جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیربےنیام از عنایت اللہ دوسرا حصہ

0 comments
شمشیر بے نیام۔۔خالد بن ولید رضی اللہ عنہ-الله کی  تلوار- پارٹ - ٹو
اس کے پیچھے عکرمہ کے دو سوار اکھٹے چلے آ رہے تھے۔ خندق کے کنارے پر آکے دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کر دی تھیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔اہلِ قریش کے لشکر نے داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ اس شور سے مسلمان پہرے دار دوڑے آئے،اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑھ لگا دی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔’’ٹھہر جاؤ !‘‘عکرمہ نے مسلمان سنتریوں کو بلند آواز میں کہا۔’’ کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا۔محمد )ﷺ(کو بلاؤ۔ تم میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ۔ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرا لے تو ہم سب کو قتل کر دینا۔خدا کی قسم! ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی بپا ہو چکی تھی ۔ایک شور تھا ’’قریش اور غطفان نے خندق عبور کر لی ہے۔مسلمانوں تمہارے امتحان کا وقت آ گیا ہے ۔ تفصیل سے پڑھئے
ہوشیار…… خبردار……دشمن آگیا ہے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔آپﷺ نے دیکھ لیا تھا کہ اہلِ قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مزاق بھی اڑا رہے تھے۔ پھبتیاں بھی کس رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓبھی تھے ۔آپﷺ نے صورتِ حل کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کیلئے آیا ہے۔آپﷺ کو اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔’’قسم نے ہبل اور عزیٰ کی!‘‘عمرو نے للکار کر کہا۔’’تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آ رہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے۔‘‘مؤرخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہو گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا۔لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے۔اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گرا سکا ہے نہ کوئی گرا سکے گا۔ابو سفیان خندق کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا ۔خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا اور نعیم ؓبن مسعود بھی غیر مسلموں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔‘‘عمرو بن عبدو کی للکار ایک بار پھر گرجی۔خندق کے پارقریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔حضرت علیؓ نے رسولِ خداﷺکی طرف دیکھا ۔آپﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علیؓ کے سر پر باندھ دیا پھر اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دی۔مؤرخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کی سرگوشی سنائی دی۔’’ علی کا مدد گار تو ہی ہے میرے اﷲ!‘‘مؤرخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسولِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی، لکھا ہے کہ ’’یہ تلوار قریش کے مشہور جنگجو منبّہ بن حجاج کی تھی۔وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضورﷺ کو پیش کی تھی ۔آپﷺ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی ،اب آپﷺ نے وہی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔یہ تلوار تاریخ ِاسلام میں ’’ذوالفقار ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔حضرت علیؓ، عمرو بن عبدو کے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔’’ابو طالب کے بیٹے!‘‘ عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا۔حضرت علیؓ سے مخاطب ہوا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا؟کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہو گا۔کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کردوں۔‘‘’’اے میرے باپ کے دوست!‘‘حضرت علیؓ نے للکارکر جوا ب دیا ۔’ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے۔ خدا کی قسم! میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ اﷲ کو برحق اور محمدﷺ کو اﷲ کا رسول تسلیم کرلواور ہم میں شامل ہو جاؤ۔‘‘’’تم نے ایک بار کہہ لیا ہے ۔‘‘عمرو نے کہا۔’’ میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘’’میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!‘‘حضرت علیؓ نے کہا ۔’’اتر گھوڑے سے اور آ میرے مقابلے پہ۔اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے اﷲ کے رسولﷺ نے عطا کی ہے۔‘‘عمرو کے متعلق مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔ جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضب ناک ہو کر درندوں جیسا ہو جاتا تھا۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی ؓپر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کو کاٹ دیا ہے۔لیکن حضرت علی ؓیہ بھرپور وار بچا گئے۔اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علیؓ پر متعدد وار کیے۔ حضرت علیؓ نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکتی۔تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اورپھر تی کا مظاہرہ حضرت علی ؓکر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا ۔کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا،اگروہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسے رفتار نہیں تھی۔اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی۔حضرت علیؓ نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھاہو گا ۔وہ وار پہ وار کرتا رہا اور حضرت علیؓ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوتے رہے۔ خندق کے پار اہلِ قریش کا لشکر جو قہقہے لگا رہا تھا ،یک لخت خاموش ہو گیا۔کیونکہ ان کا دیو قامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا،اور خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔وہ ہانپ رہا تھا۔وہ غالباً حیران تھا کہ کہ یہ نوجوان جو قد بت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ہے اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا۔دراصل عمرو تھک گیا تھا۔ حضرت علیؓ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علیؓ نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے ،اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔اس کے ساتھ ہی حضرت علیؓ نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گرا۔اس نے اپنی گردن چھڑانے کیلئے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علیؓ کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔حضرت علی ؓنے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بند سے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہہ رگ پر رکھ دی ۔’’اب بھی میرے اﷲ کے رسول ﷺپر ایمان لے آ تو میں تیری جان بخشی کر دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے کہا۔عمرو بن عبدونے جب دیکھاکہ اس کی وہ طاقت جس سے اہلِ عرب لرزتے تھے بے کار ہو گئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علیؓ کہ منہ پر تھوک دیا۔دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علیؓ خنجر سے اس کی شہ رگ کاٹ دینے کے بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے خنجر کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا،عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی ؓاسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علیؓ بڑے آرام سے پیچھے ہٹے ۔’’عمرو!‘‘ حضرت علی ؓنے کہا۔’’میں نے اﷲ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا ہے لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کر دی ہے۔میں تجھے ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل نہیں کروں گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے خدا کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…… جا یہاں سے۔ اپنی جان لے کر واپس چلا جا۔‘‘عمرو بن عبدو شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ میدان میں ا س کی یہ پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کر سکا ۔ا س نے اپنی ہار کوجیت میں بدلنے کیلئے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علیؓ پر جھپٹ پڑا۔حضرت علیؓ اس حملے کیلئے تیارنہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کیلئے رسولِ خداﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علیؓ کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال آگے کر دی۔ عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ڈھال حضرت علی ؓکے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا۔ عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی ؓکی وہ تلوار جو انہیں رسولِ کریمﷺ نے دی تھی ،اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی۔گردن پوری نہ کٹی لیکن شہہ رگ کٹ چکی تھی۔ عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کاجسم ڈولنے لگا۔حضرت علیؓ نے ا س پردوسرا وار نہ کیا۔انہو ں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں، اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا۔عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی۔خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مر گیا ہو۔اب مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کر دیا تھا۔ قریش کے ان سواروں کیلئے بھاگ نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ خیریت سے پسپا ہونے کیلئے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کاایک آدمی مارا گیا۔عکرمہ نے اپنا ایک گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کیلئے ایڑھ لگائی ۔خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی۔ان میں سے ایک سوار جس کا نام ’’خالد بن عبداﷲ‘‘ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ۔اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جا پڑا۔وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑکر دی اور وہ وہیں ختم ہو گیا۔رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جا سکتی تھی۔دوسرے دن خالد اپنے گھڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبورکرنے کو چل پڑا۔’’خالد رک جاؤ!‘‘ابو سفیان نے اسے کہا۔’’کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کاانجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کر دیا ہوگا۔‘‘’’کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کے بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ؟‘‘خالد نے کہا۔’’اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہو گا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے۔‘‘’’میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست! ‘‘عکرمہ نے خالد سے کہا۔’’لیکن میری ایک بات سن لو۔اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جا رہے ہو تو رک جاؤ۔تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ۔‘‘آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آ رہے تھے ۔اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ،نہ عبور کر سکا تو بھی مارا جائے گا ،کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ ۱۶مارچ ۶۲۷ء کے دن کا تیسرا پہر تھا۔خالد چند ایک منتخب سوارو ں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔اس نے خندق پھلانگنے کیلئے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔انہوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا،اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جا رکا۔خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑااور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے چلے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا۔لیکن مسلمانوں نے تیر اندازی میں اضافہ کر دیا۔مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلا رہے تھے۔خالد کو پسپا ہونا پڑا۔خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو۔مؤرخین جن میں ابنِ ہشام اور ابنِ سعد قابلِ ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ’’ یہ خالدکی ایک چال تھی۔اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کر لیے۔اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار اِدھر ُادھر ہوجائیں گے ۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہاں اسے کوئی پہرے دار نظر نہ آیا۔اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی طرف موڑ کر سَر پٹ دوڑادیا۔خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ان میں خالد سب سے آگے تھا۔مسلمان پہرے داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پاس تھے۔ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔خالد اور اس کے سواروں کیلئے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے۔ ان میں سے ایک مارا گیا۔خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا ۔اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہو گیا ۔آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔ اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی۔عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالارِ اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا ۔خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے، یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے ۔اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلا دیا جو اہلِ قریش کے تیر اندازوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک دن صبح سے شام تک چلا۔‘‘
اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد )ﷺ(کو شکست دینے آئے تھے وہ محمد)ﷺ( کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ خداکے رسولﷺ تھے۔ خدا نےانہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی۔ آپﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔خدا اپنے رسولﷺ کو کیسے مایوس کرتا؟ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں؟۱۸ مارچ ۶۲۷ء بروز منگل مدینہ کی فضاء خاموش ہو گئی۔سردی خاصی تھی، ہوا بند ہو گئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ اچانک آندھی آ گئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے۔مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی۔ ا س لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو ۔قریش کھلے میدان میں تھے۔ آندھی ان کا سامان اڑارہی تھی ،خیمے اُڑ گئے یا لپیٹ دیئے گئے تھے ۔لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ان کیلئے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی ۔اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا۔ابو سفیان برداشت نہ کر سکا ،وہ اٹھا اسے اپنا گھوڑا نظر نہ آیا۔قریب ہی ایک اونٹ بیٹھاتھا۔ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا۔مؤرخ ابنِ ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا۔’’اے اہلِ قریش! اے اہلِ غطفان ! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔آندھی ہمارا بہت نقصان کر چکی ہے۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے۔مکہ کو کوچ کرو، میں جا رہا ہوں……میں جا رہا ہوں۔‘‘اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑا دیا۔خالد کو آج وہ منظر یاد آ رہا تھا۔تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جا رہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کر دیں، چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھاتھا ۔ابو سفیان نے ایسے حفاظتی اقدام کی سوچی ہی نہیں تھی۔اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے اور اس لشکر میں نعیمؓ بن مسعود بھی نہیں تھے۔قریش کا لشکر چلا تو نعیم ؓ آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اتر گئے اور رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے۔آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جا رہا تھا جس راستے سے ا سکا لشکر ناکام واپس گیا تھا۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی ۔ آندھی نے تاریخِ اسلام کا رخ موڑ دیا۔آندھی نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔رسولِ خداﷺ کے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی۔جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جا سکتی تھی۔جس دشمن کوخدا نے بھگا دیا تھا اس کے پیچھے جانا دانشمندی نہیں تھی۔البتہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کر دیا گیا تھاکہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جا کر رک جائے اور منظم ہو کر واپس آجائے۔آندھی اتنی مٹی اور ریت اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔بہت دیر بعد تین ،چا رمسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالدکے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی۔وہ دور تک چلے گئے انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔وہ رک گئے لیکن واپس نہ آئے۔شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیااور جھکڑ تھم گئے ۔فضاء صاف ہو گئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے۔ وہ اہلِ قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ گرد مکہ کو جا رہی تھی۔ تعاقب میں جانے والے مسلمان سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہو چکی تھی۔’’خدا کی قسم!‘‘انہوں نے واپس آ کر بتایا۔’’وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے،وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے۔کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے۔کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے رہتے ہیں؟وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلد ی پہنچنا چاہتے ہوں۔‘‘احادیث،اور مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق رسولِ کریمﷺ کو جب یقین ہو گیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہو چکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آ جائے گا ،تب آپﷺ نے کمر سے تلوار کھولی،خنجر اتار کر رکھ دیا اور اﷲ کا شکر ادا کر کے غسل کیا۔ اس رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا،وہ مدینہ والوں کیلئے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ہر طرف اﷲ اکبر اور خوشیوں کے نعرے تھے۔سب سے زیادہ خوشی عورتیں اور بچے منا رہے تھے۔جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا۔وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔
فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے۔رسولِ کریمﷺ نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں۔ظاہری طور پروہ مسلمانوں کو اپنا دوست کہتے،اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔اہلِ قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعے نما مکان میں بیٹھا تھا۔ا سکے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اُس وقت کی غیر معمولی طورپر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔وہ گذشتہ شام اہلِ قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کیلئے مانگو۔اس نے یہ بھی کہا تھاکہ قریش اس سے دگنالشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کر سکتے۔میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کر لیا تھاکہ وہ اہلِ قریش میں سے ہے۔‘‘’’وہ اہلِ قریش میں سے نہیں۔‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے۔‘‘’’خدائے یہودہ کی قسم!تمہاری بات سچ نہیں ہو سکتی۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’وہ اہلِ قریش کے ساتھ آیا تھا۔‘‘’’مگر ان کے ساتھ گیا نہیں۔‘‘اسی یہودی نے کہا۔’’میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس وقت تک ا ہلِ قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جا چکا تھا۔‘‘’’پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمد)ﷺ( کے پیروکاروں میں سے ہے؟‘‘کعب نے کہا۔’’میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھا نہیں۔‘‘’’میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا،کیا مسلمان اب قریش کے جنگی قیدیوں کو کھلا رکھتے ہیں؟میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے۔اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے۔‘‘ ’’پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ،ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے۔اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو……‘‘’’تو مسلمان ہمارے دشمن ہو جاتے۔‘‘ایک اور یہودی نے کہا۔’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نہ کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں،ہمیں محمد)ﷺ( کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمد)ﷺ( ہمیں ختم کرا دے گا۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں ،کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے؟‘‘تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ،کہا۔’’ہمیں اس کے آگے بندھ باندھنا ہے۔اسے روکنا ہے۔‘‘’’لیکن کیسے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قتل۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’محمد)ﷺ( کا قتل۔‘‘’’ایسی جرات کون کرے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔اگر وہ محمد)ﷺ( کے قتل میں ناکام ہو گیا تو بنو قینقاع اوربنو نضیر کا انجام دیکھ لو،مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اور ان میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دوردراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو۔‘‘’’خدائے­یہودہ کی قسم!‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں،تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور’’ لیث بن موشان‘‘ بہت پہلے سوچ چکے ہیں ۔کوئی یہودی محمد)ﷺ( کو قتل کرنے نہیں جائے گا۔‘‘’’پھر وہ کون ہو گا؟‘‘’’وہ قبیلۂ قریش کا ایک آدمی ہے۔‘‘بوڑھے یہودی نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان نے اسے تیارکر لیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ کام کر دیا جائے۔‘‘’’اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظۃ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہوکہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کواتنے خطرناک کام کیلئے کیسے تیار کیا گیا ہے؟کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے؟خالدبن ولید نے تیار کیا ہے؟‘‘’’سنو کعب!‘‘بوڑھے یہودی نے کہااور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا۔’’میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا؟‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘‘’’ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ ’’وہ یہیں ہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔’’ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد )ﷺ(کو قتل کرے گا۔اب ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوسرے قبائل اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے مگر ہر میدا ن میں انہوں نے شکست کھائی ۔ہم نے انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے اکسایا تھا وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے۔ خدائے یہودہ کی قسم! کعب تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہ کرکے بہت برا کیا ہے۔‘‘’’میں اس کی وجہ بتا چکا ہوں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’وجہ صحیح تھی یا غلط۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ‘‘اس نے یوحاوہ سے کہا۔’’لیث بن موشان کو بلاؤ دوسرے کو ابھی باہر رکھو۔‘‘یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا ۔وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی،اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ،اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصاتھاجو اوپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا۔لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہرت حاصل تھی۔شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا ۔وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں،جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کیلئے زندہ کر سکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے ۔وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل شخص تھا۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔’’خاندانِموشان کی عظمت سے کون واقف نہیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے۔‘‘’’میں پیغمبر نہیں، کعب بن اسد!‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کاوقت بھی نہیں۔کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا۔تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کر چکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کر لیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘’’معزز موشان ‘‘کعب بن اسدنے کہا۔’’ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی۔اگر ہم محمد )ﷺ(کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے۔ہم اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کو استعمال نہیں کر سکتے۔
س پر اس خواب کا ایسااثر ہوا کہ وہ لیث بن موشان کے پاس چلا گیا اوراس سے خواب کی تعبیر پوچھی۔لیث بن موشان نے اسے بتایا کہ وہ اپنی کمسن بیٹی یوحاوہ کو اسلام کی جڑیں کاٹنے کیلئے وقف کردے۔اس بوڑھے یہودی جادوگر نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے )یعنی نبی کریمﷺ( وہ اس لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوں گے ،یا یہ لڑکی ان کی نبوت کے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔اس نے یوحاوہ کے باپ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوحاوہ کو اس کے پاس لے آئے۔یوحاوہ کو لیث بن موشان کے حوالے کردیا گیا۔’’میں نے اس لڑکی کی تربیت کی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے یوحاوہ کی بات کاٹ کر کہا۔
’’خدائے یہودہ نے اسے جو حسن اور جو جسم دیا ہے،یہ ایک دلکش تلوار ہے یا اسے بڑا میٹھا زہر سمجھ لیں۔اس نے قریش کو مسلمانوں سے ٹکرانے میں جو کام کیا ہے وہ تم میں سے کوئی نہیں کر سکتا۔چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سرداروں کو اس لڑکی نے قریش کا اتحادی اور محمد)ﷺ( کا دشمن بنایا ہے۔ اب اس نے محمد )ﷺ(کے قتل کا جو انتظام مجھ سے کرایا ہے وہ اسی سے سنو۔‘‘یوحاوہ نے سنایا کہ لیث بن موشان نے اس میں ایسی جرات اور ایسی عقل پیدا کر دی کہ وہ مردوں پر اپنے حسن کا جادو چلانے کی ماہر ہو گئی۔حسین لڑکی ہوتے ہوئے اس میں مردوں جیسی جرات آ گئی تھی۔)لیکن اس کا استاد اسے یہ نہ بتا سکا کہ جس نئے عقیدے کو روکنے کا اور جس شخصیت کے قتل کا انہوں نے ارادہ کررکھا ہے ۔وہ عقیدہ خدا نے اتارا ہے اور ااس شخصیت کو خدا نے اس عقیدے کے فروغ کیلئے رسالت عطا کی ہے۔(یوحاوہ کی تربیت ایسی ہی ہوئی کہ وہ اپنے مذہب کو دنیا کا واحد سچا مذہب سمجھتی رہی،اور یہ نہ سمجھ سکی کہ حق پرستوں پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے خدا نے اسے آندھی میں تنہا پھینک دیا لیکن وہ خدا کا یہ اشارہ سمجھ نہ سکی،کہاں وہ جرات کے مقابلے میں اپنے آپ کو مردوں کے برابر سمجھتی تھی،کہاں وہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی بن گئی۔وہ مرد کے جسم سے ناآشنا نہیں تھی،جرید بن مسیّب کا جسم بھی ایک مرد کا ہی جسم تھا لیکن اس جسم کو وہ مقدس اور پاک سمجھنے لگی اور جرید اسے فرشتہ لگنے لگا۔وجہ یہ تھی کہ وہ اس کے حسین چہرے،ریشم جیسے بالوں،اور دلکش جسم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا تھا۔یوحاوہ پر جرید کے اس رویے کا یہ اثر ہواکہ وہ جرید کے جسم میں کشش محسوس کرنے لگی۔
مکہ دور نہیں تھا۔شام کے بعد جب رات گہری ہو چکی تھی،جرید نے یوحاوہ کو اس کے گھر پہنچا دیا۔یوحاوہ کے قلعہ نما مکان کا دروازہ کھلا تو اس کا باپ پریشان نظر آیا۔اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی بیٹی زندہ واپس آجائے گی۔انہوں نے جرید کو روک لیا اور شراب سے اس کی تواضع کی،جرید جب چلا گیا تو یوحاوہ نے اپنی ذات میں خلاء محسوس کیا۔
دوسرے ہی روز اس نے جرید کو پیغام بھیجا کہ اسے ملے،جرید آگیا۔یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔جرید نے یہ ملاقات جذبات تک ہی رکھی۔اس کے بعد ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور جرید کے دل میں بھی یوحاوہ کی محبت پیدا ہو گئی۔یہ محبت پاک رہی۔یوحاوہ حیران تھی کہ اس کے اندر پاکیزہ اور والہانہ محبت کے جذبات موجود ہیں۔ایک روز جرید نے یوحاوہ سے پوچھا کہ ’’وہ اس کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟‘‘’’نہیں!‘‘ یوحاوہ نے جواب دیا۔’’میں تمہارے جسم کی پوجا کرتی ہوں۔شادی ہو گئی تو جذبات مر جائیں گے۔‘‘’’میری بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔‘‘جرید نے اسے کہا۔’’میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘یوحاوہ سوچ میں پڑ گئی۔وہ جرید بن مسیّب کی یہ خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔اسے ایک رستہ نظر آگیا۔’’ہمارا ایک بزرگ ہے لیث بن موشان ۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس کے پاس کوئی علم ہے۔اس کے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے۔مجھے امید ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل کے زور سے تمہیں اسی بیوی سے بیٹا دے گا۔تم میرے ساتھ چلو وہ میرا اتالیق ہے۔‘‘جرید بن مسیّب اس کے ساتھ لیث بن موشان کے پاس جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ان کی دوستی دو آدمیوں یا دو عورتوں کی صورت اختیا رکر گئی تھی۔وہ جب اکھٹے بیٹھتے تو رسولِ کریمﷺ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔اسلام کے فروغ کو روکنے کے منصونے بھی بناتے تھے۔لیکن جرید مسلمانوں کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوتا تھا۔یوحاوہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں تھی۔وہ اسے اُکساتی اور بھڑکاتی تھی۔’’میرا مذہب تم ہو۔‘‘جرید بن مسےّب نے اسے ایک روز فیصلے کے لہجے میں کہہ دیا تھا۔’’تم میری بیوی نہیں بن سکتیں تو نہ سہی،میں تمہیں دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘’’میں تمہیں ایک راز بتا دیتی ہوں جرید!‘‘یوحاوہ نے اسے کہا تھا۔’’میں کسی کی بھی بیوی نہیں بنوں گی۔میرے باپ نے میری زندگی یہودیت کیلئے وقف کردی ہے۔لیث بن موشان نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ دشمن پیدا کروں۔میرے دل میں اپنے مذہب کے بعد صرف تمہاری محبت ہے ۔مجھے تم اپنی ملکیت سمجھو۔‘‘
