لڑکیوں کا جزیرہ ​


لڑکیوں کا جزیرہ 

(1)​

سمندر کا پھوڑا۔۔۔ آج بقعہ نور بنا ہوا تھا !-لیکن اب وہ سمندر کا پھوڑا نہیں کہلاتا تھا۔۔ اس کے بہت سے نام تھے - نوجوانوں میں وہ لڑکیوں کے جزیرے کے نام سے مشہور تھا- ویسے سرکاری کاغذات پر وہ سمندر کا پھوڑا ہی لکھا جاتا ہے- انگریزوں نے اسے یہی نام دیا تھا اور وہ بندرگاہ سے چار میل کے فاسلے پر واقع تھا-8177ع سے پہلے اس کا نام سمندر کا پھوڑا بھی نہیں تھا-اس وقت شاید اس کا کوئی نام ہی نہیں تھا-۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ویران جزیرے کے نام سے اسے یاد کیا جاتا رہاہو-1877ع میں انگریزوں نے اس پر بحری فوج کی ایک چھوٹی سی چوکی قائم کی-اور وہ جزیرہ آہستہ آہستہ آباد ہوتا گیا! - پھر ٹھیک دس سال بعد 1887ع میں وہ یک بیک تہہ نشین ہو گیا- بہت تھوڑے سے آدمی اپنی جانیں بچا سکے -۔۔۔۔ لیکن ان میں ان کے ارادے کو دخل نہیں تھا! سینکڑوں لاشیں بڑی بڑی گہروں کے ساتھ شہری ساحل سے آ لگیں تھیں ۔ ان لاشوں میں کچھ بیہوش آدمی بھی تھے جب کی جانیں بر وقت طبی امداد سے بچ گئیں تھیں -- اس جزیرے کا ڈوبنا انیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی تھی !-اس کا ماتم عرصے تک ہوتا رہا ! پھر آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کے وہاں بھی کوئی جزیرہ ہوتا تھا ۔۔۔۔!
1905ع میں جزیرہ پھر سمندر کی سطح پر ابھر آیا !-۔۔۔ لیکن چونکہ اس سے بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں -اس لئے اس کی طرف دھیان تک نہ دیا گیا-اور وہ اسی طرح پڑا رہا! اور سرکاری طور پر “ سمندر کے پھوڑے “ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا !۔۔۔۔
دس پندرہ سال بعد اس کی ہیئت بدل گئی پہلے وہ ریت کا ایک بہت بڑا تودہ معلوم ہوتا تھا- مگر اب اس پر ہریالی نظر آنے لگی تھی -۔۔ خاصی زرخیز زمیں معلوم ہوتی تھی لیکن وہ ویران ہی رہا!۔۔۔ اکثر ماہی گیر وہاں شب بسری کر لیے کرتے تھے ! ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا -
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا---
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا - حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا -
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا---
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا - حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
عمران منتظمین کے آفس سے نکل کر ایک جگمگاتی روش پر آ گیا-یہاں جگ جگہ خوشنما پودوں کے درمیاں روشیں بنائی گئی تھیں -عمران نے اس طرح اپنی پلکیں جھپکا کر دیدے نچائے جیسے سچ مچ وہ کوئی الو ہو اور اسے کوئی اس روشنی کے طوفان میں زبعدستی چھوڑ گیا ہو! حالانکہ یہاں اس وقت اس قسم کی ایکٹنگ کی ضرورت نہیں تھی - مگر عمران عادتاً سچ مچ احمق ہوتا جا رہا تھا !
عورتوں اور مردوں کے غول کے غول اس کے قریب سے گزر رہے تھے-۔۔۔ اور عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت کچھ اور زیادہ بڑھ گئی تھی ۔۔۔ اور اسے دوسری طرف جانے کے لئے تقریباً تین منٹ تک کھڑا رہنا پڑا-۔۔۔ کیونکہ ابھی تک اس روش سے گزرنے والوً کے درمیاں اتنا فاصلہ نہیں دکھائی دیا تھا جس سے گزر کر وہ دوسری روش تک پہنچ سکتا!
اچانک دو لڑکیاں اس کی طرف مڑیں اور دفتر والی روش پر آ گئیں ۔۔۔۔۔ عمران سمجھا تھا کہ اس کے قریب سے گذر کر شاید آفس میں جائیں گی! لیکن وہ دونوں اس کے سامنے رک گئیں !
“کیوں! یہی حضرت تھے نہ“ ایک نے دوسری سے کہا -
“شاید یہی تھے“ دوسری نے کہا!
“ نہیں ! سو فیصد یہی تھے“-
“ہائیں“ عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا “ میں تھا نہیں بلکہ ہوں “-
“ تم نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی“ پہلی لڑکی بولی !
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ! وہ میرے بڑے بھائی صاحب رہے ہونگے! میری ہی جیسی صورت شکل والے ہیں ! خیر اب آپ کیا چاہتی ہیں ! بات تو سال بھر پہلے کی ہے “
“ کہیں اطمینان سے بیٹھ کر باتیں ہونگی“ جواب ملا ۔۔ “ کیفے رونیک میں ۔۔۔۔ کیوں ؟“
اس نے دوسری لڑکی کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر بولی “ٹھیک ہے!“
“ ٹھیک ہے تو چلئے “- عمران لا پروائی سے بولا-
“نہیں! انہوں نے گالی نہیں دی ہوگی“- دوسری لڑکی نے پہلی سے کہا-
“ یہ تو بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں“-
“جی ہاں!مجھے گالی آتی ہی نہیں “۔۔۔۔۔۔ صرف ایک جانتا تھا وہ کیا ہے ! حرازمادہ۔۔۔۔ ہمارزادہ۔۔۔ ارر یہ بھی بھول گیا ۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے ۔۔۔ لاحول والا۔۔۔۔ نہیں یاد آئے گا! حراد مازہ۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی تھی!الجھن کے آثار تھے بالکل ایسے ہی جیسے یادداشت پر زور دیتے وقت پیدا ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا! اور پھر بے ساختہ مسکرا دیں - آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے اور پھر پہلی بولی-
“تو چلئے نہ وہیں گفتگو ہوگی!“
عمران چل پڑا ! اس کی چال بھی بڑی بے ڈھنگی نظر آ رہی تھی- لیکن اب لڑکیاں بھی سنجیدو ہو گئیں تھیں ! ۔۔۔۔۔ وہ کیفے رونیک میں آئے !۔۔۔۔۔ نمائش میں شاید یہی سب سے شاندار کیفے تھا! ۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لڑکیاں اسی کا نام کیوں لیتیں!
صرف تین یا چار میزیں خالی تھیں !۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے ایک منتخب کر لی۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ بیٹھے ایک ویٹر سر پر مسلط ہو گیا!۔۔۔۔
“کیا لاؤں!۔۔۔۔ “ وعٹر نے جھک کر نہایت ادب سے پوچھا!
لڑکیاں عمران کی طرف دیکھنے لگیں اور عمران بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا“ تت۔۔۔۔۔ تین گلاس پھنڈا ٹانی۔۔۔۔۔۔۔!-
“ جی صاحب۔۔۔۔“
“ ٹھنڈا پانی۔۔۔۔۔!“
“ اوہ نو۔۔۔۔۔ نو!“ ایک لڑکی ہنستی ہوئی لپک کر دوہری ہوگئی !“ گرلڈ چکن تین پلیٹ۔۔۔۔۔ تین اسٹک ۔۔۔۔ اور کافی جاؤ۔۔۔۔!“-
اب عمران کے چہرے کی حماقت انگیز سنجیدگی میں بوکھلاہٹ بھی شامل ہو گئی تھی!
“ کیوں ڈیئر ! ۔۔۔تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔ “ ایک لڑکی نے عمران کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے کہا اور عمران اس طرح اپنا ہاتھ کھینچ کر شرما گیا جیسے کسی کنواری لڑکی سے اس کے ہونے والے شوہر کا نام پوچھ لیا گیا ہو!۔۔۔“
“ تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو !“ دوسری نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے کہا !
“ میں گھر ۔۔۔۔ جاؤں گا!“ عمران پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا- اور اس کی کرسی الٹ گئی !۔۔۔۔۔ وہ بھی کرسی پر ہی تھا !۔۔ پھر وہ کیوں نہ الٹتا! بہیترے لوگ اچھل کر کھڑے ہو گئے-! کچھ ہنسنے لگے! دونوں لڑکیاں سناٹے میں آ گئیں ! جب عمران پڑا ہی رہا تو وہ بھی اٹھ کر اس کی طرف جھپٹیں ! عمران آنکھیں بند کئے گہری گہری سانسیں لے لے رہا تھا !-
“ انور بھائی ۔۔۔۔۔ انور بھاےئ “ ایک لّکی نے عمران کو جھنجھوڑ کر ہانک لگائی مگر عمران کے پپوٹوں میں بھی حرکت نہ ہوئی !-
“ کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! “ “ کسی نے پوچھا“
“ بے ہوش ہو گئے ہیں !“ دوسری لڑکی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا-
پہلی لڑکی عمران کے کوٹ کے بٹن کھولنے لگی اور عمران نے محسوس کیا کہ اس کا پرس اندرونی جیب سے اوپر کی طرف کھسک رہا ہے - لیکن وہ دم مارے پڑا ہی رہا- پرس اس لڑکی نے اس کی جیب سے کھسکایا تھا جس نے روش پر اس کو چھیڑا تھا!۔۔۔۔۔ عمران نے اسے بھی محسوس کر لیا! کیونکہ وہ ہی اس کے کپڑوں کو چھیڑ رہی تھی مگر اب بھی اس طرح پڑے رہنا دانشمندی سے بعید تھا-
عمران کو ہوش آ گیا! وہ دو تین بار ہولے ہولے کراہا پھر اٹھ بیٹھا! اس کے گرد کافی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی ! لوگ بیہوشی کی وجہ پوچھنے لگے اور عمران کسی گھبرائے ہوئے بچے کی طرح ہاتھ اٹھا کر بولا “ باہر !“-
لڑکیوں نے اس کے دونوں بازو پکڑتے ہوئے کہا “ چلئے چلئے ! “ عمران لڑکھڑاتا ہوا باہر آیا۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے شور ہو رہا تھا ! لوگ ہنس رہے تھے ۔۔ قہقہے پگا رہے تھے!۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی فقرہ بھی کس دیتا! ۔۔۔۔۔ بہرحال لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پئے ہوئے ہے !-
“ آ پ کو کیا ہوگیا تھا ! “ ایک لڑکی نے پوچھا-
“ پتہ نہیں ! میں‌ نہیں جانتا! مجھے گھر پہنچا دیجئے “ عمران گھگھیایا!
“ کیوں ! اب گھر بھی پہنچادیں ! واہ یہ ایک ہی رہی “
“ خدا کے لئے ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں لانچ سے سمندر میں گر کر ۔۔۔۔۔۔۔ ارے باپ رے !“
ایسا معلوم ہوا جیسے عمران سچ مچ سمندر میں ڈوب رہا ہو!وہ دونوں بے تحاشہ ہنسنے لگیں ! ان میں سے ایک نے جس نے پرس اڑایا تھا کھسک جانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی!
یہ دورہ جب بھی پڑتا ہے ایک گھنٹے کے بعد پڑتا ہی چلا جاتا ہے ! ۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے گھر پہنچا دیجئے !۔۔۔ جو معاوضہ چاہئے لے لیجیئے “ ہزار ۔۔۔ دو ہزار ۔۔۔ پانچ ہزار!“
“ ہائیں ہائیں ! کیوں الو بناتے ہو!“
“ میں کوئی مفلس آدمی نہیں ہوں ایک بڑی عمارت میں تنہا رہتا ہوں ! لاکھوں کا مالک ہوں !“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ نہین تم زندہ رہوگے ڈارلنگ ۔۔۔۔“ دوسری اس کا بازو تھپتھپا کر بولی !-
“ہایہں ڈارلنگ۔۔۔۔۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں !۔۔۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔“ عمران لفظ ڈارلنگ اس طرح مزے لے لے کر دھراتا رہا جیسے یہ لفظ زندگی مٰن پہلی مرتبہ اس کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ طویل سانس لے کر گلوگیر آواز میں بولا !“ تم لوگ بڑی اچھی ہو ! مجھے اج تک کسی بھی ڈارلنگ نہیں کہا۔۔۔!۔۔۔۔ بچپن میں میرے ماں باپ بالکل مر گئے تھے!بالکل کیا بس مر گئے تھے!۔۔۔۔۔ پھر آج تک کسی نے بھی مجھ سے پیار محبت سے باتیں نہیں کیں !“
لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا پھر وہ لڑکی بولی جس نے پرس اڑایا تھا-
“ یہ تمہیں گھر پہنچا دے گی ! مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے “
“ نہیں تم بھی چلو! چلو ورنہ میں یہیں کسی پٹھر سے اپنا سر ٹکرا دوں گا!“
عمران نے کچھ اس طرح غل غپاڑے کے سے انداز ظاہر کئے کہ دونوں لڑکیاں بوکھلا گئیں!
“ اچھا! اچھا ۔۔۔۔ چپ رہو! ہم چلتے ہیں ! تمہارے پاس کار ہے !“ پرس اڑانے والی نے پوچھا!
“ ایک نہیں تیں ہیں !“
“ تم صبح ہمیں کار سے شاداب نگر بھجوا دوگے!“
“بالکل! بالکل ۔۔۔۔ دوناں کو الگ الگ کاروں سے ۔۔۔۔۔ پروا نہ کرو !“ عمران سر ہلا کر بولا! پھر دونوں لڑکیاں عمران کو چھیڑنے لگیں ! اور عمران شرماتا ہوا لجاتا ہوا نمائش کے احاطے سے باہر نکلا!۔۔۔۔۔۔ اب وہ ساحل کی طرف جا رہے تھے جو ایک فرلانگ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا! یہاں بہت بھیڑ تھی ! خصوصاً اس حصے میں جہاں لانچ رکتے تھے انہیں بدقت تمام ایک لانچ میں جگہ مل سکی !
ساحل سے کافی دور نکل جانے کے بعد عمران بو کھلائے ہوئے انداز میں اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا! پرس اڑانے ولی اس سے کچھ دور کھسک گئی ! پھر اس نے اسے ہنستے دیکھا!
“ کیا بات ہے“ پرس اڑانے والی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا- وہ اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہو گئی تھی!
“ جیب صاف ہوگئی!“ عمران نے قہقہہ لگا کر کہا!
“ کیا!“ دوسری لڑکی متحیرانہ لہجے میں بولی “ اوہ آپ اس طرح ہنس رہے ہیں !“
“ ارے کیوں نہ ہنسوں! گرہ کٹ بھی تو سر پیٹ پیٹ کر رویا ہوگا!“
“کیوں ؟“ پرس اڑانے والی نے پوچھا-
“ میرے پرس میں صرف ساڑھے چار آنے تھے!-۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ مرگا بنا دیا اس کو۔۔“
“ ساڑھے چار آنے؟“
“ ہاں میں جب بھی کسی بھیڑ بھاڑ میں جاتا ہوں تو یتنے ہی پیسے ہوتے ہیں ۔۔ بڑے نوٹوں کے لئے ہمیشہ اپنے کوٹوں میں چور جیبیں بنواتا ہوں !۔۔۔۔
عمران نے اپنے پرس کے بارے میں جو بھی کہا تھا بالکل سچ کہا تھا ۔۔ اس کے پرس میں ساڑھے چار آنے ہی تھے وہ زیادہ رقمیں عموماً چور جیبوں میں ہی رکھتا تھا!۔۔
“ تو اب لانچ کا کرایہ ہم سے ادا کرواؤگے“ ایک لڑکی نے کہا-
“ فکر نہ کرو پائی پائی ادا کر دوں گا اس کے علاوہ اور بھی جو خدمت۔۔۔۔ جی ہاں!“
شہر کے ساحل پر پہنچ کر عمران نے ایک ٹیکسی لی اور ٹیکسی ڈرائیور کو دانش منزل کا پتا بتایا۔۔۔ دانش منزل جو سیکرٹ سروس کے پراسرار چیف آفیسر کا ہیڈ کوارٹر تھا--
لڑکیاں دانش منزل کے کمپاؤنڈ میں پہنچ کر بڑبڑائیں “ واقعی اپ سچ کہتے تھے مگر یہاں بہت اندھیرا ہے!“
“ اب میں روشنی کروں گا“
“نوکر کہاں ہیں ؟“
“ میں پڑھے لکھے نوکر چاہتا ہوں مگر سب جاہل ملتے ہیں اس لئے نوکر رکھتا ہی نہیں ہوں !۔۔۔۔ کھانا ہوٹل سے آتاہے۔۔۔۔ اور مروں گا ہسپتال میں ۔۔ کیوں کیا خیال ہے!“
“ شادی نہیں کی!۔۔۔۔“
“ کم از کم ایسی بیوی چاہتا ہوں جو فرنچ اور جرمن بول سکتی ! لاطینی اور عبرانی لکھ سکتی ہو!“
“ ہا۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے“ ۔۔ عمران نے مقفل میں کنجی گھماتے ہوئے کہا- “ میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا شاید تمہاری نظروں میں کوئی ایسی لڑکی ہو!“

