ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر 6

0 comments
ان کے جانے کے بعد سالار کو اس وکیل کا خیال آیا جس کے ذریعے انہوں نے ہاشم مبین احمد سے رابطہ کیا تھا۔ اس وکیل کو ہائر کرنے والا بھی حسن ہی تھا اور سالار سکندر کے نام سے وہ وکیل بھی واقف نہیں تھا، مگر سالار کے لئے قابل تشویش بات اس میں حسن کا انوالو ہونا تھا۔ ہاشم مبین احمد اس وکیل سے حسن اور حسن سے اس تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔
اس نے اگلا فون حسن کو کیا اور حسن کو سارے معاملے کی نوعیت سے گاہ کیا۔
"میں تمہیں پہلے ہی اس سب سے منع کر رہا تھا۔" اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔" میں وسیم اور اس کی فیملی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے اثر ورثوخ سے بھی بخوبی واقف ہوں۔" وہ بولتا جا رہا تھا۔
سالار نے کچھ اکتاہٹ بھرے لہجے میں اسے ٹوکا۔" میں نے تمہیں فون اپنے مستقبل کا حا ل جاننے کے لئے نہیں کیا۔ میں صرف ایک خطرےسے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔"
"کس خطرے سے؟" حسن چونکا۔" تم نے جو وکیل ہائر کیا تھا وہ اس کے ذریعے تم تک اور پھر مجھ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔" سالار نے اس سے کہا۔
"نہیں، وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔" حسن نے اس کی بات پر قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟"
"کیونکہ میں نے سارا کام پہلے ہی بہت محتاط ہو کر کیا ہے۔" وہ وکیل بھی میرے اصلی نام اور پتے سے واقف نہیں ہے۔ اسے جو ایڈریس اور فون نمبر میں نے دیا تھا وہ جعلی تھا۔
سالار بے اختیار مسکرایا۔ اسے حسن سے ایسی عقلمندی اور چالاکی کی توقع رکھنی چاہئیے تھی۔ وہ ہر کام بڑی صفائی سے سرانجام دینے کا ماہر تھا۔
"میں صرف اس کے پاس ایک بار گیا تھا پھر فون پر ہی رابطہ کیا اور اس ملاقات میں بھی میرا حلیہ بالکل مختلف تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ صرف حلیے سے ہاشم مبین احمد مجھ تک پہنچ سکتے ہیں؟"
"اور اگر وہ پہنچ گئے تو۔۔۔۔۔؟"
"تو۔۔۔۔۔ پتا نہیں۔۔۔۔۔ اس تو کے بارے میں، میں نے نہیں سوچا۔" حسن نے صاف گوئی سے کہا۔
"کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے کہیں غائب ہو جاؤ اور یوں ظاہر کرو کہ جیسے تمہاری یہ غیرموجودگی کچھ ضروری کاموں کے لئے تھی۔" سالار نے اسے مشورہ دیا۔
"اس سے بہتر مشورہ بھی میرے پاس ہے۔ میں اس وکیل کو کچھ روپے پہنچا کر یہ ہدایت دے دیتا ہوں کہ ہاشم مبین یا پولیس کے پہنچنے پر وہ انہیں میرا غلط حلیہ بتائے۔ کم از کم اس طرح فوری طور پر میں کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوں گا اور ان ہی دنوں میں ویسے بھی چند ہفتوں کے لئے انگلینڈ جا رہا ہوں۔"
حسن نے بتایا۔"پولیس اگر پہنچ بھی گئی تو تب بھی میں ان کی پہنچ سے بہت دور رہوں گا، مگر مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ وہ مجھ تک پہنچ سکیں گے۔ اس لئے تم اطمینان رکھو۔"
"اگر تم واقعی اتنے بے فکر اور مطمئن ہو تو ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے وہ تم تک نہ ہی آئیں، مگر میں نے پھر بھی سوچا کہ میں تمہیں بتا دوں۔" سالار نے فون بند کرتے ہوئے اس سے کہا۔
"ویسےتم اس لڑکی کو اب لاہور میں کہاں چھوڑ کر آئے ہو؟"
"لاہور کی ایک سڑک پر چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ اور کہاں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے اپنے محل وقوع اور حدود اربعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ بس چلی گئی۔"
"عجیب بے وقوف ہو، کم از کم تم تو اس سے اس کا ٹھکانہ پوچھنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔"
"ہاں! مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑی۔" سالار نے دانستہ امامہ سے آخری بار ہونے والی اپنی گفتگو گول کر دی۔
"میں حیران ہوں کہ تم اب کس طرح کے معاملات میں نوالو ہونے لگے ہو، اپنی ٹائپ کی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہونا دوسری بات ہے مگر وسیم کی بہن جیسی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہو جانا۔۔۔۔۔ تمہارا ٹیسٹ بھی دن بدن گرتا جا رہا ہے۔"
"میں"انوالو" ہوا ہوں۔۔۔۔۔" تم واقعی عقل سے پیدل ہو ورنہ کم از کم اس طرح کی بات مجھ سے نہ کرتے۔۔۔۔۔ ایڈونچر اور انوالومنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے حسن صاحب!" سالار نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"اور آپ نے یہ فاصلہ ایک ہی چھلانگ میں طے کر لیا ہے سالار صاحب!" حسن نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔"
"اور تمہارا دماغ مجھ سے زیادہ خراب ہے ورنہ اس طرح کی حماقت کو ایڈونچر کبھی نہ کہتے۔" حسن بھی قدرے جھلایا ہوا تھا۔
"اگر تم نے میری مدد کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں جو آئے تم کہہ دو۔" سالار کو اس کی بات پر اچانک غصہ آ گیا۔
"ابھی میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ تم کس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہو۔ یہ ٹیسٹ والی بات کی طرف یا دماغ خراب ہونے والی بات کی طرف؟" حسن نے اسی انداز میں اس کی بات سے متاثر ہوئے بغیر پوچھا۔
"اچھا اب منہ بند کر لو۔ فضول بحث مت کرو۔"
"اس وقت ان تمام باتوں کو کرنے کا مطلب گڑے مردے اکھاڑنا ہے۔" حسن اب سنجیدہ تھا۔
"فرض کرو پولیس کسی صورت ہم تک پہنچ جاتی ہے اور پھر وہ امامہ کا اتا پتا جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا بتائیں گے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ کبھی بھی اس بات پر یقین کریں گے کہ امامہ کے بارے میں تمہیں کچھ پتا نہیں ہے۔ اس وقت تم کیا کرو گے؟"
"کچھ بھی نہیں کروں گا۔ میں ان سے بھی وہی کہوں گا جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔" اس نے بلند آواز میں کہا۔
"ہاں اور سارا مسئلہ تمہارے اس بیان سے ہی شروع ہو گا۔ میں امامہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں۔" حسن نے اس کا جملہ دہرایا۔"تمہیں اچھی طرح اندازہ ہونا چاہئیے کہ وہ ہر قیمت پر امامہ تک پہنچنا چاہیں گے۔"
"یہ بہت بعد کی بات ہے، میں امکانات اور ممکنات پر غور کر کے پریشان نہیں ہوتا۔جب وقت آئے گا، دیکھا جائے گا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"تم سے مجھے صرف یہ مدد چاہئیے کہ تم اس سارے معاملے کو راز ہی رکھو اور پولیس کے ہتھے نہ لگو۔"
"تمہارے کہے بغیر بھی میں یہ ہی کرتا۔ ویسے بھی میں اگر پکڑا گیا تو وسیم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔اس بار تم نے مجھے واقعی بڑی embarrassing صورتِ حال سے دوچار کیا ہے۔"
"اوکے میں فون بند کر رہا ہوں کیونکہ تم پر پھر وہی دورہ پڑنے والا ہے۔ وہی نصیحتیں اور پچھتاوا۔۔۔۔۔"
“You are acting like my father۔”
سالار نے کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ اس کا ذہن پچھلی رات کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس کے ماتھے کی تیوریاں اور بل بہت نمایاں تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ اس حد تک گر جائے گا۔"
"ریڈ لائٹ ایریا، مائی فٹ، کبھی میرے خاندان کی پچھلی سات نسلوں سے بھی کوئی وہاں نہیں گیا اور یہ لڑکا۔۔۔۔۔ کیا ہے جو میں نے اسے نہیں دیا۔۔۔۔۔ کیا ہے جس کی کمی رہنے دی ہے اور اسے دیکھو کبھی یہ خود کشی کی کوشش کرتا پھرتا ہے اور کبھی ریڈ لائٹ ایریا، میرے اللہ۔۔۔۔۔آخر کس حد تک جائے گا یہ؟" سکندر عثمان نے اپنا سر تھام لیا۔
"مجھے تو گھر کے ملازموں پر بھی بہت زیادہ اعتراض ہے۔ آخر کیوں اس لڑکی کو انہوں نے اندر آنے دیا۔ گھر کے معاملات پر نظر رکھنی چاہئیے انہیں۔" طیبہ نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"گھر کے معاملات اور مالک کے معاملات پر نظر رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ گھر کا نہیں تھا، مالک کا تھا۔" سکندر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔" اور پھر اس میں سے کسی نے بھی کسی لڑکی کو یہاں آتے نہیں دیکھا۔ وہ کہتا ہے وہ اسے اسی دن لایا تھا، چوکیدار کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا اس نے اس کے ساتھ کسی لڑکی کو آتے نہیں دیکھا۔ہاں ! جاتے ضرور دیکھا ہے ملازموں کا بھی یہی کہنا ہے۔انہوں نے نہ تو کسی لڑکی کو آتے دیکھا ہے نہ ہی جاتے دیکھا ہے۔"سکندر نے کہا۔
"اس کا مطلب ہے کہ وہ یقیناً اس لڑکی کو اچھی طرح چھپا کر لایا ہو گا۔"
"شیطانی دماغ ہے اس کا۔۔۔۔۔یہ تم جانتی ہو تم صرف یہ دعا کرو کہ یہ سارا معاملہ ختم ہو جائے۔ہاشم مبین کی بیٹی مل جائے اور ہماری جان چھوٹ جائے تاکہ ہم اس کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔"سکندر عثمان نے کہا۔
"میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہو گئی ہے ، جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟"وہ بےحد بےبس نظر آ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ اگلے روز صبح معمول کے مطابق اُٹھا اور کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ناشتہ کرنے کے لیے وہ ڈائیننگ ٹیبل پر آیا تو اس نے خلافِ معمول وہاں سکندر عثمان کو موجود پایا۔وہ عام طور پر اس وقت ناشتہ نہیں کیا کرتے تھے۔ذرا دیر سے فیکٹری جایا کرتے تھے۔سالار کو اس وقت انہیں وہاں موجود پا کر کچھ حیرت ہوئی ، مگر ان کے ستے ہوئے چہرے اور سُرخ آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید وہ ساری رات نہیں سو سکے۔
سالار کو صبح صبح باہر نکلنے کے لیے تیار دیکھ کر انہوں نے قدرے درشتی سے سے اس سے کہا۔"تم کہاں جا رہے ہو؟"
"کالج۔"
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔میرے گلے میں یہ مصیبت ڈال کر تم خود کالج جا رہے ہو۔جب تک یہ معاملہ ختم نہیں ہو جاتا تم کہیں نہیں جاؤ گے۔تمہیں پتا ہے تم کتنے خطرے میں ہو؟"
"کیسا خطرہ؟"وہ ٹھٹکا۔
"میں نہیں چاہتا ہاشم مبین تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔اس لیے فی الحال تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم گھر پر رہو۔"سکندر عثمان نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔"اس کی بیٹی مل جائے پھر تم دوبارہ کالج جانا شروع کر دینا۔"
"اس کی بیٹی اگر ایک سال نہیں ملے گی تو کیا میں ایک سال تک اندر بیٹھا رہوں گا۔آپ نے اسے میرے بیان کے بارے میں بتایا نہیں ہے۔"سالار نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں اسے بتا چکاہوں۔سنعیہ نے بھی تمہاری بات کی تصدیق کر دی تھی۔"ان کے لہجے میں سنعیہ کا نام لیتے ہوئے تلخی تھی۔"مگر ہاشم مبین ابھی بھی مصر ہے کہ اس کی بیٹی کو تم نے ہی اغوا کیا ہوا ہے۔"
"تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔اسے یقین نہیں آتا تو نہ آئے۔مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے ناشتہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"تمہیں فرق نہیں پڑتا ، مجھے پڑتا ہے۔تم ہاشم مبین احمد کو نہیں جانتے۔وہ کتنے اثرورسوخ والا آدمی ہے اور کس حد تک جا سکتا ہے اس کا اندازہ صرف مجھے ہے۔میں نہیں چاہتا کہ وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔اس لیے ابھی تم گھر پر ہی ہو۔"
سکندر عثمان نے اس بار کچھ نرم لہجے میں کہا۔شاید انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی سختی کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔وہ ان کی بات نہیں مانے گا۔
"پاپا ! میری اسٹڈیز کا حرج ہو گا۔سوری ! میں گھر پر نہیں بیٹھ سکتا۔"سالار سکندر عثمان کے لہجے کی نرمی سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
"تمہارا حرج ہوتا ہے یا نہیں ، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔میں صرف تمہیں گھر پر چاہتا ہوں۔سمجھے تم۔"اس بار انہوں نے اچانک بھڑک کر بلند آواز میں اس سے کہا۔
"کم از کم آج تو مجھے جانے دیں۔آج مجھے بہت سے ضروری کام نپٹانے ہیں۔"سالار یک دم ان کے غصے پر کچھ پزل ہوا۔
"تم وہ کام ڈرائیور کو بتا دو ، وہ کر دے گا یا پھر کسی دوست سے فون پر بات کر لو۔"سکندر نے حتمی انداز میں کہا۔
"مگر پاپا۔۔۔۔۔آپ مجھے اس طرح۔۔۔۔۔"سکندر عثمان نے اس کی بات نہیں سنی۔وہ ڈائننگ روم سے نکل رہے تھے۔وہ کچھ دیر بلند آواز میں بڑبڑاتا رہا پھر تنگ آ کر خاموش ہو گیا۔وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اسے باہر نکلنے نہیں دیں گے مگر اسے بات کی توقع نہیں تھی۔اس کا خیال تھا کہ سنعیہ کو سامنے لانے پر اس کی اپنی فیملی کے ساتھ ہاشم مبین بھی مطمئن ہو جائیں گے اور کم از کم یہ مصیبت اس کے کندھوں سے اُتر جائے گی ، مگر اس کے لیے سکندر عثمان کا یہ انکشاف حیران کن تھا کہ ہاشم مبین نے ابھی بھی اس کے بیان پر یقین نہیں کیا تھا۔
سالار وہاں بیٹھا ناشتہ کرتے ہوئے کچھ دیر ان تمام معاملات کے بارے میں سوچتا رہا۔کالج نہ جانے کا مطلب گھر میں بند ہو جانا تھا اور وہ گھر میں بند نہیں ہونا چاہتا تھا۔اس کا موڈ یک دم آف ہو گیا۔ناشتہ کرتے کرتے اس نے اسے ادھورا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سکندر صاحب ! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔"وہ لاؤنج میں بیٹھے تھے جب ملازمہ کچھ جھجکتے ہوئے ان کے پاس آئی۔
"ہاں کہو۔۔۔۔۔پیسوں کی ضرورت ہے؟"سکندر عثمان نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔وہ اس معاملے میں خاصے فراخ دل تھے۔
"نہیں صاحب جی ! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں کچھ اور کہنا چاہتی ہوں آپ سے۔"
"بولو۔۔۔۔۔"وہ ہنوز اخبار میں منہمک تھے۔ملازمہ کچھ پریشان ہونے لگی۔ناصرہ نے بہت سوچ سمجھ کر سالار اور امامہ کے بارے میں سکندر عثمان کو بتانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ اسے یہ سب کچھ اب بہت پریشان کن لگ رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ جلد یا بدیر یہ پتا چل جائے کہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ وہ تھی اور پھر اسے اور اس کے پورے خاندان کو پولیس کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی لیے اپنے شوہر سے مشورے کے بعد اس نے سکندر عثمان کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ کم از کم وہ دونوں گھر والوں میں سے کسی ایک کی ہمدردی اپنے ساتھ رکھے۔
"چپ کیوں ہو ، بولو۔۔۔۔۔"سکندر عثمان نے اسے خاموش پا کر ایک بار پھر اس سے کہا۔ان کی نظریں ابھی بھی اخبار پر جمی ہوئی تھیں۔
"سکندر صاحب ! میں آپ کو سالار صاحب کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"ناصرہ نے بالآخر ایک طویل توقف کے بعد کہا۔
سکندر عثمان نے بےاختیار اخبار اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
"سالار کے بارے میں۔۔۔۔۔؟کیا کہنا چاہتی ہو؟"انہوں نے اخبار کو سامنے سینٹر ٹیبل پر پھینکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"سالار صاحب اور امامہ بی بی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"سکندر عثمان کا دل بےاختیار اچھل کر حلق میں آ گیا۔
"کیا۔۔۔۔۔؟"
"بہت دن پہلے ایک دن سالار صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان کا موبائل اپنی بیٹی کے ہاتھ امامہ بی بی کو پہنچا دوں۔"سکندر عثمان کو لگا وہ دوبارہ کبھی ہل نہیں سکیں گے۔تو ہاشم مبین احمد کا خیال اور اصرار ٹھیک تھا ، ان کے بد ترین قیاس اور اندازے درست تھے۔
"پھر۔۔۔۔۔؟"انہیں اپنی آواز کسی کھائی سے آتی لگی۔"میں نے انکار کر دیا کہ یہ کام میں نہیں کر سکتی مگر انہوں نے مجھے بہت دھمکایا۔انہوں نے کہا کہ وہ مجھے گھر سے نکال دیں گے۔جس پر مجبوراً میں وہ موبائل امامہ بی بی تک پہنچانے کے لیے تیار ہو گئی۔"
اپنی پوزیشن کو محفوظ رکھنے کے لیے ناصرہ نے اپنے بیان میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہوئے کہا۔"پھر اس کے کچھ دن بعد ایک دن سالار صاحب نے کہا کہ میں کچھ کاغذات امامہ بی بی تک پہنچاؤں اور پھر اسی وقت ان کاغذات کو واپس لے آؤں۔میں نے اپنی بیٹی کے ذریعے وہ کاغذات بھی امامہ بی بی کے پاس پہنچا کر واپس منگوا لیے اور سالار صاحب کو دے دیئے۔میں نے سالار صاحب سے ان کاغذات کے بارے میں پوچھا مگر انہوں نے نہیں بتایا مگر مجھے شک تھا کہ شاید وہ نکاح نامہ تھا کیونکہ اس وقت سالار صاحب کے کمرے میں پانچ لوگ موجود تھے۔ان میں سے ایک کوئی مولوی بھی تھا۔"
سکندر عثمان کو وہاں بیٹھے بیٹھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔"اور یہ کب کی بات ہے؟"
"امامہ بی بی کے جانے سے چند دن پہلے۔"ناصرہ نے کہا۔
"تم نے مجھے اس بارے میں کیوں نہیں بتایا؟"سکندر عثمان نے درشت لہجے میں کہا۔
"میں بہت خوفزدہ تھی صاحب جی۔۔۔۔۔سالار صاحب نے مجھے دھمکیاں دی تھیں کہ اگر میں نے آپ کو یا کسی اور کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتایا تو وہ مجھے یہاں سے باہر پھینکوا دیں گے۔"ناصرہ نے کہا۔
"وہ کون لوگ تھے ، انہیں پہچانتی ہو؟"سکندر عثمان نے بےحد اضطراب کے عالم میں کہا۔
"بس ایک کو۔۔۔۔۔حسن صاحب تھے۔"اس نے سالار کے ایک دوست کا نام لیا۔"باقی اور کسی کو میں نہیں پہچانتی۔"ناصرہ نے کہا۔
"میں بہت پریشان تھی۔آپ کو بتانا چاہتی تھی مگر ڈرتی تھی کہ آپ میرے بارے میں کیا سوچیں گے مگر اب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔"
"اور کون کون اس کے بارے میں جانتا ہے؟"سکندر عثمان نے کہا۔
"کوئی بھی نہیں۔بس میں ، میری بیٹی اور میرا شوہر۔"ناصرہ نے جلدی سے کہا۔
"ملازموں میں سے کسی اور کو کچھ پتا ہے؟"
"توبہ کریں جی ! میں کیوں کسی کو کچھ بتاتی۔۔۔۔۔میں نے کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔"
"تم نے جو کچھ کیا اس کے بارے میں تو میں بعد میں طے کروں گا مگر فی الحال تم ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو تم کسی کو بھی اس سارے معاملے کے بارے میں نہیں بتاؤ گی۔اپنا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر لو۔ورنہ اس بار میں نہ صرف تمہیں واقعی اس گھر سے نکال دوں گا بلکہ میں ہاشم مبین اور پولیس سے کہہ دوں گا کہ یہ سب کچھ تم نے کروایا ہے۔تم نے ہی ان دونوں کو گمراہ کیا تھا اور تم ہی ان دونوں کے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچاتی رہیں ، پھر پولیس تمہارے ساتھ اور تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کرے گی تمہیں یاد رکھنا چاہئیے۔تمہاری ساری عمر جیل کے اندر ہی گزر جائے گی۔"وہ غصے کے عالم میں اسے دھمکا رہے تھے۔
"نہیں صاحب جی ! میں کیوں کسی کو کچھ بتاؤں گی۔آپ میری زبان کٹوا دیجئیے گا۔اگر میرے منہ سے دوبارہ اس کے بارے میں کچھ سنیں۔"
ناصرہ گھبرا گئی مگر سکندر عثمان نے رکھائی کے ساتھ اس کی بات کاٹ دی۔
"بس کافی ہے۔اب تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔"انہوں نے اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سکندر عثمان پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔اس وقت ان کے سر پر واقعی آسمان ٹوٹ پڑا تھا اور اس وقت انہیں پہلی بار سالار کے ہاتھوں بےوقوف بننے کا احساس ہو رہا تھا۔وہ کس ڈھٹائی ، مہارت اور بےہودگی سے ان سے جھوٹ پر جھوٹ بولتا اور انہیں دھوکا دیتا گیا تھا اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہو سکا تھا اور اگر ملازمہ انہیں یہ سب کچھ نہ بتاتی تو وہ ابھی بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے مطمئن بیٹھے ہوتے۔یہی سوچ کر کہ سالار امامہ کے ساتھ انوالو نہیں ہے اور نہ ہی اس کی گمشدگی میں اس کا کوئی حصہ تھا۔وہ چند دن گھر پر رہ کر ایک بار پھر کالج جانا شروع کر چکا تھا۔
وہ جانتے تھے کہ سالار کی نگرانی کروائی جا رہی تھی اور ہاشم مبین احمد کو سب کچھ پتا چلنے کا مطلب کیا تھا۔وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کا کچھ دیر پہلے کا اطمینان یک دم ختم ہو گیا تھا۔وہ اندازہ کر سکتے تھے کہ وہ کاغذات کیسے تھے۔ان پانچ آدمیوں کی موجودگی کا مطلب کیا تھا ، سالار اور امامہ کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا تھی اور اس وقت ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کا گلا دبا دیں یا پھر اسے شوٹ کر دیں مگر وہ جانتے تھے وہ یہ دونوں کام نہیں کر سکتے تھے۔سالار سکندر ان کا وہ بیٹا تھا جس سے وہ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور اس طرح بےوقوف بننے کے بعد پہلی بار وہ سوچ رہے تھے کہ وہ اب سالار سکندر کی کسی بات پر یقین نہیں کریں گے۔وہ اسے مکمل طور پر ہر معاملے کے بارے میں اندھیرے میں رکھیں گے ویسے ہی جیسے وہ کر رہا تھا۔
"اس کی امامہ سے جان پہچان کیسے ہوئی؟"سکندر عثمان نے اپنے گھر میں بےچینی سے ٹہلتے ہوئے طیبہ سے پوچھا۔
"مجھے کیا پتا کہ اس کی جان پہچان امامہ سے کیسے ہوئی۔کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ میری انگلی پکڑ کر چلتا ہو۔"طیبہ نے قدرے خفگی سے کہا۔
"میں نے تم سے بہت بار کہا تھا کہ اس پر نظر رکھا کرو مگر تم۔۔۔۔۔تمہیں اپنی ایکٹیوٹیز سے فرصت ملے تو تم کسی اور کے بارے میں سوچو۔"
"اس پر توجہ دینا صرف میرا ہی فرض کیوں ہے۔"طیبہ یک دم بھڑک اٹھیں۔"آپ کو بھی تو اپنی ایکٹیوٹیز چھوڑ دینی چاہئیں۔سارا الزام میرے ہی سر کیوں۔"
"میں تم کو کوئی الزام نہیں دے رہا اور اس بحث کو ختم کرو۔امامہ کے ساتھ شادی۔۔۔۔۔تم اندازہ کر سکتی ہو کہ ہاشم مبین کو جب اس تعلق کا پتا چلے گا تو وہ کیا تماشا کھڑا کریں گے۔مجھے یہ سوچ کر شاک لگ رہا ہے کہ اس نے ایسی حرکت کرنے کا سوچ کیسے لیا۔اسے بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ ہماری اور ہماری فیملی کی سوسائٹی میں کتنی عزت ہے۔"سکندر عثمان طیبہ کے قریب صوفے پر بیٹھے ہوئے بولے۔"ایک پرابلم ختم ہوتی ہے تو ہمارے لئے دوسری پرابلم شروع کر دیتا ہے۔یہ سارا چکر اسی وقت شروع ہوا ہو گا جب پچھلے سال اس نے خود کشی کی کوشش کے بعد اس کی جان بچائی تھی۔ہم بےوقوف تھے کہ ہم نے اس معاملے پر نظر نہیں رکھی ، ورنہ شاید یہ سب بہت پہلے سامنے آ جاتا۔"سکندر عثمان اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے کہنے لگے۔
"اور یقیناً یہ لڑکی بھی اس کے ساتھ اپنی مرضی سے انوالو ہوئی ہو گی ورنہ اس طرح کوئی کسی کے ساتھ مرضی کے خلاف تو نکاح نہیں کر سکتا اور ہاشم مبین احمد کو دیکھیں ، وہ یوں شور مچا رہا ہے جیسے اس کی بیٹی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ، جو کیا ہے سالار نے ہی کیا ہے۔انہوں نے تو ایف آئی آر بھی اغواء کی درج کروائی ہے۔"طیبہ نئے سرے سے سلگنے لگیں۔
"جو بھی ہے قصور تمہارے بیٹے کا ہے۔نہ وہ ایسے کاموں میں پڑتا نہ اس طرح پھنستا۔اب تو تم صرف یہ سوچو کہ تمہیں اس صورت حال سے کس طرح بچنا ہے۔"
"ابھی ہم اتنی بری طرح نہیں پھنسے ، جس طرح آپ سوچ رہے ہیں۔اس پر یہ جرم ثابت نہیں ہوا۔پولیس یا ہاشم مبین احمد کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور ثبوت کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔"
"اور جس دن ان تک کوئی ثبوت پہنچ گیا اس دن کیا ہو گا۔تم نے یہ سوچا ہے۔"سکندر عثمان نے کہا۔
"آپ پھر امکانات کی بات کر رہے ہیں۔ایسا ہوا تو نہیں ہے اور ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ہو بھی نا۔"
"اس نے اگر ہمیں اتنا بڑا دھوکا دے دیا ہے تو ہو سکتا ہے ایک اور دھوکا یہ ہو کہ اس کا رابطہ اس لڑکی کے ساتھ نہیں ہے۔ممکن ہے یہ ابھی بھی اس لڑکی کے ساتھ رابطے میں ہو۔"سکندر عثمان کو خیال آیا۔
"ہاں ہو سکتا ہے۔پھر کیا کیا جائے۔"
"میں اس سے بات کروں گا تو سمجھو پتھر کے ساتھ اپنا سر پھوڑوں گا ، وہ پھر جھوٹ بول دے گا ، جھوٹ بولنے میں تو ماہر ہو چکا ہے۔"انہوں نے تنفر آمیز لہجے میں کہا۔
"بس چند ماہ میں اس کا بی اے مکمل ہو جائے گا پھر میں اسے باہر بھجوا دوں گا۔کم از کم ہر وقت ہاشم مبین احمد کی طرف سے جن اندیشوں کا میں شکار رہتا ہوں وہ تو ختم ہوں گے۔"انہوں نے سگریٹ کا ایک کش لگایا۔
"مگر آپ ایک چیز بھول رہے ہیں سکندر ! "طیبہ نے بڑی سنجیدگی سے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
"کیا؟"سکندر نے انہیں چونک کر دیکھا۔
"سالار کی امامہ کے ساتھ خفیہ شادی۔۔۔۔۔اس شادی کے بارے میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپ کو خود ہی کرنا ہے۔آپ کیا کریں گے ، اس شادی کے بارے میں۔"
"طلاق کے علاوہ اس شادی کا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔"سکندر عثمان نے قطعی لہجے میں کہا۔
"وہ شادی ماننے پر تیار نہیں ہے تو طلاق دینے پر رضامند ہو جائے گا۔"
"جب میں اسے ثبوت پیش کروں گا تو اسے اپنی شادی کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔"
"اور اگر شادی کا اعتراف کرنے کے بعد بھی اس نے امامہ کو طلاق دینے سے انکار کر دیا تو۔"
"کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا اور وہ میں نکال لوں گا۔چاہے وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا پھر مجھے زبردستی کرنا پڑے۔میں یہ معاملہ ختم کر دوں گا ، اس طرح کی شادی انسان کو ساری عمر خوار کرتی ہے۔اس سے تو پیچھا چھڑانا ہی پڑے گا ، ورنہ میں اسے اس بار مکمل طور پر اپنی جائیداد سے عاق کر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔"سکندر عثمان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسن کچھ دیر پہلے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تھا ، جب اچانک اسے اپنے والد کی کال ملی ، وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنےکے لیے کہہ رہے تھے۔ان کا لہجہ بےحد عجیب تھا مگر حسن نے توجہ نہیں دی ، لیکن جب پندرہ منٹ بعد اپنے گھر پہنچا تو پورچ میں کھڑی سکندر عثمان کی گاڑی دیکھ کر چوکنا ہو گیا۔وہ سالار کے گھر کی تمام گاڑیوں اور ان کے نمبرز کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔
"سکندر انکل کو میرے اس معاملے میں انوالو ہونے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اس لئے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ سالار کا دوست سمجھ کر پوچھ گچھ کے لئے آئے ہوں گے۔میں بڑے اطمینان سے ان کی باتوں کا جواب دوں گا اور کسی بھی الزام کی تردید کر دوں گا لیکن میری پریشانی پاپا کے سامنے میری پوزیشن مشکوک کر دے گی ، اس لئے انکل سکندر کو دیکھ کر مجھے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کرنا چاہئیے۔"اس نے پہلے اپنا لائحہ عمل طے کیا اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ اسٹڈی میں داخل ہو گیا۔اس کے والد قاسم فاروقی اور سکندر عثمان کافی پی رہے تھے ، لیکن ان کے چہرے کی غیر معمولی سنجیدگی اور اضطراب وہ ایک لمحے میں بھانپ گیا تھا۔
"کیسے ہیں انکل سکندر آپ ! اس بار بہت دنوں کے بعد آپ ہماری طرف آئے۔"باوجود اس کے کہ سکندر یا قاسم نے اس کی ہیلو کا جواب نہیں دیا۔حسن نے بہت بےتکلفی کا مظاہرہ کیا۔ اسے اس بار بھی جواب نہیں ملا تھا۔سکندر عثمان اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
"بیٹھو۔"قاسم فاروقی نے قدرے درشتی سے کہا۔
"سکندر تم سے کچھ باتیں پوچھنے آیا ہے تمہیں ہر بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہے۔اگر تم نے جھوٹ بولا تو میں سکندر عثمان سے کہہ چکا ہوں کہ وہ تمہیں پولیس کے پاس لے جائے۔میری طرف سے تم بھاڑ میں جاؤ۔میں تمہیں کسی بھی طرح بچانے کی کوشش نہیں کروں گا۔"
قاسم فاروقی نے اس کے بیٹھتے ہی بلا تمہید کہا۔
"پاپا ! آپ کیا کہہ رہے ہیں ، میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔"حسن نے حیرت کا مظاہرہ کیا مگر اس کا دل دھڑکنے لگا تھا۔معاملہ اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا اس نے سمجھ لیا تھا۔
"اوور سمارٹ بننے کی کوشش مت کرو۔سکندر ! پوچھو اس سے ، کیا پوچھنا چاہتے ہو اور میں دیکھتا ہوں یہ کیسے جھوٹ بولتا ہے۔"
"امامہ کے ساتھ سالار کی شادی میں شرکت کی ہے تم نے؟"
"انکل۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔آپ کیا بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔کون سی شادی۔۔۔۔۔کیسی شادی۔۔۔۔۔"حسن نے مزید حیرت کا مظاہرہ کیا۔
"وہی شادی جو میری عدم موجودگی میں میرے گھر پر ہوئی جس کے لیے امامہ کو پیپرز بھجوائے گئے تھے۔"
"پلیز انکل ! آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔آپ کے گھر میں ضرور آتا جاتا رہتا ہوں مگر مجھے سالار کی کسی شادی کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے اور نہ ہی میری معلومات کے مطابق اس نے شادی کی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس لڑکی کا بھی پتا نہیں ہے ، جس کا آپ نام لے رہے ہیں۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے سالار کی کسی لڑکی کے ساتھ انوالومنٹ ہو ، مگر میں اس کے بارے میں نہیں جانتا ، وہ ہر بات مجھے نہیں بتاتا۔"
سکندر عثمان اور قاسم فاروقی خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔وہ خاموش ہوا تو سکندر عثمان نے اپنے سامنے پڑا ہوا ایک لفافہ اٹھایا اور اس میں موجود چند کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھ دئیے۔حسن کا رنگ پہلی بار اترا۔وہ امامہ اور سالار کا نکاح نامہ تھا۔
"اس پر دیکھو۔۔۔۔۔۔تمہارے ہی signatures ہیں نا؟"سکندر نے سرد لہجے میں پوچھا۔اگر یہ سوال انہوں نے قاسم فاروقی کے سامنے نہ کیا ہوتا تو وہ ان دستخط کو اپنے دستخط ماننے سے انکار کر دیتا مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔
"یہ میرے signatures ہیں ، مگر میں نے نہیں کیے۔"اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
"پھر کس نے کیے ہیں ، تمہارے فرشتوں نے یا سالار نے؟"قاسم فاروقی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
حسن کچھ بول نہیں سکا۔وہ حواس باختہ سا باری باری انہیں دیکھنے لگا۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سکندر عثمان اس طرح اس کے سامنے وہ نکاح نامہ نکال کر رکھ دیں گے۔وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے وہ نکاح نامہ کہاں سے حاصل کیا تھا ، سالار سے یا پھر۔۔۔۔۔اس کی ساری عقلمندی اور چالاکی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
"تم یہ نہیں مانو گے کہ سالار کا امامہ کے ساتھ نکاح تمہاری موجودگی میں ہوا ہے۔"قاسم فاروقی نے اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔
"پاپا ! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ سب سالار کی ضد پر ہوا تھا ، اس نے مجھے مجبور کیا تھا۔"حسن نے یک دم سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔کچھ بھی چھپانے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ جھوٹ بولتا تو اپنی پوزیشن اور خراب کرتا۔
"میں نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر۔۔۔۔۔"
قاسم فاروقی نے اس کی بات کاٹ دی۔"اس وقت تمہیں یہاں صفائیاں اور وضاحتیں پیش کرنے کے لئے نہیں بلایا۔تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اس لڑکی کو اس نے کہاں رکھا ہوا ہے؟"
"پاپا ! مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔"حسن نے تیزی سے کہا۔
"تم پھر جھوٹ بول رہے ہو۔"
"آئی سویر پاپا ! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔وہ اسے لاہور چھوڑ آیا تھا۔"
"یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا ، مجھے صرف سچ بتاؤ۔"قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند و تیز لہجے میں کہا۔
"میں جھوٹ نہیں بول رہا پاپا ! "حسن نے احتجاج کیا۔
"لاہور کہاں چھوڑ آیا تھا؟"
"کسی سڑک پر۔اس نے کہا تھا وہ خود چلی جائے گی۔"
"تم مجھے یا سکندر کو بےوقوف سمجھ رہے ہو ، اس نے اس لڑکی سے شادی کی اور پھر اسے ایک سڑک پر چھوڑ دیا۔بےوقوف مت بناؤ ہمیں۔"قاسم فاروقی بھڑک اٹھے۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں پاپا ! اس نے کم از کم مجھ سے یہی کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو سڑک پر چھوڑ آیا تھا۔"
"تم نے اس سے پوچھا نہیں کہ پھر اس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کیوں کی ، اگر اسے یہی کرنا تھا۔"
"پاپا ! اس نے یہ شادی اس لڑکی کی مدد کے لیے کی تھی۔اس کے گھر والے زبردستی اس کی شادی کسی لڑکے سے کرنا چاہتے تھے وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس نے سالار سے رابطہ کیا اور مدد مانگی اور سالار اس کی مدد پر تیار ہو گیا۔وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ سالار واقتی طور پر اس سے نکاح کر لے تاکہ اگر اس کے والدین زبردستی اس کی شادی کرنا چاہیں تو وہ اس نکاح کا بتا کر انہیں روک سکے۔"
حسن اب سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتا تھا۔اس نے پوری بات بتانے کا فیصلہ کیا۔
"اور اگر ضرورت پڑے تو بیلف کے ذریعے اس کو رہائی دلوائی جا سکے مگر یہ کوئی محبت وغیرہ کی شادی نہیں تھی۔وہ لڑکی ویسے بھی کسی اور لڑکے کو پسند کرتی تھی۔آپ اس نکاح نامے کو دیکھیں تو اس میں بھی اس نے طلاق کا حق پہلے ہی لے لیا ہے ، تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ سالار سے رابطہ کئے بغیر ہی طلاق حاصل کر لے۔"
"بس یا کچھ اور؟"قاسم فاروقی نے اس سے کہا۔حسن کچھ نہیں بولا۔خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔
"میں قطعاً تمہاری کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں۔تم نے بہت اچھی کہانی بنائی ہے مگر میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ اس کہانی پر یقین کر لوں۔تمہیں اب امامہ تک پہنچنے میں سکندر کی مدد کرنی ہے۔"قاسم فاروقی نے قطعی لہجے میں کہا۔
"پاپا ! یہ میں کیسے کر سکتا ہوں۔مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔"حسن نے احتجاج کیا۔
"تم یہ کیسے کرو گے۔یہ تم خود جان سکتے ہو۔مجھے صرف یہ بتانا تھا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔"