ایک روز جرید یوحاوہ کے ساتھ لیث بن موشان سے ملنے اس کے پاس چلا گیا۔یوحاوہ اسے لیث بن موشان کے سامنے لے جانے کے بجائے پہلے خود اندر گئی اور اس نے لیث کو صاف الفاظ میں بتایا کہ وہ جرید کو محبت کا دیوتا سمجھتی ہے۔ اس نے لیث بن موشان کو بتایا کہ جرید نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا۔اس نے لیث کو بتایا کہ جرید کی بیٹیاں ہیں ،بیٹا ایک بھی نہیں۔’’کیا آپ کے علم میں اتنی طاقت ہے کہ جرید کی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو؟‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’کیا نہیں ہو سکتا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’پہلے میں اسے دیکھوں گا، پھر میں بتا سکوں گا کہ مجھے کیا کرنا پڑے گا۔اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘یوحاوہ نے اسے اندر بھیج دیا۔اور خود باہر کھڑی رہی۔بہت سا وقت گزرجانے کے بعد لیث بن موشان نے جریدکو باہر بھیج کر یوحاوہ کو اندر بلالیا۔’’جو شخص تم جیسی خوبصورت اور دل کش لڑکی کے ساتھ اتنا عرصہ پاک محبت کر سکتا ہے وہ بہت ہی مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یا وہ اس قدر کمزور شخصیت کا ہو سکتا ہے کہ تمہارے حسن کا جادو اپنے اوپر طاری کرکے تمہارا غلام ہو جائے۔‘‘’’جرید مضبوط شخصیت کاآدمی ہے۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’جرید کی ذات بہت کمزور ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں نے تمہارے متعلق اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔میں نے اس کی ذات میں اتر کر معلوم کر لیا ہے۔یہ شخص تمہارے طلسم کا اسیر ہے۔‘‘’’مقدس اتالیق! ‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’آپ اس کے متعلق ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟میں اسے ایک بیٹا دینا چاہتی ہوں ۔مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں نے یہ بھی سوچ رکھاہے کہ میں اس کے بیٹے کو جنم دوں گی۔‘‘’’نہیں لڑکی!‘‘ بوڑھے لیث نے کہا۔’’تمہاری کوکھ سے اس کا بیٹا جنم نہیں لے گا۔یہ شخص ذریعہ بنے گا اس فرض کا جو خدائے یہودہ نے مجھے اور تمہیں سونپا ہے۔‘‘یوحاوہ خاموشی سے لیث بن موشان کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔’جسے تم اپنی محبت کا دیوتا سمجھتی ہو، وہ اس شخص کو قتل کرے گا جو کہتا ہے کہ اسے خدا نے نبوت دی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’جرید سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہو گا۔‘‘ ’’کیا آپ پیشن گوئی کر رہے ہیں؟‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’یہ کس طرح قتل کرے گا؟‘‘’’اسے میں تیار کروں گا۔‘‘’’یہ تیارنہیں ہو گا۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’ یہ کہا کرتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔محمد )ﷺ(کو یہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا ،قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’یہ سب کچھ کرے گا۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’اس کے ذہن پر میرا قبضہ ہوگا۔تم میرے ساتھ ہو گی ۔تین روز تک یہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکے گا۔جب ہم اسے باہر نکالیں گے تو یہ ایک ہی بات کہے گا۔کہاں ہے خدا کا نبی۔وہ ہم میں سے ہے ۔میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا۔‘‘’’مقدس باپ! ‘‘یوحاوہ نے رندھیائی ہوئی آواز میں التجا کی۔’’جرید مارا جائے گا۔یہ واحد شخص ہے ……‘‘’’خدائے یہودہ سے بڑھ کر محبت کے لائق کوئی نہیں ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’تمہیں یہ قربانی دینی ہو گی۔جرید اب مکہ کو واپس نہیں جائے گا۔‘‘پھر یوحاوہ بھی مکہ کو واپس نہ گئی ۔جرید بن مسیّب بھی نہ گیا۔بوڑھے لیث نے دونوں کو تین دن اور تین راتیں ایک کمرے میں بند رکھا ۔جرید کو اپنے سامنے بٹھاکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں پھر اسے کچھ پلایااور زیرِلب کچھ بڑ بڑانے لگا۔اس نے یوحاوہ کو نیم برہنہ کرکے اس کے ساتھ بٹھادیا۔ لیث یوحاوہ کو جو کہتا رہا وہ کرتی رہی۔’’یہ ضروری نہیں کہ میں تم سب کو یہ بھی بتاؤں کہ میں نے جرید کے ذہن اور اس کی سوچوں کو کس طرح اپنے قبضے میں لیا ہے۔‘‘ لیث نے کہا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں تم اسے خود دیکھ لو۔‘‘’’لیث بن موشان نے یوحاوہ کو اشارہ کیا۔‘‘یوحاوہ باہر چلی گئی اور جرید بن مسیّب کو اپنے ساتھ لے آئی۔جرید نے اندر آ کر سب کو باری باری دیکھا۔’’وہ یہاں نہیں ہے ۔‘‘جرید نے کہا۔’’میں اسے پہچانتا ہوں وہ ہم میں سے ہے ۔وہ یہاں نہیں۔‘‘’’ذرا صبر کرو جرید!‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ہم تمہیں ا س تک پہنچائیں گے کل……کل جرید ……بیٹھ جاؤ۔‘‘جرید یوحاوہ کیساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا۔اگلی صبح جب مدینہ میں لوگ فتح کی خوشیاں منا رہے تھے اور کعب بن اسد کے گھر رسولِ اکرمﷺ اور اسلام کے خلاف بڑی ہی خطرناک سازش تیار ہو چکی تھی۔رسولِ کریمﷺ کو یاد دلایا گیا کہ بنو قریظہ نے جس کا سردار کعب بن اسد تھا مدینہ کے محاصرے کے دوران اہلِ قریش اور غطفان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جسے نعیمؓ بن مسعود نے بڑی دانشمندی سے بیکار کر دیاتھا۔ یہ واقعہ بھی دو چار روز پہلے کا تھا جس میں رسول اﷲﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے ایک یہودی مخبر کو قتل کیا تھا۔ یہ مخبر اس چھوٹے سے قلعے میں داخل ہونے کا رستہ دیکھ رہا تھا ۔جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے بچوں کورکھا گیا تھا ۔اس یہودی نے ایک عورت کو اپنے مقابلے میں دیکھ کر بڑے رعب اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ وہ یہودی ہے اور مخبری کیلئے آیا ہے۔حضرت صفیہ ؓ نے اس کی تلوار کا مقابلہ ڈنڈے سے کیا اور اسے ہلاک کر دیا تھا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ کسی صحابی نے للکار کرکہا۔’’ان یہودیوں پر اعتبار کرنا اور ان کی بد عہدی پر انہیں بخش دینا، ایسا ہی ہے جیسے اپنا خنجر اپنے ہی د ل میں اتا رلیا جائے۔‘‘’’عبداﷲ بن محمد بن اسماء اور نافع حضرت ابنِ عمرؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ معرکۂ خندق کے خاتمے پر رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں ہر کوئی نمازِ عصر بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔‘‘ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت انسؓ ہیں ،انہوں نے کہاتھا میں اب تک لشکرِجبرئیل کا گرد و غبار بنو غنم میں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسولِ کریمﷺ بنو قریظہ کو بدعہدی اور دھوکادہی کی سزا دینے گئے تھے۔
تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے چڑھائی کردی اور بنو قریظہ کی قلعہ بند بستی کو محاصرے میں لے لیا۔احادیث کے مطابق سعدؓ بن معاذکو بنو قریظہ کے سرداروں کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اپنی بد عہدی کی سزا خود تجویز کریں ۔سعدؓ بن معاذ زخمی تھے۔ خندق کی لڑائی میں انہیں قبیلہ قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ کی برچھی لگی تھی۔لیث بن موشان ،یوحاوہ اور یہودیوں کے تین چار سرکردہ آدمی ابھی تک کعب بن اسد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔جرید بن مسےّب بھی وہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سازش کاوقت رات کا مقررکیا ۔لیکن ایک یہودی دوڑتا ہوا اندر آیا۔
’’مسلمان آ رہے ہیں۔‘‘اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئے آواز میں کہا۔’’صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوست بن کر نہیں آ رہے۔گرد بتا رہی ہے کہ وہ چڑھائی کرکے آ رہے ہیں۔گرد دائیں بائیں پھیل رہی ہے۔ دیکھو…… اٹھو اور دیکھو ۔‘‘کعب بن اسد دوڑتا ہوا باہر نکلا اور قلعہ کے برج میں چلا گیا ۔وہاں سے دوڑتا اترا اور لیث بن موشان کے پاس پہنچا۔ ’’مقدس موشان!‘‘کعب بن اسد نے کانپتی ہوئے آوا زمیں کہا ۔’’کیا آپ کا جادو ان برچھیوں اور تلواروں کو توڑ سکتا ہے؟جو ہمیں قتل کرنے آ رہی ہیں۔‘‘’’روک سکتا ہے ۔‘‘بوڑھے لیث بن موشان نے کہا۔’’اگر محمد)ﷺ( کا جادو زیادہ تیز ہوا تو میں مجبور ہوں گا۔ تم اوپر جاکر کیا دیکھ آئے ہو؟‘‘’’خدائے یہودہ کی قسم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’یہ مخبری نعیم بن مسعود نے کی ہے۔مجھے معلوم نہ تھا کہ و ہ مسلمان ہو چکا ہے۔مسلمان محاصرے کی ترتیب میں آ رہے ہیں۔ ہم نکل نہیں سکیں گے۔‘‘
’ان دونوں کو نکال دو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یوحاوہ جرید کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ۔میں تمہارے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں۔‘‘’’آپ اوپر کیوں نہیں جاتے لیث بن موشان؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’آپ کا وہ علم اور وہ جادو کہاں گیاجو آپ ……‘‘’’تم اس راز کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ موسیٰ نے فرعون کو ایک دن میں ختم نہیں کر دیا تھا۔ یہ عصا جو تم میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو، وہی ہے جو موسیٰ نے دریا میں مارا تھاتو پانی نے انہیں رستہ دے دیا تھا۔یہ عصاکا کرشمہ تھاکہ فرعون کا لشکر اور وہ خود دریا میں ڈوب کر فنا ہو گیا تھا۔جس طرح موسیٰ اپنے قبیلے کو مصر سے نکال لائے تھے اسی طرح میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘یوحاوہ اور جرید بن مسیّب پچھلے دروازے سے نکل گئے اور لیث بن موشان بھی نکل پڑا۔مسلمان جب بنو قریظہ کی بستی کے قریب آئے تو عورتوں اور بچوں میں ہڑبونگ بپا ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو بھاگے جا ہے تھے۔ کوئی آدمی مقابلے کیلئے باہر نہ آیا۔جو مسلمان ٹیکریوں کی طرف سے محاصرے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے انہیں دو آدمی اور ایک عورت نظر آئی ۔تینوں بھاگے جا رہے تھے۔ آدمی جو بوڑھا تھا اور عورت، اپنے ساتھی کو گھسیٹ رہے تھے۔ وہ پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھتا اور آگے نہیں چلتاتھا ۔وہ لیث بن موشان ،جرید اور یوحاوہ تھے۔لیث نے جرید کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے رسولِ کریمﷺ کے قتل پر آمادہ کر لیا تھا لیکن اب جرید اس کیلئے مصیبت بن گیا تھا۔ وہ اس عمل کے زیرِاثر تھا جسے آج ہپناٹزم کہا جاتا ہے،یوحاوہ اپنی محبت کی خاطر اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی ۔اسے یہی ایک خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرید مسلمانوں کے ہاتھوں مار اجائے گا۔اور لیث ،جرید کواس لیے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں تھاکہ اسے کسی اور موقع پر رسول اﷲ ﷺ کے قتل کیلئے استعمال کرے گا۔لیکن جرید لیث کے عمل ِ تنویم کے زیرِ اثر بار بار کہتا تھا’’ کہاں ہے وہ جو اپنے آپ کو خدا کانبی کہتا ہے ؟وہ ہم میں سے ہے۔ وہ میرے ہاتھوں قتل ہو گا۔مجھے چھوڑ دو مجھے مدینہ جانے دو۔‘‘ایک مسلمان نے ٹیکری پر کھڑے ہوکر انہیں للکارا اور رکنے کو کہا۔لیث اور یوحاوہ نے پیچھے دیکھا اور وہ جرید کواکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ۔جرید نے تلوار نکال لی۔’’کہاں ہے محمد ؟‘‘جرید نے تلوار لہرا کر ٹیکری کی طرف آتے ہوئے کہا۔’’وہ ہم میں سے ہے۔ میں اسے پہچانتا ہوں ،میں اسے قتل کروں گاجس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔یوحاوہ میری ہے۔‘‘ وہ للکارتا آ رہا تھا۔’’یوحاوہ ہبل اور عزیٰ سے زیادہ مقدس ہے۔ سامنے لاؤ اپنے نبی کو ……‘‘کون مسلمان اپنے اﷲ کے رسول ﷺکی اتنی توہین برداشت کرتا ؟جس مسلمان نے ان تینوں کوللکارا تھا اس نے کمان میں تیر ڈالا اور دوسرے لمحے یہ تیر جرید بن مسےّب کی دائیں آنکھ میں اتر کر کھوپڑی کے دور اند رپہنچ چکا تھا۔جرید کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ دائیں آنکھ پر چلا گیااور اس نے تیر کو پکڑ لیا ۔وہ رک گیا۔ اس کا جسم ڈولا پھر ا سکے گھٹنے زمین سے جا لگے ۔اس کا وہ ہاتھ جس میں تلوار تھی اس طرح زمین سے لگا کہ تلوار کی نوک اوپر کو تھی۔ جرید بڑی زور سے آگے کو گرا ،تلوار کی نوک اس کی شہ رگ میں اتر گئی ۔وہ ذرا سا تڑپا اور ہمیشہ کیلئے بے حس و حرکت ہو گیا۔
سعد ؓبن معاذ جو زخمی تھے، کعب بن اسد کے دروازے پر جا رکے اور دستک دی ۔کعب نے غلام کو بھیجنے کے بجائے خود دروازہ کھولا۔’’بنو قریظہ کے سردار!‘‘ سعد ؓبن معاذنے کہا۔’’تیرے قبیلے کے بچے بچے نے دیکھ لیا ہے کہ تیری بستی ہمارے گھیرے میں ہے ۔کیا تو کہہ سکتا ہے کہ تو نے وہ گناہ نہیں کیا جس کی سزا آج تیرے پورے قبیلے کو ملے گی؟ کیا تو نے سوچا نہیں تھا کہ بد عہدی کی سزا کیا ہے؟‘‘’’مجھے انکار نہیں۔‘‘کعب بن اسد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔’’لیکن میں نے وہ گناہ کیا نہیں جو ابو سفیان مجھ سے کرانا چاہتا تھا۔‘‘’’اس لیے نہیں کیا کہ تو اس سے یرغمال میں اونچے خاندا نوں کے آدمی کو مانگتا تھا۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’اس سے پہلے تو نے اسے کہہ دیا تھا کہ تیرا قبیلہ مدینہ کے ان مکانوں پر شب خون مارے گا جس میں ہماری عورتیں اوربچے تھے۔تو نے ایک مخبر بھی بھیجا تھا بدبخت انسان ۔تو نہ سوچ سکا کہ مسلمانوں کی ایک عورت بیدار ہوئی تو وہ یہودیوں کی شیطانیت کو صرف ایک ڈنڈے سے کچل دے گی۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تمہیں نعیم بن مسعود نے خبر دی ہے کہ میں نے تم سے بد عہدی کی ہے ۔‘‘کعب بن اسد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’تم یہ جان لو کہ یہ خبر غلط نہیں۔میں نے جوکچھ کیا وہ اپنے قبیلے کی سلامتی کیلئے کیاتھا۔‘‘’’اب اپنے قبیلے کیلئے سزا خود ہی مقرر کرلو۔‘‘سعد ؓبن معاذنے کہا۔’’تو جانتا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے قبیلے کو کیا تاوان دینا پڑتا ہے۔اگر تو خود اپنی سزا کا فیصلہ نہیں کرتا تو بھی تجھے معلوم ہے کہ تیرے قبیلے کاانجام کیا ہو گا۔کیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام بھول گیا ہے؟مجھے اس زخم کی قسم !جومیں نے خندق کی لڑائی میں کھایا ہے ،تیرے قبیلے کا انجام ان سے زیادہ برا ہو گا۔‘‘’’ہاں سعد! ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں جانتا ہوں میرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ ہمارے بچے اورہماری عورتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔میرافیصلہ یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق میرے قبیلے کے تمام مردوں کو قتل کردواور ہماری عورتو ں اور ہمارے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔وہ زندہ تورہیں گے۔‘‘’’صرف زندہ نہیں رہیں گے۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’وہ خدا کے سچے نبی ﷺکی رحمت کی بدولت با عزت زندگی بسر کریں گے۔اپنے تمام آدمیوں کو باہر نکالو۔‘‘سعدؓ بن معاذ واپس آ گئے ۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’بنو قریظہ نے اپنی سزا خود مقررکی ہے۔ان میں جو آدمی لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔‘‘
سب نے دیکھاکہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بد عہدی سے بھری پڑی تھی۔اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تما م آدمیوں کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں عورتوں اور بچوں کواپنی تحویل میں لے لیا۔دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔آخر یہودیوں نے رسولِ اکرم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓبن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے بھیجا جائے۔چنانچہ سعدؓ بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیاجائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مالِ غنیمت میں لے لیا جائے۔جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعدا د چار سو تھی۔زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پانے کیلئے قلعہ سے نکل آئے۔مدینہ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنہ پردازی پر ایسی ہی سزا دی تھی ،ان قبیلوں کے بچے کچھے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے ،شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پرقبضہ کر لیا۔یہودیوں نے اس کے ساتھ بھی بدعہدی کی،اِدھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کر رہے تھے ،اُدھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتلِ عام کر رہا تھا۔ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد ؓبن معاذ کے فیصلے کو رسولِ کریمﷺ نے قبول فرما لیا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد ِ بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد ؓبن معاذ کو سینہ میں برچھی لگی تھی ،جب بنو قریظہ کو سزا دی جا چکی تو رسول اﷲﷺ کے حکم سے سعد ؓبن معاذ کیلئے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا ،تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے۔
