پیر، 23 مارچ، 2015

0 comments
یہ لادینیت کہاں سے
تحریر: مدثرحسین 
مذہبی جماعتوں کی بے جا توتو میں میں اور فرقہ واریت سے تنگ آکر لوگوں نے مذہب سے راہ فرار اختیار کر نی شروع کردی ہے ان لوگوں نے لبرل کے نام پر اپنا ایک الگ فرقہ بنا رکھا ہے یہ لو گ نہ تو کسی مذہب کو مانتے ہیں اور نہ ہی خدا کے وجود کو الٹا اسلامی تعلیمات کا دل کھول کر مذاق اڑاتے ہیں مرنے کے بعد سزاوجزا کے یہ لوگ یکسر ہی منکر ہیں انکی نظر میں انسان مر کر ماس میں تحلیل ہوجاتا ہے اور جس وقت نظام کائنات کا خاتمہ ہوگا تو کائنات میں موجود ہر چیز ماس میں تبدیل ہو جا ئے گی پاکستان میں بڑی حد تک ایسے نظریات رکھنے والے افراد کا اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔جوعالم اسلام اور دنیا کیلئے بڑا خطرنا ک امر ہے ۔ کیونکہ انسان کسی بھی مذہب میں رہتے ہو ئے بالواسطہ یا بلاواسطہ شریعت کا پابند رہتا ہے اور ایک حد سے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا مگر سیکولر اور لبرل پارٹی کے لوگوں کے لیے یہی دنیا جنت اور جہنم ہے لا دینیت کا اقرار کرتے ہی یہ لوگ مذہب اور انسانیت کے بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں یہ لوگ دل کھول کر انسانیت سوز کام سر انجام دیتے ہیں معاشرے میں خو ب فحا شی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں کیوں کہ انھیں کسی کا ڈر تو ہو تا نہیں اور نہ انہیں کوئی روکنے والا ہوتا ہے اگر کوئی انھیں سمجھانے کی کوشش کر ے تو یہ لوگ اپنے لیکچر اور چکنی چیڑی باتوں سے انکو بھی اپنا گرویدہ کر لیتے ہیں اور دنیا کے تمام مذاہب با لخصوص اسلام کو دنیاکے امن کا سب سے بڑا خطرہ گردانتے ہیں ۔اسلام سے توان لوگوں کو خدا واسطے کا بیر ہے ۔یہ لوگ دنیا کو خدا اور خود کو پیغمبر کہتے ہیں انکی نظر میں دنیا اور آخرت سب کچھ سائنس ہی ہے انہی کے گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص ’’ڈارون‘‘نے کہا تھا کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔دنیا کا ظہور سمندر کے پاس پڑ ی ہوئی ایک کائی سے ہوا ۔اس کائی نے پہلے جمادات کی 
شکل اختیار کی پھر ان سے نباتات اگے جن سے رینگنے والے کیڑوں نے جنم لیا جووقت کے لحاظ سے بڑے جانوروں میں تبدیل ہوتے گئے 
اور انکی ایک نسل بندر ہوئی اور بندر سے آہستہ آہستہ انسانوں میں تبدیل ہونے لگی اسطرح دنیا کے پہلاانسان بنا مگر قرآن نے انسان کی تخلیق کھول کھول کر بیان کردی ہے جس میں کوئی بھی کسی قسم کا شک باقی نہیں رہا۔قرآن مجید کے علاوہ خدا نے انجیل مقدس میں بھی انسان کی تخلیق پرتفصیلی روشنی ڈالی ہے انجیل مقدس کے پہلے چند باب ہی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش تک ہیں ۔
پاکستان میں یہ لبرل پارٹی اور لادینیت ہمارے علماء کرام کی غفلت کا نتیجہ ہے ہمارے علمائے کرام خواب غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اور بجائے اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنے کے اپنے اپنے مسلک کی تعلیمات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں علماء کرام کی ایک دوسرے پر فتویٰ بازی سے لوگوں کے دماغ تذبذب کا شکا ر ہو جا تے ہیں اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس مکتبہ فکر کے علمائے کرام سچے اور کس کے کافر اور مشرک ہیں ایسے میں انکا لادینیت کی طرف مائل ہونا ایک فطری عمل ہے ۔مذہبی جماعتوں کی آپس میں بڑھتی ہوئی اس فرقہ واریت کا نقصان انکو یا انکے فرقوں کو تو نہیں مگر اسلام کو ضرور پہنچ رہا ہے ۔ کہیں اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے تو کہیں مسلمانوں کو زبردستی کافر اور مشرک بنایا جارہا ہے اور یہ سب کرنے والے اپنے ہی علماء کرام ہیں ۔پچھلے دنوں یہ خبر سننے میں آئی ہے کہ علماء کرام مسلم اتحاد کو اکٹھا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔کوئی بھی اسلام کے نام کے پر متحد ہونے کو تیار نہیں۔ہرکوئی اپنے اپنے مسلک کا دفاع اور پرچار کرنے میں لگا ہوا ہے۔سب مسلکوں کے اختلاف اپنی جگہ مگر اسلام کا دفاع سب مذہبی جماعتوں کا فرض ہے۔ یہ وقت اسلام کو ڈوبنے سے بچانے کا ہے نہ کہ فرقہ واریت اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کا۔بس بہت ہوچکے یہ مسلکی اور مذہبی اختلافات اگرہمارے علماء کرام اب بھی نہ سدھرے تو اقبال نے فرمایا تھا کہ
؂ اگر نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں
علماء کرام کو بس اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی محاذ پر ہونے والی فتح کسی ایک فرقے اور مسلک کی فتح نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی فتح ہے اور کسی بھی محاذ پر کسی فرقے کو کفار سے ہونے والی شکست کسی ایک مسلک یا فرقے کی شکست نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی شکست ہے۔

ہفتہ، 21 مارچ، 2015

0 comments
پیشہ ورانہ دیانتداری
------------
چور ایک گھر میں داخل ہوا۔ اس کی آہٹ سے گھر کی بوڑھی مالکن جاگ گئی ۔ اور پہچان گئی کہ یہ کوئی چور ہے۔ اس سے پہلے کہ چور پچھلے پیروں واپس مڑتا بڑھیا نے اسے بڑے پیار سے بلا یا اور کہا
" بیٹا مجھے لگتا ہے تو چوری کرنے پر مجبور ہے ما شاء اللہ شکل صورت سے کسی اچھے خاندان کا لگتا ہے اور شریف بھی ۔ سب سوئے ہوئے ہیں تو سامنے والی الماری کھول کے اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسے نکال لے ۔اللہ تیری مشکل آسان کرے۔ لیکن ادھر آ پہلے مجھے ایک بات بتا۔" بڑھیا نے اٹھ کے بیٹھتے ہو ئے اسے قریبی کرسی پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔
"میں نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھا ہے تو مجھے شکل سے سمجھدار لگتا ہے مجھے اس کی تعبیر بتا۔"
بڑھیا کے لہجے کی نرمی اور اپنی تعریف سے وہ ریجھ گیا اور بڑھیا کے پاس آ کے بیٹھ گیا ۔ بڑھیا نے اسے اپنا خواب سنانا شروع کیا ۔
" میں نے دیکھا ہےکہ ایک جنگل ہے اور اس میں ایک بڑا تالاب ہے وہاں مویشی چر رہے ہیں اچانک ایک فرشتہ نمودار ہوتا ہے اور زور زور سے پکارتا ہے ۔
امجد !
امجد !
امجد!" بڑھیا نے زور سے آواز لگائی
پھر بولی "بس بیٹا یہ آواز سن کے میری آنکھ کھل گئی ۔ "
بڑھیا نے ابھی بات ختم نہیں کی تھی کہ دوسرے کمرے سے امجد بھاگتا ہوا اندر آگیا اور آتے ہی چور کو پکڑ لیا اور اسے مارنا شروع کردیا۔
بڑھیا کو چور پر ترس آیا تو اس نے اپنے بیٹے امجد کو اسے چھوڑ دینے کا کہا لیکن اب چور چیخ رہا تھا
"مارو مجھے اور مارو کیوں کہ میں نے اپنے پیشے میں خیانت کی ہے ۔ مجھے نہیں بھولنا چاہیے تھا کہ میں چور ہوں خوابوں کی تعبیر بتانے والا نہیں۔"
0 comments

