منگل، 25 اپریل، 2017

شان اولیاء اللہ

0 comments
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\"بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہاکہ ہمارارب اللہ تعالیٰ ہے اورپھراس پرقائم رہے ان پرفرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرونہ غم کرواورخوش 
رہواس جنت پرجس کاتمہیں وعدہ دیاجاتاہے \"۔
اللہ رب العزت نے انسان کواشرف المخلوقات بنایاہے انسان کوطرح طرح کی نعمتیں عطاکی ہیں جن کاانسان شماربھی نہیں کرسکتاانسانوں اورجنوں کومحض اللہ پاک کی عبادت کے لئے پیداکیاگیاہے تاریخ اسلام پراگرنگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام کومبعوث فرمایاان انبیاء کرام نے اپنے اپنے ادوارمیں مخلوق کی ہدایت کافریضہ بخوبی انجام دیتے رہے 

حضرت محمد مصطفیﷺخاتم النبین ہیں آپﷺکے بعد نبوت کاسلسلہ ختم ہوگیا اس لئے آقاﷺکے بعدامت کی ہدایت اوررہبری کے لیے اولیاء کرام بھیجے گئے جن کاسلسلہ قیامت تک جاری وساری رہیگا۔اللہ پاک کے وہ مقبول بندے جواس کی ذات وصفات کے عارف ہوں اس کی اطاعت وعبادت کے پابندرہیں گناہوں سے بچیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں اپناقرب خاص عطافرمائے ان کواولیاء اللہ کہتے ہیں ایسے خوش نصیب انسانوں کونہ کسی قسم کاخوف اورنہ کسی قسم کاغم ہوتاہے۔اللہ پاک کے مقبول بندوں سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہرہوتی ہیں مثلاََپانی پرچلنا،بلائیں دفع کرنا،دوردرازکے حالات ان پرمنکشف ہونا،جمادات وحیوانات سے کلام کرناوغیرہ ،اللہ پاک کے مقبول بندوں کی کرامتیں درحقیقت ان انبیاء کے معجزات ہیں جن کے وہ امتی ہیں۔اللہ پاک کے ایسے مقبول بندوں کونہ دنیااورنہ آخرت میں کسی قسم کاخوف اورغم ہے ۔

ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\"سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم وہ جوایمان لائے اورپرہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیاکی زندگی میں اورآخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے \
"(پارہ ۱۱سورۃ یونس آیت ۶۲تا۶۴)

ولی، اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کوکہتے ہیں۔جن کونہ دنیامیں اورنہ آخرت میں کسی قسم کاخوف اورغم ہے۔ مالک الملک کی محبت اطاعت اورخشیت نے انہیں ہرقسم کے خوف اورغم سے آزادکردیاہوتاہے اوروہ مرتبہ ولایت پرفائزہوگئے یعنی اولیاء اللہ بن گئے۔ اولیاء کرام کی محبت درحقیقت دارین کی سعادت اور رضائے الٰہی کاسبب ہے ۔ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مخلوق کی حاجتیں پوری کرتاہے ان کی دعاؤں سے خلق فائدہ اٹھاتی ہے ۔

حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں سرورکون مکان ﷺسے سنا آپﷺ فرماتے ہیں کہ شام میں ابدال ہوں گے جن کی تعدادچالیس ہوگی جب ان سے ایک فوت ہوجائیگاتواللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرامقررفرمادے گاان کے وسیلہ سے بارش ہوگی اورانہی کے طفیل دشمنوں پرفتح حاصل ہوگی اورانہی کی برکت سے اہل شام سے عذاب دورکیاجائیگا۔
(مشکوٰۃ شریف)

اہل لغت نے ولی کے چند معانی بیان فرمائے ہیں۔ ولی کے معنی وارث،قریبی اورمددگارکے ہیں ولیوں کے جماعت وہ مقدس جماعت ہے جنہیں اللہ رب العزت نے دنیاوآخرت کی نعمتوں کاوارث بنادیاہے ولیوں کویہ مرتبہ اورمقام صرف اورصرف نبی کریمﷺکی غلامی ،محبت اطاعت کرنے کی وجہ سے ملاہے ۔ شاعرمشرق علامہ اقبالؒ نے کیاخوب کہا۔

کی محمدسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں 

ارشادباری تعالیٰ ہے \"بے شک ہم نے زبورمیں نصیحت کے بعدلکھ دیاکہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔
(سورۃ الانبیاء پارہ ۱۷)
 اس زمین کی ملکیت اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کودے دی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے \"یہی وہ جنت ہے جس کاوارث اپنے نیک بندوں میں اسے کریں گے جومتقی ہے\"(سورۃ مریم پارہ ۱۶)مزیدارشادہوتاہے \"ہم تمہارے دوست ہیں دنیاوآخرت میں اور تمہارے لئے اس (جنت) میں ہے جوتمہاراجی چاہے اورتمہارے لئے اس میں جوتم مانگو۔
ولی کادوسرامعنی مددگارکے ہیں یعنی مخلوق خداکی امدادکرنیوالے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\"اورایک دوسرے کی نیکی اورتقویٰ پرامدادکرو\" جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے \"مَنْ کُنْتُ مَوْلاَفَعَلِیّ’‘ مَوْلاَ\"جس کامیں مولا( مددگار)ہوں اس کے علی مولا( مددگار)ہیں ۔
ولی کاایک اور معنی قریبی کے ہیں ۔یعنی اولیاء اللہ کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جن کواللہ رب العزت کاقرب اورنزدیکی حاصل ہوتی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا\"اللہ تعالیٰ فرماتاہے 
جومیرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں اورمیرابندہ ایسی کسی چیزکے ذریعے میراقرب نہیں پاتاجومجھے فرائض سے 
زیادہ محبوب ہواورمیرابندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابرمیراقرب حاصل کرتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں اورجب میں اس سے محبت کرتاہوں تومیں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اوراسکی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے اوراس کاہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتاہے اوراس کاپاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتاہے اگرمجھ سے وہ سوال کرتاہے تومیں اسے ضرورعطاکرتاہوں ۔اگروہ میری پناہ مانگتاہے تومیں ضروراسے پناہ دیتاہوں میں نے جوکام کرناہوتاہے اس میں کبھی اس طرح مترودنہیں ہوتاجیسے بندہ مومن کی جان لینے میں ہوتاہوں ۔اسے موت پسندنہیں اورمجھے اس کی تکلیف پسندنہیں \"۔
ولی کاایک اورمعنی مددگارکے ہیں ۔
ایک دن مشکل کشا سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لارہے تھے کہ اونٹوں کی ٹاپ کی آواز نے ایک نابیناسائل کوسرراہ کھڑاکردیا۔جس نے لوگوں سے پوچھاکون آرہاہے اسے بتایاگیاکہ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لارہے ہیں جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سائل کے قریب پہنچے توا س نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں سوال کیاکہ میں بھوکاہوں مجھے کھاناچاہیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوالی کاسوال سناتواپنے غلام کوبلاکرفرمایاکہ سائل کوروٹی دی جائے توغلام نے عرض کیاحضورروٹی توتوشہ دان میں ہے ۔ 
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایااے میرے غلام دیرمت کرسائل کوتوشہ دان دے دیاجائے ۔غلام نے عرض کیاحضور!توشہ دان توکچاوے میں پڑاہے فرمایاپھرایساکرو اس سائل کوکچاواہی دے دو۔غلام نے عرض کیاحضور!وہ کچاواتواونٹ پرہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاسائل کواونٹ کی نکیل(مہار)ہی پکڑادو۔
غلام نے عرض کیاحضور!اونٹ توقطارکے درمیان میں ہے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایااس سائل کواونٹوں کی قطارہی تھمادو۔