"پاپا پلیز ! آپ مجھ پر یقین کریں ، میں امامہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔نکاح کروانے کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں کیا۔حسن نے کہا۔
"تم اس کے اتنے قریب ہو کہ اپنی خفیہ شادی میں وہ تمہیں گواہ کے طور پر لے رہا ہے مگر تمہیں یہ نہیں پتا کہ اس کی بیوی گھر سے بھاگنے کے بعد اب کہاں ہے۔میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں حسن ! کسی صورت میں بھی نہیں۔"قاسم فاروقی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"تمہیں اگر پتا نہیں ہے تو بھی تم اس کا پتا کراؤ۔۔۔۔۔کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔سالار تم سے کچھ نہیں چھپائے گا۔"
"پاپا ! وہ بہت سی باتیں مجھے بھی نہیں بتاتا۔"
"وہ سب باتیں تمہیں بتاتا ہے یا نہیں ، میں فی الحال صرف ایک چیز میں دلچسپی رکھتا ہوں اور وہ امامہ کے بارے میں معلومات ہیں۔تم ہر طریقے سے اس سے امامہ کا پتا حاصل کرو اور سالار کو کسی بھی طرح یہ پتا نہیں چلنا چاہئیے کہ سکندر کو اس کی شادی کی اطلاع مل چکی ہے یا اس نے اس سلسلے میں تم سے کوئی ملاقات کی ہے۔اگر مجھے یہ پتا چلا کہ سالار یہ بات جان گیا ہے تو میں تمہارا کیا حشر کروں گا یہ تمہیں یاد رکھنا چاہئیے۔میں سکندر کو تو پہلے ہی اجازت دے چکا ہوں کہ وہ ہاشم مبین کو تمہارا نام دے دے ، اس کے بعد ہاشم مبین تمہارے ساتھ پولیس کے ذریعے نبٹے یا کسی اور طریقے سے ، میں بالکل پرواہ نہیں کروں گا۔اب تم یہ طے کر لو کہ تم نے سالار کے ساتھ دوستی نبھانی ہے یا پھر اس گھر میں رہنا ہے۔"قاسم فاروقی نے قطعیت سے کہا۔
"پاپا ! میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح امامہ کے بارے میں کچھ معلومات مل جائیں۔میں سالار سے اس کے بارے میں بات کروں گا۔میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ سکندر انکل کو اس سارے معاملے کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔"وہ میکانیکی انداز میں دہراتا جا رہا تھا۔
وہ اس بار واقعی بری طرح اور خلاف توقع پھنسا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار چند دن گھر بیٹھا رہا تھا مگر پھر ضد کر کے اس نے کالج جانا شروع کر دیا۔ہاشم مبین اور اس کے گھر والے امامہ کی تلاش میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے تھے۔اگرچہ وہ یہ سب کچھ بڑی رازداری کے ساتھ کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے ملازمین اور پولیس کے ذریعے سکندر کو ان کی کوششوں کی خبر مل رہی تھی۔وہ لاہور میں بھی امامہ کی ہر سہیلی سے رابطہ کر رہے تھے جسے وہ جانتے تھے۔
سالار نے ایک دن اخبار میں بابر جاوید نامی ایک شخص کا خاکہ دیکھا۔اس کے بارے میں معلومات دینے والے کے لئے انعام کا اعلان تھا۔وہ اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔یہی وہ فرضی نام تھا جو حسن نے وکیل کو امامہ کے شوہر کا دیا تھا اور وہ اشتہار یقیناً امامہ کے گھر والوں کی طرف سے تھا حالانکہ نیچے دیا گیا فون نمبر امامہ کے گھر کا نہیں تھا ، وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ پولیس اس وکیل کے پاس پہنچ گئی ہو گی اور اس کے بعد اس وکیل نے اس آدمی کے کوائف انہیں بتائے ہوں گے۔اب یہ حقیقت صرف وہ وکیل ، حسن اور خود وہ جانتا تھا کہ بابر جاوید سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتا مگر وہ مطمئن ہو گیا تھا۔وہ ہاشم مبین کے گھر والوں کو کسی حد تک بھٹکانے میں کامیاب رہا تھا۔
اس پورے عرصے کے دوران سالار امامہ کی کال کا منتظر ۔ اس نے کئی بار امامہ کو اس کے موبائل پر کال بھی کیا مگر اسےموبائل آف ملتا۔اسے یہ تجسس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں تھی۔اس تجسس کو ہوا دینے میں کچھ ہاتھ حسن کا بھی تھا جو بار بار اس سے امامہ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس پورے عرصے کے دوران سالار امامہ کی کال کا منتظر ۔ اس نے کئی بار امامہ کو اس کے موبائل پر کال بھی کیا مگر اسےموبائل آف ملتا۔اسے یہ تجسس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں تھی۔اس تجسس کو ہوا دینے میں کچھ ہاتھ حسن کا بھی تھا جو بار بار اس سے امامہ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا ، بعض دفعہ وہ چڑ جاتا۔
"مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں ہے اور مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر رہی۔بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اسے مجھ سے زیادہ تمہیں دلچسپی ہے۔"
اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ حسن کا یہ تجسس اور دلچسپی کسی مجبوری کی وجہ سے تھی۔وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا۔سالار کا خیال تھا کہ امامہ اب تک جلال کے پاس جا چکی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہو اگرچہ اس نے امامہ سے جلال کی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا مگر اسے یقین تھا کہ امامہ نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا ہو گا۔وہ اس کے پاس دوبارہ ضرور گئی ہو گی۔خود سالار بھی چاہتا تھا کہ وہ خود جلال سے رابطہ قائم کرے یا پھر ذاتی طور پر جا کر ایک بار اس سے ملے۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ امامہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے یا نہیں ، مگر فی الحال یہ دونوں کام اس کے لیے ناممکن تھے۔سکندر عثمان مسلسل اس کی نگرانی کروا رہے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ یہ نگرانی کروانے والے واحد نہیں ہیں۔ہاشم مبین احمد بھی یہی کام کروا رہے تھے اور اگر وہ لاہور جانے کا ارادہ کرتا تو اول تو سکندر عثمان اسے جانے ہی نہ دیتے اور بالفرض جانے کی اجازت دے بھی دیتے تو شاید خود بھی اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔اسے اب یہ سب کچھ ایک حماقت لگ رہا تھا۔ایسی حماقت جو اسے کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔سکندر اور طیبہ اب ہمہ وقت گھر پر رہتے تھے اور اسے کہیں بھی جانے کے لیے اسے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔حسن اب اس سے کم کم ملنے لگا تھا۔وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتا تھا۔اس صورت حال سے وہ بہت بور ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس رات کمپیوٹر پر بیٹھا تھا جب اس کے موبائل پر ایک کال آئی تھی۔اس نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے لاپرواہی سے موبائل اٹھا کر دیکھا اور پھر اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔اسکرین پر موجود نمبر اس کے اپنے موبائل کا تھا۔امامہ اسے کال کر رہی تھی۔
"تو بالآخر آپ نے ہمیں یاد کر ہی لیا۔"اس نے بےاختیار سیٹی بجائی۔اس کا موڈ یک دم فریش ہو گیا تھا۔کچھ دیر پہلے والی بوریت یکسر غائب ہو گئی تھی۔
"میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تم مجھے کبھی کال نہیں کرو گی۔اتنا لمبا عرصہ لگا دیا تم نے۔"رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
"میں بہت دنوں سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر کر نہیں پا رہی تھی۔"دوسری طرف سے امامہ نے کہا۔
"کیوں ، ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی۔فون تو تمہارے پاس موجود تھا۔"سالار نے کہا۔
"بس کوئی مجبوری تھی۔"اس نے مختصراً کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"سالار نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
"بچکانہ سوال مت کرو سالار ! جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گی تو پھر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟"
"میرے گھر والے کیسے ہیں؟"
سالار کچھ حیران ہوا۔اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
"بالکل ٹھیک ہیں ، خوش و خرم ہیں ، عیش کر رہے ہیں۔"اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔"تم واقعی بہت اچھی بیٹی ہو ، گھر سے جا کر بھی تمہیں گھر اور گھر والوں کا کتنا خیال ہے۔ہاؤ نائس۔"
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔"وسیم کیسا ہے؟"
"یہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے ٹھیک ہی ہو گا۔وہ خراب کیسے ہو سکتا ہے۔"اس کے انداز اور لہجے میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
"انہیں یہ تو پتا نہیں چلا کہ تم نے میری مدد کی تھی؟"سالار کو امامہ کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔
"پتا لگا۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر امامہ ! پولیس اسی دن میرے گھر پہنچ گئی تھی جس دن میں تمہیں لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔"سالار نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔"تمہارے فادر نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی تمہیں اغوا کرنے کے سلسلے میں۔"وہ ہنسا۔"ذرا سوچو میرے جیسا بندہ کسی کو اغوا کر سکتا ہے اور وہ بھی تمہیں۔۔۔۔۔جو کسی بھی وقت کسی کو شوٹ کر سکتی ہے۔"
اس کے لہجے میں اس بار طنز تھا۔"تمہارے فادر نے پوری کوشش کی ہے کہ میں جیل پہنچ جاؤں اور باقی کی زندگی وہاں گزاروں مگر بس میں کچھ خوش قسمت واقع ہوا ہوں کہ بچ گیا ہوں۔گھر سے کالج تک میری نگرانی کی جاتی ہے۔ڈمب کالز ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔اب تمہیں کیا کیا بتاؤں۔بہر حال تمہاری فیملی ہمیں خاصا زچ کر رہی ہے۔"اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تم تک پہنچ جائیں گے۔"اس بار امامہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔"میرا خیال تھا کہ انہیں کسی بھی طرح تم پر شک نہیں ہو گا۔مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"واقعی تمہاری وجہ سے مجھے بہت سے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"میری کوشش تھی کہ میں پہلے خود کو محفوظ کر لوں پھر ہی تمہیں فون کروں اور اب میں واقعی محفوظ ہوں۔"
سالار نے کچھ تجسس آمیز دلچسپی کے ساتھ اس کی بات سنی۔"تمہارا موبائل اب میں استعمال نہیں کروں گی اور میں اسے واپس بھیجنا چاہتی ہوں ، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔"وہ اسے بتا رہی تھی۔"میں تمہیں کچھ پیسے بھی بھجواؤں گی۔ان تمام اخراجات کے لئے جو تم نے میرے لئے کئے۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار اس کی بات کاٹی۔"نہیں ، پیسے رہنے دو۔مجھے ضرورت نہیں ہے۔موبائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میرے پاس دوسرا ہے۔تم چاہو تو اسے استعمال کرتی رہو۔"
"نہیں ، میں اب اسے استعمال نہیں کروں گی۔میری ضرورت ختم ہو چکی ہے۔"
اس نے کہا۔کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔"میں چاہتی ہوں کہ تم اب مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دو اور طلاق کے پیپرز کے ساتھ نکاح نامہ کی ایک کاپی بھی جو میں پہلے تم سے نہیں لے سکی۔"
"کہاں بھجواؤں؟"سالار نے اس کے مطالبے کا جواب کہا۔اس کے ذہن میں یک دم ایک جھماکا ہوا تھا۔وہ اگر اب طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے ابھی تک کسی سے شادی نہیں کی تھی نہ ہی طلاق کے اس حق کو استعمال کیا تھا ، جو نکاح نامہ میں وہ اس کی خواہش پر اسے تفویض کر چکا تھا۔
"تم اسی وکیل کے پاس وہ پیپرز بھجوا دو جس کو تم نے ہائر کیا تھا اور مجھے اس کا نام اور پتا لکھوا دو ، میں وہ پیپرز اس سے لے لوں گی۔"
سالار مسکرایا۔وہ بےحد محتاط تھی۔"مگر میرا تو اس وکیل کے ساتھ ڈائریکٹ کوئی رابطہ نہیں ہے۔میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں پھر پیپرز اس تک کیسے پہنچاؤں؟"
"جس دوست کے ذریعے تم نے اس وکیل سے رابطہ کیا تھا اسی دوست کے ذریعے وہ پیپرز اس تک پہنچا دو۔"یہ تو طے تھا کہ وہ اسے کسی بھی طرح اپنا کوئی اتا پتا نہ دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اور اس پر پوری طرح قائم تھی۔
"تم طلاق لینا کیوں چاہتی ہو؟"وہ اس وقت بہت موڈ میں تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔شاید وہ اس سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
"طلاق کیوں لینا چاہتی ہوں؟تم کتنی عجیب بات کر رہے ہو۔یہ تو پہلے ہی طے تھا کہ میں تم سے طلاق لوں گی پھر اس سوال کی کیا تک بنتی ہے"۔امامہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
"وہ تب کی تھی ، اب تو خاصا لمبا وقت گزر گیا ہے اور میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا۔"سالار نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ دوسری طرف اس وقت امامہ کے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین نکل گئی ہو گی۔
"تم کیا کہہ رہے ہو؟"
"میں یہ کہہ رہا ہوں امامہ ڈئیر ! میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا ، نہ ہی دوں گا۔"اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔
"تم۔۔۔۔۔تم طلاق کا حق پہلے ہی مجھے دے چکے ہو۔"امامہ نے بےاختیار کہا۔
"کب کہاں۔۔۔۔۔۔کس وقت۔۔۔۔۔۔کس صدی میں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"تمہیں یاد ہے ، میں نے نکاح سے پہلے تمہیں کہا تھا کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق چاہتی ہوں میں۔اگر تم طلاق نہیں بھی دیتے تو میں خود ہی وہ حق استعمال کر سکتی ہوں۔تمہیں یہ یاد ہونا چاہئیے۔"وہ جتا رہی تھی۔
"اگر میں تمہیں یہ حق دیتا تو تم یہ حق استعمال کر سکتی تھی مگر میں نے تو تمہیں ایسا کوئی حق دیا ہی نہیں۔تم نے نکاح نامہ دیکھا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔خیر تم نے دیکھا ہی ہو گا ورنہ آج طلاق کی بات کیوں کر رہی ہوتیں۔"
دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔سالار نے ہوا میں تیر چلایا تھا مگر وہ نشانے پر بیٹھا تھا۔امامہ نے یقیناً پیپرز سائن کرتے ہوئے انہیں دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔سالار بےحد محفوظ ہو رہا تھا۔
"تم نے مجھے دھوکا دیا۔"بہت دیر بعد اس نے امامہ کو کہتے سنا۔
"ہاں ، بالکل اسی طرح جس طرح تم نے پسٹل دکھا کر مجھے دھوکا دیا۔"وہ برجستگی سے بولا۔
"میں سمجھتا ہوں کہ تم اور میں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ہم دونوں میں اتنی برائیاں اور خامیاں ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو مکمل طور پر Complement کرتے ہیں۔"وہ اب ایک بار پھر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
"زندگی۔۔۔۔۔سالار ! زندگی اور تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔یہ نا ممکن ہے۔"امامہ نے تند لہجے میں کہا۔
"مجھے نپولین کی بات دُہرانی چاہئیے کہ میری ڈکشنری میں نا ممکن کا لفظ نہیں ہے یا مجھے تم سے یہ ریکویسٹ کرنی چاہئیے کہ آؤ ! اس نا ممکن کو مل کر ممکن بنائیں۔"وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔"
"نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان یہ تو نا ممکن ہے۔"سالار ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
" میں تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں سالار ! تمہارا اور میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے ، ورنہ شاید میں تمہاری پیشکش پر غور کرتی مگر اب اس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔تم پلیز ، مجھے طلاق دے دو۔"وہ اب نرم لہجے میں کہہ رہی تھی۔سالار کا دل بےاختیار ہنسنے کو چاہا۔
"تم اگر میری پیش کش پر غور کرنے کا وعدہ کرو تو میں اپنا لائف اسٹائل بدل لیتا ہوں۔"سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"تم سمجھنے کی کوشش کرو ، تمہاری اور میری ہر چیز مختلف ہے۔زندگی کی فلاسفی ہی مختلف ہے۔ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔"اس بار وہ جھنجلائی۔
"نہیں۔۔۔۔۔نہیں میری اور تمہاری فلاسفی آف لائف بہت ملتی ہے۔تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یہ ملتی نہ بھی ہوئی تو بھی ذرا سے ایڈجسٹمنٹ کے بعد ملنے لگے گی۔"وہ اس طرح بولا جیسے اپنے بہترین دوست سے گفتگو کر رہا ہو۔
"ویسے بھی مجھ میں کمی کیا ہے۔میں تمہارے پُرانے منگیتر اسجد سے خوبصورت نہ سہی مگر جلال انصر جیسا معمولی شکل و صورت کا بھی نہیں ہوں۔میری فیملی کو تم اچھی طرح جانتی ہو۔کیرئیر میرا کتنا برائٹ ہو گا ، اس کا تمہیں اندازہ ہے۔میں ہر لحاظ سے جلال سے بہتر ہوں۔"وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔وہ امامہ کو بری طرح زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔
"میرے لیے کوئی بھی شخص جلال جیسا نہیں ہو سکتا اور تم۔۔۔۔۔تم تو کسی صورت بھی نہیں۔"اس کی آواز میں پہلی بار نمایاں خفگی تھی۔
"کیوں؟"سالار نے بےحد معصومیت سے پوچھا۔
"تم مجھے اچھے نہیں لگتے ہو۔آخر تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔دیکھو ، تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں کورٹ میں چلی جاؤں گی۔"وہ اب اسے دھمکا رہی تھی۔سالار اس کی بات پر بےاختیار ہنسا۔
"یو آر موسٹ ویلکم۔جب چاہیں جائیں۔کورٹ سے اچھی جگہ میل ملاقات کے لیے اور کون سی ہو گی۔آمنے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کا مزہ ہی اور ہو گا۔"وہ محفوظ ہو رہا تھا۔
"ویسے تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ کورٹ میں صرف میں نہیں پہنچوں گا ، بلکہ تمہارے پیرنٹس بھی پہنچیں گے۔"وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
"سالار ! میرے لیے پہلے ہی بہت سے پرابلمز ہیں تم ان میں اضافہ نہ کرو۔میری زندگی بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔کم از کم تم تو میری مشکلات کو نہ بڑھاؤ۔"اس بار امامہ کے لہجے میں رنجیدگی و بےچارگی تھی۔وہ کچھ اور محفوظ ہوا۔
"میں تمہارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر ! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں ، تمہارے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔تم خود سوچو ، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔"وہ بظاہر بڑی سنجیدگی سے بولا۔
"تم جانتے ہو نا ، میں نے اتنی مشکلات کس لیے سہی ہیں۔تم سمجھتے ہو ، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جاؤں گی جو ہر وہ کبیرہ گناہ کرتا ہے جسے میرے پیغمبر ﷺ نا پسند کرتے ہیں۔نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیے۔میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔جلال مجھے نہیں ملا مگر میں تمہارے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔"اس نے بے حد تلخ انداز میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
"شاید اسی لیے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی ، کیونکہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہوتی ہیں ، تمہارے جیسی نہیں۔"سالار نے اسی ٹکڑا توڑ انداز میں جواب دیا۔
دوسری طرف خاموشی رہی۔اتنی لمبی خاموشی کہ سالار کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔"ہیلو۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو؟"
"سالار ! مجھے طلاق دے دو۔"اسے امامہ کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔سالار کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔
"تم کورٹ میں جا کر لے لو ، جیسے تم مجھ سے کہہ چکی ہو۔"سالار نے ترکی بہ ترکی کہا اور دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
حسن نے ان چند ماہ میں سالار سے امامہ کے بارے میں جاننے کی بےحد کوشش کی تھی (حسن کے اپنے بیان کے مطابق ) مگر وہ ناکام رہا تھا۔وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ سالار اور امامہ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔سالار کی طرح خود انہوں نے موبائل پر بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
سکندر نے سالار کو امریکہ میں مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔وہ جانتے تھے کہ اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اسے لینے میں خوشی محسوس کرے گی
امامہ نے سالار کو دوبارہ فون نہیں کیا تھا حالانکہ سالار کا خیال تھا کہ وہ اسے دوبارہ فون کرے گی اور تب وہ اسے بتا دے گا کہ وہ اسے نکاح نامے میں پہلے ہی طلاق کا حق دے چکا ہے اور وہ نکاح نامے کی کاپی بھی اس کے حوالے کر دے گا۔وہ اس سے یہ بھی کہہ دے گا کہ اس نے اس کے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا مگر امامہ نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم نہیں کیا ، نہ ہی سالار نے اپنے پیپرز میں اس نکاح نامے کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت کی ، ورنہ وہ بہت پہلے وہاں اس کی عدم موجودگی سے واقف ہو جاتا۔
جس دن وہ آخری پیپر دے کر واپس گھر آیا۔سکندر عثمان کو اس نے اپنا منتظر پایا۔
"تم اپنا سامان پیک کر لو ، آج رات کی فلائٹ سے تم امریکہ جا رہے ہو ، کامران کے پاس۔"
"کیوں پاپا ! اس طرح اچانک۔۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک تو ہے؟"
"تمہارے علاوہ سب کچھ ٹھیک ہے۔"سکندر نے تلخی سے کہا۔
"مگر پھر آپ مجھے اس طرح اچانک کیوں بھیج رہے ہیں؟"
"یہ میں تمہیں رات کو ائیرپورٹ چھوڑنے کے لیے جاتے ہوئے بتاؤں گا۔فی الحال تم جا کر اپنا سامان پیک کرو۔"
"پاپا پلیز ! آپ مجھے بتائیں آپ اس طرح مجھے کیوں بھجوا رہے ہیں؟"سالار نے کمزور احتجاج کیا۔
"میں نے کہا نا میں تمہیں بتا دوں گا۔تم جا کر اپنا سامان پیک کرو ، ورنہ میں تمہیں سامان کے بغیر ہی ائیرپورٹ چھوڑ آؤں گا۔"
سکندر نے اسے دھمکایا۔ وہ کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔اپنا سامان پیک کرتے ہوئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سکندر عثمان کے اس اچانک فیصلے کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔اس نے اپنی دراز کھول کر اپنے پیپرز نکالنے شروع کر دئیے۔وہاں نکاح نامہ نہیں تھا۔اسے ان کے اس فیصلے کی سمجھ آ گئی تھی اور اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے نکاح نامے کو اتنی لاپرواہی سے وہاں کیوں رکھا تھا۔وہ نکاح نامہ سکندر عثمان کے علاوہ کسی اور کے پاس ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور اس کمرے میں آنے اور اس کی دراز کھولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں اب کوئی الجھن نہیں تھی۔اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا سامان پیک کیا۔وہ اب صرف یہ سوچ رہا تھا سکندر عثمان سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے کیا بات کرے گا۔
رات کو ائیر پورٹ چھوڑنے کے لیے صرف سکندر اس کے ساتھ آئے تھے ، طیبہ نہیں۔ان کا لہجااور انداز بےحد روکھا اور خشک تھا۔سالار نے بھی اس بار کوئی سوال نہیں کیا۔ائیرپورٹ جاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک سادہ کاغذ اور قلم نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"اس پر سائن کر دو۔"
"یہ کیا ہے؟"سالار نے حیرانی سے اس سادہ کاغذ کو دیکھا۔
"تم صرف سائن کرو ، سوال مت کرو۔"انہوں نے بے حد روکھے انداز میں کہا۔سالار نے مزید کچھ کہے بغیر ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم لے کر اس کاغذ پر سائن کر دیے۔سکندر نے اس کاغذ کو تہہ کر کے بریف کیس میں رکھا اور بریف کیس کو دوبارہ بند کر دیا۔
"جو کچھ تم کر چکے ہو ، اس کے بعد تم سے کچھ کہنا یا کوئی بات کرنا بےکار ہے۔تم مجھ سے ایک کے بعد دوسرا ، اور دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ بولتے رہے۔یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تو کبھی حقیقت کا پتا ہی نہیں چلے گا۔میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں امریکہ بھیجنے کی بجائے ہاشم مبین کے حوالے کر دوں تاکہ تمہیں اندازہ ہو اپنی حماقت کا ، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، مجھے تمہیں بچانا ہی ہے۔تم میری اس مجبوری کا آج تک فائدہ اٹھاتے رہے ہو مگر آئندہ نہیں اٹھا سکو گے۔میں تمہارا نکاح نامہ امامہ کے حوالے کر دوں گا اور اگر مجھے دوبارہ یہ پتا چلا کہ تم نے اس سے رابطہ کیا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں اس بار جو کروں گا تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔تم میرے لیے کافی مصیبتیں کھڑی کر چکے ہو ، اب ان کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئیے سمجھے تم۔"
انہوں نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔اس کے انداز میں عجیب طرح کی لاپرواہی اور اطمینان تھا۔سکندر عثمان بے اختیار سلگا۔یہ ان کا وہ بیٹا تھا جو 150 + کا آئی کیو رکھتا تھا۔کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ وہ سرے سے کوئی آئی کیو رکھتا بھی تھا یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ جو اس نے امریکہ میں گزارے تھے وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔وہ اس سے پہلے بھی کئی بار سیر و تفریح کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ اور ان کے بغیر امریکہ اور یورپ جاتا رہا تھا مگر اس بار جس طریقے سے سکندر نے اسے امریکہ بھجوایا تھا اس نے جہاں ایک طرف اسے مشتعل کیا تھا تو دوسری طرف اس کے لیے بہت سے دوسرے پرابلمز بھی پیدا کر دئیے تھے۔اس کے جو دوست اے لیول کے بعد امریکہ آ گئے تھے۔وہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھ رہے تھے۔وہ کسی ایک اسٹیٹ میں نہیں تھے۔ کچھ یہی حال اس کے رشتہ داروں اور کزنز کا تھا۔ خود اس کے اپنے بہن بھائی بھی ایک جگہ پر نہیں تھے۔وہ اپنی فیملی سے اتنا اٹیچ نہیں تھا کہ ان کی کمی محسوس کرتا یا ہوم سکنیس کا شکار ہوتا۔یہ صرف اس طرح اچانک وہاں بھجوائے جانے کا نتیجہ تھا کہ وہ اس طرح اضطراب کا شکار ہو رہا تھا۔
کامران سارا دن یونیورسٹی میں ہوتا اور اگر وہ گھر آتا بھی تو اپنی اسٹڈیز میں مصروف ہو جاتا۔اس کے ایگزامز قریب تھے جبکہ سالار سارا دن یا تو اپارٹمنٹ میں بیٹھا فلمیں دیکھتا رہتا یا پھر چینلز گھمانے میں مصروف رہتا اور جب وہ ان دونوں کاموں سے بیزار ہو جاتا تو آوارہ گردی کے لیے نکل جاتا۔اس نے وہاں اپنے قیام کے دوران نیو یارک میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا جہاں کامران رہ رہا تھا۔وہاں کا کوئی نائٹ کلب ، ڈسکو ، پب ، بار ، تھیٹر ، سینما یا میوزیم اور آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔
اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ جن تین levy league کی یونیورسٹیز میں اس نے اپلائی کیا تھا ان تینوں میں رزلٹ آنے سے پہلے ہی اس کی ایڈمیشن کی درخواستیں قبول کی جا چکی تھیں۔وہ تینوں یونیورسٹیز ایسی تھیں جن میں اس کے دور یا قریب کا کوئی رشتے دار نہیں تھا اور یہ اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اسے کسی ایسی یونیورسٹی میں ایڈمٹ کروائیں جہاں اس کے بہن بھائیوں میں سے نہیں تو کم از کم اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی ضرور موجود ہو تاکہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہیں۔سالار کی جگہ ان کا کوئی دوسرا بیٹا levy league کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تو سکندر عثمان فخر میں مبتلا ہوتے اور اس چیز کو اپنے اور اپنی پوری فیملی کے لئے اعزاز سمجھتے مگر یہاں وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ سالار پر نظر کیسے رکھ سکیں گے۔سالار نے ان یونیورسٹیز میں سے Yale کو چُنا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف Yale میں ان کا کوئی شناسا اور واقف کار نہیں تھا ، بلکہ New Haven میں بھی سکندر عثمان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نہیں تھا۔
رزلٹ آنے کے بعد اسے یونیورسٹی سے میرٹ اسکالر شپ بھی مل گیا تھا۔اپنے باقی بھائیوں کے برعکس اس نے ضد کر کے ہوسٹل میں رہنے کے بجائے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا۔سکندر عثمان اسے اپارٹمنٹ میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے ، مگر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے پاس اتنی رقم آ گئی تھی کہ وہ خود ہی کوئی اپارٹمنٹ لے لیتا کیونکہ یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے سکندر اس کے کاؤنٹ میں پہلے ہی ایک لمبی چوڑی رقم جمع کروا چکے تھے حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اسکالر شپ لے رہا تھا مگر سالار سکندر کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان سے ہر وہ "کام" اور "مطالبہ" کرنے کے لئے بنایا تھا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔وہ زمین پر خاص طور پر انہیں تنگ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جس چیز کو ان کے دوسرے بچے مشرق کہتے وہ اسے مغرب کہتا۔جسے دوسرے زمین قرار دیتے وہ اس کے آسمان ہونے پر دلائل دینا شروع کر دیتا۔وہ اس کی باتوں ، حرکتوں اور ضد پر زیادہ سے زیادہ اپنا بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول ہائی کر سکتے تھے اور کچھ نہیں۔
New Haven جانے سے پہلے سکندر اور طیبہ اس کے لیے خاص طور پر پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔وہ کئی دن تک اسے سمجھاتے رہے تھے ، جنہیں وہ اطمینان سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتا رہا تھا۔وہ کئی سالوں سے نصیحتیں سننے کا عادی تھا اور عملی طور پر وہ نصیحتیں اب اس پر قطعاً کوئی اثر نہیں کرتی تھیں۔دوسری طرف سکندر اور طیبہ واپس پاکستان جاتے ہوئے بےحد فکرمند بلکہ کسی حد تک خوفزدہ بھی تھے۔
وہ Yale سے فنانس میں ایم بی اے کرنے آیا تھا اور اس نے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔
پاکستان میں جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا تھا اگرچہ وہ بھی بہت اچھے تھے مگر وہاں تعلیم اس کے لیے کیک واک تھی۔Yale میں مقابلہ بہت مشکل تھا وہاں بےحد قابل لوگ اور ذہین اسٹوڈنٹ موجود تھے۔اس کے باوجود وہ بہت جلد نظروں میں آنے لگا تھا۔
اس میں اگر ایک طرف اس کی غیر عمولی ذہنی صلاحیتوں کا دخل تھا تو دوسری طرف اس کے رویے کا بھی۔ایشین اسٹوڈنٹس والی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی اس میں مفقود تھی۔اس میں لحاظ و مروت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ احساسِ کمتری اور مرعوبیت تھی جو ایشین اسٹوڈنٹس امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز میں فطری طور پر لے کر آتے ہیں۔اس نے بچپن ہی سے بہترین اداروں میں پڑھا تھا۔ایسے ادارے جہاں پڑھانے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بھی کوئی علم کے بہتے ہوئے سر چشمے نہیں ہوتے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ Yale نے اسکالر شپ دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا وہ اگر باقی دونوں یونیورسٹیز میں سے کسی کا انتخاب کرتا تو اسکالر شپ اسے وہاں سے بھی مل جاتا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ جہاں چاہتا ایڈمیشن لے سکتا تھا۔اگر اپنے فیملی بیک گراؤنڈ اسٹیٹس اور قابلیت کا زعم نہ ہوتا تب بھی سالار سکندر اس قدر تلخ اور الگ تھلگ نیچر رکھتا تھا کہ وہ کسی کو اپنی خوش اخلاقی کے جھوٹے مظاہرہ سے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔رہی سہی کسر اس کے آئی کیو لیول نے پوری کر دی تھی۔
شروع کے چند ہفتوں میں ہی اس نے اپنے پروفیسرز اور کلاس فیلوز کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی تھی اور یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔وہ بچپن سے تعلیمی اداروں میں اسی قسم کی توجہ حاصل کیا کرتا تھا۔وہ ایسا اسٹوڈٹ نہیں تھا ، جو فضول باتوں پر بحث برائے بحث کرتا۔اس کے سوال ہی اس طرح کے ہوتے تھے کہ اس کے اکثر پروفیسرز کو فوری طور پر ان کا جواب دینے میں دشواری ہوتی۔جواب غیر تسلی بخش بھی ہوتا ، تب بھی وہ جتاتا نہیں تھا صرف خاموش ہو جاتا تھا ، مگر وہ یہ تاثر بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ مطمئن ہو گیا تھا یا اس جواب کو تسلی کر رہا تھا۔وہ بحث صرف ان پروفیسرز سے کرتا تھا ، جن کے بارے میں اسے یہ یقین ہوتا کہ وہ ان سے واقعی کچھ نہ کچھ سیکھے گا یا جب کے پاس روایتی یا کتابی علم نہیں تھا۔
پڑھائی وہاں بھی اس کے لیے بہت مشکل نہیں تھی ، نہ ہی اس کا سارا وقت پڑھائی میں گزرتا تھا۔پہلے کی نسبت اسے کچھ زیادہ وقت دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے لئے اور اپنی سرگرمیوں کے لئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔
وہ وہاں کسی ہوم سکنیس کا شکار نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے پاکستان کو یاد کرتا رہتا یا پاکستان کے ساتھ اس طرح کے عشق میں مبتلا ہوتا کہ ہر وقت اس کے کلچر کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتا نہ ہی امریکہ اس کے لیے کوئی نئی اور اجنبی جگہ تھی اس لیے اس نے وہاں موجود پاکستانیوں کو تلاش کرنے اور ان کے ساتھ روابط بڑھانے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود وہاں موجود کچھ پاکستانیوں سے اس کی شناسائی ہو گئی۔
یونیورسٹی کی دوسری بہت سی سوسائٹیز ، ایسوسی ایشنز اور کلبز میں اس کی دلچسپی تھی اور اس پاس ان کی ممبر شپ بھی تھی۔
پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت بے کار پھرنے میں ضائع کرتا تھا۔خاص طور پر ویک اینڈز۔۔۔۔۔سینما ، کلبز ، ڈسکوز ، تھیٹرز ۔۔۔۔۔اس کی زندگی ان ہی چاروں کے درمیان تقسیم شدہ تھی۔ہر نئی فلم ، ہر نیا اسٹیج پلے ، ہر نیا کنسرٹ ، اور کوئی بھی نئی انسسٹر و مینٹل پرفارمنس وہ نہیں چھوڑتا تھا یا پھر ہر نیا چھوٹا ، بڑا ریسٹورنٹ ، مہنگے سے مہنگا اور سستے سے سستا ۔۔۔۔۔اسے ہر ایک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔
اور سب کے درمیان وہ ایڈونچر اس کے ذہن میں اب تک تھا جس کی وجہ سے وہ امریکہ میں موجود تھا۔سکندر کو اس کے نکاح کا پتا کب چلا تھا ، کیسے چلا تھا ، سالار نے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ سکندر عثمان کو اس کے بارے میں کیسے پتا چلا ہو گا۔یہ حسن یا ناصرہ نہیں تھے جنہوں نے سکندر عثمان کو سالار اور امامہ کے بارے میں بتایا ہو گا۔وہ ان کی طرف سے مطمئن تھا یہ خود امامہ ہی ہو گی ، جس نے اس سے فون پر بات کرنے کے بعد یہ سوچا ہو گا کہ اس کے بجائے سکندر عثمان سے ساری بات کی جائے اور اس نے یقیناً ایسا ہی کیا ہو گا ، اسی لیے اس نے دوبارہ سالار سے رابطہ نہیں کیا۔سکندر نے اس سے رابطہ کرنے کے بعد ہی اس کے کمرے کی تلاشی لے کر وہ نکاح نامہ برآمد کر لیا تھا۔
مگر یہ سب کب ہوا تھا۔۔۔۔۔؟یہ وہ سوال تھا ، جس کا جواب وہ نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔
جو بھی تھا امامہ کے لیے اس کی نا پسندیدگی میں پاکستان سے امریکہ آتے ہوئے کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔یکے بعد دیگرے وہ اس کے ہاتھوں زک اٹھانے پر مجبور ہوا تھا اور اب وہ پچھتاتا تھا کہ اس نے اس تمام معاملے میں امامہ کی مدد کیسے کی۔بعض دفعہ اسے حیرانی ہوتی تھی کہ آخر وہ امامہ جیسی لڑکی مدد کرنے پر تیار کیسے ہو گیا تھا اور اس حد تک مدد کہ۔۔۔۔۔
وہ اب ان تمام واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتا تھا۔آخر میں نے اس کی مدد کیوں کی جبکہ مجھے جو کرنا چاہئیے تھا کہ اس کے رابطہ کرنے پر میں وسیم کو ، اس کے والدین کو یا خود اپنے والدین کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتا دیتا یا پھر جلال کے بارے میں انہیں بتا دیتا یا پھر اس کے کہنے پر اس کے ساتھ سرے سے نکاح کرتا ہی نہ یا اسے گھر سے فرار ہونے میں تو کبھی اس طرح مدد نہ کرتا۔
بعض دفعہ اسے لگتا کہ جیسے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں استعمال ہوا تھا۔اتنی فرنبرداری ، اتنی تابع داری آخر کیوں۔۔۔۔۔؟جبکہ وہ اس کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں رکھتی تھی اور وہ کسی طرح سے بھی اس کی مدد کرنے پر مجبور نہیں تھا۔
اب اسے وہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے زیادہ حماقت لگتا۔وہ کسی سائیکالوجسٹ کی طرح امامہ کے بارے میں اپنے رویے کا تجزیہ کرتا اور مطمئن ہو جاتا۔
"جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ مکمل طور پر میرے ذہن سے نکل جائے گی نہ بھی نکلی تب بھی مجھے کیا فرق پڑے گا۔"وہ سوچتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا اور اسی حلقہ احباب میں ایک نام سعد کا تھا۔اس کا تعلق کراچی سے تھا۔سالار کی طرح وہ بھی امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا مگر سالار کے برعکس اس کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔یہ سالار کا اندازہ تھا۔سعد کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت ہینڈسم بھی تھا۔نیوہیون میں ایک امریکی دوست کے توسط سے اس کی ملاقات سعد سے ہوئی تھی اور اس کی طرف دوستی میں پہل کرنے والا سعد ہی تھا۔سالار نے اس دوستی کو قبول کرنے میں قدرے تامل کیا کیونکہ اسے یوں لگتا تھا جیسے سعد اور اس کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔سعد وہاں سے ایم فل کر رہا تھا۔سالار کے برعکس وہ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔اس کا حلیہ اس کی مذہب سے جذباتی وابستگی بتانے کے لیے کافی تھا۔اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مذہب کے بارے میں اس کا علم بہت زیادہ تھا۔سالار نے زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص سے دوستی کی تھی جو مذہبی تھا۔
سعد پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کے لیے کہتا رہتا۔وہ مختلف آرگنائزیشنز اور کلبز میں بھی بہت ایکٹو تھا۔سالار کے برعکس امریکہ میں اس کا کوئی قریبی رشتے دار نہیں تھا ، صرف ایک دور کے چچا تھے جو کسی دوسری اسٹیٹ میں رہتے تھے۔شاید اسی لیے اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ سوشل تھا۔سالار کے برعکس وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور شاید یہ لاڈ اور پیار ہی تھا جس نے اس کے والدین کو اسے اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج دیا تھا ورنہ اس کے باقی دونوں بھائی سعد کے والد کے ساتھ گریجویشن کے بعد بزنس میں شریک ہو گئے تھے۔
وہ بھی ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر رہتا تھا مگر اس کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں چار اور لوگ بھی رہتے تھے۔ان چار میں سے دو عرب اور ایک بنگلہ دیشی کے علاوہ ایک اور پاکستانی تھا۔وہ تمام اسٹوڈنٹس تھے۔
سعد پہلی ہی ملاقات میں سالار سے بہت بےتکلف ہو گیا تھا۔سالار کے امریکی دوست جیف نے جب سعد کو سالار کی اکیڈیمک کامیابیوں کے بارے میں بتایا تو ہر ایک کی طرح سعد بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔
سالار کو سعد کا چہرہ دیکھ کر اور خاص طور پر اس کی داڑھی دیکھ کر ہمیشہ جلال کا خیال آتا۔داڑھی کی وجہ سے دونوں میں عجیب سی مماثلت اور مشابہت نظر آتی۔کئی بار دوسرے دوستوں کے علاوہ سعد بھی ویک اینڈ پر اس کے ساتھ ہوتا۔
"تم مسلمان ہو لیکن مذہب کی سرے سے پابندی نہیں کرتے۔"سعد نے ایک دفعہ سالار سے کہا تھا۔
"اور تم ضرورت سے زیادہ مذہبی ہو۔"سالار نے جواباً کہا۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ جس طرح تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہتے ہو اور ہر وقت اسلام کی بات کرتے رہتے ہو یہ کچھ اوور ایکٹنگ ٹائپ چیز ہو جاتی ہے۔"سالار نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا۔"تم تھکتے نہیں ہو ہر وقت نمازیں پڑھ کر۔"
"یہ فرض ہے۔اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اسے ہر وقت یاد رکھیں۔"سعد نے زور دیتے ہوئے کہا۔سالار نے ایک جماہی لی۔
"تم بھی عبادت کیا کرو ، آخر تم بھی مسلمان ہو۔"سعد نے اس سے کہا
"میں جانتا ہوں اور عبادت نہ کرنے سے کیا میں مسلمان نہیں رہوں گا۔"اس نے کچھ تیکھے لہجے میں سعد سے کہا۔
"صرف نام کا مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تم؟"
"سعد ! پلیز اس قسم کے فضول ٹاپک پر بات مت کرو۔میں جانتا ہوں تمہیں مذہب میں دلچسپی ہے مگر مجھے نہیں ہے۔بہتر ہے ہم ایک دوسرے کی رائے اور جذبات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر کچھ ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔جیسے میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم نماز چھوڑ دو ، اس طرح تم بھی مجھ سے یہ نہ کہو کہ میں نماز پڑھوں۔"سالار نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تو سعد خاموش ہو گیا۔
مگر کچھ دنوں بعد وہ اس کے اپارٹمنٹ پر آیا۔سالار اس کی تواضع کے لیے کچھ لانے کے لیے کچن میں گیا تو سعد بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا۔اس نے باتوں کے دوران فریج کھول لیا اور اس میں موجود کھانے کی چیزوں پر نظر دوڑانے لگا۔سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
"کیوں؟"سعد نے مائیکروویو کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
"اس میں پورک (سؤر کا گوشت) ہے۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مذاق مت کرو۔"سعد ٹھٹک گیا۔
"اس میں مذاق والی کون سی بات ہے۔"سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔سعد نے جیسے پھینکنے والے انداز میں پلیٹ شیلف پر رکھ دی۔
"تم پورک کھاتے ہو؟"
"میں پورک نہیں کھاتا۔میں صرف یہ برگر کھاتا ہوں کیونکہ یہ مجھے پسند ہے۔"سالار نے برنر جلاتے ہوئے کہا۔
"تم جانتے ہو ، یہ حرام ہے؟"
"اسلام میں؟"
"ہاں ! "
"اور پھر بھی ؟"
"اب تم پھر وہی تبلیغی وعظ شروع مت کرنا ، میں صرف پورک ہی نہیں کھاتا ، ہر قسم کا گوشت کھا لیتا ہوں۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔وہ اب فریج کی طرف جا رہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آ رہا۔"
"خیر اس میں ایسی بےیقینی والی کیا بات ہے۔یہ کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے۔"وہ اب فریج میں پڑے دودھ کے پیکٹ کو نکال رہا تھا۔
"ہر چیز کھانے کے لیے نہیں ہوتی۔"سعد کچھ تلملایا۔"ٹھیک ہے تم زیادہ مذہبی نہ سہی مگر مسلمان تو ہو اور اتنا تو تم جانتے ہی ہو گے کہ پورک اسلام میں حرام ہے ، کم از کم ایک مسلمان کے لیے۔"سالار خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔
"میرے لئے کچھ مت بنانا ، میں نہیں کھاؤں گا۔"سعد یک دم کچن سے نکل گیا۔
"کیوں؟"سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔سعد واش بیسن کے سامنے کھڑا صابن سے ہاتھ دھو رہا تھا۔
"کیا ہوا؟"سالار نے اس سے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سعد نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ دھوتا رہا۔سالار چھبتی ہوئی نظروں سے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ہاتھ دھونے کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
"میں تو اس فریج میں رکھی کوئی چیز نہیں کھا سکتا ، بلکہ تمہارے برتنوں میں بھی نہیں کھا سکتا۔اگر تم یہ برگر کھا لیتے ہو تو اور بھی کیا کچھ نہیں کھا لیتے ہو گے۔چلو باہر چلتے ہیں ، وہیں جا کر کچھ کھاتے ہیں۔"
"یہ بہت انسلٹنگ ہے۔"سالار نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"نہیں ، انسلٹ والی تو کوئی بات نہیں ہے۔بس میں یہ حرام گوشت نہیں کھانا چاہتا اور تم اس معاملے میں پرہیز کے عادی نہیں ہو۔"سعد نے کہا۔
"میں نے تمہیں یہ گوشت کھلانے کی کوشش نہیں کی۔تم نہیں کھاتے ، اس لیے میں نے وہ برگر پکڑتے ہی تمہیں منع کر دیا۔"سالار نے کہا۔"مگر تم کو تو شاید کوئی فوبیا ہو گیا ہے۔تم اس طرح ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے میں نے اپنے پورے فلیٹ میں اس جانور کو پالا ہوا ہے اور رات دن ان ہی کے ساتھ رہتا ہوں۔"سالار ناراض سا ہو گیا۔
"چلو باہر چلتے ہیں۔"سعد نے اس کی ناراضی کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
"باہر چل کر کچھ کھائیں گے تو میں بل پے نہیں کروں گا ، تم کرو گے۔"سالار نے کہا۔
"ٹھیک ہے ، میں کر دوں گا ، نو پرابلم۔تم چلو۔"سعد نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"اور اگلی دفعہ تم میرے اپارٹمنٹ پر آتے ہوئے گھر سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آنا۔"سالار نے قدرے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
"اچھا لے آؤں گا۔"سعد نے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔اس کی طرح بہت سے لوگ وہاں پھر رہے تھے۔وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔بہت لاپرواہی سے ایک آئس کریم اسٹک کھاتے ہوئے وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے میں مصروف تھا جب اس کی توجہ تین سال کے ایک بچے نے اپنی طرف مبذول کر لی۔وہ بچہ ایک فٹ بال کے پیچھے دوڑ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سیاہ حجاب اوڑھے ایک لڑکی کھڑی تھی جو مسکراتے ہوئے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔وہ وہاں موجود بہت سے ایشین میں سے ایک تھی مگر حجاب میں ملبوس واحد لڑکی تھی۔وہ لاشعوری طور پر اسے دیکھے گیا۔وہ بچہ فٹ بال کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی بینچ کی طرف آ گیا تھا۔ایک اور ٹھوکر نے بال کو سیدھا سالار کی طرف بھیج دیا۔کسی غیر ارادی عمل کے تحت سالار نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنے دائیں پاؤں میں پہنے ہوئے جاگر کی مدد سے اس بال کو روکا اور پھر پاؤں ہٹایا نہیں بلکہ اسی طرح فٹ بال پر ہی رکھا مگر اس بار اس کی نظر اس لڑکی کی بجائے اس بچے پر تھی جو تیز رفتاری سے اس بال کے پیچھے اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے بالکل پاس آنے کی بجائے وہ کچھ دُور رک گیا۔شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ سالار بال کو اس کی طرف لڑھکا دے گا مگر سالار اسی طرح فٹ بال پر ایک پاؤں رکھے بائیں ہاتھ سے آئس کریم کھاتے ہوئے دور کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔شاید اسے توقع تھی کہ اب وہ قریب آئے گی۔ایسا ہی ہوا تھا۔کچھ دیر تک اسے فٹ بال نہ چھوڑتے دیکھ کر وہ لڑکی کچھ حیرانی سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
"یہ فٹ بال چھوڑ دیں۔"
اس نے قریب آ کر بڑی شائستگی سے کہا۔سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے فٹ بال سے اپنا پاؤں اٹھایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے فٹ بال کو ایک زور دار کک لگائی۔
فٹ بال اڑتے ہوئے بہت دور جا گری۔کک لگانے کے بعد اس نے اطمینان سے اس لڑکی کو دیکھا۔اس کا چہرا اب سُرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ بچہ ایک بار پھر اس فٹ بال کی طرف بھاگتا جا رہا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔اس لڑکی نے زیرِلب اس سے کچھ کہا اور پھر واپس مڑ گئی۔سالار اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو سن یا سمجھ نہیں سکا مگر اس کے سُرخ چہرے اور تاثرات سے وہ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا کہ وہ کوئی خوشگوار الفاظ نہیں تھے۔اسے اپنی حرکت پر شرمندگی بھی ہوئی مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی وہ لڑکی امامہ سے مشابہت رکھتی تھی۔
وہ لمبے سے سیاہ کوٹ میں سیاہ حجاب اوڑھے ہوئے تھی۔دراز قد اور بہت دُبلی پتلی تھی۔بالکل امامہ کی طرح۔اس کی سفید رنگت اور سیاہ آنکھیں بھی اسے امامہ جیسی ہی محسوس ہوئی تھیں۔امامہ بہت لمبی چوڑی چادر میں خود کو چھپائے رکھتی تھی۔وہ حجاب نہیں لیتی تھی مگر اس کے باوجود اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اسے اس کا خیال آیا تھا اور لاشعوری طور پر اس نے وہ نہیں کیا جو وہ لڑکی چاہتی تھی۔شاید اسے کسی حد تک یہ تسکین ہوئی تھی کہ اس نے امامہ کی بات نہیں مانی مگر۔۔۔۔۔وہ امامہ نہیں تھی۔
"آخر کیا ہو رہا ہے مجھے ، اس طرح تو۔۔۔۔۔"اس نے حیران ہوتے ہوئے سوچا۔وہ جیب میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنے بچے کو فٹ بال کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔سالار اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے علاوہ ہر شے سے بےنیاز نظر آ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس رات وہ کافی دیر تک امامہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔اس کے اور جلال انصر کے بارے میں اسے یقین تھا اب تک وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے ، کیونکہ اپنا نکاح نامہ سکندر سے حاصل کرنے کے بعد وہ یہ جان چکی ہو گی کہ طلاق کا حق پہلے ہی اس کے پاس تھا۔اسے اس سلسلے میں سالار کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔یہ جاننے کے باوجود کہ جلال انصر اس کے کہنے پر بھی امامہ سے شادی پر تیار نہیں ہوا تھا اسے پھر بھی نہ جانے کیوں یہ یقین تھا کہ جلال انصر ایک بار امامہ کے پاس پہنچ جانے پر اسے انکار نہیں کر سکا ہو گا۔اس کی منت سماجت پر وہ مان گیا ہو گا۔
امامہ اس کے مقابلے میں بہت خوبصورت تھی اور امامہ کا خاندان ملک کے طاقت ور ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔کوئی احمق ہی ہو گا جو جلال انصر جیسی حیثیت رکھتے ہوئے امامہ کو سونے کی چڑیا نہ سمجھتا ہو یا پھر ہو سکتا ہے وہ واقعی امامہ کی محبت میں مبتلا ہو جو بھی تھا اسے یقین تھا کہ وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے اور پتا نہیں کس طرح ہاشم مبین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چھپنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہاشم مبین نے اب تک انہیں ڈھونڈ نکالا ہو۔
"مجھے پتا تو کرنا چاہئیے اس بارے میں۔"اس نے سوچا اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو جھڑکا۔"فارگاڈ سیک سالار ! دفع کرو اسے ، جانے دو ، کیوں خوامخواہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔یہ جان کر آخر کیا مل جائے گا کہ ہاشم مبین اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اس نے بےاختیار خود کو جھڑکا مگر اس کا تجسس ختم نہیں ہوا۔
"واقعی میں نے یہاں آنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ہاشم مبین اب تک اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرا نام وینس ایڈورڈ ہے۔"
وہ لڑکی اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی تھی۔وہ اس وقت لائبریری کی بک شیلف سے ایک کتاب نکال رہا تھا ، جب وہ اس کے قریب آئی تھی۔
"سالار سکندر ! "اس نے وینس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
"میں جانتی ہوں ، تمہیں تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔"
وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔سالار نے اسے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔وہ اپنی کلاس کے پچاس کے پچاس لوگوں کو ان کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ وہ بریف بائیوڈیٹا بھی بغیر اٹکے کسی غلطی کے بتا سکتا تھا۔جیسے وہ اس وقت وینس کو یہ بتا کر حیران کر سکتا تھا کہ وہ نیو جرسی سے آئی تھی۔وہاں وہ سال ایک ہیوریج کمپنی میں کام کرتی رہی تھی۔اس کے پاس مارکیٹنگ میں ایک ڈگری تھی اور وہ اب دوسری ڈگری کے لیے وہاں آئی تھی اور وہ اس سے کم از کم چھ سات سال بڑی تھی۔اگرچہ اپنے قدوقامت سے سالار اس سے بہت بڑا لگتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اپنے بیچ میں سب سے کم عمر تھا۔اپنے بیچ میں صرف وہی تھا جو کسی قسم کی جاب کیے بغیر سیدھا ایم بی اے کے لیے آیا تھا۔باقی سب کے پاس کہیں نہ کہیں کچھ سال کام کرنے کا تجربہ تھا مگر اس وقت وینس کو یہ سب کچھ بتانا اسے خوش فہمی کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔
"اگر میں آپ کو کافی کی دعوت دوں تو؟"وینس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا۔
"تو میں اسے قبول کر لوں گا۔"
وہ اس کی بات پر ہنسی۔"تو پھر چلتے ہیں ، کافی پیتے ہیں۔"سالار نے کندھے اُچکائے اور کتاب کو دوبارہ شیلف میں رکھ دیا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر وہ دونوں تقریباً آدھہ گھنٹہ تک ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔یہ وینس کے ساتھ اس کی شناسائی کا آغاز تھا۔سالار کے لیے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ یہ کام بہت آسانی سے کر لیا کرتا تھا۔اس بار مزید آسانی یہ تھی کہ پہل وینس کی طرف سے ہوئی تھی۔
تین چار ملاقاتوں کے بعد اس نے ایک رات وینس کو اپنے فلیٹ پر رات گزارنے کے لیے انوائٹ کر لیا تھا اور وینس نے کسی تامل کے بغیر اس کی دعوت قبول کر لی۔وہ دونوں یونیورسٹی کے بعد اکٹھے بہت ہی جگہوں پر پھرتے رہے۔سالار کے فلیٹ پر ان کی واپسی لیٹ نائٹ ہوئی تھی۔
وہ کچن میں اپنے اور اس کے لیے گلاس تیار کرنے لگا جبکہ وینس نے بےتکلفی سے اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے اس کے اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہی تھی پھر وہ اس کے قریب آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑی ہو گئی۔"بہت اچھا اپارٹمنٹ ہے تمہارا۔میں سوچ رہی تھی کہ تم اکیلے رہتے ہو تو اپارٹمنٹ کا حلیہ خاصا خراب ہو گا مگر تم نے تو ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔تم ایسے ہی رہتے ہو یا یہ اہتمام خاص میرے لیے کیا گیا ہے۔"
سالار نے ایک گلاس اس کے آگے رکھ دیا۔"میں ایسے ہی رہتا ہوں ، قرینے اور طریقے سے۔"اس نے گھونٹ بھرا اور گلاس دوبارہ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ وینس کے قریب چلا آیا اس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔وینس مسکرا دی۔سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کیا اور پھر یک دم ساکت ہو گیا۔اس کی نظریں وینس کی گردن کی زنجیر میں جھولتے اس موتی پر پڑی تھیں ، جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔سردی کے موسم کی وجہ سے وینس بھاری بھرکم سویٹرز اور جیکٹس پہنا کرتی تھی۔اس نے ایک دو بار اس کے کھلے کالر سے نظر آنے والی اس زنجیر کو دیکھا تھا مگر اس زنجیر میں لٹکا ہوا وہ موتی آج پہلی بار اس کی نظروں میں آیا تھا کیونکہ آج پہلی بار وینس ایک گہرے گلے کی شرٹ میں ملبوس تھی۔وہ اس شرٹ کے اوپر ایک سویٹر پہنے ہوئے تھی جسے اس نے سالار کے اپارٹمنٹ میں آ کر اُتار دیا تھا۔
اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ایک جھماکے کے ساتھ وہ موتی اسے کہیں اور۔۔۔۔۔کہیں بہت پیچھے ۔۔۔۔۔کسی اور کے پاس لے گیا تھا۔۔۔۔۔مسح کرتے ہاتھ اور انگلیاں ۔۔۔۔۔ہاتھ اور کلائی۔۔۔۔۔کلائی سے کہنی تک کا سفر کرتی انگلیاں۔۔۔۔۔آنکھوں سے پیشانی۔۔۔۔۔پیشانی سے سفید چادر کے نیچے سیاہ بالوں پر پھسلتے ہوئے ہاتھ۔۔۔۔۔
امامہ کی گردن کے گرد موجود زنجیر تنگ تھی۔اس میں لٹکنے والا موتی اس کی ہنسلی کی ہڈی کے بالکل ساتھ جھولتا تھا۔زنجیر تھوڑی سی بھی لمبی ہوتی تو وہ اسے دیکھ نہ پاتا۔اس رات وہ بہت تنگ گلے کی شرٹ اور سویٹر میں ملبوس تھی۔اس موتی کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے مفلوج ہو گیا۔
وہ اسے کس وقت یاد آئی تھی۔اس نے موتی سے نظریں چُرانے کی کوشش کی۔وہ اپنی رات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے وینس کو دیکھ کر دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی۔وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
"مجھے تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔"
"مجھے تمہاری آنکھوں سے گھن آتی ہے۔"
کسی آواز نے اسے ایک چابک مارا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔وینس کے وجود سے اپنے بازو ہٹاتے ہوئے وہ چند قدم پیچھے مڑا اور کاؤنٹر پر پڑا ہوا گلاس اٹھا لیا۔وینس ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا؟"وہ چند قدم آگے بڑھ آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ تشویش سے پوچھا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر ایک ہی سانس میں خالی کیا۔وینس اس کے جواب نہ دینے پر اب کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
وینس میں اس کی دلچسپی ختم ہونے میں صرف چند منٹ لگے تھے۔وہ نہیں جانتا اسے کیوں اس کے وجود سے اُلجھن ہونے لگی تھی۔وہ پچھلے دو گھنٹے ایک نائٹ کلب میں اس کے ساتھ ڈانس کرتا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ بےحد خوش تھا اور اب چند منٹوں میں۔۔۔۔۔۔"
سالار نے اپنے کندھے جھٹکے اور سنک کی طرف چلا گیا۔وہ اپنا گلاس دھونے لگا۔وینس دوسرا گلاس لے کر اس کے پاس چلی آئی۔سالار نے اس سے گلاس لے لیا۔وہ اپنے سینے پر دونوں بازو لپیٹے اس کے بالکل پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔سالار کو اس کی نظروں سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
"میں ۔۔۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔"
گلاس کو شیلف پر رکھتے ہوئے اس نے وینس سے کہا۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ بالواسطہ طور پر اسے وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہا تھا۔وینس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔سالار کا رویہ بےحد توہین آمیز تھا۔وہ چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر تیزی کے ساتھ اپنا سویٹر اور بیگ اٹھا کر اپارٹمنٹ کا دروازہ دھماکے سے بند کر کے باہر نکل گئی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
وینس اور امامہ میں کہیں کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں تھی۔دونوں کی گردنوں میں موجود موتی بھی بالکل ایک جیسا نہیں تھا اس کے باوجود اس وقت اس کی گردن میں جھولتے اس موتی کو دیکھ کر بےاختیار وہ یاد آئی تھی۔کیوں۔۔۔۔۔؟اب پھر کیوں۔۔۔۔۔؟آخر اس وقت کیوں۔۔۔۔۔؟وہ بےحد مشتعل ہو رہا تھا۔اس کی وجہ سے اس کی رات خراب ہو گئی تھی ، اس نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ایک کرسٹل کا گلدان اُٹھایا اور پوری قوت سے اسے دیوار پر دے مارا۔
ویک اینڈ کے بعد وینس سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی ، لیکن وہ اس سے بڑے روکھے اور اکھڑے ہوئے انداز میں ملا۔یہ اس سے تعلقات شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا واحد راستہ تھا۔اسے ہر اس عورت سے جھنجلاہٹ ہوتی تھی جو اسے کسی بھی طرح سے امامہ کی یاد دلاتی اور وینس ان عورتوں میں شامل ہو گئی تھی۔وینس جو اس کی طرف سے کسی معذرت اور اگلی دعوت کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کے اس رویے سے بری طرح دلبرداشتہ ہوئی تھی۔Yale میں یہ اس کا پہلا افئیر تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ وہ پڑھائی میں بےحد مصروف رہا ، اتنا مصروف کہ امامہ کو یاد رکھنے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کو کل پر ٹالتا رہا شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا رہتا اگر اس شام اچانک اس کی ملاقات جلال انصر سے نہ ہو جاتی۔
وہ ویک اینڈ پر بوسٹن گیا ہوا تھا جہاں اس کے چچا رہتے تھے وہ وہاں اپنے ایک کزن کی شادی اٹینڈ کرنے آیا تھا۔
اس شام سالار اپنے کزن کے ہمراہ تھا جو ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔وہ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا۔اس کا کزن آرڈر دینے کے بعد کسی کام سے اٹھ کر گیا تھا۔سالار کھانے کا انتظار کر رہا تھا جب کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔! " سالار نے بےاختیار مڑ کر اسے دیکھا۔
"آپ سالار ہیں؟"اس آدمی نے پوچھا۔
وہ جلال انصر تھا۔اسے پہچاننے میں لحظہ بھر کے لیے دقت اس لیے ہوئی تھی کیونکہ اس کے چہرے سے اب داڑھی غائب تھی۔
سالار نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا۔ایک سال پہلے کا ایڈونچر ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جلال کو رسماً کھانے کی دعوت دی۔
"نہیں ، مجھے ذرا جلدی ہے۔بس آپ پر اتفاقاً نظر پڑ گئی تو آ گیا۔"جلال نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"امامہ کیسی ہے؟"جلال نے بات کرتے کرتے اچانک کہا۔سالار کو لگا وہ اس کا سوال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔
"سوری۔۔۔۔۔"اس نے معذرت خواہانہ انداز میں استفسار کیا۔جلال نے اپنا سوال دُہرایا۔
"میں امامہ کا پوچھ رہا تھا۔وہ کیسی ہے؟"
سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔وہ امامہ کے بارے میں اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔
"مجھے نہیں پتا یہ تو آپ کو پتا ہونا چاہئیے۔"اس نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس بار جلال حیران ہوا۔"مجھے کس لئے؟"
"کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہے۔"
"میری بیوی؟"جلال کو جیسے کرنٹ لگا۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے وہ۔میں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ایک سال پہلے آپ ہی تو آئے تھے اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔"میں نے تو آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ خود اس سے شادی کر لیں۔"
سالار بےیقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
"میں تو یہ سوچ کر آپ کے پاس آیا تھا کہ شاید آپ نے اس سے شادی کر لی ہو گی۔"وہ اب وضاحت کر رہا تھا۔
"آپ نے اس سے شادی نہیں کی؟"سالار نے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔آپ سے تو ساری بات ہوئی تھی میں نے انکار کر دیا پھر اس سے میری شادی کیسے ہو سکتی تھی؟پھر میں نے سنا کہ وہ گھر سے چلی گئی۔میں نے سوچا آپ کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو گی۔اسی لیے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف آیا تھا۔"
"میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔میں تو پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہیں ہوں۔"سالار نے کہا۔
"اور مجھے یہاں آئے دو ماہ ہوئے ہیں۔"جلال نے بتایا۔
"مجھ سے ملاقات کے بعد کیا اس نے دوبارہ آپ سے رابطہ یا ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی؟"
سالار نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔"وہ مجھ سے نہیں ملی۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لاہور جا کر اس نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔"سالار کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
"مجھ سے رابطہ کرنے سے کیا ہوتا؟"
"آپ کے لیے وہ گھر سے نکلی تھی۔اسے آپ کےپاس جانا چاہئیے تھا۔"
"نہیں۔۔۔۔۔وہ میرے لیے گھر سے نہیں نکلی تھی۔آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔پھر آپ یہ مت کہیں کہ وہ میرے لیے گھر سے نکلی تھی۔"جلال کے لہجے میں اچانک کچھ تبدیلی آ گئی۔"ساری بات آپ ہی سے تو ہوئی تھی۔"
"کیا آپ واقعی سچ کہہ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس نہیں گئی؟"
"میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ ہوتی تو میں آپ کے پاس اس کے بارے میں پوچھنے کیوں آتا۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔"جلال کے لہجے میں اب بےنیازی تھی۔
"آپ مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر دے سکتے ہیں؟"سالار نے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے دوبارہ رابطے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔"جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا اور واپس مڑ گیا۔
سالار کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس کی پشت پر نظریں جمائے رہا ، یہ باقابلِ یقین بات تھی کہ وہ جلال سے نہیں ملی۔کیوں۔۔۔۔۔؟کیا اس نے میری اس بات پر واقعی یقین کر لیا تھا کہ جلال نے شادی کر لی ہے؟سالار کو اپنا جھوٹ یاد آیا مگر یہ کیسے ممکن ہے وہ مزید اُلجھا۔۔۔۔۔۔میری بات پر اسے یقین کیسے آ سکتا ہے جبکہ وہ کہہ بھی رہی تھی کہ اسے میری بات پر یقین نہیں ہے۔
وہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور اگر جلال کے پاس نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔کیا کسی اور شخص کے پاس؟جس سے اس نے مجھے بےخبر رکھا ، مگر یہ ممکن نہیں ہے اگر کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے اس سے بھی رابطہ کرنے کے لیے کہتی۔اگر وہ فوری طور پر جلال کے پاس نہیں بھی گئی تھی تو سکندر سے نکاح نامہ لینے اور طلاق کے حق کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اسی کے پاس جانا چاہئیے تھا ، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے جلال کی اس فرضی شادی کے بارے میں اسے کیوں بتایا۔شاید وہ اسے پریشان کرنا چاہتا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی یا پھر شاید وہ بار بار اس کے اس مطالبے سے تنگ آ گیا تھا کہ وہ پھر جلال کے پاس جائے ، پھر جلال سے رابطہ کرے ، وہ ایسا کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا بہر حال اسے یقین تھا ! امامہ جلال کے پاس جائے گی۔
مگر سالار کو اب پتا چلا تھا کہ اس کی توقع یا اندازے کے برعکس وہ وہاں گئی ہی نہیں۔
ویٹر اب کھانا سرو کر رہا تھا ، اس کا کزن آ چکا تھا ، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے مگر سالار کھانا کھاتے اور باتیں کرتے ہوئے بھی مسلسل امامہ اور جلال کے بارے میں سوچتا رہا۔کئی ماہ بعد یک دم وہ اس کے ذہن میں پھر تازہ ہو گئی تھی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہو؟"کھانا کھاتے کھاتے اسے اچانک خیال آیا۔
"ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔۔۔"اس کا ذہن متواتر ایک ہی جگہ اٹکا ہوا تھا۔مجھے پاپا سے بات کرنی چاہئیے۔انہیں یقیناً اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا ہو گا۔"سکندر عثمان بھی ان دنوں شادی میں شرکت کی غرض سے وہیں تھے۔
واپس گھر آنے کے بعد رات کے قریب جب اس نے سکندر کو تنہا دیکھا تو اس نے ان سے امامہ کے بارے میں پوچھا۔
"پاپا ! کیا امامہ واپس اپنے گھر آ گئی ہے؟"اس نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا۔
اور اس کے سوال نے کچھ دیر کے لیے سکندر کو خاموش رکھا۔
"تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"چند لمحوں کے بعد انہوں نے درشتی سے کہا۔
"بس ایسے ہی۔"
"اس کے بارے میں اتنا غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم اپنی اسٹڈیز پر اپنا دھیان رکھو تو بہتر ہے۔"
"پاپا ! پلیز آپ میرے سوال کا جواب دیں۔"
"کیوں جواب دوں۔۔۔۔۔تمہارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟"سکندر کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا۔
"پاپا ! اس کا ایک بوائے فرینڈ مجھے آج ملاہے یہاں ، وہی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔"
"تو پھر۔۔۔۔۔؟"
"تو پھر یہ کہ ان دونوں نے شادی نہیں کی۔وہ بتا رہا تھا کہ امامہ اس کے پاس گئی ہی نہیں۔جب کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لاہور جانے کے بعد وہ اسی کے پاس گئی ہو گی۔"
سکندر نے اس کی بات کاٹ دی۔"وہ اس کے پاس گئی یا نہیں۔ اس نے اس شادی کی یا نہیں۔یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔نہ ہی تمہیں اس میں انوالو ہونے کی ضرورت ہے۔"
"ہاں ، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کیا امامہ آپ کے پاس آئی تھی؟آپ نے اسے شادی کے پیپرز کیسے بھجوائے تھے۔میرا مطلب کس کے ذریعے۔"سالار نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا؟"
وہ ان کے سوال پر حیران ہوا۔"میں نے خود اندازہ لگایا۔"
"اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا وہ رابطہ کرتی تو میں ہاشم مبین کو اس کے بارے میں بتا دیتا۔"
سالار ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔"میں نے تمہارے کمرے کی تلاشی لی تھی اور میرے ہاتھ وہ نکاح نامہ لگ گیا۔"
"مجھے یہاں بھجواتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ آپ وہ پیپرز امامہ تک بھجوا دیں گے۔"
"ہاں۔۔۔۔۔یہ اس صورت میں ہوتا اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتی مگر اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ اس نے مجھ سے ضرور رابطہ کیا ہو گا۔"اس بار سکندر نے سوال کر ڈالا۔
سالار کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا۔
"پولیس کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا؟"
"نہیں ، پولیس کو پتا چلتا تو اب تک وہ ہاشم مبین کے گھر واپس آ چکی ہوتی مگر پولیس ابھی بھی اس کی تلاش میں ہے۔"سکندر نے کہا۔
"ایک بات تو طے ہے سالار کہ اب تم دوبارہ امامہ کے بارے میں کوئی تماشا نہیں کرو گے۔وہ جہاں ہے جس حال میں ہے تمہیں اپنا دماغ تھکانے کی ضرورت نہیں ، تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پولیس جیسے ہی اسے ڈھونڈے گی میں وہ پیپرز ہاشم مبین تک پہنچا دوں گا ، تاکہ تمہاری جان ہمیشہ کے لیے اس سے چھوٹ جائے۔"
"پاپا ! کیا اس نے واقعی کبھی گھر فون نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"سالار نے ان کی بات پر غور کیے بغیر کہا۔
"کیا وہ تمہیں فون کیا کرتی تھی؟"
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔"گھر سے چلے جانے کے بعد اس نے صرف ایک بار فون کیا تھا پھر میں یہاں آ گیا۔ہو سکتا ہے اس نے دوبارہ فون کیا ہو جس کے بارے میں آپ مجھے نہیں بتا رہے۔"
"اس نے تمہیں فون نہیں کیا۔اگر کرتی تو میں تمہاری اور اس کی شادی کے بارے میں بہت سے معاملات کو ختم کر دیتا۔میں تمہاری طرف سے اسے طلاق دے دیتا۔"
"یہ سب آپ کیسے کر سکتے ہیں۔"
سالار نے بہت پُر سکون انداز میں کہا۔
"یہاں تمہیں بھجوانے سے پہلے میں نے ایک پیپر پر تمہارے signatures لیے تھے ، میں طلاق نامہ تیار کروا چکا ہوں۔"سکندر نے جتاتے ہوئے کہا۔
"fake document (جعلی ڈاکومنٹ)۔"سالار نے اسی انداز میں تبصرہ کیا۔"میں تو نہیں جانتا تھا کہ آپ طلاق نامہ تیار کروانے کے لیے مجھ سے سائن کروا رہے ہیں۔"
"تم پھر اس مصیبت کو میرے سر پر لانا چاہتے ہو؟"سکندر کو ایک دم غصہ آ گیا۔
"میں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔میں آپ کو صرف یہ بتا رہاں ہوں کہ آپ میری طرف سے یہ رشتہ ختم نہیں کر سکتے۔یہ میرا معاملہ ہے میں خود ہی اسے ختم کروں گا۔"
"تم صرف یہ شکر کرو کہ تم اس وقت یہاں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہو ، ورنہ تم نے جس خاندان کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا وہ خاندان قبر تک بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑتا اور یہ بھی ممکن ہے وہ یہاں بھی تمہاری نگرانی کروا رہے ہوں۔یا انتظار کر رہے ہوں کہ تم مطمئن ہو کر دوبارہ امامہ کے ساتھ رابطہ کرو اور وہ تم دونوں کے لیے ایک کنواں تیار کر لیں۔"
"آپ خوامخواہ مجھے خوفزدہ کر رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں کہ یہاں امریکہ میں کوئی میری نگرانی کر رہا ہو گا اور وہ بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اور دوسری بات یہ کہ میں امامہ کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کر رہا کیونکہ میں واقعی نہیں جانتا وہ کہاں ہے ، پھر رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"تو پھر تمہیں اس کے بارے میں اس قدر کانشس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔وہ جہاں ہے جیسی ہے ، رہنے دو اسے۔"سکندر کو کچھ اطمینان ہوا۔
"آپ میرے موبائل کے بل چیک کریں۔وہ موبائل اس کے پاس ہے۔ہو سکتا ہے پہلے نہیں تو اب وہ اس سے کالز کر لیتی ہو۔"
"وہ اس سے کالز نہیں کرتی۔موبائل مستقل طور پر بند ہے۔جو چند کالز اس نے کی تھیں وہ سب میڈیکل کالج میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کو ہی کی تھیں اور پولیس پہلے ہی انہیں انویسٹی گیٹ کر چکی ہے۔لاہور میں وہ ایک لڑکی کے گھر گئی تھی مگر وہ لڑکی پشاور میں تھی اور اس کے واپس نے سے پہلے ہی وہ اس کے گھر سے چلی گئی ، کہاں گئی ، یہ پولیس کو پتا نہیں چل سکا۔"
سالار چھبتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔"آپ کو حسن نے میرے اور اس کے بارے میں بتایا تھا؟"
سکندر کچھ بول نہیں سکے۔موبائل کے امامہ کے پاس ہونے کے بارے میں صرف حسن ہی جانتا تھا۔کم از کم یہ ایسی بات تھی جو سکندر عثمان صرف اس کے کمرے کی تلاشی لے کر نہیں جان سکتے تھے۔اسے ان سے بات کرتے ہوئے پہلی بار اچانک حسن پر شبہ ہوا تھا کیونکہ سکندر عثمان کو اتنی چھوٹی موٹی باتوں کا پتا تھا جو صرف اسے پتا تھیں یا پھر حسن کو۔۔۔۔۔کوئی تیسرا ان سے واقف نہیں تھا۔اس نے سکندر عثمان کو کچھ نہیں بتایا تھا تو یقینی طور پر یہ حسن ہی ہو سکتا تھا جس نے انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے حسن نے بتایا ہے یا کسی اور نے۔۔۔۔۔یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس بات کے بارے میں مجھے پتا نہ چلتا۔یہ صرف میری حماقت تھی کہ میں نے ہاشم مبین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور تمہارے جھوٹ پر یقین کر لیا۔"
سالار نے کچھ نہیں کہا ، وہ صرف ماتھے پر تیوریاں لئے انہیں دیکھتا اور ان کی بات سنتا رہا۔"اب جب میں نے تمہیں اس سارے معاملے سے بچا لیا ہے تو تمہیں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئیے جس سے۔۔۔۔۔"
سکندر عثمان نے قدرے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا مگر اس سے پہلے کہ ان کی بات مکمل ہوتی سالار ایک جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

سکندر عثمان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد وہ ساری رات اس تمام معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ پہلی بار اسے ہلکا سا افسوس اور پچھتاوا ہوا تھا۔اسے امامہ ہاشم کو اس کے کہنے پر فوراً طلاق دے دینی چاہئیے تھی پھر شاید وہ جلال کے پاس چلی جاتی اور وہ دونوں شادی کر لیتے۔امامہ کے لیے بےحد ناپسندیدگی رکھنے کے باوجود اس نے پہلی بار اپنی غلطی تسلیم کی۔
"اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔وہ طلاق لینے کے لیے کورٹ نہیں گئی۔اس کے خاندان والے بھی ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔وہ جلال انصر کے پاس بھی نہیں گئی تو پھر آخر وہ گئی کہاں ، کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ۔۔۔۔۔؟"
وہ پہلی بار بہت سنجیدگی سے ، کسی ناراضی یا غصے کے بغیر اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
"یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ مجھ سے اتنی شدید نفرت اور ناپسندیدگی رکھنے کے بعد میری بیوی کے طور پر کہیں خاموشی کی زندگی گزار رہی ہو ، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ امامہ کسی کے ساتھ بھی دوبارہ رابطہ نہیں کر رہی۔ اب تک جب ایک سال سے زیادہ گزر گیا ہے کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہو گئی ہے؟کیا حادثہ پیش آ سکتا ہے اسے۔۔۔۔۔؟
اس کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی۔
"اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔وہ اپنے رسک پر گھر سے نکلی تھی اور حادثہ تو کسی کو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟پاپا ٹھیک کہتے ہیں جب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا تجسس بھی نہیں رکھنا چاہئیے۔خاص طور پر ایک ایسی لڑکی کے بارے میں جو اس حد تک احسان فراموش ہو جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہو اور جو مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو گا ٹھیک ہی ہوا ہو گا وہ اسی قابل تھی۔"
اس نے اس کے بارے میں ہر خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
کچھ دیر پہلے کی تاسف آمیز سنجیدگی وہ اب محسوس نہیں کر رہا تھا نہ ہی اسے کسی قسم کے پچھتاوے کا احساس تھا۔ وہ ویسے بھی چھوٹی موٹی باتوں پر پچھتانے کا عادی نہیں تھا۔ اس نے سکون کے عالم میں آنکھیں بند کر لیں اس کے ذہن میں اب دور دور تک کہیں امامہ ہاشم کا تصور موجود نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کبھی Van dame گئے ہو؟"اس دن یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے مائیک نے سالار سے پوچھا۔
"ایک دفعہ۔"
"کیسی جگہ ہے؟"مائیک نے سوال کیا۔
"بری نہیں ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔
"اس ویک اینڈ پر وہاں چلتے ہیں۔"
"کیوں۔۔۔۔۔؟"میری گرل فرینڈ کو بہت دلچسپی ہے اس جگہ میں۔۔۔۔۔وہ اکثر جاتی ہے۔"مائیک نے کہا۔
"تو تمہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی جانا چاہئیے۔"سالار نے کہا۔
"نہیں سب لوگ چلتے ہیں ، زیادہ مزہ آئے گا۔"مائیک نے کہا۔
"سب لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟"اس بار دانش نے گفتگو میں حصہ لیا۔
"جتنے دوست بھی ہیں ۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔! "
"میں ، سالار ، تم ، سیٹھی اور سعد ۔"
"سعد کو رہنے دو۔۔۔۔۔۔وہ نائٹ کلب کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا یا پھر ایک لمبا چوڑا وعظ دے گا۔"سالار نے مداخلت کی۔
"تو پھر ٹھیک ہے ہم لوگ ہی چلتے ہیں۔"دانش نے کہا۔
"سینڈرا کو بھی انوائیٹ کر لیتے ہیں۔"سالار نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا۔
اس ویک اینڈ پر سب وہاں گئے اور تین چار گھنٹوں تک انہوں نے وہاں خوب انجوائے کیا۔اگلے روز سالار صبح دیر سے اٹھا۔وہ ابھی لنچ کی تیاری کر رہا تھا جب سعد نے اسے فون کیا۔
"ابھی اٹھے ہو؟"سعد نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"ہاں دس منٹ پہلے۔۔۔۔۔"
"رات کو دیر تک باہر رہے ہو گے۔اس لئے۔۔۔۔۔"سعد نے اندازہ لگایا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ہم لوگ باہر گئے ہوئے تھے۔"سالار نے دانستہ طور پر نائٹ کلب کا نام نہیں لیا۔
"ہم لوگ کون۔۔۔۔۔؟تم اور سینڈرا؟"
"نہیں پورا گروپ ہی۔"سالار نے کہا۔
"پورا گروپ۔۔۔۔۔؟مجھے لے کر نہیں گئے۔میں مر گیا تھا؟"سعد نے چڑ کر کہا۔
"تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار ، بہت ہی گھٹیا۔۔۔۔۔یہ دانش بھی گیا تھا؟"
"ہم سب مائی ڈئیر ، ہم سب۔۔۔۔۔"سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
"مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ ! " سالار کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
"تم ابھی بچے ہو۔۔۔۔۔ہر جگہ بچوں کو لے کر نہیں جا سکتے۔"سالار نے شرارت سے کہا۔
"میں ابھی آ کر تمہاری ٹانگیں توڑتا ہوں ، پھر تمہیں اندازہ ہو گا کہ یہ بچہ بڑا ہو گیا ہے۔"
"مذاق نہیں کر رہا یار ۔۔۔۔۔ہم نے تمہیں ساتھ جانے کو اس لیے نہیں کہا کیونکہ تم جاتے ہی نہیں۔"اس بار سالار واقعی سنجیدہ ہوا۔
"کیوں تم لوگ دوزخ میں جا رہے تھے کہ میں وہاں نہ جاتا۔"سعد کے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"کم از کم تم اسے دوزخ ہی کہتے ہو۔ہم لوگ نائٹ کلب گئے ہوئے تھے اور تم کو وہاں نہیں جانا تھا۔"
"کیوں مجھے وہاں کیوں نہیں جانا تھا۔"سعد کے جواب نے سالار کو کچھ حیران کیا۔
"تم ساتھ چلتے؟"
"آف کورس۔۔۔۔۔"
مگر تمہیں وہاں جاکر کیا کرنا تھا۔ نہ تم ڈرنک کرتے ہو، نہ ڈانس کرتے ہو۔۔۔۔۔ پھر وہاں جاکر تم کیا کرتے۔۔۔۔۔ ہمیں نصیحتیں کرتے۔"
"ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ڈرنک اور ڈانس نہیں کرتا، مگر آؤٹنگ تو ہوجاتی ہے۔ میں انجوائے کرتا۔" سعد نے کہا۔
"مگر ایسی جگہوں پر جانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟" سالار نےچبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعد چند لمحے کچھ کہہ نہیں سکا۔
"میں وہاں کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہا تھا۔ تم سے کہہ رہا ہوں صرف آؤٹنگ کی غرض سے جاتا۔" چند لمحوں بعد اس نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"اوکے!اگلی بار ہمارا پروگرام بنے گا تو تمہیں بھی ساتھ لے لیں گےبلکہ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کل رات بھی تمہیں ساتھ لے لیتا ہم سب نے واقعی بہت انجوائے کیا۔" سالار نے کہا۔
"چلو اب میں کر بھی کیا کرسکتا ہوں۔ خیر آج کیا کر رہے ہو؟" سعد اب اس سے معمول کی باتیں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ تک ان دونوں کے درمیان
گفتگو ہوتی رہی پھر سالار نے فون بند کردیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم اس ویک اینڈ پر کیا کرہے ہو؟ اس دن سعد نے سالار سے پوچھا۔ وہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھے۔
"میں اس ویک اینڈ پر نیویارک جارہا ہوں، سینڈرا کے ساتھ۔"سالار نے اپنا پروگرام بتایا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟" سعد نے وچھا۔
"اس کے بھائی کی شادی ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے اس نے۔"
"واپس کب آؤ گے؟"
"اتوار کی رات کو۔"
"تم ایسا کرو کہ اپنے اپارٹمنٹ کی چابی مجھے دے جاؤ۔ میں دو دن تمہارے اپارٹمنٹ پر گزاروں گا۔ کچھ اسائمنٹس ہیں جو مجھے تیار کرنے ہیں اور اس ویک اینڈ پر وہ چاروں ہی گھر ہوں گے ۔ وہاں بڑا رش ہو گا میں تمہارے اپارٹمنٹ میں اطمینان سے پڑھ لوں گا۔" سعد نے کہا۔
"اوکے تم میرے اپارٹمنٹ میں رہ لینا۔" سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
اسے سینڈرا کے ساتھ جمعہ کی رات کو نکلنا تھا۔ سالار کا بیگ اس کی گاڑی کی ڈگی میں تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ سینڈرا کو عین آخری وقت میں چند کام نبٹانے پڑ گئے اور وہ جو سر شام نکلنے کا ارادہ کئے بیٹھ تھے ان کا پروگرام ہفتے کی صبح تک ملتوی ہوگیا۔ سینڈرا پے انگ گیسٹ کے طور پر کہیں رہتی تھی اور وہ اس کے پاس رات نہیں گزار سکتا تھا۔ اسے اپنے پارٹمنٹ واپس آنا پڑا۔
رات کو تقریباً گیارہ بجے سینڈرا کو اس کی رہائش گاہ پر ڈراپ کرنے کے بعد اپارٹمنٹ چلا آیا۔ اس نے سعد کو ایک چابی دی تھی۔ دوسری چابی اس کے پاس ہی تھی وہ جانتا تھا کہ سعد اس وقت بیٹھا پڑھ رہا ہوگا مگر اس نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا ، لونگ روم کی لائٹ آن تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا وہ اپنے بیڈروم میں جانا چاہتا تھا مگر بیڈ روم کے دروازے پر ہی رُک گیا۔
بیڈ روم کا دروازہ بند تھا مگر اس کے باوجود اندر سے اُبھرنے والے قہقہے اور باتوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ سعد کے ساتھ اندر کوئی عورت تھی۔ وہ جامد ہوگیا۔ اس کے گروپ میں صرف سعد تھا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں تھے۔وہ جتنا مذہبی آدمی تھا اس سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی وہ اندر داخل نہیں ہوا۔قدرے بے یقینی سے واپس مڑگیا اور تب اس کی نظر لونگ روم کی ٹیبل پر رکھی بوتل اور گلاس پر پڑی ، وہاں سے کچن کاؤنٹر جہاں کھانے کے برتن ابھی تک پڑے تھے۔ وہ مزید وہاں رُکے بغیر اسی طرح خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سعد وہاں کسی لڑکی ساتھ رہنے کے لئے آیا تھا۔ بالکل نا قابل یقین۔ جو شخص حرام گوشت نہ کھاتا ہو۔ شراب نہ پیتا ہو پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہ،و ہر وقت اسلام کی بات کرتا رہتا ہو، دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہو، وہ کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔ اپارٹمنٹ کے دروازے کو باہر سے بند کیے ہوئے اسی طرح شاک کے عالم میں تھا۔ بوتل اور گلاس ظاہر کر رہے تھے کہ اس نے پی بھی ہوئی ہےاور شاید کھانا وغیرہ بھی کھایا ہوگا۔ اسی فریزراور کچن میں جہاں کا وہ پانی تک پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسے ہنسی آرہی تھی جو اپنے آپ کو جتنا اچھا اور سچا مسلمان ظاہر کرنے یا بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے وہ اتنا بڑا فراڈ ہوتا ہے ایک یہ شخص تھا جو یوں ظاہر کرتا تھا جیسے پورے امریکہ میں ایک ہی مسلمان ہے اور ایک لڑکی امامہ تھی۔ جو ٹینٹ جتنی بڑی چادر اوڑھتی تھی اور کردار اس کا یہ تھا کہ ایک لڑکے کے لئے گھر سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔ اور بنتے پھرتے ہیں سچے مسلمان۔" نیچے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے کچھ تنفر سے سوچا۔"منافقت اور جھوٹ کی حد ان پر ختم ہوجاتی ہے۔"
وہ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا اس وقت وہ سینڈرا کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے دانش کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ سالار نے بہانہ بنادیا کہ وہ بور ہورہا تھا اس لئے اس نے دانش کے پاس آنے اور رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دانش مطمئن ہوگیا۔
اتوار کی رات کو جب وہ واپس نیو ہیوں اپنے اپارٹمنٹ آیا تو سعد وہاں نہیں تھا، اس کے فلیٹ میں کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہاں کوئی عورت آئی تھی، وائن کی وہ بوتل بھی اسے کہیں نہیں ملی۔ وہ زیر لب مسکراتا ہوا پورے اپارٹمنٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ وہاں موجو د ہر چیز ویسے ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سالار نے اپنا سامان رکھنے کے بعد سعد کو فون کیا۔ کچھ دیر رسمی باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ موضوع پر آگیا۔
"پھر اچھی رہی تمہاری اسٹڈیز۔۔۔۔۔ اسائمنٹ بن گئے۔؟
"ہاں یار! میں تو دو دن اچھا خاصا پڑھتا رہا، اسائمنٹس تقریبا ً مکمل کرلی ہیں۔ تم بتاؤتمہارا ٹرپ کیسا رہا؟" سعد نے جواباً پوچھا۔
"بہت اچھا۔۔۔۔۔"
"کتنی دیر میں پہنچ گئے تھے وہاں ، رات کو سفر کرتے ہوئے کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟"
سعد نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔
"نہیں رات کو سفر نہیں کیا؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کے فرائیڈے کی رات کو نہیں سیٹرڈے کی صبح گئے تھے ہم لوگ وہاں۔" سالار نے بتایا۔
" تم پھر سینڈ را کی طرف رہے تھے۔؟"
"نہیں دانش کے پاس۔"
"کیوں یہاں آجاتے اپنے اپارٹمنٹ پر۔"
"آیا تھا۔" سالار نے بڑے اطمینان سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ سالار دل ہی دل میں ہنسا۔ سعد کے پیروں نیچے سے یقیناً اس وقت زمین نکل گئی تھی۔
"آئے تھے۔۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔؟ اس بار وہ بے اختیار ہکلایا۔
"گیارہ بجے کے قریب۔۔۔۔۔ تم اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ مصروف تھے۔ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے وہاں سے واپس آگیا۔"
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سعد پر اس وقت سکتہ طاری ہوچکا ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سالار اس طرح اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔
"ویسے تم نے کبھی اپنی گرل فرینڈ سے ملوایا نہیں۔" اس نے مزید کہا۔ سعد کو سانس لینے میں جتنی دقت ہورہی ہوگی وہ اندازہ کرسکتا تھا۔
"بس ویسے ہی ملوادوں گا۔" اس نے دوسری طرف سے بے حد مدھم اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"مگر تم کسی اور سے اس کا ذکر مت کرنا۔" اس نے ایک ہی سانس میں کہا۔
"میں کیوں ذکر کروں گا، تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
سالار اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اسے اس وقت سعد پر کچھ ترس آرہا تھا۔
اس رات سعد نے چند منٹوں بعد ہی فون رکھ دیا۔ سالار کو اس کی شرمندگی کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
اس واقعے کے بعد سالار کا خیال تھا کہ سعد دوبارہ کبھی اس کے سامنےاپنی مذہبی عقیدت اور وابستگی کا ذکر نہیں کرے گا مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ سعد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی اسی شدومد سے مذہب پر بات کرتا۔ دوسروں کو ٹوک دیتا۔ نصیحتیں کرتا۔ نماز پڑھنے کی ہدایت دیتا۔ صدقہ ، خیرات دینے کے لئے کہتا۔ اللہ سے محبت کے بارے میں گھنٹوں بولنے کے لئے تیار رہتا اور ،مذہب کے بارے میں بات کر رہا ہوتا تو کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے۔
اس کے گروپ کے لوگوں کے ساتھ اور بہت سے لوگ سعد سے بہت متاثر تھے اور اسکے کردار سے بہت مرعوب ۔۔۔۔۔ اور اللہ سے اس کی محبت پر رشک کا شکار ، ایک مثالی مسلم۔۔۔۔۔ جوانی کی مصروف زندگی میں بھی۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سعد بات کرنا جانتا تھا اس کا انداز بیاں بے حد متاثر کن تھا۔ اور اس کے شناسا لوگوں میں صرف سالار تھا، جس پر اس کی نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی تھی جو اس سے ذرہ برابر متاثر نہیں تھا اور نہ ہی کسی رشک کا شکار۔ جسے سعد کی داڑھی اس کے دین لئے استقامت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئی تھی نہ ہی دوسروں کے لئے اس کا ادب واحترام اس کا نرم انداز گفتگو۔
امامہ سے مذہبی لوگوں کے لئے اس کی نا پسندید گی کا آغاز ہوا تھا۔ جلال سے اسے آگے بڑھایا تھا اور سعد نے اسے انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں سے بڑھ کر منافق کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ داڑھی رکھنے والا مرد اور پر دہ کرنے والی عورت کسی بھی قسم کی بلکہ ہر قسم کی برائی کا شکار ہوتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ جو خود کو مذہبی نہیں کہتے۔
اتفاق سے ملنے والے تینوں لوگوں نے اس یقین کو مستحکم کیا ۔ امامہ ہاشم پردہ کرنے والی لڑکی اور ایک لڑکے کے لئے اپنے منگیتر ، اپنے خاندان اپنے گھر کو چھوڑ کر رات میں فرار ہوجانے والی لڑکی۔
جلال انصر۔۔۔۔۔ ڈاڑھی والا مرد، حضور ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیں پڑھنے والا اور ایک لڑکی سے افئیر چلانے والا اور پھر اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر ایک طرف ہوجانے والا ، پھر دین الگ دنیا الگ کر بات کرنے ولا۔ سعد ظفر کے بارے میں اس کی رائے ایک اور واقعہ سے اور خراب ہوئی۔
وہ ایک دن اس کے اپارٹمنٹ پر آیا ہوا تھا۔ سالار اس وقت کمپیوٹر آن کئے اپنا کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اسے کچھ چیزین لانے کے لئے اپارٹمنٹ سے قریبی مارکیٹ جانا پڑا اور اسے پیدل وہاں آنے جانے اور شاپنگ کرنے میں تیس منٹ لگے تھے۔ سعد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ جب سالار واپس آیا تو سعد کمپیوٹر پر چیٹنگ میں مصروف تھا۔ وہ کچھ دیر مزید اس کے پاس بیٹھا گپ شپ کرتا رہا پھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سالار نے لنچ کیا اور ایک بار پھر کمپیوٹر پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ دیر چیٹنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے لاشعوری طور پر کمپیوٹر چلاتے ہوئے اس کی ہسٹری دیکھی۔ وہاں ان ویب سائٹس اور پیجز کی کچھ تفصیلات تھیں جو کچھ دیر پہلے اس نے یا سعد نے دیکھی تھیں۔
سعد نے جن چند ویب سائٹس کو دیکھا تھا وہ بیہودہ تھیں ۔ اسے اپنے یا کسی دوسرے دوست کے ان پیجز دیکھنے یا ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر حیرت نہ ہوتی نہ اعتراض ۔ وہ خود ایسی ویب سائٹس کا وزٹ کرتا رہتا تھا مگر سعد کے ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر اسے حیرت ہوئی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"پھر تمہاری کیا پلاننگ ہے؟ پاکستان آنےکا ارادہ ہے"
وہ اس دن فو ن پر سکندر سے بات کررہا تھا۔ سکندر نے اسے بتایا تھا کہ وہ طیبہ کے ساتھ کچھ ہفتوں کے لئے آسٹریلیا جارہے ہیں۔ انہیں وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ہونے والی شادی کی کچھ تقریبا میں شرکت کرنی تھی۔
آپ دونوں وہاں نہیں ہوں گے تو میں پاکستان آکر کیا کروں گا۔" اسے مایوسی ہوئی۔
"یہ کیا بات ہوئی ۔ تم بہن بھائیوں سے ملنا، انیتا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔ سکندر نے کہا۔
پاپا!میں ادھر ہی چھٹیاں گزاروں گا۔ پاکستان آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
"تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا چلو، معیز بھی جارہا ہے۔" انہوں نے اس کے بڑے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آسٹریلیاچلوں۔ معیز کے ساتھ میری کون سی انڈر اسٹینڈنگ ہے، جو آپ مجھے اس کے جانے کا بتارہے ہیں۔" اس نے خاصی بیزاری کے ساتھ کہا۔
"میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا اگر تم وہیں رہنا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی بس اپنا خیال رکھنا اور دیکھو سالار کوئی غلط کام مت کرنا۔"
انہوں نے اسے تنبیہ کی ۔ وہ اس غلط کام کی نوعیت کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا اور وہ یہ جملہ سننے کا عادی ہوچکا تھا کہ اب اگر سکندر ہر بار فون بند کرنے سے پہلے اس سے یہ جملہ نہ کہتے تو اسے حیرت ہوتی۔
سکندر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون کرکے اپنی سیٹ کینسل کروادی۔ فون کا ریسیور رکھنے کے بعد صوفے پر چت لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ یونیورسٹی بند ہونے کے بعد کے کچھ ہفتوں کی مصروفیات کے بارے میں سوچتا رہا۔
"مجھے چند دن سکینگ کے لئے کہیں جانا چاہیے یا پھر کسی دوسری اسٹیٹ کو وزٹ کرنا چاہیے۔" وہ منصوبہ بنانے لگا۔"ٹھیک ہے میں کل یونیورسٹی سے آکے کسی آپریٹر سے ملوں گا۔ باقی کا پرواگرام وہیں طے کروں گا۔" اس نے فیصلہ کا۔
اگلے دن اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر سکینگ کے لئے جانے کا پروگرام طے کرلیا۔ اس نے سکندر اور اپنے بڑے بھائی کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتادیا۔
چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے اس نے ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا وہ کھانا کھانے کے بعد بھی کافی دیر وہاں بیٹھا رہا پھر وہ ایک قریبی پب میں چلا گیا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے دوران اس نے وہاں کچھ پیگ پئے۔
رات دس بجے کے قریب ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے اچانک متلی ہونے لگی۔ گاڑی روک کر وہ کچھ دیر کے لئے سڑک کے گرد پھیلے ہوئے سبزے پر چلنے لگا سرد ہوا اور خنکی نے کچھ دیر کے لیے اسے نارمل کردیا مگر چند منٹوں کے بعد ایک بار پھر اسے متلی ہونے لگی۔ اسے اب اپنے سینے اور پیٹ میں ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔
یہ کھانے کا اثر تھا یا پیگ کا۔ فوری طور پر اسے کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ اب اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ یک دم جھکتے ہوئے اس نے بے اختیارقے کی اور پھر چند منٹ اسی طرح جھکا رہا۔ معدہ خالی ہوجانے کے بعد بھی اس کو اپنی حالت بہتر محسوس نہیں ہوئی۔ سیدھا کھڑے رہنےکی کوشش میں اس کے پیر لڑکھڑا گئے۔ اس نے مڑ کر کر اپنی گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کی مگر اس کا سر اب پہلے سے زیادہ چکرا رہا تھا۔ چند گز دور کھڑی گاڑی کو دیکھنے میں بھی اسے دقت ہورہی تھی۔ اس نے بمشکل چند قدم اٹھائے مگر گاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا ۔مکمل طور پر ہوش کھونے سے پہلے اس نے کسی کو اپنے آپ کو جھنجھوڑتے محسوس کیا۔ کوئی بلند آواز میں اس کے قریب کچھ کہہ رہا تھا۔ آوازیں ایک سے زیادہ تھیں۔
سالار نے اپنے سر کو جھٹکنے کی کوشش کی ۔ وہ پورے سر کو حرکت نہیں دے سکا۔ اس کی آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ وہ اب مکمل طور پر تاریکی میں جاچکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس نے دو دن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی سے اُٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ فوڈ پوائزن کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باجود وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کر رہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا ۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹرز کی ہدایت پر سالار نے وہ رات بھی وہیں گزاردی۔ اتوار کو سہ پہر وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹور آپریٹر کے ساتھ طے پایا جانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا۔اسے پیر کی صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کو یا بلکہ کسی بھی دوست کو کال کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔
ایک ہلکے سینڈوچ کے ساتھ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد اس نے سکون آور دوا لی اور سونے کے لئے چلا گیا۔
اگلے دن جب اس کی آنکھ کھلی اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ سالار کو نیند سے بیدار ہوتے ہی سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے اپنا ماتھا اور جسم چھوا ، اس کا ماتھا بہت زیادہ گرم تھا۔
"کم آن! "وہ بیزاری سے بڑبڑایا۔ پچھلے دو دن کی بیماری کے بعد وہ اگلے دو دن پستر پر پڑے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا تھا اور اس وقت اسے اس کے آثار نظر آرہے تھے۔
جوں توں بیڈ سے نکل کر وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ایک بار پھر کچن میں آگیا کافی بننے کے لئے رکھ کر وہ آکر answerphone پر ریکارڈ کالز سننے لگا۔ چند کالز سعد کی تھیں جس نے واپس پاکستان جانے سے پہلے اس سے ملنے کے لئے بار بار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جا چکے ہوں گے البتہ وہ سکندر اور کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھر پر موجود چند میڈیسنز لیں اور پھردوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طور نہیں تو کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا ۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے پھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر درد بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹےہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اُٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔
تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں گزر رہا تھا ۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طور پر خود کو اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بار پھر درد محسوس ہونے لگا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی ۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیا ز نہیں تھا مگر وہ مکمل طور پر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے مکمل طور بے نیاز ہوچکا تھا۔ غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔
غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں البتہ اسے یہ ضرور یا د تھا اس کی کیفیت کے دو ران اسے ایک بار یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مر رہاہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے نہیں اتر سکا ۔ شدید بخار نے اسے مکمل طور مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالاآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔
کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چندھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے تمام پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب ارد گرد کی چیزوں پر غور کرتا رہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا اور کمبل اور بیڈ شیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔
ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اسکی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
"چوبیس گھنٹوں میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟" اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔" اتنی بری شکل تو میری فوڈ پوائزنگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔"
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ٹب میں پانی بھر کر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی اس نے فوری طور اسی وقت اپنے کپڑے کیوں نہیں بدل لئے وہ کیوں وہیں پڑا رہا۔
باتھ روم سے نکلنے کے بعد بیڈ روم میں رہنے کے بجائے وہ کچن میں چلا گیا۔ اسے بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے نوڈلز بنائے اور انہیں کھانے لگا۔" مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا تفصیلی چیک اپ کروانا چاہیئے۔ اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے سوچا۔ تھکن ایک بار پھر اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ نہانے کے بعد اسے اگرچہ اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا مگر اس کی نقاہت ختم نہیں ہوئی تھی۔
نوڈلز کھانے کے دوران اس نے ٹی وی آن کردیا اور چینل سرچ کرنے لگا۔ ایک چینل پر آنے والا ٹاک شو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ رکھ دیا اور پھر نوڈلز کے پیالے پر جھک گیا۔ اس نے ابھی نوڈلز کا دوسرا چمچہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رک گیا۔ الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شو کو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
"یہ کیا ہے؟" وہ بڑ بڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقیناً منگل کی رات تھی مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔
اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکا دیا تھا۔