سیرت النبی صلى الله عليه وسلم کی ایک جھلک

Jan
31

رسولِ کائنات، فخرِ موجودات محمد عربی صلى الله عليه وسلم کو خالق ارض و سما رب العلیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہٴ کاملہ اور اسوئہ حسنہ بنایاہے اور آپ صلى الله عليه وسلم کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرة النبی صلى الله عليه وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے آپ صلى الله عليه وسلم کی ہر ادا کو آپ صلى الله عليه وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرة النبی صلى الله عليه وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرة النبی صلى الله عليه وسلم کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ سے متعلق افراد اور آپ صلى الله عليه وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔
اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلى الله عليه وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلى الله عليه وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلى الله عليه وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلى الله عليه وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلى الله عليه وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالت نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرة النبی کا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان واسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا ”اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ“ کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا ”آمنوا کما آمن الناس“ کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤ جیساکہ محمد کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
یہ سب اس لیے کہ سیرت النبی صلى الله عليه وسلم کا عکس جمیل تھے ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرة النبی صلى الله عليه وسلم کا نور جھلکتا تھا یہی سبب ہے کہ خود رسولِ کائنات صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ”اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم“ (ترمذی) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتداء ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤگے۔
چونکہ صحرا، جنگل میں سفر کرنے کے لیے سمت معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ نفوس قدسیہ شرک وکفر کے صحراء میں مینارئہ ایمان ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں سیرت النبی صلى الله عليه وسلم کے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے جو آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصر طور پر ہر اس پہلو کو ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کو عادتاً کم بیان کیاجاتا ہے۔
ولادت شریف اور حلیہ مبارکہ : ۹/یا ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل کو آپ نے شکمِ مادر سے تولد فرمایا۔ شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، آپ صلى الله عليه وسلم میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہٴ مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں بولتے تو نور نکلتا تھا سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک تھا صحابہ کا اتفاق ہے کہ آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ شاعرِ رسول صلى الله عليه وسلم ہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:
وأحسن منک لم ترقط عینی وأجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرّأً من کل عیب کأٴنک قد خلقت کما تشاء
آپ صلى الله عليه وسلم سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا آپ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے گویا آپ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ چیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ہر لفظ واضح بولتے جو مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے اور قدم پُرگوشت، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، پھر بھی ایسا رعب تھا کہ صحابہ کو گفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا آغاز: تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد رحمة للعالمین خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کی شکار تھی انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ہر طاقتور فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ ”یآ ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔
وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے قطع رحمی اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں کا سہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلیٰ نسب رسول کے فداکاروں نے ایمان وتوحید کی تاریخ مرتب کرڈالی عدل و نصاف کے لازوال نقوش چھوڑے، وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی، فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی جہانبانی وحکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے، عفت وپاکدامنی کاریکارڈ چھوڑ گئے، وفاداری، فداکاری کی انمٹ تحریر دیے، عظمت ورفعت کے ان بلندیوں پر پہنچے جہاں سے اونچا مقام صرف انبیاء ومرسلین کو نصیب ہوسکتا ہے ایسا انقلاب دنیا نے کب دیکھا تھا اور کہاں سنا تھا۔
صبرواستقامت : رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر آپ صبر واستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا راستوں میں کانٹے بچھائے جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔
یریدون لیطفوٴا نور اللّٰہ بافواہہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون. (القرآن)
کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام) کو اپنی پھنکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کا ناپسند کریں۔ خودرسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالاگیا۔ اسی طرح آپ کے صحابہ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے۔
ہجرتِ مبارکہ: جب مکہ کی سرزمین آپ صلى الله عليه وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا پہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا، ہجرت رسول کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہر مانوس و مرغوب شئے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے، جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے۔ بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن ان دونوں اوّل الذکر چیزوں (دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کے لیے ترک نہیں کیا جاسکتا (نبی رحمت) اور ہجرت رسول صلى الله عليه وسلم کا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اور دعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے۔
غزوات و سرایا : ہجرتِ رسول صلى الله عليه وسلم کے بعد ایک طرف آنحضور صلى الله عليه وسلم کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہومدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا مکہ میں مسلمان کمزور اور بے قوت و طاقت تھے اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین تھی مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسرایا کا سلسلہ شروع ہوا جو اہم غزوات پیش آئے یہ ہیں۔
(۱) غزوئہ بدر ۲ھ میں مومنین ومشرکین مکہ کے درمیان میدانِ بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا جس میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سپہ سالاری میں تین سو تیرہ مجاہدین نے مشرکین کے ایک ہزار ہتھیار بند لشکر کو ہزیمت سے دوچار کیا اور ابوجہل، شیبہ، عتبہ سمیت ستر (۷۰) سردارانِ قریش مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے اسی سے مسلمانوں کی دھاک قبائل عرب پر نقش ہوگئی۔
(۲) غزوئہ اُحد ۳ھ شوال میں یہ غزوہ ہوا مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے۔
(۳) غزوات ذات الرقاع ۴ھ میں پیش آیا اسی میں آپ نے صلوٰة الخوف ادا فرمائی۔
(۴) غزوئہ احزاب (خندق) ۵ھ میں ہوا مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔ آنحضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه کے مشورہ سے مدینہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی اسی لیے اس کو غزوئہ خندق بھی کہتے ہیں۔
(۵) غزوئہ بنی المصطلق ۶ھ میں ہوا اسی میں منافقین نے حضرت عائشہ رضي الله عنها پر تہمت لگائی تھی۔
(۶) صلحِ حدیبیہ ۶ھ میں ہوئی جب کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عمرہ کا ارادہ فرمایاتھا اور چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے تھے کہ مشرکین مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور وہیں صلح ہوئی کہ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں (پوری تفصیل کتابوں میں دیکھی جائے)
(۷) غزوئہ خیبر ۷ھ میں پیش آیا یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا اس سے قبل غزوئہ بنو نضیر اور غزوئہ بنوقریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔
(۹) غزوئہ تبوک ۹ھ میں پیش آیا ہرقل سے مقابلہ تھا دور کا سفر تھا شام جانا تھا گرمی کا زمانہ تھااس لیے خلاف عادت آپ نے اس غزوہ کا اعلان فرمایا چندہ کی اپیل کی صحابہ نے دل کھول کر چندہ دیا اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر آپ تبوک روانہ ہوئے، مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ مع صحابہ واپس بخیریت مدینہ تشریف لائے اس غزوہ میں بھی بہت سے اہم واقعات پیش آئے جن کی ایک ایک تفصیل سیر کی کتابوں میں درج ہے۔ ان غزوات کے علاوہ بہت سے سرایا صحابہ کرام کی سرکردگی میں مختلف مواقع پر روانہ فرمائے۔
کچھ اہم واقعات: ۲ھ میں ہجرت کے بعد سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ ہوا۔ ۲ھ میں روزہ فرض کیاگیا، ۴ھ میں شراب حرام ہوئی۔
فتح مکہ وغزوہٴ حنین : ۸ھ میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتحِ مکہ پیش آیا جس سے کلی طور پر اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا اور مشرکین کا سارا زور ٹوٹ گیا فتح مکہ کے بعد واپسی میں غزوئہ حنین پیش آیا جس میں پہلی بار مسلمان تعداد میں بارہ ہزار اور کفارِ طائف چارہزار تھے ورنہ ہر غزوہ میں مسلمان کم اور دشمن کی تعداد دوگنا، تین گنا ہوتی تھی۔
اشیاء الرسول اور ان کے اسماء: رسولِ خدا صلى الله عليه وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ اپنی چیزوں کا نام رکھ دیا کرتے تھے زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے ان میں سے بہت سی چیزوں کے نام شمار کرائے ہیں امام اہلِ سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی رحمة اللہ علیہ نے بھی ”سیرة نبویہ“ میں آپ صلى الله عليه وسلم کی اشیاء مبارکہ کے اسماء بیان کیے ہیں، نیز دوسرے سیرت نگار علماء نے بھی اس ضمن میں کام کیا ہے، انھیں کتب سیرت ومضامین سیرت سے مندرجہ ذیل اشیاء کے اسماء کا ذکر پیش کیا جارہا ہے۔
(۱) عمامہ شریف کا نام سحاب تھا۔
(۲) دوپیالے لکڑی اور پتھر کے تھے ایک کا نام ریان اور دوسرے کا نام مضیّب تھا۔
(۳) آبخورہ تھا جس کا نام صادِر تھا۔
(۴) خیمہ تھا جس کا نام رِکی تھا۔
(۵) آئینہ تھا جس کا نام مُدِلہ تھا۔
(۶) قینچی تھی جس کا نام جامع تھا۔
(۷) جوتی مبارکہ تھی جس کا نام ممشوق تھا۔
(۸) ایک زمانہ میں آپ کے پاس دس گھوڑے تھے ”سکب“ نامی گھوڑے پر آپ صلى الله عليه وسلم غزوہ اُحد میں سوار تھے ایک گھوڑے کا نام لزاز تھا، جس کو شاہ اسکندریہ مقوقش نے ہدیةً بھیجا تھا، باقی گھوڑوں کے نام یہ ہیں: ظرب، ورد، ضریس، ملاوح، سبحہ، بجر۔