\"خبردار!\"سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم 

\"سوال پیداہوتاہے اللہ کے پیاروں کوکس طرح خوف اورغم نہیں۔

ایک مشہور صحابی جس کانام تقریباَہرشخص جانتاہے ان کے بارے میں آتاہے کہ ایک مرتبہ سیدناحضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابچہ بیمارتھا۔سیدناابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکسی کام کے لئے گھرسے جاناپڑاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی گھرواپس نہیں آئے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاننھاسابچہ فوت ہوگیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت رمیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے بچے پرکپڑاڈال دیارات کوجب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرپہنچے توبچے کی خیریت دریافت کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی صابرہ اورشاکرہ بیوی نے بڑے سکون سے عرض کیاکہ آج ہمارے بچے کی حالت پہلے کی حالت سے بہت اچھی ہے اب آرام وسکون میں ہے بیوی نے اپنے سرکے تاج سیدناحضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھاناپیش کیاصحابی رسول ﷺنے کھاناکھایاکھاناکھلانے کے بعدحضرت رمیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے خاوندسے عرض کیااورکہااے میرے سر تاج ہمارے پڑوس والی عورت نے مجھ سے ایک چیزبطور عاریت لی تھی آج میں نے اس سے اپنی چیزکامطالبہ کیاتواس نے روناشروع کردیا۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کرکہاکہ وہ بڑی احمق عورت ہے اسے ادھار لی ہوئی چیزکی واپسی توبڑی خوشدلی سے کرنی چاہیے جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات کی توبیوی نے عرض کیا۔اے میرے سرتاج تیراچھوٹابیٹاجواللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بطورامانت دیاتھاوہ آج اس نے واپس لے لیاہے ۔سیدنا حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کرعرض کیا اِنَّاللہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن\"جب صبح ہوئی تویہ ساراواقعہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ مصطفیﷺ میں عرض کردیاتونبی کریمﷺنے فرمایا گذشتہ رات تمہیں مبارک ہوکہ میں نے تمہاری بیوی کوجنت میں دیکھاہے۔
میرے مسلمان بھائیو!ہم نے دنیامیں جودوست بنارکھے ہیں قیامت کے دن سب کے سب دشمن بن جائیں گے سوائے متقی (لوگوں)کے ،جن کی دوستی قیامت کے دن بھی ہم کوفائدہ دے گی ۔جیساکہ قرآن پاک میں ارشادہوتاہے \"گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہونگے مگر پرہیزگار ان سے فرمایاجائے گااے میرے بندوآج نہ تم پرخوف نہ تم کوغم ہووہ جوہماری آیتوں پرایمان لائے اورمسلمان تھے داخل ہوجنت میں تم اور تمہاری بیبیاں اورتمہاری خاطریں ہوتیں۔ا ن پردورہ ہوگاسونے کے پیالوں اورجاموں کااوراس میں جوجی چاہے اورجس سے آنکھ کولذت پہنچے اورتم اس میں ہمیشہ رہوگے اوریہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث کئے گئے اپنے اعمال سے تمہارے لئے اس میں بہت میوے ہیں کہ ان میں سے کھاؤبیشک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں \"۔(ترجمہ کنزالایمان پارہ ۲۵سورۃ الزخرف آیت ۶۷تا۷۴)سوال پیداہوتاہے کہ دنیاکی دوستی قیامت کے دن دشمنی میں کس طرح بدل جائے گی ۔یہ توہرکسی کومعلوم ہے کہ قیامت کادن نفسہ نفسی کاعالم ہوگاہرکسی کواپنی جان کی پڑی ہوگی انسان کی نیکیاں کم ہوجائیں گی تووہ نیکیاں مانگنے کے لئے اپنے والدین کے پاس جائے گاکہ مجھے کچھ نیکیاں ضرورت ہیں اگرآپ دے دیں تومیری جان چھوٹ جائے گی۔دنیامیں والدین کواپنی اولادسے کتنی محبت ہوتی ہے ۔اولاد دنیا میں جو بھی خواہش کرتی ہے والدین ان کی خواہشیں پوری کرتے ہیں ۔ پرقیامت کے دن والدین بھی نیکیاں دینے سے انکارکردیں گے اسی مایوسی کے عالم میں انسان واپس ہوکراپنے بھائی،بہن اوردوستوں کے پاس جائیگا توان تمام کی طرف سے بھی یہی جواب ملے گا۔کہ دنیاکی دوستی ،دنیاکی محبت بجاآج ہم آپ کوکسی قسم کی نیکی نہیں دے سکتے ۔جن لوگو ں سے ہم دنیامیں محبت کرتے تھے وہ نیکی دینے سے انکاری ہوجائیں گے جب انکاری ہوں گے تودنیاوالی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی پرَقیامت کے دن بھی اللہ کے ولی ،متقی ،دوست ،ہماراساتھ نبھائیں گے۔توہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان سے محبت کریں جن پراللہ پاک اوراسکاحبیب ﷺراضی ہو جن کی محبت قیامت کے دن بھی ہمیں کام آئیے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جونہ انبیاء کرام علہیم الرضوان ہیں نہ شہداء،قیامت کے دن انبیاء کرام علہیم السلام اورشہداء انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ مقام کودیکھ کران پررشک کریں گے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہﷺ!آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں ؟آپﷺ نے فرمایاوہ ایسے لوگ ہیں جن کی ایک دوسرے سے محبت صرف اللہ پاک کی خاطرہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اورمال دین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قسمْ ! ان کے چہرے نورہوں گے اوروہ نور(کے منبروں)پرہوں گے ،انہیں کوئی خوف نہیں ہوگاجب لوگ خوف زدہ ہوں گے ۔انہیں کوئی غم نہیں ہوگاجب لوگ غم زدہ ہوں گے ۔ پھرآپﷺنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔خبرداربے شک اولیاء اللہ پرنہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔(ابوداؤد)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایایقیناًبعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکرکی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کراللہ تعالیٰ یادآجاتاہے ۔(طبرانی،بیہقی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایا۔جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے توحضرت جبرائیل علیہ السلام کوآواز دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کرو۔پس سیدناحضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھرسیدناجبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندادیتے ہیں کہ اللہ پاک فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھرزمین والوں (کے دلوں)میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔(بخاری شریف) علامہ شیخ محمدعبدالباقی ؒ نے اپنی کتاب زرقانی شرح مواہب لدینہ میں حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں ۔بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق میں تین سواولیاء ہیں ان کے دل سیدناحضرت آدم علیہ السلام کے دل پرہیں اورچالیس کے دل سیدناحضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل پراورسات کے دل سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل پراورپانچ کے دل حضرت جبرائیل امین علیہ السلام پراورتین کے دل حضرت میکائل علیہ السلام کے دل پراورایک کاحضرت اسرافیل علیہ السلام پرہے جب ان سے ایک فوت ہوجاتاہے توتین میں سے کوئی اس کاقائم مقام ہوتاہے اورجب ان میں سے کوئی فوت ہوتاہے توپانچ میں سے کوئی اس کاقائم مقام ہوتاہے اورجب ان میں سے کوئی انتقال کرجاتاہے توسات میں سے اس کے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب سات میں سے کسی کاانتقال ہوتاہے توچالیس میں سے کوئی اس کے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب چالیس میں سے کوئی مرتاہے توتین سومیں سے اسکے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب تین سوسے کوئی فوت ہوجائے توعوام سے لیاجاتاہے انہیں سے حیات وموت ،بارش کابرسنا،نباتات کااُگنابلاؤں کادفع ہونااس امت کاہواکرتاہے ۔حدیث مبارکہ سے ثابت ہواکہ تین سوچھپن اولیا ء اللہ ہیں جواس نطام کوچلاتے ہیں ۔
