الفانسے


ایک دراز قد آدمی کچھ اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا جیسے بہت زیادہ پی گیا ہو۔ وہ زینے پر لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا ضرور لیتا تھا۔ اس کے جسم پر سیاہ رنگ کا اوور کوٹ تھا جس کے کالر سرے تک اٹھے ہوئے تھے اور پھر فلٹ ہیٹ کا گوشہ اس طرح پیشانی پر جھکا ہوا تھا کہ اس کی صورت نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔
حالانکہ پیراماؤنٹ بلڈنگ میں لفٹ بھی موجود تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے زینوں کو لفٹ پر ترجیح دی تھی۔ کیا نشے کی وجہ سے اس کے قدم خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے؟ کیا شراب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا؟
اگر یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ کا واقعہ نہ ہوتا تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے۔۔۔ یہاں کسے اتنی فرصت تھی کہ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر غور کرتا یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ تھی۔۔۔ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز!
اس ہفت منزلہ عمارت میں سینکڑوں تجارتی دفاتر تھے۔ یہاں دن بھر آدمیوں کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے باوجود بھی یہاں عجیب باتوں پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
طویل قامت آدمی اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے تھے لیکن اس وقت بھی عمارت کی کھڑکیوں میں روشنی نظر آ رہی تھی یہاں بہتیرے دفاتر ایسے تھے جو دن رات کھلے رہتے تھے۔
طویل قامت آدمی تیسری منزل کی ایک راہداری میں مڑ گیا۔ لیکن اب وہ رک گیا تھا اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ لیکن اب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ کی بجائے لنگڑاہٹ تھی۔ زینوں پر یہ لڑکھڑاہٹ معلوم ہوتی تھی۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر وہ رکا۔ جس پر لگے ہوئے بورڈ پر تحریر تھا۔
"التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلئیرنگ ایجنٹس!"
دراز قد آدمی نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ دیوار سے لگ گیا۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی وہ پھر سیدھا کھڑآ ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازہ کھولنے والا ایک 18 سالہ لڑکا تھا جس کے جسم پر چپڑاسیوں کی وردی تھی۔
دراز قد آدمی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر دروازے سے باہر کھینچ لیا۔ اور بھرائی ہوئی آؤاز میں بولا۔ "بھاگ جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ یہ لو۔ سیکنڈ شو دیکھنا!" اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر لڑکے کی مٹھی میں بند کر دیا۔
"سلام صاحب!" لڑکے نے فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلام کیا۔
"سلام! بھاگ جاؤ۔" دراز قد آدمی بھرائی ہوئی آواز میں ہنسا۔
لڑکا تیزی سے چلتا ہوا زینوں پر مڑ گیا۔ دراز قد آدمی فلیٹ میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔ فلٹ ہیٹ اتار کر سٹینڈ پر پھینکی۔ اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ یہ ایک سفید فام غیر ملکی تھا دوسرے کمرے میں داخل ہو کر اس نے ٹائپ رائٹر پر جھکی ہوئی لڑکی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ اونگھ رہی تھی۔
"کیا تم یہاں سونے کے لئے آئی ہو۔" لمبے آدمی نے غرا کر کہا۔
"نہیں! مسٹر التھرے۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔" لڑکی خوفزدہ نظر آنے لگی تھی۔ دراز قد آدمی نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر دس کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا۔ "جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ سیکنڈ شو دیکھنا۔"
لڑکی متحیر رہ گئی۔ یہ ایک چھوٹے قد کی معصوم صورت یوریشین لڑکی تھی۔
"میں سمجھی نہیں جناب!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تم چھٹی نہیں سمجھتیں۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آج اوور ٹائم نہیں ہوگا۔" اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔" لڑکی نوٹ لے کر اپنا وینٹی بیگ سنبھالنے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر فرش پر پڑی جہاں التھرے کھڑا تھا۔ اور وہ ہونٹ سکوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
"خون۔۔۔ مسٹر التھرے"۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ "آپ زخمی ہیں۔۔۔ مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کا پیر۔"
پھر اس کی نظر التھرے کی ران پر جم گئی جہاں پتلون میں سوراخ تھا۔ اور اس کے گرد خون کا ایک بڑا سا دھبہ۔۔۔
"اوہ۔۔۔ یہ کچھ نہیں۔" التھرے مسکرایا۔ "میں زخمی ہو گیا ہوں۔" اس کی گھنی مونچھیں ہونٹوں کو ڈھکے ہوئی تھیں۔ گالوں کے پھیلاؤ سے لڑکی کو اس کی مسکراہٹ کا احساس ہوا تھا۔
"کیا میں کچھ خدمت کر سکتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔ وہ بہت زیادہ متائثر نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔
گھنی مونچھوں سے التھرے کے سفید دانتوں کی قطار جھانکنے لگی وہ ہنس رہا تھا۔ "تم بہت کمزور دل کی معلوم ہوتی ہو۔ میری مدد نہیں کر سکو گی۔ میری ران میں ریوالور کی گولی موجود ہے اسے میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔ تم جاؤ!"
"میں ڈاکٹر کو فون کروں۔"
"نہیں۔۔۔ بےبی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ میں خود بھی کسی ڈاکٹر سے مدد لے سکتا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔"
"جھگڑا ہوا تھا۔"
"نہیں!" التھرے نے خشک لہجے میں کہا۔ غالباً وہ لڑکی کے سوالات سے اکتا گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اب وہ چلی ہی جائے وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ "یہ ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں یہاں آنے کی بجائے پولیس اسٹیشن جاتا۔۔۔ ہم نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ مگر تم اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔"
"اوہ نہیں مسٹر التھرے۔۔۔ مگر آپ تنہا ہیں۔۔۔ اکیلے آپ کیا کر سکیں گے کس طرح گولی نکالیں گے۔"
"اچھا تم کیا کرسکو گی۔"
"میں ایک تربیت یافتہ نرس ہوں۔۔۔ مسٹر التھرے!"
"تعجب ہے۔" التھرے کی آنکھوں سے شبہ جھانکنے لگا۔ "تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا۔ تم تو ایک اسٹینو گرافر ہو۔"
"جی ہاں! شارٹ ہینڈ میں نے اس پیشے کو ترک کرنے کے بعد سیکھا تھا۔"
"اچ۔۔۔ چھا۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ تم میری کیا مدد کر سکتی ہو"
تیسرے کمرے کی الماری کھول کر التھرے نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اسی کے ساتھ جراحی کے کچھ آلات بھی برآمد ہوئے جنہیں لڑکی نے ایک برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا۔
"مگر مسٹر التھرے!۔۔۔ گولی کون نکالے گا!"
"میں نکالوں گا۔" التھرے مسکرایا۔
"مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ ہم لوگوں کی طرح عام آدمی معلوم نہیں ہوتے!"
"اوہ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" التھرے ہنسنے لگا۔
وہ زخم کھول چکا تھا جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا اور التھرے کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہ پرسکون نظر آ رہا تھا۔ لڑکی کی حیرت اور بڑھ گئی۔
"سوزی! تم متحیر ہو؟" التھرے نے پھر قہقہہ لگایا۔ "میرا سارا جسم زخموں سے داغدار ہے۔ پچھلی جنگ میں میرے جسم کا قیمہ بن گیا تھا۔ پھر بھی میں نے ڈاکٹروں کو متحیر کرکے چھوڑا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے جسم میں کوئی خبیث روح موجود ہے۔ اگر شریف روح ہوتی تو کبھی کی پرواز کر چکی ہوتی۔"
سوزی متحیرانہ انداز میں صرف سنتی رہی کچھ بولی نہیں۔ التھرے کے برتن سے ایک چمٹی نکالی اور سوزی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ آدمی پتھر کا ہے یا فولاد کا۔۔۔ وہ اتنے ہی انہماک کے ساتھ زخم سے گولی نکالنے میں مشغول تھا جیسے ہتھیلی میں چبھی ہوئی کسی پھانس کو سوئی سے کرید رہا ہو۔ گولی کے نکلنے میں دیر نہیں لگی۔ التھرے آواز سے ہنس رہا تھا سوزی کو یہ ہنسی کچھ ہذیانی قسم کی معلوم ہوئی۔ بالکل ایسی ہی جیسے شدت درد سے کراہیں نہ نکلی ہوں قہقہے پھوٹ پڑے ہوں۔
"اب تم اپنا کام شروع کر دو!"
"مگر جناب! آپ کے فرسٹ ایڈ باکس میں مرکری کروم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"
"وہی چلنے دو۔ پروا مت کرو۔ میں اس وقت کہیں بھی نہیں جا سکتا اور نہ ڈاکٹر کو طلب کر سکتا ہوں۔" سوزی زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے نہ جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی خبیث روح کے چکر میں پڑ گئی ہو۔
ڈریسنگ ہو جانے کے بعد التھرے نے سوزی سے کہا۔۔۔ "لڑکی میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اسے ابھی سے نوٹ کرو کہ میں یورپ کے دورے پر جاتے وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے تمہارے تجربات میں اضافہ ہوگا۔"
"میں شکریہ ادا کرتی ہوں! مسٹر التھرے!" سوزی نے خادمانہ انداز میں کہا۔
"مگر دیکھو۔۔۔ تم میرے زخمی ہو جانے کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔ اس سے خدشہ ہے کہ میرا وہ دوست مصیبت میں نہ پھنس جائے۔۔۔۔ جس کی گولی سے میں زخمی ہوا تھا۔"

"میں کسی سے بھی تذکرہ نہیں کروں گی جناب!"
"شکریہ!۔۔۔ اب تم جا سکتی ہو۔"
سوزی مزید کچھ کہے بغیر فلیٹ سے نکل آئی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کے ذہن پر ایک انجانہ سا خوف مسلط ہوتا جا رہا تھا۔
---
عمران کے فون کی گھنٹی بجی، جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں درج نہیں تھے۔ اس نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے بولنے والی جولیانا فٹز واٹر تھی۔
"تنویر بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہے جناب!"
"کیسے۔۔۔ کس طرح؟"
"سراج گنج کی ایک تاریک گلی میں اسے چند نامعلوم آدمیوں نے گھیر لیا۔ غالباً وہ اسے پکڑ لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر نے فائرنگ شروع کر دی جواب میں ان لوگوں نے بھی گولیاں چلائیں تنویر کے دونوں بازو زخمی ہو گئے ہیں اور وہ اس وقت سول ہسپتال میں ہے۔ غالباً اب پولیس اس کا بیان لینے کے لئے پہنچ گئی ہوگی۔"
"کیا تنویر حملہ آوروں میں سے کسی کو پہچان سکا تھا؟"
"نہیں جناب! گلی تاریک تھی۔ یہ اس کا خیال ہے کہ اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ضرور زخمی کیا ہے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس نے کراہنے اور سسکنے کی آوازیں سنی تھیں!"
"اس کے زخموں کی حالت مخدوش تو نہیں ہے۔"
"نہیں جناب! وہ ہوش میں ہے۔"
"تم کہاں سے بول رہی ہو؟"
"سول ہسپتال سے!"
"اچھا تو اسے سمجھا دو کہ اس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہو جائے۔۔۔ بلکہ اگر وہ بڑی رقم لٹ جانے کی کہانی سنائے تو اور اچھا ہے۔"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ بیان ہو جانے کے بعد میں پھر فون کروں گی۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عمران نے ریسیور رکھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور اس طرح منہ چلاتا ہوا دوسرے کمرے مٰں چلا گیا جیسے دھوکے سے کوئی کڑوی یا کسیلی چیز کھا گیا ہو۔ اس نے اپنے نوکر سلیمان کو آواز دی چونکہ وہ تقریباً دو گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا تھا اس لئے اب اس کی زبان میں کلبلاہٹ شروع ہو گئی تھی۔
سلیمان آ گیا۔
"ابے وہ تو نے اپنے دادا کا نام کیا بتایا تھا۔ میں بھول گیا۔" عمران اس طرح بولا جیسے یاداشت پر زور دے رہا ہو۔
"کیا کیجئے گا یاد کر کے۔۔۔!" سلیمان نے بیزاری سے کہا۔
"صبر کروں گا یاد کر کے۔۔۔ توب تاتا ہے کہ یا ہم سے بحث کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نالائق!"
"گلزار نام تھا!"
"کیا داڑھی گلاب کے پھول کی شکل کی تھی؟"
"نہیں تو۔۔۔ ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی سب کی ہوتی ہے۔"
"ابے تو پھر گلزار کیوں نام تھا؟" عمران غصیلی آواز میں دھاڑا
"میں نہیں جانتا۔۔۔ آپ میرے دادا کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں!"
"اچھا۔۔۔ چل چھوڑ دیا۔۔۔ پردادا کا کیا نام ہے؟"
"مجھے نہیں معلوم۔"
"ابے تجھے اپنے پردادا کا نام نہیں معلوم۔"
"میرا پردادا تھا ہی نہیں۔" سلیمان نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"تب پھر تجھ سے زیادہ بدنصیب آدمی روئے زمین پر نہیں ملے گا۔"
"صاحب ہانڈی جل رہی ہے۔۔۔ مجھے جانے دیجئے!"
"اچھا بے ہمیں الو بناتا ہے کیا کاغذ کی ہانڈی ہے کہ جل جائے گی۔!"
"صاحب!" سلیمان اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کیا کہتا ہے؟"
"میرا حساب کر دیجئے۔۔۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔"
"حساب۔۔۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "حساب! اچھا کاغذ پنسل لے کر ادھر بیٹھ۔"
"مجھے لکھنا نہیں آتا!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جب لکھنا آ جائے تو مجھے بتانا۔۔۔ میں حساب کر دوں گا۔"
پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی اور یہ سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔
عمران نے کمرے میں جا کر کال ریسیو کی۔ فون جولیا ہی کا تھا۔
"اٹ از جولیا سر!"
"کیا خبر ہے؟"
"تنویر کا بیان ہو چکا ہے اس نے یہی لکھوایا ہے کہ اس کے پرس میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے جو چھین لئے گئے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن سنو! تم سبھوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔"
"ہم ہر وقت محتاط رہتے ہیں جناب! اگر محتاط نہ ہوتے تو تنویر کی رپورٹ غالباً آسمان سے اترتی۔ احتیاط اور حاضر دماغی ہی کی وجہ سے وہ بچ گیا ہے۔"
"خیر۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تھریسیا اور الفانسے اب شہر میں نہیں ہیں۔۔۔ یہ لوگ دھن کے پکے ہیں۔ یا تو کاغذات حاصل کریں یا اپنی جانیں دے دیں گے۔"
"تو کیا تنویر پر کیا جانے والا حملہ انہیں سے منسوب کیا جائے گا؟"
"ممکن ہے کہ یہ حملہ انہی کی طرف سے ہوا ہو۔"
"پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟"
"فی الحال اس بے تکے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔" عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
---
سوزی حسب معمول دوسری صبح آفس پہنچی۔ لیکن التھرے اپنی میز پر موجود نہیں تھا۔ سوزی نے سوچا کہ اب اس کے پیر کی تکلیف بڑھ جائے گی لہٰذا وہ اپنی مسہری سے ہلنے کی بھی ہمت نہ کر سکے گا۔ مگر پھر آفس کس نے کھولا؟ یہاں ملازم صرف تین تھے۔ ایک سوزی خود۔۔۔ دوسرا ایک کلرک اور تیسرا چپڑاسی! التھرے کا رہائشی کمرہ بھی اسی فلیٹ میں تھا اور وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ لہٰذا آفس وہی کھولتا تھا۔ یہ تینوں ملازم باہر سے آتے تھے۔
فلیٹ میں چار کمرے تھے دو کمرے التھرے نجی طور پر استعمال کرتا دو آفس کے لئے تھے۔ سوزی اپنے کمرے میں بیٹھ گئی کلرک ابھی نہیں آیا تھا اس نے چپڑاسی سے پوچھا "صاحب کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں ہوں گے۔"
"آفس کس نے کھولا تھا؟"
"صاحب نے!"
چونکہ اسے پچھلی رات کھسکا دیا گیا اس لئے وہ سوزی کو شبے کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوزی خوامخواہ دل ہی دل میں شرما رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اسے آج چپڑاسی اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔
کچھ دیر بعد کلرک بھی آ گیا لیکن التھرے کی میز خالی ہی رہی۔ کلرک نے اسے ٹائپ کرنے کے لئے کچھ کاغذات دیئے اور سوزی کام میں مشغول ہو گئی!
کلرک ایک نوجوان دیسی عیسائی تھا۔ وہ اچھی صحت رکھتا تھا اور قبول صورت بھی تھا۔ اکثر وہ سوزی کے ساتھ ہی شامیں گذارتا تھا۔
لنچ کے وقفے میں شاید چپڑاسی نے کلرک کو پچھلی رات کا واقعہ بتایا تھا۔ سوزی نے یہی محسوس کیا۔ کیونکہ لنچ کے بعد سے اس کا موڈ خراب وہ گیا تھا۔
التھرے اندر ہی تھا اور اس نے چپڑاسی سے کہلوا دیا تھا کہ آج اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آفس کو ایک گھنٹہ پہلے ہی بند کر دیا جائے۔ ساتھ ہی چپڑاسی نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ التھرے کی ہدایت کے بموجب سوزی کو وہیں رکنا ہوگا۔ کلرک نے پھر سوزی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"کل بھی تم رکی تھیں؟" اس نے کہا۔
"ہاں کل بھی رکی تھی۔"
"کیوں؟"
جرح کا یہ انداز شاید سوزی کو پسند نہیں آیا تھا۔ اس لئے برا سا منہ بنا کر کہا "کیا میں تمہیں اس کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔"
"اوہ! نہیں تو!" کلرک سپٹپٹا گیا اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوزی کی آنکھیں بلیوں سے مشابہ ہوں۔ حالانکہ اسے اس کی آنکھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے تصور کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں لاتعداد کنول کھل اٹھتے تھے۔ کنول جو حسن اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
سوزی اب بھی اسے جواب طلب نظروں سے گھور رہی تھی کلرک اپنے کام میں مشغول ہو
چکا تھا مگر اس کے چہرے پر اب بھی ملال کا غبار دیکھا جا سکتا تھا۔
ٹھیک ساڑھے تین بجے وہ اپنی میز سے اٹھ گیا۔ باہر جاتے وقت اس نے سوزی کو عجیب نظروں سے دیکھا اور سوزی سوچنے لگی آخر یہ لوگ جان پہچان اور دوستی کے معنی غلط کیوں لیتے ہیں۔ وہ اس کے اس رویہ کا مطلب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ لیکن اس کی دانست میں ان کا ملنا جلنا ان حدود میں ابھی تک داخل نہیں ہوا تھا جہاں طرفین ایک دوسرے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ سوزی اس وقت زیادہ جھلا گئی جب اس نے رخصت ہوتئے وقت چپڑاسی کی آنکھوں میں بھی وہی سوال پڑھا۔
"جہنم میں جاؤ۔" وہ زیر لب بڑبڑائی۔
یہ حقیقت ہے کہ وہ التھرے تک پہنچنے کے لئے بیچین تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پچھلی رات کا دلیر آدمی اب کس حال میں ہے وہ جانتی تھی کہ اب اس میں بستر سے ہلنے جلنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی ہوگی۔
اس نے بیرونی دروازہ بند کیا اور التھرے کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ صبح اس خیال سے وہاں نہیں گئی تھی کہ ممکن ہے التھرے اسے ناپسند کرے۔ ویسے اس نے یہ ضرور سوچا تھا کہ التھرے اس کی مدد کے بغیر پٹیاں بھی تبدیل نہیں کر سکے گا۔ پھچلی رات تو چوٹ تازہ تھی مگر اب اس کی ہمت بھی ساتھ دینے سے قاصر ہوگی۔
کمرے کے دروازے پر اس نے رک کر ہلکی سی دستک دی۔
"آجاؤ!" اندر سے الھترے کی آواز آئی۔
لیکن وہ اندر پہنچ کر ایک بار پھر متحیر رہ گئی۔ کیونکہ التھرے اس کے داخل ہونے سے پہلے شائد ٹہل رہا تھا۔
سوزی کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔ اور سوزی کچھ بوکھلا سی گئی۔
"میں دراصل۔۔۔ پٹی تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ اور زخم بھی اگر دھل جائے تو بہتر ہے۔"
"شکریہ!" التھرے ایک کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ "بیٹھ جاؤ! میں زخم بھی دھو چکا ہواں اور پٹی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔"
"آپ سچ مچ کمال کرتے ہیں۔" سوزی نے کہا۔
"میں نے تمہیں اس وقت ایک ضرورت سے روکا ہے۔"
"فرمائیے!"

"میرا ایک خط میری بیوی تک پہنچا دو۔"
"بیوی!" وہ حیرت سے دہرا کر رہ گئی۔
"ہاں کیوں؟" التھرے مسکرایا۔ "اس میں متحیر ہونے کی کیا بات ہے!"
"اوہ۔۔۔ جناب میں ابھی تک یہ سمجھتی تھی کہ آپ کنوارے ہوں گے۔"
"یہ غمناک کہانی ہے۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔" سوزی ہونٹ سکوڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"وہ مجھ سے خفا ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو 

شائستہ ہوں۔۔۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہوں۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو میری طرح وحشی 

نہ ہوں۔ اگر ان کی ٹانگ میں بھی ریوالور کی گولی لگے تو اسی جگہ ٹھنڈے ہو جائیں ہاں 

بےبی۔۔۔٬" التھرے کی آواز غمناک ہو گئی۔
"مجھے حیرت ہے جناب کہ مسز التھرے کس قسم کی عورت ہیں۔" سوزی نے کہا۔ "نہ جانے وہ 

عورتیں کیسی ہیں جنہیں زنانہ اوصاف کے مرد پسند ہیں۔"
"ایسی بھی ہوتی ہیں بے بی۔۔۔ میں انہیں عورتیں کہنے کو تیار ہی نہیں۔"
"آپ مجھے خط دیجئے۔۔۔ میں پہنچا دوں گی۔"
"شکریہ سوزی۔۔۔" التھرے بولا۔ "میں اب یہ جھگڑا ہی ختم کر دینا چاہتا ہوں میں اسے آخری 

خط بھیج رہا ہوں۔ کیوں کیا خیال ہے تمہارا۔ اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتی تو قانونی طور پر 

علیحدگی ہی بہتر ہوگی۔"
"اوہ۔۔۔ نہیں! اگر سمجھوتہ ہو جائے تو بہتر ہے۔" سوزی نے کہا۔
"نہیں وہ آدمی جو ہمارے درمیان آ گیا ہے اسے راستے سے ہٹائے بغیر یہ ناممکن ہے۔۔۔ لیکن 

میری نظروں میں قانون کا احترام بہت زیادہ ہے۔۔۔ میں اسے قتل نہیں کر سکتا۔"
دفعتاً سوزی مسکرائی اور بولی "حکمت عملی جناب۔۔۔ قتل کی کیا ضرورت ہے کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ تشدد کے بغیر ہی آپ دونوں کے درمیان سے ہٹ جائے۔"
"نہیں!" التھرے مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ "اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔ مگر ٹھہرو۔ اگر کوئی عورت ان دونوں کے درمیان آجائے۔۔۔ تو۔۔۔ شائد دیکھو۔۔۔ بے بی۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے سلوانا پر۔۔۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ نامعقول آدمی اسے اتنا کیوں پسند ہے۔ ارے وہ بالکل احمق ہے اسے کسی بات کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔ وہ سبز پتلون پر سرخ قمیض پہنتا ہے۔ زرد ٹائی لگاتا ہے اور نیلا فلٹ ہیٹ۔۔۔ کسی سرکس کا مسخرہ معلوم ہوتا ہے نہ اس کے جسم میں قوت ہے اور نہ کھوپڑی میں مغز!"