(۹) تین خچر تھے ایک کا نام دُلدل تھا حبشہ کے بادشاہ نے بھیجا تھا آپ نبوت کے بعد اسی پر پہلے پہل سوار ہوئے آپ کے بعد حضرت علی رضي الله عنه اور حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما اس پر سوار ہوتے تھے ان کے بعد محمد بن حنفیہ کے پاس رہا، دوسرے خچر کا نام فِضّہ تھا جس کو صدیقِ اکبر رضي الله عنه نے ہدیہ کیا تھا۔ تیسرے کا نام اِیلیہ تھا شاہِ ایلہ نے ہدیہ بھیجا تھا۔
(۱۰) ایک گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا۔
(۱۱) سواری کی دو اونٹنیاں تھیں ایک کا نام قصواء اور دوسری کا نام عضباء تھا، ہجرت کے وقت آپ قصواء پر سوا رتھے اورحجة الوداع کا خطبہ بھی اسی پر سوار ہوکے دیا تھا۔
(۱۲) دوبکریاں خاص دودھ کے لیے تھیں ایک کا نام غوثہ اور دوسری کا نام یمن تھا۔
(۱۳) ایک سفید رنگ کا مرغ بھی تھا جس کا نام ”منقول“ تھا۔
(۱۴) کل نو تلواریں تھیں۔ ذوالفقار نام کی تلوار غزوئہ بدر کے مال غنیمت میں ملی تھی باقی تلواروں کے نام یہ تھے: قلعی، تبار، قسف، مجذم، رسوب، عضب، قضیب۔
(۱۵) چار نیزے تھے ایک کا نام ان میں سے ”شوے“ تھا اور بیضاء نام کا ایک بڑا حربہ تھا (جو نیزے سے چھوٹا ہوتاہے)۔
(۱۶) عرجون نام کی خمدار لاٹھی تھی، چار کمانیں تھیں ایک کا نام ”کتوم“ تھا۔
(۱۷) ترکش کا نام ”کافور“ اور ڈھال کا نام ”زلوق“ تھا۔
(۱۸) ایک خود تھا اس کا نام ”ذوالسبوع“ تھا۔
آنحضور صلى الله عليه وسلم کی ان اشیاء مبارکہ کے اسماء سے معلوم ہوا کہ چیزوں کا نام رکھنا سنت ہے۔ یوں تو متمول افراد شوق سے اپنے کتوں کے نام رکھتے ہیں اور یہ سنت کی پیروی میں نہیں بلکہ یورپ کی تقلید میں، ورنہ دوسری اشیاء کے نام بھی رکھتے بعض گھروں میں بکرا وغیرہ پالنے کا شوق ہوتا ہے اور ان کے نام بھی رکھ دئیے جاتے ہیں عموماً یہ بھی اتباع سنت کے بجائے شوقیہ ہوتے ہیں۔
آنحضور صلى الله عليه وسلم کے غلام اور ان کے نام: آنحضور صلى الله عليه وسلم کے پاس مختلف زمانوں میں کل ملاکر ستائیس غلام تھے آپ نے ان سب کو آزاد کردیا تھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی آپ کے مشنِ نبوت کا ایک حصہ تھی آخری وقت میں جب کہ مرض الوفات میں تھے غشی طاری ہوجاتی تھی جب افاقہ ہوتا تو زبانِ مبارک پر صرف دو جملہ ہوتا تھا ”الصلاة الصلاة، العبید العبید“۔
آپ کے غلاموں کے نام یہ تھے۔ زید بن حارثہ رضي الله عنه ان کو آپ نے اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا تھا اور زید بن محمد کہلاتے تھے پھر جب متبنّیٰ سے متعلق آیت نازل ہوئی، تو اپنے والد حارثہ کی طرف منسوب ہونے لگے۔
اسامہ بن زید، ثوبان، ابوکبشہ، انیسہ، شقران، رباح، یسار، ابورافع، ابومویہہ، فضالہ، رافع، مدعم، کرکرہ، زید جدہلال، عبید، طہمان، نابورقطبی، واقد، ہشام، ابوضمیر، ابوعسیب، ابوعبید، سقیہ، ابوہند، الحبشہ، ابوامامہ (رضی اللہ عنہم)
باندیاں: باندیوں کی تعداد دس تھی ان سب کو بھی آپ نے آزاد فرمادیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں:
سلمہ، ام رافع، رضویٰ، اُسیمہ، ام ضمیر، ماریہ، سیرین، ام ایمن میمونہ، خضرہ، خویلہ رضی اللہ عنہن۔ سیرین کو آپ نے حضرت حسان بن ثابت کو تحفہ میں دے دیا تھا (یا کسی اور صحابی کو عطا فرمادیا تھا)۔
خدام النبی صلى الله عليه وسلم : یوں تو فداکارانِ رسول میں سے ہر پروانہ شمع رسالت پر قربان ہونے کو ہردم تیار رہتا تھا اورکسی بھی ادنیٰ سی خدمت کی سعادت ملنے کو دنیا ومافیہا سے بڑی نعمت سمجھتا تھا، لیکن آپ دوسروں سے کام لینا پسند نہیں فرماتے تھے آپ کے اخلاق حسنہ میں سے تھا کہ اپنا کام خود کرتے تھے پھر بھی آپ کے ذاتی اور گھریلوں کاموں کو انجام دینے کے لیے کچھ خاص خدام تھے جن کی تعداد گیارہ تھی جن کے اسماء حسب ذیل ہیں:
حضرت انس بن مالک رضي الله عنه (دس برس تک خادم خاص تھے) ہند بنت حارثہ، اسماء بنت حارثہ، ربیعہ بن کعب، عبداللہ بن مسعود، عقبہ بن عامر، بلال بن رباح، سعد، ذومخمر (شاہ حبشہ کے بھتیجے) بکسر بن شداخ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم۔
شاہانِ ممالک کے لیے آنحضور صلى الله عليه وسلم کے سفراء: آنحضور صلى الله عليه وسلم نے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کے پیس دعوتی خطوط بھیجے تھے ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے فلاح یاب ہونے کی دعوت دی تھی جن حضرات صحابہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سفیرِ رسول مقبول صلى الله عليه وسلم کی حیثیت سے شہرت پائیں ان کے نام یہ ہیں:
(۱) عمروبن امیہ رضي الله عنه کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔
(۲) دحیہ کلبی رضي الله عنه کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا۔
(۳) عبداللہ بن حذافہ رضي الله عنه کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا
(۴) حاطب بن ابوبلتعہ رضي الله عنه کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا
(۵) عمرو بن العاص رضي الله عنه کو شاہ عمان کے پاس بھیجا
(۶) سلیط بن عمر رضي الله عنه کو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا
(۷) شجاع بن وہب رضي الله عنه کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا
(۸) مہاجربن امیہ رضي الله عنه کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا
(۹) علاء بن حضرمی کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا
(۱۰) ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو اہل ایمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا۔
کاتبین وحی رسالت: آنحضور صلى الله عليه وسلم امی تھے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، امی ہونا آپ صلى الله عليه وسلم کا خصوصی امتیاز ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی رسالت و نبوت کی ایک واضح دلیل ہے کہ ایک امی لقب رسول نے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب سرنگوں نظر آتے ہیں اور قیامت تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپ صلى الله عليه وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھیں تو آنحضور صلى الله عليه وسلم مختلف صحابہ کرام سے ان کی کتابت کرواتے تھے کاتبین وحی کے اسماء حسب ذیل ہیں، نیز انھیں میں سے خطوط وفرامین لکھنے والے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عامر بن فہیرہ، عبداللہ بن ارقم، اُبی بن کعب، ثابت بن قیس بن شماس، خالد بن سعید، حنظلہ بن ربیع، زید بن ثابت، معاویہ بن ابی سفیان، شرجیل بن خسنہ۔ رضی اللہ عنہم۔
جن کو خصوصیت حاصل تھی: حضرت زید بن حارثہ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے حددرجہ پیار فرماتے تھے، جب زید بن حارثہ کہیں سفر سے واپس آتے تو فرطِ شوق سے لپک کر گلے لگاتے تھے حضرت اسامہ بن زید کی کسی بات کو رد نہیں کرتے تھے یہ حب الرسول سے مشہور تھے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ان سے سفارش کراتے تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ فرمایا، سلمان منا اہل بیت کہ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔ حضرت بلال اور حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابوذرغفاری، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم محبوبین مخصوصین میں شمارہوتے تھے۔
ازواج مطہرات: وفات کے وقت آنحضور صلى الله عليه وسلم کے نکاح میں کل نو ازواج مطہرات تھیں، یہ بیویاں تھیں جن کے فضائل قرآن کریم میں آئے ہیں کہ تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، یٰنسآء النبی لستن کأحدٍ من النساء (سورہ احزاب) یہ حرم نبی ہیں ان کو دنیا کی تمام عورتوں میں خصوصی امتیاز و فضیلت حاصل ہے۔
(۱) حضرت سودہ بن زمعہ رضی اللہ عنہا ان سے قبلِ ہجرت نکاح فرمایا۔
(۲) حضرت عائشہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہا ان سے بھی ہجرت سے قبل نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ایک ہجری میں ہوئی۔
(۳) حضرت حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۳ھ میں نکاح فرمایا۔
(۴) حضرت ام سلمہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۴ھ میں نکاح فرمایا۔
(۵) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ان سے ۵ھ میں نکاح فرمایا یہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔
(۶) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا اور خلوت ۷ھ میں ہوئی۔
(۷) حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا۔
(۸) حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا ان سے ۷ ھ میں نکاح فرمایا۔
(۹) حضرت صفیہ بنت حی بنت اخطب رضی اللہ عنہا ان سے ۷ھ میں نکاح فرمایا یہ یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔
(۱۰) حضرت خدیجة الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ عنہا آپ نے سب سے پہلے انھیں کی خواہش و پیغام پر نکاح کیا تھا جب کہ آپ کی عمر شریف ۲۵سال تھی اور وہ بیوہ چالیس سال کی باعزت مالدار خاتون تھیں آپ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم عليه السلام کے انھیں کے بطن سے ہیں یہ ہجرت سے قبل وفات پاگئیں تھیں، آنحضور صلى الله عليه وسلم ان کی بہت قدر فرماتے تھے ہمیشہ یاد کرتے رہے۔
(۱۱) حضرت زینب بن خزیمہ رضی اللہ عنہا ان سے ۳ھ میں نکاح فرمایا مگر دو یا تین ماہ کے بعد یہ وفات پاگئیں۔
اولاد الرسول صلى الله عليه وسلم : آنحضور صلى الله عليه وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم بن محمد علیہ السلام کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح ابوالعاص سے ہوا تھا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان دونوں صاحبزادیوں کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا پہلے رقیہ رضي الله عنها سے، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم رضي الله عنها سے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ آنحضور صلى الله عليه وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے محبوب صاحبزادی تھیں، ان کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا تھا۔
انھیں صاحبزادی سے آپ صلى الله عليه وسلم کا سلسلہ نسب چلا ہے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما انھیں کے بطن سے ہیں اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سلسلہ کو جاری رکھنے والے ہیں۔
حضرت عبداللہ جن کا لقب طاہر اور طیب ہے اور حضرت قاسم یہ دونوں صاحبزادے بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں وفات پائے حضرت قاسم حمة الله عليه حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے یہ دو تین سال کے بعد وفات پائے۔
سیرة النبی صلى الله عليه وسلم کی یہ ایک جھلک ہے سیرة مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ صلى الله عليه وسلم کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا آپ جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپ شوہر بھی ہیں آپ باپ بھی ہیں، آپ خسر بھی ہیںآ پ داماد بھی ہیں، آپ تاجر بھی ہیں آپ قائد بھی ہیں۔ آپ سپہ سالار بھی ہیں آپ مظلوم بھی ہیں، آپ مہاجر بھی ہیں آپ نے زخم بھی کھائے آپ نے مشقت بھی جھیلی آپ نے بھوک بھی برداشت کی آپ نے بکریاں بھی چرائیں آپ نے سیادت بھی فرمائی۔ آپ نے معاملات بھی کیے، آپ نے لین دین بھی فرمایا، آپ نے قرض بھی لیا، آپ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپ کو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اپنی طاقت بھر اطاعت و عبادت کرسکتا ہے آپ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔
* * *
دارالعلوم ، شماره : 3 ، جلد : 92 ربیع الاوّل 1429ھ مطابق مارچ ۲۰۰۸ء

