جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیر بے نیام قسط نمبر 10

0 comments
شمشیر بے نیام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ الله کی  تلوارپارٹ 10
داؤد میں اتنی سی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی اور بات کرتا۔وہ آداب بجا لاکر چل پڑا۔خیمے کے دروازے میں جاکر پیچھے دیکھا، خالدؓکی نظریں ابھی تک اسے گھور رہی تھیں۔داؤد نے منہ پھیر لیا لیکن چلا نہیں ، وہیں کھڑا رہا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ خالدؓ کی نظریں اس کی کھوپڑی میں سے گزر کر اس کی آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔وہ خالدؓکی طرف گھوما، اور اچانک اس طرح تیز قدم اٹھائے جیسے خالدؓ پر جھپٹنے لگا ہو۔’’ابنِ ولید!‘‘داؤد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’میں تجھے دھوکا دینے آیا تھا۔‘‘اس نے وردان کی سازش پوری کی پوری بیان کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کل صبح وردان کے دس آدمی کس جگہ گھات میں ہوں گے۔’ تفصیل سے پڑھئے
’کیا تو بتا سکتا ہے؟‘‘خالدؓ نے داؤد سے پوچھا۔’’کہ تو جاتے جاتے رک کیوں گیا اور تو نے یہ سچ کیوں بولا؟‘‘’’سچ کا صلہ لینے کیلئے۔‘‘داؤد نے کہا۔’’مجھے نقد انعام کی ضرورت نہیں۔جس فوج کے سالار کی نظریں انسانوں کے جسموں میں برچھی کی طرح اتر جانے والی ہوں اس فوج کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی……اے عربی سالار!میرا تجربہ اور میری عقل بتاتی ہے کہ فتح تیری ہوگی۔میں صرف اتنا صلہ مانگتا ہوں کہ جب تو ہماری بستیوں پر قبضہ کرلے تو میرے خاندان پر رحم کرنا، اور ان کی عزت کا ان کی جان و مال کا خیال رکھنا۔‘‘ اس نے بتایا کہ اس کا خاندان کون سی بستی میں رہتا ہے۔خالدؓ نے داؤد کو رخصت کر دیا۔داؤد نے واپس جاکر وردان کو بتایا کہ وہ خالدؓکو پیغام دے کر آگیا ہے اور خالدؓمقررہ وقت پر اکیلے آئیں گے۔داؤد نے خالدؓ کی شخصیت سے ایسا تاثر لیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ رومی ہاریں گے اور فتح مسلمانوں کی ہوگی۔اس نے اپنی فوج کے سالارِ اعلیٰ سے جھوٹ بولاکہ خالدؓمقررہ وقت پر آجائیں گے۔صبح طلوع ہوئی۔ابو عبیدہؓ خالدؓکے پاس آئے۔خالدؓ نے انہیں رومی سالار وردان کی سازش بتائی۔
’’وہ دس رومی مجھے قتل کرنے کیلئے گھات میں پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں چاہتا ہوں کہ اکیلا جاکر ان دس آدمیوں کو ختم کردوں۔بڑا اچھا شکار ہے۔‘‘’’نہیں ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’یہ تیرا کام نہیں۔دس آدمیوں کے مقابلے میں تو قتل یا زخمی ہو سکتا ہے۔تو بڑا قیمتی آدمی ہے۔ یوں کر، دس آدمی ایسے چن لے جو بہت ہی بہادر ہوں۔انہیں وہ جگہ بتا کر بھیج دے۔‘‘خالدؓنے دس مجاہدین منتخب کیے اور انہیں بتایا کہ کہاں کہاں جانا اور کیا کرنا ہے۔ان میں ضرار بن الازور بھی تھے۔انہیں ان دس آدمیوں کا کماندار مقررکیا گیا۔
مشہور مؤرخ واقدی نے یہ واقعہ ذرا مختلف بیان کیا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ طے یہ پایا تھا کہ خالدؓ اور وردان کی ملاقات ہوگی۔وردان خالدؓکو دبوچ لے گا۔اور اس کی پکار پر اس کے دس رومی گھات سے نکل کر خالدؓ کو قتل کر دیں گے۔تین اور مؤرخوں نے بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے۔
وردان نے اپنے دس آدمی رات کے آخری پہر کی تاریکی میں گھات لگانے کیلئے بھیج دیئے تھے،خالدؓ نے اپنے دس آدمی اسی وقت کے لگ بھگ بھیج دیئے۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ گذشتہ روز کی ترتیب سے میدانِ جنگ میں کھڑے ہو جائیں اور حملے کیلئے تیار رہیں۔وردان نے مسلمانوں کو جنگی ترتیب میں آتے دیکھ کر جنگی ترتیب میں ہوجانے کا حکم دیااور صبح طلوع ہوتے ہی وہ شاہانہ جنگی لباس میں اس جگہ چلا گیا جہاں اس نے خالدؓ کو ملاقات کیلئے بلایا تھا۔اُدھر سے خالدؓ بھی آگئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔’’او عرب کے بدو!‘‘وردان نے خالدؓ سے کہا۔’’تو اور تیرے لوگ عرب میں بھوکے مرتے ہیں اور تُو قیصرِ روم کی شاہی فوج کے مقابلے میں آگیا ہے؟……او لٹیرے!کیا میں نہیں جانتا کہ تم لوگ وہاں مفلسی کی بد ترین زندگی گزارتے ہو؟‘‘’’او رومی کتے!‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’میں تجھے آخری بار کہتا ہوں اسلام قبول کر لے یا جزیہ ادا کر۔‘‘وردان نے جھپٹ کر خالدؓکو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔’’آؤ، آؤ!‘‘وردان نے اپنے دس آدمیوں کو پکارا جو قریب کہیں چھپے ہوئے تھے۔خالدؓ کم طاقتور تو تھے نہیں لیکن وردان بھی طاقت میں کچھ کم نہ تھا۔خالدؓنے بہت زور لگایا کہ وردان سے ذرا سا آزاد ہو جائیں، تاکہ تلوار نیام سے نکال سکیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔انہوں نے دیکھا کہ دس رومی اپنی فوجی وردی میں ان کی طرف دوڑے آرہے ہیں ۔خالدؓ کو اپناآخری وقت نظر آنے لگا۔انہیں توقع تھی کہ ضرار اور ان کے نو مجاہدین نے گھات والے دس رومیوں کو ختم کر دیا ہوگا مگر وہ دس کے دس زندہ چلے آرہے تھے۔خالدکو خیال آیا کہ ضرار اور ان کے مجاہدین رومیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا بروقت پہنچ نہیں سکے۔رومی جب قریب آئے تو ایک نے خود، زرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی، اور اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔تب خالدؓنے دیکھا کہ یہ تو ضرار ہے۔انہوں نے باقی نو کو قریب سے دیکھا تو وہ ان کے اپنے ہی منتخب کیے ہوئے مجاہدین تھے۔یہ مذاق ضرار بن الازور نے کیا تھا۔انہوں نے گھات میں بیٹھے ہوئے رومیوں کو بڑے اطمینان سے قتل کر دیا تھا پھر ان کی وردیاں اتار کر پہن لیں۔انہیں معلوم تھا کہ وردان پکارے گا۔وہ وردان کی پکار پر نکل آئے۔وردان خوش ہو گیا کہ اس کی سازش کامیاب ہو گئی ہے۔’’پیچھے ہٹ ابنِ ولید!‘‘ضرار نے تلوار نکال کر کہا۔’’یہ میرا شکار ہے۔‘‘اور وہ وردان کی طرف بڑھنے لگے۔’’قسم ہے تجھے اس کی جوکوئی بھی تیرا معبود ہے۔‘‘وردان نے خالدؓسے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے ختم کر اور اس شیطان کو مجھ سے دور رکھ۔‘‘
ضرار نے اپنی ایک دہشت ناک مثال قائم کر رکھی تھی ، وردان نے ضرار کو ذاتی مقابلوں میں رومیوں کو کاٹتے بھی دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ضرار اسے اذیت دے دے کر ماریں گے،اس کیلئے اب بھاگ نکلنا نا ممکن تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اسے جلدی مار دیاجائے۔خالدؓ نے ضرا ر کو اشارہ کیا اور ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ضرار نے اپنی تلوار خالدؓ کو دے دی۔وردان نے دوسری طرف منہ کر لیا، خالدؓکے ایک ہی وار سے وردان کا سر زمین پر جا پڑا۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔فوراًاپنی فوج تک پہنچے اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ حملہ بھی گذشتہ روز کی مانند تھا۔خالدؓنے قلب اور دونوں پہلوؤں کے دستوں کو ایک ہی بار ہلہ بولنے کا حکم دیا۔انہوں نے چار ہزار مجاہدین کا محفوظہ جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، پیچھے رکھا۔مسلمان حملہ کرتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور پھر حملہ کرتے تھے ۔رومی تعداد میں بہت زیادہ تھے لیکن ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں تھا۔اس کی جگہ ان کا سالار قُبقُلار کما ن کر رہا تھا۔رومی جم کر مقابلہ کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کے حملے غضب ناک تھے۔ان کے سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔خود خالدؓ سالارسے سپاہی بن گئے تھے۔رومی سالار لڑا نہیں کرتے بلکہ حکم دیا کرتے تھے۔لیکن اس معرکے میں وہ مسلمان سالاروں کی دیکھا دیکھی سپاہیوں کی طرح لڑنے لگے۔جنگ کی شدت اور خونریزی بڑھتی چلی گئی ۔دونوں طرف کوئی چال نہیں چلی جا رہی تھی۔زیادہ نقصان رومیوں کا ہو رہا تھا، ان کا لشکر تہہ در تہہ تھا۔خالدؓنے یہ سوچ کر اتنا شدید حملہ کرایا تھا کہ دشمن کا سالارِ اعلیٰ مارا جا چکا ہے اور مجاہدین یہ دیکھ کر تابڑ توڑ حملے کرتے تھے کہ رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں پھنس کہ رہ گئے ہیں۔
خالدؓحملے کا اک اور مرحلہ شروع کرنا چاہتے تھے جس کیلئے وہ موزوں موقع دیکھ رہے تھے۔چند گھنٹوں بعد انہیں یہ موقع ملا۔دونوں فوجیں تھک گئی تھیں۔رومیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں۔البتہ دوسرے رومی سالار پورے جوش و خروش سے لڑ بھی رہے تھے اور لڑا بھی رہے تھے۔خالدؓنے چار ہزار نفری کے محفوظہ کو جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دیا۔یہ چار ہزار مجاہدین تازہ دم تھے اور لڑائی میں شریک ہونے کیلئے اتنے بیتاب کہ نعرے لگاتے اور بے قابو ہوئے جاتے تھے۔حکم ملتے ہی وہ رُکے ہوئے سیلاب کی طرح گئے اور اتنا شدید حملہ کیا کہ رومیوں کی صفوں کے اندر تک چلے گئے۔مجاہدین کے سالار رومیوں کے سالار قُبقُلار کو ڈھونڈ رہے تھے۔مرکزی جھنڈا اسی کے پاس تھااور وہ وردان کا قائم مقام تھا۔پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نے وردان سے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کر لیا جائے۔اس کی دور بین نگاہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمان رومیوں پر غالب آجائیں گے۔وردان نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔
مؤرخ طبریاور ابو سعید نے لکھا ہے کہ مجاہدین کو قُبقُلار مل گیا۔اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔وہ سالار لگتا ہی نہیں تھا۔وہ تو جنگ سے لا تعلق کھڑا اس نے اپنے سر پر اس طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی ڈھکی ہوئی تھیں اس کے محافظوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا شاید اس لیے کہ وہ اپنے سپہ سالار کو نیم مردہ سمجھ رہے تھے انہی سے پتا چلا تھا کہ یہ ہے قُبقُلار۔مجاہدین نے اسے اسی حالت میں قتل کر دیا، بعض مؤرخوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ قُبقُلار نے اپنی آنکھوں پر اس لیے کپڑا ڈال رکھا تھا کہ وہ اپنے لشکر کا قتل ِ عام نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی تھی۔رومیوں کا مرکزی پرچم گر پڑا۔ مجاہدین اب یہ نعرے لگا رہے تھے’’خدا کی قسم!ہم نے رومیوں کے دونوں سپہ سالاروں کو قتل کر دیا ہے۔‘‘’’رومیو !تمہارا پرچم کہاں ہے؟‘‘’’شہنشاہ ہرقل کو بلاؤ۔‘‘’’رومیو!تمہاری صلیبیں اور جھنڈے کہاں ہیں؟‘‘مجاہدین ِ اسلام تواپنے اﷲ و رسولﷺ اور ایک عقیدے کی خاطر لڑ رہے تھے لیکن رومی جن کے حکم سے لڑ رہے تھے وہ مارے جا چکے تھے۔ مجاہدین کے پاس ایمان کی قوت تھی، وہ جادو کی طرح رومیوں پر غالب آگئے۔رومی بھاگنے لگے۔ان میں سے کچھ بیت المقدس کی طرف بھاگے جا رہے تھے کچھ غزہ اور بعض یافا کی طرف۔رومیوں کی جنگی طاقت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے خالدؓنے اپنے سوار دستوں کو حکم دیا کہ بھاگتے دشمن کا تعاقب کریں اور کسی کو زندہ نہ چھوڑیں ۔وہ ایک عبرت ناک منظر تھا۔رومی جانیں بچانے کیلئے اِددھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور مسلمان سوار ان کے تعاقب میں جاکر انہیں برچھیوں میں پرو رہے تھے۔ان رومیوں نے اپنی تعداد پر بھروسہ کیا تھا، شراب کے نشے کو وہ اپنی طاقت سمجھے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کوغریب اور نادار سمجھ کر انہیں ایک ایک دینار پیش کیا تھا۔خالدؓ نے انہیں کہا تھا کہ تم سے دینار تو ہم لے ہی لیں گے۔اب ان رومیوں کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی،ان کا میدانِ جنگ میں اتنا نقصان نہیں ہوا تھا جتنا میدانِ جنگ سے بھاگتے وقت ہوا۔ ان میں سے خوش قسمت وہ تھے جو بیت المقدس پہنچ گئے اور شہر میں داخل ہو گئے تھے۔یہ قتل عام اس وقت رُکا جب سورج غروب ہو گیا اور اندھیرا اتنا کہ سواروں کو اپنے گھوڑوں کے سر نظر نہیں آتے تھے۔اس وقت خالدؓ اپنے خیمے میں تھے۔انہیں بتایا گیا کہ داؤد نام کا اک عیسائی عرب ان سے ملنے آیا ہے۔خالدؓ نام سنتے ہی باہر کو دوڑے۔’’خدا کی قسم داؤد!‘‘خالدؓ اسے گلے لگا کر بولے۔’’تو نے میری فتح آسان کر دی ہے۔)بندوں کا شکریہ ادا کرنا بھی اعلیٰ اخلاق کی علامت ہوتی ہے۔(
