جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیر بے نیام قسط نمبر 14

0 comments
شمشیر بے نیام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ-الله کی  تلوارپارٹ14
دوپہر کے وقت جب گرمی انتہا پر پہنچ گئی تو رومیوں نے زیادہ نفری سے بڑا ہی سخت حملہ کیا۔اس کے آگے پوری کوشش کے باوجود مسلمان جم نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے پورے کا پورا اور شرجیلؓ بن حسنہ کا تقریباً نصف دستہ پسپا ہو گیا۔اس روز بھی ایسے ہی ہوا جیسے گشتہ روز ہوا تھا۔بھاگنے والوں کو عورتوں نے روک لیا، انہیں ڈنڈے بھی دکھائے، طعنے بھی دیئے، غیرت کو بھی جوش دلایا اور ان کا حوصلہ بھی بڑھایا۔ تفصیل سے پڑھئے
کسی مؤرخ نے ایک تحریر لکھی ہے کہ ایک مجاہد بھاگ کر پیچھے آیا اور عورتوں کے قریب آکر گر پڑا۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں، منہ کھل گیا تھا۔ایک عورت دوڑتی اس تک پہنچی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔’’کیا تو زخمی ہے؟‘‘ عورت نے پوچھا۔وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے سر ہلا کر بتایا کہ وہ زخمی نہیں۔’’پھر توبھاگ کیوں آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’ کیا تیرے پاس تلوار نہیں تھی؟‘‘مجاہد نے نیام سے تلوار نکالی جس پر نوک سے دستے تک خون جما ہو اتھا۔’’کیا تیرے پاس دل نہ تھا جو تو بھاگ آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔مجاہد نے اکھڑی ہوئی سانس کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور بول نہ سکا۔’’کیا تیری بیوی یہاں ہے؟‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا۔’’بہن ؟ ‘‘عورت نے پوچھا۔’’ ماں؟‘‘’’کوئی نہیں۔‘‘ اس نے بڑی مشکل سے کہا۔’’کیا یہ عورتیں تمہاری مائیں اور بہنیں نہیں؟‘‘عورت نے کہا۔’’ کیا تو برداشت کر لے گا کہ انہیں کفار اٹھا کر لے جائیں۔‘‘ ’’نہیں۔‘‘ مجاہد نے جاندار آواز میں کہا۔’’کیا تو اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان نہیں کرے گا؟‘‘’’ضرور کروں گا ۔‘‘ا س نے جواب دیا۔’’پھر یہاں کیوں آن گرا ہے؟‘‘ عورت نے کہا۔’’تھک کر چور ہو گیا ہوں۔‘‘ مجاہد نے کہا۔’’لے میرا ہاتھ پکڑ!‘‘ عورت نے کہا۔’’ میں تجھے اٹھاتی ہوں ۔نہیں اٹھنا تو تلوار مجھے دے۔ تیری جگہ تیری بہن لڑے گی۔‘‘مجاہد اٹھ کھڑا ہوا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑا۔’’بھائی!‘‘ عورت نے کہا۔’’ اﷲ تجھے فاتح واپس لائے۔‘‘مسلمانوں¬کی پسپائی بزدلی نہیں تھی۔ وہ تو ہمت سے بڑھ کر لڑے تھے۔ ان کا اتنے بڑے لشکر سے لڑ جانا ہی ایک کارنامہ تھا۔ جہاں تک رومیوں کو شکست دینے کا تعلق تھا یہ ارادہ ناکام سی خواہش بنتا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کا بار بار پسپا ہو جانا کوئی اچھا شگون نہ تھا لیکن خالدؓ شکست کو قبول کرنے والے سالار نہیں تھے۔ باقی تمام سالار بھی عزم کے پکے تھے۔سالار اپنے ان مجاہدین کو جو پیچھے آگئے تھے اکٹھا کرکے منظم کر رہے تھے۔ خالدؓ بھی پریشانی کے عالم میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور قاصدوں کو گیارہ میل لمبے محاذ پر مختلف سالاروں کو احکام پہنچانے کیلئے دوڑا رہے تھے۔ ایک خاتون ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔’’ابن الولید!‘‘ خاتون نے کہا۔’’خد اکی قسم! عرب نے تجھ سے بڑھ کر کوئی دلیر اور دانشمند آدمی پیدا نہیں کیا۔ کیا تو میری ایک بات پر غور نہیں کرے گا؟…… سالار آگے آگے ہو تو سپاہی اس کے پیچھے جان لڑا دیتے ہیں۔ سالار شکست کھانے پر اتر آئے تو اس کے سپاہی بہت جلد شکست کھا جاتے ہیں۔‘‘’’میری بہن!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ ہمارے لیے دعا کر۔ تیرے کانوں میں یہ آواز نہیں پڑے گی کہ اسلام کے سالار رومیوں سے شکست کھا گئے ہیں۔‘‘اس خاتون نے کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا تھا جو خالدؓ کیلئے نیا ہوتا ، وہ تو اپنی فوج کے آگے رہنے والے سپہ سالار تھے لیکن اس خاتون کے جذبے سے خالدؓ متاثر ہوئے۔ خواتین کا جذبہ تو ہر لڑائی میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن یرموک کی جنگ میں عورتوں کے جذبے کی کیفیت کچھ اور ہی تھی وہ مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے بیتاب تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خواتیں نے مجاہدین کے جسموں اور جذبوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔
اس کے فوراً بعد خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے خاص مقصد کیلئے تیار کیا اور اسے گھوم پھرکر لڑنے کی ٹریننگ دی تھی، انہوں نے رومیوں کے ایک حصے پر جس کا سالار قناطیر تھا، حملہ کر دیا۔ انہوں نے حملہ دائیں پہلو پر کیا تھا۔ خالدؓ کے حکم کے مطابق سالار عمروؓ بن العاص نے اسی حصے کے بائیں پہلو پر حملہ کیا ان کے ساتھ سالار شرجیلؓ بن حسنہ بھی اپنے دستوں کے ساتھ تھے یہ دستے پیادہ تھے۔
رومیوں نے بڑی بے جگری سے یہ دو طرفہ حملہ روکا۔ وہ اگلے دستوں کو پیچھے کرکے تازہ دم دستے آگے لاتے تھے۔ تھکے ماندے مسلمانوں نے جیسے قسم کھالی تھی کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس لڑائی میں مسلمانوں نے جانوں کی بے دریغ قربانی دی۔ شہید ہونے والوں کی تعداد کئی سو ہو گئی تھی۔ وہ رومیوں کو شکست تو نہ دے سکے صرف یہ کامیابی حاصل کی کہ رومیوں کو ان کے محاذ تک پسپا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس دن کا سورج میدانِ جنگ کے خاک و خون میں ڈوب گیا۔اس روز کی جنگ پہلے سے زیادہ شدید اور خونریز تھی۔یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلمان صرف ایک دن میں سینکڑوں کے حساب سے شہید ہوئے اور زخمیوں کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔تاریخ میں صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے۔ رومیوں کا جانی نقصان مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔لڑنے کے جذبے اور حوصلے کی کیفیت یہ تھی کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی بحال ہو گئی تھی۔حالانکہ ان کی تعدادخاصی کم ہو گئی تھی۔ اور انہیں کمک ملنے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ان کا حوصلہ اسی کامیابی سے قائم ہو گیا تھا کہ وہ پسپا نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے رومیوں کو پسپا کر دیا تھا۔رومیوں میں مایوسی پیدا ہو گئی تھی کیونکہ انہیں توقع تھی کہ اتنے بڑے لشکر سے تو پہلے دن ہی مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے خالدؓ کو زندہ پکڑ لیں گے لیکن تیسرا دن گزر گیا تھا۔مسلمان پیچھے ہٹتے اور پھر حملہ کر دیتے تھے ۔ہار مانتے ہی نہیں تھے۔رومیوں کے سالارِ اعلیٰ کی ذہنی حالت تو بہت ہی بری تھی۔ اس نے آج رات پھر سالاروں کو بلایا اور ان پر برس پڑا۔ وہ ان سے پوچھتا تھاکہ وجہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ابھی تک شکست نہیں دے سکے۔ سالاروں نے اپنا اپنا جواز بیان کیالیکن ماہان کا غصہ اور تیز ہو گیا۔آخر رومی سالاروں نے حلف اٹھایا کہ وہ اگلے روز مسلمانوں کو شکست دے کر پیچھے آئیں گے۔گذشتہ رات کی طرح اس رات بھی خالدؓ اور ابو عبیدہؓ تمام تر محاذ پر پھرتے رہے، خالدؓ نے حکم دیا کہ جو زخمی چل پھر سکتے ہیں وہ اگلے روز کی لڑائی میں شامل ہوں گے۔عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں، رات کے آخری پہر عورتیں اکٹھی ہوئیں۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند اورضرار بن الازور کی بہن خولہ نے عورتوں کو بتایا کہ کل کا دن فیصلہ کن ہوگا۔’’……اور اپنے آدمیوں کی جسمانی حالت ہم سب دیکھ رہی ہیں۔‘‘ ہند نے کہا۔’’مجھے اپنی شکست نظر آرہی ہے اور کمک نہیں آرہی۔ اب ضرورت یہ ہے کہ تمام عورتیں لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘’’کیا ہمارے مرد ہمیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا۔’’ہم مردوں سے اجازت نہیں لیں گی۔‘‘ ہند نے کہا ۔’’وہ اجازت نہیں دیں گے۔ کیا تم سب لڑنے کیلئے تیار ہو؟‘‘تمام عورتوں نے جوش و خروش سے کہا کہ وہ کل مردوں سے پوچھے بغیر میدانِ جنگ میں کود پڑیں گی۔اگلے روزکیلئے رومیوں نے جنگ کی جو تیاری کی وہ بڑی خوفناک تھی۔ مسلمان خواتین نے ہتھیار نکال لیے۔ کل انہیں بھی میدان میں اترنا تھا۔
خاک و خون میں ڈوبی ہوئی رات کے بطن سے ایک اور صبح طلوع ہوئی۔ یہ تاریخ اسلام کی ایک بھیانک اور ہولناک جنگ کے چوتھے روز کی صبح تھی۔ مسلمان فجر کی نماز پڑھ چکے تو خالدؓ اٹھے۔ ’’اے جماعتِ مومنین!‘‘ خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔’’ تم نے دن اﷲ کی راہ میں لڑتے اور راتیں اﷲ کویاد کرتے گزاری ہیں۔ اﷲہمارے حال سے بے خبر نہیں۔ اﷲ دیکھ رہا ہے کہ تم لڑنے کے قابل نہیں رہے پھر بھی لڑ رہے ہو۔ اﷲ تم سے مایوس نہیں ہوا۔ تم اس کے رحم و کرم سے مایوس نہ ہونا۔ ہم اﷲ کیلئے لڑ رہے ہیں آج کے دن حوصلہ قائم رکھنا آج اسلام کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اﷲ کے سامنے بھی رسول اﷲﷺ کی روحِ مقدس کے سامنے بھی اور اپنے ان بھائیوں کی روحوں کے سامنے بھی شرمسار ہوں جو ہمارے ساتھ چلے تھے اور ہم نے ان کے لہولہان جسموں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے۔ کیا تم ان کے بچوں کی خاطر جو یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی بیویوں کی خاطر جو بیوہ ہو گئی ہیں اور ان کی بہنوں اور ان کی ماؤں کی عزت کی خاطر نہیں لڑو گے؟‘‘ ’’بے شک ابن الولید!‘‘ مجاہدین کی آوازیں اٹھیں۔’’ ہم لڑیں گے۔‘‘ ’’شہیدوں کے خون کے قطرے قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ ’’آج کے دن لڑیں گے ، کل کے دن اور زندگی کے جتنے دن رہ گئے ہیں وہ کفار کے خلاف لڑتے گزار دیں گے۔‘‘اس طرح مجاہدین نے خالدؓ کی آواز پر جوش و خروش سے لبیک کہا لیکن ان کی آوازوں میں وہ جان نہیں تھی جو ہوا کرتی تھی۔ جہادکا عزم موجود تھا۔ خالدؓ کا یہ پیغام سارے محاذ تک پہنچایا گیا۔ ہر سالار کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔’’آج کے دن حوصلہ نہ ہارنا، آج کے دن۔‘‘ادھر رومی لشکر کے سالاروں کو بھی یہی حکم ملا تھا۔’’ آج کے دن مسلمانوں کا خاتمہ کر دو۔‘‘ صبح کا اجالا صاف ہوتے ہی رومی دستے نمودار ہو ئے۔ ان کا انداز پہلے والا اور پلان بھی پہلے والا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستوں کا حملہ کیا۔ حملہ آور آرمینیہ کی فوج تھی جس کا سالار قناطیر تھا ۔ عمروؓ بن العاص کے پہلو میں سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ ان پر آرمینیوں نے حملہ کیا اور ان کی مدد کیلئے عیسائی دستے بھی ساتھ تھے۔ عمروؓ بن العاص کیلئے صورتِ حال مخدوش ہو گئی۔ انہوں نے بہت دیر مقابلہ کیا لیکن وہ دشمن کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے مجاہدین نے تنظیم اور ترتیب توڑ دی اور حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ دراصل پسپا ہو رہے تھے۔ لیکن اب وہ پسپائی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صفیں توڑ کر انفرادی لڑائی شروع کردی۔ عمروؓ بن العاص سالار سے سپاہی بن گئے، وہ تو تلوار کے دھنی تھے۔ اکیلے انہی کی تلوار نے کئی آرمینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ان کے دستے کا ہر فرد اب اپنی لڑائی لڑ رہا تھا۔ انہوں نے دشمن کی بھی ترتیب توڑ دی۔ رومیوں کے اتحادی یہ آرمینی اس قسم کی لڑائی کی تاب نہ لا سکے لیکن وہ پسپا نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے پیچھے تازہ دم عیسائی دستے موجود تھے، وہ آرمینیوں کو پیچھے نہیں آنے دیتے تھے دوسری وجہ یہ کہ ان کے سالار پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دیتے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود انہیں لڑائی میں سے نکلنے نہیں دے رہے تھے۔ شرجیلؓ بن حسنہ کے دستوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انہیں دشمن نے بہت پیچھے ہٹا دیا تھا۔ مجاہدین بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ لیکن دشمن کا دباؤ ان کیلئے نا قابلِ برداشت ہو گیاتھا۔
خالدؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے یہ چال سوچی کہ عمروؓ بنالعاص اور شرجیلؓ بن حسنہ پر حملہ کرنے والے آرمینیوں پر پہلو سے حملہ کیا جائے لیکن ان کی مدد کو آنے والے دستوں کا راستہ روکنا بھی ضروری تھا۔ انہوں نے قاصد کو بلایا۔ ’’ابو عبیدہ اور یزید سے کہو کہ آگے بڑھ کر اپنے سامنے والے رومیوں پر حملہ کر دیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’اور انہیں کہنا کہ دشمن کے ان دستوں کو روکے رکھنا ہے کہ ہمارے دائیں پہلو کی طرف نہ جا سکیں اور انہیں کہنا کہ اپنے سوار دستے بھی حملہ کر رہے ہیں۔‘‘قاصد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ بن ابی سفیان تک جا پہنچا۔ پیغام ملتے ہی ان دونوں سالار نے اپنے سامنے والے رومی دستوں پر حملہ کر دیا۔ خالدؓ نے اپنے مخصوص رسالے کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کی کمان قیس بن ھبیرہ کو دی اور دوسرے کو اپنے کمان میں رکھا۔ خالدؓ اپنے دائیں پہلو کے پیچھے سے گزر کر آگے نکل گئے اور اس طرف سے آرمینی دستوں پر حملہ کر دیا ۔ان کے حکم کے مطابق قیس بن ھبیرہ کے سوار دستوں نے آرمینیوں پر دوسرے پہلو سے حملہ کر دیا۔ شرجیلؓ نے سامنے سے حملہ کر دیا۔ یہ سہہ طرفی حملہ تھا جو آرمینیوں کیلئے ایک آفت ثابت ہوا۔ عیسائی دستے ان کی مدد کو آئے لیکن بے شمار لاشیں تڑپتے ہوئے زخمی اور بے لگام بھاگتے ہوئے گھوڑے چھوڑ کر پسپا ہو گئے، اور اپنے محاذ بلکہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے۔ ابھی دشمن کا پیچھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔خالدؓ ابھی دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دشمن حملے کر کر کے تھک جائے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر جو حملہ کیا تھا وہ انہیں مہنگا پڑا۔ دشمن نے ان دونوں سالاروں کے دستوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ یہ ویسی تیر اندازی نہیں تھی جیسی لڑائیوں میں معمول کے مطابق ہوا کرتی ہے، یہ تو صحیح معنوں میں تیروں کا مینہ تھا۔ رومی اپنے لشکر کے تمام تیر اندازوں کو آگے لے آئے تھے۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فضاء میں اڑتے ہوئے تیروں نے سورج کو چھپا لیا تھا۔ تیر اندازوں کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ سات سو مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر لگے اور آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ اسی لیے اس دن کو ’’یوم النفور‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمان تیر اندازوں نے رومی تیر اندازوں پر تیر چلائے لیکن مسلمانوں کے تیر بے کار ثابت ہوئے کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں چھوٹی تھیں۔ ان سے تیر دور تک نہیں جا سکتا تھا ۔اس کے علاوہ تیر اندازوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی ۔اسی دن ابو سفیان ؓکی آنکھ میں بھی تیر لگااور وہ ایک آنکھ سے معذور ہو گئے۔ اس صورتِ حال میں مسلمان میدان میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ سات سو مسلمان تو وہ تھے جن کی آنکھوں میں تیر لگے تھے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان ایک اونچی چٹان کی چوٹی سے یہ جنگ دیکھ رہا تھا۔’’وہ وقت آگیا ہے۔‘‘ ماہان نے چلّا کر کہا۔ ’’اب حملے کا وقت آگیا ہے۔ نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ اس نے اپنے دو سالاروں کو پکار کر کہا۔’’گریگری ،قورین! تیز ہلہ بول دو۔ فیصلے کا وقت آگیا ہے۔‘‘جنگ کے شور وغوغا میں اور پھر اتنی دور سے اس کی آواز سالاروں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کی پکار اس کے قاصد سن سکتے تھے جو ہر وقت اس کے قریب موجودرہتے تھے۔ ’’کوئی اور حکم؟‘‘ایک قاصد نے ماہان کے آگے ہو کر پوچھا۔ماہان نے اپنا پورا حکم دیا اور قاصد کا گھوڑا بڑی تیزی سے چٹان سے اتر کر میدانِ جنگ کی قیامت خیزی میں غائب ہو گیا۔ ماہان مسلمانوں کو اسی کیفیت میں لانا چاہتا تھا کہ وہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کی نفری ہزاروں کے حساب سے کم ہو گئی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ جسمانی تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ رومیوں کیلئے وہ فیصلہ کن لمحہ آگیا تھا جس کا حکم ماہان نے گذشتہ رات اپنے سالاروں کو دیا تھا۔
