حضرت خواجہ معین الدین چشتی


حضرت خواجہ معین الدین چشتی

  ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
معاون معلم ضلع پریشد اردو پرائمری اسکول،
نیائے ڈونگری تعلقہ ناند گاؤں، (ناسک)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

تمہید

اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا یہ بے پناہ احسان اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ساری مخلوق میں سب سے افضل اور اشرف بنایا۔ اور ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بندوں کی ہدایت اور رہِ نمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا، تاکہ وہ اس کے بندوں کو کفر و شرک اور گمراہیت و ضلالت کی تاریکی سے نکال کر وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کی بارگاہِ اقدس میں سجدہ ریز کریں اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس کے نبیوں اور رسولوں کی نبوت اور رسالت کو بھی سچے دل سے تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ چاہتا تو اپنے نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجے بغیر بھی لوگوں کو سیدھے راستے پر لاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں کسی کا محتاج نہیں ہے بل کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اسی کا محتاجِ کرم ہے۔ لیکن یہ اس کی مرضی اور مشیت ہے کہ اس کے بندے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر کے حق کی راہ میں مشقتیں جھیلیں تاکہ وہ اپنے فضل اور عطا ے خاص سے انھیں بلند درجات سے نوازے۔
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی بجا آوری کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو عہد بہ عہد مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دروازۂ نبوت و رسالت کو بند کر دیا۔ اب اگر اس کے بندے گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہوں گے تو ان کی ہدایت و رہِ نمائی کے لیے اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ عظیم منصب امتِ محمدیہ کے سپرد کر دیا۔اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے تحفظ و استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں علما، صلحا، صوفیہ اور اولیا کو منتخب فرما کر ان کے مقامات کو بلند فرما دیا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء (علما انبیا کے وارث ہیں ) کا مژدہ سنا کر علما کی عزت بڑھائی۔جہاں علمائے اسلام مدارس میں اپنے درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں گے وہیں اولیا و صوفیہ اپنی خانقاہوں میں بیٹھ کر بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے ان کی طہارتِ نفس اور تزکیۂ باطن کا کام انجام دیں گے۔ یہی وہ دو جماعتیں ہیں جو انسانوں کا رشتہ فانی دنیا سے توڑ کر باقی رہنے والی ذات خدائے وحدہٗ لاشریک سے جوڑتی ہیں۔ ان دونوں کا رتبہ اپنی اپنی جگہ بلند و بالا ہے۔
پوری دنیا میں اولیا و صوفیہ نے اسلام کی ترویج و تبلیغ میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ اہلِ فہم پر روشن ہے۔ تبلیغِ دین کے لیے جہاں بادشاہانِ اسلام اور سپہ سالارانِ اسلام نے اپنی فتوحات کے پرچم بلند کیے وہیں اولیا ے اسلام نے اپنی روحانی توجہات سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کیا۔ سرزمینِ ہندوستان پر جواں سال سپہ سالار محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر سلطان شہاب الدین غوری تک تمام فاتحین کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت تھا۔ ان سلاطین کے حملوں کے دوران ہندوستان میں اولیا و صوفیہ اور علما کے قافلے بھی یکے بعد دیگرے وارد ہوتے رہے اور اسلام کی اشاعت میں مصروف رہے۔ جب ان بادشاہوں کو عروج و اقبال حاصل ہونے لگا تو ان کے اندر دنیا سے محبت، جاہ و منصب اور سیم و زر کی ہوس پیدا ہونے لگی اور ان کی ساری توجہ اپنے ذاتی وقار کی طرف مرکوز ہو گئی، آپسی رسہ کشی اور خانہ جنگی بھی بعض علاقوں میں ہونے لگی۔ لیکن علما و اولیا نے ایسے دور میں دین و مذہب کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور بادشاہوں اور امرا کے دربار سے دوری اختیار کیے رہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کو جتنی تقویت ان اولیا و صوفیہ سے پہنچی و ہ بادشاہانِ زمانہ سے نہیں پہنچی۔یہ انھیں حضرات کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ برِ صغیر ہند و پاک میں آباد مسلمانوں کی تعداد پوری دنیائے اسلام کے مجموعی اعداد کے شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنی طاقت کے بل پر ہندوستان کی زمینوں کو تو فتح کر لیا لیکن اہلِ ہند کے دلوں پر فتح پانے میں وہ بری طرح ناکام ہو گئے۔ یہ کام اولیا و علما نے بہ حسن و خوبی انجام دیا اور اپنے اعلا اَخلاق و کردار اور بے لوث خدمت کے سبب ہندوستانیوں کے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ یہاں کے مقامی راجا اور نواب اپنی رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہے تھے ان علما و اولیا نے اپنی کوششوں سے ان مظلوموں کے دکھ درد کا مداوا کیا اور انھیں سکون و اطمینان کی لذت سے ہم کنار کیا۔ ان بے نفس اور پاک باز ہستیوں کی اخلاص و للہیت سے پر دعوت و تبلیغ کا یہ حسین ثمرہ ہے کہ آج دنیائے اسلام میں ہندوستان اسلامی روحانیت کا ایک بڑا مرکز کہلاتا ہے۔
بادشاہوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار تو ان کی نا اہلی اور آپسی چپقلش کی وجہ سے ختم ہو گیا لیکن علما و اولیا کی سلطانی اور حکم رانی آج بھی قائم و دائم ہے جس کا نظارا ہندوستان بھر میں پھیلے ان بزرگوں کو مزارات اور مقابر پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ بلا لحاظِ مذہب و رنگ و نسل ان حضرات کی مزارات پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ برصغیر میں کفر و شرک کے اندھیروں سے اسلام کی روشنی میں لانے والے مبلغین میں سب سے نمایاں ہستی سلسلۂ چشت کے قد آور بزرگ سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ جن کی برکت سے راجپوتانہ کی سر زمین میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے قدموں کی برکتوں سے ہندوستان پر مسلم حکم رانوں نے اپنی سلطنت قائم کی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے لاکھوں انسانوں نے اسلام کا نورِ یقین حاصل کیا اورسلسلۂ چشتیہ سے منسلک آپ کے بالواسطہ یا بلاواسطہ خلفا و مریدین نے پورے ملکِ ہندوستان میں تبلیغِ اسلام کا وہ کارنامہ انجام دیا جسے تاریخِ اسلام میں  قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پو رے ملک میں جو لوگ ان حضرات کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرتے یہ انھیں تمام گناہوں سے توبہ کراتے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کا عہد لیتے بے حیائی و بد اخلاقی، ظلم و زیادتی اور لوگوں کے حقوق کی پامالی سے دور رہنے کی تلقین کرتے، حسنِ اَخلاق کی ترغیب دیتے اور برے اعمال و افعال بچنے کی تاکید فرماتے۔ ذکرِ الٰہی اور تقوا و پرہیزگاری کا درس دیتے۔ یہ ان ہی پاک باز ہستیوں کی بے لوث اور مخلصانہ تبلیغ کا اثر ہوا کہ ہندوستانی عوام کے دل ان حضرات کی طرف پھِر گئے اور انھوں نے اسلام کی آغوش میں آ جانے میں ہی دونوں جہاں کی نجات تصور کیا۔



سلسلۂ چشتیہ اور سرزمینِ ہند

اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نام ور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔
چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کر لی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔
سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ’’ چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے۔
برصغیر ہند و پاک میں سلسلۂ چشت کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرۂ بیعت و خلافت اس طرح ہے  :
(۱)سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
(۲) حضرت خواجہ عثمان ہارونی
(۳) حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی
(۴) حضرت خواجہ مودود چشتی
(۵)حضرت خواجہ ابویوسف چشتی
(۶) حضرت خواجہ ابو محمد بن ابی احمد چشتی
(۷) حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی
(۸)حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی
(۹) حضرت خواجہ شمشاد علی دینوری
(۱۰) حضرت خواجہ امین الدین ابو ہیبرہ بصری
(۱۱)حضرت خواجہ سدیدالدین حذیفہ مرعشی
(۱۲) حضرت خواجہ ابراہیم ادہم بلخی
(۱۳) حضرت خواجہ ابوالفیض فضیل بن عیاض
(۱۴) حضرت خواجہ ابوالفضل عبد الواحد بن زید
(۱۵)حضرت خواجہ حسن بصری علیہم الرحمۃ
(۱۶)حضر ت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے رکھی گئی مگر ان سے پہلے خانوادۂ چشت کے جو صاحبِ کمال بزرگ ہندوستان تشریف لائے وہ خواجہ ابو محمد چشتی ہیں جس زمانہ میں سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر چڑھائی کی خواجہ ابو محمد چشتی نے خواب میں دیکھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں کہ : ’’اے ابو محمد ! تم کو سلطان مجاہد کی مدد کے لیے جانا چاہیے۔‘‘ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چند درویشوں کے ساتھ سومنات آ گئے اور ستر سال کی عمر میں کفار و مشرکین کے مقابلہ میں شریکِ جہاد ہوئے ایک دن جنگ میں مشرکین غالب آ گئے مسلمانوں نے راہِ فرار اختیار کی خواجہ ابو محمد چشتی نے یہ منظر دیکھا تو اپنے مریدِ خاص خواجہ محمد کاکو کو میدان سے آواز دی اے کاکو آگے بڑھ کاکو نے جھپٹ کر کفار پر حملہ کر دیا اور اتنی بے جگری سے لڑا کہ مشرکین کو پسپا ہونا پڑا اور لشکرِ اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ ( نفحات الانس صفحہ ۵۶۰)



 سوانح حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب اور والدین
سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
پدری سلسلۂ نسب : خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔
مادری سلسلۂ نسب: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت خواجہ غیاث الدین حسن صاحب اپنے علاقہ کے دولت مند اور با اثر بزرگ تھے۔صبر و زہد اور تقویٰ و پرہیزگاری میں بھی آپ بہت ممتاز تھے۔ علمِ ظاہر و باطن سے آراستہ تھے۔ ملکِ سیستان کی تباہی و بربادی کے بعد آپ نے وہاں سے ہجرت کر کے خراسان میں قیام کیا، جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔
آپ کی والدہ ماجدہ بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بھی نہایت بلند کردار خاتون تھیں۔ عبادت و ریاضت اور غربا و مساکین کی امداد و اعانت آپ کے محبوب مشاغل میں سے تھا۔

ولادت اور مقامِ ولادت
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ  باسعات ۵۳۷ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲عیسوی کو سجستان جسے’’ سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں  :
’’ جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میں اچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِ الٰہی سے روشن تھا۔‘‘( مراۃ الاسرار)

قابلِ رشک بچپن
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تقوا و طہارت کے پیکر اور عبادت و ریاضت کے گوہر والدین کی گود میں تربیت پائی تھی۔آپ کی پرورش ایسے والدین نے کی تھی جو خود اپنے زمانے کے نیک اور صالح بزرگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ عام بچوں کی طرح کھیل کود، لہو و لعب اور بچپن کی دیگر عادتوں سے کوسوں دور تھے۔ آپ کی کشادہ پیشانی پر بچپن ہی سے جو انوارِ ربانی عیاں ہوتا تھا وہ اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ آپ ایک غیر معمولی شخصیت بننے والے ہیں اور آپ آگے چل کر فکر و عمل اور تقوا و پرہیزگاری کے روشن مینار ہوں گے جس کی روشنی میں لاکھوں افراد راہِ راست پر آئیں گے۔غرض یہ کہ آپ کا بچپن بھی قابلِ رشک تھا۔
آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ(اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کر لیا۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چڑھتے رہے۔

داغِ یتیمی
جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا۔ والد کا اس طرح داغِ مفارقت دے جانا آپ کے لیے گہرے رنج و غم اور دکھ درد کا باعث بنا، لیکن باہمیت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارانظام بھی خود سنبھالتے، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہو رہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرما لیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کر رہا ہے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی۔

مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے شب و روز گذرتے رہے۔ عالمِ اسلام میں تاتاریوں کے ظلم و ستم کی آندھیاں چلنے لگیں، جس سے پوری امتِ مسلمہ کا امن و سکون درہم برہم ہو گیا۔تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بربادی روزمرہ کے معمول بن گئے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ان ناگفتہ بہ حالات سے بے خبر نہ رہے اور خاموشی کے ساتھ ان بربادیوں اور تباہیوں کا جائزہ لیتے رہے آپ کے نیک اور صالح دل و دماغ پر دنیا کی بے رغبتی نقش ہوتی گئی اور امیروں اور دنیا داروں سے راہ و رسم کی بجائے فقیروں اور درویشوں کی صحبت اور خدمت کا شوق و ذوق پروان چڑھنا شروع ہوا۔ ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لا کر رکھ دیا، خود دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہو کر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کر دیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔روح کی گہرائیوں میں انوارِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہو گئے، دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہو گئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کر لی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیا اور سیر و سیاحت شروع کر دی۔

علمِ شریعت کا حصول
زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کر کے اس میں کمال پیدا کرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی و دینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آ کر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہو گئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کر لی، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں۔

پیرِ کامل کی تلاش
سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیائے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیائے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کر رہی تھی۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا مشاہدہ و تفکر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اور مدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اور علاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی و عرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہو گئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :
’’ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روئے نیاز زمین پر رکھ دیا، حضرت مرشد نے فرمایا: دو رکعت نماز ادا کر، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چار ترکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کر چکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے، روئے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے، عرض کیا عرشِ معلا تک، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہوا کہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک، اب فرمایا آنکھیں بند کر، میں نے بند کر لی، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہو گیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے، فرمایا انھیں لے جا کے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘ (انیس الارواح }ملفوظاتِ خواجہ{صفحہ ۱/ ۲ )
حضرت خواجہ عثمان ہارونی جیسے مرشدِ کامل کی ایک نظر نے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک لمحے میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور آپ کو علمِ طریقت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بنا دیا۔ ایسے مرشدِ کامل اور پیرِ طریقت کے مختصر احوال و کوائف بھی ذیل میں ملاحظہ کرتے چلیں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرشدِ کامل
قطبِ ارشاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ غریب نواز کے مرشدِ کامل قطبِ ارشاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت نیشاپور کے قریب علاقۂ خراسان کے ہارون میں ہوئی۔ تذکرہ نگاروں نے سالِ ولادت میں اختلاف کیا ہے، اکثر مورخین نے آپ کی ولادت کا سن ۵۳۶ ہجری / ۱۱۴۱عیسوی تحریر کیا ہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ کا خاندان بہت زیادہ با عزت اور با عظمت تھا، علم و فضل اور زہد و تقوا کے اعتبار سے آپ کے گھرانے کو بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ آپ کے والد بہت بڑے عالمِ با عمل تھے۔ اس لیے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اور قرآنِ پاک حفظ کیا تلاوت سے آپ کو بے انتہا لگاؤ تھا۔ نیشاپور اس زمانہ میں علم و فضل کا عظیم مرکز تھا اس لیے اعلا تعلیم کے لیے اسی شہر میں قیام کیا، حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر علوم کو شوق و ذوق سے حاصل کیا اور ان علوم میں مہارت پیدا کی۔ جلد ہی آپ کا شمار اس زمانے کے جید اور ممتاز علما میں ہونے لگا۔ علومِ شریعت کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے علومِ طریقت کے حصول کا ارادہ کیا اور راہِ طریقت میں رہِ نمائی کے لیے کسی درویشِ کامل اور پیرِ طریقت کی تلاش شروع کر دی۔ اسی دوران اتفاق سے ایک روز ایک صاحبِ باطن مجذوب سے ملاقات ہو گئی، ان کی نگاہوں نے آپ کے قلب و روح پر وہ اثر ڈالا کہ دل کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ آپ نے دنیا سے رشتہ منقطع کر لیا۔ آرام و راحت ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا اور کسی شیخِ کامل کی جستجو میں اس زمانے کے مشہور و معروف اسلامی شہروں کا رخ کیا اور اولیا و علما سے ملاقاتیں کیں ان سے روحانی فیوض حاصل کیے اور ان کی ہدایات اور پند و نصائح پر عمل کرتے رہے۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے سچے پیر کی سچی طلب کے لیے سرگرداں طالبِ حق کو راستہ دکھا دیا اور آپ کی ملاقات حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی چشتی رحمۃ اللہ علیہ(ولادت ۴۹۲ہجری / ۱۰۹۸عیسوی، وفات ۶۱۲ ہجری / ۱۲۱۵ عیسوی ) سے ہوئی جن کے کشف و کرامات، زہد و تقوا اور استقامت علی الدین کا چرچا اس زمانے میں دو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ جنھیں خواجۂ بزرگ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجۂ بزرگ کی خدمت میں پہنچ کر ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت ہوئے اور ان کی رہبری میں سلوک و معرفت کی منزلیں طَے کرنے لگے۔ جب ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و نفس کشی کرتے ہوئے آپ کی شخصیت کندن بن گئی اور آپ بھی ایک مردِ کامل کی حیثیت اختیار کر گئے تو مرشدِ با صفا نے آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے نواز دیا۔
پیرِ کامل نے جب خلافت سے نوازا تو کلاہِ چار ترکی آپ کے سر پر رکھی اور فرمایا چار تَرکی سے مراد چار ترک، (۱) تَرکِ دنیا، (۲) تَرکِ عقبیٰ یعنی تیرا مقصد ذاتِ الٰہی کے سوا کوئی اور نہ ہو (۳) تَرکِ خورد و خواب(کھانا اور سونا چھوڑنا) مگر سدِ رمق (سانس چلنے کے لیے)اس کی ضرورت ہے (۴) تَرکِ خواہشِ نفس یعنی نفس جس بات کا مطالبہ کرے اس کے خلاف کرو جو یہ چاروں تَرک کرے کلاہِ چار تَرکی پہننے کا مستحق ہے۔(خزینۃ الاصفیاء جلد ۱ صفحہ ۲۵۴)
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پیر و مرشد سے خلافت و اجازت حاصل ہو گئی تو آپ نے اسلامی ممالک کی سیر و سیاحت شروع کی اس دوران کبھی بھی ذکر و فکر، ریاضت و مجاہدہ اور تبلیغِ دین سے غفلت نہیں برتی۔مختلف کتب میں منقول ہے کہ ستر سال تک آپ نے سخت ریاضت و مجاہدہ کیا اور اس عرصہ میں کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور نہ ہی سیر ہو کر کبھی پانی نوش کیا۔

کرامات
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ ولایت کے اس بلند مقام پر فائز تھے کہ آپ کی دعائیں کبھی رد نہ ہوتیں۔ آپ سے بے شمار کرامتیں صادر ہوئیں اور آپ کے درس و تدریس، وعظ و نصیحت اور اصلاح و تذکیر سے ہزاروں بے دینوں اور ملحدوں کو دینِ اسلام کی دولت نصیب ہوئی اور لاکھوں گم کردہ راہ مسلمانوں نے ہدایت پائی۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی تربیت سے بے شمار حضرات کو مرتبۂ ولایت بھی حاصل ہوا۔ آپ کی کرامتوں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
 ٭   حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر ایک دن میں مرشدِ کامل  حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ کے ساتھ ایک ایسے دریا پر پہنچا جس پر نہ تو پُل تھا اور نہ ہی کشتی۔۔۔ حتیٰ کہ دوسری طرف جانے کا کوئی سامان نہیں تھا، مرشدِ بر حق نے مجھ سے فرمایا آنکھ بند کر لو تھوڑی دیر بعد فرمایا آنکھ کھول دو جب میں نے آنکھ کھولی دیکھا کہ ہم دونوں دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہیں یہ پتا بھی نہ چل سکا کہ دریا سے ہمارا گذر کس طرح ہوا۔
 ٭   آپ کی مجلس میں ایک شخص آیا اور کہا کہ چالیس سال سے میرا لڑکا غائب ہے اور اس کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے اس بارے میں توجہ فرمائیں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ میں سر جھکا لیا اور تھوڑی دیر بعد فرمایا تیرا لڑکا مکان پر آ چکا ہے۔جب وہ شخص گھر پہنچا تو لڑکے کو موجود پایا فوراً ہی اپنے لڑکے کو لے کر حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا۔
حاضرین نے اس لڑکے سے ماجرا پوچھا تو اس نے کہا کہ میں ایک جزیرہ میں شیطانوں کی قید میں تھا آج ایک بزرگ جن کی صورت(حضرت کی طرف اشارا کر کے کہا کہ) بالکل حضرت خواجہ کی ہے میرے پاس آئے اور فرمایا اٹھ اور میرے پیر پر پیر رکھ اور آنکھ بند کر لے میں نے ایسا ہی کیا جب آنکھ کھلی تو خود کو اپنے مکان پر پایا۔ (سیر الاولیاء ص ۵۴)
 ٭   ایک مرتبہ ایک مقام پر ستر جاہلوں کی ایک مجلس گرم تھی اور آدھی رات گذر گئی وہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامتوں کا ذکر چھڑ گیا انھوں نے کہا ہم اس وقت خواجہ کے پاس چلیں اور ان کی آزمایش کریں اگر خاطر خواہ کرامت ظاہر ہو گئی تو ہم سب ان کے مرید ہو جائیں گے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے ذہن میں علاحدہ علاحدہ ایسے کھانے کا تصور کیا جو اس وقت میسر آنا مشکل تھا، پھر حضرت کی خانقاہ میں حاضر ہوئے خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ان لوگوں کو دیکھتے ہی فرمایا واللہ یہدی من یشآء الیٰ صراطٍ مستقیم اور ان سب کو اپنے رو بہ رو بٹھایا پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے فوراً ہی ایک دسترخوان غیب سے ظاہر ہوا جس میں ستر مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ حضرت نے ہر ایک کی خواہش کے مطابق جدا جدا کھانے بانٹے۔ جب ان جاہلوں نے آپ کی یہ روشن کرامت دیکھی تو دل و جان سے مرید ہو گئے اور ظاہری و باطنی کمالات سے بہرہ ور ہوئے۔(خزینۃ الاصفیا ص ۲۵۶)
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر کا ایک بڑا حصہ ولایت کی تکمیل، اللہ عز و جل کی بنائی ہوئی کائنات کے مشاہد ہ و مطالعہ اور علمِ شریعت و طریقت کی تحصیل کے لیے سفر میں گذرا اور ان اسفار میں آپ نے اپنے چہیتے اور لاڈلے خلیفہ و شاگرد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ساتھ میں رکھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز کے اجمیر روانہ ہونے سے پہلے سلطان شمس الدین التمش کے عہدِ حکومت میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی دہلی آئے یہاں حضرت خواجہ غریب نواز بھی تھے آپ نے مرشد کی بہت خدمت کی۔ سلطان شمس الدین التمش جس کو بزرگانِ دین سے بے حد محبت تھی اس نے بھی خواجہ ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت زیادہ عزت کی۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے خواجہ غریب نواز کو حکم دیا کہ سلطان شمس الدین التمش کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کتاب لکھو۔ چناں چہ آپ نے ’’گنجِ اسرار ‘‘ نامی کتاب لکھی۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا میں چار بہت مشہور ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ (۱) خواجہ معین الدین چشتی (۲) خواجہ نجم الدین صغرا(۳) خواجہ سعدی (۴) خواجہ محمد ترک علیہم الرحمہ۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ یہ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں مکۂ معظمہ کی خاک میں دفن ہونے کی سعادت عطا کرے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس برگزیدہ بندے کی دعا سُن لی اور آپ کا وفات ۵؍ شوال المکرم۶۱۷ھ / ۱۲۲۰ء کو مکۂ مکرمہ میں ہوا۔ جنت المعلا کے قریب آ پ کو دفن کیا گیا۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوالِ زریں
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کے اقوال پر مبنی ایک کتاب ’’انیس الارواح ‘‘ نام کی حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی۔ اس کتاب میں خواجہ غریب نواز نے اپنے پیر و مرشد کے جو اقوال اور ارشادات جمع کیے ہیں وہ سب قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں۔ ذیل میں چند ایک اقوالِ زریں پیش کیے جاتے ہیں۔
 ٭   افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔
 ٭   نماز اور شریعت کے فرائض کا منکر کافر ہے۔
 ٭   صدقہ دینا ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔
 ٭   خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاسمر قند میں شیخ عبدالواحد سمر قندی سے میں نے سنا ایمان میں کچھ مزہ نہیں تا وقت یہ کہ شب و روز قیام نہ کیا جائے پس جو شخص یہ کام کرتا وہ ایمان کا لطف پاتا ہے۔
 ٭   عالموں کا حسد اچھا نہیں خصوصاً مسلمان کے لیے بعض علما نے فرمایا حسد دل سے نکال دینا چاہیے جب حسد دل سے نکال دیں گے تو جنت میں جائیں گے۔
 ٭   مومن و ہ شخص ہے جو تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے ۔۔۔ (۱) موت (۲) درویشی (۳)دعا۔ جوان تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے فرشتے اسے دوست رکھتے ہیں۔
 ٭   اللہ تعالیٰ اس مومن سے خوش ہوتا ہے جو کسی مومن کی ضرورت کو پورا کرے اس کا مقام بہشت ہے۔
 ٭  جو شخص مومن کی عزت و توقیر کرتا ہے اس کی جگہ بہشت میں ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
 ٭   مومن کو گالی دینا اپنی ماں بہن سے زنا کرنا ہے ایسے شخص کی دعا سو دن تک قبول نہیں ہوتی اگر کوئی اوراد و وظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند آ جائے تو لازم ہے کہ وہ اوراد وظائف کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔
 ٭   خدائے تعالیٰ کے ایسے دوست ہیں کہ وہ دنیا میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غافل ہو جائیں تو ان کی ہستی مٹ جائے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے یہاں درمیان میں آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر تذکرۂ خیر اس لیے کر دیا گیا کہ ہم چلتے چلتے آپ کے پیرِ کامل کے بارے میں بھی سرسری معلومات حاصل کر لیں۔ اب آئیے ہم دوبارہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر کی طرف بڑھتے ہیں۔

