ رکھے میکانکی انداز میں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔" کیا بابا مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے اس طرح مار سکتے ہیں؟" اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہت دیر تک اسی طرح روتے رہنے کے بعد اس کے آنسو خود بخود خشک ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر اضطراب کے عالم میں اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف آ گئی اور خالی الذہنی کے عالم میں بند کھڑکیوں کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگی۔
نیچے اس کے گھر کا لان نظر آ رہا تھا اور پھر لاشعوری طور پر اس کی نظر دوسرے گھر پر پڑی۔ وہ سالار کا گھر تھا۔ اس کا کمرہ نچلی منزل پر تھا۔ دور سے کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس گھر میں ایک دفعہ جانے کے بعد اس کی لوکیشن اور کمرے میں پھرنے والے کے حیلے اور جسامت سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ سالار کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں! یہ شخص میری مدد کر سکتا۔ اگر میں اسے ساری صورت حال بتا دوں اور اس سے کہوں کے لاہور جا کر جلال سے رابطہ کرے تو۔۔۔۔۔ تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر اس سے رابطہ کیسے۔۔۔۔۔؟"
اس کے ذہن میں ایک دم اس کی گاڑی کے پچھلے شیشے پر لکھا ہوا اس کا موبائل نمبر اور نام یاد آیا۔ اس نے ذہن میں موبائل نمبر کو دہرایا، اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر اس نے احتیاط کے طور پر اس نمبر کو لکھ لیا۔ تین بجے کے قریب وہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر لاؤنج میں آ گئی اور اس نے وہ نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار نے نیند میں اپنے موبائل کی بیپ سنی تھی۔ جب لگاتار موبائل بجتا رہا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور قدرے ناگواری کے عالم میں بیڈ سائیڈ ٹیبل کو ٹٹولتے ہوئے موبائل اٹھایا۔
"ہیلو!" امامہ نے سالار کی آواز پہچان لی تھی، وہ فوری طور پر کچھ نہیں بول سکی۔
"ہیلو۔" اس کی خوابیدہ آواز دوبارہ سنائی دی۔"سالار!" اس نے اس کا نام لیا۔
"بول رہا ہوں۔" اس نے اسی خوابیدہ آواز میں کہا۔
"میں امامہ بول رہی ہوں۔" وہ کہنے والا تھا ۔"کون امامہ۔۔۔۔۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔" مگر اس کے دماغ نے کرنٹ کی طرح اسے سگنل دیا تھا اس نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں۔ وہ نام کے ساتھ اس کی آواز کو بھی پہچان چکا تھا۔
"میں وسیم کی بہن بول رہی ہوں۔" اس کی خاموشی پر امامہ نے اپنا تعارف کرایا۔
"میں پہچان چکا ہوں۔"سالار نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ سائیڈ لیمپ کو آن کر دیا۔ اس کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی رسٹ واچ اٹھا کر وقت دیکھا۔ گھڑی تین بج کر دس منٹ بجا رہی تھی۔ اس نے قدرے بے یقینی سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے گھڑی کو دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ دوسری طرف اب خاموشی تھی۔
"ہیلو!" سالار نے اسے مخاطب کیا۔
"سالار! مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل آئے۔" میں نے ایک بار تمہاری زندگی بچائی تھی، اب میں چاہتی ہوں تم میری زندگی بچاؤ۔" وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس کی بات سنتا رہا۔" میں لاہور میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں مگر کر نہیں پا رہی۔"
"کیوں؟"
"وہاں سے کوئی فون نہیں اٹھا رہا۔"
"تم رات کے اس وقت۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" پلیز! اس وقت صرف میری بات سنو، میں دن کے وقت فون نہیں کر سکتی اور شاید کل رات کو بھی نہ کر سکوں۔ میرے گھر والے مجھے فون نہیں کرنے دیں گے، میں چاہتی ہوں کہ تم ایک ایڈریس اور فون نمبر نوٹ کر لو اور اس پر ایک آدمی سے کانٹیکٹ کرو، اس کا نام جلال انصر ہے، تم اس سے صرف یہ پوچھ کر بتا دو کہ میرے پیرنٹس نے یہاں میری شادی طے کر دی ہے اور وہ مجھے اب شادی کے بغٖیر لاہور آنے نہیں دیں گے۔"
سالار کو اچانک اس سارے معاملے سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ کمبل کو اپنے گھٹنوں سے اوپر تک کھینچتے ہوئے وہ امامہ کی بات سنتا رہا۔ وہ ایک ایڈریس اور فون نمبر دہرا رہی تھی۔ سالار نے اس نمبر اور ایڈریس کو نو ٹ نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے پوچھا۔
"اور اگر میرے فون کرنے پر بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا تو؟" جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے پوچھا۔