"کیا مطلب ہے ، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش و حواس سے بے خبر رہا ہوں ؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟" وہ بڑا بڑارہا تھا۔
"پانچ دن ، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے۔۔۔۔۔ میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔"
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سے answer phone کی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
"پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ سعد سب کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔"
اسے جیسے کوئی پیغام نہ پا کر شاک لگا تھا۔ وہ بہت دیر تک بالکل ساکت فون کے پاس بیٹھا رہا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا کو میرا خیال ہی نہ رہا ہو، یا کسی اور فرینڈ کو۔۔۔۔۔ یا پھر کسی اور کو۔۔۔۔۔اس طرح مجھے کیسے چھوڑ دیا انہوں نے۔ اور اس وقت اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر کپکپا رہے تھے۔ وہ نقاہت یا کمزوری نہیں تھی پھر وہ کیا تھا جو اسے کانپنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کر واپس صوفے کی طرف چلا آیا۔
نوڈلز کے پیالے کو ہاتھ میں لے کر وہ ایک بار پھر انہیں کھانے لگا اس بار نوڈلز میں چند منٹ پہلے کا ذائقہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسے لگا وہ بے ذائقہ ربڑ کے چند نرم ٹکڑوں کو چبا رہا ہے۔چند چمچے لینے کے بعد اس نے پیالہ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسے کھا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اب بھی عجیب سی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑا رہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ نہانے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیو کے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولیے سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا۔ جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احسا س ہوا تو اس نے چہرے کو تولیے سے تھپتھپانا بند کر دیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
“What is next to estacy?”
“Pain”
سرد اور مدھم آواز آئی ۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہو گیا۔
“What is next to pain?”
“Nothingness”
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا
“Nothingness”
وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
“And what comes next to nothingness”
“Hell”
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہو گیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آ گئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
"ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔"
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
"زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ ، کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔"
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
"اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔"
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد ئی تھی۔
اس نے پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارنے شروع کر دئیے۔ چہرے کو ایک بار پھر پونچھنے لگا۔ آفٹر شیو کی بوتل کھول کر اس نے گالوں پر موجود ان زخموں پر لگانا شروع کر دیا جہاں اب اسے پہلی بار تکلیف ہو رہی تھی۔
واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں۔
"مجھے ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئیے۔" وہ اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔" مجھے مدد کی ضرورت ہے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔"
وہ نہیں جانتا تھا اسے یک دم وہاں وحشت کیوں ہونے لگی تھی۔ اسے اپنا سانس وہاں بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے کوئی اس کی گردن پر پاؤں رکھے آہستہ آہستہ دباؤ ڈال رہا تھا۔
"کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ مجھے اس طرح بھول جائیں۔ اس طرح۔۔۔۔۔"
اس نے اپنی وارڈروب سے نئے کپڑے نکال کر ایک بار پھر کچھ دیر پہلے کا پہنا ہوا لباس بدلنا شروع کر دیا۔ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا اسے اپنے اپارٹنمٹ سے یک دم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
اس رات گھر آ کر وہ تقریباً ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ اسے اس طرح بھلا دیا گیا ہے۔ وہ ماں باپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہمیشہ حاصل کرتا رہا تھا۔ کچھ اس کی حرکتوں کی وجہ سے بھی سکندر عثمان اور طیبہ کو اس کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے بارے میں فکر مند رہے تھے، مگر اب یک دم چند دنوں کے لئے وہ جیسے سب کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ دوستوں کی، بہن بھائیوں کی، ماں باپ کی۔وہ اگر اس بیماری کے دوران وہاں اس اپارٹمنٹ میں مر جاتا توکسی کو پتا تک نہیں چلتا شاید تب تک جب تک اس کی لاش گلنے سڑنے نہ لگتی اور اس موسم میں ایسا ہونے میں کتنے دن لگتے۔
وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنے answer phone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسی کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
"کیا یہ سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟"
وہ وحشت زدہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ ا نہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا ، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی بار یوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے اسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، کتنا انجوائے کر رہے تھے۔ وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
"تم انجوائے کر رہے ہو اپنی چھٹیاں؟"
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
"میں؟ہاں، بہت۔۔۔۔۔" وہ صرف تین لفظٖ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جنتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، کیا بتانا چاہئیے۔"
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طور پر صرف زپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہو جاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہو گئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہو گئی تو کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دنیا میں کیا تبدیلی آئے گی؟ میرا خاندان کیا محسوس کرے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ چند دنوں کے دکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور دنیا میں تو شاید چند لمحوں کے لئے بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
سالار سکندر اگر غائب ہو جائے تو واقعی کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چاہے اس کا آئی کیو لیول +150 ہو۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا مگر ایسی مایوسی اور اس طرح کی ذہنی حالت۔۔۔۔۔ آخر مجھے ہو کیا گیا ہے اگر سب لوگ کچھ دنوں کے لئے مجھے بھول بھی گئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے میں بھی تو بہت بار بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتا۔ پھر اگر میرے ساتھ ایسا ہو گیا تو۔
مگر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اور اگر واقعی میں، میں اس بے ہوشی سے واپس نہ آتا تو۔۔۔۔۔اگر میرا بخار کم نہ ہواتا اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کےدوران ہوا تھا۔"شاید میں کچھ زایدہ حساس ہوتا جا رہا ہوں۔" وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر سر پر کیوں سورا کر رہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
"کم از کم اب تو ٹھیک ہو چکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہو چکا ہوں۔ خود کشی کی کوشش کر چکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔"
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
"اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کوما کی طرح ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں"۔ وہ مسکرانے کی کوشش کرتا۔
"کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہو۔ کیا بیماری؟ یا پھر یہ بات کہ کسی کو میری ضرورت نہیں پڑی۔ کسی کو میری یاد نہیں آئی۔ خیال تک نہیں، میرے اپنے لوگوں کو بھی، میرے فیملی ممبرز کو، دوستوں کو۔۔۔۔۔"
"مائی گاڈ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے سالار؟"یونیورسٹی کھلتے ہی پہلے ہی دن سینڈرا نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
"مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔" سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"تم بیمار رہے ہو؟" اسے تشویش ہوئی۔
"ہاں تھوڑا بہت۔"
"مگر مجھے تو نہیں لگتے کہ تم تھوڑے بہت بیمار رہے ہو۔ تمہارا وزن کم ہو گیا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا بیماری تھی تمہیں؟"
"کچھ نہیں۔ تھوڑا سا بخار اور فوڈ پوائزننگ۔۔۔۔۔" وہ پھر مسکرایا۔
"تم پاکستان گئے ہوئے تھے؟"
"نہیں ، یہیں تھا۔"
"مگر میں نے تو تمہیں نیو یارک جانے سے پہلے کئی بار رنگ کیا۔ ہمیشہ answer phone ہی ملا۔ تم یہ ریکارڈ کروا دیتے کہ تم پاکستان جا رہے ہو۔"
"جسٹ سٹاپ اٹ!" وہ بے اختیار جھنجھلایا۔"سوال پر سوال کرتی جا رہی ہوتم۔"
سینڈرا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔"تم میری بیوی تو نہیں ہو کہ اس طرح بات کر رہی ہو مجھ سے؟"
"سالار کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں ہوا، بس تم ختم کرو یہ ساری بات۔ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہاں رہے؟ کیوں رہے، ربش۔"
سینڈرا چند لمحے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
سینڈرا اس دن اس سے یہ سارے سوال پوچھنے والی اکیلی نہیں تھی۔ اس کے تمام دوستوں اور جاننے والوں نے اسے دیکھتے ہی کچھ اس طرح کے سوال، تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور کسی حد تک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے بار بار یادہانی کروا رہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو چکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈ پر، چلو گے؟" دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
"ہاں چلوں گا۔" سالار تیار ہو گیا۔
"پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کر لوں گا۔" دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سینما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدیش قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پروفیسر روبنسن اپنا لیکچر شروع کر چکے تھے۔ سالار نے اپنے سامنے پڑے پیپر پر تاریخ اور ٹاپک لکھا۔ وہ اکنامک Recession کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ سالار ہمیشہ کی طرح ان پر نظریں جمائے ہوئے تھا مگر اس کا ذہن غیر حاضر تھا اور یہ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہیں اور پہنچ گیا تھا۔ کہاں، وہ یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ ایک امیج سے دوسرے امیج، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک سین سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک آواز سے دوسری، دوسری سے تیسری۔۔۔۔۔ اس کا سفر کہاں سے شروع ہوا، کہاں نہیں۔
"سالار، چلنا نہیں ہے؟" سینڈرا نے اس کا کندھا ہلایا۔
وہ چونک گیا، کلاس خالی تھی، صرف سینڈرا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بے یقینی سے خالی کلاس کو اور پھر وال کلاک کو دیکھا پھر اپنی رسٹ واچ کو۔
"پروفیسر روبنسن کہاں گئے؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"کلاس ختم ہو گئی، وہ چلے گئے۔" سینڈرا نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔
"کلاس ختم ہو گئی؟" اسے جیسے یقین نہیں آیا۔
"ہاں!" سالار نے بے اختیار اپنی آنکھوں کو مسلا اور پھر اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ واحد چیز جو اسے پروفیسر روبنسن کے لیکچر کے بارے میں یاد تھی، وہ صرف ٹاپک تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔
"تم کچھ اپ سیٹ ہو؟" سینڈرا نے پوچھا۔
"نہیں، کچھ نہیں، میں کچھ دیر کے لئے یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔"
"اوکے۔" سینڈرا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چیزیں اٹھا کر باہر چلی گئی۔
وہ اپنے سینے پر بازو باندھے سامنے نظر آنے والے رائیٹنگ بورڈ کو دیکھنے لگا۔ آج یہ تیسری کلاس تھی جس میں اس کے ساتھ یہ ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرنے کے بعد سب کچھ معمول پر آ جائے گا، وہ ڈیپریشن کے اس فیز سے باہر آ جائے گا جس کا وہ تب تک شکار تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ یوینورسٹی میں بھی مکمل طور پر اس ذہنی انتشار کا شکا تھا جس میں وہ اتنے دنوں سے تھا پہلی بار اس کا دل پڑھائی سے بھی اچاٹ ہو رہا تھا۔ وہاں ہر چیز اسے مصنوعی لگ رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار صحیح معنوں میں ڈیپریشن کا شکار ہوا تھا۔ اسٹڈیز، یونیورسٹی، فرینڈز، کلب ، پارٹیز، ریسٹورنٹس، سیرو تفریح ہر چیز اس کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے دوستوں سے ملنایک دم چھوڑ دیا۔ answer phone پر اکثر اس کا پیغام ہوا کرتا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔وہ فرینڈز کے اصرار پر ان کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام بنا لیتا تھا اور پھر ایک دم جانے سے انکار کر دیتا۔ چلا بھی جاتا تو کسی وقت بھی بغیر بتائے اٹھ کر واپس آ جاتا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی یہی کر رہا تھا۔ ایک دن جاتا، دو دن غائب رہتا۔ ایک پیریڈ لیتا، اگلے دو پیریڈ چھوڑ دیتا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں کبھی کبھار وہ سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے گزار دیتا، بعض دفعہ وہ فلم دیکھنا شروع کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد بھی اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز گھماتے ہوئے وہ اسی کیفیت کا شکار رہتا۔ اس کی بھوک ختم ہو گئی تھی۔ وہ کوئی چیز کھانا شروع کرتا اور پھر یک دم اس کا دل ڈوب جاتا۔ وہ اسی طرح اسے چھوڑ دیتا ۔ بعض دفعہ وہ پورا پورا دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ صرف یکے بعد دیگرے کافی کے کپ اپنے اندر انڈیلتا رہتا۔
وہ چین سموکر نہیں تھا مگر ان دنوں بن گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں بہت قرینے سے رکھنے کا عادی تھا مگر ان دنوں اس کا اپارٹمنٹ گندگی کی مثال تھا اور اسے ان بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھ کر کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے بھی گفتگو بہت مختصر کر دی تھی۔ وہ فون پر بولتے رہتے، وہ دوسری طرف کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے سنتا رہتا یا ہوں ہاں میں جواب دے دیتا۔ اس کے پاس انہیں بتانے کے لئے، ان کے ساتھ شئیر کرنے کے لئے یک دم سب کچھ ختم ہو گیا تھا اور اسے ان میں سے ایک بات کی بھی وجہ معلوم نہیں تھی۔
اور اسے یہ بات بھی معلوم تھی کہ اس کی ان تمام کیفیات اور حالت کا تعلق امامہ ہاشم سے ہے۔ نہ وہ اس کی زندگی میں آتی نہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔ پہلے وہ اسے ناپسند کرتا تھا اب اسے امامہ سے نفرت ہونے لگی تھی۔ پچھتاوے کا جو ہلکا سا احساس کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا تھا وہ غائب ہو گیا تھا۔
"اس کے ساتھ جو ہوا، ٹھیک ہوا۔ میں نے اس کے ساتھ جو کیا، ٹھیک کیا۔ اس کے ساتھ اس سے زیادہ برا ہونا چاہئیے تھا۔"
وہ خود بخود ہی اپنے آپ سے کہتا رہتا۔ اسے امامہ ہاشم کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ، ہر حرف، ہر جملے سے نفرت تھی۔ اسے اس کی باتیں یاد آتیں اور اس کی نیند غائب ہو جاتی۔ ایک عجیب سی وحشت اسے گھیر لیتی۔ اس نے اس رات جن باتوں کا مذاق اڑایا تھا، وہ اب ہر وقت اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔
"کیا میں پاگل ہو رہا ہوں، کیا میں اپنے ہوش و حواس آہستہ آہستہ کھوتا جا رہا ہوں، کیا میں شیزوفرینیا کا شکار ہوں۔" بعض دفعہ اسے بیٹھے بٹھائےخوف محسوس ہونے لگتا۔
ہر چیز کی بے معنویت بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر چیز کی بے مقصدیت اور عیاں ہو رہی تھی۔ وہ کہاں تھا، کیا تھا، کیو ں تھا، کہاں کھڑا تھا، کیوں کھڑا تھا؟ اسے ہر وقت یہ سوالات تنگ کرنے لگے۔ کیا ہو گا اگر میں Yale سے ایک ایم بی اے کی ڈگری لے لوں گا۔ بہت اچھی جاب مل جائے گی، کوئی فیکڑی شروع کو لوں گا پھر۔۔۔۔۔ کیا یہ وہ کام تھا جس کے لئے مجھے زمین پر اتارا گیا۔۔۔۔۔+150 آئی کیو لیول کے ساتھ۔۔۔۔۔ کہ میں چند اور ڈگریاں لوں، شاندار سا بزنس کروں، شادی کروں، بچے پیدا کروں، عیش کروں پھر مر جاؤں، بس۔۔۔۔۔
اس نے زندگی میں چار دفعہ صرف اپنے تجسس کے لئے موت کے تجربے سے گزرنے کی کوشش کی تھی مگر اب شدید ڈیپریشن کے عالم میں بھی وہ خود کشی کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے موت کے بارے میں سوچنے کے باوجود بھی وہ اسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن اگر اس سے کوئی یہ پوچھ لیتا کہ کیا وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ہاں میں جواب دینے میں بھی تامل کرتا۔ وہ زندہ رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ زندگی کے مفہوم کو نہیں جانتا تھا۔
وہ مرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ موت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھا۔
وہ کسی خلا میں معلق تھا، کسی درمیان والی جگہ میں، کسی بیچ والی کیفیت میں۔ زندہ رہتے ہوئے مردہ، مردہ ہوتے ہوئے زندہ۔۔۔۔۔ وہ سرشاری کی انتہا پر پہنچ رہا تھا لمحہ بہ لمحہ۔ +150 آئی کیو لیول رکھنے والا وہ شخص جو اپنے سامنے کہی اور سنی جانے والی کوئی بھی چیز نہیں بھلا سکتا تھا۔ سگریٹ کا دھواں اڑاتے، بئیر کے گھونٹ لیتے، نائٹ کلب میں رقص کرتے، مہنگے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے، اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتے، وہ صرف ایک بات سوچتا رہتا۔
"کیا زندگی کا مقصد یہی ہے؟"
"عیش اور آسائش۔۔۔۔۔؟ شاندار لباس، بہترین خوراک، اعلیٰ ترین سہولتیں۔ ساٹھ ستر سال کی ایک زندگی اور پھر؟"
اس کے بعد اس پھر کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ مگر اس"پھر" کی وجہ سے اس کی زندگی کے معمولات بگڑ گئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ بے خوابی کا شکار ہو رہا تھا اور یہ ان ہی دنوں تھا کہ اس نے اچانک مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ڈیپریشن سے نجات کے لئے وہ بہت سے لوگوں کو یہی کام کرتے دیکھتا تھا۔ اس نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنے کی کوشش کی۔ تمام کتابیں اس کے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ کوئی لفظ، کوئی بات اسے اپنی طرف نہیں کھینچ رہی تھی۔ وہ خود پر جبر کر کے چند صفحات پڑھتا اور ان کتابوں کو رکھ دیتا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر اٹھاتا پھر رکھ دیتا۔
"نہیں، شاید مجھے عملی طور پر عبادت شروع کرنی چاہئیے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ مجھے کچھ فائدہ ہو۔"
وہ اپنے آپ کو خود ہی سمجھاتا اور ایک دن جب وہ سعد کے پاس تھا تو اس نے یہی کیا۔
"میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔" اس نے سعد کو باہر نکلتے دیکھ کر کہا۔
"مگر میں تو عشاء کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔" سعد نے اسے یادہانی کروائی۔
"میں جانتا ہوں۔" اس نے اپنے جاگرز کے تسمے کستے ہوئے کہا۔
"میرے ساتھ مسجد چلو گے؟" وہ حیران ہوا۔
"ہاں۔" وہ کھڑا ہو گیا۔
"نماز پڑھنے کے لئے؟"
"ہاں!" سالار نے کہا۔" اس طرح دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں کافر تو نہیں ہوں۔"
"کافر تو نہیں ہو مگر۔۔۔۔۔ چلو خیر، پڑھ لینا آج۔" سعد نے کچھ کہتے کہتے بات بدل دی۔
"میں تو تمہیں پہلے ہی کتنی بار ساتھ چلنے کے لئے کہہ چکا ہوں۔"
سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے اس کے ساتھ باہر آ گیا۔
"اب اگر آج مسجد جا ہی رہے ہو تو پھر جاتے رہنا۔ یہ نہ ہو کہ بس آج پہلا اور آخری وزٹ ہی ہو۔" سعد نے عمارت سے باہر نکلتے ہوئے اس سے کہا۔ باہر اس وقت برف باری ہو رہی تھی۔ مسجد، رہائش کی عمارت سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہ ایک مصری خاندان کا گھر تھا جس کا نچلا حصہ مسجد کے طور پر ان لوگوں نے استعمال کے لئے دیا ہوا تھا جبکہ اوپر والے حصے میں وہ لوگ خود رہتے تھے۔ بعض دفعہ وہاں نمازیوں کی تعداد دس پندرہ کے درمیان ہی رہتی تھی۔
سعد مسجد تک پہنچنے تک سالار کو ان تفصیلات سے آگار کرتا رہا۔ سالار خاموشی اور کچھ لاتعلقی کے عالم میں سڑک پر احتیاط سے پھسلتی گاڑیوں اور ہر طرف موجود برف کے ڈھیر پر نظریں دوڑاتا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
پانچ سات منٹ چلتے رہنے کے بعد ایک موڑ مڑ کر سعد ایک گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ دروازہ بند تھا مگر لاک نہیں تھا اور سعد نے دروازے پر دستک دی تھی نہ ہی کسی سے اجازت مانگی تھی۔ بڑے مانوس سے انداز میں اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور پھر اندر داخل ہو گیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔
"تم وضو کر لو۔" سعد نے اچانک اسے مخاطب کیا اور پھر اسے ساتھ لے کر ایک دروازہ کھول کر ایک باتھ روم میں داخل ہو گیا۔
سعد کی زیر نگرانی جب تک وہ وضو کے آخری حصے تک پہنچتا، ٹھنڈا پانی گرم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اپنے بالوں کا مسح کرتے کرتے وہ ایک بار پھر ٹھٹکا۔ سعد سمجھا اسے صحیح طریقہ نہیں پتا، اس نے ایک بار پھر اسے ہدایت دی۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو ایک بار پھر حرکت دینے لگا۔
گدی تک ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا ہاتھ گردن میں موجود زنجیر سے ٹکرایا تھا۔ اس کی نظر بے اختیار سامنے آئینے میں گئی۔ وہ ایک بار پھر کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ سعد نے اس سے کچھ کہا تھا۔ اس بار اس نے نہیں سنا۔
کمرے میں موجود دس افراد دو صفوں میں کھڑے ہو رہے تھے۔ وہ سعد کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو گیا۔ امام صاحب نے امامت شروع کر دی، سب کے ساتھ اس نے بھی نیت کی۔
"نماز سے واقعی سکون ملتا ہے؟" اس نے کوئی دو ہفتے پہلے ایک لڑکے کو نامز کے مسئلے پر سعد کے ساتھ بحث میں الجھا پایا تھا۔
"مجھے تو ملتا ہے۔" سعد نے کہا۔
"میں تمہاری بات نہیں کر رہا، میں سب کی بات کر رہا ہوں، سب کو ملتا ہے؟" اس لڑکے نے کہا تھا۔"یہ منحصر ہے کہ سب کتنا انوالو ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔"
سالار بڑے اکتائے ہوئے انداز میں ان کی بحث کسی مداخلت یا تبصرے کے بغیر سنتا رہا تھا۔ اس وقت وہ لاشعوری طور پر نماز میں انہماک پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"سکون؟ میں واقعی دیکھنا چاہتا ہوں کہ نماز سے سکون کیسے ملتا ہے۔" اس نے رکوع میں جاتے ہوئے اپنے دل میں سوچا پھر اس نے پہلا سجدہ کیا۔ اس کے اضطراب اور بے چینی میں یک بہ یک اضافہ ہو گیا۔ جن الفاظ کو وہ امام صاحب کی زبان سے سن رہا تھا، وہ بہت نامانوس لگ رہے تھے، جو لوگ اس کے اردگرد کھڑے تھے وہ اسے ناآشنا لگ رہے تھے، جس ماحول میں وہ موجود تھا وہ اسے غیر فطری لگ رہا تھا اور جو کچھ وہ کر رہا تھا وہ اسے منافقت محسوس ہو رہی تھی۔
ہر سجدے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے پہلی چار رکعتیں بمشکل ختم کیں۔ سلام پھیرنے کے دوران اس نے اپنے دائیں جانب والے ادھیڑ عمر شخص کے گالوں پر آنسو دیکھے، اس کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا۔ وہ جی کڑا کر کے ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر نماز میں پوری طرح منہمک ہونے کی کوشش کی۔
"اس بار میں پڑھی جانے والی آیات کے ہر لفظ پر غور کروں گا۔ شاید اس طرح۔۔۔۔۔" اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ نیت کی جا رہی تھی۔ اس کا دل مزید اچاٹ ہو گیا۔ سر کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے آیات کے مفہوم پر غور کرنے کی کوشش کی۔
"الحمدللہ رب العالمین۔" سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع ہوئی۔
"الرحمنٰ الرحیم۔" اس نے توجہ مزکور رکھنے کی پوری کوشش کی۔
"مالک یوم الدین۔" توجہ بھٹکی۔
"ایاک نعبد و ایاک نستعین۔" اسے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ آتا تھا۔ اس نے چند دن پہلے ہی پڑھا تھا۔
"اھدنا الصراط المستقیم۔"(سیدھا راستہ) اس نے ذہن میں دہرایا۔
" لصراط المستقیم۔۔۔۔۔ سیدھا راستہ؟" اس کا دل چاہا وہاں سے بھاگ جائے۔ اس نے وہاں نماز جا ری رکھنے کی ایک آخری کوشش کی۔
"صراط الذین انعمت۔" اس کا ذہن ایک بار پھر پیچھے گیا۔
"علیہم غیر المغضوب علیہم و الضالین۔" اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ کھولے، وہ آخری صف میں کھڑا تھا، بہت آہستگی سے چند قدم پیچھے گیا اور صف سے نکل گیا۔
"یہ کام میں نہیں کر سکتا، میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔" اس نے جیسے اعتراف کیا۔ بہت خاموشی کے ساتھ وہ پیچھے ہوتا گیا۔ باقی لوگ اب رکوع میں جا رہے تھے، وہ مڑ کر دبے قدموں مگر تیز رفتاری سے باہر نکل گیا۔
مسجد سے نکلتے ہوئے اس کے جاگرز اس کے ہاتھ میں تھے۔ غائب دماغی کے عالم میں وہ باہر سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر چند لمحے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ سیڑھیاں اتر گیا۔ پاؤں میں جرابیں اور ہاتھ میں جاگرز پکڑے وہ خالی الذہنی کے عالم میں عمارت کی عقبی دیوار کی طرف آ گیا۔ وہاں بھی ایک دروازہ اور کچھ سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں مگر وہ سیڑھیاں برف سے اٹی ہوئی تھیں۔ دروازے پر موجود لائٹ بھی روشن نہیں تھی۔ اس نے جھک کر سب سے اوپر والی سیڑھی کو اپنے جاگرز کے ساتھ صاف کیا اور برف صاف کرنے کے بعد وہاں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر پہلے ہونے والی برف باری اب ختم ہو چکی تھی۔ اس نے سیڑھی پر بیٹھ کر اپنے جاگرز پہن لئے۔ تسمے کسنے کے بعد وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں تھے۔ جیکٹ سے ساتھ لگے ہوئے hoed کو وہ سر پر چڑھا چکا تھا۔ سامنے سڑک پر اِکا دُکا گاڑیوں کی آمدورفت جا ری تھی۔
وہ سیڑھیوں پر اپنی ٹانگیں پھیلائے اپنی پشت دروازے سے ٹکائے ان اِکا دُکا گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ وہاں اس سرد اور کہر آلود رات میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے وہ کچھ دیر پہلے مسجد کے گرم کمرے میں زیادہ سکون محسوس کر رہا تھا یا کم از کم بہتر ضرور محسوس کر رہا تھا۔
اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر لائیٹر نکال لیا اور اسے جلا کر اپنے پیروں کے قریب سیڑھیوں پر پڑی برف کو پگھلانے لگا، کچھ دیر تک وہ اسی سرگرمی میں مشغول رہا پھر جیسے اس نے اکتا کر لائیٹر دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔ جس وقت وہ سیدھا ہوا اس نے اپنے بالکل سامنے ایک عورت کو کھڑا پایا۔ وہ یقیناً اس وقت وہاں آ کر کھڑی ہوئی تھی جس وقت وہ سیڑھیوں پر جھکا اپنے دونوں پاؤں کے درمیان موجود برف کو لائیٹر سے پگھلا رہا تھا۔ وہ نیم تاریکی میں بھی اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ منی اسکرٹ اور ایک مختصر بلاؤز میں ملبوس تھی۔ اس نے فرکوٹ پہنا ہوا تھا مگر وہ فرکوٹ آگے سے دانستہ طور پر کھلا چھوڑا گیا تھا۔
وہ فرکوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے سالار کے بالکل سامنے بڑے سٹائل سے کھڑی تھی۔ سالار نے سر سے لے کر پاؤں تک اسے دیکھا۔ اس کی لمبی ٹانگیں اس سردی میں بھی برہنہ تھیں۔ اس کے عقب میں موجود دوکانوں کی روشنیوں کے بیک گراونڈ میں اس کی ٹانگیں یک دم بہت نمایاں ہو رہی تھیں اور اس کی ٹانگیں بہت خوبصورت تھیں۔ کچھ دیر تک وہ ان سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ اس عورت کے پیروں میں بوٹ نماہائی ہیل کے جوتے تھے۔ سالار حیران تھا وہ برف کے اس ڈھیر پر ان جوتوں کے ساتھ کس طرح چلتی ہو گی۔"۔I charge 50 for one hour"
اس عورت نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا۔ سالار نے اس کی ٹانگوں سے نظریں ہٹا کر اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی نظریں ایک بار پھر اس کی ٹانگوں پر گئیں۔ کئی سالوں میں پہلی بار اسے کسی پر ترس آیا۔ کیا مجبوری تھی کہ وہ اس برف باری میں بھی اس طرح برہنہ پھرنے پر مجبور تھی، جبکہ وہ اس موٹی جینز میں بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستے محسوس کر رہا تھا۔"Ok 40 dollars۔"
اس خاموش دیکھ کر اس عورت کو اندیشہ ہوا کہ شاید وہ قیمت اس کے لئے قابلِ قبول نہیں تھی، اس لئے اس نے فوراً اس میں کمی کر دی۔ سالار جانتا تھا چالیس ڈالرز بھی زیادہ تھے۔ وہ سڑک پر بیس ڈالرز میں بھی ایک گھنٹہ کے لئے کسی لڑکی کو حاصل کر سکتا تھا وہ پینتیس چالیس سال کی تھی اور بات کرتے ہوئے محتاط نظروں سے سڑک پر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ سالار جانتا تھا یہ احتیاط کسی پولیس کا یا پولیس والے کے لئے تھی۔
"Ok 30…. No more bargaining۔"
"Take it or leave it"
سالار کی خاموشی نے اس کی قیمت کو کچھ اور کم کیا۔ سالار نے اس بار کچھ بھی کہے بغیر اپنی جیکٹ کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور وہاں موجود چند کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئیے۔ اس کے پاس اس وقت والٹ نہیں تھا۔ اس عورت نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر ان نوٹو ں کو اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔ وہ پہلا گاہک تھا، جو اسے ایڈوانس پے منٹ کر رہا تھا اور وہ بھی پچاس ڈالرز، جبکہ وہ اپنی قیمت کم کر چکی تھی۔
"تم میرے ساتھ چلو گے، یا میں تمہارے ساتھ۔" وہ ا ب بڑی بے تکلفی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"نہ میں تمہارے ساتھ چلوں گا، نہ تم میرے ساتھ۔ بس تم یہاں سے جاؤ۔" سالار نے ایک بار پھر سڑک کے دوسری طرف موجود دکانوں پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
وہ عورت بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔
"واقعی؟"
"ہاں۔"سالار نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"تو پھر تم نے یہ کیوں دئیے ہیں؟" اس عورت نے اپنے ہاتھ میں پکڑے نوٹوں کی طرف اشارہ کیا۔
"تاکہ تم میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، میں سڑک کے اس پار دکانیں دیکھنا چاہتا ہوں اور تم اس میں رکاوٹ بن گئی ہو۔" اس نے سرد مہری سے کہا۔
عورت بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسی۔" تم اچھا مذاق کر لیتے ہو، کیا میں واقعی چلی جاؤں؟'
"ہاں۔"
وہ عورت کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔" اوکے، تھینک یو ہنی۔" سالار نے اسے مڑ کر سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ سڑک پار کر کے ایک دوسرے کونے کی طرف جا رہی تھی، وہاں ایک اور آدمی کھڑا تھا۔
سالار نے دوبارہ نظریں ان دوکانوں پر جما لیں، برف باری ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی۔ وہ پھر بھی اطمینان سے وہیں بیٹھا رہا۔ برف اب اس کے اوپر بھی گر رہی تھی۔
وہ رات کے ڈھائی بجے تک وہیں بیٹھا رہا جب سڑک کے پار دوکانوں کے اندر کی لائیٹس اس نے یک بعد دیگرے بند ہوتے دیکھیں تو وہ اپنی جیکٹ اور جینز سے برف جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر وقفے وقفے سے وہ اپنی ٹانگیں ہلا نہ رہا ہوتا تو اس وقت تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے باوجود کھڑا ہو کر قدم اٹھانے میں اسے کچھ دقت ہوئی۔ چند منٹ وہیں کھڑا اپنے پیروں کو جھٹکتا رہا اور پھر اسی طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر واپس اپارٹمنٹ کی طرف جانے لگا۔ وہ جانتا تھا سعد نے اسے مسجد سے نکل کر بہت ڈھونڈا ہو گا اور اس کے بعد وہ واپس چلا گیا ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"کہاں چلے گئے تھے تم؟"سعد اسے دیکھتے ہی چلایا۔ وہ کچھ کہے بغیر اندر چلا آیا۔
"میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔" سعد دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے آ گیا۔ سالار اپنی جیکٹ اتار رہا تھا۔
"کہیں نہیں گیا تھا۔" اس نے جیکٹ لٹکاتے ہوئے کہا۔
"تمہیں پتا ہے کہ میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا ہے، کہاں کہاں فون کئے ہیں اور اب تو میں اتنا پریشان ہو چکا تھا کہ پولیس کو فون کرنے والا تھا۔۔۔۔۔ تم آخر اس طرح نماز چھوڑ کر گئے کہاں تھے؟"
سالار کچھ کہے بغیر اپنے جاگرز اتارنے لگا۔
"میں نے تمہیں بتایا ہے، کہیں نہیں۔"
"تو پھر اب تک کہاں تھے؟" سعد اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
"وہیں تھا، مسجد کے پچھلے حصے میں فٹ پاتھ پر۔" اس نے اطمینان سے کہا۔
"واٹ! اتنے گھنٹے تم وہاں فٹ پاتھ پر برف میں بیٹھے رہے ہو۔" سعد دم بخود رہ گیا۔
"ہاں!"