کوئی بھی انعام کافی نہیں ہو سکتا جو میں تجھے دوں……کہاں ہیں تیرے بیوی بچے؟کسی نے ان پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا؟‘‘’’نہیںابنِ ولید!‘‘داؤد نے کہا۔’’میں کوئی انعام لینے نہیں آیا۔مجھے انعام مل چکا ہے۔دیکھ میں زندہ ہوں اورمیرا سارا خاندان زندہ ہے۔اب ایک انعام مجھے یہ دے کہ یہ راز تیرے سینے میں رہے کہ میں نے تیری کچھ مدد کی تھی۔روم کی شہنشاہی زندہ ہے۔ابھی تو تُو اس شہنشاہی میں داخل ہوا ہے۔‘‘’’تیرا راز قیصرِ روم تک نہیں پہنچے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور خداکی قسم!تو مالِ غنیمت کے حصے کا حقدار ہے۔میں تجھے حصہ دوں گا اور تو جو مانگے گا دوں گا۔‘‘چند روز بعد مدینہ میں عید جیسی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔خالدؓنے امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ کو خط لکھاتھا کہ تین گنا طاقتور رومیوں پر کس طرح فتح حاصل کی گئی ہے، جس میں پچاس ہزاررومی ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے مقابلے میں شہید ہونے والے مجاہدین کی تعدادچار سو پچاس تھی،خالدؓ کا یہ خط پہلے مسجد میں پڑھ کر سنایا گیا۔پھر مدینہ کی گلیوں میں لوگوں کو اکٹھا کرکے سنایا گیا،لوگ ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے لگے۔مدینہ فتح و مسرت کے نعروں سے گونجنے لگا۔خالدؓنے امیر المومنینؓ کو بھی یہی لکھا تھا کہ اب وہ دمشق کو محاصرے میں لیں گے جو شام کا یعنی روم کی شہنشاہی کا بڑا ہی اہم شہر تھا۔روم کی شہنشاہی بہت ہی وسیع تھی۔جب مدینہ اور گردونواح کے لوگوں کو یہ خبر ملی کہ خالدؓ رومیوں پر ایک فتح حاصل کرکے دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کئی مسلمان خالدؓکی فوج میں شامل ہونے کیلئے تیار ہو گئے۔ان میں ابو سفیانؓ بھی تھے جو مشہور شخصیت تھے۔وہ اپنی بیوی ہند کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ایک ہزار تین سو باون سال پہلے ماہ اگست کے ایک روز جب مدینہ میں مسلمان اجنادین کی فتح پر خوشیاں منا رہے تھے ،مدینہ سے دور، بہت ہی دور، شمال میں روم کی شہنشاہی کے ایک اہم شہر حمص پر مایوسی اور ماتم کی سیاہ کالی گھٹا چھا گئی تھی۔رومیوں کے شہنشاہ پرقل کے محل میں قہر اور غضب کی آوازیں گرج رہی تھیں۔بصرہ کی شکست کی خبر لے کر جانے والا قاصد اگر وہاں سے کھسک نہ آتا تو ہرقل غصے میں اس کا سر کاٹ دیتا۔’’ہمارے سپہ سالار وردان کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔’’مارا گیا ہے۔‘‘اسے کانپتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔’’اور وہ قُبقُلار؟……وہ کہتا ہے کہ میری تلوار کی ہوا سے ہی دشمن کٹ جاتا ہے۔‘‘’’وہ بھی مارا گیا ہے۔‘‘’’اورفاموس؟‘‘’’وہ لڑائی سے پہلے ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔
شہنشاہِ ہرقل نے ان تمام سالاروں کے نام لیے جو اجنادین کی لڑائی میں شامل تھے،اور جن کی بہادری اور جنگی قیادت پر اسے بھروسہ تھا۔اسے یہی جواب ملا کہ مارا گیا ہے یا شدید زخمی ہو گیا ہے۔وہ سب ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے تھے۔ان میں سے بعض بھاگ گئے تھے۔’’……اور اب مسلمان دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل کو بتایاگیا۔’’دمشقکی طرف؟‘‘اس نے ہڑبڑا کر کہا۔’’نہیں……نہیں……میں انہیں دمشق تک پہنچنے نہیں دوں گا۔وہ دمشق ہم سے نہیں لے سکتے۔وہاں میرا شیر موجود ہے……تُوما……دمشقکا سالار تُوما ہے۔‘‘ہر قل تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے شاہانہ کمرے میں چل رہا تھا اور اپنی ایک ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے مکے مارے جا رہا تھا۔اس کے خوشامدی، درباریوں ، خاص خادموں اور اس کی خدمت میں حاضر رہنے والی بڑی حسین لڑکیوں کو معلوم تھا کہ جب شہنشاہ پریشانی ، یاسےّت ، اور غصے کی کیفیت میں ہوتا ہے تو سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی شراب پیش کرتی ہے۔ایک لڑکی جو باریک ریشمی لباس میں برہنہ لگتی تھی، چاندی کے پیالے میں شراب لے کر آئی، اور اشتعال انگیز ادا سے ہرقل کے سامنے گئی۔ہرقل بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح پھنکار رہا تھا۔اس نے لڑکی کے ہاتھوں میں طشتری دیکھ کر بڑی زور سے طشتری کے نیچے ہاتھ مارا۔شراب کا پیالہ لڑکی کے منہ پر لگا، طشتری چھت تک جا کر واپس آئی۔ہرقل نے لڑکی کو دھکا دیا تووہ دروازے میں جا پڑی۔’’شراب……شراب……شراب!‘‘ہرقل نے غصے سے کہا۔’’تم نے شراب اور حسین لڑکیوں سے دل بہلانے اور بدمست رہنے والوں کا انجام نہیں دیکھا؟تم نہیں دیکھ رہے وہ سلطنتِ روم کو ذلت و رسوائی میں پھینک رہے ہیں……اور جنہوں نے ہمیں شکست دی ہے انہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی ہے۔اس نے حکم دیا۔گھوڑا تیار کرو۔میں انطاکیہ جارہا ہوں،اور میں اس وقت وہاں سے واپس آؤں گا جب میں آخری مسلمان کی بھی لاش دیکھ لوں گا۔‘‘بادشاہ جنگ کیلئے جب کوچ کرتے تھے تو اس کیلئے بہت سے انتظامات کیے جاتے تھے ۔محافظ دستہ اور بادشاہ کی من پسند عورتیں ساتھ جاتی تھیں۔ایسے انتظامات ہر وقت تیار رہتے تھے۔مگر اب کے ہرقل تو جیسے اُڑ کر انطاکیہ پہنچنے کی کوشش میں تھا۔اس کے کوچ کے انتظامات کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،اور وہ انتظامات میں مصرو ف ہو گئے۔
خالدؓاجنادین میں سات روز رہے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ دشمن کو کہیں سستانے اور دم لینے کی مہلت نہ دو۔اسے اتنی مہلت نہ دو کہ وہ اپنی بکھری ہوئی جمیعت کو اکٹھا کر سکے۔اس اصول کے تحت دمشق کی طرف ان کا کوچ بہت تیز تھا۔انہوں نے اپنے جاسوس پہلے بھیج دیئے تھے۔اب خالدؓ نے جاسوسی کا نظام مزید بہتر بنا دیاتھا۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ قیصرِ روم کی سلطنت بہت وسیع ہے، اور اس کے مطابق اس کی فوج بھی زیادہ ہے اور برتر بھی۔ایسی فوج پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احوال و کوائف کا قبل از وقت معلوم کرنا ضروری تھا،اور اتنا ہی ضروری ان علاقوں کے خدوخال کا جاننا تھا جہاں جہاں اس فوج کے دستے موجود تھے ان کی نقل و حرکت کے متعلق قبل از وقت معلومات حاصل کرنا بھی سودمند تھا۔راستے میں بیت المقدس آتا تھا۔خالدؓ نے اس اہم شہر کو نظر انداز کر دیا اورا س سے کچھ فاصلے سے آگے چلے گئے۔لیکن ایک مقام کو نظر انداز کرنامشکل تھا۔اس بستی کا نام فحل تھا جو ایک مضبوط قلعہ تھا۔خالدؓاس کے قریب پہنچے تو ایک فقیر نے جو پاگل لگتا تھا، خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓبن ولید نے اسے اپنے پاس بلالیا۔’’کیاخبرلائے ہو؟‘‘خالدؓ نے اس سے پوچھا۔وہ خالدؓ کا جاسوس تھا۔’’اس بستی کا نام فحل ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’آپ دیکھ رہے ہیں یہ قلعہ ہے۔اس کے اندر فوج ہے۔باہر کچھ بھی نہیں۔رومیوں سے ہماری جہاں کہیں بھی ٹکر ہو گی، اس قلعے سے رومیوں کو کمک اور دیگر مدد ملے گی۔‘‘خالدؓ نے اس قلعے کا محاصرہ ضروری نہ سمجھا۔وہ اپنی نفری کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔دمشق کی تسخیر کوئی معمولی مہم نہیں تھی۔بلکہ اپنی شکست کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے،خالدؓ نے اپنے ایک نائب سالار ابوالاعور کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ ایک سوار دستہ اپنے ساتھ رکھے اور فحل کے قریب کہیں تیاری کی حالت میں موجودرہے۔یہاں سے فوج باہر نکلے تو تیروں کی بوچھاڑیں مارے اور کسی کو باہر نہ نکلنے دے۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔ابوالاعور نے ایک سوار دستہ وہاں روک لیا اور اس قلعہ بندبستی کے جتنے دروازے تھے ان سب کے سامنے سوار متعین کر دیئے۔سواروں کو گھوڑوں سے اترنے کی اور محدود سے فاصلے تک گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی-
خالدؓ کی فوج جس کی تعداد بتیس ہزار سے کم ہو گئی تھی ،بظاہر بے ترتیب قافلے کی صورت میں دمشق کی جانب جا رہی تھی ، لیکناس کے ہر دستے کو اپنے فرائض کا علم تھا۔ان میں ہراول دستہ بھی تھا اور ان میں عقب اور پہلوؤں کے حفاظتی دستے بھی تھے اور یہ تمام دستے چوکنے ہو کر چلے جارہے تھے،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ان پر حملہ ہو سکتا تھا،داؤد عیسائی نے خالدؓکو خبردار کیا تھا کہ وہ تو ابھی روم کی شہنشاہی میں داخل ہوئے ہیں اور اس شہنشاہی کی حدود بہت وسیع ہیں۔اس وقت تک رومی فوج کے دستے جہاں جہاں تھے وہاں ہرقل کا یہ حکم پہنچ چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج کو روکاجائے۔اس حکم کے تحت دمشق کی طرف جانے والے راستوں پر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج دیئے تھے ۔دریائے یرموک کے کنارے واقوصہ ایک قصبہ تھا۔کسی رومی جاسوس نے خالدؓ کے لشکر کو آتے دیکھ لیااور پیچھے جاکر اطلاع دی۔جب خالدؓ واقوصہ کے قریب پہنچے تو رومی فوج کے بہت سے دستے خالدؓکا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اجنادین کی لڑائی سے بھاگے ہوئے کئی رومی فوجی واقوصہ پہنچ چکے تھے۔انہیں بھی ان دستوں میں شامل کر لیا گیا تھا جو مسلمانوں کو روکنے کیلئے جنگی ترتیب میں کھڑے تھے مگر ان میں لڑنے کا جذبہ سرد تھا۔ کیونکہ ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا،جن کمانداروں اور سپاہیوں نے ابھی مسلمانوں سے جنگ نہیں لڑی تھی ، وہ اجنادین کے بھگوڑوں سے پوچھتے تھے کہ مسلمان لڑنے میں کیسے ہیں؟’’دیکھ لو!‘‘انہیں کچھ اس قسم کے جواب ملے۔’’تیس ہزار نے نوّے ہزار کو اس طرح شکست دی ہے کہ سپہ سالار سے چھوٹے سے سالار تک ایک بھی زندہ نہیں……انہوں نے ہماری آدھی نفری مار ڈالی ہے۔زخمیوں کا کوئی حساب ہی نہیں……مت پوچھو دوستو، مت پوچھو۔ میں تو انہیں انسان سمجھتا ہی نہیں۔ان کے پاس کوئی جادو ہے یا وہ جنات جیسی کوئی مخلوق ہیں……ان کا ایک ایک آدمی دس دس آدمیوں کا مقابلہ کرتا ہے……ان کے سامنے کوئی جم کر لڑ ہی نہیں سکتا……پوچھتے کیا ہو، وہ آرہے ہیں۔خود دیکھ لینا۔‘‘’’وہ‘‘آئے اور ’’انہوں‘‘نے دیکھ لیا۔دیکھ یہ لیا کہ مسلمان جو بے ترتیب قافلے کی طرح آرہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ جنگی ترتیب میں ہو گئے۔عورتیں اور بچے پیچھے رہ گئے،اور ان کا حفاظتی دستہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔خالدؓ اپنے محافظوں وغیرہ کے ساتھ آگے ہو گئے اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خالدؓکی جنگی چالوں کااور مجاہدین کو لڑانے کا انداز ایسا تھا کہ دشمن بوکھلا جاتا پھر مسلمانوں کے حملے کی شدت سے دشمن کے سپاہیوں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ان میں سے جو سپاہی بھاگ نکلتے تھے ، وہ جہاں جاتے اس خوف کو اپنے ساتھ لے جاتے، اور فوج میں پھیلاتے تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلاوجہ نہیں بھاگے، وہ اس خوف کو مبالغے سے اور ایسے طریقے سے بیان کرتے کہ سننے والے یہ سجھ لیتے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے۔اس طرح خالدؓنے دشمن پر ایک نفسیاتی اثر ڈال رکھا تھا جو ہر میدان میں ان کے کام آتا تھا۔
یہ قوت مافوق الفطرت ہی تھی جو عقیدے کی سچائی ، ایمان کی پختگی اور جذبے کی شدت سے پیدا ہوئی تھی۔مسلمان اﷲکے حکم سے لڑتے تھے ، ان کے دلوں میں کوئی ذاتی غرض یا لالچ نہیں تھا۔واقوصہ کے میدان میں جب رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو ان کے انداز میں جوش و خروش تھا اور جارحیت بھی شدید نظر آتی تھی لیکن خالدؓنے جب حملہ کیا تو رومیوں میں لڑنے کا جذبہ اتنا شدید نہ تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔خالدؓنے سامنے سے حملہ کیا اور دونوں پہلوؤں کے کچھ دستوں کو پھیلا کر اس حکم کے ساتھ آگے بڑھایا کہ دشمن کے پہلوؤں کی طرف جاکر حملہ کریں۔مؤرخوں کے مطابق رومی سامنے سے حملے کو روکنے کیلئے ایسی صورت اختیار کر بیٹھے کہ اپنے پہلوؤں کو نہ دیکھ سکے۔ان پر جب دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہوا اور ان کے دائیں بائیں کے دستے مسلمانوں کے دباؤ سے اندر کو سکڑنے اور سمٹنے لگے تو وہ گھبرا گئے،اور ان پر وہ خوف طاری ہو گیا جوخالدؓ کے نام سے منسوب تھا،اس خوف نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ان رومی دستوں کیلئے حکم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکے رکھیں۔وجہ یہ تھی کہ دمشق میں جو رومی فوج تھی اس میں دوسری جگہوں سے دستے بھیج کر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ہرقل ا س کوشش میں تھا کہ اس کے یہ دستے مسلمانوں سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔اس کیلئے ضروری تھا کہ واقوصہ میں مسلمانوں کی فوج کو روک لیا جاتا اور ایسی لڑائی لڑی جاتی جو طول پکڑ جاتی۔ایسی لڑائی کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔خالدؓ نے رومیوں کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔رومی بے شمار لاشیں اور زخمی میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔خالدؓوہاں اتنا ہی رُکے کہ اپنے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر دفن کیا، زخمیوں کو ساتھ لیا،اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا اور چل پڑے۔یہ اگست ۶۳۴ء کا تیسرا ہفتہ )جمادی الآخر ۱۳ ھ(تھا۔
شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ جا پہنچا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔حمص سے انطاکیہ کو روانہ ہونے سے پہلے اس نے دمشق کی رومی فوج کے سالاروں توما، ہربیس، اور عزازیر کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فوراً انطاکیہ پہنچیں ۔ہرقل کے پہنچتے ہی تینوں سالار انطاکیہ پہنچ گئے۔’’کیا تم نے سن لیا ہے کہ تمہارے سالار وردان اور قبقلار بھی مارے جا چکے ہیں؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھی قیصرِ روم کی عظمت کو ذہن سے اتار دو گے؟کیا تمہاری نظروں میں بھی صلیب کا تقدس ختم ہو چکا ہے؟‘‘’’مسلمان ابھی تو ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’ہمیں ابھی نہ آپ نے آزمایا ہے نہ مسلمانوں نے۔انہیں آنے دیں۔میں آپ کی بیٹی کے آگے شرمسار نہیں ہوں گا۔‘‘توما شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھااور وہ دمشق کا سپہ سالار تھا۔بڑا پکا مذہبی آدمی تھا اور اپنے مذہب عیسائیت کے فروغ اور تحفظ کیلئے سرگرم رہتاتھا۔’’توما!‘‘ہرقل نے اسے کہا۔’’تم مذہب میں اتنے مگن رہتے ہو کہ دمشق کے دفاع کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘’’میں تو یہ سمجھتاہوں کہ مذہب نہ رہا تو دمشق بھی نہیں رہے گا۔‘‘توما نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی مذہب میں شامل ہے؟……میں یہاں اکیلا تو نہیں۔جنگی معاملے سالار ہربیس کے پاس ہیں،اور سالار عزازیر بھی میرے ساتھ ہے۔کیا عزازیر فارسیوں کو اور پھر ترکوں کوکئی لڑائیوں میں شکستیں نہیں دے چکا ہے؟‘‘’’جتنا بھروسہ مجھے عزازیر پر ہے اتنا تم دونوں پر نہیں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’عزازیر تجربہ کار سالار ہے۔تم دونوں کوابھی ثابت کرناہے کہ تم عزازیر کے ہم پلہ ہو۔‘‘عزازیر رومیوں کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔اس نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کی تھی،عربی زبان پر اسے اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ عربی بولتا تو شک ہوتا تھا کہ عرب کا رہنے والا ہے۔دمشق کی فوج کا کمانڈر دراصل وہی تھا۔انطاکیہ میں کُلوس نام کا ایک رومی سالار تھا۔اسے ہرقل نے پانچ ہزارنفری کی فوج دے کر دمشق جانے کو کہا۔