حضرت خواجہ کی عبادت و ریاضت اور مجاہدات
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شیخِ کامل نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو عطائے خداوندی سے ایک نظر میں ایسا بلند و بالا مقام عطا فرما دیا جو ایک لمبے عرصہ تک دیگر لوگوں کو عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے بعد بھی نہیں مل پاتا۔

پیر و مرشد سے مرید ہونے کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ڈھائی سال تک  تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کے لیے اپنے آپ کو بہت سخت عبادت و ریاضت اور مجاہدات سے گذارا۔ حضرت خواجہ کے خلیفہ و جانشین حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :
’’خواجۂ بزرگ نے بڑے مجاہدات کیے آپ سات شبانہ روز بعد افطار کرتے اور پانچ مثقال وزن کی روٹی پانی میں بھگو کر تناول فرماتے۔ آپ کا لباس دو چادریں تھیں جن میں پیوند لگے رہتے پیوند لگانے کے لیے جس قسم کا کپڑا مل جاتا اسی سے سی لیتے۔‘‘( مرأۃ الاسرار ص ۹۹۵)
حضرت خواجہ غریب نواز کو اپنے پیر و مرشد سے بے پناہ محبت اور الفت تھی۔ یہی نہیں بل کہ آپ کے پیر و مرشد بھی آپ سے بہت زیادہ انسیت اور مشفقانہ برتاؤ کرتے تھے۔ حضرت خواجہ اپنے مرشد کی خدمت اور ان سے فیض حاصل کرنے میں دوسرے مریدوں کی نسبت زیادہ توجہ دیا کرتے آپ کے مرشدِ گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی جہاں بھی جاتے آپ ان کے ساتھ ساتھ جاتے ان کا بستر، توشہ اور دوسرے ساز و سامان عقیدت سے اپنے سر پر لادے ہوئے چلتے تھے۔ حضرت خواجہ نے مکمل بیس سال تک اپنے مرشدِ گرامی کی خدمت میں بسر کیے۔ اس طویل مدت میں آپ نے دنیا بھر کے مختلف ایسے علاقوں کی سیر و سیاحت بھی کی جو اس زمانے میں اسلامی علوم و فنون کے مرکز اور علما و اولیا اور صوفیہ و مشائخ کے مسکن تھے۔ جن میں سیستان، دمشق، اوش، بدخشاں بغداد، مکۂ معظمہ، مدینۂ منورہ اور دیگر شہر شامل ہیں۔ ان شہروں میں پہنچ کر حضرت خواجہ نے وہاں کے علما و مشائخ سے علوم و فنون کی تحصیل کی اور بہت سارے اللہ کے نیک بندوں اور اولیائے کاملین سے ملاقاتیں بھی کیں۔اس دوران آپ کی سب سے پہلی منزل سنجان تھی جہاں آپ نے حضرت نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ وہاں سے بغداد روانہ ہوئے، جہاں پر کوہِ جودی میں بڑے پیر حضرت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ کے ساتھ پانچ ماہ سات دن ایک ہی حجرے میں رہ کر خوب خوب روحانی و عرفانی علوم و فنون سے بہرہ ور ہوئے۔ وہاں سے فارغ ہو کر حضرت غوث پاک ہی کے ہمراہ جیلان اور بغداد کی سیر و سیاحت کی اور وہاں کے بڑے بڑے بزرگوں اور صالحین سے ملاقات اور فیض حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے نیک اور پاک باز بندوں سے ملاقات کے دوران بہت سارے عجیب و غریب اور سبق آموز واقعات رونما ہوئے۔ جن میں سے چند ایک ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں، جنھیں خود حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی بیان فرمائے ہیں۔
 ٭  ___  ایک بار میں اور حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی کرمان کی سیر کر رہے تھے، وہاں ہم نے ایک بوڑھے درویش کو دیکھا جو بہت زیادہ بزرگ اور اللہ عز و جل کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا، معلوم ہوا کہ گویا اس کے جسم میں گوشت اور ہڈیوں کا نام و نشان نہیں ہے بل کہ صرف روح ہی روح ہے۔ وہ بزرگ بہت ہی کم گو تھے، میرے دل میں خیال آیا کہ اس بزرگ سے اس کے حالات پوچھوں کہ آپ اس قدر کم زور اور لاغر کیوں ہو گئے ہیں ؟ اس روشن ضمیر درویش نے میرا ارادہ بھانپ لیا اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے فرمایا:’’ اے درویش ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ ایک قبرستان سے گذرا ایک قبر کے پاس ہم تھوڑی دیر رکے اتفاق سے مجھے کسی بات پر ہنسی آ گئی اور میں قہقہہ مار مار کر ہنسنے لگا۔ قبر سے آواز آئی، اے غافل انسان ! جسے قبر جیسے مقام میں جانا ہے، اور ملک الموت جس کے حریف ہیں اور زمین کے نیچے جس کے غم خوار سانپ اور بچھو ہیں اسے ہنسی سے کیا تعلق؟ یہ درد بھرتی اور عبرت آموز آواز سن کر میں نے میرے دوست کا ہاتھ چھوڑا اور اس سے رخصت ہو کر نماز میں مصروف ہو گیا۔ اس غیبی آواز نے میرے دل میں قبر کی جو مصیبت گھر کر دی ہے اس کے سبب میرا بدن پگھلنے لگا، اس واقعہ کو ہوئے چالیس سال کی مدت گذر گئی ہے میں نے شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے نہ تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی ہے اور نہ ہی اس عرصہ میں مسکرایا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن خدائے قدیر و جبار کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘۔
 ٭  ___  فرماتے ہیں : مَیں سیوستان میں مرشدِ گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر کر رہا تھا، ایک عبادت خانے میں ایک درویش شیخ صدر الدین محمد احمد سیوستانی کی زیارت ہوئی جو بڑے بزرگ تھے، ہر لمحہ یادِ الٰہی میں ڈوبے رہتے میں نے آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے چند دن ان کے پاس قیام کیا۔ جو بھی آپ کی خدمت میں آتا اسے آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے بل کہ عالمِ غیب سے کچھ نہ کچھ ضرور دے کر رخصت فرماتے اور کہتے کہ اس فقیر کے لیے ایمان کی سلامتی کی دعا کرو اگر میں قبر میں ایمان سلامت لے گیا تو میں نے بہت بڑا کام کیا۔
مَیں نے دیکھا کہ جب جب ان کے سامنے قبر کے حالات اور واقعات کا تذکرہ چھڑ جاتا وہ بید کی طرح کانپنے لگتے اور ان کی آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ایسا محسوس ہوتا کہ پانی کا چشمہ ابل رہا ہے، وہ سات سات دن تک مسلسل روتے رہتے ان کا رونا دیکھ کر ہم حاضرین پر بھی ایک رقت آمیز کیفیت طاری ہو جاتی، جب رونے سے فارغ ہوتے تو بیٹھ کر ہم سے فرماتے کہ :’’ اے عزیزو! جسے موت آنی ہے اور جس کا حریف ملک الموت ہے اور قیامت جیسا سخت دن اسے درپیش ہے اس کو کھانے پینے سونے ہنسنے اور مذاق سے کیا علاقہ اسے اللہ کی عبادت کے سوا دوسرے کاموں میں مصروف ہونا کیسے بھاتا ہے؟‘‘
پھر فرمایا:’’ اے عزیزو! اگر تم کو مردوں کا حال جو سانپوں اور بچھووں کے گھیرے میں ہیں اور قبر ان کا قید خانہ ہے ان کی کیفیت ذرّہ برابر بھی معلوم ہو جائے تو تم نمک کی طرح پگھل کر نمک ہو جاؤ گے۔ ‘‘
پھر فرمایا:’’ایک بار میں ایک بزرگ کے ساتھ بصر ہ کے ایک قبرستان میں بیٹھا ہوا تھا پاس ہی ایک قبر میں ایک مردے پر عذاب ہو رہا تھا اس بزرگ نے کشف کے ذریعہ جب یہ حال معلوم کیا تو زور سے چیخ مارکر زمین پر گر پڑے میں نے ان کو اٹھانا چاہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی روح جسم سے جدا ہو گئی ہے، یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں ان کا سارا جسم پانی بن کر بہہ گیا اسی روز سے مجھ پر قبر ی بڑی ہیبت طاری رہتی ہے۔ اس لیے تمہیں جاننا چاہیے کہ تم لوگ دنیا سے دل نہ لگاؤ کہ کہیں دنیا کی مشغولیت تمہیں یادِ الٰہی سے غافل کر دے۔ کیوں کہ جس قدر لوگ مخلوق میں مشغول ہوتے ہیں اسی قدر خالق سے دور ہو جاتے ہیں، پس آخرت کی تیاری کرو، کہ ہم سب کو ایک دن اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے ممکن ہے ہم ایمان سلامت لے جائیں، اتنا کہہ کر اپنے پاس سے دو کھجوریں مجھے عنایت کیں اور خود اٹھ کر گریہ و زاری میں مصروف ہو گئے۔( دلیل العارفین ص ۱۴/ ۱۶)
 ٭   ___  حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ جب میں بدخشاں پہنچا تو وہاں اللہ کے ایک بندے کو دیکھا جن کی عمر سوسال تھی۔ان کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا، جب میں نے ان سے پاؤں کٹنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:’’ ایک مرتبہ میں نے اپنے نفس کی خواہش پر ایک قدم صومعہ سے نکالا ہی تھا کہ غیب سے آواز آئی کہ اے مدعی! کیا یہی عہدو پیمان تھا جسے تو نے توڑ دیا، یہ سنتے ہیں میں نے اپنا وہ پاؤں کاٹ کر پھینک دیا، اس واقعہ کو چالیس سال گذر چکے ہیں اور میں فکر مند ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ کل قیامت کے دن میں اپنا یہ منہ کس طرح دکھاؤں گا۔‘‘ (انیس الارواح ص ۳)
 ٭   ___اسی طرح جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے پہنچے تو کعبہ شریف میں مرشدِ کامل نے اپنے اس لاڈلے اور چہیتے مرید کے لیے میزابِ رحمت کے نیچے خصوصی دعا کی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا، غیب سے ندا آئی کہ:’’ ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔‘‘ یہ جواب سن کر شیخِ کامل بہت خوش ہوئے اور بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لایا۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینۂ منورہ میں روضۂ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔یہاں پہنچ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے سلام پیش کیا تو مزارِ پاک سے جواب ملا :
’’ وعلیکم السلام اے سمندر اور جنگلوں کے قطب المشائخ !‘‘
بارگاہِ نبی  ﷺسے جب یہ آواز آئی تو مرشدِ کامل نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہو گیا۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی
جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر و مرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کر کے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہو گیا، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :
’’معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔‘‘
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازا اور اپنا جانشین اور نائب قرار دیا، اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام تر تبرکات جو خاندانِ چشتیہ میں نسلاً بعدِ نسلٍ چلے آ رہے تھے انھیں پیر و مرشد نے اپنے مریدِ صادق حضرت خواجہ کو عنایت فرما دیا، اس تعلق سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے جو بیان کیا اسے حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت خواجہ کے ملفوظات میں یوں قلم بند کیا ہے:
’’ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے فرمایا، اے معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیے کیا ہے، تجھ کو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ سچا مرید وہی ہے جو اپنے ہوش گوش میں اپنے پیر و مرشد کے ارشادات کو جگہ دے اپنے شجرے میں ان کو لکھے اور انجام کو پہنچائے تاکہ کل قیامت کے دن شرمندگی نہ ہو اس ارشاد کے بعد عصائے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھا تھا دعا گو کو عطا فرمایا، بعد ازاں خرقہ، چوبی نعلین  (کھڑاؤں )اور مصلا بھی عنایت فرما کر سرفراز کیا، پھر ارشاد فرمایا یہ تبرکات ہمارے پیرِ طریقت قدس اللہ سرہٗ کی یادگار ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تجھے دیے ہیں ان کو اس طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اسی کو ہماری یہ یادگار دینا۔ خلق سے لالچ نہ رکھنا، آبادی سے دور، مخلوق سے کنارا کش رہنا اور کسی سے کچھ طلب نہ کرنا۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد پیرو مرشد نے مجھے اپنے سینے سے لگایا سر اور آنکھ کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھ کو خداوندِ تعالیٰ کے سپرد کیا۔‘‘ (انیس الارواح ص ۳۴/ ۳۵)