دروازہ کھول کر اس نے راہداری میں روشنی کر دی- نیچے پوری راہداری میں قالین بچھے ہوئے تھے- تھوڑی ہی دیر میں وہ عمارت کا ایک ایک کمرہ دیکھتی پھر رہی تھیں-
 
“ آپ بہت بڑے آدمی ہیں “ پرس اڑانے والی نے ایک جگہ رک کر کہا!
“ہاں مگر لوگ مجھے خبطی کہتے ہیں اور میں
‌ہوں بھی کچھ کریک!“ عمران نے جواب دیا وہ انہیں نشست کے کمرے میں لایا!-۔۔۔ پھر وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں تو عمران نے اس لڑکی کو مخاطب کیا جس نے پرس اڑایا تھا-
“ اب میرا پرس واپس کرو!“ لڑکی کے چہرے پر ہوائیوں اڑنے لگیں -
“ ضروری نہیں کہ خوبصورت عورتیں دل کی بھی اچھی ہوتی ہوں !“ جی ہاں میرا پرس واپس کیجئے -“ بہتری اسی میں ہے !“
دوسری لڑکی جھپٹ کر کھڑی ہوگئی- عمران کو چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی-
“آپ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے- سمجھے اگر ہم نے شور مچا دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
“ کوشش کرو ! اس کمرے کے دروازے مقفل ہیں اور دیواریں ساؤنڈ پروف ۔۔ تیز سے تیز آواز بھی گونج کر رہ جائے گی۔۔۔ شاباش کرو نا کوشش ۔۔۔۔!“
“ آپ کیا چاہتے ہیں !“ پرس اڑانے والی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا!
“ اپنا پرس “ عمران نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا!-
لڑکی نے اپنے بیگ سے اس کا پرس نکال کر اس کی گود میں پھینک دیا! عمران نے بڑی لا پروائی سے اس میں سے ساڑھے چار آنے نکالے اور اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا انہیں رکھو!
“ میں جاؤنگی !“ وہ اٹھتی ہوئی بولی!
“ ابھی سے! میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں شاداب نگر پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔ اور ہاں اب مجھے یاد آ گیا ہے کہ میں نے تمہیں شاداب نگر میں کہاں دیکھا تھا!-
“ میں جاؤنگی !“ وہ ایک دروازے کی جانب جھپٹی اور اسے کھول لینے کے لئے اپنا پوارا زور صرف کرنے لگی- لیکن وہ آٹومیٹک دروازے تھے! ۔۔۔ جن کے اندر سیسہ بھرا ہوا تھا!۔۔۔۔ اب وہ ایک مخصوص خود کار قفل کو استعمال کئے بغیر نہیں کھل سکتے تھے!-دوسری لڑکی چپ چاپ بیٹھی رہی ۔۔ ویسے اس کے چہرے پر بھی گھبراہٹ کے اثار تھے- “ بیکار ہے محترمہ!۔۔۔ واپس آئیے ۔۔۔ آخر آپ کس بات سے ڈر رہی ہیں ؟“ ۔ عمران نے کہا-“ میں آپ کو پولیس کے حوالے نہیں کروں گا!“
وہ اس طرح واپس آئی جیسے خواب میں چل رہی ہو!
"بیٹھ جائیے! کیا آپ شاداب نگر کے موڈل سکول کی ایک استانی نہیں ہیں!"
لڑکی دہڑام سے کرسی میں گر گئی۔ اس کے چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں تھیں!
"آپ کون ہیں!" دوسری لڑکی نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا!
میں پاگل ہوں! لیکن مجھے اپنی یاداشت پر بڑا اعتماد ہے میں نے یہ بات غلط تو نہیں کہی۔ کیا یہ محترمہ ٹیچر نہیں ہیں! اور کیا موڈل گرلز سکول شاداب نگر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔"
دوسری لڑکی نے بھی اس کا کوئی جواب نہیں دیا! ان دونوں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی پھر پرس اڑانے والی نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
"تمہارا پیشہ بڑا معزز ہے! تم اپنی طالبات کو بھی اسی قسم کی تعلیم دیتی ہوگی! کیوں؟۔۔۔ تم اور زیادہ محنت کرکے اپنے اخراجات ایمانداری سے نہیں پورے کر سکتیں!"
لڑکی روتی رہی!۔۔۔ عمران نے دوسری لڑکی سے کہا "اب تم بتاؤ! تم کون ہو! تم بھی مجھے کسی شریف ہی گھرانے کی فرد معلوم ہوتی ہو! کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!"
"آپ کون ہیں!" لڑکی نے پھر سہمی سی آواز میں سوال کیا!
میں کوئی بھی ہوں! تمہیں اس سے سروکار نہیں ہونا چاہئے! اور میں ابھی تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں گا! بری عورتوں کا حسن مجھے ذرہ برابر بھی متائثر نہیں کرسکتا!"
"شیلا چپ رہو!"۔۔۔ رونے والی نے کہا۔۔۔
"کیوں چپ رہیں شیلا!" عمران نے کسی جھلائی ہوئی عورت کی طرح کہا! "نہیں شیلا تم بولو! آخر تم مجھے کیا سمجھتی ہو!"
کر دیجئے!" شیلا نے مضمحل آواز میںکہا " میں اس زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہوں!"