حضرت عمروبن حمق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیم ﷺنے فرمایابندہ اس وقت تک ایمان کی حقیت کونہیں پاسکتاجب تک وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہی (کسی سے)ناراض اوراللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے )راضی نہ ہو(یعنی اس کی رضا کامرکزومحورفقط ذات الٰہی ہوجائے )اورجب اس نے یہ کام کرلیاتواس نے ایمان کی حقیقت کوپالیااوربے شک میرے احباب واولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرے ذکر سے ان کی یادآجاتی ہے اوران کے ذکرسے میری یادآجاتی ہے (یعنی میراذکران کاذکرہے اوران کاذکرمیراذکر ہے ) (طبرانی)
مشارق الانوارمیں ہے ابن جوزی ؒ کہتے ہیں کہ شریعت محمدیہ ﷺکاعلم سیکھنے کے لئے حضرت خضرعلیہ السلام ہرروزصبح کے وقت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی مجلس میں آیاکرتے تھے جب آپ کاوصال ہوگیاتوحضرت خضرعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ امام ابوحنیفہ کی روح کوان کے جسم میں لوٹادے تاکہ میں علم فقہ ان سے مکمل کرسکوں چنانچہ حضرت خضرعلیہ السلام اپنی عادت کے مطابق ہرروزصبح کے وقت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی قبرپرآکران سے فقہ اورشریعت کے مسائل سناکرتے تھے ۔یہ توایک ولی کامقام ومرتبہ ہے۔ ہم شہیدکے مقام ومرتبہ کونہیں جان سکے کیونکہ ہم کوان کی زندگی کاشعورنہیں۔ انبیاء کرام علہیم الرضوان کامقام مرتبہ کیاہوگا۔یہ تواللہ پاک ہی جانتاہے۔اللہ پاک ہم کواپنی اوراپنے محبوب ﷺکی محبت نصیب فرمائے تاکہ ہم کامیاب ہوجائیں ۔کسی نے کیاخوب ہی کہا
یہ شان ہے خدمتگاروں کی۔۔۔۔۔سردارکاعالم کیاہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایااللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جوانبیاء نہیں لیکن انبیاء کرام اورشہداء بھی ان پررشک کریں گے۔عرض کیاگیایارسول اللہﷺ!وہ کون لوگ ہیں (ہمیں ان کی صفات بتائیں )؟تاکہ ہم بھی ان سے محبت کریں آپﷺ نے فرمایاوہ ایسے بندے ہیں جوآپس میں بغیرکسی قرابت داری اورواسط کے محض اللہ تعالیٰ کی خاطرمحبت کرتے ہیں ان کے چہرے پرنورہوں گے اوروہ نورکے منبروں پرجلوہ افروزہوں گے انہیں کوئی خوف نہیں ہوگاجب لوگ خوفزدہ ہوں گے اورانہیں کوئی غم نہیں ہوگاجب لوگ غمزدہ ہوں گے پھر آپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی\"خبردار!بے شک اولیاء اللہ پرنہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔(ابن حبان،بیہقی فی شعب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایاجب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے توحضرت جبرائیل علیہ السلام کوآوازدیتاہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس حضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھرحضرت جبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندادیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھرزمین والوں (کے دلوں )میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے (متفق علیہ)۔ولی اللہ کاپرہیزگاربندہ ہوتاہے ولی کی پہچان بھی یہی ہے کہ جب انسان اس کودیکھے تواللہ پاک یادآجائے ۔حضرت اسماء بن یزیدرضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی کریمﷺکویہ فرماتے ہوئے سناکیامیں تمہیں تم میں سب سے بہترلوگوں کے بارے میں خبرنہ دوں؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہﷺکیوں نہیں!آپﷺنے فرمایاتم میں سے بہتروہ لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھاجائے تواللہ تعالیٰ کی یاد آجائے۔(ابن ماجہ،احمدبن حنبل)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺسے اولیاء اللہ کے متعلق پوچھاگیاتوآپﷺنے فرمایاوہ لوگ(اولیاء اللہ ہیں )جنہیں دیکھنے سے اللہ یادآجائے ۔(نسائی)
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:بے شک معمولی دکھاوابھی شرک ہے اور جس نے اولیاء اللہ سے دشمنی کی تواس نے اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کیا ،بے شک اللہ تعالیٰ ان نیک متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جوچھپے رہتے ہیں،اگر وہ غائب ہو جا ئیں تو انہیں تلاش نہیں کیاجاتا اور اگروہ مو جود ہوں توانہیں(کسی بھی مجلس میںیا کام کے لئے) بلایانہیں جاتا اور نہ ہی انہیں پہچانا جاتا ہے ،ان کے دل ہد ایت کے چراغ ہیں ایسے لوگ ہرطرح کی آزمائش اور تار یک فتنے سے (بخیر و عافیت ) نکل جاتے ہیں۔(ابن ماجہ،الحاکم فی المستدرک)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ عرض کیا گیا :یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون لوگ ہیں ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہم نشین جس کا دیکھنا تمہیں اللہ تعا لیٰ کی یاد دلائے اور جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔
کرامات اولیا ء، صالحین
حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندرمیں ایک کشی پرسوارہواوہ کشتی ٹوٹ گئی تومیں اس کے ایک تختے پرسوارہوگیااس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیاجوشیرکی کچھارتھی ۔وہی ہواجس کاڈرتھاکہ (اچانک)وہ شیرسامنے تھامیں نے کہااے ابوالحارث (شیر)!میں رسول اللہﷺ کاغلام ہوں تواس نے فوراََ اپناسرخم کردیااوراپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااوروہ اس وقت تک مجھے اشارہ اوررہنمائی کرتارہاجب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیاپھرجب اس نے مجھے صحیح راہ پرڈال دیاتووہ دھیمی آوازمیں غرغرایاسومیں سمجھ گیاکہ وہ مجھے الوداع کہہ رہاہے ۔ 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرمﷺکے کسی صحابی نے ایک قبرپرخیمہ لگایا۔انہیں معلوم نہ تھاکہ یہ قبرہے اچانک پتہ چلاکہ یہ قبرہے اوراسکے اندرکوئی آدمی سورۃ الملک پڑھ رہاہے ۔یہاں تک (اس صحابی نے سناکہ)اس پڑھنے والے نے (قبرکے اندر)مکمل سورۃ الملک پڑھی یہ سن کروہ صحابی حضورنبی اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیایارسول اللہ ﷺمیں نے (نادانستہ) ایک قبرپرخیمہ لگایااورمجھے یہ خیال نہیں تھاکہ یہ قبرہے اچانک سناکہ ایک آدمی قبرمیں سورۃ الملک پڑھ رہاہے یہاں تک کہ میں نے سنااس نے مکمل سورۃ الملک پڑھی حضورنبی اکرمﷺنے فرمایایہ سورۃ الملک عذاب قبرکوروکنے والی ہے اورعذاب قبرسے نجات دینے والی ہے۔
