جمعرات، 30 اپریل، 2015

عشق کا قاف آخری قسط

0 comments
ریحا، سوجل کے سینے سے لگی سسک رہی تھی، جو کسی سوچ میں ڈوبی اس کی کمر پر بڑی محبت سے دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہی تھی۔
"میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ماما۔  اور پاپا اس کے ساتھ آج رات کیا سلوک کرنے والے ہیں ، اس کے بارے میں وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں۔ " ریحا روئے جا رہی تھی۔
"دھیرج میری بچی دھیرج۔ " سوجل نے جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر کہا اور اس کا چہرہ سامنے کر کے اس کے رخسار خشک کرنے لگی۔ "میں ابھی زندہ ہوں۔  تم میرے راکیش کی نشانی ہو اور میں نے کبھی تم سے یہ نہیں چھپایا کہ میں نے رائے سے شادی کی ہی اس لئے تھی کہ مجھے آج بھی شک ہے کہ راکیش کا قتل اسی نے کرایا تھا۔  میں جس روز اس حقیقت سے آگاہ ہو گئی، وہ دن میرے اور اس کے تعلق کا آخری دن ہو گا۔  رہ گئیں تم۔۔۔  تو میری جان۔  تمہاری خوشی مجھے اپنے دھرم سے بڑھ کر عزیز ہے۔  اس دھرم نے مجھے سوائے دُکھ اور جبر کے دیا کیا ہے کہ میں تمہارے اور تمہاری پسند کے درمیان دیوار بن جاؤں۔  ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔  تم فکر مت کرو۔ "
"مگر ماما۔  آپ کریں گی کیا؟ پاپا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ " ریحا نے بھیگی آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔
"ہاتھ کتنے بھی لمبے ہوں ریحا۔  انہیں کاٹ دیا جائے تو انسان معذور ہو جاتا ہے۔ " سوجل نے عجیب سے لہجے میں جواب دیا۔ ریحا نے ماں کے سینے پر سر رکھ کر پلکیں موند لیں۔  اسے نجانے کیوں یقین ہو گیا کہ سوجل جیسا کہہ رہی ہے، ویسا ہی ہو گا۔
"تم یہ بتاؤ کہ کیپٹن آدیش پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے؟" کسی خیال کے تحت سوجل نے پوچھا تو ریحا سوچ میں پڑ گئی۔
"ماما۔  میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نے دو تین بار کی ملاقاتوں اور اس کے بعد اس کے آنے جانے کے دوران محسوس کیا ہے کہ وہ مجھے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔  اس کی جھجک ہمارے اور اس کے درمیان سٹیٹس کے فرق کی وجہ سے ہے۔  "
"کیا تم اسے اپنی مدد پر آمادہ کر سکتی ہو؟" سوجل نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
"کیسے ماما؟" ریحا نے حیرانی سے پوچھا۔
"دیکھو بیٹی۔  جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، یہ ایک یونیورسل ٹرُتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اگر وقتی طور پر تمہیں آدیش کو فریب دے کر بھی اپنا کام نکالنا پڑے توسرمد کو بچا لو۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ "
"مگر ماما۔۔۔ "
"صرف ایک بات کا دھیان رکھنا بیٹی۔ " سوجل نے اس کی بات کاٹ دی۔  "اور وہ یہ کہ تمہاری آبرو پر آنچ نہیں آنی چاہئے۔ باقی پیسہ ہو یا کوئی وعدہ۔  اس کی فکر نہ کرنا۔  میں اپنا آپ ہار کر بھی تمہارے الفاظ کی لاج رکھ لوں گی۔ "
ریحا نے ماں کے چہرے سے نظر ہٹا لی اور کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ "ماما۔ " کچھ دیر بعد اس نے کہا۔  "اس میں ففٹی ففٹی کے چانس ہیں۔  وہ ہماری مدد بھی کر سکتا ہے اور مخبری بھی۔ "
"میں سمجھتی ہوں ریحا مگر یہ رسک ہمیں لینا ہی پڑے گا جان۔ " سوجل نے اس کی جانب بڑی گہری نظروں سے دیکھا۔  "میری طرف دیکھو۔ "
ریحا نے ماں کی آنکھوں میں جھانکا تو عجیب سے سحر میں گرفتار ہو گئی۔  سوجل کی آنکھیں ویسے ہی بڑی خوبصورت تھیں اور اس وقت ان میں کچھ ایسی چمک لہرا رہی تھی جس سے ایک پاکیزگی کا احساس ہوتا تھا۔
"تم میری بیٹی ہو۔  مجھے تمہارے ساتھ ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئے مگر جذبے کیا ہوتے ہیں ؟ انہیں نبھانے کے لئے کیا کچھ نچھاور کیا جاتا ہے ؟ تمہیں سمجھانے کے لئے یہ گفتگو ضروری ہے۔  سنو ریحا۔  راکیش کے بعد، میں نے آج تک رائے کے بستر پر جتنے پل گزارے ہیں ، اس ایک حقیقت کو جاننے کی قیمت کے طور پر گزارے ہیں ، جو مجھے اس کے راکیش کا قاتل ہونے سے آگاہ کر دے گی۔  یہ ففٹی ففٹی کا چانس نہیں ہے ریحا۔  یہ ایک اندھا داؤ ہے جو میں نے صرف اپنا شک دور کرنے کے لئے کھیلا ہے۔  اپنے اس عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر، جو مجھے راکیش، تمہارے باپ سے تھا نہیں ، آج بھی ہے۔  اگر آخر میں رائے بے قصور نکلا تو میری ساری زندگی کی تپسیا بیکار جائے گی مگر مجھے یہ پچھتاوا نہیں رہے گا کہ میں نے اپنی محبت کا حق ادا نہ کیا۔ میں نے اپنے راکیش کی جان لینے والے کا پتہ لگانے کی کوشش نہ کی۔۔۔  میری اس عقیدت کو سمجھو ریحا جس کا محور صرف اور صرف راکیش ہے۔  وہ راکیش جو اب صرف میری یادوں میں زندہ ہے۔  میری دھڑکنوں میں موجود ہے۔  جس کا وجود مٹ چکا ہے۔ اور سرمد۔۔۔  وہ تو ابھی سانس لے رہا ہے۔  تم اسے موت کے ہاتھوں سے چھین سکتی ہو۔  اس لئے ففٹی ففٹی کے چکر میں مت پڑو ریحا۔  اگر آدیش نے ہم سے دھوکا کیا اور رائے سے جا ملا تب بھی۔۔۔  تب بھی میری جان۔  تمہیں اپنی سی کر لینے کا جو موقع ہاتھ آ رہا ہے، اسے گنواؤ مت۔ یاد رکھو۔  اگر تم جیت گئیں تو سرمد تمہارا ہو جانے کی امید تو ہے اور اگر آدیش نے پیٹھ میں خنجر بھونک دیا تو اپنی محبت پر قربان ہو جانے کا تاج سر پر پہن کر اس کے ساتھ دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہو جانا۔  ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر۔  ساتھ ساتھ۔ جدائی اور تنہائی کا دُکھ بڑا جان لیوا ہوتا ہے ریحا۔  میری جان۔  اس دُکھ کو پالنے سے بہتر ہے انسان مر جائے۔ اس کے ساتھ ہی مر جائے جس کے بعد جینا موت سے بدتر ہو جاتا ہے۔ " سوجل نے اس کے بالوں میں منہ چھپا لیا اور سسک پڑی۔
"ماما۔ " ریحا اس سے لپٹ گئی۔  "میں سمجھ گئی۔ میں سمجھ گئی ماما۔ اب کوئی خوف نہیں۔  کوئی ڈر نہیں۔  میں سرمد کو بچا نہ سکی تو اس کے ساتھ مر تو سکتی ہوں ماما۔ یہی بہت ہے۔ "
"کوئی ماں اپنی اولاد کے لئے ایسے شبد منہ سے نہیں نکالتی ریحا۔ " سوجل نے اس کا بالوں کو چوم کر کہا۔  "مگر میں تمہیں دعا دیتی ہوں کہ تم اپنے پیار کو حاصل کر لو یا اس پر نثار ہو جاؤ۔ "
"شکریہ ماما۔ "ریحا نے اس کے شانے پر بوسہ دیا۔  " آپ کی دعا مجھے لگ گئی۔  مجھے اس کا پورا یقین ہے۔  "
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک سوجل کو کچھ یاد آ گیا۔  "مانیا اور سرمد کاپاکستانی رشتہ دار کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں؟"اس نے پوچھا۔
"کشمیر پوائنٹ میں ماما۔ " ریحا نے کہا اور ایک دم ہڑبڑا کر اس سے الگ ہو گئی۔ "ارے ساڑھے آٹھ ہو گئے۔  مجھے نو بجے ان کے پاس پہنچنا ہے۔ "
"احتیاط سے جانا۔  رائے نے تمہارے پیچھے آدمی نہ لگا دیے ہوں ؟" سوجل نے تشویش سے کہا۔  "اس سے کچھ بعید نہیں۔ "
" آپ فکر نہ کریں ماما۔  میں دھیان رکھوں گی۔ " وہ جلدی جلدی تیار ہوتے ہوئے بولی۔  "پاپا ادھر کس وقت آئیں گے ناشتے کے لئے؟"
"ناشتہ تو وہ کر چکے بیٹی۔  اب تو گیارہ بجے کی چائے کے لئے آئیں گے۔ " نہ چاہتے ہوئے بھی اسے رائے کے لئے ادب کا صیغہ استعمال کرنا پڑا۔
"تب تک میں ویسے ہی لوٹ آؤں گی۔ " کہتے ہوئے اس نے پرس کندھے پر ڈالا اور ہاتھ ہلاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
"بھگوان تمہاری رکھشا کرے بیٹی۔ " سوجل نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا جہاں سے اپنی ٹو سیٹر کی طرف جاتی ریحا نظر آ رہی تھی۔
٭
نو بج کر تین منٹ پر ریحا، مانیا کے کمرے میں موجود تھی۔
سب سے پہلے اس نے انہیں سوجل سے ہونے والی اپنی گفتگو سے آگاہ کیا۔  آدیش کے ذکر پر وہ تینوں مسکرا دئیے۔  اب وہ اسے کیا بتاتے کہ آدیش اس کے راستے کے سارے کانٹے اپنی پلکوں سے چُننے کا بیڑہ اٹھا چکا ہے۔  جب مانیا نے اسے گزشتہ رات کی آدیش سے ملاقات کے بارے میں مختصراً بتایا تو ریحا آنکھیں پھاڑے بے اعتباری سے سنتی رہی۔  اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ قسمت نے اس کے لئے راہ یوں آسان کر دی ہے۔
"تو اس کا مطلب ہے آدیش ہماری پوری پوری سہائتا کرے گا؟" اس نے مانیا کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
"بالکل۔ " مانیا نے مسکرا کر جواب دیا۔
"پلان کے مطابق سرمد کے پاس سیل میں آدیش، پاپا، آپ اور مسٹر طاہر موجود ہوں گے؟" ریحا نے مانیا سے پوچھا۔
"ہاں۔  رات ٹھیک سوا آٹھ بجے سیل کا خودکار سسٹم آف یا فیل کر دیا جائے گا۔  میں اور مسٹر طاہر آدیش کی طرف سے خطرے کا سگنل ملتے ہی کوٹھی میں داخل ہو جائیں گے اور سیدھے سیل میں پہنچ جائیں گے۔  آگے پھر جو ہو سو ہو۔ "
"موجودہ پلان میں کامیابی کے نتیجے میں تین سوال پیدا ہوں گے مس مانیا۔ " طاہر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"وہ کیا؟" مانیا اور ریحا اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
"نمبر ایک۔  " طاہر نے شہادت کی انگلی کھڑی کی۔  "سرمد اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہیں ہے۔  ہم اسے لے کر کہاں جائیں گے؟"
"اس کے لئے ماما سے بات کی جا سکتی ہے۔  " ریحا نے جلدی سے کہا۔ " وہ کوئی نہ کوئی بندوبست کر دیں گی۔ "
"اب دوسرا سوال۔  سرمد کو میں ہر صورت یہاں سے پاکستان لے جانا چاہتا ہوں۔  یہ کیسے ممکن ہو گا؟"
"اس پر بعد میں سوچیں گے مسٹر طاہر۔  پہلے سرمد کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ " مانیا نے پُر خیال لہجے میں کہا۔
"اور تیسرا سوال یہ ہے کہ۔۔۔ " طاہر نے ریحا کی جانب دیکھا۔  " آپ کا کیا ہو گا؟"
"مطلب؟" ریحا نے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ آپ اور آپ کی ماما پورے طور پر کرنل رائے کی دشمنی مول لے رہی ہیں۔  سرمد کے بعد آپ اور آپ کی ماما کا کیا بنے گا؟"
"پہلے سرمد صحیح سلامت سیل سے نکل آئے مسٹر طاہر۔  پھر ایک بار اس سے پوچھوں گی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا پسند کرے گا یا نہیں ؟ اس کے جواب پر ہی میرے مستقبل کا دارومدار ہے۔ " ریحا نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
مانیا اور ریحا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد ان تینوں نے اپنے اپنے موبائل کا وقت ملایا۔  ایک دوسرے کے نمبر فیڈ کئے۔  آدیش کا موبائل نمبر وہ رات ہی فیڈ کر چکے تھے۔ اب ریحا کو بھی وہ نمبر دے دیا گیا۔
تمام باتوں پر ایک بار پھر غور کیا گیا۔  کہیں جھول نظر نہ آیا تو ریحا ان سے رخصت ہو گئی۔  اس وقت دن کے دس بج کر پچیس منٹ ہوئے تھے۔
٭
ہوٹل سے واپس آتے ہی ریحا نے سرمد کو وہاں سے لے جانے کے بارے میں سوجل سے بات کی تو اس نے اسے بے فکر ہو جانے کو کہا۔  راکیش کا ایک فلیٹ، جو اس نے اپنی زندگی میں سوجل کے نام خریدا تھا، اس کی چابی آج بھی سوجل کے پاس تھی اور اس بات کا کرنل رائے کو قطعاً علم نہیں تھا۔  ریحا نے اس فلیٹ کے بارے میں دن ہی میں مانیا کو فون کر کے بتا دیا تھا۔ دوسرے سوجل نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ آج رات ہونے والے معرکے کے اختتام سے پہلے اپنے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔  حالات اس وقت جو رخ اختیار کریں گے، اسے دیکھ کر ہی کوئی بھی قدم اٹھایا جائے گا۔
رات ٹھیک آٹھ بجے ریحا اور سوجل نے اپنے اپنے کمرے میں پہنچ کر بیڈ سنبھال لئے۔  یوں جیسے وہ سونے کی تیاری کر رہی ہوں۔  دونوں مرد ملازم کوارٹر میں جا چکے تھے اور ملازمہ آج ویسے ہی چھٹی پر تھی۔
ٹھیک اسی وقت طاہر اور مانیا سیتا مندر کے سامنے والے پارک کے گیٹ پر آ رکے۔  کار سے نکل کر وہ پارک میں گیٹ کے قریب ہی ایک بنچ پر آ بیٹھے۔  سردیوں کی وجہ سے پارک میں اکا دکا لوگ ہی رہ گئے تھے جو دور دور بیٹھے تھے۔
 آٹھ بج کر پانچ منٹ پر کرنل رائے کا ٹارچر سیل خالی ہو گیا۔  کسی شخص کے ذہن میں کوئی سوال پیدا نہ ہوا کہ ان سب کو رخصت کیوں دی جا رہی ہے؟ وہ تو حکم کے غلام تھے۔ کرنل رائے نے جو کہہ دیا، اس پر عمل ان کی ڈیوٹی تھی۔  اس کے بارے میں "کیوں "کا لفظ ان کی ڈکشنری سے نکال دیا گیا تھا۔
 آٹھ بج کر دس منٹ پر کیپٹن آدیش نے اپنے موبائل سیٹ کو ریڈی کر کے سامنے کی جیب میں ڈال لیا۔  اب اس کے صرف بٹن دبانے کی دیر تھی کہ مانیا کے سیٹ پر بیل ہو جاتی اور وہ اور طاہر خطرے سے آگاہ ہوتے ہی اس کی طرف چل پڑتی۔
 آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر اس نے کرنل رائے کو لائن کلیر ہو جانے کی اطلاع دی۔  وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا اپنے آفس میں بیتابی سے ٹہل رہا تھا۔ کیپٹن آدیش کا پیغام سن کر اس نے ریسیور انٹر کام پر ڈالا۔  ہولسٹر میں ریوالور کو چیک کیا۔  سر پر کیپ جمائی اور دبے قدموں اپنی خوابگاہ کے دروازے پر پہنچا۔  آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔  سوجل حسب عادت سونے کے لئے لیٹ چکی تھی۔  کمرے میں ہلکی سبز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔  اس نے دروازہ بند کیا اور سامنے کے کمرے کی کھڑکی پر پہنچا۔  جالی میں سے اندر جھانکا۔ یہ ریحا کا کمرہ تھا۔  وہ کمبل اوڑھے بیڈ پر سیدھی لیٹی کسی سوچ میں گم تھی۔  سینے پر ایک انگلش میگزین کھلا پڑا تھا۔  پُر اطمینان انداز میں سر ہلا کر کرنل رائے نے باہر کا راستہ لیا۔  دبے قدموں باہر آ کر اس نے برآمدے کی لائٹ بھی آف کر دی۔  چاروں اطراف تاروں کی باڑھ کے ساتھ برابر فاصلے پر آٹھ گارڈ مستعدی سے پہرہ دے رہے تھے۔  گیٹ پر اندر کی جانب آمنے سامنے کرسیوں پر گنیں سنبھالے دونوں فوجی خاموش بیٹھے تھے۔  سارے انتظام کا جائزہ لے کر وہ نیم اندھیرے میں کسی بد روح کی طرح ٹارچر سیل کی جانب روانہ ہو گیا۔
ادھر کرنل رائے نے ٹارچر سیل کے دروازے پر قدم روکا، ادھر سوجل اور ریحا نے کچن میں کھڑکی کے پاس کرسیاں ڈال لیں۔  اتنی ہی دیر میں ریحا نے کپڑے بدل لئے تھے۔  اب وہ کشمیری شلوار سوٹ میں ملبوس تھی۔ اندھیرے میں ڈوبے کچن کی کھڑکی سے ٹارچر سیل کا دروازہ کھلتا صاف نظر آ رہا تھا جس سے کرنل رائے داخل ہو رہا تھا۔
ادھر کرنل رائے نے سرمد والے کمرے میں قدم رکھا ادھر کیپٹن آدیش نے بڑی آہستگی سے مکینزم آف کر دیا۔  اس کے ساتھ ہی سیل کے داخلی دروازے کا کمپیوٹرائزڈ سسٹم بیکار ہو گیا۔
کیپ سر سے اتار کر کرنل رائے نے میز پر پھینکی اور دیوار کے سہارے نیم دراز سرمد کی جانب بڑی سرد نظروں سے دیکھا۔  پھر کیپٹن آدیش کے سیلوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہاتھ سینے پر باندھ لئے۔  سرمد نے نیم باز آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور اس کے ہونٹوں کی حرکت ہلکی سی مسکراہٹ میں بدل گئی۔
"اس نے زبان کھولی یا نہیں ؟" اچانک کرنل رائے دو تین قدم آگے بڑھ کر سرمد کے قریب چلا آیا۔
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش اس کے پیچھے دو قدم کے فاصلے پر آ کھڑا ہوا۔
"ہوں۔ " اس نے ہونٹ بھینچ کر کہا۔ "بہت ڈھیٹ لگتا ہے۔ "
کیپٹن آدیش کا جسم تن گیا۔  اسے کرنل کے لہجے سے شر کی بو آ رہی تھی، جو کرسی پر پاؤں رکھے سرمد کی طرف جھک کر اسے بڑی کینہ توز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"اسے کرسی پر بٹھاؤ کیپٹن۔ " ایک دم کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"یس سر۔ " کیپٹن آدیش نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سرمد کو بغلوں میں ہاتھ دے کر اٹھانے لگا۔  بڑی آہستگی اور احتیاط سے اس نے سرمد کو کرسی پر بٹھایا، جو اپنے آپ حرکت کرنے سے بھی معذور تھا۔  اس کے زخم دوا سے محروم تھے۔  خون ہونٹوں ، پیشانی اور جسم کے جوڑوں پر جم چکا تھا۔  جسم کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ ہاتھوں اور پیروں کے زخم پھوڑوں کی طرح مواد سے بھرے لگ رہے تھے۔ حلقوں سے گھری آنکھوں کا ورم کسی حد تک کم ہو چکا تھا تاہم شیو ہو جانے کے باعث چہرہ اب صاف پہچان میں آ رہا تھا۔
اس کے گھٹنوں کے جوڑ کام نہیں کر رہے تھے۔  تشدد کے باعث وہ تقریباً بیکار ہو چکے تھے اس لئے وہ دونوں ٹانگیں سمیٹ نہ سکا اور آدیش نے اس کے چہرے پر پھیلتے کرب کے پیش نظر ٹانگوں کو کرسی کے دائیں بائیں پھیلا دیا۔  سرمد دونوں ہاتھوں سے سائڈز کو تھامے بڑی مشکل سے کرسی پر جما بیٹھا تھا۔ بخار سے پھنکتا ہوا جسم، درد سے کراہتا ہوا رواں رواں اور چکراتا ہوا دماغ۔  وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔  اسے خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی لمحے کرسی سے گر جائے گا۔
"تو تمہارا نام سرمد ہے؟" سگار کا دھواں اڑاتا کرنل رائے اس کی جانب پلٹا تو سرمد نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔  کیپٹن آدیش کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔  ایک ہی پل میں وہ سمجھ گیا کہ کرنل رائے سرمد کے بارے میں معلومات حاصل کر چکا ہے۔
"سرمد ہاشمی۔  باپ کا نام ڈاکٹر دلاور ہاشمی۔  لندن یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری لی۔  اپنے خدا کے گھر گئے اور وہاں سے سیدھے ہماری گود میں آ رہے۔ " طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے کرنل رائے آہستہ آہستہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس کی سرد نظریں سرمد کی آنکھوں میں ایکسریز کی طرح اترتی جا رہی تھیں۔
"ریحا کو کب سے جانتے ہو؟" اچانک اس نے پاؤں اٹھا کر سرمد کی ران پر رکھ دیا۔  وہ تکلیف سے کراہ کر رہ گیا۔
"لندن سے۔ " کرنل نے اس کی ران پر دباؤ بڑھا دیا۔  "ہے ناں ؟" وہ پھر طنز سے بولا۔ "بہت چاہتی ہے وہ تمہیں ؟ میری بیٹی ہو کر۔  ایک کٹر ہندو کی بیٹی ہو کر وہ ایک مسلمان آتنک وادی سے عشق کرتی ہے۔  کیا یہ اچھی بات ہے؟" وہ چیخ پڑا۔
" آ۔۔۔۔ ہ۔۔۔  آہ۔۔۔ "سرمد اس کا دباؤ اپنی ران پر مزید نہ سہہ سکا اور جل بن مچھلی کی طرح تڑپا۔ ایک دم کرنل رائے نے پاؤں اس کی ران سے اٹھایا اور کرسی کی سائڈ پر جمے سرمد کے بائیں ہاتھ پر ٹھوکر رسید کر دی۔  سرمد تڑپا اور مچل کر فرش پر گر پڑا۔  آدیش کانپ کر رہ گیا۔  اسے لگا کرنل نے یہ ٹھوکر سرمد کو نہیں ، اسے ماری ہے۔
لوٹ پوٹ ہوتا سرمد کسی نہ کسی طرح سیدھا ہوا اور کراہتا ہوا کرسی کے سہارے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا چہرہ اور اب جسم بھی پسینہ میں بھیگنے لگا تھا۔ درد کے آثار اس کی کراہوں سے نمایاں تھے۔
"کیا تم بھی ریحا کو چاہتے ہو؟" ایک گھٹنا فرش پر ٹیک کر کرنل رائے اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔  "یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہندو ہے۔  کیا تم اس سے پیار کرتے ہو؟"
جواب میں سرمد نے اسے بڑی درد بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور لگتا تھا اس کا حلق پیاس کے مارے خشک ہو چکا ہے۔
"نہیں ناں ؟" کرنل رائے نے نفی میں سر ہلایا۔ "ایسا ہی ہونا چاہئے۔  " وہ جیسے اسے سمجھانے لگا۔  "وہ ہندو ہے۔  تم ملیچھ مسلمان۔  اسے تم سے پیار نہیں کرنا چاہئے تھا۔  تم سے نفرت کرتی تو کوئی بات بھی تھی۔  اس نے جرم کیا ہے۔ تم سے محبت کا جرم۔  مگر سزا اسے نہیں ، تمہیں ملے گی۔ جانتے ہو کیوں ؟ اس لئے کہ تم مسلمان ہو۔  ملیچھ مسلمان۔ " نفرت سے کرنل کا چہرہ بگڑ گیا۔ ایک دم اس نے جلتا ہوا سگار سرمد کے سینے پر رکھ کر زور سے دبا دیا۔  کراہتے ہوئے سرمد کے لبوں سے چیخ نکل گئی۔  وہ معذوروں کی طرح اپنے کانپتے ہوئے زخمی ہاتھوں سے کرنل رائے کا سگار پرے ہٹانے کی کوشش کرنے لگا مگر ناکام رہا۔  کمرے میں گوشت جلنے کی چراند پھیل گئی۔  کیپٹن آدیش نے بے بسی سے ادھر ادھر دیکھا۔  وہ کیا کرے؟ اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا۔  کیا مانیا اور طاہر کو بیل کر دے؟ ابھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ کرنل رائے کی بھیڑیے جیسی غراتی ہوئی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
"تم سے نفرت ہر ہندو کا دھرم ہے۔  ہاں۔  ایک صورت ہے کہ تم سزا سے بچ جاؤ۔  سزا سے بچ بھی جاؤ اور انعام کے حقدار بھی ہو جاؤ۔  ریحا جیسی خوبصورت لڑکی، آزادی اور لاکھوں کروڑوں روپے کے انعام کے حقدار۔  بولو کیا یہ سب پانا چاہو گے؟"اس نے سگار ہٹا لیا۔  سرمد کا سینہ بری طرح جل گیا تھا۔ زخم سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔  وہ یوں ہانپ رہا تھا جیسے میلوں دور سے بھاگتا آ یا ہو۔ اس کا جسم اب پوری طرح پسینے میں تر تھا اور چہرے پر تو جیسے کسی نے پانی کا جگ انڈیل دیا ہو۔
بُت بنا کیپٹن آدیش سب سن رہا تھا۔  اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کرنل رائے کرنا کیا چاہتا ہے؟ کہنا کیا چاہتا ہے؟ اس کی ہر بات دوسری بات کی ضد تھی۔
"اپنا دھرم چھوڑ دو۔ " کرنل رائے نے کرسی کے سہارے بیٹھے سرمد کے سامنے تن کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔  اس کی آواز تھی یا بجلی کا کڑاکا۔  ایک دم سرمد کا سانس رک گیا۔  اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ وہ کرنل کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔
"ہندو ہو جاؤ۔" کرنل نے یوں کہا جیسے اسے لالی پاپ دے رہا ہو۔  "ریحا بھی مل جائے گی۔  آزادی بھی اور دولت بھی۔  بولو۔  کیا کہتے ہو؟"
سرمدچند لمحے کرنل رائے کو دیکھتا رہا۔  ساری تکلیف، ساری اذیت، سارا درد جیسے اس کے حواس کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
"زیادہ مت سوچو۔  سوچو گے تو بہک جاؤ گے۔  ہاں کر دو۔  ہاں کہہ دو۔  تمہارا صرف "ہاں "کا ایک لفظ تمہاری ساری اذیتوں کا خاتمہ کر دے گا۔  اور ایک "نہ " کا لفظ تم پر نرک کے دروازے کھول دے گا، یہ مت بھولنا۔ " کرنل اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سمجھانے کے انداز میں کہے جا رہا تھا۔
"کیا کہا تم نے؟" اچانک سرمد نے اس کی جانب کانپتی ہوئی انگلی اٹھائی۔
کرنل نے اس کے طرزِ تخاطب پر اسے چونک کر دیکھا۔  کیپٹن آدیش کا بھی یہی حال ہوا۔  جب سے وہ ان کے ہاتھ لگا تھا، تب سے آج وہ پہلی بار بولا تھا۔۔۔  اور یوں بولا تھا کہ کیپٹن آدیش حیرت زدہ رہ گیا اور کرنل رائے کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔
"بہرے نہیں ہو تم۔  میں نے جو کہا تم نے اچھی طرح سنا ہے۔  " کرنل رائے نے اسے گھورتے ہوئے دانت بھینچ لئے۔
"ہاں۔  مگر میں چاہتا ہوں کہ تم بار بار یہ ناپاک الفاظ دہراؤ اور میں بار بار انکار کروں۔  تم اپنے باطل دھرم کا لالچ دو اور میں اپنے سچے اللہ کی وحدانیت بیان کرتے ہوئے، اس کے پسندیدہ دین کے اظہار کے لئے اپنی زبان پر وہ الفاظ بار بار سجاؤں جو اسے سب سے زیادہ پسند ہیں۔  قل ھو اللہ احد۔  اللہ الصمد۔  لم یلد ولم یولد۔  ولم یکن لہ، کفواً احد۔ "
الفاظ کیا تھی۔  پگھلا ہوا سیسہ تھا جو کرنل رائے کے کانوں میں اترتا چلا گیا۔  آتش فشاں کا لاوا تھا جواسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔  بھڑکتا ہوا الاؤ تھا جس میں اس کی ساری نرمی، سارا فریب، سارابطلان جل کر خاک ہو گیا۔
"کیا کہا تم نے؟" آگ بگولہ ہوتے کرنل رائے کے ہونٹوں سے پاگل کتے کی طرح کف جاری ہو گیا۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد نے اس طرح مسکرا کر جواب دیا، جیسے کسی بچے کی ضد پر اسے دوبارہ بتا رہا ہو۔  "اس نے اپنے حبیب کریم سے فرمایا کہ آپ ان کافروں اور مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔  اللہ بے نیاز ہے۔  نہ اسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔  اور اس "احد "کا کوئی ہمسر نہیں۔  "
"بکو مت۔۔۔۔ " کرنل رائے غصے میں دیوانہ ہو کر سرمد پر پل پڑا۔  لاتیں ، ٹھوکریں ، گھونسے، مغلظات۔  ایک طوفان غیظ و غضب تھا سرمد جس کی لپیٹ میں آ گیا۔  کیپٹن آدیش جو سرمد کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ کے سحر میں گرفتار تھا، ایک دم کرنل رائے کے چیخنے چلانے اور سرمد پر ٹوٹ پڑنے پر گھبرا کر ہوش میں آ گیا۔  اسے اور تو کچھ نہ سوجھا، ایک دم اس نے اوپری جیب میں پڑے موبائل کا بٹن دبا دیا۔
"اللہ ایک ہے۔ " سرمد مسکرائے جا رہا تھا۔  اس پر جیسے کرنل رائے ٹھوکریں ، لاتیں اور گھونسے نہیں ، پھول برسا رہا تھا۔  اذیت جیسے محسوس ہی نہ ہو رہی تھی۔  اس کی ہر چوٹ کے جواب میں سرمد ایک ہی بات کہتا:
"قل ھواللہ احد۔  اللہ ایک ہے۔ "
اس کے ہر بار کہے ہوئے یہ الفاظ کرنل رائے کے غصے اور دیوانگی میں مزید اضافہ کر دیتی۔  وہ اور بھی شدت سے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیتا۔  کیپٹن آدیش بے بسی سے ادھر ادھر قدم پھینک رہا تھا۔  اس کا بس چلتا تو وہ کسی طرح سرمد کو بچا لیتا مگر اس وقت تو کرنل پاگل کتے کی طرح قابو سے باہر ہو رہا تھا۔  اس کے راستے میں آنا خود کو عتاب کے حوالے کر دینے والی بات تھی۔
"سر۔۔۔ " اچانک اس نے آگے بڑھ کر کرنل رائے سے کہا۔  "سر۔۔۔  یہ بیہوش ہو چکا ہے۔ " اور کرنل رائے کے ہاتھ پاؤں اور زبان ایک دم یوں رک گئی جیسے کسی نے اس کا بٹن آف کر دیا ہو۔
"مگر۔۔۔  اس کی زبان۔۔۔  اس کی زبان۔۔۔ " وہ ہانپتے ہوئے بولا۔  "وہ تو۔۔۔  وہ تو چل رہی ہے۔ "
کیپٹن آدیش نے کرنل کے سرمد کی طرف دراز بازو کے ہدف کو تاکا۔  واقعی سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔  سرگوشی کے انداز میں آواز ابھر ری تھی۔
"قل ھو اللہ احد۔۔۔  قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھواللہ احد۔ "وہ ہولے ہولے پکار رہا تھا۔  بتا رہا تھا۔  سنا رہا تھا۔  سمجھا رہا تھا۔
"یہ اپنے ہوش میں نہیں ہے سر۔ " آدیش نے دزدیدہ نگاہوں سے شیشے کے پار دیکھا۔  کاریڈور خالی تھا مگر کسی بھی لمحے طاہر اور مانیا وہاں نمودار ہو سکتے تھی۔ اس نے کنکھیوں سے کرنل کے ہولسٹر پر نظر ڈالی، جس کا بٹن کھلا ہوا تھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح کرنل غرایا۔
"یس۔۔۔  یس سر۔ " آدیش نے ہکلا کر کہا اور میز پر پڑے پانی کے جگ کی طرف بڑھ گیا۔
*  *  *



