ایک دراز قد آدمی کچھ اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا جیسے بہت زیادہ پی گیا ہو۔ وہ زینے پر لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا ضرور لیتا تھا۔ اس کے جسم پر سیاہ رنگ کا اوور کوٹ تھا جس کے کالر سرے تک اٹھے ہوئے تھے اور پھر فلٹ ہیٹ کا گوشہ اس طرح پیشانی پر جھکا ہوا تھا کہ اس کی صورت نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔
حالانکہ پیراماؤنٹ بلڈنگ میں لفٹ بھی موجود تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے زینوں کو لفٹ پر ترجیح دی تھی۔ کیا نشے کی وجہ سے اس کے قدم خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے؟ کیا شراب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا؟
اگر یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ کا واقعہ نہ ہوتا تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے۔۔۔ یہاں کسے اتنی فرصت تھی کہ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر غور کرتا یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ تھی۔۔۔ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز!
اس ہفت منزلہ عمارت میں سینکڑوں تجارتی دفاتر تھے۔ یہاں دن بھر آدمیوں کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے باوجود بھی یہاں عجیب باتوں پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
طویل قامت آدمی اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے تھے لیکن اس وقت بھی عمارت کی کھڑکیوں میں روشنی نظر آ رہی تھی یہاں بہتیرے دفاتر ایسے تھے جو دن رات کھلے رہتے تھے۔
طویل قامت آدمی تیسری منزل کی ایک راہداری میں مڑ گیا۔ لیکن اب وہ رک گیا تھا اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ لیکن اب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ کی بجائے لنگڑاہٹ تھی۔ زینوں پر یہ لڑکھڑاہٹ معلوم ہوتی تھی۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر وہ رکا۔ جس پر لگے ہوئے بورڈ پر تحریر تھا۔
"التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلئیرنگ ایجنٹس!"
دراز قد آدمی نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ دیوار سے لگ گیا۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی وہ پھر سیدھا کھڑآ ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازہ کھولنے والا ایک 18 سالہ لڑکا تھا جس کے جسم پر چپڑاسیوں کی وردی تھی۔
دراز قد آدمی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر دروازے سے باہر کھینچ لیا۔ اور بھرائی ہوئی آؤاز میں بولا۔ "بھاگ جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ یہ لو۔ سیکنڈ شو دیکھنا!" اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر لڑکے کی مٹھی میں بند کر دیا۔
"سلام صاحب!" لڑکے نے فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلام کیا۔
"سلام! بھاگ جاؤ۔" دراز قد آدمی بھرائی ہوئی آواز میں ہنسا۔
لڑکا تیزی سے چلتا ہوا زینوں پر مڑ گیا۔ دراز قد آدمی فلیٹ میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔ فلٹ ہیٹ اتار کر سٹینڈ پر پھینکی۔ اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ یہ ایک سفید فام غیر ملکی تھا دوسرے کمرے میں داخل ہو کر اس نے ٹائپ رائٹر پر جھکی ہوئی لڑکی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ اونگھ رہی تھی۔
"کیا تم یہاں سونے کے لئے آئی ہو۔" لمبے آدمی نے غرا کر کہا۔
"نہیں! مسٹر التھرے۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔" لڑکی خوفزدہ نظر آنے لگی تھی۔ دراز قد آدمی نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر دس کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا۔ "جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ سیکنڈ شو دیکھنا۔"
لڑکی متحیر رہ گئی۔ یہ ایک چھوٹے قد کی معصوم صورت یوریشین لڑکی تھی۔
"میں سمجھی نہیں جناب!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تم چھٹی نہیں سمجھتیں۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آج اوور ٹائم نہیں ہوگا۔" اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔" لڑکی نوٹ لے کر اپنا وینٹی بیگ سنبھالنے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر فرش پر پڑی جہاں التھرے کھڑا تھا۔ اور وہ ہونٹ سکوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
"خون۔۔۔ مسٹر التھرے"۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ "آپ زخمی ہیں۔۔۔ مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کا پیر۔"
پھر اس کی نظر التھرے کی ران پر جم گئی جہاں پتلون میں سوراخ تھا۔ اور اس کے گرد خون کا ایک بڑا سا دھبہ۔۔۔
"اوہ۔۔۔ یہ کچھ نہیں۔" التھرے مسکرایا۔ "میں زخمی ہو گیا ہوں۔" اس کی گھنی مونچھیں ہونٹوں کو ڈھکے ہوئی تھیں۔ گالوں کے پھیلاؤ سے لڑکی کو اس کی مسکراہٹ کا احساس ہوا تھا۔
"کیا میں کچھ خدمت کر سکتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔ وہ بہت زیادہ متائثر نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔
گھنی مونچھوں سے التھرے کے سفید دانتوں کی قطار جھانکنے لگی وہ ہنس رہا تھا۔ "تم بہت کمزور دل کی معلوم ہوتی ہو۔ میری مدد نہیں کر سکو گی۔ میری ران میں ریوالور کی گولی موجود ہے اسے میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔ تم جاؤ!"
"میں ڈاکٹر کو فون کروں۔"
"نہیں۔۔۔ بےبی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ میں خود بھی کسی ڈاکٹر سے مدد لے سکتا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔"
"جھگڑا ہوا تھا۔"
"نہیں!" التھرے نے خشک لہجے میں کہا۔ غالباً وہ لڑکی کے سوالات سے اکتا گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اب وہ چلی ہی جائے وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ "یہ ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں یہاں آنے کی بجائے پولیس اسٹیشن جاتا۔۔۔ ہم نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ مگر تم اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔"
"اوہ نہیں مسٹر التھرے۔۔۔ مگر آپ تنہا ہیں۔۔۔ اکیلے آپ کیا کر سکیں گے کس طرح گولی نکالیں گے۔"
"اچھا تم کیا کرسکو گی۔"
"میں ایک تربیت یافتہ نرس ہوں۔۔۔ مسٹر التھرے!"
"تعجب ہے۔" التھرے کی آنکھوں سے شبہ جھانکنے لگا۔ "تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا۔ تم تو ایک اسٹینو گرافر ہو۔"
"جی ہاں! شارٹ ہینڈ میں نے اس پیشے کو ترک کرنے کے بعد سیکھا تھا۔"
"اچ۔۔۔ چھا۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ تم میری کیا مدد کر سکتی ہو"
تیسرے کمرے کی الماری کھول کر التھرے نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اسی کے ساتھ جراحی کے کچھ آلات بھی برآمد ہوئے جنہیں لڑکی نے ایک برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا۔
"مگر مسٹر التھرے!۔۔۔ گولی کون نکالے گا!"
"میں نکالوں گا۔" التھرے مسکرایا۔
"مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ ہم لوگوں کی طرح عام آدمی معلوم نہیں ہوتے!"
"اوہ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" التھرے ہنسنے لگا۔
وہ زخم کھول چکا تھا جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا اور التھرے کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہ پرسکون نظر آ رہا تھا۔ لڑکی کی حیرت اور بڑھ گئی۔
"سوزی! تم متحیر ہو؟" التھرے نے پھر قہقہہ لگایا۔ "میرا سارا جسم زخموں سے داغدار ہے۔ پچھلی جنگ میں میرے جسم کا قیمہ بن گیا تھا۔ پھر بھی میں نے ڈاکٹروں کو متحیر کرکے چھوڑا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے جسم میں کوئی خبیث روح موجود ہے۔ اگر شریف روح ہوتی تو کبھی کی پرواز کر چکی ہوتی۔"
سوزی متحیرانہ انداز میں صرف سنتی رہی کچھ بولی نہیں۔ التھرے کے برتن سے ایک چمٹی نکالی اور سوزی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ آدمی پتھر کا ہے یا فولاد کا۔۔۔ وہ اتنے ہی انہماک کے ساتھ زخم سے گولی نکالنے میں مشغول تھا جیسے ہتھیلی میں چبھی ہوئی کسی پھانس کو سوئی سے کرید رہا ہو۔ گولی کے نکلنے میں دیر نہیں لگی۔ التھرے آواز سے ہنس رہا تھا سوزی کو یہ ہنسی کچھ ہذیانی قسم کی معلوم ہوئی۔ بالکل ایسی ہی جیسے شدت درد سے کراہیں نہ نکلی ہوں قہقہے پھوٹ پڑے ہوں۔
"اب تم اپنا کام شروع کر دو!"
"مگر جناب! آپ کے فرسٹ ایڈ باکس میں مرکری کروم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"
"وہی چلنے دو۔ پروا مت کرو۔ میں اس وقت کہیں بھی نہیں جا سکتا اور نہ ڈاکٹر کو طلب کر سکتا ہوں۔" سوزی زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے نہ جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی خبیث روح کے چکر میں پڑ گئی ہو۔
ڈریسنگ ہو جانے کے بعد التھرے نے سوزی سے کہا۔۔۔ "لڑکی میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اسے ابھی سے نوٹ کرو کہ میں یورپ کے دورے پر جاتے وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے تمہارے تجربات میں اضافہ ہوگا۔"
"میں شکریہ ادا کرتی ہوں! مسٹر التھرے!" سوزی نے خادمانہ انداز میں کہا۔
"مگر دیکھو۔۔۔ تم میرے زخمی ہو جانے کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔ اس سے خدشہ ہے کہ میرا وہ دوست مصیبت میں نہ پھنس جائے۔۔۔۔ جس کی گولی سے میں زخمی ہوا تھا۔"
"میں کسی سے بھی تذکرہ نہیں کروں گی جناب!"
"شکریہ!۔۔۔ اب تم جا سکتی ہو۔"
سوزی مزید کچھ کہے بغیر فلیٹ سے نکل آئی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کے ذہن پر ایک انجانہ سا خوف مسلط ہوتا جا رہا تھا۔
---
عمران کے فون کی گھنٹی بجی، جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں درج نہیں تھے۔ اس نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے بولنے والی جولیانا فٹز واٹر تھی۔
"تنویر بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہے جناب!"
"کیسے۔۔۔ کس طرح؟"
"سراج گنج کی ایک تاریک گلی میں اسے چند نامعلوم آدمیوں نے گھیر لیا۔ غالباً وہ اسے پکڑ لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر نے فائرنگ شروع کر دی جواب میں ان لوگوں نے بھی گولیاں چلائیں تنویر کے دونوں بازو زخمی ہو گئے ہیں اور وہ اس وقت سول ہسپتال میں ہے۔ غالباً اب پولیس اس کا بیان لینے کے لئے پہنچ گئی ہوگی۔"
"کیا تنویر حملہ آوروں میں سے کسی کو پہچان سکا تھا؟"
"نہیں جناب! گلی تاریک تھی۔ یہ اس کا خیال ہے کہ اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ضرور زخمی کیا ہے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس نے کراہنے اور سسکنے کی آوازیں سنی تھیں!"
"اس کے زخموں کی حالت مخدوش تو نہیں ہے۔"
"نہیں جناب! وہ ہوش میں ہے۔"
"تم کہاں سے بول رہی ہو؟"
"سول ہسپتال سے!"
"اچھا تو اسے سمجھا دو کہ اس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہو جائے۔۔۔ بلکہ اگر وہ بڑی رقم لٹ جانے کی کہانی سنائے تو اور اچھا ہے۔"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ بیان ہو جانے کے بعد میں پھر فون کروں گی۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عمران نے ریسیور رکھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور اس طرح منہ چلاتا ہوا دوسرے کمرے مٰں چلا گیا جیسے دھوکے سے کوئی کڑوی یا کسیلی چیز کھا گیا ہو۔ اس نے اپنے نوکر سلیمان کو آواز دی چونکہ وہ تقریباً دو گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا تھا اس لئے اب اس کی زبان میں کلبلاہٹ شروع ہو گئی تھی۔
سلیمان آ گیا۔
"ابے وہ تو نے اپنے دادا کا نام کیا بتایا تھا۔ میں بھول گیا۔" عمران اس طرح بولا جیسے یاداشت پر زور دے رہا ہو۔
"کیا کیجئے گا یاد کر کے۔۔۔!" سلیمان نے بیزاری سے کہا۔
"صبر کروں گا یاد کر کے۔۔۔ توب تاتا ہے کہ یا ہم سے بحث کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نالائق!"
"گلزار نام تھا!"
"کیا داڑھی گلاب کے پھول کی شکل کی تھی؟"
"نہیں تو۔۔۔ ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی سب کی ہوتی ہے۔"
"ابے تو پھر گلزار کیوں نام تھا؟" عمران غصیلی آواز میں دھاڑا
"میں نہیں جانتا۔۔۔ آپ میرے دادا کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں!"
"اچھا۔۔۔ چل چھوڑ دیا۔۔۔ پردادا کا کیا نام ہے؟"
"مجھے نہیں معلوم۔"
"ابے تجھے اپنے پردادا کا نام نہیں معلوم۔"
"میرا پردادا تھا ہی نہیں۔" سلیمان نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"تب پھر تجھ سے زیادہ بدنصیب آدمی روئے زمین پر نہیں ملے گا۔"
"صاحب ہانڈی جل رہی ہے۔۔۔ مجھے جانے دیجئے!"
"اچھا بے ہمیں الو بناتا ہے کیا کاغذ کی ہانڈی ہے کہ جل جائے گی۔!"
"صاحب!" سلیمان اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کیا کہتا ہے؟"
"میرا حساب کر دیجئے۔۔۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔"
"حساب۔۔۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "حساب! اچھا کاغذ پنسل لے کر ادھر بیٹھ۔"
"مجھے لکھنا نہیں آتا!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جب لکھنا آ جائے تو مجھے بتانا۔۔۔ میں حساب کر دوں گا۔"
پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی اور یہ سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔
عمران نے کمرے میں جا کر کال ریسیو کی۔ فون جولیا ہی کا تھا۔
"اٹ از جولیا سر!"
"کیا خبر ہے؟"
"تنویر کا بیان ہو چکا ہے اس نے یہی لکھوایا ہے کہ اس کے پرس میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے جو چھین لئے گئے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن سنو! تم سبھوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔"
"ہم ہر وقت محتاط رہتے ہیں جناب! اگر محتاط نہ ہوتے تو تنویر کی رپورٹ غالباً آسمان سے اترتی۔ احتیاط اور حاضر دماغی ہی کی وجہ سے وہ بچ گیا ہے۔"
"خیر۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تھریسیا اور الفانسے اب شہر میں نہیں ہیں۔۔۔ یہ لوگ دھن کے پکے ہیں۔ یا تو کاغذات حاصل کریں یا اپنی جانیں دے دیں گے۔"
"تو کیا تنویر پر کیا جانے والا حملہ انہیں سے منسوب کیا جائے گا؟"
"ممکن ہے کہ یہ حملہ انہی کی طرف سے ہوا ہو۔"
"پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟"
"فی الحال اس بے تکے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔" عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
---
سوزی حسب معمول دوسری صبح آفس پہنچی۔ لیکن التھرے اپنی میز پر موجود نہیں تھا۔ سوزی نے سوچا کہ اب اس کے پیر کی تکلیف بڑھ جائے گی لہٰذا وہ اپنی مسہری سے ہلنے کی بھی ہمت نہ کر سکے گا۔ مگر پھر آفس کس نے کھولا؟ یہاں ملازم صرف تین تھے۔ ایک سوزی خود۔۔۔ دوسرا ایک کلرک اور تیسرا چپڑاسی! التھرے کا رہائشی کمرہ بھی اسی فلیٹ میں تھا اور وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ لہٰذا آفس وہی کھولتا تھا۔ یہ تینوں ملازم باہر سے آتے تھے۔
فلیٹ میں چار کمرے تھے دو کمرے التھرے نجی طور پر استعمال کرتا دو آفس کے لئے تھے۔ سوزی اپنے کمرے میں بیٹھ گئی کلرک ابھی نہیں آیا تھا اس نے چپڑاسی سے پوچھا "صاحب کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں ہوں گے۔"
"آفس کس نے کھولا تھا؟"
"صاحب نے!"
چونکہ اسے پچھلی رات کھسکا دیا گیا اس لئے وہ سوزی کو شبے کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوزی خوامخواہ دل ہی دل میں شرما رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اسے آج چپڑاسی اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔
کچھ دیر بعد کلرک بھی آ گیا لیکن التھرے کی میز خالی ہی رہی۔ کلرک نے اسے ٹائپ کرنے کے لئے کچھ کاغذات دیئے اور سوزی کام میں مشغول ہو گئی!
