لڑکیوں کا جزیرہ
(1)
سمندر کا پھوڑا۔۔۔ آج بقعہ نور بنا ہوا تھا !-لیکن اب وہ سمندر کا پھوڑا نہیں کہلاتا تھا۔۔ اس کے بہت سے نام تھے - نوجوانوں میں وہ لڑکیوں کے جزیرے کے نام سے مشہور تھا- ویسے سرکاری کاغذات پر وہ سمندر کا پھوڑا ہی لکھا جاتا ہے- انگریزوں نے اسے یہی نام دیا تھا اور وہ بندرگاہ سے چار میل کے فاسلے پر واقع تھا-8177ع سے پہلے اس کا نام سمندر کا پھوڑا بھی نہیں تھا-اس وقت شاید اس کا کوئی نام ہی نہیں تھا-۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ویران جزیرے کے نام سے اسے یاد کیا جاتا رہاہو-1877ع میں انگریزوں نے اس پر بحری فوج کی ایک چھوٹی سی چوکی قائم کی-اور وہ جزیرہ آہستہ آہستہ آباد ہوتا گیا! - پھر ٹھیک دس سال بعد 1887ع میں وہ یک بیک تہہ نشین ہو گیا- بہت تھوڑے سے آدمی اپنی جانیں بچا سکے -۔۔۔۔ لیکن ان میں ان کے ارادے کو دخل نہیں تھا! سینکڑوں لاشیں بڑی بڑی گہروں کے ساتھ شہری ساحل سے آ لگیں تھیں ۔ ان لاشوں میں کچھ بیہوش آدمی بھی تھے جب کی جانیں بر وقت طبی امداد سے بچ گئیں تھیں -- اس جزیرے کا ڈوبنا انیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی تھی !-اس کا ماتم عرصے تک ہوتا رہا ! پھر آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کے وہاں بھی کوئی جزیرہ ہوتا تھا ۔۔۔۔!
1905ع میں جزیرہ پھر سمندر کی سطح پر ابھر آیا !-۔۔۔ لیکن چونکہ اس سے بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں -اس لئے اس کی طرف دھیان تک نہ دیا گیا-اور وہ اسی طرح پڑا رہا! اور سرکاری طور پر “ سمندر کے پھوڑے “ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا !۔۔۔۔
دس پندرہ سال بعد اس کی ہیئت بدل گئی پہلے وہ ریت کا ایک بہت بڑا تودہ معلوم ہوتا تھا- مگر اب اس پر ہریالی نظر آنے لگی تھی -۔۔ خاصی زرخیز زمیں معلوم ہوتی تھی لیکن وہ ویران ہی رہا!۔۔۔ اکثر ماہی گیر وہاں شب بسری کر لیے کرتے تھے ! ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا -
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا---
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا - حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا -
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا---
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا - حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
عمران منتظمین کے آفس سے نکل کر ایک جگمگاتی روش پر آ گیا-یہاں جگ جگہ خوشنما پودوں کے درمیاں روشیں بنائی گئی تھیں -عمران نے اس طرح اپنی پلکیں جھپکا کر دیدے نچائے جیسے سچ مچ وہ کوئی الو ہو اور اسے کوئی اس روشنی کے طوفان میں زبعدستی چھوڑ گیا ہو! حالانکہ یہاں اس وقت اس قسم کی ایکٹنگ کی ضرورت نہیں تھی - مگر عمران عادتاً سچ مچ احمق ہوتا جا رہا تھا !
عورتوں اور مردوں کے غول کے غول اس کے قریب سے گزر رہے تھے-۔۔۔ اور عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت کچھ اور زیادہ بڑھ گئی تھی ۔۔۔ اور اسے دوسری طرف جانے کے لئے تقریباً تین منٹ تک کھڑا رہنا پڑا-۔۔۔ کیونکہ ابھی تک اس روش سے گزرنے والوً کے درمیاں اتنا فاصلہ نہیں دکھائی دیا تھا جس سے گزر کر وہ دوسری روش تک پہنچ سکتا!
اچانک دو لڑکیاں اس کی طرف مڑیں اور دفتر والی روش پر آ گئیں ۔۔۔۔۔ عمران سمجھا تھا کہ اس کے قریب سے گذر کر شاید آفس میں جائیں گی! لیکن وہ دونوں اس کے سامنے رک گئیں !
“کیوں! یہی حضرت تھے نہ“ ایک نے دوسری سے کہا -
“شاید یہی تھے“ دوسری نے کہا!
“ نہیں ! سو فیصد یہی تھے“-
“ہائیں“ عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا “ میں تھا نہیں بلکہ ہوں “-
“ تم نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی“ پہلی لڑکی بولی !