دوسری طرف لمبی خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔" تم لاہور جا کر اس آدمی سے مل سکتے ہو۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ یہ میرے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔" اس بار امامہ کی آواز ملتجیانہ تھی۔
"اور اگر اس نے پوچھا کہ میں کون ہوں تو؟"
"تم جو چاہے اسے بتا دینا۔۔۔۔۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں صرف اس مصیبت سے چھٹکارا چاہتی ہوں۔"
"کیا یہ بہتر نہیں کہ ہے تم اس آدمی سے خود بات کرو۔" سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ شاید مجھے دوبارہ فون کا موقع نہ ملے اور فی الحال تو آدمی فون ریسیو نہیں کر رہا۔"
سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور اس نے مایوسی کے عالم میں مزید کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا۔
سالار موبائل بند کرنے کے بعد کچھ دیر اسے ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہا۔جلال انصر۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ رابطہ۔۔۔۔۔ پیرنٹس سے بات۔۔۔۔۔ زبردستی کی شادی۔۔۔۔۔" اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے اس جگسا پزل کے ٹکڑوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ اس نے امامہ سے جلال کے بارے میں پوچھا نہیں تھا کہ اس سے امامہ کا تعلق کس طرح کا ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی داہنی ٹانگ ہلاتے ہوئے ان دونوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسے یہ صورت حال خاصی دلچسپ محسوس ہو رہی تھی کہ امامہ جیسی لڑکی اس طرح کے کسی افئیر میں انوالو ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ اپنے لئے اس کی ناپسندیدگی سے بھی واقف تھا اور اسے یہ بات بھی حیران کر رہی تھی کہ اس سے باوجود وہ اس سے مدد مانگ رہی تھی۔
"یہ کیا کر رہی ہیں خاتون؟۔۔۔۔۔ مجھے استعمال کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔ یا پھنسانے کی کوشش۔۔۔۔۔؟"
اس نے دلچسپی سے سوچا۔
کمبل اپنے سینے تک کھینچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں، مگر نیند اس کی آنکھوں سے مکمل طور پر دور تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے وسیم اور اس کے گھر والوں کو جانتا تھا۔ وہ امامہ کو بھی سرسری طور پر دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔ مگر ان ملاقاتوں میں اس نے امامہ پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس کے اپنے گھر والوں کے برعکس وسیم کا گھرانہ خاصا روایت پرست تھا اور وہ کبھی بھی اس طرح کھلے عام ان کے گھر نہیں جا سکا، جس طرح وہ اپنے دوسرے دوستوں کے گھروں میں جاتا تھا۔۔۔۔۔ مگر اس نے اس بات پر بھی کبھی زیادہ غور و خوض نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ اس کا خیال تھا کہ ہر خاندان کا اپنا ماحول اور روایات ہوتی ہیں، اسی طرح وسیم کے خاندان کی بھی اپنی روایات تھیں۔ اسے امامہ کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کا تھوڑا اندازہ تھا۔
مگر اس طرح اچانک امامہ کی کال وصول کر کے وہ اس حیرت کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پا رہا تھا جو اسے لگا تھا۔
جب وہ کافی دیر تک سونے میں کامیاب نہیں ہوا تو وہ کچھ جھنجھلا گیا۔
To hell with Imama and all the rest (بھاڑ میں جائے امامہ اور یہ سارا قصہ) وہ بڑبڑایا اور کروٹ لے کر اس نے تکیہ اپنے چہرے کے اوپر رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ اپنے کمرے میں آ کر بھی اسی طرح بیٹھی رہی، اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ صرف چند گھنٹوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ پوری رات سو نہیں سکی۔ صبح وہ ناشتے کے لئے باہر آئی۔ اس کی بھوک یک دم جیسے غائب ہو گئی تھی۔
دس ساڑھے دس بجے کے قریب اس نے پورچ میں کچھ گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے اور جانے کی آوازیں سنیں۔ وہ جانتی تھی اس وقت ہاشم مبین اور اس کے بڑے بھائی آفس چلے جاتے تھے اور اسے ان کے آفس جانے کا انتظار تھا۔ ان کے جانے کے آدھ گھنٹہ بعد وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ لاؤنج میں اس کی امی اور بھابھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خاموشی سے فون کے پاس چلی گئی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔
"تمہارے بابا کہہ کر گئے ہیں کہ تم کہیں فون نہیں کرو گی۔" اس نے گردن موڑ کر اپنی امی کو دیکھا۔
"میں اسجد کو فون کر رہی ہوں۔"
"کس لئے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہی فضول باتیں جو تم رات کو کر رہی تھیں۔" سلمیٰ نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں آپ کے سامنے بات کر رہی ہوں، آپ مجھے بات کرنے دیں۔۔۔۔۔ اگر میں نے کوئی غلط بات کی تو آپ فون بند کر سکتی ہیں۔" اس نے پرسکون انداز میں کہا اور شاید یہ اس کا انداز ہی تھا جس نے سلمیٰ کو کچھ مطمئن کر دیا۔