پھر رونے والی کی طرف دیکھ کر بولی "ناہید! میں اب سب کچھ کہہ دوں گی... ویسے بھی ان حالات میں مجھے خود کشی کرنی پڑتی! کبھی نہ کبھی ضمیر ضرور جاگ پڑتا!"

"نہیں! تم ایسا نہیں کر سکتیں!" ناہید یک بیک اچھل کر کھڑی ہو گئی! اب اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے. وہ چند لمحے شیلا کو گھورتی رہی پھر بولی "میں اپنی اندھی اور بوڑھی ماںکے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں! میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے لئے جینا چاہتی ہوں! تم اپنی زبان بند رکھو گی شیلا! خدا کے لئے رحم کرو! اتنی ظالم نہ بنو..."

"نہیں میں مجبور ہوں!" شیلا نے ناخوشگوار لہجے میں کہا.

"ہاں ہاں! ٹھیک ہے!" عمران سر ہلا کر بولا "ضمیر بہرحال ضمیر ہے... وہ ماں باپ بھائی بہن کسی کی بھی پروا نہیں کرتا!.. ناہید بیٹھ جاؤ!"

"شیلا رحم کرو! اگر کسی نے ہمیں یہاں آتے ہوئے دیکھ لیا ہو تو...!"

"تو کیا ہوگا..." عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا "کیا تمہیں اپنی بدنامی کا ڈر ہے!"

"مجھ سے سنیئے!" شیلا نے اسے مخاطب کیا!"مگر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ سرکاری سراغ رساں ہیں!"

"میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے!... میں کب کہتا ہوں کہ میں سرکاری سراغ رساں ہوں! مگر اب... میں تم دونوںکا راز معلوم کروں گا! تم مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں!"

"تب تو پھر بتانے سے کوئی فائدہ نہیں!"

"شیلا!" ناہید پھر چیخی!

"نہیں میںکچھ نہ بتاؤں گی تمہیں غلط فہمی ہوئی تھی یہ سرکاری جاسوس نہیں ہیں!"

"خدا کے لئے ہمیںجانے دیجئے!" ناہید نے رو دینے والی آواز میں کہا!" ویسے پرس نکالنے کے جرم میں جو سزا دل چاہے دے لیجئے!... رحم کیجئے!"
"تم شاداب نگر کے ایک گرلز سکول کی ٹیچر ہو نا!" عمران نے پوچھا!
 
جی ہاں! مجھے اس کا اعتراف ہے!"

"وہاں تمہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے...!"

"ایک سو بیس روپے... اس میں بسر اوقات نہیں ہوتی!... پانچ چھوٹے بھائی ہیں! ایک اندھی ماںہے! آج کل ٹیوشن بھی نہیں ملتے پھر بتائیے کیا کروں!"

"کیا تم لوگوں کے ساتھ ان کے گھر بھی چلی جاتی ہو!"

لڑکی نے اس کا جواب جلدی نہیں دیا!... وہ چند لمحے خاموش رہی پھر سر جھکا کر مردہ سی آواز میں بولی "جی ہاں"

"میں سمجھا!" عمران سر ہلانے لگا!"مگر اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لئے تمہیں کسی سرکاری سراغ رساں سے ڈرنا پڑے!... اس شہر کی بہتیری عورتیں اس قسم کی حرکتیں کھلم کھلا کرتی ہیں!"

"جج. جی ہاں!... مم... مگر میں ڈرتی ہوں!... اگر اسکول کے سیکرٹری کو اس کی اطلاع ہو گئی تو ملازمت جاتی رہے گی... بس اب رحم کیجئے!..."

"تم تو اس طرح سینکڑوں کما لیتی ہوگی! لہٰذا تمہیں ایک سو بیس روپے کی ملازمت کی پروا ہونا بڑی غیر فطری سی بات ہے."

ناہید پھر کچھ سوچنے لگی... شیلا کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار تھے اور اب وہ زیادہ خوفزدہ نہیں معلوم ہو رہی تھی!... ناہید نے تھوڑی دیر بعد کہا!"کل جب میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو میرا کیا بنے گا!... اسی لئے میں ملازمت برقرار رکھنا چاہتی ہوں!"

"اب تم فلسفیوں کی سی باتیں کرنے لگیں... کوئی بہت بڑی حقیقت چھپا رہی ہو! تم مجھے احمق ہی سمجھ کر یہاں آئی تھیں نا!... لیکن اب بتاؤ کیا میں احمق ہوں..."

"نہیں ڈارلنگ!" شیلا اٹھلائی!"تم تو شرلاک ہومز کے بھی نانا ہو! اسے جانے دو! میں یہیں ٹھہروں گی اس کی اندھی ماں رو رو کر مر جائے گی!"

"تم یہاں رہو گی!"

"ہاں! میں یہاں ٹھہروںگی! مجھے بہت سی کہانیاں یاد ہیں! اگر تمہیں ان سے بھی نیند نہ آئی تو میںلوریاں سناؤں گی!"

"اچھا تو تم جا سکتی ہو!" عمران نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا!" لیکن جب کبھی میری ضرورت محسوس ہو! دانش منزل کے پتہ پر ایک خط ڈال دینا!"

عمران نے اٹھ کر دروازہ کھولا!... ناہید اٹھی لیکن شیلا بدستور بیٹھی رہی! دونوں جیسے ہی باہر نکلے دروازہ خود بخود بند ہو گیا!

پھر جب وہ برآمدے سے نیچے اتر رہی تھی! عمران نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا "کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے!"

"نہیں!" ناہید نے رکے بغیر جواب دیا! اور تیز قدموں سے پھاٹک کی طرف جانے والی روش طے کرنے لگی!... پھر عمران اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک کہ وہ پھاٹک سے نکل نہیں گئی!

پھر وہ اسی کمرے میں واپس آیا! شیلا ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھی!

"تین سو روپے!" وہ خواب آلود آواز میں گنگنائی!

"تین ہزار روپے بھی میرے لئے کم ہیں!" عمران نے بھی راگ بنانے کی کوشش کی!

"مجھے کچھ نہیں چاہئے!" شیلا سیدھی بیٹھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی "مجھے اپنی حقیقت سے آگاہ کردو! تم سچ مچ بہت چالاک معلوم ہوتے ہو! میں تمہیں بالکل گاؤدی سمجھی تھی!"

"ناہید نے غلط نہیں کہا تھا! میں سرکاری سراغ رساں ہوں! ورنہ میں وہاں خود کو احمق ظاہر کرکے تمہیں یہاں کیوں لاتا!"

"کیا تم ہمارے متعلق پہلے سے بھی کچھ جانتے رہے ہو!"

"ہو سکتا ہے!" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا!

"کیا جانتے ہو!"

"بہت کچھ جانتا ہوں" لیکن اگر تم خود ہی مجھے بتاؤ تو زیادہ اچھا ہوگا ویسے تم نے یہ تو دیکھ لیا کہ میں کتنا رحم دل آدمی ہوں. میں نے ناہید کو چلی جانے دیا... ورنہ..."

"ہاںمیں نے یہ دیکھا ہے اب بھی محسوس کر رہی ہوں کہ تم کوئی برے آدمی نہیں ہو. میں اطمینان کر لینا چاہتی ہوں کہ تم سرکاری سراغ رساں ہی ہو!"

"میں کہتا ہوں! اگر نہ ہوتا تو اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچتا!"

"نقصان... یہ نہ پوچھو!... میں جو کچھ بتاؤںگی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر بتاؤں گی. یہ لوگ بڑے چالاک ہیں انہیںایک ایک پل کی خبر ہوتی ہے. کہ کون لڑکی کیا کر رہی ہے! ایک نہیں. ایسی کئی لڑکیاں موت کا شکار ہوتی ہیں اور اب میں مرنا چاہتی ہوں! اس زندگی سے اکتا گئی ہوں! مجھے ہر وقت محسوس ہوتا ہے جیسے گردن تک غلاظت میں غرق ہو گئ ہوں!"

"میں تمہیں اس غلاظت سے نکال سکتا ہوں. یقین کرو! وہ کتنے ہی چالاک آدمی کیوں نہ ہوں مجھ پر قابو نہ پا سکیں گے!"

"آں... ہاں!"مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ میری زندگی کی آخری رات ہو!"

وہ عمران کی طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی! اور اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل مسکراہٹ تھی... عمران کچھ نہ بولا! اسے اب خود انتظار تھا کہ وہ خود ہی اصل موضوع پر آجائے.