ماہان کا حکم پہنچتے ہی رومیوں نے تین سالاروں ابو عبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان اور عکرمہؓ کے دستوں پر حملہ کر دیا۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کے دستوں پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا کیونکہ ان کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ انہیں میدانِ جنگ سے بھگا دینا رومیوں کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ وہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔رومی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں لے آئے تھے۔ مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور اس شکست کے نتائج صرف ان مسلمانوں کیلئے ہی تباہ کن نہیں تھے، جو لڑ رہے تھے بلکہ اسلام کیلئے بھی کاری ضرب تھی۔ اسی میدان میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اس خطے میں مسلمان رہیں گے یا رومی، اسلام رہے گا یا عیسائیت؟میدان عیسائیت کے ہاتھ تھا۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستوں کے بائیں پہلو پر عکرمہؓ کے دستے تھے۔ ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔ لیکن یہ اتنا زور دار نہیں تھا جتنا دوسرے دستوں پر تھا۔ عکرمہؓ نے ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ جیسے بہادر سالار کو پسپائی کی حالت میں دیکھا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اپنے دستے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ’’خدا کی قسم! ہم یوں نہیں بھاگیں گے۔‘‘ عکرمہؓ نے نعرہ لگایا اور اپنے دستوں میں گھوم پھر کر کہا۔’’ جو لڑ کر مرنے اور پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھانے کو تیار ہے الگ ہو جائے۔ سوچ کر قسم کھانا۔ قسم توڑنے کے عذاب کو سوچ لو۔ فیصلہ کرو تمہیں کیا منظور ہے ؟شکست یا موت؟ ذلت و رسوائی کی زندگی یا با عزت موت؟‘‘اگر صورتِ حال یہ نہ ہوتی اور مسلمان تازہ دم ہوتے تو عکرمہؓ کے اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن مسلمان جسمانی طور پر جس بری حالت کو پہنچ گئے تھے وہ اس کا بہت برا اثر ذہنوں پر بھی پڑا تھا۔ یہ دستے پہلی جنگ تو نہیں لڑ رہے تھے۔ وہ تین تین چار چار برسوں سے گھروں سے نکلے ہوئے تھے اور لڑتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔ یہ جذبہ تھا جو انہیں یہاں تک لے آیا تھا۔ ورنہ عام ذہنی حالت میں یہ ممکن نہیں تھا۔اس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں عکرمہؓ کے اعلان اور للکار پر صرف چار سو مجاہدین نے لبیک کہا اور حلف اٹھایا کہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹھیں گے۔ لڑتے ہوئے جانیں دیدیں گے۔ باقی جو تھے وہ لڑنے سے منہ نہیں موڑ رہے تھے لیکن وہ ایسی قسم نہیں کھانا چاہتے تھے جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔ان چار سو مجاہدین نے جنہوں نے حلف اٹھایا تھا اپنے سالار عکرمہؓ کی قیادت میں ان رومیوں پر ہلہ بول دیا جو ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ یہ ہلہ اتنا شدید تھا جیسے شیر شکار پر جھپٹ رہے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ رومیوں کا جانی نقصان بے شمار ہوا۔ عکرمہؓ کے دستوں میں سے کوئی ایک آدمی بھی پسپا نہ ہوا لیکن چار سو جانباوں میں سے ایک بھی صحیح و سلامت نہ رہا۔ زیادہ تر شہیدہو گئے اور باقی شدید زخمی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوتے رہے ۔کئی ایک جسمانی طورپر معذور ہو گئے۔ اتہائی شدید زخمی ہونے والوں میں عکرمہؓ بھی تھے اور ان کے نوجوان بیٹے عمرو بھی)یعنی ابو جہل کا بیٹا اور پوتا۔۔سبحان اﷲ ۔۔۔اﷲ جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے گمراہ کر دے( ۔ انہیں بے ہوشی کی حالت میں پیچھے لایا گیا تھا ۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستے پیچھے ہٹتے گئے۔ رومی انہیں دھکیلتے چلے آرہے تھے۔ بڑا ہی خونریز معرکہ تھا۔ جب یہ دستے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچے تھے تو مسلمان عورتوں نے ڈنڈے پھینک کر تلواریں اور برچھیاں اٹھا لیں اور چادریں پگڑی کی طرح اپنے سروں سے لپیٹ کر رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔ ان میں ضرار کی بہن خولہ بھی تھیں۔ جو عورتوں کو للکار رہی تھیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتیں اپنے دستوں میں سے گزرتی آگے نکل گئیں اور بڑی مہارت دلیری اور قہر سے رومیوں پر جھپٹنے لگیں۔ وہ تازہ دم تھیں انہوں نے رومیوں کے منہ توڑ دیئے ان کی ضربیں کاری تھیں۔ رومی زخمی ہو ہو کر گرنے لگے۔ عورتوں کے یوں آگے آجانے اور رومیوں پر جھپٹ پڑنے کا جو اثر مجاہدین پر ہوا وہ غضب ناک تھا۔ اپنی عورتوں کر لڑتا دیکھ کر مجاہدین آگ بگولہ ہو گئے۔ انسان میں جو مخفی قوتیں ہوتی ہیں وہ بیدار ہو گئیں اور وہی مجاہدین جو پسپا ہوئے جا رہے تھے رومیوں کیلئے قہر بن گئے۔ انہوں نے ترتیب توڑ دی اور اپنے سالاروں کے احکام سے آزاد ہو کر ذاتی لڑائی شروع کر دی، ان کی ضربوں کے آگے رومی بوکھلا گئے، اور پیچھے ہٹنے لگے۔ وہ اپنے زخمیوں کو روندتے جا رہے تھے۔ سالار بھی سپاہی بن گئے، اور عورتیں بدستور لڑتی رہیں۔ دن کا پچھلا پہر تھا۔ معرکہ انتہائی خونریز اور تیز ہو گیا۔ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ گھمسان کے اس معرکے میں ضرار کی بہن خولہ جو اس وقت تک کئی ایک رومیوں کو زخمی اور ہلاک کر چکی تھیں ایک اور رومی کے سامنے ہوئیں۔ پہلا وار خولہ نے کیا جو رومی نے روک لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایسا زور دار وار کیا کہ اس کی تلوار نے خولہ کے سر کا کپڑا بھی کاٹ دیا اور سر پر شدید زخم آئے۔ خولہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ پھر انہیں اٹھتے نہ دیکھا گیا۔ اس کے فوراً بعد سورج غروب ہو گیا اور دونوں طرف کے دستے اپنے اپنے مقام پر پیچھے چلے گئے اور زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع ہو گیا۔ رومیوں کی لاشوں اور بے ہوش زخمیوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ نقصان مسلمانوں کا بھی کم نہ تھا لیکن رومیوں کی نسبت بہت کم تھا۔ خولہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔انہیں خیمہ گاہ میں ڈھونڈا گیا نہ ملیں تو لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے لگے اور وہ بے ہوش پڑی ہوئی مل گئیں۔ سر میں تلوار کا لمبا زخم تھا۔ بال خون سے جڑ گئے تھے۔ ’’اس کے بھائی کو اطلاع دو۔‘‘ کسی نے کہا۔ ’’ابن الازور سے کہو تیری بہن شہید ہو رہی ہے۔‘‘ ضرار بن الازور بہت دور تھے۔ بڑی مشکل سے ملے ۔بہن کی اطلاع پر سر پٹ گھوڑا دوڑاتے آئے۔ جب اپنی بہن کے پاس پہنچے تو بہن ہوش میں آگئیں۔ ان کی نظر اپنے بھائی پر پڑی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’خدا کی قسم !تو زندہ ہے۔‘‘ ضرار نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔ ’’تو زندہ رہے گی۔‘‘ ضرار نے خولہ کو اٹھا کر گلے لگالیا۔ خولہ کے سر پر تہہ در تہہ کپڑ اتھا جس نے تلوار کی ضرب کو کمزور کر دیا تھا۔ سر پر صرف اوڑھنی ہوتی تو کھوپڑی کٹ جاتی پھر زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔جنگ کا بڑا ہولناک دن گزر گیا۔ رومیوں کو اپنے اس عزم میں بہت بری طرح ناکامی ہوئی کہ آج کے دن جنگ کا فیصلہ کردیں گے۔ ان کی نفری تو بہت زیادہ تھی لیکن اس روز ان کی جو نفری ماری گئی تھی اس سے ان کا یہ فخر ٹوٹ گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل ڈالیں گے۔ مسلمانوں نے جس طرح اپنے سالاروں سے آزاد ہو کر ان پر ہلے بولے تھے اس سے وہ محتاط ہو گئے تھے۔ رومیوں کے لشکر میں سب سے زیادہ جو مارے گئے یا شدید زخمی ہوئے وہ عیسائی اور آرمینی اور دوسرے قبائل کے آدمی تھے جو رومیوں کے اتحادی بن کر آئے تھے۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے انہی کو آگے کر دیا اور بار بار انہی سے حملے کروارہا تھا۔ ان لوگوں کا جذبہ اپنی اتنی زیادہ لاشیں اور زخمی دیکھ کر مجروح ہو گیا تھا۔اس روز ایک اور واقعہ ہو گیا۔ خالدؓ پریشانی کے عالم میں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ جنگ کے متعلق تو ان کے چہرے پر اضطراب اور ہیجان رہتا تھا لیکن ایسی پریشانی ان کے چہرے پر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ ان سے پریشانی کا باعث پوچھا گیا۔ ’’میری ٹوپی!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ سرخ ٹوپی میری کہیں گر پڑی ہے۔
تلاشِ بسیارکے بعد ان کی سرخ ٹوپی مل گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا۔ ’’ابن الولید!‘‘ کسی سالار نے پوچھا ۔’’کیا تجھے ان کا غم نہیں جو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے ہیں؟ تو ایک ٹوپی کیلئے اتنا پریشان ہو گیا تھا ۔‘‘ ’’اس ٹوپی کی قدروقیمت صرف میں جانتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ حجۃالوداع کیلئے رسولِ اکرمﷺ نے سر کے بال منڈھوائے تو میں نے کچھ بال اٹھا لئے، رسول اﷲﷺ نے پوچھا کہ ان بالوں کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ اپنے پاس رکھوں گا ۔کفار کے خلاف لڑتے وقت یہ بال میرا حوصلہ مضبوط رکھیں گے۔ رسول اﷲﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ بال تیرے پاس رہیں گے اور میری دعائیں بھی تیرے ساتھ رہیں گی۔ اﷲ تجھے ہر میدان میں فتح عطا کرے گا۔ میں نے یہ بال اپنی اس ٹوپی میں سی لیے تھے۔ میں اس ٹوپی سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اسی کی برکت سے میری طاقت و ہمت قائم ہے۔‘‘ خالدؓ کو ٹوپی مل جانے کی تو بہت خوشی ہوئی تھی لیکن وہ رات ان کیلئے شبِ غم تھی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے ایک زانو پر سالار عکرمہؓ کا سر تھا اور دوسری زانو پر عکرمہؓ کے نوجوان بیٹے عمرو کا سر رکھا ہوا تھا)واﷲ آنکھوں میں آنسووں کی قطاریں ہیں یہ قسط تیار کرتے ہوئے۔ان صحابہ کرامؓ کے بارے میں نسل مجوس ،ایرانی گماشتے، اولادِمتعہ،ابن سبا کی ناجائز نسل رافضی کہتے ہیں کہ وہ سب منافق تھے اور مرتد ہوگئے تھے۔کوئی ان رافضیوں کے کفر کا پردہ چاک کرے تو فوراً اسے فرقہ پرست،وہابی اور تکفیری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔سلام صحابہ کرامؓ سلام۔۔ہمارا سب کچھ آپؓ کی ناموس پر قربان(۔ باپ بیٹا اس روز کی لڑائی میں اتنے زیادہ زخمی ہو گئے تھے کہ ہوش میں نہیں آرہے تھے۔ جسموں سے خون نکل گیا تھا۔ زخم ایسے تھے کہ ان کی مرہم پٹی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس روز باپ بیٹا قسم کھاکر لڑے تھے کہ مر جائیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عکرمہؓ خالدؓکے بھتیجے بھی تھے اور دوست بھی۔ ان کا بڑا پرانا ساتھ تھا۔ دونوں مانے ہوئے شہسوار اور شمشیر زن تھے ۔خالدؓ کو اپنے اتنے عزیز ساتھی کے بچھڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔ عکرمہؓ کا نوجوان بیٹا بھی دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ خالدؓ نے پانی اپنے ساتھ رکھا ہو اتھا۔ وہ پانی میں اپنا ہاتھ ڈبوتے اور انگلیاں جوڑ کر کبھی عکرمہؓ کے نیم وا ہونٹوں پر رکھتے کبھی ان کے بیٹے عمرو کے ہونٹوں پر۔ مگر قطرہ قطرہ پانی جو باپ بیٹے کے منہ میں جا رہا تھا وہ آبِ حیات نہیں تھا۔ اﷲ نے اس عظیم باپ اور اس کے بیٹے کو فرائض سے سبکدوش کر دیا تھا۔ اس طرح عکرمہؓ نے اور اس کے فوراً بعد ان کے بیٹے نے خالدؓ کی گود میں سر رکھے جانِ جان آفرین کے سپرد کر دی۔ خالدؓ کے آنسو نکل آئے۔ ’’کیا ابنِ حنطمہ اب بھی کہتا ہے کہ بنی مخزوم نے جانیں قربان نہیں کیں؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔حنطمہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ کی والدہ کا نام تھا۔ خالدؓ اور عکرمہؓ بنی مخزوم میں سے تھے۔ خالدؓ کو غالباً وہم تھا کہ عمرؓ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی اسلام کیلئے جانی قربانیاں تھوڑی ہیں۔ عکرمہؓ اور ان کے بیٹے کی شہادت معمولی قربانی نہیں تھی ۔وہ رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔جیسے لمحے لمحے ڈر ڈر کر کانپ کانپ کر گزار رہی ہو۔ زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔کئی شہیدوں کی بیویاں وہیں تھیں لیکن کسی عورت کے رونے کی آوازنہیں آتی تھی)یہی فرق ہے اسلام اور کفر کے درمیان(۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ دن کو اڑی ہوئی گرد زمین پر واپس آرہی تھی۔ شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کیا جا رہا تھا۔