"سچ مچ!" سوزی پلکیں چھپکاتی ہوئی بولی۔
"ہاں بے بی۔ میں غلط نہیں کہہ رہا اور وہ ایک دیسی ہے یورپین بھی نہیں۔"
"تب تو شاید۔ معاف کیجئے گا۔ مجھے مسز التھرے صحیح الدماغ نہیں معلوم ہوتیں۔"
"مگر سوزی۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ میں اسے بہت چاہتا ہوں۔"
"کیا میں اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہوں؟"
"تم کیا کر سکو گی؟" التھرے تشویش کن لہجے میں بولا۔
"آپ مجھے اس آدمی کا پتہ بتائیے! شاید میں کچھ کر سکوں۔"
"ٹھہرو! مجھے سوچنے دو۔ میرا خیال ہے کہ تم بہت کچھ کر سکتی ہو۔" التھرے ہاتھ اٹھا کر بولا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "ایک تدبیر سمجھ میں آئی ہے۔۔۔ مگر میں اسے برا سمجھتا ہوں کیونکہ تم ایک شریف لڑکی ہو۔"
"میں اپنی حفاظت بخوبی کر سکتی ہوں مسٹر التھرے۔۔۔ اور میری شرافت بھی برقرار رہ سکتی ہے لیکن یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ اگر میری وجہ سے آپ دونوں کی ازدواجی زندگی پرمسرت گزرسکے۔"
"شکریہ! بےبی!"
"اب آپ مسز التھرے کو آخری خط لکھنے کا ارادہ ترک کر دیجئے۔"
"نہیں بے بی! اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔"
"آپ مجھ پر اعتماد کیجئے میں ایک ہی ماہ کے اندر ہی اندر اسے آپ کے راستے سے ہٹا دوں گی۔"
"کیسے ہٹا دو گی۔؟"
"اوہ۔۔۔ آپ اعتماد کیجئے نا مجھ پر۔۔۔ میں نرس بھی رہ چکی ہوں۔ شاید میں مختلف مردوں کے متعلق بہت کچھ جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ انہیں کس طرح شکست دی جا سکتی ہے۔"
"لیکن اگر تم اپنا کوئی نقصان کر بیٹھیں تو مجھے گہرا صدمہ ہوگا۔"
"آپ فکر نہ کیجئے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔"
"اچھا بے بی!" التھرے نے ایک طویل سانس لی۔ ایک لحظہ خاموش رہا اور پھر بولا۔ "تم اس سے فی الحال دوستی کرلو پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ آپ مجھے اس کا نام اور پتہ تو بتائیے۔"
"اس کمبخت کا نام ہی تو مجھے یاد نہیں رہتا۔" التھرے نے کہا۔ "مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہر شام ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں ضرور ہوتا ہے۔ زیادہ تر اپنی میز پر تنہا بیٹھا نظر آتا ہے!۔۔۔ ارے وہ صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔ بےبی اور ہمیشہ بے ڈھنگے کپڑے پہنتا ہے۔"
"مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کلب میں ایسے کسی آدمی کو کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہے۔"
"دیکھا ہوگا۔۔۔ وہ ہزاروں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے۔"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جناب۔۔۔ آپ مطمئن رہئے۔"
"میں ہمیشہ تمہارا مشکور رہوں گا۔۔۔ مگر ہاں دیکھو۔۔۔ اب تم آفس نہ آنا۔۔۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے بعد ہی تم یہاں آنا ورنہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔"
"ارے۔۔۔ اگر وہ احمق ہی ہے تو اتنی دوا دوش کہاں کر سکے گا کہ میری متعلق اسے کچھ معلوم ہو جائے؟"
"سلوانا بہت ذہین ہے بے بی۔۔۔ اگر اسے شبہ بھی ہو گیا کہ تمہارا کوئی تعلق مجھ سے ہے تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"
"سلوانا۔۔۔ نام ہے مسز التھرے کا؟"
"ہاں۔۔۔ اس کا نام بھی کتنا پیارا ہے کیوں!" التھرے نے والہانہ انداز میں کہا۔۔۔ پھر اس طرح ہنسنے لگا جیسے اس سے کوئی حماقت سرزد ہوئی ہو۔
"اچھی بات ہے۔ میں یہاں نہیں آؤں گی۔ مگر میرا کام کون کرے گا!"
"کوئی دوسرا آجائے گا تم اس کی فکر نہ کرو۔ بس اس سے کسی نہ کسی طرح دوستی کر لو اور ٹھہرو!" وہ اٹھ کر میز کی طرف گیا۔ اس کی دراز کھولی اور اس میں سے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر سوزی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "یہ رکھ لو بے بی۔ تمہارے کام آئیں گے۔"
سوزی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
اگر وہ سارے سو سو کے نوٹ تھے تو وہ گڈی کم از کم پانچ ہزار کی ہی ہو سکتی تھی!
"یہ تو بہت بڑی رقم معلوم ہوتی ہے جناب۔۔۔" سوزی نے حیرت سے کہا۔
"سلوانا کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میں اپنی ساری دولت صرف کر سکتا ہوں۔۔۔ تم اسے رکھو۔۔۔ اس کا کوئی حساب تم سے نہیں طلب کیا جائے گا۔"
"یہ بہت ہے جناب! اسے آپ رکھئے۔۔۔ جب ضرورت ہوگی! طلب کر لوں گی۔"
"نہیں تم ہی رکھو۔۔۔ مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے!"
"اعتماد کے لئے میں شکر گزار ہوں جناب!"
جولیانا فٹز واٹر نے ایکس ٹو کے پرائیوٹ نمبر ڈائل کئے اور دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔"یہلو!"
"جولیا اسپیکنگ سر!"
"ہاں کیا کیا بات ہے؟"
"تنویر کی حالت بہتر ہے؟"
"دیکھو! ہوشیار رہو! الفانسے اور تھریسیا یہاں سے گئے نہیں! یہیں ہیں میرا خیال ہے کہ ان کا گروہ ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن وہ دونوں ابھی تک کٹے پتنگوں کی طرح یہیں ہچکولے لے رہے ہیں اور یہ تم جانتی ہو کہ جھنڈ سے بچھڑے بھیڑیئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔"
"میں جانتی ہوں جناب! پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"تھریسیا کو تلاش کرو۔"
"آپ نے بتایا تھا کہ وہ پچھلی بار میک اپ میں نہیں تھی۔"
"ہاں! میرا خیال ہے وہ کبھی میک اپ میں نہیں رہتی۔ جب عمران نے اسے پہچان لیا تھا تو تم بھی پہچان سکو گی۔۔۔ مگر یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے!"
"کیوں؟"
"اس کے چہرے کی بناوٹ عجیب ہے اور اس سے وہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر وہ یونہی اپنا نچلا ہونٹ تھوڑا سا بھینچ لے تو تم قیامت تک اسے نہیں پہچان سکتیں۔ اس تھوڑی سی تبدیلی کا اثر اس کے سارے چہرے پر پڑے گا۔"
"کیا یہی وجہ ہے کہ وہ بچی پھرتی ہے۔"
"قطعی۔۔۔ یہی وجہ ہے۔"
"پھر اسے تلاش کر لینا آسان کام نہیں ہے۔"
"کچھ مشکل نہیں ہے۔۔۔ تھوڑا صبر کرو۔۔۔ مجھے تھریسیا سے زیادہ الفانسے کی فکر ہے اور وہ دوسرا آدمی سسیرو۔۔۔"
"تو پھر ہم فی الحال خاموش بیٹھیں؟"
"بالکل۔۔۔ ضرورت سمجھی تو تمہیں مطلع کیا جائے گا۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس بار میں دوسرے ذرائع اختیار کروں۔"
"کیا عمران۔۔۔!"
"ہاں۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔ اچھا بس۔۔۔" دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
سوزی دل کی بری نہیں تھی۔ اس نے اس کا ذمہ محض اس لئے لیا تھا کہ التھرے اور سلوانا کے تعلقات پھر بہتر ہو جائیں۔ اس کی دانست میں وہ آدمی گنہگار تھا جو ان دونوں کے درمیان میں آ گیا تھا لہٰذا وہ اسے ہر طرح سے زک دینا جائز سمجھتی تھی۔
وہ اسی کے متعلق سوچتی ہوئی ٹپ ٹاپ کلب میں پہنچی، اس کی وینٹی بیگ میں ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ اس سے پہلے وہ شائد دو یا تین بار یہاں آئی تھی کیونکہ یہاں ذی حیثیت آدمیوں کے علاوہ دوسروں کا گزر مشکل ہی تھا۔ لیکن وہ سوچ کر آئی تھی کہ آج ہی کلب کی مستقل ممبر بن جائے گی۔
وہ مینجر کے کمرے میں داخل ہوئی۔ لیکن وہ موجود نہیں تھا۔ سوزی کو کچھ دیر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنا پڑا۔ مینجر کی آمد پر وہ کچھ مایوس سی ہو گئی۔ کیونکہ ممبر بننے کی شرائط میں یہ بھی تھا کہ کم از کم دو پرانے ممبران سے شناسائی ضرور ہو۔
"مجھے یہاں کوئی نہیں جانتا۔" سوزی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا "میں ابھی حال ہی میں ملایا سے یہاں آئی ہوں۔"
"دیکھئے۔۔۔ یہاں اجنبی بھی آتے ہیں۔ اکثر ایسے بھی آتے ہیں جو آج آئے پھر برسوں کے بعد ہی ان کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر وہ لوگ ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں جو مستقل ممبران کو حاصل ہیں اور وہ سہولتیں کسی کی ضمانت کے بغیر دی ہی نہیں جاسکتیں۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ ممبری کے فارم پر کم از کم دو پرانے ممبران کی سفارش ہو۔۔۔ یعنی وہ سفارش کرنے والے دراصل ضامن ہوتے ہیں!"
"اگر میں نقد ضمانت ادا کر دوں تو!"
"اوہ یقیناً۔۔۔ یقیناً۔۔۔ جب آپ کی ممبری ختم ہوگی ضمانت واپس کر دی جائے گی۔"
"رقم بتائیے!"
"صرف پانچ سو۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ یہ دراصل ضابطے کی کاروائیاں ہیں۔ ورنہ یہاں سبھی معزز لوگ ہیں۔ غالباً آپ میرا مطلب سمجھ گئی ہوں گی۔"
سوزی اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے سو سو کے پانچ نوٹ نکال چکی تھی مینجر نے اس کا شکریہ ادا کرکے پانچ سو کی رسید دی اور ممبری کا فارم بڑھاتا ہوا بولا "آپ یہاں کی زندگی کو دلچسپ پائیں گی۔ ملایا سے تشریف لائی ہیں آپ!"
"جی ہاں۔۔۔ مگر دیکھئے۔۔۔ میں یہاں کسی سے واقف نہیں ہوں اور یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ بغیر کسی تعارف کے خود سے جان پہچان پیدا کروں!"
"اوہ آپ اس کی فکر نہ کیجئے۔۔۔ میں یہاں کے بہترین ممبران سے آپ کا تعارف کراؤں گا۔"
"شکریہ!" سوزی نے کہا اور فارم کی خانہ پری کرنے لگی پھر اپنے دستخط کئے۔ مینجر نے فارم لے کر اس پر ایک نظر ڈالی اور اسے رجسٹر میں رکھتا ہوا بولا۔ "شکریہ"
"مگر دیکھئے میں اپنے گرد زیادہ بھیڑ نہیں پسند کرتی۔ کسی ایک آدمی سے تعارف کرا دیجئے جو بہت دلچسپ ہو۔ میں صرف تفریح چاہتی ہوں۔"
"اوہ!" مینجر ہونٹ سکوڑ کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر پلکیں چھپکاتا ہوا مسکرایا۔
"کیا آپ کسی بیوقوف آدمی سے ملنا پسند کریں گی۔"
سوزی کا دل دھڑکنے لگا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا جس کا بیڑہ اس نے اٹھایا تھا۔ بیوقوف آدمی کا نام سنتے ہی اس کے جسم میں ہلکی سی تھرتھری پیدا ہو گئی۔ لیکن اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"ایک ایسا آدمی جس کی باتوں پر آپ ہنستی رہیں گی۔"
"اوہ ضرور۔ ضرور۔۔۔ مگر کیا وہ بیوقوف ہے؟"
"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔ ویسے بیوقوف ہی معلوم ہوتا ہے!"
"ضرور ملائیے! اس سے۔۔۔ پھر بعد کو تو دوسروں سے بھی جان پہچان ہو ہی جائے گی۔"
"چلئے! میرا خیال ہے کہ وہ آ ہی گیا ہوگا۔ آج کل نہ جانے کیوں روزانہ آ رہا ہے!"
سوزی نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن خاموش ہی رہی۔ وہ دراصل یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی عورت بھی ہوتی ہے یا وہ تنہا ہوتا ہے۔
وہ ڈائیننگ ہال میں آئے۔ مینجر نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں "ابھی نہیں آیا مگر میرا خیال ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔ آج کل ناغہ نہیں کرتا۔ آئیے! ادھر بیٹھئے!"
وہ دونوں بیٹھ گئے اور مینجر نے مسکرا کر کہا "میں پہلی بار ہر نئے ممبر کی دعوت ضرور کرتا ہوں۔۔۔ یہ رہا مینیو۔۔۔"
"اوہ! شکریہ! مگر میں کھانا تو کھا چکی ہوں۔"
"پھر کیا پئیں گی آپ!"
"میرا خیال ہے کہ کافی بہتر رہے گی۔ میں شراب بالکل نہیں استعمال کرتی۔"
"یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔"
اس کے بعد وہ ملایا کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ ممکن ہے کبھی سوزی ملایا میں بھی رہی ہو۔ ورنہ وہ اتنی صفائی سے اپنے متعلق جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کرتی۔
دفعتاً مینجر نے کہا "وہ آگیا۔"
سوزی کی نظر صدر دروازے کی طرف اٹھی۔ ایک خوشرو نوجوان اندر داخل ہوا تھا۔ لیکن التھرے کے بیان کے مطابق اس کے لباس میں کسی قسم کی بدوضعی نظر نہیں آئی۔ وہ نیلے سوٹ اور بے داغ سفید قمیض اور ایک سادہ ٹائی میں بڑا دلکش لگ رہا تھا۔
دروازے کے قریب کھڑے ہوئے ویٹر نے اسے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ اس نے بھی ہاتھ ہی اٹھا کر جواب دیا اور پھر اسی گرمجوشی سے مصافحہ کرنے لگا جیسے بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ لیکن پھر بوکھلائے ہوئے انداز میں دوسری طرف مڑ گیا۔ بالکل اس طرح جیسے غلطی کا احساس ہو گیا ہو۔ ویٹر سر کھجاتا، اور کنکھیوں سے دوسروں کو دیکھتا ہوا کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا۔
"دیکھا آپ نے!" مینجر مسکرا کر بولا۔
"جی ہاں!" سوزی نے آہستہ سے کہا۔ اور مسکرائی۔ اس کی نگاہ برابر اس نوجوان کا تعاقب کر رہی تھی۔ پھر اس نے اسے ایک خالی میز کے قریب بیٹھتے دیکھا۔
"کیوں ہے نا دلچسپ!" مینجر نے کہا۔
"ہاں! معلوم تو ہوتا ہے۔۔۔ کچھ نروس قسم کا آدمی ہے۔"
مینجر نے اس خیال پر رائے زنی نہیں کی۔ وہ دونوں خاموشی سے کافی پیتے رہے۔ سوزی نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے لوگ اس آدمی کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں لیکن وہ اس انداز میں کچھ کھویا سا بیٹھا ہے جیسے اپنے گردوپیش کی خبر ہی نہ ہو۔
"پھر تعارف کرادیا جائے اس سے؟"
"ضرور۔ ضرور۔۔۔ یہ تو صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔"
مینجر پھر خاموش ہی رہا۔ وہ دونوں اٹھ کر اس کی میز کے قریب آئے وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔
"آپ سے ملئے!" مینجر نے عمران کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہا۔ "آپ مسٹر علی عمران۔۔۔ اور آپ مس سوزی!.
عمران نے مینجر ہی سے مصافحہ کر ڈالا۔ پھر "سوری" کہہ کر سوزی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سوزی اس بوکھلاہٹ پر بے اختیار ہنس پڑی۔
"تشریف رکھئے۔۔۔ تشریف رکھئے!" عمران نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ بیٹھ گئے۔ مینجر نے اسے بتایا کہ سوزی حال ہی میں ملایا سے آئی ہے۔
"اوہو! ملایا۔۔۔ کیا کہنے ہیں۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "مجھے وہاں برف گرنے کا منظر بہت حسین معلوم ہوتا تھا۔"
":برف!" سوزی نے حیرت سے کہا۔ "وہ تو خط استوا سے قریب ہے۔ وہاں برف کب پڑتی ہے۔"
"ارے۔۔۔ لاحول۔۔۔ مجھے ہمالیہ کا خیال تھا۔۔۔ ملایا میں نہیں گیا۔"
"ضرور جائیے۔۔۔ اگر کبھی موقع ملے۔۔۔ وہاں کے مناظر آپ بہت پسند کریں گے۔"
"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔"
وہ دونوں ۃی خاموش ہو گئے۔ سوزی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کہے اور عمران بار بار کنکھیوں سے مینجر کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج یہ نئی بات کیوں؟ اس سے پہلے مینجر نے کسی لڑکی سے عمران کا تعارف نہیں کرایا تھا۔
مینجر شاید سمجھ گیا تھا اس نے جلدی سے کہا۔ "مس سوزی کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف چاہتی تھیں۔"
"اوہا۔۔۔" عمران بھدے پن سے ہنسنے لگا پھر بولا۔ "کیا میں واقعی دلچسپ ہوں۔"
"اتنی جلدی کیسے اندازہ ہو سکتا ہے۔" سوزی مسکرائی۔ "یہ اقدام تو انہوں نے اپنے تجربے 
کی بناء پر کیا تھا۔"
"جی ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے۔" عمران نے سر ہلا کر کہا۔
وہ پھر ہونٹ پر ہونٹ جما کر بیٹھ گیا۔ مینجر انہیں وہیں چھوڑ کر جا چکا تھا اور سوزی سچ مچ بور ہو رہی تھی۔ کیونکہ عمران کچھ ایسے انداز میں خاموش بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنے کسی عزیز کی موت کی خبر سنی ہو۔
"آپ تو غیر دلچسپ ثابت ہو رہے ہیں جناب!" سوزی اٹھلائی۔
"ارے۔۔۔ ہاں وہ۔۔۔ میں دراصل بھول ہی گیا تھا۔"
"کیا بھول گئے تھے؟"
"یہی کہ ہم دونوں پہلی بار ملے ہیں بات دراصل یہ ہے مس سوجی۔"
"سوجی نہیں۔۔۔ سوزی!" 
"اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔ مجھے دراصل بھول جانے کا مرض ہے۔"
"کوئی بات نہیں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔۔۔ میں آپ کا شہر دیکھنا چاہتی ہوں"
"ضرور دیکھئے۔۔۔ یہ بہت اچھا شہر ہے۔۔۔ آپ کبھی اونٹ پر بھی بیٹھی ہیں؟"
"اونٹ پر؟" سوزی نے حیرت سے کہا اور اس مضحکہ خیز سوال پر ہنس پڑی۔
"جی ہاں۔۔۔ اونٹ پر۔۔۔ آپ اونٹ نہیں سمجھتیں۔۔۔ کیا ملایا میں نہیں ہوتے اونٹ۔۔۔ اونٹ ایک اونچا جانور ہے اور جھولا جھولتا ہوا چلتا ہے مجھے تو بہت پسند ہے یہ جانور۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی کار میں ایک اونٹ جوت دوں!"
"مگر آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟"
"بس یونہی۔۔۔ میں ہر آدمی سے یہ سوال کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جو ایک بار بھی اونٹ پر نہیں بیٹھا۔ اس نے اپنی اتنی زندگی برباد کی ہے۔"
"کیوں؟"
"پتہ نہیں۔۔۔ میں یہی محسوس ہوں، بہتیری ایسی باتیں محسوس کرتا ہوں جنہیں سن کر لوگ مجھے احمق سمجھتے ہیں لیکن اب میں کیا کروں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے لیکن وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں محسوس ہوتا ہے۔"
"آپ واقعی دلچسپ ہیں۔" سوزی مسکرائی۔
"شکریہ!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔
"آپ کا مشغلہ کیا ہے؟"
"آثار قدیمہ کی کھدائی کرنا۔"
"اوہ!"
