ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیر کامل از عمیرہ احمد پہلی قسط

0 comments

میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟ بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑگئی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بے بسی سے مسکرائی
بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا
کیوں مشکل ہے ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا
کیونکہ میری بہت ساری خواہشات ہیں اور ہر خواہش ہی میرے لیے بہت اہم ہے ۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا
وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوار کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں
ایف ایس سی کلاسس میں آج انکا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں اپنے فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کرکے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا
تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟
امامہ نے قدرے حیرانگی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑگئی
پہلے تم بتاؤ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ امامہ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کردیا
پہلے میں نے پوچھا ہے۔ تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے ۔ جویریہ نے گردن ہلائی
اچھا ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اور سوچنے دو۔ امامہ نے فورا" ہار مانتے ہوئے کہا ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ؟ وہ بڑبڑائی ۔ ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔ اس نے کہا
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ ہنسی
بس پچاس ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو سال تو ملنے چاہیے انسان کو دنیا میں ۔۔۔۔ اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی ۔ اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالٹے ہوئے کہا
اچھا اور ۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کہا
اور یہ کہ میں ملک کے سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ سب سے اچھی آئی سپشلسٹ۔ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دی لسٹ ہو ۔ اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا ۔
اچھا ۔۔۔۔۔ اور اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو ؟ جویریہ نے کہا ۔ آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے
ایسا ممکن ہی نہیں۔ میں اتنی محنت کررہی ہوں کہ میرٹ پر ہرصورت آؤں گی ۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے
پھر بھی اگر ایسا ہوا کہ تم ڈاکٹر نہ بن سکو تو ۔۔۔۔۔۔۔؟
ہوہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں اس پروفیشن کے لیے سب کچھ چھوڑسکتی ہوں ۔ یہ میرا خواب ہے اور خوابوں کو بھلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ امپاسبل
امامہ نے قطعی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ اٹھا کر منہ میں ڈالا
زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتی تو ۔۔۔۔۔ ؟ پھر تم کیا کرو گی ۔۔۔۔۔؟ کیسے ری ایکٹ کرو گی ؟ امامہ اب سوچ میں پڑگئی
پہلے تو میں بہت روؤں گی ۔۔۔ بہت ہی زیادہ ۔۔۔۔۔ کئی دن ۔۔۔۔۔ اور پھر میں مرجاؤں گی۔
جویریہ بے اختیار ہنسی ۔ اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم یہ کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہیتی ہو ۔۔۔۔۔ اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤگی ۔
ہاں تو پھر زندہ رہ کرکیا کروں گی ۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا ؟
یعنی تمہاری ایک بڑی خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کردے گی ؟
تم یہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔ "
تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ڈاکٹربننا ہے، لمبی زندگی پانا نہیں
تم کہہ سکتی ہو۔
اچھا ۔۔۔۔۔ اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو پھر مرو گی کیسے ۔۔۔۔۔ خودکشی کروگی یا طبعی موت ؟ جویریہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا
طبعی موت ہی مروں گی ۔۔۔۔۔ خودکشی تو کرہی نہیں سکتی ۔ امامہ نے لاپرواہی سے کہا ۔
اور اگر تمہیں طبعی موت آ نہ سکی تو ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے جلد نہ آئی تو پھر تو تم ڈاکٹر نہ بننے کے باوجود بھی لمبی زندگی گزارو گی ۔
نہیں، مجھے پتا ہے کہ اگر میں ڈاکٹر نہ بنی تو پھر میں بہت جلد مرجاؤں گی ۔ مجھے اتنا دکھ ہوگا کہ میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی ۔ وہ یقین سے بولی ۔
تم جس قدر خوش مزاج ہو، میں کبھی یقین نہیں کرسکتی کہ تم کبھی اتنی دکھی ہوسکتی ہو کہ رو رو کر مرجاؤ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ تم ڈاکٹر نہیں بن سکیں
Look funny
جویریہ نے اس بار اسکا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا


تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ امامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا
رہنے دو ۔۔۔۔۔
کیوں رہنے دوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ نا
تمہیں برا لگے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا
امامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ مجھے کیوں برا لگے گا
جویریہ خاموش رہی ۔
ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی ؟ امامہ نے اپنا سوال دہرایا
بری لگے گی ۔ جویریہ نے مدھم آواز میں کہا
آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی ۔ امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ۔ کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں ؟ امامہ کو اچانک یاد آیا
جویریہ ہنس دی ۔ نہیں ۔۔۔۔۔ زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا ۔
پہیلیاں بجھوانا چھوڑو اور مجھے بتاؤ ۔ امامہ نے کہا
میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
وعدہ کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگئی ۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں ۔ جویریہ نے کہا ۔
اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں ، تمہاری خواہش کا تعلق میرے لئے کسی بہت اہم چیز سے ہے ۔۔۔۔ رائٹ ۔۔۔۔؟ امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ جویریہ نے سر ہلا دیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے لیے کون سی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں ۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گئی
مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی ، میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی ۔ بتا دو جویریہ ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔ اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہورہا ہے۔ اس نے منت کی
وہ کچھ دیرسوچتی رہی ۔ امامہ غور سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی ، پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا
میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا
جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا ، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی ۔
جویریہ مسکرائی
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویرہ نے اسے اپنی خواہش بتائی
امامہ کا چہرہ یک دم سفید پڑگیا ۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ اندازہ نہیں کرسکی ۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے
میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانوگی ۔ جویرہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر امامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکتھی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☼☼☼۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ ایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا ۔ معیز کے حلق سے ایک بار پھر چیخ نکلی اور وہ اس بارسیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لیے لے آیا تھا۔
اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیاں ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز اور اسکے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوشگوار رہے تھے
انکا جھگڑا بچپن سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک صرف زبانی کلامی باتوں اور دھمکیوں تک ہی محدود تھا ، مگر اب کچھ عرصہ سے وہ دونوں ہاتھا پائی پر بھی اتر آئے تھے ۔
آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکول سے اکٹھے واپس آرہے تھے اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا ۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی ۔ میعز بری طرح تلملایا ۔ تم اندھے ہوچکے ہو ؟
وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جا رہا تھا ۔ معیز کے چلانے پر اس نے پلٹ کر اس کو دیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا ۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا ۔
اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا ۔ اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا ۔ اس نے بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا ۔ نکالوں گا ۔۔۔۔۔ تم کیا کرو گے ۔۔۔۔۔ ؟ ہاتھ توڑدو گے ؟ اتنی ہمت ہے ؟
یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کرو گے ۔ معیزاپنے کمرے کی طرف بڑھا مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کردیا ۔
نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ ۔ اس نے معیز کا بیگ اٹھا کر دور پھینک دیا ۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا ۔ ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری ۔ جوابا" اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکا مارا جو اسکی ناک پر لگا ۔ اگلے ہی لمحے اسکی ناک سے خون ٹپکنے لگا ۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی ۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اسکا گلا دبانے کی کوشش کی ۔ معیز نے جوابا" اسکی شرٹ کو کالرز سے کھینچا۔ اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اسکی ٹائی نکل گئی ۔
ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کردکھاتا ہوں ۔ معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھالیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی ۔ مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اسکے بھائی کے ہاتھ میں تھا ۔ اس نے پوری وقت سے گھما کراتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہ سکا ۔ اس نے یکے بعد دیگرے معیز کی کمر اور ٹانگ پر ریکٹ برسا دیے ۔
اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں لاؤنج میں آگیا ۔
کیا تکلیف ہے تم دونوں کو ۔۔۔۔۔ گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو ۔ اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا ۔
اور تم ۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔ اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی ۔
نہیں آتی ۔ اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا ۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا
تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا
ہاں کیوں نہیں ۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک کر اس نے معیز سے کہا ۔ اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا ۔۔۔۔۔ ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا ۔۔۔۔۔ تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی
معیز کو اشتعال آگیا ۔ تم اپنی ناک سنبھالو ۔۔۔۔۔ وہ یقینا" ٹوٹ گئی ہے ۔ معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا ۔ جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسز سمانتھا رچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا ۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا ۔ وقتا" فوقتا" وہ باہر سے نظریں ہٹاتا ۔۔۔۔۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو دیکھتا اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا ۔
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں ۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں انکے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں کے سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں ۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا ۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا ۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا ۔ مسز سمانتھا سے اسکی نظریں ملیں انہوں نے مسکرا کر ایک بار پھر اپنا لیکچر شروع کردیا ۔ کچھ دیرتک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں لڑکے پر رکھیں جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی ،انکا خیال تھا کہ وہ خاصا شرمندہ چکا ہے اس لیے اب دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا ۔ لیکن صرف دو منٹ بعد ہی انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا ۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں ۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر انکی طرف دیکھا ۔ اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ پر کچھ لکھنے کے بعد اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس بار انکے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ اور انکے خاموش ہوتے ہی لڑکے نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا اس بار لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں ۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔
اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز رچرڈز کا چہر سرخ ہوگیا ۔
سالار تم کیا دیکھ رہے ہو ۔ انہوں نے سختی سے پوچھا
یک لفظی جواب آیا ۔ وہ اب چبھتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا Nothing
تمہیں پتا ہے میں کیا پڑھا رہی ہوں ؟
اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپHope so
سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا
یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو ۔ انہوں نے اسفنج کے ساتھ
رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یک بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے ۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا ۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا ، تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا ۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پراسی انداز سے اچھالا جس انداز سے سمانتھا نے اچھالا تھا اور انکی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔ مسز سمانتھا نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس لیبلڈ ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اوریہ تین منٹ میں بننے والی ڈایا گرام انکی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی ۔ وہ اس میں معمولی سی بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکیں ۔ کچھ خفیف ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی ۔ اس بار اندر سے امامہ کی آواز سنائی دی
کون ہے
امامہ ۔ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔ وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔ اندر خاموشی چھا گئی
کچھ دیر بعد لاک کھلنے کی آواز آئی ۔ وسیم نے دروازہ کھول دیا ۔ امامہ اسکی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی
تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟
آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا ۔ ابھی تو دس بجے ہیں ۔ وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بس نیند آرہی تھی مجھے ۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وسیم اسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا ۔