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘کُلوس نے کہا۔’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے اس وقت آؤں گا جب میری برچھی کی انّی کے ساتھ مدینہ کے سالار خالد بن ولید کا سر ہوگا۔‘‘’’تم مجھے صرف حلف سے خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں صرف ابنِ ولید کا سر نہیں، تمام مسلمانوں کی لاشیں دیکھناچاہتا ہوں……فوراً دمشق پہنچو۔ وہاں کمک کی ضرورت ہے۔سب چلے جاؤ اور دمشق کو بچاؤ۔‘‘
تمام سالار فوراً روانہ ہو گئے ۔ہرقل کا ایک مشیرِ خاص ہرقل کے پاس موجود رہا۔’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘اس مشیر نے کہا۔’’سالار کُلوس کو دمشق نہ بھیجتے تو اچھا تھا۔اگر اسے بھیجنا ہی تھا تو سالار عزازیر کو دمشق سے نکال لیتے۔‘‘’’کیوں؟‘‘’’کیا شہنشاہ بھول گئے ہیں کہ ان دونوں میں ایسی چپقلش ہے جو دشمنی کی صورت اختیار کر جایا کرتی ہے۔‘‘مشیر نے کہا۔’’ان کی آپس میں بول چال بند ہے……دراصل کُلوس عزازیر کی اچھی شہرت سے حسد کرتا ہے، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ خطرہ محسوس کر رہے ہوکہ وہ لڑائی کے دروان ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہِ روم!‘‘مشیر نے کہا۔’’میں یہی خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’انہیں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مل کرنہ لڑے تو بڑی بُری شکست کھائیں گے،اور وہ مجھے خوش کرنے اور ایک دوسرے کو میری نظروں میں گرانے کیلئے جوش و خروش سے لڑیں گے……اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انہیں یقیناًمعلوم ہو کہ ان کی سزا کیا ہوگی۔‘‘مشیر خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار پہلے سے زیادہ ہو گئے۔خالدؓ کے مجاہدین دمشق کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔رومی سالار عزازیر نے دمشق پہنچتے ہی شہر کے دفاع کو مضبوط بنانا شروع کر دیا۔دمشق کی شہرِ پناہ کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا ایک نام تھا۔عزازیر نے دمشق کو محاصرے سے بچانے کا یہ انتظام کیا کہ زیادہ فوج شہر کے باہر رکھی تاکہ مسلمانوں کو شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔انہیں شہر سے باہر ختم کر دیا جائے۔شہر میں خاص طور پر منتخب کیے ہوئے دستے رکھے گئے۔ان میں ایک محافظ دستہ تھا جسے جانباز دستہ کہا جاتا تھا۔اس ایک میل سے کچھ زیادہ لمبے اور چار فرلانگ چوڑے شہر کی آبادی میں اس خبرنے ہڑبونگ بپاکردی تھی کہ مسلمان شہرکو محاصرے میں لینے آرہے ہیں۔اس خبرسے پہلے مسلمانوں کی دہشت شہر میں داخل ہو چکی تھی۔سالار شہریوں کو بھی شہر کے دفاع کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن شہریوں سے انہیں تعاون نہیں مل رہا تھاشہری تو اپنا مال و دولت اور اپنی جوان لڑکیوں کو چھپاتے پھر رہے تھے۔ان میں سے بعض نے اپنے کنبوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔مجاہدین کا لشکر دمشق سے زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا۔جاسوس جو آگے گئے ہوئے تھے وہ باری باری پیچھے آتے ، رپورٹ دیتے اور پھر آگے چلے جاتے تھے۔اب مجاہدین کی جذباتی کیفیت ایسی تھی جیسے ان کا کوئی گھر نہ ہو، کوئی وطن نہ ہو، بیوی نہ ہو، بچہ نہ ہو، بس اﷲہی اﷲہو، جس کے نام کا وہ ورد کرتے جاتے یا چند مجاہدین مل کرکوئی جنگی ترانہ گاتے تھے۔انہوں نے اپنا رشتہ اﷲکے ساتھ اور رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس کے ساتھ جوڑلیا تھا۔انہوں نے اپنی جانیں اﷲکی قربان گاہ پر رکھ دیں تھیں۔رومیوں کیلئے وہ جسم تھے لیکن اپنے لیے وہ روحیں تھیں، اور اپنے جسموں اور تکالیف اور ضروریات سے وہ بے نیاز ہو گئے تھے-
انہیں تو جیسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اوردشمن کی تعداد کئی گنا ہے۔ان کے سپہ سالار خالدؓ کی جذباتی کیفیت بھی ایسی ہی تھی لیکن تاریخ کے اس عظیم جرنیل کی نگاہ حقائق پر تھی۔وہ سوچتے رہتے تھے کہ اتنی کم نفری کو اتنی زیادہ نفری کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔انہوں نے رومیوں کو دیکھ لیا اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک عمدہ فوج ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشِ نظر رکھا تھا کہ رومی اپنے ملک میں ہیں اور جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں وہ ہمیں نہیں مل سکتیں۔شکست کی صورت میں مسلمانوں کیلئے وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں قید یا قتل ہونا تھا۔ان احوال و کوائف کے پیشِ نظر خالدؓ نے اپنی فوج میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔ایک تو انہوں نے جاسوسی کے انتظامات اور ذرائع کو پہلے سے بہتر بنا کر انہیں منظم کردیا،چند اور تبدیلیوں میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ خالدؓنے ایک سوار دستہ بنایا جس میں چار ہزار منتخب گھوڑ سوار رکھے۔یہ تیز رفتار اور متحرک دستہ تھا۔اسے طلیعہ کہتے تھے۔متحرک سے مراد یہ ہے کہ اس رسالے نے جم کر نہیں بلکہ بھاگتے دوڑتے ، اور اِدھر اُدھر ہو جاتے اور دشمن کو گھما پھرا کر لڑاتے جنگ میں شریک رہنا تھا۔خالدؓ نے اس دستے کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی،دمشق کی جانب کوچ کے دوران یہ سوار دستہ مسلمانوں کے لشکر کے ہراول میں تھا۔کوچ کا چوتھا دن تھا۔ہراول کا یہ سوار دستہ ایک بستی مراج الصفر کے قریب پہنچا تو آگے گئے ہوئے دو جاسوس آئے۔خالدؓ اس دستے کے ساتھ تھے۔جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ تھوڑی دور آگے رومی فوج تیاری کی حالت میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔جاسوسوں کے اندازے کے مطابق وہ مقام دمشق سے بارہ تیرہ میل دور تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس رومی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی،اور اس میں زیادہ تر سوار تھے،اس کے دو سالار تھے،ایک عزازیر اور دوسرا کلوس۔یہ وہی سالار تھے جن کی آپس میں دشمنی تھی۔انہیں دمشق کے سپہ سالارتوما نے اس منصوبے کے تحت بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کو دمشق تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اگر اسے تباہ نہ کیا جا سکے تو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ واپس چلاجائے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اتنی سی کامیابی ہر قیمت پر حاصل کی جائے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دن دمشق سے دور رکھا جائے تاکہ دمشق کے دفاع کیلئے مزید دستے وہاں پہنچائے جا سکیں اور شہر میں اتنی خوراک پہنچا کر جمع کی جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ اجائے تو شہر میں قحط کی صورت پیدا نہ ہو۔خالدؓ کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہراول کا صرف یہ سوار دستہ تھا جس کی نفری چار ہزار تھی۔باقی لشکر ابھی بہت دور تھا۔ہراول کی رفتار تیز تھی۔دشمن کی موجودگی کی اطلاع پر خالدؓ نے رفتار سست کردی۔اس کا ایک مقصد یہ تو تھا کہ پورا لشکر آجائے،اور دوسرا یہ کہ دشمن کے قریب شام کو پہنچیں تاکہ رات کو آرام کیا جاسکے،اور علی الصباح لڑائی شروع کی جائے۔
اگر جاسوس آگے گئے ہوئے نہ ہوتے تو خالدؓ لاعلمی میں چار ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جا پہنچتے۔پھر صورتِ حال ان کے حق میں نہ رہتی۔رومیوں کے اس بارہ ہزار لشکر نے بڑی اچھی جگہ پڑاؤ ڈالاہوا تھا،وہاں ایک وادی تھی جس میں گھنے درخت تھے اور ایک پہاڑی تھی۔رومی اس پہاڑی کے سامنے اور وادی کے منہ میں تھے،انہوں نے لڑائی کیلئے یہ جگہ منتخب کی تھی جو ان کو کئی جنگی فائدے دے سکتی تھی۔مسلمان اس پھندے میں آسکتے تھے۔خالدؓ نے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے دشمن کے سامنے پہنچے۔دشمن سے ان کا فاصلہ ایک میل کے لگ بھگ تھا۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک لیا اور وہیں پڑاؤ کرنے کو کہا۔سورج غروب ہو گیا اس لیے یہ خطرہ نہ رہا کہ دشمن حملہ کردے گا۔جمادی الثانی ۱۳ ہجری کے چاند کی اٹھارہویں تاریخ تھی۔آدھی رات کو چاندنی بڑی صاف تھی۔خالدؓپاپیادہ آگے چلے گئے۔رومیوں کے سوار گشتی سنتری گشت پر تھے۔خالدؓ ان سے بچتے پہاڑی تک گئے۔وہ زمین کے خدوخال کا جائزہ لے رہے تھے۔رات گزرتے ہی انہیں یہاں لڑنا تھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سوار دستے کیلئے بھاگنے دوڑنے کی جگہ ہے یا نہیں۔خالدؓکیلئےپریشانی یہ تھی کہ ان کا لشکر بہت دور تھا۔انہوں نے پیغام تو بھیج دیاتھا کہ رفتار تیز کریں۔پھر بھی لشکر جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اس کی رفتار تو پہلے ہی تیز تھی۔مسلمانوں کا کوچ ہوتا ہی تیز تھا۔۱۹ اگست ۶۳۴ء )۱۹جمادی الثانی ۱۳ ھ(کی صبح طلوع ہوئی۔فجر کی نمازسے فارغ ہوتے ہی خالدؓنے اپنے سوار دستے کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔رومی بھی تیاری میں آگئے۔خالدؓ نے رومیوں کی ترتیب دیکھی تو انہیں شک ہو اکہ رومی حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتے۔خالدؓ بھی پہل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔انہیں اتنا وقت درکار تھا کہ باقی لشکر پہنچ جائے۔خالدؓنے رومیوں کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے اپنے سوار دستے کے ایک حصے کو حملہ کرکے پیچھے یا دائیں بائیں نکل جانے کا حکم دیا،تقریباًایک ہزار گھوڑے سمندری طوفان کی موجوں کی طرح گئے ۔رومیوں نے حملہ روکنے کے بجائے یہ حرکت کی کہ پیچھے ہٹنے لگے۔
مسلمان سوار اس خیال سے آگے نہ گئے کہ دشمن گھیرے میں لے لے گا،ویسے بھی انہیں آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑنی تھی۔وہ جس رفتار سے گئے تھے اسی رفتار سے گھوڑے موڑتے ہوئے دور کا چکر کاٹ کر آگئے۔چند ایک سالار خالدؓکے ساتھ تھے۔سب کو توقع تھی کہ اب رومی حملے کیلئے آئیں گے۔ان کی فوج تین گنا تھی مگر انہوں نے کوئی جوابی حرکت نہیں کی۔’’خدا کی قسم!رومی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’یہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور میں اپنے لشکر کے انتظار میں ہوں۔‘‘’’ان کے ساتھ کھیلو ابنِ ولید!‘‘سالار ضرار بن الازور نے کہا۔’’یہ لڑنا نہیں چاہتے۔ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارا لشکر ابھی دور ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ بھی سوچ ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’کیا یہ چوکس نہیں کہ ہمارا لشکر شاید کسی اور طرف سے ان پر حملہ کر دے گا؟‘‘’’میں ان کا دھیان پھیر دیتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔رومیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کیلئے خالدؓ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دشمن کو انفرادی مقابلوں کیلئے للکارا۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دور میں جب فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی سامنے آتا اور ان میں انفرادی لڑائی ہوتی تھی۔خالدؓنے ضرار بن الازور، شرجیلؓ بن حسنہ اور امیرالمومنین ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کو مقابلے کیلئے آگے کیا۔یہ تینوں سالار تھے۔وہ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر گھوڑے دوڑانے اور دشمن کو للکارنے لگے۔رومیوں کی صفوں سے تین سوار نکلے۔وہ بھی سالاری کے رتبے کے آدمی تھے۔رومی جنگجو قوم تھی۔اس قوم نے تاریخ ساز تیغ زن اور شہسوار پیدا کیے ہیں۔خالدؓ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں جو رومی نکلے وہ زبردست لڑاکے تھے۔کھلے میدان میں مقابلے شروع ہو گئے۔یہ تین جوڑیوں کامقابلہ تھا۔تینوں جوڑ الگ ہو گئے۔گھوڑے دوڑ رہے تھے گھوم رہے تھے،اور برچھیوں سے برچھیاں ٹکرا رہی تھیں۔دونوں فوجوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔گھوڑے اپنی اُڑائی ہوئی گرد میں چھپتے جا رہے تھے ۔پھر گرد سے ایک گھوڑا نکلا۔اس کا سوار ایک طرف لڑھک گیا تھا۔گھوڑا بے لگام ہو کر اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔وہ ایک رومی سالار تھا جو بڑا گہرا زخم کھا کر گھوڑے سے گر رہا تھا۔رومیوں کی صفوں سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا نکلا اور گرتے ہوئے سوار کے پیچھے گیا۔اس نے گھوڑے کے سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر کردیا لیکن وہ مر چکا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور رومی سوار گرا پھر تیسرا بھی گر پڑا،تینوں رومی مارے گئے۔ضرار بن الازور کا انداز وہی تھا کہ مقابلے میں اترتے ہی انہوں نے خود، زِرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔مقابلہ ختم ہوا تو تین رومیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے دور دور پڑی تھیں۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن رومیون کی اگلی صف کے قریب جا کر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے۔