"جی ہاں! اب تک کئی نادر روزگار چیزیں زمین سے برآمد کر چکا ہوں۔ پچھلے دنوں اپنے باغ کی کھدائی کر رہا تھا کہ ایک چالیس ہزار سال پرانا حقہ برآمد ہوا لیکن اب اس کے متعلق ایک لمبی بحث چھڑ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ حقہ ہے لیکن دوسرے ماہرین آثار قدیمہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حقہ نہیں بلکہ اسپرے مشین ہے۔"
"بھلا حقہ اور اسپرے مشین میں کیا علاقہ۔۔۔"
"کوئی نہیں! مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی ایک مرغیوں کا ڈربہ بھی نکل آیا ہے جو آدھا رنگین اور آدھا سادہ۔۔۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ڈربے پر اسپرے مشین سے رنگ کیا جا رہا تھا کہ ٹھیک اسی وقت طوفان نوح آگیا اس لئے رنگائی پوری نہیں ہوسی۔"
"کمال ہے بھلا یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ وہ طوفان نوح کے وقت کی چیزیں ہیں۔"
"ہرگز نہ معلوم ہوتا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈربے سے دو چار مچھلیوں کے کانٹے نکل آئے۔ میں کیا بتاؤں۔ پہلے مجھے دھیان نہیں آیا تھا ورنہ وہ کانٹے چپ چاپ کھسکا دیتا اور میری تھیوری بے چوں و چرا تسلیم کر لی جاتی۔ اب میں اسے حقہ کسی طرح ثابت نہیں کر سکتا۔ میری بہت بڑی شکست ہوئی ہے کاش میں جلدی ہی کوئی دوسری چیز برآمد کر کے اس شرمندگی کو مٹا سکتا۔" عمران یہ سب بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا اور سوزی اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"خیر مس چوزی دیکھا جائے گا۔" عمران نے انگڑائی لی۔
"سوزی پلیز! آپ بار بار میرا نام بھول جاتے ہیں۔"
"اوہ۔۔۔ معاف کیجئے گا"۔۔۔ عمران نے اپنا کان اینٹھ کر داہنے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔ قرب و جوار کے لوگ چونک کر ہنسنے لگے اور عمران اس طرح چونکا جیسے وہ کسی اور بات پر ہنسے ہوں۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا پھر جھک کر آہستہ سے بولا "کیا ہوا؟"
سوزی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے۔ ویسے وہ بری طرح جھینپ رہی تھی کیونکہ اب لوگ اسے بھی گھورنے لگے تھے۔
"آپ نے اپنے گال پر تھپڑ۔۔۔ مم مارا تھا۔" سوزی ہکلائی۔
"ان گدھوں کے منہ پر تو نہیں مارا تھا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا "آخر یہ ہنستے کیوں ہیں"
اس پر سوزی کو ہنسی آگئی۔
"اچھا۔۔۔ آپ بھی ہنس رہی ہیں۔ خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب لوگ تم پر ہنسنے لگیں تو تم سمجھ لو کہ تم ان سب کو نیچا دکھا سکتے ہو۔"
سوزی اس دوران میں یہ بھی بھول گئی تھی اس آدمی سے ملنے کا مقصد کیا تھا۔
"کنفیوشس کو پڑھا ہے آپ نے؟" وہ بولی۔
"کیا کنفیوشس کوئی کتاب ہے؟" عمران نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ "آپ مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی اجازت میں ہرگز نہیں دے سکتا۔"
"اوہ۔۔۔ آپ تو خفا ہوگئے۔۔۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا!"
"کیا مطلب تھا۔۔۔ آپ کا؟"
"کچھ بھی نہیں آپ تو پیچھے پڑ گئے۔"
"اوہ۔۔۔ تو آپ مجھے۔۔۔ پاگل کتا بھی سمجھتی ہیں۔۔۔ کیوں؟"
"ارے۔۔۔ کمال کرتے ہیں آپ۔"
"کیا کمال کرتا ہوں۔۔۔ کمال کرتی ہیں آپ۔۔۔ مجھے پاگل۔۔۔ بددماغ۔۔۔ بیوقوف اور نہ جانے۔۔۔ کیا کیا سمجھ لیا ہے آپ نے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ مینجر کا بچہ مجھے پریشان کرنا چاہتا ہے۔ میں اس سے سمجھ لوں گا۔"
عمران اپنی جگہ سے اٹھا اور سوزی کے احتجاج کی پروا کئے بغیر ڈائیننگ ہال سے چلا گیا۔
سوزی خاموش بیٹھی رہی۔ اور اب اسے یاد آیا کہ وہ یہاں کیوں آئی تھی۔
وہ سوچنے لگی۔ یہ تو سو فیصدی کریک معلوم ہوتا ہے۔ پھر شاید التھرے کی بیوی بھی پاگل ہی ہے جو التھرے جیسے۔۔۔ ذہین۔۔۔ طاقتور۔۔۔ اور۔۔۔ غیر معمولی قوت برداشت رکھنے والے آدمی کو چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھی۔ اور کلب کے باہر نکل کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ میں آئی۔ التھرے کے نمبر ڈائیل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولی
"مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔۔۔ سوزی اسپیکنگ۔۔۔"
"ہیلو۔۔۔ بے بی۔۔۔ کیا بات ہے؟"
"اس کا نام عمران ہی ہے نا!"
"ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ یہی نام ہے۔۔۔ بے بی۔۔۔!"
"میں اس سے اس وقت ملی ہوں۔۔۔ وہ تو پاگل ہے۔۔۔ سو فیصدی پاگل۔۔۔"
"ہاں مجھے بھی یہی معلوم ہوا تھا۔"
"پھر معاف کیجئے گا۔۔۔ شاید مسز التھرے بھی اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔ آپ مطمئن رہیئے۔۔۔ میں اس سے سمجھ لوں گی۔"
"بس تمہیں۔۔۔ تمہیں اتنا ہی کرنا ہے۔۔۔ کہ اسے مگر نہیں۔۔۔ ابھی تم اس سے ملتی رہو۔"
"بہت بہتر۔۔۔" سوزی نے ریسیور رکھ دیا۔ اور بوتھ سے باہر نکل آئی!
تیسری شام بھی جب سوزی آ ٹکرائی تو عمران کو اس کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا پڑا۔اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ شاید عمران پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتی کیونکہ وہ پچھلے دو دنوں سے برابر حماقت کی بجائے چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ حماقت تو تفریح کا سامان پیدا کرتی ہے مگر چڑچڑاہٹ برداشت کرنا شاید کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔
پھر وہ کس ٹائپ کی لڑکی تھی کہ عمران کی چڑچڑاہٹوں سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اس کا پیچھا چھوڑتی نظر نہیں آتی تھی۔
عمران نے سب سے پہلے مینجر سے اس کے متعلق پوچھ گچھ کی لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ایک نئی ممبر تھی اور اس نے کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مصلحتاً عمران نے اس کے متعلق زیادہ گفتگو نہیں کی۔ بہرحال وہ لڑکی اس وقت بھی اس کے سر پر مسلط تھی اور عمران سوچ رہا تھا کہ اس طرح مل بیٹھنے کی غرض و غائت کیا ہو سکتی ہے۔
"آپ آج بہت خاموش ہیں۔" لڑکی نے چھیڑا۔
"پتہ نہیں۔ مجھے تو نہیں محسوس ہوتا کہ میں خاموش ہوں۔" عمران کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ نظر آئی۔۔۔ چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا۔ "آپ ملایا کب واپس جائیں گی؟"
"کیوں؟"
"بس یونہی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کو واپس چلا جانا چاہئے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"میں بہت پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھ سے وجہ نہ پوچھا کیجئے۔۔۔ وجہ جب میری ہی سمجھ میں نہیں آتی تو آپ کو کیا بتاؤں!"
"خیر چھوڑیئے۔۔۔ آج میں آپ کو اپنے گھر لے چلنا چاہتی ہوں۔"
"گھر اپنا ہو یا دوسرے کا۔۔۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔"
"پھر کیا آپ کی راتیں آسمان کے نیچے گزرتی ہیں؟"
"نہیں۔۔۔ آسمان پر گزرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ رات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔"
"ضرور کہا ہوگا۔" لڑکی جلدی سے بولی۔ "اٹھیئے چلئے میرے ساتھ۔۔۔"
"آپ کے گھر پر اور کون ہے؟"
"کوئی بھی نہیں۔۔۔ میں تنہا رہتی ہوں۔"
"ارے باپ رے!" عمران نے اردو میں کہا۔
اور لڑکی بولی۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"آج نہیں کل!" عمران نے کہا۔
"آج کیوں نہیں۔۔۔" سوزی نے کہا۔
"آج میری بکری بچہ دینے والی ہے۔"
"اوہ۔۔۔ کیا یہ گندہ شوق بھی رکھتے ہیں آپ؟"
"یہ گندہ شوق ہے؟" عمران نے جھلا کر بولا۔
"یقیناً!" لڑکی مسکرائی۔
"بس اب براہ کرم مجھے زیادہ غصہ نہ دلایئے!"
"آپ عجیب ہیں۔"
"آپ خود عجیب ہیں بلکہ عجیب ترین۔۔۔"
ٹھیک اسی وقت جولیانا فٹز واٹر ڈائیننگ ہال میں داخل ہوئی اور سیدھی عمران کی میز کی طرف چلی آئی لیکن میز کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹھکی۔ کیونکہ عمران کے ساتھ کسی تفریح گاہ میں کسی لڑکی کا ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی۔۔۔ اور پھر لڑکی بھی سفید فام۔۔۔
"اوہو۔۔۔ کیا میں مخل ہو رہی ہوں؟۔۔۔ مسٹر عمران۔۔۔" اس نے عمران کو مخاطب کیا۔
"نیہں تو۔۔۔ ویسے یہ" عمران نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا "میرے دماغ میں خلل ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔"
سوزی گڑبڑا گئی۔ اس نے احتجاج کے لئے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ جولیا بول پڑی۔ "وہ تو ظاہر ہی ہے اسے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال میں تمہاری اجازت کے بغیر یہاں بیٹھ رہی ہوں۔"
سوزی جولیا کو دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا مسز التھرے یہی ہے۔۔۔ جولیانا فٹز واٹر بہت دلکش عورت تھی۔ سوزی اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن نام یاد نہ آیا۔ ویسے اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ مسز التھرے ہی ہے۔ عمران خاموش ہو گیا تھا۔
"آپ کی تعریف؟" جولیا نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا۔
"اوہ! مجھے سوزی کہتے ہیں۔" وہ جلدی سے بول پڑی۔ "ابھی حال ہی میں ملایا سے آئی ہوں او رتین دن ہوئے آپ کے کلب کی ممبر بنی تھی۔ مسٹر عمران کلب کے دلچسپ ترین آدمی ہیں۔"
جولیا نے ایک طویل سانس لی اور کنکھیوں سے عمران کی طرف دیکھتی ہوئی بولی "میں جولیانا فٹز واٹر ہوں۔۔۔ مسٹر عمران واقعی بہت دلچسپ آدمی ہیں۔"
"کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب دو عورتیں بیک وقت تمہیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو، جو ان کے بیان کی تصدیق کر سکے۔"
"سوزی ہنسنے لگی پھر جولیا سے بولی "یہ کنفیوشس کے اسپیشلسٹ ہیں۔"
"یہ کس چیز کے اسپیشلسٹ نہیں ہیں؟" جولیا نے سوال کیا۔
سوزی پھر ہنسنے لگی۔ لیکن عمران قطعی بے تعلقانہ انداز میں بیٹھا رہا۔ جولیانا اسے چھیڑ چھیڑ کر بولنے پر اکساتی رہی۔ اس سے سوزی نے اسے مسز التھرے سمجھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ عمران کو اس کی پروا بھی نہیں ہے۔ خود وہی اس کے پیچھے لگی ہے۔ ان تین دنوں میں سوزی نے یہ بھی محسوس کیا کہ کریک ہونے کے باوجود وہ جنس مخالف کے لئے خود میں کافی کشش رکھتا ہے۔
سوزی اب اٹھ جانا چاہتی تھی۔ نہ جانے کیوں وہ التھرے کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ عمران شاید مسز التھرے کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ خود ہی اس کے پیچھے دم ہلاتی پھرتی ہے۔"
"اچھا۔۔۔ اب اجازت دیجئے!" وہ اٹھتی ہوئی بولی۔
"بیٹھئے نا!" جولیا نے کہا۔ "اگر آپ میری وجہ سے اٹھ رہی ہیں۔۔۔ تو۔۔۔"
"ارے نہیں۔۔۔ قطعی نہیں۔" سوزی مسکرائی۔ "مجھے دراصل آٹھ بجے ایک جگہ پہنچنا ہے۔"
"ضرور، ضرور!" عمران نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔
نہ جانے کیوں سوزی کو عمران کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔۔۔ لیکن وہ زبردستی مسکراتی رہی۔
کچھ دیر بعد اس نے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ سے التھرے کو فون کیا۔
"یس۔۔۔ بےبی۔۔۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں اس وقت ان دونوں کے پاس سے اٹھ کر آ رہی ہوں۔"
"اوہ۔۔۔ کیا۔۔۔؟"
"جی ہاں! آج مسز التھرے سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وہ واقعی بے حد حسین ہیں۔ ان کا نام جولیانا ہی ہے نا؟"
"کیا۔۔۔ اوہو۔۔۔ ہاں۔۔۔ جولیانا"۔۔۔ دوسری طرف سے تھوڑے وقفے کے ساتھ کہا گیا۔۔۔ "ہاں! تو تم نے اسے دیکھ لیا بے بی!"
"ہاں! دیکھ لیا مگر مسٹر التھرے وہ عمران اس سلسلے میں بالکل بے قصور معلوم ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ شاید خود ہی اس پر بری طرح مرمٹی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس واقعے کو التھرے کی بدنصیبی ہی کہیں گے۔"
"اور سنیئے۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام نہیں لگاتیں!"
"ہائیں۔۔۔ یہ میرے لئے بالکل نئی اطلاع ہے۔" دوسری طرف سے تحیر زدہ سی آواز آئی۔
"جی ہاں۔۔۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ وہ جولیانا فٹز واٹر ہیں۔"
"بے بی! یہ بڑی زیادتی ہے۔ اب تم خود ہی انصاف کرو!۔۔۔ کیا کوئی شادی شدہ عورت شوہر کی بجائے باپ کا نام استعمال کر سکتی ہے؟" 
"تو فٹز واٹر ان کے باپ کا نام ہے۔"
"ہاں۔۔۔ مگر اب یہ عورت مجھے خوامخواہ مجھے غصہ دلا رہی ہے۔" التھرے کی غصیلی آواز آئی۔
"آپ کا غصہ فضول ہے مسٹر التھرے۔۔۔ عمران نے ان پر ڈورے نہ ڈالے ہوں گے۔ وہ اس قسم کا آدمی معلوم نہیں ہوتا بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کے لئے تیار ہوں کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
"خیر یہ غلطی ہے تمہاری۔۔۔ وہ دوسرے قسم کے مردوں میں سے ہے۔ یہ لوگ خوامخواہ عورتوں سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے کتے ہوتے ہیں۔ ان کی بے رخی تو دراصل عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔"
"ممکن ہے آپ درست کہہ رہے ہوں! ہاں ایسے مرد بھی ہوتے ہیں۔"
"بس یہ سمجھ لو کہ سارا قصور اسی کا ہے۔ یہ بتاؤ کہ کیا وہ تمہارے ساتھ آنے پر آمادہ ہے۔"
"میں اسے آمادہ کر لوں گی۔۔۔ شاید کل شام کو وہ میرے ساتھ باہر نکل سکے۔"
"اچھی بات ہے کل دس بجے تک تمہیں مقام کے متعلق اطلاع دے دی جائے گی۔"
"مگر اپ کریں گے کیا؟"
"بس تم دیکھنا! میری حکمت عملی۔۔۔ ویسے تم مطمئن رہو کوئی غیر قانونی حرکت ہرگز نہ ہونے پائے گی۔"
"مجھے اطمینان ہے مسٹر التھرے۔۔۔ آپ بہت اونچے آدمی ہیں!"
"شکریہ! بے بی مگر افسوس! کاش میری بیوی نے کبھی مجھے اس نقطہ نگاہ سے دیکھا ہوتا۔"
"آپ کے کہنے کا مطلب۔۔۔ یہ کہ۔۔۔ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں!"
"اسی لئے میں بھی تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ اچھا بے بی۔۔۔ اور کچھ نہیں؟"
"جی نہیں!" دوسری طرف سے سلسلہ مقطعی ہونے کی آواز آئی!
آج سردی کم تھی اور پچھلی رات کا شفاف چاند سفید بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بار بار الجھ رہا تھا۔ کلاک نے بارہ بجائے اور وزارت داخلہ کا اسسٹنٹ سیکرٹری کرنل نادر ٹہلتے ٹہلتے رک گیا۔ مغربی سمت کی کھڑکی کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا جس سے دور تک پھیلا ہوا میدان دکھائی دیتا تھا وہ کھڑکی کی طرف بڑھا اور دوسرا پٹ بھی کھولتا ہوا سلاخوں پر جھک گیا۔ حد نظر تک چاندنی کھیت کر رہی تھی۔ پھر اس نے بڑی بے چینی سے کلاک کی طرف دیکھا۔ بارہ بج کر دو منٹ ہوئے تھے۔ اب اس نے اس طرح کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالی جیسے دیوار سے لگے ہوئے کلاک نے اسے دھوکا دیا ہو۔ باہر ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی اور وہ چونک پڑا۔ پھر دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اس کے انداز میں بڑی بے چینی تھی۔ جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر اس نے آہستہ سے کہا "سلوانا"
اسے اپنی سرگوشی دور تک پھیلتی محسوس ہوئی۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کیونکہ اسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ تھوڑی دور تک جھاڑیاں متحرک نظر آ رہی تھیں۔ وہ دوڑتا ہوا وہاں پہنچا "سلوانا"! اس نے پھر آہستہ سے پکارا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس بار اسے جھاڑیوں میں گھستا چلا گیا۔
لیکن اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی گردن میں پھندا سا پڑ گیا ہو۔ ایک جھٹکے کے ساتھ رک کر اس نے اپنی گردن ٹٹولنی چاہی لیکن دوسرے ہی لمحے ایک مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر پڑا۔۔۔ ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی کسی کی گرفت میں آ گئے۔ اس نے تڑپ کر اس جال سے نکلنا چاہا مگر یہ ممکن نہ ہوا۔ منہ پر ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ ایسی صورت میں حلق سے آواز کیا نکلتی۔
وہ زمین پر گرا دیا گیا۔۔۔ لیکن بے حس و حرکت۔۔۔ شاید بیک وقت کئی آدمیوں نے اسے دبا رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے کانوں میں گونجنے والی جھائیں جھائیں گہری ہوتی گئیں۔۔۔ ایک بار آنکھوں کے سامنے کوندا سا لپکا اور پھر گہری تاریکی چھا گئی۔ کانوں کی جھائیں جھائیں ذہن کے اندھیروں میں مدغم ہو گئی۔
کرنل نادر اچھے ہاتھ پیر اور بہتر صحت کا مالک تھا لیکن پھر بھی جب وہ دوبارہ ہوش میں آیا تو نقاہت کی وجہ سے آنکھیں کھولنے میں بھی دشواری محسوس کر رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اس طرح اچھل پڑا۔ جیسے اچانک کوئی چیز چبھ گئی ہو۔ وہ برہنہ تھا۔ جسم پر ایک تار بھی نہیں تھا اس نے چاروں طرف وحشت زدہ نظروں سے دیکھا اور دیوانوں کے سے انداز میں پورے کمرے کا چکر لگانے لگا۔ وہ کمرے میں تنہا تھا لیکن یہاں اسے کوئی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنا جسم ڈھانک سکتا۔
اس کا سر بڑی شدت سے چکرا رہا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھولنے کی آواز آئی اور تین آدمی اندر داخل ہوئے۔ وہ بے تحاشہ بیٹھ کر ایک گوشے میں سمٹ گیا۔ آنے والے تینوں سفید فام آدمی پادریوں کی وضع قطع رکھتے تھے۔
"ارے۔۔۔ دیکھو! اس ننگے بے شرم کو!۔۔۔" ایک نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
"چھی چھی!" دوسرے نے برا سا منہ بنایا۔
"کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟۔۔۔" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ ڈپٹی سیکرٹری فوجی آدمی تھا۔ لیکن اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی اور وہ بری طرح نروس ہو گیا تھا۔
"ارے کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔۔۔ اس پر۔۔۔" ایک نے کہا "بہرا ہے شاید!" دوسرا بولا۔
"کیوں کیا تم بہرے ہو۔۔۔؟" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ "میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ سور کے بچو!" ڈپٹی سیکرٹری نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ "ورنہ چن چن کر قتل کر ڈالوں گا۔۔۔ میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ لاؤ۔۔۔ جلدی۔۔۔ نکلو یہاں سے۔۔۔ سور کے بچو!"
"پاگل معلوم ہوتا ہے۔" تیسرے نے دوسروں کی طرف دیکھ کر خوفزدہ آواز میں کہا۔ "بھاگو یہاں سے۔"
اور وہ سچ مچ بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ انہوں نے دروازہ بھی نہیں بند کیا۔
ڈپٹی سیکرٹری اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا کہ اسے بند کر کے اندر سے چٹخنی چڑھا دے۔ لیکن پھر وہ جھجھک کر پیچھے ہٹ آیا۔ ایک لمبا آدمی دروازے میں کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ڈپٹی سیکرٹری کے کپڑے تھے۔ اس نے انہیں اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔ "کپڑے پہن لو!"
اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ڈپٹی سیکرٹری نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کپڑے پہنے اور پھر دروازے کی طرف بڑھا۔ اب اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس وقت پہاڑ سے بھی ٹکرا جائے گا۔
اس نے پوری قوت سے لمبے آدمی پر حملہ کر دیا۔ لیکن اپنے ہی زور میں منہ کے بل فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ کیونکہ لمبے آدمی نے بڑی پھرتی سے وار خالی کر دیا تھا اور پھر اسے اٹھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ لمبا آدمی اس پر سوار ہو گیا۔
"تم اپنا وقت ضائع کر رہے ہو دوست!" اس نے ڈپٹی سیکرٹری کی گردن دباتے ہوئے سفاکانہ انداز میں کہا۔۔۔ اور پھر اچھل کر ہٹ گیا۔
ڈپٹی سیکرٹری زمین سے اٹھا تو لیکن چپ چاپ کھڑا رہا۔
"تم اب بوڑھے ہو چلے ہو"۔۔۔ لمبے آدمی نے کہا۔ "اس وقت اس قسم کی ورزشیں تمہارے اعصاب کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔"
"مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔
"ایک بہت ہی معمولی بات کے لئے۔۔۔ جو ذاتی طور پر تمہارے لئے ذرہ برابر بھی نقصان دہ نہیں ہو سکتی! تم صرف اتنا بتا دو کہ ریڈ اسکوائر کاغذات کہاں رکھے گئے ہیں؟"
"اوہ!" ڈپٹی سیکرٹری اسے گھورنے لگا۔
"میں یہ سننا پسند نہیں کروں گا کہ تم اس سے لاعلم ہو!" لمبے آدمی نے کہا۔
"یہ حقیقت ہے کہ میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔"
"تم اچھی طرح جانتے ہو۔"
ڈپٹی سیکرٹری کچھ نہ بولا۔ لمبے آدمی نے مسکرا کر کہا۔ "اگر تم نہیں بتاؤ گے۔۔۔ تو کپڑے پھر اتار لئے جائیں گے اور ایک مجمع ہوگا تمہارے گرد۔"
"میں ایک آدھ کو جان سے مار دوں گا۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔ "میں بوڑھا ضرور ہو چلا ہوں لیکن قوت ہے میرے جسم میں!"