امامہ نے نمبر ڈائل کیا مگر وہ ا سجد کو فون نہیں کر رہی تھی۔ چند بار بیل بجنے کے بعد دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔ فون اٹھانے والا جلال ہی تھا۔ خوشی کی ایک لہر امامہ کے اندر سے گزر گئی۔
"ہیلو! میں امامہ بول رہی ہوں۔" اس نے جلال کا نام لیے بغیر اعتماد سے کہا۔
"تم بتائے بغیر اسلام آباد کیوں چلی گئیں میں کل تم سے ملنے ہاسٹل گیا تھا۔" جلال نے کہا۔
"میں اسلام آباد آئی ہوں اسجد!" امامہ نے کہا۔
"اسجد!" دوسری طرف سے جلال کی آواز آئی۔" تم کس سے کہہ رہی ہو؟"
"مجھے بابا نے رات ہی بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔"
"امامہ؟" جلال کو جیسے ایک کرنٹ لگا۔"شادی کی تاریخ۔" امامہ اس کی بات سنے بغیر اسی پرسکون انداز میں بولتی رہی۔" میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"امامہ! میں ابھی بات نہیں کر سکا۔"
"تو پھر تم بات کرو، میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کر سکتی، یہ تم جانتے ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس طرح کی شادی نہیں کروں گی۔ تم اپنے پیرنٹس سے بات کرو اور پھر مجھے بتاؤ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"
"امامہ! کیا تمہارے پاس کوئی ہے۔" جلال کے ذہن میں اچانک ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں۔"
"اس لئے تم مجھے اسجد کہہ رہی ہو؟"
"ہاں۔"
"میں اپنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں، تم مجھے دوبارہ رنگ کب کرو گی؟"
"تم مجھے بتا دو کہ میں تمہیں کب رنگ کروں؟"
"کل فون کر لو، تمہاری شادی کی تاریخ کب طے کی گئی ہے۔" جلال کی آواز میں پریشانی تھی۔
"یہ مجھے نہیں پتا۔"امامہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے امامہ! میں آج ہی ا پنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس نےا مامہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امامہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی بھابھی یا امی کو یہ شک نہیں ہو سکا کہ وہ اسجد سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
"یہ شادی تمہارے بابا اور اعظم بھائی نے مل کر طے کی ہے۔ تمہارے یا اسجد کے کہنے پر وہ اسے ملتوی نہیں کریں گے۔" سلمیٰ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
"امی! میں مارکیٹ تک جا رہی ہوں، مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔" امامہ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
"فون کی بات دوسری ہے مگر میں تمہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں سے سکتی۔ تمہارے بابا نہ صرف مجھے بلکہ چوکیدار کو بھی ہدایت کر گئے ہیں کہ تمہیں باہر جانے نہ دیں۔"
"آمی! آپ لوگ میرے ساتھ آخر اس طرح کیوں کر رہےہیں؟" امامہ نے کچھ بے بسی کے عالم میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔" میں نے آپ کو اپنی شادی سے تو منع نہیں کیا۔ میری ہاؤس جاب تک انتظار کر لیں، اس کے بعد میری شادی کر دیں۔"
"میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تم شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو، تمہاری شادی جلد ہو رہی ہے مگر تمہاری مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہی۔" اس بار اس کی بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"خواہ مخواہ کل رات سے پورا گھر ٹینشن کا شکا ر ہے اور میں تو تمہیں دیکھ کر حیران ہوں تم تو کبھی بھی اس طرح ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ جب سے تم لاہور گئی ہو بہت عجیب ہو گئی ہو۔"
"اور ہمارے چاہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے، تمہارے بابا نے طے کیا ہے یہ سب کچھ۔"
"آپ انہیں سمجھا تو سکتی تھیں۔" امامہ نے سلمیٰ کی بات پرا حتجاج کیا۔
"کس بات پر؟" سمجھاتی تو تب اگر مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض لگتی اور مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔" سلمیٰ نے بڑے آرام سے کہا۔ امامہ غصہ کے عالم میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا، ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔
"ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔" اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
"جی صاحب! آپ نے بلایا ہے؟" ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"ہاں، میں نے بلایا ہے۔۔۔۔ تم سے ایک کام کروانا ہے۔" سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
"ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟" سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاشم صاحب کے گھر؟" ناصرہ نے کہا۔
"ہاں، ان ہی کے گھر۔"