بہتجہ الاسرار میں ہے کہ ایک مر تبہ شہنشاہ بغدادحضورغوث اعظمرضی اللہ تعا لیٰ عنہ کہیں جنگل میں تشریف لے جا ر ہے تھے اچانک آسمان پر بادل کا ٹکڑا نظر آیا وہ بادل سر کے قریب آتا گیا ۔جب کافی قریب آگیا تو اس سے آواز آئی۔ اے عبدالقادر!میں تیرا خدا ہُوں ،میں نے تجھے قبول کر لیا ہے لہذا!اب تجھے عبادت و ریا ضت کی کو ئی ضرورت نہیں میں نے تیری سب عبا د تیں قبول کر لی ہیں ۔یہ لفظ سُن کر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لاحول ولاقُوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم پڑھا بادل پھٹ گیا اور آواز آئی ۔اے عبدالقادر !میں ابلیس ہُوں، تجھے تیرے علم نے بچا لیا ورنہ میں اس مرتبہ پر پہنچے ہُوئے ستر غوثوں کو اسی حربے سے گمراہ کر چکا ہوں اے عبدالقادر!تجھے تیرے علم نے بچا لیا ہے حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاظالم!اب بھی دھوکا دینا چاہتاہے کہ میں علم پرفخرکروں غلط ہے مجھے میرے علم کے علاوہ اللہ پاک کے فضل نے بچایاہے۔
ڈاکٹرعلامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ شاہ بُوعلی قلندرؒ کے ایک مریدکوشہرکے گورنرنے بلاوجہ سزادی اس مریدنے حضرت شاہ بوعلی قلندرؒ کی خدمت میں شکایت کی آپؒ نے ہندوستان کے شہنشاہ کوخط لکھاجس کاترجمہ علامہ اقبال ؒ یوں بیان کرتے ہیں۔
بازگیرایں عاملِ بدگوہرے۔۔۔۔۔ورنہ بخشم ملکِ توبادیگرے
اس گورنرکوقرارواقعی سزادی جائے اس نے میرے مریدکوبلاوجہ ماراہے اگرتونے سزانہ دی توتیراملک کسی اورکوبخش دونگا۔
ایک امریکن پادری گولڑہ شریف آیااورمجلس میں داخل ہوتے ہی سوال پیش کیاکہ مسلمانوں کادعویٰ ہے کہ قرآن شریف میں ہرچیزکاذکرموجود ہے حالانکہ ز حضرت امام حسین علیہ السلام جن کی زندگی میں قرآن چھ برس تک نازل ہوتارہاان کانام تک قرآن میں موجودنہیں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسلام کے لئے بڑی قربانی دی ہے ایسے خادم اسلام کاذکرتوقرآن میں ضرورہوناچاہیے تھا۔تاجدارگولڑہ حضرت پیرمہرعلی شاہ صاحب ؒ نے دریافت فرمایاکہ پادری صاحب کیاآپ نے قرآن پاک پڑھاہے؟کہنے لگامیں نے قرآن پڑھاہے اوراس وقت بھی میری جیب میں موجود ہے فرمائیے کہاں سے پڑھوں؟آپؒ نے اپنے علماء کی طرف دیکھااورمسکراکرفرمایاسبحان اللہ!پادری صاحب کوبھی قرآن دانی کادعویٰ ہے یہاں عمرگزری ہے اس دشت کی سیاہی میں مگراس دعوے کی مجال نہیں پھرپادری سے مخاطب ہوکرفرمایااچھاپادری صاحب قرآن پڑھیے کہیں سے قرآن پڑھ دیجیے و ہ مؤدب ہوکر بیٹھ گیااورعربی لہجے میں ترتیل سے پڑھنے لگااعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمان الرحیم قبلہ عالم قدس سرہ نے اشارے سے روک کرفرمایاکہ بس اعوذ توقرآن کاحصہ نہیں بسم اللہ الرحمان الرحیم ہے اوربقاعدہ ابجداکے عدد۷۸۶ہیں اب ذرالکھیے ۔امام حسین عددہیں ۲۱۰سن پیدائش ۴ہجری سن شہادت۶۱ہجری کرب و بلا۲۶۱امام حسن علیہ السلام ۲۲۰سن شہادت ۹۵میران ۷۶۸۔تاجدارگولڑہ حضرت پیرمہرعلی صاحبؒ نے فرمایاپادری صاحب قرآن مجیدکی جوپہلی آیت آپ نے پڑھی اس میں ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام ،سن پیدائش،سن شہادت مقام شہادت ان کے بھائی صاحب کانام اورسن شہادت اوردونوں بھائیوں کے نام امام ہونے کاثبوت موجودہ ہے آگے چلے توشایدان کی زندگی کے کئی واقعات بھی مل جائیں اس پراس امریکی پادری نے کہاعربوں کے علم ہندسہ اورجعفروغیرہ کاذکرمستشرقین یورپ کی کتابوں میں میری نظرسے گزراہے لیکن یہ معلوم نہ تھاکہ مسلمانوں نے ان علوم کے اندراتنی گہری ریسرچ(تحقیق )کی ہوئی ہے حضرت قبلہ عالم قدس سرہ‘نے فرمایاجب مسلمان کہتاہے کہ قرآن شریف کے اندرہرچیزکاذکر موجودہے تواس بات کاایک ظاہری مفہوم جوہوتاہے یہ ہوتاہے کہ ہراس چیزکاذکرموجودہے جومذہب حقہ اسلام کی ضروریات میں داخل ہے لیکن یہ کہنابھی غلط نہیں کہ ہروہ چیزجس سے اسلام کاذراسااوردورکاتعلق ہے قرآن مجیدمیں بیان فرمادی گئی ہے ۔ایسی چیزوں کے لئے اس یک جلدکتاب کے اندراظہارمعانی کے طریقے لامحال متعددمتصورہوں گیاآپ کو اُستاد نے بتایا ہو گا کہ حُروف مقطعات کے اندر معانی اور مطالب کا ایک جہان پوشیدہ ہے ۔اسی قسم کی کیفیت دیگر حروف و الفاظ قرآنی کی بھی ہے ا گر چہ ان معانی پر انسان اپنی کو شش اور تحقیق سے پُوری طرح مُطلع نہیں ہو سکتا ۔ قرآن مجید کے با طنی ر موز اور معانی پر اطلاع تحقیق اور تفتیش سے زیادہ خدائے تعالیٰ کے فضل اور انسان کے نیک عمل پر مو قو ف ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حا جت ان اسرار پر مطلع فرما دیتا ہے سبحا ن اللہ اسلام کے اسی درخشندہ ما ہتاب اور اسی زندہ جا وید شہید حضرت امام حسین علیہ السلام کے والد گرامی باب علم سیدنا مولا ئے علی کرم اللہ وجہ الکریم نے فرمایا تھا کہ میں سُورۃ فا تحہ کی تفسیر لکھنے بیٹھوں تو کئی ضنیم جلدوں میں ایک دفتر تیار ہو جا ئے ۔ 
اللہ اللہ با ئے بسم اللہ پدر۔۔۔۔۔معنئی ذبح عظیم آمد پسر 
حضرت بابوجی مدظلہ العالی ایک کتابی واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مر تبہ حضرت شیخ اکبری محی الدین ابن عربی سواری سے گر پڑے اور اٹھ کر کچھ دیر اسے پکڑے ہوئے آنکھیں بند کر کھڑے رہے خادم نے پوچھاحضرت چوٹ تونہیں آئی؟فرمایانہیں چوٹ نہیں آئی میں غورکررہاتھاکہ اس وقت میرے سواری سے گرنے کاذکرقرآن مجیدمیں کہاں آیاہے چنانچہ اب معلوم ہوگیاہے کہ کہاں موجودتھا۔
حضرت محمدبن حنیف شیرازی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ میں بغدادمیں پہنچااورچالیس روزتک نہ کچھ کھایانہ پیاپھرایک دن پیاس لگی توڈول اوررسی پکڑی اورایک کنویں پرجاپہنچادیکھاتوایک ہرن پانی پی رہاتھااورکنویں کاپانی کناروں تک پہنچاہواتھا۔میں جب قریب گیاتوہرن واپس چلاگیامیں نے پانی پینے کاارادہ کیاتوپانی تہہ میں چلاگیامیں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی ۔یااللہ!کیامیں اس ہرن سے بھی کم مرتبہ رکھتاہوں ؟ہرن آیاتوپانی کناروں تک آگیااورجب میں پہنچاتوپانی نیچے تہہ تک پہنچ چکاتھا۔آوازآئی ہرن ڈول اوررسی کے بغیرآیاتھااورتونے ڈول اوررسی پربھروسہ کیاآپؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ڈول اوررسی فوراََ پھینک دی اورتوبہ کی پھردیکھاتوپانی اوپرآگیامیں نے پیٹ بھرکرپیاواپس آکرحضرت جنیدؒ کی خدمت میں حاضرہواتاکہ یہ واقعہ سناؤں مگرآپ نے میرے عرض کرنے سے پہلے ہی فرمادیاشیرازی !اگرتوتھوڑی دیراورٹھہرتاتوپانی تیرے قدموں کے نیچے جوش مارتاتوچلتاتو تیرے پیچھے چلتامعلوم ہواک جنیدبغدادی کی نظرسے کنویں کاواقعہ پوشیدہ نہیں تھا۔اللہ پاک سے دعاکرتاہوں کہ اللہ پاک ہم کوصراطِ مستقیم کے راستے پرچلنے کی توفیق عطافرمائے بروزقیامت آقاﷺکی شفاعت نصیب فرمائے آمین ،