کلرک ایک نوجوان دیسی عیسائی تھا۔ وہ اچھی صحت رکھتا تھا اور قبول صورت بھی تھا۔ اکثر وہ سوزی کے ساتھ ہی شامیں گذارتا تھا۔
لنچ کے وقفے میں شاید چپڑاسی نے کلرک کو پچھلی رات کا واقعہ بتایا تھا۔ سوزی نے یہی محسوس کیا۔ کیونکہ لنچ کے بعد سے اس کا موڈ خراب وہ گیا تھا۔
التھرے اندر ہی تھا اور اس نے چپڑاسی سے کہلوا دیا تھا کہ آج اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آفس کو ایک گھنٹہ پہلے ہی بند کر دیا جائے۔ ساتھ ہی چپڑاسی نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ التھرے کی ہدایت کے بموجب سوزی کو وہیں رکنا ہوگا۔ کلرک نے پھر سوزی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"کل بھی تم رکی تھیں؟" اس نے کہا۔
"ہاں کل بھی رکی تھی۔"
"کیوں؟"
جرح کا یہ انداز شاید سوزی کو پسند نہیں آیا تھا۔ اس لئے برا سا منہ بنا کر کہا "کیا میں تمہیں اس کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔"
"اوہ! نہیں تو!" کلرک سپٹپٹا گیا اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوزی کی آنکھیں بلیوں سے مشابہ ہوں۔ حالانکہ اسے اس کی آنکھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے تصور کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں لاتعداد کنول کھل اٹھتے تھے۔ کنول جو حسن اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
سوزی اب بھی اسے جواب طلب نظروں سے گھور رہی تھی کلرک اپنے کام میں مشغول ہو
چکا تھا مگر اس کے چہرے پر اب بھی ملال کا غبار دیکھا جا سکتا تھا۔
ٹھیک ساڑھے تین بجے وہ اپنی میز سے اٹھ گیا۔ باہر جاتے وقت اس نے سوزی کو عجیب نظروں سے دیکھا اور سوزی سوچنے لگی آخر یہ لوگ جان پہچان اور دوستی کے معنی غلط کیوں لیتے ہیں۔ وہ اس کے اس رویہ کا مطلب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ لیکن اس کی دانست میں ان کا ملنا جلنا ان حدود میں ابھی تک داخل نہیں ہوا تھا جہاں طرفین ایک دوسرے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ سوزی اس وقت زیادہ جھلا گئی جب اس نے رخصت ہوتئے وقت چپڑاسی کی آنکھوں میں بھی وہی سوال پڑھا۔
"جہنم میں جاؤ۔" وہ زیر لب بڑبڑائی۔
یہ حقیقت ہے کہ وہ التھرے تک پہنچنے کے لئے بیچین تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پچھلی رات کا دلیر آدمی اب کس حال میں ہے وہ جانتی تھی کہ اب اس میں بستر سے ہلنے جلنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی ہوگی۔
اس نے بیرونی دروازہ بند کیا اور التھرے کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ صبح اس خیال سے وہاں نہیں گئی تھی کہ ممکن ہے التھرے اسے ناپسند کرے۔ ویسے اس نے یہ ضرور سوچا تھا کہ التھرے اس کی مدد کے بغیر پٹیاں بھی تبدیل نہیں کر سکے گا۔ پھچلی رات تو چوٹ تازہ تھی مگر اب اس کی ہمت بھی ساتھ دینے سے قاصر ہوگی۔
کمرے کے دروازے پر اس نے رک کر ہلکی سی دستک دی۔
"آجاؤ!" اندر سے الھترے کی آواز آئی۔
لیکن وہ اندر پہنچ کر ایک بار پھر متحیر رہ گئی۔ کیونکہ التھرے اس کے داخل ہونے سے پہلے شائد ٹہل رہا تھا۔
سوزی کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔ اور سوزی کچھ بوکھلا سی گئی۔
"میں دراصل۔۔۔ پٹی تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ اور زخم بھی اگر دھل جائے تو بہتر ہے۔"
"شکریہ!" التھرے ایک کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ "بیٹھ جاؤ! میں زخم بھی دھو چکا ہواں اور پٹی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔"
"آپ سچ مچ کمال کرتے ہیں۔" سوزی نے کہا۔
"میں نے تمہیں اس وقت ایک ضرورت سے روکا ہے۔"
"فرمائیے!"
"میرا ایک خط میری بیوی تک پہنچا دو۔"
"بیوی!" وہ حیرت سے دہرا کر رہ گئی۔
"ہاں کیوں؟" التھرے مسکرایا۔ "اس میں متحیر ہونے کی کیا بات ہے!"
"اوہ۔۔۔ جناب میں ابھی تک یہ سمجھتی تھی کہ آپ کنوارے ہوں گے۔"
"یہ غمناک کہانی ہے۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔" سوزی ہونٹ سکوڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"وہ مجھ سے خفا ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو
شائستہ ہوں۔۔۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہوں۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو میری طرح وحشی
نہ ہوں۔ اگر ان کی ٹانگ میں بھی ریوالور کی گولی لگے تو اسی جگہ ٹھنڈے ہو جائیں ہاں
بےبی۔۔۔٬" التھرے کی آواز غمناک ہو گئی۔
"مجھے حیرت ہے جناب کہ مسز التھرے کس قسم کی عورت ہیں۔" سوزی نے کہا۔ "نہ جانے وہ
عورتیں کیسی ہیں جنہیں زنانہ اوصاف کے مرد پسند ہیں۔"
"ایسی بھی ہوتی ہیں بے بی۔۔۔ میں انہیں عورتیں کہنے کو تیار ہی نہیں۔"
"آپ مجھے خط دیجئے۔۔۔ میں پہنچا دوں گی۔"
"شکریہ سوزی۔۔۔" التھرے بولا۔ "میں اب یہ جھگڑا ہی ختم کر دینا چاہتا ہوں میں اسے آخری
خط بھیج رہا ہوں۔ کیوں کیا خیال ہے تمہارا۔ اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتی تو قانونی طور پر
علیحدگی ہی بہتر ہوگی۔"
"اوہ۔۔۔ نہیں! اگر سمجھوتہ ہو جائے تو بہتر ہے۔" سوزی نے کہا۔
"نہیں وہ آدمی جو ہمارے درمیان آ گیا ہے اسے راستے سے ہٹائے بغیر یہ ناممکن ہے۔۔۔ لیکن
میری نظروں میں قانون کا احترام بہت زیادہ ہے۔۔۔ میں اسے قتل نہیں کر سکتا۔"
دفعتاً سوزی مسکرائی اور بولی "حکمت عملی جناب۔۔۔ قتل کی کیا ضرورت ہے کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ تشدد کے بغیر ہی آپ دونوں کے درمیان سے ہٹ جائے۔"
"نہیں!" التھرے مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ "اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔ مگر ٹھہرو۔ اگر کوئی عورت ان دونوں کے درمیان آجائے۔۔۔ تو۔۔۔ شائد دیکھو۔۔۔ بے بی۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے سلوانا پر۔۔۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ نامعقول آدمی اسے اتنا کیوں پسند ہے۔ ارے وہ بالکل احمق ہے اسے کسی بات کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔ وہ سبز پتلون پر سرخ قمیض پہنتا ہے۔ زرد ٹائی لگاتا ہے اور نیلا فلٹ ہیٹ۔۔۔ کسی سرکس کا مسخرہ معلوم ہوتا ہے نہ اس کے جسم میں قوت ہے اور نہ کھوپڑی میں مغز!"
"سچ مچ!" سوزی پلکیں چھپکاتی ہوئی بولی۔
"ہاں بے بی۔ میں غلط نہیں کہہ رہا اور وہ ایک دیسی ہے یورپین بھی نہیں۔"
"تب تو شاید۔ معاف کیجئے گا۔ مجھے مسز التھرے صحیح الدماغ نہیں معلوم ہوتیں۔"
"مگر سوزی۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ میں اسے بہت چاہتا ہوں۔"
"کیا میں اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہوں؟"
"تم کیا کر سکو گی؟" التھرے تشویش کن لہجے میں بولا۔
"آپ مجھے اس آدمی کا پتہ بتائیے! شاید میں کچھ کر سکوں۔"
"ٹھہرو! مجھے سوچنے دو۔ میرا خیال ہے کہ تم بہت کچھ کر سکتی ہو۔" التھرے ہاتھ اٹھا کر بولا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "ایک تدبیر سمجھ میں آئی ہے۔۔۔ مگر میں اسے برا سمجھتا ہوں کیونکہ تم ایک شریف لڑکی ہو۔"
"میں اپنی حفاظت بخوبی کر سکتی ہوں مسٹر التھرے۔۔۔ اور میری شرافت بھی برقرار رہ سکتی ہے لیکن یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ اگر میری وجہ سے آپ دونوں کی ازدواجی زندگی پرمسرت گزرسکے۔"
"شکریہ! بےبی!"
"اب آپ مسز التھرے کو آخری خط لکھنے کا ارادہ ترک کر دیجئے۔"
"نہیں بے بی! اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔"
"آپ مجھ پر اعتماد کیجئے میں ایک ہی ماہ کے اندر ہی اندر اسے آپ کے راستے سے ہٹا دوں گی۔"
"کیسے ہٹا دو گی۔؟"
"اوہ۔۔۔ آپ اعتماد کیجئے نا مجھ پر۔۔۔ میں نرس بھی رہ چکی ہوں۔ شاید میں مختلف مردوں کے متعلق بہت کچھ جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ انہیں کس طرح شکست دی جا سکتی ہے۔"
"لیکن اگر تم اپنا کوئی نقصان کر بیٹھیں تو مجھے گہرا صدمہ ہوگا۔"
"آپ فکر نہ کیجئے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔"
"اچھا بے بی!" التھرے نے ایک طویل سانس لی۔ ایک لحظہ خاموش رہا اور پھر بولا۔ "تم اس سے فی الحال دوستی کرلو پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ آپ مجھے اس کا نام اور پتہ تو بتائیے۔"
"اس کمبخت کا نام ہی تو مجھے یاد نہیں رہتا۔" التھرے نے کہا۔ "مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہر شام ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں ضرور ہوتا ہے۔ زیادہ تر اپنی میز پر تنہا بیٹھا نظر آتا ہے!۔۔۔ ارے وہ صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔ بےبی اور ہمیشہ بے ڈھنگے کپڑے پہنتا ہے۔"
"مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کلب میں ایسے کسی آدمی کو کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہے۔"
"دیکھا ہوگا۔۔۔ وہ ہزاروں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے۔"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جناب۔۔۔ آپ مطمئن رہئے۔"
"میں ہمیشہ تمہارا مشکور رہوں گا۔۔۔ مگر ہاں دیکھو۔۔۔ اب تم آفس نہ آنا۔۔۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے بعد ہی تم یہاں آنا ورنہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔"
"ارے۔۔۔ اگر وہ احمق ہی ہے تو اتنی دوا دوش کہاں کر سکے گا کہ میری متعلق اسے کچھ معلوم ہو جائے؟"
"سلوانا بہت ذہین ہے بے بی۔۔۔ اگر اسے شبہ بھی ہو گیا کہ تمہارا کوئی تعلق مجھ سے ہے تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"
"سلوانا۔۔۔ نام ہے مسز التھرے کا؟"
"ہاں۔۔۔ اس کا نام بھی کتنا پیارا ہے کیوں!" التھرے نے والہانہ انداز میں کہا۔۔۔ پھر اس طرح ہنسنے لگا جیسے اس سے کوئی حماقت سرزد ہوئی ہو۔
"اچھی بات ہے۔ میں یہاں نہیں آؤں گی۔ مگر میرا کام کون کرے گا!"
"کوئی دوسرا آجائے گا تم اس کی فکر نہ کرو۔ بس اس سے کسی نہ کسی طرح دوستی کر لو اور ٹھہرو!" وہ اٹھ کر میز کی طرف گیا۔ اس کی دراز کھولی اور اس میں سے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر سوزی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "یہ رکھ لو بے بی۔ تمہارے کام آئیں گے۔"
سوزی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
اگر وہ سارے سو سو کے نوٹ تھے تو وہ گڈی کم از کم پانچ ہزار کی ہی ہو سکتی تھی!
"یہ تو بہت بڑی رقم معلوم ہوتی ہے جناب۔۔۔" سوزی نے حیرت سے کہا۔
"سلوانا کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میں اپنی ساری دولت صرف کر سکتا ہوں۔۔۔ تم اسے رکھو۔۔۔ اس کا کوئی حساب تم سے نہیں طلب کیا جائے گا۔"
"یہ بہت ہے جناب! اسے آپ رکھئے۔۔۔ جب ضرورت ہوگی! طلب کر لوں گی۔"
"نہیں تم ہی رکھو۔۔۔ مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے!"
"اعتماد کے لئے میں شکر گزار ہوں جناب!"
جولیانا فٹز واٹر نے ایکس ٹو کے پرائیوٹ نمبر ڈائل کئے اور دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔"یہلو!"
"جولیا اسپیکنگ سر!"
"ہاں کیا کیا بات ہے؟"
"تنویر کی حالت بہتر ہے؟"
"دیکھو! ہوشیار رہو! الفانسے اور تھریسیا یہاں سے گئے نہیں! یہیں ہیں میرا خیال ہے کہ ان کا گروہ ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن وہ دونوں ابھی تک کٹے پتنگوں کی طرح یہیں ہچکولے لے رہے ہیں اور یہ تم جانتی ہو کہ جھنڈ سے بچھڑے بھیڑیئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔"
"میں جانتی ہوں جناب! پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"تھریسیا کو تلاش کرو۔"
"آپ نے بتایا تھا کہ وہ پچھلی بار میک اپ میں نہیں تھی۔"
"ہاں! میرا خیال ہے وہ کبھی میک اپ میں نہیں رہتی۔ جب عمران نے اسے پہچان لیا تھا تو تم بھی پہچان سکو گی۔۔۔ مگر یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے!"
"کیوں؟"
"اس کے چہرے کی بناوٹ عجیب ہے اور اس سے وہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر وہ یونہی اپنا نچلا ہونٹ تھوڑا سا بھینچ لے تو تم قیامت تک اسے نہیں پہچان سکتیں۔ اس تھوڑی سی تبدیلی کا اثر اس کے سارے چہرے پر پڑے گا۔"
"کیا یہی وجہ ہے کہ وہ بچی پھرتی ہے۔"
"قطعی۔۔۔ یہی وجہ ہے۔"
"پھر اسے تلاش کر لینا آسان کام نہیں ہے۔"
"کچھ مشکل نہیں ہے۔۔۔ تھوڑا صبر کرو۔۔۔ مجھے تھریسیا سے زیادہ الفانسے کی فکر ہے اور وہ دوسرا آدمی سسیرو۔۔۔"
"تو پھر ہم فی الحال خاموش بیٹھیں؟"
"بالکل۔۔۔ ضرورت سمجھی تو تمہیں مطلع کیا جائے گا۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس بار میں دوسرے ذرائع اختیار کروں۔"
"کیا عمران۔۔۔!"
"ہاں۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔ اچھا بس۔۔۔" دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
سوزی دل کی بری نہیں تھی۔ اس نے اس کا ذمہ محض اس لئے لیا تھا کہ التھرے اور سلوانا کے تعلقات پھر بہتر ہو جائیں۔ اس کی دانست میں وہ آدمی گنہگار تھا جو ان دونوں کے درمیان میں آ گیا تھا لہٰذا وہ اسے ہر طرح سے زک دینا جائز سمجھتی تھی۔
وہ اسی کے متعلق سوچتی ہوئی ٹپ ٹاپ کلب میں پہنچی، اس کی وینٹی بیگ میں ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ اس سے پہلے وہ شائد دو یا تین بار یہاں آئی تھی کیونکہ یہاں ذی حیثیت آدمیوں کے علاوہ دوسروں کا گزر مشکل ہی تھا۔ لیکن وہ سوچ کر آئی تھی کہ آج ہی کلب کی مستقل ممبر بن جائے گی۔
وہ مینجر کے کمرے میں داخل ہوئی۔ لیکن وہ موجود نہیں تھا۔ سوزی کو کچھ دیر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنا پڑا۔ مینجر کی آمد پر وہ کچھ مایوس سی ہو گئی۔ کیونکہ ممبر بننے کی شرائط میں یہ بھی تھا کہ کم از کم دو پرانے ممبران سے شناسائی ضرور ہو۔
"مجھے یہاں کوئی نہیں جانتا۔" سوزی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا "میں ابھی حال ہی میں ملایا سے یہاں آئی ہوں۔"
"دیکھئے۔۔۔ یہاں اجنبی بھی آتے ہیں۔ اکثر ایسے بھی آتے ہیں جو آج آئے پھر برسوں کے بعد ہی ان کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر وہ لوگ ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں جو مستقل ممبران کو حاصل ہیں اور وہ سہولتیں کسی کی ضمانت کے بغیر دی ہی نہیں جاسکتیں۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ ممبری کے فارم پر کم از کم دو پرانے ممبران کی سفارش ہو۔۔۔ یعنی وہ سفارش کرنے والے دراصل ضامن ہوتے ہیں!"
"اگر میں نقد ضمانت ادا کر دوں تو!"
"اوہ یقیناً۔۔۔ یقیناً۔۔۔ جب آپ کی ممبری ختم ہوگی ضمانت واپس کر دی جائے گی۔"
"رقم بتائیے!"
"صرف پانچ سو۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ یہ دراصل ضابطے کی کاروائیاں ہیں۔ ورنہ یہاں سبھی معزز لوگ ہیں۔ غالباً آپ میرا مطلب سمجھ گئی ہوں گی۔"
سوزی اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے سو سو کے پانچ نوٹ نکال چکی تھی مینجر نے اس کا شکریہ ادا کرکے پانچ سو کی رسید دی اور ممبری کا فارم بڑھاتا ہوا بولا "آپ یہاں کی زندگی کو دلچسپ پائیں گی۔ ملایا سے تشریف لائی ہیں آپ!"
"جی ہاں۔۔۔ مگر دیکھئے۔۔۔ میں یہاں کسی سے واقف نہیں ہوں اور یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ بغیر کسی تعارف کے خود سے جان پہچان پیدا کروں!"
"اوہ آپ اس کی فکر نہ کیجئے۔۔۔ میں یہاں کے بہترین ممبران سے آپ کا تعارف کراؤں گا۔"
"شکریہ!" سوزی نے کہا اور فارم کی خانہ پری کرنے لگی پھر اپنے دستخط کئے۔ مینجر نے فارم لے کر اس پر ایک نظر ڈالی اور اسے رجسٹر میں رکھتا ہوا بولا۔ "شکریہ"
"مگر دیکھئے میں اپنے گرد زیادہ بھیڑ نہیں پسند کرتی۔ کسی ایک آدمی سے تعارف کرا دیجئے جو بہت دلچسپ ہو۔ میں صرف تفریح چاہتی ہوں۔"
"اوہ!" مینجر ہونٹ سکوڑ کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر پلکیں چھپکاتا ہوا مسکرایا۔
"کیا آپ کسی بیوقوف آدمی سے ملنا پسند کریں گی۔"
سوزی کا دل دھڑکنے لگا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا جس کا بیڑہ اس نے اٹھایا تھا۔ بیوقوف آدمی کا نام سنتے ہی اس کے جسم میں ہلکی سی تھرتھری پیدا ہو گئی۔ لیکن اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"ایک ایسا آدمی جس کی باتوں پر آپ ہنستی رہیں گی۔"
"اوہ ضرور۔ ضرور۔۔۔ مگر کیا وہ بیوقوف ہے؟"
"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔ ویسے بیوقوف ہی معلوم ہوتا ہے!"