"تم احمقوں کی سی گفتگو کر رہے ہو۔ تمہیں پچھتانا پڑے گا۔"
ڈپٹی سیکرٹری خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔
"تم کسی پاگل کتے کی طرح بھونکنے لگے ہو۔" لمبا آدمی بولا۔ "تم۔۔۔ ہم سے ہمارے طریق کار سے ناواقف ہو۔ ہم تم پر تشدد نہیں کریں گے۔۔۔ اس کے باوجود بھی تم اگل دو گے۔"
"جب مجھے کچھ معلوم ہی نہیں ہے تو میں کیا بتاؤں گا۔"
"دیکھو دوست! پھر سوچ لو۔۔۔ تمہارے کپڑے اتار لئے جائیں گے"
"تمہاری مرضی!" ڈپٹی سیکرٹری نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
"میں تمہارے پورے خاندان کو اسی طرح یہاں اکٹھا کر سکتا ہوں۔ ذرا سوچو تو۔۔۔ اگر وہ سب تمہاری ہی طرح برہنہ کرکے اسی کمرے میں تمہارے ساتھ بند کر دیئے گئے تو۔۔۔؟"
ڈپٹی سیکرٹری سر سے پیر تک لرز گیا۔ اس کی کھال اڑا دی جاتی۔۔۔ تب بھی کاغذآت کے متعلق کچھ نہ بتاتا لیکن یہ حرکت خدا کی پناہ۔۔۔ اس کے تصور ہی سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
"نہیں!" اس نے مضطربانہ انداز میں کہا۔۔۔ "تم ایسا نہیں کر سکتے۔"
"نمونہ تو تم دیکھ ہی چکے ہو!" لمبا آدمی بیدردی سے ہنسا۔ "میرے لئے یہ ناممکن نہ ہوگا۔"
"وہ کاغذات اسٹیٹ بینک کی سیف کسٹڈی میں ہیں۔"
"تم سمجھدار آدمی ہو!" لمبے آدمی نے سنجیدگی سے کہا۔ "لیکن تمہیں اس وقت تک یہاں رہنا پڑے گاج ب تک کہ کاغذات ہمارے قبضے میں نہ آ جائیں۔"
"تم کون ہو؟" ڈپٹی سیکرٹری نے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔
"الفانسے!" لمبے آدمی نے آہستہ سے کہا اور اس کے پتلے پتلے ہونٹ پھیل گئے۔۔ طوطے کی طرح جھکی ہوئی ناک۔۔۔ کچھ اور زیادہ خم دار معلوم ہونے لگی۔
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔۔۔ چونکہ یہ عمران کا وہ فون تھا جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں بھی پائے جا سکتے تھے۔ اس لئے اس نے کوئی پروا نہ کی اور گھنٹی بجتی رہی۔
عمران کا خیال تھا کہ یہ وہی لڑکی ہوگی جو اسے اکثر فون پر بور کرتی رہتی تھی اس لئے اس نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن جب گھنٹی کسی طرح بند ہونے کو نہیں آئی تو اس نے جھلا کر ریسیور اٹھالیا اور چنگھاڑتی ہوئی سی آواز میں بولا۔
"ہیلو!"
"کیا عبدالجبار صاحب موجود ہیں؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔
عمران کا منہ اور زیادہ بگڑ گیا۔ غالباً کسی نے غلط نمبر ڈائیل کئے ھتے۔
"ہیلو!" دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔ "میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ عبدالجبار صاحب گھر پر موجود ہیں؟"
"موجود ہیں!" عمران نے جواب دیا۔
"ذرا فون پر بلا دیجئے۔"
"میں عبدالجبار ہی بول رہا ہوں۔"
"آخاہ! جبار بھائی۔۔۔ سلام علیکم۔۔۔ پہچانا آپ نے۔۔۔!" دوسری طرف سے بولنے والے نے لہک کر کہا۔
"پہچان لیا۔۔۔!"
"اچھا۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ کہیے بھائی صاحب! میرا کام ہوا یا نہیں؟"
"ہو گیا!"
"نہیں۔ آپ مذاق کر رہے ہیں۔۔۔ ہی ہی ہی ہی۔۔۔"
"ہی ہی ہی ہی۔" عمران نے بھی اس کی نقل کی۔ اور چند سیکنڈ تک دونوں میں ہی ہی کا تبادلہ ہوتا رہا۔
"جبار بھائی مطلب یہ ہے کہ آپ کو یقین ہے نا کہ کام ہو گیا ہے!" دوسری طرف سے کہا گیا۔
"ہاں مجھے یقین ہے کہ کام ہو گیا ہے۔۔۔ اور تم گدھے ہو!"
"جی!"
"تم گدھے ہو!"
"یعنی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"
"یو آر اے ڈنکی۔۔ ۔یہ تو ہوا انگریزی میں۔۔۔ یعنی۔۔۔ اب اور جس زبان میں کہو یعنی کر دوں۔"
"آپ نے شاید مجھےنہیں پہچانا۔۔۔ میں نواب کرامت علی بول رہا ہوں۔"
"تم ملکہ وکٹوریہ کے بھتیجے سہی۔ لیکن ہو گدھے!"
"ارے جبار! تم ہوش میں ہو یا نہیں؟"
"میں بالکل ہوش میں ہوں نواب کرامت علی۔۔۔ تم ایک بار پھر گدے ہو۔"
"شٹ اپ یو ڈرٹی سوائین۔"
"میں ڈرٹی سوائین ہی سہی۔۔۔ کواب نرامت ۔۔۔ اوہ۔۔۔ نواب کرامت علی۔۔۔ مگر تم گدھے ہو۔"
"میں تمہیں دیکھ لوں گا سور کے بچے۔" دوسری طرف سے دہاڑنے کی آواز آئی۔
"میں سور کا بچہ ہی سہی لیکن تم سو فیصدی گدھے ہو۔"
"اچھا، اچھا!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ عمران ریسیور رکھ کر میز کے پاس سے ہٹنے بھی نہ پایا تھا کہ پھر گھنٹی بجی۔
"اب کون ہے بھئی۔" عمران ریسیور اٹھا کر دہاڑا۔
"میں جولیانا فٹز واٹر بول رہی ہوں اور شاید تم عمران ہو۔۔۔ لیکن اس طرح حلق کیوں پھاڑتے ہو۔ اگر لائن خراب ہو گئی تو۔۔۔"
"تم کیوں کان کھا رہی ہو میرے۔"
"میرے پاس تمہارے لئے ایک سنسنی خیز خبر ہے۔"
"کیا میرے ڈیڈی نے مسکرانا سیکھ لیا؟"
"شش! وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری کرنل نادر پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔"
"بڑا اچھا ہوا۔ ان کا پیچھا ٹیلیفون سے چھوٹ گیا۔ اب وہ دنیا میں کوئی ڈھنگ کا کام کر سکیں گے۔ میری طرف سے ان کے گھر والوں کو مبارکباد دو۔"
"ریڈ اسکوائر کاغذات انہی کی تحویل میں تھے۔" جولیا نے اس کی بکواس کی پروا کئے بغیر کہا۔
"اوہو! تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ لاپتہ ہو گئے ہیں؟"
"گھر والوں کا بیان ہے کہ وہ اطلاع دیئے بغیر کہیں نہیں جاتے تھے۔"
"ممکن ہے اس بار بغیر اطلاع ہی کے چلے گئے ہوں۔"
"یہ ناممکن ہے۔۔۔ آج صبح ان کی خواب گاہ کا دروازہ کھلا ہو املا جو کھیتوں کی طرف کھلتا ہے اور وہ ابھی تک غائب ہیں۔ ان کے سلیپر اور سونے کا لباس خواب گاہ میں نہیں ہے۔"
"ریڈ اسکوائر کاغذات کہاں ہیں؟"
"اس کا علم سر سلطان اور کرنل نادر کے علاوہ اور کسی کو نہیں۔"
"ہمپ۔۔۔ تو تم مجھے کیوں بور کر رہی ہو۔"
"کاغذات کی مصیبت تو تمہاری ہی لائی ہوئی ہے۔"
"وہ مصیبت تو میں نے اپنے لئے مول لی تھی۔۔۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ تم تھریسیا کا بیگ لے بھاگو!"
"اس قصے کو ختم کرو۔ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔"
"میرے پاس برباد کرنے کے لئے وقت نہیں ہے۔۔۔ میں اب اس چکر میں نہیں پڑوں گا۔"
"تمہیں وقت نکالنا پڑے گا۔۔۔ ورنہ تمہاری زندگی تلخ کر دی جائے گی۔"
"دیکھا جائے گا۔" عمران نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔ اب وہ بڑی تیزی سے سر سلطان کے نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔ گھر پر وہ نہ مل سکے۔۔۔ لہٰذا اس نے آفس کے نمبر ڈائیل کئے۔ لیکن وہاں بھی ان سے رابطہ قائم نہ ہو سکا۔ یہ چیز عمران کے لئے تشویش کن تھی۔ آفس میں معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک آفس پہنچے ہی نہیں اور گھر سے معلوم ہوا کہ وہ دو گھنٹے قبل آفس جا چکے ہیں۔ درمیان میں کہیں رکنا کم از کم آفس اوقات میں سرسلطان کے لئے ناممکن ہی تھا۔ کیوں کہ وہ ایک بااصول آدمی تھے۔
عمران نے سوچا کہ کاغذات کے متعلق سرسلطان یا کرنل نادر کے علاوہ اور کسی کو علم نہیں تھا۔ لہٰذا اگر ڈپٹی سیکرٹری اسی سلسلے میں غائب ہوا ہے تو سرسلطان بھی محفوظ نہیں ہو سکتے۔
اس نے دس منٹ کے اندر ہی اندر فلیٹ چھوڑ دیا۔ سب سے پہلے وہ سرسلطان کے گھر پہنچا۔ وہاں معلوم ہوا کہ سرسلطان کو ان کا ڈرائیور لے گیا تھا وہ خود کار ڈرائیو نہیں کرتے تھے۔ ڈرائیور بھی کوئی نیا آدمی نہیں تھا بلکہ سر سلطان کے ہاں اس کی ملازمت کو تقریباً بیس سال گزر چکے تھے۔
مگر ایک نئی بات بھی معلوم ہوئی۔۔۔ سرسلطان آفس جانے سے قبل کسی سے دیر تک فون پر گفتگو کرتے رہے تھے۔ گفتگو سنی نہیں گئی تھی لیکن ان کے بھتیجے نے بتایا کہ وہ اس لمبی گفتگو کے بعد کچھ متفکر سے نظر آنے لگے تھے۔
"کیا انہوں نےاس کے بعد گھر والوں سے کوئی گفتگو کی تھی؟" عمران نے پوچھا۔
"نہیں!" جواب ملا۔
"پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آفس ہی گئے تھے۔"
"کیونکہ ان کے معمولات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ وہ روزانہ اسی وقت آفس کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔"
"انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کہ وہ آفس جانے سے پہلے کہاں جائیں گے؟"
"نہیں!"
"کچھ اندازہ ہے آپ کو۔۔۔ کہ وہ فون کس کا رہا ہوگا۔"
"یہ بتانا بہت مشکل ہے۔"
پھر عمران نے وہیں سے جولیانا فٹز واٹر کو فون کیا۔ اب وہ دراصل ڈپٹی سیکرٹری کرنل نادر کے گھر جانا چاہتا تھا۔ جولیانا نے شاید پہلے اسے اسی لئے فون کیا تھا لہٰذا وہ تیار ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ ڈپٹی سیکرٹری کے بنگلے کے قریب ہی ملے گی۔ کچھ دیر بعد عمران کی ٹو سیٹر سر سلطان کے بنگلے کی کمپاؤنڈ سے نکل رہی تھی۔ اور اس کا ذہن شاید اسی رفتار سے سوچ رہا تھا جس رفتار سے اس کی ٹو سیٹر سڑکیں ناپ رہی تھی۔
الفانسے اور تھریسیا لازمی طور پر یہیں ہیں۔ لہٰذا کاغذات ہر وقت ان کے ہاتھوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ اتنے دنوں کی خاموشی یقیناً کسی طوفان ہی کا پیش خیمہ تھی۔ ممکن ہےاب انہوں نے پھر کاغذات کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کر دی ہو۔ اور پھر ابھی حال ہی میں تنویر پر حملہ بھی ہو چکا تھا۔۔۔ اور فی الحال سیکرٹ سروس کے ممبران جن مجرموں کی نظر میں تھے وہ تھریسیا کے ساتھی ہی ہو سکتے تھے۔
ڈپٹی سیکرٹری کے بنگلے کے قریب اسے جولیانا فٹز واٹر کی کارنظر آئی اس نے بھی اپنی ٹو سیٹر روک دی لیکن نیچے نہیں اترا۔
جولیانا نے اپنی کار سٹارٹ کی او رعمران کو بھی گاڑی کمپاؤنڈ میں لے چلنے کا اشارہ کیا۔
بحیثیت عمران وہ یہاں تنہا نہیں آ سکتا تھا۔ ورنہ اسے علم تھا کہ کاغذات ڈپٹی سیکرٹری ہی کی تحویل میں تھے۔ اور اسی لئے اس نے بحیثیت ایکس ٹو جولیا کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈپٹی سیکرٹری پر نظر رکھے۔
جولیا آج ہی ایک بار پہلے بھی ڈپٹی سیکرٹری کے اس کمرے کا جائزہ لے چکی تھی۔ جہاں سے وہ غائب ہوئے تھے۔ وہ عمران کو بھی اپنے ساتھ وہاں لے گئی۔ عمران کافی دیر تک کمرے کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر اس نے وہ دروازہ کھولا جو میدان کی طرف تھا۔
"ادھر تو اندر کے اکھاڑے کی پریاں بھی آ سکتی ہیں۔" عمران نے جولیا کو آنکھ مار کر کہا۔ پھر یک بیک چونک کر بولا۔
"ہائیں۔۔۔ تو کیا کاغذات کرنل نے گھر پر ہی رکھے ہوں گے؟"
"میں انہیں اتنا احمق نہیں سمجھتی۔"
"پھر وہ کہاں رکھے ہوں گے؟"
"سر سلطان کے علاوہ شاید کسی کو بھی علم نہ ہو۔"
"ہا ہمپ۔۔۔ کیا تمہارے چوہے ایکس ٹو کو بھی علم نہ ہوگا۔"
"پتہ نہیں!"
"اس سے پوچھو! ورنہ کاغذات ہاتھ سے گئے۔"
"آج کل ہمارا چیف آفیسر لاپتہ ہے۔ اسے کئی بار فون کر چکی ہوں لیکن جواب نہیں ملتا۔"
عمران سوچنے لگا۔ وہ اُلو کا پٹھا کیا بتائے گا جب خود اسے ہی علم نہیں ہے کہ کاغذات کہاں ہوں گے۔ یہ حقیقت تھی کہ اسے علم نہیں تھا۔ سر سلطان کی زبانی اسے صرف اتناہی معلوم ہوا تھا کہ کاغذات کرنل نادر کی تحویل میں ہیں لیکن شاید انہوں نے یہ بتانے کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی کہ کرنل نادر نے انہیں کہاں رکھا ہے۔
"ان کے گھر والوں کا کیا خیال ہے؟"
"وہ بیچارے اتنے بدحواس ہیں کہ انہیں کوئی خیال ظاہر کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔"
"کرنل نادر کے لئے یہ پہلا واقعہ ہے؟۔۔۔ یا پہلے بھی کبھی ایسا ہو چکا ہے؟"
"میں نے بھی گھر والوں سے یہی سوال کیا تھا۔ لیکن کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ سارے گھر والے پریشان ہیں لیکن کرنل نادر کی بیوی بڑے غصے میں معلوم ہوتی ہے اس نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔"
"تمہیں۔۔۔ وہ کس حیثیت سے جانتی ہے؟"۔۔۔ عمران نے سوال کیا۔
"اوہ۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ میرا تعلق محکمہ سراغرسانی سے ہے۔"
"اور اس کی بیوی نے یقین نہیں کیا۔"
"میں نہیں کہہ سکتی کہ اسے یقین آیا تھا یا نہیں۔۔۔ لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو۔؟"
"میں اس کی بیوی سے ملنا چاہتا ہوں۔"
جولیانے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔
کچھ دیر بعد عمران کرنل نادر کی بیوی سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ ایک بھاری بھرکم اور چڑچڑے مزاج کی عورت تھی۔
"میں نہیں سمجھ سکتی!" وہ نتھنے پھلا کر بولی! "آخر اس معاملے میں محکمہ سراغرسانی کیوں کود پڑا ہے۔۔۔ کہیں گئے ہوں گے۔۔۔ واپس آ جائیں گے۔"
"آپ کو ان کے اس طرح غائب ہو جانے پر تشویش نہیں ہے۔" عمران نے پوچھا۔
"میں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی۔"
"جواب نہ دے کر آپ نقصان میں رہیں گی۔" عمران نے آہستہ سے کہا۔ "ہو سکتا ہے کہ کرنل کی زندگی خطرے میں ہو۔"
"کیا مطلب؟" عورت بیک بیک چونک پڑی۔
"زندگی خطرے میں ہونا بذات خود ایک بہت بڑا مطلب ہے۔ میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کل وہ کس وقت خواب گاہ میں گئے تھے۔"
عورت چند لمحے تشویش کن نظروں سے عمران کی طرف دیکھتی رہی پھر بولی "پتہ نہیں کس وقت گئے تھے۔۔۔ یہ بتانا مشکل ہے۔"
"آپ نے انہیں آخری بار کس وقت دیکھا تھا؟"
"شاید نو بجے۔۔۔ وہ ڈائننگ روم سے اٹھے تھے۔ پھر خواب گاہ کی طرف گئے ہوں گے۔"
"لیکن میرا خیال ہے کہ وہ رات بھر بستر پر نہیں لیٹے!"
"نہ لیٹے ہوں گے!" عورت نے کچھ اس انداز میں کہا جیسے کہہ رہی ہو جہنم میں جائیں۔"
"آپ کرنل صاحب سے ناراض معلوم ہوتی ہیں۔" عمران مسکرایا۔
"میں اب کسی بات کا جواب نہیں دوں گی۔" عورت نے کہا اور اٹھ کر اسٹڈی سے چلی گئی۔
عمران لان پر نکل آیا۔ جولیا کا اندازہ صحیح تھا۔
گھر کے دوسرے افراد یقیناً بدحواس تھے۔ لیکن کرنل کی بیوی اس واقعے سے ذرہ برابر بھی متائثر نہیں معلوم ہوتی تھی۔ عمران نے فرداً فرداً ہر ایک سے سوالات کئے تھے لیکن حاصل کی ہوئی معلومات تسلی بخش نہیں تھیں۔ آخر میں وہ ایک نوجوان ملازمہ سے جا ٹکرایا۔
"تم تو جانتی ہی ہوگی کہ کرنل صاحب کہاں گئے ہیں۔" عمران اپنی بائیں آنکھ دبا کر آہستہ سے بولا۔
"میں کیا جانوں!" وہ چٹخی۔
"بیگم صاحب کا خیال تو یہی ہے کہ کرنل صاحب تمہیں سب کچھ بتا دیتے ہیں۔"
"ارے واہ! میرے منہ پت کہیں تو۔۔۔ میں جوتی پر مارتی ہوں ایسی نوکری کو۔۔۔"
اس موٹی پر مجھے بھی بڑا غصہ آیا تھا۔" عمران نے ہمدردانہ لہجے میں کہا "خوامخواہ تم جیسی شریف لڑکی کو عیب لگاتی ہے۔"
"ہاں۔ وہ کاہے کو بتائیں گی کہ صاحب رات بارہ بجے تک اس پرکٹی سے جاپانی زبان سیکھا کرتے تھے۔"
"اچھا!" عمران رازدارانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔
"ہاں صاحب! وہیں سونے کے کمرے میں۔"
"کون ہے وہ پرکٹی؟"
"میم ہے اب بیگم صاحب کا خیال ہے کہ اسی کے ساتھ کہیں چل دیئے ہوں گے۔"
"ضرور یہی بات ہوگی۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "کیا وہ میدان کی طرف کے دروازے سے آیا کرتی تھی۔"
"اور کیا۔۔۔ ادھر ہی سے تو اتی ہوگی۔۔۔ ایک رات بیگم صاحب نے دیکھ لیا تھا۔۔۔ خوب گرجیں برسیں۔۔۔ صاحب نے کہا کہ وہ تو روز آتی ہے کیوں کہ وہ اس سے جاپانی زبان سیکھتے ہیں۔ یہ زبان سیکھنے کے بعد ان کی ترقی ہو جائے گی۔ عہدہ بڑھا کر انہیں جاپان بھیج دیا جائے گا۔"
"واہ بھئی۔۔۔ بڈھا بھی چالاک معلوم ہوتا ہے" عمران پھر اسے آنکھ مار کر مسکرایا اور وہ اٹھلا کر بولی۔"اب جانے دیجئے مجھے۔۔۔ مگر بیگم صاحب کو نہ بتائیے گا۔"
"کبھی نہیں۔ میں اب اس موٹی خوانخوار عورت سے بات نہیں کروں گا۔ مگر سنو تو۔۔۔ کیا وہ دن میں بھی آتی رہتی ہے۔"؟
"نہیں میں نے بھی اسے دیکھا نہیں ہے۔۔۔ گھر میں ہلڑ ہوا تھا تو میں نے بھی سن لیا۔"
"ہلڑ کب ہو اتھا؟"
"تین چار دن ہوئے۔"
"اس پر کٹی کا نام تو سنا ہی ہوگا تم نے!"
