کشفُ المحجوب



کشفُ المحجوب


شیخ علی ہجویری

ٹائپنگ: صلہ عمر


مصنف کی زندگی کے مختصر حالات

نام ونسب

آپ کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ لیکن عوام و خواص سب میں "گنج بخش" یا "داتا گنج بخش" کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ۴۰۰ ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ رہتے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت زید رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہیں۔

آپ کے اساتذہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں حضرت شیخ ابو العباس اشقاقی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمۃ اللہ علیہ، ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمۃ اللہ علیہ کے نام ملتے ہیں۔
شیخ ابو العباس اشقاقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت علی ہجویری بیان کرتے ہیں کہ آپ علم اصول اور فروع میں امام اور اہل تصوف میں اعلیٰ پایہ کے بزرگ تھے۔ مجھے آپ سے بڑی محبت تھی اور آپ بھی مجھ پر سچی شفقت فرماتے تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے مانند کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ نہ آپ سے بڑھ کر شریعت کی تعظیم کرنے والا کوئی دیکھا۔ اکثر فرمایا کرتے: اشتھی عدماً لا وجود لہ۔ یعنی میں ایسی نیستی چاہتا ہوں جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا: اے کاش میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا۔ اے کاش میں یہ تنکا ہوتا ۔ ایک دفعہ میں شیخ اشقاقی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا تو آپ پڑھ رہے تھے: ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً عَبدً امَہلُو ًکاًلاَیَقدِرُعَلیٰ شَیئیً (۷۵:۱۶)۔ یعنی "اللہ ایک مثال دیتا ہے، ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا"۔ بار بار اسے پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے، حتیٰ کہ آ پ بے ہوش ہو گئے۔ اور میں نے سمجھا کہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے عرض کیا، اے شیخ! یہ کیا حالت ہے؟ فرمایا کہ گیارہ سال ہو گئے ہیں، میرا ورد یہی ہے، اس سے آگے نہیں گذر سکا۔
شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ صوفیائے متاخرین میں منجلمہ روسائے متوصفین میں سے تھے۔ علم حقیقت میں بہت فصیح البیان تھے۔ حسین بن منصور کے طریقہ کی طرف مائل تھے۔ آپ کی بعض تصانیف میں نے ان سے پڑھی ہیں۔
شیخ ابو القاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ اپنے وقت میں بے نظیر تھے۔ وقت کے تمام طالبان حق کا آپ پر اعتماد تھا۔ وقت کے تمام طالبان حق کا آپ پر اعتماد تھا۔ علوم و فنون میں بہت ماہر تھے۔ آپ کا ہر مرید زیور علم سے آراستہ تھا۔مجھ سے بہت احترام سے پیش آتے تھے۔ اور بہت توجہ سے بات سنتے تھے، حالانکہ میں آپ کے مقابلہ میں نو عمر بچہ تھا۔ ایک روز میں آپ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ مجھ سے اس قدر عاجزی اور انکساری سے پیش آتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ میں کوئی بات کہوں، آپ نے فرمایا: اے میرے باپ کے دوست! خوب جان لے کہ میری یہ عاجزی اور انکساری تیرے لیے نہیں، میری یہ عاجزی احوال کے بدلنے والے کے لیے ہے اور یہ تمام طالبان حق کے لیے عام ہے۔ یاد رکھ کہ آدمی خیالات کی قید سے کبھی بھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔ خدا کے ساتھ بندگی کی نسبت سے کام رکھ۔ اس ایک نسبت کے سوا دوسری تمام نسبتوں کو اپنے سے دور کر دے۔ آپ کی کتابیں مشکل ہیں۔
شیخ ابو القاسم بن ہوازن القشیری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اپنے زمانہ میں نادر الوجود اور بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ ہر فن میں آپ کی تصانیف محققانہ اور عمدہ ہیں۔ بے کار بحث و گفتگو اور لغو باتوں سے آپ بالکل الگ رہتے تھے۔ حسین بن منصور کے بارے میں صوفیاء میں بحثیں ہوتیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ مردود اور دوسرے کے نزدیک مقبول بارگاہ تھے۔ آپ فرماتے کہ اگر منصور ارباب معافی و حقیقت میں سے تھا تو کوئی چیز اسے خداوند کریم سے علیحدہ نہیں کر سکتی اور اگر خدا کی درگاہ سے مردود تھا تو مخلوق میں سے کوئی اسے بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں بنا سکتا۔ ہم اسے حوالۂ خدا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایاَ مَثَلَ الصّوفِی کَعِلَّۃِ البَرسَامِ اّوَّلہ ھِذیَان وَاٰخِرُہ سَکُوًتُ فَاِزَاتَمَکَّنَ خَرَسَ۔ یعنی جو خیال آئے اسے پاگلوں کی طرح بیان کرتے چلے جانا، ہے اور اس کا آخر سکوت ہے۔ اور جب آدمی درجہ تمکین کو پہنچ جاتا ہے تو گونگا ہو جاتا ہے۔
اپنے استاد ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ تمام علوم کے عالم اور درگاہ حق کے اہل حشمت میں سے تھے۔ بہت نیک خُلق تھے۔ آپ کا کلام مہذب اور اشارات لطیف ہیں۔ میں نے ان کی کتاب ۔معانی انفاس۔ کی چند جزیں ان سے سُنی ہیں۔ شیخ سہلکی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بسطام میں ٹڈی دل آیا۔ تمام درخت اور کھیت اس کے بیٹھنے کی وجہ سے سیاہ ہو گئے۔ لوگوں نے بہت شور مچایا۔ شیخ نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ٹڈی دل آئی ہے اور لوگ سخت غمزدہ ہیں۔ شیخ اُٹھے اور کوٹھے پر تشریف لے گئے اور منہ آسمان کی طرف کیا۔ اُسی وقت ٹڈی اُڑ گئی اور عصر کی نماز تک ایک ٹڈی بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی، اور کسی کھیتی کا ایک پتہ تک بھی ضائع نہ ہوا۔
ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ آپ طریقت کے جمال اور وقت کے صاحب دبدبہ بادشاہ تھے، اور تمام اہل زمانہ آپ کے گرویدہ تھے۔ تعلیم ابتداء میں ابو علی زاہد رحمۃ اللہ علیہ سے سرخس میں حاصل کی۔ ایک دن میں تین دن کا سبق لیتے اور تین دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ نے مسلسل ریاضت اور مجاہدہ کیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اعلیٰ مرتبہ پر پہنچایا۔ بہت شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ زیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گودڑی بہت میلی کچیلی تھی۔ آپ کے پاس پہنچا، تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر دراز تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ بھی عجیب بات ہے۔ مجھے دیکھو کہ میں اس گودڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ لیکن میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ؛ اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ، یعنی تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔
ایک دفعہ آپ نیشا پور سے طوس کو جا رہے تھے۔ راستے میں سرد گھاٹی پڑتی ہے۔ آپ اپنے پاؤں میں سردی محسوس کر رہے تھے۔ ساتھ جو درویش تھا وہ بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے رومال کے دو ٹکڑے کر کے آپ کے پاؤں پر لپیٹ دو۔ لیکن پھر خیال آیا کہ میرا رومال بہت اچھا ہے اسے ضائع کیوں کروں۔ لیکن میں نے کچھ کہا نہیں۔ طوس پہنچ کر ہم مجلس میں بیٹھے تھے کہ میں نے آپ سے سوال کیا۔ اے شیخ حقّانی! الہام اور وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الہام تو وہ ہے جس نے تیرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ اپنے رومال کر ابو سعید کے پاؤں کے گرد لپیٹ دوں تاکہ اس کے پاؤں کو سردی نہ لگے اور شیطانی وسوسہ وہ تھا کہ جس نے تجھے ایسا کرنے سے روکا۔
ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ آپ اولیاء کے رئیس اور صوفیوں کے ناصح تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ریاست ہی کے مسند پر آپ پر بھید کھولا اور کرامت کا تاج آپ کے سر پر رکھا۔ میں نے خود ان سے سنا کہ دوسرے لوگوں نے جو کچھ بیابانوں اور جنگلوں کی منزلیں قطع کر کے پایا مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ چیزیں مسند اور بالا نشینی میں عطا فرمائی۔ فنا اور بقاء میں آپ کا کلام بہت اچھا ہے۔ میں ایک روز کرمان سے آپ کے پاس آیا۔ میرے کپڑے راستے کی گرد سے اَٹے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا، کہو ابوالحسن کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میرا دل سماع کو چاہتا ہے۔ آپ نے اسی وقت انتظام کر دیا اور قوالوں کو بلایا، لڑکپن کا زمانہ تھا۔ پہلے ہی کلمات کے سماع سے بے قرار ہو گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد جب میرا غلبہ اور جوش کچھ کم ہوا تو پوچھا، کہو، اس سماع سے کیا گزری؟ میں نے عرض کیا۔ اے شیخ! میں بہت خوش ہوا ہوں۔ فرمایا کہ ایک وقت تجھ پر ایسا آئے گا کہ یہ سماع اور کوے کی آواز تیرے لیے یکساں ہو جائے گی۔ سماع میں قوت اسی وقت تک ہے جب تک مشاہدہ حاصل نہیں ہوتا۔ دیکھو، کہیں اس کی عادت نہ کر لینا کہ تیری طبیعت کا جز بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو تو یہیں رہ جائے گا۔

تعلیم طریقت

طریقت میں آپ کے شیخ شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداء آپ رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ساتھ ہے۔ تفسیر، حدیث اور تصوف تینوں کے آپ عالم تھے۔ تصوف میں آپ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر تھے۔ حضرت شیخ حضرمی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور حضرت سروانی رحمۃ اللہ علیہ کے مصاحب تھے۔ ساٹھ سال تک مخلوق سے گم اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے۔ زیادہ تر قیام جبل لگام پر رہتا تھا۔ میں نے آپ سے زیادہ با رعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا کو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔
جس روز آپ کی وفات ہوئی تو آپ بانیاں اور دمشق کے درمیان پہاڑ پر واقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے، اور آپ کا سر میری گود میں تھا۔ میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، بیٹا! میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں۔ اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عزل و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتا، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتا ہے۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے۔ اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔
کسب روحانی کے لیے آپ (حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ) نے شام، عراق، فارس، قہستان، آزربائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ،وراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔

دوسرے ہم عصر جن سے متاثر ہوئے

اپنے زمانے کے جن بزرگوں سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ان کے بارے میں تاثرات بھی قوسین میں درج ہیں۔
شیخ محمد زکی بن العلا رحمۃ اللہ علیہ (زمانے کے سردار اور محبت کا شعلہ)، شیخ القاسم سدسی رحمۃ اللہ علیہ (پیر مجاہدہ)، شیخ الشیوخ ابو الحسن بن سالبہ رحمۃ اللہ علیہ (توحید میں روشن بیان)، شیخ ابواسحاق بن شہریار(صاحب دبدبہ)، شیخ ابوالحسن علی بن بکران (بزرگ صوفی)، شیخ ابو عبداللہ جلیدی رحمۃ اللہ علیہ (بہت احترام والے)، شیخ ابو طاہر مکشوف (جلیل القدر بزرگ)، شیخ احمد بن شیخ خرقانی، خواجہ علی بن الحسین السیر کانی(وقت کے سیاح)، شیخ مجتہد ابوالعباس دامغانی (خدا کے اقبال کا سایہ)، خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجومینی (محقق بزرگ)، خواجہ رشید مظفر بن شیخ ابو سعید (دلوں کا قبلہ)، خواجہ شیخ احمد جمادی سرخسی (وقت کے پہلوان) اور شیخ احمد نجاّر سمرقندی (زمانے کے بادشاہ) رحمہم اللہ۔

دو اہم واقعات

اپنے تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور و فکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور (پڑوسی) بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی رُوکھی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کے کر بیٹھ گئے۔ اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان کی ان حرکات کا مزا ان کو چکھا دیتا۔ لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن و ملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ رحمہم اللہ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔
عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہو گیا تھا۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لیے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورتحال سے پریشان ہو گیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا ’’بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جاؤ، یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ۔ تو اس کی خاطر پریشانی اُٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ اپنے بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔‘‘  فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت وسلامتی کی راہ ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز عیاں کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس سے اپنا کام نکالتی ہے۔

آپ کا طریق

آپ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیا غدار سے خالی کر کے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے۔ کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز با جماعت ناغہ نہیں کی۔ اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی، اور ان چیزوں کو ریا کاری و نمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔
نکاح کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کے لیے نکاح کرنا شرط ہے۔ اور اگر بغیر نکاح کے اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کے لیے مجرور رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک سخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لیے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد کی زندگی گزار دی۔ لیکن تجرد کے ہلاکت خیز خطرات کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے گیارہ برس تزویج (نکاح) کی آفت سے بچایا۔ لیکن تقدیر کا لکھا سامنے آیا اور میں نے بن دیکھے ایک پری صفت کا دل و جان سے گرویدہ ہو گیا۔ اور ایک سال اس طرح اس میں مستعرق رہا کہ قریب تھا کہ میرا دین تباہ و برباد ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال لطف و مہربانی سے میرے دل پر عصمت و پاکیزگی کا فیضان فرمایا اور اپنی رحمت سے مجھے اس آفت سے نجات بخشی۔

لاہور میں آمد اور قیام

آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے ۱۰۳۰ء تا ۱۰۴۰ ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں، کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔
تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ ’کشف المحجوب‘ میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انھیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آ رہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو کہ ملتان کے گرد و نواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار ہوں۔ والحمد للہ علیالسّرّاءِولضّرّاء۔
لیکن آپ کا مقام اور مرکز لاہور ہی رہا۔ اور آخر کار لاہور ہی میں ۴۶۵ ھ میں انتقال فرمایا اور یہیں مدفون ہیں۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ ۱۵۵۵ء تا ۱۶۰۵ ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ۱۶۳۹ء اور خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے کسب فیض کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی کی، اور خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا:

گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا
ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما

اسی سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ۔ گنج بخش ۔ کے نام سے شہرت ہوئی۔

آپ کی تصانیف

آپ نے حسب ذیل کتب کی تصنیف فرمائی، لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔

۱۔ کشف المحجوب
۲۔ منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے مناقب پر تھی۔)
۳۔ الرعایتہ الحقوق اللہ
۴۔ کتاب الفناد
۵۔ اسرار الحزق المؤمنات
۶۔ سحر القلوب
۸۔ کتاب البیان لاہل العیان
شعر و شاعری سے بھی آپ کو دلچسپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ کشف المحجوب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا۔ اور اس کے شروع سے میرا نام محو کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا۔ اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔
اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب  ’منہاج الدین‘  جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی، مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول

آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے: نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے۔

ایک انمول حدیث قدسی

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ: میں نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں میں رکھ دیا ہے۔ لوگ انھیں دوسری چیزوں میں تلاش کرتے ہیں،
بھلا وہ کیسے پائیں گے۔۔۔ میں نے اپنی رضا کو مخالفت نفس میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے موافقت نفس میں تلاش کرتے ہیں،
بھلا وہ کیسے پائیں گے۔۔۔میں نے آرام کو جنت میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے دنیا میں تلاش کرتے ہیں،
بھلا وہ کیسے پائیں گے۔۔۔میں نے علم و حکمت کو بھوک میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے سیری میں تلاش کرتے ہیں،
بھلا وہ کیسے پائیں گے۔۔۔ میں نے تو نگری کو قناعت میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے مال میں تلاش کرتے ہیں،
بھلا وہ کیسے پائیں گے۔۔۔ میں نے عزت کو اپنی اطاعت میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے بادشاہوں کے دروازوں پر تلاش کرتے ہیں۔
(بشکریہ؛ ہفت روزہ ایشیا، لاہور)۔
٭٭٭



کتاب کا با قاعدہ آغاز

اَعُوزُبِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ۔
بِسمِ اللہِ الّرَحمٰنِ الّرَحِیمِ۔

میں شیطان مردود کی دخل اندازیوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اور اس کام کو اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمان اور رحیم ہے۔ اے ہمارے پروردگار! اپنی بارگاہ سے ہم پر رحمت کا نزول فرما اور ہمارے کام میں ہمیں راست روی کی توفیق مہیا فرما۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے اولیاء (دوستوں) پر اپنے نظام سلطنت کے اسرار کھولے۔ اپنے برگزیدہ بندوں پر اپنی قوت و جبروت کے راز واضع کیے اور اپنے جلال کی تلوار سے (جب اور جہاں اس کی مصلحت متقاضی ہوئی) اپنے محبوبوں کا خون بہایا اور عارفوں کو اپنے وصل کی شراب سے بہرہ اندوز فرمایا۔ وہی اپنی بے نیازی اور عظمت اور کبریائی کے ادراک کے نور سے مردہ دلوں کو زندہ کرنے والا اور اپنے اسمائے مبارک کی حقیقی معرفت کی خوشبو سے انھیں مالا مال کرنے والا ہے۔ اور اس کی رحمت اور سلامتی کا نزول ہو اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی آل پر اور ان کے اصحاب پر اور ان کی ازواج مطہرات پر۔
رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنھُم اَجمَعِینَ۔

اس کے بعد اب، میں علی بیٹا عثمان کا اور عثمان بیٹا علی جلابی کا جو غزنی کا رہنا والا ہوں اور جس نے ہجویر میں آ کر بود و باش اختیار کی، اس کام کا آغاز کرتا ہوں۔۔

بَسمَلَہ اور صحتِ نیّت

ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے کاموں کا آغاز خداوند تعالیٰ کے نام (یعنی بِسمِ اللہِ الّرَحمٰنِ الّرَحِیمِ) سے اور اس کی مدد استعانت طلب کرتے ہوئے کرو۔ کیونکہ کاموں کی بھلائی کسب و تدبیر پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی قضا اور توفیق پر موقوف ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے اپنے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروؤں کو ارشاد فرمایا: فَاِزَاقَرَاتَ القُراٰنَ فَاستَعِذبِاللہِ مِنَ الشّیَطَانِ الّرَجِیمِ (۱۶؛۹۸) یعنی جب تم قرآن مجید کو پڑھو تو پہلے شیطان مردود کی دخل اندازیوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور اس کی سورتوں کا آغاز بِسمِ اللہِ الّرَحمٰنِ الّرَحِیمِ۔ سے فرمایا۔ اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیروکاروں کو بِسمِ اللہِ الّرَحمٰنِ الّرَحِیمِ سے اپنے کاموں کو شروع کرنے کی تعلیم فرمائی۔ بندے کو اپنے کام میں خداوند تعالیٰ کی مدد اور توفیق اسی صورتحال میں حاصل ہو سکے گی جب کہ وہ اسے خدا کے نام اور اس سے مدد و رہنمائی طلب کرتا ہوا کرے گا۔
اس کے علاوہ نیت کی درستی بھی ضروری ہے۔ حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اَلاَعمَالُ بِالنِیّاتِ۔ یعنی اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ نیت کو کاموں میں اتنا بڑا دخل حاصل ہے کہ محض نیت کے اختلاف سے ایک کام ایک حکم سے دوسرے حکم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور اس کی نوعیت اور نتائج سب بدل جاتے ہیں۔حالانکہ اس کی ظاہری شکل و صورت وہی رہتی ہے۔ مثلاً ایک مسافر کسی شہر میں مقیم ہونے کی نیت کیے بغیر عرصہ دراز تک بھی آ کر ٹھہرا رہے تو وہ مقیم تصور نہیں ہو گا۔ اس کا حکم مسافر ہی کا رہے گا۔ لیکن جب وہ اقامت کی نیت سے کسی شہر میں آئے تو باوجود اس کے کہ ظاہری عمل ایک سا ہو گا۔ وہ مقیم بن جائے گا۔ اور اس پر مقیم کا حکم جاری ہو گا۔ اسی طرح وہ شخص جو روزے کی نیت کیے بغیر دن بھر بھوکا پیاسا رہے گا روزہ دار تصور نہیں ہو گا۔ اور نہ اس کے بھوکا پیاسا رہنے پر اسے کوئی اجر و ثواب ملے گا۔ لیکن اگر وہ روزے کی نیت کے ساتھ بھوکا رہے تو اس طرح بھوکا رہنے پر اسے قرب خداوندی حاصل ہو گا۔
اگر کام شروع کرتے وقت انسان کا ارادہ صحیح نیت پر ہو لیکن اس کے بعد اس عمل میں کوئی خلل واقع ہو جائے جس کی وجہ سے وہ اسے پایہ تکمیل کو نہ پہنچا پائے۔ تو وہ معذور متصور ہو گا اور اس کا اجر اس کو مل جائے گا۔ حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی نیت اس کے عمل سے برتر ہے۔ نیت آدمی کے عمل کے بغیر بھی نفع بخش ہو سکتی ہے۔ لیکن کوئی عمل بغیر صحیح نیت کے اسے نفع نہیں دیتا۔ نیز نیت میں جس قدر اخلاص ہو گا۔ اس عمل کا اجر و ثواب بڑھتا چلا جائے گا۔
صحت نیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پیش نظر صرف خداوند تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو کوئی نفسانی غرض اس میں شامل نہ ہو۔ یاد رکھو کہ ہر وہ کام جس میں آدمی کے پیش نظر حق تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو وہ اغراض نفسانی کے تحت ہوتا ہے۔ اور جس کام میں نفسانی غرض شامل ہو جاتی ہے اس میں سے برکت اُٹھ جاتی ہے اور آدمی کا دل راہ راست سے منحرف ہو جاتا ہے۔ نفسانیت دوزخ کی کنجی ہے کیونکہ نفس کی لذات و مرغوبات کے پیچھے ہی آدمی جہنم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اس کے برعکس جنت کی کنجی یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو حق تعالٰی کی رضا کی راہ پر گامزن کرے اور اسے اس کی خواہشات کی راہ سے روکے۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:  فَاَمّاَمَن طَغیٰ۔وَاٰشَرَالحَیٰوۃَ الدّنیاَ۔فَاِنَّ الجَحِیمَ ھِیَ البَاویٰ۔ وَاَمَّامَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَھَی النَّفسَ عَنِ الھَویٰ۔ فَاِنَّ الجَنّّۃَ ھِیَ المَاویٰ۔(۷۹:۳۷۔۴۱) یعنی جس شخص نے خداوند تعالیٰ سے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو (آخرت کی نعمتوں اور خدا کی رضا پر) ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے ڈرا اور (اس خوف سے) اس نے نفس کو اس کی خواہشات سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
پس جو کام آدمی کرے اس میں اس کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے سامنے خداوند تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہے یا اس کی محرک اس کی کوئی نفسانی خواہش ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو وہ اس کام سے رک جائے یا جس حد تک اس میں نفسانی خواہش کو دخل ہو اس سے اپنی نیت اور ارادے کو پاک کرے۔