"کبھی میں بھی ایک اچھی لڑکی تھی!" شیلا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا"مگر اب نہیں ہوں! انہوں نے مجھے غلاظت کا ڈھیر بننے پر مجبور کر دیا! میں ایک گرلز سکول میں ٹیچر تھی. تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا. تعلیم ختم کرنے کے بعد ملازمت کی فکر ہوئی! اسی دوران میں میری جان پہچان ایک ایسے گھرانے سے ہوئی جو بہت با رسوخ تھا! اس نے مجھے ایک ماہ کے اندر ہی اندر ایک گرلز سکول میں ملازمت دلا دی! میں اس کی شکر گذار تھی! وہ مجھ سے برابر ملتا رہا!... اس کے احسان کا بار میرے کندھوں پر تھا!
اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا! لیکن ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا! آج تک غائب ہے۔ اس دن سے اس کی شکل نہیں دکھائی دی!۔۔۔ بہرحال اس کے غائب ہو جانے کے دو ماہ بعد مجھے بذریعہ ڈاک چند تصویریں موصول ہوئیں! یہ میری اور اس آدمی کی ایسی تصویریں تھیں جو میری زندگی برباد کر سکتی تھیں۔ پہلے صرف تصویریں موصول ہوئیں! پھر ایک خط ملا جو کسی گمنام آدمی کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا! جس میں کہا گیا تھا کہ صرف ایک ہی تصویر مجھے ملازمت سے برطرف کرا دینے کے لئے کافی ہوگی۔ میں بری طرح سہم گئی۔ میری ملازمت سے گھر والوں کو بڑا سہارا ہو گیا تھا! اور زندگی تھوڑی بہت خوشحالی میں بسر ہو رہی تھی! تیسرے دن پھر ایک خط ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ خط لکھنے والا کوئی بلیک میلر ہے اس خط میں لکھا گیا تھا کہ میں اس کے لئے ہر ہفتہ پچاس روپے مہیا کروں! روپیہ مہیا کرنے کی تدبیر بھی بتائی گئی تھی یعنی میں مردوں کو اپنے جال میں پھنسا کر روپے پیدا کروں!۔۔۔ وہ ایک بڑا بھیانک تجربہ تھا! مجھے پچاس روپے مہیا کرنے پڑے۔ یہ میں نے قرض لئے تھے۔ کچھ دن تک قرض سے کام چلاتی رہی پھر قرض خواہوں کے تقاضے جان کو آئے !۔۔۔ اب تو میں بہت مشتاق ہو گئی ہوں! اب مجھے ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسکول کی ملازمت عرصہ ہوا ترک کر چکی ہوں۔ گھر والوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا !"
"تو پھر اب تمہیں کس بات کا ڈر ہے!" عمران نے پوچھا۔ "اگر اب وہ بلیک میلر تمہیں بے نقاب کردے تب بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا!"
"ٹھیک ہے! اب مجھے نہ اس کا خوف ہے کہ ملازمت سے برطرف کردی جاؤں گی! اور نہ اس کا ڈر کہ گھر والوں کو علم ہو جائے گا۔ پھر بھی میں ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پر تیار ہوں!"
"آخر کیوں؟"
"ٹھہرو، بتاتی ہوں!" یہ کوڑے کے نشانات ہیں! جب دوسرے ہفتے بھی رقم نہیں پہنچتی تو مجھے اس وقت تک پیٹا جاتا ہے! جب تک میں بیہوش نہیں ہو جاتی!"
"تو پھر تم انہیں جانتی ہو!" عمران نے مضطربانہ انداز میں کہا!
"نہیں میں ایک کو بھی نہیں جانتی!"
"یہ کیسے ممکن ہے!"
"میں بتاتی ہوں!۔۔۔ اس دوران میں جہاں کہیں بھی ہوتی ہوں مجھے زبردستی اٹھوا لیا جاتا ہے! کہاں؟۔۔۔ یہ مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا! کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی ہوں! آنکھ کھلی تو کوڑے پڑتے ہوئے محسوس کئے۔ ایسے مواقع پر میں میری آنکھیں چمڑے کے تسمے سے جکڑی ہوئی ہوتی ہیں" میں اندھوں کی طرح مار کھاتی ہوں پھر غشی طاری ہو جاتی ہے!۔۔۔ اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو اپنے پلنگ پر پڑا پاتی ہوں، اپنے ہی کمرے میں! لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے کبھی اپنے کمرے میں مار نہیں کھائی ورنہ وہ لوگ پکڑے جاتے! کیونکہ پٹتے وقت میں جانوروں کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیتی ہوں۔ پھر بتاؤ ایسی صورت میں کیا میرے پڑوسیوں کو خبر نہ ہوتی! میرا کمرہ اس کمرے کی طرح ساؤنڈ پروف نہٰں ہے۔"
عمران تھوڑی دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا! "تم وہ روپے کسے اور کس طرح ادا کرتی ہو!"
"پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے پتہ پر منی آرڈر کر دیتی ہوں!"
"کیوں مذاق کرتی ہو یار!" عمران ہنس کر بولا "یہ تو بہت آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پوسٹ بکس نمبر کس کا ہے!"
"مگر اتنی ہمت کون کرے! دو تین لڑکیوں نے اس کی کوشش کی لیکن انہیں ملک الموت کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ کسی نہ کسی طرح مار ڈالی گئیں اور اس کی اطلاع سارے شکاروں کو دی گئی تھی۔ ایک خط مجھے بھی ملا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ پوسٹ بکس نمبر کے متعلق چھان بین کرنے کا نتیجہ ہے کچھ لڑکیاں پولیس سے گٹھ جوڑ کر رہی تھیں۔ انہیں بھی ختم کر دیا گیا! اس کی اطلاع بھی مجھے اس بلیک میلر سے ملی تھی! ظاہر ہے کہ وہ دوسری لڑکیوں کو بھی اس سلسلے میں باخبر ہی رکھتا ہوگا۔ دیکھئے ٹھہریئے میں بتاتی ہوں! چند روز قبل بھی شہر میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی شاید آپ کو اس کا علم ہو۔۔۔ اس کا چہرہ کسی کار یا ٹرک کے پہیئے کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا اور سینے پر خنجر کا نشان تھا! وہ ہمیشہ مقتولوں کے چہرے کو ناقابل شناخت بنا دیتے ہیں!"
"اوہو!" عمران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا! پھر اس نے پوچھا "کیا اس قتل کی اطلاع بھی تمہیں ملی تھی!"
"ہاں ملی تھی!"
"اور تم ان حالات کے باوجود بھی مجھے یہ سب بتا رہی ہو!"
"ہاں! میں اب مرنا چاہتی ہوں! مسٹر! کتنی بار کہوں! میرا چھٹکارا بس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ میں مر جاؤں! آج کی دنیا شریف آدمیوں کے لئے نہیں ہے! ہر آدمی اسے اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کمینہ پن ضرور سرزد ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی دامن بچائے!"
"ضروری نہیں ہے کہ تم بھی مر ہی جاؤ! میں تمہاری حفاظت کروں گا!" 
"جس کے وہ لوگ دشمن ہوں اسے کوئی نہیں بچا سکتا! کیا ان لڑکیوں کو پولیس کا سہارا نہ ملا ہوگا! پھر وہ کس طرح قتل کر دی گئیں! مجھے تو یقین ہے کہ اس وقت یہ عمارت بھی ان لوگوں نے گھیر لی ہوگی!"
"یہ عمارت! نہیں یہ ناممکن ہے!" عمران نے مسکرا کر کہا!"یہ عمارت میرے قبضہ میں ہے۔"
"مگر تم یہاں تنہا ہو!۔۔۔ انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ تم یہاں ہو! کیا وہ ہر لڑکی کے پیچھے لگے رہتے ہیں!"
"ناہید!۔۔۔ وہ ضرور انہیں اطلاع دے گی! اسے یقین ہو گیا ہے کہ میں تمہیں ضرور کچھ نہ کچھ بتاؤں گی!۔۔۔"
"وہ کیوں اطلاع دینے لگی۔ وہ خود بھی تو اس پیشے سے بیزار معلوم ہوتی ہے!" عمران نے کہا۔
"ہوگی بیزار۔۔۔! لیکن شاید تمہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر اس کی دی ہوئی اطلاع ان لوگوں کے لئے صحیح ثابت ہوئی تو چار ہفتوں کی رقم معاف کر دی جائے گی۔۔۔ یعنی ناہید کو دو ہزار روپے نہ دینے پڑیں گے۔ چار ہفتوں تک خواہ وہ خود اپنے لئے کمائے یا صرف آرام کرتی رہے!"
"تب تم نے بہت ہی بڑی غلطی کی!۔۔۔ اسے کیوں جانے دیا!" عمران نے تیز لہجے میں کہا!
"میں کتنی بار کہوں کہ میں سچ مچ مرنا چاہتی ہوں!"
"میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا!"
اچانک اس 

کمرے میں سرخ اور نیلی روشنی کے جھماکے ہونے لگے!۔۔۔نیلے اور سرخ بلب جلدی جلدی جل اور بجھ رہے 

تھے۔۔۔ عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
(2)
جولیانا فٹر واٹر نے سرہانے رکھا ہوا لیمپ بجھا دیا!۔۔۔ 

اور لیٹے ہی لیٹے ایک طویل انگڑآئی لی پھر اس نے سونے کے لئےکروٹ لی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی 

بچی! اس نے لیٹے ہی لیٹے اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔
دوسرے ہی لمحہ میں 

اسے اپنے پراسرار آفیسر ایکس ٹو کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
"جولیا۔۔۔ ہیلو۔۔۔ جولیا۔۔۔"
"یس 

سر!"
"دانش منزل کے کمپاؤنڈ میں کچھ مشتبہ آدمی موجود ہیں۔ اپنے تین آدمیوں کو فون کرو کہ وہ 

وہاں فوراً پہنچ جائیں۔ بات بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے! انہیں صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ لوگ کون 

ہیں! میرا خیال ہے کہ وہ لوگ عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں!"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ 

ابھی!۔۔۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا!۔۔۔ جولیانا فٹز واٹر نے سیکرٹ سروس کے ساتوں اراکان 

کے نمبر یکے بعد دیگرے ڈائیل کرنا شروع کر دیئے۔۔۔! تیسرے آدمی کو ایکس ٹو کا پیغام دے کر اس نے 

ریسیور رکھ دیا اور ایکس ٹو کے خواب دیکھنے لگی! اسے اس پراسرار شخصیت سے عشق سا ہوتا جا رہا 

تھا!۔۔۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس سے ملنا چاہتی تھی! اسے خوشی تھی کہ ایکس ٹو جیسا ذہین 

ترین آدمی اس کی ذہانت کا مداح ہے۔۔۔ اس کی قدر کرتا ہے! اسے اپنے ماتحتوں میں سب سے اونچا درجہ 