سعدؓ بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہراُس قوم کے خلاف لڑیں جو اﷲ کے رسولﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتی ،مگر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔انہوں نے خدا سے التجا کی کہ اگر میر ے نصیب میں کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کیلئے زندگی عطا فرما اگر یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں ۔ سعد ؓبن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی۔صبح کسی نے دیکھاکہ سعد ؓبن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آ رہا تھا۔ خیمہ میں جاکر دیکھا ،سعدؓ بن معاذ شہید ہو چکے تھے۔انہوں نے خدا سے شہادت مانگی تھی، خدا نے ان کی دعا قبول کر لی۔ان کے سینے کا زخم کھل گیا تھا۔
بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی۔’’خدا کی قسم! بنو قریظہ کو اس بد عہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’اگر اس کاقبیلہ مدینہ پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کے بجائے مالِ غنیمت دیتے……کیوں خالد؟کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا؟‘‘خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو۔’’کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کر سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’بد عہد کی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے؟اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ کیلئے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘’’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی۔‘‘’’تم لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تو وہ جھنجھلا اٹھتا تھا۔ اس کے قبیلے کا سردار ابو سفیان اس سے گھبرانے لگا تھا ۔خالد اسے بزدل کہتا تھا۔خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھاکہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا۔لیکن اسے جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسولِ اکرمﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتا تھا۔ایساعسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فراست قریش میں ناپید تھی۔ خالدخود اس طرز پر لڑبنا چاھتا تھالیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا ۔آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جا رہا تھا تو اسے معرکۂ خندق سے پسپائی یاد آ رہی تھی۔اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہو رہا تھا۔اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا ۔وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن اہلِ قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے ۔آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں ۔اسے یہ خبر ابو سفیان نے سنائی تھی ۔’’مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آ رہے ہیں کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قبیلہ ٔ قریش محمد)ﷺ( سے ڈرتا ہے۔‘‘ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔’’ کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرسکتے ہیں ۔کیا قبیلہ حملہ روکنے کیلئے تیار ہے؟‘‘
’’اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے ۔تم کچھ سوچ سکتے ہو؟‘‘’’میں سوچ چکا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا۔’’مجھے تین سو سوار دے دو۔ میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا، میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا۔وہ اسی درّے سے گزر کر آئیں گے۔میں انہیں ان پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا۔‘‘’’تم جتنے سوار چاہو ،لے لو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ اور فوراً روانہ ہو جاؤ۔ ایسانہ ہو کہ وہ درّے سے گزر آئیں۔‘‘خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبر نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی ۔اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کر لیے تھے ۔مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ابو سفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے۔ وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے روانہ ہو گیا۔ خالد کچھ دیر آرام کر کے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا ۔مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیاتھا ۔خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا ۔اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے۔وہ ذہن کو اپنے قبضہ میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہو جاتا تھا ۔یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہو ئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے۔ کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی دور ہٹتی نظر آتی تھی۔گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جا رہا تھا۔سوا رنے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا ۔وہ ذرا بلند جگہ پر جا رہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلۂ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا ۔خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینہ کے مکان ابھرنے لگیں گے۔اسے ایک بار پھر خندق اور پسپائی یا د آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کاقتل بھی یاد آیا۔بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا،مگر خالد کو نہ خوشی ہوئی نہ افسوس ہوا۔’’قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کاسہارا لے کر محمد )ﷺ(کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔‘‘خالد کو خیال آیا۔ اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کر دینا چاہتا ہو۔اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں ۔اس نے دائیں بائیں دیکھا ،بائیں طرف وسیع نشیب تھا ۔خالد اوپر اوپر جا رہا تھا ۔نیچے چار اونٹ چلے آ رہے تھے۔ اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے ۔ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا، اونٹوں پر دو عورتیں چند بچے اور دو آدمی سوار تھے ۔اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔گھوڑ سوار بوڑھا آدمی تھا۔ اونٹ کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔
اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آ گیا۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔
’’تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے!‘‘بوڑھے نے بازو بلندکرکے لہرایا اور بولا ’’نیچے آ جاؤ۔کچھ دور اکھٹے چلیں گے۔‘‘خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑھ لگائی گھوڑا نیچے اتر گیا۔’’ہاہا……ہاہا ‘‘خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جا کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔’’ابو جریج !اور یہ سب تمہارا خاندان ہے؟‘‘’’ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے کہا۔’’ یہ میرا خاندان ہے۔اور تم خالد بن ولید کدھر کا رخ کیا ہے؟مجھے یقین ہے کہ مدینہ کو نہیں جا رہے۔مدینہ میں تمہارا کیاکام؟‘‘یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہا تھا۔ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ تو نہیں جا رہا ،تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا ۔’’اہلِ قریش کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’کیا یہ صحیح نہیں کہ محمد)ﷺ( کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو گا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا ۔‘‘’’سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا۔‘‘خالد نے کہا۔’’کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کرنے گئے تھے تو مدینہ والوں نے اپنے اردگرد خندق کھود لی تھی ۔‘‘خالدنے کہا ۔’’ہم خندق پھلانگ سکتے تھے۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا، عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے، دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔ مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابو سفیان تھا۔‘‘’’میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابنِ ولید!‘‘ ابو جریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا ۔خالد کے آگے کر کے کہا۔’’میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تومیں بھی ا س معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا ۔اس روز میرے آنسو نکل آ ئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہو کر لوٹا تھا۔ اگر کعب بن اسد دھوکا نہ دیتا اورمدینہ پر تین چار شب خون مار دیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی۔‘‘خالد جھنجھلااٹھا ۔اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ’’کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسےّب کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ خالد نے کہا۔’’سنا تھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسےّب میرے قبیلے کا آدمی تھا ۔کہاں ہے وہ؟’’وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتا نہیں چلا ۔میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور اس نے جرید کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔جرید بن مسےّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے لیث بن موشان اور یوحاوہ ۔‘‘
’اب صرف ایک زندہ ہے ۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’ لیث بن موشان ۔صرف لیث بن موشان زندہ ہے۔‘‘’’اور جرید اور یوحاوہ؟‘‘’’وہ بد روحیں بن گئے تھے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں ۔تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی۔ اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ کر تمہارے دل میں ہل چل نہیں ہوئی تھی اور تم اپنے اندر حرارت سی محسوس نہیں کرتے تھے توخالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینہ پر حملہ کیلئے غطفان اہلِ قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلے کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا۔یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلاتھا۔‘‘گھوڑے اور اونٹ چلے جا رہے تھے۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی گھنٹیاں بوڑھے ابو جریج کے بولنے کے انداز میں جلترنگ کا ترنم پیداکر رہی تھیں ۔خالد انہماک سے سن رہا تھا۔ ’’جرید بن مسےّب یوحاوہ کے عشق کا اسیر ہو گیا تھا۔‘‘ابو جریج کہہ رہا تھا۔’’ تم نہیں جانتے ابنِ ولید! یوحاوہ کے دل میں اپنے مذہب کے سوا کسی آدمی کی محبت نہیں تھی ،وہ جرید کو اپنے طلسم میں گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔میں لیث بن موشان کو جانتا ہوں ۔جوانی میں ہماری دوستی تھی۔ جادو گری اور شعبدہ بازی اس کے باپ کا فن تھا۔ باپ نے یہ فن اسے ورثے میں دیا تھا ۔تم میری بات سن رہے ہو ولید کے بیٹے یا اُکتا رہے ہو؟اب میں باتو ں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘خالد ہنس پڑااوربولا۔’’سنرہا ہوں ابو جریج…… غور سے سن رہا ہوں۔‘‘’’یہ تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جب ہمارے لشکر کو مسلمانوں کی خندق اور آندھی نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا کر پسپائی پر مجبور کر دیا تو محمد)ﷺ( نے بنو قریظہ کی بستی کو گھیر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’لیث بن موشان اور یوحاوہ ،جرید بن مسےّب کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے۔‘‘ ’’ہاں ہاں ابو جریج!‘‘ خالد نے کہا ۔’’مجھے معلوم ہے کہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میری باتوں سے اکتا گئے ہو ۔‘‘ابو جریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تم میری پوری بات نہیں سن رہے ہو۔‘‘’’مجھے یہ بات وہاں سے سناؤ ۔‘‘خالد نے کہا۔’’ جہاں سے میں نے پہلے نہیں سنی۔میں وہاں تک جانتا ہوں کہ جرید بن مسےّب اُسی پاگل پن کی حالت میں مارا گیا تھا جو اس بوڑھے یہودی شعبدہ باز نے اس پر طاری کیا تھا اور وہ خود یوحاوہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل بھاگا تھا۔ ’’پھر یوں ہوا……‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ اُحد کی پہاڑیوں کے اندر جو بستیاں آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں نے ایک رات کسی عورت کی چیخیں سنیں ۔تین چار دلیر قسم کے آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر تلواریں اور برچھیاں اٹھائے سر پٹ دوڑے گئے لیکن انہیں وہاں کوئی عورت نظر نہ آئی اور چیخیں بھی خاموش ہو گئیں ۔وہ اِدھر ُادھر گھوم پھر کر واپس آ گئے۔’’یہ چیخیں صحرائی لومڑیوں یا کسی بھیڑیے کی بھی ہو سکتی تھیں؟‘‘ خالد نے کہا۔
’’بھیڑیے اور عورت کی چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے ۔لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں ۔وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کیلئے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں ۔پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔جرید……جرید……کہاں ہو ؟آجاؤ۔وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے ۔ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے ۔ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔’’ لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں ۔‘‘ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے ،ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں ۔ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔جریدٹھہرجاؤ…… جرید ٹھہرجاؤ…… میں آ رہی ہوں۔ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آ رہی تھی۔ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھوڑ سواروں کو پکار رہی تھی ۔وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی ۔وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھوڑ سواروں نے ڈر کر ایڑھ لگا دی ۔’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا ۔گھوڑسواروں نے گھوڑے روک لیے ۔عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی ۔‘‘بوڑھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا ۔’’میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیرکیلئے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو،تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘
یہ قافلہ وہیں رک گیا۔’’و ہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔’’کھاؤ ولید کے بیٹے !پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہاتھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں ۔وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی ،وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔آؤ چلیں۔اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو ،تم جرید ہو۔اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں ۔وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتاہے ۔اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔
اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکالنابھول گیا۔اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھااسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے ۔وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں،اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جاسکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی ۔وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے ۔‘‘ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کیلئے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے،دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔اس نے اپنی جوانی ا پنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسکے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔یہ بھی سنا تھاکہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیاتھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھاکہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا ۔اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی ،وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتارلیاتھا۔جرید­پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘
’’میں سمجھ گیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسےّب کی موت نے پاگل کر دیا ہے ۔کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھااور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کومجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیرکیلئے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسےّب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایساتاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکہ کہتا کہ یہ ہے محمد،تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتاہے کہ محمد)ﷺ( تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔’’میں کچھ جاننا چاہتاہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں ۔یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا ۔’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔وادی آگے جاکر کھل گئی ،ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔
اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔سر الگ پڑا تھا۔اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسےّب کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیا تھا ۔‘‘خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی ۔’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ……کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘’’ہاں ۔ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد )ﷺ(کا جادوزیادہ تیز اور طاقتور ہے۔لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد)ﷺ( کے ہاتھ میں جادو ہے۔اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا۔محمد)ﷺ( کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘’’محمد)ﷺ( کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’محمد)ﷺ( کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ،محمد)ﷺ( کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کہ بھاگا۔میدانِ جنگ میں محمد)ﷺ( کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔کیا تم جانتے ہو خالد! محمد)ﷺ( کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘’’سنا تھا۔‘‘خالد نے کہا۔’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’یہودی پیٹھ پر وار کیاکرتے ہیں۔‘‘’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد )ﷺ(کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کیلئے نکل آئے۔ان میں سے بعض محمد )ﷺ(کوپہچانتے تھے۔کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔محمدبھی آیا ہے۔یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔‘‘
یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کااظہار کرنا شروع کر دیااور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں ۔انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے ۔ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ خداﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ ‘‘تھے۔یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔رسولِ خداﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔اس نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کاکون ساحصہ پسند ہے؟‘‘آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔’’مت کھانا بشر!‘‘آپﷺ نے فرمایا۔’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔’’اے یہودن!‘‘رسولِ خداﷺ نے فرمایا۔’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا ۔وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایااور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ خدا ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔مگر زہر کااثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔
’’محمد کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔‘‘خالد نے کہا۔’’آخر کب تک؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اس کا جادو کب تک چلے گا؟اسے ایک نہ ایک دن قتل ہونا ہے خالد!‘‘ابو جریج نے خالد کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا۔’’کیا تم نے محمد)ﷺ( کے قتل کی کبھی کوئی ترکیب سوچی ہے؟‘‘’’کئی بار۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’جس روز میرے قبیلے نے بدر کے میدان میں شکست کھائی تھی ،اس روز سے محمد)ﷺ( کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی ترکیب سوچ رہاہوں۔لیکن میری ترکیب کارگر نہیں ہوئی۔‘‘’’کیا وہ ترکیب مجھے بتاؤ گے؟‘‘’’کیوں نہیں۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ یہ ہے کھلے میدان میں آمنے سامنے کی لڑائی ۔لیکن میں ایک لشکر کے مقابلے میں اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ہم تین لڑائیاں ہار چکے ہیں۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ابو جریج نے قہقہہ لگا کر کہا۔’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ولید کا بیٹا بیوقوف ہو سکتا ہے۔میں یہودیوں جیسی ترکیب کی بات کر رہا ہوں۔میں دھوکے اور فریب کی بات کر رہا ہوں۔محمد )ﷺ(کو تم آمنے سامنے کی لڑائی میں نہیں مار سکتے۔‘‘’’اور تم اسے فریب کاری سے بھی نہیں مار سکتے۔‘‘خالد نے کہا۔’’فریب کبھی کامیاب نہیں ہوا۔‘‘بوڑھا ابو جریج خالد کی طرف جھکا اور اس کے سینے پر انگلی رکھ کر بولا۔’’کسی اور کا فریب ناکام ہو سکتا ہے ،یہودیوں کا فریب ناکام نہیں ہو گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فریب کاری یہودیوں کے مذہب میں شامل ہے۔میں لیث بن موشان کا دوست ہوں،کبھی اس کی باتیں سنو۔وہ دانشمند ہے اس کی زبان میں جادو ہے۔وہ تمہیں زبان سے مسحور کردے گا۔وہ کہتا ہے کہ سال لگ جائیں گے،صدیاں گزر جائیں گی،آخر فتح یہودیوں کی ہوگی۔دنیا میں کامیاب ہوگا تو صرف فریب کامیاب ہوگا۔مسلمان ابھی تعداد میں تھوڑے ہیں اس لیے ان میں اتفاق اور اتحاد ہے ۔اگر ان کی تعداد بڑھ گئی تو یہودی ایسے طریقوں سے ان میں تفرقہ ڈال دیں گے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور سمجھ نہ سکیں گے کہ یہ یہودیوں کی کارستانی ہے ۔محمد )ﷺ(انہیں یکجان رکھنے کیلئے کب تک زندہ رہے گا؟‘‘خالد اٹھ کھڑا ہوا۔ابو جریج بھی اٹھا۔خالد نے دونوں ہاتھ آگے کیے ،ابو جریج نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔مصافحہ کرکے خالد اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔’’تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مدینے۔‘‘’’مدینے؟‘‘ابو جریج نے حیرت سے پوچھا۔’’وہاں کیا کرنے جا رہے ہو؟اپنے دشمن کے پاس……‘‘’’میں محمد)ﷺ( کا جادو دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘خالد نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
اس نے کچھ دور جا کر پیچھے دیکھا۔اسے ابو جریج کا قافلہ نظر نہ آیا۔خالدنشیبی جگہ سے نکل کر دور چلا گیا تھا۔اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی۔اسے ایسے لگا جیسے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی ہوں۔’’محمد جادوگر……محمد کے جادو میں طاقت ہے۔‘‘’’نہیں ……نہیں۔‘‘اس نے سر جھٹک کر اپنے آپ سے کہا۔’’لوگ جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے اسے جادو کہہ دیتے ہیں اور جس آدمی کا سامنا نہیں کر سکتے اسے جادوگر سمجھنے لگتے ہیں۔پھر بھی……کچھ نہ کچھ راز ضرور ہے۔محمد )ﷺ(میں کوئی بات ضرور ہے۔‘‘ذہن اسے چند دن پیچھے لے گیا۔ابو سفیان نے اسے ،عکرمہ اور صفوان کو بلا کر بتایا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ابو سفیان کو یہ اطلاع دو شتر سواروں نے دی تھی جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر کو مکہ آتے دیکھا تھا۔خالد اپنی پسند کے تین سو گھڑ سواروں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کو راستے میں گھات لگا کر روکنے کیلئے چل پڑا تھا۔وہ اپنے اس جانباز دستے کو سر پٹ دوڑاتا لے جا رہا تھا۔اس کے سامنے تیس میل کی مسافت تھی۔اسے بتایا گیا تھا کہ مسلمان کراع الغیمم سے ابھی دور ہیں۔خالد اس کوشش میں تھا کہ مسلمانوں سے پہلے کراع اکغیمم پہنچ جائے۔مکہ سے تیس میل دور کراع الغیمم ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو گھات کیلئے موزوں تھا۔اگر مسلمان پہلے وہاں پہنچ جاتے تو خالد کیلئے جنگی حالات دشوار ہو جاتے۔اس نے راستے میں صرف دو جگہ دستے کو روکااور گھوڑوں کو سستانے کا موقع دیا۔اس نے دو جگہوں پر اپنے گھوڑ سواروں کو اپنے سامنے کھڑ اکر کے کہا۔’’یہ ہمارے لیے کڑی آزمائش ہے۔اپنے قبیلے کی عظمت کے محافظ صرف ہم ہیں۔آج ہمیں عزیٰ اور ہبل کی لاج رکھنی ہے۔ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔اگر ہم مسلمانوں کو کراع الغیمم کے اندر ہی روک کر انہیں تباہ نہ کر سکے تو مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ہماری بہنیں اور بیٹیاں ان کی لونڈیاں ہوں گی اور ہمارے بچے ان کے غلام ہوں گے۔عزیٰ اور ہبل کے نام پر حلف اٹھاؤ۔کہ ہم قریش اور مکہ کی آن اور وقار پر جانیں قربان کر دیں گے۔‘‘تین سوگھوڑ سواروں نے نعرے لگائے۔’’ہم عزیٰ اور ہبل کے نام پر مر مٹیں گے……ایک بھی مسلمان زندہ نہیں جائے گا……کراع الغیمم کی وادی میں مسلمانوں کا خون بہے گا……محمد کو زندہ مکہ لے جائیں گے……مسلمانوں کی کھوپڑیاں مکہ لے جائیں گے……کاٹ دیں گے……تباہ کر کے رکھ دیں گے۔‘‘خالد کا سینہ پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا۔اس نے گھات کیلئے بڑی اچھی جگہ کا انتخاب کیا تھا ۔اس نے نہایت کارگر جنگی چالیں سوچ لی تھیں۔وہ اپنے ساتھ صرف سوار دستہ اس لیے لایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھیر کر اور گھوڑے دوڑا دوڑا کر لڑنا چاہتا تھا۔مسلمانوں کی زیادہ تعداد پیادہ تھی۔خالد کو یقین تھا کہ وہ تین سو سواروں سے ایک ہزار چار سو مسلمانوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالے گا، اسے اپنے جنگی فہم و فراست پر اس قدر بھروسہ تھا کہ اس نے تیر انداز دستے کو اپنے ساتھ لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔حالانکہ پہاڑی علاقے میں تیر اندازوں کو بلندیوں پر بٹھا دیا جاتا تو وہ نیچے گزرتے ہوئے مسلمانوں کو چن چن کر مارتے۔
آگے جاکر خالد نے دستے کو ذرا سی دیر کیلئے روکا تو ایک بار پھر اس نے اپنے سواروں کے جذبے کو بھڑکایا۔اسے ان سواروں کی شجاعت پر پورا اعتماد تھا۔مسلمان ابھی دور تھے۔خالد نے شتر بانوں کے بہروپ میں اپنے تین چار آدمی آگے بھیج دیئے تھے جو مسلمانوں کی رفتار کی اور دیگر کوائف کی اطلاعیں دے رہے تھے۔وہ باری باری پیچھے آتے اور بتاتے تھے کہ مسلمان کراع الغیمم سے کتنی دور رہ گئے ہیں ۔خالد ان اطلاعوں کے مطابق اپنے دستے کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا۔مسلمان رسول کریمﷺ کی قیادت میں معمولی رفتار سے اس پھندے کی طرف چلے آ رہے تھے جو ان کیلئے خالد کراع الغیمم میں بچھانے جا رہا تھا۔خالد اس اطلاع کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ مسلمان اپنے ساتھ بہت سے دنبے اور بکرے لا رہے ہیں۔اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہ مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں تو دنبے اور بکرے کیوں ساتھ لا رہے ہیں؟’’انہیں ڈر ہو گا کہ محاصرہ طول پکڑ گیا تو خوراک کم ہو جائے گی۔‘‘خالد کے ایک ساتھی نے خیال ظاہر کیا۔’’اس صورت میں وہ ان جانوروں کاگوشت کھائیں گے۔اس کے سواان جانوروں کا اور کیا استعمال ہو سکتا ہے!‘‘’’بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ مکہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔‘‘خالد نے کہا ۔’’ان کے دنبے اور بکرے ہم کھائیں گے۔‘‘مسلمان ابھی کراع الغیمم سے پندرہ میل دور عسفان کے مقام پر تھے کہ خالد اس سلسلۂ کوہ میں داخل ہو گیا۔اس نے اپنے دستے کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک دوسرے سے دور دور رکنے کو کہا اور خود گھات کی موزوں جگہ دیکھنے کیلئے آگے چلا گیا۔وہ درّے تک گیا۔یہی رستہ تھا جہاں سے قافلے اور دستے گزرا کرتے تھے۔وہ یہاں سے پہلے بھی گزرا تھا لیکن اس نے اس درّے کو اس نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا تھا جس نگاہ سے آج دیکھ رہا تھا۔اس نے اس درّے کو دائیں بائیں والی بلندیوں پر جا کر دیکھا۔نیچے آیا۔چٹانوں کے پیچھے گیا،اور گھوڑوں کو چھپانے کی ایسی جگہوں کو دیکھا جہاں سے وہ اشارہ ملتے ہی فوراً نکل آئیں اور مسلمانوں پر بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔وہ مارچ ۶۲۸ء کے آخری دن تھے۔موسم ابھی سرد تھا مگر خالد کااور اسکے گھوڑے کاپسینہ بہہ رہا تھا۔اس نے گھات کا علاقہ منتخب کرلیا،اور اپنے دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے گھوڑوں کو درّے کے علاقے میں چھپا دیا۔اب اس نے اپنے ان آدمیوں کوجو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاعیں لاتے تھے ،اپنے پاس روک لیا،کیونکہ خدشہ تھا کہ مسلمان ان کی اصلیت معلوم کر لیں گے۔مسلمان قریب آ گئے تھے۔ رات کو انہوں نے پڑاؤ کیا تھا۔