تم رو رہی تھیں ؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی
نہیں رو نہیں رہی تھی بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی
وسیم نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی
کہیں بخار تو نہیں ہے ۔ اس نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ بخار تو نہیں ہے ۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں
میں لے چکی ہوں
اچھا تم سو جاؤ ۔ ۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے
وسیم نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر سے لاگ کرلیا ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ جب طیبہ نے اندر جھانکا ۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں
یہ کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اندر آتے ہی کہا
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔ لڑکے نے ٹی وی سے نطریں نہیں ہٹائیں
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک ۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں ؟ طیبہ نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا ۔
سو واٹ ۔ لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا ۔
سو واٹ ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیاں ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے ۔ طیبہ نے ڈانٹا
مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں ناگواری آگئی
پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو ۔ طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا
نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا ۔ میری اسٹدیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں ۔ آپ کا نہیں ۔
اگر تمہیں اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس وقت یہاں بیٹھے ہوتے ؟
اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی سےہاتھ سےStep a side
اشارہ کرتے ہوئے کہا
آج تمہارے پاپا آ جائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں ۔ طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی
ابھی بات کرلیں ۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ؟ پاپا کیا کرلیں گے ۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی تھی میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔
یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے ۔ طیبہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا ۔
میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو ۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں ۔ اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے نہ بولا کریں ۔ ایگزام ہورہے ہیں ، اسٹدیز پر دھیان دو ۔ اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے فادر سے بات کروں گی
What rubbish
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا
طیبہ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلومینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی ، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں ، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے ۔ انکی جسمانی حرکات سے انکی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہورہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریبا" درمیان میں بیٹھے سالار پر جا ٹھہریں ۔ پچس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا ۔ اپنے سات سالہ کیریئر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے پایا تھا ۔ نو بج کر دو منٹ پر انہوں نے سالار کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے تھما دیا ۔ تیس منٹ بعد اسے وہ پیپر ان سے لے لینا تھا ۔ نو بج کر objective paper
دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ پیپر ہاتھ میں لیے فلومینا فرانسس کی طرف جا رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی دیکھتی آئی تھی ۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کرکے ان کے سر پر کھڑا تھا ۔
پیپر کو دوبارہ دیکھ لو ۔ انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا ۔ وہ جانتی تھیں کہ اسکا جواب کیا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں ۔ وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتی تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپر لے جا کر کرسی کے ہتھے پر رکھ دیتا اور بازو لپیٹ کر بیٹھ جاتا ۔ انہیں یاد نہیں تھا کہ کبھی اس نے انکے کہنے پر پیپرز کو دوبارہ چیک کیا ہوا ۔ اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ اس کے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا
انہوں نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا ۔
تم جانتے ہو سالار ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے ؟ انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تمہیں تیس منٹ کا پیپر ۔۔۔۔۔ تیس منٹ کے بعد سبمٹ کرواتے ہوئے دیکھوں وہ انکی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا ۔ آپ کی یہ خواہش اس صورت میں پوری ہوسکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں
نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں بھی تم یہ پیپر دس منٹ میں کردو گے ۔
اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑگیا ۔ فلومینا نے ایک نظر اسکے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا ۔۔۔۔۔ زیرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا ۔ یہ کیا ہے امامہ؟ تم تو مارکیٹ گئی تھی ۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں ۔
ہاں امی مجھے کتابیں ہی لینی تھیں ۔ مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لیے ۔
کس کو تحفہ دینا ہے
وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری ۔ اسکی سالگرہ ہے اسکی کے لیے خریدا ہے ۔ کوریئر سروس کے ذریعے بھجوادوں گی کیونکہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے ۔
لاؤ پھر مجھے دے دو یہ پیکٹ ۔ میں وسیم کو دوں گی وہ بجھوا دے گا
نہیں امی ۔ میں ابھی نہیں بھجواؤں گی ۔ ابھی اسکی سالگرہ کی تاریخ نہیں آئی ۔ سلمیٰ کو لگا جیسے وہ یک دم گھبرا گئی ہو ۔ انہیں حیرانی ہوئی ۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی ؟
تین سال پہلے امامہ کی وجہ سے انہیں اور انکے شوہر ہاشم کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہ تب سے اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اور ہاشم اس سے بھی زیادہ ۔ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔ وہ دونوں اب اسکی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے ۔ خاص طور پر اسجد سے اسکی نسبت طے کرکے ۔ وہ جانتی تھیں امامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا ۔ وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجد سے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی ۔ اسجد اور اسکے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت چپ ہوتی جارہی ہے ۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔
مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی ۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے ۔ پھر وقت بھی کہاںہ وتا ہے اس کے پاس ۔ ۔۔۔ سلمیٰ ہمیشہ خود کو تسلی دے لییتیں ۔
وہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وجہ شادی کرچکی تھیں ۔ جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے ۔
اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ لڑکیوں کے لیے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے ۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔ سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے امامہ سے نظریں ہٹا لیں ۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتی انکی نظریں اس پر اسی طرح مرکوز رہتیں