"نہیں۔۔۔ میں نام وام نہیں جانتی۔"
"اچھا جاؤ۔۔۔ خدا تمہیں کوئی سعادت مند دلہا نصیب کرے۔"
"ارے واہ ہم سے مذاخ نہ کرنا۔ بڑے آئے کہیں گے۔" وہ عمران کو منہ چڑا کر بھاگ گئی۔
عمران نے ایک بار پھر کرنل نادر کی بیوی سے رجوع کرنا چاہا لیکن اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ آخر عمران نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا
مجھے بھی جاپانی زبان سے بہت دلچسپی ہے لیکن
کرنل صاحب جاپان نہیں بھیجے جا سکتے۔۔۔ البتہ
وہ عورت انہیں جہنم میں ضرور پہنچا سکتی ہے۔
یہ تحریر بیگم نادر کو بھیج دی گئی۔ اور پھر وہ تھوڑی دیر بعد اسٹڈی میں موجود تھی!
لیکن اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور پلکیں کچھ متورم سی نظر آ رہی تھیں۔ شاید وہ روئی تھی۔
"مجھے افسوس ہے محترم۔" عمران نے مغموم آواز میں کہا۔ "دنیا کی کوئی طاقت اسے برداشت نہیں کر سکتی۔"
"کام کی بات۔۔۔"عورت ہاتھ اٹھا کر بولی۔ "مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔"
"اوہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں اس عورت کا نام معلوم کرنا چاہتا ہوں۔"
"نام مجھے نہیں معلوم۔"
"حلیہ بتا سکیں گی آپ۔"
"میں نے صرف ایک بار ایک جھلک دیکھی تھی۔۔۔ اس لئے حلیہ بھی نہ بتا سکوں گی۔"
"کیا وہ پچھلی رات بھی ان کے کمرے میں موجود تھی؟"
"مجھے علم نہیں!"
"کیا آپ مجھے ان کی خواب گاہ کی تلاشی لینے کی اجازت دیں گی؟"
"آخر محکمہ سراغرسانی کو ان کے غائب ہو جانے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔"
"یہ ایک بہت ہی خاص قسم کا معاملہ ہے۔ ۔۔ ورنہ ہمیں ان کے غائب ہو جانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔"
دفعتاً جولیا ہانپتی ہوئی اسٹڈی میں داخل ہوئی۔
"کیا بات ہے؟" عمران نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
"چلو جلدی۔۔۔ؔ
"کیوں کوئی خاص بات؟"
"سرسلطان مل گئے ہیں ان کی کار ایک ویران مقام پر ملی ہے۔ وہ خود بیہوش ہیں اور ڈرائیور لا پتہ ہے۔"
"اوہ!" عمران نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑے "مگر تم تو یہاں تھیں۔"
"ابھی ابھی جعفری نے فون پر کہا ہے۔ اسے علم ہے کہ ہم یہاں ہیں۔"
"تو اب کہاں ہیں سر سلطان؟"
"ہسپتال میں سول ہسپتال میں!"
"خیر انہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ میں فی الحال کرنل کی خواب گاہ کی تلاشی لوں گا۔"
"یہ کیا قصہ ہے؟" بیگم نادر نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا "سر سلطان وہی نا۔۔۔ جو کرنل کے آفیسر ہیں۔"
"جی ہاں وہی۔۔۔ اتفاق سے وہ بھی اس عورت سے جاپانی سیکھتے تھے۔"
بیگم نادر نے حیرت سے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا۔
عمران کو کمرے کی تلاشی لینے کی اجازت مل گئی تھی! اس نے ذرا سی دیر میں پورا کمرہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ جولیا اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ وہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ عمران کیا کر رہا ہے۔
اس کا خیال تھا کہ سر سلطان والی خبر عمران کے لئے بڑی سنسنی خیز ثابت ہوگی اور شاید وہ بوکھلاہٹ میں جوتے اتار کر سول ہسپتال کی سمت دوڑنا شروع کر دے گا۔
کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ عمران ایک بڑی سی کنجی ہاتھ میں لئے اسے اس طرح گھو ررہا تھا جیسے اس پر ایک گندی سی گالی تحریر ہو۔
عمران جولیا کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
اور کنجی جیب میں ڈال لی۔ پھر وہ فون کی طرف بڑھا۔ کسی کے نمبر ڈائیل کئے۔ اور جب گفتگو شروع ہوئی تو جولیا کو معلوم ہوا کہ وہ اسٹیٹ بینک کے ایک آفیسر سے ہمکلام ہے۔
جب وہ ریسیور رکھ کر جولیا کی طرف مڑا تو اس نے اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ انداز کی مسکراہٹ دیکھی۔
"کاغذات اسٹیٹ بنک کی سیف کسٹڈی میں ہیں"۔۔۔ اس نے آہستہ سے کہا۔
"اوہ۔۔۔ تو کیا وہ کنجی۔۔۔!"
"وہ کنجی اسی سیف کی ہے جس میں کاغذات رکھے ہوئے ہیں۔" عمران نے کہا۔ "کسی اور نے بھی تیرہ نمبر کی تجوری کے متعلق ابھی ابھی بنک سے گفتگو کی تھی اور اس نے خود کو محکمہ سراغرسانی کا ایک آفیسر ظاہر کیا تھا۔ لیکن بھلا محکمہ سراغرسانی کو ان کاغذات کے متعلق کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔۔۔ کیوں کیا خیال ہے۔"
"اوہ۔۔۔ تو پھر یہ سمجھا جائے کہ کرنل نادر الفانسے کی قید میں ہیں اور کاغذات کے متعلق بتا چکے ہیں۔"
"اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو یقین رکھو کہ سر سلطان بھی آسانی سے ہوش میں نہیں آئیں گے۔ کیونکہ وہ کاغذات کے متعلق اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا کرنل نادر کوہے اور! آج رات کوئی نہ کوئی اس کنجی کو حاصل کرنے کے لئے عمارت میں ضرور گھسے گا۔"
"کیا تم نے اس کنجی کے لئے تلاشی لی تھی۔"
"نہیں! میں کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھا جس سے اس عورت پر روشنی پڑ سکے۔ کنجی تو اتفاقاً ہاتھ آگئی، اور اپنی محنت برباد نہیں ہوئی۔"
"اور اس عورت کے متعلق کیا معلوم ہوا۔؟"
"کچھ بھی نہیں! ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی، جس سے اس کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا۔"
"اب کیا ارادہ ہے؟"
"ایک بکری کا بچہ پال کر اسے جوان کرنے کی کوشش کروں گا!" عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
"وہ کنجی میرے حوالے کر دو۔"
"تمہارے فرشتے بھی مجھ سے نہیں لے سکتے۔"
"تب تم اس عمارت سے بھی نہیں نکل سکو گے۔۔۔ میں کرنل کے گھر والوں سے کہہ دوں گی کہ محکمہ سراغرسانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔"
"کہہ کر دیکھو۔۔۔ پھر دیکھنا تمہارا کیا حشر ہوتا ہے۔۔۔ ٹھیک اسی وقت میں کرنل کی بیوی کو یہ اطلاع دوں گاکہ جاپانی سکھانے والی عورت یہی ہے۔"
"وہ کیا بگاڑ لے گی میرا۔"
"بس دیکھ لینا جاؤ کہدو۔۔۔ اس سے میری طرف سے پوری اجازت ہے!"
"بیکار بات نہ بڑھاؤ۔۔۔ کنجی تم نہیں لے جا سکے۔"
"ہو سکتا ہے کہ دیر ہو جانے پر سر سلطان کبھی ہوش میں نہ آ سکیں۔" عمران نے خشک لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ جولیا بھی اس کے پیچھے تیزی سے قدم اٹھا رہی تھی۔ لیکن عمران اس سے پہلے ہی اپنی کار تک پہنچ گیا۔
 
سرسلطان کو نو بجے رات تک ہوش نہیں آیا تھا۔ پھر عمران سول ہسپتال سے چلا آیا۔ ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ ان کے جسم میں کوئی گہری خواب آور دوا پہنچائی گئی ہے۔ جس کا اثر جلد زائل ہوتا نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن خود ان کے علم میں کوئی ایسی خواب آور دوا نہیں تھی جس کا اثر اتنا دیرپا ثابت ہو سکتا ہو۔
عمران سول ہسپتال سے کرنل نادر کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا اسے یقین تھا کہ آج رات اس کے بنگلے میں گھسنے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جولیا اور اس کے ساتھی یقینی طور پر بنگلے کی نگرانی کر رہے ہوں گے۔ کیونکہ اس نے جولیا پر اپنا یہ خیال ظاہر کر دیا تھا کہ آج رات کرنل نادر کے بنگلے پر کاغذات کے خواہاں ریڈ بھی کر سکتےی ہں۔
اس نے اپنی ٹو سیٹر بنگلے سے کافی فاصلے پر چھوڑ دی تھی اور خود پیدل چلتا ہوا کرنل نادر کی خواب گاہ کے دروازے پر پہنچا جو میدان کی طرف تھا۔ میدان تاریکی اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔
عمران خود رو جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ ممکن ہے اس کا یہ اقدام احمقانہ ہو۔ 
وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے ماتحت آج یہاں موجود نہیں معلوم ہوتے حالانکہ جولیا کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرے گی۔ عمران جھاڑیوں میں بیٹھا رہا۔ اس کے خیال میں جولیا اتنی گدھی نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک وقوعے کا امکان ہوتے ہوئے بھی وہ اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتی۔
وقت گزرتا رہا۔ تقریباً دس بجے عمران کو کچھ آہٹیں سنائی دیں اور وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنے لگا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسے نہایت احتیاط سے پیچھے کھسک جانا پڑا کیونکہ چار آدمی سینے کے بلیک زیرو زمین پر رینگتے ہوئے جھاڑیوں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا رخ جھاڑیوں کی طرف ہو گیا۔ اور وہ اندر گھستے چلے آئے۔ عمران نے سانس روکی اور ایک طرف سمٹتا چلا گیا۔
چاروں جھاڑیوں میں داخل ہو چکے تھے۔ عمران ان کی سرگوشیاں سنتا رہا اس نے تھوڑی ہی دیر میں انہیں پہچان لیا۔ وہ اس کے ماتحت ہی تھے کیپٹن جعفری کیپٹن خاور۔۔۔ سارجنٹ ناشاد۔۔۔ اور لیفٹینٹ چوہان!
پھر اس کی ریڈیم ڈائیل کی گھڑی نے گیارہ بجائے اور وہ آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا جھاڑیوں کے سرے پر پہنچنے کی کوشش کرنے لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ کرنل نادر کی خواب گاہ کے عقبی دروازے سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اب وہ اطمینان سے بیٹھ گیا۔ وہ اپنے ماتحتوں سے تقریباً بیس گز کے فاصلے پر تھا۔
دفعتاً بنگلے کی کمپاؤنڈ سے شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔ عمران چونکا۔۔۔ لیکن پھر جہاں تھا وہیں رک گیا۔ اس کے ماتحت جھاڑیوں سے نکل کر کمپاؤنڈ کی طرف جا رہے تھے۔ شور بڑھتا ہی رہا۔ لیکن میدان ویران پڑا تھا۔ شاید عمارت کے کسی حصے میں آگ لگ گئی تھی۔ شور و غل سے یہی معلوم ہو رہا تھا۔ عمران کے ذہن نے اسے فوراً ہی معنی پہنا دیئے اور وہ وہیں بیٹھا رہا۔
دفعتاً اسے خواب گاہ کے عقبی دروازے پر ایک سایہ نظر آیا۔ پھر وہ متحرک نظر آنے لگا تاروں کی چھاؤں میں وہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ دروازے پر تھوڑی دیر کے لئے جھکا رہا پھر ایسا معلوم ہوا کہ جیسے دیوار اسے نگل گئی ہو۔۔۔ غالباً وہ درازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا کمپاؤنڈ سے شور و غل کی آوازیں برابر چلی آ رہی تھی۔
عمران تھوڑے سے توقف کے ساتھ اٹھا اور سینے کے بلیک زیرو رینگتا ہوا دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ بہت آہستگی سے اٹھا، اور دیوار سے چپک کرکھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد دروازہ پھر کھلا اور ایک آدمی باہر نکلا ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے عمران اس پر سوار تھا۔ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ اس کی گردن پر عمران کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور پھر وہ کسی وزنی تھیلے کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
کچھ دیر بعد عمران کی ٹو سیٹر دانش منزل کی طرف جا رہی تھی۔ اور اس کی اسٹپنی میں ایک بیہوش آدمی بند تھا۔اسے ٹو سیٹر تک لے جانے میں عمران کو بڑی محنت کرنی پڑی تھی۔ اس کے لئے اسے آگ بجھانے والوں کی بھیڑ سے کترا کر نکلنا پڑا تھا۔
اب وہ سوچ رہا تھا کہ یہ تدبیر بہت اچھی تھی۔ عمارت کے اگلے حصے میں ایسی جگہ آگ لگا کر جس کا اثر دور تک نہ ہو سکے لوگوں کو الجھا لیا گیا تھا۔ اس طرح اس آدمی کے کام میں خلل پڑنے کے امکانا ت ختم ہو گئے تھے جو خواب گاہ کا عقبی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔
عمران یہ دیکھنے کے لئے نہیں رکا تھا کہ آگ کسی حصے میں لگی تھی۔ لیکن اسے یقین تھا کہ اس کے لئے ان لوگوں نے نوکروں کے کوارٹروں ہی کو منتخب کی ہوگا جو اصل عمارت سے کافی فاصلے پر تھے۔
کچھ دیر بعد ٹو سیٹر دانش منزل کی تاریک کمپاؤنٹ میں داخل ہوئی۔ سیکرٹ سروس والوں میں اس عمارت کو ایکس ٹو کا ہیڈ کوارٹر سمجھا جاتا تھا۔۔۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ایکس ٹو کی اجازت حاصل کئے بغیر اس کی کمپاؤنڈ میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ 
عمران بیہوش آدمی کو کمر پر لادے ہوئے عمارت میں داخل ہوا۔ اور جب وہ کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تو روشنی میں شکار پر نظر پڑتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ یہ تھریسیا کا آدمی سیسرو تھا۔ وہی اندھا جس نے ایک بار اسے بہت زچ کیا تھا۔ عمران نے اسے ایک کرسی پر ڈال دیا۔ اور خود بھی ایک کرسی کے ہتھے پر ٹک کر چیونگم کا پیکٹ پھاڑنے لگا اس کے ہونٹوں پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔ کچھ دیر بعد سیسرو کو ہوش آگیا۔ اور وہ اس طرح کرسی سے اچھلا جیسے کسی نے اس پر حملہ کر دیا ہو۔ لیکن عمران پر نظر پڑتے ہی اس کا منہ کھل گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مشین چلتے چلتے رک گئی ہو۔
"تم۔۔۔ تم۔۔۔" عمران ہکلایا "تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟"
سیسرو خاموش کھڑا پلکیں چھپکاتا رہا۔ غالباً بری طرح بوکھلا گیا تھا۔
"کفنیوشس نے کہا تھا۔" عمران اسے آنکھ مار کر مسکرایا اور تھوڑے سے توقف کے ساتھ کہا۔ "مگر کنفیوشس نے غلط کہا تھا۔ اس کے برعکس مدھو بالا نے ٹھیک کہا ہے کہ لکس ٹائلٹ صابن کی ٹکیا چبانے سے فلم اسٹاروں کی رنگت نکھر آتی ہے۔"
دفعتاً سیسرو نے عمران پر چھلانگ لگائی لیکن نہایت اطمینان سے سامنے والی دیوار سے جا ٹکرایا۔
"ارے خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔!" عمران اس کی طرف مڑ کر بولا۔ "تمہاری رنگت تو نہ نکھرے گی خواہ تم سوڈا کاسٹک کی پوری بالٹی چڑھا جاؤ۔
تقریباً پندرہ منٹ تک یہ اچھل کود جاری رہی لیکن سیسرو عمران کو ہاتھ نہ لگا سکا۔ آخر وہ تھک کر رک گیا اور کسی گدھے کی طرح ہانپنے لگا۔
"کنفیوشس ۔۔۔ " عمران نے کچھ کہنا چاہا۔
"شٹ اپ۔۔۔" سیسرو حلق پھاڑ کر دہاڑا۔
"آہستہ۔۔۔ ذرا آہستہ۔" عمران نے مسمسی صورت بنا کر کہا۔۔۔ "میں کمزور دل کا آدمی ہوں۔ میرا ہارٹ فیل بھی ہو سکتا ہے۔"
"تم کسی۔۔۔ حقیر۔۔۔ کیڑے کی طرح فنا کر دیئے جاؤ گے۔۔۔" سیسرو ہانپتا ہوا بولا۔
"نہیں دوست ایسا نہ کرنا۔۔۔" عمران گھگھیایا۔ "لو یہ کنجی حاضر ہے۔ مجھے معاف کر دو۔" عمران نے جیب سے تجوری کی کنجی نکال کر اسے دکھائی۔
سیسرو پھر جھپٹا۔۔۔ شاید وہ اسی چکر میں تھا کہ عمران اس بار بھی جھکائی دے کر الگ ہٹ جانے کی کوشش کرے گا۔۔۔ اسی لئے اس نے اپنے ذہن کو کافی چاک و چوبند کرکے حملہ کیا تھا۔
لیکن وہ عمران تھا۔ اس سے سرزد ہونے والا ہر فعل اس کے حریفوں کمے لئے عموماً غیر متوقع ہی ثابت ہوا کرتا تھا۔ سیسرو بھی دھوکہ کھا گیا۔ نہ صرف دھوکہ بلکہ چوٹ بھی۔ عمران نے اچھل کر دونوں پیر اس کے سینے میں مارے تھے۔
سیسرو کے حلق سے ایک طویل کراہ نکلی اور وہ بڑی میز سے پھسلتا ہوا دوسری طرف جا گرا۔۔۔ اس بار اس کا پھرتیلا پن جواب دے گیا تھا۔ وہ فوراً ہی نہ اٹھ سکا۔
"معاف کرنا پیارے!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "اس بار میں نے گدھوں کی سی حرکت کی۔۔۔ اپنا دل میری طرف سے صاف کر ڈالو۔ آئندہ ایسا نہ ہوگا۔"
"میں تجھے مار ڈالوں گا۔" سیسرو دونوں مٹھیاں بھینچ کر چیخا۔
"کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔"
سیسرو نے کنفیوشس کو ایک گندی سی گالی دی اور پھر جھپٹا۔۔۔ عمران نے جھک کر اس کے پیٹ پر ٹکر ماری۔۔۔ مگر اس بار وہ خود بھی نہ سنبھل سکا اور دونوں نیچے اوپر فرش پر ڈھیر ہو گئے۔
عمران نے گرتے گرتے اپنی کہنیاں اس کے سینے پر ٹکا دی تھیں۔ اس لئے سیسرو کی گرفت سے نکل آنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی ورنہ سیسرو نے اس کی گردن اپنے بازؤں میں جکڑ لینے کی کوشش کی تھی۔
یہ ٹکر آخری ثابت ہوئی اور اس نے سیسرو کے کس بل نکال دیئے۔
وہ اٹھا لیکن کھڑا نہیں ہوا۔ میز کے پائے سے ٹک کر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں!
"اب بتاؤ پیارے سیسرو کہ محکمہ خارجہ کا ڈپٹی سیکرٹری کرنل نادر کہاں ہے؟" عمران نے مضحکہ اڑانے کے سے انداز میں پوچھا۔
سیسرو نے آنکھیں کھول دی جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ وہ اس وقت کسی درندے سے مشابہ معلوم ہو رہا تھا۔
"تم۔۔۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ "تمہارے فرشتے بھی مجھ سے معلوم نہیں کر سکتے۔"
"میرے فرشتے تو اس وقت پنگ پانگ کھیل رہے ہوں گے۔۔۔ میں ہی معلوم کروں گا۔"
"کوشش کرو!" سیسرو غرایا۔
"کوشش بہت بڑی چیز ہے تم کوشش کے بغیر ہی بتا دو گے!" عمران نے لاپرواہی سے کہا۔ پھر ہلکے سے قہقہے کے ساتھ بولا۔ "وہاں آگ لگانے والی اسکیم تو بڑی شاندار تھی مگر تم لوگ ہمیشہ یہ بھول جاتے ہو کہ مقابلہ عمران جیسے بیوقوف سے ہے۔"
"تمہاری موت قریب آ گئی ہے۔ الفانسے تمہیں بڑی بیدردی سے مار ڈالے گا۔" سیسرو نے کہا۔
"تم الفانسے سے کم تو نہیںں ہو۔"
"میں الفانسے کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں۔"
"تب تو مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک کمتر آدمی پر ہاتھ اٹھایا۔" عمران نے مغموم لہجے میں کہا!"اچاھ سیسرو اب میں تمہارے لئے ہاتھ کبھی نہ استعمال کروں گا۔ چلو بتاؤ کرنل نادر کہاں ہیں۔"
"میں کسی کرنل نادر کو نہیں جانتا۔"
"تب پھر کیا تم مرغیاں چرانے کے لئے اس گھر میں گھسے تھے۔"
"میں کسی کے گھر میں نہیں گھسا تھا۔ تم جھوٹے ہو۔"
"اچھی بات ہے۔ یہ کمرہ تمہاری قبر بنے گا۔" عمران نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 
سیسرو اس کی طرف جھپٹا اور دوسرے ہی لمحے اس کے پیٹ پر عمران کی لات پڑی۔ وہ پیٹ دبائے ہوئے دہرا ہو گیا۔
"میں وعدہ کر چکا ہوں پیارے سیسرو کہ تمہارے لئے ہاتھ نہیں استعمال کروں گا۔ کمتر آدمیوں سے میں اسی طرح نپٹتا ہوں۔" عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل آیا خود کار دروازہ بند ہو کر مقفل ہو گیا۔
اب وہ ایک ایسے کمرے میں آیا۔ جہاں ایک بڑی میز پر تین فون رکھتے ہوئے تھے۔ اس نے ایک پر جولیانا فٹز واٹر کے نمبر ڈائیل کئے۔
"یس سر۔۔۔ " دوسری طرف سے جولیا کی کپکپاتی ہوئی سی آواز آئی۔
"میرے سارے ماتحت گدھے ہیں۔"
"زبردست غلطی ہوئی جناب!"
"مگر ہوئی کیوں۔ کیا ان کی مدد کے بغیر آگ نہ بجھتی؟"
"میں نہیں کہہ سکتی کہ ان سے یہ حماقت کیسے سر زد ہوئی۔ میں تو آپ کے احکامات کے انتظار میں گھر پر ہی رک گئی تھی۔"
"خیر۔۔۔ دانش منزل کے ساؤنڈ پروف کمرے میں الفانسے کا نائب سیسرو بند ہے اس سے معلوم کرو کہ کرنل نادر کہاں ہے؟"
"سیسرو۱"جولیا نے حیرت سے دہرایا۔
"ہاں! اور دوسرا کام۔۔۔ تمہیں عمران سے اسٹیٹ بنک کے سیف کی کنجی حاصل کرنا ہے۔"
"دوسرا کام بہت مشکل ہے جناب!"