حضرت خواجہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر و مرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہٗ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرو مرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی و ظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیر حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے۔
بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہو کر مریدوں میں شامل ہو گئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔
اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ:
’’ اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ، تاکہ عطا کروں۔‘ حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجا لایا اور عاجزی سے عرض کیا کہ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا۔ ‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔
مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ :
’’ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہو گا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔‘‘( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)
جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہو گیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کر لی تو تھوڑا حیران ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آ گئی، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کر کے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔( مونس الارواح ص ۳۰)
نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر )کا قصد کیا۔

حضرت خواجہ کا سفرِ ہندوستان
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہندوستان کی بشارت پا لینے کے بعد مدینۂ منورہ سے بغداد تشریف لائے۔ جہاں علما و اولیا کے ساتھ علمی و روحانی مذاکرات کیے۔ یہاں سے ۵۸۶ھ / ۱۱۹۰ء میں اجمیر کے ارادے سے سفر اختیار فرمایا۔ اس دوران مختلف شہروں اور قصبوں سے آپ گذرے۔ چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد سے ہوتے ہوئے بخارا پہنچے۔ بخارا سے تبریز، اصفہان، ہرات ہوتے ہوئے سبزہ وار، بلخ اور سمر قند ہوتے ہوئے لاہور میں وارد ہوئے۔
لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ ( وفات ۴۶۵ھ) کے مزار پر پہنچ کر حضرت خواجہ نے اعتکاف کیا اور چالیس روز تک چلہ کیا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے جب آپ روحانی و عرفانی فیضان سے مالامال ہو کر رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا جو آج بھی لاہور میں مزارِ داتا گنج بخش پر کندہ ہے    ؎
گنجِ بخش فیضِ عالم، مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہِ نُما
لاہور سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی عطائے رسول بن کر سمانا پہنچے جو کہ پٹیالہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں پر راجا پرتھوی راج چوہان ( جسے رائے پتھورا بھی کہا جاتا ہے)کے سپاہی پہلے ہی سے حضرت خواجہ کی شبیہ لے کر موجود تھے تاکہ آپ کو کسی نہ کسی بہانے سے گرفتار کریں۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے تذکروں پر مبنی کتابوں میں آتا ہے کہ پرتھوی راج چوہان کی ماں جوتشی تھی جس نے حضرت خواجہ کی آمد سے بہت پہلے ہی اپنے بیٹے کو باخبر کر دیا تھا کہ ایک فقیر آئے گا جس کی وجہ سے تیری حکومت کو زوال آ جائے گا۔ بعض تذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ رانی کے محل پر ایک مرغ آ کر بیٹھا اور اس نے بانگ دی رانی جانوروں کی بولی سمجھتی تھی اس نے اس مرغ کو ہلاک کرنا چاہا مگر وہ ہاتھ نہ آیا اس وقت اس نے کہا تھا۔ اب اس سرزمین پر اسلام کا دور دورہ ہو گا اور تمہارا راج پاٹ ختم ہو جائے گا اور حضرت خواجہ کا حلیہ لکھ کر اپنے بیٹے پرتھوی راج کو دے دیا۔ اس پیشین گوئی نے پرتھوی راج کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ اس نے سرحدی علاقوں پر اپنے سپاہیوں کو روانہ کر دیا تاکہ وہ حضرت خواجہ کو گرفتار کر کے اس کے دربار میں لے آئیں۔
چناں چہ جیسے ہی حضرت خواجہ سمانا میں وارد ہوئے تو راجا کے آدمیوں نے آپ کی صورت دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ وہی فقیر ہیں جن کی شبیہ ہمارے پاس ہے۔ انھوں نے بہانہ سازی کر کے آپ کو گرفتار کرنا چاہا۔ ایک سپاہی نے آپ سے کہا کہ آپ ایک بزرگ اور اجنبی معلوم ہوتے ہیں، ہم نے آپ کے قیام کے لیے ایک مناسب جگہ کا انتظام کیا ہے۔حضرت خواجہ نے مراقبہ کیا تو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت ہوئی کہ اے معین الدین ان لوگوں کا اعتبار نہ کرنا۔ حضرت خواجہ نے ان لوگوں کی پیش کش ٹھکرا دی، اس طرح راجا کے سپاہی اپنے ارادوں میں ناکام رہ گئے۔
سمانا سے حضرت خواجہ دہلی تشریف لائے اور یہاں راج محل کے بالکل سامنے قیام کیا۔ قریب ہی ایک بڑا بت خانہ تھا ایک مسلمان فقیر کا اس طرح رکنا عام لوگوں کو بہت ناگوار گذرا۔ لیکن حضرت خواجہ کے روحانی دبدبے اور شان و شوکت کی وجہ سے کسی دشمنِ دین کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچاسکے۔ شہر کے سرکردہ لوگ اور مندر کے پجاریوں کا ایک وفد دہلی کے حاکم کھانڈے راؤ کے پاس آیا اور کہا کہ ان مسلمان درویشوں سے دیوتا ناراض ہو رہے ہیں اگر ان کو شہر سے نہ نکالا جائے تو دیوتاؤں کا قہر حکومت کو تباہ کر دے گا۔ جاہل کھانڈے راؤ نے ان بے وقوفوں کی بات مان لی چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت خواجہ کو دہلی سے نکال دیں جب راؤ کے سپاہی حضرت خواجہ کے پاس آئے اور بات چیت کی تو وہ آپ کے حُسنِ اَخلاق اور پند و نصائح سے اتنا متاثر ہوئے کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے ان لوگوں کو دیکھ کر بہت سے راجپوت بھی مسلمان ہو گئے۔ دہلی میں حضرت خواجہ کی بزرگی اور کرامت کا چار سو شہرہ ہونے لگا لوگ آپ کو دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں آنے لگے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اسلام کے دامن میں آ گئی اس طرح دہلی میں اسلام کا نور پھیلنے لگا لہٰذا حضرت خواجہ نے دہلی کے نو مسلم افراد کی اصلاح و تربیت اور تعلیم و تزکیہ کے لیے اپنے جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑ کر اپنی اصل منزل یعنی اجمیر کی طرف رُخ کیا۔

حضرت خواجہ کی آمد کے وقت ہندوستان کی حالت
چناں چہ اجمیر اس زمانے کے ہندوستان کی راجدھانی کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ ملکِ ہند کا مرکزی شہر دہلی بھی اس کے ماتحت تھا۔ یہاں کا راجا پرتھوی راج چوہان اجمیر ہی کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھا۔ سلطان محمود غزنوی کے پے درپے حملوں اور اسلامی افواج کی طاقت و قوت کے رعب و دبدبے کی وجہ سے راجپوت حکومتیں ختم ہونے لگی تھیں۔ لیکن محمود غزنوی کے جانشینوں نے آپسی اختلافات کی وجہ سے اپنے آپ کو پنجاب سے آگے نہ بڑھا سکے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے مختلف راجاؤں نے اپنی اپنی حکومتوں کو از سرِ نو مستحکم کر لیا اور اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کر لیا۔ یہ راجا ہندوستان میں قیام پذیر مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھاتے اور طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کرتے۔ کفر و شرک کا ہر طرف بول بالا ہونے لگا۔ یہاں کے اہلِ ہنود تشدد پر آمادہ ہونے لگے پورے ملک ہند میں کفر و شرک اور بت پرستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ چاند، سورج، ستاروں، دریاؤں، تالابوں، پتھروں، درختوں، جانوروں، اور مظاہرِ قدرت کے علاوہ اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دولت مند افراد عام غریبوں کو اپنے آگے سجدہ کرنے پر مجبور کرتے۔ کچھ سرکش اور مغرور قسم کے افراد خود خدائی کے دعوے دار بن بیٹھے تھے۔
ایسے خراب اور پُر فتن ماحول میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان میں اسلام کا نور پھیلانے کے لیے غیبی اشارے پر روانہ فرمایا۔ قدیم ہندوستان کے مرکز اجمیر کو حضرت خواجہ نے اپنا مسکن بنا کر بجائے تیر و تلوار کے اپنے حُسنِ اَخلاق اور مؤثر پَند و نصائح سے لوگوں کا دل جیتا اور اسلام کی وہ تبلیغ فرمائی کہ بڑے بڑے بادشاہوں اور سلاطینِ عالم کی تاریخ میں ایسے کارنامے نہیں ملتے۔ کتبِ تواریخ میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ نے تقریباً نوے لاکھ لوگوں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔

اجمیر کی وجہِ تسمیہ اور اجمیر کا قلعہ
اجمیر ہندوستان کے صوبۂ راجپوتانہ میں شمال مغربی علاقے میں ایک نہایت پرانا اور ہندوستان کا مرکزی شہر ہے جو اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے۔ یہاں کا قلعہ بھی بہت مضبوط اور ناقابلِ تسخیرہے۔ اجمیر شہر کی وجہِ تسمیہ اور اس کے قلعے کی بنیاد کے بارے میں شیخ محقق حضرت عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اخبار الاخیار میں یوں روشنی ڈالی ہے :
’’اجمیر کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ ہندوستان کے راجاؤں میں ایک راجا’ آ جا‘ نام کا تھا، جس کی عمل داری غزنی تک تھی ’آ جا‘ سورج کو بھی کہتے ہیں۔ ہندی زبان میں ’میر‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔ ہندوؤں کی تاریخوں میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہلی فصیل جو پہاڑ کی چوٹی پر بنائی گئی یہی دیواریں ہیں جو کوہِ اجمیر کے اوپر ہیں۔اور ملکِ ہند میں جو پہلا تالاب زمین پر کھود ا گیا وہ کشکر ہے جو اجمیر سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے ہندو جس کی پوجا کرتے ہیں اور ہر سال چھ روز تحویلِ عقرب کے وقت جمع ہو کر نہاتے ہیں۔ اپنی عمر اور اولاد کو باطل مذہب پر ضائع کرتے ہیں ان میں سے جو لوگ قیامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ قیامت اسی تالاب سے شروع ہو گی۔ ’آ جا‘ نامی راجا اسی ملک کے سب راجاؤں سے پہلے ہوا ہے اور پتھورا سب سے آخری تھا۔‘‘ (اخبار الاخیار ص ۲۱)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے جب اجمیر میں قدم رکھا تو یہاں راجا پرتھوی راج چوہان کی حکومت تھی۔ جسے رائے پتھورا  بھی کہا جاتا تھا۔ یہ راجا چوہان خاندان کا آخری راجا تھا لیکن دوسرے راجاؤں کی بہ نسبت زیادہ طاقت و قوت رکھتا تھا۔ دہلی بھی اس کے ماتحت تھا، اجمیر کو اس نے اپنی راجدھانی بنائے ہوئے تھا۔ چوں کہ اسے ہندو مذہب سے بہت لگاؤ تھا، اس لیے اس کے دورِ اقتدار میں اجمیر ہندوؤں کا ایک عظیم اور مستحکم مرکزی شہر بن گیا تھا۔ جہاں پورے ملک کے بڑے بڑے پنڈت اور پجاری آ کر بس گئے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے سلطان شہاب الدین غوری کی آمد سے پہلے ہی اس شہر کو اسلامی و روحانی طور پر مضبوط کر کے ہندوستان کا مرکز بنانے کے لیے منتخب فرما لیا تھا۔

حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ، حُسنِ اَخلاق، اعلا سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔


اور راجا کے اونٹ بیٹھے تو بیٹھے ہی رہ گئے
جب حضرت خواجہ اور آپ کے مریدین اجمیر پہنچے تو آپ نے شہر کے باہر ایک سایا دار جگہ پر رکنا چاہا تو راجا کے سپاہیوں نے آپ کو منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں نہیں ٹھہر سکتے کیوں کہ یہاں راجا کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ حضرت خواجہ نے اتنا سن کر کہا کہ’’ اچھی بات ہے میں یہاں سے جاتا ہوں تمہارے راجا کے اونٹ بیٹھتے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں۔‘‘ اور وہاں سے حضرت خواجہ اناساگر کے پاس تشریف لائے جہاں اس وقت بہت زیادہ تعداد میں بت خانے تھے۔ آپ نے ایک بلند مقام پر قیام فرمایا، جو کہ اس وقت آپ کی چلہ گاہ کے نام سے منسوب ہے۔
جب شام ہوئی تو روزانہ کی طرح راجا کے اونٹ آئے اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور ایسا بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے۔ صبح جب سپاہیوں نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ نہ اٹھ سکے یوں لگتا تھا جیسے کہ ان کے سینے زمین سے چپک گئے ہوں۔ سپاہی بہت حیران ہوئے سب نے مل کر مشورہ کیا کہ کل ہم نے جس فقیر کو یہاں بیٹھنے نہ دیا تھا شاید اسی کی بددعا لگ گئی ہے۔ وہ سب کے سب حضرت خواجہ کے پاس آئے اور معافی طلب کی۔ آپ نے فرمایا: ’’ جاؤ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے تمہارے اونٹوں کے اٹھنے کا حکم ہو چکا ہے۔ جب وہ لوگ اس جگہ پہنچے جہاں اونٹ بیٹھے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تمام اونٹ کھڑے ہو چکے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئے۔( مونس الارواح ص ۳۱)

رام دیو کا قبولِ اسلام
جب اجمیر شہر میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی کرامتوں اور بزرگی کا چرچا ہر طرف ہونے لگا تو لوگ مسلمان ہوتے گئے۔آپ کی خاموش اور پُر اثر تبلیغ کا اثر ایسا ہوا کہ یہاں کے متعصب ہندو پریشان ہو کر آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ان کا ہر وار ناکام ہی رہا۔ اناساگر جس کے گرد ہزاروں بت نصب تھے اور جن پر روزانہ صبح سے شام تک سیکڑوں من تیل اور پھول لوگ آ کر چڑھاتے تھے۔کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ جب برہمنوں اور پجاریوں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ اسی مقام پر قیام پذیر ہیں تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ ایک روز پنڈتوں کا سردار رام دیو کئی پنڈتوں اور پجاریوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا تاکہ آپ کو یہاں سے کسی دوسری جگہ مسکن بنانے کے لیے کہیں۔ لیکن جوں ہی ا ن کی نظر حضرت خواجہ کے پُر جلال اور با رونق چہرے پر پڑی سب کے سب کانپنے لگے۔ حضرت خواجہ کی ایک نظر نے بڑے پنڈت رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی، وہ قریب آیا اور حضرت خواجہ کے ہاتھ پر خلوصِ دل کے ساتھ اسلام کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
پجاریوں کا سردار رام دیو جو کہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت خواجہ کو پریشان کرنے کے لیے آیا تھا وہ فضلِ الٰہی اور حضرت خواجہ کی روحانی کرامت سے نہ صرف یہ کہ مسلمان ہو گیا بل کہ حضرت خواجہ کا ایسا جاں نثار غلام اور ساتھی بن گیا کہ شر پسندوں کے پتھر مار مار کر بھگا دیا۔ حضرت خواجہ نے جب رام دیوکی یہ وفاداری دیکھی تو اسے ایک پیالہ پانی عطا فرمایا اور پینے کا حکم دیا۔ پانی پیتے ہیں اس کا دل بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح ہو گیا۔ اس کے قلب و روح میں ایک نئی توانائی عود کر آئی وہ حضرت خواجہ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مرید بن گیا۔ آپ نے اس کا نام ’شادی دیو‘ رکھا۔

جادوگروں کی شکستِ فاش
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی پُر اثر تبلیغ اور کرامتوں سے اجمیر شہر کے باطل مذہب کے پیروکار بتوں کی پوجا چھوڑ کر مسلمان ہونے لگے تو اجمیر کے سرکردہ غیر مسلم ہی نہیں بل کہ خود راجا پرتھوی راج چوہان کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا۔ چناں چہ اس نے حق و صداقت کی پاکیزہ فضا کو مکدر کرنے اور اور اسلام و ایمان کی آواز کو دبانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا شروع کیا۔
پرتھوی راج چوہان کے درباریوں کا کہنا تھا کہ یہ بوریہ نشین فقیر شاید کوئی بہت بڑا جادوگر ہے اس لیے اس کے مقابلے کے لیے سلطنت کے تمام جادوگروں کو اکٹھا کرنا بے حد ضروری ہے کہ انھیں کی مدد سے یہ فقیر اس شہر سے بھاگ سکتا ہے۔ راجا نے حکم دیا کہ پوری سلطنت کے سب سے بڑے جادوگر جوگی جَے پال کو اس کے تمام چیلوں اور شاگردوں کے ساتھ اجمیر طلب کیا جائے۔  چناں چہ جوگی جَے پال اپنے ڈیڑھ ہزار شاگردوں کے ساتھ جو کہ جادوگری اور شعبدہ بازی میں بہت زیادہ کمال رکھتے تھے اجمیر میں وارد ہوا۔ اس کی آمد سے راجا پرتھوی راج چوہان اور اس کے درباریوں اور سپاہیوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔جَے پال اپنے ڈیڑھ ہزار شاگردوں اور سلطنت کے ذمہ داروں کے ہمراہ حضرت خواجہ کی قیام گاہ کی طرف بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑھا۔جب حضر ت خواجہ معین الدین چشتی کو جوگی جَے پال اور اس کے چیلوں کے آنے کی خبر ہوئی تو آپ نے وضو کر کے اپنی مجلس کے گرد اپنے عصا سے ایک حصار بنا دیا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ کوئی بھی دشمن اس دائرہ کے اندر داخل نہیں ہوسکے گا۔
جَے پال اپنے باطل علم پر گھمنڈ کرتے اور اتراتے ہوئے جب قریب پہنچا۔ اس کے شاگردوں میں سے جو بھی دائرۂ حصار میں آیا وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ حضرت خواجہ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ سب کے سب وہاں سے بھاگ کر دربار میں واپس چلے گئے۔


انا ساگر کا پانی پیالے میں سما گیا
جب حضرت خواجہ کی روحانی قوتوں کے آگے جادوگروں کی ایک نہ چلی تو ان لوگوں نے دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اناساگر جس سے اجمیر کے لوگ پانی پیتے تھے اس کا پانی حضرت خواجہ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے بند کر دیا اور اس کے لیے اناساگر پر سخت پہرہ بٹھا دیا تاکہ حضرت خواجہ کا کوئی بھی ساتھی ایک قطرہ پانی نہ لے سکے۔ جب حضرت خواجہ کو راجا پرتھوی راج چوہان کی اس انتہائی غیر اَخلاقی حرکت کا علم ہوا تو آپ نے بزرگانہ جلال میں آ کر شادی دیو سے کہا کہ جس طرح بھی ممکن ہواناساگر سے ایک پیالہ پانی لاؤ، شادی نے پیالہ لیا اور ہمت و جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت پہرے کے درمیان تالاب پر پہنچ کر جوں ہی پیالہ پانی میں ڈالا اناساگر تالاب کا سارا پانی سمٹ کر پیالے میں آ گیا۔ لوگوں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا کہ ابھی تو یہاں پانی موجیں مار رہا تھا اب تو یہ بالکل سوکھ گیا ہے اور یہاں خاک اُڑ رہی ہے۔شادی دیو پانی سے بھرا ہوا پیالہ لے کر حضرت خواجہ کی خدمت میں پہنچا آپ کے ساتھیوں نے اپنی تمام ضروریات پوری کر لی لیکن پیالے کا پانی ذرا بھی کم نہ ہوا۔ چوں کہ اجمیر کے تمام تر باشندے اسی انا ساگر سے پانی لیا کرتے تھے اس لیے جب انا ساگر سوکھ گیا تو لوگ بے حد پریشان ہو گئے جَے پال نے جب یہ دیکھا تو دائرۂ حصار کے قریب آیا اور کہا کہ اے فقیر لوگ پیاس کی شدت سے مرنے پر آ چکے ہیں، تم خود کو فقیر کہتے ہو فقیر کو رحم دل ہونا چاہیے نہ کہ ظالم دریا دلی کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کو پانی دے دو۔ حضرت خواجہ نے جَے پال کی عرض سن کر شادی دیو کو حکم دیا کہ جاؤ اور انا ساگر کے جس مقام سے پانی لائے ہو وہیں پانی ڈال دو۔ شادی نے جیسے ہی پیالہ انڈیلا دوبارہ اناساگر میں لہریں اٹھنے لگیں۔