"کوئی تک بنتی ہے اس حرکت کی۔" وہ جھلایا۔
"نہیں ، کوئی تک نہیں بنتی۔" سالار نے اسی طرح سیدھا بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
"کچھ کھایا ہے؟"
"نہیں۔"
"تو کھانا کھا لو۔"
"نہیں، بھوک نہیں ہے۔" وہ اب چھت پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ سعد اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ بتا سکتے ہو مجھے۔" سالار نے گردن کو ہلکی سی حرکت سے کر اسے دیکھا۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" بے تاثر لہجے میں کہا گیا۔" میں سمجھا، تم اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے ہو، مگر وہاں بار بار رنگ کرنے پر بھی تم نہ ملے۔" سعد بڑبڑا رہا تھا۔ سالار کی نظریں چھت پر ہی تھیں۔
"اس سے بہتر تھا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھنے لے کر ہی نہ جاتا۔ آئندہ میرے ساتھ مت جانا تم۔" سعد نے ناراضی سے کہا۔ وہ اب اس کے بیڈ سے اٹھ گیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اپنے کام نبٹاتا رہا پھر وہ نائٹ بلب آن کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے ابھی آنکھیں بند کی تھیں، جب اس نے سالار کی آواز سنی۔
"سعد!"
"ہاں!" اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"یہ "صراطِ مستقیم " کیا ہوتا ہے؟"
سادہ لہجے میں پوچھے گئے سوال نے سعد کو حیران کر دیا۔ اس نے گردن موڑ کر بائیں جانب بیڈ پر سیدھا لیٹے ہوئے سالار کو دیکھا۔
"صراطِ مستقیم۔۔۔۔۔ سیدھے راستے کو کہتے ہیں۔"
"جانتا ہوں مگر سیدھا راستہ کیا ہوتا ہے؟" اگلا سوال آیا۔
سعد نے اس کی طرف کروٹ لے لی۔" سیدھا راستہ۔۔۔۔۔ مطلب نیکی کا راستہ۔۔۔۔۔"
"نیکی کیا ہوتی ہے؟" لہجہ ابھی بھی بے تاثر تھا۔
"اچھے کام کو نیکی کہتے ہیں۔"
"اچھا کام۔۔۔۔۔ کوئی ایسا کام جو کسی دوسرے کے لئے کیا گیا ہو۔ کسی کی مدد کی گئی ہو، کسی پر مہربانی کی گئی ہو، وہ اچھا کام ہوتا ہے اور ہر اچھا کام نیکی ہوتی ہے۔"
"ابھی کچھ گھنٹے پہلے میں نے فٹ پاتھ پر ایکhooker کو پچاس ڈالر دئیے، جبکہ وہ صرف تیس ڈالر مانگ رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے یہ نیکی ہوئی؟'
سعد کا دل چاہا وہ ایک گھونسا اس کے منہ پر کھینچ مارے، وہ عجیب آدمی تھا۔
"بکواس بند کرو اور سو جاؤ، مجھے بھی سونے دو۔" اس نے کمبل لپیٹ لیا۔
سالار کو حیرت ہوئی، وہ کس بات پر حیران ہوا تھا۔"تو یہ نیکی نہیں ہوئی؟"
"میں نے تم سے کہا ہے، اپنا منہ بند کرو اور سو جاؤ۔" سعد ایک بار پھر دھاڑا۔
"اتنا ناراض ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے، میں نے تم سے ایک بہت معمولی سا سوال کیا ہے۔" سالار نے بڑے تحمل سے کہا۔
سعد یک دم کچھ مشتعل ہوتے ہوئے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے لیمپ آن کر دیا۔
"تمہارے جیسے آدمی کو میں کیا صراطِ مستقیم سمجھاؤں۔ کیا تم پاگل ہو یا جاہل ہو۔۔۔۔۔ یا غیر مسلم ہو۔۔۔۔۔ کیا ہو۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو تمہیں خود پتا ہونا چاہئیے کہ صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے مگر تم جیسا آدمی جو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نماز درمیان میں چھوڑ کر چلا آتا ہے، وہ کیسے جان سکتا ہے یہ۔"
"میں نماز اس لئے چھوڑ کر چلا آیا کیونکہ تم کہتے ہو اس میں سکون ملے گا، مجھے سکون نہیں ملا، میں چھوڑ آیا۔" اس کے پرسکون انداز میں کہے ہوئے جملے نے سعد کو مزید مشتعل کر دیا۔
"تمہیں نماز میں اس لئے سکون نہیں ملا، کیونکہ مسجد تمہاری جگہ نہیں ہے، تمہارے لئے سکون کی جگہیں سینما، تھیٹر، بار اور کلب ہیں۔ مسجد تمہارے لئے نہیں ہے۔ تمہیں نماز میں سکون کہاں سے مل جاتا۔۔۔۔۔ اور تم چاہتے ہو میں تمہیں بتاؤں صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے۔"
وہ بیڈ پر سیدھا لیٹا پلکیں جھپکائے بغیر سعد کو دیکھتا رہا۔
"تمہارے جیسا شخص جو نماز سے بھاگ جاتا ہے، شراب پیتا ہے اور زنا کرتا ہے۔ وہ صراط ِ مستقیم کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے نہ اس پر آ سکتا ہے۔"
"تمہارا مطلب ہے جو شراب پیتے ہیں اور زنا کرتے ہیں مگر نماز سے بھاگتے نہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، وہ صراطِ مستقیم کا مطلب سمجھتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر ہیں۔"
سعد کچھ بول نہیں سکا۔ مدھم آواز اور بے تاثر لہجے میں کئے گئے ایک ہی سوال نے اسے خاموش کر دیا تھا۔ سالار اب بھی اسی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے سالار!" اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ سالار کے کانوں میں ایک جھماکے کے ساتھ ایک دوسری آواز گونج اٹھی تھی۔
"ہاں، میں واقعی نہیں سمجھ سکتا۔ لائٹ آف کر دو، مجھے نیند آ رہی ہے۔" اس نے مزید کچھ کہے بغیر آنکھیں بند کر لیں۔


مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہو گے، صرف تم نے جان بوجھ کر answer phone لگا دیا ہو گا۔"
سعد اگلےب دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
"تم اس طرح بغیر بتائے بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔" سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
"بھاگا تو نہیں، تم سو رہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔" سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
"کس وقت آئے تھے تم؟"
"شاید چار پانچ بجے۔"
"یہ جانے کا کون سا وقت تھا؟" سعد نے تنک کر کہا۔
"اور تم اس طرح آئے کیوں؟" سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پرجا کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
"شاید میری باتوں سے تم ناراض ہو گئے تھے، میں اسی لئےا یکسکیوز کرنے آیا ہوں۔" سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کون سی باتوں سے؟" سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔
"وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آ کر رات کو تم سے کہہ دیا۔" سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"نہیں ، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ناراض نہیں ہو سکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔" سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
"پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آ گئے؟" سعد بضد ہوا۔
"بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آ گیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئے answer phone لگا دیا۔"
سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔"پھر بھی میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔"
"جانے دو اسے۔" اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
"سالار! تمہارے ساتھ آج کل کیا پرابلم ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جا رہے ہو تم۔"
اس بار سالار یک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہو گیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جا رہی ہے مجھ میں۔"
"بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔" اس کے آخری جملے سے سالار کے ماتھے پر تیوریاں آ گئیں۔
"مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کر رہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا۔۔۔۔۔ اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے گیا تھا۔" اس نے بہت ترشی سے کہا۔
"ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟" سعد نے پوچھا۔
"اگر یہ مجھے پرا ہوتا تو مجھے یقیناً ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کر چکا ہوتا۔"
"پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہو جاتا۔" سعد نے تبصرہ کیا۔
سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر اسے وجہ بتا کر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہو جاتا ہے۔" سالار نے کہا۔
"تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔" سعد نے کہا۔
"میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔"
"تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔"
"میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آ چکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔" سالار نے بے اختیار کہا۔
"پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟" سعد نے کچھ چونک کر تجسس کے عالم میں پوچھا۔" بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔" وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
"تو پھر تم ایسا کیا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔"
"میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔"
"تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔" اب پھر رات والی بحث شروع ہو جائے گی، صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔"
"نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔" سعد نے کہا۔
"جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔"
"تم نماز پڑھنا شروع کرو گے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔"
"کیسے؟"
"تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔" سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
"مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔"
"تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ۔۔۔۔۔"سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔"
"تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کر دیتے ہیں۔"
"مثلاً۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تم پورک کھاتے ہو۔"
"کم آن۔" وہ بے اختیار بلبلایا۔" پورک یہاں کہاں آ گیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔" سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔"تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کر دیں؟"
"مجھے بے سکونی نہیں ہے۔"
"حالانکہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئیے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔" سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"مثلاً۔۔۔۔۔ میں کیا غلط کام کرتا ہوں؟"
"تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"میں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔" سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔" میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہو تا۔"
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔" میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو اور اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔"
"میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نےمذہبی لوگوں سے زیادہ چھوٹا، منافق اور دھوکے بار کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوں fake(منافق) ہیں۔" وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
"سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی، اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔" اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
"اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حد تک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہو چکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔"
وہ ہنسا۔" اور تیسرے تم ہو۔۔۔۔۔ تم پورک نہیں کھاتے صرف یہ ایک حرام کام ہے جو تم نہیں کرتے، باقی سب تمہارے لئے جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا۔۔۔۔۔ غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کر کر کے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذاہب کا حوالہ لے آتے ہو۔ یہ آیت اور وہ حدیث۔۔۔۔۔ وہ آیت اور یہ حدیث۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اسلام کے بارے میں تمہارا لیکچر سننا، میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ مجھ میں اور تم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام کر کر کے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں ڈارھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں، سوائے اس کے کہ تمہیں ایک خوش فہمی ہو گئی ہے کہ تم تو سیدھے جنت میں جاؤ گے اور ہم سارے دوزخ میں۔ تمہارے قول اور فعل میں اگر یہ تضاد نہ ہو تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا مگر میں ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم دوسروں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم خود بھی مذہب کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہو۔ اب میری ان ساری باتوں کو مائنڈ مت کرنا۔"
سالار اب ٹیبل پر پڑا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ سعد تقریباً گونگا ہو گیا تھا۔
"ٹھیک ہے، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں، مگر اللہ انسان کو معاف کر دیتا ہے اور میں نے کبھی یہ تو نہیں کہا کہ میں بہت ہی اچھا مسلمان ہوں اور میں ضرور جنت میں جاؤں گا لیکن میں اگر ایک اچھا کام کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی ہدایت کرتا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔"
سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
"سعد! تم خواہ مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کر دینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر سکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہو جاؤ گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو،ہمیں برا ہی رہنے دو۔"
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔
اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کبھی سالار کے سامنے اسلام کی بات نہیں کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر بہت دنوں کے بعد کسی ریسٹورنٹ گیا تھا۔ اپنا آرڈر ویٹر کو نوٹ کروانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ کے شیشوں سے باہر سڑک کو دیکھنے لگا۔ وہ جس میز پر بیٹھا تھا وہ کھڑکی کے قریب تھی اور قد آدام کھڑکیوں کے شیشوں کے پاس بیٹھ کر اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کسی لڑکی کی سسکیوں نے اس کی محویت کو توڑا تھا، اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ اس سے پچھلی میز پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی کسی بات پر روتے ہوئے سسکیاں لے رہی تھی اور ٹشو کے ساتھ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ لڑکا اس کےہاتھ کو تھپتھپاتے ہوئے شاید اسے تسلی دے رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اتنا چھوٹا اور ٹیبلز اتنی قریب قریب تھیں کہ وہ بڑی آسانی سے ان کی گفتگو سن سکتا تھا مگر وہ وہاں اس کام کے لئے نہیں آیا تھا، وہ سیدھا ہو گیا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی تھی۔ اسے اس طرح کے تماشے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اس کا موڈ خراب ہو رہا تھا، وہ وہاں سکون سے کچھ وقت گزارنے آیا تھا اور یہ سب کچھ۔ اس کا دل اچاٹ ہونے لگا۔ وہ دونوں رشین تھے اور اسی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مگر غیر محسوس طور پر اس کی سماعتیں ابھی بھی ان ہی سسکیوں کی طرف مرکوز تھیں۔ اس نے کچھ دیر بعد مڑ کر ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا۔ اس بار اس کے مڑنے پر لڑکی نے بھی انظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان دونوں کی نظریں مل تھیں اور وہ چند لمحے اس پر بہت بھاری گزرے تھے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے یک دم ایک اور چہرہ یاد آیا۔ امامہ ہاشم کا چہرہ، اس کی متورم آنکھیں۔
ویٹر اس کا آرڈر لے کر آ چکا تھا اور وہ اسے سرو کرنے لگا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
"آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔"
لاشعوری طور پر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا اس کے سامنے آنے لگا تھا۔ پیچھے بیٹی ہوئی لڑکی کی سسکیاں اب اس کے دماغ میں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہی تھیں۔
"میں اپنی ٹیبل تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔" اس نے بہت کھردرے انداز میں ویٹر کو مخاطب کیا۔ ویٹر حیران ہو گیا۔
"کس لئے سر؟"
"یا تو ان دونوں کی ٹیبل تبدیل کر دو یا میری۔" اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ویٹر نے ایک نظر اس جوڑے کو دیکھا پھر وہ سالار کا مسئلہ سمجھا یا نہیں مگر اس نے کونے میں لگی ہوئی ایک ٹیبل پر سالار کو بٹھا دیا۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے وہاں آ کر واقعی سکون ملا تھا۔ سسکیوں کی آواز اب وہاں نہیں آ رہی تھی مگر اب اس لڑکی اک چہرہ بالکل اس کے سامنے تھا۔ چالوں کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اس کی نظر اس لڑکی پر دوبارہ پڑی۔
وہ ایک بار پھر بدمزہ ہو گیا اسے ہر چیز یک دم بے ذائقہ لگنے لگی۔یہ یقیناً اس کی ذہنی کیفیت تھی، ورنہ وہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا۔
"انسان نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی حس ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ اچھا کھانا کھا کر خوشی محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔"
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی اور یہ شاید انتہا ثابت ہوئی۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے پوری قوت سے چمچ اپنی پلیٹ میں پٹخا اور بلند آواز میں دھاڑا۔
"شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔" ریسٹورنٹ میں یک دم خاموشی چھا گئی۔
"یو بچ۔۔۔۔۔ باسٹرڈ، جسٹ شٹ اپ۔" وہ اب اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
"تم میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟"
دونوں کنپٹیوں پر ہاتھ رکھے ہوئے وہ چلایا۔
"میں تمہیں مار ڈالوں گا، اگر تم مجھے دوبارہ نظر آئیں۔"
وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احسا س ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آ رہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!"