خدا کی راہ کے حجاب

خداوند تعالیٰ کی فرماں برداری اختیار کرنے میں انسان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں ان کو تصوف کی زبان میں ’حجاب‘ کہتے ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں ایک حجاب رینی اور دوسرا حجاب غینی۔

رینی حجاب

رینی حجاب ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ یہ کبھی نہیں اُٹھے گا۔ کیونکہ اس کے لاحق ہو جانے کے بعد آدمی کے دل پر مہر ہو جاتی ہے۔ اس پر ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ رین (زنگ چڑھ جانا)، خَتَم (مہر لگ جانا) اور طبع (ٹھپہ لگ جانا) تینوں الفاظ کو قرآن مجید نے اس بارے میں ایک ہی معنی میں استعمال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:  اِزَا تُتلیٰ عَلَیہِ ایٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیرُ الاَوَّلِینَ۔ کَلاَّبَل رَانَ عَلیٰ قُلُوبِھِمِ مّاَ کَانُو یَکسِبُونَ۔ (۸۳:۱۳۔۱۴) یعنی جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے، چھوڑو جی، پرانے قصے کہانیاں ہیں۔ نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی بد کرداریاں زنگ بن کر ان کے دلوں پر جم گئی ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: ۔۔۔اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُواسَوَآءٌعَلیھِمءَاَنذَرتَھُم اَم لَم تُنذِرھُم لاَ یؤمِنُونَ۔خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوبِہِم وَعَلیٰ سَمعِھِم۔وَعَلیٰ اَبصَارِھِم غِشَاَوۃٌ وَّ لَھُم عَذَابٌ عَظِیمٌ۔ (۲:۶۔۷) یعنی جن لوگوں نے (ان بنیادی حقائق کو) ماننے سے انکار کر دیا ہے، ان کے لیے یکساں ہے کہ انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ماننے والے نہیں۔ ان کے دلوں پر اور کانوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ ان کے لیے (تو اب) عذاب عظیم ہی ہے۔۔ اسی بات کو تیسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا:  فَبِماَ نَقضِھم مِیثَاقَھُم وَکُفرِھِم بِاٰ یٰتِ اللہِ وَقَتلِھِمُ الاَنبِیَآءَ بِغَیرِ حَقِّ وَّقَولِھِم قُلُوبُنَا غُلفٌ۔بَل طَبَعَ اللہُ عَلَیھَا بِکُفرِھِم فَلاَ یُومِنُونَ اِلاَّ قَلِیلاً۔ (۴:۱۵۵) یعنی ان کی عہد شکنی سے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا اور (حق کھل کر سامنے آ جانے پر اسے قبول کرنے کی بجائے الٹا یہ) کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں، (دل محفوظ نہ کہو) بلکہ ان کی باطل پرستی کے سبب اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے۔ اس لیے شاذ و نادر ہی کوئی ایمان لاتا ہے۔
جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے، یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں پر ۔رینی حجاب۔ ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ خود ان آیات سے ظاہر ہے۔ یہ صورت ان کے اپنے طرز عمل اور اپنے کرتوتوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ وہ خود تو صحیح راہ کے متلاشی تھے مگر اللہ نے ان کو ہدایت سے محروم کر دیا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے اس بات کو صاف طور پر واضع فرما دیا کہ: فَلَمّاَ زَا غُوازَاغَ اللہُ قُلُوبَھُم وَاللہُ لاَ یَھدِی القَومَ الفٰسِقِینَ۔ (۶۱:۵) یعنی جب انھوں نے خود ہی کج روی اختیار کر لی تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں ہے کہ نافرمانی کی راہ اختیار کرنے لوگوں کو (زبردستی) راہ دکھائے۔ ورنہ جو شخص اخلاص کے ساتھ ہدایت اور راست روی کا طلبگار ہو، اسے اللہ ضرور راہ راست دکھاتا ہے۔ فرمایا: یَھدِی اِلَیہِ مَن یّنِیبُ۔ (۴۲:۱۳) اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ وَمَا یُضِلُّ بِہٖ وَیَقطَعُونَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہ اَن یُّو صَلَ وَیُفٗسِدُونَ فِی الاَرضِ۔۔۔ (۲۔۶۲۔۲۷) گمراہی میں اللہ انہی لوگوں کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ اللہ نے جن روابط کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، انھیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ اللہ کا اس بارے میں اٹل قاعدہ یہ ہے کہ وَالَّذِیٗنَ جَا ھَدُو افِینَٗا لَنَھٗدِ یَنّھُم سُبُلَناَ۔(۲۱۔۳) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں محنت اٹھاتے اور جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم ضرور اپنا رستہ دکھاتے ہیں۔ بلکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی کا یہ عالم ہے کہ  وَمَن یُؤْمِن بِاللَّهِ یَهْدِ قَلْبَهُ۔ (۶۴۔۱۱) یعنی کو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اسے وہ راہ راست دکھا دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا عنایت ہو سکتی ہے کہ اپنی کتاب ہر طرح سے محفوظ کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ہاتھ میں دے دی اور بتا دیا ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِین۔ (۲۔۲) یہ اللہ کی کتاب ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ راہ دکھاتی ہے پرہیز گاروں (ہدایت کے طلب گاروں کو۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی شامت سے ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کر لی اور آئندہ گناہوں سے باز رہا تو وہ داغ مٹ جاتا ہے اور دل صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ داغ بڑھتے بڑھتے تمام دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے کَلاَّ بَل رَانَ عَلیٰ قُلُوبھِمٗ مَّا کَانُوٗ یَکٗسِبُوٗنَ اور بَلٗ طَبَعَ اللہُ عَلَیٗھَا بِکُفٗرِھِم اور خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوٗ بِھِمٗ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اس کا علاج سچی توبہ ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

غینی حجاب

رینی حجاب کے برعکس غینی حجاب ایک عارضی رکاوٹ ہے اور یہ تھوڑی سی محنت اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے دور ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر درج کردہ آیات سے واضع ہے۔ یہ کم و بیش سبھی کو لاحق ہوتا رہتا ہے۔ اس کے دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی سچے دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے۔ جن چیزوں کے بارے میں وہ خود بھی جانتا ہے کہ یہ خدا کی نافرمانی کے کام ہیں ان کو ترک کرے اور جن کے عاید کردہ فرائض اور پسندیدہ کام جانتا ہے انکے لیے کمربستہ ہو۔ ورنہ ظاہر بات ہے کہ کو جو شخص نہ راہ ہدایت کا خواستگار ہو، نہ اس کی ضرورت محسوس کرے اور نہ اس کے لیے کوئی محنت اور کوشش کرنے کے لیے تیار ہو، اسے ہدایت کیسے حاصل ہو؟ جس شخص کو نہ اپنی بیماری کا احساس ہو، نہ اس کے برے انجام کی کوئی پرواہ ہو اور نہ وہ اس سے شفا یابی کا طلبگار ہو، اس کے گھر کے سامنے بہترین شفا خانہ بھی کھلا موجود ہو تو اسے اس سے کیا فیض پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  كَیْفَ یَهْدِی اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِیمَانِهِمْ وَشَهِدُواْ أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءهُمُ الْبَیِّنَاتُ وَاللّهُ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِین۔ (۳: ۸۶)یعنی ان لوگوں کو اللہ کیسے ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر کا رویہ اختیار کیا حالانکہ وہ یہ بھی شہادت دے چکے ہیں کہ رسول سچا ہے اور سب باتیں ان پر واضع ہو چکی ہیں (جان لو) ایسے ظالم اور بے ڈھب لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ پس ایمان کی نعمت اور دین کی راہ پا لینے بعد غفلت میں مبتلا رہنا خدا کی اطاعت کو عملاً اختیار نہ کرنا انسان کے لیے سخت خطرے کی حالت ہے۔ اگر آدمی اپنی اس حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے گا تو اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ یہ غینی حجاب آہستہ آہستہ رینی حجاب کی صورت اختیار کر لے گا۔
ان دونوں حجابوں کا فرق اس طرح سے سمجھئے، جیسے ایک تو فی الاصل پتھر ہے اور اس سے آئینہ بن ہی نہیں سکتا اور دوسرا دراصل آئینہ ہے جو زنگ آلود ہو گیا ہے اور صیقل کرنے سے صاف ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ جو دل پتھر کی صورت اختیار کرتے ہیں ان کو اللہ زبردستی پتھر نہیں بنا دیتا۔ بلکہ آدمی خود ایسی راہ اختیار کرتا ہے جو اسے اس منزل پر پہنچانے والی ہوتی ہے اور اس راہ پر بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ ورنہ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ کُلُّ مَولُودٍ یُولَدُ عَلیٰ فِطرَۃٍ الاِسلاَمِ (مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ) یعنی ہر بچہ فطرت اسلام (خدا کی مخلصانہ اور بے آمیز بندگی کی راہ) پر پیدا ہوتا ہے۔