"یہ کون لوگ ہیں ؟" نیم روشن میدان میں دو سایوں کو ٹارچر سیل کی جانب بڑھتے دیکھ کر سوجل چونکی۔  ریحا پہچان چکی تھی۔
"ماما۔  یہ مسٹر طاہر اور مس مانیا ہیں۔ اوہ۔۔۔  اوہ۔۔۔ ماما۔ "
"کیا ہوا ریحا؟ بات کیا ہے؟" سوجل نے اسے بے چین دیکھ کر پوچھا۔
"ماما۔ " ریحا نے ہاتھ جھٹکی۔  "میں نے بتایا تو تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ اگر اندر خطرہ ہوا تو کیپٹن آدیش مس سونیا کو الرٹ کرے گا اور وہ اس کا دیا ہوا انٹری پاس دکھا کر ٹارچر سیل میں داخل ہو جائیں گی۔  خطرہ ماما۔۔۔  خطرہ۔ "
"تو چلو۔  جلدی کرو بیٹی۔ " سوجل نے اپنے پاس رکھا ہوا ریوالور اٹھا لیا۔  " آؤ۔  ہمیں بھی وہاں چلنا چاہئے۔ "
"مگر ماما۔  گارڈز۔۔۔ " اس نے کہنا چاہا۔
" آ جاؤ۔  یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ گارڈز کی نظروں سے بچ کر ہمیں وہاں پہنچنا ہو گا۔ " سوجل کچن کے دروازے کی جانب لپکی۔  ریحا اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
٭

"سر۔  اس میں پانی نہیں ہے۔ " کیپٹن آدیش نے خالی جگ اٹھا کر کرنل رائے کو دکھایا۔  "میں پانی لے کر آتا ہوں۔ " وہ جلدی سے کمرے کے کونے میں بنے باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"ڈیم فول۔ " کرنل اسے قہر سے گھورتا رہ گیا۔ پھر بجھا ہوا سگار دیوار پر کھینچ مارا۔
"قل ھواللہ احد۔ " اچانک سرمد کی آواز بلند ہو گئی۔ وہ کراہتا ہوا ان الفاظ کا جیسے ورد کر رہا تھا۔ اٹھنے کی کوشش میں بار بار فرش پر گر پڑتے سرمد کے لہو لہان جسم کو دیکھ کر کرنل رائے کا پارہ ایک بار پھر چڑھ گیا۔
"ملیچھ۔ " اس نے سرمد کے زخمی گھٹنے پر ایک زور دار ٹھوکر رسید کر دی۔ جواب میں چیخ یا کراہ کے بجائے سرمد کے لبوں سے رک رک کر نکلا۔
"قل۔۔۔  ھواللہ۔۔۔ احد۔۔۔ لا الٰہ۔۔۔ الا اللہ۔۔۔  محمد۔۔۔  رسول اللہ۔ " اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"تو تیری زبان بند نہیں ہو گی۔ " غصے میں کھولتے ہوئے کرنل رائے نے ہولسٹر سے ریوالور کھینچ لیا۔  سیفٹی کیچ ہٹایا اور سرمد کے سینے کا نشانہ لیا۔
"قل۔۔۔  ھو اللہ۔۔۔  احد۔ " سرمد کے لبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
" آخری بار کہہ رہا ہوں مُسلی۔ " کرنل رائے کے دل میں نجانے کیا آئی۔  "ہماری طرف لوٹ آ۔  میں تیری سب سزائیں ختم کر دو ں گا۔  "اس کی انگلی ٹریگر پر جم گئی۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد اب بھی مسکرا  رہا تھا۔ "اللہ الصمد۔ "اس کی آواز بلند ہو گئی۔
کرنل رائے کی انگلی ٹریگر پر دب گئی۔
دو بار۔
مگر دھماکے تین ہوئے۔
پہلے دو دھماکوں نے سرمد کا سینہ چھلنی کر دیا۔
تیسرے دھماکے نے کرنل رائے کا ہاتھ اڑا دیا۔  اس کا ریوالور ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا۔
ایک ہچکی لے کر سرمد کا جسم جھٹکے سے ساکت ہو گیا مگر اس کے ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے۔ "قل ھو اللہ احد۔  قل۔۔۔  ھو اللہ۔۔۔  احد۔۔۔ "
کرنل رائے کے ہونٹوں سے بڑی مکروہ چیخ خارج ہوئی اور وہ اپنا خون آلود ہاتھ دوسرے ہاتھ سے دبائے تڑپ کر پلٹا۔
"تم۔۔۔ " اس نے دروازے سے اندر داخل ہوتے طاہر اور مانیا کو دیکھا جو تیزی سے فرش پر بے سدھ پڑے سرمد کی طرف بڑھ رہے تھے۔  پھر اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کے پاس کھڑے آدیش پر جم گئی جو اس پر ریوالور تانے کھڑا بڑی سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر گولی چلائی۔۔۔  ؟" اسے کیپٹن آدیش پر یقین نہ آ رہا تھا۔
جواب میں کیپٹن آدیش نے پاؤں کی ٹھوکر سے اس کا ریوالور دور پھینک دیا۔  مگر نہیں۔  دور نہیں۔  ریوالور شیشے کے دروازے سے اندر داخل ہوتی سوجل کے پاؤں سے ٹکرا کر رک گیا جسے اس نے اٹھا لیا۔
اسی وقت ریحا ماں کو ایک طرف ہٹاتی ہوئی اندر آئی اور فرش پر پڑے سرمد کی طرف بھاگتی چلی گئی، جس کا سر طاہر نے گود میں لے رکھا تھا اور مانیا جسے وحشت آلود نگاہوں سے تک رہی تھی۔
"سرمد۔۔۔ "ریحا گھٹنوں کے بل اس کے قریب جا بیٹھی اور اس کے زخم زخم جسم کو دیکھ کر بلکنے لگی۔ اس کے لبوں سے سوائے "سرمد۔  سرمد" کے کچھ نہ نکل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو دھاروں دھار بہہ رہے تھے۔
سوجل نے کرنل رائے کا ریوالور تھام لیا اور کیپٹن آدیش اسے کور کئے ہوئے تھا۔  کرنل اس طرح کمرے میں پیدا ہو جانے والی صورتحال کو جانچ رہا تھا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔
٭
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کے خون آلود چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔  اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔  سرمد کی یہ حالت اس سے برداشت نہ ہو رہی تھی۔ سینے کا زخم اتنا گہرا تھا کہ خون مانیا کے روکے نہ رکا۔
"مسٹر طاہر۔ " اس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔  " لگتا ہے بارود نے سینہ چیر کر رکھ دیا ہے۔  خون رک ہی نہیں رہا۔ " مانیا نے اپنی شال پھاڑ کر زخم پر پٹی باندھتے ہوئے اسے بتایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا سرمدکو والہانہ دیکھے جا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔  "میرے سرمد۔  آنکھیں کھولو۔  آنکھیں کھولو سرمد۔ "
پھر اسے محسوس ہوا جیسے سرمد کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی ہو۔  اس نے وحشت بھری نظروں سے طاہر اور مانیا کی جانب دیکھا۔ " یہ۔۔۔  یہ کچھ کہہ رہا ہے مسٹر طاہر۔ " اور طاہر نے جلدی سے اس کے لبوں کے ساتھ اپنا کان لگا دیا۔
"قل۔۔۔  ھواللہ۔۔۔  احد۔۔۔  قل ھو اللہ۔۔۔  احد۔ " سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا خون آلود ماتھا چوم لیا اور اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔  گرم گرم آنسو سرمد کے چہرے پر گرے تو ایک دو لمحوں کے بعد اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
"تم۔۔۔ ؟" بمشکل دھندلائی ہوئی نظروں سے اس نے طاہر کو پہچانا تو اس کے لہجے میں حیرت سے زیادہ مسرت نمایاں ہوئی۔ "یہاں۔۔۔  مگر کیسی؟"
"کچھ مت بولو سرمد۔ " طاہر نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔  پھر مانیا کی جانب دیکھا۔  "مس مانیا۔  اسے فوری طور پر طبی امداد۔۔۔ " اس کے الفاظ پورے ہونے سے پہلے مانیا نے کرنل رائے پر ریوالور تانے کیپٹن آدیش کی طرف نظر اٹھائی۔  مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، سرمد کی نگاہ روتی ہوئی ریحا پر پڑ گئی۔
"ارے تم۔۔۔  ریحا۔۔۔ " وہ مسکرایا۔  "چلو اچھا ہوا۔  سب اپنے اکٹھے ہو گئے۔ " اس کی آواز میں نقاہت بڑھتی جا رہی تھی۔
"یہاں سے انہیں اس حالت میں باہر لے جانا ممکن نہیں ہے دیدی۔ " کیپٹن آدیش نے بیچارگی سے کہا۔
"ہاہاہا۔۔۔  ہاہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ " اسی وقت کرنل رائے کے حلق سے قہقہہ ابل پڑا۔  "یہاں سے تم لوگ زندہ واپس نہیں جا سکو گے۔۔۔  اور کیپٹن آدیش۔۔۔  تمہیں تو میں کتے کی موت ماروں گا۔ "اس کی قہر آلود نظریں آدیش پر چنگاریاں برسانے لگیں ، جس نے اسے ریوالور کے اشارے پر دیوار سے لگ کر کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
جواب میں آدیش خاموش رہا تو اس نے نظروں کا ہدف سوجل کو بنا لیا۔  " تم ریوالور ہاتھ میں لئے چپ چاپ کھڑی ہو۔  اس سے صاف ظاہر ہے تم بھی ان کے ساتھ ہو۔  ایک ہندو پتنی اپنے پتی کے دشمنوں سے مل کر اسے مارنے کے درپے ہے۔ بچ تم بھی نہیں سکو گی سوجل۔ " وہ دانت پیستے ہوئے خاموش ہو گیا۔ سوجل اسے سرد نظروں سے گھورتی رہ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر بے چین ہوا جا رہا تھا۔ "کچھ کرو مس مانیا۔  کیپٹن آدیش۔ "
"ماما۔  " اچانک ریحا اٹھی اور ماں کی طرف بڑھی۔ "ماما۔  اسے بچا لو ماما۔  اسے بچا لو۔  میرے سرمد کو بچا لو۔ "
"مجھے کچھ سوچنے دو ریحا۔ " سوجل نے اسے سینے سے لگا لیا۔
"گھبراؤ نہیں طاہر۔ " سرمد نے اس کے ہاتھوں میں دبا اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔  اس کی بار بار بند ہوتی آنکھیں اور چھل چھل بہتا خون طاہر کو اس کی لمحہ بہ لمحہ قریب آتی موت کی خبر دے رہے تھے۔ "میں جانتا ہوں میرے جانے کا وقت آ چکا ہے۔ " وہ ہولے ہولے بولا۔  "یہ تو پگلی ہے۔  میری تکلیف سے دیوانی ہوئی جا رہی ہے۔ نہیں جانتی، میں نے کس مشکل سے اپنی منزل پائی ہے۔  اب تم لوگ مجھے دوبارہ کانٹوں میں مت گھسیٹو یار۔ "
"سرمد۔۔۔ " طاہر سسک کر بولا۔ اسی وقت ریحا ان کے قریب لوٹ آئی۔  مانیا نے پرے ہو کر اسے جگہ دی تو وہ سرمد کا دوسرا ہاتھ تھام کر فرش پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور اسے پاگلوں کے انداز میں تکنے لگی۔ بار بار وہ ہچکی لیتی اور معصوم بچوں کی طرح سسکی بھر کر رہ جاتی۔
"اچھا طاہر۔۔۔  میرے بھائی۔  میرے دوست۔۔۔  اب جانے کا لمحہ آن پہنچا۔  میرے پاپا کا خیال رکھنا۔  اگر ہو سکے تو مجھے پاکستان لے جانا۔ اور اگر ایسا ہو سکا تو میرے پاپا سے کہنا کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔  میں عمرے کے بعد لندن واپس نہیں گیا۔  پاکستان آیا ہوں۔  بس ذرا سفر طویل ہو گیا۔  میں نے انہیں دُکھ دیا ہے طاہر۔  بہت دُکھ دیا ہے۔  میری طرف سے ان سے معافی مانگ لینا۔ " وہ آنکھیں بند کر کے ہانپنے لگا۔
طاہر اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگائے خاموشی سے سنتا رہا۔  اس کی برستی آنکھیں اس کے جذبات کا آئینہ تھیں۔
"ریحا۔۔۔  " ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔  "میں تم سے کیا ہوا کوئی وعدہ نبھا نہیں سکا۔  برا نہ ماننا۔  وقت ہی نہیں ملا۔ "
"سرمد۔۔۔ " ریحا پچھاڑ کھا کر رہ گئی۔  کیسی بے بسی تھی کہ وہ اسے بچا نے کی اک ذرا سی بھی کوشش نہ کر سکتے تھی۔  بیچارگی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ زخمی ہاتھ بغل میں دبائے کرنل رائے ان کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔  اسے اپنے انجام کی کوئی فکر نہ تھی۔  وہ سمجھتا تھا کہ جلد یا بدیر وہ سب اس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
"کچھ اور کہو سرمد۔ " اچانک طاہر نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔  اس کا لہجہ بیحد عجیب ہو رہا تھا۔ مانیا نے چونک کر اسے دیکھا۔
"کیا کہوں طاہر۔  کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں۔ " نقاہت سے اس کی آواز ڈوب گئی۔ "ہاں۔  ایک کام ہے اگر تم کر سکو۔ "
"کہو سرمد۔  میری جان۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔
"یہ۔۔۔ " اس نے اپنی اوپری جیب کی طرف اشارہ کیا۔  " اس جیب میں میرے آقا کے دیار کی خاک ہے۔  اسے میری قبر کی مٹی میں ملا دینا۔  جنت کی مہک میں سانس لیتا رہوں گا قیامت تک۔  کر سکو گے ایسا؟"
"کیوں نہیں سرمد۔ " طاہر نے اس کے سر کے بالوں کو چوم لیا۔ " ایسا ہی ہو گا۔  مگر کچھ اور بھی ہے سرمد جو تم بھول رہے ہو۔ " طاہر نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ دیا۔  "ایک ہستی اور ہے جس کے لئے تمہارا پیغام میں امانت کی طرح پلکوں پر سجا کر لے جا سکتا ہوں۔ "
"شش۔۔۔ " سرمد نے اس سے ہاتھ چھڑایا اور ہونٹوں پر رکھ دیا۔ "کبھی ایسا خیال دل میں بھی نہ لانا طاہر۔  میرے لئے وہ نام اتنا پرایا ہے کہ میں اسے زبان پر لاؤں گا تو اللہ کا مجرم ٹھہروں گا۔ اتنا محترم ہے کہ اس کے باعث اللہ نے مجھے اپنے حضور طلب فرما لیا۔  اور کیا چاہئے؟ کچھ نہیں۔  کچھ نہیں۔  " پھر اس نے نظروں کا محور کرنل رائے کو بنا لیا۔  " شرک کے اس پتلے نے مجھے اپنے اللہ سے برگشتہ کرنے کے لئے ریحا سے لے کر آزادی اور دولت کا جو لالچ دیا، وہ کسی بھی سرمد کو بہکانے کے لئے کافی تھا مگر میں اس پکار کا کیا کروں طاہر جو میرے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتی ہے۔  قل۔۔۔  ھواللہ۔۔۔  احد۔ " اچانک سرمد کی سانس اکھڑ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر اور ریحا اس پر جھک گئی۔  " بس طاہر۔  بس ریحا۔  الوداع۔۔۔ " اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ جسم میں ایک دم تیز حرارت کی لہر دوڑ گئی۔ "میرے اللہ گواہ رہنا۔  میں نے عشاق کا نام بدنام نہیں ہونے دیا۔۔۔  یہ تیری دی ہوئی توفیق ہے۔  تیرے حبیب پاک اور میرے آقا کا صدقہ ہے۔ قل ھواللہ احد۔ " اس کی آنکھیں مند گئیں۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر دبایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا اس کے چہرے پر جھک گئی۔
"قل ھواللہ احد۔  لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔  صلی اللہ علیہ و سلم۔ " اس کی آواز بلند ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " سرمد کے ہونٹ مسکرانے کے انداز میں وا ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " مسکراہٹ مہک اٹھی۔  ایک دم کمرے میں خوشبو کے جھونکوں داخل ہوئی۔  سرمد کی نظریں اپنے سامنے دیوار کی جانب یوں جم گئیں جیسے وہ کسی کو دیکھ رہا ہو۔  مگر کسی؟ کسے دیکھ رہ ا تھا وہ جس کے دیدار نے اس کی آنکھوں میں مشعلیں روشن کر دی تھیں۔  چہرے پر عقیدت و احترام کی سرخیاں جھلملا دی تھیں۔  ایک گہرا سانس  اطمینان بھرا سانس اس کے ہونٹوں سے خارج ہوا۔ لرزتے ہوئے دونوں ہاتھ آپس میں کسی کو تعظیم دینے کے انداز میں جُڑ ی۔۔۔  "صلی اللہ علیہ و سلم " لبوں پر مہکا اور سرمد کے مسکراتے ہونٹ ساکت ہو گئے۔
خوشبو ان کے گرد لہراتی رہی۔  سرمد کو لوریاں دیتی رہی۔  اور وہ سو گیا۔ کسی ایسے معصوم بچے کی طرح جسے اس کا من پسند کھلونا مل جائے اور وہ اسے باہوں میں لے کر نیند کی وادیوں میں اتر جائے۔
*  *  *



کمرے میں عجیب سا سکوت طاری تھا۔
کرنل رائے اس انوکھی مہک کے آنے، کمرے میں پھیلنے اور پھر آہستہ آہستہ ناپید ہو جانے کا گواہ تھا مگر ذہنی کج روی اور فطری ہٹ دھرمی اسے اس کے اقرار سے روک رہی تھی۔
طاہر نے دھیرے سے سرمد کو باہوں میں اٹھایا اور میز پر لٹا دیا۔  کیپٹن آدیش اب بھی کرنل رائے کو کور کئے کھڑا تھا، مگر اس کے رخساروں پر آنسو کیوں بہہ رہے تھے۔  وہ خود نہ جانتا تھا۔  یا شاید جانتا تھا، بتا نہ سکتا تھا۔
دل گرفتہ مانیا نے ریحا کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھ چھڑا کر لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی اور میز سے نیچے لٹکتے سرمد کے پیروں سے جا لپٹی۔  خون آلود، زخم زخم پیروں کو بوسے دیتی دیتی وہ میز کے ساتھ ماتھا ٹکا کر یوں بے سدھ ہو گئی کہ سرمد کے دونوں پاؤں اس کے سینے کے ساتھ بھنچے ہوئے تھے۔
سوجل ویرا ن ویران آنکھوں سے ریحا اور سرمد کو دیکھتی رہی۔  پھر اس کی نظر کرنل رائے پر آ کر جم گئی۔
"بہت دیر ہو گئی کرنل رائے۔ " اچانک اس نے بڑی سرد آواز میں کہا تو کرنل رائے اس کی جانب متوجہ ہوا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔  نجانے کیا ہوا کہ کرنل نے گھبرا کر نظریں پھیر لیں۔
"نظریں نہ چراؤ کرنل۔  میں صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ راکیش کا قتل تم نے کرایا تھا؟ہاں یا نہیں۔  "
کرنل رائے نے پھر چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں یا نہیں ؟" سوجل نے اس کا ریوالور اسی پر تان لیا۔
"تم پاگل ہو سوجل۔ " گھبرا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں یا نہیں کرنل۔ " سوجل نے ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔
"میں اسے کیسے قتل کرا سکتا تھا سوجل۔  میری اس سے کیا دشمنی تھی؟" اس کی آواز میں خوف ابھر آیا۔
"دشمنی کا نام سوجل ہے کرنل رائے۔  آج میں اس دشمنی ہی کو ختم کر دوں گی مگر اپنے راکیش کے پاس جانے سے پہلے جاننا چاہتی ہوں کہ تم گناہ گار ہو یا بے گناہ؟"
"میں بے گناہ ہوں سوجل۔ " زخمی ہاتھ اٹھا کر حلف دینے کے انداز میں کرنل رائے نے جلدی سے کہا۔
"بہت بزدل ہو تم کرنل رائے۔ " سوجل کے ہونٹوں پر بڑی اجڑی اجڑی مسکراہٹ ابھری۔ " آخری وقت میں بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ "
" آخری وقت؟" ہکلا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں۔ " تم راکیش کے قاتل ہو، یہ بات تم مان لیتے تو شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ "
"اگر ایسی بات ہے تو میں اقرار کرتا ہوں سوجل کہ میں نے راکیش کا قتل کرایا تھا مگر صرف تمہاری محبت کے سبب۔  میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا سوجل۔  اسی لئے میں نے راکیش کو راستے سے ہٹا دیا۔  "
"شکر ہے بھگوان کا۔ " سوجل نے ایک پل کو آنکھیں بند کیں اور دھیرے سے کہا۔  پھر آنکھیں کھولیں اور کرنل رائے کی جانب بڑی سرد نگاہی سے دیکھا۔
"اب تو تم مجھے نہیں مارو گی سوجل؟" اس نے لجاجت سے پوچھا۔
"تم نے میری پوری بات سنے بغیر ہی اپنے جرم کا اقرار کر لیا رائے۔" سوجل بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ " میں کہہ رہی تھی کہ شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔  تم نے میرے راکیش کی نشانی، میری بیٹی ریحا کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی چھین کر اپنا قتل مجھ پر لازم کر لیا ہے۔ "
پھر اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، پے در پے چھ دھماکے ہوئے۔  کرنل رائے کا گول مٹول جسم اچھل اچھل کر گرتا رہا۔  چوتھے فائر پر اس نے دم توڑ دیا مگر سوجل نے ریوالور خالی ہونے پر ہی انگلی کا دباؤ ٹریگر پر ختم کیا۔ حیرت زدہ، ڈرے ہوئے، فرش پر آڑے ترچھے لہولہان پڑی، کرنل رائے کی بے نور آنکھیں سوجل پر جمی ہوئی تھیں ، جس کا ریوالور والا ہاتھ بے جان ہو کر پہلو میں لٹک گیا تھا۔  کسی نے اپنی جگہ سے حرکت کی نہ اسے روکنا چاہا۔
دھماکوں کی بازگشت ختم ہوئی تو کیپٹن آدیش نے بھی غیر شعوری انداز میں ریوالور ہاتھ سے چھوڑ دیا۔  لڑکھڑایا اور دیوار سے جا لگا۔
طاہر میز پر دونوں ہاتھ ٹیکے سر جھکائے سسک رہا تھا۔  پھر مانیا آئی اور اس کے شانے پر سر رکھ کر رو دی۔  سوجل تھکے تھکے انداز میں آگے بڑھی اور ایک کرسی پر گر کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بیٹھ گئی۔  کیپٹن آدیش کی سسکیاں ، طاہر اور مانیا کا ساتھ دے رہی تھیں اور ریحا، سرمد کے پیروں سے لپٹی خاموش بیٹھی تھی۔
٭
کتنی دیر گزری، کسی کو اس کا احساس نہیں تھا۔
وہ سب چونکے تو اس وقت جب اچانک سیل کی سیڑھیاں بھاری اور تیز تر قدموں کی دھڑدھڑاہٹوں سے گونج اٹھیں۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی، کتنی ہی لوہے کی نالیاں انہیں اپنے نشانے پر لے چکی تھیں۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔
طاہر نے ان کی جانب دیکھا۔ وہ تعداد میں بیس سے کم نہ تھے۔  کچھ کمرے میں اور باقی کاریڈور میں پھیلے ہوئے تھے۔  ان کے جسموں پر فوجی وردیاں اور سرو ں پر سفید رومال بندھے تھے۔  وہ یقیناً بھارتی فوجی نہیں تھے۔
سب سے اگلا شخص، جو اُن کا لیڈر لگتا تھا، اس کی عقاب جیسی نگاہوں نے ایک ہی بار میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔ مردہ کرنل رائے کو دیکھ کر وہ ایک پل کو حیران ہوا، پھر اس کی نگاہیں میز پر پڑی سرمد کی لاش پر آ کر جم گئیں۔  ایک پل کو اس کی نظروں میں اضطراب نے جنم لیا پھر وہ تیزی سے آگے بڑھا۔  سرمد کو بے حس و حرکت پا کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
"ہمیں دیر ہو گئی۔ " آہستہ سے وہ بڑبڑایا۔  پھر اس کی نگاہوں میں آگ سی دہک اٹھی۔
"یہ۔۔۔ " اس نے سرمد کی جانب اشارہ کیا اور تھرتھراتی آواز میں کہا۔  " کس نے جان لی اس کی؟"اس کا سوال سب سے تھا۔
"سب کچھ بتایا جائے گا۔  پہلے تم بتاؤ۔  تم کون ہو؟"طاہر نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
"تم مجھے ان میں سے نہیں لگتے۔ " وہ طاہر کی طرف پلٹا۔
"تم بھی مجھے اپنوں میں سے لگتے ہو۔  میرا نام طاہر ہے۔  اب تم بتاؤ۔  کون ہو تم؟" طاہر اس کے قریب چلا آیا۔
"یہ بتانے کا حکم نہیں ہے۔  تم کہو اس کے کیا لگتے ہو؟"
"یہ بھائی ہے میرا۔ " طاہر نے سرمد کی طرف بڑے درد بھرے انداز میں دیکھا۔ " اسے ڈھونڈ تو لیا مگر بچا نہ سکا۔ "
"غم نہ کرو۔ " اس نے طاہر کے شانے کو گرفت میں لے کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔  "وہ شہید ہوا ہے۔۔۔  شہید۔۔۔ " آنکھیں بند کر کے اس نے ایک گہرا سانس لیا۔  "کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔ " اس کے لہجے میں حسرت در آئی۔
"یہ باقی سب کون ہیں اور اس کتے کو کس نے مارا؟"اس نے نفرت سے فرش پر پڑے کرنل رائے کو دیکھا۔
"یہ سب اپنے ہیں۔  " طاہر نے کیپٹن آدیش سمیت سب کی گواہی دی۔  " اور اسے۔۔۔ " اس کی نظر کرنل رائے کی لاش تک پہنچی۔
"میں نے مارا ہے اسے۔ " اچانک سوجل بول اٹھی۔  "اس کی بیوی ہوں میں۔ "
"مگر تم تو کہہ رہے تھے یہاں سب اپنے ہیں۔ " وہ حیرت سے طاہر کی جانب مڑا۔
"ہاں۔  میں نے سچ کہا ہے۔ " طاہر نے پھر کہا۔  "صرف ایک ہی بیگانہ تھا یہاں۔ " اس نے کرنل رائے کی جانب اشارہ کیا۔
"ہمارے پاس بحث کرنے کا وقت ہے نہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ہمارا مسلک ہے۔  ہم سرمد کو لینے آئے تھے۔  لے کر جا رہے ہیں۔  تم میں سے جو ساتھ چلنا چاہے، چل سکتا ہے۔ " وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔  "مگر کسی غیر مسلم کو ہم ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔"
"سرمد کا کوئی رشتہ دار غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔  " طاہر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "میں اس کا بھائی ہوں۔  یہ۔۔۔ " اس نے ریحا کی جانب اشارہ کیا جو سرمد کے پیروں سے لپٹی ویران ویران نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ " یہ اس کی منگیتر ہے۔۔۔  اور یہ۔۔۔ " اس نے کیپٹن آدیش کی طرف ہاتھ اٹھایا۔
"میں سرمد کا دوست ہوں۔  یہ وردی ان میں شامل ہونے کے لئے ضروری تھی۔ " اس نے سر سے کیپ اتاری اور دور پھینک دی۔ پھر شرٹ بھی اتار ڈالی۔  اب وہ سیاہ جرسی اور خاکی پینٹ میں تھا۔
بے اختیار طاہر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔  اس نے بازو دراز کیا۔  آدیش لپک کر آیا اور اس کے پہلو میں سما گیا۔ وہ بچوں کی طرح سسک رہا تھا۔
"اور یہ میری دوست ہیں۔  مس مانیا۔  ان کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچ پائے۔ " طاہر نے کہا تو مانیا اس کے دوسرے بازو سے آ لگی۔
"رہی میں تو میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہی۔ " اسی وقت سوجل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہا۔  "میں اپنے انجام سے بے خبر نہیں ہوں۔  تم لوگ سرمد کی منگیتر کو لے جاؤ۔  "
 آہستہ سے ریحا اٹھی اور ماں کے سینے سے لگ گئی۔
"ستی ہو جانا اگر ان کے مذہب میں جائز ہوتا ریحا تو میں خود تجھے اس کے لئے سجا سنوار کر تیار کرتی مگر یہ بڑا پیارا دین ہے۔  تجھے یہ لوگ زندہ بھی رکھیں گے تو اس طرح جیسے پلکوں میں نور سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔  ان کے ساتھ چلی جا۔  سرمد کی سمادھی پر روزانہ پھول چڑھاتے سمے مجھے یاد کر لیا کرنا۔  میں جس حال میں بھی ہوئی، تیرے لئے پرارتھنا کرتی رہوں گی۔ " سوجل کی طویل سرگوشی نے اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔  وہ ماں سے الگ ہوئی تو سوجل نے اس کے ماتھے اور گالوں کے پے در پے کتنے ہی بوسے لے ڈالے۔ پھر بھیگی آنکھوں سے طاہر کی طرف دیکھا۔  مانیا آگے بڑھی اور اسے باہوں میں لے لیا۔
"تو چلیں ؟" لیڈر نے طاہر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "اوکے۔ " اس نے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔
دو جوانوں نے سرمد کی لاش کو بڑی احتیاط سے کندھوں پر ڈالا اور سب سے پہلے باہر نکلے۔  پھر باقی کے لوگ بھی تیزی سے چل پڑی۔  چند لمحوں کے بعد سیل کے کھلے دروازے سے سیٹی کی آواز سنائی دی۔  سب سے پہلے طاہر، مانیا، ریحا اور آدیش باہر نکلے۔  آخر میں لیڈر نے باہر قدم رکھنے سے پہلے پلٹ کر دیکھا۔  شیشے کے کمرے میں سر اٹھائے کھڑی سوجل اسے ایسی قابل احترام لگی کہ اس نے بے اختیار اسے ماتھا چھو کر سلام کیا۔  جواب میں سوجل کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ابھری، اس میں صرف اور صرف آسودگی کروٹیں لے رہی تھی۔
٭
جس ٹرک میں سرمد کی لاش پوری احتیاط سے رکھی گئی وہ کوٹھی کے مین گیٹ سے کچھ ہٹ کر اندھیرے میں کھڑا تھا۔ ٹرک انڈین آرمی کا تھا اس لئے کسی خطرے کا امکان نہیں تھا۔
"اوکے دیدی۔ " آدیش اس سے گلے ملا۔  " زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ "
"راکھی باندھنے خود آیا کروں گی تجھے۔  میرا انتظار کیا کرنا۔ " وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔  آدیش جواب میں ہونٹ دانتوں میں داب کر رہ گیا۔
ریحا سے گلے مل کر اس نے سوائے اس کا ماتھا چومنے کے کچھ نہ کہا۔  آخر میں وہ طاہر کی طرف بڑھی۔  دونوں نے ہاتھ ملایا۔
"اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں مسٹر طاہر۔  میں نہیں چاہتی کہ آپ کسی بھی طرح قانون کی زد میں آئیں۔  میں آپ کے باضابطہ پاکستان روانہ ہونے کی کارروائی کے بعد اسے آپ تک پہنچا دوں گی۔ "
کچھ کہے بغیر طاہر نے جیب سے اپنا پاسپورٹ نکالا اور اسے تھما دیا۔  پھر ہوٹل کے کمرے کی چابی بھی اس کے حوالے کر دی۔
"میں شکریہ اد کر کے تمہاری توہین نہیں کرنا چاہتا مانیا۔ " وہ آپ اور مس، دونوں تکلفات سے دور ہو کر بولا۔ "ہاں۔  میری کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو۔۔۔ "
"میں کبھی جھجکوں گی نہیں طاہر۔ " وہ بھی مسکرائی۔  دیواریں گریں تو اپنائیت کا چہرہ صاف صاف دکھائی دینے لگا۔
"او کے۔  گڈ بائی۔ "طاہر نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھاما اور دبا کر چھوڑ دیا۔
"گڈ بائی۔ " ان کے ٹرک میں سوار ہو جانے کے بعد وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک ان کا ٹرک نظر آتا رہا۔  پھر تھکے تھکے قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
٭
"میرا نام جاوداں صدیقی ہے۔ " اس نے ٹرک میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے طاہر کو بتایا۔  "کمانڈر کا حکم تھا کہ آج رات سرمد کو اس ٹارچر سیل سے بہر صورت نکال لیا جائے۔  دراصل ہمیں بڑی دیر میں پتہ چلا کہ سرمد یہاں ہے ورنہ۔۔۔ " وہ ہونٹ کاٹنے لگا۔  "مگر شہادت اس کی قسمت میں تھی۔  خوش نصیب تھا وہ۔  کاش ہم بھی یہ مقام پا سکیں۔ "
" آپ کچھ بتا رہے تھے۔ " وہ کچھ دیر خاموش رہا تو طاہر نے اسے یاد دلایا۔
"ہاں۔ " وہ آہستہ سے چونکا۔  " ہمیں گارڈز پر قابو پانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔  کل ملا کر دس بونے تو تھے وہ۔  ہم نے ایک ہی ہلے میں انہیں موت کی نیند سلا دیا۔  ٹارچر سیل کا دروازہ بھی توڑنا نہ پڑا۔  کھلا مل گیا مگر آپ لوگوں کو وہاں دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی۔ "
"بس۔  یہ ایک طویل قصہ ہے۔  " طاہر نے بات گول کر دی۔  "اب ہم جا کہاں رہے ہیں ؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گے؟"
"جہاں کمانڈر کا حکم ہو گا وہاں آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔ " جاوداں نے محتاط لہجے میں کہا۔  "ابھی کچھ دیر میں اس کی کال آنے والی ہے۔ "
جونہی ٹرک نے کشمیر روڈ کا ساتواں سنگ میل عبور کیا، جاوداں صدیقی کی جیب میں پڑے سیٹ پر بزر نے اشارہ دیا۔  اس نے فوراً سیٹ نکالا اور رابطہ قائم کیا۔
"یس۔  جاوداں بول رہا ہوں خانم۔ "
"کیا رہا؟" دوسری جانب سے بڑی شیریں مگر تحکم آمیز آواز سنائی دی۔
"سرمد شہید ہو گیا خانم۔ " جاوداں نے اداسی سے جواب دیا۔
"تو اداس کیوں ہو پگلے ؟ کل ہمارے حصے میں بھی یہ اعزاز آئے گا۔ "خانم نے بڑے جذبے سے کہا۔
"انشاءاللہ خانم۔ " جاوداں نے جلدی سے کہا۔  پھر اس نے ٹارچر سیل کی ساری کارروائی خانم کو بتائی۔
"اس کی لاش کہاں ہے؟"
"ہم ساتھ لا رہے ہیں خانم۔ "
"کمانڈر کا حکم ہے کہ سرمد اور اس کے ساتھیوں کو مظفر آباد کے راستے پاکستان پہنچا دیا جائے مگر اس سے پہلے دریائے نیلم کے دوسرے گھاٹ پر سرمد کی لاش کو پورے اہتمام کے ساتھ تابوت کیا جائے۔ "
" جی خانم۔  ایسا ہی ہو گا۔ "
"اوکے۔  تم خود رابطہ اس وقت کرو گے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ "
"میں سمجھتا ہوں خانم۔ "
"عشاق۔  " دوسری جانب سے کہا گیا۔
"عزت کی زندگی یا شہادت۔ " جاوداں کے لبوں سے نکلا اور دوسری طرف سے بات ختم کر دی گئی۔  طاہر ہمہ تن گوش بنا سن رہا تھا کہ اسے آخری لفظ نے چونکا دیا۔  "عشاق " کا لفظ سرمد کے ہونٹوں سے بھی نکلا تھا۔
"جاوداں۔  آپ پلیز بتائیں گے کہ یہ عشاق کیا ہے؟" اس نے جاوداں کی طرف دیکھا جو ونڈ سکرین سے باہر اندھیرے میں گھور رہا تھا۔
"عشاق۔۔۔ " وہ بڑبڑایا۔  " ہمیں کسی باہر کے فرد پر یہ راز کھولنے کی اجازت نہیں ہے مسٹر طاہر لیکن آپ کے ساتھ سرمد شہید کا ایک ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔  " وہ چند لمحے خاموش رہا پھر کہا۔  "عشاق۔۔۔  سرفروشوں کی ایک ایسی تحریک ہے جس کا کمانڈر، خانم اور ہر رکن، جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔  ہم لوگ سر پر یہ سفید رومال کفن کی علامت کے طور پر پہن کر نکلتے ہیں۔ اس کا رکن بننے کے لئے لازم ہے کہ پہلے عمرہ کیا جائے۔  بس اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ "
"سرمد بھی تو عمرہ کرنے کے بعد ہی انڈیا آیا تھا۔  تو کیا۔۔۔ ؟" طاہر کے دماغ میں ایک سوال نے سر اٹھایا۔ پھر وہ جاوداں سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
"میں اس بارے صرف یہ جانتا ہوں مسٹر طاہر کہ سرمد شہید نے عمرہ پہلے کیا اور تحریک کا رکن بننے کے بارے میں اس شرط کا اسے بعد میں پتہ چلا۔  یوں لگتا ہے کہ جیسے اسے اللہ اور رسول نے قبولیت کے بعد اس تحریک تک پہنچایا۔  تبھی تو وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طے کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ "جاوداں نے ا س کے پوچھنے پر کہا۔
طاہر کے لئے اب کوئی بھی دوسرا سوال کرنا بے معنی تھا۔  اسے سرمد کے آخری الفاظ یاد آئے اور بے اختیار اس کا دل دھڑک اٹھا۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ "
ہاں۔  یہی الفاظ تو تھے اس کے لبوں پر۔ عجیب سی رقت طاری ہو گئی اس پر۔  سر سینے پر جھکتا چلا گیا۔  آنکھیں بند ہوئیں تو تصور میں گنبدِ خضریٰ مہک اٹھا۔ غیر اختیاری طور پر اس کے لبوں کو حرکت ہوئی اور "صلی اللہ علیہ و سلم " کے الفاظ یوں جاری ہو گئے جیسے برسوں کا بھولا ہوا سبق اچانک یاد آ جائے۔
ٹرک رات کے اندھیرے میں پوری تیزی سے انجانے راستوں پر رواں تھا اور ایک انجانی خوشبو ٹرک کے ساتھ ساتھ محوِ سفر تھی۔  درود کی خوشبو۔  حضوری کی خوشبو۔  قبولیت کی خوشبو۔
*  *  *