ابو عبیدہؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو کسی ایک سالار کو مقرر کرتے تھے کہ وہ تمام خیمہ گاہ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ داروں کو دیکھے پھر مجاہدین کو جا کر دیکھے جنہیں دشمن کی خیمہ گاہ پر نظر رکھنے کیلئے آگے بھیجاجاتا تھا۔ اس رات ابو عبیدہؓ نے اس خیال سے کسی سالار کو اس کام کیلئے نہ کہا۔ کہ سب دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں۔ وہ خود اس کام کیلئے چل پڑے۔ لیکن وہ جدھر بھی گئے انہیں کوئی نہ کوئی سالار گشت پر نظر آیا)سبحان اﷲ(۔ سالار زبیرؓ تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کی بیوی بھی دن کو لڑی تھیں۔ یہ رات بھی گزر گئی۔ جنگِ یرموک کی پانچویں صبح طلوع ہوئی۔ خالدؓ نے فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی سالاروں کو بلا لیا تھا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔ ’’آج کا دن کل سے زیادہ خطرناک ہو گا ۔اپنی تعدا ددیکھ لو۔ ہم تھوڑے رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کی حالت بھی تمہارے سامنے ہے۔ آج زخمی بھی لڑیں گے۔ دشمن کا بھی بہت نقصان ہو چکا ہے لیکن اس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ تم نے دشمن کے لڑنے کا انداز دیکھ لیا ہے صرف یہ خیال رکھو کہ مرکزیت قائم رہے۔ اب ہم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ نے سالاروں کو کچھ ہدایات دیں اور رخصت کر دیا۔ معاً بعد مسلمان دستے اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے ۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ ہر دستے میں جسمانی لحاظ سے جتنے بالکل ٹھیک افراد تھے اتنے ہی زخمی بھی تھے۔ زخمیوں میں زیادہ تر ایسے تھے جو کسی حد تک لڑنے کے قابل تھے لیکن ایسے بھی تھے جو لڑنے کے قابل نہیں تھے مگر وہ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ عورتیں آج بھی لڑنے کیلئے تیار تھیں۔ مسلمانوں کی یہ دگرگوں کیفیت دشمن سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس نے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔ مسلمان سالار رومیوں کے محاذ کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں توقع تھی کہ آج رومی زیادہ نفری کے دستوں سے حملہ شروع کر دیں گے۔ مسلمان سالاروں کو یہ خطرہ بھی نظر آرہاتھا کہ رومی اپنے سارے لشکر سے حملہ کردیں گے۔ صبح سفید ہو چکی تھی لیکن رومی آگے نہ آئے، پھر سورج نکل آیا لیکن رومی آگے نہ آئے۔ رومیوں کا یہ سکوت خطرناک لگتا تھا۔ یہ طوفان سے پہلے کی پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی تھی۔ خالدؓ کو خیال گزرا کہ رومی مسلمانوں کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ خالدؓ پہل نہیں کرناچاہتے تھے وہ کچھ وقت اور دفاع کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔ آخر رومیوں کی طرف سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ رومیوں کے لشکر نے کوئی حرکت نہ کی سوار مسلمان دستوں کے سامنے آکر رک گیا۔ وہ کوئی عیسائی عرب تھا۔ عربی روانی سے بولتا تھا۔ ’’میں اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے اعلان کرنے کے انداز سے کہا۔ ’’تمہارے سالارِاعلیٰ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے۔ یہ تو انہوں نے اپنے طور پر خالدؓ کو سالارِ اعلیٰ کے اختیارات دے رکھے تھے۔ ذمہ داری بہرحال ابو عبیدہؓ کی تھی اور اہم فیصلے انہوں نے ہی کرنے تھے۔ وہ آگے چلے گئے۔خالدؓ وہاں سے ذرا دور تھے۔ ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ ان کی طرف چل پڑے۔ ’’کہو روم کے ایلچی! ‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ کیا پیغام لائے ہو؟‘‘’’سالارِ اعلیٰ ماہان نے کہا ہے کہ چند دنوں کیلئے لڑائی روک دی جائے ۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’ کیا آپ رضامند ہوں گے؟‘‘ ’’لیکن تمہارے سالارِ اعلیٰ نے کوئی وجہ نہیں بتائی؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’یہ عارضی صلح ہوگی۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ اس دوران یہ فیصلہ ہو گا کہ مستقل صلح کیلئے بات چیت ہو گی یا نہیں۔‘‘ ’’ہم عارضی صلح پر رضامند ہو جائیں گے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’لیکن بات چیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘’’کیا آپ لڑائی روکنے پر راضی ہیں؟‘‘ ایلچی نے پوچھا۔ ’’ہاں!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ لیکن……‘‘ ’’نہیں !‘‘ایک گرجدار آواز سنائی دی۔
دونوں نے دیکھا۔ یہ خالدؓ کی آواز تھی۔ انہوں نے ابو عبیدہؓ کی صرف ہاں سنی تھی۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ان کے سالار نے عارضی صلح کیلئے کہا ہے۔‘‘’’امین الامت !‘‘خالدؓنے ابو عبیدہؓ کے کان میں کہا۔’’ یہ حملے کی تیاری کیلئے مہلت چاہتے ہیں۔ ان کا اتنا نقصان ہو چکا ہے کہ فوری طور پر حملہ نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے اجازت دے کہ اس ایلچی کو کورا جواب دے سکوں۔‘‘’’اے سلطنتِ روم کے ایلچی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے ایلچی سے کہا۔’’ صلح سمجھوتے کا وقت گزر گیا ہے۔ اپنے اتنے زیادہ آدمی مروا کر میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ میں اپنے اتنے زیادہ مجاہدین کا خون ضائع کر آیا ہوں۔لڑائی جاری رہے گی۔ ‘‘ابو عبیدہؓ نے گھوڑا موڑا اور خالدؓ کے ساتھ اپنے محاذ کی طرف چل پڑے۔ ’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اپنے مجاہدین کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ انہیں آرام مل جائے اور کچھ زخمی ٹھیک ہو جائیں کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ……‘‘ ’’سب دیکھ رہا ہوں ابن الجراح !‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ لیکن حالت ہمارے دشمن کی بھی ٹھیک نہیں۔ ورنہ صلح کا دھوکا نہ دیتا۔ رومیوں کے ساتھ بہت سے قبیلے تھے۔ رومی سالاروں نے انہی کو سب سے پہلے مروایا ہے اور اپنی باقاعدہ فوج کو وہ بہت کم استعمال کر رہے ہیں۔ یہ قبیلے باغی ہو گئے ہوں گے یا ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا ۔ہم انہیں سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘’’کیا تو ان پر حملے کی سوچ رہا ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’کیا تو سوچنے کے قابل نہیں رہا امین الامت!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’آمل کر سوچیں گے۔‘‘خالدؓ نے جو سوچا وہ بڑا ہی پر خطر اور دلیرانہ اقدام تھا۔وہ دن جو جنگ کاپانچواں دن تھا۔ بغیر لڑائی کے گزر گیا۔ دستوں کو ایک دن کا آرام تو مل گیا تھا لیکن سالاروں نے آرام نہ کیا۔ خالدؓ نے سالاروں کو اپنے ساتھ مصروف رکھا۔ انہوں نے آٹھ ہزار گھوڑ سوار الگ کرکے ایک دستہ بنا لیا۔ سالاروں کو اپنا نیا منصوبہ سمجھایا۔ انہوں نے یہ منصوبہ جن پیادوں اور سواروں کیلئے بنایا تھا ان میں آدھی تعداد زخمی تھی۔ ایسا خطرہ خالدؓ ہی مول لے سکتے تھے۔چھٹے دن کی صبح طلوع ہوئی، رومی لشکر آگے آگیا، مسلمان میدان میں نئی ترتیب سے موجود تھے۔ رومی سالار گریگری گھوڑے پر سوار آگے بڑھا۔ گریگری ان دستوں کا سالار تھا جن کے دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے ۔ گریگری نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا روکا۔’’کیا تمہارے سالارِ اعلیٰ میں ہمت ہے کہ میرے مقابلے میں آئے؟‘‘ گریگری نے للکار کر کہا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گریگری کی طرف گئے۔’’رُک جا ابن الجراح!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو پکارا اور گھوڑا دوڑا کران کے قریب چلے گئے۔ کہنے لگے۔ ’’تو آگے نہیں جائے گا۔ مجھے جانے دے۔‘‘’’آہ ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا ۔’’وہ مجھے للکار رہا ہے۔‘‘’’امین الامت کو روک لو۔‘‘ متعدد سالاروں نے شور مچایا۔’’ ابن الولید کو جانے دو۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ گریگری کو مسلمان سالار ماہر تیغ زن سمجھتے تھے۔ تیغ زنی میں ابو عبیدہؓ بھی کم نہ تھے پھر بھی سب خالدؓ کو گریگری کی ٹکر کا آدمی سمجھتے تھے لیکن ابو عبیدہؓ نے کسی کی نہ سنی اور گریگری کے مقابلے کیلئے چلے گئے۔گریگری نے ابو عبیدہؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ا س نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس طرح ایک طرف لے گیا جیسے وہ پہلو کی طرف سے آکر تلوار کا وار کرنا چاہتا ہو۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑا روک لیا اور گریگری کو کنکھیوں دیکھتے رہے۔ گریگری نے اپنے ہی انداز سے گھوڑا گھما کر اور دوڑا کر ابو عبیدہؓ پر وار کیا۔ وار ایسا تھا جو لگتا تھا کہ روکا نہیں جا سکے گا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے وار روک کر گھوڑے کو گھمایا اور بڑی پھرتی سے وار کیا۔ گریگری نے وار روک لیا۔
اس کے بعد تلواریں ٹکراتی اور گھوڑے اپنے سواروں کے پینتروں کے مطابق گھومتے ، مڑتے دوڑتے اور رُکتے رہے۔ دونوں سالار شمشیر زنی کے استاد معلوم ہوتے تھے۔ دونوں کے وار بڑے ہی تیز تھے اور ہر وارلگتا تھا کہ حریف کو کاٹ دے گا۔ دونوں فوجیں اپنے اپنے سالار کو چلّا چلّا کر داد دے رہی تھیں۔ کبھی دونوں فوجیں یوں دم بخود رہ جاتیں جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو۔گریگری نے ایک وار کیا جو ابو عبیدہؓ نے روک لیا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے لگے تو گریگری نے گھوڑا دوڑا دیا اور ابو عبیدہؓ کے اردگرد گھومنے لگا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے بڑھتے تو وہ رُک کر وار روکنے کے بجائے گھوڑے کو پرے کر لیتا۔ ابو عبیدہؓ نے وار کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ وار سے بھاگ رہا تھا۔ ایسے نظر آتا تھا جیسے وہ مقابلے سے منہ موڑرہا ہو۔ ابوعبیدہؓ اس کے پیچھے ہو گئے۔آخر اس نے گھوڑے کا رخ اپنے لشکر کی طرف کر دیا۔ ابو عبیدہؓ ا س کے پیچھے پیچھے اور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے بھی رفتار بڑھا دی۔ رومی لشکر پر تو خاموشی طاری ہو گئی لیکن مسلمانوں نے دادو تحسین کا شور بپا کر دیا۔ رومی سالار مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ گیاتھا۔گریگری نے گھوڑے کو ایک طرف موڑا اور رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے قریب چلے گئے۔ گریگری نے گھوڑا گھما کر ابو عبیدہؓ کے سامنے کر دیا۔ یہ اس کی چال تھی۔ وہ بھاگ نکلنے کا دھوکا دے رہا تھا۔ دھوکا یہ تھا کہ وہ اچانک گھوم کر ابو عبیدہؓ پر وار کرے گا اور انہیں وار روکنے کی مہلت نہیں ملے گی۔مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ چوکنے تھے اور گریگری کے دھوکے کو سمجھ گئے تھے ۔گریگری فوراً گھوڑا پیچھے کو موڑ کر وار کرنے لگاتو ابوعبیدہؓ کی تلوار پہلے ہی حرکت میں آچکی تھی۔ گریگری کی گردن موزوں زاویے پر تھی۔ ابو عبیدہؓ کا وار سیدھا گردن پر پڑا۔ جس سے گردن کی ہڈیوں کا ایک جوڑ کٹ گیا اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ گریگری گھوڑے سے گر پڑا۔مسلمانوں نے داد و تحسین کا غل غپاڑہ بپا کر دیا، دستور کے مطابق ابو عبیدہؓ کو گھوڑے سے اتر کر گریگری کی تلوار خود اور زرہ اتار لینی چاہیے تھی لیکن وہ گھوڑے سے نہ اترے ، کچھ دیر گریگری کو تڑپتا دیکھتے رہے۔ جب اس کا جسم بے حس ہو گیا تو ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اپنی صفوں میں آگئے۔ابن الولیدؓ ابو عبیدہؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نہ رکے۔ وہ گھوڑ سوار دستے کے پاس چلے گئے جو انہوں نے اس روز کی جنگ کیلئے تیارکیا تھا۔ آٹھ ہزار سواروں کے اس دستے کو دائیں پہلو پر عمروؓ بن العاص کے دستوں کے عقب میں ایسی جگہ کھڑا کیا گیا تھا جہاں سے یہ دشمن کو نظر نہیں آسکتا تھا۔خالدؓ نے اپنی تمام فوج کو سامنے کا حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رومی سالار حیران ہوئے ہوں گے کہ مسلمان سالاروں کا دماغ جواب دے گیا ہے کہ انہوں نے ایک ہی بار ساری فوج حملے میں جھونک دی ہے۔ رومیوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار دستے حملے میں شریک نہیں ۔ رومیوں کو یہ سب کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی، کیونکہ خالدؓ کے حکم کے مطابق بہت تیز حملہ کیا جا رہا تھا۔ رومیوں کی بہت سی نفری ہلاک اور شدید زخمی ہو چکی تھی۔ پھربھی ان کی نفری مسلمانوں کی نسبت سہ گنا تھی، مسلمانوں کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اتنی کم نفری کا اتنی بڑی تعداد پر حملہ خودکشی کے برابر تھا۔’’انہیں آنے دو۔ ‘‘رومی سالار ماہان چلّارہا تھا۔’’ اور آگے آنے دو…… یہ ہمارے ہاتھوں مرنے کیلئے آ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ آٹھ ہزار سواروں کو پیچھے لے جا کر رومیوں کے بائیں پہلو سے پرے لے گئے۔ انہوں نے سالار عمروؓ بن العاص سے کہا تھا کہ رومیوں کے اس پہلو پر تیز اور زور دار حملہ کریں ۔ عمروؓ بن العاص نے حکم کی تعمیل کی اور جانیں لڑادیں۔ خالدؓ چاہتے تھے کہ دشمن کو پہلو کے دستوں کے سامنے سے الجھالیا جائے۔
عمروؓ بن العاص نے خالدؓ کا مقصد پورا کر دیا۔ خالدؓ نے آٹھ ہزار سواروں میں سے دو ہزار سواروں کا ایک دستہ الگ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کے پہلو کے دستے عمروؓ بن العاص کے دستوں سے الجھ گئے ہیں تو چھ ہزار سواروں کے ساتھ رومیوں کے پہلو والے دستوں کے خالی پہلو کی طرف سے حملہ کردیا ۔ رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی۔دشمن کے انہی دستوں پر سامنے سے شرجیلؓ بن حسنہ نے بھی حملہ کیا تھا۔ خالدؓ نے جن دو ہزار سواروں کو الگ کیاتھا، انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے اس سوار دستے پر حملہ کریں جو اپنے پہلو کے دستوں کی مدد کیلئے تیا ر کیا تھا۔ ان دو ہزار سواروں کیلئے یہ حکم تھا کہ وہ دشمن کے سوار دستے کو روک رکھیں یعنی حملہ شدید نہ کریں بلکہ دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔بعد میں پتا چلا کہ رومیوں کا یہ سوار دستہ خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اسے ہر ا س جگہ مدد کیلئے پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔ مسلمان سواروں نے اس سوار دستے کو اس طرح الجھایا کہ حملہ کرتے اور پیچھے یا دائیں بائیں نکل جاتے ، پینترا بدل کر پھر آگے بڑھتے اور ہلکی سی جھڑپ لے کر اِدھر اُدھر ہو جاتے۔خالدؓ کی یہ چال کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں اتنی کم تعداد کو ایسی عقلمندی سے استعمال کیا تھا کہ دشمن کے پہلوکے دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان دستوں کو توقع تھی کہ مشکل کے وقت سوار دستے مددکوآجائیں گے لیکن مدد کو آنے والے سواروں کو خالدؓ کے دو ہزار سواروں نے آنکھ مچولی جیسی جھڑپوں میں الجھا رکھا تھا۔دشمن کے پہلو کے دستے ایک بار پیچھے ہٹے تو خالدؓ نے چھ ہزار سواروں سے حملے میں شدت پیدا کردی، ماہان نے خود آکر اپنے دستوں کو جم کر لڑانے کی کوشش کی لیکن اس کا سوار دستہ بری طرح بکھرنے اور پیچھے ہٹنے لگا ۔ پیادہ دستے سوار دستوں کی مدد کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے، وہ بے طرح بکھرنے اور بھاگنے لگے۔ بھاگنے والے پیادہ دستے آرمینی تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے بھاگنے کی ایک وجہ تو مسلمانوں کے سوار دستے کاحملہ تھا اور ان پر سامنے سے بھی بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آرمینی سالاروں نے محسوس کیاکہ انہیں دانستہ سواروں کی مدد دسے محروم رکھاجا رہا ہے۔ ان کے پیچھے عیسائی عرب تھے۔ جن کا سالار جبلہ بن الایہم تھا۔ انہوں نے بھی رسالے کی مدد نہ آنے کو غلط سمجھا اور لڑنے سے منہ موڑ گئے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ آرمینیوں اور عیسائیوں کی پسپائی بھگدڑ کی مانندتھی۔ مؤرخوں نے اسے سیلاب بھی کہا ہے جس کے آگے جو کچھ بھی آتا ہے سیلاب اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ رومیوں کے بائیں پہلو سے بھاگنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی گئی ہے، چالیس ہزار انسانوں کی بھگدڑ ایسابے قابو سیلاب تھا جو اپنے سالاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا، یہاں تک کہ سالارِاعلیٰ ماہان جو ابھی میدان نہیں چھوڑناچاہتا تھا اپنے محافظوں سمیت اس سیلاب کی لپیٹ میں آگیا اور بہتا چلا گیا۔یہ کامیابی خالدؓ کی عسکری دانش کا حاصل تھی۔ انہوں نے دشمن کے پیادوں کو سواروں کی مددسے محروم کردیا تھا اور سواروں سے پیادوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ خالدؓ کے آگے بڑھنے کارخ ماہان اور اس کے دو ہزار سوار محافظوں کی طرف تھا۔اِدھر ابو عبیدہؓ اوریزیدؓ بن ابی سفیان اپنے سامنے کے دستوں پر اس اندازسے حملے کر رہے تھے کہ بھرپور لڑائی بھی نہیں لڑتے تھے اور پیچھے بھی نہیں ہٹتے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے دشمن کے ان دستوں کو روکاہوا تھا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ یہ دستے تیزی سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے تھے۔