پتا نہیں یہ ساجد کہاں رہ گیا ہے ۔ جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ ۔ انہیں اچانک انہیں ملازم کا خیال آیا ۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں ۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نیو ایئر نائٹ تھی ۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے ۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹرسائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا ۔ ان میں چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے ۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکیوں پر آوازیں کستے رہتے تھے ۔
اپنی بائیکس پر سوار اب وہ مختلف سڑکوں پر چکر لگا رہے تھے ۔ ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتا" فوقتا" چلا رہے تھے ۔ پونے بارہ بجے وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا ۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے ۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پرٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے کیونکہ ان میں سے تقریبا" تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے
وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہورہے تھے ۔ چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہوجانی تھیں ۔ اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں ۔ اور اسکے بعد تقریبا" تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی ۔ جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لئے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہونے ہی وہاں ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوجاتا تھا ۔ اور وہاں موجود لوگ اسی طوفان بدتمیزی کے لئے وہاں آئے تھے
پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کررہا تھا ۔ ڈانس میں اسکی مہارت قابل دید تھی
بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس دوبارہ آن کردی گئی ۔
اندھیرے کے بعد سیکنڈر گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں ۔ چند لمحے پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا ۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ لاٹ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے ۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بیئر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا ۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بیئر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری طاقت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈ اسکرین پر دے مارا ۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈ اسکرین چور چور ہوگئی ۔ وہ لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کامران کو ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ اسکرین پر موجود اسکور میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہورہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ مشکل ٹریک تھا جس پر کامران کو گاڑی ڈرائیو کرنی تھی ۔ سالار لاؤنج کے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھا اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا ، مگر وقتا" فوقتا" نظر اٹھا کر ٹی وی اسکرین کو بھی دیکھ رہا تھا جہاں کامران اپنی جدوجہد میں مصروف تھا۔ ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد اس نے نوٹ بک بند کرکے سامنے پڑی میز پر رکھ دی پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر کے پیچھے باندھے وہ کچھ دیر اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں کامران اپنے تمام چانسز ضائع کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا گیم کھیلنے کی تیاری کر رہا تھا ۔
کیا پرابلم ہے کامران ؟ سالار نے کامران کو مخاطب کیا
ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔ نیا گیم لے کر آیا ہوں مگر اسکور کرنے میں بہت مشکل ہو رہی ہے ۔ کامران نے بے زاری سے کہا
اچھا مجھے دکھاؤ ۔۔۔۔۔ اس نے صوفے سے اٹھ کر ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
کامران نے دیکھا ۔ پہلے بیس سیکنڈ میں ہی سالار اس جس اسپیڈ پر دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران ابھی تک نہیں دوڑا پایا تھا ۔ جو ٹریک اسے بہت مشکل لگ رہا تھا وہ سالار کے سامنے ایک بچکانہ چیز محسوس ہو رہا تھا ۔ ایک منٹ بعد وہ جس اسپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پرکامران کے لیے اس پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا جب کہ سالار اس اسپیڈ پر بھی گاڑی کو مکمل طور پر کنٹرول کئے ہوئے تھا ۔
تین منٹ بعد کامران نے پہلی بار گاڑی کو ڈگمگاتے اور پھر ٹریک سے اتر کر ایک دھماکے سے تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ کامران نے مسکراتے ہوئے مڑ کر سالار کی طرف دیکھا ۔ گاڑی کیوں تباہ ہوئی تھی وہ جان گیا تھا ۔ ریموٹ اب سالار کے ہاتھ کی بجائے میز پر پڑا تھا اور وہ اپنی نوٹ بک اٹھائے کھڑا ہو رہا تھا ۔ کامران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
بہت بورنگ گیم ہے ۔ سالار نے تبصرہ کیا اور اسکی ٹآنگوں کو پھلانگ کر لاؤنج سے باہر نکل گیا ۔ کامران ہونٹ بھینچے سات ہندسوں پر مبنی اس اسکور کو دیکھ رہا تھا جو اسکرین کے ایک کونے میں جگمگا رہا تھا ، کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں اس نے بیرونی دروازے کو دیکھا جس سے وہ غائب ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک بار پھر خاموش تھے ۔ اسجد کو الجھن ہونے لگی ۔ امامہ اتنی کم گو نہیں تھی جتنی وہ اس کے سامنے ہو جاتی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اس نے گنتی کے لفظ بولے تھے
وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج تھی۔ ان دونوں کی نسبت ٹھہرائے جانے کے بعد بھی ابتدائی سالوں میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اسجد کو اس سے بات کرکے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ بلا کی حاضر جواب تھی ، مگر پچھلے کچھ سالوں میں وہ یک دم بدل گئی تھی اور میڈیکل کالج میں جاکر تو یہ تبدیلی اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی ۔ اسجد کو بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس سے بات کرتے ہوئے وہ حد درجہ محتاط رہتی ہے ، کبھی وہ الجھی ہوئی سی محسوس ہوتی اور کبھی اسے اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری محسوس ہوتی ۔ اسے لگتا وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا پاکر اس کے پاس سے اٹھ کر چلی جانا چاہتی ہے ۔
اس وقت بھی وہ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا
میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں خوامخواہ ہی تمہارے لیے یہاں آنے کا تردد کرتا ہوں ۔۔۔۔ تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا کہ میں آؤں یا نہ آؤں ۔ اسجد نے ایک گہری سانس لے کر کہا ۔ وہ اس کے بالمقابل لان چیئر پر بیٹھی دور باونڈی وال پر لگی بیل کو گھور رہی تھی۔ اسجد کی شکایت پر اس نے گردن ہائے بغیر اپنی نظریں بیل سے ہٹا کراسجد پر مرکوز کردیں ۔ اسجد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ خاموش رہی تو اس نے لفظوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔
تمہیں میرے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا امامہ ۔۔۔۔ کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں ؟
اب میں کیا کہہ سکتی ہوں اس پر ؟
تم کم از کم انکار تو کرسکتی ہو ۔ میری بات کو جھٹلا تو سکتی ہو کہ ایسی بات نہیں ہے ۔ میں غلط سوچ رہا ہوں اور ۔۔۔۔۔۔ ؟
ایسی بات نہیں ہے ۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں ۔ امامہ نے اسکی بات کاٹ کرکہا ۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی ٹھنڈا اور چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا پہلے تھا ، اسجد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا ۔