از: مفتی صہیب احمد قاسمی

پیر، 16 مارچ، 2015

0 comments

دربار شاہی لگا ہوا تھا۔ سلطان محمود غزنویؒ تشریف لائے۔ 
تمام وزراء اور امراء بھی حاضر خدمت ہیں بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ایک موتی تھا۔ اس نے وہ ہیرا وزیرِ دربار کو دکھا کر پوچھا: اس موتی کی قیمت کیا ہو گی؟ وزیر اچھی طرح دیکھ بھال کر عرض کی حضور نہایت قیمتی چیز ہے۔ غلام کی رائے میں ایک من سونے کے برابر اس کی مالیت ہو گی۔ 
سلطان نے کہا: بہت خوب، ہمارا اندازہ بھی یہی تھا۔ سلطان نے حکم دیا اسے توڑ ڈالو۔ وزیر نے حیرت سے ہاتھ باندھ کر کہا: حضور اس قیمتی موتی کو کیسے توڑ دوں میں تو آپ کے مال کا نگران اور خیر خواہ ہوں۔ 
سلطان نے کہا ہم آپ کی اس خیر خواہی سے خوش ہوئے۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سلطان نے وہ موتی نائب وزیر کو دیا اور اس کی قیمت دریافت کی۔ وزیر نے عرض کی حضور میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں۔ سلطان نے کہا اسے توڑ دو۔ وہ عرض کرنے لگا حضور ایسے بیش بہا موتی کو میں کیسے توڑ سکتا ہوں جس کا ثانی ملنا محال ہے اور جس کی چمک دمک ایسی کہ سورج کی روشنی مانند پڑ جائے۔ سلطان نے اس کی فہم و فراست کی تعریف فرمائی۔ پھر چند لمحوں کے بعد وہی موتی امیر الامرا کو دیا اور کہا اسے توڑ ڈالئیے۔ اس نے بھی عذر پیش کیا اور توڑنے اسے معزرت کی۔ بادشاہ نے سب کو انعام و اکرام دیا اور ان کی وفا شعاری اور اخلاص کی تعریف کی، بادشاہ جوں جوں درباریوں کی تعریف کر کے ان کا مرتبہ بڑھاتا گیا توں توں وہ ادنٰی درجے کے لوگ صراط مستقیم سے بھٹک کر اندھے کنوئیں میں گرتے گئے۔ وزیر دربار کی دیکھا دیکھی امیروں اور وزیروں نے ظاہر کیا کہ وہ دولت شاہی کے وفادار اور نگران ہیں۔ 
”آزمائیش اور امتحان کے لمحوں میں تقلید کرنے والا ذلیل و خوار ہوتا ہے۔“
سلطان نے تمام درباریوں اور خیر خواہان دولت کی آزمائش کر لی۔ آخر سلطان نے وہ موتی ایاز کو دیا اور فرمایا: اے نگہ باز! اب تیری باری ہے بتا اس موتی کی کیا قیمت ہو گی۔ ایاز نے عرض کیا اے آقا! میرے ہر قیاس سے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ سلطان نے کہا: اچھا ہمارا حکم ہے تو اسے توڑ دے۔ ایاز نے فوراً اس ہیرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ غلام آقا کے طریق امتحان سے آگاہ تھا۔ اس لئے اس دھوکہ میں نہ آیا۔ موتی کا ٹوٹنا تھا کہ سب درباری چلا اٹھے اور کہا ارے بیوقوف تیری یہ جرات کہ ایسا قیمتی اور نادر موتی توڑ ڈالا۔ ان کا واویلا سن کر ایاز نے کہا: اے صاحبو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ اس موتی کی قیمت زیادہ تھی یا حکم شاہی کی؟ تمھاری نگاہ میں سلطانی فرمان زیادہ وقعت رکھتا ہے یا حقیر موتی، تم نے ہیرے کو دیکھا اس کی قیمت اور چمک کو دیکھا مگر اس حکم دینے والے کو نہ دیکھا۔ وہ روح ناپاک اور بد حصلت ہے جو ایک حقیر پتھر کو نگاہ میں رکھے اور فرمان شاہی کو نظر انداز کر دے۔ جب ایاز نے یہ راز کھولا تو تو درباریوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ذلت و ندامت سے گردنیں جھک گئیں۔ سلطان نے کہا معمولی پتھر کے مقابلے میں تم میرا حکم توڑنا ضروری سمجھتے ہو۔ یہ کہہ کر شاہی جلاد کو سب کی گردنیں اڑانے کا حکم دے دیا۔ سب نافرمان تھر تھر کانپنے لگے۔ ایاز کو ان کی بے بسی پر رحم آیا بادشاہ سے کہا کہ ان کی نافرمانی کا سبب محض آپ کا کرم اور صفتِ عفو کی زیادتی ہے۔ بے شک یہ بازی ہار گئے مگر اتنا تو ہوا کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لئے انھیں معاف کر دیجئے۔ بادشاہ نے ایاز کی سفارش قبول کی اور سب کو معاف کر دیا۔ 
(حکایات رومیؒ)
جب انسان اللہ کے احکام کو بھول کر دولت و شہرت کے پیچھے بھاگتا ہے تو ذلت و خواری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایاز مزاج شاہی کا رمز شناس تھا اس نے ہیرے کی ظاہری چمک دمک سے آگے دیکھا اور حکمِ شاہی کو ہیرے پر ترجیح دی اس سبب سے وہ مقرب ٹھہرا۔ اسی لئے اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے تو دنیا و آخرت کی بھلائی ہمارے قدموں میں آ پڑے گی، اور اگر رو گردانی کی تو ذلت و خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ 
0 comments
موسیقی روح کی غذا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی پریشانیوں کا علاج کہاں؟
فتنوں کے اس دور میں کچھ باتیں ایسی خوبصورتی سے ہمارے اسلامی معاشرے میں سرایت کر گئیں کہ ان کے غلط ہونے کو غلط کہنے والے سے تعلق ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح مشہور جملہ ہے ”موسیقی روح کی غذا ہے“۔ کتنی خوبصورتی سے بھولے بھالے مسلمانوں کو اس جملے کا شکار بنا کر انھیں گناہ کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسی موسیقی جس سے انسانی جذبات میں ہیجان، شہوت، سیکس وغیرہ کے جذبات کو تقویت ملتی ہو اور انسان اس کو سن کر گناہ کی طرف راغب ہو جائے ایسی موسیقی کا اسلام میں سرے سے کوئی تصور موجود نہیں۔ ینگ جنریشن ایسے میوزک کو سن کر بڑی تیزی سے گناہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے کیونکہ جوانی میں شہوت کے جذبات پر شیطانی غلبہ بہت جلدی اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے اور وہ گناہوں کی دلدل میں گُھستے چلے جاتے ہیں۔
اگر یہ جملہ کہ ”موسیقی روح کی غذا ہے“ انسانی سوچ پر اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے تو انسان جب بھی بے قرار، بے سکون، ٹینس، پریشانی یا ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو پھر وہ اپنی پریشانی کو ختم کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے، پھر اچانک یہ جملہ اس کے ذہن میں گونجتا ہے کہ ”موسیقی روح کی غذا ہے“ اور اپنی پریشانی کو ختم کرنے کے لئے میوزک اون کر لیتا ہے جس میں ایک لڑکا ایک لڑکی سے متعلق اور ایک لڑکی ایک لڑکے سے متعلق ڈھکے چھپے الفاظ میں خوب شہوتی، اور جذبات کو سیکس کی طرف مائل کرنے والے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، پھر ہوتا کیا ہے وہ لڑکا یا لڑکی جو میوزک سنتا ہے اس کے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی اس شہوت کو پورا کرنے کے لئے غلط راستوں کا انتخاب شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح کئی بیٹیوں کی پاکدامنی اور عزت پامال ہو جاتی ہے، اور کئی نوجوان ”گرل فرینڈ“ جیسے گھناؤننے اور ناپاک رشتے بنا کر اپنے نفس کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنس کر اپنے رب کو بھول جاتے ہیں اور شیطان کے راستے پر چل کر اپنی آخرت برباد کر ڈالتے ہیں۔
دلوں کا سکون کہاں ہے؟ اور ہم کہاں تلاش کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے، دل گناہوں سے سیاہ ہو جاتے ہیں تو انسان کو کہیں سکون نہیں ملتا، وہ جتنا بھی دولت مند ہو، صاحبِ اولاد ہو لیکن دل گناہوں سے کبھی سکون نہیں پاتے۔ دلوں کا سکون کہاں ہے اور ہم کہاں تلاش کرتے ہیں؟ آئیے کتابِ رحمٰن کی روشن آیتوں کو دیکھتے ہیں: ارشاد باری تعالٰی ہے :
”(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔“
(سورۃ الرعد، آیات 28)
دیکھئے کتنی خوبصورتی سے خدا کی کتاب ہمیں دلوں کے سکون کا نسخہ بتاتی ہے۔ یعنی اگر رب کو یاد کرو گے تو تمھارے دلوں کو سکون اور آرام ملے گا، اور جب دل گناہوں کی سیاہی سے کالے ہو جائیں اور زنگ لگ جائیں تو پھر وہ زنگ خدا کی یاد سے دھلیں گے، ورنہ ساری زندگی بھٹکتے پھریں لیکن چین و سکون نصیب نہ ہو گا چاہے آپ کے پاس دولت کے انبار ہی کیوں نہ لگ جائیں۔
اللہ تعالٰی انسان کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور پھر اس کا علاج بھی اپنے بندوں کو بتاتا ہے کہ رنج و تکلیف آئے تو کیا کیا جائے: آیئے اس کا علاج اس کتاب سے دیکھیں جو مومنوں کے لئے شفاء ہے:
”اور رنج و تکلیف میں صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بے شک نماز گراں ہے، مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں۔“
(سورۃ البقرہ آیت 45)
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سیدھے راستے پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
0 comments
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے


ہر آه گئی عرش پہ یہ آه کی قسمت
ھر اشک پہ اک خلد ہے‎ ‎ہر اشک‎ ‎کی قیمت
تحفہ یہ ملا ہے مجھے سرکار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے

شکر خدا کی آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے

لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے
ہم کو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے

ماہ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر کی ہے

ان پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیت شجر کی ہے
ان پر درود جن کو کس بیکساں کہیں
ان پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ بارگاہ مالک جن و بشر کی ہے

شمس و قمر سلام کو حاضر ہی السلام
خوبی انہی کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام
تملیک انہی کے نام تو بحر و بر کی ہے
سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام
کلمے سے تر زبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السلام
ملجا یہ بارگاہ دعا و اثر کی ہے

شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام
راحت انہی کے قدموں میں شویدہ سر کی ہے
خستی جگر سلام کو حاضر ہیں السلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ جلو گاہ مالک ہر خشک و تر کی ہے
سب کروفر سلام کو حاضر ہیں السلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کروفر کی ہے
اہل نظر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ گرد ہی تو سرمہئ سب اہل نظر کی ہے

بھاتی نہیں ہمدم مجھے جنت کی جوانی
سنتا نہیں زاہد سے میں حوروں کی کہانی
الفت ہے مجھے سایہ دیوار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے

جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
دامن کا واسطہ مجھے اس دھوپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اس دوپہر کی ہے
ماں ، دونوں بھائی ، بیٹے ، بھتیجے ، عزیز ، دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے
جن جن مرادوں کے لئے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے

آ کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّتِ سوزِ جگر کی ہے
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی‎ ‎نظر میں یہ ادا کس سحر کی ہے
چھبتی ہوئی جگر میں یہ صدا کدھر کی ہے
ڈالیں ہری ہری ہیں‎ ‎تو بالیں بھری بھری
کشت امل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے

ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
ہم گرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وه
ہم پر نثار ہے یہ ارادت‎ ‎کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجده‎ء در سے‎ ‎چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو‎ ‎یہ تمنا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے‎ ‎شوق‎ ‎میں زمزم‎ ‎اور آنکھ سے
جھالے برس رہے‎ ‎ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے

برسا کہ‎ ‎جانے والوں‎ ‎پہ گوھر کروں‎ ‎نثار
ابر‎ ‎کرم‎ ‎سے عرض‎ ‎یہ میزاب‎ ‎زر کی ہے
آغوش‎ ‎شوق‎ ‎کھولے‎ ‎ھے جن کے‎ ‎لیے‎ ‎حطیم
وه پھر کے دیکھتے‎ ‎نہیں‎ ‎یہ دھن کدھر کی ھے
آیا ھے بلاوا مجھے دربار نبی سے

ہاں‎ ‎ہاں‎ ‎راه مدینہ ہے غافل‎ ‎ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے‎ ‎یہ جا چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ‎ ‎کہ ہر‎ ‎دم ہے جان‎ ‎نو
یہ راه‎ ‎جاں فزا‎ ‎میرے مولا کے در کی ہے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے

گھڑیاں گئی ہیں برسوں کی‎ ‎یہ شب گھڑی پھری
مرمرکے‎ ‎پھر یہ‎ ‎سل مرے‎ ‎سینے سے سر کی ہے
الله اکبر اپنے قدم اور‎ ‎یہ خاک پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وضیع‎ ‎سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے‎ ‎زائرو....!!
کرسی سے اونچی کرسی اس پاک در کی ہے

سعدین‎ ‎کا قرآن‎ ‎ہے پہلوۓ‎ ‎ماه میں
جھرمٹ‎ ‎کیے ہیں‎ ‎تارے تجلی‎ ‎قمر کی ہے
محبوب رب عرش ہے‎ ‎اس سبز قبہ میں
پہلو‎ ‎میں جلوه گاه‎ ‎عتیق و عمر کی ہے

چھاۓ ملائکہ‎ ‎ہیں لگا تار‎ ‎ہے‎ ‎درود..!!
بدلے ہیں پہرے‎ ‎بدلی میں‎ ‎بارش اودھر‎ ‎کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی‎ ‎زلف‎ ‎و آٹھوں پہر کی ہے
جو اک بار آۓ، دوباره نہ‎ ‎آئیں گے
رخصت ہی بارگاه‎ ‎سے بس‎ ‎اس قدر کی ہے