"ہاں جی کرتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
"کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟"
"اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ سالار صاحب؟" ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دےدے۔" سالار نے بڑے لاپرواہ انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔
"یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔"
"مگر کیوں؟"
"یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔" سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
"لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
"کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولو گی۔۔۔۔۔ اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہو گا اور کسی کو نہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہو گا۔"
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔" میں پھر کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہئیے۔" وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔"ایک منٹ ٹھہرو۔" سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
"یہ لے لو۔" اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دئیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لئے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا، مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔۔۔ اور پھر امامہ۔۔۔۔۔ اس کی تو شادی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
"اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔" ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔" جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں آؤ، کیابات ہے۔" انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔" انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
"ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
"کیا؟" انصر جاوید کو اس کے منہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔" تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یہ فیصلہ تم نے یک دم کیسے کر لیا۔ کل تک تو تم باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اوراب آج تم شادی کا ذکر لے بیٹھے ہو۔" انصر جاوید مسکرائے۔
"بس۔۔۔۔۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔"
انصر جاوید سنجیدہ ہو گئے۔
"آپ نے زینب کی دوست امامہ کو دیکھا ہے۔" اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
"ہاں! تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔" انصر جاوید نے فوراً اندازہ لگایا۔
جلال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔" مگر وہ لوگ تو بہت امیر ہیں۔۔۔۔۔ اس کا باپ بڑا صنعت کا ر ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔" انصر جاوید کا لہجہ بدل چکا تھا۔
"ابو ! وہ اسلام قبول کر چکی ہے، اس کی فیملی قادیانی ہے۔" جلال نے وضاحت کی۔
"اس کے گھر والوں کو پتا ہے؟"
"نہیں۔"
"تمہارا خیال ہے وہ یہ پرپوزل قبول کر لیں گے؟" انصر جاوید نے چبھتے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
"ابو! اس کی فیملی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی اجازت کی بغیر ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔"
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟" اس بار انصر جاوید نے بلند آواز میں کہا۔" میں تمہیں کسی حالت میں اجازت نہیں دے سکتا۔"
جلال کا چہرہ اتر گیا۔"ابو! میری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"مجھ سے پوچھ کر کمٹمنٹ نہیں کی تھی تم نے۔۔۔۔۔ اور اس عمر میں بہت ساری کمٹمنٹس ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ اپنی زندگی خراب کر لے۔۔۔۔۔ انہیں اپنے پیچھے لگا کر ہم سب برباد ہو جائیں گے۔"
"ابو! میں خفیہ طور پر شادی کر لیتاہوں۔۔۔۔۔ کسی کو بتائیں گے نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔"
"اور اگر پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔ میں ویسے بھی تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے تک تمہاری شادی کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔"
"ابو! پلیز۔۔۔۔۔ میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا۔" جلال نے مدھم آواز میں اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنے والدین سے اس سلسلے میں بات کرے۔ اگر اس کے والدین مان جاتے ہیں تو میں تم دونوں کی شادی کر دوں گا۔" انہوں نے تیز مگر حتمی لہجے میں کہا۔" مگر میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے قطعی نہیں کروں گا جو اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کرنا چاہے۔۔۔۔۔"