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ! وہ میرے بڑے بھائی صاحب رہے ہونگے! میری ہی جیسی صورت شکل والے ہیں ! خیر اب آپ کیا چاہتی ہیں ! بات تو سال بھر پہلے کی ہے “
“ کہیں اطمینان سے بیٹھ کر باتیں ہونگی“ جواب ملا ۔۔ “ کیفے رونیک میں ۔۔۔۔ کیوں ؟“
اس نے دوسری لڑکی کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر بولی “ٹھیک ہے!“
“ ٹھیک ہے تو چلئے “- عمران لا پروائی سے بولا-
“نہیں! انہوں نے گالی نہیں دی ہوگی“- دوسری لڑکی نے پہلی سے کہا-
“ یہ تو بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں“-
“جی ہاں!مجھے گالی آتی ہی نہیں “۔۔۔۔۔۔ صرف ایک جانتا تھا وہ کیا ہے ! حرازمادہ۔۔۔۔ ہمارزادہ۔۔۔ ارر یہ بھی بھول گیا ۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے ۔۔۔ لاحول والا۔۔۔۔ نہیں یاد آئے گا! حراد مازہ۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی تھی!الجھن کے آثار تھے بالکل ایسے ہی جیسے یادداشت پر زور دیتے وقت پیدا ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا! اور پھر بے ساختہ مسکرا دیں - آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے اور پھر پہلی بولی-
“تو چلئے نہ وہیں گفتگو ہوگی!“
عمران چل پڑا ! اس کی چال بھی بڑی بے ڈھنگی نظر آ رہی تھی- لیکن اب لڑکیاں بھی سنجیدو ہو گئیں تھیں ! ۔۔۔۔۔ وہ کیفے رونیک میں آئے !۔۔۔۔۔ نمائش میں شاید یہی سب سے شاندار کیفے تھا! ۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لڑکیاں اسی کا نام کیوں لیتیں!
صرف تین یا چار میزیں خالی تھیں !۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے ایک منتخب کر لی۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ بیٹھے ایک ویٹر سر پر مسلط ہو گیا!۔۔۔۔
“کیا لاؤں!۔۔۔۔ “ وعٹر نے جھک کر نہایت ادب سے پوچھا!
لڑکیاں عمران کی طرف دیکھنے لگیں اور عمران بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا“ تت۔۔۔۔۔ تین گلاس پھنڈا ٹانی۔۔۔۔۔۔۔!-
“ جی صاحب۔۔۔۔“
“ ٹھنڈا پانی۔۔۔۔۔!“
“ اوہ نو۔۔۔۔۔ نو!“ ایک لڑکی ہنستی ہوئی لپک کر دوہری ہوگئی !“ گرلڈ چکن تین پلیٹ۔۔۔۔۔ تین اسٹک ۔۔۔۔ اور کافی جاؤ۔۔۔۔!“-
اب عمران کے چہرے کی حماقت انگیز سنجیدگی میں بوکھلاہٹ بھی شامل ہو گئی تھی!
“ کیوں ڈیئر ! ۔۔۔تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔ “ ایک لڑکی نے عمران کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے کہا اور عمران اس طرح اپنا ہاتھ کھینچ کر شرما گیا جیسے کسی کنواری لڑکی سے اس کے ہونے والے شوہر کا نام پوچھ لیا گیا ہو!۔۔۔“
“ تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو !“ دوسری نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے کہا !
“ میں گھر ۔۔۔۔ جاؤں گا!“ عمران پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا- اور اس کی کرسی الٹ گئی !۔۔۔۔۔ وہ بھی کرسی پر ہی تھا !۔۔ پھر وہ کیوں نہ الٹتا! بہیترے لوگ اچھل کر کھڑے ہو گئے-! کچھ ہنسنے لگے! دونوں لڑکیاں سناٹے میں آ گئیں ! جب عمران پڑا ہی رہا تو وہ بھی اٹھ کر اس کی طرف جھپٹیں ! عمران آنکھیں بند کئے گہری گہری سانسیں لے لے رہا تھا !-
“ انور بھائی ۔۔۔۔۔ انور بھاےئ “ ایک لّکی نے عمران کو جھنجھوڑ کر ہانک لگائی مگر عمران کے پپوٹوں میں بھی حرکت نہ ہوئی !-
“ کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! “ “ کسی نے پوچھا“
“ بے ہوش ہو گئے ہیں !“ دوسری لڑکی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا-
پہلی لڑکی عمران کے کوٹ کے بٹن کھولنے لگی اور عمران نے محسوس کیا کہ اس کا پرس اندرونی جیب سے اوپر کی طرف کھسک رہا ہے - لیکن وہ دم مارے پڑا ہی رہا- پرس اس لڑکی نے اس کی جیب سے کھسکایا تھا جس نے روش پر اس کو چھیڑا تھا!۔۔۔۔۔ عمران نے اسے بھی محسوس کر لیا! کیونکہ وہ ہی اس کے کپڑوں کو چھیڑ رہی تھی مگر اب بھی اس طرح پڑے رہنا دانشمندی سے بعید تھا-
عمران کو ہوش آ گیا! وہ دو تین بار ہولے ہولے کراہا پھر اٹھ بیٹھا! اس کے گرد کافی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی ! لوگ بیہوشی کی وجہ پوچھنے لگے اور عمران کسی گھبرائے ہوئے بچے کی طرح ہاتھ اٹھا کر بولا “ باہر !“-
لڑکیوں نے اس کے دونوں بازو پکڑتے ہوئے کہا “ چلئے چلئے ! “ عمران لڑکھڑاتا ہوا باہر آیا۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے شور ہو رہا تھا ! لوگ ہنس رہے تھے ۔۔ قہقہے پگا رہے تھے!۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی فقرہ بھی کس دیتا! ۔۔۔۔۔ بہرحال لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پئے ہوئے ہے !-
“ آ پ کو کیا ہوگیا تھا ! “ ایک لڑکی نے پوچھا-
“ پتہ نہیں ! میں نہیں جانتا! مجھے گھر پہنچا دیجئے “ عمران گھگھیایا!
