جمعرات، 23 اپریل، 2015

ہلاکو نامہ

0 comments
ہلاکو نامہ
ایک کرم خوردہ مخطوطہ سرفروش پیج کے ممبرز کیلۓ۔ پہلا حصہ
غلام شبیر رانا ۔ ایکسٹو
پس منظر
میرے پڑوس میں ایک سٹھیایاہوا بوڑھا گھاسو خان رہتا ہے جسے ناسٹلجیا کا عارضہ لاحق ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سو پشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری تھا لیکن اس کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ اپنے احساس کم تری کے زخم چاٹ چاٹ کر اپنے دکھوں اور محرومیوں کے چاک کو رفو کرنے کی خاطر اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر تاریخ کی ان شخصیات سے ملاتا ہے جن کا نام سب نے سن رکھا ہو۔ اسے اپنی ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کی کوئی پروا نہیں بس ایک ہی خبط اور خناس اس کے سر میں سما گیا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر چونکیں اور اس کے افراد خانہ کو محض جونکیں نہ سمجھیں۔ ماں کی گود سے نکل کر اب وہ گور کنارے پہنچ چکا ہے مگر اس کی کم ظرفی، کج بحثی، کور مغزی، ڈھٹائی اور جعلی تکبر کا یہ حال ہے کہ اب بھی وہ خان جاناں بن کر راجہ اندر کے مانند پریوں کے جھرمٹ کی تلاش میں باغوں اور سیر گاہوں میں للچائی نگاہوں سے حسن بے پروا کے جلووں کے لیے دیوانہ وار بگٹٹ دوڑتا پھرتا ہے۔ جب دیکھو وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گرانی اور بیتے دنوں کی شادمانی کی یادوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا ہے۔ اسے اس بات سے اختلاف ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اس کی بیتی ہوئی جوانی کے حسین خواب بھی پھر سے اس کی نگاہوں میں اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتے اور اسے یوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی اذیت سے نجات مل جاتی۔ وہ اگرچہ فلسفے اور تاریخ کے بارے میں کورا اور یکسر خالی ہے مگر ان موضوعات پر وہ بے تکان ہنہناتا ہے اور تھوتھے چنے کے مانند بجتا ہی چلا جاتا ہے۔ لوگ اسے دیکھتے ہی لاحول پڑھتے ہیں ، ہر کوئی اسے دیکھ کر گھبراتا ہے لیکن یہ ہر جگہ پہنچ کر دم ہلاتا ہے، لوگ اسے دھتکارتے ہیں لیکن یہ ایسا چکنا گھڑا ہے کہ اس پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایک عادی دروغ گو کی حیثیت سے گھاسو خان کو ابلیس نما درندہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اپنی اس بد نامی اور شرم ناک پہچان پر بھی اتراتا ہے۔ سنگلاخ چٹان میں شگاف کرنے اور پتھر کو چونک لگانے میں اسے ید طولیٰ حاصل تھا۔ زمین کا بوجھ بن جانے والے اس متفنی کی زندگی عبرت کا نشان تھی۔
چند روز قبل میں باغ جناح کی سیر سے واپس آ رہا تھا کہ گھاسو خان کو پھولوں کی ایک کیاری میں ایک باڑ کے پیچھے چھپا دیکھا۔ میں سمجھ گیا یہ موذی ضرور کسی واردات کے لیے یہاں چھپا بیٹھا ہے۔ ابھی میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے حسین و جمیل دوشیزاؤں کی ایک ٹولی نمو دار ہوئی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لپک کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بوسیدہ کاغذوں کا ایک پلندہ ان کو دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ اس کے آنسو، آہیں اور سسکیاں اپنا اثر دکھا گئیں۔ حسین و جمیل لڑکیوں کے دل موم ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ایک لڑکی نے اپنے آنسو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے کہا:
’’ کیا بات ہے بابا؟تم اس قدر دکھی اور غم گین کیوں ہو؟کون لوگ ہیں جو تم پر اس عالم پیری میں ستم ڈھاتے ہیں اور تمھیں خون کے آنسو رلاتے ہیں ؟‘‘
گھاسو نے اپنی آستین سے اپنی بہتی ہوئی ناک اور مگر مچھ کے آنسو صاف کیے۔ اس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر ایک لڑکی نے اپنے بیگ سے معطر ٹشو پیپرز کا ایک چھوٹا پیک اسے تھما دیا اور اسے کہا:
’’اپنی داستان غم ہمیں سناؤ ہم مقدور بھر تمھاری مدد کریں گے۔ تم پر جو کوہ ستم ٹوٹا ہے وہ بلا شبہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس عمر میں تمھارا یوں زار و قطار رونا ہم سے دیکھا نہیں جاتا لیکن تقدیر جو کچھ دکھائے وہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہم سب بے حد رنجور ہیں اور کچھ کہنے سے معذور ہیں۔ ‘‘
’’میں بغداد کے حاکم ہلاکو خان کی اولاد میں سے ہوں۔ جب سے بغداد پر امریکی یلغار ہوئی ہے ہم شاہی خاندان کے لوگوں کی زندگی دشوار ہوئی۔ آلام روزگار کے زخم سہتے سہتے میر ی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ میں دل کے یہ ٹکڑے اور کر چیا ں چن چن کر اپنے دامن میں سجائے بیٹھا ہوں لیکن شیشیوں کا مسیحا کبھی نہیں آیا اور مجھے مایوسی نے گھیر رکھا ہے۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے اب در بہ در اور خاک بہ سر پھرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے دسترخوان پر لوگ اصلی اور خالص ما ا للحم اور انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، میں گزشتہ چار دنوں سے فاقے سے ہوں اور میری آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہوں اور سخت بے حال ہوں ، مجھ پر ترس کھاؤ اور میری مدد کرو ‘‘ یہ کہہ کر گھاسو خان نے بوسیدہ، میلے کچیلے اور کرم خوردہ اوراق پارینہ کا ایک پلندہ ان حسین دوشیزاؤں کی طرف بڑھایا اور چیخ مار کر کہا :