ہاں میری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور میں واقعی غلط سوچ رہا ہوں مگر تم سے بات کرتے ہوئے میں ہر بار ایسا ہی محسوس کرتا ہوں ۔
کس بات سے آپ ایسا محسوس کرتے ہیں ۔ اس بار پہلی بار اسجد کو اسکی آواز میں کچھ ناراضی جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
بہت سی باتوں سے ۔۔۔۔۔ تم میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتیں ۔
حالانکہ میں آپ کی ہر بات کا ڈھنک سے جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن اب اگر آپ کو میرے جواب پسند نہ آئیں تو میں کیا کرسکتی ہوں ۔
اسجد کو اس بار بات کرتے ہوئے وہ کچھ مزید خفا محسوس ہوئی ۔
میں نے کب کہا کہ مجھے تمہارے جواب پسند نہیں آئے ۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ میری ہر بات کے جواب میں تمہارے پاس ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے باتیں کررہا ہوں ۔
اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ تم ٹھیک ہو تو میں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہی دوں گی ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ اس سوال کا جواب کسی تقریر سے دیا جاسکتا ہے تو آپ مجھے وہ دے دیں میں وہ کردوں گی ۔ وہ بالکل سنجیدہ تھی ۔
ہاں اور نہیں کے ساتھ بھی تو کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو تم جوابا" میرا حال ہی پوچھ سکتی ہو ۔
میں آپکا کیا حال پوچھوں ۔ ظاہر ہے اگر آپ میرے گھر آئےہیں ، میرے سامنے بیٹھے مجھ سے باتیں کررہے ہیں تو اسکا واضح مطلب تو یہی بنتا ہے کہ آپ ٹھیک ہیں ورنہ اس وقت آپ اپنے گھر اپنے بستر پر پڑے ہوتے ۔
یہ فارمیلٹی ہوتی ہے امامہ
ارے آپ جانتے ہیں ، میں فارمیلٹیز پر یقین نہیں رکھتی ۔ آپ بھی مجھ سے میرا حال نہ پوچھا کریں ۔ میں بالکل بھی مائنڈ نہیں کروں گی ۔ اسجد جیسے لاجواب ہوگیا
ٹھیک ہے فارمیلٹیز کو چھوڑو ، بندوہ کوئی اور بات کرلیتا ہے، کچھ ڈسکس کرلیتا ہے ، اپنی مصروفیات کے بارے میں ہی کچھ بتا دیتا ہے ۔
اسجد میں آپ سے کیا ڈسکس کروں ۔۔۔۔۔ آپ بزنس کرتے ہیں ۔ میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں ۔ آپ سے میں کیا پوچھوں ، اسٹاک مارکیٹ کی پوزیشن ۔۔۔۔۔ ؟ انڈیکس میں کتنے پوائنٹس کا اضافہ ہوا ۔ یا اگلی کنسائنمنٹ کہاں بھیج رہے ہیں ؟ اس بار گورنمنٹ نے آپ کو کتنی ربیٹ دی ۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی سرد تھا ۔ آپ سے اناٹومی ڈسکس کروں ، کون سے عوامل انسان کے جگر کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ بائی پاس سرجری میں اس سال کون سی نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے ۔ دل کی دھڑکن بحال کرنے کے لیے کتنے سے کتنے وولٹ کا الیکٹرک شاک دیا جاسکتا ہے ۔ تو ہم دونوں کی مصروفیات تو یہ ہیں ۔ اب انکے بارے میں ڈسکشن سے آپ اور میں محبت اور بے تکلفی کی کون سی منزلیں طے کریں گے ، میری سمجھ سے باہر ہے ۔
اسجد کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔ اب وہ اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے امامہ سے شکایت کی تھی ۔
اور بھی تو مصروفیات ہوتی ہیں انسان کی ۔ اسجد نے قدرے کمزور لہجہ میں کہا
نہیں پڑھائی کے علاوہ میری تو اور کوئی مصروفیات نہیں ہیں ۔ امامہ نے قطعیت سے سرہلاتے ہوئے کہا
پہلے بھی تو ہم دونوں آپس میں بہت سی باتیں کرتے تھے ۔۔۔۔ امامہ نے اس کی بات کاٹ کرکہا پہلے کی بات چھوڑیں ، اب میں وقت ضائع کرنا افورڈ نہیں کرسکتی ۔ حیرت مجھے آپ پر ہو رہی ہے آپ بزنس میں ہوکر اتنی ان میچور اور ایموشنل سوچ رکھتے ہیں ۔ آپ کو توخود بہت پریکٹیکل ہونا چاہیے ۔
اسجد کچھ نہ بول سکا
ہم دونوں کے درمیاں جو رشتہ ہے وہ ہم دونوں جانتے ہیں ۔ اب اگر آپ میری پریکٹیکل اپروچ کو بے التفاتی ، بے نیازی ، ناراضی سمجھیں تو میں کیا کرسکتی ہوں ۔ میں آپ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہوں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس رشتے کو اہمیت دیتی ہوں ورنہ کوئی اجنبی تو اس طرح میرے ساتھ یہاں بیٹھ کر چائے نہیں پی سکتا ۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے آنے یا نہ آنے سے مجھے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں ۔ حقییقت یہ ہے کہ ہم دونوں ہی بہت مصروف رہتے ہیں ۔ ہم ماڈرن ایج کی پیداوار ہیں ۔ نہ میں کوئی ہیر ہوں کہ آپ کے لئے گھی کی چوری لے جاکر گھنٹوں آپکی بانسری سنتی رہوں اور نہ آپ رانجھے کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں کہ میرے لئے گھنٹوں یہ فریضہ سر انجام دیں ۔ سچ یہی ہے کہ فرق واقعی نہیں پڑتا کہ ہم دونوں ملیں یا نہ ملیں ۔ باتیں کریں یا نہ کریں ۔ ہمارا رشتہ وہی رہے گا جو اب ہے یا آپ کو لگتا ہے اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے ؟
اگر اسجد کے ماتھے پر پسینہ نہیں آیا تھا تو اس کی واحد وجہ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ان دونوں کی عمر میں آٹھ سال کا فرق تھا مگر اس وقت پہلی بار اسجد کو یہ فرق اٹھارہ سال کا محسوس ہوا تھا ۔ وہ اسے اپنے سے اٹھارہ سال بڑی لگی تھی ۔ دو ہفتے پہلے وہ انیس سال کی ہوئی تھی ۔ مگر اسجد کو لگ رہا تھا جیسے وہ ٹین ایج سے سیدھی ادھیڑ عمری میں چلی گئی تھی ۔ وہ اس کے بالمقابل ٹانگ پر ٹانگ رکھے اسجد کے چہرے پر نظریں جمائے اسی بے تاثر انداز میں اس کے جواب کی منتظر تھی ۔ اسجد نے کرسی کے ہتھے پر ٹکے اس کے ہاتھ میں منگنی کی انگوٹھی کو دیکھا اور کھنکھارکر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی
تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو میں صر اس لئے ڈسکشن کی بات کر رہا تھا کہ ہمارے درمیاں انڈر سٹینڈنگ ڈویلپ ہو سکے ۔
اسجد میں آپ کو بہت اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہوں اور یہ جان کر مجھے افسوس ہوا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے درمیاں ابھی بھی کسی انڈرسٹینڈنگ کو ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے ۔ میرا خیال تھا ہم دونوں کے درمیاں اچھی خاصی انڈر سٹینڈنگ ہے
وہ اسجد کا دن نہیں تھا اسجد نے اعتراف کیا
اور اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ اناٹومی اور بزنس کو ڈسکس کرکے ہم کوئی انڈرسٹینڈنگ ڈویلپ کرلیں گے تو ٹھیک ہے آئیندہ ہم یہی ڈسکس کرلیا کریں گے ۔ امامہ کے لہجے میں لاپرواہی کا عنصر واضح تھا
تم کو میری بات بری لگی ہے ؟
بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔۔ میں کیوں برا مانوں گی ؟ اس کے لہجے میں موجود حیرت کے عنصر نے اسجد کو مزید شرمندہ کردیا ۔
شاید میں نے غلط بات کی ہے
شاید نہیں یقیقنا" ۔ اس نے تینوں لفظوں پر باری باری زور دیتے ہوئے کہا ۔
تم جانتی ہو میرے نزدیک یہ رشتہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ میرے بہت سے خواب ہیں ۔ اس رشتے کے حوالے سے ، تمہارے حوالے سے ۔ اسجد نے ایک گہرا سانس لے کر کہا ۔ امامہ بے اثر چہرے کے ساتھ اسی بیل کو دیکھ رہی تھی ۔
شاید میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتا ہوں ۔ مجھے اس رشتے کے حوالے سے کوئی خوف نہیں ہے ۔ میں جانتا ہوں یہ رشتہ ہم دونوں کی مرضی سے ہوا ہے ۔
وہ اس کے چہرے پر نظریں مجائے بڑے جذب سے کہہ رہا تھا اور یکدم ہی اسے ایک بار پھر یہ احساس ہونے لگا تھا جیسے وہ وہاں موجود نہیں تھی ۔ اس کی بات نہیں سن رہی تھی ۔ اسجد کو لگا وہ ایک بار پھر خود سے باتیں کررہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بہت بڑی کوٹھی کے عقب میں موجود انیکسی سے میوزک کی آواز باہر لان تک آرہی تھی۔ باہر موجود کوئی بھی شخص انیکسی میں موجود لوگوں کی قوت برداشت پر حیرانی کا اظہار کرسکتا تھا لیکن وہ انیکسی کے اندر موجود لوگوں کی حالت دیکھ لیتا تو وہ اس حیران کن قوت برداشت کی وجہ جان جاتا ۔
انیکسی میں موجود چھ لڑکے جس حالت میں تھے اس حالت میں اس سے زیادہ تیز اور بلند میوزک بھی ان پر اثر انداز نہ ہوتا اور جہاں تک ساتویں لڑکے کا تعلق تھا تو وہ ایسی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا تھا ۔