خالدؓ دشمن کے اس رسالے کو جس نے سارے محاذ کو مدد دینی تھی، بکھیر کر بھگا چکے تھے۔اس رسالے کو کھل کر لڑنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا تھا۔خالدؓ اب اپنے رسالے)سواردستے( کے ساتھ رومیوں کے عقب میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے عقب سے حملہ کردیا۔ یہ رومی فوج کادوسرا حصہ تھا۔ اس پر اپنے بائیں پہلو کے دستوں اور سوار دستوں کے بھاگنے کا بہت برا اثر پڑ چکا تھا۔ ماہان کے غائب ہوجانے کی وجہ سے مرکزیت بھی ختم ہو گئی تھی۔اب سالار اپنی اپنی لڑائی لڑ ہے تھے۔وہ اب صرف دفاع میں لڑ سکتے تھے۔کسی بھی فوج کا بڑا حصہ بھاگ نکلے اور کمک کی امید نہ رہے تو اس صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑا جاتا ہے اور موقع ملتے ہی پسپائی اختیار کی جاتی ہے۔رومی لشکر کیلئے یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی تھی۔ خالدؓ نے دشمن کے بھاگنے کے راستے روک لیے تھے سوائے ایک ،کہ خالدؓ کی بھی یہی کوشش تھی کہ رومی اسی راستے سے بھاگیں ۔ چنانچہ دشمن کے بھاگنے والے دستے اسی راستے پر جارہے تھے۔رومی فو ج بھی پسپا ہو رہی تھی لیکن منظم طریقہ سے۔اس کا کچھ حصہ بھگدڑ میں بہہ گیا تھا۔زیادہ تعداد منظم انداز سے پسپا ہوئی۔خالدؓ نے اس تمام علاقے کی زمین کو دور دور تک دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس زمین سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور جو کچھ سوچ لیا تھا وہ کسی عام دماغ میں نہیں آسکتا تھا۔رومی لشکر جب بھاگ رہا تھا تو خالدؓ کے حکم سے ان کے دستے بھاگنے والوں کا تعاقب کرکے ایک خاص طرف جانے پر مجبور کر رہے تھے۔ اس طرف وادی الرّقاد تھی جس میں ایک ندی بہتی تھی اور اس وادی کے خدوخال کچھ اس طرح تھے ۔وادی اردگرد کی زمین سے گہرائی میں چلی جاتی تھی۔ اس کی ایک طرف کی ڈھلان تو ٹھیک تھی لیکن اس کے بالمقابل کی ڈھلان زیادہ تر سیدھی تھی۔ وہاں سے اوپر چڑھا تو جا سکتا تھا لیکن بہت مشکل سے۔رومی فوج کے باقاعدہ دستے اس طرف چلے گئے۔ ان کے سامنے ایک یہی راستہ تھا۔وہ آسان ڈھلان اتر گئے اور انہوں نے ندی بھی پار کرلی۔ جب وہ دوسری ڈھلان چڑھنے لگے تو مشکل پیش آئی۔ آہستہ آہستہ اوپر چلے گئے۔ اچانک اوپر سے نعرے بلند ہوئے اور للکار سنائی دی۔نعرے لگانے والے مسلمان سوار تھے، اور ان کے سالار ضرار بن الازور تھے۔ ان کاجسم ناف کے اوپر سے ننگا تھا ۔خالدؓ نے رات کو جو منصوبہ بنایا تھااس کے مطابق انہوں نے اسی وقت ضرار کو پانچ سو سوار دے کر وادی الرقاد کے دوسرے کنارے پر بھیج دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔خالدؓ نے جیسے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ رومی فوج کی دراصل کوشش یہی تھی کہ کے تعاقب میں جو مسلمان آرہے ہیں، ان سے بہت فاصلہ رکھاجائے۔ اس لیے وہ بہت جلدی میں جا رہے تھے۔ خالدؓ نے تعاقب اسی مقصد کیلئے جاری رکھاتھاکہ رومی فوج جلدی میں رہے۔ اس مقصد میں کامیابی یوں ہوئی کہ رومی اوپر گئے تو اوپر ضرار کے پانچ سو سوار برچھیاں تانے کھڑے تھے ۔ رومی جو اوپر چلے گئے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو ابھی اوپر جا رہے تھے وہ پیچھے مڑے لیکن عمودی کنارے سے وہ تیزی سے نہیں آسکتے تھے ۔ مسلمانوں نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیئے، جو انہوں نے اسی مقصدکیلئے اکٹھے کر رکھے تھے۔ اوپر والے گرتے اور لڑھکتے ہوئے نیچے جاتے تھے۔ اوپر سے ان پر وزنی پتھر گرتے تھے ۔ان میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ گھوڑے بھی گرے اور پیادے ان کے نیچے آکر مرنے لگے۔
رومی کچھ کم تو نہ تھے، ابھی ایک بڑی تعداد ندی تک نہ پہنچی تھی۔ رومی سالاروں نے اپنے آگے جانے والوں کی تباہی دیکھی تو اپنے دستوں کوآگے جانے سے روک دیا اور وادی میں اترنے کے بجائے انہیں اوپر صف آراء کر دیا۔ وہ لڑ کر مرنا چاہتے تھے۔آرمینیوں اور عیسائی عربوں کی بھی کچھ نفری ان سے آملی تھی۔ یہ نفری بھاگ رہی تھی اور مسلمان انہیں وادی کی طرف لے آئے تھے۔خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ تھے۔ انہوں نے دشمن کو صف آراء دیکھا تو اپنے سالاروں کو بلا کر کہا کہ دشمن پر حملہ کردیں۔’’ان میں لڑنے کادم نہیں رہا۔‘‘ خالدؓنے کہا ۔’’سیدھا حملہ کرو۔ میرے حکم کا انتظار نہیں کرنا۔ ان کیلئے پیچھے ہٹنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک طرف دریا)یرموک(ہے ، دوسری طرف گہری وادی ہے۔ سامنے ہم کھڑے ہیں۔ ان پر ہلہ بول دو۔‘‘رومی پھندے میں آگئے تھے۔ ان کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ختم ہوچکاتھا۔ بعض مؤرخوں نے مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور دو نے اس سے کچھ کم لکھی ہے ۔ شہادت اور شدیدزخمیوں کی وجہ سے نفری کم ہو گئی تھی۔ ایک دستے کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔مسلمانوں نے حملہ کردیا۔ اس میں کوئی چال نہ چلی گئی، اس حملے کاانداز ٹوٹ پڑنے جیسا تھا۔ سوار اور پیادے گڈ مڈ ہو گئے تھے، رومی اب زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ وہ تو تربیت یافتہ فوج تھی۔ اس فوج کی اگلی صف نے مسلمانوں کا جم کرمقابلہ کیا لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں دائیں بائیں ہونے اور گھوم پھرکرلڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس وجہ سے رومی اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ ٹکرانے اور ایک دوسرے کیلئے رکاوٹ بننے لگے۔یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے سودمند تھی۔ رومیوں کی اگلی صف نے مقابلہ تو کیا لیکن اس کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہا۔ مسلمان سواروں نے رومی پیادوں پر گھوڑے چڑھا دیئے اور انہیں صحیح معنوں میں کچل ڈالا، جہاں جگہ کچھ کشادہ تھی۔ وہاں رومیوں نے مقابلہ کیا لیکن مؤرخوں کے مطابق ، یوں بھی ہوا کہ گردوغبار میں رومیوں نے رومیوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ اپنے پرائے کی پہچا ن نہ رہی۔یہ بڑا خوفناک معرکہ تھا۔بڑی بھیانک لڑائی تھی۔ یہ رومیوں، عیسائی عربوں اور ان کے اتحادی قبیلوں کا قتلِ عام تھا۔’’گھوڑوں کو اٹھا کر ان پر گراؤ۔‘‘ یہ خالدؓ کی للکار تھی۔’’ مومنین! کفر کی چٹانوں کو پیس ڈالو۔‘‘مسلمان سوار باگوں کو جھٹکا دیتے تو گھوڑے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا لیتے اور جب گھوڑے ٹانگیں نیچے لاتے تو ایک دو رومی کچلے جاتے۔ یہ تو رومیوں کا قتلِ عام تھا۔ رومی وادی الرقاد کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں وہ اگلے عمودی کنارے کی ایک گھاٹی چڑھتے تو ضرار کے سواروں کی برچھیوں سے چھلنی ہوتے اور اوپر سے لڑھکتے ہوئے نیچے آتے۔مسلمانوں نے اس فتح کیلئے بہت سی جانیں قربان کی تھیں اور جو شدید زخمی ہوئے تھے ان میں کئی ایک ساری عمر کیلئے معذور ہو گئے تھے۔ یہ جنگ مسلمان عورتیں بھی لڑی تھیں۔ عورتوں نے اپنے بھاگتے مردوں کو دھمکیاں دے کر بھاگنے سے روکا تھا۔ اب وہ دشمن جو اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے ڈیڑھ لاکھ کالشکر لایا تھا ۔بڑے برے پھندے میں آگیا تھا۔ وادی الرقاد اس کیلئے موت کی وادی بن گئی تھی۔اﷲ نے مومنین کی وہ دعائیں قبول کر لی تھیں جو وہ راتوں کو جاگ جاگ کر مانگتے اور اﷲ کے حضور گڑگڑاتے رہے تھے ۔ وہ ایک آیت کا ورد کرتے رہے تھے:’’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں اﷲکے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ۔ اﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ قرآن حکیم ۲/۲۴۹اب میدانِ جنگ کی یہ کیفیت ہو چکی تھی کہ رومیوں کی چیخیں اٹھتی تھیں جو مسلمانوں کے نعروں میں دب جاتی تھیں۔ داوی میں گہری کھائیاں بھی تھیں، بعض رومی ان میں بھی گرے اور بڑی بری موت مرے۔
جنگِ یرموک کے چھٹے اور آخری روزکا سورج میدانِ جنگ کے گردوغبار میں ڈوب گیا۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ مشعلیں جل اٹھیں اور رومیوں کی لاشوں کے درمیان گھومنے پھرنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی مشعلیں تھیں،وہ اپنے شہیدوں اور شدید زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اور مالِ غنیمت بھی اکٹھا کر رہے تھے۔ خیمہ گاہ میں خبر پہنچی تو عورتیں آگئیں۔ وہ کئی میل فاصلہ طے کر کے آئی تھیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو، بھائیوں اور بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔’’تو جنتی ہے۔‘‘ کسی نہ کسی عورت کی آواز سنائی دیتی تھی)اﷲ اکبر۔۔۔اﷲ اکبر۔۔۔اﷲ اکبر(۔’’ تو جنت میں جا رہا ہے۔‘‘جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن خالدؓ کی جنگ ابھی جاری تھی۔ رات بھر مجاہدین شہیدوں، زخمیوں اور مالِ غنیمت میں مصروف رہے لیکن خالدؓ کی مصروفیت کچھ اور تھی۔ ان کیلئے جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے جو رومی قیدی پکڑے تھے ان سے خالدؓ معلوم کر رہے تھے کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ماہان جو آرمینیہ کا بادشاہ بھی تھا، کس طرف گیا ہے۔ بیشتر قیدیوں کو معلوم نہ تھا۔آخر پتہ چل گیا، ماہان کو انطاکیہ کے بجائے دمشق کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیاتھا۔ اس کے ساتھ اس کا محافظ سوار دستہ بھی تھا جس کی تعداد دو ہزار تھی۔صبح ہوتے ہی خالدؓ اپنے سوار دستے کو ساتھ لے کر ماہان کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ اس وقت ماہان دمشق سے دس بارہ میل دور پہنچ چکا تھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں پہنچ جائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے جا رہا تھا۔ اس رات اس نے پڑاؤ کیا اور صبح دمشق کو روانہ ہوا تھا۔’’سالارِ معظم!‘‘ اسے اپنے کسی ساتھی نے کہا۔’’ وہ دیکھیں گرد اڑ رہی ہے، یہ کوئی سوار دستہ لگتا ہے۔‘‘’’اپنا ہی ہوگا۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ان کی گرد کو نہ دیکھو جو میدانِ جنگ کی گرد سے بھاگ آئے ہیں۔ یہ شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘ان کے درمیان پھر خاموشی چھا گئی۔ ماہان کی ذہنی کیفیت بہت بری تھی۔ وہ کسی کے ساتھ بولتا نہیں تھا۔ اس کی افسردگی کا باعث صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے شکست کھائی تھی بلکہ یہ کہ اس نے بڑی تھوڑی تعداد کی فوج سے شکست کھائی تھی۔ اس نے مسلمانوں کو کچل کر واپس آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر اب وہ انطاکیہ جانے کے بجائے دمشق کی طرف جا رہا تھا۔ انطاکیہ میں شہنشاہِ روم تھا۔ ماہان اس کاسامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔جن سواروں کی گرد نظر آئی تھی۔اب ان کے گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آواز سنائی دینے لگی تھی۔ جو بڑی تیزی سے قریب آرہی تھی۔ ماہان پیچھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں میدان سے بھاگے ہوئے سوار سمجھ رہا تھا۔ سوار قریب آئے تو دو حصوں میں بٹ گئے اور ا س کے گرد گھیرا ڈالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ایک للکار سنائی دی: انا فارس الضدید انا خالد بن الولید تب ماہان چونکا۔ اس کے ساتھ اپنے دو ہزار سوار محافظ ہی نہیں تھے بلکہ آرمینیا کی باقاعدہ فوج کی بھی کچھ تعداد تھی اور کچھ عیسائی عرب بھی تھے۔ اس نے ان سب کو لڑنے کی ترتیب میں کردیا اور خود اپنے چند ایک محافظ ساتھ لے کر الگ ہٹ گیا۔خالدؓ کو بتایا گیا تھا کہ ماہان کے ساتھ اپنے محافظوں کا سوار دستہ ہے لیکن اس کے ساتھ اس سے دگنی سے بھی کچھ زیادہ تعداد تھی۔ خالدؓ نے گھیرے کی شکل میں حملہ کیا۔ ماہان کی فوج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن مسلمان تھکے ہوئے ہونے کے باوجود تازہ دم لگتے تھے ۔ یہ فتح کی خوشی کا اثر تھا۔
تاریخ میں اس مجاہد کا نام نہیں ملتاجو لڑائی میں بچتا بچاتا ماہان تک جا پہنچا۔ وہ ماہان کے سواروں کا حصار توڑ گیا اور اس نے ماہان کو ہلاک کر دیا۔ مجاہد خود بھی زخمی ہوا لیکن ماہان کو ہلاک کرکے اس نے اپنے ساتھیوں کا کام آسان کر دیا۔ اپنے شہنشاہ اور سالارِ اعلیٰ کو مرتا دیکھ کر اس کے سوار معرکے سے نکلنے لگے۔کچھ دیر بعد دشمن کے سوار اور پیادے جدھر کو رخ ہوا ادھر کو بھاگ نکلے لیکن بہت سی لاشیں اور اچھے بھلے گھوڑے چھوڑ گئے۔دمشق دور نہیں تھا۔ خالدؓ نے دمشق کا رُخ کر لیا۔ یہ ان کا ایک اور دلیرانہ اقدام تھا۔ دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ رہا تھا لیکن رومیوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر مسلمانوں نے دمشق سے قبضہ اٹھا لیا تھا۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’دمشق کے دروازے اب بھی ہمارے لیے کھل جائیں گے۔‘‘توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوگا۔ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی رومیوں نے اس اہم شہر پر اپنا تسلط نہ جمایا ہو۔خالدؓ کی قیادت میں جب مسلمان سواروں کا دستہ دمشق پہنچا تو دیوار کے اوپر سے کسی نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟’’کیا تم نے نہیں پہچانا کہ یہ تمہارے حاکم تھے لیکن حکومت تمہاری تھی؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ کیا تم نہ کہتے تھے کہ رومیوں سے مسلمان اچھے ہیں…… خدا کی قسم! ہم رومیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر آئے ہیں۔‘‘’’مسلمان آگئے ہیں۔‘‘ یہ ایک نعرہ تھا جو دیوار کے اوپر بلند ہوا۔ پھر یہ نعرہ سارے شہر میں پھیل گیا۔شہر کا بڑا دروازہ کھل گیا اور شہریوں کا ایک بڑا ریلا باہر نکلا۔ لوگوں نے بازو پھیلا کر مسلمانوں کا استقبال کیا اور خوشی سے ناچتے ہوئے خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو شہر میں لے گئے، یہ اس اچھے سلوک اور برتاؤ کا اثر تھا جو مسلمانوں نے اہلِ دمشق سے کیا تھا۔ مسلمانوں نے تو کردار کی بلندی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ دمشق سے رخصت ہونے سے پہلے شہریوں سے وصول کیا ہوا جزیہ واپس کر دیاتھا۔ خالدؓ دمشق میں نہیں رُک سکتے تھے۔ انہیں یرموک پہنچنا تھا اور فتح کے بعد کے امور اور انتظامات دیکھنے تھے وہ اسی وقت روانہ ہو گئے۔شام سے رومی سلطنت کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ چند دنوں بعد شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ سے رخصت ہوا۔ اس کا ٹھکانہ اب قسطنطنیہ تھا۔ دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ شہنشاہِ ہرقل جب انطاکیہ سے روانہ ہو اتو اس نے کچھ دور جا کر رُک کر اور پیچھے مڑ کر دیکھا:’’اے ارضِِ شام!‘‘ اس نے آہ لے کر بوجھل سی آواز میں کہا۔’’ اس بد نصیب کا آخری سلام قبول کر جو تجھ سے جدا ہو رہا ہے۔ اب رومی ادھر آئے بھی تو ان پر تیرا خوف سوار ہوگا…… کتنا خوبصورت ملک دشمن کو دیئے جا رہا ہوں۔‘‘جنگِ یرموک پر ہر دور کے مبصر نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے ۔اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ جنگ خالدؓ کی عقل سے جیتی گئی تھی اور یہ کامیابی کارگر چالوں سے حاصل کی گئی تھی۔اس جنگ میں چار ہزار مومنین شہید ہوئے تھے اور زخمی تقریباً سبھی ہوئے تھے خود خالدؓ بھی زخمی تھے۔ رومیوں کی اموات ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔لیکن مؤرخوں کی اکثریت ستر ہزار پر متفق ہے۔سلطنتِ اسلامیہ شام تک پھیل گئی-