صبح ہونے سے پہلے دریائے جھیلم کے دوسرے گھاٹ پر ٹرک چھوڑ دیا گیا۔  وہاں پہلے سے ایک بڑی کشتی میں ساگوان کی لکڑی کا تابوت لئے چار عشاق موجود ملے۔  سرمد کی لاش کو سبز کشمیری شال میں لپیٹ کر تابوت میں رکھا گیا۔  اکیس رائفلوں کی سلامی دی گئی۔  پھر جاوداں صدیقی اور ا س کے ساتھی تو وہیں رہ گئے اور چار نئے ساتھیوں کے ساتھ وہ رات ہونے تک وہیں جنگل میں چھپے رہے۔
رات کے پہلے پہر اگلا سفر شروع ہوا۔  یہ سفر اسی کشتی میں تھا۔  ان چار عشاق کا کام ہی کشتی کھینا تھا۔  کشتی میں پھل اور خشک میوہ جات موجود تھے جن سے وہ جب چاہتے لذتِ کام و دہن کا کام لے سکتے تھے مگر بھوک کسے تھی جو ان کی طرف نظر اٹھاتا۔
ریحا تابوت پر سر رکھے آنکھیں بند کئے پڑی رہتی۔  چار دن میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔  آدیش سر جھکائے نجانے کس سوچ میں ڈوبا رہتا۔  ہاں طاہر اس کے ہونٹ ہلتے اکثر دیکھتا۔  وہ جانتا تھا کہ وہ کیا پڑھتا رہتا ہے۔  اسے یقین تھا کہ اس کی طرح آدیش بھی "صلی اللہ علیہ و سلم" کا اسیر ہو چکا ہے۔
وہ رات کو سفر کرتے اور دن میں کشتی کنارے پر روک کر لمبی لمبی گھاس میں ، یا گھنے درختوں تلے چھپ کر پڑ رہتی۔ سات دن گزر گئی۔  آٹھویں دن صبح کاذب نمودار ہو رہی تھی جب کشتی کنارے پر لگا دی گئی۔  ایک ساتھی نصیر نے بتایا کہ یہاں سے آگے کا سفر انہیں پیدل کرنا ہو گا۔
تابوت کو دو د و ساتھیوں نے باری باری کندھوں پر لیا اور وہ سب ایک خشک برساتی نالہ عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہو گئی۔ طاہر اور آدیش نے تابوت اٹھانا چاہا تو ان چاروں نے منت بھرے لہجے میں کہا کہ ان سے یہ سعادت نہ چھینی جائے۔  مجبوراً طاہر نے تابوت ان چاروں کے حوالے کر دیا اور خود ریحا اور آدیش کے ساتھ ان کے پیچھے ہو لیا۔
"ہم اس وقت کہاں ہیں ؟" چلتے چلتے طاہر نے نصیر سے پوچھا۔
"مظفر آباد کے آخری حصے میں۔  یہاں سے ہم وسطی آبادی کی طرف جا رہے ہیں۔  شام تک پہنچیں گے۔ وہاں سے آپ کو سواری مل سکے گی۔ "
"ذرا رکئے۔ " اس نے نصیر سے کہا۔  اس کے کہنے پر انہوں نے تابوت ایک ٹیلے پر رکھ دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
طاہر نے اپنے دماغ میں جنم لینے والے خیال پر ایک بار پھر غور کیا۔ پھر نصیر سے پوچھا۔
"نصیر بھائی۔  یہ بتائیے یہاں سے نور پور کس طرف ہے؟"
"نور پور۔ " نصیر چونکا۔  "یہ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ؟"
"اگر آپ کو علم ہے تو بتائیے۔  شاید ہمیں وسطی علاقے کی طرف جانا ہی نہ پڑے۔ "طاہر نے نرمی سے کہا۔
"سائیاں والا کا رہائشی ہے یہ خادم حسین۔ سائیاں والا سے تیسرا گاؤں ہے نور پور۔ " نصیر نے اپنے ایک ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔  "اس علاقے کے بارے میں یہ زیادہ بہتر بتا سکتا ہے۔ "
طاہر نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔  " نور پور کا گاؤں یہاں سے پیدل سات گھنٹے کی مسافت پر ہے۔  آج کل وہاں سیلاب کی وجہ سے ایک قدرتی نہر بن گئی ہے اس لئے کشتیاں چلنے لگی ہیں۔  ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم اس عارضی پتن پر پہنچ جائیں گے جہاں سے سائیاں والا اور نور پور کے لئے کشتی مل جائے گی۔ "
"بس۔۔۔ " اچانک طاہر کے لہجے میں جوش بھر گیا۔ "تو سمجھ لیجئے کہ ہمیں نور پور جانا ہے۔  راستہ بدل لیجئے اور اس پتن کی طرف چل دیجئے۔ "
راستہ بدل دیا گیا۔  ریحا اور آدیش، طاہر کے لہجے سے کسی خاص بات کا اندازہ تو لگا رہے تھے مگر وہ بات کیا تھی؟ یہ انہیں کیا معلوم۔
ان سے ذرا پیچھے رہ کر طاہر نے جیب سے موبائل نکالا اور دھڑکتے دل کے ساتھ گھر کا نمبر ملایا۔  اتنے دنوں بعد وہ فون کر رہا تھا اور وہ بھی کیا بتانے کے لئے۔  اس کا دل بھر آیا۔  اس نے دعا کی کہ فون  صفیہ نہ اٹھائے۔  اس کی اللہ نے شاید نزدیک ہو کر سنی۔  دوسری طرف سے بیگم صاحبہ نے فون اٹھایا۔
"ہیلو۔  امی۔  میں طاہر بول رہا ہوں۔ "اس نے لہجے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
"طاہر۔  " بیگم صاحبہ ایک دم ہشاش بشاش ہو گئیں۔  " کیسا ہے بیٹے۔  تو نے اتنے دن فون کیوں نہیں کیا؟ یہاں فکر کے مارے سب کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہے۔  "
"میں بالکل ٹھیک ہوں امی۔  آپ میری بات دھیان سے سنئے۔ " اس نے حلق تر کرتے ہوئے بمشکل کہا۔
"ٹھہر میں صفیہ کو بلاتی ہوں۔۔۔ "
"نہیں امی۔  رکئے۔  اسے مت بلائیے۔  میں جو کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنئے۔ " طاہر نے جلدی سے کہا۔  " میں نے اسی لئے موبائل پر فون نہیں کیا کہ مجھے صرف آپ سے بات کرنا ہے۔ "
"خیر تو ہے ناں بیٹا؟" وہ تشویش سے بولیں۔  گھبراہٹ ان کے لہجے میں نمایاں تھی۔
" آپ ڈاکٹر ہاشمی اور صفیہ کو لے کر نور پور میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر پہنچ جائیں۔  ابھی چل پڑیں تو شام تک پہنچیں گے۔  میں آپ سے وہیں ملوں گا۔ "
"مگر طاہر۔  وہاں کیوں بیٹا؟ تو سیدھا گھر کیوں نہیں آ رہا ؟" وہ بے طرح گھبرا گئیں۔
"میرے کندھوں پر بڑا بوجھ ہے امی۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔  " میں یہ بوجھ لئے گھر تک نہ آ سکوں گا۔  آپ وہیں آ جائیے انکل اور صفیہ کو لے کر۔ "
"بوجھ؟ کیسا بوجھ؟ " وہ حیرت سے بولیں۔  " سرمد تو خیریت سے ہے ؟ اور وہ تیرے ساتھ ہی ہے ناں ؟"
"ہاں امی۔ " اس کی آواز بھیگ گئی۔  " اسی کو تو کندھوں پر اٹھائے لا رہا ہوں۔ "
"کیا۔۔۔ ؟" بیگم صاحبہ کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔
"ہاں امی۔  " وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتا گیا۔  " وہ بالکل چپ ہو گیا ہے۔  بولتا ہے نہ چلتا ہے۔  خاموش لیٹا ہے۔  تابوت میں۔ " اس کی ہچکی بندھ گئی۔
" طاہر۔۔۔ " بیگم صاحبہ کے ہاتھ سے ریسیور گر پڑا۔
طاہر نے موبائل آف کیا اور بازو آنکھوں پر رکھ کر سسکیاں بھرنے لگا۔  اس کا دل ایسا رقیق تو کبھی بھی نہ تھا۔  نجانے کیوں آج کل وہ بات بے بات رونے لگتا تھا۔
ایک گھنٹے کا راستہ چالیس منٹ میں طے ہوا۔  عصر اتر رہی تھی جب وہ اس عارضی پتن پر جا پہنچے۔ پتن پر اس وقت بھی خاصے مسافر تھے۔  کشتیاں ایک درجن سے زائد موجود تھیں۔ طاہر نے ایک کشتی والے سے خود بات کی۔
"بابا شاہ مقیم تک جانا ہے بھئی۔  چلو گے؟"
" کتنے جی ہیں ؟" ملاح نے تابوت کی طرف نگاہ اٹھائی۔  "اور اس میں کیا ہے جی؟"
"پانچ جی ہیں اس تابوت سمیت۔  اور اس میں۔۔۔" طاہر کا حلق درد کر اٹھا۔  "اس میں ایک شہید ہے۔ "
"سو بسم اللہ جی۔  کیوں نہیں چلیں گے۔  آ جائیں جی، آ جائیں۔ " ملاح نے عقیدت سے کہا اور آگے بڑھ کر نصیر اور خادم حسین کے ساتھ مل کر تابوت کشتی میں رکھوانے لگا۔
چاروں عشاق ان دونوں سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گئے۔ طاہر اور آدیش اگلے حصے میں جبکہ ریحا تابوت کے پہلو میں بیٹھ گئی۔  ملاح نے جھک کر تابوت کو بوسہ دیا اور پتن پر کھڑے اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے بولا۔
"اوئے شیدو۔  گھر پر بتا دینا میں رات دیر سے لوٹوں گا۔ "
"ارے فیقی۔ تو کہاں چل دیا۔  میں ادھر تیری دیہاڑی لگوانے کی بات کر رہا ہوں۔ " شیدو دو قدم اس کی طرف چلا۔
"میرا دیہاڑا لگ گیا ہے ری۔ " فیقا ہنسا۔ " ایسا دیہاڑا جس میں نفع ہی نفع ہے۔  نصقان ہے ہی نہیں جانی۔  اللہ راکھا۔ " اس نے کشتی پانی میں دھکیل دی۔  پھر اچھل کر کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لئے۔ سیلاب کا پانی خاصا کم ہو چکا تھا مگر اب بھی کشتی چلنے کے لئے کافی تھا۔
ریحا نے تابوت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔  آدیش پہلو کے بل نیم دراز ہو گیا اور طاہر نے چھل چھل کرتے پانی پر نگاہیں جما دیں۔ وہ اپنے اس فیصلے پر غور کر رہا تھا جس کے تحت اس نے اچانک بابا شاہ مقیم کے مزار پر، درویش کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔  اسے اب تک یہ پتہ نہ چل سکا تھا کہ وہ کون سا احساس تھا جو اس فیصلے کے روپ میں ایک دم اس پر حاوی ہو گیا تھا اور اس نے سوچے سمجھے بغیر اس پر عمل کر ڈالا۔  وہ کونسی طاقت تھی، جس نے اس کا راستہ بدل دیا تھا۔
اسی وقت ملاح نے تان لگائی اور اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔  ملاح کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ اس کے دل و دماغ میں اودھم مچا رہے تھے۔
 آ یا ماہی میرے ویہڑی
دُکھ دساں میں کیہڑے کیہڑی
بولے نہ بولے، واری جاواں
بس رکھے قدماں دے نیڑی
 آیا ماہی میرے ویہڑی
شام ڈھل چکی تھی نیم اندھیرے جب نور پور کا وہ ٹبہ طاہر کو دور سے دکھائی دے گیا جہاں حافظ عبداللہ روزانہ آ کر منزل کیا کرتا تھا۔  اور ایک عجیب بات اور نظر آئی کہ بابا شاہ مقیم کا مزار روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔  بجلی آ گئی تھی وہاں۔ اس نے ملاح کو ٹبے کی طرف جانے کو کہا۔  پھر ٹبے کو غور سے دیکھا تو اسے وہاں کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔  اس کا دل سینے میں زور سے دھڑکا۔  وہاں کوئی موجود تھا۔ مگر کون؟ اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہاں جو کوئی بھی ہے، اس کے لئے اجنبی نہیں ہے۔
کشتی جونہی ٹبے کے قریب پہنچی، اس پر سب روشن ہو گیا۔  وہ درویش ہی تو تھا جو ٹبے سے اتر کر پانی کے کنارے کھڑا باہیں پسارے اسے پکار رہا تھا۔
"پگلی۔  آ گیا تو۔۔۔  لے آیا میرے دولہے کو۔  ارے دلہن بھی ہے ساتھ میں۔  " وہ جیسے حیرت سے بولا۔
 آدیش اور ریحا اس کی باتوں پر حیران ہو رہے تھے۔  طاہر سر جھکائی، دانت بھینچے اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔  نجانے کیوں اس کا جی چاہ رہا تھا وہ چیخ چیخ کر روئی۔  یوں روئے کہ جیسے اسے چپ  کرانے والا کوئی نہیں رہا۔
ملاح نے کشتی ٹبے کے پاس روکی۔  پانی میں اترا۔  رسہ کھینچ کر کشتی کنارے پر لگائی۔  طاہر نے کنارے پر قدم رکھا تو درویش نے اسے باہوں میں بھر لیا۔  اس کا ماتھا چوم لیا۔
"نہ ری۔  روتا کیوں ہے۔  پگلے کا پگلا ہی رہا۔" وہ اس کا َچہرہ ہاتھوں میں تھام کر بولا۔  "ارے زندوں کے لئے رونا گناہ ہے۔  جانتا نہیں کیا؟"
طاہر نے اثبات میں سر ہلایا اور ہچکیاں لے کر رو دیا۔  اس کا دل بس میں تھا ہی کب جو وہ درویش کی بات سہہ پاتا۔
"بس بس۔  آ، اسے کشتی سے اتاریں۔ وہ انتظار کر رہا ہے ہمارا۔ " درویش نے اس کا بازو تھاما اور ملاح کے پاس پہنچا، جو ان کا منتظر کھڑا تھا۔
"لا بھئی نصیباں والیا۔  ہماری امانت اتار دے۔ " درویش نے کہا تو ملاح نے "بسم اللہ" کہہ کر طاہر اور درویش کے ساتھ مل کر تابوت کشتی سے اتار کر ٹبے پر رکھ دیا۔  ریحا کو بازو سے لگائے کھڑا آدیش خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا۔
طاہر نے خود کو سنبھالا۔  جیب سے پرس نکالا کہ ملاح نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"سوہنیو۔  ساری کمائی خود ہی کر لو گے۔  کچھ ہمیں بھی کما لینے دو۔ "
طاہر نے ملاح کو حیرت سے دیکھا۔
"ٹھیک کہتا ہے یہ پگلا۔  " درویش نے ملاح کا شانہ تھپکا۔  " جا بھئی جا۔  تیری منظوری ہو گئی۔  جا شاواشی۔  موجاں مان۔  دیہاڑا لگایا ہے تو نے دیہاڑا۔ جا بال بچے میں جا۔  "
ملاح انہیں دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔  تب ایک دم طاہر کو احساس ہوا کہ ریحا اور آدیش بالکل چپ کھڑے ہیں۔
"بابا۔  یہ۔۔۔ " طاہر نے ان کے بارے میں بتانا چاہا۔
"کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔  آ جا۔  ادھر کتنے ہی لوگ کب سے تم سب کا انتظار کر رہے ہیں۔  آ جا۔ " درویش نے کہا۔  پھر ریحا کے سر پر ہاتھ پھیرا۔  " سسرال آ گئی ہے دھی رانی۔  "
اور نجانے کیا ہوا کہ چیخیں مار کر روتی ہوئی ریحا درویش کے سینے سے لگ گئی۔ اس کی ہچکیاں بتاتی تھیں کہ کتنے آنسو تھے جو اس نے سینے میں روک رکھے تھے۔  آج بند ٹوٹا تو سب کچھ بہا لے گئی۔  صبر، قرار، چین۔ سب کچھ۔
"بس بس۔  میری دھی بس۔  سارے آنسو ابھی بہا دے گی کیا؟ انہیں سنبھال کے رکھ۔  ساری زندگی پڑی ہے۔  کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ " وہ اس کا سر تھپکتا رہا۔  آخر ریحا  کو سکون آیا۔  تب درویش نے اسے الگ کیا اور آدیش کی طرف دیکھا۔
"تو بڑا قسمت والا ہے اللہ والیا۔  چل۔  آ جا۔  لے چل میرے دولہا کو پنڈال میں۔  آ جا۔ "
نم دیدہ آدیش نے طاہر کے ساتھ مل کر سرمد کا تابوت اٹھایا اور بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف چل پڑی۔  درویش سب سے آگے اور ریحا ان سب کے پیچھے سر جھکائے چل رہے تھے۔
مزار کے پاس پہنچے تو طاہر کے قدم من من کے ہو گئے۔  اس سے چلنا مشکل ہو گیا۔  آنکھیں ایک بار پھر دھندلا گئیں۔  ہونٹ دانتوں میں دبانے پر بھی پھڑکتے رہے۔  اس کا حلق آنسوؤں سے لبالب ہو گیا۔  درد کی لہر خار بن کر سینہ چیرنے لگی۔
مزار کے باہر وہ سب کھڑے تھے۔ بے حس و حرکت۔  مجسموں کی طرح ایستادہ۔  ایک دوسرے کو سنبھالا دینے کی کوشش کرتے ہوئی۔  مگر یہ بتانے کی ضرورت کسے تھی کہ وہ ایک لٹے ہوئے قافلے کے مسافر تھی۔
٭
سرمد کا تابوت مزار کے سامنے برگد کے درخت تلے رکھ دیا گیا۔ وہاں تک مزار کے دروازے پر لگا بلب روشنی دے رہا تھا۔  ارد گرد کی ہر شے صاف دکھائی رہی تھی۔ طاہر تابوت رکھ کر سیدھا ہوا تو ڈاکٹر ہاشمی لرزتے کانپتے اس کے شانے سے آ لگے۔
"لے آئے میرے سرمد کو۔ " ان کے لبوں سے کپکپاتی ہوئی آواز نکلی۔ طاہر نے تڑپ کر انہیں اپنے سینے میں چھپا لیا۔  قابلِ رشک صحت کے مالک ڈاکٹر ہاشمی کا جسم ایک بیمار بچے کا سا ہو رہا تھا۔  ہڈیوں کا وہ ڈھانچہ اگر ڈاکٹر ہاشمی تھا تو طاہر کے لئے اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔
"انکل۔۔۔ " وہ ضبط کھو بیٹھا۔
"رو لو۔  خوب رو لو۔  " درویش نے ان کے قریب آ کر کہا۔  " یہ آنسو محبت کے ہیں۔  دُکھ کے ہیں تو خوب رو لو لیکن اگر پچھتاوے کے ہیں تو ان کو روک لو۔  گناہ بن جائے گا تمہارا یہ رونا۔  میرے دولہے کے لئے بوجھ نہ بنانا ان آنسوؤں کو۔  "
"نہیں بابا۔ " ڈاکٹر ہاشمی طاہر کے سینے سے الگ ہو گئے۔  " پچھتاوا کیسا؟پھر بھی اولاد تو ہے ناں۔ "
"ہاں۔  اولاد تو ہے۔ " درویش نے ڈاکٹر ہاشمی کی آنکھوں میں دیکھا۔  " مگر کیسی اولاد ہے بابا، جس نے تیرا سر دونوں جہانوں میں فخر سے اونچا کر دیا۔ ارے کیسا نصیبوں والا ہے تو۔  کچھ پتہ ہے تجھے؟ آنسو بہا مگر اس خوشی پر بہا کہ اللہ نے، اس کے حبیب نے تیری اولاد کو اپنے لیے چُن لیا۔ "
ڈاکٹر ہاشمی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آنکھیں خشک کرنے لگے۔  اتنے ہی دنوں میں ان کی کمر جھک گئی تھی۔ وہ ایک دم بوڑھے ہو گئے تھے۔
اب اس کے سامنے بیگم صاحبہ اور صفیہ کھڑی تھیں۔  بیگم صاحبہ سفید لباس اور سفید چادر میں کوئی پاکیزہ روح لگ رہی تھیں۔  اسے سینے سے لگا کر دل کی پیاس بجھائی۔  ماتھا چوما اور آنسو اپنے پونچھنے لگیں۔
"صفو۔ " اس نے روتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا۔  وہ بلک کر اس کے سینے سے لگ گئی۔
یہ آنسو کیا کچھ نہ کہہ رہے تھے؟ دونوں سن رہے تھے۔ سمجھ رہے تھے۔
"طاہر صاحب۔ " ایک آواز سن کر اس نے صفیہ کو خود سے الگ کیا اور گردن گھمائی۔  حافظ عبداللہ، سکینہ کے ساتھ اس کے بائیں طرف کھڑا تھا۔  طاہر نے اسے بھی گلے لگایا۔  سکینہ سر جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی۔  حافظ عبداللہ نے اپنا لنجا ہاتھ بڑھایا تو طاہر نے اسے دونوں ہاتھوں میں تھام کر چوم لیا اور آنسو بہاتی سکینہ نجانے کیوں مسکرا پڑی۔
درویش نے سرمد کا تابوت، حافظ عبداللہ کے ساتھ مل کر اٹھایا اور آگے لا کر مزار کے پاس پوری طرح روشنی میں رکھ دیا۔  طاہر کے وضو کر کے لوٹ آنے پر درویش نے تابوت کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کی جانب دیکھا جو اس سے کچھ دور رک گیا تھا۔
"پگلے۔  تو نے مجھ سے عشق کے قاف کے بارے میں پوچھا تھا۔ یاد ہے ناں ؟ "
" ہاں بابا۔  " طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔
"تو لی۔  آج عشق کے قاف سے بھی آشنا ہو جا۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔ "عشق کا قاف۔۔۔ تجھے یاد ہے پگلے۔  سرمد کے آخری الفاظ کیا تھے؟"
"ہاں بابا۔ " طاہر نے آنکھیں بند کر کے جیسے کچھ یاد کرنا چاہا۔
"تو دہرا ذرا ان کو۔ " درویش کی آنکھیں بھی بند ہو گئیں۔  حافظ عبداللہ، آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی خاموشی بھری حیرت مگر پورے دھیان سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ سکینہ، صفیہ اور ریحا کا بھی یہی حال تھا۔
" اس نے کہا تھا۔  قل ھواللہ احد۔۔۔ "
"تو عشق کا قاف سمجھ میں نہیں آیا اس وقت تجھے؟" ایک دم درویش نے آنکھیں کھول دیں۔
"بابا۔۔۔ " طاہر کا اندر باہر جیسے روشن ہو گیا۔  اس نے ایسی نظروں سے درویش کو دیکھا جن میں حیرت کے ساتھ ساتھ ادراک کی لپک بھی تھی۔
"ہاں رے۔ " درویش کے ہونٹوں پر بڑی پُراسرارمسکراہٹ تھی۔  " عشقِ مجازی جب انسان کا ہاتھ عشقِ حقیقی کے ہاتھ میں دیتا ہے تو شہادت مانگتا ہے اس کے ایک ہونے کی۔  اس کے احد ہونے کی۔  اس کے لاشریک ہونے کی۔ جانتا ہے کیوں پگلے؟"درویش نے اس کی جانب مستی بھری نگاہوں سے دیکھا۔
"کیوں بابا؟" طاہر نے یوں پوچھا، جیسے کسی سحر میں گرفتار ہو۔ اس کی آواز میں عجیب سا کیف چھلک رہا تھا۔
"اس لئے کہ عشق کی انتہا ہے عشق کا قاف۔  وہ جو عشق کا سب سے پہلا مبتلا ہے  اس نے جب چاہا کہ خود کو دیکھے، تو اس نے اپنے نور سے ایک مٹھی بھری اور کہا۔  "محمد ہو جا۔ " اور جب اس کا اپنا نور مجسم ہو کر اس کے سامنے آ یا تو وہ خود اپنے نور پر عاشق ہو گیا۔ اس نے اپنے نور کو اپنا حبیب بنا لیا۔ کہا۔  "میرا حبیب ہو جا۔ "پھر دوئی کا تصور تک مٹانے کے لئے، اس نے اپنے حبیب سے اپنے ہونے کی، اپنے احد ہونے کی، اپنے واحد ہونے کی شہادت چاہی اور کہا۔  "قل (کہہ دے)۔ "
حبیب نے پوچھا۔  "کیا کہہ دوں ؟"
محب نے فرمایا۔ "قل ھو اللہ احد۔۔۔  کہہ دے شہادت دے کہ اللہ ایک ہے۔ "
حبیب نے شہادت دی اس کی وحدانیت کی۔  اس کے لا شریک ہونے کی۔  اس کے احد ہونے کی۔ اس کے خالق ہونے کی۔  اس کے معبود ہونے کی۔  اس کی وحدانیت کی گواہی دینا اس کے حبیب کی سب سے پہلی سنت ہے۔