"ابو! آپ اس کا مسئلہ سمجھیں۔ وہ بری لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ بس وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس پر اس کے گھر والے راضی نہیں ہوں گے۔" جلال نے دانستہ طور پر اسجد اور اس کی منگنی کا ذکر گول کر دیا۔
"مجھے کسی دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ امامہ کا مسئلہ ہے، وہ جانے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔" انصر جاوید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"ابو ! پلیز۔۔۔۔۔ میری بات سمجھیں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔"
"بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تم کس کس کی مدد کرو گے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے کہ ان سے کوئی دشمنی یا مخالفت مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں، سمجھے تم اور پھر میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کر کے اپنے خاندان والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔"
"ابو! وہ مسلمان ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے۔" جلال نے جھنجھلا کر کہا۔
"چار ملاقاتوں میں وہ تم سے اتنی متاثر ہو گئی کہ ا س نے اسلام قبول کر لیا۔"
"ابو! اس نے مجھے ملنے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔"
"تم نے اسلام قبول کرتے دیکھا تھا اسے؟"
"میں اس سے مذہب کے بارے میں تفصیلاً بات کرتارہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔"
"بالفرض وہ ایسا کر بھی چکی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر اسے اپنے مسائل سے خود نمٹنا چاہئیے۔ تمہیں بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہئیے۔ اپنے والدین سے دو ٹوک بات کرے، انہیں بتائے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ پھر میں اور تمہاری امی دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھو جلال اگر اس کا خاندان اپنی مرضی اور خوشی سے اس کی شادی تمہارے ساتھ کرنے پر تیار ہو جائے تو میں اسے بخوشی قبول کر لوں گا۔۔۔۔۔ مگر کسی بے نام و نشان لڑکی سے میں تمہاری شادی نہیں کروں گا۔ مجھے اس معاشرہ میں رہنا ہے۔۔۔۔۔ لوگوں کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔ بہو کے خاندان کے بارے میں کیا کہوں گا میں کسی سے۔۔۔۔۔ یہ کہ وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے میرے بیٹے سے شادی کر لی ہے۔"
"ابو! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اس کی مدد کریں اور۔۔۔۔۔" انصر جاوید نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"مذہب کو بیچ میں مت لے کر آؤ، ہر چیز میں مذہب کی شرکت ضروری نہیں ہوتی۔ صرف تم ہی یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے والے رہ گئے ہو، باقی سارے مسلمان مر گئے ہیں۔"
"ابو! اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے، میں اس لئے کہہ رہا ہوں۔"
"بیٹا! یہاں بات مدد کی یا مذہب کی نہیں ہے، یہاں صرف زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ تم میں مدد کا جذبہ ہے اور تمہیں اپنے مذہبی فرائض کا احساس ہے مگر انسان پر کچھ حق اس کے والدین کا بھی ہوتا ہے اور یہ حق بھی مذہب نے ہی فرض کیا ہے اور اس حق کے تحت میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہ کرو۔۔۔۔۔ فرض کرو تم اس سے شادی کر بھی لیتے ہو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ تم تو چند ماہ میں امریکہ ہو گے۔۔۔۔۔ اور وہ یہاں گھر بیٹھی ہو گی۔۔۔۔ میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں تم چاروں کی تعلیم پر بھی خرچ کروں اور اس کی تعلیم پر بھی۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم پر میرا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ تو وہ ڈاکٹر تو نہیں بنے گی۔۔۔۔۔ یہاں گھر میں کتنے سال تم اسے بٹھا سکتے ہو۔۔۔۔۔ اور اگر اس کے خاندان نے تم پر یا ہم پر کیس کر دیا تو اس صورت میں تم بھی پابند ہو کر رہ جاؤ گے اور میں بھی۔۔۔۔۔ تم کو اپنی بہن کا احساس ہونا چاہئیے، تم یہ چاہتے ہو کہ اس عمر میں، میں جیل چلا جاؤں۔۔۔۔۔ اور شاید تم بھی۔۔۔۔۔"
جلال کچھ بول نہیں سکا۔
"ان چیزوں کے بارے میں اتنا جذباتی ہو کر نہیں سوچنا چاہئیے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا ہے۔۔۔۔۔ اس سے کہو اپنے والدین سے بات کر کے انہیں رضامند کرے۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ رضامند ہو جائیں پھر مجھے کیا اعتراض ہو گا تم دونوں کی شادی پر لیکن اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پھر اس سے کہو کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے اور تم ٹھنڈے دل سے سوچو، تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ تمہارا فیصلہ کتنا نقصان دہ ہے۔"