"ضرور ملائیے! اس سے۔۔۔ پھر بعد کو تو دوسروں سے بھی جان پہچان ہو ہی جائے گی۔"
"چلئے! میرا خیال ہے کہ وہ آ ہی گیا ہوگا۔ آج کل نہ جانے کیوں روزانہ آ رہا ہے!"
سوزی نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن خاموش ہی رہی۔ وہ دراصل یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی عورت بھی ہوتی ہے یا وہ تنہا ہوتا ہے۔
وہ ڈائیننگ ہال میں آئے۔ مینجر نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں "ابھی نہیں آیا مگر میرا خیال ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔ آج کل ناغہ نہیں کرتا۔ آئیے! ادھر بیٹھئے!"
وہ دونوں بیٹھ گئے اور مینجر نے مسکرا کر کہا "میں پہلی بار ہر نئے ممبر کی دعوت ضرور کرتا ہوں۔۔۔ یہ رہا مینیو۔۔۔"
"اوہ! شکریہ! مگر میں کھانا تو کھا چکی ہوں۔"
"پھر کیا پئیں گی آپ!"
"میرا خیال ہے کہ کافی بہتر رہے گی۔ میں شراب بالکل نہیں استعمال کرتی۔"
"یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔"
اس کے بعد وہ ملایا کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ ممکن ہے کبھی سوزی ملایا میں بھی رہی ہو۔ ورنہ وہ اتنی صفائی سے اپنے متعلق جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کرتی۔
دفعتاً مینجر نے کہا "وہ آگیا۔"
سوزی کی نظر صدر دروازے کی طرف اٹھی۔ ایک خوشرو نوجوان اندر داخل ہوا تھا۔ لیکن التھرے کے بیان کے مطابق اس کے لباس میں کسی قسم کی بدوضعی نظر نہیں آئی۔ وہ نیلے سوٹ اور بے داغ سفید قمیض اور ایک سادہ ٹائی میں بڑا دلکش لگ رہا تھا۔
دروازے کے قریب کھڑے ہوئے ویٹر نے اسے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ اس نے بھی ہاتھ ہی اٹھا کر جواب دیا اور پھر اسی گرمجوشی سے مصافحہ کرنے لگا جیسے بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ لیکن پھر بوکھلائے ہوئے انداز میں دوسری طرف مڑ گیا۔ بالکل اس طرح جیسے غلطی کا احساس ہو گیا ہو۔ ویٹر سر کھجاتا، اور کنکھیوں سے دوسروں کو دیکھتا ہوا کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا۔
"دیکھا آپ نے!" مینجر مسکرا کر بولا۔
"جی ہاں!" سوزی نے آہستہ سے کہا۔ اور مسکرائی۔ اس کی نگاہ برابر اس نوجوان کا تعاقب کر رہی تھی۔ پھر اس نے اسے ایک خالی میز کے قریب بیٹھتے دیکھا۔
"کیوں ہے نا دلچسپ!" مینجر نے کہا۔
"ہاں! معلوم تو ہوتا ہے۔۔۔ کچھ نروس قسم کا آدمی ہے۔"
مینجر نے اس خیال پر رائے زنی نہیں کی۔ وہ دونوں خاموشی سے کافی پیتے رہے۔ سوزی نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے لوگ اس آدمی کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں لیکن وہ اس انداز میں کچھ کھویا سا بیٹھا ہے جیسے اپنے گردوپیش کی خبر ہی نہ ہو۔
"پھر تعارف کرادیا جائے اس سے؟"
"ضرور۔ ضرور۔۔۔ یہ تو صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔"
مینجر پھر خاموش ہی رہا۔ وہ دونوں اٹھ کر اس کی میز کے قریب آئے وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔
"آپ سے ملئے!" مینجر نے عمران کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہا۔ "آپ مسٹر علی عمران۔۔۔ اور آپ مس سوزی!.
عمران نے مینجر ہی سے مصافحہ کر ڈالا۔ پھر "سوری" کہہ کر سوزی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سوزی اس بوکھلاہٹ پر بے اختیار ہنس پڑی۔
"تشریف رکھئے۔۔۔ تشریف رکھئے!" عمران نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ بیٹھ گئے۔ مینجر نے اسے بتایا کہ سوزی حال ہی میں ملایا سے آئی ہے۔
"اوہو! ملایا۔۔۔ کیا کہنے ہیں۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "مجھے وہاں برف گرنے کا منظر بہت حسین معلوم ہوتا تھا۔"
":برف!" سوزی نے حیرت سے کہا۔ "وہ تو خط استوا سے قریب ہے۔ وہاں برف کب پڑتی ہے۔"
"ارے۔۔۔ لاحول۔۔۔ مجھے ہمالیہ کا خیال تھا۔۔۔ ملایا میں نہیں گیا۔"
"ضرور جائیے۔۔۔ اگر کبھی موقع ملے۔۔۔ وہاں کے مناظر آپ بہت پسند کریں گے۔"
"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔"
وہ دونوں ۃی خاموش ہو گئے۔ سوزی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کہے اور عمران بار بار کنکھیوں سے مینجر کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج یہ نئی بات کیوں؟ اس سے پہلے مینجر نے کسی لڑکی سے عمران کا تعارف نہیں کرایا تھا۔
مینجر شاید سمجھ گیا تھا اس نے جلدی سے کہا۔ "مس سوزی کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف چاہتی تھیں۔"
"اوہا۔۔۔" عمران بھدے پن سے ہنسنے لگا پھر بولا۔ "کیا میں واقعی دلچسپ ہوں۔"
"اتنی جلدی کیسے اندازہ ہو سکتا ہے۔" سوزی مسکرائی۔ "یہ اقدام تو انہوں نے اپنے تجربے
کی بناء پر کیا تھا۔"
"جی ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے۔" عمران نے سر ہلا کر کہا۔
وہ پھر ہونٹ پر ہونٹ جما کر بیٹھ گیا۔ مینجر انہیں وہیں چھوڑ کر جا چکا تھا اور سوزی سچ مچ بور ہو رہی تھی۔ کیونکہ عمران کچھ ایسے انداز میں خاموش بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنے کسی عزیز کی موت کی خبر سنی ہو۔
"آپ تو غیر دلچسپ ثابت ہو رہے ہیں جناب!" سوزی اٹھلائی۔
"ارے۔۔۔ ہاں وہ۔۔۔ میں دراصل بھول ہی گیا تھا۔"
"کیا بھول گئے تھے؟"
"یہی کہ ہم دونوں پہلی بار ملے ہیں بات دراصل یہ ہے مس سوجی۔"
"سوجی نہیں۔۔۔ سوزی!"
"اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔ مجھے دراصل بھول جانے کا مرض ہے۔"
"کوئی بات نہیں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔۔۔ میں آپ کا شہر دیکھنا چاہتی ہوں"
"ضرور دیکھئے۔۔۔ یہ بہت اچھا شہر ہے۔۔۔ آپ کبھی اونٹ پر بھی بیٹھی ہیں؟"
"اونٹ پر؟" سوزی نے حیرت سے کہا اور اس مضحکہ خیز سوال پر ہنس پڑی۔
"جی ہاں۔۔۔ اونٹ پر۔۔۔ آپ اونٹ نہیں سمجھتیں۔۔۔ کیا ملایا میں نہیں ہوتے اونٹ۔۔۔ اونٹ ایک اونچا جانور ہے اور جھولا جھولتا ہوا چلتا ہے مجھے تو بہت پسند ہے یہ جانور۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی کار میں ایک اونٹ جوت دوں!"
"مگر آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟"
"بس یونہی۔۔۔ میں ہر آدمی سے یہ سوال کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جو ایک بار بھی اونٹ پر نہیں بیٹھا۔ اس نے اپنی اتنی زندگی برباد کی ہے۔"
"کیوں؟"
"پتہ نہیں۔۔۔ میں یہی محسوس ہوں، بہتیری ایسی باتیں محسوس کرتا ہوں جنہیں سن کر لوگ مجھے احمق سمجھتے ہیں لیکن اب میں کیا کروں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے لیکن وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں محسوس ہوتا ہے۔"
"آپ واقعی دلچسپ ہیں۔" سوزی مسکرائی۔
"شکریہ!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔
"آپ کا مشغلہ کیا ہے؟"
"آثار قدیمہ کی کھدائی کرنا۔"
"اوہ!"
"جی ہاں! اب تک کئی نادر روزگار چیزیں زمین سے برآمد کر چکا ہوں۔ پچھلے دنوں اپنے باغ کی کھدائی کر رہا تھا کہ ایک چالیس ہزار سال پرانا حقہ برآمد ہوا لیکن اب اس کے متعلق ایک لمبی بحث چھڑ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ حقہ ہے لیکن دوسرے ماہرین آثار قدیمہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حقہ نہیں بلکہ اسپرے مشین ہے۔"
"بھلا حقہ اور اسپرے مشین میں کیا علاقہ۔۔۔"
"کوئی نہیں! مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی ایک مرغیوں کا ڈربہ بھی نکل آیا ہے جو آدھا رنگین اور آدھا سادہ۔۔۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ڈربے پر اسپرے مشین سے رنگ کیا جا رہا تھا کہ ٹھیک اسی وقت طوفان نوح آگیا اس لئے رنگائی پوری نہیں ہوسی۔"
"کمال ہے بھلا یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ وہ طوفان نوح کے وقت کی چیزیں ہیں۔"
"ہرگز نہ معلوم ہوتا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈربے سے دو چار مچھلیوں کے کانٹے نکل آئے۔ میں کیا بتاؤں۔ پہلے مجھے دھیان نہیں آیا تھا ورنہ وہ کانٹے چپ چاپ کھسکا دیتا اور میری تھیوری بے چوں و چرا تسلیم کر لی جاتی۔ اب میں اسے حقہ کسی طرح ثابت نہیں کر سکتا۔ میری بہت بڑی شکست ہوئی ہے کاش میں جلدی ہی کوئی دوسری چیز برآمد کر کے اس شرمندگی کو مٹا سکتا۔" عمران یہ سب بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا اور سوزی اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"خیر مس چوزی دیکھا جائے گا۔" عمران نے انگڑائی لی۔
"سوزی پلیز! آپ بار بار میرا نام بھول جاتے ہیں۔"
"اوہ۔۔۔ معاف کیجئے گا"۔۔۔ عمران نے اپنا کان اینٹھ کر داہنے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔ قرب و جوار کے لوگ چونک کر ہنسنے لگے اور عمران اس طرح چونکا جیسے وہ کسی اور بات پر ہنسے ہوں۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا پھر جھک کر آہستہ سے بولا "کیا ہوا؟"
سوزی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے۔ ویسے وہ بری طرح جھینپ رہی تھی کیونکہ اب لوگ اسے بھی گھورنے لگے تھے۔
"آپ نے اپنے گال پر تھپڑ۔۔۔ مم مارا تھا۔" سوزی ہکلائی۔
"ان گدھوں کے منہ پر تو نہیں مارا تھا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا "آخر یہ ہنستے کیوں ہیں"
اس پر سوزی کو ہنسی آگئی۔
"اچھا۔۔۔ آپ بھی ہنس رہی ہیں۔ خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب لوگ تم پر ہنسنے لگیں تو تم سمجھ لو کہ تم ان سب کو نیچا دکھا سکتے ہو۔"
سوزی اس دوران میں یہ بھی بھول گئی تھی اس آدمی سے ملنے کا مقصد کیا تھا۔
"کنفیوشس کو پڑھا ہے آپ نے؟" وہ بولی۔
"کیا کنفیوشس کوئی کتاب ہے؟" عمران نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ "آپ مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی اجازت میں ہرگز نہیں دے سکتا۔"
"اوہ۔۔۔ آپ تو خفا ہوگئے۔۔۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا!"
"کیا مطلب تھا۔۔۔ آپ کا؟"
"کچھ بھی نہیں آپ تو پیچھے پڑ گئے۔"
"اوہ۔۔۔ تو آپ مجھے۔۔۔ پاگل کتا بھی سمجھتی ہیں۔۔۔ کیوں؟"
"ارے۔۔۔ کمال کرتے ہیں آپ۔"
"کیا کمال کرتا ہوں۔۔۔ کمال کرتی ہیں آپ۔۔۔ مجھے پاگل۔۔۔ بددماغ۔۔۔ بیوقوف اور نہ جانے۔۔۔ کیا کیا سمجھ لیا ہے آپ نے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ مینجر کا بچہ مجھے پریشان کرنا چاہتا ہے۔ میں اس سے سمجھ لوں گا۔"
عمران اپنی جگہ سے اٹھا اور سوزی کے احتجاج کی پروا کئے بغیر ڈائیننگ ہال سے چلا گیا۔
سوزی خاموش بیٹھی رہی۔ اور اب اسے یاد آیا کہ وہ یہاں کیوں آئی تھی۔
وہ سوچنے لگی۔ یہ تو سو فیصدی کریک معلوم ہوتا ہے۔ پھر شاید التھرے کی بیوی بھی پاگل ہی ہے جو التھرے جیسے۔۔۔ ذہین۔۔۔ طاقتور۔۔۔ اور۔۔۔ غیر معمولی قوت برداشت رکھنے والے آدمی کو چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھی۔ اور کلب کے باہر نکل کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ میں آئی۔ التھرے کے نمبر ڈائیل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولی
"مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔۔۔ سوزی اسپیکنگ۔۔۔"
"ہیلو۔۔۔ بے بی۔۔۔ کیا بات ہے؟"
"اس کا نام عمران ہی ہے نا!"
"ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ یہی نام ہے۔۔۔ بے بی۔۔۔!"
"میں اس سے اس وقت ملی ہوں۔۔۔ وہ تو پاگل ہے۔۔۔ سو فیصدی پاگل۔۔۔"
"ہاں مجھے بھی یہی معلوم ہوا تھا۔"
"پھر معاف کیجئے گا۔۔۔ شاید مسز التھرے بھی اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔ آپ مطمئن رہیئے۔۔۔ میں اس سے سمجھ لوں گی۔"
"بس تمہیں۔۔۔ تمہیں اتنا ہی کرنا ہے۔۔۔ کہ اسے مگر نہیں۔۔۔ ابھی تم اس سے ملتی رہو۔"
"بہت بہتر۔۔۔" سوزی نے ریسیور رکھ دیا۔ اور بوتھ سے باہر نکل آئی!
تیسری شام بھی جب سوزی آ ٹکرائی تو عمران کو اس کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا پڑا۔اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ شاید عمران پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتی کیونکہ وہ پچھلے دو دنوں سے برابر حماقت کی بجائے چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ حماقت تو تفریح کا سامان پیدا کرتی ہے مگر چڑچڑاہٹ برداشت کرنا شاید کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔
پھر وہ کس ٹائپ کی لڑکی تھی کہ عمران کی چڑچڑاہٹوں سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اس کا پیچھا چھوڑتی نظر نہیں آتی تھی۔
عمران نے سب سے پہلے مینجر سے اس کے متعلق پوچھ گچھ کی لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ایک نئی ممبر تھی اور اس نے کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مصلحتاً عمران نے اس کے متعلق زیادہ گفتگو نہیں کی۔ بہرحال وہ لڑکی اس وقت بھی اس کے سر پر مسلط تھی اور عمران سوچ رہا تھا کہ اس طرح مل بیٹھنے کی غرض و غائت کیا ہو سکتی ہے۔
"آپ آج بہت خاموش ہیں۔" لڑکی نے چھیڑا۔
"پتہ نہیں۔ مجھے تو نہیں محسوس ہوتا کہ میں خاموش ہوں۔" عمران کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ نظر آئی۔۔۔ چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا۔ "آپ ملایا کب واپس جائیں گی؟"
"کیوں؟"
"بس یونہی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کو واپس چلا جانا چاہئے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"میں بہت پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھ سے وجہ نہ پوچھا کیجئے۔۔۔ وجہ جب میری ہی سمجھ میں نہیں آتی تو آپ کو کیا بتاؤں!"
"خیر چھوڑیئے۔۔۔ آج میں آپ کو اپنے گھر لے چلنا چاہتی ہوں۔"
"گھر اپنا ہو یا دوسرے کا۔۔۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔"
"پھر کیا آپ کی راتیں آسمان کے نیچے گزرتی ہیں؟"
"نہیں۔۔۔ آسمان پر گزرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ رات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔"
"ضرور کہا ہوگا۔" لڑکی جلدی سے بولی۔ "اٹھیئے چلئے میرے ساتھ۔۔۔"
"آپ کے گھر پر اور کون ہے؟"
"کوئی بھی نہیں۔۔۔ میں تنہا رہتی ہوں۔"
"ارے باپ رے!" عمران نے اردو میں کہا۔
اور لڑکی بولی۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"آج نہیں کل!" عمران نے کہا۔
"آج کیوں نہیں۔۔۔" سوزی نے کہا۔
"آج میری بکری بچہ دینے والی ہے۔"
"اوہ۔۔۔ کیا یہ گندہ شوق بھی رکھتے ہیں آپ؟"
"یہ گندہ شوق ہے؟" عمران نے جھلا کر بولا۔
"یقیناً!" لڑکی مسکرائی۔
"بس اب براہ کرم مجھے زیادہ غصہ نہ دلایئے!"