پیر، 24 اپریل، 2017

کافر کون َ؟؟؟

0 comments
آج کل ہمارے ہاں یہ رواج عام پا رہا ہے کہ جب بھی جس کا دل چاہتا ہے وہ کسی کو بھی کافر بنا دیتا ہے۔ کسی کو بھی مشرک بدعتی بنا جاتا ہے کسی کو بھی وہ اٹھ منافق اور گستاخ رسولؐ بنا دیتا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے آپ جس کے ساتھ دشمی ہو جس کسی کے ساتھ بھی کوئی چھوٹا سا اختلاف ہو اگر آپ کسی بندے کو قتل کرنا چاہیں تو اس کے قتل قانونی جواز بنانے کے طور پر اسے کافر مشرک بدعتی اورگستاخ رسولؐ بنا کر قتل کر دیں۔ (جیسا کہ حالیہ دنون مردان یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو قتل کیا۔ پچھلے دنوں عیسائیوں کی بستی کو جلا دیا گیا)۔ گستاخ رسولؐ بنا کر واجب القتل کرنے کی یہی دلیل کافی ہے کہ آرام سے کہہ دیا جائے کہ یہ کستاخ رسول ہے۔ مگر اس کے برعکس کسی کو دائرہ دین سے نکالنے کے دلیل چاہیئے ہوتی ہے۔ اس کیلئے آپ کے پاس قرآن اور حدیث ہے لہذا جو جو آیات اور کفار کی سرزنش کیلئے آئیں۔ انہیں اٹھا کر آپ کسی پر بھی تھونپ کر اسے دائرہ دین سے خارج کر دو۔ پھر مرتد کے قتل کا جواز قرآن میں موجود ہے لہذا اب آپ اسے آسانی سے قتل کر سکتے ہیں۔ اور جو فقہ یا فرقہ آپ سے مطابقت نہ رکھے اور آپ کے پاس اس کو کافر بنانے کا جواز قرآن و حدیث سے میسر نہ آ رہا ہو۔ آپ اس فقہ کے یا فرقے کے فروعی مسائل کو جواز بنا کر اس کو کافر بنا دیں پھر ان مسلمانوں کے خلاف جہاد فرض کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جیسا کہ لشکر جھنگوی نے شیعہ کو کافر کہا جب ان کے اس فتوے کو کسی نے نہیں مانا تو انہوں نے ناماننے والوں کو کافر اور واجب القتل قرار دیا۔ اس بنا پر اس کالعدم لشکر جھنگوں نے پاکستان کے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لے لیں۔ یہیں سے طالبان کئ تحریک ایڈوپٹ ہوئی۔ ن کا پہلئ پہل بنیادی مقصد ملک کے حکمران طبقہ سے انتقام تھا۔ جب وہ اس انتقام کی آگ میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے لگے تو ان ہی کے ساتھی اس وحشیانہ قتل عام کا ان سے جواز طلب کرنے لگے۔ جس کے نتیجہ میں انہیں اپنے لوگوں کو مطمئین کرنے کیلئے قرآن و حدیث سے جواز مہیا کرنے پڑے جو انہوں نے کافروں پر نازل ہونے والی آیت اور حدیث کو مسلمانوں پر فٹ کر کے گھڑے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔ گو کہ ان کے اس جوازات کے جواب ہر کسی کے پاس ہیں مگر یہاں بات طالبان اور ان سے متاثر زدہ لوگوں کی فکر کی ہو رہی تو ان یہ جوازت پڑھئے۔
1.جو کسی ولی کے مزار پر جاتا ہے وہ کافر ہے۔ کیوں کافر ہے کہ کفار بتوں کے پاس حاجتیں لے کر جاتے تھے اور یہ ولویوں کے پاس جاتے ہیں لہذا یہ کافر ہیں۔
2.جو میلاد منائے وہ کافر ہے۔ کیوں کافر ہے کیونکہ یہ عمل صحابہ نے نہیں کیا۔
جو ولیوں کو غوث کہے، قطب کہے، داتا کہے، غریب نواز کہے، مجدد کہے، وہ کافر ہے۔
3. جو یاعلی مدد کا نعرہ لگائے وہ کافر ہے۔
4. جو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے وہ کافر ہے۔
5. جو پیروں کے پاس جائے وہ بھی کافر ہے۔
6. جو سائینس کا علم حاصل کرے وہ کافر ہے کیوں کافر ہے کیونکہ صحابہ کرام نے سائنس نہیں پڑھی تھی تم پڑھتے ہو اس لیے کافر ہو۔ (علامہ اقبال نے اپنی کتاب "تجدید و احیائے دین" میں کہا کہ قرآں پاک کی ایک ہزار سے زائد آیت ہمیں سائنسی علم حاصل کرنے پر اکساتی ہیں۔)
7. جو پنٹ شرٹ پہنتا ہے وہ کافر ہے۔ (اس پر پنجاب کے ایک عالم کا فتوی ہے کہ نہ پینٹ پہننے والے کی نماز ہوتی ہے اور نہ اس کے پیچھے والے فرد کی ہوتی ہے)
8. جو سکول جائے وہ بھی کافر۔ (پشاور اٹیک)
9. جو ہماری آئیڈیالوجی کو نہ مانے وہ بھی کافر۔
10. قائداعظم کو چونکہ وہ شیعہ سمجھتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک وہ پاکستان کے خلاف جنگ لڑ کر پاکستان کو فتح کریں گے۔ پاک فوج کے نوجوان جو ان کے خلاف لڑیں وہ ان کے اور ان کے حواری مولویوں کے نزدیک کافر ہیں اور پاک فوج کے خیر خواہ سارے کے سارے کافر ہیں۔ اور اس کے جواز کے طور پر وہ غزوہ ہند کی ساری حدیثیں خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے لاتے ہیں۔
یہ تو وہ جواز تھے جو میرے ناقص دماغ میں تھے آپ نے شوشل میڈیا پر ان خوارجیوں کے اکاؤنٹس دیکھے ہونگے ان سے آپ نے گفت شنید بھی کی ہو گی، لہذا جو جواز ان کی طرف سے آپ کو ملیں وہ کمنٹ کر دیجئے گا۔
اب آگے ہم تفصیل سے کافر کون ہوتا ہے اور کافر کسے کہا جاتا ہے۔ ایک مسلمان کو کافر مشرک کہنا کیسا ہے یہ سب باتیں آگے ہم تفصیل سے ڈسکس کریں گے۔