انیکسی کا وہ کمرہ اس وقت دھویں کے مرغولوں اور عجیب قسم کی بو سے بھرا ہوا تھا ۔ قالین پر ایک مشہور ریسٹورنٹ سے لائے گئے کھانے کے کھلے ہوئے ڈبے اور ڈسپوزیبل پلیٹیں ، چمچے بھی پڑے تھے ۔ قالین پر کھانے پینے کی بچی کچی چیزیں اور ہڈیاں بھی ادھر ادھر پھینکی گئی تھیں ۔ سوفٹ ڈرنک کے بوتلیں بھی ادھر ادھر لڑھک رہی تھیں ، کیچپ کی بوتلوں سے نکلنے والی کیچپ قالین کو کچھ اور بدنما بنا رہی تھی ۔ وہ سات لڑکے اسی قالین پر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر براجمان تھے ان کے سامنے قالین پر بیئر کے خالی کینز کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ اورتفریح کا یہ سلسلہ وہیں تک نہیں رکا تھا اس وقت وہ ان ڈرگز کو استعمال کرنے میں مصروف تھے جن کا انتظام ان میں سے ایک نے کیا تھا
پچھلے دو ماہ میں وہ تیسری بار اس ایڈونچر کے لئے اکھٹے ہوئے تھے اور ان تین چار مواقع پر وہ چار مختلف قسم کی ڈرگز استعمال کرچکے تھے ۔ پہلی بار انہوں نے وہ ڈرگ استعمال کی تھی جو ان میں سے ایک کو اپنے باپ کی دراز سے ملی تھی ۔ دوسری بار انہوں نے جو ڈرگ استعمال کی تھی وہ انہوں نے اپنے ایک اسکول فیلو کے توسط سے اسلام آباد کے ایک کلب سے خریدی تھی اور اس بار وہ جو ڈرگ استعمال کررہے تھے وہ انہوں نے ایک ٹرپ پر راولپنڈی کی ایک مارکیٹ سے ایک افغان سے خریدی تھی ۔ تینوں مواقع پر انہوں نے ان ڈرگز کے ساتھ الکوحل کا استعمال بھی کیا تھا جس کا حصول ان کے لئے مشکل نہیں تھا ۔
اس وقت بھی ان سات لڑکوں میں سے چھ لڑکے پوری طرح نشے میں تھے ۔ ان میں سے ایک ابھی بھی کانپتے ہاتھوں سے ڈرگ سونگھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ جب کہ دو لڑکے سگریٹ پیتے ہوئے باقی لڑکوں سے ٹوٹی پھوٹی گفتگو کر رہے تھے ۔ صرف ساتواں لڑکا مکمل طور پر ہوش میں تھا ۔ اس لڑکے کا چہرہ مہاسوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے گلے میں موجود ایک سیاہ تنگ ڈوری میں تین چار تانبے کی عجیب سی شکلوں کے زیورات پروئے ہوئے تھے۔ ایلوس پریسلے اسٹائل کے کالرز والی ایک چیکرڈ ڈارک بلو شرٹ کے ساتھ وہ ایک بے ہودہ سی سرمئی جینز پہنے ہوئے تھا جس کے دونوں گھٹنوں پر میڈونا کا چہرہ پینٹ کیا گیا تھا ۔
اس نے آنکھیں کھول کر اپنی دائیں طرف موجود لڑکوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں مگر اس سرخی کے باوجود وہ ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی تھیں کہ وہ باقی لڑکوں کی طرح مکمل طور پر نشے کی گرفت میں تھا ۔ چند منٹ انہیں دیکھنے کے بعد اس نے سیدھے ہوتے ہوئے ڈبیا میں موجود باقی ڈرگ کون میں ڈال دی اور ایک چھوٹے سٹرا کے ساتھ اسے سونگھنے لگا ۔ کافی دیر بعد اس نے اسٹرا کو ایک طرف پھینکا اور ہاتھ پر تھوڑی سے ڈرگ رکھ کر زبان کی نوک سے کچھ دلچسپی ، تجسس مگر احتیاط کے ساتھ اسے چکھا ۔ دوسرے ہی لمحے اس نے برق رفتاری سے اپنے بائیں جانب تھوکا ، ڈرگ یقینا" بہت اچھی کوالٹی کی تھی ۔ اس کی آنکھیں اب پہلے سے زیادہ سرخ ہو رہی تھیں ، مگرابھی بھی وہ اپنے ہوش وحواس میں تھا ۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اپنی اس سرگرمی سے زیادہ محظوظ نہیں ہوا ۔ ایک دو منٹ کے بعد اس نے اپنے پاس قالیں پرپڑے ہوئے بیئر کے کین سے چند گھونٹ لیتے ہوئے جیسے ڈرگ کے ذائقے کو صاف کرنے کی کوشش کی ۔ کین رکھنے کے بعد وہ چند منٹ تک کون میں موجود ڈرگ کو دیکھتا رہا ۔ باقی لڑکے اب بے سدھ ہوچکے تھے مگر وہ اسی طرح بیٹھا تھا ۔ اسکی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ ابھی بھی مکمل نشے میں نہیں ہے ۔
یہ اس کے ساتھ تیسری دفعہ ہوا تھا ۔ پہلی دو بار ڈرگ استعمال کرنے کے بعد بھی وہ اسی طرح بیٹھا رہا تھا ۔ جب کہ اس کے دوست بہت جلد نشے میں دھت ہوئے تھے ۔ رات کے پچھلے پہر وہ ان لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر خود گھر آگیا تھا ۔ آج بھی وہ یہی کرنا چاہتا تھا ۔ کمرے میں موجود ڈرگ کی بو سے اب پہلی بار وہ الجھنے لگا تھا ۔ اس نے کھڑا ہونے کی کوشش کی اور لڑکھڑا گیا ۔ اپنی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہوگیا ۔ نیچے جھک کر اس نے کارپٹ سے کی رنگ ، والٹ اور کریڈٹ کارڈ اٹھائے پھر آگے بڑھ کر اس نے اسٹیریو کو بند کردیا ۔ اپنی متورم اور سرخ آنکھوں سے اس نے کمرے میں ایک نظر ڈورائی ، یوں جیسے وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو ۔ پھر وہ دروازے کا لاک کھول کر باہر نکل گیا ۔
روشنی سے ایک دم کوریڈور کی تاریکی میں آگیا تھا ۔ اندھیرے میں راستہ ڈھونڈتے ہوئے وہ انیکسی کے بیرونی دروازے کو کھولتا ہوا لان میں آگیا ۔ انیکسی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے اپنی ناک سے کوئی چیز بہتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ بایاں ہاتھ اٹھا کر اس نے اپنے اوپری ہونٹ پر رکھا تو اسکی انگلیاں چپچپا گئی۔ اس نے اپنی انگلیوں کو دیکھا تو اس کے پوروں پر خون لگا ہوا تھا ۔ ٹراوزر کی جیب سے رومال نکال کر اس نے خون صاف کیا ۔ اسے اپنے حلق میں کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کرنے کی کوشش کی ۔ اب اسے سینے میں بھی گھٹن کا احساس ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس نے دو تین بار نیچے تھوکا اور سیڑھیاں اترے کے لیے قدم بڑھا دیے ۔ ایک دم وہ ٹھٹھک گیا۔ اس کے ناک میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی اور پھر یک دم کوئی چیز پوری قوت سے بہنے لگی ۔ وہ بے اختیار کمر کے بل جھک گیا ۔ ایک دھار کی صورت میں اسکی ناک سے نکلنے والا خون سیڑھیوں پر گرنے لگا تھا ۔ ماربل پر پھسلتا ہوا خون، وہ اسے دیکھتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گالف کلب میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی جارہی تھی۔ سولہ سالہ سالارسکندر بھی انڈر سکسٹین کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن کی ٹرافی وصول کرنے کے لئے موجود تھا ۔ سکندر عثمان نے سالار کا نام پکارے جانے پر تالیاں بجاتے ہوئے اس ٹرافی کیبنٹ کے بارے میں سوچا ، جس میں اس سال انہیں کچھ مزید تبدیلیاں کروانی پڑتی ۔ سالار کو ملنے والی شیلڈز اور ٹرافیز کی تعداد اس سال بھی پچھلے سالوں جیسی ہی تھی ۔ ان کے تمام بچے ہی پڑھائی میں بہت اچھے تھے ۔ مگر سالار سکندر باقی سب سے مختلف تھا ۔ ٹرافیز ، شیلڈز اور سرٹیفکیٹس کے معاملے میں وہ سکندر عثمان کے باقی بچوں سے بہت آگے تھا ۔ 150 آئی کیو لیول کے حامل اس بچے کا مقابلہ کرنا ان میں سے کسی کے لیے ممکن تھا بھی نہیں۔
فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنی بیوی سے سرگوشی میں کہا ، یہ گالف میں اسکی تیرھویں اور اس سال کی چوتھی ٹرافی ہے ۔
ہر چیز کا حساب رکھتے ہو تم ۔ اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جیسے قدرے ستائشی انداز میں اپنے شوہر سے کہا ۔ جس کی نظریں اس وقت مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کرتے ہوئے سالار پر مرکوز تھیں ۔
صرف گالف کا ۔ اور کیوں ؟ وہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ سکندر عثمان نے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب سیٹ کی طرف جاتے سالار کو دیکھ رہی تھی ۔
اگر یہ اس وقت اس مقابلے میں شرکت کرنے والے پروفیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تو بھی اس وقت اس کے ہاتھ میں یہی ٹرافی ہوتی ۔ سکندر عثمان نے بیٹے کو دور سے دیکھتے ہوئے کچھ فخریہ انداز میں دعویٰ کیا ۔ سالار اب اپنی سیٹ کے اطراف میں دوسری سیٹوں پر موجود دوسرے انعامات حاصل کرنے والوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف تھا۔ انکی بیوی کو سکندر کے دعویٰ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سالار کے بارے میں یہ ایک باپ کا جذباتی جملہ نہیں ہے ۔ وہ واقعی اتنا ہی غیر معمولی تھا ۔
اسے دوہفتے پہلےاپنے بھائی زبیر کے ساتھ اسی گالف کورس پر اٹھارہ ہول پر کھیلا جانے والا گالف کا میچ یاد آیا ۔
میں اتفاقا" گرجانے والی ایک بال کو وہ جس صفائی اور مہارت کے ساتھ واپس گرینRough