گلی صبح جب نمازِ فجر کے بعد مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے ۔ایک آدمی رسول اﷲﷺ کے پاس آیا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تمدوڑتے ہوئے آئے ہو۔‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اور تم کوئی اچھی خبر بھی نہیں لائے۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ! ‘‘مدینہ کے اس مسلمان نے کہا۔’’خبر اچھی نہیں اور اتنی بری بھی نہیں۔مکہ والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔میں کل سے کراع الغیمم کی پہاڑیوں میں گھوم پھر رہا ہوں ،خدا کی قسم!مجھے وہ نہیں دیکھ سکے جنہیں میں دیکھ آیا ہوں۔میں نے ان کی تمام نقل و حرکت دیکھی ہے۔‘‘’’کون ہیں وہ؟‘‘’’اہلِ قریش کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا۔’’وہ سب گھڑ سوار ہیں اور درّے کے ارد گرد کی چٹانوں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘’’تعداد؟‘‘’’تین اور چار سوکے درمیان ہے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے اس جاسوس نے کہا۔’’میں نے اگر صحیح پہچانا ہے تو وہ خالد بن ولید ہے جس کی بھاگ دوڑ کو میں سارادن چھپ چھپ کے دیکھتا رہا ہوں۔میں اتنی قریب چلا گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھتے تو قتل کر دیتے۔خالد نے اپنے سواروں کودرّے کے ارد گرد پھیلا کر چھپا دیا ہے۔کیا یہ غلط ہو گا کہ وہ گھات میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘’’مکہ والوں کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ہم مکہ کا محاصرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے کہا۔’’قسم خدا کی! جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان ہے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا۔’’اہلِ قریش مجھے لڑائی کیلئے للکاریں گے تو بھی میں نہیں لڑوں گا۔ہم جس ارادے سے آئے ہیں اس ارادے کو بدلیں گے نہیں۔ہماری نیت مکہ میں جاکر عمرہ کرنے کی ہے اور ہم یہ دنبے اور بکرے قربانی کرنے کیلئے ساتھ لائے ہیں۔میں اپنی نیت میں تبدیلی کرکے خدائے ذوالجلال کو ناراض نہیں کروں گا۔ہم خون خرابہ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ ایک صحابیؓ نے پوچھا۔’’وہ درّے میں ہمیں روکیں گے تو کیا ہم پر اپنے دشمن کا خون خرابہ جائز نہیں ہو گا؟‘‘صحابہ کرامؓ رسولِ خداﷺ کے ارد گرد اکھٹے ہو گئے۔ اس صورتِ حال سے بچ کر نکلنے کے طریقو ں پر اور راستوں پر بحث و مباحثہ ہوا۔رسولِ کریمﷺ اچھے مشورے کو دھیان سے سنتے اور اس کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے۔ آخر رسولِ خداﷺ نے حکم صادر فرمایا۔آپﷺ نے بیس گھوڑ سوار منتخب کیے اور انہیں ان ہدایات کے ساتھ آگے بھیج دیا کہ وہ کراع الغیمم تک چلے جائیں لیکن درّے میں داخل نہ ہوں ۔وہ خالد کے دستے کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دستہ ان پر حملہ کرے تو یوں لڑیں کہ پیچھے کو ہٹتے آئیں اور بکھر کر رہیں۔تاثر یہ دیں کہ یہ مدینہ والوں کا ہراول جَیش ہے۔ان بیس سواروں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرکے باقی اہلِ مدینہ کا راستہ آپﷺ نے بدل دیا۔آپﷺ نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت ہی دشوار گزار تھااور لمبا بھی تھا۔ لیکن آپﷺ لڑائی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایک مشکل یہ بھی تھی کہ اہلِ مدینہ میں کوئی ایک آدمی بھی نہ تھا جو اس راستے سے واقف ہوتا۔یہ ایک اور درّہ تھا جو مثنیہ المرار کہلاتا تھا۔اسے ذات الحنظل بھی کہتے تھے۔رسولِ کریمﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درّے میں داخل ہو گئے اور سلسلۂ کوہ کے ایسے راستے سے گزرے جہاں سے کوئی نہیں گزرا کرتا تھا۔وہ راستہ کسی کے گزرنے کے قابل تھا ہی نہیں۔خالد کی نظریں مسلمانوں کے ہراول دستے پر لگی ہوئی تھیں۔لیکن ہراول کے یہ بیس سوار رک گئے تھے۔کبھی ان کے دو تین سوار درّے تک آتے اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلے جاتے۔اگروہ بیس کے بیس سوار درّے میں آ بھی جاتے تو خالد انہیں گزر جانے دیتا کیونکہ اس کا اصل شکار تو پیچھے آ رہا تھا۔ان بیس سواروں پر حملہ کرکے وہ اپنی گھات کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں تھا۔چند دن پہلے کی بات تھی۔خالد پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر ابھی تک نظر نہیں آیا،کیااس نے کوچ ملتوی کر دیا ہے یا اسے گھات کی خبر ہو گئی ہے؟اس نے اپنے ایک شتر سوار سے کہا کہ وہ اپنے بہروپ میں جائے اور دیکھے کہ مسلمان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟اس دوران بیس مسلمان سواروں نے اپنی نقل و حرکت جاری رکھی ،ایک دو مرتبہ وہ درّے تک آئے اورذرا رک کر واپس چلے گئے۔ ایک دو مرتبہ وہ پہاڑیوں میں کسی اور طرف سے داخل ہوئے۔خالد چھپ چھپ کر اُدھر آ گیا۔وہ سوار وہاں سے بھی واپس چلے گئے۔اس طرح انہوں نے خالد کی توجہ اپنے اوپر لگائے رکھی۔خالد کے سوار اشارے کے انتظار میں گھات میں چھپے رہے۔
سورج غروب ہو چکا تھا جب خالد کا شتر سوار جاسوس واپس آیا۔’’وہ وہاں نہیں ہیں۔‘‘جاسوس نے خالدکو بتایا۔’’ کیا تمہاری آنکھیں اب انسانوں کو نہیں دیکھ سکتیں؟‘‘خالد نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’صرف ان انسانوں کو دیکھ سکتی ہیں جوموجود ہوں۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’جو نہیں ہیں وہ نہیں ہیں۔وہ کوچ کر گئے ہیں۔کدھر گئے ہیں ؟میں نہیں بتا سکتا۔‘‘خالد اور زیادہ پریشان ہو گیا۔صحرا کی شام گہری ہو گئی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ہراول کے سوار بھی وہاں نہیں ہیں ۔اسے ان کے کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔صبح طلوع ہوئی تو خالد نے اسی درّے سے نکل کے دیکھا۔بیس سوار غائب تھے۔اسے اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا۔اس کے ارادے اور اس کے جنگی منصوبے خاک میں ملتے نظر آئے۔اس نے سوچا کہ وہ خود عسفان تک چلا جائے لیکن پہچانے جانے کے ڈر سے رکا رہا۔اس نے دو تین آدمی اونچی پہاڑیوں پر بھیج دیئے کہ وہ ہر طرف نظر رکھیں۔دن آدھا گزر گیا تھا۔اسے کوئی اطلاع نہ ملی۔مسلمانوں کے ہراول کے بیس سواربھی نظر نہ آئے۔اسے توقع تھی کہ وہ آئیں گے۔دوپہر کے لگ بھگ اس کا ایک سوار گھوڑا سر پٹ دوڑتا اس کے پاس آ کر رکا۔’’میرے ساتھ چلو۔‘‘سوار نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا۔’’جو میں نے دیکھا ہے وہ تم بھی دیکھو۔‘‘’’کیا دیکھاہے تم نے؟‘‘
’’گَرد۔‘‘سوار نے کہا۔’’خدا کی قسم! وہ گرد کسی قافلے کی نہیں ہو سکتی۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمانوں کا لشکر ہو؟‘‘خالد نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور مکہ کی سمت پہاڑی علاقے سے نکل گیا۔اسے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے دکھائی دیئے۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالد نے کہا۔’’قبیلۂ قریش میں کوئی ایسا نہیں جو محمد)ﷺ( جیسا دانشمند ہو۔وہ میری گھات سے نکل گیا ہے۔‘‘مسلمان رسول اﷲﷺ کی قیادت میں کراع الغمیم کی دوسری طرف سے مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔رات کو ان کے بیس سوار بھی دور کے راستے سے ان کے پیچھے گئے اور ان سے جا ملے تھے۔خالد نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگائی۔وہ کراع الغمیم کے اندر چِلّاتا اور گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا پھر رہا تھا۔’’باہر آجاؤ۔مدینہ والے مکہ کو چلے گئے ہیں۔تمام سوار سامنے آؤ۔‘‘تھوڑی سی دیر میں اس کے تین سو گھڑ سوار اس کے پاس آ گئے۔
’’وہ ہمیں دھوکا دے گئے ہیں۔‘‘خالد نے اپنے سواروں سے کہا۔’’تم نہیں مانو گے۔وہ گزر گئے ہیں۔گزرنے کا کوئی دوسرا رستہ نہیں ہے۔ہمیں اب زندگی اور موت کی دوڑ لگانی پڑے گی۔سست ہو جاؤ گے تو وہ مکہ کا محاصرہ کر لیں گے وہ بازی جیت جائیں گے۔‘‘آج مدینہ کے رستہ پر جب مدینہ قریب رہ گیا تھا۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ اسے مکہ پر مسلمانوں کے قبضے کا ڈر تو تھا لیکن وہ رسولِ کریمﷺ کی اس چال پر عش عش کر اٹھا تھا۔وہ خود فن ِ حرب و ضرب اور عسکری چالوں کا ماہر اور دلدادہ تھا۔وہ سمجھ گیا کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے ہراول کے بیس سوار دھوکا دینے کیلئے بھیجے تھے۔سواروں اسے کامیابی سے دھوکا دیا۔اس کی توجہ کو گرفتار کیے رکھا۔اور مسلمان دوسری طرف سے نکل گئے۔’’یہ جادو نہیں۔‘‘خالد نے اپنے آپ سے کہا۔’’اگر اپنے قبیلے کی سرداری مجھے مل جائے تو جادو کے یہ کرتب میں بھی دِکھا سکتا ہوں۔‘‘یہ صحیح تھا کہ اس کے باپ نے اسے ایسی عسکری تعلیم و تربیت دی تھی کہ وہ میدانِ جنگ کا جادوگر کہلا سکتا تھا مگر اس کے اوپر ایک سردار تھا۔ابو سفیان۔وہ قبیلے کا سالارِ اعلیٰ بھی تھا۔اس کے ماتحت خالداپنی کوئی چال نہیں چل سکتا تھا۔اپنی اس مجبوری نے اس کے دل میں ابو سفیان کی نفرت پیدا کر دی تھی۔اسے چند دن پہلے کا یہ واقعہ یاد آ رہا تھا۔ایک ہزار چار سو مسلمان اس کی گھات کو دھوکا دے کر مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ تین سو سواروں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کر دے۔اسے احساس تھا کہ جو مسلمان قلیل تعداد میں کثیر تعداد کے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں انہیں تین سو سواروں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔کیونکہ وہ کثیر تعداد میں ہیں۔اسے مکہ ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگاتھااور اسے یہ خفّت بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ اس کی گھات کی ناکامی پر ابو سفیان اسے طعنہ دے گااور ہنسی اڑائے گا۔پھر اسے قریش کی شکست اور مکہ کے سقوط کا مجرم کہا جائے گا۔اس نے اپنے سواروں کو ایک رستہ سمجھا کر کہا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچنا ہے۔یہ دور کا رستہ تھالیکن وہ مسلمانوں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کے تین سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگا دیں۔رستہ لمبا ہونے کی وجہ سے تین میل کا فاصلہ ڈیڑھ گنا ہو گیا تھا جسے خالد رفتار سے کم کرنے کے جتن کر رہا تھا۔عربی نسل کے اعلیٰ گھوڑے شام سے بہت پہلے مکہ پہنچ گئے۔وہاں مسلمانوں کی ابھی ہوا بھی نہیں پہنچی تھی۔مکہ کے لوگ گھوڑوں کے شور روغل پر گھروں سے نکل آئے۔ابو سفیان بھی باہر آ گیا۔’’کیا تمہاری گھات کامیاب رہی؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’وہ گھات میں آئے ہی نہیں۔‘‘خالد نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا۔’’کیا تم مکہ کے ارد گرد ایسی خندق کھُدوا سکتے ہو جیسی محمد )ﷺ(نے مدینہ کے اردگرد کھُدوائی تھی؟‘‘’’وہ کہاں ہیں؟‘‘ابو سفیان نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’کیایہ بہتر نہیں ہو گا کہ مجھے ان کی کچھ خبر دو۔‘‘’’جتنی دیر میں تم خبر سنتے اور سوچتے ہو ،اتنی دیر میں وہ مکہ کو محاصرہ میں لے لیں گے۔‘‘خالد نے کہا۔’’ہبل اور عزیٰ کی عظمت کی قسم!وہ پہاڑوں اور چٹانوں کو روندتے آ رہے ہیں۔اگر وہ کراع الغمیم میں سے کسی اور رستہ سے گزرے ہیں تو وہ انسان نہیں۔کوئی پیادہ وہاں سے اتنی تیزی سے نہیں گزرسکتا جتنی تیزی سے وہ گزر آئے ہیں۔‘‘
’’خالد !‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ذرا ٹھنڈے ہوکر سوچو۔خداکی قسم!گھبراہٹ سے تمہاری آواز کانپ رہی ہے۔‘‘’’ابو سفیان!‘‘ خالدنے جل کر کہا۔’’تم میں صرف یہ خوبی ہے کہ تم میرے قبیلے کے سردار ہو ۔میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ ان کیلئے مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا کوئی مشکل نہیں۔‘‘خالد نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی سالار عکرمہ اور صفوان قریب ہی کھڑے تھے۔خالد نے ان سے کہا۔’’آج بھول جاؤ کہ تمہارا سردار کون ہے۔صرف یہ یاد رکھو کہ مکہ پر طوفان آ رہا ہے ۔اپنی آن کو بچاؤ، یہاں کھڑے ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھو۔اپنے شہر کو بچاؤ،اپنے دیوتاؤں کو بچاؤ۔‘‘سارے شہر میں بھگدڑ بپا ہو گئی تھی۔لڑنے والے لوگ برچھیاں تلواریں اور تیر کمان اٹھائے مکہ کے دفاع کو نکل آئے۔عورتوں اور بچوں کو ایسے بڑے مکانوں میں منتقل کیا جانے لگاجو قلعوں جیسے تھے۔جوان عورتیں بھی لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔یہ ان کے شہر اور جان و مال کا ہی نہیں ان کے مذہب کا بھی مسئلہ تھا۔یہ دو نظریوں کی ٹکر تھی۔لیکن خالد اسے اپنے ذاتی وقار کا اوراپنے خاندانی وقار کا بھی مسئلہ سمجھتا تھا۔اس کا خاندان جنگ و جدل کیلئے مشہور تھا۔اس کے باپ کو لوگ عسکری قائد کہا کرتے تھے۔خالد اپنے خاندان کے نام اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہاتھا۔اس نے ابو سفیان کو نظر انداز کر دیا۔عکرمہ اور صفوان کو ساتھ لیااور ایسی چالیں سوچ لیں جن سے وہ مسلمانوں کو شہر سے دور رکھ سکتا تھا۔اس نے سواروں کی کچھ تعداد اس کام کیلئے منتخب کر لی کہ یہ سوار شہر سے دور چلے جائیں اور مسلمان اگر محاصرہ کر لیں تو یہ گھوڑ سوار عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں مگر وہاں جم کر لڑیں نہیں۔بلکہ محاصرے میں کہیں شگاف ڈال کر بھاگ جائیں۔شہر میں افراتفری اور لڑنے والوں کی بھاگ دوڑ اور للکار میں چند ایک عورتوں کی مترنم آوازیں سنائی دینے لگیں۔ان کی آوازیں ایک آواز بن گئی تھی۔وہ رزمیہ گیت گا رہی تھیں۔جس میں رسول اﷲﷺ کے قتل کا ذکر تھا۔بڑا جوشیلا اور بھڑکا دینے والا گیت تھا۔یہ عورتیں گلیوں میں یہ گیت گاتی پھر رہی تھیں۔چند ایک مسلّح شتر سواروں کی مدینہ کی طرف سے آنے والے رستے پر اور دو تین اورسمتوں کو دوڑا دیا گیاکہ وہ مسلمانوں کی پیشقدمی کی خبریں پیچھے پہنچاتے رہیں۔عورتیں اونچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مدینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔سورج افق میں اترتا جا رہا تھا۔صحرا کی شفق بڑی دلفریب ہوا کرتی ہے مگر اس شام مکہ والوں کو شفق میں لہو کے رنگ دِکھائی دے رہے تھے۔کہیں سے،کسی بھی طرف سے گرد اٹھتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’انہیں اب تک آ جانا چاہیے تھا۔‘‘خالدنے عکرمہ اور صفوان سے کہا۔’’ہم اتنی جلدی خندق نہیں کھود سکتے۔‘‘’’ہم خندق کا سہارا لے کر نہیں لڑیں گے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ہم ان کے محاصرے پر حملے کریں گے۔‘‘صفوان نے کہا ۔’’ان کے پاؤں جمنے نہیں دیں گے۔‘‘سورج غروب ہو گیا۔رات گہری ہونے لگی۔کچھ بھی نہ ہوا۔مکہ میں زندگی بیدار اور سرگرم رہی۔جیسے وہاں رات آئی ہی نہ ہو۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قلعوں جیسے مکانوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اور جو لڑنے کے قابل تھے وہ اپنے سالاروں کی ہدایات پر شہر کے اردگرد اپنے مورچے مضبوط کررہے تھے۔رات آدھی گزر گئی۔مدینہ والوں کی آمد کے کوئی آثا ر نہ آئے۔پھر رات گزر گئی۔’’خالد!‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’کہاں ہیں وہ؟‘‘’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ نہیں آئیں گے تو یہ بہت خطرناک فریب ہے جو تم اپنے آپ کو دے رہے ہو۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’محمد)ﷺ( کی عقل تک تم نہیں پہنچ سکتے ،جو وہ سوچ سکتا ہے وہ تم نہیں سوچ سکتے۔ وہ آئیں گے۔‘‘اس وقت تک مسلمان چند ایک معرکے دوسرے قبیلوں کے خلاف لڑکر اپنی دھاک بِٹھا رہے تھے۔ ان میں غزوۂ خیبر ایک بڑا معرکہ تھا انہیں جنگ کا تجربہ ہو چکا تھا۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا۔’’ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان اب وہ نہیں رہے جو تم نے اُحد میں دیکھے تھے۔ اب وہ لڑنے کے ماہر بن چکے ہیں ان کا ابھی تک سامنے نہ آنا بھی ایک چال ہے۔‘‘ابو سفیان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک شتر سوار نظر آیا۔ جس کا اونٹ بہت تیز رفتار سے دوڑتا آیا تھا ۔ابو سفیان اور خالدکے قریب آکر اس نے اونٹ روکا اور کود کر نیچے آیا۔
’’میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تم نہیں مانو گے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں خیمہ زن دیکھا ہے۔‘‘’’وہ محمد)ﷺ( اور ا س کا لشکر نہیں ہو سکتا ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم! میں محمد )ﷺ(کو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح تم دونوں مجھے پہچانتے ہو۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’اور میں نے ایسے اور آدمیوں کو بھی پہچانا ہے جو ہم میں سے تھے لیکن ان کے ساتھ جا ملے تھے۔‘‘حدیبیہ مکہ سے تیرہ میل دور مغرب میں ایک مقام تھا ۔رسولِ کریمﷺ خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپﷺ مکہ سے دور حدیبیہ میں جا خیمہ زن ہوئے تھے۔