دیتا ہے!
وہ اس کے محیر العقول کارناموں کے متعلق سوچتی رہی! وہ کیسا دلیر۔۔۔ کیسا پھرتیلا اور 

ہمہ داں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت اس کی روح شہر پر منڈلاتی رہتی ہو!۔۔۔ محکمہ خارجہ کی 

سیکرٹ سروس کا عملہ محض اسی کی وجہ سے نیک نام تھا!۔۔۔
جولیانا فٹز واٹر اس کی نئی نئی ذہنی 

تصویریں بناتی۔۔۔ وہ ایسا ہوگا!۔۔۔ وہ ایسا ہوگا!۔۔۔ لیکن آواز سے کوئی بوڑھا خرانٹ معلوم ہوتا 

تھا!۔۔۔ مگر آواز۔۔۔! وہ اپنے دل کو سمجھاتی۔۔۔ آواز تو یقیناً بناوٹی ہوگی۔۔ ورنہ کوئی بوڑھا 

آدمی اتنا پھرتیلا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
جولیا نے سونے کی کوشش کی! مگر نیند کہاں!... دفعتاً وہ اٹھ بیٹھی!... یہ بات تو اس نے ابھی تک سوچی ہی نہیں تھی کہ آخر اس وقت دانش منزل میں کیا ہو رہا ہے!... وہ لوگ کون ہیں جن کی طرف ایکس ٹو نے اشارہ کیا تھا! اس نے کہا تھا کہ انہیں چھیڑا نہ جائے... بات بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے... صرف یہ دیکھا جائے کہ وہ کون آدمی ہیں! کیا ایکس ٹو اس وقت دانش منزل میں ہی موجود ہے! جولیا جانتی تھی کہ اس عمارت میں ایک کمرہ ایسا بھی ہے جس کے در و دیوار ساؤنڈ پروف ہیں! اور اسی کمرے میں خطرے کی روشنیاں اور گھنٹیاں بھی موجود ہیں!... وہ کمرہ ایسا ہے کہ باہر سے اس میں داخل ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے! جولیا نے کیپٹن خاور، کیپٹن جعفری اور تنویر کو وہاں بھیجا تھا! وہ ان کی طرف سے مطمئن نہیں تھی. ان کی دلیری میں شبہ نہیں تھا مگر وہ زیادہ چالاک نہیں تھے! اکثر دلیری کے جوش میں ان سے حماقتیں بھی سرزد ہو جاتی تھیں! اسے حقیقتاً وہ تین آدمی نہیں مل سکے تھے جنہیں وہ بھیجنا چاہتی تھی!... یہ ساجد، پرویز اور سلطان تھے! سارجنٹ ناشاد کو تو وہ قطعی نا پسند کرتی تھی!... پتہ نہیں ایکس ٹو نے اسے اپنے سٹاف میں کیوں رکھا تھا!... جولیا اس کی شاعری سے تنگ آ گئی تھی! جب بھی وہ کوئی نئی غزل کہتا! انگریزی میں اس کا ترجمہ اسے ضرور سناتا اگر روبرو نہ سنا سکتا تو فون پر بور کرتا... اسے عورت، شعر اور شراب کے علاوہ دنیا کی کسی چوتھی چیز کی پروا نہیں تھی! ویسے وہ ڈرپوک بھی نہیں تھا!... ایک اچھا نشانہ باز بھی تھا! مگر جولیا کا خیال تھا کہ وہ دو کوڑی کا آدمی ہے!

جولیا نے گھڑی کی طرف دیکھا! ایک بج چکا تھا! اس نے بڑی تیزی سے جیکٹ اور پتلون پہنی! اعشاریہ دو پانچ کا پستول جیب میں ڈالا اور فلیٹ سے نکل کر دانش منزل کی طرف روانہ ہوگئی! خنکی زیادہ نہیں تھی. سڑکیں قریب قریب سنسان ہو چکی تھیں. اس لئے وہ بے خطر اپنی چھوٹی سی آسٹن دوڑائے لئے جا رہی تھی.

دانش منزل سے کچھ ادھر ہی اس نے کار روک دی اور پیدل ہی دانش منزل کی طرف روانہ ہو گئی!... اسے پھاٹک بند نہیںملا. کمپاؤنڈ میں اندھیرا تھا! اچانک کسی نے پیچھے سے اس کے شانے پکڑ لئے...!

"حرکت نہ کرنا اپنی جگہ سے!" کسی نے آہستہ سے کہا. لیکن وہ اس کی آواز صاف پہچان گئی! یہ کیپٹن خاور تھا!

"میں ہوں!" جولیا نے جواب دیا!

"اوہو!" اس کے شانے چھوڑ دیئے گئے!

"کیا رہا!" جولیا نے پوچھا!

"نکل گئے! وہ چار تھے! اندھیرے کی وجہ سے ہم ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھ سکے!"

"تب پھر کیا کیا تم نے!" جولیا نے جھنجھلا کر کہا!

"کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ بات نہ بڑھائی جائے. صرف یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون ہیں!"

"کہا تھا!... لیکن...! تم انہیں نہیں دیکھ سکے!"

"تم تو بعض اوقات حکومت ہی چلانے لگتی ہو!" کیپٹن خاور بھی جھنجھلا گیا.

جولیا نے جواب میں کچھ نہیںکہا!... اتنے میں تنویر اور جعفری بھی وہاں پہنچ گئے.

"آہا!... کون ہے!" تنویر نے کہا جو شاید جولیا کی آواز سن چکا تھا!
جولیا خاموش رہی! تنویر نے کہا! "میرا خیال ہے کہ ایکس ٹو اندر موجود ہے! کیوں جولیا کیا خیال ہے! اسے دیکھو گی!... تمہیں بڑی خواہش ہے!..."

"ارے میں تو بیچاری عورت ہوں!" جولیا نے جلے بھنے لہجے میں کہا "تم مرد ہو! ذرا برآمدے ہی میں قدم رکھ کر دیکھو!"

"مگر اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے!" جعفری نے پوچھا!...

"کیا کرو گے؟" جولیا بولی "وہ تو نکل ہی گئے! کیا تم میں سے کوئی ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتا تھا!..."

"ہم نے انہیں پھاٹک سے نکلتے ضرور دیکھا تھا! لیکن! پھر پتہ نہیں وہ کہاں غائب ہو گئے!"

"کسی جاسوسی ناول کے مجرم رہے ہوں گے!" جولیا نے طنزیہ انداز میں کہا"زمین پھٹی ہوگی اور وہ سما گئے! یا منہ میں جادو کا بٹن رکھا اور غائب..."

"یہ بات نہیں ہے!" جعفری نے غصیلی آواز میں کہا "تم خود کو نہ جانے کیا سمجھتی ہو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ یہاں سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک سنیما ہال ہے! سیکنڈ شو کے تماشائی غول در غول ادھر سے گذر رہے تھے! وہ چاروں یقنی طور پر ان میں مل گئے ہوں گے."

"ختم کرو! مجھے کیا!" جولیا نے بیزاری سے کہا!"مجھے جو حکم ملا تھا تم تک پہنچا دیا! اس کے بعد میرا کام ختم ہو جاتا ہے!..."

"کیا عمارت میں داخل ہونے کے لئے نہیں کہا گیا تھا!" تنویر نے پوچھا!

"نہیں! اب تم لوگ جو کچھ بھی کرو گے اپنی ذمہ داری پر!" جولیا نے کہااور پھاٹک سے نکل آئی.



(3)

عمران نے شیلا کی طرف دیکھا جو بڑے اطمینان سے سیگرٹ کے ہلکے ہلکے کش لے رہی تھی!... اس کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی مکان کے کسی کمرے میں بیٹھی ہو!

"تم مطمئن رہو! وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!" عمران نے اس سے کہا! "خصوصاً اس کمرے میں!"

"تم اپنا وقت برباد کر رہے ہو!" شیلا لاپرواہی سے بولی!

"کیوں؟"

"تم مجھے مرنے سے نہیں روک سکتے! میں خود مرنا چاہتی ہوں
 
میں تمہارے خیالات کی قدر کرتا ہوں! لیکن تمہارے مرنے سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا! کیونکہ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بہت کچھ بتا چکی ہو! ویسے تمہاری زندگی ملک و قوم کو ضرور فائدہ پہنچا سکتی ہے!"

"مجھے ملک و قوم سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے! کیونکہ اسی ملک و قوم نے مجھے نقصان ُُپہنچایا ہے ..."

عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر خاموش ہو گیا... تھوڑی دیر تک سوچتا رہا! پھر بولا "خیر... تم یہ رات تو اسی کمرے میں گزارو گی! تم نے وعدہ کیا تھا!..."

"وہ دوسری صورت تھی!... اب بات کہیں اور جا پڑی ہے، پہلے میرا خیال تھا کہ میں تم سے کم از کم دو ہفتوں کی رقم ضرور اینٹھ لوں گی!"

"میں تمہیں چار ہفتوں کی رقم سے سکتا ہوں! لیکن تمہیں میرے کہنے پر عمل کرنا پڑے گا!"

"میرا پیچھا چھوڑو!" شیلا جھنجھلا گئی... پھر تھوڑی دیر بعد نرم لہجے میں پوچھا!"کیا تم یہاں شراب نہیں رکھتے!"

"یہاں شراب کا نام لینا بھی جرم ہے!"

"تمہارا نام کیا ہے...!"

"خچر!"

"خچر ہی معلوم ہوتے ہو! کوئی سمجھدار آدمی شراب کے متعلق ایسی سخت بات نہیں کہہ سکتا!... اگر تم میرے لئے شراب مہیا کر سکو تو میں رات یہیں گزار دوں گی!"

"شراب اس عمارت میں ممنوع ہے!"

"تب پھر تم مجھے یہاں روک بھی نہیں سکتے!"

"اچھا تو چلی جاؤ!" عمران ہاتھ پھیلا کر بولا!

"ان خودکار دروازوں پر تمہیں گھمنڈ ہے!" شیلا ہنسنے لگی! مگر یہ ہنسی بڑی کھوکھلی تھی! ایسا معلوم ہوا تھا جیسے کسی مشین سے نکلی ہو!...

عمران کچھ نہ بولا! وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا... ایک بار وہ ایک دروازے کے قریب گیا اور اسے کھول کر باہر نکل آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا!... اس نے گھوم پھر کر پوری عمارت کا جائزہ لیا پھر بیرونی برآمدے میں نکل آیا. کمپاؤنڈ سنسان پڑی تھی اور جھینگروں کی جھائیں جھائیں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی!