پر لایا تھا اس نے زبیر کو محو حیرت کردیا ۔ وہ پہلی بار سالار کے ساتھ گالف کھیل رہا تھا ۔ مجھے یقین نہیں آرہا ۔ اٹھارہ ہول کے خاتمہ تک کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ جملہ کتنی بار بولا تھا ۔
سے کھیلی جانے والی اس شاٹ نے اگر اسے محو حیرت کیا تھا تو سالار سکندر کےRough
پُٹرز نے اسے دم بخود کردیا ۔ گیند کو ہول میں جاتے دیکھ کراس نے کلب کے سہارے کھڑے کھڑے صرف گردن موڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سالار اور اس ہول کے درمیان موجود فاصلے کو ماپا تھا اور پھر جیسے بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے سالار کو دیکھا
آج سالار صاحب اچھا نہیں کھیل رہے ۔ زبیر نے مڑکر بے یقینی کے عالم میں اپنے پیچھے کھڑے کیڈی کو دیکھا جو گالف کارٹ پکڑے سالار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا ۔
ابھی یہ اچھا نہیں کھیل رہا ؟ زبیر نے کچھ استہزائیہ انداز میں کلب کے کینڈی کو دیکھا ۔
میں نہ جاتی ۔ کیڈی نے بڑے معمول کے انداز میں انہیںroughہاں صاحب ورنہ بال کبھی
بتایا ۔
آپ آج یہاں پہلی بار کھیل رہے ہیں اور سالار صاحب پچھلے سات سال سے یہاں کھیل رہے ہیں ۔ میں اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ آج وہ اچھا نہیں کھیل رہے ۔
کیڈی نے زبیر کی معلومات میں اضافہ کیا اور زبیر نے اپنی بہن کو دیکھا جو فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھیں ۔
اگلی بارمیں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا اور اگلی بار کھیل کی جگہ کا انتخاب بھی میں کروں گا ۔ زبیر نے کچھ خفت کے عالم میں اپنی بہن کے ساتھ سالار کی طرف جاتے ہوئے کہا
کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ، انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف سے اپنے بھائی کو پراعتماد انداز میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ۔
میں تمہیں اس ویک اینڈ پر ٹی اے اور ڈی اے کے ساتھ کراچی بلوانا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے سالار کے قریب پہنچ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔ سالار مسکرایا
کس لیے ۔۔۔۔۔ ؟
پر تمہیں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر کے ساتھ ایک میچ کھیلنا ہے ۔ behalfمیرے
میں اس بار الیکشنز میں اس سے ہارا ہوں ۔ مگر وہ اگر کسی سے گالف کا میچ ہار گیا تو اسے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا اور وہ بھی ایک بچے کے ہاتھوں
وہ اپنے بھائی کی بات پر ہنسی تھیں مگر سالار کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوگئے تھے۔
بچہ ؟ اس نے ان کے جملے میں موجود واحد قابل اعتراض لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے دہرایا ۔ میرا خیال ہے انکل مجھے اپ کے ساتھ اٹھارہ ہولز کا ایک اور گیم کرنا پڑے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسجد دروازہ کھول کر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔
امی آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے
ہاں کہو ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟
اسجد صوفے پر بیٹھی گیا ۔ آپ ہاشم انکل کی طرف نہیں گئیں ؟
نہیں ۔ کیوں کوئی خاص بات ؟
ہاں امامہ اس ویک اینڈ پر آئی ہوئی ہے
اچھا ۔۔۔۔۔ آج شام کو چلیں گے ۔۔۔۔۔ تم گئے تھے وہاں ؟ شکیلہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں ۔ میں گیا تھا ۔
کیسی ہے وہ ۔۔۔۔۔ اس بار تو خاصے عرصے بعد آئی ہے ۔ شکیلہ کو یاد آیا
ہاں وہ ماہ کے بعد ۔۔۔۔۔ شکیلہ کو اسجد کچھ الجھا ہوا لگا
کوئی مسلئہ ہے ؟
امی ۔ مجھے امامہ پچھلے کچھ عرصے سے بہت بدلی بدلی لگ رہی ہے ۔ اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا
بدلی بدلی ؟ کیا مطلب ؟
مطلب تو میں شاید آپ کو نہیں سمجھا سکتا ، بس اسا کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے ۔ اسجد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
آج تو وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوگئی ۔ پہلے جیسی کوئی بات ہی نہیں رہی اس میں ۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اسے ہوا کیا ہے
تمہیں وہم ہوگیا ہوگا اسجد ۔۔۔۔۔ اس کا رویہ کیوں بدلنے لگا ۔۔۔۔۔ تم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر سوچ رہے ہو ۔ شکیلہ نے اسے حیرانی سے دیکھا
نہیں امی ۔۔۔۔۔ پہلے میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید مجھے وہم ہوگیا ہے لیکن اب خاص طور پر آج مجھے اپنے یہ احساسات صرف وہم نہیں لگے ہیں ۔ وہ بہت اکھڑے سے انداز میں بات کرتی رہی مجھ سے
تمہارا کیا خیال ہے ، اسکا رویہ کیوں بدل رہا ہے ۔ شکیلہ نے برش میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
یہ تو مجھے نہیں پتا
تم نے پوچھا اس سے
ایک بار نہیں کئی بار
پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ہر بار آپ کی طرح وہ بھی یہی کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
کبھی وہ کہتی ہے اسٹیڈیز کی وجہ سے ایسا ہے ۔ کبھی کہتی ہے وہ اب میچور ہوگئی ہے اس لئے
یہ ایسی کوئی غلط بات تو نہیں ہے ہوسکتا ہے واقعی یہ بات ہو ۔ شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
امی بات سنجیدگی کی نہیں ہے ۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے کترانے لگی ہے ۔ اسجد نے کہا
تم فضول باتیں کررہے ہو اسجد ۔ میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہوگئی ۔ ویسے بھی تم دونوں تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہو ۔ ایک دوسرے کی عادات سے واقف ہو ۔
شکیلہ کو بیٹے کے خدشات بالکل بے معنی لگے
ظاہر ہے ۔ عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں آہی جاتی ہیں۔ اب بچے تو رہے نہیں ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔۔ تم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہونے کی عادت چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ انہوں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ویسے بھی ہاشم بھائی اگلے سال اسکی شادی کردینا چاہتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرتی رہے گی ۔ کم از کم وہ تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں ۔ شکیلہ نے انکشاف کیا ۔
انکل نے ایسا کب کہا ۔ اسجد کچھ چونکا ۔
کئی بارکہا ہے ۔۔۔۔۔ میرا خیا ل ہے وہ لوگ تو تیاریاں بھی کر رہے ہیں ۔ اسجد نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا
ہوسکتا ہے امامہ اسی وجہ سے قدرے پریشان ہو
ہاں ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ بہرحال یہ ہی صحیح ہے ، اگلے سال شادی ہوجانی چاہیے۔ اسجد نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئےکہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سولہ سترہ سال کا ایک دبلا پتلا مگر لمبا لڑکا تھا ، اس کے چہرے پر بلوغت کا وہ گہرا رواں نظر آرہا تھا جسے ایک بار بھی شیو نہیں کیا گیا تھا اور اس روئیں نے اس کے چہرے کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا ۔ وہ اسپورٹس شارٹس اور ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تھا ۔ اس کے پیروں میں کاٹن کی جرابیں اور جاگرز تھے ۔ چیونگم چباتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب تھا ۔
وہ اس وقت ایک پرہجوم سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہیوی بائیک پر بیٹھا ہوا تیزی سے تقریبا" اسے اڑائے لے جارہا تھا ۔ وہ کسی قسم کے ہیلمٹ کے بغیر تھا اور بہت ریش انداز میں موٹرسائیکل چلا رہا تھا ۔ اس نے دو دفعہ سگنل توڑا۔۔۔۔۔ تین دفعہ خطرناک طریقے سے کچھ گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا ۔۔۔۔ چار دفعہ بائیک چلاتے چلاتے اسکا اگلا پہیہ اٹھا دیا اور کتنی ہی دیر دور تک صرف ایک پہیے پر بائیک چلاتا رہا ۔۔۔۔ دو دفعہ دائیں بائیں دیکھے بغیراس نے برق رفتاری سے اپنی مرضی کا ٹرن لیا ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ وہ زگ زیگ انداز میں بائک چلانے لگا ۔ چھے دفعہ اس نے پوری رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اٹھا دیئے۔