’’ہم ان پر شب خون ماریں گے۔‘‘ خالدنے کہا۔’’ انہیں سستانے نہیں دیں گے۔وہ جس راستہ سے حدیبیہ پہنچے ہیں اس راستے نے انہیں تھکا دیا ہو گا۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں گی۔ وہ تازہ دم ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے۔ ہم انہیں آرام نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ ’’ہم انہیں وہاں سے بھگا سکتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’چھاپہ مار جَیش تیار کرو۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے اپنی خیمہ گاہ کی حفاظت کا انتظام کر رکھاتھا ۔گھڑ سوار جیش رات کو خیمہ گاہ کے اردگرد گشتی پہرہ دیتے تھے ۔دن کو بھی پہرے کا انتظام تھا۔ ایک اور گھوڑ سوار جیش نے اپنے جیسا ایک گھڑ سوار جیش دیکھا جو خیمہ گاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔ مسلمان سوار ان سواروں کی طرف چلے گئے ۔وہ قریش کے سوار تھے جو وہاں نہ رکے اور دور چلے گئے کچھ دیر بعد وہ ایک اور طرف سے آتے نظر آئے اور مسلمانوں کی خیمہ گاہ سے تھوڑی دور رک کر چلے گئے۔دوسرے روز وہ سوار خیمہ گاہ کے قریب آ گئے ۔اب کے مسلمان سواروں کا ایک جیش جو خیمہ گاہ سے دور نکل گیا تھا واپس آ گیا۔ اس جیش نے ان سواروں کو گھیر لیا ،انہوں نے گھیرے سے نکلنے کیلئے ہتھیار نکال لیے۔ان میں جھڑپ ہو گئی لیکن مسلمان سواروں کے کماندار نے اپنے سواروں کو روک لیا ۔’’انہیں نکل جانے دو۔‘‘جیش کے کماندار نے کہا۔’’ہم لڑنے آئے ہوتے تو ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیتے۔‘‘
وہ مکہ کے لڑاکا سوار تھے۔ انہوں نے واپس جا کرابو سفیان کو بتایا۔’’چند اور سواروں کو بھیجو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ایک شب خون مارو۔‘‘’’میرے قبیلے کے سردار!‘‘ ایک سوار نے کہا۔’’ہم نے شب خون مارنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی خیمہ گاہ کے اردگرد دن رات گھڑ سوار گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ قریش کے چند اور سواروں کو بھیجا گیا۔انہوں نے شام کے ذرا بعد شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن مسلمان سواروں نے ان کے کچھ سواروں کو زخمی کرکے وہاں سے بھگا دیا ۔‘‘مکہ والوں پر تذبذب کی کیفیت طاری تھی۔وہ راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ۔محاصرہ کے ڈر سے وہ ہر وقت بیدار اور چو کس رہتے تھے اور دن گزرتے جا رہے تھے۔ آخر ایک روز مکہ میں ایک مسلمان سوار داخل ہوا۔ یہ حضرت عثمانؓ تھے۔انھوں نے ابوسفیان کے متعلق پوچھا۔ابو سفیان نے دور سے دیکھا اور دوڑا آیا۔ خالد بھی آ گیا ۔
’’میں محمد رسول اﷲﷺ کاپیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘حضرت عثمانؓ نے کہا۔’’ہم لڑنے نہیں آئے ۔ہم عمرہ کرنے آئے ہیں ۔عمرہ کر کے چلے جائیں گے۔‘‘’’اگر ہم اجازت نہ دیں تو……?‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔
’’ہم مکہ والوں کا نہیں خدا کا حکم ماننے والے ہیں۔‘‘حضرت عثمانؓ نے جواب دیا ۔’’ہم اپنے اور اپنی عبادت گاہ کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دیا کرتے۔
اگر مکہ کے مکان ہمارے لیے رکاوٹ بنیں گے تو خدا کی قسم! مکہ ملبے اور کھنڈر وں کی بستی بن جائے گی۔اگر یہاں کے لوگ ہمیں روکیں گے تومکہ کی گلیوں میں خون بہے گا۔ ابو سفیان ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں سے امن کا تحفہ لے کر جائیں گے۔‘‘خالدکو وہ لمحے یاد تھے جب یہ مسلمان سوار پروقار لہجے میں دھمکی دے رہا تھا ۔خالد کا خون کھول اٹھنا چاہیے تھا لیکن اسے یہ آدمی بڑا اچھا لگا تھا ۔ابوسفیان نے عثمانؓ کو عمرے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن اُنھوں نے اپنے نبیﷺ کے بغیر اکیلے عمرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ادھر مذاکرات میں جب زیادہ وقت گزرا تو ہوا کے دوش پر یہ افواہ حدیبیہ پہنچی کے عثمانؓ کو قتل کر دیا گیا ہے۔جس کے جواب میں رسولِ کریمﷺ نے قتلِ عثمانؓ کے انتقام کے لئے اپنے ۱۴ سو جانثاروں سے بیعت لی تھی۔اسی بیعت کو تاریخ میں بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اور اسی بیعت کی وجہ سے ابو سفیان سمجھوتے پر راضی ہوا تھا۔پھر ایک صلح نامہ تحریر ہوا تھا اسے ’’صلح حدیبیہ ‘‘کا نام دیا گیا۔مسلمانوں کی طرف سے اس پر رسولِ اکرمﷺ نے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو نے دستخط کیے تھے ،اس صلح نامے میں طے پایا تھا کہ مسلمان اور اہلِ قریش دس سال تک نہیں لڑیں گے اور مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن ٹھہر سکیں گے۔ رسولِ کریمﷺ قریش میں سے تھے ۔خالد آپﷺ کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھالیکن اب اس نے آپﷺ کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی اور محمد)ﷺ( ہے ۔وہ ایسا متاثر ہوا کہ اس کے ذہن سے اتر گیا کہ یہ وہی محمد )ﷺ(ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔خالد نبی کریمﷺ کو ایک سالار کی حیثیت سے زیادہ دیکھ رہا تھا وہ آپﷺ کی عسکری اہلیت کا قائل ہو گیا تھا ۔صلح حدیبیہ تک مسلمان رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں چھوٹے بڑے اٹھائیس معرکے لڑ چکے اور فتح و نصرت کی دھاک بِٹھا چکے تھے۔مسلمان عمرہ کرکے چلے گئے۔ دو مہینے گزر گئے ،ان دو مہینوں میں خالد پر خاموشی طاری رہی لیکن اس خاموشی میں ایک طوفان ا ور ایک انقلاب پرورش پا رہا تھا۔خالد نے مذہب میں کبھی بھی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اسے نہ کبھی اپنے بتوں کا خیال آیا تھا نہ کبھی اس نے رسولِ کریمﷺ کی رسالت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی ۔مگر اب از خود اس کا دھیان مذہب کی طرف چلا گیا اور وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ مذہب کون سا سچا ہے اور انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔’’عکرمہ !‘‘ایک روز خالد نے اپنے ساتھی سالار عکرمہ سے جو اس کا بھتیجا بھی تھا کہا۔’’ میں نے فیصلہ کر لیا ہے…… میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ’’کیا سمجھ گئے ہو خالد؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔’’محمد)ﷺ(­جادو گر نہیں۔‘‘ خالدنے کہا ۔’’اور محمد)ﷺ( شاعر بھی نہیں ۔میں نے محمد)ﷺ( کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور میں نے محمد)ﷺ( کو خدا کا رسول تسلیم کرلیا ہے۔‘‘’’ہبل اور عزیٰ کی قسم! تم مزاق کر رہے ہو۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’کوئی نہیں مانے گا کہ ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ رہا ہے ۔‘‘
’’ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے۔‘‘ خالد نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ محمد)ﷺ( ہمارے کتنے آدمیوں کو قتل کرا چکا ہے ؟‘‘عکرمہ نے کہا۔’’تم ان کے مذہب کو قبول کر رہے ہو جن کے خون کے ہم پیاسے ہیں؟‘‘’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے عکرمہ! ‘‘خالد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔‘‘اسی شام ابو سفیان نے خالد کو اپنے ہاں بلایا۔عکرمہ بھی وہاں موجود تھا۔ ’’کیا تم بھی محمد)ﷺ( کی باتو ں میں آگئے ہو؟‘‘ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔’’تم نے ٹھیک سنا ہے ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا ۔’’محمد)ﷺ( کی باتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔‘‘مشہور مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے خالدکا فیصلہ بدلنے کیلئے اسے قتل کی دھمکی دی۔ خالد اس دھمکی پر مسکرا دیا مگر عکرمہ برداشت نہ کر سکا۔حالانکہ وہ خود خالد کے اس فیصلے کیخلاف تھا۔’’ابو سفیان!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں لیکن خالد کو جو تم نے دھمکی دی ہے وہ میں برداشت نہیں کر سکتا ۔تم خالد کو اپنا مذہب بدلنے سے نہیں روک سکتے۔اگر تم خالد کے خلاف کوئی کارروائی کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ میں بھی خالد کے ساتھ مدینہ چلا جاؤں۔‘‘اگلے ہی روز مکہ میں ہر کسی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔’’خالد بن ولید محمد )ﷺ(کے پاس چلا گیا ہے ……‘‘خالد یادوں کے ریلے میں بہتا مدینہ کو چلا جا رہا تھا ۔اسے اپنا ماضی اس طرح یاد آیا تھا جیسے وہ گھوڑے پر سوار مدینہ کو نہیں بلکہ پیادہ اپنی ماضی میں چلا جا رہا تھا۔ اسے مدینہ کے اونچے مکانوں کی منڈیریں نظر آنے لگی تھیں۔’’خالد!‘‘ اسے کسی نے پکارا لیکن اسے گزرے ہوئے وقت کی آواز سمجھ کر اس نے نظر انداز کر دیا۔اسے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے ،تب اس نے دیکھا۔ اسے دو گھوڑے اپنی طرف آتے دِکھائی دیئے ۔وہ رک گیا۔ گھوڑے اس کے قریب آ کر رک گئے۔ ایک سوار اس کے قبیلے کے مشہور جنگجو ’’عمرو بن العاص‘‘ تھے اور دوسرے عثمان بن طلحہ۔دونوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔’’کیا تم دونوں مجھے واپس مکہ لے جانے کیلئے آئے ہو ؟‘‘خالد نے ان سے پوچھا۔ ’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘عمرو بن العاص نے پوچھا۔’’اور تم دونوں کہاں جا رہے ہو؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہم تمہیں بتائیں گے تو تم خوش نہیں ہو گے ۔‘‘عثمان بن طلحہ نے کہا۔’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘
’’بات پوری کرو عثمان ۔‘‘عمرو بن العاص نے کہا۔’’خالد! ہم محمد)ﷺ( کا مذہب قبول کرنے جا رہے ہیں ۔ہم نے محمد ﷺکو خدا کا سچا نبی مان لیا ہے ۔‘‘’’پھر ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں ۔‘‘خالدنے کہا ۔’’آؤ اکھٹے چلیں۔‘‘
وہ ۳۱ مئی ۶۲۸ء کا دن تھا۔جب تاریخِ اسلام کے دو عظیم جرنیل خالد ؓبن ولید اور عمرو ؓبن العاص مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ عثمانؓ بن طلحہ تھے ۔تینوں رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے ۔سب سے پہلے خالدؓ بن ولید اندر گئے۔ ان کے پیچھے عمرو ؓبن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ گئے ۔تینوں نے قبولِ اسلام کی خواہش ظاہر کی ۔رسول اﷲﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور تینوں کو باری باری گلے لگایا۔
شہیدوں کو دل سے اتار دیں،ذہن سے ان کا نام و نشان مٹا دیں۔ان کی یادوں کو شراب میں ڈبو دیں۔اس زمین پر جو خدا نے ہمیں شہیدوں کے صدقے عطا کی ہے۔بادشاہ بن کر گردن اکڑا لیں،اور کہیں کہ میں ہوں اس زمین کا شہنشاہ،شہیدوں کے نام پر مٹی ڈال دیں،کسی شہید کی کہیں قبر نظر آئے تو اسے زمین سے ملا دیں ۔مگر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر آپ کو شہید کھڑے نظر آئیں گے……آپ کے ذہن کے کسی گوشے سے شہید اٹھیں گے اور شراب اور شہنشاہیّت کا نشہ اتاردیں گے۔جس نے تخت و تاج کے نشے میں شہیدوں سے بے وفائی کی وہ شاہ سے گدا اور ذلیل و خوار ہوا کیونکہ اس نے قرآن کے اس فرمان کی حکم عدولی کی کہ شہید زندہ ہیں، انہیں مردہ مت کہو۔عرب کے ملک اردن میں گمنام سا ایک مقام ہے جس کانام مُوتہ ہے ۔اس کے قریب سے گزر جانے والوں کو بھی شاید پتا نہ چلتا ہو گا کہ وہاں ایک بستی ہے ۔اس کی حیثیت چھوٹے سے ایک گاؤں سے بڑھ کر اورکچھ بھی نہیں۔لیکن شہیدوں نے اردن کے بادشاہ کو اپنی موجودگی کا اور اپنی زندگی کا، جو اُنہیں اﷲ تعالیٰ نے عطا کی ہے، احساس دلادیا ہے۔وہ جس معرکے میں شہید ہوئے تھے ،وہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے اس مقام پر لڑا گیا تھا۔پھریہ مقام گزرتے زمانے کی اڑتی ریت میں دبتا چلا گیا۔کچھ عرصے سے موتہ کے رہنے والے ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہونے لگے ۔آج بھی وہاں چلے جائیں اور وہاں رہنے والوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی آدمی رات کو خواب میں دیکھتا ہے کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے کے مجاہدینِ اسلام چل پھر رہے ہیں ۔کفّار کا ایک لشکر آتا ہے اور مجاہدین اس کے مقابلے میں جم جاتے ہیں۔ان کی تعداد تھوڑی ہے اور لشکرِ کفار مانندِ سیلاب ہے۔معرکہ بڑا خونریز ہے۔
یہ خواب ایک دو آدمیوں نے نہیں ،وہاں کے بہت سے آدمیوں نے دیکھا ہے اور کسی نہ کسی کو یہ خواب ابھی تک نظر آتا ہے۔یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں،انہیں معلوم نہیں تھا کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے یہاں حق و باطل کا معرکہ لڑا گیا تھا۔ مگر ان کے خوابوں میں شہید آنے لگے۔یہ خبر اُردن کے ایوانوں تک پہنچی،تب یاد آیا کہ یہ وہ موتہ ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی ایک لڑائی ہوئی تھی۔یہ عیسائی عرب کے باشندے تھے۔شہیدوں نے اپنے زندہ ہونے کا ایسا احساس دلایا کہ ُاردن کی حکومت نے جنگِ موتہ اور اس جنگ کے شہیدوں کی یادگار کے طور پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کے احکام جاری کردیئے۔مسجد کی تعمیر ۱۸۶۸ء میں شروع ہوئی تھی۔اس جنگ میں تین سپہ سالار۔زیدؓ بن حارثہ، جعفر ؓ بن ابی طالب، اور عبد اﷲ ؓ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تھے۔ان تینوں کی قبریں موتہ سے تقریباً دو میل دور ہیں جو ابھی تک محفوظ ہیں۔مدینہ میں آ کر خالدؓ بن ولید نے اسلام قبول کیاتو ان کی ذات میں عظیم انقلاب آ گیا۔تین مہینے گزر گئے تھے ۔خالد ؓ زیادہ تر وقت رسولِ کریمﷺ کے حضور بیٹھے فیض حاصل کرتے رہتے مگر انہیں ابھی عسکری جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔وہ فنِ حرب و ضرب کے ماہر جنگجو تھے۔ان کا حسب و نسب بھی عام عربوں سے اونچا تھا لیکن انہوں نے ایسا دعویٰ نہ کیا کہ انہیں سالار کا رتبہ ملنا چاہیے۔انہوں نے اپنے آپ کوسپاہی سمجھا اور اسی حیثیت میں خوش رہے۔آج کے شام اور اُردن کے علاقے میں اس زمانے میں قبیلۂ غسّان آباد تھا۔جو اس علاقے میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔یہ قبیلہ طاقت کے لحاظ سے زبردست مانا جاتا تھا۔کیونکہ جنگجو ہونے کے علاوہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔اس قبیلے میں عیسائی بھی شامل تھے۔اس وقت روم کا شہنشاہ ہرقل تھا۔جس کی جنگ پسندی اور جنگی دہشت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔اسلام تیزی سے پھل پھول رہاتھا۔قبیلۂ قریش کے ہزار ہا لوگ اسلام قبول کر چکے تھے۔ان کے مانے منجھے ہوے سردار اور سالار بھی مدینہ جا کر رسولِ خداﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکے تھے اور مسلمان ایک جنگی طاقت بنتے جا رہے تھے۔کئی ایک چھوٹے چھوٹے قبائل حلقۂ بگوشِ اسلام ہو گئے تھے۔
مدینہ اطلاعیں پہنچ رہی تھیں کہ قبیلۂ غسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اسلام کی مقبولیت کو روکنے کیلئے مسلمانوں کو للکارنا چاہتاہے اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔یہ بھی سنا گیا کہ غسان کا سردارِ اعلیٰ روم کے بادشاہ ہرقل کے ساتھ دوستی کرکے اس کی جنگی طاقت بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔رسولِ کریمﷺ نے اپنا ایک ایلچی )جس کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں(غسان کے ایک سردارِ اعلیٰ کے ہاں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ’’ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ وحدہٗ لا شریک ہے اور اسلام ایک مذہب او رایک دین ہے ،باقی تمام عقیدے جو مختلف مذاہب کی صورت اختیار کر گئے ہیں،توہمات ہیں ا ور یہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے غسان کے سردارِ اعلیٰ کو قبولِ اسلام کی دعوت دی۔نبیِ کریمﷺ نے یہ پیغام اس خیال سے بھیجا تھا کہ پیشتر اس کے کہ قبیلہ غسان روم کے شہنشاہ ہرقل کی جنگی قوت سے مرعوب ہو کر عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے ،یہ قبیلہ اسلام قبول کرلے اور اسے اپنا اتحادی بنا کر ہرقل سے بچایا جائے۔’’خدا کی قسم! اس سے بہتر فیصلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘خالدؓ نے ایک محفل میں کہا۔’’ہرقل نے فوج کشی کی تو یوں سمجھو کہ باطل کا طوفان آ گیا ،جو سب کو اڑا لے جائے گا۔‘‘’’غسان کی خیریت اسی میں ہے کہ رسول اﷲﷺ کی دعوت قبول کرلے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’نہیں کرے گا تو ہمیشہ کیلئے ہرقل کا غلام ہو جائے گا۔‘‘ایک اور نے کہا۔اس وقت ہرقل قبیلہ غسان میں داخل ہو چکا تھا۔اس کے ساتھ جو فوج تھی،اس کی تعداد ایک لاکھ تھی۔غسان کے سردارِ اعلیٰ کو اطلاع مل چکی تھی مگر وہ پریشان نہیں تھا۔وہ ہرقل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔نبی ِ کریمﷺ کا ایلچی بصرہ کو جا رہا تھا۔غسان کا دارالحکومت بصرہ تھا۔ایلچی کے ساتھ ایک اونٹ پر لدے ہوئے زادِ راہ کے علاوہ تین محافظ بھی تھے۔بڑی لمبی مسافت کے بعد ایلچی موتہ پہنچااور اس نے ذرا سستانے کیلئے اپنا مختصر ساقافلہ روک لیا۔قریب ہی قبیلہ غسان کی ایک بستی تھی۔اس کے سردار کو اطلاع ملی کہ چار اجنبی بستی کے قریب پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔سردار نے جس کا نام شرجیل بن عمرو تھا،مدینہ کے ایلچی کو اپنے ہاں بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے؟