یہ دنیا ابتلا کا محل (یعنی امتحان گاہ) ہے

اس سلسلے میں دوسری بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس جہان کو اللہ عّزوجل نے ابتلاء اور آزمائش کا محل بنایا ہے۔ یہ دار الامتحان اور امانتوں کی جگہ ہے۔ جزا اور سزا کی جگہ یہ نہیں ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو حجاب کے محل میں رکھا ہے اور اس کی پوری حقیقت کو انسان کی آنکھوں سے چھپا دیا ہے۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اس پر سے جس قدر پردہ اٹھانا ضروری تھا وہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے رسولوں کے ذریعہ سے اٹھا دیا ہے اور اس کے بعد یہ اعلان فرما دیا:  إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (۷۶:۳) یعنی ہم نے انسان کو راہ دکھا دی، اب اس کا جی چاہے شکر گزاری کی روش اختیار کرے اور جی چاہے نافرمانی اور نمک حرامی کی راہ اختیار کرے۔ لیکن فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَ هُمْ یَحْزَنُون۔وَالَّذِینَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُون (۲:۳۸تا۳۹) یعنی جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا۔ مگر جو اس کو رد کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

انسان کے لیے آسان راہ

پھر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کمال شفقت و مہربانی سے اس کائنات میں یہ صورت رکھی ہے کہ جس کام کے لیے کسی چیز کو پیدا فرمایا ہے اور جو کام فطرتاً یا صراحتہً اس نے کسی کے سپرد کیا ہے اس کا راستہ اس کے لیے آسان فرما دیا ہے۔ اگر آدمی نے اپنی غلط روی سے اپنی طبیعت اور عادت کو کج نہ کر لیا ہو تو اس کی طبیعت اور مزاج کی سب سے موافق راہ وہی ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے سامنے واضع فرما دی ہے۔ کیونکہ یہ راہ اس ہستی کی تجویز کردہ ہے جو خود انسان کی خالق اور مصور ہے۔ قرآن مجید میں اس راہ کو ۔ اَلیُسریٰ۔ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی ۔ آسان راہ۔ وہ راہ کو انسان کی فطرت و ساخت اور اس کی جبلت کے عین مطابق ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَنُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرَى(۸۷:۸) ہم تم کو آسان راہ کی توفیق دیں گے۔ پھر فرمایا: فَأَمَّا مَن أَعْطَى وَاتَّقَى۔وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى۔فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْرَى (۹۲: ۵ تا ۷) یعنی جس شخص نے خدا کی راہ میں دیا اور خدا ترسی کی راہ اختیار کی اور بھلائی کی تصدیق کی اس کے لیے ہم اَلیُسریٰ کو آسان کر دیں گے۔ اور حضور نبی کریمﷺ نے اس بات کو واضع کرتے ہوئے فرمایا: کُلٌ مُیَسَّرٌ لِمَاخُلِقَ لَہُ۔ یعنی ہر چیز کے لیے وہ راہ آسان کر دی گئی ہے، جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ گویا اس راہ کو اختیار کرنے میں، انسان کی اپنی نفسانی خواہشات، بگڑی ہوئی عادات اور نیت کی خرابی کے سوا اور کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ ورنہ خدا کی بندگی کی راہ تو فی الحقیقت اپنی اصل پر قائم انسان کے عین من کی مراد ہے اور اس کی فطرت اس کے مزاج اور اس کی ضرورتوں کے عین مطابق اور موافق ہے۔

متلاشیان حق کے لیے رہنمائی کا انتظام

پھر حضور نبی کریمﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اس بات کا بھی پکا انتظام فرما دیا کہ متلاشیان حق اور راہ ہدایت کے طلب گاروں کے لیے انسانوں کے اندر سچے اہل حق کا ایک گروہ ہمیشہ موجود رہے جو بندگان خدا کی حق کی طرف ٹھیک ٹھیک رہنمائی کر سکے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اس امر کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: لاَتَزَالً طَائفَۃٌ مِّن اُمَّتِی عَلیَ الخَیرِ وَالحَقِّ حَتّیٰ تَقُومَ السَّاعَۃ۔ یعنی میری امت میں سے ایک گروہ حق اور بھلائی کی راہ پر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے۔ نیز فرمایا لاَ یَزَالُ فِی اُمّتِی اَربَعُونَ عَلیٰ اِبرَاھِیمَ، یعنی ہر زمانے میں میری امت میں (کم از کم) چالیس شخص ابراہیم علیہ السلام کے خلق پر موجود رہیں گے۔
پس جو شخص بھی راہ راست کا طلبگار ہو اور نیک نیتی کے ساتھ اس پر چلنا چاہے اس کے لیے یہ مستقل خوش خبری ہے کہ اسے نہ تو راہ راست معلوم کرنے میں ایسی کوئی مشکل پیش آئے گی جس پر قابو نہ پایا جا سکے اور نہ یہ صورت ہی انشاء اللہ اسے پیش آئے گی کہ دنیا میں اسے کوئی ساتھی و ہم سفر نہ ملے۔ صرف طلب صادق اور کوشش و محنت جتنی ایک متوسط آدمی اپنی جائیداد کے مقدمے کے لیے اچھا اور دیانت دار وکیل اور اپنے بچے کی یا اپنی بیماری کے علاج کے لیے اچھا اور دیانت دار طبیب تلاش کرنے کے لیے کرتا ہے۔

لوگوں کا حال

اس راہ میں پہلا قدم صحیح اور قابل اعتماد علم کا حصول ہے۔ کیونکہ صحیح علم کے بغیر نہ آدمی صحیح راہ پا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر چل سکتا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے زمانے اور خصوصاً ہمارے ملک میں علم کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ تمام مخلوقات نفسانی خواہشات میں مبتلا اور خداوند تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے روگرداں ہے۔ زمانے کے علماء اور وقت کے مدعی تک راہ راست کے خلاف چل رہے ہیں۔ اس زمانے میں لوگوں نے اپنی خواہشات نفس کا نام شریعت رکھ دیا ہے۔ حب و جاہ کا نام عزت، تکبر کا نام علم، دکھاوے کی عبادت کا نام تقویٰ، کینہ کو ظاہر کرنے کے بجائے اس کو دل میں پوشیدہ رکھنے کا نام حِلم، مجادلہ و مناظرہ اور نہایت کمینگی کے ساتھ محاربہ کرنے کا نام عظمت، نفاق کا نام زہد، جو منہ میں آئے اس بک دینے کا نام معرفت، نفسانیت کا نام محبت، الحاد کا نام فقر، انکار حق کا نام صفوت، زندیق ہو جانے کا نام فنا اور جناب نبی کریمﷺ کی شریعت کو ترک کر دینے کا نام طریقت رکھ لیا ہے۔ یہاں تک کہ ارباب معانی (اصل اہل حق) ان جہلا سے اسی طرح سے مغلوب ہو گئے ہیں۔ جس طرح خلافت راشدہ کے سقوط کے بعد اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر آلِ مروان نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ اس بارے میں حضرت ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ: ہم آزمائے گئے ہیں ایسے زمانے کے ساتھ جس کے لوگوں میں نہ اسلام کے آداب ہیں نہ ہی جاہلیت کے اخلاق اور نہ عام انسانی شرافت کی خصلتیٕں ہیں۔
ایسے حالات میں حق جل وعلا کے سوا کون ہے کو اس چیز کو لانے کا ارادہ اور اس کے اسباب پیدا فرمائے جسے اہل زمانہ کھو چکے ہیں۔ جس کے ارادتمند تک اس کے ظہور پذیر ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں اور جس کے عارفین کی معرفت بھی اس کے وجود سے جدا ہو چکی ہے۔
بہر حال پہلا قدم صحیح علم سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے آگے ہم علم اور اس کے حصول ہی سے آغاز کرتے ہیں۔
واللہ المستعان وما توفیقی الا باللہ
٭٭٭



علم اور اس کے حصول کے بارے میں

علم حاصل کرنا فرض ہے

دین ہو یا دنیا علم کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں پا سکتا۔ اسی لیے حضور نبی کریمﷺ نے یہ تاکید فرمائی کہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ پھر فرمایا: علم حاصل کرو چاہے اگرچہ یہ چین (نہایت دور دراز ممالک) میں جا کر حاصل کرنا پڑے۔ قرآن مجید میں اللہ عّزوجل نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ (٣٥:٢٨) یعنی خدا کے بندوں میں سے جو علم رکھنے والے ہیں وہی خدا سے ڈرتے ہیں۔ نیز فرمایا وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (٥٥۔۴۶) یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ گویا خداوند تعالیٰ کا خوف جنت کی کنجی ہے۔ اور یہ خوف علم سے پیدا ہوتا ہے۔
لیکن دین میں جس علم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے۔ اس سے مراد دنیا جہان کے ہر علم کا حصول نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں تو علوم بےشمار ہیں۔ ان سب کا حصول نہ ہر انسان کے لیے ممکن ہے اور نہ اس کے لیے ضروری اور فرض ہے۔ جس علم کا سیکھنا ہر ایک کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے، وہ خداوند تعالیٰ کی شریعت اور خصوصاً اس کے فرائض و واجبات کا علم ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے علوم کا اس حد تک حصول جس حد تک یہ شریعت الٰہی کے احکام اور ان کے مختلف پہلو سمجھنے کے لیے درکار ہوں وہ آپ سے آپ ضروری ہو جاتا ہے۔ مثلاً علم طبیعات، علم حساب، علم جغرافیہ، علم نجوم ہیئت، علم سیاست و اقتصادیات، علم قانون، اور علم صنعت و تجارت وغیرہ۔ کیونکہ ان کے کم از کم اصولی علم کے بغیر انسان کی انفرادی و اجتماعی اور عمرانی زندگی کے مسائل کا فہم و ادراک اور ان پر اصول شریعت کا انطباق کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے زائد جس قدر علوم آدمی حاصل کرے وہ مستحسن اور مطلوب ہے لیکن فرض نہیں ہے۔
جہاں تک انسان کے لیے مضر اور نقصان دہ اور غیر نافع علوم کا تعلق ہے ان کی اللہ تعالیٰ نے بھی مذمت فرمائی ہے اور نبی پاکﷺ نے بھی اس سے پناہ مانگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ (۲۔۱۰۲) یعنی وہ ان باتوں کو سیکھتے جو ان کو ضرر پہنچانے والی ہیں، اور ان کو کوئی فائدہ پہنچنے والی نہیں ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع دینے والا نہ ہو۔ اس لیے ایسے علوم سے الگ رہنا چاہیے۔

علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں

یاد رکھو کہ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ نہ عمل کے بغیر علم نافع ہے، اور نہ علم کے بغیر عمل نفع بخش ہے۔ جس علم کی پشت پر عمل موجود نہ ہو وہ علم جہل ہی کے زمرے میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اَوَكُلَّمَا عٰھَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ ۭ بَلْ اَكْثَرُھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (٢۔١٠۰)۔ یعنی اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا انھیں کچھ علم ہی نہیں ہے۔ اسا سے معلوم ہوا کہ بے عمل عالم اصحاب علم کے زمرے سے ہی خارج ہے، چہ جائیکہ اس علم سے اسے کوئی نفع حاصل ہو۔ اگر عمل کے بغیر مجرد علم کسی درجے میں بھی قابل قدر ہوتا تو اللہ عزوجل کی طرف سے یہ نہ فرمایا جاتا کہ: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (٦١:٢-٣) یعنی کیوں کہتے ہو وہ باتیں جو کرتے نہیں ہو۔ یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی اشتعال انگیز ہے کہ آدمی کہے اور کرے نہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (قیامت کے روز) خدا کی عدالت سے کوئی شخص خلاصی نہیں پا سکے گا جب تک اس سے ان پانچ چیزوں کا حساب نہ لے لیا جائے
١۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں کھپایا۔
٢۔ اور اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو اس نے کن مشاغل میں لگایا۔
٣ و ٤۔ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے اس نے کن طریقوں سے اور کیسے کمایا اور کیسے اور کہاں خرچ کیا؟
٥۔ اور یہ کہ جو علم اسے حاصل تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا۔
پس جان لو کہ عمل کے بغیر علم کچھ کام نہ آئے گا۔ اور ابھی جب کہ مہلت کی گھڑی حاصل ہے اس بات پر نگاہ کرو کہ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کو آپ جانتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے آپ کے لیے فرض اور واجب قرار دی ہیں۔ لیکن آپ ان سے غافل ہیں۔ اور اس کے برعکس کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں خدا اور اس کے رسولﷺ نے وعیدیں سنائی ہیں۔ اور ان کو ناپسند قرار دیا ہے۔ اور آپ ان میں مبتلا ہیں۔
جس طرح سے عمل کے بغیر علم نافع نہیں ہے، اسی طرح سے علم کے بغیر عمل بھی نافع نہیں ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے سمجھے عبادت کرنے والے آدمی خراس کے گدھے (کولھو کے بیل) کی مانند ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے سمجھے بوجھے عبادت کرنے والا عابد کے حکم میں داخل نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص صبح سے شام تک فاقے سے رہے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ خداوند تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، تو ان میں سے کوئی فعل بھی عبادت میں داخل نہیں ہو گا۔ ان افعال کو عبادت میں داخل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف اسے ان کے خدا کی رضا کے کام ہونے کا علم ہو بلکہ اس کے ساتھ اس کے دل و جان میں ان کو خدا کی عبادت کے طور پر کرنے کی نیت بھی ہو۔
یہی نہیں، بلکہ جب تک انسان اپنے علم پر عامل نہ ہو، اس کے لیے آگے راہ ہی نہیں کھلتی۔ اپنے علم پر وہ جتنا وہ عمل کرتا جائے گا اس کے لیے آگے راہ کھلتی چلی جائے گی۔ اور جہاں وہ ٹھہر جائے گا آگے راستہ بند رہے گا۔ حضرت ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایک پتھر کو راستے میں پڑا دیکھا، جس پر لکھا تھا کہ مجھے الٹ کر پڑھو، میں نے اسے الٹ کر دیکھا تو دوسری طرف لکھا تھا، جو کچھ تو جانتا ہے اگر اس پر عمل نہیں کرے گا تو اندر ان باتوں کو جاننے کی طلب کیسے پیدا ہو گی جو تو نہیں جانتا
پس علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ ایک طرف علم سے صحیح عمل کی راہ کھلتی ہے اور آدمی کو صحیح اور غلط، اور جائز اور ناجائز، اور بھلے اور برے میں تمیز حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف معلوم پر عمل پیرا ہونے سے ہی علم سے نفع اور فیض حاصل ہوتا ہے۔ اور آگے مزید علم کی راہ کھلتی ہے۔

علم کی قسمیں

علم دو ہیں۔ ایک علم خداوند تعالٰیٰ کا اور دوسرا علم مخلوق کا۔
خداوند تعالیٰ کا علم اس کا پنا اور اس کی ذاتی صفت ہے۔ اور اس کے ساتھ قائم ہے۔ اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے اور نہ انتہا۔ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں- وہ تمام موجودات کو بھی جانتا ہے اور تمام معدومات کو بھی۔ یعنی اسے ان سب باتوں اور چیزوں کا بھی علم ہے جو موجود ہیں اور ان سب کو بھی جانتا ہے جو موجود نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   (٢۔ ١۲۹)یعنی اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔ نیز فرمایا: وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا  (۸۰- ۶) یعنی اللہ کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ (٦۔ ٧٣) یعنی وہ سب کچھ جو مخلوق سے پوشیدہ ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ مخلوق کے لیے ظاہر و معلوم ہے اس کو بھی جانتا ہے۔
اس کے برعکس مخلوق کا علم سب کا سب خدا کا عطا کردہ ہے۔ اور اس کی ایک حد اور انتہا ہے جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی جاتی ہے۔ یہ حاصل بھی ہوتا ہے اور ضائع بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ (٢۔٢٥٥) یعنی بندے اس کے علم میں سے کوئی چیز کو اپنے احاطہ علم میں نہیں لاسکتے۔ مگر اتنا کہ ہی جتنا وہ خود ان کو دینا چاہے۔ اور پھر فرمایا۔ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (١٧۔٨٥)یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اور یہ جان لو کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی خدا کے ساتھ اس کے سارے علم میں شریک نہیں۔ اس لیے طالب کو چاہیے کہ وہ خداوند تعالیٰ کے عطا کردہ علم و ہدایت کی مشعل راہ بنائے۔ اور اپنے تمام اعمال میں اس بات کو سامنے رکھے کہ خدا اسے اور اس کے تمام افعال کو دیکھتا ہے۔
پھر انسان کے علم و عمل کا ایک ظاہر ہے اور ایک ان کا باطن ہے۔ مثلاً کلمہ شہادت کا ظاہر یہ ہے کہ اسے زبان سے ادا کیا جائے اور اس کی صداقت کا اقرار کیا جائے۔ اور اس کا باطن یہ ہے کہ اس کے پس پشت حقیقت کی معرفت آدمی کو حاصل ہو اور اس کا دل اس کی تصدیق کرے۔ اسی طرح معاملات زندگی کی ظاہری شکل و صورت ان کا ظاہر ہے۔ اور ان کے پیچھے کارفرما نیت اور ان کا اصل محرک ان کا باطن ہے۔
باطنی حقیقت کی موجودگی کے بغیر محض ظاہر کا اہتمام نفاق ہے۔ اور ظاہری شکل و صورت کے بغیر محض باطن کا دعویٰ صریح بے دینی اور زندقہ ہے۔ اہل طریقت باطن کے بغیر ظاہر کو ۔نقص۔ اور ظاہر کو کے بغیر محض باطن کو ۔ہوس۔ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے طالب حق کے لیے ظاہر اور باطن دونوں کی درستی یکساں ضروری ہے۔

فرض علوم

جن علوم کا سیکھنا انسان کے لیے فرض ہے اس کے دو حصے ہیں۔ ایک علم حقیقت اور دوسرا علم شریعت

علم حقیقت

علم حقیقت جسے علم اصول بھی کہتے ہیں، اس کے تین ارکان ہیں۔
١۔ خدا کی ذات اور اس کی توحید اور شرک کے حدود کا علم
٢۔ خدا کی صفات اور اس کے حکام و فرامین کا حکم۔
٣۔ خدا کے افعال اور ان کی حکمتوں کا علم-
خدا کی ذات کا علم یہ ہے کہ ہر عاقل و بالغ یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔ وہ ایک ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے واسطے نہ کوئی سمت و جہت مخصوص ہے اور نہ مکان۔ اس کے واسطے نہ زوال ہے اور نہ کوئی حد۔ نہ اس کے کوئی مثل ہے اور نہ مثال اور نہ جنس۔ وہ ہر جگہ موجود ہے اور سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔ کسی دل کا کوئی بھید بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ خلق کو پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک ہے، نہ امر و تدبیر میں اور نہ فرمانروائی میں۔ کسی حیثیت اور کسی معاملے میں بھی شریک ہونا تو درکنار کسی دوسرے کو اس کی جناب میں دم مارنے کا بھی یارا نہیں ہے۔ بس وہی ایک خالق اور باقی سب مخلوق ہے۔
خدا کی صفات کا علم یہ ہے کہ اس کی تمام صفات اس کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہیں اور دائمی ہیں۔ لیکن نہ اس کا جز ہیں اور نہ اس سے علیحدہ ہیں۔ وہ الٰہ ہے اور الٰہ واحد ہے۔ زندہ جاوید ہے۔ ہر چیز پر قادر اور ہر موجود و معدوم اور ہر غیب و شہادت سے پوری طرح باخبر ہے۔ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اس کی ہر بات حق، اس کا ہر حکم شدنی اور مخلوق کے لیے واجب التعمیل اور واجب الطاعت ہے۔ دوسرے تمام احکام اور اطاعتیں اس کے احکام اور اطاعت کے تحت ہیں۔ مستقل بالذات اطاعت صرف اسی کا حق ہے۔
خدا کے افعال کا علم یہ ہے کہ تمام مخلوق اور اس کی کائنات میں جو کچھ ہے سب کا خالق اور پالنہار بھی اللہ تعالیٰ ہے اور موت  و حیات، عروج و زوال، رزق کی کمی بیشی، خیر و شر، خشک و تر اور تمام موجودات اور اس کے سب تغیرات بھی خداوند تعالیٰ کے افعال ہیں۔ اور ان میں سے ہر فعل اپنے فاعل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ۔ وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ۔ وَاِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ۔ وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (٨٨:١٧۔٢٠) یعنی کیا یہ لوگ اس پر نظر نہیں کرتے کہ ہم نے اونٹ کو کیسا (موزوں) بنایا؟ آسمان کو کیسے بلند فرمایا؟ پہاڑوں کو کیسا جما دیا اور زمین کو کیسا بچھا دیا؟، پھر فرمایا: اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ (٣: ١٩٠) یعنی زمین وآسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری سے آنے میں عقل رکھنے والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ اگر ان کو آنکھیں کھول کھول کر دیکھو اور ان پر غور و فکر کرو تو ان میں سے ہر شے تمھیں اپنے خالق و فاعل اور اس کائنات کے پس و پردہ حقیقت کا پتہ دے گی۔
خداوند تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں اس کے حسب ذیل ارشادات خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔
١۔ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ (٤٧:١٩) جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔
٢۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْ  (٨:٤٠) خوب جان لو کہ اللہ ہے تمھارا آقا۔
٣۔ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ   هُوَ مَوْلٰىكُمْ (٢٢:٧٨) اللہ کا دامن پکڑو، وہ ہے تمھارا آقا
٤۔ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ (٧:٥٩) اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔
٥۔ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (١١٢:١ تا ٤) ان کو بتا دو کہ وہی ایک خدا ہے۔ اسے کسی کی حاجت نہیں۔ نہ کوئی اس کا بیٹا ہے اور نہ باپ اور نہ ہی کوئی اس کے برابر کا ہے۔
٦۔ وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا (٧٢۔ ٣) نہ اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے اور نہ اپنا بیٹا۔
٧-  لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْء  (٤٢:١١) اس کے مثل کوئی نہیں ہے۔
٨۔  اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ  ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۔ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ  ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا  ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ  (٢:٢٥٥) اللہ وہ زندہ جاوید ہستی کو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ کون ہے (یعنی کوئی نہیں) جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے۔ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کے علم میں نہیں آ سکتی۔ الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔
٩۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (٧:٥٤) خبردار، مخلوق بھی اسی کی ہے اور بادشاہی بھی اسی کی۔
١٠۔ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (٢:١٨١) اللہ سب کچھ جانتا ہے اور سنتا ہے۔
١١۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (٥:٧) اللہ دلوں کے چھپے راز تک جانتا ہے۔
١٢۔ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (٨٥:١٦) وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے-
١٦۔ وَ اِذَا قَضٰۤی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (٢:١۱٧) اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ۔ہو جا۔ اور وہ ہو جاتی ہے-
١٧- قَوْلُهُ الْحَقُّ (٦:٧٣) اس کی ہر بات بالکل سچ اور ہو کر رہنے والی ہے-
١٨۔ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     (٦:١٦٥) تمھارا رب سزا دینے میں بہت تیز دست ہے اور درگزر اور رحم فرمانے والا بھی بہت ہے۔
١٩۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ (٨٥:١٢) تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
٢٠۔ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ   (١٢:١٩٢) اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
٢١۔ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ (٨٥:١٤) اور وہ بڑا ہی بخشنے والا اور (اپنی مخلوق سے)محبت کرنے والا ہے۔