"آپ عجیب ہیں۔"
"آپ خود عجیب ہیں بلکہ عجیب ترین۔۔۔"
ٹھیک اسی وقت جولیانا فٹز واٹر ڈائیننگ ہال میں داخل ہوئی اور سیدھی عمران کی میز کی طرف چلی آئی لیکن میز کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹھکی۔ کیونکہ عمران کے ساتھ کسی تفریح گاہ میں کسی لڑکی کا ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی۔۔۔ اور پھر لڑکی بھی سفید فام۔۔۔
"اوہو۔۔۔ کیا میں مخل ہو رہی ہوں؟۔۔۔ مسٹر عمران۔۔۔" اس نے عمران کو مخاطب کیا۔
"نیہں تو۔۔۔ ویسے یہ" عمران نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا "میرے دماغ میں خلل ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔"
سوزی گڑبڑا گئی۔ اس نے احتجاج کے لئے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ جولیا بول پڑی۔ "وہ تو ظاہر ہی ہے اسے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال میں تمہاری اجازت کے بغیر یہاں بیٹھ رہی ہوں۔"
سوزی جولیا کو دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا مسز التھرے یہی ہے۔۔۔ جولیانا فٹز واٹر بہت دلکش عورت تھی۔ سوزی اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن نام یاد نہ آیا۔ ویسے اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ مسز التھرے ہی ہے۔ عمران خاموش ہو گیا تھا۔
"آپ کی تعریف؟" جولیا نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا۔
"اوہ! مجھے سوزی کہتے ہیں۔" وہ جلدی سے بول پڑی۔ "ابھی حال ہی میں ملایا سے آئی ہوں او رتین دن ہوئے آپ کے کلب کی ممبر بنی تھی۔ مسٹر عمران کلب کے دلچسپ ترین آدمی ہیں۔"
جولیا نے ایک طویل سانس لی اور کنکھیوں سے عمران کی طرف دیکھتی ہوئی بولی "میں جولیانا فٹز واٹر ہوں۔۔۔ مسٹر عمران واقعی بہت دلچسپ آدمی ہیں۔"
"کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب دو عورتیں بیک وقت تمہیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو، جو ان کے بیان کی تصدیق کر سکے۔"
"سوزی ہنسنے لگی پھر جولیا سے بولی "یہ کنفیوشس کے اسپیشلسٹ ہیں۔"
"یہ کس چیز کے اسپیشلسٹ نہیں ہیں؟" جولیا نے سوال کیا۔
سوزی پھر ہنسنے لگی۔ لیکن عمران قطعی بے تعلقانہ انداز میں بیٹھا رہا۔ جولیانا اسے چھیڑ چھیڑ کر بولنے پر اکساتی رہی۔ اس سے سوزی نے اسے مسز التھرے سمجھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ عمران کو اس کی پروا بھی نہیں ہے۔ خود وہی اس کے پیچھے لگی ہے۔ ان تین دنوں میں سوزی نے یہ بھی محسوس کیا کہ کریک ہونے کے باوجود وہ جنس مخالف کے لئے خود میں کافی کشش رکھتا ہے۔
سوزی اب اٹھ جانا چاہتی تھی۔ نہ جانے کیوں وہ التھرے کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ عمران شاید مسز التھرے کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ خود ہی اس کے پیچھے دم ہلاتی پھرتی ہے۔"
"اچھا۔۔۔ اب اجازت دیجئے!" وہ اٹھتی ہوئی بولی۔
"بیٹھئے نا!" جولیا نے کہا۔ "اگر آپ میری وجہ سے اٹھ رہی ہیں۔۔۔ تو۔۔۔"
"ارے نہیں۔۔۔ قطعی نہیں۔" سوزی مسکرائی۔ "مجھے دراصل آٹھ بجے ایک جگہ پہنچنا ہے۔"
"ضرور، ضرور!" عمران نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔
نہ جانے کیوں سوزی کو عمران کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔۔۔ لیکن وہ زبردستی مسکراتی رہی۔
کچھ دیر بعد اس نے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ سے التھرے کو فون کیا۔
"یس۔۔۔ بےبی۔۔۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں اس وقت ان دونوں کے پاس سے اٹھ کر آ رہی ہوں۔"
"اوہ۔۔۔ کیا۔۔۔؟"
"جی ہاں! آج مسز التھرے سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وہ واقعی بے حد حسین ہیں۔ ان کا نام جولیانا ہی ہے نا؟"
"کیا۔۔۔ اوہو۔۔۔ ہاں۔۔۔ جولیانا"۔۔۔ دوسری طرف سے تھوڑے وقفے کے ساتھ کہا گیا۔۔۔ "ہاں! تو تم نے اسے دیکھ لیا بے بی!"
"ہاں! دیکھ لیا مگر مسٹر التھرے وہ عمران اس سلسلے میں بالکل بے قصور معلوم ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ شاید خود ہی اس پر بری طرح مرمٹی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس واقعے کو التھرے کی بدنصیبی ہی کہیں گے۔"
"اور سنیئے۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام نہیں لگاتیں!"
"ہائیں۔۔۔ یہ میرے لئے بالکل نئی اطلاع ہے۔" دوسری طرف سے تحیر زدہ سی آواز آئی۔
"جی ہاں۔۔۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ وہ جولیانا فٹز واٹر ہیں۔"
"بے بی! یہ بڑی زیادتی ہے۔ اب تم خود ہی انصاف کرو!۔۔۔ کیا کوئی شادی شدہ عورت شوہر کی بجائے باپ کا نام استعمال کر سکتی ہے؟"
"تو فٹز واٹر ان کے باپ کا نام ہے۔"
"ہاں۔۔۔ مگر اب یہ عورت مجھے خوامخواہ مجھے غصہ دلا رہی ہے۔" التھرے کی غصیلی آواز آئی۔
"آپ کا غصہ فضول ہے مسٹر التھرے۔۔۔ عمران نے ان پر ڈورے نہ ڈالے ہوں گے۔ وہ اس قسم کا آدمی معلوم نہیں ہوتا بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کے لئے تیار ہوں کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
"خیر یہ غلطی ہے تمہاری۔۔۔ وہ دوسرے قسم کے مردوں میں سے ہے۔ یہ لوگ خوامخواہ عورتوں سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے کتے ہوتے ہیں۔ ان کی بے رخی تو دراصل عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔"
"ممکن ہے آپ درست کہہ رہے ہوں! ہاں ایسے مرد بھی ہوتے ہیں۔"
"بس یہ سمجھ لو کہ سارا قصور اسی کا ہے۔ یہ بتاؤ کہ کیا وہ تمہارے ساتھ آنے پر آمادہ ہے۔"
"میں اسے آمادہ کر لوں گی۔۔۔ شاید کل شام کو وہ میرے ساتھ باہر نکل سکے۔"
"اچھی بات ہے کل دس بجے تک تمہیں مقام کے متعلق اطلاع دے دی جائے گی۔"
"مگر اپ کریں گے کیا؟"
"بس تم دیکھنا! میری حکمت عملی۔۔۔ ویسے تم مطمئن رہو کوئی غیر قانونی حرکت ہرگز نہ ہونے پائے گی۔"
"مجھے اطمینان ہے مسٹر التھرے۔۔۔ آپ بہت اونچے آدمی ہیں!"
"شکریہ! بے بی مگر افسوس! کاش میری بیوی نے کبھی مجھے اس نقطہ نگاہ سے دیکھا ہوتا۔"
"آپ کے کہنے کا مطلب۔۔۔ یہ کہ۔۔۔ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں!"
"اسی لئے میں بھی تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ اچھا بے بی۔۔۔ اور کچھ نہیں؟"
"جی نہیں!" دوسری طرف سے سلسلہ مقطعی ہونے کی آواز آئی!
آج سردی کم تھی اور پچھلی رات کا شفاف چاند سفید بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بار بار الجھ رہا تھا۔ کلاک نے بارہ بجائے اور وزارت داخلہ کا اسسٹنٹ سیکرٹری کرنل نادر ٹہلتے ٹہلتے رک گیا۔ مغربی سمت کی کھڑکی کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا جس سے دور تک پھیلا ہوا میدان دکھائی دیتا تھا وہ کھڑکی کی طرف بڑھا اور دوسرا پٹ بھی کھولتا ہوا سلاخوں پر جھک گیا۔ حد نظر تک چاندنی کھیت کر رہی تھی۔ پھر اس نے بڑی بے چینی سے کلاک کی طرف دیکھا۔ بارہ بج کر دو منٹ ہوئے تھے۔ اب اس نے اس طرح کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالی جیسے دیوار سے لگے ہوئے کلاک نے اسے دھوکا دیا ہو۔ باہر ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی اور وہ چونک پڑا۔ پھر دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اس کے انداز میں بڑی بے چینی تھی۔ جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر اس نے آہستہ سے کہا "سلوانا"
اسے اپنی سرگوشی دور تک پھیلتی محسوس ہوئی۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کیونکہ اسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ تھوڑی دور تک جھاڑیاں متحرک نظر آ رہی تھیں۔ وہ دوڑتا ہوا وہاں پہنچا "سلوانا"! اس نے پھر آہستہ سے پکارا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس بار اسے جھاڑیوں میں گھستا چلا گیا۔
لیکن اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی گردن میں پھندا سا پڑ گیا ہو۔ ایک جھٹکے کے ساتھ رک کر اس نے اپنی گردن ٹٹولنی چاہی لیکن دوسرے ہی لمحے ایک مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر پڑا۔۔۔ ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی کسی کی گرفت میں آ گئے۔ اس نے تڑپ کر اس جال سے نکلنا چاہا مگر یہ ممکن نہ ہوا۔ منہ پر ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ ایسی صورت میں حلق سے آواز کیا نکلتی۔
وہ زمین پر گرا دیا گیا۔۔۔ لیکن بے حس و حرکت۔۔۔ شاید بیک وقت کئی آدمیوں نے اسے دبا رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے کانوں میں گونجنے والی جھائیں جھائیں گہری ہوتی گئیں۔۔۔ ایک بار آنکھوں کے سامنے کوندا سا لپکا اور پھر گہری تاریکی چھا گئی۔ کانوں کی جھائیں جھائیں ذہن کے اندھیروں میں مدغم ہو گئی۔
کرنل نادر اچھے ہاتھ پیر اور بہتر صحت کا مالک تھا لیکن پھر بھی جب وہ دوبارہ ہوش میں آیا تو نقاہت کی وجہ سے آنکھیں کھولنے میں بھی دشواری محسوس کر رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اس طرح اچھل پڑا۔ جیسے اچانک کوئی چیز چبھ گئی ہو۔ وہ برہنہ تھا۔ جسم پر ایک تار بھی نہیں تھا اس نے چاروں طرف وحشت زدہ نظروں سے دیکھا اور دیوانوں کے سے انداز میں پورے کمرے کا چکر لگانے لگا۔ وہ کمرے میں تنہا تھا لیکن یہاں اسے کوئی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنا جسم ڈھانک سکتا۔
اس کا سر بڑی شدت سے چکرا رہا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھولنے کی آواز آئی اور تین آدمی اندر داخل ہوئے۔ وہ بے تحاشہ بیٹھ کر ایک گوشے میں سمٹ گیا۔ آنے والے تینوں سفید فام آدمی پادریوں کی وضع قطع رکھتے تھے۔
"ارے۔۔۔ دیکھو! اس ننگے بے شرم کو!۔۔۔" ایک نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
"چھی چھی!" دوسرے نے برا سا منہ بنایا۔
"کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟۔۔۔" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ ڈپٹی سیکرٹری فوجی آدمی تھا۔ لیکن اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی اور وہ بری طرح نروس ہو گیا تھا۔
"ارے کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔۔۔ اس پر۔۔۔" ایک نے کہا "بہرا ہے شاید!" دوسرا بولا۔
"کیوں کیا تم بہرے ہو۔۔۔؟" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ "میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ سور کے بچو!" ڈپٹی سیکرٹری نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ "ورنہ چن چن کر قتل کر ڈالوں گا۔۔۔ میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ لاؤ۔۔۔ جلدی۔۔۔ نکلو یہاں سے۔۔۔ سور کے بچو!"
"پاگل معلوم ہوتا ہے۔" تیسرے نے دوسروں کی طرف دیکھ کر خوفزدہ آواز میں کہا۔ "بھاگو یہاں سے۔"
اور وہ سچ مچ بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ انہوں نے دروازہ بھی نہیں بند کیا۔
ڈپٹی سیکرٹری اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا کہ اسے بند کر کے اندر سے چٹخنی چڑھا دے۔ لیکن پھر وہ جھجھک کر پیچھے ہٹ آیا۔ ایک لمبا آدمی دروازے میں کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ڈپٹی سیکرٹری کے کپڑے تھے۔ اس نے انہیں اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔ "کپڑے پہن لو!"
اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ڈپٹی سیکرٹری نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کپڑے پہنے اور پھر دروازے کی طرف بڑھا۔ اب اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس وقت پہاڑ سے بھی ٹکرا جائے گا۔
اس نے پوری قوت سے لمبے آدمی پر حملہ کر دیا۔ لیکن اپنے ہی زور میں منہ کے بل فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ کیونکہ لمبے آدمی نے بڑی پھرتی سے وار خالی کر دیا تھا اور پھر اسے اٹھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ لمبا آدمی اس پر سوار ہو گیا۔
"تم اپنا وقت ضائع کر رہے ہو دوست!" اس نے ڈپٹی سیکرٹری کی گردن دباتے ہوئے سفاکانہ انداز میں کہا۔۔۔ اور پھر اچھل کر ہٹ گیا۔
ڈپٹی سیکرٹری زمین سے اٹھا تو لیکن چپ چاپ کھڑا رہا۔
"تم اب بوڑھے ہو چلے ہو"۔۔۔ لمبے آدمی نے کہا۔ "اس وقت اس قسم کی ورزشیں تمہارے اعصاب کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔"
"مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔
"ایک بہت ہی معمولی بات کے لئے۔۔۔ جو ذاتی طور پر تمہارے لئے ذرہ برابر بھی نقصان دہ نہیں ہو سکتی! تم صرف اتنا بتا دو کہ ریڈ اسکوائر کاغذات کہاں رکھے گئے ہیں؟"
"اوہ!" ڈپٹی سیکرٹری اسے گھورنے لگا۔
"میں یہ سننا پسند نہیں کروں گا کہ تم اس سے لاعلم ہو!" لمبے آدمی نے کہا۔
"یہ حقیقت ہے کہ میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔"
"تم اچھی طرح جانتے ہو۔"
ڈپٹی سیکرٹری کچھ نہ بولا۔ لمبے آدمی نے مسکرا کر کہا۔ "اگر تم نہیں بتاؤ گے۔۔۔ تو کپڑے پھر اتار لئے جائیں گے اور ایک مجمع ہوگا تمہارے گرد۔"
"میں ایک آدھ کو جان سے مار دوں گا۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔ "میں بوڑھا ضرور ہو چلا ہوں لیکن قوت ہے میرے جسم میں!"
"تم احمقوں کی سی گفتگو کر رہے ہو۔ تمہیں پچھتانا پڑے گا۔"
ڈپٹی سیکرٹری خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔
"تم کسی پاگل کتے کی طرح بھونکنے لگے ہو۔" لمبا آدمی بولا۔ "تم۔۔۔ ہم سے ہمارے طریق کار سے ناواقف ہو۔ ہم تم پر تشدد نہیں کریں گے۔۔۔ اس کے باوجود بھی تم اگل دو گے۔"
"جب مجھے کچھ معلوم ہی نہیں ہے تو میں کیا بتاؤں گا۔"
"دیکھو دوست! پھر سوچ لو۔۔۔ تمہارے کپڑے اتار لئے جائیں گے"
"تمہاری مرضی!" ڈپٹی سیکرٹری نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
"میں تمہارے پورے خاندان کو اسی طرح یہاں اکٹھا کر سکتا ہوں۔ ذرا سوچو تو۔۔۔ اگر وہ سب تمہاری ہی طرح برہنہ کرکے اسی کمرے میں تمہارے ساتھ بند کر دیئے گئے تو۔۔۔؟"
ڈپٹی سیکرٹری سر سے پیر تک لرز گیا۔ اس کی کھال اڑا دی جاتی۔۔۔ تب بھی کاغذآت کے متعلق کچھ نہ بتاتا لیکن یہ حرکت خدا کی پناہ۔۔۔ اس کے تصور ہی سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
"نہیں!" اس نے مضطربانہ انداز میں کہا۔۔۔ "تم ایسا نہیں کر سکتے۔"
"نمونہ تو تم دیکھ ہی چکے ہو!" لمبا آدمی بیدردی سے ہنسا۔ "میرے لئے یہ ناممکن نہ ہوگا۔"
"وہ کاغذات اسٹیٹ بینک کی سیف کسٹڈی میں ہیں۔"
"تم سمجھدار آدمی ہو!" لمبے آدمی نے سنجیدگی سے کہا۔ "لیکن تمہیں اس وقت تک یہاں رہنا پڑے گاج ب تک کہ کاغذات ہمارے قبضے میں نہ آ جائیں۔"
"تم کون ہو؟" ڈپٹی سیکرٹری نے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔
"الفانسے!" لمبے آدمی نے آہستہ سے کہا اور اس کے پتلے پتلے ہونٹ پھیل گئے۔۔ طوطے کی طرح جھکی ہوئی ناک۔۔۔ کچھ اور زیادہ خم دار معلوم ہونے لگی۔
حالانکہ پیراماؤنٹ بلڈنگ میں لفٹ بھی موجود تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے زینوں کو لفٹ پر ترجیح دی تھی۔ کیا نشے کی وجہ سے اس کے قدم خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے؟ کیا شراب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا؟
اگر یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ کا واقعہ نہ ہوتا تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے۔۔۔ یہاں کسے اتنی فرصت تھی کہ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر غور کرتا یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ تھی۔۔۔ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز!