’’یہ ہے میرے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ ‘‘جو نسل در نسل اس کے حقیقی وارثوں کو منتقل ہوتے ہوتے اب مجھ تک پہنچی ہے۔ ‘‘
کسی حسینہ نے اس عفونت زدہ اور کرم خوردہ مخطوطے کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں اور چند کرنسی نوٹ گھاسو کی ہتھیلی پر رکھ کر اسے چلتا کیا اور وہیں دسترخوان بچھا کر پھل کھانے میں مصروف ہو گئیں۔ بڈھے کی اس دخل اندازی پر ایک لڑکی نہایت غصے سے بڑ بڑ ا رہی تھی اور اپنی سہیلیوں کو مسلسل کوس رہی تھی کہ انھوں نے ایک مخبوط الحواس اور فاتر ا لعقل خبطی بڈھے کی بے سرو پا باتوں پر توجہ دے کر بلاوجہ وقت ضائع کیا اس نے کہا:
’’ اب یہ بھکاریوں کا نیا روپ ہے۔ یہ چربہ ساز، سارق ، جعل ساز اور کفن دزد کہلاتے ہیں۔ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ اپنے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ‘‘ کہہ رہا ہے چند روز قبل یہی کاغذات ایک پرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس ردی کے ڈھیر پر پڑے تھے۔ اس نے یہ مسودہ وہاں سے چرایا ہے اور اب اسے لوگوں کو دکھا کر نوٹ چھاپ رہا ہے ‘‘
’’یہ دھندہ ان دنوں خوب چل نکلا ہے ‘‘دوسری لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا ’’ادب اور تاریخ پر تحقیق کرنے والے ایسے طرفہ تماشوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ جھوٹ کو بھی اپنی ملمع سازیوں سے سچ ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ‘‘
’’ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ ’’ہلاکو نامہ ‘‘ کہہ رہا تھا مجھے تو یوں لگا کہ یہ ڈاکو نامہ ہے۔ ‘‘ایک اور لڑکی نے اپنی رائے دی ’’کتنے لوگ اس تاریخ اور ادب کی ڈکیتی میں ملوث ہو کر معصوم طالب علموں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے اور خود بغلیں جھانکیں گے۔ دوسروں کی تحریروں پر ہاتھ صاف کرنے والے ہاتھ کی صفائی سے ہتھیلی پر سرسوں جما کر ہم سے ہاتھ کر جاتے ہیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ دیکھو وہ بڈھا ہم سے کس چالاکی سے دو سو روپے اینٹھ کر لے گیا ہے۔ یہ مخطوطہ اب محققین ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ‘‘
گھاسو وہاں سے ا یسے غائب ہو ا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اب وہ شاہراہ قائد اعظم کی جانب چل نکلا۔ سڑک کے موڑ پر دو نوجوان لڑکوں کو اس نے روکا اور ان کے سامنے وہی کاغذوں کا پلندہ پھیلا یا اور روتے ہوئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک نو جوان نے اس دھکا دیا اور گھونسہ مارا۔ گھاسو اس اچانک وار سے بو کھلا گیا اور دور جا گرا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ نوجوان نے غصے سے کہا:
’’تم ہلاکو خان کی اولاد ہو نا!کل تم نے جامعہ پنجاب کے قائد اعظم کیمپس کے باہر یہی سوانگ رچا کر معصوم طالب علموں کو لوٹا۔ اب یہ ہلاکو نامہ دکھا کر راہ گیروں کو الو بنا رہے ہو۔ ‘‘
گھاسو خان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’ جو پہلے سے بنے بنائے الو ہوں مجھے انھیں الو بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟یہاں پہلے کوئی بوم، کرگس، شپر اور زاغ و زغن کی کمی ہے جو میں نئے سرے سے ان کی افزائش نسل پر توجہ دوں۔ ایک کو ڈھونڈنے نکلو راستے میں سیکڑوں مہا الو مل جائیں گے۔ میں نے یہ مخطوطہ پورے ملک میں گھوم کر دکھایا ہے ہر شخص نے میر ی مدد کی۔ اگر تمھاری جیب خالی ہے تو تم کچھ نہ دو لیکن میری تذلیل تو نہ کرو، آخر میں شاہی خاندان کا ایک فرد ہوں۔ کسے خبر تھی کہ تقدیر کے ستم سہہ کر ہلاکو خان کی بے بس و لاچار اولاد یوں در در کی ٹھو کریں کھاتی پھرے گی اور جوتیاں چٹخاتی پرے گی اور اسے دو ٹکے کے لوگ یوں دھتکاریں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر گھاسو خان زار و قطار رونے لگا۔ اسی اثنا میں وہ دونوں نوجوان اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دور نکل گئے۔
لو گوں کا ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا سب نے ان نو جوانوں کو خوب برا بھلا کہا اور درد سے کراہتے ہوئے گھاسو خان کو جوس پلایا۔ ایک ضعیف آدمی نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے معاشرے میں ہر بھکاری جعل سازی کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل ثروت اسے دھکے دیں اور زد و کوب کریں۔ مانگنے والا گدا ہی ہوتا ہے خواہ وہ صدقہ مانگے یا خراج طلب کرے۔ یہ لوگ بہت سادہ لیکن ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ یہ جیب تراشوں کی بھی جیب کا ٹ لیتے ہیں۔ یہ تو ہمدردی کے مستحق ہیں نہ کہ بیداد گری سے ان پر مشق ستم جاری رکھی جائے۔ ‘‘