جوگی جَے پال کی جادوگری
جوگی جَے پال اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دن آرام سے بیٹھنے کے بعد دوبارہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ان کی دانست میں پہلے سے بھی سخت جادوگری کے کرشمے دکھانا شروع کیا۔ پہاڑوں کی طرف سے جادو کے زور سے ہزاروں کالے سانپ نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھایا لیکن جب سانپوں کا یہ لشکر آپ کے قریب پہنچا تو حصار کی لکیر پر سر رکھ کر ایک ایک سانپ بے دم ہو گئے۔ جب یہ جادو بری طرح ناکام ہو گیا تو جوگی جَے پال نے خود پنجہ آزمائی کا آغاز کیا اور اپنے فنِ جادوگری کے زور سے آگ کی بارش برسانے لگا ہر طرف انگاروں کے ڈھیر لگ گئے، ہزاروں درخت جل کر راکھ ہو گئے مگر دائرۂ حصار اور اس کی فضا کا آگ کچھ بھی نہ بگاڑ سکی۔
جب جادو کی آگ سے بھی حضرت خواجہ اور ان کے ماننے والوں کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوا تو جَے پال نے حضرت خواجہ سے کہا کہ :’’ اب میرا اور تمہارا مقابلہ باقی ہے بہتر ہے کہ تم  فوراً اجمیر چھوڑ دو ورنہ میں آسمان پر جا کر تمہارے سروں پر اس قدر بلائیں برساؤں گا کہ تمہاراسنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ حضرت خواجہ نے فرمایا:’’ تو زمین پر رہ کر ہمارا مقابلہ نہیں کرسکا اور زمین پر تیرا وار ناکام ہی رہا تو آسمان پر اڑ کر بھی تو کیا کرسکے گا؟‘‘
جوگی جَے پال نے ہرن کی کھال ہوا میں پھینکی اور اچھل کر اس پر سوار ہو گیا سیکھتے ہی دیکھتے وہ فضا میں اڑنے لگا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا، لوگ حیران تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ؟ حضرت خواجہ نے جَے پال کی یہ جادوگری اور لوگوں کا حیرت و استعجاب دیکھا تو اپنی کھڑاؤں کو حکم دیا کہ جاؤ اور مغرور جَے پال کو سزا دیتے ہوئے نیچے لے آؤ۔یہ فرمان سنتے ہی کھڑاؤں ہوا میں اڑتے ہوئے نگاہوں سے غائب ہو گئی چند لمحوں بعد لوگوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ حضرت کی نعلین جَے پال کے سر پر بُری طرح مارتے ہوئے اسے حضرت خواجہ کے قدموں کے پاس لے آئی۔

جوگی جَے پال کا قبولِ اسلام
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی کھڑاؤں کی مار سے جوگی جَے پال کا غرور و گھمنڈ اور تکبر و خود سری سب ایک ہی لمحے کے اندر خاک میں مل گیا۔ روحانی صداقت و طاقت کے سامنے جادوگری کے تمام حربے بُری طرح ناکام ہو گئے۔ جوگی جَے پال کو معلوم ہو گیا کہ یہ بوریہ نشین فقیر کوئی جادوگر نہیں، بل کہ روحانیت و عرفانیت کی لازوال قوت و طاقت کا مالک اللہ کا نیک بندہ ہے کہ اس کے حکم سے اس کے پیروں کی کھڑاؤں جب ہوا میں اڑ کر مجھ جیسے بڑے جادوگر کو سزا دیتے ہوئے نیچے لاسکتی ہے۔ جوگی جَے پال کے دماغ میں سوار جادوگری کا تمام نشّہ ہرن ہو گیا اس کے دل سے بھی کفر و شرک کے پردے اٹھنے لگے، اس نے اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں میں رکھ دیا اور خلوص کے ساتھ اسلام قبول کر کے حضرت خواجہ کی غلامی میں داخل ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے عرض کی کہ حضور دعا فرمائیے کہ میں اَمر ہو جاؤں یعنی تا قیامت زندہ رہوں، حضرت نے دعا فرمائی، الٰہی! اس بندے کی دعا قبول فرما، جب حضرت پر دعا کی قبولیت کے آثار نمایاں ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا تو نے ہمیشہ کی زندگی پالی مگر لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، یہ روایت بے حد مشہور و معروف ہے کہ جوگی جَے پال اب تک اجمیر کے پہاڑوں میں رہتا ہے جومسافر راستہ بھٹک جاتا ہے اس کی رہبری کرتا ہے ہر شبِ جمعہ کو روضۂ خواجہ کی زیارت کا شرَف حاصل کرتا ہے۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام ’’عبداللہ ‘‘رکھا تھا۔( خزینۃ الاصفیاء ج ۲ ص ۲۶۲)
جب پرتھوی راج نے جوگی جَے پال اور اس کے چیلوں کی شکستِ فاش دیکھی تو بہت گھبرا گیا۔ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ محل میں واپس آیا۔ جب رائے پتھورا کی ماں کو حضرت خواجہ کی اجمیر میں آمد، اونٹوں کے بیٹھے رہ جانے، انا ساگر کے سوکھ جانے، جوگی جَے پال کے جادو کی ناکامی اور اس کے اسلام لے آنے جیسے واقعات کا علم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی خبر میں نے علمِ نجوم سے تجھے بارہ سال پہلے ہی دے دی تھی۔ اب تم اس سے کوئی مقابلہ نہ کرنا کہ اس سے جنگ و جدال نقصان سے خالی نہ ہو گی، بل کہ اس کی تعظیم و توقیر کرنا۔ (مونس الارواح ص ۳۲)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے حُسنِ اَخلاق، مؤثر کرامات اور باطنی تصرفات نے اجمیر شہر کے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ عوا م و خواص کی ایک بڑی تعداد بت پرستی اور کفر و شرک سے توبہ کر کے مشرف بہ اسلام ہو گئی۔ حضرت خواجہ کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی تو اناساگر کے پاس کی جگہ ناکافی ہو گئی۔ چناں چہ آپ نے اجمیر شہر میں قیام کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ شہر اجمیر میں اس مقام پر مستقل سکونت اختیار فرمائی جہاں اس وقت درگاہ شریف ہے۔

پرتھوی راج کو دعوتِ اسلام
اجمیر شہر میں قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت خواجہ نے راجا پرتھوی راج چوہان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اسے ایک خط لکھا کہ :
’’اے راجا تیرا اعتقاد جن لوگوں پر تھا وہ بہ حکمِ خدا مسلمان ہو گئے ہیں۔ اگر بھلائی چاہتا ہے تو تو بھی مسلمان ہو جا ورنہ ذلیل و خوار ہو گا۔‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی مسلسل روحانی فتوحات نے راجا پرتھوی راج چوہان کو بالکل خاموش ہی کر کے رکھ دیا۔ لیکن وہ اندر اندر ہی گھل رہا تھا اسے اسلام کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت و طاقت نے سخت متفکر کر دیا تھا۔ اور وہ حضرت خواجہ اور آپ کے ماننے والوں کو اجمیر سے باہر نکالنے کے لیے خفیہ سازش کے جال بچھانے لگا۔
ایک مرتبہ اس نے حضرت خواجہ کے ایک مرید کو بے حد ستایا۔ مرید نے راجا کے بے انتہا ظلم و ستم کی کہانی حضرت خواجہ کی بارگاہ میں سنائی۔ حضرت کو بہت جلال آیا اس نے ایک شخص کو راجا کے پاس بھیجا اور مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرنے سے باز رہنے کا حکم صادر فرمایا۔ حضرت خواجہ کی یہ ہدایت اسے بہت ناگوار گذری اس نے غصے سے کہا کہ :’’ کیا ہی اچھا ہو جو یہ فقیر یہاں سے چلا جائے۔‘‘
راجا کی یہ بات سن کر وہ شخص بارگاہِ خواجہ میں حاضر ہوا اور اس کی گستاخانہ بکواس گوش گزار کی۔ حضرت نے جب اس کی بکواس سماعت کی تو غیض و غضب کے عالم میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس نے ہندوستان کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا، حضرت نے کہا کہ:’’پتھورا را زندہ گرفتیم و دادیم۔‘‘ یعنی ہم نے رائے پتھورا کو زندہ گرفتار کیا اور دے دیا۔( فوائد السالکین ص ۲۴)
حضرت خواجہ کی یہ پیشین گوئی ہندوستان میں سیاسی و تاریخی لحاظ سے بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جس کا اندازہ ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی پیش قدمی اور جنگی سرگرمیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی باطل شکن کرامتوں، خاموش تبلیغ اور اخلاقِ حسنہ کی تلوار سے لوگوں کے دل فتح ہونے لگے اور یہاں کی زمین اسلام و ایمان کی فصلِ بہاری سے لہلہانے لگی۔ اسی دوران شہاب الدین غوری جو کہ شکست خوردہ مسلم حکم راں تھا اس نے خواب میں ایک نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جو ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملکِ ہندوستان کی طرف توجہ کرو اب تمہاری شکست کا داغ دھل جائے اور تمہیں فتح نصیب ہو گی۔ چناں چہ اس نے اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان کا رخ کیا۔اور ترائن کے مقام پر ۵۸۸ھ / ۱۱۹۲ء میں فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں شہا ب الدین غوری نے تین لاکھ راجپوتوں کو شکستِ فاش دے دی۔
حضرت خواجہ کی کوششوں سے لوگوں کے دلوں پر اسلام کا نقش مرتب ہوا اور شہاب الدین غوری کے حملوں سے یہاں کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ ترائن کی جنگ میں فتح پانے کے بعد شہاب الدین اجمیر کے پہاڑی علاقوں میں داخل ہوا تو شام ہو چکی تھی کہ یکایک اس نے مغرب کی اذان کی آواز سنی اس طرح اجنبی علاقے میں اذان کی آواز سن کر اسے سخت حیرانی ہوئی اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک فقیر کچھ دنوں سے یہاں مقیم ہیں یہ آواز وہیں سے آ رہی ہے۔ شہاب الدین تلاش کرتا ہوا جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اللہ کے بندوں کی ایک جماعت صف باندھے نماز پڑھنے میں مصروف ہے وہ بھی شاملِ نماز ہو گیا۔ حضرت خواجہ امامت فرما رہے تھے۔ جب نماز ختم ہوئی اور اس کی نظر حضرت خواجہ کے چہرے پر پڑی تو اس کی حیرت اور مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی کیوں کہ یہ وہی بزرگ تھے جنھوں نے اسے خواب میں فتح و کام رانی کی بشارت دی تھی وہ بے تابانہ آگے بڑھا اور قدموں پر سر رکھ کر دیر تک روتا رہا۔ اور حضرت کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مرید ہو گیا۔

حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵؍ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔
اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہٗ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہو گیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیں کی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔‘‘ حضرت خواجہ یہ فرما کر رونے لگے اور کہا ’’اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے۔‘‘ (دلیل العارفین ص ۵۸)
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایا وہ ۶؍ رجب الم رجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶؍ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجودتھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہو گئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہو چکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے  :
’’ہٰذا حبیبُ اللّٰہ ماتَ فِی حُب اللّٰہ۔‘‘
جس رات حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا چند اولیائے کرام  خواب میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ  :
’’ہم آج محبوبِ خدا معین الدین چشتی کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا وصالِ پُر ملال اجمیر کے لوگوں کے لیے ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ یہ ایک ایسا عظیم ترین سانحہ تھا کہ ہر ایک کو تسلی و تشفی کی ضرورت تھی۔ جوں ہی آپ کی وفات کی خبر عام ہوئی لوگ جوق در جوق اجمیر میں وارد ہونے لگے۔ اولیا، علما، صوفیہ، مشائخ اور فقہا وغیرہ عوام و خواص کا ایک جم غفیر اجمیر میں جمع ہو گیا اور جنازے میں شریک ہوئے۔ آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی تاریخِ اسلام کی عظیم شخصیات میں جس بلند و بالا مقام پر فائز ہیں اسے صحیح طور پر بیان کرنا مشکل امر ہے۔ حضرت خواجہ نے اپنی کوششوں سے کفرو شرک اور بت پرستی کے اندھیروں میں ڈوبے ہندوستان کو اسلام و ایمان، توحید ورسالت اور اَخلاق و کردار کی ضیا پاش کرنوں سے منور و مجلا کر دیا۔
ہر سال ۶؍ رجب المرجب کو اجمیر میں آپ کا عرس منعقد کیا جاتا ہے جس میں شرکت کرنے کے لیے پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہنچتے ہیں۔آپ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کو تقریباً آٹھ سوسال کا عرصہ گذر جائے گا۔ لیکن آج بھی آپ کے آستانے پر لوگوں کا ایسا مجمع لگا رہتا ہے جیسے یہ شخصیت بالکل قریب ہی کی ہے۔ حضرت خواجہ کی ذات اور آپ کا روضہ صرف ہندوستان ہی کے مسلمانوں کے لیے مرکزِ عقیدت و محبت نہیں ہے بل کہ پوری دنیا کے مسلمان آپ کو احترام و عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بل کہ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین، بدھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی درگاہِ معلا میں بہ صد احترام و خلوص حاضر ہو کر چادریں اور پھول کی نذر پیش کرتے ہیں۔
کیا امیر کیا غریب ہر کوئی ہندوستان کے اس راجا کے دربار میں حاضر ہونا اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہیں۔ چناں چہ ہر دور کے بادشاہوں اور سربراہانِ مملکت نے اس آستانے پر ضرور حاضری لگائی ہے۔ آج بھی جب کسی دوسرے ملک کے کوئی سربراہِ مملکت ہندوستان آتے ہیں تو وہ ضرور اجمیر جا کر حاضری دیتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے ہر سیاسی لیڈر اور وزیرو صدر وغیرہ بھی مزارِ خواجہ کی زیارت کرنا اپنے لیے نیک فال سمجھتے ہیں۔
حضرت خواجہ کے آستانے کی اہمیت کا اندازہ لارڈ کرزن کے ان جملوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’میں نے دیکھا کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے۔‘‘ اور سچائی بھی یہی ہے کہ دہلی کے تخت پر چاہے کوئی بھی قابض رہے لیکن ہندوستان میں اصل حکومت حضرت خواجہ ہی کی قائم و دائم ہے۔

ازواج و اولاد اور خلفا
پہلی شادی : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ  ﷺ نے فرمایا:’’ اے معین الدین! تو ہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔‘‘ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا۔
دوسری شادی: ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا۔ (تاریخِ فرشتہ ج ۲ ص ۶۱۱)
اولاد و امجاد: حضرت خواجہ صاحب کی اولاد میں تین لڑکے۔۔۔ (۱) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵؍ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (۲) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (۳) خواجہ حسام الدین، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہو کر غائب ہو گئے۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں۔
خلفا: حضرت خواجہ صاحب کے خلفا کی تعداد کافی تھی۔ خزینۃ الاصفیا ء میں جن خلفائے کرام کے نام درج ہیں ان میں سے چند ایک نام یہاں لکھے جاتے ہیں۔
 ٭   حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، دہلی (وفات ۱۴؍ ربیع الاول ۶۳۳ھ)
 ٭   حضرت خواجہ خواجہ فخر الدین چشتی سروار ٭   حضرت خواجہ وجیہ الدین، ہرات
 ٭   حضرت خواجہ صوفی حمید الدین ناگوری، ناگور(وفات ۲۹؍ ربیع الاول ۶۱۳ھ )
 ٭   حضرت خواجہ قاضی حمید الدین ناگوری، دہلی ( وفات ۵ ؍ محرم الحرام ۶۴۳ھ)
 ٭   حضرت خواجہ برہان الدین، اجمیر (وفات ۱۴؍ رجب المرجب ۶۶۴ھ)
 ٭   حضرت خواجہ احمد، اجمیر (۱۶؍ شوال ۶۳۱ھ) ٭    حضرت خواجہ محسن ٭    حضرت خواجہ سلیمان غازی
 ٭  خواجہ عبداللہ جوگی جَے پال، اجمیر ٭   خواجہ صدر الدین کرمانی ٭   بی بی حافظہ جمال، اجمیر
 ٭   خواجہ محمد ترک فارنوتی ٭   خواجہ شیخ علی سنجری ٭   خواجہ یادگار سبزہ واری ٭  خواجہ منّا ٭   شیخ مدحیہ رحمہم اللہ تعالیٰ۔

حضرت خواجہ کی تصانیف
عام طور پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو لوگ ایک صرف با کرامت ولی اور مبلغِ اسلام کی حیثیت سے جانتے ہیں جب کہ آپ فارسی زبان  و ادب کے ایک صاحبِ طرز ادیب اور بہترین شاعر بھی تھے۔ آپ کی کئی علمی یادگاریں ضائع ہو گئیں اور کئی ایک آج بھی موجود ہیں۔ آپ کی تصانیف سے آپ کے علمی ذوق و شوق اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انیس الارواح: یہ کتاب فارسی زبان میں آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب تربیتِ اخلاق اور علمِ معرفت میں اہم مقام رکھتی ہے، مکتبۂ جامِ نور دہلی سے اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔
کشف الاسرار: یہ کتاب بھی فارسی زبان میں ہے جسے ’’معراجِ انور‘‘ بھی کہتے ہیں اس کتاب کا موضوع تصوف ہے جس میں تصوف کی بعض اصطلاحات کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔
کنزالاسرار: یہ کتاب حضرت خواجہ نے اپنے پیرو مرشد کے حکم پر سلطان شمس الدین التمش کی تعلیم و تربیت کے لیے لکھی تھی۔ اس میں تہذیبِ اخلاق، رموزِ معرفت، اصطلاحاتِ تصوف اور تزکیہ و طہارت کے موضوعات پیش کیے گئے ہیں، اس کتاب کو ’’گنجِ اسرار ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
رسالۂ تصوف منظوم:جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ تصوف پر مبنی فارسی نظم ہے جو حضرت خواجہ کی بلندیِ فکر اور قادرالکلامی کو عیاں کرتی ہے۔ اسی طرح’’ حدیث المعارف ‘‘اور ’’رسالۂ موجودیہ‘‘ بھی نثری کتب ہیں، جو اب نایاب ہو چکی ہیں۔
دیوانِ معین : حضرت خواجہ کے علمی کمالات سے یہ بھی ہے کہ آپ ایک بہترین شاعر تھے۔ آپ کا کلام تصوفانہ رنگ و آہنگ کا آئینہ دار ہے۔ جس میں وارداتِ قلبی، عشقِ حقیقی، دنیا کی بے ثباتی، مشاہداتِ حقیقت، تزکیۂ نفس، طہارتِ قلبی، تہذیبِ اخلاق جیسے پاکیزہ موضوعات کو آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ ’’کلامِ عرفاں طراز ‘‘ کے نام سے آپ کے دیوان کا منظوم اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔جو ناچیز کے کتب خانے میں موجود ہے۔

حضرت خواجہ کے اقوالِ زرین
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا تھا، چناں چہ آپ کی مجالس میں تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے ارشادات اور اقوال کو حضرت کے جانشین خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ’’دلیل العارفین ‘‘ کے نام سے قلم بند کر لیا تھا، یہ کتاب مختلف دینی مسائل کا سرچشمہ ہے، ذیل میں اسی کتاب سے حضرت خواجہ کے چند اقوالِ زریں نقل کیے جاتے ہیں۔
 ٭   نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے پس بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت نہ پیدا ہو۔ نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے۔
 ٭   قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب انبیا و اولیا اور ہر مسلمان سے ہو گا جو اس حساب سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکے گا وہ عذابِ دوزخ کا شکار ہو گا۔
 ٭   جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کر دیگا۔
 ٭   اس سے بڑھ کر کوئی گناہِ کبیرہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بِلا وجہ ستایا جائے اس سے خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔
 ٭   کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے مرد کو چاہیے کہ احکامِ الٰہی بجا لانے میں کمی نہ کرے پھر جو کچھ چاہے گا مِل جائے گا۔
 ٭   قبرستان میں جان بوجھ کر کھانا یا پانی پینا گناہِ کبیرہ ہے۔ جو ایسا کرے وہ ملعون اور منافق ہے کیوں کہ قبرستان عبرت کی جگہ ہے نہ کہ جائے حرص و ہَوا۔
 ٭   جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کر دیا اس گھر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
 ٭   گناہ تم کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و رسو ا کرنا۔
 ٭  جس نے خدا کو پہچان لیا اگر و ہ خلق سے دور نہ بھاگے تو سمجھ لو کہ اس میں کوئی نعمت نہیں۔
 ٭  عارف وہ شخص ہوتا ہے جو کچھ اس کے اندر ہو اسے دل سے نکال دے تاکہ اپنے دوست کی طرح یگانہ ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ اس پر کسی چیز کو مخفی نہ رکھے گا اور وہ دونوں جہاں سے بے نیاز ہو جائے گا۔
 ٭  اگر قیامت کے دن کوئی چیز جنت میں لے جائے گی تو وہ زہد ہے نہ کہ علم۔
 ٭   جو شخص عشقِ الٰہی کی راہ میں قدم رکھتا ہے اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔
 ٭   اہلِ عرفان یادِ الٰہی کے علاوہ کوئی اور بات اپنی زبان سے نہیں نکالتے اور اللہ کے خیال کے سوا دل میں کسی دوسرے کا خیال نہیں لاتے۔
 ٭   اگر کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے (۱) سخاوت (۲) شفقت (۳) تواضع (عاجزی)، سخاوت دریا جیسی، شفقت آفتاب کی طرح اور تواضع زمین کی مانند۔
 ٭   نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔
 ٭   دنیا میں تین افراد بہترین کہلانے کے مستحق ہیں (۱) عالم جو اپنے علم سے بات کہے(۲) جو لالچ نہ رکھے (۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست کی تعریف و توصیف کرتا رہے۔
 ٭   حق شناسی کی علامت لوگوں سے راہِ فرار اختیار کرنا اور معرفت میں خاموشی اختیار کرنا ہے۔
 ٭  عارف سورج کی طرح ہوتا ہے جو سارے جہان کو روشنی بخشتا ہے جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی۔
 ٭   توکل یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ ہو اور نہ کسی چیز کی طرف توجہ کی جائے۔
 ٭   سچی توبہ کے لیے تین باتیں ضروری ہیں (۱) کم کھانا (۲) کم سونا(۳) کم بولنا، پہلے سے خوفِ خدا، دوسرے اور تیسرے سے محبتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔
 ٭   اہلِ طریقت کے لیے دس شرطیں لازم ہیں (۱) طلبِ حق (۲) طلبِ مرشد (۳) ادب (۴) رضا (۵) محبت اور ترکِ فضول (۶) تقوا (۷) شریعت پر استقامت (۸) کم کھانا کم سونا کم بولنا (۹) خلق سے دوری اور تنہائی اختیار کرنا(۱۰) روزہ و نماز کی ہر حال میں پابندی۔
 ٭  پانچ چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے (۱) اپنے والدین کے چہرے کو دیکھنا حدیث میں ہے، جو فرزند اپنے والدین کا چہر ہ دیکھتا ہے اس کے نامۂ اعمال میں حج کا ثواب لکھا جاتا ہے(۲) کلامِ مجید کا دیکھنا (۳) کسی عالمِ با عمل کا چہرہ عزت و احترام سے دیکھنا (۴) خانۂ کعبہ کے دروازے کی زیارت اور کعبہ شریف کو دیکھنا (۵) اپنے پیر و مرشد کے چہرے کو دیکھنا اور ان کی خدمت کرنا۔