اس ہفت منزلہ عمارت میں سینکڑوں تجارتی دفاتر تھے۔ یہاں دن بھر آدمیوں کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے باوجود بھی یہاں عجیب باتوں پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
طویل قامت آدمی اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے تھے لیکن اس وقت بھی عمارت کی کھڑکیوں میں روشنی نظر آ رہی تھی یہاں بہتیرے دفاتر ایسے تھے جو دن رات کھلے رہتے تھے۔
طویل قامت آدمی تیسری منزل کی ایک راہداری میں مڑ گیا۔ لیکن اب وہ رک گیا تھا اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ لیکن اب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ کی بجائے لنگڑاہٹ تھی۔ زینوں پر یہ لڑکھڑاہٹ معلوم ہوتی تھی۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر وہ رکا۔ جس پر لگے ہوئے بورڈ پر تحریر تھا۔
"التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلئیرنگ ایجنٹس!"
دراز قد آدمی نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ دیوار سے لگ گیا۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی وہ پھر سیدھا کھڑآ ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازہ کھولنے والا ایک 18 سالہ لڑکا تھا جس کے جسم پر چپڑاسیوں کی وردی تھی۔
دراز قد آدمی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر دروازے سے باہر کھینچ لیا۔ اور بھرائی ہوئی آؤاز میں بولا۔ "بھاگ جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ یہ لو۔ سیکنڈ شو دیکھنا!" اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر لڑکے کی مٹھی میں بند کر دیا۔
"سلام صاحب!" لڑکے نے فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلام کیا۔
"سلام! بھاگ جاؤ۔" دراز قد آدمی بھرائی ہوئی آواز میں ہنسا۔
لڑکا تیزی سے چلتا ہوا زینوں پر مڑ گیا۔ دراز قد آدمی فلیٹ میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔ فلٹ ہیٹ اتار کر سٹینڈ پر پھینکی۔ اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ یہ ایک سفید فام غیر ملکی تھا دوسرے کمرے میں داخل ہو کر اس نے ٹائپ رائٹر پر جھکی ہوئی لڑکی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ اونگھ رہی تھی۔
"کیا تم یہاں سونے کے لئے آئی ہو۔" لمبے آدمی نے غرا کر کہا۔
"نہیں! مسٹر التھرے۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔" لڑکی خوفزدہ نظر آنے لگی تھی۔ دراز قد آدمی نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر دس کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا۔ "جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ سیکنڈ شو دیکھنا۔"
لڑکی متحیر رہ گئی۔ یہ ایک چھوٹے قد کی معصوم صورت یوریشین لڑکی تھی۔
"میں سمجھی نہیں جناب!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تم چھٹی نہیں سمجھتیں۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آج اوور ٹائم نہیں ہوگا۔" اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔" لڑکی نوٹ لے کر اپنا وینٹی بیگ سنبھالنے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر فرش پر پڑی جہاں التھرے کھڑا تھا۔ اور وہ ہونٹ سکوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
"خون۔۔۔ مسٹر التھرے"۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ "آپ زخمی ہیں۔۔۔ مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کا پیر۔"
پھر اس کی نظر التھرے کی ران پر جم گئی جہاں پتلون میں سوراخ تھا۔ اور اس کے گرد خون کا ایک بڑا سا دھبہ۔۔۔
"اوہ۔۔۔ یہ کچھ نہیں۔" التھرے مسکرایا۔ "میں زخمی ہو گیا ہوں۔" اس کی گھنی مونچھیں ہونٹوں کو ڈھکے ہوئی تھیں۔ گالوں کے پھیلاؤ سے لڑکی کو اس کی مسکراہٹ کا احساس ہوا تھا۔
"کیا میں کچھ خدمت کر سکتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔ وہ بہت زیادہ متائثر نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔
گھنی مونچھوں سے التھرے کے سفید دانتوں کی قطار جھانکنے لگی وہ ہنس رہا تھا۔ "تم بہت کمزور دل کی معلوم ہوتی ہو۔ میری مدد نہیں کر سکو گی۔ میری ران میں ریوالور کی گولی موجود ہے اسے میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔ تم جاؤ!"
"میں ڈاکٹر کو فون کروں۔"
"نہیں۔۔۔ بےبی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ میں خود بھی کسی ڈاکٹر سے مدد لے سکتا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔"
"جھگڑا ہوا تھا۔"
"نہیں!" التھرے نے خشک لہجے میں کہا۔ غالباً وہ لڑکی کے سوالات سے اکتا گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اب وہ چلی ہی جائے وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ "یہ ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں یہاں آنے کی بجائے پولیس اسٹیشن جاتا۔۔۔ ہم نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ مگر تم اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔"
"اوہ نہیں مسٹر التھرے۔۔۔ مگر آپ تنہا ہیں۔۔۔ اکیلے آپ کیا کر سکیں گے کس طرح گولی نکالیں گے۔"
"اچھا تم کیا کرسکو گی۔"
"میں ایک تربیت یافتہ نرس ہوں۔۔۔ مسٹر التھرے!"
"تعجب ہے۔" التھرے کی آنکھوں سے شبہ جھانکنے لگا۔ "تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا۔ تم تو ایک اسٹینو گرافر ہو۔"
"جی ہاں! شارٹ ہینڈ میں نے اس پیشے کو ترک کرنے کے بعد سیکھا تھا۔"
"اچ۔۔۔ چھا۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ تم میری کیا مدد کر سکتی ہو"
تیسرے کمرے کی الماری کھول کر التھرے نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اسی کے ساتھ جراحی کے کچھ آلات بھی برآمد ہوئے جنہیں لڑکی نے ایک برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا۔
"مگر مسٹر التھرے!۔۔۔ گولی کون نکالے گا!"
"میں نکالوں گا۔" التھرے مسکرایا۔
"مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ ہم لوگوں کی طرح عام آدمی معلوم نہیں ہوتے!"
"اوہ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" التھرے ہنسنے لگا۔
وہ زخم کھول چکا تھا جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا اور التھرے کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہ پرسکون نظر آ رہا تھا۔ لڑکی کی حیرت اور بڑھ گئی۔
"سوزی! تم متحیر ہو؟" التھرے نے پھر قہقہہ لگایا۔ "میرا سارا جسم زخموں سے داغدار ہے۔ پچھلی جنگ میں میرے جسم کا قیمہ بن گیا تھا۔ پھر بھی میں نے ڈاکٹروں کو متحیر کرکے چھوڑا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے جسم میں کوئی خبیث روح موجود ہے۔ اگر شریف روح ہوتی تو کبھی کی پرواز کر چکی ہوتی۔"
سوزی متحیرانہ انداز میں صرف سنتی رہی کچھ بولی نہیں۔ التھرے کے برتن سے ایک چمٹی نکالی اور سوزی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ آدمی پتھر کا ہے یا فولاد کا۔۔۔ وہ اتنے ہی انہماک کے ساتھ زخم سے گولی نکالنے میں مشغول تھا جیسے ہتھیلی میں چبھی ہوئی کسی پھانس کو سوئی سے کرید رہا ہو۔ گولی کے نکلنے میں دیر نہیں لگی۔ التھرے آواز سے ہنس رہا تھا سوزی کو یہ ہنسی کچھ ہذیانی قسم کی معلوم ہوئی۔ بالکل ایسی ہی جیسے شدت درد سے کراہیں نہ نکلی ہوں قہقہے پھوٹ پڑے ہوں۔
"اب تم اپنا کام شروع کر دو!"
"مگر جناب! آپ کے فرسٹ ایڈ باکس میں مرکری کروم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"
"وہی چلنے دو۔ پروا مت کرو۔ میں اس وقت کہیں بھی نہیں جا سکتا اور نہ ڈاکٹر کو طلب کر سکتا ہوں۔" سوزی زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے نہ جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی خبیث روح کے چکر میں پڑ گئی ہو۔
ڈریسنگ ہو جانے کے بعد التھرے نے سوزی سے کہا۔۔۔ "لڑکی میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اسے ابھی سے نوٹ کرو کہ میں یورپ کے دورے پر جاتے وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے تمہارے تجربات میں اضافہ ہوگا۔"
"میں شکریہ ادا کرتی ہوں! مسٹر التھرے!" سوزی نے خادمانہ انداز میں کہا۔
"مگر دیکھو۔۔۔ تم میرے زخمی ہو جانے کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔ اس سے خدشہ ہے کہ میرا وہ دوست مصیبت میں نہ پھنس جائے۔۔۔۔ جس کی گولی سے میں زخمی ہوا تھا۔"
"میں کسی سے بھی تذکرہ نہیں کروں گی جناب!"
"شکریہ!۔۔۔ اب تم جا سکتی ہو۔"
سوزی مزید کچھ کہے بغیر فلیٹ سے نکل آئی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کے ذہن پر ایک انجانہ سا خوف مسلط ہوتا جا رہا تھا۔
---
عمران کے فون کی گھنٹی بجی، جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں درج نہیں تھے۔ اس نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے بولنے والی جولیانا فٹز واٹر تھی۔
"تنویر بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہے جناب!"
"کیسے۔۔۔ کس طرح؟"
"سراج گنج کی ایک تاریک گلی میں اسے چند نامعلوم آدمیوں نے گھیر لیا۔ غالباً وہ اسے پکڑ لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر نے فائرنگ شروع کر دی جواب میں ان لوگوں نے بھی گولیاں چلائیں تنویر کے دونوں بازو زخمی ہو گئے ہیں اور وہ اس وقت سول ہسپتال میں ہے۔ غالباً اب پولیس اس کا بیان لینے کے لئے پہنچ گئی ہوگی۔"
"کیا تنویر حملہ آوروں میں سے کسی کو پہچان سکا تھا؟"
"نہیں جناب! گلی تاریک تھی۔ یہ اس کا خیال ہے کہ اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ضرور زخمی کیا ہے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس نے کراہنے اور سسکنے کی آوازیں سنی تھیں!"
"اس کے زخموں کی حالت مخدوش تو نہیں ہے۔"
"نہیں جناب! وہ ہوش میں ہے۔"
"تم کہاں سے بول رہی ہو؟"
"سول ہسپتال سے!"
"اچھا تو اسے سمجھا دو کہ اس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہو جائے۔۔۔ بلکہ اگر وہ بڑی رقم لٹ جانے کی کہانی سنائے تو اور اچھا ہے۔"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ بیان ہو جانے کے بعد میں پھر فون کروں گی۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عمران نے ریسیور رکھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور اس طرح منہ چلاتا ہوا دوسرے کمرے مٰں چلا گیا جیسے دھوکے سے کوئی کڑوی یا کسیلی چیز کھا گیا ہو۔ اس نے اپنے نوکر سلیمان کو آواز دی چونکہ وہ تقریباً دو گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا تھا اس لئے اب اس کی زبان میں کلبلاہٹ شروع ہو گئی تھی۔
سلیمان آ گیا۔
"ابے وہ تو نے اپنے دادا کا نام کیا بتایا تھا۔ میں بھول گیا۔" عمران اس طرح بولا جیسے یاداشت پر زور دے رہا ہو۔
"کیا کیجئے گا یاد کر کے۔۔۔!" سلیمان نے بیزاری سے کہا۔
"صبر کروں گا یاد کر کے۔۔۔ توب تاتا ہے کہ یا ہم سے بحث کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نالائق!"
"گلزار نام تھا!"
"کیا داڑھی گلاب کے پھول کی شکل کی تھی؟"
"نہیں تو۔۔۔ ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی سب کی ہوتی ہے۔"
"ابے تو پھر گلزار کیوں نام تھا؟" عمران غصیلی آواز میں دھاڑا
"میں نہیں جانتا۔۔۔ آپ میرے دادا کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں!"
"اچھا۔۔۔ چل چھوڑ دیا۔۔۔ پردادا کا کیا نام ہے؟"
"مجھے نہیں معلوم۔"
"ابے تجھے اپنے پردادا کا نام نہیں معلوم۔"
"میرا پردادا تھا ہی نہیں۔" سلیمان نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"تب پھر تجھ سے زیادہ بدنصیب آدمی روئے زمین پر نہیں ملے گا۔"
"صاحب ہانڈی جل رہی ہے۔۔۔ مجھے جانے دیجئے!"
"اچھا بے ہمیں الو بناتا ہے کیا کاغذ کی ہانڈی ہے کہ جل جائے گی۔!"
"صاحب!" سلیمان اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کیا کہتا ہے؟"
"میرا حساب کر دیجئے۔۔۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔"
"حساب۔۔۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "حساب! اچھا کاغذ پنسل لے کر ادھر بیٹھ۔"
"مجھے لکھنا نہیں آتا!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جب لکھنا آ جائے تو مجھے بتانا۔۔۔ میں حساب کر دوں گا۔"
پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی اور یہ سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔
عمران نے کمرے میں جا کر کال ریسیو کی۔ فون جولیا ہی کا تھا۔
"اٹ از جولیا سر!"
"کیا خبر ہے؟"
"تنویر کا بیان ہو چکا ہے اس نے یہی لکھوایا ہے کہ اس کے پرس میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے جو چھین لئے گئے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن سنو! تم سبھوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔"
"ہم ہر وقت محتاط رہتے ہیں جناب! اگر محتاط نہ ہوتے تو تنویر کی رپورٹ غالباً آسمان سے اترتی۔ احتیاط اور حاضر دماغی ہی کی وجہ سے وہ بچ گیا ہے۔"
"خیر۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تھریسیا اور الفانسے اب شہر میں نہیں ہیں۔۔۔ یہ لوگ دھن کے پکے ہیں۔ یا تو کاغذات حاصل کریں یا اپنی جانیں دے دیں گے۔"
"تو کیا تنویر پر کیا جانے والا حملہ انہیں سے منسوب کیا جائے گا؟"
"ممکن ہے کہ یہ حملہ انہی کی طرف سے ہوا ہو۔"
"پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟"
"فی الحال اس بے تکے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔" عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
---
سوزی حسب معمول دوسری صبح آفس پہنچی۔ لیکن التھرے اپنی میز پر موجود نہیں تھا۔ سوزی نے سوچا کہ اب اس کے پیر کی تکلیف بڑھ جائے گی لہٰذا وہ اپنی مسہری سے ہلنے کی بھی ہمت نہ کر سکے گا۔ مگر پھر آفس کس نے کھولا؟ یہاں ملازم صرف تین تھے۔ ایک سوزی خود۔۔۔ دوسرا ایک کلرک اور تیسرا چپڑاسی! التھرے کا رہائشی کمرہ بھی اسی فلیٹ میں تھا اور وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ لہٰذا آفس وہی کھولتا تھا۔ یہ تینوں ملازم باہر سے آتے تھے۔
فلیٹ میں چار کمرے تھے دو کمرے التھرے نجی طور پر استعمال کرتا دو آفس کے لئے تھے۔ سوزی اپنے کمرے میں بیٹھ گئی کلرک ابھی نہیں آیا تھا اس نے چپڑاسی سے پوچھا "صاحب کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں ہوں گے۔"
"آفس کس نے کھولا تھا؟"
"صاحب نے!"
چونکہ اسے پچھلی رات کھسکا دیا گیا اس لئے وہ سوزی کو شبے کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوزی خوامخواہ دل ہی دل میں شرما رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اسے آج چپڑاسی اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔
کچھ دیر بعد کلرک بھی آ گیا لیکن التھرے کی میز خالی ہی رہی۔ کلرک نے اسے ٹائپ کرنے کے لئے کچھ کاغذات دیئے اور سوزی کام میں مشغول ہو گئی!