*  *  *


پھر جب اس نے آدم کو بنایا تو اس میں عشق کا یہ جذبہ سب سے پہلے ودیعت کیا۔  عشق۔۔۔  اسی خالقِ واحد کی سنت ہے جسے جو اختیار کرتا ہے، اسے پہلے عشقِ مجازی کی سیڑھی چڑھنا پڑتی ہے۔  عشق کے عین یعنی عبادت، عجز اور عبودیت کے بعد عشق کے شین یعنی شک کی باری آتی ہے۔  تب بندے کو سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے خلوص میں ، اپنے جذب میں ، اپنے عشق کی انتہا کے بارے میں ہر وقت اس شک میں مبتلا رہے کہ ابھی اس میں کچھ کمی ہے۔ اس شک سے اپنے عشق کو مہمیز کرتا رہی۔  بتایا جاتا ہے کہ جس سے عشق کیا جاتا ہے اس کی توجہ پانے کے لئے، اس کی نظر میں جگہ پانے کے لئے اس کی عزیز ترین شی، جس سے وہ خود بے پناہ پیار کرتا ہو، کو اپنا حبیب بنا لیا جائے۔  پگلے۔  یہ وہ پڑاؤ ہے جس کے بعد منزل ہی منزل ہے۔  اللہ کا حبیب جس کے لئے اس نے کائنات یہ کہہ کر بنائی کہ "اے حبیب۔  اگر ہم نے آپ کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو کچھ بھی نہ بناتے"۔  بندہ اس پڑاؤ پر اپنے معبود کے محبوب کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔  اپنے عشق، اپنے جذبے، اپنے خلوص میں کمی کا شک انسان کو اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں انسان اپنے اللہ کے حبیب کے عشق میں یوں بے خود ہو جاتا ہے کہ سمیعہ جان ہار کر اسلام کی پہلی شہید ہونے کا اعزاز پاتی ہیں۔  کیوں ؟ اس لئے کہ جان دینا قبول کر لیتی ہیں مگر اپنے حبیب کے بارے میں ناگوار کلمہ زبان پر لانا پسند نہیں کرتیں۔ تب اپنے بندے کو اپنے حبیب کے عشق میں مجذوب دیکھ کر محبوبِ برحق اس کے لئے عشق کا تیسرا پردہ بھی اٹھا دیتا ہے اور۔۔۔۔  اس مقام پر عشق کا قاف نمودار ہوتا ہے۔  تب بلال " احد احد " پکارتا ہے۔  اسے تپتی ریت پر لٹایا جاتا ہے۔  دہکتے انگاروں پر ڈالا جاتا ہے۔  ناک میں نکیل دے کر بازاروں میں گھمایا جاتا ہے۔ کانٹوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ کوڑوں سے کھال ادھیڑی جاتی ہے مگر ۔۔۔  اس کے لبوں سے احد احد کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔۔۔ قل ھو اللہ احد۔۔۔ عشق کا قاف نمودار ہوتا ہے تو حسین کے گلے پر خنجر چلتا ہے مگر احد احد کی پکار ہر قطرہ خون سے بلند ہوتی ہے۔  تن سے جدا ہو جاتا ہے مگر سر نیزے پر آویزاں ہو کر بھی قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔  یہ تلاوت وہ پیار بھری، محبت بھری گفتگو ہے جس کا عنوان عشق کا قاف ہے۔  عشق کا قاف جس پر نازل ہو جاتا ہے ناں۔  اسے کسی دُکھ، کسی تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔  اسے ہر درد میں لذت اور ہر چوٹ میں سرور ملتا ہے۔  عشق کے قاف کی مستی ہی ایسی ہے کہ جسے اپنی باہوں میں لے لے اسے اپنے معبود کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔  اور جسے اس کے سوا کچھ نہیں سوجھتا وہ اس کے حضور مقبول ہونے کے لئے کیا کرے۔  اپنی جان نہ دے دے تو کیا کرے؟" درویش کے لبوں سے چیخ کی صورت ایک نعرہ مستانہ نکلا اور اس نے اپنا گریبان تار تار کر ڈالا۔
"بابا۔ " طاہر نے بمشکل پلکیں وا کیں۔  اسے لگ رہا تھا اس کی آنکھوں پر مستی کا، سرور کا، کیف کا بے اندازہ بوجھ ہے جو اس سے اٹھائے نہیں اٹھ رہا۔
"ہاں۔ " وہ پھر چیخا۔  " وہ اس پر اپنی جان نہ دے دے تو کیا کرے۔  اس سے بڑھ کر اس کے پاس ہے کیا جو وہ اس کی نذر کرے۔ " وہ روتا ہوا گھٹنوں کے بل گر پڑا۔
"قل ھو اللہ احد۔۔۔  عشق کا قاف۔۔۔  اس کے واحد، محبوبِ اول اور عزیز ترین ہونے کی شہادت۔  اور شہادت لکھی کس سے جائے گی پگلی۔  خون سے۔  اپنے خون سے۔  زبانی کہہ دینا کیا کافی ہوتا ہے؟ نہیں۔  ہر گز نہیں۔  شہادت دی ہے تو اسے لکھا بھی جائے گا اور عشق، اپنے عاشق کو اپنی دلہن تب مانتا ہے جب سرخ جوڑا پہن کر شہادت دی جائے۔  اپنے خون میں ڈبویا ہوا سرخ جوڑا۔ عشق کا قاف۔۔۔  قل ھواللہ احد۔۔۔  اس کی وحدانیت کی گواہی۔  اس کے لاشریک ہونے کی گواہی۔ اس کے محبوب ترین ہونے کی گواہی۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ " درویش کہتا ہوا زمین پر سر بسجود ہو گیا۔  ایک لمحے بعد طاہر بھی لہراتا ہو ا اس کے قریب ڈھیر ہو گیا۔
سب لوگ گونگے بہرے بنے چپ چاپ کھڑے دیکھ رہے تھے۔  سن رہے تھے۔  کسی کے جسم و جان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے بڑھ کر ان میں سے کسی ایک کو بھی اٹھاتا۔
پھر حافظ عبداللہ نے اپنی جگہ سے حرکت کی۔  وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے قریب آیا اور جھجکتے جھجکتے درویش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پھر گھبرا کر ایک دم اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔  اسے لگا جیسے اس نے جلتا ہوا انگارہ چھو لیا ہو۔
اسی وقت درویش کے جسم میں حرکت ہوئی۔  وہ آہستہ سے اٹھا اور اشکوں میں تر اس کا چہرہ دیکھ کر ان کے دل موم کی طرح پگھل گئی۔  ان کا جی چاہا، اس نرم و گداز چہرے کو دیکھتے رہیں۔ تکتے رہیں۔
درویش نے پاس پڑے طاہر کی جانب دیکھا اور اس کی آنکھوں میں بے پناہ پیار امڈ آیا۔  اس نے طاہر کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
"پگلے۔ " دھیرے سے اس نے پکارا۔  "ابھی بات باقی ہے رے۔  اٹھ جا۔  "
اور طاہر زمین سے اٹھ گیا۔  اس کا چہرہ۔۔۔  اس کا اپنا چہرہ لگتا ہی نہ تھا۔  عجیب سا نور چھایا ہوا تھا اس پر۔  آنکھیں بڑی مشکل سے کھول کر اس نے درویش کی جانب دیکھا۔
"اٹھ جا رے۔ " درویش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑ اکر دیا۔  " آ۔  اب آخری بات سمجھا بھی دوں تجھے اور دکھا بھی دوں۔ "وہ اس کا ہاتھ تھامے تابوت کے سرہانے آ کھڑا ہوا۔
"تم سب لوگ بھی آ جاؤ۔  کیا اپنے شہید کا، عشق کے قاف کے گواہ کا دیدار نہ کرو گے؟"
درویش نے کہا تو سب لوگ یوں دبے پاؤں چلتے ہوئے تابوت کے پاس آ گئے، جیسے ان کی ذرا سی آہٹ سرمد کے آرام میں خلل ڈال دے گی۔ حافظ عبداللہ، آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی درویش کے بالکل سامنے اور سکینہ، ریحا، بیگم صاحبہ اور صفیہ تابوت کے پیروں کی جانب تھیں۔
"وہ جو عشق کا خالق ہے۔  جب اس کا بندہ اس کے عشق کے قاف، اس کی وحدانیت کی گواہی اپنے خون سے دیتا ہے ناں تو وہ اس کے لئے پہلا انعام تو یہ رکھتا ہے کہ وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے حضور اذنِ باریابی دے دیتا ہے۔ " درویش نے ایک انگلی اٹھائی۔
"دوسرا انعام یہ دیتا ہے کہ اس کی شہادت، اس کی گواہی دینے پر اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کی شہادت، اس کی قربانی قبول فرما لیتا ہے۔ "اس نے دوسری انگلی اٹھائی۔
"اور تیسرا انعام یہ دیتا ہے کہ اپنے شہید کو عمرِ جاوداں ، ابدی زندگی، لازوال حیات عطا کر دیتا ہے۔  وہ بظاہر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔  اسے قبر میں بھی اتار دیا جاتا ہے مگر وہ فرماتا ہے کہ "جو اس کی راہ میں شہید کئے جائیں ، انہیں مردہ مت کہو۔  وہ زندہ ہیں۔  انہیں اس کے ہاں سے رزق دیا جاتا ہے مگر ہم لوگوں کو ان کی زندگیوں کا شعور نہیں۔ " درویش نے تیسری انگلی اٹھائی۔
سب لوگ حیرت سے بُت بنے درویش کی جانب دیکھ رہے تھے۔  اس کی باتیں ان کے دلوں میں اتر رہی تھیں۔  کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔  جی چاہتا تھا وہ کہتا رہے اور یہ سنتے رہیں۔ عمر تمام ہو جائے مگر اس کی بات نہ رکے۔
"وہ جو کہتا ہے اس کا دوسرا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔ " درویش نے ان کے خوابیدہ چہروں پر نگاہ ڈالی۔  " اگر اس نے کہا کہ شہید زندہ ہے تو وہ زندہ ہے۔ یہ دیکھو۔ "
درویش نے تابوت سے تختہ اٹھا دیا۔
وقت رک گیا۔  لمحے ساکت ہو گئی۔  ہر شے کو قرار آ گیا۔ صرف ایک انجانی خوشبو تھی جو ان کے سروں پر تھپکیاں دے رہی تھی۔  انہیں اندر باہر سے جل تھل کر رہی تھی۔  ان کے چاروں طرف، اوپر نیچے، ہر طرف اسی ایک مہک کا راج تھا۔
ان کی نظروں کے سامنے سرمد کا چہرہ کیا آیا، دل دھڑکنا بھول گئے۔ پلکوں نے حرکت کرنا چھوڑ دیا۔ دماغوں سے شعور کی گرفت ختم ہو گئی۔ ان کے جسم تنکوں سے ہلکے ہو کر جیسے ہوا میں اڑنے لگے۔ وہ حیرت اور عقیدت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے۔
گلاب جیسے ترو تازہ سرمد کے لبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کے جسم کے ہر زخم سے خون رِس رہا تھا۔  رِس رِس کر تابوت کی تہہ میں جم رہا تھا۔  اس کے دل کے زخم پر مانیا نے شال کا جو ٹکڑا باندھا تھا، وہ اب بھی زخم سے نکلنے والے خون میں تر ہو رہا تھا۔ ایک لازوال سکون کے ہالے میں دمکتے سرمد کے چہرے سے یوں لگتا تھا کہ وہ ابھی آنکھیں کھول دے گا۔  ابھی بول اٹھے گا۔  ڈاکٹر ہاشمی نے حافظ عبداللہ کا ہاتھ تھام کر اپنے امڈ آنے والے آنسوؤں کو راستہ دے دیا۔  بیگم صاحبہ کی نم آنکھیں ، سکینہ کی آنکھوں میں چھاتی ہوئی دھند اور۔۔۔  صفیہ کا لرزتا کانپتا جثہ، اس بات کا شاہد تھا کہ ان میں سے کسی کو بھی سرمد کی موت کا یقین نہیں آ رہا۔
" یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" اچانک آدیش کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔ اس نے کہا اور ریحا کی طرف دیکھا، جو اسی کی طرح نظروں میں بے اعتباری لئے سرمد کے چہرے اور زخموں کو حیرت سے تک رہی تھی۔  دونوں کی نظریں ملیں۔ اسی وقت درویش نے آدیش کی جانب نگاہ کی۔
"کیا نہیں ہو سکتا رے؟ کچھ ہمیں بھی تو بتا۔ " اس کے ہونٹوں پر بڑی پُراسرار مسکراہٹ تھی۔ اس نے آہستہ سے ساتھ کھڑے طاہر کا ہاتھ تھام کر ہولے سے تھپتھپایا جس کے چہرے پر حیرت کے بجائے ایک فخر، ایک ناز دمک رہا تھا۔
"یہ۔۔۔  یہ۔۔۔ " آدیش نے دایاں ہاتھ سرمد کے چہرے کی طرف دراز کر دیا۔  "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ "
"کھل کر بول ناں۔ " درویش نے اسے ڈانٹا۔  "کیوں سب کو خلجان میں مبتلا کر رہا ہے۔  کیا نہیں ہو سکتا؟ بول۔ "
 آدیش کا ہاتھ پہلو میں بے جان ہو کر گر پڑا۔  اس نے ایک نظر پاگلوں کی طرح سرمد کے چہرے کو تکتی ریحا کو دیکھا پھر سرمد کے چہرے پر نگاہ جما دی۔
"جس رات سرمد کو قتل کیا گیا، اس دن صبح میں نے اپنے سامنے اس کی شیو کرائی۔  خود اس کے ناخن تراشے تھے۔  اس بات کو آج آٹھ سے دس دن ہو چکے ہیں مگر ۔۔۔ "اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
"مگر۔۔۔" درویش نے طاہر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ "مگر آج اس کے ناخن بھی بڑھے ہوئے ہیں اور داڑھی بھی۔  کیوں ؟ یہی بات ہے ناں ؟"اس نے آدیش کی جانب بچوں جیسی خوشی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔۔ " آدیش کے لبوں سے سرگوشی سی نکلی۔
"یہی سیدھی سی بات تو میں سمجھا رہا ہوں تمہیں۔  " درویش نے مست آواز میں کہا۔  "میرے اللہ نے کہا کہ شہید وہ ہے جو اس کی راہ میں جان دے اور یہ کہ شہید زندہ ہے، اسے رزق دیا جاتا ہے۔  عشق کے قاف کا نکتہ سمجھانے کے لئے یہ شہید کہاں سے چل کر یہاں آیا ہے؟ کیا کسی مردے کے ناخن اور بال بڑھتے ہیں ؟ نہیں ناں۔  تو اور شہید کیسے بتائے کہ وہ زندہ ہے۔  کہو تو ابھی زبان سے اس کی وحدانیت کی گواہی دے دے۔  مگر سوچ لو کیا تم اسے برداشت کر سکو گے؟ کچھ اور ثبوت درکار ہے تمہیں ؟"
"نہیں بابا نہیں۔ " آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔ " اب کسی گواہی، کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔  سب کچھ روشن ہو گیا۔  سب کچھ عیاں ہو گیا۔  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔  محمد اس کے رسول ہیں۔ " اس نے یوں کہا جیسے کوئی ماورائی طاقت اس سے کہلوا رہی ہے۔  " اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ " اس کے لبوں سے نکلا اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ گرتے گرتے اس کے ہاتھ تابوت کی دیوار پر آ ٹکی۔  اس نے ماتھا ہاتھوں کے درمیان تابوت کی دیوار پر ٹیک کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ہونٹ اب بھی متحرک تھے۔
"سرمد۔۔۔ " اچانک ریحا کی بھیگی ہوئی سرگوشی نے ان سب کے حواس پر تھپکی دی۔  وہ تابوت میں لیٹے سرمد کے چہرے کو والہانہ دیکھے جا رہی تھی۔  " میں جان گئی تم زندہ ہو سرمد۔  میں تمہارے سامنے تمہارے سچے معبود کا کلمہ پڑھتی ہوں۔  وہ جس کا فرمان اتنا سچا ہے وہ خود کیسا سچا ہو گا؟ گواہ رہنا سرمد۔  میں نے تمہارے سامنے اس کی سچائی کا دامن تھاما ہے۔ " ایک پل کو رک کر اس نے سسکی لی۔  پھر کہا۔  " اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔ "
"جب بھی اس کے حبیب کا نام لو ریحا۔  اس پر درود ضرور بھیجو۔  سرمد کا آخری ورد یہی تھا۔  " آدیش نے سر اٹھایا اور ریحا کی جانب دیکھ کر کہا۔ "کہو۔ محمدرسول اللہ۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
"محمد رسول اللہ۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔ " ریحا نے بے اختیار کہا اور سرمد کے پیروں کی طرف زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
"واہ۔۔۔  واہ میرے رب۔ " درویش جھوم اٹھا۔  "کس کے نصیب میں کیا ہے اور اسے کہاں جا کر ملے گا، صرف تو جانتا ہے۔  صرف تو۔ "پھر اس نے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔  "حافظ۔  جا۔  ان کو وضو کرا لا۔  رات بہت جا چکی ہے۔ اب شہید سے اجازت لے لیں۔ "
حافظ عبداللہ آدیش اور ریحا کو لے کر ہینڈ پمپ کی طرف چل دیا۔
"کیوں بابا۔ " درویش نے جھکی کمر کے ساتھ کھڑے ڈاکٹر ہاشمی کی جانب مسکرا کر دیکھا۔  "کچھ قرار آیا۔  کچھ چین ملا۔  کچھ سکون ہوا؟"
"ہاں بابا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے کمر پر ہاتھ رکھ کر سیدھا ہوتے ہوئے کہا۔  "اب کوئی دُکھ نہیں۔  کوئی غم نہیں۔  اولاد کے چلے جانے کی پھانس تو آخری دم تک دل میں کسک بن کر چبھتی رہے گی مگر ۔۔۔ " انہوں نے سرمد کے پُرسکون چہرے کو یوں دیکھا جیسے اس کی شبیہ دل میں اتار لینا چاہتے ہوں۔  " اب بے قراری نہیں رہی۔  چین آ گیا ہے۔  سرمد نے مجھے ایک شہید کا باپ ہونے کا جو اعزاز دلایا ہے، اس کے بعد اب کوئی بے چینی، کوئی بے سکونی نہیں رہی۔ میرے اللہ۔ " انہوں نے آسمان کی جانب دیکھا۔  " تیرا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔  پھر بھی اپنے اس ناقص بندے کا شکر قبول فرما۔  الحمد للہ۔ الحمد للہ۔  الحمد للہ۔ " انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی ان پر ٹکا دی اور سر جھکا لیا۔
درویش جو انہیں مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا، ایک دم چونک پڑا۔  اس نے ٹبے کی طرف سے آنے والے راستے پر نگاہ جمائی۔  پھر بڑبڑایا۔ "وقت ہو گیا بابا۔  " پھر اس نے حافظ عبداللہ کے ساتھ وضو کر کے لوٹتے ان دونوں کو دیکھا۔  وہ پاس آ گئے تو درویش نے اپنے کندھے سے رومال اتارا اور ریحا کے سر پر دوپٹے کی طرح ڈال دیا۔ اس کا چہرہ یوں چھپ گیا جیسے اس نے گھونگٹ نکال لیا ہو۔
"سب لوگ شہید کا آخری دیدار کر لو۔  رخصتی کا وقت ہو گیا ہے۔ " درویش نے ذرا اضطراب سے کہا اور خود تابوت سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
وہ ایک دائرے کی شکل میں سرمد کے گرد آن کھڑے ہوئی۔ ان کا جی ہی نہ بھرتا تھا۔ مگر کب تک۔  آخر کتنی ہی دیر بعد نہ چاہتے ہوئے بھی سسکیوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے وہ ایک طرف ہٹ گئے۔  ڈاکٹر ہاشمی نے جھک کر سرمد کے ماتھے پر بوسہ دیا اور طاہر انہیں پرے لے گیا۔  بیگم صاحبہ نے سرمد کے گال کو چھو کر اپنی انگلیاں چوم لیں۔  سکینہ نے اسے سر جھکا کر سلام کیا اور صفیہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتی ہوئی الٹے پاؤں لوٹ گئی۔
 آدیش نے سرمد کو سیلوٹ کیا۔  جھک کر اس کے پاؤں چھوئے اور ایک طرف تن کر کھڑا ہو گیا جیسے پہرہ دے رہا ہو۔
طاہر لوٹا۔  چند لمحے سرمد کے چہرے کو والہانہ دیکھتا رہا۔  پھر اس نے ریحا کی جانب دیکھا جو سرمد کے پیروں کی جانب آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑے ہاتھ باندھے یوں خاموش کھڑی تھی جیسے کوئی من ہی من میں اپنے دیوتا کی پوجا کر رہا ہو۔ طاہر نے سرمد کی اوپری جیب سے خون میں بھیگا ہوا رومال نکالا جس میں مدینہ شریف کی مٹی بندھی تھی اور درویش کی جانب بڑھا دیا۔  اس نے اسے کھولا۔  ہتھیلی پر رکھ کر غور سے دیکھا۔  مٹی سرمد کے خون سے بھیگی ہوئی تھی۔ اس نے اسے بوسہ دیا اور حافظ عبداللہ کی طرف بڑھا دی۔
"اسے شہید کی قبر کی مٹی میں ملا دو حافظ۔ "
حافظ عبداللہ نے چپ چاپ مٹی والا رومال لیا اور مزار کے صحن میں کھدی قبر کی طرف بڑھ گیا۔  مدینہ شریف کی مٹی۔  اللہ کے حبیب کے دیار کی مٹی۔  ایک عاشق کی قبر کی مٹی میں ملا دی گئی۔  نصیب ایسے بھی تو اوج پر آتے ہیں۔
اس وقت اچانک درویش ریحا کے قریب آیا۔ سرمد کے دل کے زخم سے رِستے لہو میں شہادت کی انگلی ڈبوئی اور وہ لہو ریحا کی مانگ میں بھر دیا۔
"سدا سہاگن رہو۔  سہاگ کا یہ جھومر سدا تمہارے ماتھے پر جگمگاتا رہے میری بچی۔ " درویش نے کہا اور ایک دم ریحا کا چہرہ کھل اٹھا۔  اس کے چہرے پر سرخی بکھر گئی۔  اشک برساتی آنکھوں میں مسکراہٹ کے دیپ جل اٹھے۔ اس نے آخری بار سرمد کے چہرے کو جی بھر کے دیکھا پھر آنکھیں موند کر پیچھے ہٹ گئی۔  وہ اس کے چہرے کو ہمیشہ کے لئے اپنے قصر تصور میں سجا لینا چاہتی تھی۔
تب طاہر نے جھک کر سرمد کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے ہالے میں لیا۔  اسے پیار کیا اور دل پر جبر کر کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔  درویش آگے بڑھا اور تابوت کا تختہ گرا دیا۔  پھر اس نے طاہر کے ساتھ مل کر تابوت کو ایک طرف یوں رکھا کہ اس کے پیچھے صف باندھ کر کھڑا ہونے کی جگہ کشادہ ہو گئی۔
" آؤ بھئی۔  نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ " اس نے مردوں کو اشارہ کیا۔  ڈاکٹر ہاشمی، آدیش، طاہر اور حافظ عبداللہ اس کے پاس چلے آئی۔ عورتیں ان سے آٹھ دس فٹ دور برگد تلے خاموش کھڑی تھیں۔
"امامت آپ کرائیں بابا۔ " حافظ عبداللہ نے درویش کی جانب دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔ " درویش نے اندھیرے میں ایک طرف نظریں گاڑ دیں۔  " امام وہ آ رہا ہے۔ " اس نے اشارہ کیا۔
ان چاروں نے حیران ہو کر اس طرف دیکھا۔  مزار کی پچھلی طرف سے آنے والے راستے پر کوئی چلا آ رہا تھا۔  سفید براق لباس میں اس کے سر پر سفید عمامہ اور اس پر سفید ہی رومال اس طرح پڑا تھا کہ اس کا چہرہ نظر آنا ممکن نہیں تھا۔  درویش نے ڈاکٹر ہاشمی اور آدیش اپنے کو بائیں اور طاہر اور حافظ عبداللہ کو دائیں کھڑا کر لیا۔
بڑے نپے تلے قدم اٹھاتا وہ شخص آیا اور "السلام علیکم و رحمت اللہ"کہتا ہواسیدھا سرمد کے تابوت کے سامنے امام کی جگہ جا کھڑا ہوا۔  چاروں عورتیں حیرت اور اچنبھے سے آنے والے کو دیکھ رہی تھیں۔ اور حیرت میں تو حافظ عبداللہ بھی گم تھا۔  اس نے یہ آواز پہلے بھی سنی تھی۔  مگر کہاں ؟ اس کا دماغ الجھ گیا۔
اسی وقت امام نے تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔
"اللہ اکبر۔ " اس کے لبوں سے بڑی گمبھیر سی آواز نکلی۔
"اللہ اکبر۔ " مقتدیوں کے لبوں سے ادا ہوا۔۔۔  اور مقتدیوں میں حافظ عبداللہ بھی تو تھا، جس کا دماغ یاد داشت کے ورق الٹ رہا تھا۔
"السلام علیکم و رحمت اللہ۔ " امام نے باری باری دائیں بائیں سلام پھیر ا۔  سب نے اپنی اپنی جگہ چھوڑ دی۔  امام نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور رومال میں چھپے چہرے کو اور بھی سینے پر جھکا لیا۔  پھر جب اس نے " آمین" کہتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ان سب نے بھی آمین کہہ کر دعا ختم کر دی۔  حافظ عبداللہ نے چاہا کہ آگے بڑھ کر اس پراسرار ہستی کو جا لے مگر جب تک وہ اپنے جوتے پہنتا، آنے والا "السلام علیکم و رحمت اللہ" کہہ کر رخصت ہو گیا۔  ان سب نے چاہا کہ اس کا رستہ روکیں۔  اس سے آگے بڑھ کر ملیں۔ مگر ان کے قدم من من بھر کے ہو گئے۔ پھر جب تک وہ لوگ ہوش میں آتے، جانے والا مزار کی دیوار کے ساتھ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا۔
اور اس وقت اچانک حافظ عبداللہ کو یاد آ گیا کہ اس نے یہ آواز کہاں سنی تھی؟اس کے ہوش و حواس میں طوفان برپا ہو گیا۔  یہ وہی آواز تو تھی جو اس نے اس وقت سنی تھی جب وہ سکینہ کو سیلاب کے پانی سے نکال کر لایا تھا۔  درویش کے کمرے کے باہر رکا تو اندر سے امام کی اسی آواز میں مغرب کی نماز میں قرات کی جا رہی تھی۔  وہ اس آواز کو ہزاروں لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
"یہ۔۔۔  یہ کون تھے بابا؟" حافظ عبداللہ نے درویش کو بے قراری سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس کی نظریں خالی رستے پر بار بار بھٹک رہی تھیں۔
"یہ۔۔۔ " درویش ہنسا۔  "اولیاء اللہ زندہ ہوتے ہیں حافظ۔  وہ خود زندہ ہے تو اس کے دوست بھی تو زندہ ہی ہوں گے ناں۔  مُردوں سے تو اس کی دوستی ہونے سے رہی۔  زندہ کی نماز زندہ ہی پڑھائے گا ناں۔ مسافر ہوتا تو قصر پڑھتا۔  مقیم تھا۔  پوری پڑھا کر گیا۔ "
حافظ عبداللہ کو تو پتہ نہیں اس بات کی سمجھ آئی یا نہیں ، مگر طاہر کا اندر باہر روشن ہو گیا۔  اس نے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب دیکھا جو روشنیوں میں بقعہ نور بنا اسے مسکرا مسکرا کر تک رہا تھا۔  پلٹ کر اس نے درویش کی طرف دیکھا جس کے لبوں پر بڑی دل آویز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔  پھر اس کی دلوں کو چھو لینے والی آواز ابھری۔
"چلو بھئی۔  کندھا دو۔  شہید کو اس کے مسکن تک چھوڑ آئیں۔ "
طاہر جلدی سے آگے بڑھا۔  ان پانچوں نے تابوت کندھوں پر اٹھایا اور مزار کی طرف چل پڑی۔  جس کے صحن میں سرمد کا مسکن اس کا منتظر تھا۔ سرمد۔۔۔  جس پر عشق کا قاف نازل ہو گیا تھا۔  وہ سرمد، جو عشق کے قاف کی گواہی دینے کے لئے بڑی دور سے آیا تھا تھک گیا تھا۔  اب اسے آرام کرنا تھا۔
درویش سب سے آگے تھا۔  اس نے قدم اٹھایا اور بلند آواز میں صدا دی:
"کلمہ شہادت۔ "
"اشھد ان لا الٰہ الا اللہ۔  وحدہ، لا شریک لہ، و اشھد ان محمداً عبدہ، و رسولہ۔  "جواب میں ان کے ہونٹوں پر بے اختیار وردِ اکبر جاری ہو گیا۔
چہار جانب احدیت اور رسالت کے نور نے پر پھیلا دئیے۔  ہر دل کی دھڑکن میں یہی الفاظ سانس لے رہے تھے۔
دور آسمانوں میں فرشتے عشق کے قاف کے کشتہ کے استقبال کے لئے نغمہ سرا تھے:
"قل ھو اللہ احد۔ "
فرش سے عرش تک حور و غلماں زمزمہ پیرا تھے:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
دور برگد تلے صفیہ کے کندھے سے لگی کھڑی ریحا کا دل پھڑکا۔ اس کا سرمد پانچ کندھوں پر سوار اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔  ایک شفاف لہر اٹھی اور آنکھوں میں پھیلتی چلی گئی۔ منظر دھندلا گیا۔  تب اس نے محسوس کیا، کوئی اس کے کانوں کے قریب سرگوشیاں کر رہا ہے۔  اس نے آنکھوں میں امڈتے ہوئے چمکدار، بھیگے بھیگے غبار کو پلکیں جھپک کر رخساروں پر پھیلا دیا۔  کان لگا کر سنا۔۔۔ ارے۔  یہ تو اس کے سرمد کی آواز تھی۔  اس کے دل سے آ رہی تھی۔  دھیرے سے اسی مانوس مہک، اَن چھوئی خوشبو نے اسے اپنے ہالے میں لے لیا، جو اس صدا کا خاصا تھی اور غیر اختیاری طور پر اس صدا کا ساتھ دینے کے لئے ریحا کے ہونٹ بھی متحرک ہو گئی:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔ "

٭٭٭

تشکر: کتاب گھر ڈاٹ کام


عشق کا قاف قسط نمبر10

0 comments


طاہر، ایک ایسی این جی او کی سربراہ کی دعوت پر دہلی پہنچا تھا، جو انٹر نیشنل ایمنسٹی سے ربط رکھتی تھی۔ اس نے طاہر کی سرمد کے بارے میں بات سن کر اسے انڈیا آنے کو کہا اور اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انسانی حقوق کی حامی مس مانیا نے طاہر کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔  طاہر اسے ایک بار پہلے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں مل چکا تھا۔  وہ تبھی سے اس کی شیدائی تھی۔
اٹھائیس سالہ مانیا حسن کا شاہکار تھی۔ ابھی تک کنواری تھی اور بائیس تئیس سے زیادہ کی نظر نہ آتی تھی۔ اس کی نظروں میں طاہر کے لئے ایک خاص قسم کا والہانہ پن تھا۔
ہوٹل آگرہ ویو میں مانیا نے طاہر کے قیام کا انتظام و انصرام اپنی این جی او کی طرف سے کیا تھا۔  اپنے سوٹ میں پہنچ کر طاہر نے وقت ضائع کیے بغیر مانیا کے سامنے اپنا مسئلہ دوبارہ دہرایا۔  مانیا نے ساری بات سنی۔  چند لمحے غور کیا۔  پھر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے طاہر کی جانب دیکھا۔
"مسٹر طاہر۔ اس کے بارے میں مکمل معلومات کے لئے مجھے تھوڑا وقت درکار ہو گا۔ " وہ بولی تو جلترنگ سے بج اٹھی۔
"کتنا وقت؟" طاہر نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
"دو سے تین دن۔ کام اس سے بہت کم وقت میں بھی ہو سکتا ہے مسٹر طاہر۔  " اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "مگر میں کم وقت کے ٹارگٹ کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ "
"تو ٹھیک ہے۔  آپ کم سے کم وقت میں ریحا اور سرمد کے بارے میں ممکنہ معلومات حاصل کر کے مجھے بتائیے۔ "طاہر نے نرمی سے کہا۔  "میں آپ کا احسان مند رہوں گا۔ "
"میں یہ کام آؤٹ آف دی وے جا کر کروں گی مسٹر طاہر اور صرف اس لئے کہ آپ مجھے اپنے خاص دوستوں کی فہرست میں شامل کر لیں۔ " اس نے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔  "ورنہ تو یہ کام انڈین ایجنسیوں کے لئے بڑی دلچسپی کا حامل ہے کہ وہ اسے اپنا ٹارگٹ بنا کر معاملے کو سیاسی اور فوجی رنگ دے دیں۔ "
"میں سمجھتا ہوں۔  " طاہر نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔  " اور میں دوستی کے ناطے ہی آپ سے یہ درخواست کر رہا ہوں۔ "
"تو پھر احسان مندی کیسی مسٹر طاہر۔ " وہ ہنسی۔  "دوستی میں صرف حکم دیا اور مانا جاتا ہے۔ کیا نہیں ؟" اس نے طاہر کی نظروں میں جذب ہونے کی کوشش کی۔
" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مس مانیا۔  تو اس حکم کو مان کر آپ مجھے اپنی دوستی سے نوازئیے۔  یہ تو ٹھیک ہے؟" وہ مسکرایا۔
"بالکل۔  یہ بالکل ٹھیک ہے۔ " وہ کھل کر ہنسی۔ " تو اب مجھے اجازت دیجئے۔  میں ابھی سے یہ کام شروع کر رہی ہوں۔  ہاں۔ " وہ کھڑی ہو کر بولی۔  "مسٹر سرمد کا کوئی فوٹو ہے آپ کے پاس، تو مجھے دے دیں۔ "
جواب میں طاہر نے اپنے پرس سے پاسپورٹ سائز کا سرمد کا ایک فوٹو نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"کیا میں امید رکھوں کہ معاملات مکمل راز داری میں رہیں گے مس مانیا؟"طاہر نے مانیا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"یہ کہنے کی نہیں ، آزمانے کی بات ہے مسٹر طاہر۔  اور مجھے آزمایا جانا اچھا لگتا ہے۔ " وہ فوٹو تھام کر مسکرائی۔  پھر ہاتھ ہلاتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ "اپنا سیٹ آن رکھئے گا۔  ہمارا رابطہ صرف موبائل پر رہے گا۔ " وہ کہہ باہر نکل گئی۔
٭
کرنل رائے چھاؤنی نمبر سینتالیس کی تباہی کی رپورٹ پر یوں آگ بگولہ ہو رہا تھا جیسے کسی نے اسے دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی پر بٹھا دیا ہو۔
گٹھے ہوئے بدن، قابل رشک صحت اور سرخ و سفید رنگت کا مالک ناٹے قد کا کرنل رائے یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ چھاؤنی جو ان کے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتی تھی، یوں بربادی کے گھاٹ اترے گی کہ وہاں موجود بارہ ہزار میں سے صرف نو سو چھپن فوجی زندہ بچیں گے۔  ایمونیشن ڈپو کی تباہی اس پر مستزاد تھی۔  انکوائری کمیشن بٹھا دیا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کی رپورٹ بھی ٹائیں ٹائیں فش کا راگ الاپتی نظر آئے گی۔
وہ سگار دانتوں میں دبائے اپنے نجی آفس کا قالین روند رہا تھا۔ بار بار اس کی نظر میز پر پڑے ٹیلیفون سیٹ سے ٹکراتی اور مایوس ہو کر لوٹ آتی۔  اسے انتظار تھا ایک فون کا۔  بے چینی جب انتہائی حدوں کو چھونے لگی تو رک کر بجھے ہوئے سگار کو دوبارہ سلگایا۔  لائٹر جیب میں ڈال کر اس نے دو تین گہرے کش لئے اور پھر ٹہلنے لگا۔
اچانک فون کی بیل نے اسے چونکا دیا۔  لپک کر وہ میز کے قریب پہنچا اور تیزی سے ریسیور اٹھایا۔
"ہیلو۔  کرنل رائے اسپیکنگ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح وہ غرایا۔
"سر۔  میں کیپٹن آدیش بول رہا ہوں۔  جنرل نائر کا بھیجا ہوا آتنک وادی سیل میں پہنچ گیا ہے سر؟"
"میں آ رہا ہوں۔ " اس نے کہا اور ریسیور کریڈل پر پٹخ کر اضطراب کے عالم میں کمرے سے نکل گیا۔
اس نے اپنی ہی کوٹھی کے تہہ خانے میں تفتیشی سیل بنا رکھا تھا۔  خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کی زبان کھلوانے کے لئے اس کا ٹارچر سیل پوری فوج میں مشہور تھا۔  سب جانتے تھے کہ اس سیل کو فوجی سرپرستی حاصل ہے۔  یہاں ٹارچر کے ساتھ ساتھ علاج کے لئے بھی چار کمروں کا مختصر سا جدید ترین منی ہاسپٹل موجود تھا جہاں ان زخمیوں کی بہترین دیکھ ریکھ ہوتی تھی جنہیں مزید کچھ دیر زندہ رکھا جانا مقصود ہوتا تھا۔ یہاں قائم کسی ایک شعبے کا دوسرے سے براہ راست کوئی تعلق تھا۔  ہر کارکن کرنل رائے کے بعد کیپٹن آدیش کو جواب دہ تھا جو وہاں کا انچارج آفیسر تھا۔
اس سیل میں حسین ترجسمانی رشوت سے لے کر اذیت دینے کے جدید ترین طریقوں سے کھل کھلا کر کام لیا جاتا تھا اور کہیں نہ کہیں مجرم ضرور اپنا آپ ہار دیتا تھا لیکن یہ تجربہ بھی اسے ہو چکا تھا کہ کچھ دیوانے ایسے بھی ان کے ہاتھ لگتے تھے جو جان دے دیتے تھے مگر زبان کھولتے تھے نہ ہار مانتے تھے۔ ایسے لوگوں کو وہ بال آخر ہاتھ پاؤں باندھ کر تیزاب کے ٹب میں ڈبو دینے پر مجبور ہو جاتا تھا مگر تب بھی ان کے لبوں سے اللہ اکبر کے نعروں اور کلمہ طیبہ کے سوا کچھ ادا نہ ہوتا تھا۔  اس وقت اس کا جی چاہتا کہ اپنے سر پر موجود گنے چُنے بال بھی نوچ ڈالے۔  اس کی بے بسی اس کے ماتحتوں کو منہ چھپا کر ہنسنے پر مجبور کر دیتی، جس کا غصہ وہ گالیاں بک کر نکالتا۔
اپنے دماغ میں خیالاتی کھچڑی پکاتا وہ کوٹھی کی انیکسی کے ساتھ تہہ خانے میں قائم سنٹرلی ساؤنڈ پروف ٹارچر سیل کے دروازے پر پہنچا۔  دیوار میں دائیں ہاتھ ایک خانے میں لگی چمکدار میٹل پلیٹ پر انگوٹھا رکھ کر دبایا۔  اس کے انگوٹھے کی لکیریں شناخت میں آتے ہی دروازہ بے آواز کھل گیا۔  وہ تیزی سے سیڑھیاں اترا۔  اس کے پیچھے خود کار سسٹم کے تحت دروازہ بند ہو گیا۔  تین جگہ کھڑے گن مینوں نے اسے زوردار سیلوٹ کیا جنہیں نظر انداز کرتا ہوا وہ کاریڈور کا موڑ گھوم گیا۔  سامنے شیشے کی دیوار کے پار نیم اندھیرے کمرے کے عین درمیان کرسی کے بازوؤں اور پایوں کے ساتھ بندھا وہ آتنک وادی خون میں نہایا نظر آ رہا تھا جس کا سینے پر جھکا سر بتاتا تھا کہ وہ بیہوش ہے۔ اس کے عین اوپر چھت سے لٹکتا بے پناہ تیز روشنی دیتا مرکری بلب اپنے شیڈ سمیت ہولے ہولے آگے پیچھے ہل رہا تھا۔
"سر۔ " وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیپٹن آدیش کے ساتھ موجود تین فوجی سپاہیوں کی ایڑیاں بھی بج اٹھیں۔  ان کے سیلوٹ کا جواب سر کی ہلکی سی جنبش سے دیتا ہوا وہ آتنک وادی کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔
"اس نے کچھ بتایا؟" وہ نفرت سے چنچنایا۔
"نو سر۔  " کیپٹن آدیش نے کھٹ سے کہا۔  "ہم نے اسے اسی حالت میں وصول کیا ہے۔ جنرل نائر نے اس پر تشدد کی انتہا کر دی ہے مگر یہ تو جیسے گونگا ہے۔ "
"یہاں گونگے بھی بول اٹھتے ہیں ، تم جانتے ہو۔ " نخوت سے کرنل رائے نے کہا۔  "اسے ہوش میں لاؤ۔ "
فوراً ہی ایک فوجی نے کونے میں رکھی میز سے جگ اٹھایا اور پانی آتنک وادی کے سر پر دور ہی سے اچھال دیا۔
لرز کر سرمد نے حرکت کی اور ورم آلود پپوٹوں کو زور لگا کر کھولنے کی کوشش کی۔ ایک کراہ اس کے پھٹے ہوئے خون آلود ہونٹوں سے خارج ہوئی اور سر اٹھتے اٹھتے پھر ڈھلک گیا۔ تاہم اب وہ ہوش میں تھا۔
اسی وقت کیپٹن آدیش نے آگے بڑھ کر اس کے سر کے بال مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکے سے چہرہ اوپر اٹھایا اور بلب کی برمے جیسی تیز روشنی اس کی آنکھوں میں گھستی چلی گئی۔
"کیا نام ہے تمہارا؟" کرنل رائے اس کے سامنے آ گیا۔
جواب میں سرمد نے کراہتے ہوئے سر کے بال چھڑانے کی ناکام کوشش کی مگر کیپٹن آدیش نے اسے سختی سے قابو کئے رکھا۔
"جواب دو۔  کیا نام ہے تمہارا؟" جنرل کی آواز میں غراہٹ ابھری۔  ساتھ ہی اس کا دایاں ہاتھ گھوم گیا۔  تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ سرمد کے خون آلود ہونٹوں کے زخم پوری طرح کھل گئی۔  "بولو۔ " اب کے جنرل کا بایاں ہاتھ حرکت میں آیا۔  پھر وہ مسلسل اس پر تھپڑ، گھونسے اور لاتیں برسانے لگا۔ بالکل پاگلوں کے انداز میں وہ اس پر پل پڑا تھا۔
"یہ بیہوش ہو چکا ہے سر۔ " منہ سے کتوں کی طرح کف چھوڑتے اور ہانپتے جنرل کو جب کیپٹن آدیش نے بتایا تو وہ ہوش میں آ گیا۔
"جنرل نائر نے کچھ بتا بھیجا ہے اس کے بارے میں ؟" ایک طرف ہٹ کر اپنے خون آلود ہاتھ ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"یہ فارم ساتھ آیا ہے سر۔ " کیپٹن آدیش نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
جنرل نے اس کاغذ پر نظر دوڑائی۔ نام سے لے کر پتے تک کے آگے "نامعلوم" کا لفظ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ غصے سے اس نے کاغذ کے پرزے اڑا دئیے۔ پھر کیپٹن کی طرف دیکھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔  خوب پیٹ بھر کر کھلاؤ اور سونے مت دو۔  سمجھے۔ " کرنل نے سرمد کے بیہوش سراپے پر نفرت آلود نگاہ ڈالی اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔ "میں اپنے آفس میں موجود ہوں۔  پل پل کی خبر دیتے رہنا۔ "
"یس سر۔ " کیپٹن آدیش نے فوجی انداز میں کہا اور سیلوٹ کے لئے اس کے ساتھ باقی تینوں فوجیوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔
٭
دوسرے دن شام تک طاہر نے اپنے طور پر فون پر کچھ لوگوں سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کرنا چاہیں مگر کوئی امید افزا بات سامنے نہ آئی۔  وہ ہوٹل کا فون قطعاً استعمال نہ کر رہا تھا۔  اس کی پوزیشن بڑی نازک تھی۔  بار بار سوچتا کہ ایک دم مانیا پر اعتماد کر لینے کا اقدام کہیں اسے کسی مشکل میں نہ ڈال دے مگر طاہر کے پاس رسک لینے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ تاہم اس کی چھٹی حس اسے بتا رہی تھی کہ اس نے مانیا کے بارے میں جو اندازہ لگا کر اس پر اعتماد کیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔
اس وقت وہ ٹی وی پر ایک نیوز چینل دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"یس۔ " طاہر نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز بند کر دی اور دروازے کی جانب دیکھا، جو اندر سے لاک نہیں تھا۔ "کم ان۔ "
دروازہ کھلا اور ہنستی مسکراتی مانیا اندر داخل ہوئی۔
"گڈ ایوننگ مسٹر طاہر۔  "
"گڈ ایوننگ مس مانیا۔ " طاہر نے خوش اخلاقی سے جواب دیا اور بیڈ سے اٹھ گیا۔  اس نے طاہر کا ہاتھ جو تھاما تو خود طاہر ہی کو واپس کھینچنا پڑا۔ "بیٹھئے۔ " طاہر اس کے ساتھ صوفے تک چلا آیا۔
" آپ نے تو رابطہ نہ کرنے کی قسم کھا لی شاید۔  میں انتظار کرتی رہی کہ آپ کنٹیکٹ کریں گے۔ " وہ مسکرا کر بولی۔
"اعتماد کرنا آتا ہے مجھے مس مانیا۔  آپ جب تک رابطہ نہ کرتیں میں اسی اعتبار کے سہارے ٹیک لگا کر وقت گزارتا رہتا کہ آپ میرے کام میں مصروف ہیں۔ " طاہر نے مانیا کو مکھن میں غوطہ دیا۔
"اوہ نو۔ " وہ حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی۔  "اتنی بلندی سے مت نوازیے مسٹر طاہر کہ میں نیچے دیکھنا ہی بھول جاؤں۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں مس مانیا۔ بہر حال اب میں آپ کی طرف سے کسی اچھی خبر کے لئے بیتاب ہوں۔ "اس نے انٹر کام پر لوازمات کا آرڈر دیا اور مانیا کے سامنے آ بیٹھا۔
" خبر نہیں۔  خبریں مسٹر طاہر۔  اب وہ اچھی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو گا۔ " مانیا نے اپنے کندھے سے بڑا نازک سا شولڈر بیگ اتارا۔  کھولا اور اس میں سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر اپنے سامنے پڑی میز پر پھیلا لیا۔  "میں ترتیب سے بتاتی ہوں۔ "
طاہر کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ وہ اضطراب آلود نگاہوں سے مانیا کو دیکھنے لگا جس نے سسپنس سے پرہیز کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
"بیس جنوری کو سرمد سعودی عرب سے دہلی پہنچا۔ اس نے اپنے قریبی پولیس سٹیشن میں اپنی آمد کا کوئی اندراج نہیں کرایا۔  وہ کہاں گیا؟ کہاں ٹھہرا؟ کس سے ملا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔  ہاں۔  اس کے حلئے کا ایک آدمی اکیس جنوری کو ٹاٹا بس سروس سے سرینگر کے لئے روانہ ہوا۔  سرینگر سے وہ کہاں گیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ "
سانس لینے کے لئے مانیا رکی اور اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جو ہمہ تن گوش ہو کر اسے سن رہا تھا۔
"ریحا لندن سے واپس آئی۔  واپسی کے تقریباً تین ہفتے بعد وہ ایک دن کے لئے دوبارہ لندن گئی۔ سرمد کے فلیٹ سے اس کے ڈاکومنٹس لے کر پاکستان پارسل کئے اور اگلے دن انڈیا لوٹ آئی۔ اس کی لندن جانے کی ڈیٹ تئیس جنوری اور واپس لوٹنے کی چوبیس جنوری ہے۔  اس کے بعد سے اب تک وہ سرینگر میں اپنے گھر پر موجود ہے۔ اس نے باہر آنا جانا بہت کم کر دیا ہے۔  ہر وقت ہنسنے کھیلنے والی ریحا اب چُپ چُپ رہتی ہے۔  سہیلیوں سے بھی کم کم ملتی ہے۔  ینگسٹرز کلب کی رکن ہے مگر وہاں جانا بھی تقریباً چھوڑ چکی ہے۔  اس کے والدین اس کی اداسی سے پریشان ہیں مگر وہ اس کی کوئی وجہ نہیں بتاتی۔ ہاں۔  ایک معمول بنا لیا ہے اس نے کہ ہر شام سیتا مندر جا کر دیا جلاتی ہے جو اس کے گھر سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ "
"حیرت انگیز۔ " طاہر نے تحسین آمیز نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا تو وہ کھل اٹھی۔  "اتنے کم وقت میں ایسی امید افزا معلومات حاصل کر لینا آپ ہی کا کام ہے مس مانیا۔ "
"تھینکس مسٹر طاہر۔ " وہ مسکرا کر بولی۔  اس کی نظروں میں جلتے دیپ طاہر کے چہرے پر لو دے رہے تھے۔
"لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان معلومات سے ہمارا مسئلہ تو حل نہیں ہوا۔ " طاہر نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
"بالکل درست۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔ " آپ غلط نہیں کہہ رہے مسٹر طاہر۔  تاہم میں ایک راستے کی نشاندہی کر سکتی ہوں جس پر چل کر ہم سرمد کے بارے میں مزید کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ "
"وہ کون سا راستہ ہے مس مانیا؟" طاہر نے اس کی جانب بغور دیکھا۔
"ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔  ریحا سے ملنا ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ "
"ہاں۔  یہ خیال تو میرے ذہن میں بھی آ رہا تھا۔ " طاہر نے پُر خیال لہجے میں کہا۔
"بس۔  تو وہاں چلتے ہیں۔  اگر میں واقعات اور صورتحال کے ڈانڈے ملانے بیٹھوں تو نجانے کیوں مجھے سرمد اور ریحا میں ایک انجانا سا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ شاید ریحا سے مل کر ہمیں کوئی سِرا ہاتھ آ جائے۔ "
"مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مس مانیا۔ " طاہر نے اس کی تائید کی۔
"تو پھر طے رہا کہ کل صبح ہم سرینگر چل رہے ہیں۔ " مانیا نے جیسے فیصلہ سنایا۔  " آپ اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں۔ تاکہ میں ضروری کاغذی کارروائی مکمل کرا لوں۔ "
طاہر نے اپنا پاسپورٹ مانیا کے حوالے کر دیا جسے اس نے اپنے شولڈر بیگ میں ڈال لیا۔ اسی وقت دونوں کی نظریں ملیں۔  طاہر کی نگاہوں میں نجانے کیا تھا کہ مانیا کا دل یکبارگی زور سے دھڑک اٹھا۔ طاہر بڑی بے باکی سے اسے گھور رہا تھا اور ایک بار جب اس کی نظریں مانیا کی نرم و نازک گردن سے نیچے اتریں تو وہ خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔
"مس مانیا۔" طاہر نے جیسے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔ "ہمیں ریحا سے ملنے میں کس قسم کی دشواری ہو سکتی ہے؟ اس پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ "
"کوئی دشواری نہیں ہو گی مسٹر طاہر۔ " وہ بھی سنبھل گئی۔  "ایک بات جس کا میں نے پہلے آپ سے ذکر نہیں کیا، یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے ریحا کا ایڈریس دیا تھا میں تبھی ایک حد تک مطمئن ہو گئی تھی اور مجھے لگا تھا کہ ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔ "
"وہ کیوں ؟" طاہر چونکا۔
"اس لئے کہ میں تھوڑا بہت ریحا کے باپ کو جانتی ہوں۔ "
"شیام رائے کو؟" طاہر حیران ہوا۔
"شیام رائے نہیں۔  کرنل شیام رائے کو۔  ریحا کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہے۔ "
"کیا؟"طاہر اچھل پڑا۔  پھر اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے سنبھالا لیا۔  "میرا مطلب ہے آپ کس طرح اسے جانتی ہیں ؟" اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
"کرنل شیام رائے کے نجی سیل میں میرا ایک دور کا کزن ملازم ہے۔  اب تک کی معلومات میں اسی سے حاصل کر پائی ہوں۔ "مانیا نے بتایا۔
"اوہ۔۔۔ " طاہر بظاہر مطمئن سا ہو گیا۔
"اور میں چاہوں گی کہ اس سے ملاقات ہم کرنل رائے کی لا علمی میں کریں۔  یہی ہمارے لئے بہتر ہو گا۔  وہ فوجی آدمی ہے اور آپ مسلمان۔  شاید وہ اسے پسند نہ کرے۔ بات کوئی اور رنگ اختیار نہ کر جائے، اس لئے ہمیں محتاط رہنا پڑے گا۔ "
"مس مانیا۔  آپ میرے لئے خطرہ مول لے رہی ہیں۔ " طاہر نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"جی نہیں۔ " اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی۔ " میں صرف آپ کی دوستی جیتنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ "
"وہ تو آپ جیت چکیں مس مانیا۔ " طاہر کی نظروں میں ا س کے لئے کوئی پیغام تھا۔
"تو میں اس کا ثبوت چاہوں گی مسٹر طاہر۔ "اس نے نگاہوں کی کمند طاہر کی جانب اچھالے رکھی۔
" ثبوت آپ کو سرینگر سے واپسی پر مل جائے گا مس مانیا۔ "
"شرط ہے کیا؟" وہ بڑے دل آویز انداز میں مسکرائی۔
"بالکل نہیں۔  " طاہر نے دھیرے سے کہا۔  "ذہنی فراغت چاہتا ہوں اور بس۔ "
"میں انتظار کروں گی اس پل کا مسٹر طاہر جب۔۔۔ "
اسی وقت ویٹر نے دروازے پر دستک دی اور مانیا کی بات ادھوری رہ گئی۔  مگر نہیں ، اس کی ادھوری بات طاہر کی نظروں میں ابھرتی اس چمک نے پوری کر دی تھی جو ایک بار پھر اس کے نیم برہنہ گداز شانوں سے ٹکرا کر پیدا ہوئی تھی۔
*  *  *



اذیتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
سرمد کو زبردستی حلق تک مرغن غذا کھلا کر بٹھا دیا جاتا۔  جونہی اسے غنودگی ہونے لگتی، نیند کی زیادتی اس کی پلکوں پر بوجھ ڈالتی تو سر کے بال کھینچ کھینچ کر، تھپڑوں اور گھونسوں سے اسے جاگنے پر مجبور کیا جاتا۔  کبھی اسے فاقے کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا۔  مسلسل فاقہ اسے ضعف کے مارے ہلنے جلنے سے معذور کر دیتا مگر اسے کھانے کے نام پر ایک کھیل اور پینے کے لئے پانی کا ایک قطرہ نہ دیا جاتا۔  کئی بار کرنل رائے نے فضلے سے بھرا ڈبہ اس کی ناک کے عین نیچے لٹکا کر کئی کئی گھنٹے تک غیر انسانی حالت میں رکھا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگایا گیا ہو۔  ان زخموں میں نمک چھڑکا جاتا۔  مرچیں بھر دی جاتیں۔ زخموں پر بھوری چیونٹیاں چھوڑ دی جاتیں جو اس کا گوشت نوچتیں تو اس کی چیخیں ٹارچر سیل میں پورا پورا دن گونجتی رہتیں۔ کراہیں رات رات بھر اس کے لبوں سے خارج ہوتی رہتیں۔  سگریٹ سے اس کا سارا جسم داغ دیا گیا۔  پیروں کے ناخن کھینچ دیے گئے۔ تپتے لوہے کی پلیٹوں پر پہروں کھڑا رکھا گیا۔  برف کی سلوں پر گھنٹوں لٹایا گیا۔ جسم کے نازک حصوں پر الیکٹرک شاک دیا گیا۔  اور ان سب اذیتوں سے چھٹکارے کا لالچ دے کر اس سے پوچھا جاتا۔
"تمہارا نام کیا ہے؟"
"تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟"
"اپنے ساتھیوں کے نام اور پتے بتاؤ۔ "
"اپنے گروپ کا نام بتاؤ۔ "
کرنل رائے کے ہر سوال کے جواب میں سرمد کے لبوں پر ایک مسکراہٹ ابھرتی اور وہ اپنے ورم آلود ہونٹوں کو بمشکل حرکت دیتے ہوئے کہتا۔
"میرا نام غلام ہے۔  میں اپنے آقا کا غلام ہوں۔ میرا ٹھکانہ میرے اللہ کی رضا اور محبت ہے۔  میرے ساتھی اللہ اور اس کا رسول ہیں۔  میرے گروپ کا نام عشقِ رسول ہے۔ "
یہ جواب کرنل رائے کے تن بدن میں آگ لگا دیتی۔ اب تک اس کا واسطہ بڑے بڑے سخت جان مجاہدین سے پڑا تھا مگر جس قسم کی باتیں سرمد کرتا تھا وہ اسے سر تا پا شعلہ بنا دیتیں۔  پھر وہ جتنا بھی ضبط کرنا چاہتا، سب بیسود ثابت ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ سرمد پر دن بدن اس کے ستم بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اس سخت جان آتنک وادی کا کیا حال کرے کہ اس کی زبان مطلوبہ معلومات کے لئے کھل جائے۔
کوئی اور ہوتا تو اب تک جان سے گزر گیا ہوتا مگر سرمد تھا کہ جیسے اس کے جسم میں ہر روز ایک نئی طاقت عود کر آتی تھی۔  کیپٹن آدیش نے اکثر محسوس کیا تھا کہ ہوش میں ہو یا نہ ہو، سرمد کے نیم متحرک ہونٹوں سے کچھ پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔  ایک روز اس نے کان لگا کر سنا اور جو الفاظ اس کے کانوں میں اترے ان کے اثر سے اس کے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔  دل کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔  اسے لگا جیسے وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکے گا۔ اس کے سارے جسم پر جو لرزا طاری ہوا تو حالت سنبھلتے سنبھلتے کئی منٹ لگ گئی۔  وہ لڑکھڑا کر پرے پڑی کرسی پر گر سا پڑا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔  اب بھی اس کے کانوں میں سرمد کی مستی میں ڈوبی ہلکی ہلکی آواز خوشبو انڈیل رہی تھی۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
سرمد کے ہونٹ یہی دہرا رہے تھے۔
یہ کیسے الفاظ تھے؟ کیا یہ اس مسلمان کا کوئی مذہبی اشلوک تھا؟ کوئی منتر تھا؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہ پایا مگر اس دن سے اس میں ایک تبدیلی آ گئی۔  اس دن کے بعد اس کا ہاتھ سرمد پر نہ اٹھا۔  اس کا جی ہی نہ چاہتا تھا کہ اسے اذیت دے۔  اسے تکلیف پہنچانے کا خیال ہی کیپٹن آدیش کو لرزہ بر اندام کر دیتا۔  اب اس کی کوشش ہوتی کہ سرمد پر دوسرے فوجیوں کے بجائے اسی کی ڈیوٹی لگی رہے تاکہ وہ اسے عقوبت سے بچائے رکھے۔  دن میں کئی بار اس کا جی چاہتا کہ وہ سرمد کے لبوں سے وہی طلسمی الفاظ پھر سنے جنہوں نے اس کی کایا کلپ کر دی تھی۔  ایسا وہ اس وقت کرتا جب سرمد بیہوش ہوتا اور اس کے آس پاس دوسرا کوئی نہ ہوتا۔  تب وہ چوری چوری اس کے لبوں سے کان لگا دیتا اور ان الفاظ کی مہک اپنی سماعت میں اتارنے لگتا۔  اس کا جی نہ بھرتا مگر اسے اپنے ارد گرد والوں کا خوف زیادہ دیر یہ مزہ لینے نہ دیتا۔  کئی بار اسے خیال آیا کہ یہ کوئی جادوئی الفاظ ہیں جنہوں نے اس کا دل سرمد کی طرف سے موم کر دیا ہے۔ مگر پھر اسے اپنی سوچ پر خود ہی یقین نہ آیا۔  اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو دور پھینک دیا۔  اگر یہ جادو ہوتا تو اب تک یہ آتنک وادی وہاں سے اڑنچھو ہو چکا ہوتا۔ اس کے ذہن میں اپنے دھرم کے حوالے سے جادو کا ایسا ہی تصور تھا۔
اس دن ٹارچر سیل کا فوٹو گرافر سرمد کی تصویریں ڈیویلپ کر کے لایا اور ایک لفافے میں بند کر کے کیپٹن آدیش کے حوالے کر گیا۔  یہ تصویریں کرنل رائے کو پاس کرنا تھیں۔  پھر انہیں آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی بھجوایا جاتا۔  تاکہ ان تصویروں کی خاص خاص مقامات پر تشہیر و ترسیل کے ذریعے سرمد کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتیں۔
کیپٹن آدیش نے لفافہ کھول کر دیکھا۔  اس میں کل آٹھ تصاویر تھیں۔ چار میں تو اس ٹارچر سیل کی درندگی اور بربریت عروج پر تھی اور چار تصویریں ایسے اینگل سے لی گئی تھیں کہ سرمد کا چہرہ بڑھے ہوئے شیو کے باوجود پہچانا جاتا تھا۔  تشدد کے آثار ان میں کم سے کم نمایاں تھی۔
اس نے تصویریں لفافے میں ڈالیں اور فرش پر بیڑیوں میں جکڑے پڑے بیہوش سرمد کی جانب دیکھا۔  وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر نجانے کس عالم میں سانس لے رہا تھا۔  ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے اور کیپٹن آدیش جانتا تھا کہ سرمد اب بھی انہی کیف اور الفاظ کا ورد کر رہا ہے جو اسے تبدیلی کی جانب کھینچے لئے جا رہے تھے۔
"پرسو رام۔ " اس نے دروازے کے باہر کھڑے سگریٹ پیتے فوجی کو آواز دی۔
"یس سر۔ " وہ سگریٹ مسل کر باسکٹ میں پھینکتا ہوا اندر چلا آیا۔
"میں یہ تصویریں جنرل صاحب کو دینے جا رہا ہوں۔  ڈیوٹی آنکھیں کھول کر دینا۔ " کہہ کر وہ لفافہ ہاتھ میں لئے باہر چلا آیا۔
کرنل رائے کی کوٹھی کے رہائشی حصے کی جانب جاتے ہوئے اس کے من میں سرور لہریں لے رہا تھا۔  ریحا کو دیکھنے کا خیال ہی اس کے لئے مستی بھرا تھا۔  وہ جب سے ٹارچر سیل میں ڈیوٹی پر آیا تھا، تب سے ریحا کے عشق میں مبتلا تھا۔  چونکہ جانتا تھا کہ یہ انگور کھٹے ہیں اس لئے دل ہی دل میں ریحا کی پوجا کیا کرتا۔ اسے کسی کسی دن ایک نظر دیکھ لینا ہی اس کے لئے کافی تھا۔
اس وقت بھی جب وہ کرنل رائے کے آفس کی طرف جا رہا تھا، اس کی نظریں ریحا کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔  پھر وہ اسے دیکھ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ ریحا باغیچے میں ایک درخت کے نیچے کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ سرخ میکسی پر نیلی شال اوڑھے وہ نجانے کیا سوچ رہی تھی کہ روش سے گزرتے کیپٹن آدیش کے بھاری فوجی بوٹوں کی آہٹ سے بھی بے خبر رہی۔  وہ باغیچے کے باہر رک گیا۔  چند لمحے نظروں کی پیاس بجھاتا رہا۔  پھر بھی جب ریحا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو مایوس ہو کر چل پڑا۔  اس کا ریحا کی طرف یوں مائل ہونا اگر کسی کے علم میں آ جاتا تو اس کے لئے مصیبت ہو جاتی۔  کنکھیوں سے اپنے خیالوں میں گم ریحا کو دیکھتا اور یہ سوچتا ہوا وہ چلتا گیا کہ ریحا کس الجھن میں ہے جو اس کی مسکراہٹیں اور قہقہے کہیں گم ہو گئی۔  اس کے علم میں تھا کہ کچھ ہفتوں سے وہ ہر شام قریبی سیتا مندر دیا جلانے جاتی ہے اور باقی دلچسپیوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ خیالی گھوڑے دوڑاتا وہ کرنل رائے کے آفس تک پہنچ گیا جہاں دروازے پر دائیں بائیں دو گن مین مستعد کھڑے تھے۔  اسے سیلوٹ کر کے انہوں نے دروازہ کھول دیا۔
"کرنل صاحب آپ کے منتظر ہیں سر۔ " ایک گن مین نے کڑک دار آواز میں کہا، جبکہ دوسرا بُت بنا کھڑا رہا۔ وہ سر ہلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔
کرنل رائے نے تصویروں کا لفافہ لے کر اسے واپسی کی اجازت دے دی اور خود تصویریں نکال کر شیشے کی ٹاپ والی میز پر پھیلا کر انہیں غور سے دیکھنے لگا۔  سگار اس وقت بھی اس کے ہونٹوں میں دبا ہوا تھا۔ تصویریں چھ ضرب آٹھ کے سائز میں تھیں اور خاصی واضح تھیں۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھ کر انہیں دیکھتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا کہ کمرے کا وہ دروازہ کھلا جو اندرونی رہائشی حصے میں کھلتا تھا۔
"ارے ریحا بیٹی۔  آؤ آؤ۔ " ریحا کو اندر آتے دیکھ کر وہ مسکرا پڑا۔
"پاپا۔  میں مندر جا رہی ہوں۔ " ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔
"جلدی لوٹ آنا بیٹی۔  شام ہونے کو ہے۔ ویر سنگھ کو ساتھ لے جاؤ۔ " وہ سگار منہ سے نکال کر بولا۔
"نہیں پاپا۔ میں گاڑی میں جا رہی ہوں۔  کسی کو ساتھ لے جانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ " ریحا نے کہا۔  اس کی جانب دیکھا پھر مڑتے مڑتے اچانک اس کی نظر میز پر بکھری تصویروں پر پڑ گئی۔  ایک دم اس کے قدم تھم گئی۔  آہستہ سے گردن گھما کر اس نے دوبارہ تصویروں کی جانب دیکھا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔  آنکھوں میں خوف سا اترا اور دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔  وہ لپک کر میز کے قریب آ گئی۔
"کیا بات ہے بیٹی؟" کرنل رائے نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جو سرمد کی تصویروں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
"پاپا۔۔۔  یہ۔۔۔  یہ کون ہے پاپا؟" وہ بیتابی سے بولی۔
"ایک آتنک وادی ہے بیٹی۔ " کرنل رائے نے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا۔
"یہ۔۔۔  یہ۔۔۔  آتنک وادی۔۔۔  نہیں پاپا۔  آپ کو کچھ دھوکا ہوا ہے۔ " ریحا کے لہجے میں چھپی بے قراری نے کرنل رائے کے کان کھڑے کر دئیے۔
"تم کہنا کیا چاہتی ہو ریحا۔ " جنرل اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔  "کیا تم اسے جانتی ہو؟"
"میں۔۔۔  میں۔۔۔ " ریحا ہکلا کر رہ گئی۔  پھر جیسے اس نے زبان کو گانٹھ دے لی۔  "نہیں پاپا۔  میں اسے نہیں جانتی مگر اس کا چہرہ مہرہ آتنک وادیوں جیسا نہیں لگتا۔ "
"نظریں نہ چراؤ ریحا۔ " کرنل نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔  " آتنک وادیوں کے چہرے ہم تم جیسے ہی ہوتے ہیں ، جن سے ہم فریب کھا جاتے ہیں مگر مجھے لگتا ہے تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ "
"میں۔۔۔  میں آپ سے کیا چھپاؤں گی پاپا۔ " ریحا نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا، جن کا ہدف اب بھی سرمد کی ایک تصویر تھا۔  کرنل کا ہاتھ شانے سے ہٹانا چاہا۔  اس کا کانپتا ہوا لہجہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا اور کرنل نے بال دھوپ میں تو سفید نہیں کئے تھے جو اس کی بات پر یقین کر لیتا۔
"ریحا۔۔۔ " کرنل نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا اور جب اس نے کرنل سے نظر ملانے سے گریز کیا تو اسے اپنے شک پر یقین کے سائے لہراتے نظر آنے لگی۔  "مجھ سے نظر ملا کر بات کرو ریحا۔ " کرنل کا لہجہ سخت ہو گیا۔
"کیا بات کروں پاپا؟" ایک دم وہ سسک پڑی۔
"ریحا۔ " بھک سے کرنل کے دماغ کا فیوز اڑ گیا۔  آواز میں حیرت اور کپکپاہٹ ایک ساتھ ابھرے۔  پھر اس نے روتی ہوئی ریحا کو سینے سے لگا لیا۔  "کیا بات ہے میری جان۔  صاف صاف کہو۔  روؤ مت۔  تم جانتی ہو تمہارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوں گے۔ "
"پاپا۔۔۔  پاپا۔۔۔ " ریحا بلک رہی تھی۔ "یہ وہی تو ہے جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔ اسی کے لئے تو میں روز سیتا مندر میں دیا جلانے جاتی ہوں۔  پاپا۔  یہ آتنک وادی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو کسی بچے کی طرح معصوم ہے پاپا۔  "
ریحا کہتی رہی اور حیرت زدہ کرنل اس کی کمر پر ہاتھ رکھے سنتا رہا۔  اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا آیا ہوا تھا۔  اسے ریحا نے یہ تو بتایا تھا کہ وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اے کے کورس کے دوران کسی لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو گئی تھی اور جب تک اس کی طرف سے "ہاں نہ " کا صاف صاف اظہار نہ ہو جائے، اسے شادی کے فیصلے کے لئے وقت دیا جائے۔  تب کرنل اور اس کی پتنی سوجل نے اس معاملے کو مسئلہ نہ بنایا۔  بلکہ ریحا کو کچھ عرصے کے لئے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ وہ لڑکا کون ہے؟یہ ریحا نے نہ بتایا۔  اور وہ کس مذہب سے ہے؟ اس بارے میں ان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوا۔  ان کے وہم میں بھی نہ تھا کہ وہ لڑکا مسلمان ہو گا۔
کرنل کے سینے سے لگ کر ریحا نے کھل کر آنسو بہا لئے تو اس کا من ہلکا ہو گیا جبکہ کرنل رائے کے لئے سوچ اور الجھن کی کتنی ہی نئی راہیں کھل گئیں۔  بیٹی کے آنسو پونچھ کر اس نے اسے کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے میز کے کونے پر ٹک گیا۔  پھر اسے سرمد کے بارے میں اب تک کی ساری معلومہ باتیں بتائیں۔  مگر ریحا کے چہرے پر اول تا آخر بے اعتباری کے رنگ چھائے رہی۔
"اب تم بتاؤ بیٹی۔  میں تمہاری بات پر یقین کروں یا اس ساری صورتحال پر جس میں یہ لڑکا ہمارے ہاتھ لگا۔  ہاں۔۔۔  کیا نام بتایا تم نے اس کا؟" اچانک کرنل رائے نے ریحا کی جانب انگلی اٹھائی۔
"ابھی تک تو میں نے اس کا نام نہیں بتایا۔ " ریحا جیسے باپ کی چال سمجھ گئی۔  "اور معاف کیجئے گا پاپا۔  فی الحال میں آپ کو اس کا نام بتاؤں گی بھی نہیں۔ "
"یہ کوئی مشکل نہیں ہے ریحا۔ " اچانک کرنل رائے کے اندر کا ہندو فوجی باہر آ گیا۔  "میں چاہوں تو دس منٹ کے اندر اندر لندن یونیورسٹی سے اس لڑکے کے بارے میں مکمل معلومات منگوا سکتا ہوں مگر ۔۔۔ " وہ رک گیا۔  "میں چاہتا ہوں مجھے ایسا نہ کرنا پڑے۔"
ریحا کو ایک دم اپنی حماقت کا اب احساس ہوا کہ اس نے سرمد کے حوالے سے اپنے ہاتھ کاٹ کر باپ کے ہاتھ میں دے دیے ہیں۔
"تم نے میری پوزیشن بڑی نازک کر دی ہے ریحا۔ " جنرل اٹھا اور ہاتھ پشت پر باندھے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ "میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"پاپا۔ " ریحا نے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "کچھ بھی ہو۔  اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔  آپ نے اپنے سیل میں اس کا جو حشر کیا ہے، میں اسے سہہ نہیں پا رہی ہوں۔ "
"وہ اپنی جگہ ضروری تھا ریحا۔ " کرنل نے خشک لہجے میں کہا۔  "میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمیں چھاؤنی نمبر سینتالیس پر اٹیک کے دوران ملا۔ "
"ہو سکتا ہے آپ کی معلومات درست ہوں پاپا لیکن مجھے وہ چاہئے۔  زندہ سلامت اور بس۔۔۔ " ریحا کھڑی ہو گئی۔
"پاگل ہو گئی ہو تم۔ " کرنل رائے کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے۔  وہ بھارت ماتا کا دشمن ہے اور۔۔۔"
"سب کچھ ہو سکتا ہے پاپا۔ " ریحا کے لبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔  "کیا میں نہیں جانتی کہ آپ کے ٹارچر سیل میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ اگر کاکا ابراہیم کو پچیس لاکھ کے عوض جہادی تنظیم کے حوالے کیا جا سکتا ہے تو آپ کی بیٹی کی پسند اسے کیوں نہیں مل سکتی؟"
" آہستہ بولو۔۔۔  آہستہ۔ " کرنل رائے نے آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آواز میں خوف سمٹا ہوا تھا۔ "تم یہ سب جانتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم شور مچا دینے کی دھمکی دے کر مجھے بلیک میل کرو۔ "
"دھمکی۔۔۔ " ریحا نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔  "یہ دھمکی نہیں ہے پاپا۔  سودا ہے۔  میرے اور آپ کے بیچ۔  میں اپنی پسند حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔  کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں۔ اگر آپ ایک اچھے پاپا بنے رہے تو میں دنیا کی سب سے لاڈلی بیٹی ہوں اور اگر آپ کا سوتیلا پن جاگا تو میں اپنی ماما کی بیٹی بننے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ "
کرنل رائے کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بات جسے وہ وقت کی تہہ میں دفن کر چکا تھا، ریحا نے ایک ہی ٹھوکر سے اسے ماضی کی قبر سے باہر نکال لیا تھا۔  ریحا اس کی پتنی سوجل کے پہلے پتی راکیش سے تھی جس کے مرنے کے بعد کرنل رائے نے سوجل سے شادی کر لی تھی۔  سوجل کو آج بھی شبہ تھا کہ اس کے پتی راکیش کو کرنل رائے نے قتل کروایا تھا مگر ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ خاموشی سے دن گزار رہی تھی۔  اگر اس سکینڈل کو اچھال دیا جاتا تو کرنل رائے کہاں ہوتا، اسی کی طرف اشارہ کر کے ریحا نے اسے خوف کی دلدل میں پھینک دیا تھا۔
کتنی ہی دیر وہ خالی خالی نظروں سے اس دروازے کو تکتا رہا جس سے نکل کر ریحا جا چکی تھی۔  پھر اس کی نظریں میز پر بکھری سرمد کی تصویروں پر جا پڑیں۔  اسے ہوش سا آ گیا۔  تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ کر اس نے تصویریں سمیٹیں۔  لفافے میں ڈالیں اور لفافہ میز کے خفیہ خانے میں سرکا دیا۔
*  *  *


"مس ریحا۔ " مندر میں پرارتھنا کر کے نکلتی، سوچوں کے بھنور میں چکراتے دماغ کے ساتھ ریحا اپنی گاڑی کی طرف چلی کہ ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا۔  پلٹ کر دیکھا تو مندر کے سامنے چھوٹے سے پارک کے گیٹ پر سرخ کار کے پاس کھڑی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئی۔  وہ ریحا کے لئے بالکل اجنبی تھی، اس لئے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنا ایک قدرتی امر تھا۔
’میں نے آپ ہی کو پکارا ہے مس ریحا۔ " وہ اس کی طرف چل پڑی۔
ریحا نے ادھر ادھر دیکھا۔  نزدیک یا دور کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائی دی جس سے وہ شبے میں مبتلا ہوتی، اس لئے وہ اپنی گاڑی کے پاس رکی رہی۔  لڑکی اس کے قریب پہنچی۔  وہ بڑی قیمتی ساڑھی میں ملبوس تھی۔  کندھوں پر زرتار کشمیری شال اس کے سٹیٹس کا اعلان کر رہی تھی۔
"میرا نام مانیا ہے۔  مانیا سکسینہ۔  میں دہلی سے آئی ہوں آپ سے ملنے۔ " اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"مجھ سے ملنے؟" ریحا اور حیران ہوئی تاہم اس نے مانیا کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
"جی ہاں۔  ایک مہمان بھی ہے میرے ساتھ۔ " اس نے پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف دیکھا جس کے کھلے شیشوں سے لگتا تھا کہ گاڑی میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ ایک لمحے کو اسے خطرے کا احساس ہوا۔
"گھبرائیے نہیں مس ریحا۔ اور کسی غلط سوچ کو بھی ذہن میں جگہ مت دیجئے۔ " مانیا نے اترتی شام کے سائے میں اس کے چہرے پر ابھرتے شکوک کو بھانپ لیا۔ "اگر آپ چند منٹ ہمارے لئے نکال سکیں تو ہم دوستانہ ماحول میں بات کرنا چاہیں گے۔ "
" آپ لوگ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتے ہیں ؟" ریحا کا ذہن ابھی اس کی طرف سے صاف نہیں ہوا تھا۔
" آئیے۔  پارک میں بیٹھتے ہیں۔ " مانیا نے اس کا ہاتھ بڑی نرمی سے کھینچا۔  وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔  پار ک میں داخل ہوتے ہوئے ریحا نے دیکھا کہ گاڑی کے دروازے کھلے اور اس میں سے ایک بڑا وجیہہ مرد نکل کر ان کے پیچھے پارک کی طرف چل پڑا۔  اس کا جی چاہا، فوراً پلٹ کر دوڑ لگا دے مگر مانیا نے اس کا ہاتھ نہ چھوڑا اور اسے لئے ہوئے پارک میں ایک درخت کے نیچے بچھے ایک ایسے لمبے بنچ پر جا بیٹھی، جو پارک میں موجود دوسرے لوگوں سے کافی ہٹ کر تھا۔ ان کے بیٹھنے کے چند لمحوں بعد ہی وہ مرد بھی ان تک آن پہنچا۔
"گڈ ایوننگ ینگ لیڈی۔  " مرد نے بڑے تہذیب یافتہ لہجے میں کہا اور بنچ پر مانیا سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گیا۔  پارک کی مدھم لائٹس میں ریحا کو ان دونوں کے چہروں اور حرکات کا جائزہ لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور اس کے دل نے اسے یقین دلایا کہ وہ برے لوگ نہیں ہیں۔  ان کے نرم، شرافت میں گندھے ہوئے چہرے کسی لحاظ سے اسے فریبی نہ لگے۔
"جی۔  کہئے۔  آپ لوگ مجھے کیسے جانتے ہیں اور مجھے کیوں روکا؟" ریحا نے ان تینوں کے چہروں پر ایک بار پھر نظر دوڑائی۔
"ہم آپ کو کیسے جانتے ہیں ، اسے فی الحال رہنے دیجئے مس ریحا۔ " مانیا نے نرمی سے کہا۔  " آپ کے لئے اتنا جان لینا لازم ہے کہ میں دہلی سے اور مسٹر طاہر پاکستان سے ایک شخص کے سلسلے میں آپ سے ملنے آئے ہیں۔  آج شام جب آپ اپنے گھر سے نکلیں تو ہم آپ کے پیچھے پیچھے سیتا مندر تک آئی۔  آپ پوجا کر کے باہر نکلیں تب میں نے آپ کو آواز دی۔ "
ریحا کا دل سینے میں زور سے دھڑکا۔  اس نے مانیا کے خاموش ہوتے ہی طاہر کی جانب بیتابی سے دیکھا۔
"کس کے سلسلے میں ملنے آئے ہیں آپ مجھ سے؟"اس کی آواز میں تھرتھراہٹ چھلک رہی تھی۔
"مس ریحا۔  " طاہر نے ذرا آگے جھک کر اس کی نظروں کا احاطہ کر لیا۔  "لندن یونیورسٹی میں ایک لڑکا آپ کے ساتھ پڑھتا تھا۔  سرمد۔۔۔ "
اور ریحا کا خوف چہرے پر ابل پڑا۔  وہی ہوا جو اس کے دل میں تھا۔  طاہر کے نام نے اسے وہ سب یاد دلا دیا، جو سرمد نے اپنی داستانِ غم سناتے ہوئے اس پر ظاہر کیا تھا۔  ایک نام اور تھا صفیہ۔  اس کا جی چاہا کاش وہ بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ وہ بھی اس بہار کا دیدار کر لیتی جس نے سرمد کو خزاں خزاں کر دیا تھا مگر اس کی جگہ امبر کا نام سن کر وہ مایوس سی ہو گئی۔  اس کی ایک دم دگرگوں ہوتی کیفیت نے ان دونوں کو ہوشیار کر دیا۔
"سرمد۔۔۔ " سرسراتے لہجے میں ریحا نے کہا اور ڈری ڈری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
"جی ہاں مس ریحا۔ " طاہر نے پہلے جیسی نرمی ہی سے کہا۔ " سرمد۔  جس کے ڈاکومنٹس آپ نے لندن سے اس کے پتے پر پاکستان پارسل کئے تھے۔  وہ عمرے کے بعد انڈیا آیا اور غائب ہو گیا۔  اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ ہم یہ سوچ کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ یقیناً آپ اس کے بارے میں کچھ ایسا بتا سکیں گی جو ہمیں اس تک رسائی دلا سکے۔ "
ریحا آنکھیں بند کئے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔  ان سب کے دل شدت سے دھڑک رہے تھے۔  ریحا سرمد کے بارے میں جانتی تھی۔ انہیں بتا سکتی تھی، مگر کیا؟ اس سوالیہ نشان کے پنجے ان کے دل و دماغ میں پوری شدت کے ساتھ اترتے جا رہے تھے۔
چند لمحے خاموشی کے گھاٹ اتر گئے۔  امید و بیم نے انہیں جکڑے رکھا۔  آخر مانیا نے آہستگی سے ریحا کا ہاتھ تھام کر اسے خودفراموشی کی کیفیت سے باہر نکالا۔
"مس ریحا۔ " ہولے سے اس نے کہا تو ریحا نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔  خشک ہونٹوں کو زبان پھیر کر تر کیا۔
"کیا جاننا چاہتے ہیں آپ لوگ سرمد کے بارے میں ؟" اس کی آواز جیسے کسی کھائی سے ابھری۔
"سب کچھ۔۔۔ وہ سب کچھ جو آپ اس کے بارے میں جانتی ہیں۔ "
"مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ لوگ سرمد کے دوست ہیں۔ "وہ انہیں نظروں میں تولتے ہوئے بولی۔
جواب میں مانیا نے طاہر کا پاسپورٹ اسے تھما دیا۔ اس نے اسے کھول کر دیکھا۔  ایک حد تک اسے اطمینان ہو گیا۔  پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا۔ مانیا اس کا مطلب سمجھ گئی اور پرس سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اسے دیا۔  ریحا نے اس کا جائزہ لیا اور خاصی حد تک مطمئن نظر آنے لگی۔
"کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کے ساتھ سرمد کا کیا رشتہ ہے؟"اس نے طاہر سے پوچھا جو خیالوں کے غبار میں گھرا بڑی باریک بینی سے ریحا کی پوچھ گچھ کو جانچ رہا تھا۔  اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ سرمد کے بارے میں اس قدر محتاط کیوں ہو رہی ہے۔
"جی مس ریحا۔  " طاہر نے ناپ تول کر الفاظ کا انتخاب کیا۔  "میں اس کا کزن ہوں۔  "
"ہوں۔۔۔ " ریحا ایک بار پھر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔  لگتا تھا وہ زبان کھولنے سے پہلے ان کی باتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔  ان پر اعتماد کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت سے دوچار ہے۔  آخر ان کا صبر رنگ لایا اور ریحا نے فیصلہ کر لیا۔
"میں جو کہنے جا رہی ہوں ، اسے بڑے حوصلے اور دھیان سے سنئے گا۔  " اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا اور طاہر کی جانب دیکھا۔  " آپ یہ تو جان ہی چکے ہیں کہ میں کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ "
"جی جی۔ " طاہر اس کے رکنے پر بے چین سا ہو گیا۔  " رکئے مت مس ریحا۔ "
"لندن میں میری سرمد سے آخری ملاقات ہوئی تو میں نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔  جواب میں اس نے مجھے جو کہانی سنائی، اس نے اس کے دُکھ اور زندگی سے گریز کا پردہ فاش کیا۔ " آہستہ سے اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی، جو اسے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔  اس کے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے نے ریحا کے دل میں رشک سا جگا دیا۔  اس نے صفیہ کا نام لینے سے پرہیز کرتے ہوئے کہا۔  "وہ کسی لڑکی کے عشق میں دنیا سے کٹ گیا تھا۔  میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی مگر اس نے میری حوصلہ افزائی کی نہ کوئی وعدہ کیا۔  میں نے اپنے طور پراس کا انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے اپنے اس عزم سے آگاہ کر کے انڈیا چلی آئی۔ " وہ رکی تو طاہر نے رومال سے ماتھا خشک کیا۔  اس کی نظروں میں ریحا کے لئے تشکر کے جذبات تھی۔  ریحا نے اس بات کو محسوس کیا اور پھر کہنا شروع کیا۔
"کچھ عرصے بعداس نے سعودیہ سے مجھے کال کی کہ میں لندن جا کر اس کے ڈاکومنٹس پاکستان اس کے پاپا کے پتے پر ارسال کر دوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور واپس آ کر اس کے انتظار کا جھولا جھولنے لگی۔  مجھے نجانے کیوں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میرے سرمد سے ملاقات ضرور ہو گی۔  سیتا ماں مجھے اور اسے ضرور ملا دے گی۔ میں روزانہ اس کے نام کا دیپ جلانے اس مندر میں آتی ہوں۔ "
وہ خاموش ہو گئی۔
"تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد آپ کو اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی؟" مایوسی سے طاہر نے پوچھا۔
"یہ میں نے کب کہا؟" وہ اضطراب سے ہونٹ کاٹنے لگی۔  اس کی بھرائی ہوئی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔
"تو پھر۔۔۔ ؟" مانیا نے طاہر کے ہونٹوں کے الفاظ چھین لئے۔
" آج شام۔۔۔  یہاں آنے سے پہلے۔۔۔  مجھے اس کے بارے میں خبر ملی۔ " اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔ ر کے رکے الفاظ بھیگتے چلے گئی۔ " وہ۔۔۔  وہ۔۔۔ " اس نے بے چینی کے عالم میں اپنے ہاتھ رانوں تلے دبا لئے اور سر جھکا کر بلک پڑی۔  " وہ میرے پاپا کے ٹارچر سیل میں قید ہے۔ "
"کیا۔۔۔ ؟" طاہر اور مانیا اگر اچھل نہ پڑتے تو حیرانی کو خود پر حیرت ہوتی۔  "یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مس ریحا؟" طاہر بے قراری سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں مسٹر طاہر۔ " وہ روئے جا رہی تھی۔  "میرا سرمد ایک آتنک وادی کے روپ میں میرے پاپا کے ہاتھ لگا اور اب وہ اسے ٹارچر کر رہے ہیں۔  " آنسوؤں میں بھیگی آواز میں ریحا نے انہیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس ساری بات سے آگاہ کیا جو کرنل رائے سے اس تک پہنچی تھی۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" طاہر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔  "وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔  وہ تو ایک بچے کی طرح معصوم ہے۔ "
"مگر پاپا اسے نہیں مانتی۔ " مانیا کی باہوں میں پڑی ریحا ہچکیاں لے رہی تھی۔
"یہاں مجاہدوں کو دہشت گرد ہی کہا جاتا ہے۔ " مانیا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
"میں سمجھتا ہوں مس مانیا مگر سرمد کسی جہادی تحریک میں شامل ہوا تو کیسی؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔  وہ تو اس راہ کا مسافر ہی نہیں تھا۔ "طاہر بے بسی سے بولا۔
شام، رات میں ڈھل رہی تھی۔ مانیا نے ریحا کو بڑی مشکل سے نارمل کیا۔  وہ اس کی حالت سے خاصی متاثر لگ رہی تھی۔
"مس ریحا۔ " اچانک طاہر اس کے قریب آ کر رکا اور گھٹنوں کے بل گھاس پر بیٹھ گیا۔  "یہ ٹارچر سیل کہاں ہے؟"
"ہماری رہائش گاہ میں انیکسی کے بالکل ساتھ بیسمنٹ میں۔ "ریحا نے آہستہ سے جواب دیا۔
" آپ سرمد کو وہاں سے نکالنے میں ہماری کیا مدد کر سکتی ہیں ؟"
"جان دے سکتی ہوں۔ " اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔  " آج سے پہلے میں بھی نہیں جانتی تھی کہ میں سرمد کو اس شدت سے چاہنے لگی ہوں مگر اب لگتا ہے اس کے بغیر سانس لینا مشکل ہے۔ "
"میرا خیال ہے ہمیں اس ملاقات کو یہیں روک دینا چاہئے۔ مسٹر طاہر، اٹھ جائے۔  لوگوں کی نظریں آپ پر مرکوز ہیں۔ "
طاہر کو اپنی حالت کا احساس ہوا تو وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔  "سوری مس مانیا۔ " ہولے سے اس نے کہا۔
"اٹس او کے۔ میں سمجھ رہی ہوں۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔  "میرا مشورہ یہ ہے کہ کل صبح مس ریحا سے میٹنگ رکھی جائے۔  اس وقت لائحہ عمل طے کیا جائے کہ ہم اس سلسلے میں کیا اور کیسے کر سکتے ہیں۔  یہ وقت ایسی تفصیل کے لئے مناسب ہے نہ کافی۔ "
اس کی بات درست تھی۔  ریحا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مانیا کے دیے ہوئے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور رخسار خشک کئے۔  پھر طاہر کی جانب دیکھا۔
" آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟"
"ہوٹل کشمیر پوائنٹ میں۔  روم نمبر دو سو ایک اور دو سو دو۔ " طاہر نے بتایا۔
"میں کل صبح نو بجے آپ کے پاس ہوں گی۔  رات بھر میں مزید جو بھی معلوم ہو سکا، میں اس کے لئے پوری کوشش کروں گی۔ "
"ٹھیک ہے۔  " طاہر نے اس سے اتفاق کیا۔  "وقت کا خیال رکھئے گا مس ریحا۔  آپ سمجھ سکتی ہیں کہ یہ رات ہم پر کیسی بھاری گزرے گی۔ "
"بتانے کی ضرورت نہیں مسٹر طاہر۔  " وہ اسے اداسی سے دیکھتے ہوئے بولی۔  " میں سانسوں میں کانٹوں کی چبھن سے آشنا ہو چکی ہوں۔ "
"تو یہ طے رہا کہ کل صبح نو بجے ہوٹل میں مس ریحا ہم سے آن ملیں گی۔ " مانیا جیسے اب وہاں سے رخصت ہو جانا چاہتی تھی۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔
"ہاں مس ریحا۔ جنرل صاحب کے سیل میں ایک شخص ہے کیپٹن آدیش۔ "
"جی ہاں۔ " وہ چونکی۔  " آپ اسے کیسے جانتی ہیں ؟"
"وہ میرا کزن ہے۔  اسی نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔  آپ اسے میرا ایک میسج دے سکیں گی؟"
"ضرور۔  مگر کیا اس پر بھروسہ کرنا مناسب ہو گا مس مانیا؟" ریحا نے پوچھا۔
"یہی تو مجھے جاننا ہے۔ " مانیا نے پُر خیال لہجے میں کہا۔ " اور اس سے ملے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔  آپ اسے کہئے گا مجھے آج رات ہوٹل میں آ کر ملے۔ "
"ٹھیک ہے۔  میں اسے آپ کا میسج دے دوں گی۔ " ریحا نے دھیرے سے کہا۔  "ویسے وہ آدمی اتنا برا نہیں ہے۔  مجھ سے اس کا دو چار بار سابقہ پڑ چکا ہے۔ "
"تو آپ اسے میرا پیغام ضرور دیجئے گا۔  باقی جو بھگوان کرے۔ " مانیا نے کہا اور وہ سب پارک سے باہر جانے کے لئے چل پڑے۔
*  *  *