حضرت خواجہ کی کرامات
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ کی ہندوستان میں آمد اور اجمیر میں قیام کے دوران جو کرامتیں صادر ہوئیں ان کا ذکر گذشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے اب ذیل میں مزید چند کرامتوں کا بیان کیا جاتا ہے۔
 ٭   حاکمِ وقت نے ایک شخص کو جو کہ بے گناہ تھا پھانسی دے دی اس کی ماں روتی ہوئی حضرت خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں آپ نے اپنا عصا لیا اور اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں اس لڑکے کو پھانسی دی گئی تھی، مقتول کے قریب جا کر حضرت خواجہ نے اپنے عصا سے اس کی طرف اشارا کر کے فرمایا اے مقتول ! اگر تو بے گناہ قتل کیا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا اور دار کے نیچے اُتر آ، مقتول میں یہ سنتے ہیں زندگی کے اثرات نمایاں ہونے لگے اور وہ زندہ ہو کر پھانسی کے تختے سے اتر آیا اور حضرت خواجہ کے قدموں میں گر گیا۔ (معین الہند ص ۲۱۶)
 ٭   کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گذر کفار کے ایک بت خانے پر ہوا اس وقت سات کافر بت پرستی میں مصروف تھے آپ کا چہرہ دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں گر کر مسلمان ہو گئے آپ نے ان میں سے ہر ایک کو حمید الدین لقب دیا، اور شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنھیں بہت شہرت حاصل ہوئی۔
 ٭   ایک روز حضرت خواجہ ریگستان سے گذر رہے تھے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ دیکھا جو کہ آگ کی پوجا میں مصروف تھا، یہ لوگ ایسے ایسے مجاہدے اور عبادت و ریاضت کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی وہ لوگ چھ چھ مہینے تک دانا پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لیے پوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں نہیں جلائے گی، حضرت خواجہ نے فرمایا دوزخ کی آگ سے بچنے کا یہ طریقہ بے حد غلط ہے۔ بل کہ آگ کو جس نے پیدا کیا ہے اس کی عبادت کرو پھر کیا مجال ہے کہ تمہیں کوئی بھی آگ کچھ نقصان پہنچا سکے، تم لوگ اتنی مدت سے آگ کی پوجا کر رہے ہو ذرا اپنا ہاتھ اس آگ میں ڈال کر تو دیکھو تمہیں معلوم ہو جائے گا، ان لوگوں نے کہا کہ حضرت آگ کا کام تو جلانا ہی ہے ہمارے ہاتھ جل جائیں گے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ دیکھو ہم خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں یہ آگ ہمارے جسم کو نہیں جلائے گی بل کہ یہ ہماری جوتی کو بھی نہیں جلائے گی اتنا کہہ کر حضرت نے اپنی جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرّہ بھر بھی اثر نہ ہوا۔ تمام کے تمام آتش پرستوں نے جب یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلما ن ہو گئے اور حضرت خواجہ کے سچے مریدوں میں شامل ہو گئے۔
 ٭   ایک روز کی بات ہے کہ حضرت خواجہ کے جانشین اور خلیفہ حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سلطان شمس الدین التمش کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سیر و تفریح کر رہے تھے، آپ کے ہمراہ اس وقت  بعض امرا بھی تھے کہ ایک بدکار عورت نے بادشاہ سے عرض کیا کہ آپ میرا نکاح کرا دیں ورنہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو جاؤں گی، بادشاہ نے کہا تو کس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے؟ تجھے کس نے غضبِ الٰہی میں مبتلا کر دیا ؟تو اس فاحشہ عورت نے حضرت کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا کہ اس مرد نے جو قطب الاقطاب بنے پھرتے ہیں۔ (معاذ اللہ ) انھوں نے میرے ساتھ حرام کاری کی ہے۔
حضرت قطب الاقطاب بختیار کاکی پر یہ بے ہودہ بکواس سن کر شرمندگی طاری ہو گئی اور پسینہ آ گیا، بادشاہ اور امرا حیران ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ حضرت قطب نے فوراً اجمیر کی طرف منہ کر کے  حضرت خواجہ معین الدین کی طرف توجہ فرمائی۔ فوراً ہی سامنے سے حضرت خواجہ تشریف لاتے دکھائی دیے۔حضرت قطب اور بادشاہ نے قدم بوسی کی، حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا، کیا بات ہے تم نے مجھے کیوں یاد کیا ہے؟ حضرت قطب نے سارا حال بیان کیا تو حضرت خواجہ نے اس عورت کے پیٹ کی طرف اشارا کرتے ہوئے فرمایا:’’ اے بچے سچ سچ بتا تیری ماں نے خواجہ پر جو الزام لگایا ہے وہ صحیح ہے یا غلط؟ ‘‘ بچہ فوراً اپنی ماں کے پیٹ سے بولا یہ الزام سراسر غلط ہے یہ عورت نہایت بدکار اور فاحشہ ہے، عورت نے جب یہ سنا تو اپنی غلط بیانی پر معافی مانگی اور وہاں سے رخصت ہو گئی۔
 ٭   حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ ہر سال کعبہ شریف کی زیارت کے لیے اپنی روحانی قوت سے اجمیر تشریف لے جاتے تھے جب آپ کی تبلیغ و اشاعت دین کا کام مکمل ہو گیا تو پھر آپ کا معمول تھا کہ ہر رات بعدِ عشا کعبہ جاتے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا کرتے۔

حضرت خواجہ کی بارگاہ میں سلاطین اور امرا کا خراجِ عقیدت
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے قریباً آٹھ سوسال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن آپ کا آستانہ اور درگاہِ معلا آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ جہاں دنیا بھر کے امیر و غریب اور سربراہانِ مملکت حاضری دے کر روحانی سکون اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ ذیل میں آپ کی بارگاہ میں سلاطین، وزرا اور مشہور شخصیات نے جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ان میں سے چند ایک نقل کیے جاتے ہیں۔
 ٭  ۱۵۴۴ء میں جب شیر شاہ سوری نے مارواڑی راجا بلدیو کو شکست دی تو وہ اجمیر آیا اور حضرت خواجہ کے آستانے کی زیارت کی جب وہ تارا گڑھ پہنچا جہاں پانی کی قلت تھی تو اس نے چشمۂ بی بی حافظہ جمال سے تارا گڑھ کے اونچے پہاڑ پر پانی پہنچانے کا انتظام کروایا اور چشمہ کا نام’’سیر چشمہ ‘‘ رکھا۔
 ٭   مغل بادشاہ اکبر نے تقریباً ۱۲؍ مرتبہ اجمیر کی زیارت کی اور کئی بار اس نے فتح پور سیکری سے پیدل اجمیر کا سفر کیا اس نے ایک ان دار مسجد اور نئی عمارتوں کے علاوہ ۱۵۶۷ء میں بڑی دیگ کی تعمیر بھی کروائی جس میں سو من چاول پکتے ہیں۔
 ٭   نورالدین جہاں گیر تخت نشین ہونے کے آٹھویں سال ۱۰۲۲ھ میں اجمیر آیا جب شہر اجمیر کے آثار نظر آنے لگے تو وہ پیدل درگاہ شریف تک پہنچا ۱۰۲۵ھ میں اس نے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ کی لاگت سے ایک طلائی محجر بنایا جو اب موجود نہیں ہے چھوٹی دیگ بھی بنوائی جس میں اسی من چاول پکتا ہے۔
 ٭   شاہِ جہاں نے اپنے ۲۱ سالہ دورِ حکومت میں ۵؍ بار حاضری دی اور روضۂ مبارک سے لگ کر سنگ مرمر کی عالیشان مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کی تعمیر پر اس زمانے میں دو لاکھ چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔
 ٭   شاہِ جہاں کی لاڈلی بیٹی جہاں آرا بیگم کو حضر ت خواجہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا وہ رمضان ۱۰۵۳ھ میں اپنے باپ کے ساتھ اجمیر آئی جہاں آرا نے ایک دالان تعمیر کروایا جو ’’بیگمی دالان ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگوں کے تذکرے پر مبنی ایک کتاب ’’مونس الارواح‘‘ کے نام سے لکھی جس سے جہاں آرا بیگم کے علمی ذوق اور تصوف و معرفت کے علاوہ حضرت خواجہ سے گہری عقیدت و محبت کا پتا چلتا ہے۔
 ٭  شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی متعدد مرتبہ اجمیر حاضر ہوئے ان کا معمول تھا کہ وہ اپنی قیام گاہ سے پیدل درگاہ تک آتے تھے۔ اورنگ زیب نے سلطان محمود کی بنوائی ہوئی مسجد کی توسیع کی۔
 ٭   ۱۶؍ اکتوبر کو والیِ حیدرآباد دکن میر عثمان علی خاں اجمیر آئے اور ایک گیٹ تعمیر کرایا جسے ’نظام گیٹ ‘کہا جاتا ہے۔ اس کی بلندی ۷۰ فٹ اور چوڑائی ۱۶؍ فٹ ہے۔
 ٭   مہاراج گوبند سنگھ نے بھی یہاں حاضری دی اور اپنی کامیابی کی دعا مانگی اور با مراد ہوئے۔
 ٭   لارڈ کرزن سابق وائسرائے ہند نے انگریزی دورِ حکومت میں اجمیر آیا اور اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا کہ : ’’میں نے دیکھا کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے۔‘‘
 ٭   گاندھی جی نے دربارِ خواجہ میں حاضری کے وقت کہا کہ:’’ یہاں آ کر میری روح کو بڑا چین ملا ہے افسوس خواجہ صاحب کی زندگی کو آدرش نہیں بنایا گیا انھوں نے روح کی روشنی کو باقی رکھنے کے لیے جو پیغام دیا اسے کوئی نہیں سنتا۔ انھوں نے سچائی کے ہتھیاروں سے لوگوں کا دل جیت لیا ان کی زندگی عدم تشدد کا صاف مظہر تھی۔‘‘
 ٭   ڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریۂ ہند نے کہا :’’ خواجہ کی زندگی روشنی کا مینار ہ تھی جس نے دور دور تک اجالا پھیلا دیا یہ روشنی دلوں میں اس طرح اتر گئی اور پوری دنیا کو جگمگا دیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔‘‘
 ٭  پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا :’’ ایسے ہی مقدس مقامات سے ہندو مسلم اتحاد کا عملی درس لیا جاسکتا ہے۔
 ٭  اچاریہ ونوبا بھاوے نے کہا:’’ یہ سب سے بڑی محرومی ہو گی کہ ہم اتنی بڑی روحانی شخصیت کی قابلِ تقلید تعلیمات سے فیض یاب نہ ہوسکیں جو اس وقت بھی انسانی ذہن میں خوش گوار انقلاب لاسکتی ہے۔‘‘
 ٭   راجیو گاندھی نے ۲؍ مئی ۱۹۹۱ء کو اجمیر میں حاضری کے وقت کہا کہ :’’اجمیر میں درگاہِ غریب نواز پر آ کر میں نے قلبی سکون محسوس کیا ہے۔
ان بادشاہوں اور سربراہانِ مملکت کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر حسین، اندرا گاندھی، چندر شیکھر، گیانی ذیل سنگھ، واجپائی، وی پی سنگھ، جنرل ارشاد، بے نظیر بھٹو، ٹینکو عبدالرحمان، جنرل پرویز مشرف اور بہت ساری مشہور و معروف شخصیات نے اجمیر میں حاضری دے کر قلبی سکون کی لذت حاصل کی۔
ہمیں چاہیے کہ ہم حضرت خواجہ کی تعلیمات کو اپنائیں یہی ان کی بارگاہ میں سچا خراجِ عقیدت ہو گا۔
٭٭٭



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