علم شریعت

علم شریعت کے بھی تین ارکان ہیں۔
١۔ خدا کی کتاب
٢۔ رسُول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
٣۔ اجماع امت
شریعت کا رکن اول خدا کی کتاب کی آیات محکمات ہیں۔ ان سے مراد عقائد، فرائض اور امر و نہی سے متعلق وہ آیات ہیں جن کے معنی و مفہوم اور مدعا و مقصود متعین کرنے میں اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا: اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ (٣:٧) یعنی اس میں ایک تو آیات محکمات ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات (جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے) جہاں اور جس مسئلہ میں کوئی اشتباہ یا اختلاف پیدا ہواسے ان محکمات کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ ان سے اقرب اور زیادہ مطابقت رکھنے والی کون سی شکل ہے۔ صحیح صورت وہی ہو گی جو محکمات سے اقرب اور ان کے پیش کردہ تصور دین سے زیادہ مطابق ہو گی۔
شریعت کا دوسرا رکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی آپﷺ کا طریقہ ہے۔ خداوند تعالیٰ کے احکام اور ان کے ٹھیک منشاء و مفہوم کو جاننے کا انسانوں کے پاس واحد مستند ذریعہ حضور نبی کریمﷺ کی ذات ہے۔ اور اب آپﷺ کی ذات سے مراد آپﷺ  کے فرمودات و تقاریر اور آپﷺ  کے افعال ہیں جو اللہ عزوجل نے اپنی کمال مہربانی سے احادیث اور سیرت کی کتب میں محفوظ کرا دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ    ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا  (٥٩:٧) یعنی جو کچھ خدا کا رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے تمھیں منع کرے اس سے رک جاؤ۔ نیز فرمایا۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (٣٣:٢١) یعنی تمھارے لیے ہر معاملہ میں رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول نبی کریمﷺ کو حکم دیا: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ  وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (٣:٣١) یعنی اے پیغمبرﷺ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائیں بخش دے گا۔
شریعت کا تیسرا رکن اجماع امت ہے۔ اس کے رکن شریعت ہونے کی بنیاد آپﷺ  کا یہ ارشاد ہے: میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی۔ تم سواد اعظم کے ساتھ رہنا، اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا (٤:١١٥) یعنی راہ راست واضع ہو جانے کے بعد جا رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ کے سوا کسی اور راہ پر چلے تو اسے ہم اسی راہ پر چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے۔ ظاہر بات ہے کہ سبیل المومنین سے مراد اسلام کی وہ راہ ہے جس پر اہل ایمان کے تمام اہل علم یا ان کی اکثریت متفق ہو یعنی جس پر ان کا اجماع ہو۔

علم کے ساتھ فکر کی ضرورت اور اہمیت

علم کے ساتھ فکر بھی ضروری چیز ہے۔ کیونکہ فکر اور تدبر کے بغیر نہ تو آدمی کے اندر صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔ اور نہ اس کے بغیر علم آدمی کی زندگی پر کوئی گہرا اور دیر پا اثر ڈال سکتا ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ایک گھڑی فکر و تدبر کرنا ساٹھ برس کی (نفل) عبادت سے بہتر ہے۔

انسانی علم کی حد

کوئی شخص یا ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی اپنے اور دوسرے انسانوں کے نزدیک علم میں خواہ وہ کتنا ہی کمال حاصل کر لیں، لیکن ان کے اس علم کی ایک حد ہے، اور اصل علم جو صرف خدا کے پاس ہے اس کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انسانی علم کا تو یہ حال ہے کہ تمام انسان مل کر بھی خدا کی کائنات کے ایک ذرے تک کے بارے میں پورا علم رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ انسانی علم کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ فی الحقیقت وہ کچھ نہیں جانتا۔ جیسا کہ حضور نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: خدایا میں تیری صفت بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو صرف اپنی نعمتوں اور کلمات کے بارے میں فرمایا ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (١٤:٣۴، ١٦:١٨) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو صرف شمار کرنے لگو تو ان کو شمار نہیں کر سکتے۔ اسی طرح پھر فرمایا: لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا (١٨:١٠٩) اگر میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے تمام سمندر سیاہی بن جائیں تو یہ سمندر ختم ہو جائیں گے مگر میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے خواہ ان کے ساتھ اتنے ہی سمندروں کی اور بھی سیاہی کیوں نہ بنا لی جائے۔

صحیح علم اور ادراک کا زندگی پر اثر_

حضرت حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب سے میں نے چار علموں کو حاصل کر لیا ہے اس وقت سے میں دوسرے تمام علوم و افکار سے فارغ ہو گیا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ چار علم کون سے ہیں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
١۔ جب سے مجھے یہ علم ہو گیا ہے کہ میرا رزق میرے لیے علیٰحدہ کر کے رکھ لیا گیا ہے، جو کسی صورت میں بھی کم و بیش نہیں ہو سکتا، اس وقت سے میں غم روزگار یعنی رزق زیادہ طلب کرنے کی فکر سے آزاد ہو گیا ہوں۔
٢۔ جب سے میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایک حق ہے جس کو میرے سوا میری طرف سے کوئی اور ادا نہیں کر سکتا، اس وقت سے میں اس حق کو ادا کرنے میں مشغول ہو گیا ہوں۔
٣۔ جب سے مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا ہے کہ میرے سر پر موت سوار ہے اور اس سے میں کہیں بھاگ نہیں سکتا ، میں نے اس سے سازگاری کر لی ہے۔ اور
٤۔ جب سے میں نے یہ جان لیا ہے کہ میرا ایک خدا ہے جو میرے تمام افعال کی خبر رکھتا ہے تو میں نے ایسی تمام باتوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جن کے ارتکاب سے قیامت کے روز مجھے اس کے روبرو نادم و شرمسار ہونا پڑے۔
اور حکایتوں میں بیان کرتے ہیں کہ بصرہ کا ایک رئیس اپنے باغ میں گیا اور اس کی نظر اپنے سنار کی حسین بیوی پر پڑی۔ رئیس نے سنار کو تو کسی کام کے لیے باہر بھیج دیا اور اس کی عورت کو حکم دیا کہ گھر کے تمام دروازے بند کر دو۔ اس عورت نیک سیرت نے کہا کہ میں اور تمام دروازے بند کر سکتی ہوں لیکن ایک دروازہ بند نہیں کر سکتی۔ رئیس نے دریافت کیا کہ وہ کون سا دروازہ ہے جسے تو بند نہیں کر سکتی؟ عورت نے جواب دیا کہ جس دروازے سے ہمارا خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ عورت کی یہ بات سن کر وہ رئیس سخت نادم ہوا ۔ اپنے ارادہ بد سے توبہ کی اور اس عورت سے معافی مانگ لی۔

قابل اجتناب پیشوا

حضرت شیخ المشائخ یحییٰ بن معاز رازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں سے بچو، ایک غافل علماء سے، دوسرے چکنے چپڑے اور دکھاوے کے فقراء سے اور تیسرے جاہل صوفیوں سے۔
غافل علماء وہ ہیں جنھوں نے حصول دنیا کو اپنا قبلہ مقصود بنا رکھا ہے۔ ظالم حکمرانوں کے درباروں کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ خدا کی بجائے مخلوق سے عزت و مرتبہ کی طلب رکھتے ہیں۔ بزرگان دین اور دوسرے اہل علم کی تحقیر کرتے ہیں اور حسد اور عناد کو اپنا مذہب بنائے ہیں۔
مکار اور دکھاوے کے فقراء وہ ہیں جنھوں نے ظاہر میں فقیری کا روپ بنا رکھا ہے۔ باطن میں حرص کے بندے ہیں۔ جب کوئی شخص کوئی کام ان کی خواہش کے مطابق کرتا ہے تو خواہ وہ باطل ہی کیوں نہ ہو، وہ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اور جب کوئی شخص کوئی کام ان کے خلاف کرتا ہے تو خواہ وہ حق ہی کیوں نہ ہو، وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اور مخلوقات کو حق کی بجائے باطل کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور اپنا شکار بناتے ہیں۔
جاہل صوفی وہ ہوتا ہے کہ جس نے نہ کسی بزرگ کی صحبت اختیار کی، نہ کہیں سے تربیت حاصل کی اور نہ اسے حق اور باطل کی تمیز ہو، بلکہ یونہی اپنے آپ کو لوگوں میں صوفی مشہور کر دیا ہو۔

محض علم ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے

یہ بھی یاد رکھو کہ محض علم آدمی کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے۔ حقیقت اور شریعت کے علوم ہدایت کا ذریعہ بھی ہیں اور انسان کے تجرباتی علوم اس میں مددگار ہوتے ہیں۔ طلب ہدایت کے لیے ان علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ مگر ہدایت اللہ تعالیٰ کی عنایت اور عطا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے حصول علم کے ساتھ اخلاص اور تضرع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس سے ہدایت کی مخلصانہ طلب ضروری ہے۔ کوئی عالم ہو یا صوفی یا فقیر، شریعت کا علم سب کے لیے لازم ہے۔ شریعت کے علم کے بغیر نہ کوئی عالم کہلا سکتا ہے اور نہ صوفی نہ فقیر، اور نہ ان میں سے کسی چیز کا وہ دعویٰ کر سکتا ہے۔
٭٭٭