۔)آج ایک بار پھر ارضِ شام آلِ مجوس کی زد میں ہے اور صحابہ کرام ؓ کی روحانی اولادیں دیوا نہ وار اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں۔وقت بدل گیا منظر وہی ہے۔کاش کہ بشار قصاب اور نصرالات لبنانی ہرقل کی روح سے مشورہ کر لیتے
وہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دشمن کے مقابلے میں کم تر تھے۔ ان کے ذرائع یوں محدود تھے کہ اپنے وطن سے بہت دور تھے۔ کمک نہیں مل سکتی تھی۔ اس کا حصول دشوار تھا۔ دشمن مانند ٹڈی دل تھا۔اس کے ہتھیار برتر تھے۔ وہ اس کی اپنی زمین تھی۔ ملک اپنا قلعے اپنے تھے۔ کمک کی اس کے ہاں کمی نہیں تھی۔ اپنی بادشاہی میں سے ہزاروں کی تعداد میں لڑنے والے لوگوں کو میدان میں لے آتا تھا لیکن وہ جو تعدا دمیں تھوڑے تھے اور جو کئی کئی سالوں سے مسلسل لڑ رہے تھے اس دشمن کے سینے پر کھڑے تھے جو ان سے کہیں تین گنا اور کہیں چار گنا زیادہ طاقت ور تھا۔وہ کون تھے جنہوں نے اس دور کے سب سے زیادہ طاقت ور دشمن کو فیصلہ کن شکست دی تھی؟وہ صحابہ کرامؓ تھے۔وہ تابعین کرام تھے۔وہ نام کے مسلمان نہیں تھے۔وہ جنگی طاقت کو آدمیوں اور گھوڑوں کی تعداد سے نہیں جذبے اور ایمان سے ناپتے تھے۔یہ ایمان کی قوت کا کرشمہ تھا کہ شام میں قیصرِ روم کا پرچم اتر گیا تھا۔ جن قلعوں پر یہ پرچم لہرایا کرتا تھا ان قلعوں میں سے اب اذانیں گونج رہی تھیں۔یرموک کے میدانِ جنگ میں چار ہزار مجاہدین نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر رومیوں کو شام سے بے دخل کر دیا تھا۔ شہنشاہِ ہرقل جو ایک جابر جنگجو تھا اور اپنی فوج کو ایک ناقابلِ تسخیر فوج سمجھتا تھا اس حالت میں شام کی سرحد سے نکلا تھا کہ اس نے جوابی حملے کی سوچنے کے بجائے ذہنی طور پر شکست تسلیم کرلی تھی۔اس کی فوج کے بھاگنے کا اندازکسی منظم اور طاقتور فوج جیسا نہیں تھا۔ اس فوج کی آدھی نفری ماری گئی ، زخمیوں کا کچھ حساب نہ تھا، اور اب جو بھاگنے کے قابل تھے وہ افراد میں بکھر کر بھاگے۔ ان میں سے زیادہ تر نے بیت المقدس جا پناہ لی۔ اس وقت بیت المقدس ایلیا کہلاتا تھا۔یہ آخری قلعہ تھا جو رومیوں کے ہاتھ میں رہ گیاتھا۔ دو چار اور قلعے بھی تھے جو ابھی رومیوں کے پاس تھے لیکن یہ بیت المقدس جیسے بڑے نہیں تھے۔ ان کے اندر مسلمانوں کی دہشت پہنچ چکی تھی۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ شہریوں نے دیکھاکہ رومیوں کا سورج غروب ہو رہا ہے تو انہوں نے قیصرِ روم کی فوج کو اپنے تعاون سے محروم کردیا۔ مسلمانوں کے متعلق ان تک رائے یہ پہنچی تھی کہ مسلمان میدانِ جنگ میں سراپا قہر اور مانندِ فولاد ہیں اور حکمران کی حیثیت میں وہ ریشم جیسے نرم ہیں۔ان قلعوں کو سر کر لیا گیا۔ کہیں ذرا سی مزاحمت ہوئی جو مسلمانوں کو روک نہ سکی اورباقی قلعوں کے دروازے بغیر مزاحمت کے کھل گئے۔ شہر یوں نے مسلمانوں کا استقبال کیا اور جزیہ اداکردیا۔ البتہ بیت المقدس ذرا بڑا شہر تھا ۔اسے سر کرنا دشوار نظر آرہا تھا۔بیت المقدس میں رومی سالار اطربون تھا، جس کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فنِ حرب و ضرب میں ہرقل کا ہم پلہ تھا۔ بعض مؤرخو ں نے اسے ہرقل کا ہم مرتبہ بھی کہا ہے۔ مسلمانوں کے جاسوس بیت المقدس تک پہنچے ہوئے تھے ان کی لائی ہوئی اطلاعوں کے مطابق اطربون جابر اور بے خوف سالار تھا۔ وہ مرتے دم تک لڑنے والا جنگجو تھا۔ بیت المقدس کے دفاع میں اسے آخری دم تک لڑنا ہی تھا کیونکہ اس خطے میں رومیوں کا یہ آخری مضبوط قلعہ تھا۔ایک مقام اور بھی تھا جو خاصا اہم تھا۔ یہ تھا قیساریہ۔ اس کا قلعہ بھی مضبوط تھا۔ اس وقت تک مسلمان جابیہ کے مقام پر خیمہ زن تھے، یرموک کی جنگ کے بعد وہ جابیہ چلے گئے تھے ، زخمیوں کی تعداد غیر معمولی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ تو پہلے ہی تھکن سے چور تھے ۔ جنگِ یرموک نے ان کے جسموں کا دم خم توڑ دیا تھا۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی اس سے زیادہ ضروری تھی۔ اپنے زخم ٹھیک ہونے کا انتظار کرنا تھا۔انتظار خطرناک ہو سکتاتھا۔خطرہ یہ تھا کہ رومی ایک جنگجو قوم تھی۔
شکست تو انہیں فیصلہ کن ہوئی تھی لیکن وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ زیادہ پریشانی تو بیت المقدس کے متعلق تھی جہاں اطربون جیسا جری اور قابل سالار موجود تھا۔ لیکن رومیوں کے کچھ دستے بکھرے ہوئے تھے۔ جاسوس اطلاعیں دے رہے تھے کہ بعض جگہوں پر رومیوں کے سالار موجود تھے۔ابو عبیدہؓ اور دیگر مسلمان سالار یہ خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ رومی جوابی حملہ کریں گے۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’رومی حملہ ضرور کریں گے لیکن ان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ فوری حملہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ وہ اس طرح دور دور بکھر گئے ہیں کہ انہیں اکٹھا ہونے کیلئے بھی وقت چاہیے۔‘‘حقیقت بھی یہی تھی کہ جس طرح مسلمانوں میں ایک ہلکا سا معرکہ لڑنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی اس طرح رومیوں میں بھی لڑنے کا دم نہیں رہا تھا جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ میں سے سترہزار رومی مارے گئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں زیادہ زخمی تھے۔ جاسوسوں کی اطلاعیں یہ تھیں کہ رومی کہیں بھی جوابی حملے کیلئے منظم نہیں ہو رہے لیکن وہ جہاں جہاں بھی ہیں وہاں دفاعی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔اکتوبر ۶۳۶ء )شعبان ۱۵ ھ( کے ایک دن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘سالارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ زیادہ تر مجاہدین لڑنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ لشکر نے بھی آرام کر لیا ہے۔ اب ہم اس قابل ہیں کہ آگے پیش قدمی کریں۔ دو جگہیں ہیں جن پر قبضہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک تو قیساریہ ہے اور دوسری جگہ ہے بیت المقدس، کیا تم بتا سکتے ہو کہ ان دونوں جگہوں میں سے پہلے کس پر حملہ کریں؟‘‘اس مسئلے پر جب بحث شروع ہوئی تو سالاروں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ دونوں جگہیں دفاعی لحاظ سے مضبوط ہیں ، اس لیے ان پر یکے بعد دیگرے حملہ کیا جائے۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ دونوں مقامات کو بیک وقت محاصرے میں لیا جائے۔ ابو عبیدہؓ ان کے درمیان فیصلہ نہ کر سکے۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم یہ بات امیر المومنین سے پوچھیں کہ ہمیں قیساریہ یا بیت المقدس میں سے کس جگہ کو پہلے محاصرے میں لینا چاہیے؟‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تم سب کے جذبے اور ایثارکی قدر کرتا ہوں۔ اس کا اجر تمہیں اﷲ دے گا۔ میں کسی کی حوصلہ شکنی اپنی زبان سے نہیں کروں گا۔ الحمدﷲ دشمن اس خطے سے بھاگ رہا ہے لیکن ہمیں اپنی فتح کومکمل کرنا ہے۔ میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قاصد کو مدینہ بھیج کر امیرالمومنین کا حکم لیں۔‘‘تمام سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کی اور اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو مدینہ اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیاگیا۔’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم،امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب کی خدمت میں سالارِ اعلیٰ برائے شام ابو عبیدہ بن الجراح کی طرف سے، سب تعریفیں اﷲ کیلئے ہیں اور اطاعت اﷲکے رسول محمد)ﷺ( کی ہے۔ اﷲ نے ہمیں جس فتح سے نوازا ہے وہ ہماری آئندہ نسلوں پر اس کی ذات کا بہت بڑا احسان ہے ۔تمام فتوحات کی اطلاعیں مع مالِ غنیمت مدینہ بھیجی جاتی رہی ہیں اب ہم جابیہ کے مقام پر آرام کی غرض سے رکے ہوئے ہیں۔ الحمد ﷲ زخمی بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور رومیوں کو شام کی سرزمین سے ہمیشہ کیلئے بے دخل کر دیں۔ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ ہم قیساریہ اور بیت المقدس میں سے کون سی جگہ کا انتخاب کریں۔ کیا امیر المومنین ہماری رہنمائی کریں گے؟‘‘وہاں سے مدینہ کا سفر کم و بیش ایک ماہ کا تھا ۔قاصد کے جانے اور آنے میں کم سے کم بیس روز درکار تھے۔ ان دنوں میں زخمی مجاہدین مذید بہتر ہو گئے اور جو زخمی نہیں تھے انہیں آرام اور تیاری کیلئے مزید وقت مل گیا۔
بیت المقدس کے اندر کے ماحول پر جہاں شکست کی افسردگی شرمساری اور دہشت طاری تھی وہاں جوش و خروش بھی پایا جاتا تھا۔ یہ جوش و خروش رومی سالار اطربون کا پیدا کردہ تھا۔ وہ ابھی مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں آیا تھا۔ اس نے سنا تو تھا اور بڑی اچھی طرح سنا تھا کہ رومی فوج کسی بھی میدان میں مسلمانوں کے مقابلے میں جم نہیں سکی لیکن اطربون نے اپنے آپ پر یہ وہم طاری کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بیت المقدس میں شکست دے دے گا۔ اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پلان بنانے شروع کردیئے اور اس سلسلے میں ایک روز قیساریہ چلا گیا۔ قیساریہ میں اس نے وہاں کے سالار اور فوج کو خوفزدگی کے عالم میں دیکھا۔ ’’معلوم ہوتا ہے تم نے لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرلی ہے۔‘‘ اطربوں نے قیساریہ کے سالار سے کہا ۔’’اور میں تمہیں مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے تیار کرنے آیا ہوں۔‘‘’’اگر ہرقل بھاگ گیا ہے تو مقابلے میں ہم بھی نہیں ٹھہر سکتے۔‘‘ قیساریہ کے سالار نے کہا۔’’ فوج جو میرے پاس ہے، ا س پر ان سپاہیوں کا اثر ہو گیا ہے جو یرموک سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں۔ وہ ابھی تک آرہے ہیں نہ جانے کہاں کہاں بھٹک کر آرہے ہیں۔ ان کے چہروں پر آنکھوں میں اور باتوں میں خوف نمایاں ہوتا ہے۔’’بزدل!‘‘ اطربوں نے نفرت سے کہا۔ ’’لڑائیوں سے بھاگے ہوئے سپاہی اور سالار بھی ایسی ہی باتیں کیاکرتے ہیں ۔وہ اپنے دشمن کی فوج کو جنات اور بدروحوں کی فوج ثابت کرتے ہیں۔ جن کا وہ مقابلہ کرہی نہیں سکتے تھے۔ کیا تم مجھے یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ ہرقل کی طرح ہم بھی مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں؟ تمہاری عقل پر ایساپردہ پڑ گیا ہے کہ تم یہ سوچنے کے بھی قابل نہیں رہے کہ ہرقل کی غیر حاضری میں میرا حکم چلتا ہے اور تم میرے حکم کے پابند ہو۔ ہم لڑیں گے۔‘‘ ’’میں نے آپ کو فوج کی ذہنی حالت بتائی ہے۔‘‘ قیساریہ کے سالار نے کہا۔’’ یہ نہیں کہا کہ ہم بھاگ جائیں گے۔ آپ حکم دیں ،فوج منہ موڑ جائے گی۔ تو بھی آپ مجھے میدانِ جنگ میں ہی دیکھیں گے۔‘‘ ’’فوج کو لڑانا تمہارا کام ہے۔‘‘ اطربوں نے کہا۔’’ تم نے باقی جو کچھ کہایہ بڑھ ہانکی ہے ۔فارسیوں نے بھی ان عربی مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی قزاق کہا تھا ہرقل اور اس کے سالار بھی یہی کہتے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ کہ کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ واپس نہیں جانے دیں گے۔ حکم یہ ہے اور یہ موجودہ صورتِ حال کا تقاضہ ہے کہ اپنی فوج کو لڑنے کیلئے تیار کرو۔ مسلمان ایلیا )بیت المقدس( پر حملہ کریں گے۔ تمہارا کام یہ ہوگا کہ وہ جب ایلیا کو محاصرے میں لے لیں تو تم آکر انہیں محاصرے میں لے لو۔ تمہارے پاس فوج کی کمی نہیں۔ اگر تم دشمن کو مکمل محاصرے میں نہ لے سکو تو عقب سے اس کی فوج پر حملہ کرتے رہو ۔میں اپنے دستے شہر کے باہر بھیج کر اتنا سخت ہلہ بولوں گا کہ دشمن قدم جمانے کے قابل نہیں رہے گا۔ عقب میں تم ہو گے پھر سوچ یہ بد بخت کدھر سے نکل کر جائیں گے؟‘‘اس نے رازدار ی کے لہجے میں کہا۔’’ مسلمان تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ ان کی نفری کم و بیش چھ ہزار کم ہو گئی ہے۔ اب انہیں شکست دینا مشکل نہیں رہا۔‘‘ ’’اور اگر وہ ایلیا کے بجائے قیساریہ میں آگئے تو کیا ……‘‘’’پھر میں تمہاری مدد کو آؤں گا۔‘‘اطربون نے کہا۔’’ اور میں تمہاری مدد اسی طرح کروں گا جس طرح میں نے تہیں کہا ہے کہ میری مد دکو آنا۔‘‘ ان کے درمیان طے ہوگیاکہ دونوں میں سے کسی پر حملہ ہوا تو دوسرا اس کی مدد کو آئے گا۔ اطربون یقین سے کہتا تھا کہ مسلمان بیت المقدس آئیں گے۔