کرنل رائے کسی زخمی درندے کی طرح فرش کی سینہ کوبی کر رہا تھا۔  اس کے دل و دماغ میں آتش فشاں دہک رہا تھا۔  رہ رہ کر اسے ریحا کی باتیں یاد آتیں اور وہ اس سوکھی لکڑی کی طرح چٹخ اٹھتاجسے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا جائے۔
اسے کوئی ایسا راستہ نہ سمجھ آ رہا تھا کہ وہ ریحا کی بلیک میلنگ سے بچ سکی۔  اگر ایک بار وہ اس کی بات مان لیتا تو پھر بار بار اس کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے اسے کون بچاتا؟ وہ جب چاہتی اس کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر اپنی منوا لیتی اور یہ بات اسے کسی حال میں بھی منظور نہ تھی۔  ایک تو وہ اونچے عہدے کا فوجی تھا اوپرسے ہندو۔  منصب اور خباثت نے مل کر اس کی شخصیت میں جو حرامی پن انڈیل دیا تھا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ ریحا کو ایسا سبق سکھائے کہ آئندہ کے لئے وہ اس کے سامنے دم نہ مار سکے۔  اور اس کے لئے وہ کسی بھی انتہا تک جا سکتا تھا کیونکہ ریحا کون سی اس کی سگی بیٹی تھی؟ بلکہ اب تو وہ اسے اپنے رقیب کی نشانی ہونے کے ناطے دشمن لگنے لگی تھی۔ اگر سوجل اور ریحا مل کر اس کے خلاف محاذ کھڑا کر لیتیں تو اس کی عزت بھی خاک میں مل جاتی اور کورٹ مارشل کی تلوار الگ سر پر لٹکنے لگتی۔  اس نے راکیش کا کیس اپنے اثر و رسوخ سے دبا دیا تھا، ورنہ اگر کوئی ذرا سی بھی کوشش کرتا تو اس کے لئے اس کیس کا مصیبت بن جانا کوئی مشکل نہ تھا۔
 آٹھ بجے تو اس کے قدم رک گئے۔  ٹارچر سیل میں سٹاف کی تبدیلی کا یہی وقت تھا۔  اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر انٹر کام کا بٹن دبایا۔
"یس سر۔ " دوسری جانب سے کیپٹن آدیش الرٹ آواز میں بولا۔
" آدیش۔  ڈیوٹی آف کر کے مجھ سے مل کر جانا۔ "
"یس سر۔ " آدیش نے ادب سے جواب دیا۔
اس نے انٹر کام سے رابطہ ختم کر دیا۔  بجھے ہوئے سگار کو سلگایا اور پھر ٹہلنے لگا۔ اسی وقت ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔  وہ چونک کر رکا اور اس کی جانب بڑی سرد نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
"لگتا ہے پاپا۔  آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔ " وہ اس کے قریب چلی آئی۔
"کیا خوش ہونا چاہئے مجھے؟" وہ عجیب سے لہجے میں بولا۔
"نہیں۔ " ریحا اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ "میری صبح کی باتیں واقعی آپ کو خفا کرنے والی تھیں مگر پاپا۔  مجھے اب تک آپ نے جس انداز میں پالا ہے۔  میرے جتنے لاڈ دیکھے ہیں۔  کیا ان کا اثر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں اپنی بات منوانے کے لئے بدتمیز ہو جاؤں ؟"
"ریحا۔ " کرنل رائے نے اسے بے اختیار گلے لگا لیا۔  "میری بچی۔  تم نہیں جانتیں تم نے مجھے کس مشکل میں ڈال دیا ہے۔  میرا آرام حرام ہو گیا ہے۔  نیند اڑ گئی ہے۔  چین کی بانسری بجانے والا کرنل رائے کیا اس وقت بیچارہ نہیں لگتا تمہیں ؟"
"پاپا۔ " ریحا اس کے سینے سے لگے لگے بولی۔  "ایسی فرمائش تو نہیں کر دی میں نے کہ آپ پوری نہ کر سکیں۔ "
"یہ تو تم کہتی ہو ناں بیٹی۔ " اس نے ریحا کو الگ کیا اور میز کے کونے پر ٹک گیا۔  "مگر میرے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ "
" آسان نہیں ہے۔  اس کا مطلب ہے مشکل ہے، ناممکن نہیں۔  ہے ناں پاپا؟" وہ اس کی جانب شوخی سے دیکھ کر بولی۔
" لفظوں سے کھیلنا آ گیا ہے تمہیں۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا۔
"تو پھر میں کیا سمجھوں پاپا؟" وہ مرضی کا جواب سننے کے لئے بیتاب تھی۔
"مجھے تھوڑا وقت دو ریحا۔ " جنرل نے کھڑے ہو کر کہا۔ "ایک تو وہ آتنک وادی ہے دوسرے مسلمان۔  تیسرے اسے جنرل نائر نے میری طرف ریفر کیا ہے جو بال کی کھال نکالنے میں مشہور ہے۔ "
"کچھ بھی ہو پاپا۔  اب اسے ٹارچر نہیں کیا جانا چاہئے۔ " ریحا نے ضدسے کہا۔
"اس کے لئے تو میں منع کر چکا ہوں مگر مجھے اس الجھن کو سلجھانے کے لئے دم لینے کی فرصت تو دو بیٹی۔ "
"ٹھیک ہے پاپا۔  مگر فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہئے۔ " وہ خوش ہو گئی۔
"اگر ایسا نہ کرنا ہوتا تو میں تم سے مہلت کیوں مانگتا پگلی۔  کوئی راستہ نکالنے کے لئے ہی تو وقت چاہتا ہوں۔ "
"پاپا۔  " اچانک اس نے نظر جھکا کر کہا اور خاموش ہو گئی۔  کرنل رائے نے اس کی جانب دیکھا۔  جان لیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔
"کہو ریحا۔  کیا کہنا چاہتی ہو بیٹی؟" کرنل نے رسٹ واچ پر نظر ڈالی۔
"پاپا۔  کیا میں۔۔۔  کیا میں اس سے مل سکتی ہوں ؟" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"ہرگز نہیں۔ " کرنل رائے کے لہجے میں درشتی اتر آئی۔
"پاپا۔  میں اسے دور سے دیکھ۔۔۔ " تڑپ کر ریحا نے کہنا چاہا۔
"میں اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتا ریحا۔ " کرنل نے حتمی اور بڑے کڑوے لہجے میں کہا۔  "میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایسا سکینڈل کھڑا ہو، جو میری ساکھ اور میرے خاندان کے لئے تباہی کا باعث بنے۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے۔  میں نے کہا ناں کہ میں جلد ہی کچھ کرتا ہوں۔  تب تک تم اپنے آپ پر قابو رکھو اور ایک بات ذہن میں بٹھا لو۔  تمہیں اس سے ملنے کی اجازت میں کسی صورت نہیں دے سکتا اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ تم اسے دیکھ کر خود پر کنٹرول نہ رکھ سکو گی اور بات جس کے علم میں نہیں ہے، وہ بھی جان جائے گا۔  تب تم اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبو گی۔۔۔ "
اسی وقت بیرونی دروازے پر دستک ہوئی اور ایک آواز ابھری۔
"مے آئی کم ان سر؟"
"یس آدیش۔ کم ان" جنرل نے جواب دیا اور ریحا کو جانے کا اشارہ کیا۔ ریحا نے بڑی اداس نظروں سے اسے دیکھا اور پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔  آدیش نے کمرے میں داخل ہو کر کرنل رائے کو سیلوٹ کیا۔
"بیٹھو کیپٹن۔ " جنرل نے اسے اپنے سامنے والی کرسی آفر کی اور دونوں بیٹھ گئے تو جنرل تھوڑا سا اس کی جانب جھکا۔  "کیا حال ہے اس آتنک وادی کا؟ اس نے زبان کھولی یا نہیں ؟"
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔  "اب تو اس کی حالت بہت خراب ہے۔  "
"اسی لئے میں نے تمہیں اس پر مزید ٹارچر سے منع کر دیا تھا۔  اور اب میں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ "
کیپٹن آدیش نے اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔
"اور ہاں۔  تم نے اسے نہلا دھلا کر کپڑے چینج کرائے یا نہیں ؟" بڑی نرمی سے کرنل رائے نے پوچھا۔
"یس سر۔  اس کی شیو کرا دی گئی ہے۔  کپڑے چینج کرا دیے گئے ہیں۔  البتہ نہلایا نہیں گیا۔ " آدیش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"وہ کیوں ؟" کرنل کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
"زخموں پر پانی پڑنے سے خرابی کا اندیشہ ہے سر۔ "
"اوہ۔ " مطمئن انداز میں کرنل نے سر ہلایا۔  " ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔  اب ایک خاص بات دھیان سے سن لو۔ "
"وہ کیا سر؟" آدیش الرٹ ہو گیا۔
"کل رات ٹارچر سیل میں صرف تمہاری ڈیوٹی ہو گی۔ باقی سب کو چھٹی دے دینا۔  میں اب یہ قصہ ختم کر دینا چاہتا ہوں۔  لگتا ہے یہ لڑکا آتنک وادی نہیں ہے۔  جنرل نائر کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھیان رہے کہ کل وہاں جو کچھ ہو گا وہ میرے اور تمہارے درمیان رہے گا اور تمہاری اس راز داری کی قدر کی جائے گی۔ "
کیپٹن آدیش نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولی۔  اسے کرنل رائے کے الفاظ پر حیرت ہوئی تھی مگر جب اس کی نظریں کرنل سے ملیں تو نجانے اسے وہاں کیا دکھائی دیا کہ وہ محض "یس سر" کہہ کر رہ گیا۔
"بس۔  اب تم جا سکتے ہو۔ " کرنل نے کہا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"سر۔  میں دو گھنٹے کے لئے شہر جانا چاہتا ہوں۔ "
"تو جاؤ بھئی۔  منع کس نے کیا ہے۔ " کرنل نے معنی خیز لہجے میں کہا۔  "ویسے تمہیں اب شادی کر لینی چاہئے۔ روز روز شہر جا کر بازاری دودھ پینے سے بہتر ہے گھر پر بھینس باندھ لو۔ "
"سر۔۔۔ " کیپٹن آدیش جھینپ گیا۔
"او کے او کے۔  جاؤ۔  عیش کرو۔ " کرنل رائے نے ہنس کر کہا اور کیپٹن آدیش سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔
کرنل رائے نے کنکھیوں سے اندرونی دروازے کی طرف دیکھا، جس کے باہر بائیں طرف دیوار سے لگی کھڑی ریحا ان کی باتیں سن رہی تھی۔
٭