"کیوں؟"
"ہم بس ایک اسی سے نہیں نپٹ سکتے!"
"تم سب نالائق ہو۔۔۔ا چھا خیر میں دیکھوں گا۔"
"مگر سیسرو! آپ کو کہاں سے ملا؟"
"کرنل کی خواب گاہ پر۔۔۔ اگر میں سب کچھ تم لوگوں پر چھوڑ دوں تو نہ میری چیف آفیسری قائم رہ سکتی ہے اور نہ تم لوگوں کی ملازمتیں۔۔۔" عمران نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔!
سیسرو نے اپنے گرد کھڑے ہوئے نقاب پوشوں کو خونخوار نظروں سے دیکھا لیکن چپ چاپ بیٹھا رہا۔
"سیدھے کھڑے ہو جاؤ!" ایک نے اس سے کہا۔
لیکن سیسرو نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ نتیجے کے طور پر اسے ایک مغز ہلا دینے والا تھپڑ برداشت کرنا پڑا۔۔۔ لفظ "برداشت" مناسب نہیں ہے کیونکہ تھپڑ کھاتے ہی سیسرو کسی بھوکے بھیڑیئے کی طرح بپھر گیا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسےوہ اسی وقت موت اور زندگی کا فیصلہ کر دے گا۔
ایکس ٹو کے چاروں ماتحت شاید اس خیال میں تھے کہ وہ اسے ایک خارش زدہ چوہے سے بھی کمتر پائیں گے۔ لہٰذا اس کا یہ حملہ ان کے لئے غیر متوقع بھی تھا۔ جتنی دیر میں وہ سنبھلتے سیسرو دروازہ تک پہنچ چکا تھا۔
پھر اس نے ان چاروں پر ایک کرسی کھینچ ماری۔۔۔ شاید وہ پہلے ہی عمران کو دروازہ کھولتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ اس لئے اس خود کار دروازے کو کھولنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہ آئی۔
دوسرے ہی لمحے میں وہ باہر تھا۔ چاروں اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ وہ کمپاؤنڈ میں پہنچ گیا۔ اور اب اسے پا لینا یقیناً مشکل تھا کیونکہ کمپاؤنڈ کافی کشادہ تھی اور اس میں جگہ جگہ مختلف قسم کی گھنی بیلیں اور جھاڑیاں تھیں اور پھر اندھیرا تو تھا ہی۔۔۔ ایکس ٹو کے ماتحتوں کی بوکھلاہٹ قابل دید تھی۔ وہ اندھیرے میں ادھر ادھر سر مارتے رھے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ پھاٹک پر پہنچ جاتا۔ کمپاؤنڈ کی دیواریں کافی اونچی تھیں لہٰذا انہیں سوچنا چاہیئے تھا کہ فرار کے لئے وہ پھاٹک ہی کو ترجیح دے گا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک سر مارتے رہنے کے باوجود بھی وہ اسے نہ پا سکے۔
"اب کیا ہوگا جعفری صاحب!" سارجنٹ ناشاد نے ہانپتے ہوئے کہا۔
"ہوگا کیا۔۔۔ سب تمہاری ہی بدولت ہوا تم نے اسے تھپڑ کیوں مارا تھا۔"
"اسے سبحان اللہ تو ایک میں اسے سجدہ کرتا۔" ناشاد بگڑ گیا۔
"دراصل ہمیں مغالطہ ہوا تھا۔" لیفٹینٹ چوہان نے کہا۔
"پھر کیا کیا جائے؟" کیپٹن خاور نے کہا۔
"کھا جائے وہ۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑے گا۔" جعفری بولا۔
"کوئی بہانہ سوچو۔" ناشاد بڑبڑایا۔
"بہانہ!" خاور نے غصیلی آواز میں کہا۔ "بہانہ سوچ کر کیا کرو گے۔ تم ہی نے کام بگاڑا ہے۔"
"خدا کی پناہ! تم لوگ تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہو۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ مارے بغیر وہ کیسے بتاتا۔ ویسے اگر اسے مٹھائیاں پیش کرنے کا ارادہ تھا تو مجھے پہلے ہی بتا دیا ہوتا۔"
"اور دوسری غلطی سب سے ہوئی ہے۔" لیفٹینٹ چوہان بولا۔ "ہم میں سے کسی نہ کسی کو پھاٹک پر ضرور رہناق چاہئے تھا۔"
"وہ سب کچھ ہوا مگر اب کیا ہوگا۔۔۔" کیپٹن جعفری بڑبڑایا۔
"سنو یارو!" سارجنٹ ناشاد نے ہانک لگائی۔ "اب دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو ہم اس ملازمت سے سبکدوش کر دیئے جائیں گے یا نہ کئے جائیں گے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ اس وقت کسی اچھے سے بار میں بیٹھ کر غم غلط کیا جائے۔۔۔ کیا سمجھے!"
"تم ضرور غم غلط کرو۔۔۔" خاور نے غصیلی آواز میں کہا۔ "ہمارا بیڑہ تو غرق کر ہی چکے۔"
"یار تم سب بڑے ڈرپوک ہو۔" ناشاد نے برا سا منہ بنایا۔ "میں تو چلا۔۔۔ تم لوگ یہیں کھڑے رات بھر جھک مارتے رہو۔۔۔ ٹاٹا۔" ناشاد نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کمپاؤنڈ سے نکل گیا۔
عمران نے جب یہ سنا تو سر پیٹ لیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ان چاروں کی بوٹیاں اڑا دے۔ ابھی ابھی اسے جولیانا فٹز واٹر نے فون پر اس واقعہ کی اطلاع دی تھی اور ریسیور عمران کے ہاتھ ہی میں تھا۔
"تم خود وہاں کیوں نہیں موجود تھیں۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "اور پھر جب یہ چاروں گدھے کچھ ہی دیر پہلے ایک بڑی حماقت کر ہی چکے تھے تم نے انہیں بھیجا ہی کیوں؟ سیسرو معمولی آدمیوں میں سے نہیں ہے۔ وہ کوئی گھٹیا قسم کا چور یا اچکا نہیں ہےکہ تشدد کے ذریعے اس سے کچھ معلوم کیا جا سکے۔ اچھا اب تم جہنم میں جاؤ۔۔۔ ایکس ٹو تنہا یہ کام سرانجام دے گا۔"
"آپ سنیئے تو سہی!"
"شپ اپ۔۔۔" عمران غرایا۔۔۔ اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔
اب وہ پھر اندھیرے میں تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ سیسرو کے ذریعے نہ صرف کرنل نادر کا سراغ مل سکے گا بلکہ اس طرح تھریسیا اور الفانسے تک بھی اس کی رسائی ممکن تھی مگر اب۔۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ناکارہ پن پر دانت پیس رہا تھا۔
"سزا" وہ بڑبڑایا۔ "انہیں اس کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔"
اس نے فون پر سارجنٹ ناشاد کے نمبر ڈائیل کئے۔
"یغ۔۔۔ یغ۔۔۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "کاؤن بولتا پڑا ہے۔۔۔ سالا۔۔۔"
"اوہ۔۔۔ تو تم نے پی رکھی ہے" عمران دانت پیس کر بولا۔
"ہاں ۔۔۔ ہاں۔۔۔ پی رکھی ہے۔۔۔ پھر سالا تم کون ہے۔"
"ایکس ٹو۔۔۔" 
"ہوئیں گا سالا۔۔۔ ہمارے ٹھینگے سے۔۔۔ مغز مت کھاؤ۔"
"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔" عمران سر ہلا کر بولا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
اب اس نے خاور کے نمبر ڈائیل کئے۔ لیکن جواب نہیں ملا۔ شاید وہ گھر پر نہیں تھا۔ جعفری اور چوہان بھی نہیں ملے۔ آخر عمران خود ہی اس مہم پر روانہ ہو گیا۔ اسے کم از کم ناشاد کو تو سزا دینی ہی تھی۔
0
پھر وہ تقریباً چار بجے گھر واپس آیا۔ اس نے ناشاد کے ساتھ جو کچھ بھی برتاؤ کیا تھا اس پر مطمئن تھا۔ اس نے دروازہ بند کیا اور پھر کپڑے اتارنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
"اب کون مرا۔ " اس نے بڑبڑاتے ہوئے فون اٹھایا۔
"ہیلو۔"!
"کون۔۔۔ عمران!" دوسری طرف سے کوئی عورت بول رہی تھی لیکن عمران آواز نہیں پہچان سکا۔
"ہاں۔۔۔ عمران۔۔۔ آپ کون ہیں۔۔۔"
"ٹی تھری بی!"
"ہامپ۔۔۔ ہالو۔۔۔ یس۔۔۔ ہاؤ ڈی ای ڈو؟"
"اوکے۔۔۔ ڈارلنگ۔۔۔ تم نے سیسرو کو پکڑا تھا؟"
"اگر وہ مچھروں کی نسل سے ہے تو یقیناً پکڑا گیا ہوگا کیونکہ میں نو بجے سے فلٹ کی پچکاری لئے بیٹھا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اگر مچھر نہ ہوں تو عشاق بھی گہری نیند سو سکتے ہیں۔"
"احمقوں کے چچا تم بہت جلد غرق ہونے والے ہو۔"
"بھتیجوں کو فائدہ پہنچے گا۔۔۔ کیونکہ کروڑوں کا بینک بیلنس چھوڑنے کا ارادہ ہے۔"
"آجکل تم سے سوزی نام کی ایک لڑکی مل رہی ہے اس سے ہوشیار رہو!"
"کرنل نادر کہاں ہے ڈارلنگ؟" عمران نے بڑے پیار سے پوچھا۔
"یہ نہیں بتا سکتی۔ کیونکہ وہ پارٹی کے مفاد کا معاملہ ہے۔"
"تو پھر مجھ پر اتنا کرم کیوں ہے؟"
"تمہاری موت سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ اس لئے میں اسے فضول سمجھتی ہوں۔"
"ہائیں! تم مجھے فضول سمجھتی ہو!"
"تمہیں نہیں، تمہاری موت کو۔۔۔ لیکن اگر تمہارا بس چلے تو میرے ہتھکڑیاں لگا دو۔"
"ہرگز نہیں سوئیٹی تم کیسی باتیں کر رہی ہو۔ میں تو تم پر جان پٹختا ہوں مگر پٹخنا نہیں لاحول ولا۔۔۔ چھڑکنا میں تم پر جان چھڑکتا ہوں۔۔۔ کرنل نادرکہاں ہے؟"
"تم مکار ہو عمران۔۔۔ تمہاری کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ تم اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر سکتے ہو۔۔۔ تم میں۔۔۔ جمالیاتی حس نہیں ہے۔"
"میں بذات خود جمالیاتی ہوں۔۔۔ کیونکہ میرے دادا کا نام جمال احمد جمالی تھا۔"
"بس مجھے اتنا ہی کہا تھا کہ سوزی سے ہوشیار رہنا"۔۔۔ تھریسیا کی آواز میں بیزاری تھی۔ اور پھر دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
0
سارجنٹ ناشاد اتنی زیادہ پی گیا تھا کہ اس کے حواس جواب دے گئے تھے۔ ایکس ٹو کو فون پر اوٹ پٹانگ سنانے کے بعد وہ زیادہ مسرور نظر آنے لگا تھا پھر اس نے تھوڑی سی اور چڑھائی۔ کچھ دیر حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنی کوئی غزل رینکتا رہا پھر سو گیا۔۔۔
پتہ نہیں کب تک شراب اس کے ذہن پر حاوی رہی۔ لیکن جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے نیچے کھڑکھڑاہٹ کی آوازیں سنیں۔ پھر اس نے پیر پھیلانے چاہے لیکن ممکن نہ ہوا۔۔۔ ہاتھ پھیلانے چاہے لیکن یہ بھی دشوار ثابت ہوا اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی چھوٹے سے صندوق میں بند ہو۔ لیکن اس نے کنکھیوں سے اوپر دیکھا۔ سر پر تاروں بھرا آسمان تھا۔ وہ کنکھیوں ہی سے دیکھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بائیں کروٹ پر پڑا ہوا تھا۔۔۔ اور سیدھا ہونا محال۔۔۔ جنبش ہی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر بھی وہ خود کو متحرک محسوس کررہا تھا کیونکہ وہ بغیر ڈھکن کا وہ چھوٹا سا صندوق دوڑ رہا تھا۔
دفعتاً سارجنٹ ناشاد کے حلق سے بے اختیارانہ انداز میں چیخیں نکلنے لگیں اور متحرک صندوق رک گیا لیکن ناشاد برابر چیختار ہا۔
یکایک کسی نے صندوق میں ٹھوکر مار کر کہا۔ "کاہے چلات ہے رے۔۔۔ گھٹکی دبائےدینوں۔۔۔(کیوں چیخ رہا ہے گردن دبا دوں گا)"
"شٹ اپ ڈرٹی سوائین!" ناشاد دہاڑا۔ "ابے تو ہے کون؟"
"انگریزی ونگریجی نہ چلی سرو۔۔۔ چپے پڑے رہیو!" (چپکے پڑے رہنا انگریزی ونگریزی نہیں چلے گی) اور صندوق پھر حرکت میں آ گیا۔
ناشاد سوچنے لگا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔۔ ۔ وہ پھر کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اٹھ کر بیٹھ جائے۔ لیکن پھر اسے مایوسی ہوئی۔ وہ کچھ اس انداز میں صندوق میں پھنسا ہوا تھا کہ نہ تو وہ ہل سکتا تھا اور نہ ہلنے کی کوشش کر سکتا تھا۔۔۔ صندوق دوڑ رہا تھا اور ناشاد کا ذہن ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ نشے سے پہلے کے واقعات بہت تیزی سے اسے یاد آ رہے تھے۔ پہلی شکست۔۔۔۔ دوسری شکست۔۔۔ اور پھر شراب نوشی۔۔۔ اس نے جعفری وغیرہ کے سامنے ایکس ٹو کو برا بھلا کہا تھا اور پھر دفعتاً ذہن کے دھندلکوں سے کچھ سوئی سوئی سی یاداشت ابھری۔۔۔ ایکس ٹو کا فون بھی تو آیا تھا۔۔۔ شاید۔۔۔ لیکن اس نے نشے کی ترنگ میں اس کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی۔ ناشاد کانپ گیا۔ اور ایک بار پھر اسے محسوس ہونے لگا جیسے اس پر غشی طاری ہو رہی ہو۔!
دفعتاً قریب ہی کوئی چیخنے لگا۔ "اللہ کے نام پر بابا۔۔۔ اندھے گونگے، بہرے لاچار کیلئے۔"
صندوق رک گیا۔ ناشاد نے محسوس کیا کہ اجالا پھیل گیا ہے پرندوں کی ننداسی آنکھیں اس کے کانوں سے ٹکراتی رہیں۔
"بابا۔۔۔ نور کے تڑکے۔۔۔ اللہ کے نام پر جگ جگ جئیو۔۔۔ بچے آباد رہیں۔۔۔ اندھے گونگے، بہرے لاچار کے لئے۔"
"او میاں ۔۔۔ فقیر۔۔۔" ناشاد نے ہانک لگائی۔ "ذرا مجھے نکالنا تو۔۔۔ انعام دوں گا۔۔۔ منہ مانگا۔۔۔" اسے اپنی آواز سے اجنبیت سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس میں بہت زیادہ گھبراہٹ تھی۔ غالباً یہ بے تحاشہ پینے کا اثر تھا۔
"اے حرام کے جنے آج کیا ہو گیا ہے تجھے؟" کسی نے صندوق کو ٹھوکر مار کر کہا۔ "جوتے کھلوائے گا۔؟"
"شٹ اپ یو باسٹرڈ۔۔۔ سن آف اے بچ" ناشاد دانت پیس کر غرایا۔"مجھے اس صندوق سے نکال ورنہ بلاتا ہوں پولیس کو!"
دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ کوئی اس پر جھکا ہوا ہے۔ اور پھر اس نے کسی کو کہتے سنا۔
"ابے تو کون ہے؟۔۔۔ میرا بابا کہاں ہے؟"
"جہنم میں۔۔۔ اور تجھے بھی جہنم میں پہنچا دوں گا۔ ورنہ نکال مجھے۔" ناشاد نے کہا اور چند لمحوں کے بعد اس نے ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ سنی اور اس کے پیر خود بخود پھیلتے چلے گئے۔ شاید اس طرف کا تختہ نیچے گرایا گیا تھا۔ ناشاد نیچے کھسکا اور اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے سامنے ایک خستہ حال نوجوان فقیر کھڑا تھا اور ناشاد بھی کوئی بھک منگا ہی معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے جسم پر ایک ایسا کوٹ تھا، جس کے چیتھڑے جھول رہے تھے اور نیکر کی ساخت بھی یہی کہتی تھی کہ وہ کبھی پتلون رہی ہوگی۔
"تو کون ہے؟" ناشاد نے اسے للکارا۔
"جگو کا بیٹا مداری۔۔۔ تو نے میرے بابا کا کیا بنایا۔۔۔ اس کے پکڑے تو نے کیوں پہنے ہیں؟"
"یو انفرنل بیسٹ!" ناشاد دانت پیس کر رہ گیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ اس کا ذہن تو اس فکر میں الجھا ہوا تھا کہ اگر کسی شناسا نے اس حال میں دیکھ لیا تو کیا سمجھے گا۔ 
"بول کہاں ہے میرا بابا!" فقیر اس پر جھپٹ پڑا۔ ناشاد شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا اس کے لئے سنبھلنا دشوار ہو گیاپھر بھی اس نے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی اور اس کے گھٹنے زمین سے جا لگے تھے۔ فقیر اس پر چھا گیا تھا۔ ناشاد اٹھنے کے لئے زور لگانے لگا تھا لیکن فقیر خاصا طاقتور ثابت ہوا۔ اچھی طرح اجالا پھیل گیا تھاسڑک پر آمد و رفت شروع ہو گئی تھی کچھ لوگ بیچ بچاؤ کرانے کے لئے دوڑ پڑے لیکن اتنی ہی دیر میں ناشاد کا چہرہ داغدار ہو چکا تھا فقیر کے بڑے ہوئے ناخنوں نے خاصے نقش و نگار بنائے تھے۔ اچانک اسی دوران ناشاد کی نظر بائیں جانب والی عمارت کی طرف اٹھی گئی اور وہ سناٹے میں آ گیا پھر اسے اس کا بھی ہوش نہیں رہا کہ وہ پٹ رہا ہے بس ایک بار اس نے چھلانگ لگائی اور مجمع سے باہر تھا۔ پھر وہ اپنی پوری قوت سے ایک سمت دوڑنے لگا۔
اسے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ کیسے اپنے گھر تک پہنچا۔ نہ اسے گھورتی ہوئی نظروں کا ہوش تھا اور نہ پڑوسیوں کےا ستعجاب زدہ چہروں کا۔! البتہ ایک آواز اس کے کانوں میں برابر گونجتی رہی تھی۔
"میرا بابا۔۔۔ میر ابابا؟" اور دروازہ بند کر لینے کے بعد بھی اسے یہ آواز سنائی دیتی رہی۔ فقیر جو اس کے پیچھے دوڑتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا۔ دروازہ پیٹ پیٹ کر چیخ رہا تھا۔
"صاحب! آپ کے گھر میں چور گھسا ہے۔۔۔ ڈاکو گھسا ہے قاتل گھسا ہے۔۔۔!" 
لیکن ناشاد اب اس حال میں دوبارہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ سیدھا اپنی خواب گاہ میں چلا گیا تاکہ جلد سے جلد کم از کم سلیپنگ سوٹ ہی ڈال لے۔ لیکن اسے دروازے پر ہی ٹھٹھک جانا پڑا۔ کیونکہ ایک میلا کچیلا بوڑھا اس کا سلیپنگ سوٹ پہنے ہوئے مسہری پر خراٹے لے رہا تھا۔ 
ناشاد آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور پھر یک لخت اس پر ٹوٹ پڑا۔
"ارے باپ رے۔۔۔؟" بوڑھا رو دینے والی آواز میں چیخا۔
"کون ہے بے تو۔۔۔؟" ناشاد اس کے بال پکڑ کر جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
"ارے سرکار۔۔۔ مار ڈالا بال چھوڑئیے۔۔۔ اچھا ہوا آپ واپس آ گئے۔۔۔ ڈر کے مارے میرا دم نکلا جا رہا تھا۔۔۔ ۔مگر نیند بڑی اچھی آئی۔۔۔ جگ جگ جئیو مالک اب مجھے واپس جانے دو۔"
ناشاد کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بوڑھا اس کے ہاتھ ہٹا کر مسہری سے اتر آیا۔
"اب انعام دلوائیے نا صاحب!" بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ اور ناشاد نے محسوس کیا کہ وہ اندھا ہے۔۔۔ بوڑھا کہہ رہا تھا۔
"اپنے کپڑے لے لیجئے!۔۔۔ اور میرے کپڑے لائیے۔۔۔ بھلا ان ریشمی کپڑوں میں مجھے کون بھیک دے گا۔"
سارا معاملہ ناشاد کی سمجھ میں آ گیا۔ یہ لازمی طور پر ایکس ٹو ہی کا کارنامہ تھا یقیناً اسے اس کی طرف سے سزا ملی تھی ایک بار پہلے بھی ایسا ہو چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ناشاد نے اسے رخصت کر دیا۔ اس سے دس روپے انعام کا وعدہ کیا گیا تھا لہٰذا ناشاد کو چپ چاپ نکال کر دینے پڑے۔ اندھا باہر کھڑے ہوئے نوجوان فقیر کو ڈانٹتا پھٹکارتا ہوا وہاں سے لے گیا۔
ناشاد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔۔۔ اس کے پاس ایک سنسنی خیز اطلاع تھی۔ ایسی کہ اس سے ماتحتوں کی غلطیوں کا ازالہ بھی ہو سکتا تھا۔ 
پہلے تو وہ دل ہی دل میں ایکس ٹو کو گالیاں دیتا رہا۔۔۔ پھر سوچنے لگا کہ اگر وہ ملازمت سے مستعفی بھی ہو جائے تو ضروری نہیں کہ ایکس ٹو اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لے۔۔۔ وہ تو ہر جگہ اور ہر حال میں اسے سزا دے سکتا تھا۔۔۔ بہر حال وہ جبراً قہراً اٹھا اور فون پر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کرنے لگا۔
"ہیلو!" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"ناشاد اسپیکینگ سر!" ناشاد گھگھیایا۔
"آہا۔۔۔ فرمائیے۔۔۔ ناشاد صاحب! کیسے مزاج ہیں؟"
"میں کان پکڑ کر اور ناک رگڑ کر معافی چاہتا ہوں جناب!"