“ کیوں ! اب گھر بھی پہنچادیں ! واہ یہ ایک ہی رہی “
“ خدا کے لئے ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں لانچ سے سمندر میں گر کر ۔۔۔۔۔۔۔ ارے باپ رے !“
ایسا معلوم ہوا جیسے عمران سچ مچ سمندر میں ڈوب رہا ہو!وہ دونوں بے تحاشہ ہنسنے لگیں ! ان میں سے ایک نے جس نے پرس اڑایا تھا کھسک جانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی!
یہ دورہ جب بھی پڑتا ہے ایک گھنٹے کے بعد پڑتا ہی چلا جاتا ہے ! ۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے گھر پہنچا دیجئے !۔۔۔ جو معاوضہ چاہئے لے لیجیئے “ ہزار ۔۔۔ دو ہزار ۔۔۔ پانچ ہزار!“
“ ہائیں ہائیں ! کیوں الو بناتے ہو!“
“ میں کوئی مفلس آدمی نہیں ہوں ایک بڑی عمارت میں تنہا رہتا ہوں ! لاکھوں کا مالک ہوں !“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ نہین تم زندہ رہوگے ڈارلنگ ۔۔۔۔“ دوسری اس کا بازو تھپتھپا کر بولی !-
“ہایہں ڈارلنگ۔۔۔۔۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں !۔۔۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔“ عمران لفظ ڈارلنگ اس طرح مزے لے لے کر دھراتا رہا جیسے یہ لفظ زندگی مٰن پہلی مرتبہ اس کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ طویل سانس لے کر گلوگیر آواز میں بولا !“ تم لوگ بڑی اچھی ہو ! مجھے اج تک کسی بھی ڈارلنگ نہیں کہا۔۔۔!۔۔۔۔ بچپن میں میرے ماں باپ بالکل مر گئے تھے!بالکل کیا بس مر گئے تھے!۔۔۔۔۔ پھر آج تک کسی نے بھی مجھ سے پیار محبت سے باتیں نہیں کیں !“
لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا پھر وہ لڑکی بولی جس نے پرس اڑایا تھا-
“ یہ تمہیں گھر پہنچا دے گی ! مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے “
“ نہیں تم بھی چلو! چلو ورنہ میں یہیں کسی پٹھر سے اپنا سر ٹکرا دوں گا!“
عمران نے کچھ اس طرح غل غپاڑے کے سے انداز ظاہر کئے کہ دونوں لڑکیاں بوکھلا گئیں!
“ اچھا! اچھا ۔۔۔۔ چپ رہو! ہم چلتے ہیں ! تمہارے پاس کار ہے !“ پرس اڑانے والی نے پوچھا!
“ ایک نہیں تیں ہیں !“
“ تم صبح ہمیں کار سے شاداب نگر بھجوا دوگے!“
“بالکل! بالکل ۔۔۔۔ دوناں کو الگ الگ کاروں سے ۔۔۔۔۔ پروا نہ کرو !“ عمران سر ہلا کر بولا! پھر دونوں لڑکیاں عمران کو چھیڑنے لگیں ! اور عمران شرماتا ہوا لجاتا ہوا نمائش کے احاطے سے باہر نکلا!۔۔۔۔۔۔ اب وہ ساحل کی طرف جا رہے تھے جو ایک فرلانگ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا! یہاں بہت بھیڑ تھی ! خصوصاً اس حصے میں جہاں لانچ رکتے تھے انہیں بدقت تمام ایک لانچ میں جگہ مل سکی !
ساحل سے کافی دور نکل جانے کے بعد عمران بو کھلائے ہوئے انداز میں اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا! پرس اڑانے ولی اس سے کچھ دور کھسک گئی ! پھر اس نے اسے ہنستے دیکھا!
“ کیا بات ہے“ پرس اڑانے والی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا- وہ اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہو گئی تھی!
“ جیب صاف ہوگئی!“ عمران نے قہقہہ لگا کر کہا!
“ کیا!“ دوسری لڑکی متحیرانہ لہجے میں بولی “ اوہ آپ اس طرح ہنس رہے ہیں !“
“ ارے کیوں نہ ہنسوں! گرہ کٹ بھی تو سر پیٹ پیٹ کر رویا ہوگا!“
“کیوں ؟“ پرس اڑانے والی نے پوچھا-
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