وہ تقریباً دس منٹ تک وہاںکھڑا رہا! پھر نیچے اتر کر عمارت کے عقبی حصے کی طرف چل پڑا تھوڑی دیر یہاں بھی ٹھہر کر وہ دوبارہ صدر دروازے پر پہنچ گیا.

اسے کہیں بھی کسی آدمی کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا!... اس نے ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ کھولا لیکن دوسرے ہی لمحہ میں بری طرح بوکھلا گیا کیونکہ شیلا وہاں نہیں تھی!... وہ وہاں سے نکل کر تیر کی طرح کمپاؤنڈ کے پھاٹک پر آیا... مگر وہاں تو اب قدموں کی آہٹیں بھی نہیں تھیں! سامنے والی سڑک بالکل ویران ہو چکی تھی!

"شامت!" وہ آہستہ سے بڑبڑا کر رہ گیا.
(4)

دوسری صبح عمران دیر سے اٹھا! دھوپ پھیل چکی تھی اور اس کے فلیٹ پر الو بول رہے تھے! اس کا نوکر سلیمان تین دن سے غیر حاضر تھا... پلنگ پر پڑے ہی پڑے اس نے ہاتھ پیر پھیلا کر ایک طویل انگڑائی لی اور گذشتہ رات کے سارے واقعات ایک ایک کرکے اسے یاد آنے لگے. اس نے ایک زبردست غلطی کی تھی! ایک نہیں بلکہ دو غلطیاں! پہلی غلطی تو یہ کہ اس نے شیلا سے ایک اہم ترین بات نہیں پوچھی تھی! ظاہر ہے کہ مجرم خود کو پس منظر میں رکھ کر بڑی رقمیں بنا رہے تھے! لہٰذا ان سے کسی ایسی غلطی کا ارتکاب ممکن نہیں تھا. جس سے ان کی گردن پھنس جاتی! پھر آخر ناہید نے انہیں کن ذرائع سے شیلا کے متعلق اطلاع دی ہوگی!...اسے اس کے متعلق شیلا سے ضرور پوچھنا چاہئے تھا! پھر! دوسری غلطی اس کی بے احتیاطی تھی! اس نے خود کار دروازوں کا استعمال اس طرح کیا تھا کہ شیلا اس سے واقف ہو گئی تھی! ویسے وہ یہی سمجھتا رہا تھا کہ شیلا اس سے لاعلم ہے! اب اس کے ہاتھ میں صرف دو کارڈ رہ گئے تھے! ایک تو پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ اور دوسرا کارڈ... ناہید. اس کا پتہ اسے معلوم تھا!... مگر یہ پوسٹ بکس نمبر والا معاملہ بھی اس کی سمجھ سے باہر تھا. یہ بھی گردن ہی پھنسا لینے والی بات تھی!

بہرحال اس نے اسی دن سے تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا!... پوسٹ بکس نمبر شہر کے سب سے زیادہ چھپنے والے ایک ماہنامے کا نکلا.

ماہنامہ "کمر لچکدار" جس کی دھوم سارے ملک میں تھی!... وہ ادب اور ثقافت کا علمبردار تھا! ادب کا علمبردار یوں تھا کہ اس میں فلم ایکٹرسوں کی کمزوریاں اچھالی جاتی تھیں! اور ثقافت کا علمبردار اس لئے کہا جا سکتا تھا کہ سرورق پر کسی لنگوٹی بند امریکن چھپکلی کی تصویر ہوتی تھی...!

عمران نے اپنا فائل نکالا جس میں اس کی کئی اوٹ پٹانگ کہانیاں تھیں! کسی زمانے میں اسے کہانیاں لکھنے کا خبط بھی تھا!... اس نے لیکاک کے Nonsense novels کے طرز پر کئی کہانیاں لکھ ڈالی تھیں!...

اس نے ایک کہانی نکالی اور ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا!

دفتر کافی شاندار تھا! تقریباً ڈیڑھ درجن آدمی مختلف قسم کے کاموں میں مشغول نظر آ رہے تھے!

"فرمائیے!" ایک نے عمران کو ٹوکا!

"میں ایڈیٹر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں!" عمران نے جواب دیا!

"کیا کام ہے!" 

"کم کچھ بھی نہیں ہے! زیادہ ہی نکلے گا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!

"کم نہیں کام!" اس نے تصحیح کی!...

"اوہ... کام... ان سے جا کر کہہ دیجئے کہ ایک بہت بڑا افسانہ نگار ملنا چاہتا ہے!"

"جب!" وہ آدمی اس کی حماقت آمیز شکل دیکھ کر مسکرایا اور پھر اسے نیچے سے اوپر تک دیکھتا ہوا بولا "نام کیا بتاؤں!"

"ابن ہدہد!"

وہ ہنستا ہوا... ایڈیٹر کے کمرے کی طرف چلا گیا! عمران کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا! تھوڑی دیر بعد اس نے واپس آ کر کہا"جائیے."

عمران اکڑتا ہوا کمرے کے دروازہ پر آیا چق ہٹائی اور اندر چلا گیا! ایڈیٹر دونوں ہاتھوں کو میز پر رکھے قہر آلود نظروں سے دروازے کی طرف گھور رہا تھا!

"تشریف رکھیئے!" وہ غرایا!"

یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند آدمی تھا! عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہوگی!

"آپ بھی ابنا ہیں!" اس نے عمران کو کینہ توز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا!

"جی ہاں! بندے کو ابن ہدہد کہتے ہیں!"

"کیا یہ ابن کوئی بیماری ہے! جسے دیکھئے نام کے ساتھ ابن لگائے چلا آ رہا ہے! بیٹھئے نا! بہت سی باتیں کروں گا آپ سے!"

عمران بیٹھ گیا
"اپنی ایک کہانی لایا ہوں"

"مگر! آپ کو اپنا نام بدلنا پڑے گا! میرے پرچے میں جاسوسی کہانیاں نہیں شائع کی جاتیں!"



"اجی یہ رومانی افسانہ ہے!"

"پھر تو آپ کو نام بدلنا پڑے گا...!"

"اچھا تو پھر ہدہد کر دیجئے گا! جی ہاں!... چلے گا یا نہیں ویسے ابن ہدہد بھی چل جاتا!"

"نہیں! آپ نہیں جانتے! ہماری دشواریوں سے واقف نہیں ہیں! ابھی حال ہی میں میرے ایک دوسرے نے اپنے رسالے میں اردو کے ایک بہت اچھے شاعر کی نظم چھاپی تھی! اتفاق سے ان کے نام میں بھی "ابن" موجود ہے! آپ جانتے ہیں کہ اس بیچارے کو اس سلسلے میں کس طرح کے قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں!"

عمران نے نفی میں سر ہلا دیا!"ٹھہریئے!" ایڈیٹر نے میز کی دراز کھینچ کر اس میں رکھے ہوئے کاغذات الٹتا پلٹتا ہوا بولا "میں آپ کو ایک خط سناؤں گا! سنئے اور عبرت پکڑئیے!"

اس نے ایک پوسٹ کارڈ نکال کر پڑھنا شروع کیا!

"جاناب ایڈیٹر صاحب!"

شالا تم کیا چار شو بیش ریشالہ نکالتا ہے! اوپر لکھتا ہے... لکھنے والے ابن عبدل یہی نام تھا! یا دوسرا تھا... یاد نہیں!... ابن ضرور تھا!.... اوپر ابن لکھتا ہے اور اند رمیں گجل ٹھونس دیتا ہے... ہمارا پیشہ واپش کرو! ہم جاشوشی افشانہ سمجھ کر کھریدا تھا! یہ چار شو بیشی کا دھندا کب تک چلے گا! تم شالا پبلک کو دھوکا دیتا ہے.

ہم ہے تمہارا باپ

اللہ رکھا

"ارے توبہ! توبہ!" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا! لاحول ولا!... میرا افسانہ... جاسوسی ہرگز نہیں ہے! میں نام بھی بدل دوں گا! آپ مطمئن رہیئے! افسانے کا نام ہے! حاتم طائی!"

"نہیں چلے گا! بہت پرانی چیز ہے!"
آپ دیکھئے تو سہی اسی میں جدت ہے... یہ فینٹسی بھی نہیں ہے بس دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے! بالکل نئی جدت دیکھئے گا... غور سے سنیئے! ہاں!"

عمران صفحات کو اپنے چہرے کے برابر رکھ کر پڑھنے لگا"صبح کا سہانا وقت تھا!..."

"ٹھہرئیے"... ٹھہرئیے!..." ایڈیٹر ہاتھ اٹھا کر بولا "یہ نہیں چلے گا!... صبح کا سہانا وقت تھا تو پڑھنے والوںکو اس سے کیا سروکار... نہیں یہ بہت پرانا اسٹائل ہے!"

"اچھا... اچھا... میں پورا منظر نکالے دیتا ہوں!... خیر جانے دیجئے! آگے سنیئے... حاتم اپنے خیمے سے نکل کر ایک تمباکو فروش کی دوکان پر آیا!... اور وہاں سے سوئیٹ کراپ کا تمباکو خرید کر طائی کے خیمے کی طرف چل پڑا..."

"کس خیمے کی طرف..." ایڈیٹر حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا!

"طائی کے خیمے کی طرف! ط سے طائی... تائی نہیں... حاتم کی کوئی تائی نہیں تھی!... طائی اس کی محبوبہ کا نام تھا...!"

"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ!" ایڈیٹر نےکچھ ایسے انداز میں کہا جیسے عمران نے اسے کوئی بہت بری خبر سنائی ہو!

"کیا میں نے آپ کو کوئی صدمہ پہنچایا ہے!" عمران بوکھلا کر بولا!

"آپ تاریخ کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں..."

"کیوں جناب...!"

"آپ طائی کو حاتم کی محبوبہ بتاتے ہیں! حالانکہ حاتم قبیلہ بنی طے کا ایک فرد ہونے کی بناء پر طائی کہلاتا تھا!"

"کیا بات کہی ہے آپ نے!" عمران نے قہقہہ لگایا! دیر تک ہنستا رہا پھر بولا.

"آپ کے فارمولے سے تو پھر مجنوں لیلٰی کا باپ تھا!... یا لیلٰی بنی مجنوں سے تعلق رکھتی تھی!... وامق قبیلہ بنی عذرا سے تعلق رکھتا تھا. ہیر رانجھا کی چچی تھی... مہینوال سوہنی کا ابا تھا!... کیا فضول باتیں کر رہے ہیں آپ... میں اپنا سر پیٹ لوں گا!"