"پھر اس طرح پئیو گے!"
"نہیں جناب کبھی نہیں! میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔۔۔ مگر میں نے کچھ کام بھی کیا ہے۔"
"اچھا!"
"جی ہاں! میں نے سیسرو کو پیراماونٹ بلڈنگ میں دیکھا ہے۔ وہ اسی کھڑکی میں تھا جہاں "التھرے اینڈ کو" کا بورڈ لگا ہوا ہے!"
"اگر یہ اطلاع غلط ثابت ہوئی تو!" 
"میں نے اسے وہیں دیکھا تھا جناب!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ اور کچھ؟"
"ایک گزارش بھی ہے!"
"کہو!"
"اس واقعہ کی اطلاع میرے ساتھیوں کو نہ ہونے پائے۔"
"نہ ہوگی!" دوسری طرف سے آواز آئی اور سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
ناشادی ریسیور رکھ کر اس طرح ہانپ رہا تھا جیسے کسی پہاڑی پر چڑھتے چڑھتے دم لینے کے لئے رکا ہو!
عمران نے معلوم کر لیا کہ التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ ایجنٹس ہیں لیکن نہ تو التھرے کی شکل دیکھ سکا اور نہ ہی وہاں سیسرو ہی کا سراغ مل سکا۔ ایک کلرک اور چپڑاسی وہاں موجود تھے۔ پھر بھی اس نے لیفٹینٹ چوہان کو اس فلیٹ کی نگرانی پر مامور کر دیا۔
تفتیش کرنے پر التھرے کا جو حلیہ معلوم ہوا تھا۔ وہ یقیناً مشتبہ تھا۔ ادھر سے فرصت حاصل کرکے وہ سرسلطان کی طرف متوجہ ہوا جو اب ہوش میں آ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دن ان کے ڈرائیور اسلم کا بھتیجا انہیں آفس پہنچانے کے لئے آیا تھا لیکن انہوں نے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوا تھا کہ ڈرائیور اچانک بیمار ہو گیا ہے۔ حالانکہ انہیں کرنل نادر کی گمشدگی کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کے امکانات پر غور نہیں کیا تھا۔ آفس جانے سے کچھ دیر پہلے انہیں کرنل نادر کی بیوی کا فون موصول ہوا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ کرنل نادر کسی غیر ملکی لڑکی کے ساتھ کہیں وقت گزارنے گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ کرنل نادر اپنی خواب گاہ میں اس سے جاپانی سیکھا کرتا تھا۔
عمران نے اسٹیٹ بنک کی سیف کی کنجی سر سلطان کے سپرد کرنی چاہی لیکن انہوں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ ویسے انہوں نے محکمہ سراغرسانی کو ضرور ہدایت کرادی کہ اسٹیٹ بنک کے اسٹرانگ روم کی گہری نگرانی کی جائے۔
اب سوزی کی فکر ہو گئی تھی۔ چونکہ اس کے سلسلے میں تھریسیا نے اسے خبردار کیا تھا۔ لہٰذا وہ اسے چیک کرنا چاہتا تھا۔ اس دوران میں تقریباً ہر شام وہ اس سے ملتی رہی تھی لیکن عمران نے اسے اپنی قیام گاہ کا پتہ نہیں بتایا تھا۔ 
آج عمران کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ اگر سوزی کی حقیقت معلوم کرنے کا خیال نہ ہوتا تو شاید عمران آج نائٹ کلب کا رخ ہی نہ کرتا۔ سوزی حسب معمول وہاں موجود تھی لیکن عمران نے محسوس کیا کہ وہ آج کچھ نڈھال سی ہے۔ اس کی آنکھوں میں شوخیوں کی بے چین لہریں نہیں تھیں اور وہ اپنی عمر سے دس سال زیادہ معلوم ہو رہی تھی اس نے ایک مضمحل مسکراہٹ کے ساتھ عمران کا خیر مقدم کیا۔
کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر یک بیک سوزی کچھ نروس سی نظر آنے لگی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی خاص بات کہنے کے لئے مضطرب ہو۔ لیکن ہمت ساتھ نہ دے رہی ہو۔ آخر اس کے ہونٹ ہلے۔
"کیا تمہیں علم ہے کہ جولیانا فٹز واٹر ایک شادی شدہ عورت ہے؟"
"ہائیں!" عمران آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔ "کیا مطلب؟"
"تو تم اسے ایک شادی شدہ حیثیت سے نہیں جانتے؟"
"ہرگز نہیں! وہ کنواری ہے تم مذاق کر رہی ہو۔"
"وہ شادی شدہ ہے۔" سوزی نے سنجیدگی سے کہا اور اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔ پھر آہستہ سے بولی۔ "وہ تمہیں اب تک دھوکا دیتی رہی ہے۔۔۔ وہ کنواری نہیں ہے۔۔۔ اسے خود کو جولیانا التھرے لکھنا اور کہنا چاہئے لیکن وہ تمہیں دھوکہ دینے کے لئے اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام استعمال کر رہی ہے!"
"ارے باپ رے۔۔۔" عمران اپنے سینے پر ہاتھ پھیرتا ہوا مضطربانہ انداز میں بڑبڑایا۔ "جولیانا التھرے خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔ وہ اب تک مجھے دھوکہ دیتی رہی۔"
"کیا تم اس سے محبت کرنے لگے ہو؟"
"ہرگز نہیں! کبھی نہیں! وہ مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔"
سوزی کے چہرے پر اطمینان کی لہریں نظر آنے لگیں اور اس نے مسکرا کر کہا۔ "تم اس سے کہہ دو کہ تم سے نہ ملا کرے۔"
"مگر میں یہ کیوں کہہ دوں۔ اگر وہ شادی شدہ ہے تو میرا اس سے کیا نقصان ہے اگر نہیں ہے تو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔؟"
"ایک شریف آدمی کی زندگی تلخ ہو سکتی ہے۔" سوزی نے کہا۔ "مسٹر التھرے اسے نہیں کھونا چاہتے۔۔۔ اگر تم اسے دھتکار دو تو التھرے کی زندگی برباد ہونے سے بچ جائے گی۔۔۔ ورنہ ایک شریف آدمی کا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔"
عمران بوکھلا کر اپنی گردن ٹٹولنے لگا۔ ساتھ ہی اس کے چہرے پر اس قسم کے آثار نظر آئے جیسے وہ خون کی چپچپاہٹ محسوس کر رہا ہو۔
"نہیں!" وہ خوفزدہ سی آواز میں بولا۔ "ہرگز نہیں۔۔۔ اگر وہ مجھ سے ملنا چاہے گی تو نہیں ملوں گا نہ مانے گی۔۔۔ تو اس پر شہد کی مکھیاں چھوڑ دوں گا۔۔۔ میرے پاس تقریباً پانچ ہزار شہد کی مکھیاں ہیں۔۔۔" سوزی اس خیال پر بے ساختہ ہنس پڑی۔ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی۔
"ہم دونوں بہت اچھے دوست بن سکتے ہیں۔"
"کیا اب برے ہیں؟" عمران نے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔ یہ میں نے یونہی کہا ہے۔۔۔ دیکھو عمران دوست میں تمہیں ابھی دھوکا دیتی رہی ہوں"
"ہائیں۔۔۔" عمران آنکھیں پھاڑ کر اچھل پڑا "تم بھی دھوکا دے رہی ہو۔۔۔"
"ٹھہرو۔۔۔ ڈئیر اتنی جلدی سمجھنے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ پوری بات سن لو۔۔۔ میں نے یہ دھوکا ایک نیک مقصد کے لئے دیا تھا۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ مسٹر التھرے کی زندگی برباد نہ ہو۔ میں نے آج تک ملایا کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ ہمیشہ اسی شہر میں رہی ہوں۔ مسٹر التھرے میرے باس ہیں!"
"اوہ۔۔۔ ہو۔۔۔!" عمران نے الوؤں کی طرح دیدے گھمائے۔
"ہاں۔۔۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ کسی طرح عمران کو مسز التھرے سے جدا کر دو۔ پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اس سے دوستی کرو۔ پھر اسے اپنے ساتھ لاؤ۔"
"کہاں لاؤ؟"
"یہ بھی مجھے آج ہی معلوم ہوا ہے۔ انہوں نے آج صبح مجھے وہ جگہ بتائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ تم سے کوئی ایسی تحریر لیں گے جس کی وجہ سے تم پھر کبھی جولیانا کی طرف رخ نہ کر سکو۔"
"تو پھر چلو۔۔۔ میں چل رہا ہوں۔۔۔" عمران نے بڑے بھولے پن سے کہا۔
"تم کیا سچ مچ الو ہو۔۔۔؟" سوزی نے حیرت سے کہا۔ 
"نہیں۔۔۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔۔۔ تمہارے ساتھ چل کر مسٹر التھرے کی غلط فہمی رفع کر دوں گا۔"
"تم پاگل ہوئے ہو۔۔۔ کیا اتنی بھی عقل نہیں رکھتے کہ اگر تمہیں دیکھ کر مسٹر التھرے کو غصہ آ گیا تو کیا ہوگا۔"
"میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ مجھے مسز التھرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔ میں تو روڈ انسپکٹر ہوں۔"
"تم واقعی احمق ہو!"
"لیکن اگر تم مجھے وہاں نہ لے گئیں۔۔۔ تو مسٹر التھرے کیا سوچیں گے۔"
"کچھ بھی نہیں۔۔۔ جب مقصد ہی حاصل ہو گیا ہے تو اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ میں انہیں اطمینان دلا دوں گی کہ اب تم مسز التھرے سے نہیں ملو گے۔ وہ تو میں اسی دن سمجھ گئی تھی کہ تمہیں اس کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔ وہ خود ہی تمہاری طرف دوڑی ہوگی مگر اب میں سوچتی ہوں کہ وہ حق بجانب ہے۔ تم انتہائی دلچسپ آدمی ہو!۔۔۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم وہ ہرگز نہیں ہو۔۔۔ جو نظر آتے ہو۔"
"ہائیں کیا بات ہوئی یعنی کہ میں عمران ہوں علی عمران۔ ایم ایس سی، پی ایچ ڈی۔۔۔"
"تم جو کچھ بھی ہو۔۔۔ لیکن میرے لئے بہت پراسرار ہو۔"
"خدا کی پناہ۔۔۔ بچپن میں میری ممی بھی یہی کہا کرتی تھی۔ ۔۔ لیکن میں اسے مذاق سمجھتا تھا۔ آج تم بھی۔۔۔ کمال ہے مگر تم مجھے وہاں لے چلو میں مسٹر التھرے کو مطمئن کر دوں گا۔"
"نہیں۔۔۔ ضد مت کرو۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔"
"ہو کر ر ہے گا، تمہیں چلنا پڑے گا، ورنہ میں یہیں سب کے سامنے خود کشی کر لوں گا۔"
"خود کشی۔۔۔ اچھا کر لو۔۔۔"سوزی ہنسنے لگی۔
"میں سچ مچ کر لوں گا۔۔۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ یہاں خودکشی کے لئے مجھے میٹریل نہیں ملے گا۔ ۔۔ دو چھریاں، تین چمچے اور ایک آدھ کانٹا نگل جاؤں گا۔۔۔ خودکشی ہو جائے گی۔۔۔"
"نگل جاؤ۔۔۔ میں تمہاری مدد کروں گی۔"
"اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے اپنا ارادہ کیوں ملتوی کر دیا۔۔۔ ظاہر ہے کہ تم اب تک مجھ سے اسی لئے ملتی رہی ہو کہ مجھے التھرے کے بتائے ہوئے مقام پر لے جاؤ۔"
"میں نے سوچا کہ کہیں التھرے کوئی غیر قانونی حرکت نہ کر بیٹھے۔۔۔ عورتوں کی وجہ سے دنیا میں بہت کشت و خون ہوا ہے۔"
"ایک اور سہی۔۔۔ محترمہ سوزی!"
"بکواس نہ کرو۔۔۔ تم کافی پئیو گے یا چائے؟"
"ٹھنڈا پانی ہر حال میں مجھے سکون پہنچاتا ہے۔۔۔ کیا یہ التھرے کوئی فوجی ہے۔"
"نہیں۔۔۔ بزنس مین۔۔۔ فاورڈنگ اینڈ کلیرنگ ایجنٹ ہے۔۔۔"
"ارے وہ التھرے اینڈ کو۔۔۔ پیراماؤنٹ بلڈنگ والی؟"
"ہاں۔۔۔ وہی۔۔۔ کیا تم نے ان کے ذریعہ۔۔۔ کبھی کوئی کلیرنگ کرا چکے ہو؟"
"ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ پچھلے سال۔۔۔ میری کار انہی کی معرفت مجھے ملی تھی۔"
"تو تم مسٹر التھرے سے ذاتی طور پر واقف ہو؟"
"نہیں۔۔۔ میں نے تو آج تک شکل بھی نہیں دیکھی اس کی۔۔۔ مگر اب دیکھوں گا۔۔۔ وہ مجھے بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ میں اسے دیکھوں گا۔"
"تم عجیب آدمی ہو۔"
"اس کے دفتر میں ہی ہنگامہ برپا کر دوں گا۔۔۔ وہاں اس کی زیادہ بے عزتی ہوگی ورنہ تم مجھے وہیں لے چلو جہاں اس نے بلوایا ہے!۔۔۔ ظاہر ہے کہ وہ وہاں تنہا ہی ہوگا۔۔۔ لہٰذا اس کی یا میری بے عزتی کا سوال ہی نہ پیدا ہو سکے گا۔۔۔ صرف تم ہوگی۔۔۔ اگر تم سے کسی کی بے عزتی نہ دیکھی جائے تو اپنی آنکھیں بند کر لینا۔"
"کیا تم سنجیدگی سے گفتگو کر رہے ہو؟۔۔۔" سوزی نے حیرت سے کہا۔
"قطعی۔۔۔ سو فیصدی۔۔۔"
"التھرے تمہیں توڑ مروڑ کر رکھ دے گا۔ وہ آدمی نہیں جن ہے۔"
"میں اسی طرح مرنا چاہتا ہوں تم مجھے پلیز لے چلو۔۔۔ ورنہ مسز التھرے کو مجھ سے شادی کرنی پڑے گی۔۔۔ میری ایک معمولی سی توجہ اسے میرے قدموں میں لا ڈالے گی سمجھیں؟"
"اچھا۔۔۔ چلو۔۔۔ لیکن وہاں جو کچھ بھی ہو۔۔۔ اس کی تمام تر ذمہ داری تم پر ہوگی۔ میں تمہیں خطرات سے آگاہ کر چکی ہوں۔"
"ہاں۔۔۔ تم مجھے خطرات سے آگاہ کر چکی ہو۔ اگر میں اپنا ہاتھ یا پیر وہیں چھوڑ آیا تو مجھے تم سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔ چلو اٹھو!"
"ارے ابھی تو بہت وقت ہے۔ ہم دس بجے تک وہاں پہنچیں گے۔ مگر تم ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔!"
"میں نے بہت اچھی طرح سوچ لیا ہے۔ اس کا تصفیہ ہو جانا چاہئے۔ میں بدنامی کا داغ لے کر قبر میں نہیں جانا چاہتا۔"
"تمہاری مرضی!" سوزی نے بظاہر بے پرواہی سے کہا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں گہری تشویش صاف پڑھی جا سکتی تھی۔
"مگر ہمیں جانا کہاں ہوگا؟"
"موڈل ٹاؤن۔۔۔ ہیوشام لاج۔۔۔" سوزی نے غالباً بے خیالی میں کہا۔ اور پھر اس طرح چونک پڑی جیسے نادانستگی میں کوئی غلطی سر زد ہوگئی ہو! وہ چند لمحے عمران کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔پھر بولی۔ "دیکھو! اس قصے کو یہیں ختم کرو۔۔۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ اس کا تذکرہ لے بیٹھی۔۔۔ میں مسٹر التھرے کو دوسری طرح بھی ٹال سکتی ہوں۔"
"اگر تم تذکرہ نہ کرتیں تو میں مرتے دم تک تمہیں معاف نہ کرتا۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔"
"کہا ہوگا کنفیوشس نے۔۔۔ آخر تم سنجیدگی سے کیوں نہیں سوچتے۔۔۔ اگر مسٹر التھرے کو غصہ آ گیا تو۔۔۔؟"
"میں اس کے لئے ایک ڈبہ آئس کریم لے چلوں گا! تم فکر نہ کرو!"
"وہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے عمران۔۔۔ وہ کسی ہاتھی کی طرح مضبوط ہے۔ میں نے آج تک کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اپنے جسم کے کسی حصہ سے خود ہی رائفل کی گولی نکالے اور خود ہی زخم کی ڈریسنگ کرے۔۔۔ اور اسی حال میں اپنے پیروں پر چل کر کسی کو رخصت کرنے کے لئے صدر دروازہ تک جائے۔"
"اوہ۔۔۔ تو کیا التھرے ایسا ہی ہے؟"
"ہاں۔۔۔ عمران! میں جھوٹ نہیں کہتی۔"
"پروا مت کرو۔۔۔ بچپن میں ایک بار میں نے توپ کا گولہ نگل لیا تھا اور اب تک شہزادوں کی سی زندگی بسر کر رہا ہوں۔"
"تم سے خدا سمجھے۔۔۔" سوزی دانت پیس کر رہ گئی۔
عمران کچھ دیر تک بیٹھا رہا۔ پھر اٹھتا ہوا بولا "میں ابھی آیا دس منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔"
سوزی نے بڑی خوش دلی سے اجازت دے دی۔ غالباً اس نے سوچا تھا کہ یہ اسی بہانے سے ٹل جائے تو بہتر ہے۔ عمران کلب سے نکل کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ میں آیا اور وہاں سے اپنے ماتحتوں کے یکے بعد دیگرے نمبر ڈائیل کئے اور انہیں جلدی جلدی مختلف ہدایات دے کر بوتھ سے باہر نکل آیا۔
دفعتاً اس کی نظر سوزی پر پڑی۔ جو کلب سے نکل کر تیزی سے ایک طرف جا رہی تھی۔ عمران نے بھی قدم بڑھائے اور جلد ہی اسے جا لیا۔
"اوہو۔۔۔ تو تم بھی خود کو دھوکہ باز ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔!"
سوزی رکی۔ اور چند لمحے بے حس و حرکت کھڑی رہی۔ پھر ایک بے جان سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نظر آئی اور اس نے کہا۔ "میں سمجھی تھی شاید تم اسی بہانے سے ٹل گئے۔"
"ارے جاؤ۔۔۔ کیا میں ڈرپوک ہوں۔۔۔ کنفیوشس۔۔۔"
"خدا کے لئے" وہ ہاتھ اٹھا کر بولی "کنفیوشس نہیں، مجھے اس نام سے ہی اختلاج ہوتا ہے۔"
"اچھا تو چلو۔۔۔ واپس چلو۔۔۔ ہم ٹھیک دس بجے ہیویشام لاج پہنچیں گے۔"
"چلو!" سوزی مردہ سی آواز میں بولی۔ اور وہ پھر کلب کی طرف واپس ہوئے۔
0
سوزی پاگل ہوئی جا رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ اس نے ہر ہر طرح اسے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ نہ مانا۔ اس وقت ساڑھے نو بج رہے تھے اور عمران کی ٹو سیٹر موڈل ٹاؤن کی طرف اڑی جا رہی تھی۔
"عمران! میں تمہیں پھر سمجھاتی ہوں۔"
"بہت مشکل ہے۔۔۔ اگر تم خوف محسوس کر رہی ہو۔۔۔ تو یہیں سے واپس جاؤ۔۔۔ میں ہیویشام لاج تو ضرور جاؤں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ التھرے اپنی غلطی تسلیم کرکے مجھے بدنام کرنے سے باز آجائے۔"
"میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ اسے اس پر آمادہ کر لوں گی۔۔۔ مگر تم اس وقت اس کے سامنے نہ جاؤ۔۔۔ معلوم نہیں اس نے تمہارے لئے کس قسم کا جال تیار کیا ہے۔۔۔ میرے خدا میں نے سخت غلطی کی۔۔۔ تم جیسا آدمی آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔۔۔"
عمران کچھ نہ بولا۔ ٹوسیٹر ہوا سے باتیں کرتی رہی۔ آخر وہ موڈل ٹاؤن کی حدود میں داخل ہوئے اور عمران نے محسوس کیا کہ سوزی کی سانسیں معمول سے زیادہ تیز ہو گئی ہیں۔
"ہیویشام لاج غالباً تیسرے بلاک میں ہے۔" عمران نے پوچھا۔
"ہاں وہیں ہے۔۔۔ اور عمران تم آخر اپنی عقل کیوں کھو بیٹھے ہو۔ اب بھی غنیمت ہے۔۔۔ واپس چلو!"
"یہ ناممکن ہے ڈیری! میں اسے پسند نہیں کرتا کہ کسی کی بیوی کا عاشق سمجھا جاؤں۔"
سوزی پھر چپ ہو رہی۔۔۔ ٹوسیٹر تیسرے بلاک کی طرف مڑ رہی تھی۔
"میرا دل بہت شدت سے دھڑک رہا ہے۔" سوزی نے کچھ دیر بعد کہا۔
"چلو شکر ہے کہ تم زندہ ہو۔۔۔ میں تو سمجھا تھا کہ اس نے دھڑکنا چھوڑ دیا ہے۔"
ٹوسیٹر ایک عمارت کےسامنے رک گئی۔
"چلو اترو! اوہو۔۔۔ یہاں جشن ہو رہا ہے۔ شاید کوئی کھڑکی بھی ایسی نہیں ہے جس سے روشنی نہ جھانک رہی ہو!"
