جمعرات، 23 اپریل، 2015

منقبت

0 comments
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں 
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں 
جو ترے در سے یار پھرتے ہیں 
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں 
آہ کل عیش تو کیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں 
ہر چراغِ مزار پر قدسی 
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں 
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں ، جان کیا نظر آئے 
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں 
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں 
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں 
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر 
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں 
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں ، چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافر سُن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے ، رات آئی
گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم
کیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتّے ہزار پھرتے ہیں 
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ
ایکسٹو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