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیز بھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبا دے یا اسے شوٹ کر دے۔ اسے اس کی ہر بات سے نفرت تھی۔ اس رات اس کے ساتھ سفر میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس کی پوری زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"مگر آپ کیوں آ رہے ہیں؟" وہ دونوں فون پر بات کر رہے تھے اور اس نے سالار کو چند دنوں بعد نیو ہیون آنے کی اطلاع دی تھی۔ سالار اس قت روٹین کی زندگی گزار رہا ہوتا تو وہ اس اطلاع پر یقیناً خوش ہوتا مگر وہ اس وقت ذہنی ابتری کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں کامران کا آنا اسے بے حد ناگوار گزر رہا تھا اور وہ یہ ناگواری چھپا بھی نہیں سکا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا، کیوں آ رہے ہیں۔ تم سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں۔" کامران اس کے لہجے پر کچھ حیران ہوا۔" اور پاپا نے بھی کہا ہے کہ میں تم سے ملنے کے لئے جاؤں۔" وہ ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
"تم مجھے ائیر پورٹ سے پک کر لینا، میں تمہیں ایک دن پہلے اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ کے بارے میں بتا دوں گا۔"
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیر پورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
"تم بیمار ہو؟" اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
"نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔" سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"لگ تو نہیں رہے ہو۔" کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حدا حتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ا یک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی، باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔
"اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری؟"
"ٹھیک ہیں۔"
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہو گیا تھا۔
"یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار۔۔۔۔۔ مائی گاڈ۔"سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم و ضبط وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں ، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
"کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے؟"
"میں ابھی کر دیتا ہوں۔" سالار نے سردمہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
"تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟"کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جا کر سگریٹ کو ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ سالار نے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
"Salar! What are you up to this time? "
"مجھے صاف صفاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کر رہے ہو تم؟"
"نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کر رہا۔" اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کر دیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
"شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔ دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔"
وہ اب اسے کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغٖیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آ رہا ہو گا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ کیسا نظر آ سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریوں نے پوری کر دی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کر دی تھی۔ کچھ ناراضی کےعالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
"لعنت برس رہی ہے تمہاری شکل پر۔"
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
"ہاں، لعنت برس رہی ہے میری شکل پر تو؟" وہ قدرے بھپرے ہوئے انداز میں کامران کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔
"جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں ڈرگز نہیں لے رہا تو میں نہیں لے رہا۔ آپ کو میرا یقین کرنا چاہئیے۔"
"تم پر یقین۔۔۔۔۔"
کامران نے طنزیہ لہجے میں اس کے پیچھے باتھ روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور کمرے کی چیزیں سمیٹنے کا کام جا ری رکھا۔
"یونیورسٹی جا رہے ہو تم؟" سعد کو اچانک ایک اور اندیشہ ہوا۔
"جا رہا ہوں۔" وہ چیزیں اٹھاتا رہا، کامران کو تسلی نہیں ہوئی۔
"میرے ساتھ ہاسپٹل چلو، میں تمہارا چیک اپ کروانا چاہتا ہوں۔"
"اگر آپ یہ سب کرنے آئے ہیں تو بہتر ہے واپس چلے جائیں میں کوئی کنڈر گارٹن کا بچہ نہیں ہوں۔ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔" کامران نے اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر چیزیں اٹھانی شروع کر دیں۔ سالار نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ اس معاملے پر دوبارہ بحث نہیں کرے گا مگر اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ کامران نے اس کے پاس اپنے قیام کو لمبا کر دیا۔ دو تین دن کے بجائے وہ پورا ایک ہفتہ وہاں رہا۔ سالار اس کے قیام کے دوران باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتا رہا مگر کامران اس دوران اس کے دوستوں اور پروفیسرز سے ملتا رہا۔ سمسٹر میں فیل ہونے کی خبر بھی اسے سالار کے دوستوں سے ہی ملی تھی اور کامران کے لئے یہ ایک شاک تھا۔ سالار سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی، مگر سمسٹر میں فیل ہونا وہ بھی اس بری طرح سے جبکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کے پچھلے ریکارڈ بریک کرتے ہوئے ٹاپ کر رہا تھا۔
اس بار اس نے سالار سے اس معاملے کو ڈسکس نہیں کیا بلکہ پاکستان سکندر عثمان کو فون کر کے اس سارے معاملے سے آگاہ کر دیا۔ سکندر عثمان کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکل گئی تھی۔ سالار نے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا تھا۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کے بعد ان کے لئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرتا رہتا تھا اور ہاشم مبین والے معاملے کو بھی اتنا ہی عرصہ ہونے والا تھا۔
"آپ ابھی اس سے اس معاملے پر بات نہ کریں۔ یونیورسٹی میں کچھ چھٹیاں ہونے والی ہیں، آپ اسے پاکستان بلا لیں، کچھ عرصے کے لئے وہاں رکھیں پھر ممی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ واپسی پر یہاں آ جائیں اور جب تک اس کی تعلیم ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ رہیں۔" کامران نے سکندر عثمان کو سمجھایا۔
سکندر نے اس بار ایسا ہی کیا تھا۔ وہ بغیر بتائے چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے نیو ہیون پہنچ گئے۔
اس کا حلیہ دیکھ کر سکندر عثمان کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں مگر انہوں نے کامران کی طرح اس سے بحث نہیں کی۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لئے کہا۔ اس کے احتجاج اور تعلیمی مصروفیات کے بہانے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے زبردستی اس کی سیٹ بک کرا دی اور اسے پاکستان لے آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رات ایک بجے پاکستان پہنچے۔ سکندر اور طیبہ سونے کے لئے چلے گئے۔ وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اپنے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ لائٹ آف کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ فلائٹ کے دوران سوتا رہا تھا، اس لئے اس وقت اسے نیند محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ جغرافیائی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا تھا۔
"میں واقعی آہستہ آہستہ بے خوابی کا شکار ہو جاؤں گا۔"
اس نے تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈ پر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے پردوں کو ہٹا دیا۔ اس کی کھڑکیوں کے پار وسیع سائیڈ لان کے دوسرے طرف ہاشم مبین کا گھر نظر آ رہا تھا۔ اس نے اتنے سالوں اس کھڑکی کے پردے آگے پیچھے کرتے کبھی ہاشم مبین کے گھر پر غور نہیں کیا تھا، مگر اس وقت وہ بہت دیر تک تاریکی میں اس گھر کے اوپر والے فلور کی لائٹس میں نظر آنے والی اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ بہت ساری باتیں اسے یک دم یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے پردے ایک بار پھر برابر کر دئیے۔
"وسیم کے گھر والوں کو امامہ کا پتا چلا؟"
اس نے اگلے دن ناصرہ کو بلا کر پوچھا۔ ناصرہ نے اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"نہیں جی، کہاں پتا چلا۔ انہوں نے تو ایک ایک جگہ چھان ماری ہے، مگر کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا۔ انہیں شک ابھی بھی آپ پر ہی ہے۔ سلمیٰ بی بی تو بہت گالیاں دیتی ہیں آپ کو۔" سالار اسے دیکھتا رہا۔
"گھر کے نوکروں سے بھی پولیس نے بڑی پوچھ گچھ کی تھی مگر میں نے تو مجال ہے ذرا بھی کچھ بتایا ہو۔ انہوں نے مجھے کام سے بھی نکال دیا تھا۔ مجھے بھی، میری بیٹی کوبھی، پھر بعد میں دوبارہ رکھ لیا۔ آپ کے بارے میں، مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ شاید رکھا بھی ان لوگوں نے دوبارہ اسی لئے ہے کہ یہاں کی خبریں میں وہاں دیتی رہوں۔ میں بھی آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال دیتی ہوں۔" وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی تھی۔
سالار نے فوراً مداخلت کی۔" پولیس ابھی بھی ڈھونڈ رہی ہے؟"
"ہاں جی، ابھی بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے زیادہ تو پتا نہیں، وہ لوگ ہر چیز چھپاتے ہیں نوکروں سے۔ امامہ بی بی کی بات بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے مگر پھر بھی کبھی کبھار کوئی اڑتی اڑتی خبر مل جاتی ہے ہمیں۔ سالار صاحب! کیا آپ کو بھی امامہ بی بی کا پتا نہیں ہے؟"
ناصرہ نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
"مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟" سالار نے ناصرہ کو گھورا۔
"ایسے ہی پوچھ رہی ہوں جی! آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی، اس لئےمیں نے سوچا شاید آپ کو پتا ہو۔ وہ جو ایک بار آپ نے میرے ہاتھ کچھ کاغذات بھجوائے تھے، وہ کس لئے تھے؟" اس کا تجسس اب تشویش ناک حد تک بڑھ چکا تھا۔
"اس گھر کے کاغذات تھے، میں نے یہ گھر اس کے نام کر دیا تھا۔" ناصرہ کامنہ کھلے کاکھلا رہ گیا پھر وہ کچھ سنبھلی۔
"پر جی! یہ گھر تو سکندر صاحب کے نام پر ہے۔"
"ہاں، مگر یہ مجھے تب پتا نہیں تھا۔ یہ بات تم نے ان لوگوں کو بتائی ہے کہ تم یہاں سے کوئی کاغذ لے کے اس کے پاس گئی تھی۔" ناصرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
"توبہ کریں جی! میں نے کیوں بتانا تھا۔ میں نے تو سکندر صاحب کو نہیں بتایا۔"
"اور یہ ہی بہتر ہے کہ تم اپنا منہ اسی طرح ہمیشہ کے لئے بند رکھو، اگر یہ بات ان کو پتا چلی تو پاپا تمہیں سامان سمیت اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تم ان کے غصے کو جانتی ہو، جاؤ اب یہاں سے۔"
سالار نے ترشی سے کہا۔ ناصرہ خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ویک اینڈ پر کبھی کبھار ہائکنگ کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جایا کرتا تھا۔ وہ ویک اینڈ نہیں تھا مگر اچانک ہی اس کا موڈ وہاں جانے کا بن گیا۔
ہمیشہ کی طرح گاڑی نیچے پارک کر کے وہ ایک بیگ اپنی پشت پر ڈالے ہائکنگ کرتا رہا۔ واپسی کا سفر اس نے تب شروع کیا جب سائے لمبے ہونے لگے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔ واپسی کے سفر کو کچھ تیزی سے طے کرنے کے لئے وہ سڑک پر آ گیا جہاں سے عام طور پر لوگ گزرتے تھے۔ اس نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا جب اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ سالار نے ایک نظر مڑ کر دیکھا۔ وہ دو لڑکے تھے جو اس سے کافی پیچھے تھے، مگر بہت تیزی سے آگے آ رہے تھے۔
سالار نے گردن واپس موڑ لی اور اسی طرح اپنا نیچے کا سفر جا ری رکھا۔ اسے اپنے حلیے سے وہ لڑکے مشکوک نہیں لگے تھے۔ جینز اور شرٹس میں ملبوس ان کا حلیہ عام لڑکوں جیسا تھا مگر پھر چلتے چلتے اسے یک دم کوئی اپنے بالکل عقب میں محسوس ہوا۔ وہ برق رفتاری سے پلٹا اور ساکت ہو گیا۔ ان دونوں لڑکوں کے ہاتھ میں ریوالور تھے اور وہ اس کے بالکل سامنے تھے۔
"اپنے ہاتھ اوپر کرو ورنہ ہم تمہیں شوٹ کر دیں گے۔"
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور بہت تیزی سے اس نے اسے کھینچتے ہوئے دھکا دیا۔ سالار لڑکھڑایا مگر سنبھل گیا۔
"ادھر چلو۔" سالار نے کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر اس طرف جانا شروع کر دیا جہاں وہ اسے سڑک سے ہٹانا چاہتے تھے، تاکہ کوئی یک دم وہاں نہ آ جائے۔ ان میں سے ایک تقریباً اسے دھکیلتے ہوئے اس راستے سے ہٹا کر جھاڑیوں اور درختوں کے بہت اندر تک لے گیا۔
"گھٹنوں کے بل بیٹھو۔" ایک نے درشتی سے اس سے کہا۔
سالار نے خاموشی سے اس کے حکم پر عمل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اس کی چیزیں چھینیں گے اور پھر اسے چھوڑ دیں گے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا، جس پر وہ دونوں مشتعل ہو کر اسے نقصان پہنچاتے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور اس نے اس کی پشت پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتار لیا۔ اس بیگ میں ایک کیمرہ، چند فلم رول، بیٹری ، ٹیلی اسکوپ، فرسٹ ایڈکٹ، والٹ، پانی کی بوتل اور چند کھانے کی چیزیں تھیں جس لڑکے نے بیگ اتارا تھا وہ بیگ کھول کر اندر موجود چیزوں کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے والٹ کھول کر اس کے اندر موجود کرنسی نوٹ اور کریڈٹ کاررڈز کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے بیگ میں سے ٹشو کا پیکٹ نکال لیا اور پھر فرسٹ ایڈکٹ بھی نکال لی۔
"اب تم کھڑے ہو جاؤ۔" اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار اس طرح ہاتھ سر سے اوپر اٹھائے کھڑا ہو گیا۔ اس لڑکے نے اس کی پشت پر جا کر اس کی شارٹس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں ٹٹولا اور اس میں موجود گاڑی کی چابی نکال لی۔
"گڈ! کار ہے؟" سالار کو پہلی بار کچھ تشویش ہوئی۔
"تم لوگ میرا بیگ لے جاؤ مگر کار کو رہنے دو۔" سالار نے پہلی بار انہیں مخاطب کیا۔
"کیوں؟ کار کو کیوں رہنے دیں۔ تم ہماری خالہ کے بیٹے ہو کہ کار کو رہنے دیں۔" اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا۔
"تم لوگ اگر کار لے جانے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بہت سے پرابلمز ہوں گے۔ صرف کار کی چابی مل جانے سے تم کار نہیں لے جا سکو گے۔ اس میں اور بھی بہت سے لاکس ہیں۔" سالار نے ان سے کہا۔
"وہ ہمارا مسئلہ ہے، تمہارا نہیں۔" اس لڑکے نے اس سے کہا اور پھر آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے گلاسز کھینچ لئے۔
"اپنے جاگرز اتار دو۔"سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"جاگرز کس لئے؟" اس بار اس لڑکے نے جواب دینے کے بجائے پوری وقت سے ایک تھپڑ سالار کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گیا، چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔
"دوبارہ کوئی سوال مت کرنا، جاگرز اتارو۔"
سالار خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے نے اس پر تانے ہوئے ریوالور کے چیمبر کو ایک بار جتانے والے انداز میں حرکت دی۔ پہلے لڑکے نے ایک اور تھپڑ اس بار سالار کے دوسرے گال پر دے مارا۔
"اب دیکھو اس طرح۔۔۔۔۔ جاگرز اتارو۔" اس نے سختی سے کہا۔ سالار نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر نیچے جھک کر آہستہ آہستہ اپنے دونوں جاگرز اتار دئیے۔ اب اس کے پیروں میں صرف جرابیں رہ گئی تھیں۔
"اپنی شرٹ اتارو۔" سالار ایک بار پھر اعتراض کرنا چاہتا تھا مگر وہ دوبارہ تھپڑ کھانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ان دونوں کے پاس ریوالور نہ ہوتے تو وہ جسمانی طور پر ان سے بہت بہتر تھا اور یقیناً اس وقت ان کی ٹھکائی کر رہا ہوتا، مگر ان کے پاس ریوالور کی موجودگی نے یک دم ہی اسے ان کے سامنے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔
"نیچے پھینکو۔" اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار نے شرٹ نیچے پھینک دی۔ اس لڑنے نے اپنے بائیں ہاتھ کو جیب میں ڈال کر کوئی چیز نکالی۔ وہ پلاسٹک کی باریک ڈوری کا ایک گچھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سالار کی سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے اختیار پریشان ہوا، شام ہو رہی تھی، کچھ ہی دیر میں وہاں اندھیرا چھا جاتا اور وہ وہاں سے رہائی کس طرح حاصل کرتا۔
"دیکھو، مجھے باندھو مت، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تم میرا بیگ اور میری کار لے جاؤ۔" اس بار اس نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس لڑکے نے کچھ بھی کہے بغیر پوری قوت سے اس کے پیٹ میں ایک گھونسہ مارا۔ سالار درد سے دہرا ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔
"کوئی مشورہ نہیں۔"
اس لڑنے نے جیسے اسے یاد کروایا اور زور سے ایک طرف دھکیلا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے سالار نے اندھوں کی طرح اس کی پیروی کی۔ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بٹھا کر اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اس کے دونوں بازوؤں کو پتلے سے تنے کے پیچھے لے جا کر اس کی کلائیوں پر وہ ڈوری لپیٹنا شروع کر دی۔ دوسرا لڑکا سالار سے ذرا فاصلے پر اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے سالار پر ریوالور تانے رہا۔
اس کے ہاتھوں کو اچھی طرح باندھنے کے بعد اس لڑکے نے سامنے آ کر اس کے پیروں کی جرابیں اتاریں اور پھر فرسٹ ایڈکٹ میں موجود قینچی سے اس نے سالار کی شرٹ کی پٹیاں کاٹنی شروع کر دیں۔ ان میں سے کچھ پٹیوں کو اس نے ایک بار پھر بڑی مہارت کے ساتھ اس کے ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ لگا دی پھر اس نے ٹشو کا پیکٹ کھولا اور اس میں موجود سارے ٹشو باہر نکال لئے۔
منہ کھولو۔"سالار جانتا تھا، وہ اب کیا کرنے والا ہے۔ وہ جتنی گالیاں اسے دل میں دے سکتا تھا اس وقت دے رہا تھا ۔ اس لڑکے نے یکے بعد دیگرے وہ سارے ٹشو اس کے منہ میں ٹھونس دئیے اور پھر شرٹ کی واحد بچ جانے والی پٹی کو گھوڑے کی لگام کی طرح اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے اسے باندھ دیا۔
دوسرا لڑکا اب اطمینان سے بیگ بند کر رہا تھا، پھر چند منٹوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ ان کے وہاں سے جاتے ہی سالار نے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش شروع کر دی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے باندھا تھا، وہ صرف ہلنے جلنے کی کوشش سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی ڈوری ڈھیلی کر سکتا تھا۔ وہ ڈوری اس کے حرکت کرنے پر اس کے گوشت کے اندر گھستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی حالت اس وقت بے حد خراب تھی۔ وہ نہ کسی کو آواز دے سکتا تھا نہ دوسرے طریقے سے خود اپنی طرف کسی کو متوجہ کر سکتا تھا۔
اس کے اردگرد قد آدم جھاڑیاں تھیں اور شام کے ڈھلتے سایوں میں ان جھاڑیوں میں اس کی طرف کسی کا متوجہ ہو جانا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے جسم پر اس وقت لباس کے نام پر صرف گھٹنوں سے کچھ نیچے تک لٹکنے والی برمودا شارٹس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور شام ہونے کے ساتھ ساتھ خنکی بڑھ رہی تھی۔ گھر میں کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہائکنگ کے لئے آیا ہوا ہے اور جب گھر نہ پہنچنے پر اس کی تلاش شروع ہو گی تب بھی یہاں اس تاریکی میں درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بندھے ہوئے اس کے وجود تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب اپنے پیروں کے گرد موجود پٹیوں کو ڈھیلا کرنے اور پھر انہیں کھولنے میں کامیاب ہوا، اس وقت سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اگر چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور اردگرد کے ماحول کو بھی نہ دیکھ پاتا۔اِکا دُکا گزرنے والی گاڑیوں اور لوگوں کا شور اب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے اردگرد جھینگروں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور وہ گردن سے کمر تک اپنی پشت پر درخت کے تنے کی وجہ سے آنے والی رگڑ اور خراشوں کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ درخت کے دوسری طرف اس کےہاتھوں کی کلائیوں میں موجود ڈوری اب اس کے گوشت میں اتری ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں کو مزید حرکت دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ کلائیوں سے اٹھتی ٹیسیں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے منہ کے اندر موجود ٹشوز اب گل چکے تھے اور ان کے گلنے کی وجہ سے وہ منہ میں لگام کی طرح کسی ہوئی پٹی کو حرکت دینے لگا تھا مگر وہ گلے سے آواز نکالنے میں اب بھی بری طرح ناکام تھا کیونکہ وہ ان گلے ہوئے ٹشوز کو نہ نگل سکتا تھا، نہ اگل سکتا تھا۔ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انہیں چیونگم کی طرح چبانے میں بھی ناکام تھا۔
اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔ وہ صبح تک اس حالت میں وہاں یقیناً ٹھٹھر کر مر جاتا اگر خوف یا کسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے نہ مرتا تو۔ اس کے جسم پر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے اور بار بار وہ اسے کاٹ رہے تھے۔ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں پر چلنے اور کاٹنے والے کیڑوں کو جھٹک رہا تھا مگر باقی جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو جھٹکنے میں ناکام تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ان چھوٹے کیڑوں کے بعد اسے اور کن کیڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بچھو اور سانپ ہوتے تو۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔" آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟" وہ بے چارگی سے سوچنے میں مصروف تھا۔" اور میں یہاں مر گیا تو۔۔۔۔۔ تو میری لاش تک دوبارہ کسی کو نہیں ملے گی۔ کیڑے مکوڑے اور جانور مجھے کھا جائیں گے۔"
اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ایک عجیب طرح کے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ تو کیا میں اس طرح مروں گا، یہاں۔۔۔۔۔ اس حالت میں۔۔۔۔۔ بے لباس۔۔۔۔۔ بے نشان۔۔۔۔۔ گھر والوں کو پتا تک نہیں ہو گا میرے بارے میں۔ کیا میرا انجام یہ ہونا ہے۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ اسے اپنی موت سے یک دم خوف آیا اتنا خوف کہ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے موت اس کے سامنے اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو۔ اس کے انتظار میں۔ یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح سسک سسک کر مرتا ہے۔
وہ درد کی پرواہ کئے بغیر ایک بار پھر اپنی کائیوں کی ڈوری کو توڑنے یا ڈھیلی کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کے بازو شل ہونے لگے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے ایک بار پھر اپنی جدوجہد چھوڑ دی اور اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس کے منہ کی پٹی ڈھیلی ہو گئی تھی، وہ گردن کو ہلاتے ہوئے اسے منہ سے نکال سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ٹشوز نکال دئیے تھے۔ اگلے کئی منٹ وہ گہرے سانس لیتا رہا پھر وہ بلند آواز میں اپنی مدد کے لئے آوازیں دینے لگا۔ اتنی بلند آواز میں جتنی وہ کوشش کر سکتا تھا۔
اس کا انداز بالکل ہذیانی تھا۔ آدھے گھنٹے تک مسلسل آوازیں دیتے رہنے کے بعد اس کی ہمت اور گلا دونوں جواب دے گئے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، یوں جیسے وہ کئی میل دوڑتا رہا ہو مگر اب بھی کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ کلائی کے زخم اب اس کے لئے ناقابل برداشت ہو رہے تھے اور کیڑے اب اس کے چہرے اور گردن پر بھی کاٹ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا یک دم اسے کیا ہوا، بس وہ بلند آواز میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ زندگی میں پہلی بار بری طرح رو رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بے بسی کا احساس ہو رہا تھا اور اس وقت درخت کے اس تنے کے ساتھ بندھے سسکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ موت سے اسی طرح خوف زدہ ہو رہا تھا جس طرح، نیو ہیون میں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کتنی دیر اسی طرح بے بسی کے عالم میں بلند آواز میں روتا رہا پھر اس کے آنسو خشک ہونے لگے۔ شاید وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اب رونا بھی اس کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔ نڈھال سا ہو کر اس نے درخت کے تنے سےسر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے کندھوں اور بازوؤں میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں مفلوج ہو جائیں گے پھر وہ کبھی انہیں حرکت نہیں دے سکے گا۔
"میں نے کبھی کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کیا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟" اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
"سالار! میرے لئے پہلے ہی بہت پرابلمز ہیں، تم اس میں اضافہ نہ کرو، میری زندگی پہلے بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم تم تو میری سچویشن کو سمجھو، میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔" درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائے سالار نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔نیچے، بہت نیچے، بہت دور۔۔۔۔۔اسلام آباد کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔
"میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟میں۔۔۔۔ مائی ڈئیر امامہ ! میں تو تمہاری مدد میں گھل رہا ہوں۔ تمہارے مسائل ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔" سالار نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
"سالار! مجھے طلاق دے دو۔"بھرائی ہوئی لجاجت آمیز آواز۔
"سویٹ ہارٹ! تم کورٹ میں جا کر لے لو۔ جیسا کہ تم کہہ چکی ہو۔"
وہ اب چپ چاپ خود سے بہت دور نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی اس کے سامنے جیسے آئینہ لے کر کھڑا ہو گیا تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کا بھی۔
"میں نے امامہ کے ساتھ صرف مذاق کیا تھا۔" وہ بڑ بڑایا۔
"میں۔۔۔۔ میں اسے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔" اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے۔
وہ پتا نہیں کس کو وضاحت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
"میں مانتا ہوں، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو گئیں۔"
اس بار اس کی آواز بھرائی ہوئی سرگوشی تھی۔" میں نے جانتے بوجھتے اس کے لئے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دھوکا دیا مگر مجھ سے غلطی ہو گئی اور مجھے پچھتاوا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں میرے طلاق نہ دینے سے اور جلال کے بارے میں جھوٹ بول دینے سے اسے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مجھے واقعی پچھتاوا ہے اس سب کے لئے مگر اس کے علاوہ تو میں نے کسی اور کو کبھی دھوکا نہیں دیا، کسی کے لئے پریشانی کھڑی نہیں کی۔"
وہ ایک بار پھر رونے لگا۔
"میرے خدا۔۔۔۔۔ اگر ایک بار میں یہاں سے بچ گیا، میں یہاں سے نکل گیا تو میں امامہ کو ڈھونڈوں گا، میں اسے طلاق دے دوں گا، میں جلال کے بارے میں بھی اسے سچ بتا دوں گا۔ بس ایک بار آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔"
وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ امامہ نے اس کے طلاق دینے سے انکار پر کیا محسوس کیا ہو گا۔ شاید اسی طرح اس نے بھی اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کئے ہوں گے جس طرح وہ کر رہا تھا۔
وہاں بیٹھے ہوئے پہلی بار وہ امامہ کی بے بسی، خوف اور تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے جلال انصر کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے جھوٹ پر امامہ کے چہرے کا تاثر اسے اب بھی یاد تھا۔ اس وقت وہ اس تاثر سے بے حد محظوظ ہوا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً پوری رات روتی رہی تھی اور وہ بے حد مسرور تھا۔
وہ اس وقت اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اس اندھیری رات میں اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسے اپنے آگے اور پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو گا۔ واحد پناہ گاہ، جس کا وہ سوچ کر نکلی تھی وہ جلال انصر کا گھر تھا اور سالار سکندر نے اسے وہاں جانے نہیں دیا تھا۔ وہ رات کے اس پہر وہاں اعصاب میں اترنے والی تاریکی میں بیٹھ کر ان اندیشوں اور خوف کا اندازہ کر سکتا تھا جو اس رات امامہ کو رلا رہے تھے۔
"مجھے افسوس ہے، مجھے واقعی افسوس ہے لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔اگر۔۔۔۔۔ اگر وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں اس سے ایکسکیوز کر لوں گا۔ میں جس حد تک ممکن ہوا اس کی مدد کروں گا مگر اس وقت۔۔۔۔۔ اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر۔۔۔۔ اگر میں نے کبھی۔۔۔۔۔۔ کبھی کوئی نیکی کی ہے تو اس کے بدلے رہائی دلا دے۔ اوہ گاڈ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔" اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی نیکیاں گننے کی کوشش کی جنہیں کو گنوا سکے۔ اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ کوئی نیکی جسے وہ اس وقت اللہ کے سامنے پیش کر کے اس کے بدلے میں رہائی مانگتا۔ ایک اور خوف نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی خیرات نہیں کی تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ٹپ خوش دلی سے دیا کرتا تھا، مگر کبھی کسی فقیر کے ہاتھ پھیلانے پر اس نے اسے کچھ نہیں دیا تھا۔
اسکول کالج میں مختلف کاموں کے لئے جب فنڈ جمع ہوتے تب بھی وہ ٹکٹس خریدنے یا بیچنے سے صاف انکار کر دیتا۔
"میں چیریٹی پر یقین نہیں رکھتا۔" اس کی زبان پر روکھے انداز میں صرف ایک ہی جملہ ہوتا۔
"میرے پاس اتنی فالتو رقم نہیں ہے کہ میں ہر جگہ لٹاتا پھروں۔" اس کا یہ رویہ نیو ہیون میں بھی جاری رہا تھا۔ یہ سب صرف چیریٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ چیریٹی کے علاوہ بھی کسی کی مدد کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا، جب اس نے کسی کی مدد کی ہو، صرف امامہ کی مدد کی تھی اور اس مدد کے بعد اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد وہ اسے نیکی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ عبادت کرنے کا بھی عادی نہیں تھا۔ شاید بچپن میں اس نے چند بار سکندر کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو مگر وہ بھی عبادت سے زیادہ ایک رسم تھی۔ اسے نیو ہیون میں وہ رات یاد آئی جب وہ عشاء کی نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور اس کے ساتھ اسے اس hooker کو دئے ہوئے 50 ڈالرز بھی یاد آئے۔ شاید وہ واحد موقع تھا جب اسے کسی پر ترس آیا تھا۔ وہ مستقل اپنے ذہن کو اپنی کسی نیکی کی تلاش میں کھنگالتا رہا مگر ناکام رہا۔
اور پھر اسے اپنے گناہ یاد آنے لگے۔ کیا تھا جو وہ نہیں کر چکا تھا۔ اس کے آنسو ، گڑگڑانا، رونا سب کچھ یک دم ختم ہو گیا۔ حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ وہ اگر آج اس حالت میں مر جاتا تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوتی۔ بائیس سال کی عمر میں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے صرف کرنے پر بھی جس شخص کو اپنی کوئی نیکی یاد نہ آئے جبکہ اس شخص کا آئی کیو لیول 150 ہو اور اس کی میموری فوٹوگرافک۔۔۔۔۔ وہ شخص اللہ سے یہ چاہتا ہو کہ اسے اس کی کسی نیکی کے بدلے اس آزمائش سے رہا کر دیا جائے جس میں وہ پھنس گیا ہے۔
"What is next to ecstasy?"
اس نے ٹین ایج میں کوکین پیتے ہوئے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا، وہ بھی کوکین لے رہا تھا۔
"more ecstasy" اس نے کہا تھا۔ اس نے کوکین لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
There is no end to ecstasy, it is preceded by pleasure and followed by more ecstasy.
وہ نشے کی حالت میں اس سے کہہ رہا تھا۔ سالار مطمئن نہیں ہوا۔
No, it does end. What happens when it ends? When it really ends?
اس کے دوست نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔
You know it yourself, don’t you? You have been through it off and on.
سالار جواب دینے کے بجائے دوبارہ کوکین لینے لگا تھا۔
اس کی کلائیوں کے گوشت میں اترتی ڈوری اسے اب جواب دے رہی تھی۔"Pain" (درد)
What is next to pain?
اس نے مضحکہ خیز لہجے میں اس رات امامہ ہاشم سے پوچھا تھا۔
Nothingness
رسی نما کوئی چیز لہراتے ہوئے اس کے جسم پر گری تھی۔ اس کے سر، چہرے،گردن، سینے، پیٹ۔۔۔۔۔اور وہاں سے تیز رفتاری سے رینگتی ہوئی اتر گئی۔ سالار نے کانپتے جسم کے ساتھ اپنی چیخ روکی تھی۔ وہ کوئی سانپ تھا جو اسے کاٹے بغیر چلا گیا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں نہا گیا تھا۔ اس کا جسم اب جاڑے کے مریض کی طرح تھرتھر کانپ رہا تھا۔
"Nothingness" آواز بالکل صاف تھی۔
"And what is next to nothingness?"
تحقیر آمیز آواز اور مسکراہٹ اس کی تھی۔
"Hell"
اس نے یہی کہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ گھنٹے سے وہاں بندھا ہوا تھا۔ اس ویرانے، اس تاریکی ، اس وحشت ناک تنہائی میں۔ وہ پورا ایک گھنٹہ حلق کے بل پوری وقت سے مدد کے لئے پکارتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا حلق آواز نکالنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
Nothingness سے Hell وہ ان دونوں کے بیچ کہیں معلق تھا یا شاید Nothingness میں داخل ہونے والا تھا اور Hell تک پہنچنے والا تھا۔
"تمہیں خوف نہیں آتا یہ پوچھتے ہوئے کہ Hell کہ بعد کیا آئے گا؟ دوزخ کے بعد آگے کیا آ سکتا ہے؟ انسان کے معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں اشتیاق ہے؟"
سالار نے وحشت بھری نظروں سے اردگرد دیکھا۔ وہ کیا تھا قبر یا دوزخ یا زندگی میں اس کا ایک منظر۔۔۔۔۔بھوک ، پیاس، بےبسی، بے یاری ومددگاری، جسم پر چلتے کیڑے جنہیں وہ خود کو کاٹنے سے روک تک نہیں پا رہا تھا۔ مفلوج ہوتے ہوئے ہاتھ پاؤں، پشت اور ہاتھوں کی کلائیوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے زخم۔۔۔۔ خوف تھا یا دہشت، پتا نہیں کیا تھا مگر وہ بلند آواز میں پاگلوں کی طرح چیخیں مارنے لگا تھا۔ اس کی چیخیں دور دور تک فضا میں گونج رہی تھیں۔ ہذیانی اور جنونی انداز میں بلند کی جانے والی بے مقصد اور خوفناک چیخیں۔ اس نے زندگی میں اس طرح کا خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ اسے اپنے اردگرد وعجیب سے بھوت چلتے پھرتے نظر آنے لگے تھے۔
اسے لگا رہا تھا اس کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہے یا پھر نروس بریک ڈاون، پھر اس کی چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔ اس کا گلا پھر بند ہو گیا تھا۔ اب صرف سرسراہٹیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھیں۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اب مر رہا ہے۔ اس کا ہارٹ فیل ہو رہا ہے یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو دینے والا ہے اور اسی وقت اچانک تنے کے پیچھے بندھی ہوئی کلائیوں کی ڈوری ڈھیلی ہو گئی۔ ہوش و حواس کھوتے ہوئے اس کے اعصاب نے ایک بار پھر جھٹکا لیا۔
اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی۔ ڈوری اور ڈھیلی ہوتی گئی۔ شاید مسلسل تنے کی رگڑ لگتے لگتے درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہاتھوں کو کچھ اور حرکت دی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ درخت کے تنے سے آزاد ہو چکا تھا۔
اس نے بے یقینی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو سیدھا کیا۔ درد کی تیز لہریں سے کے بازوؤں سے گزریں۔
"کیا میں، میں بچ گیا ہوں؟"
"کیوں؟ کس لئے؟"ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھاس نے اپنی گردن کے گرد موجود اس پٹی کو اتارا جو پہلے اس کے منہ کے گرد باندھی گئی تھی، بازوؤں کو دی گئی معمولی حرکت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی تھی۔ اس کے بازوؤں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ اتنی تکلیف کہ اسے لگ رہا تھا وہ دوبارہ کبھی اپنے بازو استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس کی ٹانگیں بھی سن ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ وہ لڑکھڑا کر بازوؤں کے بل زمین پر گرا۔ ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے دوسری کوشش ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کی۔ اس بار وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ دونوں لڑکے اس کے جاگرز اور گھڑی بھی لے جا چکے تھے۔ اس کی جرابیں وہیں کہیں پڑی تھیں۔ وہ اندھیرے میں انہیں ٹٹول کر پہن سکتا تھا مگر بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال میں لانا پڑتا اور وہ اس وقت یہ کام کرنے کے قابل نہیں تھا نہ جسمانی طور پر، نہ ذہنی طور پر۔
وہ اس وقت صرف وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ ہر قیمت پر، اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا، جھاڑیوں سے الجھتا، خراشیں لیتا وہ کسی نہ کسی طرح اس راستے پر آ گیا تھا جس راستے سے وہ دونوں ہٹا کر اسے وہاں لے آئے تھے اور پھر ننگے پاؤں اس نے نیچے کا سفر طے کیا۔ اس کے پیروں میں پتھر اور کنکریاں چبھ رہی تھیں مگر وہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکا تھا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وقت کیا ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اسے نیچے آنے میں کتنا وقت لگا اور اس نے یہ سفر کس طرح طے کیا۔ وہ نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ پورے راستے بلند آواز سے روتا رہا تھا۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر آ کر اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بھی اس نے اپنے حلیے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کہیں رکنے کی خواہش کی نہ ہی کسی کی مدد لینے کی۔ وہ اسی طرح روتا ہوا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔
وہ پولیس کی ایک پٹرولنگ کار کی جس نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اور اس کے پاس آ کر رک گئی۔ اندر موجود کانسٹیبل اس کے سامنے نیچے اترے اور اسے روک لیا۔ وہ پہلی بار حوش و حواس میں آیا تھا مگر اس وقت بھی وہ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا وہ لوگ اب اس سے کچھ پوچھ رہے تھے، مگر وہ کیا جواب دیتا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
"ابھی اور کتنی دیر اسے یہاں رکھنا پڑے گا؟"
"زیادہ دیر نہیں، جیسے ہی ہوش آتا ہے ہم دوبارہ چیک اپ کریں گے، پھر ڈسچارج کر دیں گے زیادہ شدید قسم کی انجریز نہیں ہیں۔ بس گھر میں کچھ دنوں تک مکمل طور پر ریسٹ کرنا پڑے گا۔
اس کا ذہن لاشعور سے شعور کا سفر طے کر رہا تھا۔ پہلے جو صرف بے معنی آوازیں تھیں اب وہ انہیں مفہوم پہنا رہا تھا۔ آوازوں کو پہچان رہا تھا ان میں سے ایک آواز سکندر عثمان کی تھی۔ دوسری یقیناً کسی ڈاکٹر کی۔سالار نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھیں یک دم چندھیا گئی تھیں۔کمرے میں بہت تیز روشنی تھی یا کم از کم اسے ایسا ہی لگا تھا۔ وہ ان کے فیملی ڈاکٹر کا پرائیویٹ کلینک تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی یہاں ایسے ہی ایک کمرے میں رہ چکا تھا اور یہ پہچاننے کے لئے ایک نظر ہی کافی تھی اس کا ذہن بالکل صحیح کام کر رہا تھا۔
جسم کے مختلف حصوں میں ہونے والے درد کا احساس اسے پھر ہونے لگا تھا۔ اس کے باوجود کہ اب وہ ایک بہت نرم اور آرام دہ بستر میں تھا۔
اس کے جسم پر وہ لباس نہیں تھا جو اس نے اس سرکاری ہسپتال میں پہنا تھا، جہاں سے لے جایا گیا تھا۔ وہ ایک اور لباس میں ملبوس تھا اور یقیناً اس کے جسم کو پانی کی مدد سے صاف بھی کیا گیا تھا کیونکہ اسے آدھے بازوؤں والی شرٹ سے جھانکتے اپنے بازوؤں پر کہیں بھی مٹی یا گرد نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کی کلائیوں کے گرد پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کے بازوؤں پر چھوٹے چھوٹے بہت سے نشانات تھے۔ بازو اور ہاتھ سوجے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ ایسے ہی بہت سے نشانات اس کے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی ہوں گے۔ اسے اپنی ایک آنکھ بھی سوجی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور اس کے جبڑے بھی دکھ رہے تھے مگر اس سے بھی زیادہ برا حال گلے کا تھا۔ اس کے بازو میں ایک ڈرپ لگی ہوئی تھی جو اب تقریباً ختم ہونے والی تھی۔
پہلی بار اس کو ہوش میں ڈاکٹر نے ہی دیکھا تھا۔ وہ ان کا فیملی ڈاکٹر نہیں تھا۔ شاید اس کے ساتھ کام کرنے والا کوئی اور فزیشن تھا۔ اس نے سکندر کو اس کی طرف متوجہ کیا۔
"ہوش آ گیا ہے؟" سالار نے ایک صوفے پر بیٹھی طیبہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا مگر سکندر آگے نہیں آئے تھے۔ڈاکٹر اب اس کے پاس آ کر اس کی نبض چیک کر رہا تھا۔
"اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟"
سالار جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل سکی۔ وہ صرف منہ کھول کر رہ گیا۔ ڈاکٹر نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ، سالار نے تکیے پر رکھا ہوا اپنا سر نفی میں ہلایا۔" بولنے کی کوشش کرو۔" ڈاکٹر شاید پہلے ہی اس کے گلے کے پرابلم کے بارے میں جانتا تھا۔ سالار نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر نے نرس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے سے ایک ٹارچ نما آلہ اٹھایا۔
"منہ کھولیں۔" سالار نے دیکھتے جبڑوں کے ساتھ اپنا منہ کھول دیا۔ ڈاکٹر کچھ دیر اس کے حلق کا معائنہ کرتا رہا پھر اس نے ٹارچ بند کر دی۔
"گلے کا تفصیلی چیک اپ کرنا پڑے گا۔"اس نے مڑ کر سکندر عثمان کو بتایا پھر اس نے ایک رائٹنگ پیڈ اور پین سالار کی طرف بڑھایا۔ نرس تب تک اس کے بازو میں لگی ڈرپ اتار چکی تھی۔
"اٹھ کر بیٹھو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔ گلے کو۔" اسے اٹھ کر بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نرس نے تکیہ اس کے پیچھے رکھ دیا تھا اور وہ رائٹنگ پیڈ ہاتھ میں لئے سوچتا رہا۔
"کیا ہوا تھا؟ گلے کو، جسم کو، دماغ کو۔" وہ کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں تھا۔ سوجی ہوئی انگلیوں میں پکڑے پین کو وہ دیکھتا رہا۔ اسے یاد تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اسے اپنی وہ چیخیں یاد آ رہی تھیں جنہوں نے اب اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ کیا لکھا جائے یہ کہ مجھے ایک پہاڑ پر ساری چیزیں چھین کر باندھ دیا گیا تھا یا پھر یہ کہ مجھے چند گھنٹوں کے لئے زندہ قبر میں اتار دیا گیا تھا تاکہ مجھے سوالوں کا جواب مل جائے۔
"What is next to ecstasy?"