اس دور کے متعلق جب مسلمان شام پر چھا گئے تھےہرقل شام سے نکل گیا تھا اور مسلمان فلسطین پر قابض ہوتے چلے جا رہے تھے، مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے واقعات کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ معرکوں کے تسلسل کو بھی آگے پیچھے کر دیا ہے۔ کہیں کہیں اموات میں مبالغہ آرائی ملتی ہے۔ رومیوں اور مسلمانوں کی نفری بھی صحیح نہیں لکھی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر غیر مسلم مؤرخوں نے صحیح واقعات پیش کیے ہیں اور مسلمانوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے لیکن بعض مسلمان مؤرخوں اور بعدکے تاریخ نویسوں نے اپنے اپنے فرقے کے عقیدوں کے مطابق تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور واقعات کو غلط ملط کر دیا ہے اور جو تعصبات آج ان جانبدار تاریخ نویسوں کے ذہنوں میں بھرے ہوئے ہیں وہ انہوں نے خلفائے راشدینؓ اور مجاہدین کے چہروں پر مل دیئے ہیں۔مثلاً امیر المومنین عمرؓ نے خالدؓ کو معزول کرکے مدینہ بلالیا تھا۔ ہم اس کی وجوہات آگے چل کر بیان کریں گے لیکن چند ایک تاریخ نویسوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر المومنین عمرؓکے دل میں خالدؓ کے خلاف ذاتی رنجش کی بنا پر بغض و کینہ بھرا ہوا تھا اور اس سے یہ تاریخ نویس یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عمرؓ کا کردار اتنا عظیم نہیں تھا جتنا بتایا جاتا ہے ۔ ہم چونکہ صرف خالدؓ بن ولید سیف اﷲ کی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں اس لئے ہم ان جنگوں اور دیگر حالات کا زیادہ ذکر نہیں کریں گے جن کا تعلق خالدؓ کے ساتھ نہیں ۔اگر مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں کی تحریروں کی چھان بین کی جائے تو سوائے الجھاؤ کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک تو یہ پتا چلتا ہے کہ سالارِاعلیٰ ابو عبیدہؓ نے امیر المومنین عمرؓ سے بذریعہ قاصد پوچھا تھا کہ وہ قیساریہ کی طرف توجہ دیں یا بیت المقدس کی طرف؟ دوسری طرف کچھ ایسے تاریخ نویس ہیں جو لکھتے ہیں عمروؓ بن العاص نے امیر المومنینؓکو پیغام بھیجا تھا کہ بیت المقدس پر چڑھائی کریں یا کیا کریں؟ اور ایک تاریخ نویس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ امیر المومنینؓ بیت المقدس سے تھوڑی ہی دور کسی مقام پر موجود تھے۔ پسِ منظر کے واقعات کو اور مستند مؤرخوں کی تحریروں کو دیکھاجائے تو امیر المومنین عمرؓ ہمیں مدینہ میں موجود نظر آتے ہیں۔ جہاں انہیں ہر محاذ کی رپورٹیں مل رہی ہیں۔ مالِ غنیمت کاپانچواں حصہ خلافت کیلئے ہر طرف سے آرہا ہے اور امیرالمومنینؓ کے ہاتھوں تقسیم ہو رہاہے اور وہ سالاروں کو خراجِ تحسین کے پیغام بھیج رہے ہیں۔ سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے جو قاصد مدینہ کو روانہ کیا تھا وہ تیز رفتار تھا۔ قاصدوں کی رفتار اس وجہ سے مزید تیز ہوجاتی تھی کہ راستے میں گھوڑے بدلنے کا انتظام موجود تھا۔ اب تو تمام تر علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ قاصد پندرہ دنوں بعد امیر المومنینؓ کا حکم لے آیا۔ امیر المومنینؓ نے لکھا تھا کہ بیت المقدس سب سے پہلے فتح ہونا چاہیے لیکن اس کا محاصرہ کرنے سے پہلے رومیوں کی کمک کے راستے بند کرنا ضروری ہیں۔ عمرؓ کو یہاں تک معلوم تھا کہ قیساریہ میں رومی فوج کثیر تعداد میں موجود ہے جو بیت المقدس کو کمک اور دیگر مدد دے سکتی ہے۔ عمرؓ کو مدینہ میں موجود رہ کر بھی معلوم تھا کہ قیساریہ تک رومیوں کی مزید فوج سمندرکے راستے بھی پہنچ سکتی ہے۔ چنانچہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو حکم بھیجا کہ قیساریہ کا اڈہ ختم کرنا ضروری ہے۔ امیر المومنینؓ نے اپنے حکم اور ہدایات میں یہ بھی لکھا کہ انہوں نے یزیدؓ بن ابی سفیان کو حکم بھیج دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو قیساریہ کا محاصرہ کرنے اور رومیوں کے اس مضبوط اور خطرناک قلعے کو سر کرنے کیلئے فوراً بھیج دیں۔
تاکہ بیت المقدس کی رومی فوج کو قیساریہ سے اور قیساریہ کو سمندرکی طرف سے مدد نہ پہنچ سکے اور اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ قیساریہ اور بیت المقدس کا رابطہ ٹوٹ جائے گا۔ اس حکم نامے میں یہ بھی لکھاتھا کہ قیساریہ کی فتح کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بیت المقدس پر چڑھائی کریں گے۔مدینہ سے یہ جو احکام مختلف سالاروں کو بھیجے گئے ان کے مطابق معاویہؓ نے قیساریہ کا محاصرہ کرلیا۔ وہاں کے رومی سالار کو توقع تھی کہ اطربون اس کی مدد کو آئے گا۔ اس توقع پر اس نے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کایہ طریقہ اختیار کیا کہ دستوں کو قلعے سے باہر نکال کر حملے کرائے۔ ان حملوں کا تسلسل اور انداز ایسا تھا کہ محاصرے کا تو بس نام رہ گیا تھا۔ قلعے کے باہر خونریز لڑائی شروع ہو گئی۔ رومیوں کے حملوں کا طریقہ یہ تھا کہ قلعے کے دو دروازے کھلتے، دو تین دستے رکے ہوئے سیلاب کی مانند باہر آتے اورمسلمانوں پر بڑا شدید ہلہ بولے۔ کچھ دیر لڑ کر وہ پیچھے ہٹتے اور قلعے میں چلے جاتے اور دروازے پھر بند ہوجاتے۔مسلمانوں نے ان حملوں کا مقابلہ اس طرح کیا کہ رومی دستے باہر آتے تو مسلمان ان کے عقب میں جانے کی کوشش کرتے کہ رومی قلعے میں واپس نہ جا سکیں۔ عقب میں جانا اس وجہ سے خطرناک ہو جاتا تھا کہ قلعے کی دیوار سے ان پر تیر آتے تھے، مسلمان رومیوں کے پہلوؤں کی طرف ہو جاتے اور تیروں کی بوچھاڑوں سے بہت سے رومیوں کو گرا لیتے۔ اس طرح رومیوں نے اتنا نقصان اٹھایا کہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہے۔ قیساریہ کے رومی سالار نے اطربون پر یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بزدل نہیں ایک روز خود دو چار دستوں کو ساتھ لیا اور باہر نکل آیا۔ مسلمانوں پر ایسے حملے کئی بار ہو چکے تھے اس لئے انہیں یہ حملے روکنے کا تجربہ ہو گیا تھا، اب رومی سالار خود باہر آیا تو مسلمانوں نے پہلے سے زیادہ شجاعت کامظاہرہ کیا۔ کئی مجاہدین رومی سالار کو مارنے کیلئے آگے بڑھنے لگے لیکن اسے مارنا آسان نظر نہیں آتا تھا۔ وہ محافظوں کے حصار میں تھا۔آخر وہ دہشت اپنااثر دکھانے لگی جو رومیوں پر طاری ہونے لگی تھی۔ وہ تو ہونی ہی تھی، وہ اپنے ساتھیوں کی لاشوں پر لڑ رہے تھے ۔پہلے حملوں میں جو رومی مارے گئے تھے ان کی لاشیں اٹھائی نہیں گئی تھیں۔ بہت سے دن گزر گئے تھے۔ پہلے دنوں کی لاشیں خراب ہو گئی تھیں اور ان کاتعفن پھیلا ہو اتھا۔ رومیوں پر دہشت تو پہلے ہی طاری تھی۔ کیونکہ ان کاسالار ان کے ساتھ باہر آگیا تھا۔ اس لیے ان کے حوصلے میں کچھ جان پڑ گئی تھی۔ لیکن ان کا سالار کسی مجاہد کی برچھی سے مارا گیا۔ رومیوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ قلعوں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔ دروازے کھل گئے اس سے مسلمانوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ وہ بھاگتے اور دہشت ذدہ رومیوں کے ساتھ ہی قلعے میں داخل ہو گئے۔ اب قیساریہ مسلمانوں کا تھا ۔ جس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی تھی۔قیساریہ کا سالار دل میں یہ افسوس لیے مر گیا کہ اطربون اس کی مدد کو نہ پہنچا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اطربون قیساریہ کے محاصرے کی اطلاع ملتے ہی اپنا لشکر لے کر بیت المقدس سے چل پڑا تھا لیکن مسلمان جانتے تھے کہ قیساریہ کو بچانے کیلئے بیت المقدس سے مدد آئے گی۔ انہوں نے مدد کو روکنے کا انتطام کر رکھا تھا۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے دو سالاروں ، علقمہ بن حکیم، اور مسروق مکّی کو بیت المقدس کی طرف اس حکم کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ بیت المقدس سے رومی فوج نکلے تو اسے وہیں روک لیں۔ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ اطربون اپنی فوج کے ساتھ اجنادین کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔
عمروؓ بن العاص نے علقمہ بن حکیم اور سالار مسروق مکی کو بیت المقدس کی طرف بھیج دیا اور خود اطربون کے پیچھے گئے لیکن اجنادین تک انہیں کوئی رومی دستہ نظر نہ آیا۔ زمین بتا رہی تھی کہ اجنادین کی طرف فوج گئی ہے۔ شہر کے باہر کچھ لوگ ملے۔ انہوں نے بتایا کہ رومی فوج آئی تھی اور قلعے میں داخل ہو گئی ہے۔ اجنادین دوسرے شہروں کی طرح قلعہ بند شہر تھا۔ اس کے اردگرد گہری اور چوڑی خندق تھی جسے پار کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ عمروؓ بن العاص نے شہرِ پناہ کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھا۔قلعہ سر کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے ایک نائب سالار کو)تاریخ میں اس کا نام نہیں لکھا( اپنی طرف سے ایلچی بنا کر صلح کے پیغام کے ساتھ قلعے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔’’یہ ضروری نہیں کہ تم صلح کرا کہ ہی آؤ۔‘‘ عمروؓ بن العاص نے ایلچی کو ہدایات دے کر آخری بات یہ کہی۔’’ میں تمہیں جاسوسی کیلئے اندر بھیج رہا ہوں۔ ایک تو یہ اندازہ کرنا کہ اندر فوج کتنی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی دیکھ سکو دیکھنا اور جائزہ لینا کہ اطربون کا اپنا حوصلہ کتنا مضبوط ہے۔‘‘ایلچی اپنے محافظوں کے ساتھ قلعے میں چلاگیا۔ وہ واپس آیا اور عمروؓ بن العاص کو اپنے مشاہدات بتائے۔ عمروؓ بن العاص مطمئن نہ ہوئے۔’’کیایہ کام میں خودنہ کروں؟‘‘ عمروؓ بن العاص نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ جو میں معلوم کرنا چاہتا ہوں وہ صرف میری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘’’ابن العاص!‘‘ ایک سالار نے کہا۔’’ کیا خود جا کر تواپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈال رہا؟‘‘’’خدا کی قسم! ‘‘ایک اور سالار بولا۔’’ اسلام تجھ جیسے سالار کا نقصان برداشت نہیں کر سکے گا۔‘‘’’کیا اطربون مجھے قید کر لے گا؟‘‘ عمروؓ بن العاص نے پوچھا۔ ’’کیا وہ مجھے قتل کر دے گا؟‘‘’’ہارے ہوئے دشمن سے اچھائی کی توقع نہ رکھ ابن العاص!‘‘’’میں عمرو بن العاص کے روپ میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ عمروؓ بن العاص نے کہا۔’’میں اپنا ایلچی بن کر جاؤں گا۔ ہمیں یہ قلعہ لینا ہے۔ میں ہر طریقہ آزماؤں گا۔‘‘عمروؓ بن العاص نے بھیس بدلا اور یہ اعلان کرا کے کہ مسلمانوں کاایلچی صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے قلعے میں آنا چاہتا ہے ، قلعے کا دروازہ کھلوایا۔ رومیوں نے مضبوط تختے خندق پر پھینک کر انہیں خندق پار کروائی اور قلعے کے اندر اپنے سالار اطربون کے پاس لے گئے۔مختلف مؤرخون نے یہ واقعہ لکھاہے ان کے مطابق، عمروؓ بن العاص نے اپنا روپ اور حلیہ تو بدل لیا تھا لیکن ان کے انداز اور بولنے کے سلیقے اور دو چار باتوں سے اطربون کو شک ہوا کہ یہ شخص ایلچی نہیں ہو سکتا۔ عمروؓ بن العاص سالاری کے تدبر اور استدلال کو نہ چھپا سکے۔ اطربون تجربہ کار سالار تھا اور مردم شناس بھی تھا۔ وہ کوئی بہانہ کرکے باہر نکل گیا اور اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلایا۔’’یہ عربی مسلمان جو میرے پاس بیٹھا ہے ابھی واپس جائے گا۔‘‘ اطربون نے کماندار سے کہا۔ ’’ایک محافظ کوراستے میں بٹھا دو۔ میں اس مسلمان کو اسی راستے سے بھیجوں گا۔ یہ زندہ نہ جائے، محافظ اسے قتل کردے۔ یہ شخص مسلمانوں کا سالار عمرو بن العاص ہے۔ اگر سالار نہیں تو یہ عمرو بن العاص کا کوئی خاص مشیر ہے اور مجھے یقین ہے کہ عمرو بن العاص اسی کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل نہ کیا تو میں سلطنتِ روما سے غداری کروں گا۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ جس طرح اطربون اٹھ کر باہر نکل گیا تھا۔ اس سے عمروؓ بن العاص کو اس کی نیت پر شک ہوا۔ وہ واپس آیا تو عمروؓ بن العاص نے اس کے چہرے پر اور اس کی باتوں میں نمایاں تبدیلی دیکھی۔ وہ بھانپ گئے کہ اطربون کی نیت صاف نہیں۔انہوں نے پینترابدلا۔’’معزز سالار!‘‘ عمروؓ بن العاص نے کہا۔’’ہم دس جنگی مشیر ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ آئے ہیں۔
میں ان میں سے ایک ہوں۔میں نے آپ کی شرائط سن لی ہیں۔میں خود تو فیصلہ نہیں کر سکتا۔ عمرو بن العاص کو مشورہ دوں گا کہ وہ آ پ کی شرائط قبول کر لیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے مشورے پر عمل ہوگا اور مزید خون نہیں بہے گا۔‘‘اطربون دھوکے میں آگیا، وہ عمروؓ بن العاص کے ساتھ باہر نکلا اور محافظ دستے کے کماندار کو اشارہ کیا کہ اس شخص کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح عمروؓ بن العاص زندہ قلعے سے نکل آئے۔ باہر آکر انہوں نے للکار کر کہا کہ اطربون ، میں عمرو بن العاص ہوں۔اس کے بعد اجنادین کے میدان میں دونوں فوجوں کے درمیان جو معرکہ ہوا وہ جنگِ یرموک جیسا خونریز تھا۔ ہم اس معرکے کی تفصیلات بیان نہیں کررہے کہ اطربون نے قلعے سے باہر آکر لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا اور عمروؓ بن العاص نے کیسی کیسی چالیں چل کر رومیوں کو بے تحاشا جانی نقصان پہنچا کرپسپا کیا۔‘‘اطربون اپنے بچے کچھے دستوں کو ساتھ لے کر بیت المقدس پہنچا اور وہاں قلعہ بند ہو گیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں نے بہت جانی نقصان اٹھایاجب ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ قیساریہ پر اپنا قبضہ ہو گیا ہے تو انہوں نے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ہراول میں خالدؓ اپنے مخصوص رسالے کے ساتھ جا رہے تھے۔ ابو عبیدہؓ کو بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ اطربون لڑنے کے قابل نہیں رہا۔ پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔بیت المقدس کا اندرونی حال کچھ اور ہی تھا۔ وہی اطربون جس نے قیساریہ کے سالار کوبزدل کہاتھا۔ وہ اب بیت المقدس کے بڑے پادری اسقف سفرینوس کے پاس شکست خوردگی کے عالم میں بیٹھا تھا۔’’محترم سالار!‘‘ سفرینوس نے اسے کہا۔’’ میں اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہوں کہ یہ مقدس شہر مسلمانوں کے حوالے کردوں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یہ کام آپ اپنے ہاتھوں کریں؟‘‘’’نہیں محترم باپ!‘‘ اطربون نے کہا۔’’ میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ اطربون نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔‘‘’’کیا آپ اس شہر کے تقدس کو بھول گئے ہیں؟‘‘ سفرینوس نے کہا۔’’ یہ وہ زمین ہے جس پر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ اس سرزمین کی آبرو کی خاطر ہم اپنی تمام تر فوج کو قربان کردیں؟‘‘’’کیا آپ فوج کی حالت نہیں دیکھ رہے؟‘‘اطربون نے کہا۔’’ نصف کے قریب فوج ماری گئی یا زخمی ہو گئی ہے۔ اس فوج کا جذبہ اور حوصلہ پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ اب میں بڑی مشکل سے ان چند ایک دستوں کو اجنادین سے بچا کر لایا ہوں۔‘‘’’محترم سالار!‘‘اسقف سفرینوس نے کہا۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مسلمانوں کی فوجی برتری کو تسلیم کرلیا ہے۔ آپ روم کی عظیم جنگی روایات کومسلمانوں کے قدموں تلے پھینک رہے ہیں۔ آپ کچھ دن مقابلہ کرکے دیکھیں ۔ مسلمان آسمان کی مخلوق تو نہیں۔ وہ بیشک بہترین لڑنے والے ہیں لیکن آخر انسان ہیں۔ وہ یقیناً تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ آپ اپنا حوصلہ قائم رکھیں۔ وہ پہلے محاصرہ کریں گے جس میں کئی روز گزر جائیں گے۔ اس دوران آپ اپنا اور اپنے دستوں کا حوصلہ مضبوط کریں۔‘‘مسلمان بیت المقدس کی طرف تیز رفتاری سے بڑھے چلے جا رہے تھے اور بیت المقدس میں رومی سالار اطربون اپنے آپ کو لڑنے کیلئے تیار کر رہا تھا لیکن وہ اپنی فوج کی حالت دیکھتا تو اس کا لڑنے کاجذبہ دم توڑنے لگتا تھا۔اس پر اسقف سفرینوس کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ جب اسقف نے دیکھا کہ اطربون ذہنی طور پر شکست قبول کر چکا ہے تو اس نے اطربون کو جذباتی باتوں سے بھڑکانا اور شرمسارکرنا شروع کر دیا۔ اس کا اتنا اثر ہوا کہ اطربون نے مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔اسلامی فوج پہنچ گئی اور بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔
دیواروں پرتیر انداز برچھیاں پھینکنے والے کثیر تعداد میں کھڑے تھے۔ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو قلعے کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ مسلمان سالار قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے کہ کہیں سے دیوار پر چڑھا جا سکتا ہے یا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے سرنگ لگا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے محاصرہ مکمل نہیں تھا۔ محاصرے میں ایک جگہ شگاف تھا۔ مسلمان سالاروں نے جب دیکھا کہ شہرِ پناہ محفوظ ہے اور اس کا دفاع بھی خطرناک ہے تو انہوں نے محاصرے کو طول دینا مناسب سمجھا۔ اس طرح محاصرہ طول پکڑتا گیا اور بہت دن گزر گئے ۔اس دوران مجاہدین نے دروازوں پر ہلے بولے، زخمی ہوئے اور جانیں بھی قربان کیں لیکن دیوار سے آنے والے تیروں اور برچھیوں نے کسی بھی دروازے تک پہنچنے نہ دیا۔ آخر ایک روز بڑے دروازے کے اوپر سے ایک بڑی بلند آواز سنائی دی۔ ’’کیا تمہارا سالار صلح کیلئے آگے آئے گا؟ ‘‘دیوار کے اوپر سے اعلان ہوا۔’’ ہم تمہاری شرطیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ابوعبیدہؓ آگے گئے۔ خالدؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کسی سے کہا کہ وہ بلند آواز سے یہ جواب دے کہ صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے تمہارا سالار باہر آئے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو تھوڑی ہی دیر بعد اسقف سفرینوس چند ایک محافظوں کے ساتھ قلعے کے بڑے دروازے سے باہر آیا۔ اس کے ساتھ ایک بڑی صلیب بھی تھی۔ ’’کیاکوئی سالار موجود نہیں؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے اسقف سے پوچھا۔ ’’سالار موجود ہے۔ ‘‘اسقف نے جواب دیا۔’’ لیکن بیت المقدس وہ شہر ہے جس کی اہمیت اور احترام کو اسقف ہی جان سکتا ہے۔ اگرمیں نہ چاہتا تو ہماری فوج کا آخری سپاہی بھی مارا جاتا۔شہر کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہ بج جاتی۔ یہاں سے صلح کا پیغام آپ کے کانوں تک نہ پہنچتا۔ میں اس شہر کو انسانی خون کی آلودگی سے پاک رکھناچاہتا ہوں۔ رومی سالار میرے زیرِ اثر ہیں۔ میں نے انہیں صلح کیلئے تیار کر لیا ہے۔ لیکن آپ کی شرطیں سننے سے پہلے میں اپنی صرف ایک شرط پیش کروں گا اسے آپ قبول کرلیں تو ہم آپ کی باقی تمام شرائط قبول کرلیں گے۔‘‘ ’’محترم اسقف !‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’ یہ شہر جتنا آپ کیلئے مقدس ہے اتنا ہی ہمارے لیے بھی قابلِ احترام ہے۔ یہ پیغمبروں اور نبیوں کا شہر ہے۔ ہم آپ کی اس خواہش کا احترام کریں گے کہ اس زمین کے تقدس کو انسانی خون سے پاک رکھاجائے۔ آپ اپنی شرط بتائیں۔‘‘ ’’سالارِ محترم !‘‘ اسقف سفرینوس نے کہا۔ ’’یہ جانتے ہوئے کہ صلح کی شرائط آپ کے ساتھ ہی طے کی جا سکتی ہیں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے امیر المومنین کو یہاں بلائیں۔ میں شرائط ان کے ساتھ طے کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ شہر اپنے ہاتھوں ان کے حوالے کروں۔ پیغمبروں کے رشتے سے یہ شہر جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے۔‘‘ اسقف سفرینوس نے بیت المقدس کے متعلق ایسی جذباتی باتیں کیں کہ مسلمان سالار متاثر ہوئے اور انہوں نے اسقف کی اس شرط کو تسلیم کر لیا کہ امیر المومنین عمرؓ کو بلایا جائے۔ اسقف کوبتا دیا گیا کہ امیر المومنینؓ صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے آئیں گے۔ ابو عبیدہؓ، خالدؓ اور دیگر سالاروں کیلئے یہ ایک مسئلہ بن گیا۔ مدینہ بہت دور تھا۔ صر ف ایک طرف کا سفر کم و بیش ایک مہینے کا تھا۔ رومیوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کامطلب یہ تھا کہ رومی شہر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہے اس لئے وہ صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں مسلمان سالاروں کے سامنے سیدھا راستہ تھا کہ وہ قلعے پر تابڑ توڑ حملے کرتے اور قلعہ سر کرلیتے، لیکن اسلامی احکام کے مطابق انہوں نے دشمن کو امن اور صلح کی طرف آنے کا پورا موقع دیا۔ قرآن کا یہ فرمان بڑا صاف ہے کہ دشمن جھک جائے تو اس کے ساتھ شرائط طے کرکے صلح کر لی جائے۔ لیکن امیر المومنینؓ کے آنے کیلئے بہت زیادہ وقت درکار تھا۔
سالار اس مسئلے پر غوروخوض کرنے لگے۔ ’’میں ایک تجویزپیش کرتا ہوں۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ بیت المقدس والوں نے امیر المومنینؓکو کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا قد بت ابنِ ولید جیسا ہے۔ شکل و صورت میں بھی کچھ مشابہت پائی جاتی ہے۔ وقت بچانے کی خاطر ہم یوں کر سکتے ہیں کہ تین چار دنوں بعد ابنِ ولید کو اپنے ساتھ قلعے میں لے جائیں اور کہیں کہ یہ ہیں ہمارے امیر المومنین عمر بن الخطاب۔‘‘ ’’نہیں! ‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اسقف نے بیت المقدس میں ابنِ ولید کو دیکھ لیا ہے۔ بے شک ا س کے ساتھ باتیں میں کرتا رہا ہوں اور اس کی توجہ میری طرف رہی ہو۔ ہو سکتا ہے ا س نے ابنِ ولید کو اچھی طرح نہ دیکھا ہو۔ لیکن شہر کے اندر ایسے رومی موجود ہوں گے جنہوں نے کسی میدانِ جنگ میں ابنِ ولید کواچھی طرح دیکھاہو گا۔ اس وقت کی شرمساری کو سوچو جب کوئی ہمیں یہ کہہ بیٹھے گا کہ یہ ان کا امیرالمومنین نہیں یہ تو خالد ابن الولید ہے جو میدانِ جنگ میں نعرہ لگاکر آیا کرتا تھا۔انا خالد ابن الولید۔‘‘’’کیامیرا یہ خدشہ غلط ہے؟ ‘‘’’ایسا ہو سکتا ہے امین الامت!‘‘ خالدؓنے کہا۔ ’’اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسقف یا کوئی رومی سالار یہ کہہ دے کہ مدینہ سے تمہارا امیرالمومنین اتنی جلدی کیسے آگیا ہے؟‘‘ ’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔‘‘ شرجیل بن حسنہ نے کہا۔ ’’کہ رومی ہمارے آگے یہ شرط رکھ کر اپنے امیر المونین کو بلاؤ ،ہمارے مقابلے کی تیاری میں لگ جائیں۔ یہ وقت حاصل کر رہے ہوں گے۔ ‘‘’’ہم یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں ابنِ ِحسنہ۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ لیکن ہم دروغ اور فریب کا سہارا نہیں لے سکتے۔ ہماری چال بازی کا داغ اسلام کو لگے گا۔‘‘ دو مؤرخوں نے لکھاہے کہ شرجیلؓ کے مشورے پر خالدؓ کو بیت المقدس میں لے جاکر اسقف سفرینوس کو بتایا گیا تھا کہ یہ ہمارے امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب ہیں اور صلح نامہ عمرؓ کی بجائے خالدؓ نے عمرؓ بن کر کیا تھا۔ لیکن آگے پیش آنے والے واقعات اس روایت کی تردید کرتے ہیں۔ زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرؓ کو مدینہ سے بلایا گیا تھا اور عمرؓ فوری طور پر روانہ ہو گئے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو دوڑا دیا۔ پیغام میں وہی باتیں لکھیں جو اسقف بیت المقدس کے ساتھ ہوئی تھیں۔ پیغام مدینہ پہنچا ہی تھا کہ وہاں مسرتوں کی لہر دوڑ گئی۔ خلیفۃ المسلمین عمرؓ کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انہوں نے خاص طور پر حکم بھیجا تھا کہ بیت المقدس فتح کیا جائے۔ عمرؓ تو فتح کی خوشخبری کے منتظر تھے۔ خلیفۃ المسلمین عمرؓ ابو عبیدہؓ کا پیغام مسجدِ نبوی میں لے گئے اور پڑھ کر سب کو سنایا۔ ’’تم سب مجھے کیا مشورہ دیتے ہو؟‘‘ عمرؓ نے حاضرین سے پوچھا۔’’ کیا میرا جانا بہتر ہے؟ یا نہ جانا بہتر ہے؟‘
’’نہ جانا بہتر ہے امیر المومنین!‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ تمہارے نہ جانے سے رومی سمجھیں گے کہ تم نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور تم اتنے طاقتور ہو کہ صلح کی تمہیں پرواہ ہی نہیں۔ اس کا یہ اثر ہوگا کہ رومی ہمارے مقابلے میں اپنے آپ کو حقیر جانیں گے اور جذیہ اداکرکے ہماری اطاعت قبول کرلیں گے۔‘‘ ’’اﷲ تجھے اپنی امان میں رکھے ابنِ عفان!‘‘ علیؓ نے عثمانؓ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔’’امیرالمومنین کا جانا بہتر ہے۔
کیا تو نہیں جانتا کہ مجاہدین کب سے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں، کب سے گرمی سردی آندھی بارش اور طوفانوں میں کھلے آسمان تلے دن گزار رہے ہیں۔جانیں قربان کر رہے ہیں۔ زخمی ہو رہے ہیں۔ اگر امیر المومنین ان کے پاس چلے جائیں گے تو ان کے تھکے ہوئے حوصلے تازہ ہو جائیں گے۔‘‘ ’’بے شک بے شک! ‘‘چند آوازیں سنائی دیں۔’’امیر المومنین نہیں جائیں گے تو رومی قلعے کے اندر محفوظ بیٹھے رہیں گے۔ ‘‘علیؓ نے کہا۔’’ انہیں کمک بھی مل جائے گی اور کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہدین کی فتح جو ان کے سامنے کھڑی ہے وہ الٹ کر شکست بن جائے۔‘‘ حاضرین نے پرجوش طریقے سے تائید کی۔ ’’مجھے جانا چاہیے۔‘‘ امیر المومنینؓ نے کہا۔ ’’میں ابھی روانہ ہونا چاہتاہوں۔‘‘ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب ایک اونٹنی پر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ اپنے نائبین اور مشیر تھے جن کی تعداد اور ناموں کا کسی تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔ وہ ایک مہینے سے کم عرصے میں جابیہ پہنچے۔ ابو عبیدہؓ نے ان کے استقبال کاانتظام جابیہ میں کیا تھااور گھوڑ سواروں کا مختصر سا دستہ امیر المومنینؓکے استقبال کیلئے آگے روانہ کر دیا تھا۔ امیر المومنینؓ جابیہ پہنچے تو ابو عبیدہؓ، خالدؓ اور یزیدؓ کو وہاں دیکھ کر حیران ہوئے۔ ’’کیا تم نے ایلیا )بیت المقدس( کا محاصرہ اٹھا لیا ہے ؟‘‘عمرؓ نے پوچھا۔ ’’تم سب یہاں کیوں ہو؟‘‘’’امیر المومنین!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’محاصرہ عمرو بن العاص کے سپرد کر آئے ہیں۔محاصرہ مضبوط ہے۔ ہم تیرے استقبال کیلئے یہاں موجود ہیں۔‘‘خالدؓ اور یزیدؓ بڑی قیمتی اور زر بفت کی عبائیں پہنے ہوئے تھے۔ وہ شہزادے لگ رہے تھے۔ خالدؓ قریش کے بڑے امیر خاندان کے فرد تھے اور یزیدؓ قبیلے کے سردار ابو سفیانؓکے بیٹے تھے۔ اپنے امیر المومنینؓکے استقبال کیلئے بنے ٹھنے ہوئے تھے۔ ’’خدا کی قسم! تم بے شرم ہو جو مجھے ملنے کیلئے اس شاہانہ لباس میں آئے ہو۔ ‘‘عمرؓ نے اپنے مخصوص غصے کااظہار کرتے ہوئے کہا۔’’ دو سال پہلے تک ہمارا کیا حال تھا؟ کیا تم نے مدینہ میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ لعنت ہے اس مال و دولت پر جس نے تمہارے دماغ خراب کر دیئے ہیں۔ کیا تم میدانِ جنگ میں نہیں ہو؟ خدا کی قسم! تم لباس کی شان و شوکت میں پڑ گئے تو تھوڑے ہی عرصے بعد تمہاری جگہ کوئی اور حکمران ہوگا۔‘‘ امیر المومنینؓکی اپنی یہ حالت تھی کہ موٹے کپڑے کا کرتا پہن رکھا تھا۔ جو اتنا بوسیدہ ہو چکا تھا کہ اس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔ خالدؓ اور یزیدؓ نے اپنی عبائیں کھول کر امیر المومنینؓ کو دکھایا۔ دونوں نے زرہیں پہن رکھی تھیں اور تلواریں ساتھ تھیں۔ ’’امیر المومنین!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ خوبصورت عبائیں تو پردہ ہیں۔ ہم ہتھیاروں کے بغیر نہیں ،لڑنے کیلئے تیارہیں۔‘‘ امیر المومنین ؓکے چہرے سے غصے کے آثار صاف ہو گئے وہ مطمئن نظر آنے لگے۔ ’’ہمیں بہت جلد ہی بیت المقدس پہنچنا چاہیے۔‘‘ امیر المومنینؓ نے کہا۔’’رومیوں کومیں زیادہ انتظار میں نہیں رکھناچاہتا۔‘‘امیر المومنینؓ نے اتنے لمبے سفرکی پرواہ نہ کی اور بیت المقدس کو چل پڑے۔
امیر المومنینؓ جب بیت المقدس کے محاصرے میں پہنچے تو مجاہدین نے دیوانہ وار خوشیاں منائیں۔امیر المومنینؓکی صرف آمد ہی ان کیلئے حوصلہ افزاء تھی۔ اب تو وہ اور زیادہ خوشیاں منا سکتے تھے۔ ایلیا)بیت المقدس( کی فتح کوئی معمولی نہیں تھی۔امیرالمومنینؓ اپنی تمام تر فوج میں گھومے پھرے اور ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ بیت المقدس ان کا اپنا شہر تھا۔ اب صرف معاہدہ لکھنا باقی تھا۔سب سے ملتے ملاتے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اذان دینی تھی جو کوئی بھی دے سکتا تھا۔ امیر المومنینؓ کے ساتھ جو مصاحب گئے تھے ان میں مدینہ کے مشہور مؤذن بلالؓ بھی تھے۔ بلالؓ وہ مؤذن تھے جنہیں اسلام کی تاریخ تا قیامت فراموش نہیں کرے گی۔ ’’امیر المومنین!‘‘ کسی نے کہا۔’’بیت المقدس جیسا مقدس اور اہم شہر ہماری جھولی میں آپڑا ہے۔ اس ایک شہر پر فتح کیے ہوئے سینکڑوں شہر قربان کیے جا سکتے ہیں۔ ایسی عظیم کامیابی کی خوشی میں آج بلال اذان دیں تو کتنا اچھا ہو۔ ہم بیت المقدس میں بلال کی اذان کے بعد داخل ہوں گے۔‘‘ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے بلالؓ کی طرف دیکھا۔ بلالؓ خاموش کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر اداسی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہو گیا۔ بلالؓ حبشی نسل سے تھے۔ ابتداء ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کی آواز بلند سریلی اور پرسوز تھی۔ انہوں نے پہلی دفعہ اذان دی تو مسلمانوں پر تو اثر ہونا ہی تھا، دوسرے لوگ بھی مسحور ہو کررہ گئے تھے۔ یہ بلالؓ کی آواز کا جادو تھا ۔اہلِ قریش نے اس آواز کو بند کرنے کیلئے بلالؓ پر اتنا تشدد کیا تھا کہ وہ بہت دیر تک بے ہوش پڑے رہتے تھے ۔جب اٹھتے تھے تو پہلی آواز جو ان کے منہ سے نکلتی تھی وہ اﷲکانام ہوتا تھا۔ ان کی اذانیں دشت و جبل اور صحراؤں پر وجد طاری کرتی رہیں۔ لیکن رسولِ کریمﷺ کے وصال کے ساتھ ہی یہ آواز خاموش ہو گئی۔ بلالؓ نے اذان دینی چھوڑ دی۔ ان کے چہرے پر ہر وقت اداسی اور افسردگی کی سیاہ گھٹائیں چھائی رہنے لگیں۔ اتنی مدت گزر جانے کے بعد آج پہلی بار بیت المقدس کے دروازے پر امیر المومنین عمرؓ کے مصاحبوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیت المقد س کی فتح کے اس موقع پر بلالؓ اذان دیں۔ امیر المومنینؓ نے ان کی طرف دیکھا تو وہ خاموش رہے۔ ’’بلال! ‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو، لیکن یہ موقع ایسا ہے کہ میں خود چاہتا ہوں کہ اذان تم ہی دو۔ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر کون ایسا ہو گا جو رسول ا ﷲﷺ کو یاد نہ کرنا چاہتا ہوگا؟‘‘بلالؓ کچھ دیرخاموش رہے۔ سب کو توقع یہی تھی کہ بلالؓ اذان نہیں دیں گے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ان کے چہرے کا تاثر بدل گیا۔ انہو ں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ انہیں ایک جگہ ذرا اونچی نظر آئی وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اس جگہ جا کھڑے ہوئے۔ کانوں پر ہاتھ رکھے اور برسوں بعد بیت المقدس کی فضاء اس پر سوز آواز سے مرتعش ہونے لگی۔ جو وصالِ رسولﷺ کے ساتھ ہی خاموش ہو گئی تھی۔ امیر المومنینؓ اور ان کے مصاحبین اور تمام مجاہدین پر سناٹا طاری ہو گیا ۔جب بلال ؓکی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’محمد الرسول اﷲ‘‘ تو کئی ایک افراد کی دہاڑیں نکل گئیں۔ اس سے پہلے تو سب کے آنسو جاری تھے لیکن اپنے رسولﷺ کا نام سن کر سب کے جذبات کے بند ٹوٹ گئے۔ کسی کو اپنے اوپر ضبط نہ رہا۔ اذان کے بعد امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب کی امامت میں سب نے نمازِعصر ادا کی۔