"عمران پھر سوچ لو۔۔۔"سوزی ہذیانی انداز میں بڑبڑائی۔
"سوچ لیا۔۔۔" عمران نے کہا اور سوزی کو کھینچتا ہوا گاڑی سے اتر آیا۔ عمارت کے صدر دروازے پر ایک دربان نے اس کا استقبال کیا۔ اور وہ ہاتھوں ہاتھ اندر پہنچا دیئے گئے۔
وہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا۔ انتہائی شاندار اور قیمتی ساز و سامان سے مزین۔۔۔ اور آتشدان کے قریب تھریسیا مضمحل کھڑی تھی۔ سوزی اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔۔۔ تھریسیا بہت حسین لگ رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے چہرے پر پائے جانے والے اضمحلال ہی نے اس کی دلکشی میں اضافہ کر دیا ہو۔
عمران اسے آنکھ مار کر مسکرایا اور تھریسیا نےہونٹ سکوڑ کر منہ پھیر لیا۔ دفعتاً ان کی پشت سے ایک قہقہے کی گونج سنائی دی اور وہ چونک کر مڑے۔۔۔ دروازے میں طویل القامت الفانسے کھڑا ہنس رہا تھا اور سیسرو اس کے پیچھے تھے۔
"مسٹر التھرے کہاں ہے؟" سوزی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
"التھرے۔۔۔؟" الفانسے نے حیرت سے دھرایا۔۔۔ "یہاں کوئی التھرے نہیں رہتا۔"
"میرے خدا!" سوزی نے متحیرانہ انداز میں کہا۔ "آپ کی آواز تو مسٹر التھرے ہی کی سی ہے۔۔۔ مگر آپ۔۔۔"
"تمہیں کسی نے غلط پتہ بتایا ہے لڑکی۔۔۔ میرا نام التھرے نہیں الفانسے ہے۔"
"اور میں ان کا سوتیلا چچا لگتا ہوں!" عمران نے دوبارہ تھریسیا کو آنکھ مار کر کہا۔
سیسرو غرا کر اس پر چڑھ دوڑا۔
"ٹھہرو!" الفانسے نے روکتے ہوئے کہا۔ "اسے وہاں لے چلو جہاں ہم جشن منائیں گے۔"
"اور یہ لڑکی؟" سیسرو نے سوزی کی طرف اشارہ کیا۔
"اسے بھی لے چلو!" الفانسے بولا۔ "فی الحال اس کا باہر جانا مناسب نہیں ہوگا۔"
"مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔" سوزی ہذیانی انداز میں چیخی "تم پھر غلطی کر رہی ہو۔۔۔ میرا نام الفانسے ہے۔"
"ہرگز نہیں۔۔۔ اگر آپ نے اپنی گھنی مونچھیں نہ صاف کر دی ہوتیں تو۔۔۔"
"چلو یہی سہی۔۔ مگر تمہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ تمہیں اس کام کا معقول معاوضہ ملے گا۔"
"سنا تم نے پاگل کتے۔۔۔"سوزی عمران کو جھنجھوڑ کر باگلوں کی طرح چیخی۔
"میں اب بھی ایسا ہی سمجھ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ ایک دلچسپ مذاق ہے۔" عمران نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ اور ایک بار پھر تھریسیا کو آنکھ ماری۔ 
"چلو۔۔۔ اپنےہاتھ اوپر اٹھاؤ!" سیسرو ریوالور نکال کر دہاڑا۔
"ہشت۔۔۔" الفانسے نے کراہت سے کہا۔ "ایک حقیر سے کیڑے کے لئے خوامخواہ اپنی انرجی کیوں برباد کرتے ہو۔ ریوالور اپنی جیب میں رکھ لو۔۔۔ یہ یونہی چلے گا۔"
"چلو۔۔۔ چلو!" عمران مسکرا کر بولا۔ "میں اس جشن سے۔۔ کافی لطف اندوز ہوں گا۔"
وہ ایک بہت بڑے کمرے میں لائے گئے۔ یہاں ایک طرف تقریباً سو مربع فٹ کے رقبے میں بڑے بڑے انگارے دہک رہے تھے۔ اور اس کے قریب ہی کرنل نادر ایک کرسی میں بندھا ہوا بیٹھا تھا۔ اس کے علاوہ چھ عورتیں اور چھ مرد بھی وہاں موجود تھے۔
"یہ آگ تم دیکھ رہے ہو؟" الفانسے نے عمران سے کہا۔
"معاف کرنا پیارے! میں اپنی عینک گھر بھول آیا ہوں۔ کہو تو دوڑ کر لیتا آؤں۔"
"اے احمق آدمی۔!" دفعتاً تھریسیا نے اسے مخاطب کیا۔ "اگر تم وہ کنجی ہمارے حوالے کر دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔۔۔ یہ ٹی تھری بی کا وعدہ ہے!"
"آپ ایسا کوئی وعدہ نہیں کر سکتیں مادام۔" سیسرو بول پڑا۔ وہ خونخوار نظروں سے عمران کو گھور رہا تھا۔
"تو میری آواز پر اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔۔۔" تھریسیا غضب ناک ہو گئی۔
سیسرو نے لاپرواہی کے اظہار میں شانوں کو جنبش دی اور تھریسیا کی خونخوار نظریں الفانسے کی طرف اٹھ گئیں۔
الفانسے خاموش کھڑا تھا۔ اس نے سیسرو کی طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا۔ "معافی مانگو۔"
"میں آپ سے معافی چاہتا ہوں مادام!" سیسرو کا لہجہ بہت تلخ تھا۔۔۔ "لیکن اس سے میری ذاتی پرخاش ہے۔"
تھریسیا عمران سے کہہ رہی تھی۔ "یہ آگ تم دونوں کے لئے روشن کی گئی ہے اور اس وقت تک بھڑکائی جاتی رہے گی جب تک کاغذات یہاں نہ آ جائیں۔۔۔ سیف کی کنجی تم نے کہاں رکھی ہے۔"
"ایک جزیرے میں" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "وہان ایک سرخ رنگ کا گنبد ہے جو دن رات تیزی سے گردش کرتا رہتا ہے۔ اس پر ایک نیلے رنگ کا پرندہ بیٹھا ہر آیند و روند کو آواز دیتا ہے۔۔۔ باش اے رہروان منزل مال روڈ آگے کافی ہاؤز ہے۔۔۔ ذرا سنبھل کر۔۔۔"
"سلاخیں گرم کرو!" الفانسے دانت پیس کر چیخا۔
سیسرو نے بڑی بڑی سلاخیں جن میں لگے ہوئے دستے لکڑی کے تھے آگ میں ڈال دیں۔۔۔ عمران کی نظر اس گراموفون پر پڑی جو ایک طرف ایک میز پر رکھا ہوا تھا۔
"یہ یہاں کس لئے رکھا گیا ہے۔۔۔" عمران نے الفانسے سے پوچھا۔
"جشن کے لئے۔۔۔ تم دونوں کو آگ میں پھینک کر ہم لوگ رمبا ناچیں گے۔" الفانسے نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔ اور سوزی کانپ گئی۔ اس نے کہا۔۔۔
"مسٹر التھرے! ۔۔۔ پلیز۔۔۔ رحم کیجئے!"
"تم بالکل محفوظ ہو بے بی!" الفانسے نے ہنس کر کہا۔
عمران گرامو فون کی طرف بڑھا۔ اس پر ریکارڈ رکھا ہوا تھا۔ اس نے ٹرن ٹیبل کو متحرک کرکے ساؤنڈ بکس رکھ دیا۔ ہال میں موسیقی گونجنے لگی۔ وہ سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ عمران مسکراتا ہوا سوزی کے قریب آیا۔ اور اسے بازوؤں میں لے کر رمبا ناچنے لگا۔
"پاگل ہو گئے ہو۔۔۔ تم پاگل ہو گئے ہو۔۔۔" سوزی اس کی گرفت سے نکلنے کے لئے مچلی!
"تم بھی پاگل ہو جاؤ۔" عمران ہنستا ہوا بولا۔ "قبل اس کے یہ لوگ مجھے بھون کر کھا جائیں میں تین منٹ تک رمبا ناچنا چاہتا ہوں۔"
"خدا تم سے سمجھے۔۔۔ میں پہلے ہی منع کر رہی تھی۔"
"مجھے تم سے۔۔۔ کوئی شکوہ نہیں ہے۔۔۔ دوسری دنیا میں ہم ضرور ملیں گے۔"
تھریسیا حیرت سے منہ کھولے انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ریکارڈ کے ختم ہوتے ہی وہ رک گئے اور دفعتاً تھریسیا چیخی۔
"الفانسے! کیا تم بھی اسی کی طرح احمق ہو گئے ہو؟ یہ وقت گزارنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
"میں سمجھتا ہوں مادام!"
اچانک عمران نے قہقہہ لگایا۔ اور پھر گراموفون کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"ایک راؤنڈ اور سہی۔۔۔ ٹی تھری بی!۔۔۔ کیا اس بار تم میری پارٹنر بننا پسند کرو گی؟"
سیسرو عمران کی طرف جھپٹا۔ شاید وہ اسے گرامو فون کی طرف نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔
لیکن قبل اس کے وہ عمران کو ہاتھ بھی لگا سکتا۔ عمران نے پلٹ کر ایک گھونسہ اس کی پیشانی پر جڑ دیا اس نے سنبھلنا چاہا لیکن ممکن نہ ہوا۔ اتنی دیر میں عمران کی لات بھی اس کے پیٹ پر پڑ چکی تھی۔ سیسرو کسی زخمی بھینسے کی طرح ڈکرا کر دوہرا ہو گیا۔
"ٹھہرو الفانسے!" تھریسیا کی آواز سناٹے میں گونجی۔ ۔۔ "اس کچھوے کو سیسرو ہی ٹھیک کرے گا۔۔۔ سیسرو اسے اٹھا کر آگ میں جھونک دے۔۔۔!"
"عمران!۔۔۔ خدا کے لئے کنجی کا پتہ بتا دو۔" دفعتاً کرنل نادر چیخا۔
عمران نے سیسرو سے نمٹتے ہوئے جواب میں ہانک لگائی۔ "نہ مجھے جاپانی سیکھنے کا شوق ہے اور نہ ہی میں تمہاری طرح بوڑھا ہوں۔۔۔ میرے کباب یہ لوگ بڑے شوق سے کھائیں گے۔"
پھر کرنل نادر کو سانپ سونگھ گیا۔ سوزی کھڑی بری طرح کانپ رہی تھی۔ اور تھریسیا کی آنکھوں سے تشویش ہویدا تھی۔ لیکن الفانسے اس لڑائی کو بالکل اسی انداز میں دیکھ رہا تھا جیسے آدمی نہیں بلکہ دو مرغ لڑ پڑے ہوں۔ دفعتاً عمران کے پاؤں اکھڑ گئے۔۔۔ اور سیسرو اسے ریلتا ہوا آگ کی طرف لے جانے لگا۔
"ارے۔۔۔ بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔" سوزی ہذیانی انداز میں چیخی۔
"خاموشً!" الفانسے غرایا۔
"ارے! یہ کیا ہو رہا ہے۔" سوزی کسی ننھی بچی کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"ہائیں۔۔۔" بیک وقت سب کی زبانوں سے نکلا اور جگر خراش چیخ ہال میں گونج اٹھی کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ یک بیک نقشہ کیسے بدل گیا تھا۔ بس آگ کے قریب پہنچتے ہی انہوں نے سیسرو کو اچھلتے دیکھا، جو اپنے ڈیل ڈول سمیت عمران کے سر پر سے گزرتا ہوا آگ میں جا پڑا تھا۔
"اب تم سب اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو۔۔۔" عمران نے ان کی طرف مڑ کر کہا۔
اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ جو شاید اس نے اسی دوران میں سیسرو کے ہولسٹر سے کھینچ لیا تھا۔ سیسرو آگ سے کود کر عمران کے قریب آن پڑا۔ اب اس کے منہ سے آوازیں نہیں نکل رہی تھی لیکن وہ کسی زخمی جانور کی طرح تڑپ رہا تھا۔
ان لوگوں کے چپ چاپ ہاتھ اٹھا دئیے۔ چونکہ حالات غیر متوقع طور پر بدلے تھے اس لئے انہیں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع نہ مل سکا۔
"یہ تیسرا اور شاید آخری موقع ہے الفانسے!" عمران مسکرا کر بولا۔ "لہٰذا قبل اس کے کہ ہم رخصت ہوں جشن ہو جائے۔ میری طرف سے دعوت ہے۔۔۔ سوزی! تم اس شریف آدمی کو کھول دو جو کرسی پر بندھا ہوا ہے۔"
سوزی کانتپے ہاتھوں سے کرنل نادر کو کھولنے لگی اور عمران نے پھر الفانسے کو مخاطب کیا۔ "تم سونے کی مہر میرے حوالے کر دو۔ جس کے بغیر ریڈ اسکوائر کاغذات نامکمل ہیں۔۔۔ تو میں تمہیں نکل جانے دوں گا۔۔۔ یہ عمران کا وعدہ ہے۔!"
"کیا یہ حقیقت ہے؟ کہ مہر ان کاغذات کے ساتھ نہیں تھی؟" الفانسے نے آہستہ سے پوچھا۔
"نہیں!" 
"تب تو۔۔۔ ہم اب تک بیکار ہی اپنا وقت ضائع کرتے رہے؟" الفانسے بڑبڑایا۔
"ہاہا۔۔۔!" عمران نے قہقہہ لگایا "تم کسی بیوقوف آدمی کو بیوقوف نہیں بنا سکتے الفانسے!" 
الفانسے کچھ نہ بولا۔
عمران نے سوزی سے کہا۔ "ریکارڈ لگا دو۔۔۔ جشن ضرور ہوگا۔" پھر وہ سیسرو کو آوا ز دینے لاگ۔ جو اب بھی ہاتھ پیر پٹخ رہا تھا۔ اس کی شکل بری ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ سر کے بال غائب ہو گئے تھے۔۔۔ بھنویں صاف۔۔۔ اور چہرہ مسخ ہو گیا تھا۔۔۔ موسیقی کی لہریں ہال میں نشر ہونے لگیں۔
"ناچو!" عمران چیخ کر بولا "ناچتے رہو۔۔۔ ورنہ ایک ایک کو گولی کا نشانہ بنا دوں گا"۔ رقص شروع ہو گیا۔۔۔ مگر وہ اس طرح لڑکھڑا رہے تھے جیسے بہت زیادہ پی چکے تھے۔ صرف ایک جوڑا ایسا تھا جو اس حالت میں بھی ڈھنگ سے ناچ رہا تھا۔ یہ تھریسیا اور الفانسے تھے۔ ویسے الفانسے کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور تھریسیا کے ہونٹوں پر عجیب سے مسکراہٹ تھی۔!
"بند کرو یہ پاگل پن" سوزی پاگلوں کی طرح چیخنے لگی۔ "تم سبھوں پر خبیث روحیں منڈلا رہی ہیں بند کرو۔۔۔ بند کرو۔" اس کی چیخیں موسیقی کی لہروں سے الجھ الجھ کر لڑکھڑاتی رہیں اور پھر وہ چکرا کر ڈھیر ہو گئی۔ شاید بیہوش ہو گئی تھی۔
وہ اسے عمران کا پاگل پن سمجھی تھی۔ لیکن اسے اس کا علم نہیں تھا کہ عمران خود بھی دل ہی دل میں اپنی بوٹیاں نوچ رہا تھا۔ اسے توقع تھی کہ اس کے ماتحت جلد ہی وہاں پہنچ جائیں گے۔ لیکن ان کا ابھی تک کہیں پتہ نہ تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس بار بھی تھریسیا اور الفانسے بچ کر نکل جائیں۔ وہ ان کی بھیڑ میں تنہا تھا اس لئے انہیں اس وقت تک الجھائے رکھنا چاہتا تھا جب تک اس کے ماتحت وہاں پہنچ نہ جائیں۔
کرنل نادر سے بھی وہ کام لے سکتا تھا مگر اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اس پر اعتماد کیا جا سکتا۔ اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنے ذہن کو قابو میں رکھنے کے لئے کافی جدوجہد کر رہا ہے۔ ورنہ شاید اس کا بھی وہی انجام ہوتا جو سوزی کا ہوا تھا۔
ریکارڈ ختم ہو گیا تھا۔ اور رقاص رک گئے تھے۔ ادھر سیسرو بھی ساکت ہو گیا تھا۔ ٹھیک اسی وقت عمارت کے کسی حصے سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں آئیں۔ عمران صرف ایک پل کے لئے ادھر متوجہ ہو گیا اور ان میں سے کسی نے کوئی چیز چھت پر لٹکے ہوئے ایک بلب پر کھینچ ماری۔ ہلکے سے دھماکے کے ساتھ ہال نیم تاریک ہو گیا۔
"خبردار! اگر کسی نے جنبش بھی کی۔۔۔" عمران دہاڑا۔۔۔ اور ایک ہوائی فائر بھی کر دیا۔۔۔ایک گوشے میں بکھری ہوئی آگ کی روشنی اتنے بڑے ہال کے لئے ناکافی تھی۔
"خبردار۔۔۔ جہاں ہے وہیں ٹھہرے"۔۔۔ اچانک کئی آوازیں آئیں۔۔۔ "ہمارے پاس ٹامی گنیں ہیں۔۔۔"
پھر کئی ٹارچوں کی روشنی اندھیرے میں آڑی ترچھی لکیریں بنانے لگیں۔
"ارے وہ دونوں تو نکل ہی گئے۔۔۔ ایکس ٹو کے پٹھو۔۔۔" عمران چیخا اور پاگلوں کی طرح چاروں طرف دوڑنے لگا۔ ان لوگوں میں اسے تھریسیا اور الفانسے نظر نہیں آئے۔ پھر اس نے دروازے کا رخ کیا۔ پوری عمارت چھان ماری لیکن ان دونوں کی پرچھائیں بھی نہ ملیں۔
ویسے اس کے ماتحت دوسرے لوگوں کو ہتھکڑیاں لگا چکے تھے۔ عمران نے مزید تگ و دو فضول سمجھی اور پھر ہال میں واپس آ گیا۔ یہاں اب بھی اندھیرا تھا۔ یوں تو پوری عمارت ہی تاریک ہو گئی۔ مگر انگاروں کی مدھم سی سرخ روشنی میں ہال کی فضا کچھ عجیب سی لگ رہی تھی۔
عمران نقاب پوشوں پر برس پڑا "کس اُلو کے پٹھے نے تمہیں یہاں بھیجا ہے میرا سارا کھیل بگاڑ دیا۔"
"یہاں ایک جھلسی ہوئی لاش بھی ہے برخوردار۔۔۔" کیپٹن خاور نے کہا۔
"تمہیں اس کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔۔۔ تم ہو کس چکر میں؟"
"فکر نہ کرو۔۔۔ یہاں وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری بھی موجود ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ اچھا اور کئی زبانوں میں جواب دے سکیں گے۔۔۔ حتیٰ کہ جاپانی میں بھی۔۔۔"
وہ سچ مچ اپنے ان نالائق ماتحتوں پر بری طرح جھلایا ہوا تھا۔ اس کا بس چلتا تو ان سب کو بھی اس دہکتی ہوئی آگ میں جھونک کر خود ان کےکفن کے لئے چندہ اکٹھا کرنے نکل کھڑا ہوتا!
تھریسیا اور الفانسے ایک بار پھر چوٹ دے گئے۔ سیسرو سچ مچ ختم ہو چکا تھا۔ مجبوری کا نام شکر ہے۔ لہٰذا عمران نے سوچا چلو۔۔۔ا یک تو کم ہوا۔ پھر وہ پوری رات عمران کو آنکھوں میں کاٹنا پڑی۔ کیونکہ سوزی کو ہوش تو آ گیا تھا لیکن اس کا ذہنی توازن اب بھی بگڑا ہوا تھا۔
وہ ساری رات ہسپتال میں ہی رہا۔ اور دوسری صبح جب گھر واپس آیا تو اسے ایک لفافہ ملا۔ جس پر اس کا نام تحریر تھا۔۔۔ عمران نے اسے چاک کرکے اندر رکھا ہوا پرچہ نکالا۔
"عمران! ہم فی الحال یہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پچھلی رات تو تم نے مجھےبھی پاگل کر دیا تھا۔ میں نہیں سمجھتی تھی کہ میرے متنبہ کر دینے کے باوجود بھی تم سوزی کے ساتھ وہاں چلے آؤ گے۔ خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ تم ہو کیا بلا؟۔۔۔ تم جیسا آدمی شاید روئے زمین پر نہ ملے۔ میں تو تمہیں آدمی ہیس مجھنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں سیسرو کا یہی انجام چاہتی تھی وہ شبہ کرنے لگا تھا کہ میں تمہیں بچانے کی کوشش کرتی ہوں جب وہ تمہیں دھکیلتا ہوا آگ کی طرف لے جا رہا تھا تو میں پاگل ہوئی جا رہی تھی۔ پھر جب تم نے اسے آگ میں جھونک دیا تو میرا دل چاہا کہ تمہیں گود میں اٹھا کر ناچنے لگوں۔ کاش میں ایسا کر سکتی۔ سونے کی مہر ہر وقت الفانسے کی جیب میں رہتی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ وہ کسی نہ کسی طرح تم تک پہنچ جائے۔ کاش تم آدمی بن سکتے۔۔۔ مجھے سمجھ سکتے!
"ٹی تھری بی"
"ابے یہ لفافہ یہاں کیسے آیا؟" عمران نے سلیمان کو مخاطب کیا۔
"پتہ نہیں صاحب! یہیں فرش پر پڑا ہوا تھا۔ شاید کسی نے دروازے کی جھری سے ڈالا ہو۔"
"کسی دن کوئی دروازے کی جھری سے یہاں بم ڈال کر چلا جائے گا۔" عمران بگڑ گیا۔
"اتنی باریک جھری سے بم کیسے ڈالے گا؟"
"ابے بم کا سفوف سہی۔۔۔ کبوتر کے پٹھے، اس ایٹمی دور میں سب کچھ ممکن ہے۔ میں تیری دم پر بیٹھ کر مریخ کی طرف بھی پرواز کر سکتا ہوں۔ بس تمجھے ایک ایٹمی پڑیا پھانکنی پڑے گی۔"
اس نے تھریسیا کا لفافہ توڑ مروڑ کر آتش دان میں ڈال دیا۔
شام کو وہ پھر ہسپتال پہنچا۔ سوزی کی حالت اب بہتر تھی۔ اس نے عمران کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لئے اور بھرائی ہوئی آواز میں آہستہ سے بولی۔
"تم جاؤ یہاں سے خدا کے لئے چلے جاؤ۔۔۔ ورنہ میری طبعیت پھر خراب ہو جائے گی۔۔۔ مجھے تم سے خوف محسوس ہوتا ہے!"
عمران چپ چاپ کمرے سے نکل آیا۔
وہ دل ہی دل میں تھریسیا اور عمران کا موازنہ کر رہا تھا۔!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