حضرت اسماعیل علیہ السلام اور علّامہ اِقبال


حضرت اسماعیل علیہ السلام اور علّامہ اِقبال
ایکسٹو
اسلام کی اساس رسالت پر ہے - رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضرت محمدﷺ تک چلا جاتا ہے - تمام انبیاءعلیھم السلام اسلام کے ہی مبلغ تھے - قرآن حکیم میں انبیاءکرام علیھم السلام کا تسلسل سے تذکرہ سلاسل نبوت کی حقانیت اور ان کے دین اسلام کی توثیق و تائید کے لیے ہی دیا گیا ہے - اقبال بھی نبوت کے اس ادارے کی حقانیت کو اپنے اشعار کے ذریعے دینِ اسلام کی دلالت کے لیے لاتے ہیں - اقبال اپنے کلام میں حضرت آدم علیہ السلام سے جناب رسالت مآب ﷺ تک متعدد انبیاءکرام کی خصوصیات کے بیان سے تمثیلی ، اشاراتی اور استعاراتی دلائل و براہین لا کر اپنے تفکر اور نظریات کو بیان کرتے ہیں - ان انبیاءکرام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی نمایاں ہیں جن کا ذکر اقبال نے اپنے کلام میں کیا - ذیل میں ان کی حیات اور ان صفات کا بیان ہے جن سے اقبال نے تحریک پائی اور لازوال شعر کہے- اقبال حضرت اسماعیل کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:سِرّ ابراہیم و اسماعیل بود یعنی آں اجمال را تفصیل بود(۱)(ترجمہ:حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل کے (رازِ قربانی کے)مظہر حضرت امام حسین ؑ تھے یعنی اس اجمالی واقعہ کی تفصیل امام موصوف (کی کرب و بلا) میں موجود تھے)حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے - آپ کی پیدائش سے قبل کے حالات یوں بیان کئے گئے ہیں - مفسرین و مو¿رخین کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوہ سارہ رضی اللہ عنہا کنیز حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور خدماءو سامان کے ساتھ جب فلسطین جاکر آباد ہوئے تو اُس وقت بہت آسودہ حال تھے لیکن بے اولاد (۲)وہاں آپ ایک ”خانہ ذادالیعر ذد“ دمشقی کے گھر مقیم ہوگئے-(۳)آپ کی بیوی سارہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ تھیں ان سے اولاد کی اُمیدنہ تھی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد کے شدت سے خواہش مند تھے - حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو جب آپ کی خواہش کا علم ہوا تو ایک روز آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اولاد کیلئے باوفا ، تابع، امین ، نوعمر اور حسین و جمیل (۴) کنیز حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرلیں تاکہ تنہائی و وحشت کا خاتمہ ہو جائے اور اولادِ نرینہ کی تمنا بھی پوری ہوجائے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ تجویز پسند آئی اور آپ نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر کے اولاد کے لیے دعا کی (۵)دُعا قبول ہوئی اور حضرت ہاجرہ حاملہ ہوگئیں جب حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو بتقضائے انسانیت حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاسے رشک کرنے لگیں اور انہیں تنگ کرنا شروع کردیا اور قسم کھائی کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاکے تین اعضاءکاٹ دیں گی- بعض کتب میں ہے حمل ٹھہرنے کی وجہ سے حضرت ہاجرہ ؓحضرت سارہؓ کی صحیح طرح سے خدمت نہ کرسکیں جس وجہ سے حضرت سارہ رضی اللہ عنہانے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاکو تنگ کرنا شروع کردیا اور تین اعضاءکاٹنے کی قسم کھائی(۶)مجبوراً حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاآپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئیں- تورات کے مطابق اللہ کے فرشتے نے آپ کو واپس جانے اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی اطاعت کا حکم دیا اور ساتھ ہی بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری دی (۷) حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاواپس آگئیں تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہاسے کہا کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاسے دل صاف کریں اور ان کے کانوں اور ناک میں سوراخ کردیں (۸) اور اندام نہانی کا کچھ حصہ کاٹ دیں لہٰذا آپ نے ایسا ہی کیا اور قسم پوری کردی- حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہانے کانوں میں بالے ڈال لیے جس کے سبب وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دینے لگیں اور تب سے یہ عمل خواتین میں جاری ہوگیا- (۹)وقت مقررہ پر حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت لوط کے محل کے قریب پیدا ہوئے(۰۱)آپ کی پیدائش پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی درازی ¿ عمر کی دعا مانگی تو تورات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ وہ اُسے اسماعیل کو برکت دے گا - اُسے آبرومند کرے گا اور اس کی نسل کو بڑھائے گا جس میں سے بارہ سردار ہوں گے-(۱۱)تورات کی معلومات کے برعکس قرآن پاک میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کا کوئی واضح بیان نہیں ملتا - اس سلسلے میں جتنی بھی تفصیلات ملتی ہیں انحصار، تورات کے بیان کردہ واقعات ہیں یا پھر تاریخی روایت وغیرہ اکثر مو¿رخین نے آپ کی پیدائش کے بارے میں تفصیلات انہی ذرائع سے حاصل کی ہیں البتہ قرآن مجید آپ کا تعارف ایک سچے اور وعدے کے پکے نبی کی حیثیت سے کرواتا ہے-﴾واذکر فی الکتب اسمٰعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا﴿ (۲۱)ترجمہ: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بے شک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا-حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تو بکثرت آیا ہے لیکن مستقل طور پر آپ کا تذکرہ سورة البقرہ، الانعام ، النساء، ابراہیم ، الصافات، مریم اور سورة الانبیاءمیں ملتا ہے -اسماعیل کا عبرانی مترادف شما ایل یا اسمو¿ عیل ہے جو بعد میں کثرت استعمال سے اسماعیل ہوگیا شماع کا مطلب سننا اور ایل کا مطلب اللہ ہے یعنی اللہ کا سننا - عربی زبان میں اسماعیل کا مطلب مطیع اللہ ہے یعنی اللہ کی اطاعت کرنے والا (۳۱) چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا سن لی تھی اس لیے آپ کا یہ نام ہوا (۴۱) جو الیقی کا قول ہے یہ نام آخر میں ن کے ساتھ (اسماعین)بھی بولا جاتا ہے (۵۱) حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۴۶ (۶۱) یا ۶۸ (۷۱) یا ۶۹ یا ۰۶۱ سال تھی (۸۱) حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو سخت تکلیف ہوئی انہوں نے اپنے درد کا درماں اس میں پایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے ماں اور بچے کو اپنی نگاہوں سے دور بھیج دیں (۹۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ اصرار پسند نہ آیا - لیکن اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت سارہ کی خواہش کے مطابق عمل کرنے کا حکم ہوا - حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سرزمین مکہ میں وادی اُم القریٰ میں چھوڑ آئیں (۰۲) اس کا تفصیلی ذکر تورات میں بھی ہے (۱۲) تورات کی یہ روایت بتاتی ہے کہ اُس وقت حضرت اسحاق علیہ السلام بھی پیداہوچکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سنِ رشدکو پہنچ گئے تھے-” تورات “کی روایت ہی دونوں بھائیوں کے درمیان تیرہ سال کا فرق بتاتی ہے مزید اسی واقعے کے بارے میں ”تورات “کی دیگر آیات متضاد معلومات فراہم کرتی ہیں-(۲۲) ان متضاد بیانات کے برعکس اسلامی روایات کے مطابق اسماعیل علیہ السلام شیر خوار بچے ہی تھے-اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور شیر خوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملکِ شام سے کعبہ کے قریب ایک درخت کے نیچے زم زم کے موجودہ مقام سے اُوپر والے حصہ پر بے آب و گیاہ میدان میں ایک تھیلی کھجور اور پانی کا ایک مشکیزہ دے کر واپس جانے لگے تو بی بی ہاجرہ نے آپ کو پکڑ کر دریافت کیا کہ کیا یہ آپ اللہ کا حکم ہے آپ نے ہاں میں جواب دیا تب حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا مطمئن ہوگئیں کہ اللہ انہیں ضائع نہیں فرمائے گا اورپھر واپس لوٹ گئیں جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو انہوں نے اپنے رب سے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی:﴾ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیمو الصلوٰة واجعل افئدة من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلم یشکرون ﴿(۳۲)ترجمہ: اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے میرے رب اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھے تو لوگوں کے دل کچھ ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں-علامہ اقبال اس واقعہ کو یوں نظم کرتے ہیں:-بہرِ ما ویرانہ¿ آباد کردطائفاں را خانہ¿ بنیاد کرد (۴۲)(ترجمہ: ہماری خاطر (ابراہیم علیہ السلام نے)ایک ویران جگہ کو آباد کردیا اور عوام الناس کے لیے ایک گھر (بیت اللہ )کی تعمیر کردی)حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے کچھ روز پانی اور کھجوروں پر گزارہ کیا لیکن ان کے ختم ہونے پر دودھ آنا بند ہوگیا اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بے قرار ہوا - بے تاب بچے کو چھوڑ کر دور جابیٹھیں تاکہ بچے کی بری حالت آنکھوں سے اوجھل رہے -حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک اور پیاس کی شدت سے بے قرار ہوکر زمین پر لیٹے تڑپتے رہے اس وقت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی مادری شفقت جوش میں آئی اور انہوں نے زندگی کیلئے جدو جہد کرنا شروع کی ، وہاں سے اٹھیں اور کوہِ صفا پر چڑھیں لیکن کوئی متنفس نہ پایا - وہاں سے آئیں پھر وادی میں چلتی ہوئی کوہِ مر وہ تک پہنچیں - اس طرح شدید پریشانی کے عالم میں ہر دفعہ اپنے نونہال کے دیکھنے آتی رہیں - آخری پھیرے میں جب مروہ تک آئیں تو ان کے کانوں میں ایک آواز آئی کان لگا کر سنا تو یوں محسوس ہوا کہ کوئی پکاررہا ہے - حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر تم مدد کرسکتے ہو سامنے آﺅ - دیکھا تو خدا کے فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام ہیں روایت ہے کہ انہوں نے اپنے پَر یا ایڑی کو اس جگہ مارا جہاں آج زم زم ہے - لیکن قوی روایت ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاﺅں کی ایڑی سے پانی کا چشمہ جاری ہوا اور یہ آپ کا بچپن کا معجزہ قرار دیا جاتا ہے -(۵۲) یہاں پانی اُبلنے لگا حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی مسرت قابل دید تھی آپ نے خود بھی سیر ہو کر پانی اور پیا اوربیٹے کو بھی پلایا - پھر آپ نے پانی کے چاروں طرف باڑ بنانی شروع کی مگر پانی ابلتا رہا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ اگر اُم اسماعیل علیہ السلام زم زم کو اس طرح نہ روکتیں اور اس کے چاروں طرف باڑ نہ لگاتیں تو وہ آج زبردست چشمہ ہوتا - فرشتے نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو تسلی دی کہ ان کا ربّ ان کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جس کی تعمیر یہ باپ (ابراہیمؑ)اور بیٹا (اسماعیلؑ) کریں گے-(۶۲)اس عرصہ میں ایک قبیلہ بنو جرہم (۷۲)نے پانی کی موجودگی کی وجہ سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وہاں ڈیرے ڈال لیے لیکن حضرت ہاجرہ ؓ نے انہیں پانی کی ملکیت سے مستثنیٰ رکھا -(۸۲)حضرت ہاجرہ ؓ بھی باہمی انس و رفاقت کیلئے یہ خواہش رکھتی تھیں کہ کوئی یہاں آکر بس جائے- انہی چند خاندانوں میں رہ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام پلنے بڑھنے لگے- (۹۲) جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ سال کے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ختنہ کا حکم آیا آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل ، خانہ زادوں اور غلاموں کے ختنے کروائے (۰۳) یہ رسم ختنہ ”ملت ابراہیمی“ کا شعار ہوئی اور آج بھی حضرت ابراہیم کی سنت کے نام سے مشہور ہے - (۱۳) اللہ کے مقرب بندوں اور انبیاءکرام کے ساتھ جو بھی واقعہ اور معاملہ پیش آتا ہے وہ عام انسانوں سے مختلف ہی ہوتاہے اس