انصر جاوید نے آخری کیل ٹھونکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"باجی ! میں آپ کا کمرہ صاف کر دوں؟"ملازمہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
"نہیں ، تم جاؤ۔"امامہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ملازمہ باہر جانے کی بجائے دروازہ بند کر کے اس کے پاس آ گئی۔
"میں نے تم سے کہا ہے نا کہ تم۔۔۔۔۔"امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ملازمہ نے اپنی چادر کے اندر سے ایک موبائل نکالا تھا۔ امامہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
"باجی ! یہ میری ماں نے دیا ہے ، وہ کہہ رہی تھی کہ ساتھ والے سالار صاحب نے آپ کے لیے دیا ہے۔"اس نے امامہ کی طرف عجلت کے عالم میں وہ موبائل بڑھایا۔ امامہ نے تیزی سے موبائل کو جھپٹ لیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
"دیکھو ، تم کسی کو بتانا مت کہ تم نے مجھے کوئی موبائل لا کر دیا ہے۔"امامہ نے اسے تاکید کی۔
"نہیں باجی ! آپ بےفکر رہیں ، میں نہیں بتاؤں گی۔ اگر آپ کو بھی کوئی چیز سالار صاحب کے لیے دینی ہو تو مجھے دے دیں۔"
"نہیں ، مجھے کچھ نہیں دینا ، تم جاؤ۔"اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کمرے کو لاک کر لیا۔ کانپتے ہاتھوں اور دل کی بےقابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے دراز سے موبائل اور اس پر جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ وہ اسے تفصیل سے ساری بات بتانا چاہتی تھی۔فون جلال کی امی نے اٹھایا۔
"بیٹا ! جلال تو باہر گیا ہوا ہے ، وہ تو رات کو ہی آئے گا۔تم زینب سے بات کر لو۔اسے بلا دوں؟"جلال کی امی نے کہا۔
"نہیں آنٹی ! مجھے کچھ جلدی ہے ، میں زینب سے پھر بات کر لوں گی۔بس میں نے ان سے چند کتابوں کا کہا تھا ، مجھے ان ہی کے بارے میں پوچھنا تھا۔میں دوبارہ فون کر لوں گی۔"امامہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے اس دن دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا۔وہ صرف رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلال گھر آ جائے اور وہ اس سے دوبارہ بات کر سکے۔شام کے وقت ملازمہ نے اسے اسجد کے فون کی اطلاع دی۔
وہ جس وقت نیچے آئی اس وقت لاؤنج میں صرف وسیم بیٹھا ہوا تھا۔وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے فون کی طرف چلی گئی۔فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف اسجد کی آواز سنائی دی تھی۔بےاختیار امامہ کا خون کھولنے لگا۔یہ جاننے کے باوجود کہ اس شادی کو طے کرنے میں اسجد سے زیادہ خود ہاشم مبین کا ہاتھ تھا۔امامہ کو اس پر غصہ آ رہا تھا۔
وہ اس کا حال دریافت کر رہا تھا۔
" اسجد ! تم نے اس طرح میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا ہے؟"
"کیسا دھوکہ امامہ ! "
"شادی کی تاریخ طے کرنا۔۔۔۔۔تم نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی۔"وہ کھولتے ہوئے بولی۔
"کیا انکل نے تم سے بات نہیں کی۔"
"انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی۔"
"بہر حال اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی اب ہو یا کچھ سالوں کے بعد۔"اسجد نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"اسجد ! تمہیں فرق پڑتا ہو یا نہیں ، مجھے پڑتا ہے۔میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے تھے۔"
"ہاں ، میں جانتا ہوں مگر اس سارے معاملے میں ، میں تو کہیں بھی انوالو نہیں ہوں۔تمہیں بتا رہا ہوں ، شادی انکل کے اصرار پر ہی ہو رہی ہے۔"
"تم اسے رکوا دو۔"
"تم کیسی باتیں کر رہی ہو امامہ ! میں اسے کیسے رکوا دوں۔"اسجد نے کچھ حیرانی سے کہا۔
"اسجد پلیز ! "
"امامہ ! میں ایسا نہیں کر سکتا ، تم میری پوزیشن سمجھو۔اب تو ویسے بھی کارڈ چھپ چکے ہیں ، دونوں گھروں میں تیاریاں ہو رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات سنے بغیر ریسیور پٹخ دیا۔وسیم نے اس پوری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔وہ خاموشی سے اسجد کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتا رہا تھا جب امامہ نے فون بند کر دیا تو وسیم نے اس سے کہا۔
"تم خوامخواہ ایک فضول بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر رہی ہو۔کل بھی تو تم نے شادی اسجد کے ساتھ ہی کرنی ہے پھر اس طرح کر کے تم خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہو۔بابا تم سے بہت ناراض ہیں۔"
"میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی ، تم اپنے کام سے کام رکھو۔جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو وہ کافی ہے۔"
امامہ اس پر غرائی اور پھر واپس کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