سرمد پر پچھلے کچھ گھنٹوں سے تشدد روک دیا گیا تھا۔
اسے حیرت ہوئی۔  پھر اس نے سوچا کہ شاید وہ لوگ اسے کچھ وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ اس کاجسم دوبارہ ٹارچر برداشت کرنے کے قابل ہو جائے۔ یقیناً یہی بات ہے۔  اس نے دل میں سوچا اور فرش پر پڑے پڑے گھسٹ کر دیوار کے قریب ہو گیا۔  پھر بڑی مشکل سے سیدھا ہو کر دیوار سے ٹیک لگائی اور نیم دراز ہونے کی کوشش میں ، ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا۔ اس کا رواں رواں درد سے کانپ رہا تھا۔  اس نے سر دیوار سے ٹکا دیا اور سوچوں میں گم ہو گیا۔
اب تک اس نے اپنی زبان نہیں کھولی تھی اور اس کا امکان بھی نہیں تھا کہ اس کے لبوں سی" عشاق "کے بارے میں کچھ نکل جاتا۔  حمزہ کی شہادت تو اسے یاد تھی۔  داؤد اور حسین کا کیا بنا؟ اس کا خیال آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ بھی شہادت کا جام پی چکے ہیں۔  اگر وہ زندہ ہوتے تو اس کے ساتھ یہیں ہوتی۔  تاہم اس بات کا امکان بھی تھا کہ انہیں کسی اور جگہ رکھا گیا ہو۔
سوچ کا دھارا بہنا شروع ہوا تو کمانڈر کی شبیہ ذہن کے پردے پر ابھری۔  خانم کا چہرہ یاد آیا اور اپنے عہد کے الفاظ صدا بن کر کانوں میں گونجی:
"میں اپنے معبودِ واحد اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اپنے سارے جذبے آج سے اللہ اور اپنے آقا و مولا کے نام کرتا ہوں۔  اب میرا جینا اللہ کے لئے اور مرنا اللہ کے لئے ہے۔
اب میری زندگی جہاد اور موت شہادت کی امانت ہے۔ میری سانسوں پر وحدانیت اور رسالت کے سوا کسی کا حق نہیں۔
"عشاق "کا نام میرے سینے میں دھڑکن کی طرح محفوظ رہے گا۔  میری زبان پر کبھی اس کے حوالے سے کوئی ایسا لفظ نہیں آئے گاجو دشمنوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔
اب میری ایک ہی شناخت اور زادِ راہ ہے۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد الرسول اللہ۔ "
سوچ کا سورج یہاں تک چمکا تو اجالے کی لپک سے اس کی آنکھوں میں نمی سی چھا گئی۔  اسے بے طرح اپنے والد ڈاکٹر ہاشمی یاد آ گئی۔  وہ ان سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ بہت جلد پاکستان چلا آئے گا مگر ۔۔۔ باپ کی محبت، والہانہ پن، پیار، سب کے سب خیال اس کے آنسوؤں میں ڈھلتے چلے گئے۔ وہ اسے تلاش کرنے کے لئے کہاں کہاں نہ پہنچے ہوں گے؟ کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے؟ اور یہ سب کس کے سبب ہوا؟ اس کے سارے جسم میں پھیلی درد کی اذیت، ایک لذت میں سمٹ گئی۔  ایک چہرہ۔  ایک خوبصورت چہرہ۔  جس پر کشش کی قوس قزح نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔  جو اس کے لئے آج بھی اتنا ہی محترم تھا جتنا پہلے دن۔  اسے لگا، ساری تکلیف، سارا دُکھ ایک مستی میں بدل گیا ہے۔ وہ ایک سرور کے دامن میں جا پڑا۔  ایک کیف کے سینے سے جا لگا۔  اس نے بے اختیار پلکیں موند لیں۔  وہ اس کیفیت کو دل میں اتار لینا چاہتا تھا۔ جذب کر لینا چاہتا تھا۔۔۔  مگر ۔۔۔  یہ کیا ہوا؟اشکوں کے موتی رخساروں پر ٹوٹ بہی۔  پلکوں کا در بند ہوا اور سکون کا منبع سامنے آ گیا۔  شادابی نے اس پر سایہ کر دیا۔  اس کا اندر ایک دم سرسبز ہو گیا۔  اس کے آقا و مولا کا مسکن۔ اس کے ربِ واحد و اکبر کی رحمتوں اور محبتوں کا محور و مرکز۔ گنبدِ خضریٰ۔۔۔  اس کی بصارت سے ہوتا ہوا بصیرت کی چوٹی پر جھلملانے لگا۔ عشقِ مجازی نے عشقِ حقیقی کا لبادہ اوڑھ لیا۔  وہ جو خود اپنے حبیب پر ہر دم درود و سلام بھیجتا ہے، اس کا حکم ہے کہ اس کے بندے بھی اپنے آقا پر درود و سلام بھیجیں۔ بے اختیار اس کے لبوں پر اپنے معبود کی سنت جاری ہو گئی:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ٹارچر سیل میں پھیلا اندھیرا دمک اٹھا۔  لو دے اٹھا۔  خوشبوؤں کے جھونکے یوں کمرے میں چکرانے لگے جیسے اس ورد کو پلکوں پر اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہوں۔  جیسے انہیں اس مقدس امانت کو سنبھال رکھنے کے لئے کوئی پاکیزہ تر جگہ نہ مل رہی ہو۔  پھر ان پر ادراک کا در کھلا اور خوشبو ہلکورے لیتی ہوئی سرمد کے رگ و پے میں اترتی چلی گئی۔  اسے لوریاں دیتی مہک کے لئے سرمد کے دل سے زیادہ متبرک جگہ اور کون سی ہوتی جہاں وہ اس ورد کو چوم کر دھڑکنوں کے سپرد کر دیتی۔
کیپٹن آدیش ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے بلاوے پر اس کے آفس میں جا رہا تھا کہ رک گیا۔  ایک عجیب سی مہک کے احساس سے اس کے قدم کاریڈور میں رک گئی۔  ذرا غور کرنے کے بعد وہ سرمد والے کمرے میں چلا آیا۔ اندر داخل ہونے کی دیر تھی کہ وہ خوشبو سے لبالب ہو گیا۔  حیرت زدہ نظروں سے وہ دیوار سے ٹیک لگائے، پلکیں موندے نیم دراز سرمد کی جانب تکے جا رہا تھا۔  پھر وہ دبے پاؤں آگے بڑھا۔  جھکا اور کان سرمد کے ہونٹوں کے قریب کر دیا، جس کے ہونٹوں پر وہی ورد تھا، جو کیپٹن آدیش کے جسم میں کرنٹ دوڑا دیتا تھا۔ مگر یہ خوشبو۔  یہ مہک۔  یہ نئی چیز تھی جس نے اس کے حواس پر نشہ سا طاری کر دیا۔ اس کے لئے سرمد کے آنسوؤں سے تر چہرے پر نگاہ جمانا مشکل ہو گیا۔  اس کا دل سینے میں کسی زخمی پنچھی کی طرح پھڑکا تو گھبرا کر وہ الٹے پاؤں کمرے سے نکلا اور دروازہ بند کر دیا۔  شیشے کی دیوار کے پار سرمد اب بھی اسی طرح بیٹھا تھا۔  چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے چل پڑا۔  اس کا دل قابو میں نہ تھا۔ سارا جسم لرز رہا تھا اور پاؤں کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔
کاریڈور کے موڑ پر رک کر اس نے ایک بار پھر گردن گھما کر سرمد کی طرف نگاہ ڈالی۔  اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی اور خوشبو تھی کہ اب بھی کیپٹن آدیش کے سر پر چکرا رہی تھی۔  وہ بے خودی کے عالم میں سیل سے نکل آیا۔
باہر نکلتے ہی سرشاری کی اس کیفیت نے دم سادھ لیا۔  خودکار دروازے کے بند ہونے پر وہ چند لمحے کھڑا رہ کر لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔  پھر کرنل رائے کے آفس کی جانب چل پڑا۔  اب اس کے ذہن میں تقریباً ایک گھنٹہ قبل ریحا کے فون پر کہے ہوئے الفاظ چکرا رہے تھے:
"کیپٹن۔  ہوٹل کشمیر پوائنٹ کے کمرہ نمبر دو سو ایک میں تمہاری کزن مس مانیا تم سے آج ہی رات ملنا چاہتی ہیں۔  "
*  *
آدیش۔۔۔ " مانیا نے اس کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ دونوں گلے ملے۔  پھر وہ اسے لئے ہوئے صوفے پر آ بیٹھی۔ "میرا پیغام مل گیا تھا؟"کہتے ہوئے مانیا نے غیر محسوس انداز میں اپنے اور طاہر کے کمرے کے مشترکہ دروازے کی طرف دیکھا، جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔
"ہاں۔ " وہ پھیل گیا۔ "مس ریحا نے بتایا تھا مگر ۔۔۔  ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ " وہ گدی پر ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔
"وہ کیا؟ مگر پہلے یہ بتاؤ کیا چلے گا؟"
"ابھی کچھ نہیں۔  ذرا دیر بعد۔۔۔ " آدیش نے اسے روک دیا۔
"او کے۔ " مانیا مسکرائی۔  "ہاں اب پوچھو۔  کیا کہہ رہے تھے تم؟"
"یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ مس ریحا کے ساتھ کیا تعلق ہے تمہارا؟چند دن پہلے تم نے فون پر اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا اور آج اس کے ہاتھ مجھے تمہارا پیغام ملا۔  آخر چکر کیا ہے یہ؟"
"میں جانتی تھی تم یہ سب جاننے کے لئے بے چین ہو گی۔  " مانیا نے ایک طویل سانس لے کر اس کی طرف دیکھا۔  "میں تمہیں سب کچھ بتا سکتی ہوں آدیش۔  مگر پہلے مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میں تم پر کس حد تک اعتماد کر سکتی ہوں ؟"
"میں سمجھا نہیں۔  " وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔  "کس معاملے میں اور کیسا اعتماد چاہتی ہو تم؟"
" آدیش۔ " مانیا کے لہجے میں سنجیدگی اتر آئی۔  "بات بہت نازک ہے اور ایسی بھی کہ جس کا اظہار شاید میرے لئے نقصان دہ ہو جائے۔ "
"میں سیدھا سادہ فوجی ہوں۔  سسپنس میرے اعصاب پر بوجھ بن جاتا ہے۔  جو کہنا ہے کھل کر کہو۔ "
"اچھا یہ بتاؤ آدیش۔  اگر تمہیں یہ پتہ چلے کہ میں کسی ایسے کام میں تمہاری مدد چاہتی ہوں جو تمہاری جاب کے حوالے سے، تمہارے محکمے کے حوالے سے تمہیں مناسب نہ لگے تو۔۔۔ "
اور ایک دم آدیش سیدھا ہو بیٹھا۔  اس نے مانیا کو بڑی ناپ تول بھری نظروں سے دیکھا جیسے اس کی بات کی گہرائی میں جانا چاہتا ہو۔  پھر سرسرایا۔
"غداری؟"
"نہیں۔ " مانیا نے ایک دم ہاتھ اٹھا کر کہا۔  "میں اسے غداری نہیں کہہ سکتی۔ "
"اور میں بات سنے بغیر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔  نہ تمہاری بات کے بارے میں نہ اپنے تعاون کے حوالے سے۔ " اس نے صاف صاف کہا۔
"مگر اس بات کی گارنٹی تو دے سکتے ہو کہ اگر تم مجھ سے متفق نہ ہوئے تو یہ بات اسی کمرے میں دفن ہو جائے گی۔  ہمیشہ کے لئے۔ "
"اس پر بھی مجھے سوچنا پڑے گا۔ "
"تب میں مجبور ہوں آدیش۔ " مانیا نے حتمی لہجے میں کہا۔  "میں اپنے ہاتھ کاٹ کر تمہیں نہیں دے سکتی۔  ویری سوری کہ میں نے تمہارا وقت برباد کیا۔ "
"مطلب یہ کہ میں جا سکتا ہوں ؟" عجیب سے لہجے میں آدیش نے کہا۔
"اب میں اس قدر بد اخلاق بھی نہیں ہوں کہ تمہیں چائے کافی نہ پوچھوں۔  " پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انٹر کام تک جانے کے لئے اس نے اٹھنا چاہا۔
"رہنے دو۔ " آدیش ایک دم اٹھا اور اس کے قدموں میں جا بیٹھا۔  پھر رخ پھیرا۔  نیچے سرک کر اپنا سر مانیا کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔  یوں لگا جیسے ابھی وہ کہے گا۔ "ذرا میرے سر میں تیل کی مالش کر دو۔ " مگر اس کے بجائے اس کے لبوں سے جو نکلا، اس نے مانیا کو بیحد جذباتی کر دیا۔
"دیدی بنتی ہو۔  ہر سال راکھی باندھتی ہو میری کلائی پر اور حکم دینے کے بجائے مجھ سے گارنٹیاں مانگتی ہو۔  کہتی ہو آدیش۔  کیا میں تم پر اعتماد کر سکتی ہوں ؟ یہ کیوں نہیں پوچھتیں کہ آدیش۔  کیا میں تمہارے سینے میں خنجر اتار سکتی ہوں ؟"
"بکو مت۔ " مانیا نے اس کا سر باہوں کے حلقے میں لے کر سینے میں چھپا لیا۔  "تھپڑ مار دوں گی۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔
"گولی مار دو تو زیادہ اچھا ہے۔ " آدیش نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔  " آج اس جسم پر یہ وردی کس کی دین ہے ؟ جانتی ہو ناں۔  میں سماج میں سر اٹھا کر چل سکتا ہوں تو کس کی وجہ سے؟ یہ بھی تمہیں علم ہے۔  مجھے اپنے باپ کے نام کا پتہ نہیں۔  ماں کون تھی، یہ بھی نہیں جانتا۔  صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر تم مجھے ریل کی پٹڑی سے کھینچ کر زندگی کی پگڈنڈی پر گامزن نہ کر دیتیں تو میں کبھی کا ٹکڑوں میں بٹ کر اس دنیا سے ناپید ہو چکا ہوتا۔ اپنے ماں باپ کا نام دے کر تم نے مجھے حرامی ہونے کے الزام سے بچا لیا۔  اور آج۔۔۔  آج تم جاننا چاہتی ہو کہ تم مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو یا نہیں ؟"
" آدیش۔۔۔  مجھے معاف کر دو۔ " مانیا نے اس کے بالوں پر پے در پے کتنے ہی بوسے دے ڈالے۔  اس کا سر اب بھی مانیا کی باہوں میں بھنچا ہوا تھا۔
"معاف کر دوں۔  کیوں معاف کر دوں ؟" وہ سسک کر بچوں کی سی ضد کے ساتھ بولا۔ "جاؤ۔  نہ میں تمہیں معاف کروں گا نہ تم سے بات کروں گا۔ "
" آدیش۔۔۔ " مانیا اس کے روٹھنے کے انداز پر قربان سی ہو گئی۔  "اب بھی نہیں۔ "
اس نے بازو کھولے اور اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
 آدیش نے تڑپ کر اس کے ہاتھ تھامے۔  پاگلوں کی طرح بار بار انہیں چوما اور پھر وہ ہاتھ اپنے رخساروں پر رکھ لئے۔
"اب بس بھی کرو بے وقوف۔  کیا رلا رلا کر مار دو گے مجھے؟"
"ہاں۔  " آدیش نے اس کے بازو اپنے گرد حمائل کر لئے۔  "دوبارہ ایسی بات کی ناں ، تو میں اپنی اور تمہاری جان ایک کر دوں گا۔ "مانیا نے اس کے شانے پر ماتھا رکھ کر اپنی نم آنکھیں بند کر لیں۔ "بس یہ یاد رکھنا دیدی۔  اس ملک، اس دنیا، اس دھرم سے بھی اونچا اگر کوئی ہے تو میرے لئے تم ہو۔  صرف تم۔ "
"جانتی ہوں۔  غلطی ہو گئی بابا۔  اب ختم بھی کر دو۔ " مانیا نے پیار سے کہا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔  پھر اپنی ساڑھی کے پلو سے اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ خشک کیا۔
"اب ذرا سنبھل کر بیٹھو۔  چہرے پر جو بارہ بج رہے ہیں ، انہیں سوا نو کی مسکراہٹ میں بدلو۔  میں تم سے ایک خاص شخص کو ملوانے جا رہی ہوں۔ "
"کہاں ہے وہ؟" آدیش نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"یہیں ہے۔ " مانیا نے پردے کی جانب رخ کر کے کہا۔ " آ جائیے مسٹر طاہر۔  "
دوسرے ہی لمحے پردہ ہٹا اور طاہر کمرے میں داخل ہوا۔  اس کا چہرہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ گزشتہ کافی گھنٹوں سے نہیں سویا مگر وہ یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ اس کیفیت میں اس کے اور مانیا کے درمیان ہونے والی چند لمحے قبل کی گفتگو کا بھی بہت ہاتھ تھا، جس کا اس نے ایک ایک لفظ سنا تھا۔
 آدیش اور مانیا کھڑے ہو گئے۔
"مسٹر طاہر۔  یہ میرا بھائی ہے کیپٹن آدیش۔  اور آدیش یہ ہیں مسٹر طاہر۔ "مانیا نے تعارف کرایا۔
طاہر اور آدیش نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔  سب لوگ بیٹھ گئے تو مانیا نے انٹر کام پر کافی اور دوسرے لوازمات کا آرڈر دینا چاہا۔  طاہر نے اسے روک دیا۔ "ایسا نہ کیجئے۔  اس طرح کیپٹن آدیش کے ساتھ میرا آپ کے کمرے میں پایا جانا اچھا تاثر نہ دے گا۔ "
بات سب کی سمجھ میں آ گئی اس لئے کھانے پینے کا پروگرام ترک کر دیا گیا۔ پھر مانیا نے آدیش کی جانب دیکھا۔
" آدیش۔  بات گھما پھر ا کر بتانے کی میں ضرورت نہیں سمجھتی۔ ذرا اس تصویر کو دیکھو۔ " اس نے پرس سے ایک پاسپورٹ سائز فوٹو نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"یہ۔۔۔  " آدیش اچھل پڑا۔  "یہ تو۔۔۔  یہ تو۔۔ " وہ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہ تمہارے سیل میں ہے۔  اتنا تو میں جانتی ہوں۔  اب اس سے پہلے کی بات سن لو۔ " مانیا نے اسے ریلیکس ہونے کا اشارہ کیا اور سرمد اور ریحا کا نام لئے بغیر طاہر کی فراہم کردہ معلومات اس کے گوش گزار کر دیں۔
"یہ شخص۔۔۔  " آدیش نے اس کی تصویر سامنے پڑی میز پر ڈال دی۔  " جنرل نائر کی چھاؤنی پر اٹیک کے دوران اس کے ہاتھ لگا۔  اس کے سارے ساتھی مارے گئے۔  صرف یہ زندہ بچا۔  ہم اس کے بارے میں کچھ بھی جاننے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔۔۔  لیکن۔۔۔ " ایک دم ذہن میں جنم لینے والے کسی سوال نے اسے چونکا دیا۔ اس نے طاہر کی جانب دیکھا۔  پھر اس کی نظر مانیا پر جم گئی۔ " آپ لوگ کیسے جانتے ہیں کہ یہ کرنل رائے کے سیل میں ہے؟"
"سب سے پہلے پوچھا جانے والا سوال تم اب پوچھ رہے ہو۔ " مانیا نے کہا۔  "بہرحال اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں ریحا نے بتایا ہے۔ "
"مس ریحا  نے؟" آدیش اس بار اور بری طرح چونکا۔ " اس کا اس شخص سے کیا تعلق؟"
"وہی۔۔۔  جو سانس کا جسم سے، خوشبو کا صبا سے اور بہار کا گلاب سے ہوتا ہے آدیش۔ " مانیا نے شاعری کر ڈالی۔
"یعنی۔۔۔ " آدیش کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔
"ہاں۔ " مانیا نے اس کی نظروں میں ابھرتی حیرت پڑھ لی۔  " وہ سرمد کو اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہے۔ "
اور آدیش کا سارا جسم سُن ہو گیا۔  دماغ سرد ہوتا چلا گیا۔  رگ و پے میں خون کی جگہ درد کی لہریں دوڑنے لگیں۔ وہ بے اختیار پیچھے ہٹا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔  مانیا نے اس کی کیفیت کو اچانک انکشافات سے تعبیر کیا مگر طاہر۔۔۔  وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔  وہ ایسی وارداتوں سے ایک سے زیادہ بار دو چار ہو چکا تھا۔  اس نے زبان کو خاموش رکھا مگر سوچ کے لبوں سے پہرے ہٹا لئے۔ اس کا دماغ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے پر تولنے لگا۔
"کیا ہوا؟" مانیا نے اسے فکرمند نظروں سے دیکھا۔
"کچھ نہیں دیدی۔ " آدیش نے سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں۔  "بس۔  حیرت سے یہ حال ہو گیا ہے۔ "
"محبت کرنے والے جھوٹ بولیں تو فوراً پکڑ ے جاتے ہیں کیپٹن آدیش۔ " آہستہ سے طاہر نے کہا تو آدیش کے ایک دم اتر جانے والے چہرے پر زردی گہری ہو گئی۔
"کیا مطلب؟" مانیا نے حیرت سے طاہر اور پھر آدیش کی جانب دیکھا۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے نگاہوں کا محور مانیا کو بنایا۔  "شاید نہیں ، یقیناً مس ریحا سے محبت کرتے ہیں مس مانیا۔ "
"کیا واقعی؟" اس کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی۔  " آدیش۔۔۔ ؟" مانیا نے نظر اس کے چہرے پر جما دی۔
"پیار پر بس تو نہیں ہے میرا لیکن۔۔۔ " آدیش نے مصرع ادھورا چھوڑ دیا۔  "مسٹر طاہر ٹھیک کہہ رہے ہیں دیدی۔  مجھ پر اس انکشاف سے جو اثر ہوا وہ قدرتی ہے مگر ظالم وقت نے مجھے بڑا حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ مس ریحا کا میرا ہو جانا ایک ایسا خواب ہے جسے دیکھنا بھی میرے لئے جرم ہے۔  اسی لئے میں انہیں دل ہی دل میں پوجتا رہا اور شاید زندگی کے آخری سانس تک پوجتا رہوں گا لیکن آج یہ جان کر کہ مس ریحا کسی اور کو چاہتی ہیں مجھے ایک عجیب سے دُکھ کی لذت نے گھیر لیا ہے۔  اب میں چاہتا ہی نہیں کہ مس ریحا میری ہو جائے۔ میں اسے حاصل کر لوں۔  بلکہ ایک انوکھی سی کسک دل میں آنکھ کھولے میرے ہونٹوں سے یہ سننا چاہتی ہے کہ تم مجھے یہ بتاؤ، میں مس ریحا اور سرمد کے کس کام آ سکتا ہوں ؟"
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ بڑی گرمجوشی سے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔  حیرت سے منہ پھاڑے مانیا سب کچھ سن رہی تھی۔  دیکھ رہی تھی۔  صورتحال ذرا نارمل ہوئی تو طاہر نے مانیا کی اجازت سے آدیش سے بات چیت شروع کی۔
"کیپٹن آدیش۔  سرمد اس وقت کس حال میں ہے؟"
"اچھے حال میں نہیں ہے۔ " آدیش نے صاف گوئی سے کہا۔  " سب جانتے ہیں کہ ٹارچر سیلز میں کسی بھی ملزم سے کیا سلوک ہوتا ہے۔  مگر وہ شخص عجیب مٹی سے بنا ہوا ہے۔  اس کی زبان سے آج تک اپنے یا اپنے گروپ کے بارے میں ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ ہاں۔  ایک خاص بات، جو یہاں آنے سے پہلے مجھ سے کرنل رائے نے کی، وہ سن لیں شاید وہ ہمیں کسی پلان کے لئے مدد دے سکی۔ " اس کے بعد کیپٹن آدیش نے انہیں اپنی اور کرنل رائے کی تقریباً دو گھنٹے قبل کی گفتگو سے آگاہ کیا۔
"اس کا مطلب ہے کہ کل کی رات سرمد کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ "
"جی ہاں۔ " آدیش نے طاہر کی بات کے جواب میں کہا۔  "میں یہ تو اندازہ نہیں لگا سکا کہ کل رات کرنل رائے کیا کرنا چاہتا ہے اور اس کے کسی بھی اقدام کے بارے میں کوئی بھی پہلے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ بتا سکتا ہوں کہ کل سرمد کا قصہ آر یا پار۔  کچھ بھی ہو سکتا ہے۔  "
"ہوں۔ " مانیا، اس کی بات پر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ طاہر اور آدیش کی نظر ملی اور جھک گئی۔  صورتحال ان کے لئے خاصی گمبھیر تھی۔  یہ بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی گھڑی تھی۔
"اچھا مسٹر طاہر۔  ایک بات تو بتائیے۔ " اچانک آدیش نے پُر خیال لہجے میں کہا۔  پھر جیسے اس نے ارادہ بدل دیا۔  "مگر نہیں۔  پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں۔  پھر آپ میرے بیان کی روشنی میں وضاحت کیجئے گا۔ "
"جی جی۔ " طاہر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔  مانیا نے بھی ان دونوں کی طرف کان لگا دئیے۔
"مسٹر طاہر۔ " آدیش نے بڑے خوابناک انداز میں کہنا شروع کیا۔  "چند دن پہلے تک میں کرنل رائے کے ساتھ سرمد پر تشدد میں پوری طرح شامل تھا مگر ایک دن عجیب بات ہوئی۔  سرمد غشی کے عالم میں فرش پر پڑا تھا۔  میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے ہیں۔  یہ سوچ کر میں نے کان اس کے ہونٹوں سے لگا دیا کہ شاید اس کے بارے میں کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو ہم پر اس کا نام، پتہ یا کسی آتنک وادی تنظیم سے تعلق آشکار کر دے مگر اس کے لبوں سے نکلتے الفاظ نے میرے سارے جسم میں کرنٹ سا دوڑا دیا۔  میں اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میری حالت ایسی ہو گئی جیسے کسی جادو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ میرا دل پسلیاں توڑ کر سینے سے نکل جانے کو تھا۔  اور شاید ایسا ہی ہوتا اگر میں سرمد سے پرے نہ ہو جاتا۔ اس دن سے آج تک میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکا۔  میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں اسے اذیت دوں۔  بلکہ نجانے کس جذبے کے تحت میں نے اپنی ڈیوٹی مسلسل اس پر لگوائے رکھی تاکہ میری جگہ کوئی دوسرا آ کر اسے تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔ اس دن کے بعدسے آج تک یہ میرا معمول ہے کہ جب وہ آنکھیں بند کئے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑا ہو، روزانہ ایک دو بار میں اس کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگا کر وہ خوبصورت الفاظ ضرور سنتا ہوں۔  میرا جی چاہتا تھا میں اس کے زخموں پر مرہم لگاؤں۔  اسے آرام پہنچاؤں مگر میں ایسا کر نہ سکا۔  میں ایسا کرتا تو غدار کہلاتا اور عتاب کا شکار ہو جاتا۔  اس پر کئے ہوئے اپنے تشدد کے لمحات یاد آتے تو میں خود پر شرمندگی محسوس کرتا۔۔۔  اور آج۔۔۔ " اس نے بات روک دی۔  آنکھیں بند کر کے سر اوپر اٹھایا اور فضا میں کچھ سونگھنا چاہا۔ محسوس کرنا چاہا۔  پھر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ تینوں یہ دیکھ کر چونک پڑے کہ اس کی آنکھوں میں نیند کی سی کیفیت انگڑائیاں لے رہی تھی۔  ا س کا لہجہ بھاری ہو گیا۔  یوں جیسے وہ بولنا چاہتا ہو اور بول نہ پا رہا ہو۔  اس کی آواز میں شبنم سی گرنے لگی۔  اس کے لہجے کو بھگونے لگی۔  غسل دینے لگی۔
" آج۔۔۔  آج وہ ہوا جس کے سبب میں ابھی تک ایک سرشاری کے سفر میں ہوں۔ میں اپنی ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے آفس میں جا رہا تھا کہ مجھے رک جانا پڑا۔  سرمد کمرے میں دیوار سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے نیم دراز ہے۔  اس کا چہرہ آنسوؤں میں تر ہے اور ہونٹ ہولے ہولے ہل رہے ہیں۔ میں رکا تو محسوس ہوا کہ ایک عجیب سی مست کر دینے والی خوشبو وہاں چکرا رہی ہے۔ میں حیرت زدہ سا اندر داخل ہوا اور اس کے قریب چلا گیا۔  کان اس کے ہونٹوں سے لگا دئیے۔  وہ اپنا مخصوص ورد کر رہا تھا۔  میں نے صاف محسوس کیا کہ وہ خوشبو، وہ مہک جس نے سرمد کے گرد حصارسا باندھ رکھا ہے، مجھ پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔  میرے حواس نشے میں ڈوبتے چلے گئے۔ دل کو بے قراری نے جکڑ لیا۔  جب میں اس کیفیت کو برداشت نہ کر سکا تو خوشبو میں نہایا ہوا کمرے سے نکل آیا۔  کسی مے نوش کی طرح لڑکھڑاتا ہوا سیل سے باہر پہنچا۔  یخ بستہ فضا میں چند گہرے گہرے سانس لئے تو ہوش کا دامن ہاتھ آیا۔ یہاں آنے تک میری حالت دگرگوں ہی رہی۔  دیدی اور آپ لوگوں سے ملا۔  گفتگو کی تو حالت سنبھلی مگر میرا دل سینے ہی میں ہے، اس میں اب بھی مجھے کسی کسی لمحے شک ہوتا ہے۔  لگتا ہے میں اب بھی وہیں ہوں۔  سرمد کے پاس۔  وہ خوشبو اب بھی میری دھڑکنوں اور آتما میں چکرا رہی ہے۔  وہ الفاظ اب بھی مجھے لوریاں دے رہے ہیں۔  مجھے اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔  مجھے کچھ سمجھا رہے ہیں۔  مگر کیا ؟ یہ میں نہیں جانتا"۔
کیپٹن آدیش خاموش ہو گیا اور سر جھکا لیا۔ وہ تینوں بُت بنے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے جس پر ایک عجیب سی معصومیت چھائی ہوئی تھی۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " آہستہ سے طاہر نے اسے پکارا تو وہ چونکا۔  مانیا نے جھرجھری لے کر اسے متوحش نظروں سے دیکھا۔
"یس مسٹر طاہر۔ " وہ تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔
"کیا آپ کو۔۔۔  وہ الفاظ یاد ہیں۔۔۔ جو سرمد کا ورد ہیں ؟" طاہر نے ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر جما جما کر الفاظ ادا کئے۔
"وہ الفاظ۔۔۔ " کیپٹن آدیش یوں مسکرایا جیسے طاہر نے اس سے کوئی بچگانہ بات پوچھ لی ہو۔ "وہ تو میری آتما پر ثبت ہو گئے ہیں مسٹر طاہر۔  میں چلتے پھر تے ان الفاظ کو اپنے لہو کے ساتھ جسم میں گردش کرتے محسوس کرتا ہوں۔ "
"کیا آپ انہیں ہمارے سامنے دہرائیں گے کیپٹن آدیش؟پلیز۔ " طاہر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کے لہجے میں التجا سی تھی۔
"ضرور۔ " آدیش نے کہا۔ پھر وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔  میز پر پڑا جگ اٹھایا۔  گلاس میں پانی ڈالا۔  گھونٹ بھرا اور اٹھ گیا۔  باتھ روم کا دروازہ کھول کر اس نے کلی کی اور رومال سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے لوٹ آیا۔  وہ تینوں اس کی حرکات کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"مسٹر طاہر۔  پتہ نہیں کیوں میرا جی نہیں چاہا کہ میں کلی کئے بغیر وہ الفاظ زبان سے نکالوں۔ ظاہر ہے اگر وہ الفاظ آپ کے مذہب سے متعلق ہیں تو آپ کے عقیدے کے مطابق پاکیزہ ہی ہوں گے مگر میرے دل میں ان کا احترام جس وجہ سے ہے، میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔  بس میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان الفاظ کو اپنی زبان پاک کر کے ادا کروں۔ "
"اب دیر نہ کیجئے کیپٹن آدیش۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔  رہ گئی مانیا تو وہ سانس روکے کسی ایسے انکشاف کی منتظر تھی جو اسے حیرت کے کسی نئے جہاں میں اتار دیتا۔
صوفے پر بیٹھ کر کیپٹن آدیش نے ایک نظر ان تینوں کو مسکرا کر دیکھا۔  پھر اس کی نظر طاہر کے چہرے پر آ جمی۔
"وہ الفاظ جو سرمد کا ہمہ وقت ورد ہیں مسٹر طاہر۔  وہ ہیں۔ "دھیرے سے اس نے آنکھیں بند کیں اور کہا:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ایک دم جیسے کمرے میں ہوا ناچ اٹھی۔  فضا جھوم اٹھی۔  لمحات وجد میں آ گئی۔  گھڑیاں رقصاں ہو گئیں۔ خوشبو نے پر پھیلا دئیے۔  مہک ان کے بوسے لینے لگی۔  ان کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ پلکوں نے جھپکنا چھوڑ دیا۔ ہوش و حواس ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہلکورے لینے لگے۔
کیپٹن آدیش خاموش ہو چکا تھا مگر اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بازگشت کمرے میں پھڑپھڑا رہی تھی۔  اجالوں سے گلے مل رہی تھی۔  اندھیروں کا نصیب بدل رہی تھی۔ مانیا بُت بنی بیٹھی تھی اور طاہر۔۔۔  وہ ایسی نظروں سے کیپٹن آدیش کو دیکھ رہا تھا، جن میں رشک تھا تو عروج پر۔  عقیدت تھی تو انتہا پر۔ اور پیار تھا تو اوج پر۔
کتنے ہی لمحے سکوت کے عالم میں دبے پاؤں گزر گئے۔  پھر مانیا نے ایک طویل اور گہرا سانس لیا تو سب لوگ آہستگی سے چونکی۔  کیپٹن آدیش نے سر اٹھایا اور مانیا کے بعد طاہر کی جانب دیکھا، جو اسے بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"کیا دیکھ رہے ہیں مسٹر طاہر؟" آدیش مسکرایا۔
"دیکھ نہیں سوچ رہا ہوں کیپٹن آدیش۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ "تم کتنے خوش قسمت ہو کہ سرمد کے اتنا قریب رہتے ہو۔ "
" اب کیا آپ میری ایک بات کا جواب دینا پسند کریں گے؟"
"ضرور۔  " طاہر نے بڑے خلوص سے کہا۔
"یہ الفاظ کیا ہیں جن کے اثر نے مجھے پتھر سے موم بنا دیا۔ "
"یہ الفاظ۔۔۔ " طاہر کے لہجے میں ادب در آیا۔  "کیپٹن آدیش۔  یہ ہمارے دین کی اساس ہیں۔  یہ درود شریف ہے۔  ہمارے اللہ، ہمارے معبودِ برحق کی آخری کتاب میں اس کا فرمان ہے کہ ’ میں اور میرے فرشتے اللہ کے حبیب، رحمت للعالمین، ہمارے آقا و مولا، آخری نبی اور رسول جناب محمد مصطفی پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔  اے ایمان والو۔ تم بھی اپنے آقا پر درود پڑھو اور سلام بھیجا کرو،۔۔۔  درود شریف پڑھنا اللہ کی سنت ہے اور سرمد اس سنت کی ادائیگی میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے، ایسا تم نے بتایا۔ "
"اسی لئے۔۔۔  اسی لئے۔ " آدیش کہہ اٹھا۔ "یہ الفاظ مجھ پر عجب جادو سا کر دیتے ہیں مسٹر طاہر۔  میں اپنے آپ میں نہیں رہتا۔ "
"اگر آپ کو اور مس مانیا کو برا نہ لگے تو میں کہوں گا کیپٹن آدیش۔۔۔ کہ آپ بہت جلد ہم سے آ ملیں گے۔ میں ایسے ہی آثار دیکھ رہا ہوں۔  آپ پر درود شریف کا یہ اثر کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ " طاہر نے بڑے محتاط الفاظ استعمال کئے۔
" آپ کا مطلب ہے آدیش مسلمان ہو جائے گا؟" مانیا نے دھیرے سے کہا۔
"شاید۔ " طاہر نے آہستگی سے جواب دیا۔ "لیکن اس میں کوئی زبردستی نہیں ہے مس مانیا۔  ہمارے دین میں جبر ہے نہ اکراہ۔  دائرہ اسلام میں آتا وہی ہے جس کے نصیب میں ہدایت لکھی ہے۔ جسے کائنات کا وہ مالک و خالق منتخب کر لے۔ "
"چلیں۔  "مانیا مسکرائی۔ "اس معاملے کو آنے والے وقت پر چھوڑ دیجئے۔  اس وقت ہم جس مسئلے کا شکار ہیں اس پر سوچئے۔ "
"کیپٹن آدیش۔  کل رات سیل میں کون کون ہو گا؟" طاہر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، کل کے لئے کرنل رائے کا حکم ہے کہ صرف میں اور وہ وہاں سرمد کے پاس ہوں گے۔  باقی سب لوگوں کو چھٹی دے دی جائے گی۔ " آدیش نے بتایا۔
"اور یہ کتنے بجے رات کا وقت ہو گا؟"
"سوا آٹھ بجے تک سیل خالی ہو جائے گا۔ "
"کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کل رات سرمد کو وہاں سے نکال لیا جائے ؟"
"بہت مشکل ہے۔  " آدیش سوچتے ہوئے بولا۔  "ایک تو کرنل رائے کی کوٹھی آبادی سے ہٹ کر ہے۔  دوسرے آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس کے گرد حفاظتی باڑھ ہے، جس کے چاروں طرف دن رات آٹھ فوجی پہرہ دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ کوٹھی کے گیٹ پر باقاعدہ دو فوجیوں کا کیبن ہے جو اندر کوٹھی اور سیل تک پہنچنے والے کے لئے پہلے سخت چیکنگ کرتے ہیں۔  اس کے بعد سیل کے دروازے پر کمپیوٹرائزڈ سسٹم چوبیس گھنٹے آن رہتا ہے۔  اگر آپ پہلے سے وہاں آنے جانے والے ہیں یا وہاں سے متعلق فرد ہیں تو آپ کے فنگر پرنٹس آلریڈی کمپیوٹر میں فیڈ ہوں گے اور آپ کا سیل میں جانا ممکن ہو گا۔ اور اگر آپ پہلی بار وہاں آئے ہیں تو میں یا کرنل رائے آپ کو کلیر کریں گی، تب آپ وہاں داخل ہو پائیں گے۔ "
"ہوں۔" طاہر نے آدیش کی ایک ایک بات غور سے سنی۔  کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہا۔  "اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیپٹن آدیش۔ "
" وہ کیسی؟" اس نے اچنبھے سے پوچھا۔  مانیا صرف سن رہی تھی۔  اس نے ابھی تک کسی بات پر رائے زنی نہ کی تھی۔
"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ میرے فنگرپرنٹس کسی طرح کمپیوٹر سسٹم میں فیڈ کر دیں۔ "
"جی نہیں۔ " کیپٹن آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔  " یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ "
"دوسری صورت یہ ہے کہ آپ مجھے کسی قسم کا انٹری پاس بنا دیں۔۔۔ "
"ہاں۔  یہ ہو سکتا ہے۔ " ایک دم آدیش نے اس کی بات اچک لی۔  " یہ آسان بھی ہے۔ "
"بس تو آپ ایسا کر دیں۔ " طاہر نے پُر جوش لہجے میں کہا۔  "میں چاہتا ہوں کہ کل کرنل رائے جب سیل میں سرمد کے پاس آئے تو میں وہاں موجود ہوں۔ "
"یہ تو ہو جائے گا۔  سوچنے والی بات صرف یہ ہے کہ آپ کو کس خانے میں فٹ کیا جائے کہ کرنل رائے کو آپ کی آمد مشکوک لگے نہ ناگوار گزری۔  اگر آپ پہلے سے وہاں موجود ہوئے تو یہ بات اسے ہضم نہیں ہو گی۔ "
"کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر خطرے کی کوئی بات ہو تو آپ مجھے فوراً مطلع کر سکیں ؟"
"اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔ " آدیش نے جواب دیا۔  "اور وہ یہ کہ ایسا کوئی بھی لمحہ آتے ہی میں موبائل پر آپ کو بیل کر دوں۔  تب آپ وقت ضائع کئے بغیر کوٹھی میں انٹر ہو جائیں۔  "
"مگر میں سیل میں کیسے داخل ہو سکوں گا؟"
"وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔  میں سیل کا خودکار سسٹم آف کر دوں گا۔  آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ سیل کے دروازے پر پہنچ کر دروازے پر ہاتھ کا دباؤ ڈالیں۔  وہ کھل جائے گا۔ اور اب آپ مجھ سے وہاں کا نقشہ سمجھ لیں۔ "
 آدیش نے مانیا کی طرف دیکھا۔  اس نے جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ کھولا۔  پیڈ اور قلم نکالا اور آدیش کی جانب بڑھا دیا۔  پیڈ آدیش نے میز پر رکھا۔  طاہر اور مانیا آگے کو جھک آئے۔  آدیش نے بڑی مہارت سے کوٹھی کی انٹرنس سے لے کر رہائشی حصے اور سیل تک کا نقشہ بنا کر یوں سمجھایا کہ طاہر کے ساتھ ساتھ مانیا کو بھی ازبر ہو گیا۔
"بس تو یہ طے ہو گیا کہ کل رات آٹھ بجے ہم کرنل رائے کی کوٹھی سے ایک فرلانگ دور سیتا مندر کے بالمقابل پارک میں موجود رہیں گے اور سگنل موصول ہوتے ہی آپ کی طرف چل پڑیں گے۔ "طاہر نے نقشے پر نظر دوڑاتے ہوئے تہہ کر کے اسے جیب میں ڈال لیا۔ "مگر ہم اندر کیسے داخل ہوں گے کیپٹن آدیش؟"
"یہ لیجئے۔ " آدیش نے ایک پیڈ کے ایک کاغذ پر اپنے سائن کر کے مخصوص کوڈ میں کچھ لکھا اور طاہر کی طرف بڑھا دیا۔  "یہ آپ دونوں کے لئے انٹری پاس کا کام دے گا۔  بیرونی گیٹ پر آپ کو روکا جائے گا۔  انہیں یہ پاس دکھا دیجئے گا۔  میں انہیں آپ کے بارے میں زبانی بھی انسٹرکشن دے دوں گا۔ "
سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔  طاہر کے رگ و پے میں سکون کی ایک لہر سی تیر گئی۔ اس نے ممنونیت سے آدیش کی جانب دیکھا۔
"کچھ مت کہئے مسٹر طاہر۔  میں جس کے لئے یہ سب کر رہا ہوں ، اس سے مجھے کسی شکریے کی طلب نہیں۔  بس یہ خیال رہے کہ مس ریحا کے بارے میں میرے جذبات کبھی آپ میں سے کسی کے لبوں پر نہ آئیں۔ یہی میرا شکریہ ہے آپ کی طرف سے۔ " آدیش نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو طاہر کی نگاہ مانیا کی جانب اٹھ گئی جو بڑی محبت سے آدیش کو تک رہی تھی۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے مسٹر طاہر۔ " آخر وہ بولی۔  "لیکن کیا سب محبت کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں ؟" اس نے طاہر کی جانب عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"کیا اب بھی پوچھنے کی ضرورت باقی ہے مس مانیا؟" طاہر ہولے سے ہنسا۔ جواب میں مانیا خاموش ہو گئی۔
پھر آدیش جانے کے لئے اٹھ گیا۔  طاہر نے اس سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔  مانیا نے اسے گلے لگایا اور ماتھا چوم لیا۔
"دھرم پر میرا وشواس کبھی بھی نہیں رہا آدیش۔  تم ضد کر کے مجھ سے ہر سال راکھی بندھواتے رہے۔  آج تم نے پانچ روپے کی اس راکھی کو انمول کر دیا۔ "
"دیدی۔  تم خوش تو وہ خوش۔ " اس نے اوپر دیکھا۔  " اس کے علاوہ مجھے کسی بات کی پرواہ نہیں۔ " وہ رخصت ہو گیا۔
دروازہ بند کر کے لوٹے تو مانیا کو طاہر کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ملا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور مانیا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"بیٹھئے مسٹر طاہر۔  " وہ صوفے پر ٹک گئی۔  طاہر بھی اس کے سامنے آ بیٹھا۔  " آپ نے میری نظریں پڑھ لیں تھیں کیا؟"
"جی ہاں۔ " طاہر تناؤ کے شکار اعصاب پر قابو پاتے ہوئے مسکرایا۔ " یہ فن بھی آ ہی گیا ہے۔  میں نے جانا کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ "
"جی ہاں۔  مگر کیا کہنا چاہتی ہوں ، کیا یہ نہیں سمجھے آپ؟"
" آپ جب تک بتائیں گی نہیں میں کیسے جان پاؤں گا مس مانیا۔ " طاہر بیحد محتاط ہو رہا تھا۔
"اب آپ اتنے نادان بھی نہیں ہیں مسٹر طاہر کہ میری نظر کو تو پڑھ لیں اور بات کو نہ سمجھ سکیں۔  " وہ ہنسی۔  "ہم جس صورتحال سے یہاں آ کر دوچار ہو گئے ہیں اس کے حوالے سے اگلا کوئی بھی لمحہ کچھ بھی گل کھلا سکتا ہے۔  آپ خوب جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کے لئے اپنے ملک سے غداری کر رہی ہوں اور آدیش ایک طرف اپنی محبت سے مجبور ہو کر اور دوسری طرف میری وجہ سے ایسا کر رہا ہے۔ پھر انجان بننے کا فائدہ؟"مانیا نے جیسے کھیل کے پتے بانٹے۔
" آپ کہنا کیا چاہتی ہیں مس مانیا؟ کھل جائے۔ " طاہر نے پتے اٹھا لئے۔
" آپ کی دوستی کا ثبوت۔ " مانیا نے شانے اچکائے اور ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی۔
"کیسے پیش کروں ؟" اس نے پہلا پتہ الٹ دیا۔ حکم کا نہلا تھا۔
"کیا مجھے زبان سے کہنا ہو گا؟" ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا۔ مانیا کے ہاتھ میں پان کی بیگم تھی۔
"کوئی اور راستہ نہیں ؟" دوسرا پتہ حکم کا غلام نکلا۔
"ہی۔ " اینٹ کی دکی سامنے آ گئی۔
"مجھے دوسرا کوئی بھی راستہ منظور ہے۔ " تیسرا پتہ جوکر تھا۔ اس نے پتے پھینک دئیے۔
"صرف ایک سوال کا جواب۔ " اس نے طاہر کے چہرے پر نظریں مرکوز کر دیں۔  "یہ صفیہ وہی ہے ناں ، جس کے طاہر آپ ہیں؟"
ایک دم سے کیا جانے والا یہ سوال طاہر کے لئے حواس شکن ثابت ہوا۔ اس نے بری طرح چونک کر مانیا کی طرف دیکھا جو اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"جھوٹ نہیں مسٹر طاہر۔ " اس نے شہادت کی انگلی کھڑی کی۔  "اب تک سارا معاملہ سچ ہی پر چلتا آ رہا ہے۔  اگر آپ سچ بولیں گے تو میں بھی اپنے جھوٹ کا پردہ فاش کر دوں گی، یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ "
" آپ کا جھوٹ؟" طاہر سرسرایا۔  اب وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔
"وہ بعد میں۔  پہلے میرے سوال کا جواب۔ " وہ مسکرائی۔
"ہوں۔ " طاہر جیسے مجبور ہو گیا۔  اس نے ہاتھ دونوں گھٹنوں میں دبا لئے اور نظریں جھکا لیں۔  " آپ کا کہنا ٹھیک ہے مگر ۔۔۔"
"بس۔۔۔ " مانیا نے اسے کچھ بھی کہنے سے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔  "کچھ مت کہئے مسٹر طاہر۔ پہلے مجھے اس سچ کا مزہ لینے دیجئے۔ " اس نے آنکھیں بند کر کے سسکاری لی۔  "ایسی لذت کہاں ہو گی کسی جھوٹ میں۔ جب سے ریحا گئی، میں آپ سے اسی ایک سوال کا جواب لینے کے لئے بیتاب تھی۔  شکر ہے کہ اس وقت آپ نے میری نگاہ کی چوری پکڑ لی۔  اب میں رات کو الجھے بغیر نیند لے سکوں گی۔ "
"مگر میں یہ کہنا چاہتا تھا مس مانیا۔۔۔ "
"کسی کو کبھی خبر نہ ہو گی مسٹر طاہر۔ " اس نے آنکھیں کھول دیں۔  "یہ مہک تو دل میں چھپانے کی چیز ہے۔ دھڑکن کی طرح۔  آپ اس بارے میں بے فکر ہو جائیں۔  اور اب میری بات۔۔۔ " وہ بڑے پُراسرار انداز میں مسکرائی۔ پھر اس نے ساڑھی شانے پر درست کر لی۔ "میں پہلی ملاقات سے آپ کی اسیر ہوں مسٹر طاہر۔  آج سے پیشتر تک میں اپنے جھوٹ میں خوش تھی۔  چاہتی تھی کہ آپ کو حاصل کر لوں ، چاہے ایک رات ہی کے لئے۔ مگر سرمد اور صفیہ کے ساتھ جب آپ کا نام سنا تو چونکی۔  ہوش آیا۔  پھر آدیش نے اور بھی عجب کھیل رچا ڈالا۔  محبت کیا ہوتی ہے؟ ایثار کس شے کا نام ہے؟ بغیر کسی غرض کے انسان کسی کیلئے جان دے دینے کی حد تک کیوں چلا جاتا ہے؟جب آپ نے کوئی بھی دوسری شرط سنے بغیر مان لی تو میرا جھوٹ ہار گیا۔  آپ ایک پُر شباب جسم سے پہلے دن سے بھاگ رہے ہیں ، یہ میں جانتی ہوں۔  میں آپکی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر بھی آپ کو پا لینا چاہتی تھی۔۔۔  مگر آج جب کچھ اَن چھوئی حقیقتیں مجھ پر آشکار ہوئیں تو میں فریب کے جال سے نکل آئی۔  میں آپ کو اپنی شرط سے مُکت کرتی ہوں مسٹر طاہر۔  آپ آزاد ہیں۔  میں آپکی دوستی جیتنا چاہتی تھی مگر محسوس ہوا ہے کہ میں تو آپکی دوستی کے لائق ہی نہیں ہوں۔  ہوس اور دوستی کا کیسا ساتھ مسٹر طاہر۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔  نظر جھک گئی اور اضطراب کے عالم میں وہ ہونٹ کاٹنے لگی۔
"بس یا کچھ اور کہنا ہے آپ کو؟" طاہر نے چند لمحے انتظار کے بعد بڑے پُرسکون لہجے میں پوچھا۔
"اور کیا کہوں گی میں ؟" وہ ہاتھوں سے آنکھیں مسلتی ہوئی بولی۔  شاید نمی میں پوشیدہ شرمندگی طاہر سے چھپا نا چاہتی تھی۔ "سوائے اس کے کہ اب مجھ پر شک نہ کیجئے گا۔  میں آخر دم تک آپ کے ساتھ ہوں۔ "
"اور دوستی کسے کہتے ہیں مس مانیا؟" طاہر نے مسکرا کر کہا۔  "دوستی کے جس معیار پراس وقت آپ ہیں ، اس کے لئے تو لوگ ترستے ترستے مر جاتے ہیں۔ "
"یعنی۔۔۔ ؟" اس نے ہاتھ ہٹا کر اسے حیرت سے دیکھا۔
"یہ شبنم بتاتی ہے کہ پھول کیسا پاکیزہ ہے۔ " طاہر کا اشارہ اس کے آنسوؤں کی طرف تھا۔
"جھوٹ۔۔۔ جھوٹ بول رہے ہیں آپ۔ " بے اعتباری سے اسنے طاہر کی جانب دیکھا اور ہنس پڑی۔  ساتھ ہی اس کے رکے ہوئے آنسوچھلک پڑی۔  دھوپ چھاؤں کا یہ امتزاج اس کے حسین چہرے پر عجب بہار دے رہا تھا۔
"جھوٹ بول کر میں آپ کی توہین نہیں کرنا چاہتا مس مانیا۔ " طاہر اب بھی مسکرا رہا تھا۔  "اپنے دل سے پوچھئے جس میں اس وقت اطمینان ہی اطمینان دھڑک رہا ہو گا۔ "
اور مانیا نے آہستہ سے پلکیں موند لیں۔  طاہرسچ کہہ رہا تھا۔
*  *  *