لیے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ایک نمونہ و مثال ہوتا ہے- جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف آزمائشوں اور حالات سے دوچار کیا - آپ ہر امتحان میں اور آزمائش میں کامیاب ہوئے - جب آگ میں ڈالا گیا اس وقت صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کا ثبوت دیا - یہ تاریخ انبیاءکرام کا ایک انمول واقعہ ہے اس کے بعد اکلوتے دودھ پیتے بچے اور بی بی کو بحکمِ الٰہی فاران میں چھوڑنے کا حکم پورا کیا اورپیچھے مڑ کر نہ دیکھا - یہ بھی تو کڑی آزمائش تھی ان دونوں کڑی منازل کو طے کرنے کے بعد تیسرے امتحان کا حکم ملا -(۲۳) یہ ایک انوکھا اور عظیم الشان واقعہ ہے - حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مسلسل تین راتیں خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم پایا - آپ اس حکم ربی پر آمادہ ہوگئے لیکن یہ معاملہ صرف آپ کی ذات سے وابستہ نہ تھا بلکہ اس امتحان کا دوسرا جزو بیٹا تھا جس کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو حکم الٰہی سنایا تو پیغمبر بیٹے نے پیغمبر باپ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا کیوں نہ کرتا وہ بچہ جس نے خلیل اللہ کی گود میں پرورش پائی اور حضرت ہاجرہ کا دودھ پیا - جسے اوّل روز سے ہی درس دیا جاتا رہا کہ رضائے الٰہی کے لیے اگر جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرنا (۳۳) لہٰذا بیٹے نے فرمایا آپ حکم الٰہی کے سامنے مجھے صابر ہی پائیں گے - حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے جس صالح اولاد کی انہوں دعا مانگی تھی وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت سے ہی ان کی اولاد نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے-(۴۳)بیٹے کی طرف سے مثبت جواب پاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام قربانی پیش کرنے کیلئے جنگل کی طرف چل پڑے اس وقت حضرت اسماعیل ”سعی“ کی عمر کو پہنچ چکے تھے -(۵۳)﴾فلما بلغ معہ السعی﴿(۶۳)ترجمہ: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا-بعض تاریخی اور تفسیری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ راستے میں شیطان نے باپ بیٹے کو اور گھر میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو تین مرتبہ بہکانے کی جدو جہد کی لیکن ہر بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا اور شیطان کی یہ کوشش بے فائدہ ثابت ہوئی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کو مناسک حج میں داخل فرمادیا - ہر سال مِنیٰ کے تینوں جمرات پر لاکھوں حجاج کرام اس عمل کی یاد میں کنکریاں مارتے ہیں- (۷۳)بالآخر دونوں باپ بیٹا عظیم بے مثل قربانی دینے کیلئے منیٰ کی قربان گاہ میں پہنچے باپ نے بیٹے کی مرضی پاکر مضبوط جانور کی طرح ہاتھ پاﺅں باندھے اور بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا کر تیز شدہ چھری گردن پر چلانی شروع کی- روایات کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ۳۱ سال تھی - روایت ہے کہ درمیان میں ایک تانبے کی پتری آجاتی تھی اور چھری نہ چلتی تھی-(۸۳)اقبال اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:می کند از ماسویٰ قطعِ نظرمہ نہد سا طور بر حلقِ پسر(ترجمہ : جو ماسوی اللہ سے نظریں ہٹا لیتا ہے وہ (حضرت ابراہیم ؑکی مانند)بیٹے کے گلے پر چھری چلا دیتاہے)ملا معین واعظ کاشفی نے اس موقع پر بڑی لطیف بحث کی ہے کہتے ہیں:کہا جاتا ہے کہ بچوں کی یہ عادت ہے کہ بچے آزمائش و امتحان اور اس قسم کے مواقع پر اضطراب کا ثبوت دیتے ہیںجب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضائے الٰہی کے حصول کے سبب اپنی عادت کو چھوڑدیا لہٰذا ہم نے بھی چھری کی عادت (جس کی عادت کاٹناہے) تبدیل کردی اور اس کو اس کے اصل کام سے روک دیا-(۰۴)روایت ہے کہ فوراً وحی اُتری ، اے ابراہیم! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا - بیشک کٹھن امتحان تھا ، اب لڑکے کو چھوڑ کر اپنے قریب کھڑے مینڈھے کو ذبح کرو ، بیشک ہم نیکوں کاروں کا امتحان لیا کرتے ہیں - حضرت ابراہیم علیہ السلام رب کا شکر بجا لائے بعض روایات کے مطابق مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ بکری تھی جو چالیس ہزار یا اسی ہزار سال تک جنت کے مرغزاروں میں چرتی رہی تھی یا یہ وہ بکری تھی جو ہابیل نے قربان کی تھی اور اللہ نے ا س کی جنت میں پرورش کرائی تھی یہ مقام جمرہ تھا اور اس بکری یا مینڈھے کے جسم کا ہر حصہ کھانے کے قابل تھا - یہ جانور ہڈی اور اوجری وغیرہ سے پاک تھا (۱۴) یہ ایک بے نظیر قربانی کو پورا کرنے کا وسیلہ تھا (۲۴) اس مینڈھے کے سینگ کئی سال تک خانہ کعبہ کے اندر لٹکے رہے-(۳۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا اور شکرانے کے طور پر درویشوں میں صدقات تقسیم کرنے کے بعد حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس روانہ ہوگئے (۴۴)یہ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی مقبول ہوئی کہ یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے ”ملّت ابراہیمی“ کا شعار ٹھہرا دی گئی - چونکہ یہ واقعہ دس ذوالحج کو پیش آیا - اس لیے تمام ملت اسلامیہ اس عظیم قربانی کی یادگار کے طور پر دس ذوالحج کو قربانی کرتی ہے اور وفاداری اور جانثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتی ہے اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کو وہ مرتبہ عطا فرمایا جو بیٹا قربان کردینے والے کیلئے ہوسکتا ہے-(۵۴)اقبال نے اس عظیم الشان واقعہ کی طرف بڑے لطیف پیرائے میں اشارہ کیا ہے- رموز بیخودی کی نظم ”در معنی حریت اسلامیہ و سرِ حادثہ کربلا “ میں بھی اس ذبح عظیم کی طرف اشارہ ہے علامہ نے اس نظم میں بتایا ہے کہ ”ھُو الموجود“ سے پیمان باندھنے والے کی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہوجاتی ہے مومن کی حیات عشقِ الٰہی کی بدولت ہے اور عشق کی حیات مومن کی بدولت- عشق میں وہ قوت ہے کہ یہ ناممکن کر