تڑپا کریں‎ ‎بدل کے‎ ‎پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم‎ ‎کب مجال‎ ‎پرندے‎ ‎کو پر کی ہے
اے واۓ بے کسی یہ تمنا‎ ‎کہ اب امید
دن کو شام‎ ‎کی ہے نہ‎ ‎شب کو سحر کی ہے

یہ بدلیاں نہ ہوں تو‎ ‎کروڑوں‎ ‎کی آس جاۓ
اور بارگاه‎ ‎مرحمت‎ ‎عام تر کی ہے
معصوموں‎ ‎کو ہے عمر‎ ‎ایک بار بار
عاصی پڑے‎ ‎رہیں تو‎ ‎صلا‎ ‎عمر بھر کی ہے
زنده رہیں تو‎ ‎حاضری‎ ‎اے بارگاه‎ ‎نصیب
مر جائیں تو حیات‎ ‎ابد عیش‎ ‎گھر کی ہے

کیوں باجدارو! خواب میں دیکھی کبھی‎ ‎یہ شے
جو آج جھولیوں میں گدایان‎ ‎در کی ہے
طیبہ‎ ‎میں مر کے‎ ‎ٹھنڈے‎ ‎چلے جاؤ‎ ‎آنکھیں بند
سیدھی‎ ‎سڑک یہ‎ ‎شہر‎ ‎شفاعت‎ ‎نگر کی ہے
عاصی بھی ہیں‎ ‎چہیتے‎ ‎یہ طیبہ ہے‎ ‎زاہدو...!
مکہ نہیں‎ ‎کہ جانچ جہاں‎ ‎خیر و شر کی ہے

کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار‎ ‎دلہنوں‎ ‎دولہا کے گھر کی ہے
کعبہ دلہن‎ ‎ہے تربت‎ ‎اطہر نئی‎ ‎دلہن
یہ رشک‎ ‎آفتاب‎ ‎وه غیر‎ ‎ست‎ ‎قمر کی ہے
دونوں بنی سجیلی‎ ‎انیلی بنی مگر
جو پی کے‎ ‎پاس ہے‎ ‎وه سہاگن‎ ‎کنور کی ہے

اتنا عجب‎ ‎بلندی‎ ‎جنت پہ کس لیے
دیکھا نہیں کہ‎ ‎بھیک یہ کس‎ ‎اونچے گھر کی‎ ‎ہے
عرش بریں‎ ‎پہ کیوں‎ ‎نہ ہو فردوس‎ ‎کا دماغ
اتری‎ ‎ہوئی‎ ‎شیبہ‎ ‎ترے بام‎ ‎و در کی ہے
وه خلد‎ ‎جس میں اترے گی‎ ‎ابرار‎ ‎کی برات
ادنی نچھاور‎ ‎اس مرے دولہا کے سر کی ہے

اف یہ بے حیائیاں‎ ‎کہ یہ منہ‎ ‎اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے‎ ‎تری خو‎ ‎درگذر کی ہے
تجھ سے‎ ‎چھپاؤں‎ ‎منہ تو‎ ‎کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی‎ ‎کسی سے توقع‎ ‎نظر کی ہے
جاؤں کہاں‎ ‎پکاروں کسے‎ ‎کس کا منہ تکوں
کیا پرستشوں‎ ‎اور جا بھی‎ ‎سگ بے ہنر کی ہے

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُ وْکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے


لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
مانگیں گے مانگیں جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ 'لا' ‎ہے‎ ‎نہ حاجت 'اگر‎'‎ کی ہے
منگتے کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول‎ ‎و عرض‎ ‎میں بس‎ ‎ہاتھ‎ ‎بھر کی ہے

جنت‎ ‎نہ دیں، نہ دیں، تری محبت ہو‎ ‎خیر سے
اس گل کے‎ ‎آگے‎ ‎کس کو ہوس‎ ‎برگ وبر کی ہے
شربت‎ ‎نہ دیں، نہ دیں، تو کرے‎ ‎بات‎ ‎لطف سے
یہ شہد‎ ‎ہو تو‎ ‎پھر کسے‎ ‎پروا شکر کی ہے

سنکی وه دیکھ‎ ‎باد شفاعت کی دے‎ ‎ھوا
یہ آبرو‎ ‎رضا‎ ‎ترے دامان‎ ‎تر کی ہے


اعلی حضرت‎ ‎امام‎ ‎احمد‎ ‎رضا خان بریلوی‎ ‎رحمة الله علیہ


یہ کلام کافی تاویل ہے میں کافی دنوں کی تلاش کے بعد یہ کلام اکٹھا کر سکا ہوں۔۔۔ اگر اس میں کوئی خامی یہ غلطی ره گئی تو اس کےلیۓ معزرت

_________________
صلی الله علیہ وآله وسلم
 
0 comments
برصغیرمیں اسلام کی آمد سے پہلے برصغیر مختلف مذہبوں کے رنگوں کا مجموعہ ہوا کرتا تھا۔ برصغیر میں تقریبا دنیا کا ہر مذہب تھا۔۔ یہاں عیسائیت بھی تھی بدھ مت مذہب بھی تھا جین مذہب بھی تھا ہندومت بھی تھی بلکہ اکثریت ہندوؤں کی تھی۔۔ ہندو یہاں بڑی تعداد میں بستے تھے دلی اور دوسرے چند شہروں ميں یہودی بھی آباد تھے۔ یہاں آگ کے پجاری زرتشتی بھی رہتے تھے جو آگ کی پوجا کرتے تھے۔۔ ایسے میں یہاں اسلام کا داخلہ سمندرمیں سوئی پھنکنے کے مترادف تھا۔۔ عرب کے تاجر یہاں آ کر لوگوں کو اسلام کی تعلیمات دیا کرتے مگر انہیں زنده نہ رہنے دیا جاتا۔۔۔
اسلام کی تبلیغ یہاں کسی بھی طرح ممکن نہ تھی مگر پھر یہاں اولیاء الله کو وه سلسلہ چل نکلا کہ انہوں نے بستیوں کی بستیاں مسلمان کر ڈالیں۔

اولیاء الله نے کتنی محنت سے ایک ایک ہندو کا مسلمان کیا تھا اس کا اندازه اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرتد یعنی اسلام سے خارج ھو جاتا ھو وه واجب قتل ہوتا ھے اور اس پر زمین تنگ کر دی جاتی ھے۔ یہی قانون ہندوں میں تھا اگر کوئی ہندو اپنا مذہب بدل لیتا تو اس کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں جاتیں یہاں تک کہ زنده جلا دیا جاتا یا اس کی کھال اتروا لی جاتی۔۔ کوئی ہندو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ مگر اولیاء برصغیر کے کونے کونے تک گے اور اپنی نگاه کیمیا سے بستیوں کی بستیاں مسلمان کر دیں۔۔۔ کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام جہاد سے پھیلا ۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ جہاد سے ایک مخصوص علاقہ تو مسلمان ہو سکتا تھا مگر پورا برصغیر نہیں۔۔ یہ سب اولیاء کی محنت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے بغیر کسی جنگ کے اسلام برصغیر کے کونے کونے تک پہنچایا۔۔ آپ برصغیر میں کسی بھی علاقے کسی بھی بستی چلے جائیں وہاں آپ کو اولیاء الله کے مزارات ضرور ملیں گے۔۔اولیاء اجودھن گے تو اجودھن پاک پتن بن گیا۔۔ لاھور گیۓ تولاھور والوں کی قسمت سنور گئی۔۔۔ دریاۓ چناب کے کنارے کو سلطان باھو کے رنگ نے رنگ دیا ۔ قصور کے بیابان جنگلوں میں گۓ تو جنگل انسانوں کے ہجوم سے آباد ہو گیا۔۔ غرض برصغیرکے کونے کونے تک اولیاء گۓ اور ہندوؤں کو مسلمان کرتے گۓ۔۔۔ اور آج ہم اولیاء کی اس محنت کو ایک دوسرے پر کفر کے فتوۓ ٹھونس ٹھونس کر برباد کر رھے ہیں ۔ اولیاءالله نے ہمیں مسلمان کیا اور ہم مسلمانوں کو کافر بنا رھے ہیں۔

مسلمانوں ڈرو اس وقت سے جب الله کا عذاب ہلاکو خان کی سرخ آندھی کی صورت میں تمہیں اس طرح تباه و برباد کر دے گا جیسے اس نے بغداد کو کیا تھا۔۔۔ وہاں کے لوگ بھی ہماری طرح کرنے لگے تھے۔۔۔ عیش و عشرت میں پڑ کر اسلام اور خدا سے دور ھو گۓ تھے وہاں ڈر سنانے والے بھی گۓ مگر وه راه راست پر نہ آۓ پھر وہاں الله پاک کا قہر ہلاکو خان کی صورت میں اترا اس نے وہاں ظلم و ستم کا وه بازار گرم کیا کہ تاریخ کے اوراق بھی کانپ اٹھتے ہیں۔۔۔ مسلمانوں ‌اگر تم وقت سے پہلے نہ سنبھلے تو تاریخ تم پر تا قیامت لعنت بھیجتی رہیں گی آنے والی نسلیں تم پر تھوکیں گی۔۔ تمہارے پاس سواۓ افسوس کرنے کے کچھ نہیں رھے گا ۔۔۔۔ مفاد پرست ملاؤں کی باتوں میں آ کر فرقہ ورایت مت پھیلاؤ بلکہ الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ پھیلاؤ۔۔۔۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے ورنہ تمیں خود پر افسوس کرنے کا بھی موقع نہیں ملے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : ایکسٹو
0 comments
وطن سے محبت
تحریر۔: ایکسٹو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے. جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، اپنی زندگی کے رات اور دن بتاتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، جہاں اسکے دوستوں، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلی ، وہاں کے درو دیوار، وہاں کے پہاڑ، گھاٹیاں، چٹان، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں.