’’میں مدینہ کا ایلچی ہوں اور بصرہ کو جا رہا ہوں۔‘‘ایلچی نے جواب دیا۔’’میں رسولِ خداﷺ کا پیغام تمہارے سردارِ اعلیٰ کیلئے لے جا رہا ہوں۔‘‘’’کیا تم قبیلہ قریش کے محمد)ﷺ(کی بات کر رہے ہو؟‘‘شرجیل بن عمرو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’پیغام کیا ہے؟‘‘’’پیغام یہ ہے کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’اور باطل کے عقیدے ترک کردو۔‘‘’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے سردارِ اعلیٰ کی اور اپنے مذہب کی توہین برداشت کرلوں گا۔‘‘شرجیل بن عمرو نے کہا۔’’اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہیں سے واپس مدینہ چلے جاؤ۔‘‘’’میں بصرہ کے رستے سے ہٹ نہیں سکتا۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’یہ رسول اﷲﷺ کا حکم ہے۔جس کی تعمیل میں ،میں فخر سے اپنی جان دے دوں گا۔‘‘’’اور میں بڑے فخر سے تمہاری جان لوں گا۔‘‘شرجیل بن عمرو نے کہا،اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ایلچی کے تینوں محافظ باہربیٹھے تھے۔اندر سے تین آدمی نکلے۔وہ کسی کی خون آلود لاش گھسیٹتے ہوئے باہر لا رہے تھے ۔محافظوں نے دیکھا کہ لاش کی گردن کٹی ہوئی تھی۔انہوں نے پہچان لیا،یہ ان کے ایلچی کی لاش تھی۔شرجیل بن عمرو باہر آیا۔’’تم اس کے ساتھی تھے؟‘‘شرجیل نے محافظوں سے کہا۔’’مجھے یقین ہے کہ اسکے بغیر تم بصرہ نہیں جاؤ گے۔‘‘’’نہیں!‘‘ایک محافظ نے جواب دیا۔’’پیغام اس کے پاس تھا۔‘‘’’جاؤ،مدینہ کو لوٹ جاؤ۔‘‘شرجیل نے کہا۔’’اور محمد)ﷺ( سے کہنا کہ ہم اپنے قبیلے اور اپنے عقیدے کی توہین برداشت نہیں کیا کرتے۔اگر یہ شخص بصرہ پہنچ جاتا تو وہاں قتل ہو جاتا۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’ہم اپنے مہمان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا کرتے۔‘‘’’میں تمہیں مہمان سمجھ کرتمہاری جان بخشی کر رہاہوں ۔‘‘شرجیل نے کہا۔’’اور مجھے یہ نہ کہنا کہ میں تمہیں اس کی لاش دے دوں۔‘‘مدینہ کی تمام تر آبادی کو معلوم ہو چکا تھا کہ رسول اﷲﷺ کا ایلچی دعوتِ اسلام لے کر بصرہ گیا ہوا ہے۔سب ایلچی کی واپسی کے منتظر تھے لیکن تینوں محافظ ایلچی کے بغیر واپس آئے۔ان کے چہروں پر گرد کی تہہ اور تھکن کے آثار بھی ہی نہیں تھے، غم و غصے کے تاثرات بھی تھے۔وہ مدینہ داخل ہوئے تو لوگ ہجوم کرکے آگئے۔’’خدا کی قسم! ہم انتقام لیں گے۔‘‘محافظ بازو لہرا لہرا کر کہتے جا رہے تھے۔’’موتہ کے شرجیل بن عمرو کا قتل ہم پر فرض ہو گیا ہے۔‘‘ جب یہ خبر رسول اﷲﷺ کو ملی تو باہر مدینہ کی آبادی اکھٹی ہو گئی تھی ۔عربوں کے رواج کے مطابق قتل کی سزا قتل تھی۔
باہر لوگ انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دور  میں بھی آج کل کی طرح ایک دوسرے کے ایلچیوں کو جن کی حیثیت سفیروں جیسی ہوتی تھی، دشمن بھی تحفظ دیتا تھا۔کسی کے ایلچی کو قتل کر دینے کا مطلب اعلانِ جنگ سمجھا جاتا تھا۔’’اہلِ مدینہ!‘‘ رسول ِکریمﷺ نے باہر آ کر مدینہ والوں کے بکھرے ہوئے ہجوم سے فرمایا۔’’ میں نے انہیں لڑائی کیلئے نہیں للکارا تھا ۔میں نے انہیں سچا دین قبول کرنے کو کہا تھا۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم لڑیں گے ۔‘‘’’ہم لڑیں گے…… ہم انتقام لیں گے ۔مسلمان کمزور نہیں۔‘‘ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ ’’مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں نہیں۔ہم اﷲ اور رسولﷺ کے ناموس پر مر مٹیں گے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے حکم سے اسی روز مجاہدینِ اسلام کی فوج تیار ہو گئی۔جس کی تعداد تین ہزار تھی ۔رسولِ کریمﷺ نے سپہ سالاری کے فرائض زید ؓبن حارثہ کو سونپے۔ ’’اگر زید شہید ہو جائیں تو سپہ سالار جعفر بن ابی طالب ہو گا۔‘‘نبی کریمﷺ نے فرمایا۔’’جعفر بھی شہید ہو جائے تو سپہ سالار عبداﷲ بن رواحہ ہو گا۔اگر عبداﷲ کو بھی اﷲ شہادت عطا کردے تو فوج اپنا سپہ سالار خود چن لے۔‘‘مؤرخ ابنِ سعد اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ تین سپہ سالار درجہ بدرجہ مقرر کرکے مجاہدین کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔آپﷺ نے سپہ سالار زید ؓبن حارثہ سے فرمایا کہ’’ موتہ پہنچ کر سب سے پہلے شرجیل بن عمرو کو جو ہمارے ایلچی کا قاتل ہے، قتل کیا جائے۔ پھر موتہ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو کہاجائے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔انہیں بتایا جائے کہ اسلام کیاہے؟اگر وہ قبول کر لیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔‘‘ مجاہدین کی اس فوج میں خالد ؓبن ولید محض سپاہی تھے۔کسی دستے یا جیش کے کماندار بھی نہیں تھے۔روم کے شہنشاہ ہرقل کی فوج آج کے اُردن میں کسی جگہ خیمہ زن تھی۔ یہ قبیلہ غسان کا علاقہ تھا۔ فوج کی تعداد مؤرخین کے مطابق ایک لاکھ تھی۔ یہ فوج اس علاقے کی بستیوں پر چھا چکی تھی ۔کھڑی فصل گھوڑے اور اونٹ کھا رہے تھے۔ لوگوں کے گھروں سے اناج اور کھجوروں کے ذخیرے فوج نے اٹھالیے تھے اور جوان اور خوبصورت عورتیں فوج کے سرداروں اور کمانداروں کے خیموں میں تھیں۔ہرقل کا خیمہ قناطوں اور شامیانوں کا محل تھا۔ قبیلہ غسان کا سردارِ اعلیٰ ہرقل کے سامنے بیٹھا تھا۔ اسے ہرقل کی فوج کشی کی اطلاع ملی تھی تو وہ بیش قیمت تحائف اور اپنے قبیلے کی بے حد حسین دس بارہ لڑکیاں لے کر ہرقل کے استقبال کو چلا گیا تھا۔ اب ان لڑکیوں میں سے دو تین ہرقل کے پہلوؤں میں بیٹھی تھیں ۔
’’اور تم نے بتایا ہے کہ مدینہ سے محمد )ﷺ(نے تمہیں پیغام بھیجا تھا کہ تمہارا قبیلہ اس کا مذہب قبول کر لے۔‘‘ ہر قل نے کہا۔ ’’میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے ایک سردار شرجیل بن عمرو نے مدینہ کے ایلچی کو مجھ تک نہیں پہنچنے دیا۔‘‘غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’اسے موتہ میں قتل کر دیا تھا۔‘‘’’کیا مدینہ والوں میں اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آئیں ؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ان کی طاقت کم ہے اور جرات زیادہ ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ان لوگوں پر محمد)ﷺ( کا جادو سوار ہے ۔پہلے پہل مجھے ان کے متعلق اطلاعیں ملیں تو میں نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔مگر انہوں نے ہر میدان میں فتح پائی اور ہر میدان میں ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔میں نے سناہے کہ محمد)ﷺ( اور اس کے سالاروں کی جنگی چالوں کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اس نے مجھے اپنے مذہب کا جو پیغام بھیجا تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھنے لگا ہے۔‘‘’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ہرقل نے ایک نیم برہنہ لڑکی کے ہاتھ سے شراب کا پیالہ لیتے ہوئے پوچھا۔’’بات صاف کہہ دوں تو میرے لیے بھی اچھا ہے اور آپ کیلئے بھی ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں نے آپ کی فوج دیکھ لی ہے ۔میرا قبیلہ کوئی چھوٹا قبیلہ نہیں۔اگر زیادہ نہیں تو آپ جتنی فوج میرے پاس بھی ہے۔آپ اپنے ملک سے دور ہیں ۔اگر ہم لڑیں گے تو میں اپنی زمین پرلڑوں گا۔جہاں کا بچہ بچہ آپ کا دشمن ہے ۔‘‘’’کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟‘‘ ہرقل نے مسکرا کرپوچھا۔’’اگر یہ دھمکی ہے تو میں اپنے آپ کو بھی دے رہا ہوں۔‘‘ غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں آپ کو آپس کی لڑائی کے نتائج بتا رہا ہوں۔جو ہم دونوں کیلئے اچھے نہیں ہوں گے۔اس کا فائدہ مدینہ والوں کو پہنچے گا۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں۔میں فتح کی صورت میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا مفتوحہ علاقہ آپ کا ہو گا۔میں اپنے علاقے میں واپس آ جاؤں گا۔ہم آپس میں لڑ کراپنی طاقت ضائع نہ کریں۔پہلے ایک ایسی طاقت کو ختم کریں جو مدینہ میں ہم دونوں کے خلاف تیا ر ہو رہی ہے۔‘‘’’میں تمہاری تجویز کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ شہنشاہ ہرقل نے کہا۔’’پھر اپنی فوج کو حکم دے دیں کہ غسان کی بستیوں میں لوٹ مار بند کر دیں۔‘‘’’دے دوں گا۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ہمیں مدینہ والوں کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ہم مدینہ کی طرف بڑھیں گے۔‘‘
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔مدینہ کے تین ہزار مجاہدین مدینہ سے بہت دور نکل گئے تھے۔موتہ سے کچھ فاصلے پر معان نام کا ایک مقام تھا ۔وہاں انہوں نے پڑاؤ کیا۔اس علاقے اور اس سے آگے کے علاقے میں مجاہدین اجنبی تھے۔انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہے۔معلوم یہ کرنا تھا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔اگر ہے تو کتنی ہے اور کیسی ہے؟یہ معلوم کرنے کیلئے تین چار مجاہدین کو قریب سے شتر سواروں کے بھیس میں آگے بھیج دیا گیا۔ان آدمیوں نے رات آگے کہیں جاکر گزاری اور اگلی شام کو واپس آئے۔وہ جو خبر لائے تھے وہ اچھی نہیں تھی ۔وہ دور آگے چلے گئے تھے۔ پہلے انہیں غسان کے دو کنبے نظر آئے جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہے تھے۔دونوں کنبوں میں نوجوان لڑکیاں اور جوان عورتیں زیادہ تھیں۔وہ لوگ امیر کبیر معلوم ہوتے تھے۔ان کا سامان کئی اونٹوں پر لدا تھا۔ یہ قافلہ ایک جگہ آرام کیلئے رکا ہوا تھا۔ مجاہدین بھی وہیں رک گئے اور انہوں نے قافلے والوں کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرلی اور یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں اوروہاں سے تجارت کا سامان لائیں گے۔’’یہیں سے واپس چلے جاؤ ۔‘‘قافلے کے آدمیوں نے انہیں بتایا ۔’’روم کے بادشاہ ہرقل کا لشکر لوٹ مار اور قتل وغارت کرتا چلا آرہا ہے۔تم سے اونٹ اور مال و دولت چھین لیں گے اور ہو سکتا ہے تمہیں قتل بھی کر دیں۔‘‘پھر ہرقل کی فوج کشی کی باتیں ہوتی رہیں پتا چلا کہ انہوں نے ہرقل کی فوج دیکھی نہیں صرف سنا ہے کہ یہ فوج اُردن میں داخل ہو کر لوٹ مار کر رہی ہے ۔ان کنبوں میں چونکہ عورتیں زیادہ تھیں اس لیے انہیں بچانے کیلئے یہ لوگ بھاگ نکلے۔ مجاہدین کیلئے ضروری ہو گیا کہ وہ ہرقل کے متعلق صحیح صورتِ حال معلوم کریں ۔یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ مجاہدین اور آگے چلے گئے۔ انہیں غسان کی ایک بستی نظر آگئی۔ وہ بستی میں چلے گئے۔ بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں ۔مگر راستے میں رہزنوں نے انہیں لوٹ لیا،بستی والوں نے انہیں کھانا کھلایا اور خاصی آؤ بھگت کی۔وہاں سے انہیں صحیح اطلاع ملی۔
صحیح صورتِ حال یہ تھی کہ ہرقل اورقبیلہ غسان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا۔ قبیلہ غسان نے اپنی فوج ہرقل کی فوج میں شامل کر دی تھی اور دونوں فوجوں کا رخ مدینہ کی طرف تھا۔ مؤرخوں نے ہرقل کی فوج کی تعداد ایک لاکھ ،اور ایک لاکھ غسان کی فوج کی تعداد لکھی ہے لیکن بعض مؤرخ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ دونوں فوجوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں ۔بہر حال مدینہ کی اسلامی فوج کی تعداد سب نے تین ہزار لکھی ہے۔
’’اگر ہم واپس چلے گئے تو یہ ہرقل اور غسان کیلئے دعوت ہوگی کہ بے دھڑک مدینہ تک چلے آؤ۔‘‘عبداﷲ ؓبن رواحہ نے کہا۔’’ہم دشمن کو یہیں پر روکیں گے۔‘‘’’کیا ہم اتنی تھوڑی تعداد میں اتنے بڑے لشکر کو روک سکیں گے؟‘‘ زیدؓ بن حارثہ نے پوچھا۔’’کون سے میدان میں ہم تھوڑی تعداد میں نہیں تھے؟‘‘جعفر ؓبن ابی طالب نے کہا ۔’’اگر ہم مل کر کسی فیصلہ پرنہیں پہنچ سکتے تو ہم میں سے کوئی مدینہ چلا جائے اور رسول اﷲﷺ سے احکام لے آئے ۔‘‘’’ہم اتنا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘عبداﷲؓ نے کہا۔’’ دشمن ہمیں اتنی مہلت نہیں دے گا ۔خدا کی قسم !میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دوں گا کہ ہم اس کے لشکر سے ڈر گئے ہیں ۔‘‘’’اور میں مدینہ میں یہ کہنے کیلئے داخل نہیں ہوں گا کہ ہم پسپا ہو کر آئے ہیں ۔‘‘زیدؓ نے کہا ۔’’جانیں قربان کر کے زندہ رہنے والوں کیلئے مثال قائم کر جائیں گے۔ یہ مت بھولو کہ غسان کی فوج میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عیسائی اپنے مذہب کی خاطر لڑیں گے۔‘‘عبداﷲؓ بن رواحہ کھڑے ہوئے اور اپنے مجاہدین کو اکھٹا کر کے اتنے جوشیلے لہجے میں خطاب کیا کہ تین ہزار مجاہدین کے نعرے زمین و آسمان کو ہلانے لگے۔سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ نے آگے کو کوچ کا حکم دے دیا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ مجاہدینِ اسلام نے اپنے آپ کو بڑے ہی خطرناک امتحان میں ڈال دیا۔ہرقل اور غسان کے سردارِ اعلیٰ کو معلوم ہو گیا تھا کہ مدینہ سے چند ہزار نفری کی فوج اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آرہی ہے۔مجاہدین کو کچل ڈالنے کیلئے ہرقل اور غسان کے لشکر آ رہے تھے۔ مجاہدین بڑھتے چلے گئے اور بلقاء پہنچے۔انہیں اور آگے جانا تھا لیکن غسان کی فوج کے دو دستے جن کی تعداد مجاہدین کی نسبت تین گناتھی،راستے میں حائل ہو گئے۔ زیدؓ بن حارثہ نے مجاہدین کو دور ہی روک لیااور ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر علاقے کا جائزہ لیا ۔انہیں یہ زمین لڑائی کیلئے موزوں نہ لگی۔دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے زیدؓبن حارثہ مجاہدین کو پیچھے لے آئے۔ غسان کی فوج نے اسے پسپائی سمجھ کر مجاہدین کا تعاقب کیا ۔زیدؓ موتہ کے مقام پر رک گئے اور فوراً اپنے مجاہدین کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔انہوں نے فوج کو تین حصوں میں ترتیب دیا۔دایاں اور بایاں پہلو اور قلب۔دائیں پہلو کی کمان قطبہؓ بن قتاوہ کے پاس اور بائیں پہلو کی عبایہ ؓبن مالک کے ہاتھ تھی۔زیدؓ خود قلب میں رہے۔
’’اﷲ کے سچے نبی کے عاشقو! ‘‘زیدؓ بن حارثہ نے بڑی بلند آواز سے مجاہدین کو للکارا۔’’ آج ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم حق کے پرستار ہیں ۔آج باطل کے نیچے سے زمین کھینچ لو۔اپنے سامنے باطل کا لشکر دیکھو اور اس سے مت ڈرو۔یہ لڑائی طاقت کی نہیں ،یہ جرات، جذبے اور دماغ کی جنگ ہے۔میں تمہارا سپہ سالار بھی ہوں اور عَلَم بردار بھی۔دشمن کا لشکر اتنا زیادہ ہے کہ تم اس میں گم ہو جاؤ گے۔لیکن اپنے ہوش گم نہ ہونے دینا۔ہم اکھٹے لڑیں گے اور اکھٹے مریں گے۔‘‘ زید نے عَلَم اٹھالیا۔دشمن کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔زیدؓ کے حکم سے مجاہدین کے دائیں اور بائیں پہلو پھیل گئے اور آگے بڑھے ۔یہ آمنے سامنے کا تصادم تھا۔مجاہدین دائیں اور بائیں پھیلتے اور آگے بڑھتے چلے گئے اور زید ؓنے قلب کو آگے بڑھا دیا۔وہ خود آگے تھے۔ یہ معرکہ ایساتھا کہ مجاہدین کا حوصلہ اور جذبہ برقرار رکھنے کیلئے سپہ سالار کا آگے ہونا ضروری تھا۔چونکہ عَلَم بھی سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے پاس تھا، اس لیے دشمن انہی پر تیر برساتا اور ہلّے بول رہاتھا ۔زیدؓ کو تیر لگ چکے تھے۔ جسم سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے عَلَم نیچے نہ ہونے دیا اور ان کی للکار خاموش نہ ہوئی۔عَلَم اٹھاتے ہوئے وہ تلوار بھی چلا رہے تھے۔پھر ان کے جسم میں برچھیاں لگیں۔آخر وہ گھوڑے سے گر پڑے اور شہید ہو گئے۔عَلَم گرتے ہی مجاہدین کچھ بددل ہوئے لیکن جعفر ؓبن ابی طالب نے بڑھ کر عَلَم اٹھا لیا۔’’رسول اﷲﷺ کے شیدائیو !‘‘جعفر ؓنے عَلَم اوپر کرکے بڑی ہی اونچی آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم! اسلام کا عَلَم گر نہیں سکتا۔‘‘اور انہوں نے زید ؓبن حارثہ شہید کی جگہ سنبھال لی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