فقر کے بارے میں

فقر کا مرتبہ اور اس کی حقیقت

خدا کے ہاں فقیری اور درویشی کا مرتبہ بہت بلند ہے- حضور نبی کریمﷺ دعا فرمایا کرتے تھے: اے میرے اللہ! مجھے فقیری کی حالت میں زندہ رکھ، فقیری کی حالت میں موت دے اور فقراء کے زمرے ہی میں میرا حشر فرما۔ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے دوستوں کو میرے پاس لاؤ۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، فقراء اور مساکین۔
لیکن فقراء اور مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا پر بھروسہ کر کے دنیا کمانے کی فکر سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو خدا کے کام اور اس کی ملازمت کے لیے وقف کر دیں۔ جیسے اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، ہر وقت مسجد نبویﷺ میں حاضر رہتے تھے کہ نبی کریمﷺ جس وقت جو کام چاہیں ان سے لے سکیں۔ یہ لوگ ظاہری اور باطنی تمام اسباب کو نظر انداز کر کے خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کی ذات کے ساتھ دوستی اور محبت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ اس کی ذات کے سوا کسی کو دوست نہیں بناتے۔ اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں یہ ارشاد ہوا کہ،  لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ  ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا  ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ (٢:٢٧٣) تمھاری فی سبیل اللہ امداد اور خدمت کے حقدار وہ فقراء ہیں جو خدا کے کام میں اس طرح سے گھر گئے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ اور ان کی خود داری کو دیکھ کر ایک نا واقف آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ مالدار ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں نبی کریمﷺ کو حکم دیا گیا کہ  وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ (٦۔٥٢) اے نبیﷺ! ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ پھینکو جو رات دن اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں۔
فقر کی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیٰحدگی نہیں ہے۔ بلکہ دل کو اس کی محبت سے خالی اور بے نیاز کرنا ہے۔ چنانچہ تصوف کی اصطلاح میں فقیر وہ ہوتا ہے جو متاع دنیا سے بالکل بے نیاز ہو۔ اس کے پاس خواہ سرے سے کچھ موجود نہ ہو یا اس کے پاس دنیا کے سارے اسباب موجود ہوں، دونوں میں سے کسی حالت میں اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔ نہ کسی چیز کے نہ ہونے سے اسے کوئی پریشانی لاحق ہو اور نہ سارے اسباب موجود ہونے سے وہ اپنے آپ کو غنی اور دولتمند محسوس کرے۔ گویا دنیا کی کسی متاع کا ہونا اور نہ ہونا اس کے نزدیک یکساں ہو۔ بلکہ تنگدستی اور افلاس کی صورت میں وہ زیادہ خوش ہو۔ کیونکہ فقیر جس قدر تنگدست ہو ٹھیک ہے کہ اس صورت میں اس پر حال کا انکشاف زیادہ ہو گا۔ اور اس پر غفلت کم طاری ہو گی۔ چنانچہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا: بھوکے پیٹ رہنے والا خدا کے نزدیک ستر صاحب عقل عابدوں سے زیادہ محبوب ہے۔ نیز یہ کہ: بھوک اس دنیا میں خدا کی غذا ہے۔

اصلی فقیر

ایک شیخ فرماتے ہیں: فقیر وہ نہیں ہوتا جو زاد راہ اور متاع دنیا سے خالی ہاتھ ہو، اصل فقیر وہ ہے جو مراد(طلب دنیا) اور حرص سے خالی ہو۔ اور حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فقیر وہ ہے جسے اللہ عزوجل کے سوا کسی اور چیز سے چین نہ آئے۔ اور حضرت رویم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: فقیر کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے بھید کی حفاظت کرے اور اپنے نفس پر نظر رکھے اور اسے آفتوں سے بچائے اور خداوند تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کو ادا کرے۔
پس ذات خداوندی کے ماسواء تمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے۔ فقیر کی اصل عزت یہ کہ اس کے تمام اعضاء و جوارح خدا کی نا فرمانی سے محفوظ ہوں اور ان کو وہ تمام نامناسب چیزوں سے بچائے رکھے۔ وہ کسی معصیت میں مبتلا نہ ہو یہاں تک کہ اس کا بدن روحانی اور اس کا دل ربانی ہو جائے۔

فقر اور غناء اور ان کے بارے صحیح روش

مشائخ رحمہم اللہ میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ فقراء اور غناء کی حالتوں میں سے افضل حالت کونسی ہے۔ لیکن میں علی بن عثمان جلابی کہتا ہوں کہ یہ ایک بیکار بحث ہے۔ غنی خدا کا نام ہے اور وہی اس کا سزاوار ہے۔ مخلوقات فی الحقیقت اس نام کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ انسان تو پیدا ہی محتاج اور فقیر ہوا ہے۔ اس لیے اس کے لیے فقر کا نام ہی سزاوار ہے۔ ہاں خدا کے ماسوا کسی اور کو مجازاّ غنی کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔ خداوند تعالیٰ اپنی ذات سے غنی ہے۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ اس کے غناء کے لیے نہ کوئی سبب ہے اور نہ اس کے لیے کسی سبب کی ضرورت ہے۔ بندے کو جو غناء حاصل ہوتا ہے وہ خدا کا عطا کردہ اور اسباب کار ہین منت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ  وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ (٣٥:١٥) اے لوگو! تم سب خدا کے محتاج اور فقیر ہو اور خدا جو ہے وہی حقیقتاً غنی اور حمید ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ  (٤٧:٣٨)اللہ ہی غنی ہے، تم سب محتاج اور فقیر ہو۔
پس بندہ پیدائشی محتاج اور فقیر ہے۔ اگر اس پر غناء کی حالت کسی درجہ میں آتی ہے تو وہ اللہ کی عطا اور بخشش سے آتی ہے۔ غنی وہ ہے جسے اللہ غنی کر دے۔ اور جب وہ چاہتا ہے غناء کو فقر سے اور فقر کو غناء سے بدل دیتا ہے۔
چونکہ یہ جہان ابتلاء اور آزمائش کا محل ہے، اس لیے اس جہان میں غناء کی حالت ہو یا فقر کی، دونوں انسان کے لیے ابتلاء اور آزمائش کی صورتیں ہیں۔ انسان کو فقر کی حالت میں صبر کرنا چاہیے اور غناء کی حالت میں شکر کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو فقر اور مصیبت کی حالت میں شدت صبر کی بدولت نعم  العبد قرار دیا اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرً   نِعْمَ الْعَبْد  اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ (٣٨:٤٤) اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو شکر نعمت کی بدولت نعم العبد فرمایا وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ  نِعْمَ الْعَبْدُ  اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ (٣٨۔٣٠)۔ گویا صبر ایوب علیہ السلام اور شکر سلیمان علیہ السلام دونوں بارگاہ الٰہی  میں ایک درجہ میں ہیں۔ ورنہ متاع دنیا سے خالی ہاتھ ہونا جہاں خدا کی طرف رجوع اور تضرع کا سبب ہو سکتا تھا، وہاں اس سے رو گردانی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اندیشہ ہے کہ متاع دنیا سے محرومی کفر کی صورت نہ اختیار کر جائے۔ اس لیے صحیح صورت یہ ہے کہ جس حال میں مالک رکھے اس پر قانع اور اس کی بندگی و اطاعت کی راہ پر قائم رہنا چاہیے۔ غناء بھی خدا کی نعمت ہے۔ اس میں غفلت کرنا آفت ہے، اور فقر بھی خدا کی نعمت ہے، اس میں حرص اور بے صبری میں مبتلا ہونا آفت ہے۔ میرے استاد محترم حضرت ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لوگوں نے فقر اور غناء کے بارے میں بحثیں کی ہیں اور اپنا ایک نہ ایک مذہب مقرر کر لیا ہے۔ مجھے اگر خداوند تعالیٰ غنی کرے تو میں غافل ہونے کی بجائے اس کا شکر ادا کروں گا اور اگر وہ مجھے فقیر بنا دے تو حریص اور اس سے منہ پھیرنے والا بننے کے بجائے صبر کروں گا۔

مصنوعی فقیر

مخلوقات میں سے وہ شخص بہت ہی کمینہ اور رذیل ہے، جو در حقیقت تو خدا کا فقیر نہ ہو لیکن لوگ اسے ایسا سمجھیں۔ اور وہ خود بھی اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرے اور اس طرح لوگوں میں عزت اور مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ جو چیز بندے کو خدا سے دور اور غائب کرے وہ عزت نہیں بلکہ بدترین قسم کی ذلت ہے۔ مشائخ رحمہم اللہ نے ہمیشہ مریدوں کو اس صورتحال سے متنبہ کیا ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ درویشوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے درویشوں کے گروہ کے لوگو! تم لوگوں میں اللہ والوں کی حیثیت سے جانے جاتے ہو اور اللہ سے تعلق رکھنے کی بناء پر ہی تعظیم کیے جاتے ہو، جب تم اللہ کے ساتھ تنہائی میں ہو اس وقت اپنا جائزہ لیا کرو کہ خدا کے ساتھ تمھارے تعلق کا فی الواقع کیا حال ہے۔ شیخ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اصل فقیر وہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔ جب اسے خداوند تعالیٰ مل جائے تو پھر اور کسی اور شے کی اسے حاجت نہ رہے اور وہ نہ ہو تو اسے چین نہ آئے۔
٭٭٭



تصوف کے بارے میں

تصوف کی حقیقت: خُلُق

حضرت محمد بن علی بن حسین بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں: تصوف نیک خوئی کا نام ہے، جتنا کوئی شخص نیک خوئی میں بڑھا ہوا ہو گا، اتنا ہی تصوف میں بڑھ کر ہو گا۔