جو حضرات روز گار کے حصول کیلۓ تارک وطن ہیں‎ ‎ان کو صحیح تجربہ ہوگا،کسی کو اگر اپنے ملک کے کسی کونے میں کمانے کے لیے جانا ہوتا ہے تو اس کا اتنا دل نہیں پھٹتا جتنا ایک تارك وطن کا پھٹتا ہے جب وه بیرون ملک جا رہا ہوتا ہے کیوں؟
وجہ صرف یہی ہے کہ وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں داخل ہے ،اِسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں ۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ سنئیے یہ الفاظ

”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے … کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں …. اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا. “)ترمذی)

یہ الفاظ نکلے ہوئے ہیں اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے ….جنہیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور اس وقت نکلے تھے جبکہ انہیں نکالا جا رہا تھا اپنے وطن سے. محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نہ نکلتے اگرانہیں نکالا نہ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیتیں جھيلیں پر اپنے وطن میں رہنے کوترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تومرتے کیا نہ کرتے، نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان پرمذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپورمحبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اورمدینہ کی آب وہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:

”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسے مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ. “)بخاری، مسلم)

اسلام نے ملک کے امن وامان کو غارت کرنے والوں کے ليے سخت سے سخت سزا سنائی ہے، صرف اس ليے کہ کسی کو ملک میں دہشت پھیلانے کی جرأت نہ ہو، قرآن نے کہا :

"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد مچاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے، یا ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے یا ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاوں کاٹ دیا جائے، یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے". )المائدہ 33(

اسلام ہر اس کام کا حکم دیتا ہے جس سے ریاست کے لوگوں کے درمیان تعلق مضبوط رہے. اسلام نے وطن سے محبت کے تحت ہی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے. اسے بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے اورقطع رحمی کوفساد کا موجب بتایا ہے، تعلق قائم کرنے کی حد اس قدر وسیع ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" تم میں کا ایک شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے ليے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" ) بخارى و مسلم(

بلکہ اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے بھید بھاؤ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا شخص وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ “جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.

بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بهى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :

" اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے" ) صحيح الجامع 1424 (
دہشت گرد عوام کو فوج سے بدظن کرنے کی پوری کوشش میں لگے ہیں۔ مگر مت بھولیۓ کہ یہ ارض پاک ہمیں لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد میسر آئی ہے۔۔ اس‎ ‎ارض حسین کیلۓ ہماری نوجوان بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئیں۔۔ اس ارض حسین کیلۓ‎ ‎ہمارے معصوم بچے خون سے نہاۓ اس ارض حسین کیلۓ ھماری بھائی بے جگری سے لڑتے ہوۓ کٹ کر مرے۔۔ اس ارض حسین کیلۓ‎ ‎ہماری قوم کے بوڑھوں کی داڑھیاں خون سے تر ہوئیں۔۔۔ اور آج دہشت گرد پاکستانیوں کو وطن پرستی کا طعنہ دے کرغیر ملکیوں کے اشاروں پر یہ ارض حسین ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ 
پاکستانیوں ان دہشت گردوں کا بتلا دو یہ ارض حسین کل بھی ھماری تھی اور آج بھی ھماری ہے اور تا قیامت ھماری رہے گی۔۔ اس ارض حسین پر محمد صلی الله علیہ وسلم کی شفقت کا چھایا‎ ‎ہے۔۔ یہ ارض حسین دنیا کی واحد سرزمین ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آئی۔۔ اس کو بنانے والے الله کے دوست تھے‎ ‎اس کی حفاظت‎ ‎کرنے والا خود خدا ہے۔‎ ‎اسکی حفاظت کی دعائیں کرنے والے الله کے ولی ہیں یہ اولیاءالله کی سرزمین ہے۔۔‎ ‎دنیا کی کوئی طاقت اس ارض حسین کو نہیں مٹا پائی اور نہ مٹا سکے گی۔۔
دولت کے پجاری حکمرانوں تم جس قدر مرضی اس ارض حسین‎ ‎کو لوٹ لو الله کے فضل اس ارض حسین کے خزانے ختم نہیں ہوں گے۔ یہ پاک سر زمین ہمیشہ سونا اگلتی رہے گی۔‎ ‎اور الله پاک کے فضل وکرم سے ہمیشہ قائم ودائم رہے گی۔۔۔۔ انشاءالله
پاکستان زنده۔۔۔ پاکستان پائنده باد
0 comments
انگریز کے دو بڑے فیصلے
تحریر : ایکسٹو
جب انگریز برصغیر پر قابض ہوگۓ۔‎ ‎توانہیں یہ بھی یقین تھا کہ آج ہم یہاں قابض ہیں اور ہمیں کل یہاں سے واپس بھی جانا پڑے گا۔۔ اس لیے انہوں نے برصغیر کی عوام کو ذہنی طور پر اپنا غلام کرنے کیلۓ؎‏ دو بڑے فیصلے کیۓ۔
ان کا پہلا فیصلہ مسلمانوں کو ان کی دو بڑی ادبی اور مذہبی زبانیں (عربی،اور فارسی‎ (‎کا خاتمہ کرنے کا تھا۔ تاکہ مسلمان اپنے ادبی اور مذہبی ورثے سے ہمیشہ کیلۓ مرحوم ہو کر اپنی تاریخ اپنا وقار اور وه عزت بھول جائیں جو اسلام نے انہیں بخشی تھی۔ مسلمان ہمیشہ انگریز کا غلام‎ ‎اور محتاج رہیں۔
انگریزوں کا دوسرا بڑا فیصلہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا تھا۔۔ انہوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد مسلم اتحاد کا تفصیلی جائزه لیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے آپس میں متحد ہونے‎ ‎کے علاوه بھی زبان رنگ نسل تہذیب کے لحاظ سے آپس میں چھوٹے چھوٹے اختلافات‎ ‎ہیں۔ ان اختلافات میں اگر چنگاری ڈال دی جاۓ تو وه سلگ کر مسلمانوں کا اتحاد پاره پاره کر دی گی۔ اور مسلمان ہم سے لڑنے کی بجاۓ آپس میں ہی لڑتے رہیں‎ ‎گے۔۔۔ اور پھر مسلمانوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام اور محتاج کرنا مشکل کام نہ ہوگا۔۔‎ ‎کیونکہ انگریز کو برصغیر سے میں سب سے زیاده خطره مسلمان سے تھا۔
انگریز نے اپنے شیطانی منصوبے سے مسلم اتحاد پاره پاره کر دیا ان سے ان کا ادبی ورثا چھین لیا گیا اور ان کے درمیان رنگ نسل تہذیب اور فرقہ واریت کی ایسی چنگاریاں ڈال دیں جس کی آگ میں مسلمان آج بھی جل رھے ہیں۔ کہیں فرقہ واریت کی آگ ہے تو کہیں وطنیت کا نظریہ۔ کہیں زبان کا اختلاف ہے تو کہیں تہذیب کا۔۔ مسلمان‎ ‎بنگلہ دیش کا ھو یا انڈیا اور پاکستان کا۔ سب میں یکساں انگریز‎ ‎کی ڈالی ھوئی چنگاری پوری طرح شعلہ بن ھر طرف پھیل رھی ہے۔ اور مسلمانون نے آپس میں قتل گیری کا وه‎ ‎بازار گرم کر رکھا کہ تاریخ انگشت بندان ہے۔ان‎ ‎بھڑکتے‏ شعلوں کو ٹھنڈا کرنے والے کم‎ ‎اور ھوا دینے والے زیاده لوگ ہیں