پھر یک دم اسی رفتارسے بائیک چلاتے ہوئے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے اس لین کو توڑا اور دوسری لین میں زناٹے سے گھس گیا ۔ سامنے سے آتی ٹریفک کی بریکیں یک دم چرچرانے لگیں ۔۔۔۔۔ اس نے فل اسپیڈ پر بائیک چلاتے ہوئے یک دم ہینڈل پر سے ہاتھ ہٹا دیے۔ بائیک پوری رفتار کے ساتھ سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکرائی ، وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہوا اور پھر کس چیز پر گرا ۔۔۔۔۔ اسے اندازہ نہیں ہوا ۔ اس کا ذہن تاریک ہوچکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں لڑکے اسٹیج پر ایک دوسرے کے بالمقابل روسٹرم کے پیچھے کھڑے تھے ۔ مگر ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ان میں سے ایک پر مرکوز تھیں ۔ وہ دونوں ہیڈ بوائے کے انتخاب کے لیے کنویسنگ کررہے تھے اور وہ پروگرام بھی اسکا ایک حصہ تھا ۔ دونوں کے روسٹرم پر ایک ایک پوسٹر لگا ہوا تھا ، جن میں سے ایک پر ووٹ فارسالار اور دوسرے پر ووٹ پر فیضان لکھا ہوا تھا ۔
اس وقت فیضان ہیڈ بوائے بن جانے کے بعد اپنے ممکنہ اقدامات کا اعلان کررہا تھا ۔ جب کہ سالار پوری سنجیدگی سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔ فیضان اسکول کا سب سے اچھا مقرر تھا اور اس وقت بھی وہ اپنے جوش خطابت کے کمال دکھانے میں مصروف تھا اور اسی برٹش لب و لہجے میں بات کررہا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا ۔ بہترین ساونڈ سسٹم کی وجہ سے اسکی آواز اور انداز دونوں ہی خاصے متاثر کن تھے ۔ ہال میں بلاشبہ سکوت طاری تھا اور یہ خاموشی اس وقت ٹوٹتی جب فیضان کے سپورٹرز اس کے کسی اچھے جملے پر داد دینا شروع ہوتے ۔ ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھتا ۔
آدھ گھنٹہ بعد جب وہ اپنے لئے ووٹ کی اپیل کرنے کے بعد خاموش ہوا تو ہال میں اگلے کئی منٹ تالیاں اور سیٹیاں بجتی رہیں ۔ ان تالیاں بجانے والوں میں خود سالار بھی شامل تھا ۔ فیضان نے ایک فاتحانہ نظر ہال اور سالار پر ڈالی اور اسے تالیاں بجاتے دیکھ کر اس نے گردن کے ہلکے سے اشارے سے اسے سراہا، سالار سکندر آسان حریف نہیں تھا یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔
اسٹیج سیکرٹری اب سالار سکندر کے لئے اناؤنسمنٹ کررہا تھا۔ تالیوں کی گونج میں سالار نے بولنا شروع کیا ۔
گڈ مارننگ فرینڈز ۔۔۔۔ وہ یک لحظہ ٹھہرا ، فیضان اکبر ایک مقرر کے طور پر یقیننا" ہمارے اسکول کا اثاثہ ہیں ۔ میں یا دوسرا کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی اسٹیج پر کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ وہ ایک لمحہ رکا اس نےفیضان کے چہرے کو دیکھا جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ ابھر رہی تھی مگر سالار کے جملے کے باقی حصے نے اگلے لمحے ہی اس مسکراہٹ کو غائب کردیا ۔
اگر معاملہ صرف باتیں بنانے کا ہو تو ۔۔۔۔۔۔
ہال میں ہلکی سی کھلکھلاہٹین ابھریں ۔ سالار کے لہجے کی سنجیدگی برقرار تھی ۔
مگر ایک ہیڈ بوائے اور مقرر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ مقرر کو باتیں کرنی ہوتی ہیں ۔ ہیڈ بوائے کو کام کرنا ہوتا ہے ۔ دونوں میں بہت فرق ہے
Great talkers are not great doers
سالار کے سپورٹرز کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا ۔
میرے پاس فیضان جیسے خوب صورت لفظوں کی روانی نہیں ہے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی ۔ میرے پاس صرف میرا نام ہے اور میرا متاثر کن ریکارڈ ہے ۔ مجھے کنویسنگ کے لئے لفظوں کے کوئی دریا نہیں بہانے ، مجھے صرف چند الفاظ کہنے ہیں ۔ وہ ایک بار پھر رکھا
ٹرسٹ می اینڈ ووٹ فارمی ۔۔ (مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ووٹ دیں)۔
اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جس وقت اپنے مائیک کو آف کیا اس وقت ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ۔ ایک منٹ چالیس سیکنڈز میں وہ اسی نپے تلے انداز میں بولا تھا جو اسکا خاصا تھا اور اسی ڈیڑھ منٹ نے فیضان کا تختہ کردیا تھا ۔
اس ابتدائی تعارف کے بعد دونوں امیدواروں سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ سالار ان جوابات میں بھی اتنے ہی اختصار سے کام لے ہرا تھا جتنا اس نے اپنی تقریر میں لیا تھا ۔ اسکا سب سے طویل جواب بھی چار جملوں پر مشتمل تھا جبکہ فیضان کا سب سے مختصر جواب بھی چار جملوں سے زیادہ تھا۔ فیضان کی وجہ فصاحت و بلاغت جو پہلے اس کی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت اس اسٹیج پر سالار کے مختصر جوابات کے سامنے چرب زبانی نظر آرہی تھی۔ اور اسکا احساس خود فیضان کو بھی ہو رہا تھا ۔ جس سوال کا جواب سالار ایک لفظ یا ایک جملے میں دیتا تھا ۔ اس کے لئے فیضان کو عادتا" تمہید باندھنی پڑتی اور سالار کا اپنی تقریر میں اس کے بارے میں کیا ہوا یہ تبصرہ وہاں موجود اسٹوڈنٹس کچھ اور صحیح محسوس ہوتا کہ ایک مقرر صرف صرف باتیں کرسکتا ہے ۔
سالار سکندر کو بیڈ بوائے کیوں ہونا چاہیے۔ سوال کیا گیا
کیونکہ آپ بہترین شخص کا انتخاب چاہتے ہیں ۔ جواب آیا
کیا یہ جملہ خود ستائشی نہیں ہے؟ اعتراض کیا گیا
نہیں یہ جملہ خود شناسی ہے ۔ اعتراض رد کردیا گیا
خود ستائشی اور خود شناسی میں کیا فرق ہے ۔ ایک بار پھر چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا گیا
وہی جو فیضان اکبر اور سالار سکندر میں ہے ۔ سنجیدگی سے کہا گیا
اگر آپ کو ہیڈ بوائے نہ بنایا تو آپ کو کیا فرق پڑے گا
فرق مجھے نہیں آپ کو پڑے گا ۔
کیسے ۔۔۔۔۔ ؟
اگر بہترین آدمی کو ملک کا لیڈر نہ بنایا جائے تو فرق قوم کو پڑتا ہے اس بہترین آدمی کو نہیں
آپ اپنے آپ کو پھر بہترین آدمی کہہ رہے ہیں ، ایک بار پھر اعتراض کیا گیا
کرےEqunte کیا اس ہال میں کوئی ایسا ہے جو خود کو برے آدمی کے ساتھ
ہوسکتا ہے ہو
پھر میں اس سے ملنا چاہوں گا ۔۔۔ ہال میں ہنسی کی آوازیں ابھریں
ہیڈ بوائے بننے کے بعد سالار سکندر جو تبدیلیاں لائے گا اس کے بارے میں بتائیں
تبدیلی بتائی نہیں جاتی دکھائی جاتی ہے اور یہ کام میں ہیڈ بوائے بننے سے پہلے نہیں کرسکتا ،
چند اور سوال کیے گئے پھر اسٹیج سیکرٹری نے حاضرین میں سے ایک آخری سوال لیا ۔ وہ ایک سری لنکن لڑکا تھا جو کچھ شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا ۔ اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں اور میرا پورا گروپ آپ کو ووٹ دے گا ۔
سالار اسکی بات پر مسکرایا ۔ جواب دینے سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے گروپ میں کتنے لوگ ہیں ؟ اس نے پوچھا
چھ ۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے جواب دیا
سالار نے سر ہلایا اوکے ۔۔۔۔ سوال کریں
آپ کو کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے مجھے بتانا ہے کہ اگر 267895 میں 952852 کو جمع کریں پھر اس میں سے 399999 کو تفریق کریں پھر اس میں 929292 کو جمع کریں اور اسے ۔۔۔۔۔۔ وہ سری لنکن لڑکا ٹھہر ٹھہر کر ایک کاغذ پر لکھا ہوا ایک سوال پوچھ رہاتھا۔۔۔۔ اسے چھ سے ضرب دیں پھر اسے دو کے ساتھ تقسیم کریں اور جواب میں 495359 جمع کردیں تو کیا جواب آئے۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکا اپنی بات مکمل نہیں کرسکا کہ سالار نے برق رفتاری کے ساتھ جواب دیا 8142473
اس لڑکے نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی اور پھر کچھ بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے تالیاں بجانے لگا ۔ فیضان اکبر کو اس وقت اپنا آپ ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں لگا ۔ یورا ہال اس لڑکے کے ساتھ تالیاں بجانے میں مصروف تھا ۔ فیضان کو وہ پورا پروگرام ایک مذاق محسوس ہونے لگا ۔
ایک گھنٹے بعد جب وہ سالار سے پہلے اس اسٹیج سے اتر رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی مقابلہ ہار چکا تھا ۔ 150 آئی کیو لیول والے اس لڑکے سے اسے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنا حسد محسوس نہیں ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