کلرک ایک نوجوان دیسی عیسائی تھا۔ وہ اچھی صحت رکھتا تھا اور قبول صورت بھی تھا۔ اکثر وہ سوزی کے ساتھ ہی شامیں گذارتا تھا۔
لنچ کے وقفے میں شاید چپڑاسی نے کلرک کو پچھلی رات کا واقعہ بتایا تھا۔ سوزی نے یہی محسوس کیا۔ کیونکہ لنچ کے بعد سے اس کا موڈ خراب وہ گیا تھا۔
التھرے اندر ہی تھا اور اس نے چپڑاسی سے کہلوا دیا تھا کہ آج اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آفس کو ایک گھنٹہ پہلے ہی بند کر دیا جائے۔ ساتھ ہی چپڑاسی نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ التھرے کی ہدایت کے بموجب سوزی کو وہیں رکنا ہوگا۔ کلرک نے پھر سوزی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"کل بھی تم رکی تھیں؟" اس نے کہا۔
"ہاں کل بھی رکی تھی۔"
"کیوں؟"
جرح کا یہ انداز شاید سوزی کو پسند نہیں آیا تھا۔ اس لئے برا سا منہ بنا کر کہا "کیا میں تمہیں اس کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔"
"اوہ! نہیں تو!" کلرک سپٹپٹا گیا اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوزی کی آنکھیں بلیوں سے مشابہ ہوں۔ حالانکہ اسے اس کی آنکھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے تصور کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں لاتعداد کنول کھل اٹھتے تھے۔ کنول جو حسن اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
سوزی اب بھی اسے جواب طلب نظروں سے گھور رہی تھی کلرک اپنے کام میں مشغول ہو
چکا تھا مگر اس کے چہرے پر اب بھی ملال کا غبار دیکھا جا سکتا تھا۔
ٹھیک ساڑھے تین بجے وہ اپنی میز سے اٹھ گیا۔ باہر جاتے وقت اس نے سوزی کو عجیب نظروں سے دیکھا اور سوزی سوچنے لگی آخر یہ لوگ جان پہچان اور دوستی کے معنی غلط کیوں لیتے ہیں۔ وہ اس کے اس رویہ کا مطلب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ لیکن اس کی دانست میں ان کا ملنا جلنا ان حدود میں ابھی تک داخل نہیں ہوا تھا جہاں طرفین ایک دوسرے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ سوزی اس وقت زیادہ جھلا گئی جب اس نے رخصت ہوتئے وقت چپڑاسی کی آنکھوں میں بھی وہی سوال پڑھا۔
"جہنم میں جاؤ۔" وہ زیر لب بڑبڑائی۔
یہ حقیقت ہے کہ وہ التھرے تک پہنچنے کے لئے بیچین تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پچھلی رات کا دلیر آدمی اب کس حال میں ہے وہ جانتی تھی کہ اب اس میں بستر سے ہلنے جلنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی ہوگی۔
اس نے بیرونی دروازہ بند کیا اور التھرے کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ صبح اس خیال سے وہاں نہیں گئی تھی کہ ممکن ہے التھرے اسے ناپسند کرے۔ ویسے اس نے یہ ضرور سوچا تھا کہ التھرے اس کی مدد کے بغیر پٹیاں بھی تبدیل نہیں کر سکے گا۔ پھچلی رات تو چوٹ تازہ تھی مگر اب اس کی ہمت بھی ساتھ دینے سے قاصر ہوگی۔
کمرے کے دروازے پر اس نے رک کر ہلکی سی دستک دی۔
"آجاؤ!" اندر سے الھترے کی آواز آئی۔
لیکن وہ اندر پہنچ کر ایک بار پھر متحیر رہ گئی۔ کیونکہ التھرے اس کے داخل ہونے سے پہلے شائد ٹہل رہا تھا۔
سوزی کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔ اور سوزی کچھ بوکھلا سی گئی۔
"میں دراصل۔۔۔ پٹی تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ اور زخم بھی اگر دھل جائے تو بہتر ہے۔"
"شکریہ!" التھرے ایک کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ "بیٹھ جاؤ! میں زخم بھی دھو چکا ہواں اور پٹی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔"
"آپ سچ مچ کمال کرتے ہیں۔" سوزی نے کہا۔
"میں نے تمہیں اس وقت ایک ضرورت سے روکا ہے۔"
"فرمائیے!"
"میرا ایک خط میری بیوی تک پہنچا دو۔"
"بیوی!" وہ حیرت سے دہرا کر رہ گئی۔
"ہاں کیوں؟" التھرے مسکرایا۔ "اس میں متحیر ہونے کی کیا بات ہے!"
"اوہ۔۔۔ جناب میں ابھی تک یہ سمجھتی تھی کہ آپ کنوارے ہوں گے۔"
"یہ غمناک کہانی ہے۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔" سوزی ہونٹ سکوڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"وہ مجھ سے خفا ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو
شائستہ ہوں۔۔۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہوں۔۔۔ اسے ایسے مرد پسند ہیں جو میری طرح وحشی
نہ ہوں۔ اگر ان کی ٹانگ میں بھی ریوالور کی گولی لگے تو اسی جگہ ٹھنڈے ہو جائیں ہاں
بےبی۔۔۔٬" التھرے کی آواز غمناک ہو گئی۔
"مجھے حیرت ہے جناب کہ مسز التھرے کس قسم کی عورت ہیں۔" سوزی نے کہا۔ "نہ جانے وہ
عورتیں کیسی ہیں جنہیں زنانہ اوصاف کے مرد پسند ہیں۔"
"ایسی بھی ہوتی ہیں بے بی۔۔۔ میں انہیں عورتیں کہنے کو تیار ہی نہیں۔"
"آپ مجھے خط دیجئے۔۔۔ میں پہنچا دوں گی۔"
"شکریہ سوزی۔۔۔" التھرے بولا۔ "میں اب یہ جھگڑا ہی ختم کر دینا چاہتا ہوں میں اسے آخری
خط بھیج رہا ہوں۔ کیوں کیا خیال ہے تمہارا۔ اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتی تو قانونی طور پر
علیحدگی ہی بہتر ہوگی۔"
"اوہ۔۔۔ نہیں! اگر سمجھوتہ ہو جائے تو بہتر ہے۔" سوزی نے کہا۔
"نہیں وہ آدمی جو ہمارے درمیان آ گیا ہے اسے راستے سے ہٹائے بغیر یہ ناممکن ہے۔۔۔ لیکن
میری نظروں میں قانون کا احترام بہت زیادہ ہے۔۔۔ میں اسے قتل نہیں کر سکتا۔"
دفعتاً سوزی مسکرائی اور بولی "حکمت عملی جناب۔۔۔ قتل کی کیا ضرورت ہے کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ تشدد کے بغیر ہی آپ دونوں کے درمیان سے ہٹ جائے۔"
"نہیں!" التھرے مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ "اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔ مگر ٹھہرو۔ اگر کوئی عورت ان دونوں کے درمیان آجائے۔۔۔ تو۔۔۔ شائد دیکھو۔۔۔ بے بی۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے سلوانا پر۔۔۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ نامعقول آدمی اسے اتنا کیوں پسند ہے۔ ارے وہ بالکل احمق ہے اسے کسی بات کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔ وہ سبز پتلون پر سرخ قمیض پہنتا ہے۔ زرد ٹائی لگاتا ہے اور نیلا فلٹ ہیٹ۔۔۔ کسی سرکس کا مسخرہ معلوم ہوتا ہے نہ اس کے جسم میں قوت ہے اور نہ کھوپڑی میں مغز!"
"سچ مچ!" سوزی پلکیں چھپکاتی ہوئی بولی۔
"ہاں بے بی۔ میں غلط نہیں کہہ رہا اور وہ ایک دیسی ہے یورپین بھی نہیں۔"
"تب تو شاید۔ معاف کیجئے گا۔ مجھے مسز التھرے صحیح الدماغ نہیں معلوم ہوتیں۔"
"مگر سوزی۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ میں اسے بہت چاہتا ہوں۔"
"کیا میں اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہوں؟"
"تم کیا کر سکو گی؟" التھرے تشویش کن لہجے میں بولا۔
"آپ مجھے اس آدمی کا پتہ بتائیے! شاید میں کچھ کر سکوں۔"
"ٹھہرو! مجھے سوچنے دو۔ میرا خیال ہے کہ تم بہت کچھ کر سکتی ہو۔" التھرے ہاتھ اٹھا کر بولا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "ایک تدبیر سمجھ میں آئی ہے۔۔۔ مگر میں اسے برا سمجھتا ہوں کیونکہ تم ایک شریف لڑکی ہو۔"
"میں اپنی حفاظت بخوبی کر سکتی ہوں مسٹر التھرے۔۔۔ اور میری شرافت بھی برقرار رہ سکتی ہے لیکن یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ اگر میری وجہ سے آپ دونوں کی ازدواجی زندگی پرمسرت گزرسکے۔"
"شکریہ! بےبی!"
"اب آپ مسز التھرے کو آخری خط لکھنے کا ارادہ ترک کر دیجئے۔"
"نہیں بے بی! اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔"
"آپ مجھ پر اعتماد کیجئے میں ایک ہی ماہ کے اندر ہی اندر اسے آپ کے راستے سے ہٹا دوں گی۔"
"کیسے ہٹا دو گی۔؟"
"اوہ۔۔۔ آپ اعتماد کیجئے نا مجھ پر۔۔۔ میں نرس بھی رہ چکی ہوں۔ شاید میں مختلف مردوں کے متعلق بہت کچھ جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ انہیں کس طرح شکست دی جا سکتی ہے۔"
"لیکن اگر تم اپنا کوئی نقصان کر بیٹھیں تو مجھے گہرا صدمہ ہوگا۔"
"آپ فکر نہ کیجئے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔"
"اچھا بے بی!" التھرے نے ایک طویل سانس لی۔ ایک لحظہ خاموش رہا اور پھر بولا۔ "تم اس سے فی الحال دوستی کرلو پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ آپ مجھے اس کا نام اور پتہ تو بتائیے۔"
"اس کمبخت کا نام ہی تو مجھے یاد نہیں رہتا۔" التھرے نے کہا۔ "مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہر شام ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں ضرور ہوتا ہے۔ زیادہ تر اپنی میز پر تنہا بیٹھا نظر آتا ہے!۔۔۔ ارے وہ صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔ بےبی اور ہمیشہ بے ڈھنگے کپڑے پہنتا ہے۔"
"مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کلب میں ایسے کسی آدمی کو کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہے۔"
"دیکھا ہوگا۔۔۔ وہ ہزاروں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے۔"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جناب۔۔۔ آپ مطمئن رہئے۔"
"میں ہمیشہ تمہارا مشکور رہوں گا۔۔۔ مگر ہاں دیکھو۔۔۔ اب تم آفس نہ آنا۔۔۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے بعد ہی تم یہاں آنا ورنہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔"
"ارے۔۔۔ اگر وہ احمق ہی ہے تو اتنی دوا دوش کہاں کر سکے گا کہ میری متعلق اسے کچھ معلوم ہو جائے؟"
"سلوانا بہت ذہین ہے بے بی۔۔۔ اگر اسے شبہ بھی ہو گیا کہ تمہارا کوئی تعلق مجھ سے ہے تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"
"سلوانا۔۔۔ نام ہے مسز التھرے کا؟"
"ہاں۔۔۔ اس کا نام بھی کتنا پیارا ہے کیوں!" التھرے نے والہانہ انداز میں کہا۔۔۔ پھر اس طرح ہنسنے لگا جیسے اس سے کوئی حماقت سرزد ہوئی ہو۔
"اچھی بات ہے۔ میں یہاں نہیں آؤں گی۔ مگر میرا کام کون کرے گا!"
"کوئی دوسرا آجائے گا تم اس کی فکر نہ کرو۔ بس اس سے کسی نہ کسی طرح دوستی کر لو اور ٹھہرو!" وہ اٹھ کر میز کی طرف گیا۔ اس کی دراز کھولی اور اس میں سے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر سوزی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "یہ رکھ لو بے بی۔ تمہارے کام آئیں گے۔"
سوزی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
اگر وہ سارے سو سو کے نوٹ تھے تو وہ گڈی کم از کم پانچ ہزار کی ہی ہو سکتی تھی!
"یہ تو بہت بڑی رقم معلوم ہوتی ہے جناب۔۔۔" سوزی نے حیرت سے کہا۔
"سلوانا کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میں اپنی ساری دولت صرف کر سکتا ہوں۔۔۔ تم اسے رکھو۔۔۔ اس کا کوئی حساب تم سے نہیں طلب کیا جائے گا۔"
"یہ بہت ہے جناب! اسے آپ رکھئے۔۔۔ جب ضرورت ہوگی! طلب کر لوں گی۔"
"نہیں تم ہی رکھو۔۔۔ مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے!"
"اعتماد کے لئے میں شکر گزار ہوں جناب!"
جولیانا فٹز واٹر نے ایکس ٹو کے پرائیوٹ نمبر ڈائل کئے اور دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔"یہلو!"
"جولیا اسپیکنگ سر!"
"ہاں کیا کیا بات ہے؟"
"تنویر کی حالت بہتر ہے؟"
"دیکھو! ہوشیار رہو! الفانسے اور تھریسیا یہاں سے گئے نہیں! یہیں ہیں میرا خیال ہے کہ ان کا گروہ ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن وہ دونوں ابھی تک کٹے پتنگوں کی طرح یہیں ہچکولے لے رہے ہیں اور یہ تم جانتی ہو کہ جھنڈ سے بچھڑے بھیڑیئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔"
"میں جانتی ہوں جناب! پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"تھریسیا کو تلاش کرو۔"
"آپ نے بتایا تھا کہ وہ پچھلی بار میک اپ میں نہیں تھی۔"
"ہاں! میرا خیال ہے وہ کبھی میک اپ میں نہیں رہتی۔ جب عمران نے اسے پہچان لیا تھا تو تم بھی پہچان سکو گی۔۔۔ مگر یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے!"
"کیوں؟"
"اس کے چہرے کی بناوٹ عجیب ہے اور اس سے وہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر وہ یونہی اپنا نچلا ہونٹ تھوڑا سا بھینچ لے تو تم قیامت تک اسے نہیں پہچان سکتیں۔ اس تھوڑی سی تبدیلی کا اثر اس کے سارے چہرے پر پڑے گا۔"
"کیا یہی وجہ ہے کہ وہ بچی پھرتی ہے۔"
"قطعی۔۔۔ یہی وجہ ہے۔"
"پھر اسے تلاش کر لینا آسان کام نہیں ہے۔"
"کچھ مشکل نہیں ہے۔۔۔ تھوڑا صبر کرو۔۔۔ مجھے تھریسیا سے زیادہ الفانسے کی فکر ہے اور وہ دوسرا آدمی سسیرو۔۔۔"
"تو پھر ہم فی الحال خاموش بیٹھیں؟"
"بالکل۔۔۔ ضرورت سمجھی تو تمہیں مطلع کیا جائے گا۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس بار میں دوسرے ذرائع اختیار کروں۔"
"کیا عمران۔۔۔!"
"ہاں۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔ اچھا بس۔۔۔" دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
سوزی دل کی بری نہیں تھی۔ اس نے اس کا ذمہ محض اس لئے لیا تھا کہ التھرے اور سلوانا کے تعلقات پھر بہتر ہو جائیں۔ اس کی دانست میں وہ آدمی گنہگار تھا جو ان دونوں کے درمیان میں آ گیا تھا لہٰذا وہ اسے ہر طرح سے زک دینا جائز سمجھتی تھی۔
وہ اسی کے متعلق سوچتی ہوئی ٹپ ٹاپ کلب میں پہنچی، اس کی وینٹی بیگ میں ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ اس سے پہلے وہ شائد دو یا تین بار یہاں آئی تھی کیونکہ یہاں ذی حیثیت آدمیوں کے علاوہ دوسروں کا گزر مشکل ہی تھا۔ لیکن وہ سوچ کر آئی تھی کہ آج ہی کلب کی مستقل ممبر بن جائے گی۔
وہ مینجر کے کمرے میں داخل ہوئی۔ لیکن وہ موجود نہیں تھا۔ سوزی کو کچھ دیر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنا پڑا۔ مینجر کی آمد پر وہ کچھ مایوس سی ہو گئی۔ کیونکہ ممبر بننے کی شرائط میں یہ بھی تھا کہ کم از کم دو پرانے ممبران سے شناسائی ضرور ہو۔
"مجھے یہاں کوئی نہیں جانتا۔" سوزی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا "میں ابھی حال ہی میں ملایا سے یہاں آئی ہوں۔"
"دیکھئے۔۔۔ یہاں اجنبی بھی آتے ہیں۔ اکثر ایسے بھی آتے ہیں جو آج آئے پھر برسوں کے بعد ہی ان کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر وہ لوگ ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں جو مستقل ممبران کو حاصل ہیں اور وہ سہولتیں کسی کی ضمانت کے بغیر دی ہی نہیں جاسکتیں۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ ممبری کے فارم پر کم از کم دو پرانے ممبران کی سفارش ہو۔۔۔ یعنی وہ سفارش کرنے والے دراصل ضامن ہوتے ہیں!"
"اگر میں نقد ضمانت ادا کر دوں تو!"
"اوہ یقیناً۔۔۔ یقیناً۔۔۔ جب آپ کی ممبری ختم ہوگی ضمانت واپس کر دی جائے گی۔"
"رقم بتائیے!"
"صرف پانچ سو۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ یہ دراصل ضابطے کی کاروائیاں ہیں۔ ورنہ یہاں سبھی معزز لوگ ہیں۔ غالباً آپ میرا مطلب سمجھ گئی ہوں گی۔"
سوزی اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے سو سو کے پانچ نوٹ نکال چکی تھی مینجر نے اس کا شکریہ ادا کرکے پانچ سو کی رسید دی اور ممبری کا فارم بڑھاتا ہوا بولا "آپ یہاں کی زندگی کو دلچسپ پائیں گی۔ ملایا سے تشریف لائی ہیں آپ!"
"جی ہاں۔۔۔ مگر دیکھئے۔۔۔ میں یہاں کسی سے واقف نہیں ہوں اور یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ بغیر کسی تعارف کے خود سے جان پہچان پیدا کروں!"
"اوہ آپ اس کی فکر نہ کیجئے۔۔۔ میں یہاں کے بہترین ممبران سے آپ کا تعارف کراؤں گا۔"
"شکریہ!" سوزی نے کہا اور فارم کی خانہ پری کرنے لگی پھر اپنے دستخط کئے۔ مینجر نے فارم لے کر اس پر ایک نظر ڈالی اور اسے رجسٹر میں رکھتا ہوا بولا۔ "شکریہ"
"مگر دیکھئے میں اپنے گرد زیادہ بھیڑ نہیں پسند کرتی۔ کسی ایک آدمی سے تعارف کرا دیجئے جو بہت دلچسپ ہو۔ میں صرف تفریح چاہتی ہوں۔"
"اوہ!" مینجر ہونٹ سکوڑ کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر پلکیں چھپکاتا ہوا مسکرایا۔
"کیا آپ کسی بیوقوف آدمی سے ملنا پسند کریں گی۔"
سوزی کا دل دھڑکنے لگا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا جس کا بیڑہ اس نے اٹھایا تھا۔ بیوقوف آدمی کا نام سنتے ہی اس کے جسم میں ہلکی سی تھرتھری پیدا ہو گئی۔ لیکن اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"ایک ایسا آدمی جس کی باتوں پر آپ ہنستی رہیں گی۔"
"اوہ ضرور۔ ضرور۔۔۔ مگر کیا وہ بیوقوف ہے؟"
"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔ ویسے بیوقوف ہی معلوم ہوتا ہے!"