اگلے روز امیر المومنینؓ کاایک ایلچی بیت المقدس کے اندر یہ پیغام لے کر گیا کہ امیر المومنینؓصلح کا معاہدہ طے کرنے کیلئے مدینہ سے آگئے ہیں۔ اسقف سفرینوس اسی پیغام کا منتظر تھا۔وہ اپنے ساتھ چند آدمیوں کو لے کر باہر آگیا۔ معاہدے کی شرائط طے ہوئیں اور اسقف نے شہر کی چابی امیرالمومومنین عمرؓ بن الخطاب کے حوالے کردی۔ معاہدہ جو تحریر ہوا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ۔ اس معاہدے کے تحت جو خلیفۃ المسلمین عمر بن الخطاب اور اسقف بیت المقدس سفرینوس کے درمیان طے پایا۔ خلیفۃ المسلمین نے ایلیا )بیت المقدس( کے باشندوں کو اس معاہدے کی رو سے امن و امان دیا۔ یہ امان ایلیا کے لوگوں کی جان و مال کیلئے ہے ۔ان کے گرجو ں اور ان کے صلیب کیلئے ہے۔ ہر عمر ہر مذہب کے فرد کیلئے ہے۔ تندرست کیلئے ،مریض کیلئے بھی ہے۔ کسی گرجے یا کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کوفاتحین کی رہائش کیلئے یا کسی اور مقصدکیلئے استعمال نہیں کیاجائے گا۔ نہ انہیں یا ان کے احاطے کے اندر کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ انہیں مسمار کیا جائے گا۔ گرجوں اور دیگر عبادت گاہوں میں سے نہ مال اٹھایا جائے گا نہ کوئی اور چیز غیر مسلموں پر مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے معاملے میں کسی قسم کاجبر نہیں کیا جائے گا۔ نہ ان کے ساتھ ناگوار سلوک کیا جائے گا۔ البتہ ایلیا میں یہودی نہیں رہ سکیں گے۔ یہ فرض ایلیا کے باشندوں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ یہودیوں رومیوں اور جرائم پیشہ افراد کو شہر سے نکال دیں۔ ایلیا کے تمام شہری دوسرے شہروں کے لوگوں کی طرح جزیہ ادا کریں گے۔ شہر سے ہمیشہ کیلئے چلے جانے والوں کی جان و مال کا تحفظ ان کی اگلی پناہ گاہ تک دیا جائے گا اور اوپر جن ملکوں کا ذکر آیا ہے انہیں چھوڑ کر باقی تمام دوسرے ملکوں کے جو لوگ اس شہر میں رہنا چاہتے ہیں رہ سکتے ہیں۔ انہیں بھی جزیہ ادا کرناہوگا۔ اگر اس شہر کا کوئی باشندہ شہر کے جانے والے رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو وہ خود یا اپنے خاندان کے ساتھ جا سکتا ہے۔ وہ اپنا جس قدر مال و اموال اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے لے جائے۔ ان کی کھیتیوں میں جو فصل ہے اس کی حفاظت مسلمانوں کے خلیفہ کی ذمہ داری ہے۔ فصل کے مالک وہی ہیں۔ جنہوں نے بوئی تھی۔ شرط یہ ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں اور فصل کاٹنے کیلئے آجائیں۔‘‘ ا س معاہدے پر امیر المومنینؓنے اپنی مہر لگائی اسقف سفرینوس نے اپنے دستخط کیے اور گواہوں کے طور پر خالدؓ بن ولید اور عمروؓ بن العاص، عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور معاویہؓ بن ابی سفیان نے دستخط کیے۔ اس کے فوراً بعد امیر المومنینؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوحکم دیا کہ وہ اپنے دستوں کے ساتھ شام کے شمالی علاقوں میں چلے جائیں جہاں کچھ جگہوں پر رومی ابھی تک قلعہ بند تھے۔ جاسوسوں نے اطلاع دی تھی کہ شہنشاہ ہرقل شام کی سرحد سے تو نکل گیاہے لیکن اس کی جو فوج ابھی شام میں موجود ہے اس کیلئے ہرقل کمک تیار کر رہا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب، عمروؓ بن العاص اور شرجیلؓ بن حسنہ کو ساتھ لے کر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔
اسقف سفرینوس نے ان کا استقبال کیا۔ ایک روز پہلے صلح نامے پر دستخط ہو چکے تھے اور سفرینوس نے صلح نامہ شہر کے باشندوں کو پڑھ کر سنایا، لوگوں پر اس سے پہلے خوف و ہراس طاری تھا۔ انہوں نے پہلے فاتحین کا ظلم و تشدد دیکھا تھا۔ رومی جب بیت المقدس میں آئے تھے تو شہنشاہِ ہرقل کے حکم سے اس شہر کے باشندوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ لوگوں کو سرکاری مذہب قبول کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اتنی آسانی سے اپنا مذہب کون تبدیل کرتا ہے۔ جن لوگوں نے ہرقل کا مذہب قبول نہ کیا ان کے ناک کان کاٹ دیئے گئے اور ان کے گھرتک مسمار کر دیئے گئے تھے۔ انہیں فوج میں جبری طور پر بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ محکوموں اور مظلوموں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔مسلمانوں سے تو وہ اور زیادو خوفزدہ تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں وہیں کے رہنے والوں کو زبردستی مسلمان بناتے ہیں ، گھر لوٹ لیتے ہیں خوبصورت عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔بیت المقدس کے باشندوں نے رومی فوج کی زبان سے سنا تھا کہ مسلمان بڑے ظالم ہیں۔ یہ سپاہی دراصل میدانِ جنگ کی باتیں سناتے تھے اور شہری یہ سمجھ کر خوفزدہ تھے کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمان صرف میدانِ جنگ میں خونخوار ہیں۔بیت المقدس کے شہریوں نے جب معاہدے کی تحریر سنی پھر یہ دیکھا کہ مسلمان فوج نے کسی شہری کی طرف دیکھا تک نہیں تو وہ خوشیاں منانے لگے۔امیرالمومنینؓ نے علقمہ بن مجزز کو بیت المقدس کا حاکم یا امیر مقررکیا۔اسقف سفرینوس نے امیرالمومنین عمرؓ بن الخطاب کو شہر کی سیر کرائی۔ انہیں قدیم تہذیبوں اور قوموں کے آثار دکھائے، یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں دکھائیں، بیت المقدس میں ایسے بے شمار آثار تھے جن میں محرابِ داؤد بھی ہے اور صخرہ یعقوب بھی۔ یہ وہ پتھر ہے جس کے متعلق روایت ہے کہ رسولِ کریمﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور معراج کو گئے تھے۔شہر میں گھومتے پھرتے امیر المومنینؓ کلیسائے قیامت کے سامنے سے گزرے۔ ظہر کی نماز کاوقت ہو گیا۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ نماز کی کوئی جگہ مل جائے۔ ’’خلیفۃ المسلمین!‘‘ اسقف نے التجا کی۔’’ میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہوگی کہ آپ کلیسا کے اندر نماز پڑھیں۔‘‘’’نہیں!‘‘ خلیفہ عمرؓ نے کہا۔’’ میں اس کلیسا کااحترام کرتا ہوں لیکن میں اس میں نماز نہیں پڑھوں گا کہ یہ صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر آج میں نے آپ کے کہنے سے یہاں نماز پڑھ لی تو میرے بعد مسلمان اس کو رسم بنالیں گے اور کلیسا میں نماز پڑھنے کو اپناحق بنالیں گے۔‘‘ کلیسائے قیامت وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ یہاں یہ کلیسا تعمیر کیا گیاتھا۔ اس سے آگے کلیسائے قسطنطین تھا۔ اسقف نے اس کے دروازے میں مصلےٰ بچھا دیا لیکن امیر المومنینؓ نے وہاں بھی نماز نہ پڑھی۔ انہوں نے نماز مسجدِ اقصیٰ میں پڑھی۔’’محترم اسقف! ‘‘امیر المومنین عمرؓبن الخطاب نے سفرینوس سے پوچھا۔’’ رومی آپ کا ساتھ کیوں چھوڑ گئے ہیں؟ ان کا سالار اطربوں کہاں گیا؟ سنا تھا وہ ہرقل کا ہم پلہ ہے۔‘‘’’بھاگ گیا۔‘‘ سفرینوس نے جواب دیا۔’’ بھاگ گیا……کوئی شک نہیں کہ وہ ہرقل کا ہم پلہ تھا۔ اس نے آپ کو شکست دینے کے بڑے اچھے منصوبے بنائے تھے۔ ا س نے قیساریہ کے سالار کو آپ کی فوج سے مقابلے کیلئے تیار کیا تھا۔ لیکن آپ کے سالاروں کی چال نے اطربون کے منصوبے تباہ کر دیئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کی فوج کے مقابلے میں نہیں آیا تھا……‘‘
’’وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج میں لڑنے کا جذبہ ختم ہو گیاتھا۔ یرموک اور دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے بہت سے سپاہی یہاں آگئے تھے۔ انہوں نے یہاں کی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جن سے سب کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوا۔ اطربون نے اپنی فوج کو تیار کر لیا تھا۔ اسے جب اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے قیساریہ کو محاصرے میں لے لیاہے تو وہ اپنی فوج کو ساتھ لے کر قیساریہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے نکلا لیکن آپ کے کسی سالار نے اسے راستے میں روک لیا۔ اس نے پہلی بار مسلمانوں سے ٹکر لی اور اپنی بہت سی فوج مروا کر بری حالت میں واپس آیا۔‘‘’’وہ جو اپنے ہارے ہوئے سالاروں کو بزدل کہتا تھا اور جس نے بیت المقدس کے دستوں کو لڑنے کیلئے تیار کیا وہ خود بزدل بن گیا اور ا س کا اپناحوصلہ جواب دے گیا۔ اس نے یہاں سے خزانہ نکالنا شروع کر دیا اور سمندر کے راستے قسطنطنیہ لے گیا۔ زیادہ تر فوج بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ یہ فوج برائے نام تھی جو میں نے قلعے کی دیوارپر کھڑی کر دی تھی۔ میں نے آپ کے ساتھ معاہدے کی شرط اس لئے پیش کی تھی کہ جو فیصلہ خلیفہ کر سکتے ہیں وہ سالار نہیں کر سکتے۔ میں اس شہر کو اس کے باشندوں کے جان و مال کو بچانا چاہتا تھا۔‘‘اسقف سفرینوس نے عمرؓ بن الخطاب کو یہ نہ بتایا کہ اطربون اور سفرینوس نے مل کر نہ صرف بیت المقدس سے خزانہ نکالا تھا بلکہ گرجوں کے سونے اور چاندی کے بیش قیمت ظروب بھی نکلوادیئے تھے۔ ان میں صلیبِ اعظم بھی تھی۔ سفرینوس نے امیرالمومنینؓ کو مدینہ سے اس لیے بلوایا تھا کہ وہ خزانہ ، ظروب رومی فوج اور ا س کا مال و اموال نکلوانے کیلئے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جتنے وقت میں امیرالمومنینؓ پہنچے تھے اتنے وقت میں بیت المقدس سے وہ سب کچھ نکل گیا تھا جو سفرینوس اور اطربون نکالنا چاہتے تھے۔اپریل ۶۳۷ ء )ربیع الاول ۱۶ھ( کے دن تھے جب خلیفۃالمسلمین عمرؓ بن الخطاب بیت المقدس میں دس دن قیام کرکے رخصت ہوئے۔ رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے تفصیل سے جائزہ لیا تھا کہ رومی کہاں کہاں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر رومی شکست کھاچکے تھے۔ ان کا شہنشاہ ہرقل شام سے رخصت ہو چکا تھا۔ رومی فوج کے نامی گرامی سالار مارے جا چکے تھے۔ کچھ اہم مقامات تھے جن پر ابھی رومیوں کا قبضہ تھا۔ وہاں سے رومیوں کو نکالنا ضروری تھا۔ایسے مقامات میں ایک کا نام قیساریہ تھا جو بحیرہ روم کی بندرگاہ تھی۔ یہاں سے رومیوں کو نکالنابہت ضروری تھا۔ کیونکہ رومیوں کا بحری بیڑہ ابھی بالکل صحیح حالت میں موجود تھا اور یہ بیڑہ بڑا طاقتور تھا اسے رومی مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ مسلمانوں نے سمندری لڑائی نہیں لڑنی تھی۔ البتہ یہ بیڑہ کمک لانے کیلئے استعمال ہوتاتھا۔کمک اتارنے کیلئے قیساریہ کی بندرگاہ استعمال ہوتی تھی۔امیرالمومنینؓکے حکم کے مطابق قیساریہ سے پہلے بیت المقدس کو محاصرے میں لیا گیاتھا۔ بیت المقدس لے لیا گیاتو امیرالمومنین عمرؓ نے یزیدؓ بن ابی سفیان کو حکم دیا کہ وہ قیساریہ کو محاصرے میں لے لیں۔’’ابن ابی سفیان! ‘‘عمرؓ نے کہا ۔’’ مت سوچنا کہ تو اس قلعے کو فوراً سر کر لے گا۔ بہت مضبوط قلعہ بندجگہ ہے۔ رومی یہ جگہ اتنی آسانی سے نہیں دیں گے۔ ہلے بول بول کر اپنی طاقت ضائع نہ کرتے رہنا۔ قیساریہ میں رومیوں کی تعداد زیادہ ہے، اور وہاں رسدکی بھی کمی نہیں۔ دشمن یہی خواہش کرے گا کہ تو اس کے قلعے کی دیواروں سے ٹکراتا رہے اور اتنا کمزور ہو جائے کہ تو محاصرہ اٹھا لے یا تجھے کمزور پاکر دشمن باہر آجائے اور تیرے دستوں پر ایسا حملہ کردے کہ تو پسپا بھی نہ ہو سکے۔‘‘
’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو ابو سفیان!‘‘ عمرؓنے کہا۔’’ رومیوں کو کمک مل گئی تو ہمارے لیے بہت مشکل پیدا ہو جائے گی۔ محاصرے کو طول دو اور کمک کو روکے رکھو۔‘‘عمرؓ بن الخطاب خلیفہ تھے۔ امیرالمومنینؓ تھے لیکن ان کا یہ دور بادشاہوں جیسا اور آج کل کے سربراہانِ مملکت جیسا نہیں تھا کہ گئے، کسی کو شاباشی دی، کسی کو انعام و اکرام سے نوازا اور آگئے۔ انہوں نے تمام تر علاقے کے احوال و کوائف معلوم کئے۔ انہیں جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا۔ اپنی فوج اور دشمن کے لشکر کی کیفیت کا جائزہ لیا اور اس کے مطابق احکام صادرکیے۔ ان کے مطابق سالار اپنے اپنے مقامات پر چلے گئے۔شام کے شمالی علاقوں میں رومی کہیں کہیں قلعہ بندتھے۔ انہیں امید تھی کہ ہرقل جہاں کہیں بھی ہے کمک ضرور بھیجے گا۔ مسلمان اس کوشش میں تھے کہ رومیوں کی کمک نہ آسکے۔ اس کوشش کی ایک کڑی یہ تھی کہ یزیدؓ اپنے دستوں کو لے کر قیساریہ روانہ ہو گئے اور اس شہر کو جو بندرگاہ بھی تھا محاصرے میں لے لیا۔سالار عمروؓ بن العاص اور شرجیل ؓبن حسنہ فلسطین اور اردن کو روانہ ہو گئے۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ جن علاقوں سے انہوں نے رومیوں کو بے دخل کیا تھا ان علاقوں پر قبضہ کرکے شہری انتظامیہ اور محصولات کے نظام کو بحال اور رواں کیاجائے اور ان جگہوں کے دفاع کوبھی مستحکم کیا جائے۔ رومیوں کی طرف سے جوابی حملے کا امکان موجود تھا۔سپہ سالار ابو عبیدہؓ دمشق کو اپنا مرکز بنانے کیلئے چلے گئے۔ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی نفری سترہ ہزار تھی۔قنسرین ایک قلعہ بندمقام تھا جس میں رومی فوج موجود تھی۔ ابو عبیدہؓ اس قلعے کو محاصرے میں لے کر وہاں سے رومیوں کو نکالنے جارہے تھے۔ یہ ایک مضبوط قلعہ تھا جس میں رومیوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ ابن الولیدؓ مجاہدین کی فوج کے ہراول میں تھے۔ ان کے ساتھ چار ہزار گھوڑ سواروں کا مخصوص رسالہ تھا جو گھوم پھر کر لڑنے کیلئے تیار کیا گیاتھا۔ قنسرین میں ایک مشہور رومی سالار منیاس تھا۔ا س نے دیکھ بھال کیلئے دور دور تک اپنے آدمی پھیلا رکھے تھے ان میں سے ایک آدمی سر پٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اور سیدھا منیاس کے پاس گیا۔ اس نے منیاس کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آرہا ہے جس کے ہراول میں گھوڑ سوار ہیں۔ اس نے تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان بتائی اور یہ بھی بتایا کہ ہراول کتنی دور ہے۔منیاس نے بڑی اجلت سے اپنی فوج کو تیار کیا۔ ’’سلطنتِ روما کی عظمت کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنی فوج کے حوصلے میں جان ڈالنے کیلئے جوشیلے انداز میں کہا۔’’ وہ بزدل تھے جنہوں نے اپنے اوپر عرب کے بتوں کا خوف طاری کر لیا تھا۔ تم میں عیسائی عرب بھی ہیں ۔اگر مسلمان اتنے بہادر ہیں تو تم بھی اتنے ہی بہادر ہو۔ عرب کے مسلمان تم میں سے ہیں۔ تم بھی اسی ریت کی پیداوار ہو اور رومیوں اس دن کو یاد کرو جب تم فاتح کی حیثیت سے اس سر زمین پر آئے تھے وہ تمہارے باپ اور داد ا تھے۔ تصور میں لاؤ کہ اس وقت ان کے سر کتنے اونچے اور سینے کتنے چوڑے تھے اور آج سوچو ان کی روحوں کو کتنی شرمساری ہو رہی ہوگی۔‘‘ ’’مت سوچو کہ شہنشاہ ہرقل بھاگ گیاہے۔ روم کی عظمت کو صلیبِ اعظم کو اور بیت المقدس کی آن کو اپنے سامنے رکھو۔ پھر سامنے رکھو اپنے سالار اطربون کی بے غیرتی کو، جس نے عیسیٰؑ کے شہر یسوع مسیح کے مسکن کو تمہارے مذہب اور تمہارے عقیدوں کے دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔ تصور میں لاؤ اپنی بیٹیوں اور اپنی عورتوں کو جو مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی ۔اپنے آپ کودیکھو تم ہار گئے تو باقی عمر کیلئے مسلمانوں کے غلام بن جاؤ گے۔ آج تم کس شان سے کیسے جاہ جلال سے گھوڑوں پر سوار ہوتے ہو، تم نے اگر ہتھیار ڈال دیئے تو تم گھوڑے کی سواری کو بھی ترسو گے۔ تم اصطبل کے ملازم ہو گے اور گھوڑوں کی غلاظت صاف کیا کرو گے۔‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