دکھاتا ہے - عشق و عزم لازم و ملزوم ہیں ، مومن جب عشق الٰہی میں ڈوب جاتا ہے تو وہ ہر لمحہ اپنا احتساب کرتا رہتا ہے - نتیجتاً وہ اللہ کی غلامی کے علاوہ ہر قسم کی غلامی کو خیر باد کہہ دیتاہے - یہی سبب ہے کہ وہ بوقت قتال سر خرو ہوتا ہے اس کے بعد اقبال ”منقبت حسین“ میں کہتے ہیں:اللّٰہ اللّٰہ بائے بسم اللّٰہ پدرمعنی ”ذبح عظیم“ آمد پسر(ترجمہ :اللہ اللہ جن کے باپ (حضرت علی ؓ)بسم اللہ کی ”با“ ہیں ان کا بیٹا (حضرت امام حسین ؓ)”ذبح عظیم“ کا مظہر بن کر آیا)اس ایک شعر میں علامہ ایک عظیم واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ شخصیت ہیں امام حسین ؓ اور وہ” ذبح عظیم “کا واقعہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی کا - لیکن غور کریں تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس واقعہ کو عام روایتی انداز میں نظم نہیں کیا بلکہ اس کو نظم کرکے وہ انسانی فرائض کی ایک حس کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی فرائض کی وہ حس ہے ”ایقان“ (۷۴) اسی ایقان کی بدولت مذہبی مرحلے پر پہنچ کر عزیمت و رخصت میں جنگ ہوتی ہے اور اس میں فتح یاب ہوکر انسان وجودِ حق سے اپنے وجود کی غیر مشروط سپردگی کر دیتا ہے اور اسی وجودی سپردگی کی بنیاد پر وہ معتبر ہوجاتا ہے - رجعت سے وجود غیر معتبر ہوجاتا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جان کو قربان کرنے کا فیصلہ بھی دراصل خود سپردگی کا فیصلہ ہے - عام اخلاقیات اور فکر کے راستے کو ترک کرنے اور حصول شہادت کا فیصلہ ہے یہ وہ فیصلہ ہے جس کے کرنے کے بعد شیطان بار بار آکر بہکانے اور فیصلہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے - معتبر (حضرت اسماعیل علیہ السلام )اور غیر معتبر (شیطان)کی جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں معتبر (اسماعیل علیہ السلام ) فتح یاب ہوتا ہے(۸۴) اور اقبال یہی بتانا چاہتے ہیں لیکن اسی واقعہ ”ذبح عظیم“ کو علامہ نے ایک اور نقطہ نظر سے بھی بیان کیا ہے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک باپ بیٹے کے ساتھ ساتھ استاد اور شاگرد کے طور پر بھی لیا ہے ، صاحب نظر استاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے شاگرد حضرت اسماعیل علیہ السلام میں تبدیلیاں پیدا کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں (۹۴) اسی لیے تو بے اختیار کہتے ہیں :ےہ فیضانِ نظر تھا ےا کہ مکتب کی کرامت تھیسکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟(۰۵)علامہ کی دور رس نظر اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ روشن مثال شخصیت اپنی نگرانی میں جو تعلیم و تربیت کرتی ہے وہ کتب و مکاتب نہیں کر سکتے (۱۵) دیگر تمام بزرگان دین کی طرح علامہ اقبال بھی اسماعیلیت کی صفات سے مزین ہونے کے لیے کسی مرشد کامل کی صحبت ےا کسی کے فیض نظر کا ہونا ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ تزکیہ نفس کے لیے ےہ از حد ضروری ہے-بقول ےوسف سلیم چشتی :-”چرغ کسی چراغ ہی سے جل سکتا ہے ےہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص نہ کسی مرشد کی صحبت میں رہے نہ اس کی نگاہ سے فیض حاصل کرے محض کتابوں کے مطالعہ سے اس لائق ہو جائے کہ صالحین کی جماعت مرتب کر کے دُنیا میں کوئی پاکیزہ انقلاب برپا کرے-“( ۲۵)اس تزکیہ نفس کے بعد انسان زمانے کا راکب بن سکتا ہے اور علامہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو زمانے کا راکب دیکھنے کے متمنی ہےں- حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں آباد کیا تھا تا کہ وہ مقام دین حق کا مرکز بن سکے- بعد میں حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اللہ کی عبادت کے لیے گھر بنائیں-(۳۵)رواےات کے مطابق کعبہ کا وجود انسانی تاریخ سے قبل بیان کیا جاتا ہے زمین کی پیدائش سے بھی قبل جب اس خطہ پر صرف پانی تھا- اس وقت بھی موجودہ خانہ کعبہ کی جگہ ایک کثیف قسم کی جھاگ دکھائی دیتی تھی اور فرشتے اس کے گرد طواف کرتے تھے پھر جب زمین پیدا کی گئی اسی جگہ والے حصے سے زمین کا آغاز ہوا اور پانی کے 1/3حصے پر زمین آگئی-کعبتہ اللہ ویسے ہی چھوٹے سے ٹیلے کی شکل میں ابھرا رہا حضرت آدمؑ کو زمین پر اترنے کے بعد اس جگہ کے بارے میں بتا دیا گیا- آپ نے اس جگہ کو اپنے ہاتھوں سے اونچا کیا اور بحکم الٰہی خود بھی اس کا طواف کیا اور اولاد کو بھی حکم دیا (۴۵)اللہ تعالیٰ کا ےہ گھر دس مرتبہ از سر نو بناےا گیا- (i) ملائکہ (ii) حضرت آدمؑ (iii) حضرت شیث (iv) حضرت ابراہیمؑ (v) قوم عمالقہ نے (vi) قبیلہ جرہم نے (vii) قصی نے (viii) قریش نے (ix) عبداللہ بن زبیر (x) حجاج بن یوسف نے - لیکن قرآن مجید نے حضرت ابراہیمؑ کو کعبة اللہ کا اوّلین معمار ےا بانی قرار دیا ہے اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل بھی اس کے معمار اوّل شمار کئے گئے ہےں- اگرچہ بیت اللہ کا وجود پہلے دن ہی تسلیم شدہ ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعمیر اور عمارت کا بنانا حضرت ابراہیمؑ سے پہلے وجود میں نہ آےا تھا- حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح ابن الباری (۵۵) میں ایک رواےت نقل کی ہے-جس سے پتہ چلتا ہے کہ کعبہ کی بنیاد سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے رکھی اور اللہ کے فرشتوں نے ان کو وہ جگہ بتائی جہاں کعبہ کی تعمیر ہونا تھی مگر ہزاروں سال کے حوادث نے عرصئہ دراز سے اس کو بے نشان بنا دےا تھا لیکن ہر زمانہ میں وہ ایک ٹیلہ ےا ابھری ہوئی شکل میں دکھائی دیتاتھا- یہی وہ مقام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت ابراہیمؑ کو بتاےا ایک روایت کے مطابق خانہ کعبہ کے قریب حضرت آدمؑ کی قبر بھی تھی-(۶۵) حضرت ابراہیمؑ نے اس جگہ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی مدد کھودنا شروع کیا تو انھیں سابقہ تعمیر کی بنیادیں نظر آنے لگیں-انھی بنیادوں پر بیت اللہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر کا آغاز کیا گیا -(۷۵) ےہ واقعہ ۴۵۰۲ق م کا ہے (۸۵) کہا جاتا ہے کہ جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ کعبة اللہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے وہ غیر محسوس طور پر اونچا ہوتا جاتا تھا- حتی کہ بیت اللہ کی دیواریں مطلوبہ اونچائی تک پہنچ گئیں (۹۵) ےہی پتھر آج مقام ابراہیمؑ کے نام سے جانا جاتا ہے- (۰۶) بیت اللہ کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو بتاےا کہ ےہ ملت ابراہیمی کے لیے قبلہ ہے اور ہمارے حضور جھکنے کا نشان- اس لیے ےہ توحید کا مرکز ٹھہراےا جاتا ہے تب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے مل کر دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی اولاد کو نماز قائم کرنے اور زکوٰة دینے کی ہدایت عطا فرمائے اور ان کے اثمار،میووں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور تمام دُنیا کے ہدایت ےافتہ انبوہ کو اس طرف متوجہ کر ے تا کہ وہ دور سے آ کر مبارک حج ادا کریں-اور اس مرکز میں اکٹھے ہو کر زندگی کی سعادتوں سے مالا مال ہوں- قرآن پاک میں بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی دعاءاقامت نماز اور مناسک حج کی ادائیگی کے لیے شوق و تمنا کا اظہار اور بیت اللہ کے توحید کے مرکز ہونے کا تزکرہ جگہ جگہ کیا ہے- (۱۶)علامہ اقبال نے بیت اللہ کی”تعمیر و تطہیر“ کے واقعہ کو یوں نظم کیا ہے-جوئے اشک از چشم بیخوابش چکیدتا بیام طھرا بیئتی شنید (۲۶)(ترجمہ: حضرت ابراہیم کی بیدار آنکھوں سے اشکوں کی ندی بہتی رہی یہاں تک کہ اللہ کا طھرا بیتی (میرے گھر کو پاک صاف رکھنے)کا حکم سنائی دیا)دیکھیے اس واقعہ سے ہمیں ایک تو اہم قرآنی معلومات ملتی ہےں ( جن کا ذکر کیا جا چکاہے) دوسرے علامہ اقبال کا اس واقعہ کو نظم کرنے کا نقطہءنظر واضح طور پر سامنے آجاتا ہے علامہ اقبال کا خیال ہے کہ کسی عظیم الشان کامیابی کے لیے صرف آرزو ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے انتہائے والہانہ جذبہ کی ضرورت پڑتی ہے- جب تک انسان کے اندر انقلاب جنم نہ لے خارج میں بھی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا- وہ جو اپنے اندر انقلاب برپا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے خارج میں بھی انقلاب لانے کی توفیق مرحمت فرمائے گا (۳۶) حضرت اسماعیلؑ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں- آپ انتہائی خوبصورت اور باپ سے مشابہ تھے (۴۶) قرآن پاک میں آپ کو نبی اور رسول دونوں صفات سے موصوف کیا گیا ہے- جو آپ کے علو مرتبہ ہونے کی علامت ہے آپ کی صفات کمال میں سے سب سے اہم صفت صادق الوعدہ ہونے کی ہے- کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے جو بھی وعدہ کےا پورا فرمایا اور سب سے اہم وعدہ وہ تھا جو آپ نے اپنے والد ماجد سے کیا تھا یعنی ذبح کرنے کے حکم خداوندی کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کا- آپ پر دُنیا گواہ ہے کہ اس مرد پاکباز نے اپنے اس وعدہ کو کس صدق و استقامت سے مکمل کیا-(۵۶) آپ کی مادری زبان قبطی اور پدری زبان عبرانی تھی۔ علاوہ ازیں بقول علامہ ابن حجر آپ پہلے فرد ہیں جو فصاحت و بلاغت اور روانی سے عربی بولتے تھے- (۶۶) تورات اور حدیث کے مطابق آپ تیر انداز تھے اور آپ نے تمام زندگی گوشت اور پانی پر گزارہ کیا- (۷۶) آپ نے ان تمام زبانوں میں دین ابرہیمی کی تبلیغ کی اور بہت سی قوموں کے درمیان اتحاد باہمی کا وسیلہ بنے- (۸۶) آپ میں اپنے والد محترم والی تمام خوبیاں اور کمالات بدرجہءاتم موجود تھے- (۹۶) آپ فرزند عہد ہیں کہ پہلے روز میں اللہ کے عہد میں داخل ہو گئے، آپ کو عرب، حجاز، یمن کے لیے مبعوث فرماےا گیا-(۰۷) آپ کو ےہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے گھوڑے کو سدھا کر سواری کی- اس سے پہلے وہ وحشی ہوتے تھے آپ نے انھیں مانوس کیا-(۱۷) آپ حضرت اسحاق سے (پانچ ، چودہ ےا تینتیس سال) بڑے تھے- آپ کا ختنہ بھی اسی روز ہوا جس روز آپ کے والد نے اپنا ختنہ کیا-(۲۷) آپ پہلے ذبیح ہیں ، بلا تامل اپنے آپ کو پیش کرنے پر آپ کا لقب ”ذبیح اللہ “ ہوا - (۳۷)آپ جدِ پیغمبرِ اسلام ہیں-آپ نے سب سے پہلے اپنی بیوی کی تجویز پر بہت سی بھیڑوں کی پشم اکٹھی کر کے بارہ زراع کا پردہ بنا کر کعبہ کی دیواروں پر لٹکا یا - یہ اب تک معمول ہے کہ ہرسال عید قرباں پر قیمتی اور خوبصورت پردہ بنا کر لٹکایا جاتا ہے-جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے والد وفات پاگئے تو جبریل نے آپ سے افسوس کیا اور وفات کی خبردی اور صبر وشکیبائی کی تلقین کرنے کے بعد بتایا کہ نبوت وخلافت آپ کے خاندان میں ہی رہے گی آپ یہ سن کربہت خوش ہوئے، آ پ نے حضرت اسحاق سے مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دفن کیا ،آپ نے پانچ شادیاں کیں مکہ کے تمام قبائل آپ کی نسل سے ہیں (۴۷)لیکن تو رات کے مطابق آپ کے بارہ بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی -(۵۷)آپ کے تمام بیٹے اپنے قبیلوں کے سردار بنے لیکن ان میں سے دونا بت یا نیا بوت اور قیدار زیادہ مشہور ہوئے ان کا تذکرہ تورات میں بکثرت ہے عرب مو¿رخین نے بھی ان کی تفصیلات بیان کی ہیں نابت کی نسل ” اصحاب الجحر “ کے نام سے اور قیدار کی نسل ”اصحاب الرس “ کے نام سے مشہور ہوئی ،آپ ﷺ کا سلسلہ نسب قیدار ہی سے عدنان کے واسطے سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے -(۶۷)باقی بھائیوں اور ان کے خاندان کے بارے میں معلومات بہت کم ملتی ہیں -(۷۷)آپ کی بیٹی نسیمہ کی شادی حضرت اسحاق علیہ السلام کے سب سے بڑے بیٹے عیسوسے ہوئی (۸۷)آپ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹوں کو بلاکر نبوت کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں آپ نے ۰۳۱،۶۳۱،۸۳۱یا ۰۸۱ سال کی عمر پائی (۹۷)اپنے والد سے ۸۴ سا ل بعد فوت ہوئے اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاکے پہلومیںمطافِ کعبہ کے اندر دفن ہوئے ،حضرت موسیٰ ؑکے بعد عہد میں یعنی ۰۰۵ ق م تک آ پ کی اولاد اور نسل کا سلسلہ حجاز ، شام ، عراق ، فلسطین اور مصر تک پھیل چکا تھا ،تجا رتی شاہراہوں ، بحیرہ ہند اور بحیرہ احمر کی اہم بندرگاہیں اور عرب کا اندرونی حصہ بنو اسماعیل کے زیر اثر تھا -(۰۸) تورات کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر فلسطین میں ، حرم میں ، حضر ت ہاجرہ رضی اللہ عنہاکے بالکل قریب واقع ہے-(۱۸)حضرت ابراہیم اور حضر ت اسماعیل علیہم السلام کی خدماتِ صادقہ کی بدولت ان کا نام زندہ وتابندہ ہے -غالباً ۶ ہزار سال گزر چکے لیکن امت مسلمہ کے افراد ان پیغمبروں ، باپ ، بیٹے کی خدمات صادقہ کے سبب کعبہ کے گرد چکر لگا کر رحمت الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں- (۲۸)حیات وسیرتِ حضرت اسماعیل اور کلامِ اقبال میں آپ کے ذکر کا پہلو بہ پہلو جائزہ لینے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کے ہاں ” اسماعیلیت “ اطا عت وفرمانبرداری ، غیرسے بے نیازی ، رضاجوئی اور اللہ کے لیے خودسپرد گی اور بے مثال قربانی کا عظیم الشان مرقع ہے- اقبال نے اپنے کلام میں حضرت اسماعیل کی سیرت کے نمایا ں اوصاف کو اہم درجہ دیا ہے، کلام اقبال میں حضرت اسماعیل کی شخصیت انتہائی متحرک اور عملی نظر آتی ہے جس کو اخلاقی اعتبار سے تکمیلِ فرائض کی انجام دہی کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے- (۳۸)نیز آپ حق ، رضاجوئی اور قربانی کی علامت کے طور پر اُبھرتے ہیں (۴۸) اقبال اُمتِ مسلمہ کو آفاقی حقیقت پر مشتمل ایک خاص پیغام دینا چاہتے ہیں اور وہ خاص پیغام ہے ” اسما عیلیت “ کے تمام پہلوﺅ ں کو اپنی ذات کا حصہ بنا نے کا یہی سبب ہے کہ وہ مردِ مومن کو خود ہی اپنا حرم ، اپنا ”ابراہیم“ اور تسلیم ورضا میں ” اسماعیل “ بن کر نفسِ امارہ کی گردن پر چھری چلانے اور صرف اور صرف اللہ کی رضاکے لیے غیر مشروط جدوجہد کا درس دیتے ہیں- خود حریم خویش وابراہیم خویشچوں ذبیح اللّٰہ در تسلیمِ خویش (۵۸)(ترجمہ : (مومن)آپ ہی اپنا حرم(کعبہ)اور آپ ہی اپنا ابراہیم(یعنی معمارِ حرم)ہے اور ذبیح اللہ(حضرت اسماعیل ؑ)کی مانند اپنے سامنے ہی سر تسلیم خم ہے)علامہ کے نزدیک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح تسلیم و رضا کے حصول کے لیے نفسِ امارہ سے جنگ سخت ضروری ہے ،اصطلاحِ تصوف میں اسے مجاہدہ کہتے ہیں اس سے مردِ مومن (سالک حق )میں چار صفات جنم لیتی ہیں :-۱-وہ حرص وہوا سے پاکی حاصل کرلیتا ہے -۲-اس میں استقامت جنم لیتی ہے -۳-رُوحانی عروج کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے-۴-اس کے دماغی قویٰ میں اضافہ ہوجاتاہے-ان صفات کی وجہ سے وہ عالمِ ناسوت طے کرکے عالمِ لاہوت کی طرف پرواز کرنے لگتاہے اور فرشتوں کے مقام اور جنت الفردوس سے بالا تر ہوجاتا ہے حتیٰ کہ وہ فنا فی الرسول ہوجاتاہے اس مقام پراللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنے کرم سے رسول اللہ ﷺ کے رنگ میں رنگ دیتا ہے یعنی اس میں صفات الرسولﷺ جنم لیتے ہیں اور اس کی خودی بھی کامل وپختہ تر ہوجاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ راہ حق کے اس سالک کو اپنا بندہ بنا لیتا ہے اور وہ نفسِ امارہ و لوامہ کی منازل سے گزر کر مطمئنہ کی منزل پر قربِ حق حاصل کر لیتا ہے (۶۸)علامہ کو اس مقام مطمئنہ پرفائز ذات کا نمونہ حضرت اسماعیل کی حیات میں نظر آیا اور انہوں نے اس اعلیٰ ہستی کو بطور نمونہ اُمتِ مسلمہ کے افراد کے سامنے پیش کردیا تاکہ وہ بھی یہی اسماعیلی صفت اپنی ذات میں پیدا کرکے عبدیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کیلئے جدوجہد کریں اور صبر ،ایثار اور اطاعت کی ایک بلند مثال قائم کریں(۷۸)یہی اِسلام کی رُوح ہے یعنی اپنے آپ کو اور اپنی ہر شے کو اللہ کیلئے نثار کردینا (۸۸) مدعیانانِ اسلام کو ایسی ہی اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہر ہ کرنا چاہیے اور ایسی ہی بزرگ ہستیوں کے نقشِ قدم پرچلنا چاہیے کسی بھی حالت میں باطل (شیطان )کے سامنے نہ جھکنا چاہیے چاہے جان دینی پڑے یہی داستانِ حرم ہے-(۹۸)غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل(۰۹)حضرت اسماعیل کے متعلق کہے گئے اشعار کے پس منظر و پیش منظرکو سامنے رکھتے ہوئے اور سیاق وسباق کو ذہن میں لاتے ہوئے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ”اسماعیلیت “ علامہ کی ہاں ایک ایسے رویہ¿ زندگی کا نام ہے جو ہر لحظہ تسلیم ورضا ئے خداوندی کاجو یا ہے یہ رویہ¿ کمال عشق سے جنم لیتا ہے اور اپنے اندر انسانیت کیلئے ایک خاص پیغام رکھتاہے انبیائے کرام کی تاریخ میں یہ کمالِ عشق ”ذبیح اللہ“کی شکل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقدر بنا اس سلسلے میں اقبال کے افکار کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ تسلیم ورضا اور کمالِ عشق کی عملی تصویر مطلوب ہوتو اس کے لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرت وشخصیت کا مطالعہ کرویہی تمہارے لیے کافی ہوگا -یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ علامہ نے کلام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے”ذبیح اللہ “ کی تلمیح اور ”تسلیم ورضا “ کی ترکیب استعمال کی ہے یہ دونوں بہت پر زور ہیں اور اقبال ان دونوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیںکیونکہ یہ ” اسماعیلیت “ کے سب سے نمایا ں پہلوہیں اور یہ عناصر نوجوانانِ ملت کی صحیح تربیت میںمعاون ومددگار ہوسکتے ہیں -علامہ اقبال ”اسماعیلیت “ کے حصول کیلئے ”فیضانِ نظر “ یعنی کسی صاحب نظر کی صحبت کا ذکر بھی کیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی بھی اعلیٰ منزل اور مقام کے حصول کیلئے کامل رہنما کی اکمل رہنمائی کا ہونا ازحد ضرروی ہے کہ ایسی پاک شخصیات کی رہنمائی ہی :۱-آداب فرزندی سکھاتی ہے اور سراپا تسلیم ورضابناتی ہے-۲- قلوب کی تطہیر کی طرف مائل کرتی ہے(کہ کعبہ سے بتوں کو ہٹانے کے بعد پھر سے اس کی تطہیر تو کب کی جاچکی )-۳-اللہ کے سوا سب سے بے نیاز کردیتی ہے اور اس قابل بنا دیتی ہے کہ مردِ مومن ہرقسم کی حتیٰ کہ جان کی قربانی کرنے