ایک ماڈرن اور فیشن ایبل عورت نے اپنی قیمتی کار کو روکا اور تمام صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ بڈھے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ پیچ تاب کھاتے ہوئے بولی :
’’جن لوگوں نے بغداد کے شاہی خاندان کے اس فرد اور ہلاکو خان کے خاندان کے چشم و چراغ پر ظلم کیا ہے وہ فطرت کی تعزیروں کو بھول چکے ہیں۔ ہلاکو خان زندہ ہوتا تو آج اس بوڑھے کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ دولت اور حکومت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ لوگو!اپنے انجام سے غافل نہ رہو سب زر و مال یہیں پڑا رہ جائے گا، سکندر جب اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ یہ بڈھا تمھارے باپ کی جگہ ہے، اس پر ظلم نہ کرو اس زخم خوردہ بڈھے کی مالی امداد کر کے اس کا مرہم بن جاؤ اور اپنا دامن خوشیوں سے بھرو۔ ‘‘یہ کہہ کر اس حسین عورت نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ بڈھے کے پاس پھینکا اور اس کی کار فراٹے بھرتی ہوئی اسمبلی ہال کی جانب نکل گئی۔ اس عورت کی تقلید میں لوگوں نے گھاسو خان کی دل کھول کر مدد کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب تماشائیوں کی جیبیں خالی ہو گئیں اور بڈھے نے جو چادر زمین پر بچھائی ہوئی تھی وہ ہر مالیت کے کرنسی نوٹوں سے ڈھک گئی۔ لوگ آتے اور نوٹ پھینک کر چلے جاتے۔ گھاسوخان برابر مگر مچھ کے آنسو بہا رہا تھا۔ بغداد کی تباہی اور ہلاکو کی اولاد ہونے کی داستان سن کر کئی لوگ رونے لگے دیکھتے ہی دیکھتے گھاسوخان کے پاس کرنسی نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ وہ دامن جھاڑ کو فرش زمین سے اٹھا اور تمام رقم اپنی زنبیل میں ڈال کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ ایک شخص نے کہا :
’’یہ سب ڈراما تھا۔ اس کے کردار وہ دو نو جوان صبح خیزیے اور ٹھگ تھے اور کار میں آنے والی حسینہ شاہی محلے کی رذیل طوائف تھی۔ ان سب اچکوں نے مل کر سادہ لوح راہ گیروں کو خوب لوٹا ہے۔ یہ تو اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہر شہر اور ہر شاہراہ پر ان عیاروں نے اس قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ ‘‘
گھاسو خان کی گرگ آشتی اور مکر کی چالوں کے با وجود لوگ اس کے دام فریب میں آ جاتے اور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے۔ میں نے اس ننگ انسانیت سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ ہر جگہ پہنچتا اور یہی ڈراما سر راہ پیش کرتا۔ جب یہ کھیل پٹ گیا تو اس نے پینترا بدلا اور ایک نئے روپ سے لوٹنے کا ڈھب اختیار کیا۔ اب وہ ایک ماہر آثار قدیمہ بن گیا اور قدیم زمانے کے نادر و نایاب مخطوطوں کو فروخت کرنے لگا۔ ہلاکو نامہ تو اس کے پاس تھا ہی سب سے پہلے وہ اسی کھوٹے سکے کو چلانے میں وہ کامیاب ہو گیا۔ ایک عجائب گھر نے یہ مخطوطہ بغیر کسی جانچ پرکھ کے بھاری معاوضہ دے کر اس سے لے لیا۔ اب ہلاکو نامہ عجائب گھر کی زینت بن چکا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں ایک ماہر آثار قدیمہ نے اپنی تمہید کے جو گل بوٹے کھلائے وہ کچھ یوں تھے۔ 
ہلاکو نامہ
ایک کرم خوردہ مخطوطہ سرفروش پیج کے ممبرز کیلۓ۔ پہلا حصہ
غلام شبیر رانا ۔ ایکسٹو
پس منظر
میرے پڑوس میں ایک سٹھیایاہوا بوڑھا گھاسو خان رہتا ہے جسے ناسٹلجیا کا عارضہ لاحق ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سو پشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری تھا لیکن اس کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ اپنے احساس کم تری کے زخم چاٹ چاٹ کر اپنے دکھوں اور محرومیوں کے چاک کو رفو کرنے کی خاطر اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر تاریخ کی ان شخصیات سے ملاتا ہے جن کا نام سب نے سن رکھا ہو۔ اسے اپنی ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کی کوئی پروا نہیں بس ایک ہی خبط اور خناس اس کے سر میں سما گیا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر چونکیں اور اس کے افراد خانہ کو محض جونکیں نہ سمجھیں۔ ماں کی گود سے نکل کر اب وہ گور کنارے پہنچ چکا ہے مگر اس کی کم ظرفی، کج بحثی، کور مغزی، ڈھٹائی اور جعلی تکبر کا یہ حال ہے کہ اب بھی وہ خان جاناں بن کر راجہ اندر کے مانند پریوں کے جھرمٹ کی تلاش میں باغوں اور سیر گاہوں میں للچائی نگاہوں سے حسن بے پروا کے جلووں کے لیے دیوانہ وار بگٹٹ دوڑتا پھرتا ہے۔ جب دیکھو وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گرانی اور بیتے دنوں کی شادمانی کی یادوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا ہے۔ اسے اس بات سے اختلاف ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اس کی بیتی ہوئی جوانی کے حسین خواب بھی پھر سے اس کی نگاہوں میں اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتے اور اسے یوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی اذیت سے نجات مل جاتی۔ وہ اگرچہ فلسفے اور تاریخ کے بارے میں کورا اور یکسر خالی ہے مگر ان موضوعات پر وہ بے تکان ہنہناتا ہے اور تھوتھے چنے کے مانند بجتا ہی چلا جاتا ہے۔ لوگ اسے دیکھتے ہی لاحول پڑھتے ہیں ، ہر کوئی اسے دیکھ کر گھبراتا ہے لیکن یہ ہر جگہ پہنچ کر دم ہلاتا ہے، لوگ اسے دھتکارتے ہیں لیکن یہ ایسا چکنا گھڑا ہے کہ اس پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایک عادی دروغ گو کی حیثیت سے گھاسو خان کو ابلیس نما درندہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اپنی اس بد نامی اور شرم ناک پہچان پر بھی اتراتا ہے۔ سنگلاخ چٹان میں شگاف کرنے اور پتھر کو چونک لگانے میں اسے ید طولیٰ حاصل تھا۔ زمین کا بوجھ بن جانے والے اس متفنی کی زندگی عبرت کا نشان تھی۔
چند روز قبل میں باغ جناح کی سیر سے واپس آ رہا تھا کہ گھاسو خان کو پھولوں کی ایک کیاری میں ایک باڑ کے پیچھے چھپا دیکھا۔ میں سمجھ گیا یہ موذی ضرور کسی واردات کے لیے یہاں چھپا بیٹھا ہے۔ ابھی میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے حسین و جمیل دوشیزاؤں کی ایک ٹولی نمو دار ہوئی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لپک کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بوسیدہ کاغذوں کا ایک پلندہ ان کو دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ اس کے آنسو، آہیں اور سسکیاں اپنا اثر دکھا گئیں۔ حسین و جمیل لڑکیوں کے دل موم ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ایک لڑکی نے اپنے آنسو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے کہا:
’’ کیا بات ہے بابا؟تم اس قدر دکھی اور غم گین کیوں ہو؟کون لوگ ہیں جو تم پر اس عالم پیری میں ستم ڈھاتے ہیں اور تمھیں خون کے آنسو رلاتے ہیں ؟‘‘
گھاسو نے اپنی آستین سے اپنی بہتی ہوئی ناک اور مگر مچھ کے آنسو صاف کیے۔ اس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر ایک لڑکی نے اپنے بیگ سے معطر ٹشو پیپرز کا ایک چھوٹا پیک اسے تھما دیا اور اسے کہا:
’’اپنی داستان غم ہمیں سناؤ ہم مقدور بھر تمھاری مدد کریں گے۔ تم پر جو کوہ ستم ٹوٹا ہے وہ بلا شبہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس عمر میں تمھارا یوں زار و قطار رونا ہم سے دیکھا نہیں جاتا لیکن تقدیر جو کچھ دکھائے وہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہم سب بے حد رنجور ہیں اور کچھ کہنے سے معذور ہیں۔ ‘‘
’’میں بغداد کے حاکم ہلاکو خان کی اولاد میں سے ہوں۔ جب سے بغداد پر امریکی یلغار ہوئی ہے ہم شاہی خاندان کے لوگوں کی زندگی دشوار ہوئی۔ آلام روزگار کے زخم سہتے سہتے میر ی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ میں دل کے یہ ٹکڑے اور کر چیا ں چن چن کر اپنے دامن میں سجائے بیٹھا ہوں لیکن شیشیوں کا مسیحا کبھی نہیں آیا اور مجھے مایوسی نے گھیر رکھا ہے۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے اب در بہ در اور خاک بہ سر پھرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے دسترخوان پر لوگ اصلی اور خالص ما ا للحم اور انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، میں گزشتہ چار دنوں سے فاقے سے ہوں اور میری آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہوں اور سخت بے حال ہوں ، مجھ پر ترس کھاؤ اور میری مدد کرو ‘‘ یہ کہہ کر گھاسو خان نے بوسیدہ، میلے کچیلے اور کرم خوردہ اوراق پارینہ کا ایک پلندہ ان حسین دوشیزاؤں کی طرف بڑھایا اور چیخ مار کر کہا :
’’یہ ہے میرے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ ‘‘جو نسل در نسل اس کے حقیقی وارثوں کو منتقل ہوتے ہوتے اب مجھ تک پہنچی ہے۔ ‘‘
کسی حسینہ نے اس عفونت زدہ اور کرم خوردہ مخطوطے کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں اور چند کرنسی نوٹ گھاسو کی ہتھیلی پر رکھ کر اسے چلتا کیا اور وہیں دسترخوان بچھا کر پھل کھانے میں مصروف ہو گئیں۔ بڈھے کی اس دخل اندازی پر ایک لڑکی نہایت غصے سے بڑ بڑ ا رہی تھی اور اپنی سہیلیوں کو مسلسل کوس رہی تھی کہ انھوں نے ایک مخبوط الحواس اور فاتر ا لعقل خبطی بڈھے کی بے سرو پا باتوں پر توجہ دے کر بلاوجہ وقت ضائع کیا اس نے کہا:
’’ اب یہ بھکاریوں کا نیا روپ ہے۔ یہ چربہ ساز، سارق ، جعل ساز اور کفن دزد کہلاتے ہیں۔ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ اپنے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ‘‘ کہہ رہا ہے چند روز قبل یہی کاغذات ایک پرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس ردی کے ڈھیر پر پڑے تھے۔ اس نے یہ مسودہ وہاں سے چرایا ہے اور اب اسے لوگوں کو دکھا کر نوٹ چھاپ رہا ہے ‘‘