وہ سفید صاف کاغذکو دیکھتا رہا پھر اس نے مختصر سی تحریر میں اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ تحریر کر دیا۔ ڈاکٹر نے رائٹنگ پیڈ پکڑ کر ایک نظر ان سات آٹھ جملوں پر ڈالی اور پھر اسے سکندر عثمان کی طرف بڑھا دیا۔
"آپ کو چاہئیے کہ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کریں، تاکہ کار برآمد کی جا سکے، پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے۔ پتا نہیں وہ گاڑی کہاں سے کہاں لے جا چکے ہوں گے۔" ڈاکٹر نے ہمدردانہ انداز میں سکندر کو مشورہ دیا۔ سکندر نے رائٹنگ پیڈ پر ایک نظر ڈالی۔
"ہاں، میں پولیس سے کانٹیکٹ کرتا ہوں۔" پھر کچھ دیر ان دونوں کے درمیان اس کے گلے کے چیک اپ کے سلسلے میں بات ہوتی رہی پھر ڈاکٹر نرس کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سکندر عثمان نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رائٹنگ پیڈ سالار کے سینے پر دے مارا۔
"یہ جھوٹ کا پلندہ اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اب میں تمہاری کسی بات پر اعتبار کروں گا۔ نہیں کبھی نہیں۔"
سکندر بے حد مشتعل تھے۔
"یہ بھی تمہارا کوئی نیا ایڈونچر ہو گا۔ خود کشی کی کوئی نئی کوشش۔"
وہ کہنا چاہتا تھا۔"فارگاڈسیک۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔"مگر وہ گونگوں کی طرح ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
"میں کیا کہوں ڈاکٹر سے کہ اس کو عادت ہے ایسے تماشوں اور ایسی حرکتوں کی، یہ پیدا ہی ان کاموں کے لئے ہوا ہے۔"
سالار نے سکندر عثمان کو کبھی اس حد تک مشتعل نہیں دیکھا تھا، اشید وہ واقعی اب اس سے تنگ آ چکے تھے۔ طیبہ خاموشی سے پاس کھڑی تھیں۔
"ہر سال ایک نیا تماشا، ایک نئی مصیبت، آخر تمہیں پیدا کر کے کیا گناہ کر بیٹھے ہیں ہم۔"
سکندر عثمان کو یقین تھا یہ بھی اس کے کسی نئے ایڈونچر کا حصہ تھا۔ جو لڑکا چار بار خود کو مارنے کی کوشش کر سکتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پر موجود ان زخموں کو کوئی ڈکیتی قرار نہیں دے سکتا تھا وہ بھی اس صورت میں جب اس واقعے کاکوئی گواہ نہیں تھا۔
سالار کو"شیر آیا، شیر آیا" والی کہانی یاد آئی۔ بعض کہانیاں واقعی سچی ہوتی ہیں۔ وہ بار بار جھوٹ بول کر اب اپنا اعتبار گنوا چکا تھا۔ شاید وہ سب کچھ ہی گنوا چکا تھا۔ اپنی عزت، خوداعتمادی، غرور، فخر ، ہر چیز وہ کسی پاتال میں پہنچ گیا تھا۔
"کوئی نیا ڈرامہ کئے بڑے دن گزر گئے تھے تمہیں تو تم نے سوچا ماں باپ کو محروم کیوں رکھوں، انہیں خوار اور ذلیل کئے بڑا عرصہ ہو گیا ہے۔ اب نئی تکلیف دینی چاہئیے۔"
"ہو سکتا ہے سکندر! یہ ٹھیک کہہ رہا ہو۔ آپ پولیس کو گاڑی کے بارے میں اطلاع تو دیں۔"
اب طیبہ رائٹنگ پیڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے بعد سکندر سے کہہ رہی تھیں۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟ کبھی آج تک ٹھیک کہا ہے اس نے، مجھے اس بکواس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں ہے۔"
تمہارا یہ بیٹا کسی دن مجھے اپنی کسی حرکت کی وجہ سے پھانسی پر چڑھا دے گا اور تم کہہ رہی ہو پولیس کو اطلاع دوں، اپنا مذاق بنواؤں ۔ کار کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ کیا ہو گا اس نے، بیچ دی ہو گی کسی کو یا کہیں پھینک آیا ہو گا۔"
وہ اب اسے واقعی گالیاں دے رہے تھے۔ اس نے کبھی انہیں گالیاں دیتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ وہ صرف ڈانٹا کرتے تھے اور وہ ان کی ڈانٹ پر بھی مشتعل ہو جایا کرتا تھا۔ چاروں بھائیوں میں وہ واحد تھا جو ماں باپ کی ڈانٹ سننے کا بھی روادار نہیں تھا اور اس سے بات کرتے ہوئے سکندر بہت محتاط ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی بات پر مشتعل ہو جایا کرتا تھا، مگر آج پہلی دفعہ سالار کو ان کی گالیوں پر بھی غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس نے انہیں کس حد تک زچ کر دیا ہے۔ وہ پہلی بار اس بیڈ پر بیٹھے اپنے ماں باپ کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کای چیز تھی جو انہوں نے اسے نہیں دی تھی۔ اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے وہ اس کی فرمائش پوری کر دینے کے عادی تھے اور وہ اس کے بدلے میں انہیں کیا دیتا رہا تھا۔ کیا دے رہا تھا،ذہنی اذیت، پریشانی، تکلیف، اس کے علاوہ اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کی تھی۔ صرف ایک وہ تھا جو۔۔۔۔۔
"کسی دن تمہاری وجہ سے ہم دونوں کو خودکشی کرنی پڑے گی۔ تمہیں تب ہی سکون ملے گا،صرف تب ہی چین آئے گا تمہیں۔"
پچھلی رات اس پہاڑ پر اس طرح بندھے ہوئے اسے پہلی بار ان کی یاد آئی تھی۔ پہلی بار اسے پتا چلا تھا کہ اسے ان کی کتنی ضرورت تھی، وہ ان کے بغیر کیا کرے گا، اس کے لئے ان کے علاوہ کون پریشان ہو گا۔
اسے سکندر کے لفظوں سے زندگی میں پہلی بار کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہو رہی تھی وہ ہمیشہ سے سکندر کے زیادہ قریب رہا تھا اور اس کے سب سے زیادہ جھگڑے بھی ان ہی کے ساتھ ہوتے رہتے تھے۔
"میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں دوبارہ کبھی تمہاری شکل تک نہ دیکھوں۔ تمہیں دوبارہ وہیں پھنکوا دوں جس جگہ کے بارے میں تم جھوٹ بول رہے ہو۔"
"اب بس کرو سکندر۔" طیبہ نے ان کو ٹوکا۔
"میں بس کروں۔۔۔۔۔ یہ کیوں بس نہیں کرتا، کبھی تو ترس کھا لے یہ ہم لوگوں پر اور اپنی حرکتیں چھوڑ دے۔ کیا اس پر یہ فرض کر کے اسے زمین پر اتارا گیا تھا کہ یہ ہماری زندگی عذاب بنا دے۔"
سکندر طیبہ کی بات پر مزید مشتعل ہو گئے۔
"ابھی وہ پولیس والے بیان لینے آ جائیں گے۔ جنھوں نے اسے سڑک پر پکڑا تھا۔ یہ بکواس پیش کریں گے ان کے سامنے کہ اس بیچارے کو کسی نے لوٹ لیا ہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ اس بار واقعی کوئی اسے لوٹتا اور اسے پہاڑ پر سے نیچے پھینکتا تاکہ میری جان چھوٹ جاتی۔"
سالار بے اختیار سسکنے لگا۔ سکندر اور طیبہ بھونچکا رہ گئے، وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے رو رہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اسے روتا دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ہاتھ جوڑے، وہ کیا کر رہا تھا؟کیا چاہ رہا تھا؟ کیا بتا رہا تھا؟ سکندر عثمان بالکل ساکت تھے، طیبہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئیں، انہوں نے سالار کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپکنے کی کوشش کی۔ وہ بچوں کی طرح ان سے لپٹ گیا۔
اس کی پائینتی کی طرف کھڑے سکندر عثمان کو اچانک احساس ہوا کہ شاید اس بار وہ چھوٹ نہیں بول رہا۔ شاید اس کے ساتھ واقعی کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ لپٹا ننھے بچوں کی طرح ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ طیبہ اسے چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو کیا بڑی بڑی باتوں پر بھی رونے کا عادی نہیں تھا، پھر آج کیا ہوا تھا کہ اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔
اس سے دور کھڑے سکندر عثمان کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
"اگر یہ ساری رات واقعی وہاں بندھا رہا تھا تو۔۔۔۔۔؟"
وہ ساری رات اس کے انتظار میں جاگتے رہے تھے اور بگڑتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ وہ گاڑی لے کر پھر کہیں لاہور یا کہیں اور آوارہ گردی کے لئے چلا گیا ہو گا۔ انہیں تشویش ہو رہی تھی مگر وہ سالار کی حرکتوں سے واقف تھے۔ اس لئے تشویش سے زیادہ غصہ تھا اور ڈھائی تین بجے کے قریب وہ سونے کے لئے چلے گئے تھے جب انہیں فون پر پولیس کی طرف سے یہ اطلاع ملی۔
وہ ہاسپٹل پہنچے تھے اور انہوں نے اسے وہاں بہت ابتر حالت میں دیکھا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے وہ خود کو اذیت پہنچاتا رہا تھا جو شخص اپنی کلائی کاٹ لے، ون وے کو توڑتے ہوئے ٹریفک کی بھیڑ میں اپنی بائیک دے مارے، سلیپنگ پلز لے لے، اپنے آپ کو باندھ کر پانی میں الٹا کود جائے۔ اس کے لئے ایک بار پھر اپنی یہ حالت کرنا کیا مشکل تھا۔
اس کا جسم کیڑوں کے کاٹنے کے نشانات سے جگہ جگہ بھرا ہوا تھا۔ بعض جگہوں پر نیلاہٹ تھی۔ اس کے پیر بھی بری طرح سے زخمی تھے۔ ہاتھوں کی کلائیوں، گردن اور پشت کا بھی یہی حال تھا اور اس کے جبڑوں پر بھی خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود سکندر عثمان کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی کارستانی ہی ہو گی۔
شاید اس وقت وہ بولنے کے قابل ہوتا اور وضاحتیں پیش کرتا تو وہ کبھی بھی اس پر یقین نہ کرتے مگر اسے اس طرح ہچکیوں کے ساتھ روتے دیکھ کر انہیں یقین آنے لگا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے اور انہوں نےموبائل پر پولیس سے رابطہ کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد انہیں پتا چل گیا کہ سرخ رنگ کی ایک سپورٹس کار پہلے ہی پکڑی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ دو لڑکے بھی۔ پولیس نے انہیں ایک معمول کی چیکنگ کے دوران لائسنس اور گاڑی کے کاغذات نہ ہونے پر گھبرا جانے پر پکڑا تھا۔ انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے گاڑی کہیں سے چھینی تھی، وہ صرف یہی کہتے رہے کہ وہ گاڑی انہیں کہیں ملی تھی اور وہ صرف شوق اور تجسس سے مجبور ہو کر چلانے لگے چونکہ پولیس کے پاس ابھی تک کسی گاڑی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرائی گئی تھی اس لئے ان کے بیان کی تصدیق مشکل ہو گئی تھی۔
مگر سکندر عثمان کی ایف آئی آر کے کچھ دیر بعد ہی انہیں کار کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ اب وہ صحیح معنوں میں سالار کے بارے میں تشویش کا شکار ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سکندر اور طیبہ سالار کو اس رات واپس نہیں لے کر آئے، وہ اس رات ہاسپٹل میں ہی رہا اگلے دن اس کے جسم کا درد اور سوجن میں کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔ وہ دونوں گیارہ بجے کے قریب اسے گھر لے آئے۔ اس سے پہلے پولیس کے دو اہلکاروں نے اس سے ایک لمبا چوڑا تحریری بیان لیا تھا۔
سکندر اور طیبہ کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلی بار اس نے اپنی کھڑکیوں پر لگی ہوئی مختلف ماڈلز کی ان نیوڈ تصویروں کو دیکھا اسے بے اختیار شرم آئی۔ طیبہ اور سکندر بہت بار اس کے کمرے میں آتے رہے تھے اور وہ تصویریں ان کے لئے کوئی نئی یا قابل اعتراض چیز نہیں تھیں۔
"تم اب آرام کرو۔ میں نے تمہارے فریج میں پھل اور جوس رکھوا دیا ہے۔ بھول لگے تو نکال کر کھا لینا یا پھر ملازم کو بلوا لینا، وہ نکال دے گا۔"
طیبہ نے اس سے کہا۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ دونوں کچھ دیر تک اس کے پاس رہے پھر کھڑکی کے پردے برابر کر کے اسے سونے کی تاکید کرتے ہوئے چلے گئے، وہ ان کے باہر نکلتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کیا۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر اس نے بہت تیزی سے ان پر لگی ہوئی تمام تصویروں کو اتارنا شروع کر دیا۔ پوسٹر، تصویریں، کٹ آؤٹ۔ اس نے چند منٹ میں پورا کمرہ صاف کر دیا تھا، واش روم میں جا کر اس نے باتھ ٹب میں انہیں پھینک دیا۔
واش روم کی لائٹ جلانے پر اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی تھی۔ وہ بری طرح سوجا ہوا اور نیلا ہو رہا تھا وہ ایسے ہی چہرے کی توقع کر رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر واش روم سے نکل آیا۔ اس کے کمرے میں پورنوگرافی کے بہت سے میگزین بھی پڑے تھے۔ وہ انہیں اٹھا لایا۔ اس نے انہیں بھی باتھ ٹب میں پھینک دیا، پھر وہ باری باری اپنے ریک میں پڑی ہوئی گندی ویڈیوز اٹھا کر اس میں سے ٹیپ نکالنے لگا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اس کا کارپٹ ٹیپ کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔
اس نے وہاں موجود تمام ویڈیوز کو ضائع کر دیا اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو اٹھا کر باتھ ٹب میں پھینک دیا اور لائٹر کے ساتھ اس نے انہیں آگ لگا دی۔ ایک چنگاری بھڑکی تھی اور تصویروں اور ٹیپ کا وہ ڈھیر جلنے لگا تھا اس نے ایگزاسٹ آن کر دیا تھا۔ باتھ روم کی کھڑکیاں کھول دیں وہ اس ڈھیر کو اس لئے جلا رہا تھا کیونکہ وہ اس آگ سے بچنا چاہتا تھا جو دوزخ میں اسے اپنی لپیٹوں میں لے لیتی۔
آگ کی لپیٹیں تصویروں اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو کھا رہی تھیں۔ یوں جیسے وہ صرف آگ کے لئے ہی بنائی گئی تھیں۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر باتھ ٹب میں آگ کے اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا یوں جیسے وہ اس وقت کسی دوزخ کے کنارے کھڑا تھا۔ ایک رات پہلے اس پہاڑی پر اس حالت میں اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کی زندگی کی آخری رات تھی اور وہ اس کے بعد دوبارہ کبھی ان روشنیوں کونہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے ہذیانی حالت میں گلا پھاڑ کر چیختے ہوئے بار بار کہا تھا۔"ایک بار، صرف ایک بار، مجھے ایک موقع دیں۔ صرف ایک موقع، میں دوبارہ گناہ کے پاس تک نہیں جاؤں گا۔ میں کبھی گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔" اسے یہ موقع دے دیا گیا تھا اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت تھا۔ آگ نے ان سب کاغذوں کو راکھ بنا دیا تھا جب آگ بجھ گئی تو اس نے پانی کھول کر پائپ کے ساتھ اس راکھ کو بہانا شروع کر دیا۔
سالار پلٹ کر دوبارہ واش بیسن کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اس کے گلے میں موجود سونے کی چین کو وہ لوگ اتار کر لے گئے تھے مگر اس کے کان کی لو میں موجود ڈائمنڈ ٹاپس وہیں تھا۔ وہ پلاٹینم میں جڑا ہوا تھا اور ان لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو گا کہ وہ کوئی معمولی پتھر یا پھر زرقون ہو گا یا پھر شاید اس کے لمبے کھلے بالوں کی وجہ سے اس کے کان کی لو چھپی رہی ہو گی۔
وہ کچھ دیر آئینے میں خود کو دیکھتا رہا پھر اس نے کان کی لو میں موجود ٹاپس اٹھا کر واش بیسن کے پاس رکھ دیا شیونگ کٹ میں موجود کلپر اس نے نکالا اور اپنے بال کاٹنے لگا۔ بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ۔ واش بیسن میں بہتا ہوا پانی ان بالوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا تھا۔
ریزر نکال کر اس نے شیو کرنی شروع کر دی۔ وہ جیسے اپنی تمام نشانیوں سے پیچھا چھڑا رہا تھا۔ شیو کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے نکالے اپنے ہاتھوں پر بندھی پٹیاں کھولیں اور شاور کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ پورا ایک گھنٹہ اپنے پورے جسم کے ایک ایک حصے کو کلمہ پڑھ پڑھ کر صاف کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ آج پہلی بار اسلام سے متعارف ہوا ہو۔ پہلی بار مسلمان ہوا ہو۔
واش روم سے باہر آ کر اس نے فریج میں رکھے سیب کے چند ٹکڑے کھائے اور پھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ دوبارہ اس کی آنکھ الارم سے کھلی جسے اس نے سونے سے پہلے لگایا تھا۔ دو بج رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"مائی گاڈ سالار! یہ اپنے بالوں کو کیا کیا ہے تم نے؟" طیبہ اسے دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے بھول گئیں کہ وہ بولنے کے قابل نہیں تھا۔ سالار نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کر دیا۔
"میں مارکیٹ جانا چاہتا ہوں۔" اس پر لکھا ہوا تھا۔
"کس لئے؟" طیبہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
"تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔ کچھ گھنٹے ہوئے ہی تمہیں ہاسپٹل سے آئے اور تم ایک بار پھر آوارہ گردی کے لئے نکلنا چاہتے ہو۔" طیبہ نے اسے قدرے نرم آواز میں جھڑکا۔
"ممی! میں کچھ کتابیں خریدنا چاہتا ہوں۔" سالار نے ایک بار پھر کاغذ پر لکھا۔" میں آوارہ گردی کرنے کے لئے نہیں جا رہا۔"
طیبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔" تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جاؤ۔" سالار نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ جس وقت مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑی سے اترا شام ہو چکی تھی۔ مارکیٹ کی روشنیاں وہاں جیسے رنگ و نور کا ایک سیلاب لے آئی تھیں۔ وہ جگہ جگہ پھرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ مغربی ملبوسات میں ملبوس بے فکری اور لاپرواہی سےقہقہے لگاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار اس جگہ سے وحشت ہوئی تھی، وہی وحشت جو وہ اڑتالیس گھنٹے پہلے مارگلہ کی ان پہاڑیوں پر محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا۔ بلند و بانگ قہقہے لگانے والا، فضول اور بے ہودہ باتیں کرنے والا، اپنا سر نیچے کئے وہ کسی بھی چیز پر دھیان دئیے بغیر سامنے نظر آنے والی بک شاپ میں چلا آیا۔
اپنی جیب سے کاغذ نکال کر اس نے دوکاندار کو اپنی مطلوبہ کتابو ں کے بارے میں بتایا۔ وہ قرآن پاک کا ایک ترجمہ اور نماز کے بارے میں کچھ دوسری کتابیں خریدنا چاہتا تھا۔ دوکاندار نے اسے حیرانی سے دیکھا، وہ سالار کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ وہاں سے پورنوگرافی کے غیر ملکی میگزینز اورسڈنی شیلڈن اور ہیرلڈ روبنز سمیت چند دوسرے انگلش ناولز لکھنے والوں کے ہر نئے ناول کو خریدنے کا عادی تھا۔
سالار اس کی نظروں کے استعجاب کو سمجھتا تھا۔ وہ اس سے نظریں ملانے کے بجائے صرف کاونٹر کو دیکھتا رہا۔ وہ آدمی کسی سیلز مین کو ہدایات دیتا رہا پھر اس نے سالار سے کہا۔
"آپ بڑے دن بعد آئے۔ کہیں گئے ہوئے تھے؟"
"اسٹڈیز کے لئے باہر۔" اس نے سر ہلاتے ہوئے سامنے پڑے ہوئے کاغذ پر لکھا۔
"اور یہ گلے کو کیا ہو؟"
"بس ٹھیک نہیں ہے۔" اس نے لکھا۔
سیلز مین قرآن پاک کا ترجمہ اور اور دوسری مطلوبہ کتابیں لے آیا۔
"ہاں! یہ اسلامی کتابوں کا آج کل بڑا ٹرینڈ چلا ہوا ہے۔ لوگ بہت پڑھنے لگے ہیں، بڑی اچھی بات ہے۔ خاص طور پر باہر جا کر تو ضرور پڑھنا چاہئیے۔" دوکاندار نے بڑے کاروباری انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کتابوں پر ایک نظر دوڑانے لگا۔
چند لمحوں کے بعد ا س نے دائیں ہاتھ قرآن پاک کے ترجمے کے ساتھ کاونٹر پر خالی جگہ پر شاپ کیپر نے اس کے سامنے پورنوگرافی کے کچھ نئے میگزینز رکھ دئیے۔ کتابوں کو دیکھتے دیکھتے اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
"یہ نئے آئے ہیں ، میں نے سوچا آپ کو دکھا دوں۔ ہو سکتا ہے آپ خریدنا پسند کریں۔"
سالار نے ایک نظر قرآن پاک کے ترجمے کو دیکھا دوسری نظر چند انچ دور پڑے ان میگزینز کو دیکھا، غصے کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔"کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے ان میگزینز کو اٹھا کر وہ جتنی دور اس شاپ کے اندر پھینک سکتا تھا اس نے پھینک دئیے۔ چند لمحوں کے لئے پوری شاپ میں خاموشی چھا گئی۔
سیلز مین ہکا بکا کھڑا تھا۔"بل" سالار نے کاغذ پر گھسیٹا اور سرخ چہرے کے ساتھ اس سیلز مین کی نکھوں کے سامنے اس کاغذ کو کیا۔ سیلز مین نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے سامنے پڑے کمپیوٹر پر ان کتابوں کا بل بنانا شروع کر دیا جو اس کے سامنے رکھی تھیں۔
چند منٹوں میں سالار نے بل ادا کیا اور کتابیں اٹھا کر دروزے کی طرف بڑھ گیا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔۔ دوکان سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کاونٹر کے پاس کھڑی ایک لڑکی کا تبصرہ سنا، مخاطب کون تھا اس نے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ وہ جانتا تھا وہ تبصرہ اسی پر کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دو ہفتے بعد اس کی آواز بحال ہو گئی تھی۔ اگرچہ ابھی اس کی آواز بالکل بیٹھی ہوئی تھی، مگر وہ بولنے کے قابل ہو گیا تھا اور ان دو ہفتوں میں وہ روح کی دریافت میں مصروف رہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار یہ کام کر رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے یہ احساس ہوا تھا کہ روح بھی کوئی وجود رکھتی تھی اور اگر روح کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو جائے تو وہ زندگی میں پہلی بار خاموشی کے ایک لمبے فیز میں داخل ہوا تھا۔ بولنا نہیں سننا۔۔۔۔۔ صرف سننا بھی بعض دفعہ بہت اہم ہوتا ہے اس کا ادراک اسے پہلی بار ہو رہا تھا۔
اسے زندگی میں کبھی رات سے خوف نہیں آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسے رات سے بے تحاشا خوف آنے لگا تھا۔ وہ کمرے کی لائٹ آن کر کے سوتا تھا۔ اس نے پولیس کسٹڈی میں ان دونوں لڑکوں کو پہچان لیا تھا، مگر وہ پولیس کے ساتھ اس جگہ پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوا تھا جہاں اس شام وہ اسے باندھ کر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دوبارہ کسی ذہنی پراگندگی کا شکار ہونا نہیں چاہتا تھا، اس نے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنی بے خواب راتیں نہیں گزاری تھیں مگر اب یہ ہو رہا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز لئے بغیر سونے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا اور بعض دفعہ جب وہ سلیپنگ پلز نہیں نہ لیتا تو وہ ساری رات جاگتے ہوئے گزار دیتا، اس نے نیو ہیون میں بھی ایسے ہی چند ہفتے گزارے تھے۔ اتنے ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک مگر تب صرف الجھن اور اضطراب تھا یا شاید کسی حد تک پچھتاوا۔
مگر اب وہ ایک تیسری کیفیت سے گزر رہا تھا خوف سے، وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس رات اسے کس چیز سے زیادہ خوف آیا تھا۔ موت سے، قبر سےیا پھر دوزخ سے۔
امامہ نے کہا تھا ecstasyکے بعدpain ہوتی ہے۔ موت pain تھی۔
اس نے کہا تھا painکے بعد nothingness ہو گی۔
قبر nothingness تھی۔
امامہ نے کہا تھا nothingness کے بعد hell آ جائے گا۔
وہ وہاں تک پہنچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس ecstasyسے بچنا چاہتا تھا، جو اسے pain سے hellکا سفر کرنے پر مجبور کر دیتی۔
"اگر مجھے ان سب چیزوں کا پتا نہیں تھا تو امامہ کو کیسے پتا تھا۔ وہ میری ہی عمر کی ہے۔ وہ میرے جیسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، پھر اس کے پاس ان سوالوں کے جواب کیسے آ گئے؟" وہ حیران ہوتے ہوئے سوچنے لگتا۔ آسائشیں تو اس کے پاس بھی ویسی ہی تھیں جیسی میرے پاس تھیں پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق تھا وہ جس مکتبہ ءفکر سے تھی وہ کون ہوتے ہیں اور وہ کیوں اس مکتبہ ءفکر سے منسلک رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پہلی بار اس کے بارے میں تفصیلی طور پر پڑھا۔ اس کی الجھنوں میں اضافہ ہوا، ختم نبوت پر اختلاف کیا اتنا اہم ایشو ہے کہ ایک لڑکی اس طرح اپنا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔
"میں نے اسجد سے اس لئے شادی نہیں کی کیونکہ وہ ختم نبوت ﷺ پر یقین نہیں رکھتا۔ تم سمجھتے ہو میں تمہارے جیسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہو جاؤں گی۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ختم نبوت ﷺ پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی گناہ کرتا ہے جو ہر وہ کام کرتا ہے جس سے میرے پیغمبر ﷺ نے منع فرمایا۔ اگر میں حضرت محمدﷺ پر یقین نہ رکھنے والے سے شادی نہیں کروں گی تو میں آپ ﷺ کی نافرمانی کرنے والے کے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔"
اسے امامہ ہاشم کا ہر لفظ یاد تھا۔ وہ مفہوم پر پہلی بار غور کر رہا تھا۔
"تم یہ بات نہیں سمجھو گے۔"
اس نے بہت بار سالار سے یہ جملہ کہا تھا۔ اتنی بار کہ وہ اس جملے سے چڑنے لگا تھا۔ آخر وہ یہ بات کہہ کر اس پر کیا جتانا چاہتی تھی یہ کہ وہ کوئی بہت بڑی اسکالر یا پارسا تھی اور وہ اس سے کمتر۔۔۔۔۔
اب وہ سوچ رہا تھا، وہ بالکل ٹھیک کہتی تھی۔ وہ واقعی تب کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ کیچڑ میں رہنے والا کیڑا یہ کیسے جان سکتا تھا کہ وہ کس گندگی میں رہتا ہے، اسے اپنے بجائے دوسرے گندگی میں لپٹے اور گندگی میں رہتے نظر آتے ہیں۔ وہ تب بھی گندگی میں ہی تھا۔
"مجھے تمہاری آنکھوں سے، تمہارے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔" اسے پہلی بار اب ان دونوں چیزوں سے گھن آئی۔" آئینے کے سامنے رکھے ہونے پر یہ جملہ کسی بزورڈ (buz word)کی طرح کئی ماہ تک اس کے کانوں میں گونجتا رہا۔ وہ ہر بار اسے ذہن سے جھٹکتا کچھ مشتعل ہو جاتا، اپنے کام میں مصروف ہو جاتا مگر اب پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا کہ اسے خود بھی اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ اپنا گریبان بند رکھنے لگا تھا۔ اپنی آنکھوں کو جھکانے لگا۔ وہ آئینے میں بھی خود اپنی آنکھوں میں دیکھنے سے کترانے لگا تھا۔
اس نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی کو اس کی آنکھوں اس کی نظروں سے گھن آتی تھی۔ خاص طور پر کسی لڑکی کو۔
یہ اس کی آنکھیں نہیں ان آنکھوں میں جھانکنے والا تاثر تھا، جس سے امامہ ہاشم کو گھن آئی تھی۔ اور امامہ ہاشم سے پہلے کسی لڑکی نے اس تاثر کو شناخت نہیں کیا تھا۔
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی لڑکیوں کی کمپنی میں رہتا تھا اور وہ ایسی ہی لڑکیوں کو پسند کرتا تھا۔ امامہ ہاشم نے کبھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی وہ اس کے چہرے کو دیکھتی اور اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر نظر ہٹا لیتی یا کسی اور چیز کو دیکھنے لگتی۔ سالار کو خوش فہمی تھی کہ وہ اس سے نظریں اس لئے چرا رہی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں۔
اسے پہلی بار اس کے منہ سے فون پر یہ سن کر شاک لگا تھا کہ اسے اس کی آنکھوں سے گھن آتی تھی۔
"آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں۔" اس نے کہیں پڑھا تھا تو کیا میری آنکھیں میرے اندر چھپی گندگی کو دکھانا شروع ہو گئی تھیں۔ اسے تعجب نہیں ہوا۔ ایسا ہی تھا مگر اس گندگی کو دیکھنے کے لئے سامنے والے کا پاک ہونا ضروری تھا اور امامہ ہاشم پاک تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آپ اب مجھے کچھ بھی نہ سمجھائیں۔ آپ کو اب مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"
سالار نے سکندر سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔
وہ دوبارہ Yale جا رہا تھا اور جانے سے پہلے سکندر نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہی پرانی نصیحتیں کسی موہوم سی آس اور امید میں ایک بار پھر اس کے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی مگر اس بار ان کے بات شروع کرتے ہی سالار نے انہیں شاید زندگی میں پہلی دفعہ یقین دہائی کروائی تھی اور زندگی میں پہلی بار سکندر عثمان کو اس کے الفاظ پر یقین آیا تھا۔
وہ اس حادثے کے بعد اس میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ وہ پہلے والا سالار نہیں رہا تھا، اس کی زندگی ہی تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا حلیہ، اس کا انداز، سب کچھ۔۔۔۔۔ اس کے اندر کے شعلے کو جیسے کسی نے پھونک مار کر بجھا دیا تھا۔ صحیح ہوا تھا یا غلط، یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری۔ خود سکندر عثمان بھی اس پر کوئی رائے دینے کے قابل نہیں ہوئے تھے مگر انہیں یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار چوٹ کھائی تھی اور زندگی میں پہلی بار پڑنے والی چوٹ، بڑے بڑوں کو رلا دیتی ہے وہ تو پھر اکیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔
زندگی میں بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم تاریکی سے باہر آئے ہیں یا تاریکی میں داخل ہوئے ہیں۔ اندھیرے میں سمت کا پتا نہیں چلتا مگر آسمان اور زمین کا پتا ضرور چل جاتا ہے بلکہ ہر حال میں چلتا ہے۔ سر اٹھانے پر آسمان ہی ہوتا ہے، سر جھکانے پر زمین ہی ہوتی ہے۔ دکھائی دے نہ دے مگر زندگی میں سفر کرنے کے لئے صرف چار سمتوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دائیں ،بائیں ، آگے ، پیچھے۔ پانچویں سمت پیروں کے نیچے ہوتی ہے۔ وہاں زمین نہ ہو تو پاتال آ جاتا ہے۔ پاتال میں پہنچنے کے بعد کسی سمت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چھٹی سمت سر سے اوپر ہوتی ہے۔ وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا۔ وہاں اللہ ہوتا ہے۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والا مگر دل کی ہر دھڑکن، خون کی ہر گردش، ہر آنے جانے والے سانس، حلق سے اترنے والے ہر نوالے کے ساتھ محسوس ہونے والا۔ وہ فوٹوگرافک میموری، وہ 150+ آئی کیو لیول اسے اب عذاب لگ رہا تھا۔وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا۔وہ سب جو وہ کرتا رہا ، وہ کچھ بھی بھلانے کے قابل نہیں تھا۔کوئی اس سے اس کی تکلیف پوچھتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