_________________
صلی الله علیہ وآله وسلم
 
0 comments
انگریز کے دو بڑے فیصلے
تحریر : ایکسٹو
جب انگریز برصغیر پر قابض ہوگۓ۔‎ ‎توانہیں یہ بھی یقین تھا کہ آج ہم یہاں قابض ہیں اور ہمیں کل یہاں سے واپس بھی جانا پڑے گا۔۔ اس لیے انہوں نے برصغیر کی عوام کو ذہنی طور پر اپنا غلام کرنے کیلۓ؎‏ دو بڑے فیصلے کیۓ۔
ان کا پہلا فیصلہ مسلمانوں کو ان کی دو بڑی ادبی اور مذہبی زبانیں (عربی،اور فارسی‎ (‎کا خاتمہ کرنے کا تھا۔ تاکہ مسلمان اپنے ادبی اور مذہبی ورثے سے ہمیشہ کیلۓ مرحوم ہو کر اپنی تاریخ اپنا وقار اور وه عزت بھول جائیں جو اسلام نے انہیں بخشی تھی۔ مسلمان ہمیشہ انگریز کا غلام‎ ‎اور محتاج رہیں۔
انگریزوں کا دوسرا بڑا فیصلہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا تھا۔۔ انہوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد مسلم اتحاد کا تفصیلی جائزه لیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے آپس میں متحد ہونے‎ ‎کے علاوه بھی زبان رنگ نسل تہذیب کے لحاظ سے آپس میں چھوٹے چھوٹے اختلافات‎ ‎ہیں۔ ان اختلافات میں اگر چنگاری ڈال دی جاۓ تو وه سلگ کر مسلمانوں کا اتحاد پاره پاره کر دی گی۔ اور مسلمان ہم سے لڑنے کی بجاۓ آپس میں ہی لڑتے رہیں‎ ‎گے۔۔۔ اور پھر مسلمانوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام اور محتاج کرنا مشکل کام نہ ہوگا۔۔‎ ‎کیونکہ انگریز کو برصغیر سے میں سب سے زیاده خطره مسلمان سے تھا۔
انگریز نے اپنے شیطانی منصوبے سے مسلم اتحاد پاره پاره کر دیا ان سے ان کا ادبی ورثا چھین لیا گیا اور ان کے درمیان رنگ نسل تہذیب اور فرقہ واریت کی ایسی چنگاریاں ڈال دیں جس کی آگ میں مسلمان آج بھی جل رھے ہیں۔ کہیں فرقہ واریت کی آگ ہے تو کہیں وطنیت کا نظریہ۔ کہیں زبان کا اختلاف ہے تو کہیں تہذیب کا۔۔ مسلمان‎ ‎بنگلہ دیش کا ھو یا انڈیا اور پاکستان کا۔ سب میں یکساں انگریز‎ ‎کی ڈالی ھوئی چنگاری پوری طرح شعلہ بن ھر طرف پھیل رھی ہے۔ اور مسلمانون نے آپس میں قتل گیری کا وه‎ ‎بازار گرم کر رکھا کہ تاریخ انگشت بندان ہے۔ان‎ ‎بھڑکتے‏ شعلوں کو ٹھنڈا کرنے والے کم‎ ‎اور ھوا دینے والے زیاده لوگ ہیں

_________________
صلی الله علیہ وآله وسلم
 
0 comments
معاشرے کی اصلاح کیسے ہو گی...؟
تحریر ~ ایکسٹو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم اپنے معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنے پڑے گی پہلے اپنے دل فرقہ واریت کی آگ سے صاف کرنے ہوں گے پہلے اپنے دلوں کی نفرتوں کو محبتوں میں بدلنا ہو گا پھر ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کرنے کا قابل ہوں گے۔‎ ‎ہم سے اپنی اصلاح تو ہوتی نہیں ہم دوسروں کی اصلاح کرنے نکل کھڑے ہوتے‎ ‎ہیں۔ دلوں میں ‏بغض‎ ‎لے کر دوسروں کو سمجھاتے ہیں‎ ‎اگر وه نہ سمجھیں تو ان پر کفر کے فتوے ٹھونس دیتے ہیں۔ جس دل پر بغض و عداوت کا قفل پڑ جاۓ اس دل سے کبھی اچھائی کی امید نہیں کی جا سکتی وه دل ہمیں خانہ جنگی اور قتل و غارت گری کی طرف‎ ‎مائل کرتا ہے۔
آقا کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
''آدمی کے وجود میں گوشت کا ایک‎ ‎ٹکڑا ہے اگر وه صیح تو پورا جسم درست اگر وه خراب ہو جاۓ تو پورا وجود خراب ہو جاتا ہے۔‎ ‎خبردار وه دل ہے۔
)صیح مسلم کتاب المساقات(
دل کی اصلاح کیسے ہو گی‎ ‎تو ارشاد باری تعالی ہے ''خبردار دلوں کا سکون خدا کے ذکر میں ہے۔
اگر‎ ‎ھم نے اپنے معاشرے کی اصلاح‎ ‎کرنی ہے تو پہلے اپنے اوراپنے‎ ‎دلوں کی اصلاح کرنی ہے دل کی اصلاح صرف ذکر الہی سے ہی ہو سکتی ہے۔‎ ‎جب‎ ‎دلوں کی اصلاح ہو گی تو‎ ‎ھمارے نفس کی اصلاح خود بخود ہو جاۓ گی اگر ھمارے نفس کی اصلاح ہو گی تو معاشرے کی اصلاح کرنا بہت آسان کام ہو جاۓ گا۔ جیسے اولیاء الله کرتے تھے وه تو غیر مسلموں کو بھی کلمہ پڑھا دیتے تھے کیونکہ ان کے دل اور نفس‎ ‎کی اصلاح ہو چکی ہوتی تھی ان کے دل خدا کے ذکر سے غافل نہیں رہتے تھے۔
آج ھمارے دل خدا کے ذکر سے غافل ہوۓ تو اس پر‎ ‎شیطان نے ڈیرے ڈال لیۓ ھمارے دل سیاه سے سیاه ھوتے گۓ مگر ھم نے کھبی اپنے دلوں کی سیاہی پر توجہ نہ دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ھمارے دل فساد قتل و غارت گیری اور خانہ جنگی کی جنانب راغب ہو گۓ۔ دلوں کے اس بغض کی آگ اس قدر بڑھی کہ ھم ایک دھکتا ہوا شعلہ بن گۓ اب جس کا دل چاہے وه جدھر مرضی ان شعلوں کوفساد کی ہوا دے کردھکیل دے خواه وه نسلی فسادات ہوں یا فرقہ وارنہ فسادات‎ ‎۔ اور ھم بغیر سوجھ بوجھ کے دشمن کی باتوں پر یقین کر کے اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔
جس دل پہ قفل لگ جاۓ یا جس دل پر الله سبحانہ وتعالی مہر لگادیں وه دل کبھی بھی فساد سے باز نہیں آ سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب ارشاد فرمایا۔ 
''دل مرده‎ ‎دل نہیں ہے اسے زنده کر دوباره
کہ یہی امتوں کے مرض کہن‎ ‎کا چاره
اگر تو آپ‎ ‎کو امت مسلمہ اور اپنے ملک و قوم کی فکر ہے اور آپ ان کی اصلاح چاہتے ہو تو آپ کو اپنے دلوں اور اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہو گی شریعت محمدیہ صلی الله علیہ وسلم کے پابند ہو جاؤ دلوں کا خدا کے ذکر سے غافل مت کرو۔ ہمیشہ یہ تصور کرو کہ میرا دل خدا کا گھر ہے میں نے اس کو صاف ستھرا رکھنا ہے اگر دل کو صاف کرو گے تو اس پر پڑی ہوئی ظلمت کی گرد چھٹ جاۓ گی اگر نہ کرو گے تو خدا تعالی تمہارے دلوں پر ظلمت کی مہر لگا دیں پھر نہ تو تمہارا ٹھکانہ دنیا‎ ‎میں ممکن ہو گا اور نہ آخرت میں تم دنیا‎ ‎میں بھی ذلیل و خوار ہو گے اور آخرت میں بھی ۔‎ ‎جس کی زنده مثال آج طالبان کی صورت میں ہے۔ دنیا والے ان پر لعنت بھیجتے‎ ‎ہیں کیونکہ ان پر الله تعالی کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اور ان کے دلوں پر ظلمت کی مہر لگ چکی ہے یہ سواۓ فساد کے اور کچھ نہیں سوچتے الله نے ان پر اپنی زمین بھی تنگ کر دی یہ ہر طرف سے ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔
اگر آپ نے ان طالبان جیسا بننا ہے تو تمیں اپنے دل صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر تم الله کے مجاہد بننا چاہتے ہو اور اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہو تو اپنے‎ ‎دلوں کو ذکر الہی سے صاف کر‎ ‎لو۔ جس قوم کو بیگڑنے میں جتنی دیر‎ ‎اس سے کہیں زیاده اس کی اصلاح کرنے میں لگتی ہے اسی طرح جتنی دیر ھمارے دلوں کو خدا کے ذکر سے غافل رہنے میں لگی اس سے کہیں زیاده دیر ان کو ذکر الہی سے آباد کرنے میں لگ سکتی ہے۔
الله ھم سب پر رحم کرے اور ھمارے قلوب اپنے ذکر سے روشن و منور کر دے۔‎ ‎آمین ثم آمین

_________________
صلی الله علیہ وآله وسلم