’’یہ دھندہ ان دنوں خوب چل نکلا ہے ‘‘دوسری لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا ’’ادب اور تاریخ پر تحقیق کرنے والے ایسے طرفہ تماشوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ جھوٹ کو بھی اپنی ملمع سازیوں سے سچ ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ‘‘
’’ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ ’’ہلاکو نامہ ‘‘ کہہ رہا تھا مجھے تو یوں لگا کہ یہ ڈاکو نامہ ہے۔ ‘‘ایک اور لڑکی نے اپنی رائے دی ’’کتنے لوگ اس تاریخ اور ادب کی ڈکیتی میں ملوث ہو کر معصوم طالب علموں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے اور خود بغلیں جھانکیں گے۔ دوسروں کی تحریروں پر ہاتھ صاف کرنے والے ہاتھ کی صفائی سے ہتھیلی پر سرسوں جما کر ہم سے ہاتھ کر جاتے ہیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ دیکھو وہ بڈھا ہم سے کس چالاکی سے دو سو روپے اینٹھ کر لے گیا ہے۔ یہ مخطوطہ اب محققین ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ‘‘
گھاسو وہاں سے ا یسے غائب ہو ا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اب وہ شاہراہ قائد اعظم کی جانب چل نکلا۔ سڑک کے موڑ پر دو نوجوان لڑکوں کو اس نے روکا اور ان کے سامنے وہی کاغذوں کا پلندہ پھیلا یا اور روتے ہوئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک نو جوان نے اس دھکا دیا اور گھونسہ مارا۔ گھاسو اس اچانک وار سے بو کھلا گیا اور دور جا گرا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ نوجوان نے غصے سے کہا:
’’تم ہلاکو خان کی اولاد ہو نا!کل تم نے جامعہ پنجاب کے قائد اعظم کیمپس کے باہر یہی سوانگ رچا کر معصوم طالب علموں کو لوٹا۔ اب یہ ہلاکو نامہ دکھا کر راہ گیروں کو الو بنا رہے ہو۔ ‘‘
گھاسو خان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’ جو پہلے سے بنے بنائے الو ہوں مجھے انھیں الو بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟یہاں پہلے کوئی بوم، کرگس، شپر اور زاغ و زغن کی کمی ہے جو میں نئے سرے سے ان کی افزائش نسل پر توجہ دوں۔ ایک کو ڈھونڈنے نکلو راستے میں سیکڑوں مہا الو مل جائیں گے۔ میں نے یہ مخطوطہ پورے ملک میں گھوم کر دکھایا ہے ہر شخص نے میر ی مدد کی۔ اگر تمھاری جیب خالی ہے تو تم کچھ نہ دو لیکن میری تذلیل تو نہ کرو، آخر میں شاہی خاندان کا ایک فرد ہوں۔ کسے خبر تھی کہ تقدیر کے ستم سہہ کر ہلاکو خان کی بے بس و لاچار اولاد یوں در در کی ٹھو کریں کھاتی پھرے گی اور جوتیاں چٹخاتی پرے گی اور اسے دو ٹکے کے لوگ یوں دھتکاریں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر گھاسو خان زار و قطار رونے لگا۔ اسی اثنا میں وہ دونوں نوجوان اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دور نکل گئے۔
لو گوں کا ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا سب نے ان نو جوانوں کو خوب برا بھلا کہا اور درد سے کراہتے ہوئے گھاسو خان کو جوس پلایا۔ ایک ضعیف آدمی نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے معاشرے میں ہر بھکاری جعل سازی کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل ثروت اسے دھکے دیں اور زد و کوب کریں۔ مانگنے والا گدا ہی ہوتا ہے خواہ وہ صدقہ مانگے یا خراج طلب کرے۔ یہ لوگ بہت سادہ لیکن ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ یہ جیب تراشوں کی بھی جیب کا ٹ لیتے ہیں۔ یہ تو ہمدردی کے مستحق ہیں نہ کہ بیداد گری سے ان پر مشق ستم جاری رکھی جائے۔ ‘‘
ایک ماڈرن اور فیشن ایبل عورت نے اپنی قیمتی کار کو روکا اور تمام صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ بڈھے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ پیچ تاب کھاتے ہوئے بولی :
’’جن لوگوں نے بغداد کے شاہی خاندان کے اس فرد اور ہلاکو خان کے خاندان کے چشم و چراغ پر ظلم کیا ہے وہ فطرت کی تعزیروں کو بھول چکے ہیں۔ ہلاکو خان زندہ ہوتا تو آج اس بوڑھے کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ دولت اور حکومت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ لوگو!اپنے انجام سے غافل نہ رہو سب زر و مال یہیں پڑا رہ جائے گا، سکندر جب اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ یہ بڈھا تمھارے باپ کی جگہ ہے، اس پر ظلم نہ کرو اس زخم خوردہ بڈھے کی مالی امداد کر کے اس کا مرہم بن جاؤ اور اپنا دامن خوشیوں سے بھرو۔ ‘‘یہ کہہ کر اس حسین عورت نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ بڈھے کے پاس پھینکا اور اس کی کار فراٹے بھرتی ہوئی اسمبلی ہال کی جانب نکل گئی۔ اس عورت کی تقلید میں لوگوں نے گھاسو خان کی دل کھول کر مدد کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب تماشائیوں کی جیبیں خالی ہو گئیں اور بڈھے نے جو چادر زمین پر بچھائی ہوئی تھی وہ ہر مالیت کے کرنسی نوٹوں سے ڈھک گئی۔ لوگ آتے اور نوٹ پھینک کر چلے جاتے۔ گھاسوخان برابر مگر مچھ کے آنسو بہا رہا تھا۔ بغداد کی تباہی اور ہلاکو کی اولاد ہونے کی داستان سن کر کئی لوگ رونے لگے دیکھتے ہی دیکھتے گھاسوخان کے پاس کرنسی نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ وہ دامن جھاڑ کو فرش زمین سے اٹھا اور تمام رقم اپنی زنبیل میں ڈال کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ ایک شخص نے کہا :