’’رومیو!یہ لاشیں اٹھاؤ۔آگے آؤ بزدلو!‘‘’’ہے کوئی اور موت کا طلبگار!‘‘’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں۔‘‘’’رومیو!یہ زمین تم پر تنگ ہو گئی ہے۔‘‘ادھر مجاہدینِ اسلام نے وہ شوروغل بپا کر رکھا تھا کہ آسمان ہلنے لگتا تھا۔ایک اور آدمی گھوڑا دوڑاتا میدان میں آیااور اس نے تلوار لہرا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس کی طرف گئے تو ضرار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چلّائے۔’’پیچھے رہ ابی بکر کے بیٹے!اسے میرے لیے چھوڑ دے۔‘‘وہ عبدالرحمٰن کے قریب سے گزر گئے۔رومی نے گھوڑا ان کی طرف موڑا لیکن ضرار نے اس کے گھوڑے کو پوری طرح سے مڑنے بھی نہیں دیا،انہوں نے تلوار کی نوک رومی کے پہلو میں اتاردی۔لیکن اتنی نہیں کہ وہ گر پڑتا۔ضرا ر نے اسے مقابلے کا موقع دیاتھا۔اس نے مقابلہ کیا لیکن اس کا دم خم پہلے زخم سے ہی ختم ہو چکا تھا۔ضرار اس کے ساتھ کھیلتے رہے آخر ایسا بھرپوروار کیا کہ وہ گھوڑے پر دُہرا ہوا اور پھر لڑھک کے نیچے آپڑا۔مدینہ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں چند اور رومی آئے اور مارے گئے۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ رومیوں کی اگلی صف کے قریب جاکر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے تھے بلکہ کوئی رومی صف سے آگے ہوکر ان کی طنزیہ للکار کا جواب دیتا تو وہ ان تینوں میں سے جس کے سامنے ہوتا اسے برچھی یا تلوار سے ختم کر دیتا۔اس طرح انہوں نے چند ایک رومیوں کو بھی زخمی کیا اور قتل بھی۔خالدؓ پہلے تو تماشہ دیکھتے رہے پھر وہ جوش میں آگئے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے۔’’پیچھے آجاؤ تم تینوں!‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہااور میدان میں گھوڑا دوڑانے لگے۔ان کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔مؤرخوں نے ان کی للکار کے الفاظ لکھے ہیں۔’’میں اسلام کا ستون ہوں۔‘‘’’میں اﷲکے رسولﷺ کا صحابی ہوں۔‘‘’’میں خالد بن ولید ہوں۔‘‘’’میں اپنی فوج کا سپہ سالار ہوں۔میرے مقابلے میں سپہ سالار آئے۔‘‘واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رومی سالاروں عزازیر اور کلوس کے درمیان چپقلش تھی۔جب خالدؓنے کہا کہ ان کے مقابلے میں سپہ سالار آئے تو رومی سالار عزازیر نے اپنے ساتھی سالار کلوس کی طرف دیکھا اور کہا کہ کلوس اپنے آپ کو سپہ سالار سمجھتاہے،میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں،کلوس یہ سن کر خاموش رہا اور مقابلے کیلئے آگے بھی نہ بڑھا۔’’ہمارا سالار کلوس ڈر گیا ہے۔‘‘عزازیر نے طنزیہ کہا۔اس نے کلوس کو کچھ اور طعنے بھی دیئے۔کلوس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓکے مقابلے میں ہچکچا رہا ہے۔لیکن عزازیر اس پر طعنوں کے تیر چلا رہا تھا۔ان سے تنگ آکر کلوس نے گھوڑا بڑھایا اور خالدؓکی طرف گیا۔
چار مؤرخوں نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ خالدؓ کے ہاتھ میں برچھی تھی۔کلوس ان کی طرف آیا تو اس کا انداز حملے والا نہیں تھا اور اس نے خالدؓ کو کچھ ایسا اشارہ کیا تھا جیسے کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔خالدؓ نے اس کے اشارے کی پرواہ نہیں کی، دشمن کا دوستانہ اشارہ دھوکا بھی ہو سکتا تھا۔ خالدؓنے اپنا گھوڑا اس کی طرف دوڑایا اور اس پر برچھی کا وار کیا۔کلوس تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے اپنے آپ کو اس وار سے صاف بچا لیا۔خالدؓ نے آگے جا کر گھوڑا موڑا اور کلوس پر دوسرے حملے کیلئے گئے۔اب کہ انہوں نے سنبھل کر کلوس کو برچھی ماری۔کلوس نے اب پھر ان کا وار بیکار کر دیا۔خالدؓنے برچھی پھینک دی۔کلوس نے دیکھا کہ اب خالدؓ خالی ہاتھ آرہے ہیں۔تو اس نے تلوار تانی۔خالدؓ نے گھوڑ اس کی طرف لیا اور گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا،اسے فوراً روک کر موڑا اور کلوس پرآئے۔کلوس نے گھوڑا موڑا وہ بہتر پوزیشن میں آکروار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن خالدؓنے پیچھے سے آکر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑے سے گرا دیا۔انہوں نے گھوڑے سے کود کر کلوس کو دبوچ لیاکلوس زمین پر پڑا تھا۔اس نے اٹھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہ کی۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کو پکارا کہ آئیں ۔دو تین محافظ دوڑے گئے۔خالدؓنے انہیں کہا کہ کلوس کو قیدی بنا لیں۔اس طرح کلوس مرنے سے بچ گیا اور قیدی بن گیا۔جب کلوس کو قیدی بنا کر خالدؓکے محافظ لے گئے تواسے پیچھے لے جانے کے بجائے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔تاکہ رومی اسے دیکھتے رہیں۔خالدؓ پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے،اور گھوڑا چکر میں دوڑاتے اور رومیوں کو للکارتے تھے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔کلوس کا گھوڑا ایک جگہ رُک گیا تھا ۔خالدؓکے اشارے پر ان کا ایک محافظ کلوس کا گھوڑا پکڑ لایا۔خالدؓ کی للکار کے جواب میں اب رومی سالار عزازیر سامنے آیا۔’’او کلوس!‘‘سالار عزازیر نے خالدؓکو للکارنے کے بجائے اپنے ساتھی سالار کلوس کو للکار کر طعنہ دیا۔’’دیکھ لے اپنا انجام بزدل کمینے!تو مجھے رسوا کر رہا تھا۔اب میری تلوار کا کمال دیکھ۔‘‘اس نے خالدؓ پر حملہ کرنے کے بجائے گھوڑا عام چال سے خالدؓ کی طرف بڑھایا،اور خالدؓ سے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’عربی بھائی!میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔میرے قریب آجا۔‘‘’’او اﷲکے دشمن!‘‘خالدؓ نے اس کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے قریب گیا تو تیرا سر تیرے جسم کے ساتھ نہیں رہے گا۔تو ہی آجا۔‘‘عزازیر نے تلوار نکالی اور خالدؓ کی طرف آیالیکن وہ ہنس رہا تھا جیسے خالدؓ کو کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔وہ خالدؓ سے کچھ دور رک گیا۔’’عربی بھائی!‘‘اس نے کہا۔’’تجھے میرے مقابلے میں آنے کیلئے کس نے کہا ہے؟کیا تو نے سوچا نہیں کہ تو میرے ہاتھوں مارا جائے گا تو تیرے ساتھی سالار تیرے بغیر کیاکریں گے-
’’اﷲسے دشمنی رکھنے والے رومی!‘‘خالدؓنے کہا۔’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میرے ساتھیوں نے کیا کردکھایا ہے؟انہیں اگر میری اجازت ہوتی تو یہ تیرے اس سارے لشکر کو اسی طرح کاٹ دیتے جس طرح تیرے یہ ساتھی کٹے ہوئے مردہ پڑے ہیں۔میرے ساتھی آخرت سے محبت کرتے ہیں۔یہ
دنیا اور یہ زندگی تو ان کیلئے کچھ بھی نہیں……تو ہے کون؟میں تجھے نہیں جانتا۔‘‘’’او بد قسمت عربی!‘‘عزازیر نے خالدؓ کا مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔’’میں اس ملک کا جابر سالار ہوں میں تیرے لیے قہر ہوں۔میں فارسیوں کے لشکر کا قاتل ہوں۔ترکوں کے لشکر کو برباد کرنے والا ہوں۔‘‘’’میں تیرا نام پوچھ رہا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں موت کا فرشتہ ہوں۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’میرا نام عزازیر ہے لیکن میں عزرائیل ہوں۔‘‘’’خد اکی قسم !جس موت کا تو فرشتہ ہے وہ موت تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تجھے جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں پہنچائے گی۔‘‘عزازیر کو خالدؓکے اس طنز پر بھڑک اٹھنا چاہیے تھا۔لیکن اس نے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا۔’’میرے عربی بھائی!‘‘اس نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کلوس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے جو تیری قید میں ہے؟‘‘’’وہ دیکھ رومی سالار!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’تیرا سالار بندھا ہوا ہے۔‘‘عزازیر کا رویہ اور لہجہ اور زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔’’کیا وجہ ہے کہ تونے ابھی تک اسے قتل نہیں کیا؟‘‘عزازیر نے کہا۔’’تو نہیں جانتا کہ رومیوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ عیار اور شیطان ہے تو وہ کلوس ہے……تو اسے قتل کیوں نہیں کرتا؟‘‘’’کوئی وجہ نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’صرف یہ ارادہ ہے کہ تم دونوں کو اکٹھا قتل کروں گا۔‘‘ان دونوں رومی سالاروں کی آپس میں دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ خالدؓ کی کسی بات پر بھڑکتا ہی نہیں تھا۔’’میری ایک بات پر کان دھر عربی سالار!‘‘عزازیر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔’’اگر تو کلوس کومیرے سامنے قتل کر دے تو میں تجھے ایک ہزار دینار، دس قبائیں ریشم کی اور اعلیٰ نسل کے پانچ گھوڑے دوں گا۔‘‘’’او روم کے جابر سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ سب تو مجھے کلوس کو قتل کرنے کا انعام دے رہا ہے ، یہ بتا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کیلئے تو مجھے کیا دے گا؟اپنی جان کی قیمت بتا دے؟‘‘’’تو ہی بتا۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا لے گا؟‘‘’’جزیہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر نہیں تو اسلام قبول کرلے۔‘‘اب عزازیر بھڑکا۔’’آعرب ے بدو!‘‘عزازیر نے کہا۔’’اب میرا وار دیکھ۔ہم عظمت کی طرف جاتے ہیں۔تو ذلت میں جاتا ہے۔آ، اپنے آپ کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا۔‘‘
اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور خالدؓ پر حملہ کرنے کیلئے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔خالدؓ اس سے تیز نکلے۔انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔عزازیر ان کے قریب ہی تھا۔خالدؓ نے تلوار کا وار کیا جو عزازیر نے پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر بے کار کر دیا۔اس کے بعد خالدؓ نے ہر طرف سے آکر اس رومی سالار پر وار کیے مگر وہ بڑی پھرتی سے اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتا رہا۔اس نے بعض وار اپنی تلوار پر روکے۔مؤرخ واقدی نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے خالدؓ اور عزازیر کے مقابلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔عزازیر وار روکتا تھا اور وار کرتا نہیں تھا۔رومی لشکر سے تو دادوتحسین کا شور اٹھ ہی رہا تھا ۔مسلمانوں نے بھی عزازیر کی پھرتی کی داددی۔خالدؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔’’اے عرب کے سالار!‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا میں تجھے قتل نہیں کر سکتا؟……میں تجھے زندہ پکڑوں گا اور تجھ سے یہ شرط منواؤں گا کہ تو جدھر سے آیا ہے ،اپنے لشکر کے ساتھ اُدھر ہی چلاجائے۔‘‘’’خداکی قسم!اب تو میرے ہاتھوں زندہ گرفتارہوگا۔‘‘خالدؓ نے بھڑک کر کہا اور اس پر جھپٹے۔عزازیر نے گھوڑے کو تیزی سے موڑااور بھاگ نکلا۔خالدؓ نے گھوڑا س کے پیچھے ڈال دیا۔عزازیرنے گھوڑا تیز کر دیااور دونوں فوجوں کے درمیان چکر میں گھوڑا دوڑانے لگا۔اب مسلمانوں کالشکر نعرے لگانے لگا۔خالدؓ اس کے تعاقب میں رہے۔عزازیر اپنا گھوڑا ذرا آہستہ کرلیتا اور جب خالدؓ اس تک پہنچتے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔اس دوڑ اور تعاقب میں بہت سا وقت گزر گیا۔خالدؓ کا گھوڑا سست پڑنے لگا اور اس کا پسینہ پھوٹ آیا۔عزازیر کا گھوڑا خالدؓ کے گھوڑے سے بہتر اور زیادہ طاقتور تھا،عزازیر نے دیکھ لیا کہ خالدؓ کا گھوڑا رہ گیا ہے اس نے اپنا گھوڑا گھمایا اور خالدؓ کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔’’او عربی!‘‘عزازیر نے للکار کر کہا۔’’تو سمجھتا ہے میں تیرے ڈر سے بھاگ اٹھا ہوں۔میں تجھے کچھ دیر اور زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔میں تیری روح نکالنے والا فرشتہ ہوں۔‘‘خالدؓنے دیکھا کہ ان کا گھوڑا عزازیر کے گھوڑے کاساتھ نہیں دے سکتا تو وہ اپنے گھوڑے سے کود کر اُترے۔ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔عزازیر نے خالدؓکو آسان شکار سمجھا،اور ان پر گھوڑا دوڑا دیا۔خالدؓ کھڑے رہے۔عزازیر قریب آیا تو اس نے گھوڑے سے جھک کر خالدؓ پر وار کیا۔خالدؓ بچتے نظر نہیں آتے تھے،لیکن انہوں نے سر نیچے کرکے وار کو بیکارکر دیا۔عزازیر گھوڑے کو گھما کر آیا۔خالدؓ پہلے کی طرح کھڑے رہے۔اب کے پھر عزازیر نے اُن پر وار کیا،خالدؓ نے نہ صرف یہ کہ جھک کر اپنے آپ کو بچا لیا،بلکہ دشمن کے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسی تلوار ماری کہ گھوڑے کی ایک ٹانگ کٹ گئی،اور دوسری گھوڑے کے بوجھ کے نیچے دوہری ہو گئی۔گھوڑا گرااور عزازیر گھوڑے کے آگے جا پڑا۔وہ بڑی تیزی سے اٹھا لیکن خالدؓنے اسے پوری طرح اٹھنے نہ دیا۔تلوار پھینک کر اسے دبوچ لیا اور اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔اسے پھر اٹھایا اور پہلے سے زیادہ زور سے پٹخا۔عزازیر کو اس خوف نے بے جان کر دیا کہ خالدؓ اسے مار ڈالیں گے لیکن خالدؓ نے اسے گھسیٹا اور اسی طرح اپنے لشکر کی طرف لے گئے اور کلوس کے پا س جا کھڑا کیا۔’’یہ لے!‘‘خالدؓنے اسے کہا۔’’اپنے دوست کلوس سے مل۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا کہ عزازیر کو بھی باندھ دیا جائے۔
ادھر اﷲنے دشمن کے دو سپہ سالار مسلمانوں کو دے دیئے اُدھر شور اٹھا کہ باقی لشکر آگیا ہے۔خالدؓ اپنے اسی لشکر کے انتظار میں تھے اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لشکر کے ساتھ تاریخ اسلام کے دو عظیم سالار تھے۔عمروؓ بن العاص اور ابو عبیدھؓ۔