مقدمہ 

آج کل ایک دوسرے کو کافر کہنے کا رواج عام ہوتا چلا جار ہا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو ، اس میں تو لطف ہی بہت آتا ہے ۔کیونکہ ابلیس نے اس کام کو مسلمانوں کے لیے بڑا خوشنما بنا کر پیش کیا ہے ۔ ویسے تو ہر گناہ والا ہر کام ہی پر لطف ہوتا ہے ، گوکہ آخرت میں اسکا انجام بہت برا نکلتا ہے ، لیکن گناہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ہی اس کی لذت میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے ۔ اور چونکہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دینا گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اسی لیے اس گُناہ ِ پُرلذت کے مرتکب بہت ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ ویسے اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کسی کلمہ پڑھنے والے اور ارکان اسلام وایمان پر عمل کرنے والے شخص کو کافر قرار دینا بسا اوقات دینی وشرعی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اور اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے ، اسکے ظاہری اعمال مسلمانوں والے ہوں لیکن پھر اسکے بعد وہ کوئی ایسا عمل کرے جو کسی مسلمان کو مرتد بنادیتا ہے تو اہل علم مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا اعلان کردیں اور مسلمان حاکم اس مرتد کو قتل کر دے تاکہ یہ گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ نہ کردے ۔ اور ماضی میں اس شرعی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اسلام دشمنوں کو کافر قرار دیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کفر کی ترویج شروع کر دی تھی ۔
 ماضی قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کی بہترین مثال ہے ۔ کہ مولانا محمد حسین بٹالوی  نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا فتوى دیا ، پھر انکے بعد برصغیر کے دیگر علماء کرام نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کردار کو پرکھ کر اس پر کفر کا فتوى لگایا ۔ اور یہ عین اسلام ضروریات میں ہے ، کہ ایسے ظالم شخص پر کفر کا فتوى لگا کر عوام الناس کے سامنے اسکا کفر واضح کیا جائے ۔ لیکن بہر حال جیسا کہ مثل مشہور ہے "جس کا کام اسی کو ساجے ... اور کرے تو ٹھینگا باجے" یہ کام ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا نہیں ہے کہ ہر گاما، ما جا ، شِیدا جو چاہے اٹھے اور کفر کفر کی توپ چلانا شروع کر دے ۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے اور صرف یہ نہیں کہ عوام الناس یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ یہ تو چھوٹے موٹے مولویوں کا کام بھی نہیں ہے ۔
یہ ایسے کبار علماء کا فریضہ ہے جو راسخ فی العلم یعنی علم میں پختہ ہوں ، اور علماء بھی عوام الناس میں عالم دین مشہور ہونے کے باوجود ان کی طرف رجوع کرتے ہوں ، ان سے سیکھتے ہوں ، اور مسائل کا حل دریافت کرتے ہوں ، ایسے ہی لوگوں کو عرف عام میں استاذ العلماء (یعنی علماء کا استاد) یا استاذ الاساتذہ (یعنی استادوں کا استاد)کہا جاتا ہے ۔ الغرض یہ فریضہ جتنا بڑا ، اور معاملہ جتنا حساس ہے ، اسے سرانجام دینے کے لیے بھی اتنے بڑے علم وفضل کے حاملین اور حکمت ودانائی کے پیکر درکار ہیں ۔ اور یہ صرف اسی مسئلہ کی بات نہیں ہے بلکہ دنیا کا ہر کام اسی اصول پر ہی چلتا ہے۔ 
کسی بھی ملک کی عوام اقتدار کسی مجنون اور دیوانے کے سپرد نہیں کرتی ، بلکہ کسی صاحب علم ودانش کو اپنا حاکم بناتی ہے ۔ کیونکہ نظام حکومت کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ایسے ہی تقریبا ہر معاملہ میں لیڈر اور رہنما صرف اسے ہی تسلیم کیا جاتا ہے جس میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ وگرنہ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے جو اپنی سیادت وقیادت کسی نا اہل شخص کے سپرد کردے ۔ اور ایک عرب شاعر نے تو کیا خوب کہا ہے :
 إذا کان الغراب دِلِّیل قوم
 سیہدیہم طریق الہالکین 
یعنی جب کسی قوم کا راہنما کوا بن جائے ، تو وہ انہیں ہلاکت کی راہوں پر ہی گامزن کرے گا ۔ الغرض 
"لِکلِّ فنٍ رِجالٌ"
 یعنی ہر فن کے لیے کوئی نہ کوئی ماہرین ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی مسئلہ تکفیر کے لیے بھی ماہرین ِ فن کی ضرورت ہے ، وگرنہ جیسے قوم کو اگر عطائی حکیموں اور ڈاکٹروں کے پلے ڈال دیا جائے تو پھر قبرستان ہی آباد ہوتےہیں ، ویسے ہی اگر مسئلہ تکفیر کو بھی جاہل وکج فہم فتوى بازوں کے سپرد کر دیا جائے تو وہ ساری قوم کو ہی کافر بنا بیٹھتے ہیں ۔ لہذا یہ مسئلہ انہی لوگوں کے سپرد کرنا ضروری ہے جو اسے اسکے اہل ہیں ۔
 شریعت اسلامیہ نے بہت سے کاموں کو کفریہ کام قرار دیا ہوا ہے ، لیکن اسکے باوجود دین اسلام کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ کرکے یا اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینے سے منع کرتا ہے ، الا کہ اس میں کچھ شرائط پوری ہو جائیں اور اسکے معاملہ کی مکمل طور پر تحقیق کر لی جائے ۔ اس مختصر سے رسالہ میں ہم ان چند قوانین کا ذکر کریں گے کہ جن پر عمل درآمد کرنا اسلام نے کسی بھی شخص کو کافر کہنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ جو شخص ان اصولوں کو مد نظر رکھے بغیر کافر کافر کی گردان کرتا ہے ، اسے تکفیری کہا جاتا ہے ۔
 آج کل بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کوئی زنا کرے تو زانی , شراب پیئے تو شرابی , چور ی کرے تو چور , تو پھر جو کفر کرتا ہے وہ کافر اور جو شرک کرتا ہے وہ مشرک کیوں نہیں ؟ کفر کے مرتکب کو کافر اور شرک کے مرتکب کو مشرک کہنے والوں کو کیوں تکفیری کہا جاتا ہے ۔
 اسکا جواب سیدھا سا ہے کہ زنا کرنے والے کو زانی کہنے کا بھی اصول ہے کہ اسے واضح زنا کرتے ہوئے کم از کم چار افراد اپنی آنکھوں سے دیکھیں , اور وہ چاروں عادل ہوں , اور محض شک نہ ہو بلکہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ میں ایسے داخل ہوتا دیکھیں جیسے سرمچو سرمہ دانی میں داخل ہوتا ہے ۔ تو تب انکی گواہی کو قبول کرکے زنا کرنے والے کو زانی قرار دیا جائے گا ۔ یا زانی خود اعتراف کر لے کہ میں نے زنا کیا ہے , تو بھی اسے زانی قرار دے کر اسکی سزا دی جائے گی ۔ اور اگر ان شرطوں میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو کسی کو زانی کہنے والے کو تہمت کی سزا کے طور پر 80 کوڑے مارے جائیں گے ۔ اسی طرح کسی کو چور قرار دینے کا بھی ضابطہ اور اصول ہے کہ اس پر بھی گواہ موجود ہوں , یا اعتراف ہو ۔ اور اسی طرح باقی تمام تر شرعی احکامات میں اصول وضوابط مقرر شدہ ہیں ۔ 
بالکل اسی طرح جب کوئی شخص کفر یا شرک کا ا رتکاب کرتا ہے تو اسے بھی کافر یا مشرک قرار دینے کا شریعت نے ایک ضابطہ مقرر کیا ہے ۔ اور جو اسکا لحاظ کیے بغیر کسی کو کافر یا مشرک کہے گا تو اسے بھی "تکفیری" ہی کہا جائے گا ! اور وہ ضابطہ ہم نے اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے ۔ اسے ضوابط تکفیر یا موانع تکفیر یا شروط تکفیر کہا جاتا ہے ۔ ان قوانین کا لحاظ رکھ کر اگر کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو امت نے کبھی اسے رد نہیں کیا , اور نہ ہی ایسا کرنے والے کو کسی نے آج تک تکفیری قررا دیا ہے ۔ یاد رہے کہ اس رسالہ سے یہ ہر گز مقصود نہیں ہے کہ اسے پڑھ کر ہر شخص لوگوں کو کافر بنانے کی مشق شروع کر دے ، بلکہ مقصود صرف اور صرف اس معاملہ کے بارہ میں وضاحت کرنا ہے کہ یہ کام کن کن مراحل سے گزرنے کے بعد سر انجام دیا جاتا ہے ۔ تاکہ ذی شعور لوگ اسے پڑھتے ہی فورا سمجھ جائیں کہ یہ کام انکی دسترس سے بالا تر ہے ۔ اور اسے ان لوگوں کے ہی سپرد کریں جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں ۔
 محمد رفیق طاہر
 شعبان ۱۴۳۴ھ