عمران کے چہرے پر یک بیک شدید ترین غصے کے آثار نظر آنے لگے.

"کہیں آپ نشے میں تو نہیں ہیں" ایڈیٹر اسے گھورتا ہوا بولا.

"نشے میں ہوں گے آپ!... اتنے بڑے ایڈیٹر ہو کر جہالت کی باتیں کرتے ہیں!" عمران اچھل کر کھڑآ ہو گیا!

"آپ بدتمیز ہیں!" ایڈیٹر بھی کھڑا ہو گیا! عمران کی زبان پر جو کچھ بھی آ رہا تھا. بے تکان بکتا جا رہا تھا!... کمرے میں کئی لوگ گھس گئے! ان میں ایک لڑکی بھی تھی! جس نے مردانہ لباس پہن رکھا تھا... نیلے رنگ کا جیکٹ اور سرخ پتلون!...

"آپ دنیا کے سب سے بڑے کریک ہیں!" ایڈیٹر نے ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے عمران پر نظر ڈال کر کہا!

"کیا بات ہے!" کسی نے پوچھا!

"آپ ایک کہانی لائے ہیں! حاتم طائی... جس میں طائی حاتم کی محبوبہ ہے." ایڈیٹر نے کہا. لوگ ہنس پڑے مگر لڑکی عمران کو بڑی سنجیدگی سے گھورتی رہی. اس کے ہونٹوں پر خفیف سے مسکراہٹ بھی نمودار ہوئی تھی!.

"اور اب آپ لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں!" ایڈیٹر مسکرا کر بولا. پھر عمران کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہا "آپ اپنے پیروں پر چل کر جانا پسند کریں گے یا... میں اپنے آدمیوں کو آپ کی خدمت پر آمادہ کروں! میرا خیال ہے کہ آپ کافی سمجھدار آدمی ہیں!"

"جی ہاں... جی ہاں!" عمران نے غصیلے انداز میں دانت نکال کر کہا "میں جا رہا ہوں. آپ کی قابلیت کا بھانڈا بھی عنقریب پھوٹ جائے گا!... مجھ سے غلطی ہوئی جو یہاں چلا آیا... ماہنامہ "ترچھی نجریا" والے مجھے پوجتے ہیں...!"

"گیٹ آؤٹ!" ایڈیٹر حلق پھاڑ کر چیخا!
جی ہاں!... میں جا رہا ہوں!" عمران جانے کے لئے مڑا... لیکن ابھی دو ہی چار قدم چلا تھا کہ مردانہ لباس والی لڑکی نے اس کی ٹانگوں میں ٹانگ ماری اور عمران دھڑام سے فرش پر گر گیا! ایک بار پھر قہقہوں کا طوفان امنڈا... اور لڑکی بڑی سنجیدگی سے چھت کی طرف دیکھنے لگی. اس بار بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تک نہیں تھی!

عمران اٹھا اور مڑ کر دیکھے بغیر چھپٹتا ہوا باہر نکل آیا... سڑک پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور سامنے والے ریستوران میں گھس گیا! اس نے ایک ایسی میز منتخب کی جہاں سے ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کے زینے صاف نظر آتے تھے!

وہ تقریباً دو گھنٹے تک اسی میز پر جا رہا... پھر دفتر کے بند ہونے کا وقت آ گیا اور وہاں کام کرنے والے باہر آنے لگے! چار آدمی اس ریستوران کی طرف بھی آ رہے تھے! ان میں وہ لڑکی بھی تھی جس نے عمران کو گرایا تھا جیسے ہی ان کی نظر عمران پر پڑی وہ رک گئے! عمران پہلے ہی سے اپنی کہانی کے صفحات سامنے رکھے ان میں فاؤنٹین پن سے کاٹ چھانٹ کر رہا تھا! وہ چاروں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے! ادھر عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے ان کی آمد کی خبر ہی نہ ہو! وہ چاروں اس کی میز کے اطراف میں کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئے! اور عمران چونک کر احمقوں کی طرحایک ایک کی شکل دیکھنے لگا!

لڑکی عمران کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی "بولو دوست کا کیا رنگ ہیں!"

"اوہو!" عمران جھینپی ہوئی سی ہنسی کے ساتھ بولا "مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے!"

"ضرور دیکھا ہوگا!" لڑکی بڑے پیار سے بولی "کیا چائے نہیں پلواؤ گے!"

"اوہ...ضرور ضرور... اے بھائی صاحب... ارے بھائی صاحب!" اس نے ویٹر کو آواز دی!

وہ حد سے زیادہ بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا! ویٹر کو سب کے لئے چائے اور سموسوں کا آرڈر دے کر وہ پھر انہیں احمقوں کی طرح دیکھنے لگا!

"کیا لکھ رہے تھے...!" لڑکی نے پوچھا!

"مم... میں افسانہ نگار ہوں!" عمران نے سر جھکا کر بڑے شرمیلے انداز میں جواب دیا!

"کہیے!... آپ کو یاد آیا کہ آپ نے ہمیںکہاں دیکھا تھا!" ایک آدمی نے پوچھا!

"نہیں یاد نہیں آیا! مگر میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ کہیں دیکھا ضرور ہے!"

"آپ کا نام کیا ہے...!" لڑکی نے پوچھا!

"ابن ہدہد! آپ کو میرے نام پر ہنسی آئے گی!... مگر میں بڑا جدت پسند آدمی ہوں! شاعر لوگ مختلف قسم کے پرندوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں! لیکن بیچارے ہدہد کا کوئی نام بھی نہیں لیتا! حالانکہ ہدہد کا ذکر آسمانی کتابوں میں بھی آیا ہے... ہدہد سلیمان اور ملکہ صبا کا قاصد تھا!"

"تو آپ کو صرف ہدہد ہونا چاہیئے تھا اس میں ابن کیوں لگا دیا!"

"آج کل ابن ہی چالو ہے!" عمران نے دانشوروں کے انداز میں کہا.

"نہیں صرف ہدہد..." لڑکی نے سنجیدگی سے کہا "تم سو فیصدی ہدہد معلوم ہوتے ہو."

"ہوتا ہوں نا!... ہاہا... اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران اٹھتا ہوا بولا!

"ارے... چائے تو منگوائی تھی"...! لڑکی نے کہا.

"کیا کروں! شاید وہ کہیں دور نکل گیا ہے."

"کون؟"

"وہی جس سے چائے کے لئے کہا تھا! میں سمجھا تھا شاید یہیں سے لائے گا!"

عمران پھر بیٹھ گیا!... اچانک اس نے محسوس کیا کہ لڑکی اب کچھ گھبرائی ہوئی سی ہے! وہ بار بار ایک کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی! یہ کھڑکی سڑک کی طرف تھی. دفعتاً لڑکی کچھ کہے سنے بغیر اٹھی اور باہر نکل گئی! انداز کچھ ایاس تھا جیسے وہ اتنی سی دیر میں یہ بھی بھول گئی ہو کہ وہ وہاں تنہا نہیں آئی تھی بلکہ اس کے ساتھ تین آدمی اور بھی تھے دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی اس کے اس طرح چلے جانے پر اس کے ساتھیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا! وہ بدستور اطمینان سے بیٹھے ہوئے عمران کو چھیڑتے رہے...

"میں جا رہا ہو!" عمران اٹھتا ہوا بولا!

"اور چائے کا بل کون ادا کرے گا!" ایک آدمی نے کہا!

"میں کیا جانوں!"

"تم نے آرڈر دیا تھا..."

"آہا...!" عمران دیدے نچا کر بولا " تو کیا تمہارے لئے آرڈر دیا تھا! وہ چلی گئیں!... اب میں بھی جا رہا ہوں. واہ یار ذرا اپنی شکل تو دیکھو! میں تمہیں چائے پلاؤں گا! ہاہا... ہپ!"
 
"شرافت کے دائرے سے باہر نہ نکلو!..."اسی آدمی نے غصیلے لہجے میں کہا!

"میں ازلی کمینہ ہوں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!"افسانہ نگار ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میری اصلیت بدل جائے!... اگر لڑنے بھڑنے کا ارادہ ہو تو اس کیلئے بھی تیار ہوں!"

"اچھا نکلو باہر...! ہم دیکھتے ہیں تمہیں!"

اتنے میں بیرے نے چائے لا کر میز پر رکھ دی! جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ عمران نے اسے روک کر کہا!"میرا بل لاؤ اس چائے کے دام یہی لوگ ادا کریں گے!"

وہ تینوں پیچ و تاب کھا کر رہ گئے! لیکن کچھ بولے نہیں!... ویٹر چلا گیا!...

"اچھا پھر کبھی سمجھیں گے تم سے!" ان میں سے ایک آنکھیں نکال کر بولا!

"الجبرا اور جومیٹری سمجھا سکتا ہوں! ارتھمیٹک کمزور ہے!... وہ کسی اور سے سمجھ لینا! ہاں!" عمران بالکل اسی طرح بولا جیسے کوئی استاد اپنے شاگردوں سے ہمکلام ہو!

ویٹر بل لایا اور عمران نے اس کی قیمت ادا کی پھر تینوں کی طرف ایک چڑا دینے والی مسکراہٹ اچھالتا ہوا اٹھ گیا!.

وہ سمجھا تھا کہ شاید وہ لڑکی فٹ پاتھ ہی پر مل جائے گی... مگر اسے مایوسی ہوئی!... وہ دراصل اس لڑکی کے متعلق الجھن میں پڑ گیا تھا!... حالانکہ بظاہر کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بناء پر اسے اس لڑکی کی طرف سے کوئی تشویش ہوتی!... ویسے اس نے "کمر لچکدار" کے دفتر میں اس سے بڑا مضحکہ خیز برتاؤ کیا تھا!

الجھن اس کی بھی نہیں تھی!... فی الوقت وہ خود بھی اس الجھن کو نہیں سمجھ سکا!... کبھی کبھی اس کے ساتھ ایسا بھی ہوتا تھا! وہ چند لمحے رک کر ایک طرف چل پڑا.