خالدؓ نے ذرا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کیا۔چار ہزار جانباز سواروں کے دستے طلیعہ کو اپنی کمان میں رکھا اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے برابر تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔رومیوں نے مقابلہ تو کیا لیکن ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی، وہ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ان کا حوصلہ اور جذبہ تو اسی ایک وجہ سے ٹوٹ گیا تھاکہ ان کے دو سپہ سالار مسلمانوں کی قید میں تھے،اور باقی سالار انفرادی مقابلوں میں مارے جاچکے تھے۔اس رومی فوج میں پہلی جنگوں سے بھاگے ہوئے آدمی بھی تھے۔ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو قہر اورغضب سے لڑتے اور اپنے ساتھیوں کو کٹتے دیکھا تھا۔انہوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا اور پیچھے ہٹتے گئے۔انہیں لڑانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔مسلمانوں نے انہیں پسپائی سے روکنے کیلئے ان کے عقب میں جانے کی کوشش کی لیکن پیچھے درختوں سے اٹی ہوئی وادی تھی جس میں وہ غائب ہوتے جا رہے تھے۔ان کی پیٹھ کے پیچھے دمشق تھا جو قلعہ بند شہر تھا۔فاصلہ بارہ میل تھا۔یہ رومیوں کیلئے ایک کشش تھی۔پناہ قریب ہی تھی۔چنانچہ وہ فرداً فرداً درختوں کے جھنڈ میں سے گزرتے دمشق کی طرف بھاگ رہے تھے۔رومی ایسی بری طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے تھے کہ میدانِ جنگ ان کی لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے اَٹ گیا۔دوڑتے گھوڑے اور پیادے انہیں کچل رہے تھے۔رومیوں نے اپنے پہلوؤں کے دستوں کو عام پسپائی کیلئے کہہ دیا۔مسلمانوں نے تعاقب نہ کیا کیونکہ خالدؓ اپنی نفری کو بچانا چاہتے تھے۔وہ بڑے کوچ کے تھکے ہوئے بھی تھے۔بچے کچھے رومی دمشق پہنچ گئے اور شہر کے اردگرد دیوار نے انہیں پناہ میں لے لیا۔مسلمانوں نے مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔عورتوں نے زخمیوں کو اٹھایااور انہیں مرہم پٹی کیلئے پیچھے لے گئیں۔شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور انہیں الگ الگ قبروں میں دفن کیا گیا۔خالدؓ نے رات وہیں گزارنے کا حکم دیااور تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں بتایا کہ دمشق کے محاصرے کو کامیاب کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ دمشق کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی جائے تاکہ دشمن اپنے دمشق کے دستوں کو کمک اور رسد نہ پہنچا سکے۔خالدؓ نے فحل کے قلعے کے قریب پہلے ہی ایک گھوڑ سوار دستہ چھوڑ دیا تھا۔وہاں سے امداد آنے کی توقع تھی۔خالدؓ نے دو گھوڑ سوار دستے دو مقامات پر بھیج دیئے۔ان کیلئے حکم تھا کہ ان راستوں سے کمک آئے تو اس پر حملہ کردیں۔۲۰ اگست ۶۳۴ء )۲۰ جمادی الآخر ۱۳ھ(خالدؓ نے دمشق پہنچ کر اس شہر کو محاصرے میں لے لیا۔دمشق کے اندر جو رومی فوج تھی اس کی تعداد سولہ ہزار کے لگ بھگ تھی،خالدؓ کے لشکر میں بیس ہزار مجاہدین تھے۔شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے تعداد اتنی کم رہ گئی تھی۔
کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیں دیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کی گردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومی فوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا-
کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازےتھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیں دیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کی گردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومی فوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا۔
مسلمانوں کیلئے بھی شام میں فاتحانہ داخلہ اور دمشق کا محاصرہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ایک تو نفری دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی جو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے کم سے کم ہوتی چلی جا رہی تھی ، دوسرے اپنے وطن سے دوری۔ پسپائی کی صورت میں ان کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں مل سکتا تھا۔مختلف ادوار کے جنگی مبصروں اور وقائع نگاروں نے لکھاہے کہ خالدؓ کے لشکر نے جس کی نفری ہمیشہ خطرناک حد تک کم رہی ہے۔تاریخ نویسوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اگر جنگی مہارت اور قیادت کی بات کی جائے تو سرِ فہرست دو فوجیں آتی ہیں۔ایک قیصرِ روم کی فوج دوسری کسریٰ کی فوج۔یہ دونوں فوجیں عسکری اہلیت اور قیادت کی وجہ سے مشہور تھیں۔بیشک خالدؓکی جنگی قیادت ، تیز رفتار نقل و حرکت اور میدانِ جنگ میں چالوں کا مقابلہ کم ہی سالار کر سکتے تھے لیکن عقیدے کی سچائی اور جذبے کی شدت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گھروں اور اہلِ و عیال سے اتنی لمبی جدائی سپاہیوں کے جذبے کو کمزور کر دیا کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی فوج میں ایسی کمزوری دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔اس کیفیت کو مبصروں نے عقیدے اورجذبے کا کرشمہ کہا ہے۔’’میرے عزیر رفیقو!‘‘خالدؓنےاپنے سالاروں سے دمشق کے مضافات میں کہیں کہا۔’’سوچو ہم کہاں تھے اورد یکھو ہم کہاں ہیں۔کیا اب بھی کفار اﷲکو وحدہ لا شریک نہیں مانیں گے اور کیا وہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اﷲنے ہمارے قبیلے کو رسالت عطاکی ہے جو برحق ہے اور کوئی دلیل اسے جھٹلا نہیں سکتی؟……اور تم اﷲ کا شکر ادا نہیں کرو گے جس نے تمہیں اتنے طاقتور دشمن پر فتح دی ہے ؟کوئی شمار نہیں اس کی رحمتوں کا لیکن ان کیلئے جو اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔‘‘’’بیشک، بیشک!‘‘کئی آوازیں سنائی دیں۔’’اور اے برہنہ جنگجو!‘‘خالدؓنےضرار بن الازور سے جو خود، زرہ اور قمیض اتارکر لڑا کرتے تھے ، کہا۔’’خدا کی قسم!تو اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو ایک دن تو ہی نہیں ہم سب افسوس کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’ولید کے بیٹے!‘‘ضرار نے کہا۔’’دینِ اسلام کے دشمن کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا لیکن اس میں کوتاہی نہیں کروں گا کہ تیرے ہر حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے۔‘‘
ضرار بن الازور کے بولنے کا انداز اتنا شگفتہ تھا کہ سب ہنس پڑے۔خالدؓ کے ہونٹوں پر جانفزا مسکراہٹ آ گئی۔انطاکیہ کی فضاء ہنسی اور مسکراہٹوں سے محروم ہو گئی تھی۔اس شہر کو رومی شہنشاہ ہرقل نے اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔اسے جنگ کی جو خبریں روز بروز مل رہی تھیں ان سے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت ویسی ہی ہو گئی تھی جو مدائن میں شہنشاہ اُردشیر کی ہوئی تھی،اور صرف شکست کی خبریں سن سن کروہ صدمے سے مر گیا تھا۔مرج الصفر میں رومیوں کو جو شکست ہوئی تھی اس نے تو ہرقل کو باؤلا کر دیاتھا۔پھر اسے اپنے سالاروں کے مارے جانے کی اطلاعیں ملنے لگیں۔’’عزازیر زندہ ہے۔‘‘ہرقل نے بڑے جوش سے کہا۔’’کلوس ہے……یہ دونوں عرب کے ان بدوؤں کو دمشق تک نہیں پہنچنے دیں گے۔‘‘’’شہنشاہِ معظم!‘‘محاذسے آئے ہوئے قاصد نے کہا۔’’وہ دونوں زندہ نہیں۔‘‘’’کیا تم مجھ سے یہ جھوٹ منوانا چاہتے ہو؟‘‘ہرقل نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’کیا تم جھوٹ کی سزا سے واقف نہیں؟‘‘’’سب کچھ جانتے ہوئے یہ خبر سنا رہا ہوں شہنشاہِ معظم!‘‘ قاصد نے کہا۔’’ان دونوں کو مسلمانوں نے زندہ پکڑ لیا تھا اور دونوں کو انہوں نے دمشق کی شہرِ پناہ کے قریب لاکر قتل کر دیا ہے۔‘‘’’اور میری بیٹی کے خاوند کی کیا خبر ہے؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے اپنے داماد سالار توما کے بارے میں قاصد سے پوچھا۔’’سالار توما دمشق کے اندر ہیں۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’اور محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘’’دمشق کا محاصرہ ہم توڑیں گے۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔ہرقل نے انطاکیہ میں اسی لیے ڈیرے ڈالے تھے کہ فوج تیار کرکے جہاں بھی کمک کی ضرورت ہو گی وہاں فوج بھیجے گا۔اس نے پہلے ہی لوگوں کو فوج بھی بھرتی ہونے کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔گرجوں میں پادری صرف اس موضوع پر وعظ کرتے تھے کہ لوگوں کا فوج میں بھرتی ہونا کتناضروری ہے۔وہ کہتے تھے کہ عیسائیت کاخاتمہ ہو جائے گا۔اور وہ اسلام سے لوگوں کو خوفزد کرتے تھے۔خالدؓ جب دمشق کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ہرقل نے اعلان کیاتھا کہ جو فوج تیار ہو ئی ہے وہ اس کے معائنے اور احکام کیلئے اسے دکھائی جائے۔یہ فوج اس کے سامنے لائی گئی تو اس نے ایسے جوشیلے اور جذباتی انداز سے فوج سے خطاب کیا کہ سپاہی آگ بگولا ہو گئے۔’’تمہیں کوئی شہنشاہ حکم نہیں دے رہا۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔’’یہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے کہ اس کے دشمنوں کو تباہ کر دو۔صلیب کی آن پر مر مٹو۔میں آج شہنشاہ نہیں ، تم جیسا ایک سپاہی ہوں۔‘‘
۹ستمبر ۶۳۴ء )۱۰ رجب ۱۳ ھ( کا دن تھا۔دمشق کے محاصرے کا گیارہواں دن تھا محاصرے کے دس روز یہ سرگرمی رہی کہ دمشق کے کسی نہ کسی دروازے سے رومیوں کے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن زیادہ آگے نہ آتے۔مختصر سی جھڑپ لے کر قلعے میں واپس جانے کی کرتے۔خالدؓنے ابھی قلعے پر کسی بھی قسم کا ہلہ نہیں بولا تھا۔خالدؓ نے دیکھ بھال کیلئے ہر طرف جاسوس بھیج رکھے تھے۔محاصرے کے گیارہویں روز ایک جاسوس اس حالت میں خالدؓ کے پاس آیا کہ اس کا گھوڑا پسینے میں نہایا ہوا تھا اور جب گھوڑا رکا تو کانپ رہا تھا۔سوار کی اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی،اس سے اچھی طرح بولابھی نہیں جاتا تھا،خالدؓنے پہلے تو اسے پانی پلایا پھر پوچھا کہ وہ کیا خبرلایا ہے۔’’رومیوں کی ایک فوج آرہی ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس ہزار سے زیادہ ہوگی ،کم نہیں۔‘‘’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’حمص سے آگے نکل آئی ہے۔‘‘جاسوس نے جواب دیااور ایک جگہ کا نام لے کر کہا۔’’ہمارا اک دستہ وہاں موجود ہے۔رومی فوج کل کسی بھی وقت وہاں تک پہنچ جائے گی۔ہمارے دستے کی نفری اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔اسی لیے میں کہیں ایک ثانیہ بھی نہیں رُکا۔ہمارا دستہ مارا جائے گا اور رومی دمشق تک آجائیں گے۔‘‘خالدؓنے جاسوس کو رخصت کردیا۔ان کیلئے یہ خبر حیران کن بھی نہیں تھی، پریشان کن بھی نہیں تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ہرقل انطاکیہ میں ہے اور وہاں وہ آرام اور سکون سے نہیں بیٹھا ہوا بلکہ وہ دمشق کو بچانے کے انتظامات کر رہا ہے۔یہ رومی فوج جس کی اطلاع ایک جاسوس لایا تھا، انطاکیہ سے شہنشاہِ ہرقل نے اپنی دمشق والی فوج کیلئے کمک کے طور پربھیجی تھی۔مؤرخوں نے اس کی تعداد بارہ ہزار لکھی ہے۔خالدؓنے اسی توقع پر کہ رومیوں کی کمک آئے گی، دمشق کی طرف آنے والے راستوں پر پہلے سے ہی تھوڑی تھوڑی نفری کا ایک ایک دستہ بھیج دیا تھا۔ان کے سپرد یہ کام تھا کہ کمک کو روکے رکھیں مگر یہ جو فوج آرہی تھی اس کی نفری بہت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اسی وقت سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ دشمن کی زیادہ نفری آرہی ہے اور اسے روکنے کیلئے اپنی نفری بہت تھوڑی ہے۔
’’رومیوں کی اس کمک کو روکنا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنی نفری جو اس کے راستے میں موجود ہے اسے جانینقصان سے بچانا ہے۔ہمیں محاصرے کو ذرا کمزور کرنا پڑا گا۔‘‘’’اس کمی کو ہم اپنے جذبے سے پورا کرلیں گے۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید!تو جتنی نفری کافی سمجھتاہے ، یہاں سے نکال کے بھیج دے۔‘‘’’پانچ ہزار سوار کافی ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’رومیوں کی نفری دس ہزار سے زیادہ ہے۔‘‘’’بہت ہے۔‘‘ضرار بن الازورنے کہا۔’’اور مجھے یقین ہے ابنِ ولید! تو مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ان پانچ ہزار سواروں کا سالار میں ہوں گا۔‘‘’’تیری خواہش کو میں رد نہیں کروں گا ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’لیکن احتیاط کرنا کہ جوش میں آکر دشمن کی صفوں میں نہ گھس جانا، اگر ایسا ضروری ہو جائے تو تجھے پیچھے نہیں رہنا چاہیے……اور یہ بھی سن لے ابن الازور!اگر تو نے دیکھا کہ تو دشمن کو سنبھال نہیں سکے گا تو فوراً کمک مانگ لینا میں بھیج دوں گا۔وہاں پہلے سے جو اپنا دستہ موجود ہے ، اسے بھی اپنی کمان میں لے لینا،یہ ساری نفری تیرے ماتحت ہوگی۔اپنا نائب خود ہی چن لے۔‘‘’’رافع بن عمیرہ!‘‘ضرار نے کہا۔’’لے جا اسے !‘‘خا لدؓنے کہا۔’’اور اتنی جلدی وہاں پہنچ جیسے تو اڑتا ہوا گیا ہو۔‘‘ضرار بن الازور کو درہ عقاب )ثنیۃ العقاب( کے قریب پہاڑی علاقے میں پانچ ہزار سواروں کے ساتھ پہنچناتھا۔وہ جگہ دمشق سے کم و بیش بیس میل دور تھی،ضرار تو جیسے اڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں جو نفری موجود تھی اسے بھی اپنی کمان میں لے لیا۔یہ علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے گھات کیلئے موزوں تھا،رومی فوج ابھی تک وہاں نہیں پہنچی تھی۔ضرار نے بڑی تیزی سے اپنی تمام نفری کو گھات میں چھپا دیا۔اس کے ساتھ ہی اس روز کا سورج غروب ہو گیا۔ضرار نے سنتری اس ہدایت کے ساتھ مقرر کیے کہ وہ ٹیکریوں اور چٹانوں کے اوپر چلے جائیں ، باہر نہ جائیں،پوری احتیاط کی جا رہی تھی کہ دشمن کو گھات کا پتہ نہ چلے۔رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی اور اس سے تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی فوج آگئی،اور یہ صحیح معنوں میں فوج تھی۔نفری زیادہ، تنظیم نہایت اچھی۔دیکھا گیا کہ اس فوج کے ساتھ بیشمار گھوڑا گاڑیاں تھیں جو سامان سے لدی ہوئی تھیں اور اونٹوں کی تعداد بھی بے حساب تھی۔جن پربوریاں لدی ہوئی تھیں۔یہ بعدمیں پتا چلا تھا کہ یہ سامان خوردونوش تھا جو دمشق جا رہا تھا۔خالدؓ دمشق کی اس صورتِ حال سے بے خبر تھے۔