تکفیر کی اقسام 

کسی کو کافر قرار دینے کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کسی گروہ یا شخص کا نام لے کر اسے کافر قرار دینا ، اسے تکفیر مُعَیَّن کہا جاتا ہے ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ کسی کام کو کفریہ قرار دینا ، یعنی یوں کہنا کہ جس نے بھی فلاں کام کیا وہ کافر ہے ، اسے تکفیر مُطلَق کہا جاتا ہے ۔ یعنی تکفیر مطلق کسی خاص کفریہ فعل کی بناء پر ہوتی ہے ۔ لیکن اس خاص فعل کا مرتکب خاص شخص اس وقت تک کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس میں تکفیر کی شرطیں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔ لہذا تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۔

 تکفیر مطلق

 : کسی بھی فعل کو کتاب وسنت میں کفر قرار ديا گیا ہو تو اس کے بارہ میں کہنا جس نے بھی یہ کام کیا وہ کافر ہے ۔ تکفیر مطلق کہلاتا ہے ۔ مثلا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی یا نبی آخر الزماں ﷺ ، یا ارکان اسلام وایمان کا انکار کرنے سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لہذا ہم کہیں گے کہ جس نے بھی شرک کیا اسکا اسلام ختم ہوگیا اور جس نے بھی اللہ کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔ اور اسے تکفیر مطلق کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ایسی تکفیر کی صورت میں جن افراد پر یہ تکفیر صادق آتی ہے ان سے کفار والا معاملہ نہیں کیا جاتا نہ ہی انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں مرتد قراردینے کے لیے انکی مُعَیَّن تکفیر کی جاتی ہے۔

 تکفیر مُعَیَّن(nominate takfeer )

 تکفیر معین 
یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے کا م کے مرتکب شخص کو نام لے کر کافر قرار دینا جس کام کا کفر یا شرک ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔مثلا : زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا تو یہ کہنا کہ زید کافر ہے اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔ تکفیر معین کے اصول مطلق تکفیر تو قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص کرتا ہے مگر تکفیر معین ایک حساس معاملہ ہے ۔ لیکن بہر حال اسلام میں کسی بھی شخص کی معین تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں : 1۔ علم اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کام کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو اس آدمی کو کفریہ کام کا ارتکاب کرلینے کے باوجود کافر نہیں کہا جائے گا ۔ 

مثلا زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں کہ ایسے کرنے سے انسان مرتد ہو جاتا ہے تو اسے مرتد یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 

"إن اللہ تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان" 
میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔
 (سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043) 

جہالت کی بنا پر، بھول کر، بندہ کام کرلیتا ہے۔ جاہل ہے، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں گے ۔ہم دنیا میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا سکتے۔ جب تک اس کی جہالت رفع نہ ہو۔ بلکہ جہالت کی وجہ سے کفریہ کام سر انجام دینے والے کو تو اللہ تعالی نے معاف فرما دیا تھا ، ملاحظہ فرمائیں :


 عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلَی نَفْسِہِ فَلَمَّا حَضَرَہُ المَوْتُ قَالَ لِبَنِیہِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی، ثُمَّ اطْحَنُونِی، ثُمَّ ذَرُّونِی فِی الرِّیحِ، فَوَاللہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہِ ذَلِکَ، فَأَمَرَ اللہُ الأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِی مَا فِیکِ مِنْہُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ہُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ، فَغَفَرَ لَہُ "


 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی بہت گناہ گارتھا۔ تو جب اسکی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر رکھ بنا دینا اور پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا ، اللہ کی قسم! اگر اللہ نے مجھے جمع کر لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جیسا اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ تو جب وہ فوت ہو گیا تو اسکے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ جوکچھ تیرے اندر ہے اسے جمع کر تو زمین نے اسکی خاک کو جمع کردیا اور وہ اللہ کے حضور پیش ہوا تو اللہ تعالی نے پوچھا: تجھے یہ کام کرنے پر کس نے 
ابھارا تھا ۔ تو وہ کہنے لگا: اے رب! تیرے ڈر نے ہی مجھے اس کام پر مجبور کیا تھا ۔تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا ۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار :3481) 

یعنی اس بیچارے نے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ شاید اللہ کے پاس اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ذروں کو جمع کر کے مجھے دوبارہ کھڑا کر سکے ۔البتہ وہ شخص مؤمن تھا اسے یقین تھا کہ مرنے کے بعد حساب دینا پڑے گا ۔ اللہ تعالی پر اسے یقین تھا ۔ لیکن اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کر بیٹھا کہ اگر میں راکھ ہو جاؤں گا اور میرے ذرات بکھر جائیں گے تو شاید اللہ تعالی کی گرفت سے بچ جاؤں گا ۔ اور اس نے یہ کام صرف اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا تھا ۔ تو اللہ رب العزت نے اسے معاف فرما دیا کہ اس شخص میں جہالت کا عذر تھا ۔

قصد وعمد 

یعنی کوئی بھی شخص جو کفریہ کام کا مرتکب ہوا ہے ، وہ اگر جان بوجھ کر کفر کرے گا توہم اس کا نام لے کر اسے کافر کہیں گے اور اس پر مرتد ہونے کا فتوی لگے گا ۔ اور اگر وہ کفریہ کام اس سے کسی غلطی کی وجہ سے سرزد ہوا ہے تو اسے کافر یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 

"إن اللہ تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان
میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔ 
(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)

 اسی طرح وہ شخص کہ صحراء میں جس کا اونٹ گم ہو گیا اور وہ موت کا انتظار کرتے کرتے سوگیا ، لیکن جونہی آنکھ کھلی تو اس اونٹ سازو سامان سمیت اسکے سامنے کھڑا تھا ، تو انتہائی خوشی کے عالم میں بے ساختہ اسکی زبان سے یہ جملہ نکلا " یا اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں "
(صحیح مسلم : ۲۷۴۷) ۔ )
ظاہراً تو یہ کلمہ کفریہ تھا ، لیکن چونکہ اس نے یہ جملہ جان بوجھ کر نہیں کہا بلکہ بلا اختیار اسکے منہ سے یہ الفاظ نکلے ، لہذا ایسے شخص کی تکفیر کرنا قطعا جائز نہ ہوگا ۔

