شان حضرت علی کرم الله وجہہ احادیث کی روشنی میں



تحریر و تالیف : مدثرحسین
اس تحریر کو قلم بند کرنے سے پہلے میں اتنا عرض کر دوں کہ
نہ میں سنی نہ میں شیعہ میرا دوہاں تو دل سڑیا ھو
مک گۓ سب خشکی پینڈے جد دا دل دریارحمت وچ وڑیاھو
ناں میں پنڈت، ملاں، قاضی
ناں میں دانی، ناں فیاضی
ناں میں جھگڑے کر کر راضی
ناں میں منشی، عالم فاضل
میں جو کچھ بھی احادیث کو حوالے سے تحریر کرنے لگا ہوں یہ سب فرقہ ورانہ عبصت سے پاک صاف ہے کیونکہ درحقیقت مجھے فرقہ واریت سے سخت ترین نفرت ہے اور فرقہ واریت پھیلانے والے مجھے زہر لگتے ہیں
فرقہ واریت کی زرد میں سب سے زیاده بے ادبی حضرت علی کرم الله وجہہ کی شان مبارکہ میں ہورہی ہے جن کی شان مبارکہ بہت بلند ہے بہت ہی زیاده بلند جن سے ھمارے منافق اور فرقہ پرست علماء واقف ہوتے ہوۓ بھی انجان بنتے ہیں کیونکہ کوئی محدث ایسا نہیں جس نے شان حضرت علی کے مطلق کوئی حدیث نہ لکھی ہو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شان حضرت علی سے یہ ملاں و ذاکر حضرات نابلد ہوں یہ جان بوجھ کر صرف اور صرف اپنے فرقوں کے دفاع کو اور اپنی جھوٹی شان متعارف کروانے یہ حضرات حضرت علی کے متعلق منافقانہ رویہ اپناۓ ہوۓ ہیں کچھ ایسی ہی منافق ابوجہل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھی تھی وه اچھی طرح جانتا تھا کہ محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں مگر اس کے باوجود اس نے منافقانہ وجاہلانہ رویہ برقرار رکھا اور حضورپاک کی رسالت کا اقرار نہ کر سکا کچھ یہی حال ان ملاؤں کا ہے جو جان بوجھ کر حضرت علی کرم الله وجہہ کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور ہر معاملے میں معاذالله آپ کی شان مبارکہ کو گھٹانے کے درپے رہتے ہیں آج انشاءالله میں ان منافقوں کی منافقت کو احادیث کی روشنی میں بے نقاب کروں گا تاکہ احادیث کے علم سے نابلد معصوم عوام پر بھی ان کی حقیقت آشکار ہو سکے اور ا نہوں نے جو ان منافقوں کی تعلیمات پر عمل کرکے حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھا ہوا ہے وه ختم ہو سکے حق تعالی میری اس کاوش کو شرف قبولیت بخش کر آپ کے دلوں سے بغض علی اور اہل بیت نکال دے۔ آمین

حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

 ام المومنين حضرت سلمہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
)جامع الترمذي، 2 : 213(
ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔
)جامع الترمذي، 2, 213(
فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں۔
1. سنن نسائي، 8 : 116، کتاب الايمان، باب علامة الايمان
2. سنن نسائي، 8 : 117،
 بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
انت مني و انا منک
)صحيح البخاري، 2 : 610(
اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ علی! اعلان کر دو کہ دنیا والے جان لیں کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت عام ہے :حضرت یعلی بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔
)جامع الترمذي، 2 : 29(
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔
1. المعجم الکبير لطبراني، 11 : 55
2. مستدرک للحاکم، 3 : 126 - 127، رح : 11061
3. مجمع الزوائد، 9 : 114
حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے،
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
1. جامع الترمذی، 5 : 637، کتاب المناقب باب 21
2. کنز العمال، 13, 147، ح : 36462
 ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم درکار ہے وہ علی کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔اس لیے کوئی بھی ولی صاحب ولایت اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا جب تک وه سر جھکا کر علی کے چوکٹ تک نہ آ جاۓ اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت علی کا ذکر عبادت ہے۔
1. فردوس الاخبار للديلمي، 2 : 367، ح : 2974
2. کنزالعمال، 11 : 601، ح : 32894
علی کی عظمت و شان کا اندازه اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ علی کا ذکر بھی عبادت ہے اور حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور حضرت علیکے درمیان غلط فہمی و تفریق کی جو بھی کہانیاں ہیں وه سب بعد میں گھڑی گئیں۔ئیں۔ جنگ جمل کے تلخ واقع کو ذھن میں رکھتے ہوئے عام طور پر بعض کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے درمیان بغض وعداوت کی بلند و بالادیواریں قائم رہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جنگ جمل کے اسباب کچھ اور تھے جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں لیکن ان دونوں عظیم ہستیوں میں مخاصمت کے افسانے تراشنے والوں کو اس روایت پر غور کرناچاہیے۔
اگر اماں عائشہ کے دل میں حضرت علی کے خلاف کوئی بغض یا کھوٹ ہوتا تو وه یہ حدیث بھی بیان نہ کرتیں حالانکہ اس وقت گھر میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن رہی تھیں اگر چاہتیں تو باہر کسی سے بیان نہ کرتیں۔ دل میں )خدانخواستہ( کھوٹ یا میل ہوتا تو چپ سادھ لیتیں اور یہ حدیث چھپا لیتیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے۔ لیکن بلا کم و کاست فرمان رسول نقل کر دیا کیونکہ حقیقت چھپا کر رکھنا منافقت کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو بغض و منافقت جیسی روحانی بیماریوں سے کلیتاً صاف فرمایا تھا۔

اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی میں علی علی کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے مطابق علی کا ذکر عبادت ہے۔

چہرہ علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا بھی عبادت
 اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔

)الصواعق المحرقه، 177(
 اسی طرح ایک اور روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
1. المستدرک للحاکم، 3 : 141 - 142
2. المعجم الکبير للطبراني، 10 : 77، ح، 32895
3. فردوس الاخبار للديلمي، 5 : 42، ح : 1717
4. کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895
5. مجمع الزوائد، 9 : 111, 119

یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے
حضرت ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علی کے پاس رحبط کے مقام پر آیا انہوں نے کہا اے ہمارے مولا تجھ پر سلام ہو آپ نے فرمایا میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم،، کے مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ )علی( مولا ہے۔
)مسند احمدبن حنبل، 5 : 419(
حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ جس کا میں والی اس کا علی مولا اب یہاں کچھ مکتبہ فکر کے نام نہاد ملاں اس کو شرک کہتے ہیں ان ملاؤں سے کوئی پوچھے کہ کیا حضورپاک صلی الله علیہ وسلم بھی شرک کی دعوت دینے آۓ تھے جو یہ فرما رہے ہیں کہ جس کا میں والی اس کا علی مولا۔ ان ملاؤں کواس بات پر کسی پر کفر و شرک کا فتوی ٹھونس دینے پر شرم آنی چاہیۓ جو مگر ان کو نہیں آتی۔
ایک دوسرے مقام پر آتا ہے :
عن زيد بن ارقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال من کنت مولاه فعلي مولاه
 حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
)جامع الترمذي، 2 : 213(
پہلے تاجدار عرب و عجم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ نبی ہونے اور نبی کا امتی ہونے کا فرق رہتا ہے لیکن دوئی کا ہر تصور مٹ جاتا ہے اس لئے کہ باطل دوئی پسند اور حق لا شریک ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا یعنی جو علی سے دوستی کرے تو بھی اس کا دوست بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا، ذیل میں متعلقہ حدیث پاک درج کی جا رہی ہے
حضرت عمرو بن ذی مرو اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کے ولی ہیں۔ ’’ اے اللہ تو اس سے الفت رکھ جو علی سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے اور تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی اعانت کر جو علی کی اعانت کرتا ہے۔،،
المعجم الکبير للطبراني، 4 : 17، ح : 3514

گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔
حضرت ابی طفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رحبہ کے مقام پر بہت سارے لوگ جمع تھے ان میں سے ہر ایک نے قسم کھا کر کہا کہ ہم ميں سے ہر شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے غدیرخم کے موقع پر خطاب فرمایا جس کو وہاں کھڑے ہوئے تیس آدمیوں نے سنا۔ ابو نعیم نے کہا کہ بہت سارے لوگ جمع تھے انہوں نے گواہی دی کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ میں مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے اے اللہ تو بھی الفت رکھ جو اس سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔
)مسند احمد بن حنبل، 4 : 370(

اس حدیث کو روایت کرنے والوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مالک بن حویرث، ابو سعید خدری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت براء بن عازب، عمر بن سعد، عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔
حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت تک مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے۔ علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، ولایت علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ کی ولایت کو مانا، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
اور جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
)مجمع الزوائد، 9 : 109(
اسی مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کریں۔
1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84
2. مسند احمد بن حنبل، 1 : 119
3. مسند احمد بن حنبل، 4 : 370
4. ابن ماجه المقدمه : 43، باب 11 فضل علي ابن ابي طالب، ح : 116
5. المعجم الکبري للطبراني، 2 : 357، ح : 2505
6. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 173، ح : 4052
7. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 174، ح : 4053
8. المعجم الکبري للطبراني، 5 : 192، ح : 4059
9. المعجم الاوسط لطبراني، 3 : 69، ح : 2131
10. المعجم الکبري الاوسط لطبراني، 3 : 100، ح : 2204
11. المعجم الصغير، 1 : 64
12. مسند ابي يعلي، 1 : 428, 429، ح : 567
13. مسند ابي يعلي، 2 : 80 - 81، ح : 458
14. مسند ابي يعلي، 2 : 87، ح : 464
15. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 479
16. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 480
17. م سند ابي يعلي، 2 : 274، ح : 454
18. مسند ابي يعلي، 3 : 139، ح : 937
19. کنز العمال، 13 : 154، ح : 3648
20. کنز العمال، 13 : 157، ح : 36486
21. کنز العمال، 13 : 158، ح : 36487
22. مجمع الزوائد، 9 : 106, 107
23. موارد النعمان، 544، ح : 2205
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ فرمائیں :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تحقیق اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
)ايضاً : 132(
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب )دوست( ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔
)المستدرک للحاکم، 3 : 128(
بڑی واضح حدیث ہے فرمایا علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے تیرا حبیب میرا حبیب ہے اور میرا حبیب خدا کا حبیب، تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن، آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولایت علی کو ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ یہ حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تکرار کے ساتھ فرمایا :
 فانه منی و انا منه وهو وليکم بعدي
علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے۔
)مسند احمد بن حنبل، 5 : 356(
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں۔
1. مستدرک للحاکم، 3 : 124
2. مجمع الزوائد، 9 : 116
3. کنزالعمال، 11 : 619
ولایت علی کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علی کے بغیر نہ کسی کوغوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علی کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علی ہے، اس لئے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
)مسند احمد بن حنبل، 6 : 323(
) المتدد، للحاکم، 3 : 121(

جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔
اس سے بڑ ھ کردوئی کی نفی کیا ہوگی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہوگا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی وہ علی کو نہیں مجھے دی۔

طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا
26. محبک محبي ومبغضک مبغضي

علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔
المعجم الکبير للطبراني، 6 : 239، رقم حديث : 6097
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے )حضرت( علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے )حضرت( علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
المستدرک للحاکم، 3 : 121

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں )اس طرح جڑے رہیں گے اور( جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
)ايضاً، 124(
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

قرابت دارانا ن رسول ہاشمی
جب یہ آیت )مباھلہ( کہ ’’ہم )مل کر( اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
)الصحيح لمسلم، 2 : 278(
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ

1۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ
تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم
آ جاؤ ہم )مل کر( اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی )ایک جگہ پر( بلا لیتے ہیں۔
)آل عمران 3 : 61(
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
)معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162(

ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
) جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733(
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔
)المعجم الکبير، 1 : 319(
حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔
)مصنف ابن ابي شيبه، 12 : 60(
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
)2( المستدرک للحاکم، 3 : 130
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔
)مشکل الآتار، 4 : 388(
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
)المستدرک، 3 : 135(
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
)جامع الترمذي، 5 : 667, 7 : 3797(
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
المعجم الکبير، 3 : 119، ح : 950
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔
المعجم الکبير، 1 : 319
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔
ابن ماجه، 1 : 44، ح : 118
المستدرک، 3 : 167
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔
محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحمله شناني علي ان يبهتني
1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 160
2. المستدرک، 3 : 123
3. مسند ابي لعلي، 1 : 407
4. مجمع الزوائد، 9 : 133

ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔
اس باوجود اگر کوئی ان فرقہ پرست ملاؤں اور ذاکروں کی باتوں میں آ کر حضرت علی کرم الله وجہہ سے بغض رکھے وه اپنا انجام باخوبی جان گیا ہو گیا میرے بھائیو نکلو ان فرقہ پرست ملاؤں کے منافقت سے یہ لوگ سواۓ لوگوں کے دلوں میں نفرتیں پھیلانے کے کچھ نہیں کر سکتے یا بات پر غور بعد میں کرتے ہیں کسی پر کفر و شرک کا فتوی پہلے ٹھونستے ہیں خواه وه کوئی شیعہ ہو یا سنی نجدی وہابی ہو یا دیوبندی ہر کوئی ایک دوسرے کو زبردستی کافر بنانے پر تلا ہوا ہے اور یہ سب فرقہ پرست گمراه ہیں یہ میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ حضورپاک کا قول مبارک ہے کہ میری امت کے تیہتر فرقہ ہوں گے جن میں ماسواۓ ایک باقی سب کے سب جہنمی ہوں گے صحابہ کرام نے پوچھا یارسول الله صلی الله علیہ وسلم وه فرقہ کونسا ہو گا فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں نیز فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کسی نے بھی میرے ایک صحابی کا طرز زندگی اختیار کیا پس اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔ جبکہ یہ فرقہ پرست اس حدیث کو بھی اپنے فرقے سے منصوب کرتے ہیں شیعہ کہتے ہیں سچےھم ہیں سنی کہتے ہیں حضورپاک نے ھمارے فرقہ کو سچا گردانا وہابی اور دیوبندی کہتے ہیں کہ ھمارے علاوه باقی سب کافر و مشرک ہیں۔ خدا غارت کرے ان فرقہ پرستوں کو اور فرقہ پرستی کی تعلیم دینے والوں کو ۔
عوام کے دل میں حضرت علی رضی الله عنہہ کے متعلق جو ان فرقہ پرستوں نے تفرقات اور غلط فہمی پیدا کی ہوئیں وه آج الحمدالله میں احادیث کی روشنی میں سب کلیئر کر دی ہیں اگر مزید کسی اسلامی بھائی کو ان احادیث سے اختلاف ہو یا ان احادیث کو حوالہ درکار ہو تو مجھے آگاه کر دیجۓ ميں آپ کے تمام شکوک وشہبات رفع کر دوں گا۔دعاؤں میں یاد رکھیۓ گا
طالب دعا مدثرحسین

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