’’یہ سب ڈراما تھا۔ اس کے کردار وہ دو نو جوان صبح خیزیے اور ٹھگ تھے اور کار میں آنے والی حسینہ شاہی محلے کی رذیل طوائف تھی۔ ان سب اچکوں نے مل کر سادہ لوح راہ گیروں کو خوب لوٹا ہے۔ یہ تو اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہر شہر اور ہر شاہراہ پر ان عیاروں نے اس قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ ‘‘
گھاسو خان کی گرگ آشتی اور مکر کی چالوں کے با وجود لوگ اس کے دام فریب میں آ جاتے اور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے۔ میں نے اس ننگ انسانیت سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ ہر جگہ پہنچتا اور یہی ڈراما سر راہ پیش کرتا۔ جب یہ کھیل پٹ گیا تو اس نے پینترا بدلا اور ایک نئے روپ سے لوٹنے کا ڈھب اختیار کیا۔ اب وہ ایک ماہر آثار قدیمہ بن گیا اور قدیم زمانے کے نادر و نایاب مخطوطوں کو فروخت کرنے لگا۔ ہلاکو نامہ تو اس کے پاس تھا ہی سب سے پہلے وہ اسی کھوٹے سکے کو چلانے میں وہ کامیاب ہو گیا۔ ایک عجائب گھر نے یہ مخطوطہ بغیر کسی جانچ پرکھ کے بھاری معاوضہ دے کر اس سے لے لیا۔ اب ہلاکو نامہ عجائب گھر کی زینت بن چکا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں ایک ماہر آثار قدیمہ نے اپنی تمہید کے جو گل بوٹے کھلائے وہ کچھ یوں تھے۔ 
ہلاکو نامہ
ایک کرم خوردہ مخطوطہ سرفروش پیج کے ممبرز کیلۓ۔ پہلا حصہ
غلام شبیر رانا ۔ ایکسٹو
پس منظر
میرے پڑوس میں ایک سٹھیایاہوا بوڑھا گھاسو خان رہتا ہے جسے ناسٹلجیا کا عارضہ لاحق ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سو پشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری تھا لیکن اس کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ اپنے احساس کم تری کے زخم چاٹ چاٹ کر اپنے دکھوں اور محرومیوں کے چاک کو رفو کرنے کی خاطر اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر تاریخ کی ان شخصیات سے ملاتا ہے جن کا نام سب نے سن رکھا ہو۔ اسے اپنی ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کی کوئی پروا نہیں بس ایک ہی خبط اور خناس اس کے سر میں سما گیا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر چونکیں اور اس کے افراد خانہ کو محض جونکیں نہ سمجھیں۔ ماں کی گود سے نکل کر اب وہ گور کنارے پہنچ چکا ہے مگر اس کی کم ظرفی، کج بحثی، کور مغزی، ڈھٹائی اور جعلی تکبر کا یہ حال ہے کہ اب بھی وہ خان جاناں بن کر راجہ اندر کے مانند پریوں کے جھرمٹ کی تلاش میں باغوں اور سیر گاہوں میں للچائی نگاہوں سے حسن بے پروا کے جلووں کے لیے دیوانہ وار بگٹٹ دوڑتا پھرتا ہے۔ جب دیکھو وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گرانی اور بیتے دنوں کی شادمانی کی یادوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا ہے۔ اسے اس بات سے اختلاف ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اس کی بیتی ہوئی جوانی کے حسین خواب بھی پھر سے اس کی نگاہوں میں اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتے اور اسے یوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی اذیت سے نجات مل جاتی۔ وہ اگرچہ فلسفے اور تاریخ کے بارے میں کورا اور یکسر خالی ہے مگر ان موضوعات پر وہ بے تکان ہنہناتا ہے اور تھوتھے چنے کے مانند بجتا ہی چلا جاتا ہے۔ لوگ اسے دیکھتے ہی لاحول پڑھتے ہیں ، ہر کوئی اسے دیکھ کر گھبراتا ہے لیکن یہ ہر جگہ پہنچ کر دم ہلاتا ہے، لوگ اسے دھتکارتے ہیں لیکن یہ ایسا چکنا گھڑا ہے کہ اس پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایک عادی دروغ گو کی حیثیت سے گھاسو خان کو ابلیس نما درندہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اپنی اس بد نامی اور شرم ناک پہچان پر بھی اتراتا ہے۔ سنگلاخ چٹان میں شگاف کرنے اور پتھر کو چونک لگانے میں اسے ید طولیٰ حاصل تھا۔ زمین کا بوجھ بن جانے والے اس متفنی کی زندگی عبرت کا نشان تھی۔
چند روز قبل میں باغ جناح کی سیر سے واپس آ رہا تھا کہ گھاسو خان کو پھولوں کی ایک کیاری میں ایک باڑ کے پیچھے چھپا دیکھا۔ میں سمجھ گیا یہ موذی ضرور کسی واردات کے لیے یہاں چھپا بیٹھا ہے۔ ابھی میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے حسین و جمیل دوشیزاؤں کی ایک ٹولی نمو دار ہوئی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لپک کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بوسیدہ کاغذوں کا ایک پلندہ ان کو دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ اس کے آنسو، آہیں اور سسکیاں اپنا اثر دکھا گئیں۔ حسین و جمیل لڑکیوں کے دل موم ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ایک لڑکی نے اپنے آنسو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے کہا:
’’ کیا بات ہے بابا؟تم اس قدر دکھی اور غم گین کیوں ہو؟کون لوگ ہیں جو تم پر اس عالم پیری میں ستم ڈھاتے ہیں اور تمھیں خون کے آنسو رلاتے ہیں ؟‘‘
گھاسو نے اپنی آستین سے اپنی بہتی ہوئی ناک اور مگر مچھ کے آنسو صاف کیے۔ اس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر ایک لڑکی نے اپنے بیگ سے معطر ٹشو پیپرز کا ایک چھوٹا پیک اسے تھما دیا اور اسے کہا:
’’اپنی داستان غم ہمیں سناؤ ہم مقدور بھر تمھاری مدد کریں گے۔ تم پر جو کوہ ستم ٹوٹا ہے وہ بلا شبہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس عمر میں تمھارا یوں زار و قطار رونا ہم سے دیکھا نہیں جاتا لیکن تقدیر جو کچھ دکھائے وہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہم سب بے حد رنجور ہیں اور کچھ کہنے سے معذور ہیں۔ ‘‘
’’میں بغداد کے حاکم ہلاکو خان کی اولاد میں سے ہوں۔ جب سے بغداد پر امریکی یلغار ہوئی ہے ہم شاہی خاندان کے لوگوں کی زندگی دشوار ہوئی۔ آلام روزگار کے زخم سہتے سہتے میر ی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ میں دل کے یہ ٹکڑے اور کر چیا ں چن چن کر اپنے دامن میں سجائے بیٹھا ہوں لیکن شیشیوں کا مسیحا کبھی نہیں آیا اور مجھے مایوسی نے گھیر رکھا ہے۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے اب در بہ در اور خاک بہ سر پھرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے دسترخوان پر لوگ اصلی اور خالص ما ا للحم اور انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، میں گزشتہ چار دنوں سے فاقے سے ہوں اور میری آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہوں اور سخت بے حال ہوں ، مجھ پر ترس کھاؤ اور میری مدد کرو ‘‘ یہ کہہ کر گھاسو خان نے بوسیدہ، میلے کچیلے اور کرم خوردہ اوراق پارینہ کا ایک پلندہ ان حسین دوشیزاؤں کی طرف بڑھایا اور چیخ مار کر کہا :
’’یہ ہے میرے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ ‘‘جو نسل در نسل اس کے حقیقی وارثوں کو منتقل ہوتے ہوتے اب مجھ تک پہنچی ہے۔ ‘‘
کسی حسینہ نے اس عفونت زدہ اور کرم خوردہ مخطوطے کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں اور چند کرنسی نوٹ گھاسو کی ہتھیلی پر رکھ کر اسے چلتا کیا اور وہیں دسترخوان بچھا کر پھل کھانے میں مصروف ہو گئیں۔ بڈھے کی اس دخل اندازی پر ایک لڑکی نہایت غصے سے بڑ بڑ ا رہی تھی اور اپنی سہیلیوں کو مسلسل کوس رہی تھی کہ انھوں نے ایک مخبوط الحواس اور فاتر ا لعقل خبطی بڈھے کی بے سرو پا باتوں پر توجہ دے کر بلاوجہ وقت ضائع کیا اس نے کہا:
’’ اب یہ بھکاریوں کا نیا روپ ہے۔ یہ چربہ ساز، سارق ، جعل ساز اور کفن دزد کہلاتے ہیں۔ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ اپنے جد امجد ہلاکو خان کی خود نوشت ’’ہلاکو نامہ‘‘ کہہ رہا ہے چند روز قبل یہی کاغذات ایک پرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس ردی کے ڈھیر پر پڑے تھے۔ اس نے یہ مسودہ وہاں سے چرایا ہے اور اب اسے لوگوں کو دکھا کر نوٹ چھاپ رہا ہے ‘‘
’’یہ دھندہ ان دنوں خوب چل نکلا ہے ‘‘دوسری لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا ’’ادب اور تاریخ پر تحقیق کرنے والے ایسے طرفہ تماشوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ جھوٹ کو بھی اپنی ملمع سازیوں سے سچ ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ‘‘
’’ جس مخطوطے کو یہ بڈھا کھوسٹ ’’ہلاکو نامہ ‘‘ کہہ رہا تھا مجھے تو یوں لگا کہ یہ ڈاکو نامہ ہے۔ ‘‘ایک اور لڑکی نے اپنی رائے دی ’’کتنے لوگ اس تاریخ اور ادب کی ڈکیتی میں ملوث ہو کر معصوم طالب علموں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے اور خود بغلیں جھانکیں گے۔ دوسروں کی تحریروں پر ہاتھ صاف کرنے والے ہاتھ کی صفائی سے ہتھیلی پر سرسوں جما کر ہم سے ہاتھ کر جاتے ہیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ دیکھو وہ بڈھا ہم سے کس چالاکی سے دو سو روپے اینٹھ کر لے گیا ہے۔ یہ مخطوطہ اب محققین ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ‘‘
گھاسو وہاں سے ا یسے غائب ہو ا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اب وہ شاہراہ قائد اعظم کی جانب چل نکلا۔ سڑک کے موڑ پر دو نوجوان لڑکوں کو اس نے روکا اور ان کے سامنے وہی کاغذوں کا پلندہ پھیلا یا اور روتے ہوئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک نو جوان نے اس دھکا دیا اور گھونسہ مارا۔ گھاسو اس اچانک وار سے بو کھلا گیا اور دور جا گرا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ نوجوان نے غصے سے کہا:
’’تم ہلاکو خان کی اولاد ہو نا!کل تم نے جامعہ پنجاب کے قائد اعظم کیمپس کے باہر یہی سوانگ رچا کر معصوم طالب علموں کو لوٹا۔ اب یہ ہلاکو نامہ دکھا کر راہ گیروں کو الو بنا رہے ہو۔ ‘‘