 اختیار 

تیسری شرط یہ ہے کہ وہ آدمی مختار ہو، یعنی اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کرے، اگر کوئی آدمی اس کو کہتا ہے کہ تو کفریہ کلمہ کہہ، نہیں تو تجھے ابھی قتل کرتا ہوں ۔ تو وہ اس کے جبر ، تشدد وظلم کے ڈر سے کوئی کفریہ کلمہ کہہ دیتا ہے یاکفریہ کام سر انجام دے بیٹھتا ہے تو ایسے آدمی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے : مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِنَ اللہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ 
(النحل : ١٠٦) 
جو آدمی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے( اللہ کو ہرگز یہ گوارا نہیں ہے)۔ہاں وہ بندہ جس کو مجبور کردیا گیا(تو اس آدمی پر کوئی وعید نہیں ہے) لیکن جس نے شرح صدر کے ساتھ ، دل کی خوشی کے ساتھ کفر کیااس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے،اوران کےلئے بہت بڑا عذاب ہے۔

 یعنی اگر جان بوجھ کر ، اپنے اختیا ر کے ساتھ، جبرواکراہ کے بغیر، وہ ایسا کفریہ کلمہ کہتا ہے، یا کفریہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ قابل مؤاخذہ ہے۔ 

.لیکن اگر کسی کے ڈرسے وہ کفریہ کام سرانجام دیتا ہے تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے
 ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا : 
"لا تشرک باللہ شیئا وإن قطعت وحرقت "
 تجھے جلا دیا جائے ، تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں، اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرنا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء ح4034) 

عزیمت پر محمول ہے ، یعنی موت کے خوف سے ، جان بچانے کی غرض سے کفریہ یا شرکیہ کام کرنا پڑتا ہے، کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہنا پڑتا ہے تو آدمی کو رخصت ہے کہ کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہہ سکتا ہے، شرکیہ یا کفریہ کام کرسکتا ہے، لیکن عزیمت یہی ہے کہ بندہ اس وقت بھی کفریہ کلمہ نہ کہے ۔ اور اگر وہ رخصت کو اپنالیتا ہے تو بھی شریعت نے اسکی اجازت دی ہے ۔ اور یہ کوئی مداہنت یا معیوب بات نہیں۔

۔ تأویل (misconception)

 چوتھی شرط یہ ہے کہ جو شخص کفر کا ارتکاب کر رہا ہے وہ مؤول نہ ہو ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ کسی شرعی دلیل کا سہارا لے کر اس کام کو جائز سمجھتا ہو ۔قرآن وحدیث کی غلط تفسیر وتاویل کرکے کسی بھی کفریہ کام کو اپنے لیے جائز سمجھنے والے کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے ۔

 مثلا آج کل بہت سے لوگ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے اور جو بھی غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے وہ مشرک وکافر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر زید نامی شخص غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے تو ہم اسے اسوقت تک کافر قرار نہیں دیں گے جب تک اس پر حجت قائم نہ کر لیں، اس کی تحقیق نہ کر لیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے غلط تاویل وتوجیہہ کرنے والوں کے ایسے کاموں سے درگزر فرمایا ہے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : 
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَہُ أَجْرٌ
( صحیح مسلم : 1716) 
جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرتا ہے ، اگر تو اسکا فیصلہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر اسکا اجتہاد اسے غلطی پر پہنچا دے توبھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔ اور ہمارے یہاں پائے جانے والے بہت سے ایسے افراد جو کفریہ وشرکیہ کام کرتے ہیں وہ اجتہادی خطأ کا شکار ہوتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص کی غلط تاویل وتفسیر کرکے اسے ہی حق سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ یا پھر جہالت و لا علمی کی بناء پر وہ شرک کو شرک ہی نہیں سمجھتے۔ الغرض کسی بھی شخص کی معین تکفیر یعنی اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینا یا کسی جماعت کی معین تکفیر اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک اللہ رب العزۃ کے مقرر کردہ اصول وقوانین کو اپلائی نہ کیا جائے ۔ 

کفر ہونے کا اثبات

 ایسے ہی جس کام کی بناء پر کسی شخص کو کافر قرار دیا جا رہا ہے اس کام کا کفر ہونا بھی شریعت اسلامیہ کے واضح دلائل وبراہین سے ثابت ہو ۔ یہ نہ ہو کہ جس کام کی بناء پر کفر کا فتوى لگایا جار ہا ہے شریعت اسے کفر ہی نہ سمجھتی ہو ۔ اور ہمارے معاشرہ میں اکثر وبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ عمل کا کفریہ ہونا ہی ثابت نہیں ہوتا ، مگر اسکی بناء پر لوگوں کو کافر قرار دیا جار ہا ہوتا ہے ۔
 ایسا ہی کام نبی کریم ﷺ، قرآن مجید فرقان حمید اور اللہ تعالى کی گستاخی کے نام پر بھی کیا جاتا ہے ، کہ بہت سے ایسے افعال واقوال جو کہ شریعت کے میزان میں گستاخی نہیں بنتے ، انکی بناء پر بھی ارض پاک میں جابجا ظلم وبربریت کے بازار گرم کیے جاتے ہیں ، جوشیلے ہمنواؤں کے جلو میں فقیہانِ کج فہم کسی مسلمان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اسےکافر اور گستاخ کہہ کر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ۔ 
لہذا کسی بھی شخص کی تکفیر کے لیے ضروری ہے کہ جس عمل کی بناء پر اسے کافر کہا جار ہا ہے وہ عمل واقعتاً کفر ہو ۔

 تکفیر مسلم کے بھیانک نتائج 

اگر کوئی شخص کسی مسلمان آدمی کو جان بوجھ کر کافر کہہ دے ، تو کہنے والا خود کافر ہو 
جاتا ہے ۔
 (صحیح بخاری ، کتاب الادب ، باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال : ۶۱۰۳) 

کیونکہ یہ معاملہ نہایت ہی سنگین ہے ، کسی بھی شخص کو کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسکی جان ومال وآبرو کچھ بھی محفوظ نہیں رہی یعنی مسلمانوں کے لیے اسے قتل کرنا اور اسکا مال لوٹنا جائز ہو گیا ہے ۔اسی بناء پر آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ پاکستانی حکام ، عدلیہ ، افواج اور پولیس وغیرہ کو کافر کہتے ہیں ، وہ انہیں قتل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اور انکا مال لوٹنے کے لیے اغواء برائے تاوان تو انکا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے 

۔آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ فلاں جگہ بم دھماکہ ہوگیا ، فلاں جگہ خود کش حملہ ہوگیا ، فلاں شخص کوتحریک طالبان نے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا اور اسکی رہائی کے عوض اتنی رقم کا مطالبہ رکھ دیا ہے ۔ یعنی تکفیر کا فتنہ ایسا خطرناک فتنہ ہے جو موجودہ دور کے تمام تر فتنوں سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہے ۔ 

خاتمہ 


کسی خاص شخص کو کافر قرار دینے سے متعلق یہ کچھ اہم بنیادی معلومات تھی جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے ۔ کہ کسی بھی کفریہ کام کے مرتکب شخص کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جاسکتا جب تک مندرجہ بالا شرائط اس میں پوری نہ ہو جائیں ۔ اور یہ کام صرف اور صرف راسخ فی العلم علماء اور قضاۃ کا ہے ، نہ کہ جو چاہے ان شرائط کو خود سے پورا کرلے اور کافر کافر کی گردان کرتا پھرے اور کہے کہ میں نے تو حجت قائم کردی ہے لہذا میرے نزدیک اب یہ شخص کافر ہے ۔ اور جو لوگ ان اصولوں اور قاعدوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں انہیں تکفیری کہا جاتا ہے ۔ اللہ سے دعاء ہے کہ وہ اس مختصر رسالہ کو اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنادے ۔