"ضرور ملائیے! اس سے۔۔۔ پھر بعد کو تو دوسروں سے بھی جان پہچان ہو ہی جائے گی۔"
"چلئے! میرا خیال ہے کہ وہ آ ہی گیا ہوگا۔ آج کل نہ جانے کیوں روزانہ آ رہا ہے!"
سوزی نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن خاموش ہی رہی۔ وہ دراصل یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی عورت بھی ہوتی ہے یا وہ تنہا ہوتا ہے۔
وہ ڈائیننگ ہال میں آئے۔ مینجر نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں "ابھی نہیں آیا مگر میرا خیال ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔ آج کل ناغہ نہیں کرتا۔ آئیے! ادھر بیٹھئے!"
وہ دونوں بیٹھ گئے اور مینجر نے مسکرا کر کہا "میں پہلی بار ہر نئے ممبر کی دعوت ضرور کرتا ہوں۔۔۔ یہ رہا مینیو۔۔۔"
"اوہ! شکریہ! مگر میں کھانا تو کھا چکی ہوں۔"
"پھر کیا پئیں گی آپ!"
"میرا خیال ہے کہ کافی بہتر رہے گی۔ میں شراب بالکل نہیں استعمال کرتی۔"
"یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔"
اس کے بعد وہ ملایا کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ ممکن ہے کبھی سوزی ملایا میں بھی رہی ہو۔ ورنہ وہ اتنی صفائی سے اپنے متعلق جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کرتی۔
دفعتاً مینجر نے کہا "وہ آگیا۔"
سوزی کی نظر صدر دروازے کی طرف اٹھی۔ ایک خوشرو نوجوان اندر داخل ہوا تھا۔ لیکن التھرے کے بیان کے مطابق اس کے لباس میں کسی قسم کی بدوضعی نظر نہیں آئی۔ وہ نیلے سوٹ اور بے داغ سفید قمیض اور ایک سادہ ٹائی میں بڑا دلکش لگ رہا تھا۔
دروازے کے قریب کھڑے ہوئے ویٹر نے اسے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ اس نے بھی ہاتھ ہی اٹھا کر جواب دیا اور پھر اسی گرمجوشی سے مصافحہ کرنے لگا جیسے بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ لیکن پھر بوکھلائے ہوئے انداز میں دوسری طرف مڑ گیا۔ بالکل اس طرح جیسے غلطی کا احساس ہو گیا ہو۔ ویٹر سر کھجاتا، اور کنکھیوں سے دوسروں کو دیکھتا ہوا کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا۔
"دیکھا آپ نے!" مینجر مسکرا کر بولا۔
"جی ہاں!" سوزی نے آہستہ سے کہا۔ اور مسکرائی۔ اس کی نگاہ برابر اس نوجوان کا تعاقب کر رہی تھی۔ پھر اس نے اسے ایک خالی میز کے قریب بیٹھتے دیکھا۔
"کیوں ہے نا دلچسپ!" مینجر نے کہا۔
"ہاں! معلوم تو ہوتا ہے۔۔۔ کچھ نروس قسم کا آدمی ہے۔"
مینجر نے اس خیال پر رائے زنی نہیں کی۔ وہ دونوں خاموشی سے کافی پیتے رہے۔ سوزی نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے لوگ اس آدمی کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں لیکن وہ اس انداز میں کچھ کھویا سا بیٹھا ہے جیسے اپنے گردوپیش کی خبر ہی نہ ہو۔
"پھر تعارف کرادیا جائے اس سے؟"
"ضرور۔ ضرور۔۔۔ یہ تو صورت ہی سے احمق معلوم ہوتا ہے۔"
مینجر پھر خاموش ہی رہا۔ وہ دونوں اٹھ کر اس کی میز کے قریب آئے وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔
"آپ سے ملئے!" مینجر نے عمران کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہا۔ "آپ مسٹر علی عمران۔۔۔ اور آپ مس سوزی!.
عمران نے مینجر ہی سے مصافحہ کر ڈالا۔ پھر "سوری" کہہ کر سوزی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سوزی اس بوکھلاہٹ پر بے اختیار ہنس پڑی۔
"تشریف رکھئے۔۔۔ تشریف رکھئے!" عمران نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ بیٹھ گئے۔ مینجر نے اسے بتایا کہ سوزی حال ہی میں ملایا سے آئی ہے۔
"اوہو! ملایا۔۔۔ کیا کہنے ہیں۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "مجھے وہاں برف گرنے کا منظر بہت حسین معلوم ہوتا تھا۔"
":برف!" سوزی نے حیرت سے کہا۔ "وہ تو خط استوا سے قریب ہے۔ وہاں برف کب پڑتی ہے۔"
"ارے۔۔۔ لاحول۔۔۔ مجھے ہمالیہ کا خیال تھا۔۔۔ ملایا میں نہیں گیا۔"
"ضرور جائیے۔۔۔ اگر کبھی موقع ملے۔۔۔ وہاں کے مناظر آپ بہت پسند کریں گے۔"
"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔"
وہ دونوں ۃی خاموش ہو گئے۔ سوزی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کہے اور عمران بار بار کنکھیوں سے مینجر کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج یہ نئی بات کیوں؟ اس سے پہلے مینجر نے کسی لڑکی سے عمران کا تعارف نہیں کرایا تھا۔
مینجر شاید سمجھ گیا تھا اس نے جلدی سے کہا۔ "مس سوزی کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف چاہتی تھیں۔"
"اوہا۔۔۔" عمران بھدے پن سے ہنسنے لگا پھر بولا۔ "کیا میں واقعی دلچسپ ہوں۔"
"اتنی جلدی کیسے اندازہ ہو سکتا ہے۔" سوزی مسکرائی۔ "یہ اقدام تو انہوں نے اپنے تجربے
کی بناء پر کیا تھا۔"
"جی ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے۔" عمران نے سر ہلا کر کہا۔
وہ پھر ہونٹ پر ہونٹ جما کر بیٹھ گیا۔ مینجر انہیں وہیں چھوڑ کر جا چکا تھا اور سوزی سچ مچ بور ہو رہی تھی۔ کیونکہ عمران کچھ ایسے انداز میں خاموش بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنے کسی عزیز کی موت کی خبر سنی ہو۔
"آپ تو غیر دلچسپ ثابت ہو رہے ہیں جناب!" سوزی اٹھلائی۔
"ارے۔۔۔ ہاں وہ۔۔۔ میں دراصل بھول ہی گیا تھا۔"
"کیا بھول گئے تھے؟"
"یہی کہ ہم دونوں پہلی بار ملے ہیں بات دراصل یہ ہے مس سوجی۔"
"سوجی نہیں۔۔۔ سوزی!"
"اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔ مجھے دراصل بھول جانے کا مرض ہے۔"
"کوئی بات نہیں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔۔۔ میں آپ کا شہر دیکھنا چاہتی ہوں"
"ضرور دیکھئے۔۔۔ یہ بہت اچھا شہر ہے۔۔۔ آپ کبھی اونٹ پر بھی بیٹھی ہیں؟"
"اونٹ پر؟" سوزی نے حیرت سے کہا اور اس مضحکہ خیز سوال پر ہنس پڑی۔
"جی ہاں۔۔۔ اونٹ پر۔۔۔ آپ اونٹ نہیں سمجھتیں۔۔۔ کیا ملایا میں نہیں ہوتے اونٹ۔۔۔ اونٹ ایک اونچا جانور ہے اور جھولا جھولتا ہوا چلتا ہے مجھے تو بہت پسند ہے یہ جانور۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی کار میں ایک اونٹ جوت دوں!"
"مگر آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟"
"بس یونہی۔۔۔ میں ہر آدمی سے یہ سوال کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جو ایک بار بھی اونٹ پر نہیں بیٹھا۔ اس نے اپنی اتنی زندگی برباد کی ہے۔"
"کیوں؟"
"پتہ نہیں۔۔۔ میں یہی محسوس ہوں، بہتیری ایسی باتیں محسوس کرتا ہوں جنہیں سن کر لوگ مجھے احمق سمجھتے ہیں لیکن اب میں کیا کروں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے لیکن وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں محسوس ہوتا ہے۔"
"آپ واقعی دلچسپ ہیں۔" سوزی مسکرائی۔
"شکریہ!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔
"آپ کا مشغلہ کیا ہے؟"
"آثار قدیمہ کی کھدائی کرنا۔"
"اوہ!"
"جی ہاں! اب تک کئی نادر روزگار چیزیں زمین سے برآمد کر چکا ہوں۔ پچھلے دنوں اپنے باغ کی کھدائی کر رہا تھا کہ ایک چالیس ہزار سال پرانا حقہ برآمد ہوا لیکن اب اس کے متعلق ایک لمبی بحث چھڑ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ حقہ ہے لیکن دوسرے ماہرین آثار قدیمہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حقہ نہیں بلکہ اسپرے مشین ہے۔"
"بھلا حقہ اور اسپرے مشین میں کیا علاقہ۔۔۔"
"کوئی نہیں! مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی ایک مرغیوں کا ڈربہ بھی نکل آیا ہے جو آدھا رنگین اور آدھا سادہ۔۔۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ڈربے پر اسپرے مشین سے رنگ کیا جا رہا تھا کہ ٹھیک اسی وقت طوفان نوح آگیا اس لئے رنگائی پوری نہیں ہوسی۔"
"کمال ہے بھلا یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ وہ طوفان نوح کے وقت کی چیزیں ہیں۔"
"ہرگز نہ معلوم ہوتا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈربے سے دو چار مچھلیوں کے کانٹے نکل آئے۔ میں کیا بتاؤں۔ پہلے مجھے دھیان نہیں آیا تھا ورنہ وہ کانٹے چپ چاپ کھسکا دیتا اور میری تھیوری بے چوں و چرا تسلیم کر لی جاتی۔ اب میں اسے حقہ کسی طرح ثابت نہیں کر سکتا۔ میری بہت بڑی شکست ہوئی ہے کاش میں جلدی ہی کوئی دوسری چیز برآمد کر کے اس شرمندگی کو مٹا سکتا۔" عمران یہ سب بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا اور سوزی اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"خیر مس چوزی دیکھا جائے گا۔" عمران نے انگڑائی لی۔
"سوزی پلیز! آپ بار بار میرا نام بھول جاتے ہیں۔"
"اوہ۔۔۔ معاف کیجئے گا"۔۔۔ عمران نے اپنا کان اینٹھ کر داہنے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔ قرب و جوار کے لوگ چونک کر ہنسنے لگے اور عمران اس طرح چونکا جیسے وہ کسی اور بات پر ہنسے ہوں۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا پھر جھک کر آہستہ سے بولا "کیا ہوا؟"
سوزی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے۔ ویسے وہ بری طرح جھینپ رہی تھی کیونکہ اب لوگ اسے بھی گھورنے لگے تھے۔
"آپ نے اپنے گال پر تھپڑ۔۔۔ مم مارا تھا۔" سوزی ہکلائی۔
"ان گدھوں کے منہ پر تو نہیں مارا تھا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا "آخر یہ ہنستے کیوں ہیں"
اس پر سوزی کو ہنسی آگئی۔
"اچھا۔۔۔ آپ بھی ہنس رہی ہیں۔ خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب لوگ تم پر ہنسنے لگیں تو تم سمجھ لو کہ تم ان سب کو نیچا دکھا سکتے ہو۔"
سوزی اس دوران میں یہ بھی بھول گئی تھی اس آدمی سے ملنے کا مقصد کیا تھا۔
"کنفیوشس کو پڑھا ہے آپ نے؟" وہ بولی۔
"کیا کنفیوشس کوئی کتاب ہے؟" عمران نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ "آپ مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی اجازت میں ہرگز نہیں دے سکتا۔"
"اوہ۔۔۔ آپ تو خفا ہوگئے۔۔۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا!"
"کیا مطلب تھا۔۔۔ آپ کا؟"
"کچھ بھی نہیں آپ تو پیچھے پڑ گئے۔"
"اوہ۔۔۔ تو آپ مجھے۔۔۔ پاگل کتا بھی سمجھتی ہیں۔۔۔ کیوں؟"
"ارے۔۔۔ کمال کرتے ہیں آپ۔"
"کیا کمال کرتا ہوں۔۔۔ کمال کرتی ہیں آپ۔۔۔ مجھے پاگل۔۔۔ بددماغ۔۔۔ بیوقوف اور نہ جانے۔۔۔ کیا کیا سمجھ لیا ہے آپ نے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ مینجر کا بچہ مجھے پریشان کرنا چاہتا ہے۔ میں اس سے سمجھ لوں گا۔"
عمران اپنی جگہ سے اٹھا اور سوزی کے احتجاج کی پروا کئے بغیر ڈائیننگ ہال سے چلا گیا۔
سوزی خاموش بیٹھی رہی۔ اور اب اسے یاد آیا کہ وہ یہاں کیوں آئی تھی۔
وہ سوچنے لگی۔ یہ تو سو فیصدی کریک معلوم ہوتا ہے۔ پھر شاید التھرے کی بیوی بھی پاگل ہی ہے جو التھرے جیسے۔۔۔ ذہین۔۔۔ طاقتور۔۔۔ اور۔۔۔ غیر معمولی قوت برداشت رکھنے والے آدمی کو چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھی۔ اور کلب کے باہر نکل کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ میں آئی۔ التھرے کے نمبر ڈائیل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولی
"مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔۔۔ سوزی اسپیکنگ۔۔۔"
"ہیلو۔۔۔ بے بی۔۔۔ کیا بات ہے؟"
"اس کا نام عمران ہی ہے نا!"
"ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ یہی نام ہے۔۔۔ بے بی۔۔۔!"
"میں اس سے اس وقت ملی ہوں۔۔۔ وہ تو پاگل ہے۔۔۔ سو فیصدی پاگل۔۔۔"
"ہاں مجھے بھی یہی معلوم ہوا تھا۔"
"پھر معاف کیجئے گا۔۔۔ شاید مسز التھرے بھی اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ بے بی!"
"اوہ۔۔۔ آپ مطمئن رہیئے۔۔۔ میں اس سے سمجھ لوں گی۔"
"بس تمہیں۔۔۔ تمہیں اتنا ہی کرنا ہے۔۔۔ کہ اسے مگر نہیں۔۔۔ ابھی تم اس سے ملتی رہو۔"
"بہت بہتر۔۔۔" سوزی نے ریسیور رکھ دیا۔ اور بوتھ سے باہر نکل آئی!
تیسری شام بھی جب سوزی آ ٹکرائی تو عمران کو اس کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا پڑا۔اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ شاید عمران پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتی کیونکہ وہ پچھلے دو دنوں سے برابر حماقت کی بجائے چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ حماقت تو تفریح کا سامان پیدا کرتی ہے مگر چڑچڑاہٹ برداشت کرنا شاید کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔
پھر وہ کس ٹائپ کی لڑکی تھی کہ عمران کی چڑچڑاہٹوں سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اس کا پیچھا چھوڑتی نظر نہیں آتی تھی۔
عمران نے سب سے پہلے مینجر سے اس کے متعلق پوچھ گچھ کی لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ایک نئی ممبر تھی اور اس نے کلب کے کسی دلچسپ ترین ممبر سے تعارف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مصلحتاً عمران نے اس کے متعلق زیادہ گفتگو نہیں کی۔ بہرحال وہ لڑکی اس وقت بھی اس کے سر پر مسلط تھی اور عمران سوچ رہا تھا کہ اس طرح مل بیٹھنے کی غرض و غائت کیا ہو سکتی ہے۔
"آپ آج بہت خاموش ہیں۔" لڑکی نے چھیڑا۔
"پتہ نہیں۔ مجھے تو نہیں محسوس ہوتا کہ میں خاموش ہوں۔" عمران کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ نظر آئی۔۔۔ چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا۔ "آپ ملایا کب واپس جائیں گی؟"
"کیوں؟"
"بس یونہی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کو واپس چلا جانا چاہئے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"میں بہت پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھ سے وجہ نہ پوچھا کیجئے۔۔۔ وجہ جب میری ہی سمجھ میں نہیں آتی تو آپ کو کیا بتاؤں!"
"خیر چھوڑیئے۔۔۔ آج میں آپ کو اپنے گھر لے چلنا چاہتی ہوں۔"
"گھر اپنا ہو یا دوسرے کا۔۔۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔"
"پھر کیا آپ کی راتیں آسمان کے نیچے گزرتی ہیں؟"
"نہیں۔۔۔ آسمان پر گزرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ رات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔۔۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔"
"ضرور کہا ہوگا۔" لڑکی جلدی سے بولی۔ "اٹھیئے چلئے میرے ساتھ۔۔۔"
"آپ کے گھر پر اور کون ہے؟"
"کوئی بھی نہیں۔۔۔ میں تنہا رہتی ہوں۔"
"ارے باپ رے!" عمران نے اردو میں کہا۔
اور لڑکی بولی۔ "میں سمجھی نہیں۔"
"آج نہیں کل!" عمران نے کہا۔
"آج کیوں نہیں۔۔۔" سوزی نے کہا۔
"آج میری بکری بچہ دینے والی ہے۔"
"اوہ۔۔۔ کیا یہ گندہ شوق بھی رکھتے ہیں آپ؟"
"یہ گندہ شوق ہے؟" عمران نے جھلا کر بولا۔
"یقیناً!" لڑکی مسکرائی۔
"بس اب براہ کرم مجھے زیادہ غصہ نہ دلایئے!"