کیلئے بھی بخوشی تیار ہوجاتاہے -علامہ ایسی ہی کامل شخصیات کے متلاشی اور ایسی ہی ”اسماعیلیت “ کے آرزو مند نظر آتے ہیں جو امتِ مسلمہ کو عملی لحاظ سے سربلند کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو-مآخذ و مصادر:۱- اقبال، ڈاکٹر علامہ اقبال، ”اسرار و رموز“ ، کلیات اقبال(فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، بار ششم، ۰۹۹۱ئ، ص:۱۱۱-۲- المولیٰ، محمد احمد جاد، البجاوی، علی محمد ، ابراھیم، محمد ابوالفضل، شحاتہ، السید، ”قصص القرآن“(عربی) المکتبہ التجاریة الکبریٰ، بمصر ، الطبعة العاشرة،۹۶۹۱ئ، ص:۶۵-۳- ”تورات“ عہد عتیق، تکوین، باب: ۵۱، آیت:۲، سوسائٹی آف سینٹ پال، روما، ۸۵۹۱ئ-۴- الکاشفی، مولانا معین الدین، واعظ، مترجم، مولانا ملا معین واعظ الکاشفی، ”معارج النبوت“ ج:۱، مکتبہ نبویہ، لاہور، بار اوّل، ۸۷۹۱ئ، ص:۰۲۶-۵- موسوی، سید محمد باقر، غفاری، علی اکبر، ”تاریخ انبیائ“(فارسی)ج:۱-۲، کتاب فروشی اسلام، بازار شیرازی، تہران، بار و سن ندارد،ص:۰۸-۶- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)، ج:۱-۲، کتاب فروشی اسلام، بازار شیرازی، تہران ، بار ۵۲، ۰۶۳۱ھ ش،ص:۱۱۳-۷- تفصیل کے لیے دیکھئے: ”تورات“ عہد عتیق، تکوین، باب: ۶۱، آیت: ۷،۲۱-۸- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۱۲۶-۹- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج:۳۱، مکتبہ اسلامیہ، لاہور، بار اول ۴۸۹۱ئ، ص:۲۷۵-۳۷۵، نیز دیکھئے : اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)، ج:۱-۲،ص:۸۱، الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۲۱-۰۱- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)،ص:۱۱۳-۱۱- ”تورات“ پیدائش، باب:۷، آیت:۰۲-۲۱- مریم:۹۱، آیت:۴۵-۵۵-۳۱- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۱۲۶،۷۲۶-۴۱- دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ”دائرہ معارف اسلامیہ“، ج:۲، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ۰۸۹۱ئ، ص:۸۲۷- نیز دیکھئے: سیوہاروی، مولانا حفیظ الرحمن، ”قصص القرآن“ (اردو) ، ج:۱-۲، حصہ اول، پروگریسو بکس، لاہور، بار اول۰۶۳۱ھ، ص:۵۲۲- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج: ۰۱،ص:۷۷۶-۵۱- سیوطی، علامہ جلال الدین، ”الاتقان فی علوم القرآن“ ، ج:۲، ادراہ اسلامیات، لاہور، بار اوّل اگست ۶۸۹۱ئ، ص:۲۴۳-۳۴۳-۶۱- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج: ۳۱،ص:۰۷۵-۷۱- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”البدایة والنہایة“، ج: ۱،نفیس اکیڈمی کراچی، بار اول۷۸۹۱ئ، ص: ۸۱۲-۸۱- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج: ۳۱،ص:۰۷۵- نیز دیکھئے: اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)،ج: ۱-۲،ص:۱۱۳-۹۱- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”البدایة والنہایة“، ج: ۱، ص: ۹۲۱-۰۲- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۲۲۶- نیز دیکھئے:۱۲- المولیٰ، محمد احمد جاد، البجاوی، علی محمد ، ابراھیم، محمد ابوالفضل، شحاتہ، السید، ”قصص القرآن“(عربی)، ج: ۱-۲، ص:۷۵- تفصیل کے لیے دیکھئے: ”تورات“ پیدائش، باب:۱۲، آیت:۹-۳۱- دائرہ معارف اسلامیہ میں بعد از تحقیق درج ہے کہ حضرت سارہ کی علیحدگی کا یہ سبب قرار نہیں دیا جاسکتا جو تورات میں بیان کیا گیا ہے- علاوہ ازیں یہ بات بھی قابلِ تسلیم ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا سفر اس سبب سے پیش آیا- اس کی وجوہات کچھ اور ہوگی اور اپنی جگہ بہت اہم ہوں گی- یہ سفر حضرت اسماعیل کے دودھ پلانے کے زمانے میں ہوا یا حالتِ رش میں،تورات کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس سفر کی اہمیت کم کردی جائے- مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ”دائرہ معارف اسلامیہ“، ج:۲، ص:۰۳۷-۱۳۷، ابن کثیر، اسماعیل ابو الفداءعماد الدین ، ”تفسیر ابن کثیر“، ج: ۲، پ:۷، نور محمد کار خانہ کتب کراچی، بار و سن ندارد، ص:۵۴۱-۲۲- ”تورات“ عہد عتیق، تکوین، باب:۱۲، آیت:۴۱-۶۱-۳۲- ابراھیم: ۴۱، آیت:۷۳-۴۲- اقبال، ڈاکٹر علامہ اقبال، ”اسرار و رموز“ ، کلیات اقبال(فارسی)، ص:۰۰۱-۵۲- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج:۱، مکتبہ اسلامیہ، لاہور، سن ندارد، ص:۱۸۶،۲۸۶- نیز دیکھئے :الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۴۲۶- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”البدایة والنہایة“، ج: ۱، ص:۰۲۲-۶۲- بیت اللہ زمین سے ٹیلہ سے ٹیلہ کی طرح بلند تھا- سیلاب آتے لیکن اس کے دائیں بائیں سے کٹ کر گزر جاتے-۷۲- یہ قبیلہ جرہم بن یقتان بن ہوت کی اولاد سے تھا اور اس کے سردار کا نام مضاض بن عمر تھا -الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۲۲۶-۸۲- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)،ص:۱۱۳-۹۲- بعض کتب میں ہے کہ ہر مہینے صبح کے وقت براق پر سوار ہوکر ملک شم سے مکہ آتے اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی خیریت دریافت کرنے کے بعد لوٹ جاتے، ماخوذ از: الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۷۲۶-۰۳- ”تورات“ عہد عتیق، تکوین، باب:۷۱، آیت:۳۱-۵۲-۱۳- سیوہاروی، مولانا محمد حفظ الرحمن، ”قصص القرآن“ (اردو)، حصہ اول، ج:۱-۲، ص:۵۳۲-۲۳- سیوہاروی، مولانا محمد حفظ الرحمن، ”قصص القرآن“ (اردو)، حصہ اول، ج:۱-۲، ص:۵۳۲-۶۳۲-۳۳- کرم شاہ، پیر محمد، ”ضیاءالقرآن“، ج:۴، ضیاءالقرآن پبلیکیشنز، لاہور، بار پنجم، رمضان المبارک، ۹۹۳۱ھ، ص:۱۱۲-۴۳- مودودی، ابوالاعلیٰ، ”تفہیم القرآن“، ج:۴، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، بار ششم،۸۸۹۱ئ، ص:۵۹۲- نیز دیکھیے: شفیع، مولانا مفتی محمد، ”معارف القرآن“، ج:۶، ادارة المعارف، کراچی ، با ندارد،ستمبر۸۹۹۱ئ، ص:۹۳-۱۴-۵۳- آپ تقریبا ً۳۱ سال کے تھے لیکن کسی مستند روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملاتا- آزاد، مولانا ابوالکلام، مرتب مولانا، غلام رسول مہر، ”انبیائے کرام“ ، ص: ۶۳۲، نیز دیکھئے: کرم شاہ، پیر محمد، ”ضیاءالقرآن“، ج:۴،ص:۰۱۲- ۶۳- الصفٰف: ۷۳، آیت: ۲۰۱، ترجمہ: پس جب وہ اُس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا-۷۳- کرم شاہ، پیر محمد، ”ضیاءالقرآن“، ج:۴، ص:۲۱۱، ۲۱۲-۸۳- اقبال، ڈاکٹر علامہ اقبال، ”اسرار و رموز“ ، کلیات اقبال(فارسی)، ص:۲۴/۲۴۹۳- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”البدایة والنہایة“، ج: ۱، ص: ۲۲۲-۰۴- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۱۵۶-۱۴- منصور پوری، قاضی محمد سلیمان، سلمان، ”رحمة للعالمین“ ج:۲، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، بار و سن ندارد، ص:۱۴۶،۲۴۶-۲۴- مودودی،مولانا ابوالاعلیٰ، ”تفہیم القرآن“، ج:۴،ص:۷۹۲- ۳۴- عبد الرحمن، مولانا محمد، ”سیرت انبیائے کرام“، ج:۱، ادارہ اسلامیات، لاہور، بار اول،۰۹۹۱ئ، ص:۹۴۲- نیز دیکھئے: ابن کثیر، امام ابی الفداءاسماعیل، ”قصص الانبیائ“ (عربی) مکتبہ طیبہ، المدینہ المنورہ، بار وسن ندارد، ص:۰۹۱-۴۴- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی)،ج: ۱-۲،ص:۷۰۳-۵۴- مودودی،مولانا ابوالاعلیٰ، ”تفہیم القرآن“، ج:۴،ص:۶۹۲- نیز دیکھئے : نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج:۱، ص:۶۹۶، میں تحریر ہے کہ قربانی کا واقعہ کعبہ کی تعمیر کے بعد پیش آیا جو کہ درست نہیں ہے- ۶۴- اقبال، ڈاکٹر علامہ محمد، ”اسرار و رموز“ ، کلیات اقبال(فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، بار ششم، ۰۹۹۱ء،ص:۰۱۱/۰۱۱۷۴- احمد، ڈاکٹر توقیر، ”اقبال کی شاعری میں پیکر تراشی“، انجمن ترقی اردو، نئی دہلی، بار اول، ۹۸۹۱ئ، ص:۱۰۱-۸۴- تسکینہ فاضل، ڈاکٹر، مضمون،”اقبال اور قرآنی تلمیحات“، مرتب ڈاکٹر پروفیسرمحمد امین اندرابی، ”اقبال اور قرآن“ اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر، بار اول۴۹۹۱ئ، ص:۵۲۱-۶۲۱-۹۴- عشرت، ڈاکٹر وحید، مضمون ”سنتِ ابراھیمی اور اقبال“ مرتب ڈاکٹرطارق عزیز،”اقبال شناسی اورایکو“ بزمِ اقبال، لاہور،طبع اول، ۸۸۹۱ئ، ص۳۲-۰۵- اقبال، ڈاکٹر علامہ محمد، ”بال جبریل“ کلیات اقبال(اردو)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، بار سوم۶۹۹۱ئ،ص:۶۰۳/۴۱-۱۵- منور، پروفیسر محمد، ”اقبال اور ابراھیمی نظر“ راوی، اپریل ۴۷۹۱ئ، ص:۶۵۲-۲۵- چستی، یوسف سلیم،”شرح بال جبریل“ عشرت پبلشنگ ہاﺅس، بار و سن ندارد، لاہور، ص: ۵۵۱-۳۵- ادارہ تصنیف و تالیف، ”انوارِ انبیائ“ شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص:۴۶-۴۵- عبد الرحمن، مولانا محمد، ”سیرتِ انبیائے کرام“ ص:۸۴۲-۹۴۲-۵۵- عسقلانی، للامام الحافظ احمد بن علی، ”فتح الباری“ (عربی) ج:۸، دارنشر الکتب الاسلامیہ شارع شیش محل، لاہور، طبعہ ممتاز مصححتہ،۱۸۹۱ئ، ص:۸۳۱-۶۵- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی) ج:۱-۲، ص:۷۰۳۷۵- قرآن پاک میں بیت اللہ کی تعمیر کے معاملے کو حضرت ابراھیم سے شروع کیا ہے اور اس سے پہلی حالت کا ذکر نہیں کیا اس واقعے سے قبل پوری دنیا کے انسان صنم پرست تھے اصنام اور نجوم کی پرستش کے لیے ہیکل اور مند بنے ہوئے تھے اور ان کے ناموں پر بڑی بڑی تعمیرات کی جاتی تھیں-ژمثلا ً مصریوں نے سورج ، دیوتا، از دریس ایزدیس، حوریس اور بعل دیوتا کے نام پر مندر بنا رکھے تھے-ژشودروں نے بعل دیوتا کا ہیکل بنا کر ابولہول کا مجسمہ اس میں رکھا اور اس کی جسمانی طاقت کا مظاہرہ کروایا-ژاہلِ کنعان نے مشہور قلعہ بعلبک میں اسی بعل کا مشہور ہیکل بنایا تھا جو اب بھی یادگار کے طور پر مشہور ہے-ژغزہ کے رہنے والے”داجون“ مچھلی دیبی مندر پر چڑھاوے چڑھاتے تھے جس کی شکل انسان کی طرح کی اور جسم مچھلی کی طرح بنایا گیا تھا-ژعمونیوں نے سورج دیوتا اور ستاروں سے (چاند)کو دیبی بنا کر ان کی پرستش کی اور اس کے لیے عظیم الشان مندر بنائے-ژاہل فارس نے آگ کو مقدس جان کر آتشکدے بنا کر ان کی پرستش کی-ژاہل روم نے مسیح اور کنواری مریم کے مجسمے بنا کر ان کی پرستش کی-ژہندوﺅں نے مہاتما بت، شری رام چندر ، شری مہاویر اور مہا دیوتا کو دیوتا اور اوتار مان کر اور کالی دیوی و ستیلا دیوی و سیتا دیوی اور پاربتی دیوی کے ناموں سے ہزاروں بتوں کی پوجا کے لیے بڑے بڑے عظیم الشان مندر بنائے مگر اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے اور سرنیاز جھکانے کے لیے پوری دنیا کے صنم کدوں میں اللہ تعالیٰ کا جو پہلا گھر بنایا، یہی بیت اللہ ہے جس کو حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے مل کر تعمیر کیا-سیوہاروی، مولانا محمد حفظ الرحمن، ”قصص القرآن“ (اردو)، حصہ اول، ج:۱-۲، ص:۱۴۲- نیز دیکھئے: ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”تفسیر ابن کثیر“، ج: ۱، نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی،بار و سن ندارد، ص: ۹۸۱-۸۵- نعیمی، مفتی احمد یار خان، ”تفسیر نعیمی“، ج: ۳۱،ص:۴۷۵، پ:۲۱-۹۵- اصفہانی، عماد الدین، حسین، ”قصص الانبیائ“ (فارسی) ج:۱-۲،حصہ اول، ص:۶۰۳- اس کے مطابق دیوار نو زرع تک بنی-۰۶- سیوہاروی، مولانا محمد حفظ الرحمن، ”قصص القرآن“ (اردو)، ج:۱-۲،حصہ اول، ص:۲۴۲- نیز دیکھئے: عبد الرحمن، مولانا محمد، ”سیرت انبیائے کرام“ ، ج:۱، ص:۵۲- ۱۶- البقرة:۲، آیت:۷۲،۸۲،۹۲،۰۳- تفصیل کے لیے دیکھئے:۰۱ رکوع تا ۵۱ رکوع-۲۶- اقبال، ڈاکٹر علامہ اقبال، ”اسرار و رموز“ ، کلیات اقبال(فارسی) ، ص: ۰۰۱/۰۰۱-۳۶- چستی، یوسف سلیم، ”شرح جاوید نامہ“، عشرت پبلشنگ ہاﺅس، لاہور، ص:۹۸۷،۰۹۷-۴۶- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”البدایة والنہایة“، ج: ۱، ص:۱۲۲-۵۶- کرم شاہ، پیر محمد، ”ضیاءالقرآن“ ج:۳، ص:۸۸-۶۶- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۷۲۶-۷۶- منصور پوری، قاضی محمد سلیمان، سلمان، ”رحمة اللعالمین“ ج:۲، ص:۳۵-۸۶- الکاشفی، مولانا معین الدین واعظ، ”معارج النبوة“ ج:۱،ص:۷۲۶- ادارہ تصنیف و تالیف، ”انوار الانبیائ“ ، ص:۵۶-۹۶- ابن کثیر، ابو الفداءعماد الدین دمشقی، ”قصص الانبیائ“(عربی)، ص:�

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