رومیوں نے دمشق کا دفاع تو بڑا اچھا کیا تھا لیکن شہر میں رسد اور خوراک کی اتنی کمی تھی کہ دس دنوں کے محاصرے میں ہی شہری ہر چیز کی قلت محسوس کرنے لگے تھے۔ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی۔اس نے کمک بھیجی اور اس کے ساتھ خوراک کا ذخیرہ بھی بھیج دیا تھا۔
ضرار بن الازور کو بتایا گیا کہ رومی فوج کے ساتھ مال و اسباب بے حساب آرہا ہے تو ضرار نے جوش میں آکر حسبِ معمول زِرہ، خود، اور قمیض اتار پھینکی اور نیم برہنہ ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ بہت موٹا شکار آرہا ہے۔رومی جب پہاڑیوں میں آئے تو ضرار کی للکار پر مجاہدینِ اسلام گھات سے نکل کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔توقع یہ تھی کہ رومی اچانک حملے سے گھبرا کر اور بوکھلا کر بھاگ اٹھیں گے لیکن ان کا درِ عمل ایسا بالکل نہیں تھا۔انہوں نے یہ چال چلی کہ پیچھے ہٹنے لگے اور درہ عقاب کے قریب اس جگہ جا رُکے جو ہموار میدان تھا اور یہ پہاڑی کی بلندی تھی۔انہوں نے سامان کی گاڑیاں پیچھے بھیج دیں اور ان کے پیچھے کی فوج آگے آگئی۔ان کی تعداد مسلمانوں سے دگنی تھی اور ان کے انداز سے صاف پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ حملہ ان کیلئے غیر متوقع نہ تھا، وہ اس کیلئے تیار تھے ،انہوں نے قدم جما لیے۔ضرار بن الازور نے دشمن کو اس کیفیت میں دیکھا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حملہ روک لیا ہے بلکہ وہ سامنے سے بھی اور دائیں بائیں سے بھی حملے کر رہا ہے۔مسلمانوں کا جوش و خروش کچھ کم نہ تھا لیکن رومی جس منظم انداز سے لڑ رہے تھے اس سے یہی ایک خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بھگا کر اور کاٹ کر آگے نکل جائیں گے۔ضرار کو خالدؓ نے جس حرکت سے منع کیا تھا ،انہوں نے وہی حرکت کی۔پہلے تو وہ منظم انداز سے رومیوں پر حملے کراتے رہے لیکن دیکھا کہ رومی پیچھے ہٹنے کے بجائے چڑھے آرہے ہیں تو ضرار جوش میں آگئے اور چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔انہوں نے اپنی مخصوص جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو رومی ان کے سامنے آیا وہ کٹ گرا اور اس طرح وہ اندھا دھند بہت آگے نکل گئے۔’’یہ ہے برہنہ جنگجو!‘‘کسی رومی نے نعرہ لگایا۔یہ کوئی سالار ہو سکتا تھا۔اس نے للکار کر کہا۔’’گھیرے میں لے لو، اسے زندہ پکڑو۔
ضرار نیم برہنہ ہو کر لڑنے اور دشمن کو ہر میدان میں حیران کن نقصان پہنچانے میں اتنے مشہور ہو گئے تھے کہ انطاکیہ تک ان کی شجاعت کے چرچے پہنچ گئے تھے،رومیوں نے اس نیم برہنہ جنگجو کو پہچان لیا۔ضرار کے دائیں بازو میں ایک تیر لگ چکا تھا، مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ضرار کے جسم پردو زخم اور بھی تھے۔بہرحال ان کے بازو میں تیر اترنے پر سب متفق ہیں،ضرار نے تیر کھینچ کر بازو سے نکال پھینکا۔تیر نکالنا بڑا ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔وہاں سے گوشت باہر نکل آتا ہے لیکن ضرار بن الازور عاشقِ رسولﷺ تھے۔وہ تو جیسے اپنے جسم اور اپنی جان سے دست بردار ہو گئے تھے۔یہ تیر اور تلواریں تو جیسے ان کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتی تھیں،رومیوں کا تیر کھا کر انہوں نے تیر یوں نکال پھینکا جیسے ایک کانٹا نکال پھینکا ہو۔ان کا دایاں ہاتھ تلوار کو مضبوطی سے تھامے رہا اور رومی کٹتے اور گرتے رہے۔رومی انہیں زندہ پکڑنے کا تہیہ کر چکے تھے۔انہوں نے ضرار کے آدمیوں کو جو ان کے ساتھ آگے نکل گئے تھے، بکھیر کر الگ الگ کر دیااور ضرار کو گھیرے میں لے لیااس موقع پر انہیں ایک یا دو زخم آئے۔آخر کئی رومیوں نے مل کر انہیں پکڑ لیا،اور انہیں باندھ دیا،رومی بلند آواز سے چلّانے لگے:’’مسلمانو!ت¬مہارا سالار ہمارا قیدی ہو گیا ہے۔‘‘’’ہم نے تمہارے ننگے سالار کو پکڑ لیا ہے۔‘‘’’ہم شہنشاہِ ہرقل کو تحفہ دیں گے۔‘‘رومیوں کی للکار بلند ہوتی جا رہی تھی،وہ ٹھیک کہتے تھے۔شہنشاہِ ہرقل کیلئے ضرار سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ اچھا نہیں ہو سکتا تھا،رومی انہیں باندھ کر پیچھے لے گئے۔ان کے زخموں سے خون بڑی تیزی سے بہا جا رہاتھا جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ہرقل تک زندہ نہیں پہنچ سکیں گے،رومیوں نے ان کی مرہم پٹی کردی۔اس دور کی جنگوں میں فوجیں یوں بھی شکست کھا جاتی تھیں کہ سپہ سالار مارا گیا، پرچم گر پڑا، اور پوری کی پوری فوج بھاگ اٹھی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ضرار جیسا سالار پکڑا گیا تو دشمن کی للکار سن کر کہ اس نے ان کے سالار کو پکڑ لیا ہے، مسلمانوں نے حملوں کی شدت میں اضافہ کر دیا۔وہ لپکتے ہوئے شعلے اور کڑکتی ہوئی بجلیاں بن گئے۔رافع بن عمیرہ ضرار کے نائب سالار تھے، انہوں نے گرج کر اعلان کیا کہ اب کمان ان کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے سامنے سے رومیوں پر حملے بھی کرائے ۔خود بھی حملوں کی قیادت کی اوردشمن کی صفوں کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی۔لیکن رومیوں کی صفیں مل کر بڑی مضبوط دیوار بن گئی تھیں۔رافع ضرار کو رہا کرانے کی کوشش میں تھے۔لیکن ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔مسلمان اپنے سالار کو دشمن سے چھڑانے کیلئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔
دوپہر سے ذرا بعد کا وقت تھا۔خالدؓ دمشق کے اردگرد گھوم پھر کر جائزہ لے رہے تھے کہ دیوار کہیں سے توڑی جا سکتی ہے یا نہیں۔دو سالار ان کے ساتھ تھے۔’’خدا کی قسم!دمشق ہمارا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی۔ضرار اور رافع ان کی کمک کو بھگا چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓ چپ ہو گئے۔ایک گھوڑ سوار ان کی طرف تیز آرہا تھا۔’’قاصد معلوم ہوتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگاکر اس کی طرف بڑھے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘گھوڑ سوار نے گھوڑا ان کے قریب روک کر کہا۔’’رومیوں نے ضرار بن الازور کو پکڑ لیا ہے ۔ابنِ عمیرہ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔انہوں نے ابن الازور کو رہا کرانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ابنِ عمیرہ نے مجھے اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ کمک کے بغیر ہم رومیوں کو نہیں روک سکیں گے۔‘‘’’کیا میں نے اسے منع نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنا؟‘‘خالد نے برہم سا ہو کر کہا۔’’رومی ہمارے اتنے قیمتی سالار کونہیں لے جا سکتے۔‘‘خالدؓنے تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں ضرار کی گرفتاری اور بیت لہیا میں رومیوں کے سامنے مسلمانوں کی کمزور حالت کے متعلق بتایا۔’’میں خود ابنِ عمیرہ کی مدد کیلئے جانا چاہتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن محاصرہ کمزور ہو جائے گا۔رومی باہر آکر تم پر حملہ کردیں گے،ہماری نفری پہلے ہی کم ہو کر رہ گئی ہے،اگر میں نہیں جاتا اور میں کمک نہیں بھیجتا تو ہمارے پانچ ہزار سوار مارے جائیں گے اور رومیوں کی کمک سیدھی یہاں آکر ہلہ بول دے گی۔بتا سکتے ہو مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’رافع کی مدد کو پہنچنااور رومیوں کی کمک کو روکنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید! تو سمجھتا ہے کہ تیرا جانا ضروری ہے تو ابھی چلا جا۔ہمیں اور دمشق کے محاصرے کو اﷲ پر چھوڑ۔رومیوں کو باہر آکر حملہ کرنے دے۔وہ زندہ اندر نہیں جا سکیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کرکے خالدؓ کو یقین دلایا کہ ان کی نفری کم ہو بھی گئی تو بھی وہ محاصرے کو درہم برہم نہیں ہونے دیں گے۔’’اگر مجھے جانا ہی ہے تو میں فوراً نہیں جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں ایسے وقت یہاں سے سواروں کو لے کر نکلوں گا جب دشمن ہمیں نہیں دیکھ سکے گا……ابو عبیدہ!میری جگہ لے لے۔میں آدھی رات کے بعد چار ہزار سوار لے کر نکل جاؤں گا۔تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو،اﷲتمہارا حامی و ناصر ہو۔چار ہزار سواروں کو تیاری کی حالت میں الگ کردو اور انہیں بتا دو کہ آدھی رات کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘بیت لہیا کم و بیش بیس میل دور تھا۔سورج غروب ہونے تک وہاں رومیوں اور مسلمانوں میں لڑائی ہوتی رہی۔رافع بن عمیرہ نے شام تاریک ہونے کے بعد بھی مجاہدین کو رومیوں کے عقب میں پہاڑیوں کے درمیان سے گزار کر بھیجا مگر ہر ٹولی ناکام واپس آئی۔
’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ضرار بن الازور موت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘رافع نے کئی بار کہا۔’’اﷲکرے وہ زندہ ہو، اﷲاسے زندہ رکھے۔ہم اسے چھڑا کر ضرور لائیں گے۔
رات گزر گئی،صبح کا اجالا ابھی پوری طرح نہیں نکھرا تھا کہ خالدؓچار ہزار سواروں کے ساتھ رافع کے پاس پہنچ گئے۔خالدؓآدھی رات گزر جانے کے بہت بعددمشق سے روانہہوئے تھے۔انہوں نے چار ہزار سواروں کو شام کے بعد خاموشی سے محاصرے سے ہٹا کر پیچھے کرنا شروع کر دیا تھااور سوار پیچھے جاکر اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔یہ جگہ دمشق سے ذرا دورتھی۔خالدؓ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو شہر میں محصوررومیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو دیکھ کر رافع اور ان کے سواروں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔خالدؓ نے بڑی تیزی سے دشمن کا اور رافع کے سواروں کا جائزہ لیا، اور دونوں دستوں کو ضرورت کے مطابق ترتیب میں کرکے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک گھوڑ سوار مسلمانوں کی صفوں سے نکلا اور گھوڑا سر پٹ دوڑاتا خالدؓ سے بھی آگے نکل گیا۔اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں برچھی تھی۔خالدؓ کو اس پر غصہ آیا اور انہوں نے چلا کر اسے پکارا لیکن وہ رومیوں کی اگلی صف تک پہنچ چکا تھا، جسم کے لحاظ سے وہ موٹا تازہ نہیں تھا۔اس کے سر پر سبز رنگ کا عمامہ تھا، اور اس نے اپنا چہرہ ایک کپڑا باندھ کر چھپایا ہوا تھا۔اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔’’یہ خالد ہے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’ایسی جرات خالد کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘رافع ایک پہلو پر تھے جہاں سے خالدؓ نظر نہیں آتے تھے۔خالدؓ نے حملہ روک لیا اور وہ رافع کے پاس گئے۔ رافع انہیں دیکھ کر حیران ہوئے۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ سے کہا۔’’اگر وہ تو نہیں جو رومیوں پر اکیلا ٹوٹ پڑا ہے تو وہ کون ہے؟‘‘’’میں یہی تجھ سے پوچھنے آیا ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں نے ابن الازور کو اسی حرکت سے روکا تھا۔‘‘’’وہ دیکھ ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’وہ جو کوئی بھی ہے ذرا دیکھ!‘‘وہ جو کوئی بھی تھا مسلمانوں کو بھی اور رومیوں کو بھی حیران کر رہا تھا۔جو رومی اس کے سامنے آتا تھا وہ اس کی برچھی یا تلوار کا شکار ہو جاتا تھا۔یہ سوار رُکتا نہیں تھا۔ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ہونے کے باجود اس نے گھوڑے کو اپنے قابومیں رکھا ہوا تھا۔ایک رومی کو گراکر وہ دور چلا جاتا کوئی اس کے تعاقب میں جاتا تو یہ سوار یکلخت گھوڑے کو روک کر یا گھماکر اپنے تعاقب میں آنے والے کوختم کردیتا۔خالدؓ بھی )مؤرخوں کے مطابق ( دم بخود ہو گئے تھے۔ایک بار وہ رومیوں کو گرا کر اس نے گھوڑا دور سے موڑا تو خالدؓکے قریب سے گزرا۔خالدؓ نے چلا کر اسے رکنے کو کہا لیکن سوار نہیں رکا۔دیکھنے والوں کو صرف اس کی آنکھیں نظر آئیں۔ان آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک تھی۔بلکہ ان آنکھوں میں دل کشی سی تھی۔اس کی تلوار اوراس کی برچھی کی انّی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔وہ ایک بار پھر رومیوں کی طرف جارہا تھا۔
’ابنِ ولید!‘‘رافع نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’توحملے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟خدا کی قسم!یہ جنگ اس اکیلے سوار کی نہیں۔‘‘مجاہدین اس سوار کی حیرت ناک شجاعت کو دیکھ کر جوش سے پھٹ رہے تھے اور وہ بھی حملے کا مطالبہ کر رہے تھے۔خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔
اب مجاہدینِ اسلام نے جو حملہ کیاتویہ ایسے غضب ناک سیلاب کی مانند تھا جو بند توڑکر آیا ہو،اس ایک پر اسرار سوار نے مجاہدین کے لشکر میں قہر بھر دیا تھا۔مجاہدین نے خالدؓ کی بتائی ہوئی ترتیب سے حملہ کیا لیکن وہ سوار اپنے لشکر سے الگ تھلگ اپنی طرز کی لڑائی لڑتا رہا،خالدؓاس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا یا وہ خود کشی کرنے کے انداز سے لڑ رہا تھا۔ایک بار پھر وہ خالدؓ کے قریب سے گزرا۔’’رک جا اے جان پر کھیلنے والے!‘‘خالدؓ چلّائے۔’’کون ہے تو؟‘‘سوار نے گھوڑا ذرا روکا۔خالدؓ کی طرف دیکھا۔کپڑے کے نقاب سے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔خالدؓنے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ اس سوار کو گھیر کر لے آئیں ورنہ یہ مارا جائے گا۔’’دیکھو، یہ تھک بھی گیا ہے۔‘‘ دونوں سواروں نے گھوڑے دوڑا دیئے اور اسے جالیا۔’’کیا تو نے سنا نہیں سالارِ اعلیٰ نے تجھے بار بار پکارا ہے؟‘‘ایک محافظ نے اسے کہا۔سوار محافظوں کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔’’سالارِاعل¬یٰ تجھ سے خفا نہیں۔‘‘دوسرے محافظ نے کہا۔’’آ اور اس سے خراجِ تحسین وصول کر۔‘‘سوار نے ایک بار پھر گھوڑے کا رخ دشمن کی طرف کر دیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ ایڑ لگاتا۔ ایک محافظ نے اپنا گھوڑا ا س کے آگے کر دیا اور دوسرے نے اس کی لگام پکڑ لی۔عجیب بات یہ تھی کہ سوار نے کوئی بات نہ کی اور نقاب سے صرف اس کی آنکھیں نظر آتی رہیں، یہ عام سی آنکھیں نہیں تھیں۔محافظ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور خالدؓ کے سامنے جا کھڑا کیا۔اس نے برچھی اور تلوار سے اتنے زیادہ رومیوں کو ہلاک کیاتھا کہ دونوں ہتھیار پورے کے پورے لال ہو گئے تھے اور ان سے خون بہہ بہہ کر اس سوار کے ہاتھوں تک چلا گیا تھا اور کپڑوں پر بھی چھینٹے پڑے تھے۔خالدؓ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔’’آنکھوں سے تو نو عمر لڑکالگتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو نے اپنی شجاعت کاسکہ میرے دل پر بٹھا دیا ہے۔تیری قدر میرے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ خدا کی قسم!میں تیرا چہرہ دیکھوں گا اور تو بتا کہ تو ہے کون؟‘‘’’تو میرا امیر ہے اور میرا سالار ہے۔‘‘سوار نے کہا۔’’اور تو میرے لیے غیر مرد ہے،میں تیرے سامنے اپنا چہرہ کیسے بے نقاب کر دوں۔جسے تو میری شجاعت کہتا ہے یہ ایسا اشتعال اور غصہ ہے جو میرے اختیار سے باہر ہے۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘خالدؓنے اس سوار کی بات سن کر کہا۔’’کس کی بیٹی ہے تو؟کس کی بہن ہے تو؟‘‘’’میں الازور کی بیٹی خولہ ہوں۔‘‘اس نے جواب دیا۔
’’ضرار بن الازور کی بہن!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم!‘‘خولہ بنتِ الازور نے کہا۔’’میں اپنے بھائی کو رومیوں کی قید سے چھڑا کر دم لوں گی۔‘‘’’خوش نصیب ہے الازور جس کے گھرمیں ضرار جیسے بیٹے اورخولہ جیسی بیٹی نے جنم لیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ لڑائی صرف تیری نہیں بنتِ الازور!ہمارے ساتھ رہ اور دیکھ کہ ہم تیرے بھائی کو کس طرح رہا کراتے ہیں۔‘‘اس دور میں عورتیں بھی اپنے خاوندوں بھائیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں جایاکرتی تھیں۔خولہ اپنے بھائی ضرار کے ساتھ آئی تھیں۔انہیں پتا چلا کہ رومیوں نے ان کے بھائی کو قید میں لے لیا ہے تو انہوں نے اسے ذاتی جنگ سمجھ لیا۔سپہ سالار خالدؓ کی بھی پرواہ نہ کی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔عورتیں اور بچے دمشق کی مضافات میں تھے ۔خولہ وہاں سے خالدؓ کے چار ہزار مجاہدین کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھیں۔جوں ہی رومی اور مسلمان آمنے سامنے آئے خولہ نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔خولہ نے ایسی مثال قائم کر دی جس نے مجاہدینِ اسلام کو نیا حوصلہ اور نیا ولولہ دیا۔اب مسلمانوں کی نفری بھی زیادہ ہو گئی تھی، اور قیادت خالدؓ کی تھی۔خالدؓ کے ساتھ جو چار ہزار سوار گئے تھے وہ تازہ دم تھے۔اس کے علاوہ پورا لشکر ضرار کے قیدی ہو جانے پر آگ بگولہ تھا۔رومیوں کیلئے اس حملے کو برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔انہوں نے جم کر لڑنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی چالوں اور ان کے لشکر کے غیض و غضب کے سامنے رومی ٹھہر نہ سکے۔رومیوں کی فوج چونکہ ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج تھی اس لیے اس کی پسپائی بھی منظم تھی۔اسے پسپا کرنے میں خالدؓ کو بہت زور لگانا پڑا۔رومیوں کی پسپائی سے یہ مقصد تو پورا ہو گیا کہ دمشق کے دفاعی دستے کمک اور رسد سے محروم رہے۔رومیوں کا یہ کمال تھا کہ وہ جو رسد ساتھ لائے تھے وہ اپنے ساتھ ہی لے جا رہے تھے۔اب دوسرا مقصد سامنے تھا اور وہ تھا ضرار کی رہائی۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے رومیوں کا تعاقب جاری رکھا۔رومی اور تیزی سے پسپا ہونے لگے۔خالدؓ نے ہر داؤ کھیلا مگر رومیوں نے کوئی داؤکامیاب نہ ہونے دیا، خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم نہ کی۔ان کی کوشش یہ تھی کہ رومی کہیں رکنے نہ پائیں۔خالدؓخود پیچھے رہ گئے۔یہ بہن کا ایثار تھا جو اﷲنے قبول کیا، اور یہ ضرار کا عشقِ رسولﷺ تھا جو اﷲکو اچھا لگا۔ضرار کی سرفروشی کو اﷲنے نظر انداز نہ کیا۔پتا چلا کہ ضرار رومیوں کی قید میں زندہ ہیں۔یہ خبر دینے والے دو عربی تھے جو اس علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے،خالدؓ کے دو چار سوار ایک چھوٹی سی ایک بستی کے قریب سے گزرتے گزرتے رک گئے۔وہ پانی پینا چاہتے تھے۔بستی کے لوگ اس خیال سے خوفزدہ ہو گئے کہ یہ فاتح فوج کے آدمی ہیں اس لئے یہ لوٹ مار کریں گے اور جوان لڑکیوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔آبادی میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔دو آدمی مسلمان سواروں کے پاس آئے۔’’ہم بھی عربی باشندے ہیں۔‘‘انہوں نے سواروں سے کہا۔’’ہم مسلمان تو نہیں پھر بھی عرب کی مٹی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہماری خاطر اس بستی پر ہاتھ نہ اٹھائیں-
’’تم نہ کہتے تو بھی ہم اس بستی کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتے۔‘‘ایک مسلمان سوار نے کہا۔’’ان لوگوں سے کہو کہ ہم سے نہ ڈریں، ہم تم سب کے محافظ ہیں،ہم پانی پی کر چلے جائیں گے۔‘‘دونوں عربوں نے بستی کے لوگوں سے کہا کہ وہ ڈریں نہیں اور اپنے گھروں میں رہیں۔ان عربوں نے سواروں کو اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا،اور اس دوران وہ سواروں کے ساتھ باتیں بھی کرتے رہے۔باتوں باتوں میں ان عربوں نے سواروں کو بتایا کہ ایک گھوڑے پر رومیوں نے ایک آدمی کو باندھ رکھا تھااس کا سر ننگا تھا اور اس کی قمیض بھی نہیں تھی اور اس کے ایک بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔’’اسے انہوں نے یہاں پانی پلانے کیلئے روکا تھا۔‘‘ایک عرب نے بتایا۔’’وہ تمہارا ساتھی معلوم ہوتا تھا۔‘‘مسلمان سواروں کو شک نہ رہا۔یہ ضرار تھے۔سواروں نے ان عربوں سے مزید معلومات لیں۔ضرار کے ساتھ تقریباً ایک سو رومی تھے۔وہ رومی لشکر کی پسپائی سے بہت پہلے وہاں سے گزرے تھے اور وہ حمص کی طرف جا رہے تھے۔مسلمان سواروں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ پیچھے جاکر سپہ سالار کو ضرار بن الازور کے متعلق یہ اطلاع دے۔’’الحمدﷲ!‘‘خالدؓ نے یہ خبر سن کر کہا۔’’ضرار زندہ ہے اور وہ زندہ رہے گا۔انہوں نے اسے قتل کرنا ہوتا تو کر چکے ہوتے۔وہ اسے اپنے بادشاہ کے پاس لے جا رہے ہیں……ابنِ عمیرہ کو بلاؤ۔‘‘رافع بن عمیرہ آئے تو خالدؓ نے انہیں ضرار کے متعلق جو اطلاع ملی تھی، پوری سنا کرکہا کہ وہ ایک سو سوار چن لیں جو جان پر کھیلنے والے شہسوار ہوں،انہیں ساتھ لے کر حمص کی طرف ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو راستہ نہ ہو۔مطلب یہ تھا کہ راستہ چھوٹا کرکے حمص کی طرف جائیں اور ان ایک سو رومیوں کو روکیں، اور ابن الازور کو رہا کرائیں۔رافع جب سواروں کا انتخاب کر رہے تھے تو ضرار کی بہن کو پتا چل گیا کہ رافع ضرار کو آزاد کرانے جا رہے ہیں،وہ رافع کے پاس دوڑی گئیں اور کہنے لگیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائیں گی۔’’نہیں بنت الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’خدا کی قسم!جو کام ہمارا ہے، وہ ہم ایک عورت سے نہیں کرائیں گے۔تجھے تیرا بھائی چاہیے۔وہ تمہیں مل جائے گا۔نہیں ملے گا تو ہم بھی واپس نہیں آئیں گے۔‘‘’’میں اگر سپہ سالار سے اجازت لے لوں!‘‘’’ابنِ ولید تجھے اجازت نہیں دے گا الازور کی بیٹی!‘‘رافع نے کہا۔خولہ مایوس ہو گئیں۔رافع چنے ہوئے ایک سو سواروں کے ساتھ بڑی عجلت سے روانہ ہوگئے۔انہوں نے حمص کی طرف جانے والے راستے کا اندازہ کر لیا تھا۔وہ اس راستے سے دور دور تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے گئے، وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ایک طرف سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا۔وہ رومی نہیں ہو سکتا تھا،رومی ہوتا تو اکیلا نہ ہوتا۔وہ خالدؓ کا قاصد ہو سکتا تھا ، کوئی نیا حکم لایا ہوگا۔وہ قریب آیا تو اس کا سبز عمامہ اور چہرے پر کپڑے کا نقاب نظر آیا۔’’ابنِ عمیرہ!‘‘سوار نے للکار کر کہا۔’’اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے میں آگئی ہوں۔‘‘
’’کیا سپہ سالار نے تجھے اجازت دے دی ہے؟‘‘رافع نے پوچھا۔’’اپنے بھائی کو قید سے چھڑانے کیلئے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘‘خولہ بنت الازور نے کہا۔’’اگر تو مجھے اپنے سواروں میں شامل ہونے نہیں دے گا تو میں اکیلی آگے جاؤں گی۔‘‘’’خدا کی قسم بنتِ الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔آہمارے ساتھ چل۔‘‘یہ جواں سال عورت ساتھ چل پڑی۔ایک سو رومی سوار ضرار بن الازور کو گھوڑے پر اس حالت میں بٹھائے لے جا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور پاؤں اس طرح بندھے ہوئے تھے گھوڑے کے پیٹ کے نیچے سے رسی گزار کر دونوں ٹخنوں سے بندھی ہوئی تھی۔رومی ان پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے جا رہے تھے، اور ضرار چپ چاپ سنتے جا رہے تھے،ایک جگہ راستہ نشیب میں چلا جاتا تھا، اس کے دائیں بائیں علاقہ کھڈوں کا تھا،جب رومی اس نشیب میں سے گزر رہے تھے تو اچانک دائیں بائیں، آگے اور پیچھے سے رافع کے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا۔رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔وہ اس طرح جا رہے تھے جیسے میلے پر جا رہے ہوں۔ضرار کی بہن خولہ نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اس نے رومیوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے جس طرح وہ پوری رومی فوج پر کر چکی تھی۔رافع بھی ایسے ہی جوش میں تھے۔ان کے سوار ہزاروں میں سے چنے ہوئے تھے۔انہوں نے رومیوں کا ایسا برا حال کر دیا کہ ان میں سے جو مرے نہیں یا زخمی نہیں ہوئے تھے بھاگ اٹھے۔خطرہ یہ تھا کہ رومی ضرار کو قتل کردیں گے۔ان کی بہن تلوار اور برچھی چلاتی ضرار تک پہنچ گئی،رومیوں نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی لیکن رافع نے ایسا ہلہ بولا کہ رومی سوار بکھر گئے۔پھر فرداً فرداً بھاگ اٹھے۔سب سے پہلے ضرار نے رافع سے ہاتھ ملایااور جب بہن بھائی ملے تو وہ منظر رقت انگیز بھی تھا اور ولولہ انگیز بھی۔بہن اپنے بھائی کے زخم دیکھنے کو بیتاب تھی۔بعض مؤرخوں نے خولہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں:’’میرے عزیز بھائی!میرے دل کی تپش دیکھ ، کس طرح ترے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘’’اپنے زخم دکھاؤ ضرار!‘‘بہن نے بیتابی سے کہا۔’’مت دیکھو خولہ!‘‘ضرار نے بہن سے کہا۔’’اور یہ زخم مجھے بھی نہ دیکھنے دو۔یہ زخم دیکھنے کا وقت نہیں۔‘‘ضرار نے رافع اور ان کے سواروں سے کہا۔’’چلو دوستو!رومی کہاں ہیں؟دمشق کے محاصرے کا کیا بنا؟‘‘
رومی لڑ بھی رہے تھے اور پسپا بھی ہو رہے تھے۔یہ ان کی تنظیم بھی تھی اور جرات بھی کہ وہ بھاگ نہیں رہے تھے۔ایک ایسی جگہ آگئی جس کے دونوں طرف چٹانیں اور کچھ بلند ٹیکریاں تھیں۔رومی لشکر کو سکڑنا پڑا۔خالدؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالاروں سے کہا کہ وہ چٹانوں کی دوسری اطراف میں نکل جائیں،اور سر پٹ رفتار سے رومیوں کے عقب میں چلے جائیں۔رومی نہ دیکھ سکے کہ چٹانوں کے پیچھے سے ان پر کیا آفت ٹوٹنے والی ہے۔خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم کر دی۔رومی سمجھے ہوں گے کہ مسلمان تھک گئے ہیں۔انہوں نے پسپائی روک لی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو روک لیا۔
اچانک عقب سے رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔سامنے سے خالدؓ نے شدید حملہ کر دیا۔رومیوں کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ گھوڑوں کو چٹانوں اور ٹیکریوں پر چڑھالے گئے،اور دوسری طرف اتر کر بھاگنے لگے۔توقع یہ تھی کہ رومی رسد وغیرہ کا جو ذخیرہ ساتھ لا رہے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائے گا۔لیکن رومیوں نے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹوں کو پہلے ہی حمص روانہ کر دیا تھا۔حمص کی طرف جانے والی رہگزر پر رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ اور کراہ رہے تھے۔ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر آوارہ پھر رہے تھے۔مجاہدین نے حکم ملتے ہی اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانا، زخمی اور مرے ہوئے رومیوں کے ہتھیاروں کو اکٹھا اور ان کے گھوڑوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔’’کاش!میرے پیچھے دمشق نہ ہوتا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں دشمن کے ایک آدمی کو بھی دمشق تک نہ پہنچنے دیتا۔‘‘خالدؓ نے تعاقب ترک کر دیا۔لیکن اس خطرے کے پیشِ نظر کہ رومی کہیں اکٹھے یا حمص سے کمک منگوا کرواپس نہ آجائیں۔اپنے ایک سالار سمط بن الاسود کو بلایا۔’’ایک ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور رومیوں کے پیچھے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’انہیں کہیں اکٹھے نہ ہونے دینا۔جنگی قیدی نہیں لینے۔جو سامنے آئے اسے ختم کرو۔فوراً روانہ ہو جاؤ۔‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘خالدؓ کو کسی کی پکار سنائی دی۔’’وہ آگیا میرا ننگا جنگجو!‘‘خالدؓ نے ضرار کو آتے دیکھ کر نعرہ لگایا۔ضرار کو اپنے زخموں کی پرواہ نہیں تھی، وہ گھوڑے سے کود کر اترے۔خالدؓ بھی کود کر اترے اور تاریخِ اسلام کے دو عظیم مجاہد ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑ گئے۔خولہ گھوڑے پر سوار تھی۔اس کا چہرہ نقاب میں تھا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔جن کی چمک اور زیادہ روشن ہو گئی تھی۔