"آپ عجیب ہیں۔"
"آپ خود عجیب ہیں بلکہ عجیب ترین۔۔۔"
ٹھیک اسی وقت جولیانا فٹز واٹر ڈائیننگ ہال میں داخل ہوئی اور سیدھی عمران کی میز کی طرف چلی آئی لیکن میز کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹھکی۔ کیونکہ عمران کے ساتھ کسی تفریح گاہ میں کسی لڑکی کا ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی۔۔۔ اور پھر لڑکی بھی سفید فام۔۔۔
"اوہو۔۔۔ کیا میں مخل ہو رہی ہوں؟۔۔۔ مسٹر عمران۔۔۔" اس نے عمران کو مخاطب کیا۔
"نیہں تو۔۔۔ ویسے یہ" عمران نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا "میرے دماغ میں خلل ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔"
سوزی گڑبڑا گئی۔ اس نے احتجاج کے لئے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ جولیا بول پڑی۔ "وہ تو ظاہر ہی ہے اسے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال میں تمہاری اجازت کے بغیر یہاں بیٹھ رہی ہوں۔"
سوزی جولیا کو دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا مسز التھرے یہی ہے۔۔۔ جولیانا فٹز واٹر بہت دلکش عورت تھی۔ سوزی اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن نام یاد نہ آیا۔ ویسے اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ مسز التھرے ہی ہے۔ عمران خاموش ہو گیا تھا۔
"آپ کی تعریف؟" جولیا نے سوزی کی طرف دیکھ کر کہا۔
"اوہ! مجھے سوزی کہتے ہیں۔" وہ جلدی سے بول پڑی۔ "ابھی حال ہی میں ملایا سے آئی ہوں او رتین دن ہوئے آپ کے کلب کی ممبر بنی تھی۔ مسٹر عمران کلب کے دلچسپ ترین آدمی ہیں۔"
جولیا نے ایک طویل سانس لی اور کنکھیوں سے عمران کی طرف دیکھتی ہوئی بولی "میں جولیانا فٹز واٹر ہوں۔۔۔ مسٹر عمران واقعی بہت دلچسپ آدمی ہیں۔"
"کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب دو عورتیں بیک وقت تمہیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو، جو ان کے بیان کی تصدیق کر سکے۔"
"سوزی ہنسنے لگی پھر جولیا سے بولی "یہ کنفیوشس کے اسپیشلسٹ ہیں۔"
"یہ کس چیز کے اسپیشلسٹ نہیں ہیں؟" جولیا نے سوال کیا۔
سوزی پھر ہنسنے لگی۔ لیکن عمران قطعی بے تعلقانہ انداز میں بیٹھا رہا۔ جولیانا اسے چھیڑ چھیڑ کر بولنے پر اکساتی رہی۔ اس سے سوزی نے اسے مسز التھرے سمجھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ عمران کو اس کی پروا بھی نہیں ہے۔ خود وہی اس کے پیچھے لگی ہے۔ ان تین دنوں میں سوزی نے یہ بھی محسوس کیا کہ کریک ہونے کے باوجود وہ جنس مخالف کے لئے خود میں کافی کشش رکھتا ہے۔
سوزی اب اٹھ جانا چاہتی تھی۔ نہ جانے کیوں وہ التھرے کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ عمران شاید مسز التھرے کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ خود ہی اس کے پیچھے دم ہلاتی پھرتی ہے۔"
"اچھا۔۔۔ اب اجازت دیجئے!" وہ اٹھتی ہوئی بولی۔
"بیٹھئے نا!" جولیا نے کہا۔ "اگر آپ میری وجہ سے اٹھ رہی ہیں۔۔۔ تو۔۔۔"
"ارے نہیں۔۔۔ قطعی نہیں۔" سوزی مسکرائی۔ "مجھے دراصل آٹھ بجے ایک جگہ پہنچنا ہے۔"
"ضرور، ضرور!" عمران نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔
نہ جانے کیوں سوزی کو عمران کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔۔۔ لیکن وہ زبردستی مسکراتی رہی۔
کچھ دیر بعد اس نے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ سے التھرے کو فون کیا۔
"یس۔۔۔ بےبی۔۔۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں اس وقت ان دونوں کے پاس سے اٹھ کر آ رہی ہوں۔"
"اوہ۔۔۔ کیا۔۔۔؟"
"جی ہاں! آج مسز التھرے سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وہ واقعی بے حد حسین ہیں۔ ان کا نام جولیانا ہی ہے نا؟"
"کیا۔۔۔ اوہو۔۔۔ ہاں۔۔۔ جولیانا"۔۔۔ دوسری طرف سے تھوڑے وقفے کے ساتھ کہا گیا۔۔۔ "ہاں! تو تم نے اسے دیکھ لیا بے بی!"
"ہاں! دیکھ لیا مگر مسٹر التھرے وہ عمران اس سلسلے میں بالکل بے قصور معلوم ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ شاید خود ہی اس پر بری طرح مرمٹی ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس واقعے کو التھرے کی بدنصیبی ہی کہیں گے۔"
"اور سنیئے۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام نہیں لگاتیں!"
"ہائیں۔۔۔ یہ میرے لئے بالکل نئی اطلاع ہے۔" دوسری طرف سے تحیر زدہ سی آواز آئی۔
"جی ہاں۔۔۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ وہ جولیانا فٹز واٹر ہیں۔"
"بے بی! یہ بڑی زیادتی ہے۔ اب تم خود ہی انصاف کرو!۔۔۔ کیا کوئی شادی شدہ عورت شوہر کی بجائے باپ کا نام استعمال کر سکتی ہے؟"
"تو فٹز واٹر ان کے باپ کا نام ہے۔"
"ہاں۔۔۔ مگر اب یہ عورت مجھے خوامخواہ مجھے غصہ دلا رہی ہے۔" التھرے کی غصیلی آواز آئی۔
"آپ کا غصہ فضول ہے مسٹر التھرے۔۔۔ عمران نے ان پر ڈورے نہ ڈالے ہوں گے۔ وہ اس قسم کا آدمی معلوم نہیں ہوتا بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کے لئے تیار ہوں کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
"خیر یہ غلطی ہے تمہاری۔۔۔ وہ دوسرے قسم کے مردوں میں سے ہے۔ یہ لوگ خوامخواہ عورتوں سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے کتے ہوتے ہیں۔ ان کی بے رخی تو دراصل عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔"
"ممکن ہے آپ درست کہہ رہے ہوں! ہاں ایسے مرد بھی ہوتے ہیں۔"
"بس یہ سمجھ لو کہ سارا قصور اسی کا ہے۔ یہ بتاؤ کہ کیا وہ تمہارے ساتھ آنے پر آمادہ ہے۔"
"میں اسے آمادہ کر لوں گی۔۔۔ شاید کل شام کو وہ میرے ساتھ باہر نکل سکے۔"
"اچھی بات ہے کل دس بجے تک تمہیں مقام کے متعلق اطلاع دے دی جائے گی۔"
"مگر اپ کریں گے کیا؟"
"بس تم دیکھنا! میری حکمت عملی۔۔۔ ویسے تم مطمئن رہو کوئی غیر قانونی حرکت ہرگز نہ ہونے پائے گی۔"
"مجھے اطمینان ہے مسٹر التھرے۔۔۔ آپ بہت اونچے آدمی ہیں!"
"شکریہ! بے بی مگر افسوس! کاش میری بیوی نے کبھی مجھے اس نقطہ نگاہ سے دیکھا ہوتا۔"
"آپ کے کہنے کا مطلب۔۔۔ یہ کہ۔۔۔ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں!"
"اسی لئے میں بھی تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ اچھا بے بی۔۔۔ اور کچھ نہیں؟"
"جی نہیں!" دوسری طرف سے سلسلہ مقطعی ہونے کی آواز آئی!
آج سردی کم تھی اور پچھلی رات کا شفاف چاند سفید بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بار بار الجھ رہا تھا۔ کلاک نے بارہ بجائے اور وزارت داخلہ کا اسسٹنٹ سیکرٹری کرنل نادر ٹہلتے ٹہلتے رک گیا۔ مغربی سمت کی کھڑکی کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا جس سے دور تک پھیلا ہوا میدان دکھائی دیتا تھا وہ کھڑکی کی طرف بڑھا اور دوسرا پٹ بھی کھولتا ہوا سلاخوں پر جھک گیا۔ حد نظر تک چاندنی کھیت کر رہی تھی۔ پھر اس نے بڑی بے چینی سے کلاک کی طرف دیکھا۔ بارہ بج کر دو منٹ ہوئے تھے۔ اب اس نے اس طرح کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالی جیسے دیوار سے لگے ہوئے کلاک نے اسے دھوکا دیا ہو۔ باہر ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی اور وہ چونک پڑا۔ پھر دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اس کے انداز میں بڑی بے چینی تھی۔ جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر اس نے آہستہ سے کہا "سلوانا"
اسے اپنی سرگوشی دور تک پھیلتی محسوس ہوئی۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کیونکہ اسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ تھوڑی دور تک جھاڑیاں متحرک نظر آ رہی تھیں۔ وہ دوڑتا ہوا وہاں پہنچا "سلوانا"! اس نے پھر آہستہ سے پکارا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس بار اسے جھاڑیوں میں گھستا چلا گیا۔
لیکن اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی گردن میں پھندا سا پڑ گیا ہو۔ ایک جھٹکے کے ساتھ رک کر اس نے اپنی گردن ٹٹولنی چاہی لیکن دوسرے ہی لمحے ایک مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر پڑا۔۔۔ ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی کسی کی گرفت میں آ گئے۔ اس نے تڑپ کر اس جال سے نکلنا چاہا مگر یہ ممکن نہ ہوا۔ منہ پر ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ ایسی صورت میں حلق سے آواز کیا نکلتی۔
وہ زمین پر گرا دیا گیا۔۔۔ لیکن بے حس و حرکت۔۔۔ شاید بیک وقت کئی آدمیوں نے اسے دبا رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے کانوں میں گونجنے والی جھائیں جھائیں گہری ہوتی گئیں۔۔۔ ایک بار آنکھوں کے سامنے کوندا سا لپکا اور پھر گہری تاریکی چھا گئی۔ کانوں کی جھائیں جھائیں ذہن کے اندھیروں میں مدغم ہو گئی۔
کرنل نادر اچھے ہاتھ پیر اور بہتر صحت کا مالک تھا لیکن پھر بھی جب وہ دوبارہ ہوش میں آیا تو نقاہت کی وجہ سے آنکھیں کھولنے میں بھی دشواری محسوس کر رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اس طرح اچھل پڑا۔ جیسے اچانک کوئی چیز چبھ گئی ہو۔ وہ برہنہ تھا۔ جسم پر ایک تار بھی نہیں تھا اس نے چاروں طرف وحشت زدہ نظروں سے دیکھا اور دیوانوں کے سے انداز میں پورے کمرے کا چکر لگانے لگا۔ وہ کمرے میں تنہا تھا لیکن یہاں اسے کوئی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنا جسم ڈھانک سکتا۔
اس کا سر بڑی شدت سے چکرا رہا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھولنے کی آواز آئی اور تین آدمی اندر داخل ہوئے۔ وہ بے تحاشہ بیٹھ کر ایک گوشے میں سمٹ گیا۔ آنے والے تینوں سفید فام آدمی پادریوں کی وضع قطع رکھتے تھے۔
"ارے۔۔۔ دیکھو! اس ننگے بے شرم کو!۔۔۔" ایک نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
"چھی چھی!" دوسرے نے برا سا منہ بنایا۔
"کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟۔۔۔" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ ڈپٹی سیکرٹری فوجی آدمی تھا۔ لیکن اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا اس کے لئے بالکل نئی بات تھی اور وہ بری طرح نروس ہو گیا تھا۔
"ارے کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔۔۔ اس پر۔۔۔" ایک نے کہا "بہرا ہے شاید!" دوسرا بولا۔
"کیوں کیا تم بہرے ہو۔۔۔؟" تیسرے نے ڈپٹی سیکرٹری کو مخاطب کیا۔ "میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ سور کے بچو!" ڈپٹی سیکرٹری نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ "ورنہ چن چن کر قتل کر ڈالوں گا۔۔۔ میرے کپڑے لاؤ۔۔۔ لاؤ۔۔۔ جلدی۔۔۔ نکلو یہاں سے۔۔۔ سور کے بچو!"
"پاگل معلوم ہوتا ہے۔" تیسرے نے دوسروں کی طرف دیکھ کر خوفزدہ آواز میں کہا۔ "بھاگو یہاں سے۔"
اور وہ سچ مچ بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ انہوں نے دروازہ بھی نہیں بند کیا۔
ڈپٹی سیکرٹری اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا کہ اسے بند کر کے اندر سے چٹخنی چڑھا دے۔ لیکن پھر وہ جھجھک کر پیچھے ہٹ آیا۔ ایک لمبا آدمی دروازے میں کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ڈپٹی سیکرٹری کے کپڑے تھے۔ اس نے انہیں اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔ "کپڑے پہن لو!"
اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ڈپٹی سیکرٹری نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کپڑے پہنے اور پھر دروازے کی طرف بڑھا۔ اب اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس وقت پہاڑ سے بھی ٹکرا جائے گا۔
اس نے پوری قوت سے لمبے آدمی پر حملہ کر دیا۔ لیکن اپنے ہی زور میں منہ کے بل فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ کیونکہ لمبے آدمی نے بڑی پھرتی سے وار خالی کر دیا تھا اور پھر اسے اٹھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ لمبا آدمی اس پر سوار ہو گیا۔
"تم اپنا وقت ضائع کر رہے ہو دوست!" اس نے ڈپٹی سیکرٹری کی گردن دباتے ہوئے سفاکانہ انداز میں کہا۔۔۔ اور پھر اچھل کر ہٹ گیا۔
ڈپٹی سیکرٹری زمین سے اٹھا تو لیکن چپ چاپ کھڑا رہا۔
"تم اب بوڑھے ہو چلے ہو"۔۔۔ لمبے آدمی نے کہا۔ "اس وقت اس قسم کی ورزشیں تمہارے اعصاب کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔"
"مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔
"ایک بہت ہی معمولی بات کے لئے۔۔۔ جو ذاتی طور پر تمہارے لئے ذرہ برابر بھی نقصان دہ نہیں ہو سکتی! تم صرف اتنا بتا دو کہ ریڈ اسکوائر کاغذات کہاں رکھے گئے ہیں؟"
"اوہ!" ڈپٹی سیکرٹری اسے گھورنے لگا۔
"میں یہ سننا پسند نہیں کروں گا کہ تم اس سے لاعلم ہو!" لمبے آدمی نے کہا۔
"یہ حقیقت ہے کہ میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔"
"تم اچھی طرح جانتے ہو۔"
ڈپٹی سیکرٹری کچھ نہ بولا۔ لمبے آدمی نے مسکرا کر کہا۔ "اگر تم نہیں بتاؤ گے۔۔۔ تو کپڑے پھر اتار لئے جائیں گے اور ایک مجمع ہوگا تمہارے گرد۔"
"میں ایک آدھ کو جان سے مار دوں گا۔" ڈپٹی سیکرٹری غرایا۔ "میں بوڑھا ضرور ہو چلا ہوں لیکن قوت ہے میرے جسم میں!"
"تم احمقوں کی سی گفتگو کر رہے ہو۔ تمہیں پچھتانا پڑے گا۔"
ڈپٹی سیکرٹری خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔
"تم کسی پاگل کتے کی طرح بھونکنے لگے ہو۔" لمبا آدمی بولا۔ "تم۔۔۔ ہم سے ہمارے طریق کار سے ناواقف ہو۔ ہم تم پر تشدد نہیں کریں گے۔۔۔ اس کے باوجود بھی تم اگل دو گے۔"
"جب مجھے کچھ معلوم ہی نہیں ہے تو میں کیا بتاؤں گا۔"
"دیکھو دوست! پھر سوچ لو۔۔۔ تمہارے کپڑے اتار لئے جائیں گے"
"تمہاری مرضی!" ڈپٹی سیکرٹری نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
"میں تمہارے پورے خاندان کو اسی طرح یہاں اکٹھا کر سکتا ہوں۔ ذرا سوچو تو۔۔۔ اگر وہ سب تمہاری ہی طرح برہنہ کرکے اسی کمرے میں تمہارے ساتھ بند کر دیئے گئے تو۔۔۔؟"
ڈپٹی سیکرٹری سر سے پیر تک لرز گیا۔ اس کی کھال اڑا دی جاتی۔۔۔ تب بھی کاغذآت کے متعلق کچھ نہ بتاتا لیکن یہ حرکت خدا کی پناہ۔۔۔ اس کے تصور ہی سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
"نہیں!" اس نے مضطربانہ انداز میں کہا۔۔۔ "تم ایسا نہیں کر سکتے۔"
"نمونہ تو تم دیکھ ہی چکے ہو!" لمبا آدمی بیدردی سے ہنسا۔ "میرے لئے یہ ناممکن نہ ہوگا۔"
"وہ کاغذات اسٹیٹ بینک کی سیف کسٹڈی میں ہیں۔"
"تم سمجھدار آدمی ہو!" لمبے آدمی نے سنجیدگی سے کہا۔ "لیکن تمہیں اس وقت تک یہاں رہنا پڑے گاج ب تک کہ کاغذات ہمارے قبضے میں نہ آ جائیں۔"
"تم کون ہو؟" ڈپٹی سیکرٹری نے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔
"الفانسے!" لمبے آدمی نے آہستہ سے کہا اور اس کے پتلے پتلے ہونٹ پھیل گئے۔۔ طوطے کی طرح جھکی ہوئی ناک۔۔۔ کچھ اور زیادہ خم دار معلوم ہونے لگی۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