ابھی اسے پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق مکمل معلومات نہیں حاصل ہوئی تھیں!... اسے یقین تھا کہ وہ کوئی کلیو نہیں ہو سکتا... مگر اس کے متعلق اسے ایک ایسی عورت نے بتایا تھا جس کے سر پر شاید موت ہی سوار تھی! اس لئے وہ اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا!... عمران خیالات میں اس طرح کھویا ہوا تھا کہ پیدل ہی چلتا رہا!... دن بھر کی تھکی ہوئی بھیڑ کارخانوں اور دفتروں سے نکل آئی تھی!... اور فٹ پاتھ پر گذرتے وقت لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے. عمران کو اس بھیڑ کا احساس بھی نہیں تھا!... وہ شانوں سے شانے رگڑتا... رکتا... رکاتا چلتا رہا! وہ سوچ رہا تھا کہ اسے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض سے اس لڑکی کے متعلق کچھ اور معلومات بھی فراہم کرنی چاہیئے جس کی لاش ڈیڑھ ہفتہ پہلے شارع عام پر پائی گئی تھی. وہ ایک پبلک کال بوتھ میں گھس کر فیاض کے نمبر ڈائیل کرنے لگا. مگر یہاں بھی اسے ناکامی ہوئی. فیاض گھر پر موجود نہیں تھا اور اس وقت آفس میں اس کی موجودگی ممکن تھی!... عمران بوتھ سے باہر آ گیا! فی الحال اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے تفتیش کا آغاز کہاں سے کرنا چاہئے اسے شیلا یاد آئی. مگر وہ اسے کہاں تلاش کرتا! ویسے وہ بری طرح ذہن سے چپک گئی تھی!

عمران پھر چلنے لگا!... ماہنامہ "کمر لچکدار" کے آفس میں یا اس کے سامنے والے ریستوران میں اس نے وقت نہیں برباد کیا تھا!... کم از کم وہاں کے ماحول سے اس نے یہی


اندازہ لگایا تھا کہ اگر وہ پوسٹ بکس نمبر وہیں کا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور دی جا سکتی ہے!

کیا وہ ایک بار پھر اس جزیرے کا رخ کرے؟`اس نے سوچا! ساتھ ہی اسے یہ بات بھی یاد آئی کہ وہ وہاں گیا ہی کیوں تھا؟... اسے مقتولہ کے باپ سے ملنا تھا! لیکن اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی! اس کے پاس اس کی شہری جائے رہائش کا پتہ بھی موجود تھا!...

وہ چلتے چلتے ایک گلی میں مڑ گیا! دراصل وہ ایک ٹیکسی چاہتا تھا اور خالی ٹیکسی اسے دوسری سڑک پر مل سکتی تھی!.

ٹیکسی کے لئے اسے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا. تھوڑی دیر بعد وہ مقتولہ کے باپ کا پتہ ٹیکسی والے کو بتا رہا تھا.

لیکن تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد اسے ٹیکسی رکوا دینی پڑی کیونکہ ایک دوکان میں اسے وہی لڑکی نظر آئی تھی جس نے ماہنامے کے دفتر میں اسے گرا دیا تھا! وہ بڑی جلدی میں ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھ میں کچھ رقم دیتا ہوا نیچے اتر گیا.

مگر وہ کہیں رکا نہیں سیدھا اسی دوکان میں گھستا چلا گیا! یہ ایک جنرل سٹور تھا! عمران لڑکی کے پیچھے کھڑا ہو کر شوکیسوں پر نظر ڈالنے لگا! پھر کچھ ہی دیر بعد آہستہ سے بولا "آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے!"

لڑکی یکلخت اس کی طرف مڑی اس کی آنکھوں سے حیرت جھانک رہی تھی اس نے دوکان دار سے کہا. "میں پھر آؤں گی." اور باہر نکل گئی! لیکن عمران نےا س کا پیچھا نہیں چھوڑا. فٹ پاتھ پر پہنچ کر وہ رک گئی.

"کیا ارادے ہیں!" اس نے عمران کو گھورتے ہوئے کہا!

"تمہیں چائے پلاؤں گا!"

"تم مجھے وہ نہیں معلوم ہوتے جو نظر آتے ہو!"

"میں حقیقتاً چمگادڑ ہوں! مگر عام طور پر لوگ مجھے طوطا کہتے ہیں!"

"کس چکر میں ہو!"

"تمہارے چکر میں! اب میں اتنا گاؤدی بھی نہیں ہوںکہ حاتم طائی کو لیلٰی مجنوں کی طرح جوڑا بنا دوں!"

"پھر؟" لڑکی کے ہونٹ بھنچ گئے! اس کی آنکھوں میں ایک خونخوار سی چمک لہرا رہی تھی!

"میں دراصل تم تک پہنچنا چاہتا تھا!" عمران نے سر جھکا کر شرمیلے لہجے میں کہا.

"کیوں؟"

"پتہ نہیں کیوں؟ جب سے تمہیں دیکھا ہے!"

"شٹ اپ... کیا شامت آئی ہے!"

"مجھے یہی توقع تھی!" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور مغموم انداز میں سر ہلانے لگا! پھر بولا "تم اس نابکار ایڈیٹر کومجھ سے قابل سمجھتی ہو."

"ہوش میں ہو یا نہیں! ہم پہلی بار ملے ہیں!"

"نہیں ہم میں تو بہت پرانی بے تکلفی ہے! اگر یہ بات نہ ہوتی تو تم ٹانگ مار کر گراتی کیوں!"

"میں یہاں اس جگہ بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کر سکتی ہوں!"

"ارے جاؤ. جاؤ! میں کیا تم سے کمزور ہوں. اب کے گرا کر دیکھو چٹنی بنا کر رکھ دوں گا! یہ تو تمہیں شادی کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں!"

"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے! اگر اب میرے پیچھے آئے تو خیریت نہیں."

"خیریت کی ایسی کی تیسی! وہ انگوٹھی کہاںہے؟"

"کیسی انگوٹھی؟"

"منگنی کی انگوٹھی! جو پچھلے سال میں نے تمہاری انگلی میں ڈالی تھی! اس کے بعد تم غائب ہو گئی تھیں. آج ملی ہو! میں کہتا ہوں کہ یہ رشتہ ضرور ہوگا. تمہارے والدین کو اب بھی منظور ہے!"

"میں کہتی ہوں دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ بہت برا ہوگا.!"

"کیا برا ہوگا؟ ذرا ٹھہرو! میں اس ڈیوٹی کانسٹیبل کو بھی اطلاع دے دوںکہ تم میری منگیتر ہو. دیکھو بڑا بکھیڑا ہو جائے گا! بھیڑ لگ جائے گی یہاں! میں بڑا بے حیا آدمی ہوں. میرا کچھ نہ بگڑے گا. میں انسلٹ پروف ہوں."

"تم کیا چاہتے ہو!" لڑکی نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا.

"وہ تمہارے گھر کا پتہ تاک مجھے بار بار دفتر کے چکر نہ لگانے پڑیں!"

لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی. پھر اپنے پرس سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا.

"میں کل ضرور آؤں گا... شکریہ!"

"ٹھہرو!..." لڑکی ہاتھ اٹھا کر بولی!"مقصد کیا ہے!"

"جب تک تم پتلون پہننا نہ چھوڑو گی! میں تمہارا پیچھا نہ چھوڑوں گا. جس دن میں نے تمہیں غرارے، شلوار یا سکرٹ میں دیکھ لیا اسی دن سے تم میری شکل بھی نہ دیکھو گی!"

"تم سے مطلب میں جو چاہے پہنوں! تم کون ہوتے ہو!"... لڑکی پھر جھنجھلا گئی.

"میں تمہارا منگیتر ہوتا ہوں! اور اس وقت تک رہوں گا جب تک پتلون!... تم مجھے نہیں جانتیں! مجھے ایک عورت کے چلنے کا انداز ناپسند تھا!... لہٰذا میں نے اس کے شوہر سے اسے طلاق دلوا دی!... حالانکہ میرے پانچ ہزار روپے ضرور خرچ ہو گئے!... لیکن!... شہر میں وہ چیز تو نہ رہی جو مجھے ناپسند تھی! تم پر بھی دو چار ہزار خرچ کروں گا. پھر تمہیں یا تو شہر چھوڑنا پڑے گا یا پتلون!"

"ارے تم خدائی فوجدار ہو!" لڑکی دانت پیس کر بولی!

"خدائی فوج کا حوالدار میجر!..." عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا!

لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی پھر بولی "اگر میں شور مچا دوں کہ تم مجھ سے بدتمیزی کر رہے ہو تو؟"

"ارے خدا کے لئے شور مچاؤ بھی! میں یہی چاہتا ہوں کہ تم شور مچاؤ! اتنی دیر سے جھک کیوں مار رہا ہوں! مقصد یہی ہے. کہ تم شور مچاؤ!..."

"کیا کرو گے تم...!"

"دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو جائے گا! تم کل ہی پتلون پہننا چھوڑ دو گی!... کہو تو پوری اسکیم بتا دوں!... تم شور مچاؤ گی تو لوگ اکٹھا ہوں گے! میں کہوں گا کہ یہ میری بیوی ہے. دو سال گزرے اپنے دادا زاد بھائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی. کارڈ پر تمہارا نام زیبا تحریر ہے. میں جنت بی بی بتاؤں گا! کہوں گا کہ یہ اسی لئے پتلون ڈالے پھرتی ہے کہ اسے کوئی پہنچان نہ سکے... چلو شور مچاؤ... ہاہا!"
وہ کلکلا کر زیر لب کچھ بڑبڑائی.!

"میں صرف دو منٹ تک اور تمہارے شور مچانے کا انتظار کروں گا!"

لڑکی یکلخت دوسری طرف مڑ کر چل پڑی. عمران نے بھی وہی حرکت کی. وہ مخالف سمت میں مڑا تھا... پھر چلتے چلتے دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چل پڑے.

بظاہر عمران کی یہ حرکت احمقانہ تھی!... لیکن حقیقتاً اس کی تہہ میں بہت کچھ تھا... زیبا کی بجائے اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو عمران کی اس حرکت پر ہلڑ مچائے بغیر ہرگز نہ مانتی... مگر وہ صرف جھنجھلا کر رہ گئی تھی! ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بڑی مشکل سے ضبط کر رہی ہے. عمران نے اس سے ایک ہی نتیجہ نکالا کہ اس کے ہاتھ ضرور ملوث ہیں اسی لئے وہ اپنی تشہیر سے ڈرتی ہے. اس وقت اس کا کسی قسم کا اقدام بھی پولیس کیس بن سکتا تھا. لیکن وہ پولیس کی نظر میں آنے سے کتراتی ہے. کیونکہ خود اس کا ضمیر بھی احساسِ جرم کا شکار ہے.
 
ختم شد

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