’’خدا کی قسم ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’تیری بہن نے تیری خاطر میرا بھی منہ پھیر دیا تھا۔‘‘’’اس بہن پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ضرار نے کہا۔’’تو مجھے بتا میں کیا کروں؟‘‘’’کیا تو محسوس نہیں کر رہا کہ تجھے آرام کرنا چاہیے؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’پہلے جرّاح کے پاس جا، اور اسے اپنے زخم دِکھا۔‘‘ضرار بن الازور جراح کے پاس تو چلے گئے لیکن صرف پٹیاں بندھوا کر واپس آگئے۔سالار سمط بن الاسود رومیوں کے تعاقب میں گئے۔رومی بری طرح بھاگے جا رہے تھے ان کی آدھی نفری تو لڑائی اور پسپائی میں ختم ہو گئی تھی اور باقی نصف بکھر گئی تھی۔سمط جب حمص کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ رومی حمص کے قلعے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔اس دور میں حمص ایک قلعہ بند قصبہ ہوا کرتا تھا۔سمط وہاں جا کر رُک گئے۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعہ کے اندر کتنی فوج ہے، پھر بھی انہوں نے اپنے ہزار سواروں کو قلعے کے اردگرد اس انداز سے دوڑایا جیسے وہ محاصرہ کرنا یا قلعے پر حملہ کرنا چاہتے ہوں۔قلعے کا دروازہ کھلا اور تین چار آدمی جو فوجی نہیں تھے باہر آئے۔وہ رومی نہیں مقامی باشندے تھے۔سالار سمط بن الاسود نے انہیں اپنے پاس بلایا۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔‘‘ایک نے کہا۔’’رومی مزید لڑائی نہیں چاہتے۔‘‘’’کیا تمہارا شہنشاہ ہرقل بھی مزید لڑائی نہیں چاہتا؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’ہم شہنشاہِ روم کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔‘‘حمص کے ایک شہری نے کہا۔’’ہم یہ پیہغام لائے ہیں کہ حمص والے نہیں لڑنا چاہتے۔آپ جس قدر سامانِ خوردونوش چاہتے ہیں ہم سے لے لیں۔آپ جتنے دن بھی یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں کریں۔آپ کی فوج اور گھوڑوں کو خوراک ہم مہیا کریں گے۔‘‘کسی بھی تاریخ میں نہیں لکھا کہ سالار سمط نے حمص میں رومیوں سے صلح کی کیا شرائط منوائی تھیں۔وہ واپس آگئے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ دمشق جا چکے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ جب دمشق پہنچے تو شہر کے اندر مایوسی اور خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔شہر والوں کو پہلے یہ اطلاع ملی تھی کہ انطاکیہ سے کمک اور رسد آرہی ہے۔اب انہیں اطلاع ملی کہ کمک کو مسلمانوں نے راستے میں ختم کر دیا ہے۔دمشق میں رومی سالار توما تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھا۔چند ایک شہری وفد کی صورت میں توما کے پاس گئے۔’’کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ایک شہری نے کہا۔’’کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ بزدلی ہے؟‘‘توما نے کہا۔’’ہم نے ابھی محاصرہ توڑنے کی کاروائی کی ہی نہیں،کیا تم لوگ مجھے یہ مشورہ دینے آئے ہو کہ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دوں؟‘‘’’ہم سالارِ معظم کو شہر کی صورتِ حال بتانے آئے ہیں۔‘‘وفد کے ایک اور آدمی نے کہا۔’’شہر کے لوگ یہ سن کے ہراساں ہیں کہ جس فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے اور ہماری کمک کو بھی ختم کر دیا ہے وہ اس شہر میں بھی داخل ہو جائے گی پھر گھر ہمارے لوٹے جائیں گے بچے ہمارے کچلے جائیں گے،اورلڑکیاں ہماری اٹھائی جائیں گی۔‘‘’’ہم یہاں تک نوبت نہیں آنے دیں گے۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’سالارِ معظم!‘‘ایک اور شہری نے کہا۔’’آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔شہر میں خوراک کی اتنی کمی رہ گئی ہے کہ لوگوں نے دوسرے وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے، دو تین دنوں بعد صرف پانی رہ جائے گا۔غور کریں۔لوگ فاقہ کشی سے تنگ آکر بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔یہ صورت سلطنتِ روم کیلئے اچھی نہیں ہوگی۔‘‘
’’کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ بغاوت کی سزا کیا ہے ۔‘‘توما نے شاہی رعب سے کہا۔
’’ہم جانتے ہیں سالارِ اعلیٰ!‘‘وفد کے ایک آدمی نے کہا۔’’ہم آپ کوقحط اور اس سے پیدا ہونے والی بغاوت کے نتائج بتانے آئے ہیں، کیا اس تباہی سے اور لوگوں کو بھوکا مارنے سے بہتر نہ ہوگا کہ آپ مسلمانوں سے صلح کر لیں؟‘‘’’دشمن سے صلح کا مطلب ہوتا ہے ہتھیار ڈالنا۔‘‘توما نے کہا۔’’میں لڑے بغیر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں گا جو روم کی عظیم سلطنت کی توہین کا باعث ہو۔ہم اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور تم لوگ ایک وقت کی بھوک برداشت نہیں کر سکتے……جاؤ۔کل تک انتظار کرو۔‘‘وہ ستمبر ۶۳۴ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح تھی۔رومی سالار توما نے شہر کے ہر دروازے کی حفاظت کیلئے جو دستے متعین کیے ہوئے تھے ، ان سب میں سے زیادہ سے زیادہ نفری نکال کر اکٹھی کی، اور وہ دروازہ کھلوایا جو اس کے اپنے نام سے موسوم تھا۔بابِ توما۔ اور اپنی قیادت میں مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے متعین تھا۔یہ پانچ ہزارمسلمان سواروں کا دستہ تھا۔جس کے سالار شرجیلؓ بن حسنہ تھے۔توما کے حملے کا انداز آج کے دور کی جنگ کا سا تھا۔اس نے دیوار اور بُرجوں سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کیں اور اس کے ساتھ فلاخنوں سے سنگ باری کی۔تیروں اور پتھروں کے سائے میں توما نے اپنی فوج کو تیز حملے کیلئے آگے بڑھایا تھایہ طریقہ کارگر تھا۔مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور نظر آنے لگے تھے اور ان کا دھیان تیروں اور پتھروں سے بچنے میں لگ گیا تھا۔’’کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘سالار شرجیلؓ نے چلّا کر کہا۔’’تمام تیر انداز آگے ہو جاؤ۔‘‘مسلمان تیر اندازوں نے جوابی تیر اندازی شروع کر دی۔رومیوں کے پتھر اور تیر چونکہ اوپر سے آرہے تھے اور زیادہ بھی تھے اس لیے مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہو رہا تھا۔پہلی بوچھاڑوں میں کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ان کے تیروں نے رومیوں کا کچھ نقصان کیا لیکن یہ مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھا۔مؤرخ واقدی، طبری اور ابو سعید نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، رومی تیروں سے شہید ہونے والوں میں ایک مجاہد ابان بن سعید بھی تھے جن کا پورا نام ابان بن سعید بن العاصؓ تھا۔فوراً ہی ابان کی شہادت کی خبر پیچھے ان خیموں تک پہنچ گئی جن میں مسلمان خواتین اور بچے تھے۔ابان بن سعید کی بیوی بھی وہیں تھیں۔ان کی شادی ہوئے چند ہی دن گزرے تھے۔یہ خاتون لشکر کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال اور پانی پلانے کے فرائض کیلئے آئی تھیں،اور محاذ پر ہی اسے ابان شہید نے اپنے عقد میں لے لیا۔کسی بھی مؤرخ نے اس خاتون کا نام نہیں لکھا،اسے پتا چلا کہ اس کا خاوند شہید ہو گیا ہے تو وہ اٹھ دوڑی اور شرجیلؓ کے دستے میں جا پہنچی
’’کہاں ہے میرے خاوندکی لاش؟‘‘وہ چلّانے لگی۔’’کہاں ہے سعید کے بیٹے کی لاش؟‘‘پانچ ہزار گھوڑ سواروں میں جن پر تیر اور پتھر برس رہے تھے ، ابان بن سعید شہید کی بیوہ دوڑتی اور شہید کی لاش کا پوچھتی پھرتی تھی۔کسی نے اسے پیچھے جانے کوکہا اور یہ بھی کہ اس کے خاوند کی لاش اس کے پاس بھیج دی جائے گی لیکن وہ تو صدمے سے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔کسی نے اسے وہ جگہ دِکھادی جہاں ابان کی لاش پڑی تھی۔ابھی لاشیں نہیں اٹھائی جا سکتی تھیں،ابان تیر انداز تھے۔ان کے جسم میں تین تیر اترے ہوئے تھے،اور وہ گھوڑے سے گر پڑے تھے۔ان کی کمان لاش کے قریب پڑی تھی اور ترکش میں ابھی کئی تیر موجود تھے۔ان کی بیوی نے کمان اور ترکش اٹھائی اور دوڑ کر تیر اندازوں کی صف میں جا پہنچی۔سامنے دیوار پر ایک پادری کھڑا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کی صلیب تھی،جو اس نے اوپر کر رکھی تھی۔یہ اس دور کا رواج تھا کہ صلیب فوج کے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فوج کا یہ احساس زندہ رہے کہ وہ صلیب کی ناموس کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ابان شہید کی بیوہ اپنے تیر اندازوں سے آگے نکل گئی۔اس کے قریب تیر گرنے اور زمین میں اترنے لگے۔اپنے تیر اندازوں نے اسے پیچھے آنے کو کہا۔لیکن وہ کسی کی سن ہی نہیں رہی تھی،اس کی بے خوفی خولہ بنتِ الازور جیسی تھی۔وہ جوں جوں آگے کو سرکتی جا رہی تھی۔اس کے قریب رومیوں کے آئے ہوئے تیر زمین پر کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ ایک تیر اس کے پہلو میں کپڑوں میں لگا اور وہیں لٹک گیا۔یہ تیر بھی اسے آگے بڑھنے سے نہ روک سکا۔آخر وہ رُک گئی اور اس نے کمان میں تیر ڈالا اور کمان سامنے کرکے شست باندھتے کچھ دیر لگائی،اس نے کمان اتنی زیادہ کھینچ لی جتنی زیادہ ایک تندرست مرد کھینچ سکتا ہے، اور اس نے تیر چھوڑ دیا۔اس کا تیر رومی تیروں کی بوچھاڑوں کو چیرتا ہوا اس پادری کی گردن میں اُتر گیا جسنے صلیب کو تھام رکھا تھا ۔پہلے اس کے ہاتھ سے صلیب گری اور لڑھکتی ہوئی باہر آپڑی۔پادری بھی پیچھے یا دائیں بائیں گرنے کے بجائے دیوار پر گرا اور صلیب کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف آپڑا۔ابان شہید کی بیوہ نے نعرہ لگایا اور پیچھے آگئی۔’’میں نے انتقام لے لیا ہے……سہاگ کے بدلے صلیب گرا دی ہے……‘‘وہ تیر اندازوں سے آملی اور تیر چلاتی رہی۔صلیب اور پادری کے گرنے کا اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان کا حوصلہ بڑھ گیا اور ان کا حوصلہ اس لیے بھی بڑھا کہ یہ تیر ایک عورت نے چلایا تھا۔صلیب کے گرنے کا اثر جو رومیوں پر ہوا وہ ان کے لڑنے کے جذبے کیلئے اچھانہ تھا۔
دروازہ بابِ توما کھل چکا تھا۔تومانے دیکھ لیا تھا کہ اس کی تیر اندازی اور سنگ باری نے مسلمانوں کی حالت کمزور کر دی ہے۔اس نے حملے کاحکم دے دیا۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نے سواروں کے مقابلے میں سوار نہ نکالے۔ا ن پیادوں سے حملہ کرایا،اور کمان خود باہر آکر کی۔وہ سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔مؤرخ واقدی اور بلازری نے لکھا ہے کہ توماکی آواز ایسی تھی جیسے اونٹ بدمستی کی حالت میں بڑی بلند اور غصیلی آوازیں نکالتا ہے۔شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے سواروں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔تومانے یہ چال چلی کہ اپنے دستوں کو پھیلا دیا۔اس کی فوج کی تعداد مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی۔اس کے پیادے سواروں کا مقابلہ بڑی بے جگری اور مہارت سے کررہے تھے ۔شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے مسلمانوں کے جو دستے متعین تھے۔وہ اس وجہ سے شرجیلؓ کی مدد کو نہیں آرہے تھے کہ ایسا ہی حملہ دوسرے دروازوں سے بھی ہو سکتا تھا۔توماگرج اور دھاڑ رہا تھا۔اسے مسلمانوں کا پرچم نظر آگیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کا سالار وہاں ہے، وہ سیدھا اِدھر آیا،شرجیلؓ نے اسے دیکھ لیا اور تلوار سونت کر اس کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔دونوں نے ایک دوسرے کو للکارا، ان میں دس بارہ قدم فاصلہ رہ گیا ہوگا کہ ایک تیر توما کی دائیں آنکھ میں اُتر گیا،اس نے ہاتھ اس آنکھ پر رکھ لیے،اور وہ بیٹھ گیا۔شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ نہ کیا۔توما کے محافظوں نے اس کے گرد حصار بنالیا پھر اسے اٹھا کر لے گئے۔مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ وہ تیر ابان بن سعید کی بیوہ نے چلایا تھا۔اپنے سالارکے گرنے سے رومیوں کا حوصلہ بھی گر پڑا اور وہ پیچھے ہٹنے لگے۔شرجیلؓ کے پہلوؤں والے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کر دیں۔رومی تیزی سے پیچھے ہٹے اور قلعے کے دروازے میں غائب ہوتے چلے گئے اور پیچھے جو لاشیں چھوڑ گئے ان کا کوئی حساب نہ تھا۔’’رومیوں کا سپہ سالار مارا گیا ہے۔‘‘مسلمانوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں……رومی سالار کو ایک عورت نے مارڈالا ہے……توما رومی کو اندھاکرکے مارا ہے……باہر آؤرومیو!اپنی صلیب اور پادری کو اٹھا لے جاؤ۔‘‘دیوار پر کھڑے رومی یہ نعرے سن رہے تھے،اور یہ نعرے شہر کے اندر بھی سنائی دے رہے تھے۔یہ نعرے رومی فوج اور دمشق کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کیلئے تیروں کی طرح مہلک تھے۔مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہیں تھا۔بہت سے مجاہدین رومیوں کے تیروں اور پتھروں سے شہید اور زخمی ہو گئے۔پھر اتنی تعداد لڑائی میں شہید ہوئی۔شرجیلؓ پریشان سے ہو گئے اور خالدؓ کے پاس گئے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