گھاسو خان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’ جو پہلے سے بنے بنائے الو ہوں مجھے انھیں الو بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟یہاں پہلے کوئی بوم، کرگس، شپر اور زاغ و زغن کی کمی ہے جو میں نئے سرے سے ان کی افزائش نسل پر توجہ دوں۔ ایک کو ڈھونڈنے نکلو راستے میں سیکڑوں مہا الو مل جائیں گے۔ میں نے یہ مخطوطہ پورے ملک میں گھوم کر دکھایا ہے ہر شخص نے میر ی مدد کی۔ اگر تمھاری جیب خالی ہے تو تم کچھ نہ دو لیکن میری تذلیل تو نہ کرو، آخر میں شاہی خاندان کا ایک فرد ہوں۔ کسے خبر تھی کہ تقدیر کے ستم سہہ کر ہلاکو خان کی بے بس و لاچار اولاد یوں در در کی ٹھو کریں کھاتی پھرے گی اور جوتیاں چٹخاتی پرے گی اور اسے دو ٹکے کے لوگ یوں دھتکاریں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر گھاسو خان زار و قطار رونے لگا۔ اسی اثنا میں وہ دونوں نوجوان اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دور نکل گئے۔
لو گوں کا ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا سب نے ان نو جوانوں کو خوب برا بھلا کہا اور درد سے کراہتے ہوئے گھاسو خان کو جوس پلایا۔ ایک ضعیف آدمی نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے معاشرے میں ہر بھکاری جعل سازی کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل ثروت اسے دھکے دیں اور زد و کوب کریں۔ مانگنے والا گدا ہی ہوتا ہے خواہ وہ صدقہ مانگے یا خراج طلب کرے۔ یہ لوگ بہت سادہ لیکن ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ یہ جیب تراشوں کی بھی جیب کا ٹ لیتے ہیں۔ یہ تو ہمدردی کے مستحق ہیں نہ کہ بیداد گری سے ان پر مشق ستم جاری رکھی جائے۔ ‘‘
ایک ماڈرن اور فیشن ایبل عورت نے اپنی قیمتی کار کو روکا اور تمام صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ بڈھے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ پیچ تاب کھاتے ہوئے بولی :
’’جن لوگوں نے بغداد کے شاہی خاندان کے اس فرد اور ہلاکو خان کے خاندان کے چشم و چراغ پر ظلم کیا ہے وہ فطرت کی تعزیروں کو بھول چکے ہیں۔ ہلاکو خان زندہ ہوتا تو آج اس بوڑھے کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ دولت اور حکومت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ لوگو!اپنے انجام سے غافل نہ رہو سب زر و مال یہیں پڑا رہ جائے گا، سکندر جب اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ یہ بڈھا تمھارے باپ کی جگہ ہے، اس پر ظلم نہ کرو اس زخم خوردہ بڈھے کی مالی امداد کر کے اس کا مرہم بن جاؤ اور اپنا دامن خوشیوں سے بھرو۔ ‘‘یہ کہہ کر اس حسین عورت نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ بڈھے کے پاس پھینکا اور اس کی کار فراٹے بھرتی ہوئی اسمبلی ہال کی جانب نکل گئی۔ اس عورت کی تقلید میں لوگوں نے گھاسو خان کی دل کھول کر مدد کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب تماشائیوں کی جیبیں خالی ہو گئیں اور بڈھے نے جو چادر زمین پر بچھائی ہوئی تھی وہ ہر مالیت کے کرنسی نوٹوں سے ڈھک گئی۔ لوگ آتے اور نوٹ پھینک کر چلے جاتے۔ گھاسوخان برابر مگر مچھ کے آنسو بہا رہا تھا۔ بغداد کی تباہی اور ہلاکو کی اولاد ہونے کی داستان سن کر کئی لوگ رونے لگے دیکھتے ہی دیکھتے گھاسوخان کے پاس کرنسی نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ وہ دامن جھاڑ کو فرش زمین سے اٹھا اور تمام رقم اپنی زنبیل میں ڈال کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ ایک شخص نے کہا :
’’یہ سب ڈراما تھا۔ اس کے کردار وہ دو نو جوان صبح خیزیے اور ٹھگ تھے اور کار میں آنے والی حسینہ شاہی محلے کی رذیل طوائف تھی۔ ان سب اچکوں نے مل کر سادہ لوح راہ گیروں کو خوب لوٹا ہے۔ یہ تو اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہر شہر اور ہر شاہراہ پر ان عیاروں نے اس قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ ‘‘
گھاسو خان کی گرگ آشتی اور مکر کی چالوں کے با وجود لوگ اس کے دام فریب میں آ جاتے اور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے۔ میں نے اس ننگ انسانیت سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ ہر جگہ پہنچتا اور یہی ڈراما سر راہ پیش کرتا۔ جب یہ کھیل پٹ گیا تو اس نے پینترا بدلا اور ایک نئے روپ سے لوٹنے کا ڈھب اختیار کیا۔ اب وہ ایک ماہر آثار قدیمہ بن گیا اور قدیم زمانے کے نادر و نایاب مخطوطوں کو فروخت کرنے لگا۔ ہلاکو نامہ تو اس کے پاس تھا ہی سب سے پہلے وہ اسی کھوٹے سکے کو چلانے میں وہ کامیاب ہو گیا۔ ایک عجائب گھر نے یہ مخطوطہ بغیر کسی جانچ پرکھ کے بھاری معاوضہ دے کر اس سے لے لیا۔ اب ہلاکو نامہ عجائب گھر کی زینت بن چکا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں ایک ماہر آثار قدیمہ نے اپنی تمہید کے جو گل بوٹے کھلائے وہ کچھ یوں تھے۔ 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