اخلاق کے دو اجزاء

اور اخلاق (نیک خوئی) کے دو اجزاء ہیں۔ ایک خالق کے ساتھ اخلاق، اور دوسرا مخلوق کے ساتھ اخلاق
(١) خدا کے ساتھ اخلاق اور نیک خوئی برتنے کا مطلب یہ کہ بندہ اس کی قضاء پر راضی ہو۔ اس کے کسی فیصلے پر اسے شکایت نہ پیدا ہو۔ اس کا ہر فیصلہ اسے بسروچشم اور سر بسر تسلیم ہو۔
(٢) مخلوق کے ساتھ اخلاق اور نیک خوئی یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق سے جو ذمہ داریاں اس پر عاید ہوتی ہیں ان کو خدا کے لیے اٹھائے اور خدا ہی کی رضاء جوئی اور خوشنودی کے لیے ان کو ادا کرے۔ اس کام میں کوئی اور غرض اس کے سامنے نہ ہو۔
حضرت مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تصوف نیک خُلُق کا نام ہے، اور اس کی تین قسمیں ہیں،
ایک خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ نیک خُلُقی، جس کا مطلب اس کے تمام احکام کی سرموریا کے بغیر اور پورے اخلاص کے ساتھ تعمیل اور اطاعت ہے۔
دوسرے مخلوقات کے ساتھ نیک خُلُقی، جس کے معنی اپنے بزرگوں کے ساتھ عزت، اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور اپنے ہم رتبہ لوگوں کے ساتھ برابری اورمساوات کا برتاؤ کرنا ہے۔ اور اس کے بدلے میں کسی بدلے کی خواہشیں نہ رکھنا ہے۔
تیسرے قسم نیک خُلقی یہ ہے کہ شیطان اور خواہشات نفسانی کی پیروی ہر گز نہ کی جائے۔
حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تصوف کی آٹھ خصلتیں ہیں، سخاوت، رضا، صبر، اشارت، غربت (اجنبی ہو جانا)، لباس صوف، سیاحت اور فقر۔ سخاوت کا نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں کہ انھوں نے اپنی جان سے لے کر اپنے بیٹے تک سب کو خدا کی راہ میں قربان کر دیا۔ رضا کا نمونہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں کہ رضاء  الٰہی  کے آگے بسر و چشم اپنے آپ کو ذبح کے لیے پیش کر دیا۔ صبر کا نمونہ حضرت ایوب علیہ السلام کہ انھوں نے خدا کی غیرت کی خاطر اپنے وسیع کنبے اور سارے گھر بار کی اپنی آنکھوں کے سامنے تباہی اور اپنے پورے جسم میں کیڑے پڑ جانے کی تکلیف کو نہایت صبر کے ساتھ برداشت فرمایا۔ اشارت کا نمونہ حضرت زکریا علیہ السلام ہیں جنھوں نے خدا کے حکم کی تعمیل میں کلام تک بند کر دیا اور کئی روز تک صرف اشاروں سے بات کرتے رہے۔ غربت کا نمونہ حضرت یحیٰ علیہ السلام ہیں جو خدا کی رضا جوئی میں اپنے وطن میں اپنے خویشوں سے بیگانہ رہے۔ صوف پوشی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نمونہ ہیں، جو اون کے کپڑے پہنتے تھے۔ خدا کی راہ میں سیاحت کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نمونہ ہیں جو بس اسیک پیالہ اور کنگھی لے کر گھر سے چلے لیکن جب ایک شخص کو پیالے کی بجائے چُلو سے پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی پھینک دیا اور جب ایک دوسرے شخص کو دیکھا کہ وہ کنگھی کی بجائے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے بالوں کو خلال کر لیتا ہے تو کنگھی بھی پھینک دی۔ فقر کا نمونہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں کہ آپﷺ کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں کہ شان و شوکت اور آرائش کے ساتھ زندگی گزاریں لیکن آپﷺ نے اس کو پسند فرمایا کہ ایک روز پیٹ بھریں اور دو روز بھوکے رہیں، اور جیسا کہ گزشتہ باب میں گذر چکا ہے اللہ تعالیٰ سے آپﷺ نے دعا فرمائی کہ اے خدایا! مجھے فقر ہی کی حالت میں زندہ رکھ، فقر ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور فقراء ہی کے زمرے میں میرا حشر فرما۔

اصلی صوفی کے اوصاف

تصوف اور صوفی۔ دراصل لفظ ’صفا‘ سے مشتق ہیں۔ اس کی ضد کدر (کدورت) ہے- پس جس شخص نے اپنے اخلاق اور معاملات کو مہذب بنایا اور اپنی طبیعت کو کدورتوں سے پاک صاف کر لیا اور اسلام یعنی اللہ تعالیٰ کی سچی عبودیت کا وصف اپنے اندر پیدا کر لیا تو وہ صوفی بن گیا اور اہل تصوف میں شامل ہو گیا۔ گویا صفا کی اصل غیر اللہ سے دل کو منقطع کر اور دنیا غدار سے دل کو خالی کر لینا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ دونوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔
حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل غیر اللہ سے کس طرح کلی طور پر منقطع اور شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہو چکا تھا، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب حضور نبی کریمﷺ کی وفات سے تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین بے حال ہو رہے تھے بلکہ ان کا ذہنی توازن اس درجہ متزلزل ہو رہا تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ ہاتھ میں ننگی تلوار لیے اعلان فرما رہے تھے کہ جس نے یہ کہا کہ محمدﷺ وفات پا گئے ہیں میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور یہ صورتحال دیکھ کر بآواز بلند فرمایا: سُن لو! جو شخص محمدﷺ کی بندگی کرتا تھا وہ جان لے کہ محمدﷺ وفات پا گئے ہیں اور جو شخص محمدﷺ کے رب کی بندگی کرتا تھا اس کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ رب بدستور زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ اور اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:  وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ  قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ  اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ  وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْا   وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ (٣:١٤٤) محمدﷺ (بھی خدا کے رسولوں کی طرح) اللہ کے ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت رسول گذر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم پیٹھ موڑ کر بھاگ جاؤ گے؟
اس اعلان حق کا کانوں میں پڑنا تھا کہ سب لوگوں کی آنکھیں کُھل گئیں۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل دنیا غدار سے کس درجہ خالی ہو چکا تھا یہ واقعہ اس کا مظہر ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر گھر کا پورا اثاثہ لے کر حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے دریافت فرمایا: کہو! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ حضرت صدیق نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اور ان کی پیروی۔
یہی دو چیزیں ہیں جو تصوف اور سچے صوفی کی اصل متاع ہیں۔ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صوفی وہ ہے کہ جب بولے تو اس کی زبان پر حق جاری ہو اور جب خاموش ہو تو اس کے جسم کے ایک ایک رونگٹا زمان حال سے شہادت دے کہ اس کے اندر دنیا کی کوئی ہوس موجود نہیں۔

اہل تصوف کی قسمیں

اہل تصوف کے ہاں تصوف کی تین قسمیں ہیں
(١) صوفی، اس شخص کو کہتے ہیں کو اپنے آپ کو حق میں فنا کرے اور اس کے اندر کوئی کدورت اور تیرگی باقی نہ ہو۔
(٢) متصوف، اس شخص کو کہتے ہیں جو مجاہدہ سے اس درجے کے حصول کے لیے کوشاں ہو اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے معاملات کو درست کرنے کی سعی میں مشغول ہو۔ ینی جو سچا صوفی بننے کی کوشش میں لگا ہو۔
(٣) مستصوف، وہ ہے جو دنیا کا مال و متاع اور مرتبہ و عزت حاصل کرنے کے لیے وضع قطع اور طور اطوار اختیار کیے ہوئے ہو۔ مگر صفا اور تصوف کی اسے کچھ خبر نہ ہو۔ ان لوگوں کے بارے میں صوفیاء کرام نے فرمایا: صوفیائے کرام کے نزدیک مستصوف مکھی کی مانند حقیر اور قابل نفرت ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں ہوس ہوتی ہے اور غیر صافیاء(عام لوگوں) کے لیے وہ بھیڑیوں کی مانند ہیں کہ ان کے دین و ایمان کو چیرتے پھاڑتے پھرتے ہیں۔

تصوف کی ضرورت

تصوف کے اثبات کی بحث کے آخر میں حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ پہلے منکرین تصوف کے جواب میں ابو الحسن ابو شحنہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: آج کل تصوف تو صرف ایک نام ہے جس کے پیچھے کوئی حقیقت موجود نہیں ہے لیکن اس سے پہلے (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین، اور سلف کے زمانے میں) یہ ایک حقیقت تھا، اس دور میں اس کا نام تو بے شک نہیں تھا مگر بطور حقیقت وہ موجود تھا۔ اور یہ قول نقل کر کے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ تصوف کے بارے میں جو رائے قائم کر رہے ہو وہ اس کی موجودہ صورت کو دیکھ کر قائم کر رہے ہو، اس تصوف سے تو ہم بھی نالاں ہیں۔ اگر تصوف کے انکار سے تمھاری مراد محض اس کے نام سے انکار ہے تو کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ اگر معنی اور ان کی حقیقت تصوف سے انکار کرتے ہو تو سمجھ لو کہ یہ توکل شریعت کا انکار ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ حضور نبی کریمﷺ کے فضائل حمیدہ اور آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اوصاف جمیلہ کا انکار ہے۔ کیونکہ اس انکار کے بعد پورا دین ریاکاری بن جاتا ہے۔ دین کی اصل روح اور اس کی جان تو احکام الٰہی  کی اخلاص و محبت کے ساتھ پیروی ہی ہے۔ اگر اس کا انکار کر دیا تو پھر دین کہاں رہا۔ لیکن اگر اس کو مانتے ہو اور یہ موجود ہے تو اسی کو ہم تصوف کہتے ہیں۔
حضرت ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تصوف کسی خاص وضع قطع یا علمی سندات کا نام نہیں ہے، تصوف تو ایک وصف اور اخلاق کا نام ہے۔ اور حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تصوف نام ہے نفس اور حرص و ہوا کی غلامی سے آزادی پانے کا، باطل کے مقابلہ میں جرات و مردانگی دکھانے کا ، دنیوی تکلفات کو ترک کر دینے کا، اپنے مال کو دوسروں پر صرف کر دینے کا اور دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ دینے کا۔ اور حضرت ابو حفص حداد نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تصوف کا کل آداب و احکام کی پابندی کا نام ہے۔ اور ہر وقت، ہر مقام اور ہر حال کے لیے متعین آداب و احکام ہیں۔ جو شخص ہر موقع محل کے آداب و احکام کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لے وہ اس مرتبہ کو پہنچ گیا جہاں آدمی کو پہنچنے کی تمنا کرنی چاہیے اور جس نے ان آداب و احکام کی پرواہ نہ کی اور ان کو ضائع کر دیا تو ایسا شخص اس مقام سے بہت دور ہے جہاں سے وہ بارگاہ خداوندی میں باریابی نہ کرسکے۔
٭٭٭



صوفی کے لباس کے بارے میں

گودڑی (مخصوص لباس) پہننے کے حق میں صوفیاء کا استدلال

صوفیاء کا عام طریق لباس گودڑی پہننا ہے اور ان کے نزدیک ایسا کرنا سنت ہے، اس لیے کہ روایتوں میں آیا ہے کہ نبیﷺ صوف (پشم کا بنا ہوا لباس) پہنتے تھے اور گدھے کی سواری فرماتے تھے۔ اور حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: صوف (اون کا لباس) اختیار کرو، اس سے تم اپنے دلوں میں ایمان کی مٹھاس پاؤ گے۔ آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، کپڑے کو ضائع نہ کیا کرو جب تک پیوند لگا کر اسے خوب چلا نہ لو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑوں میں تیس تیس پیوند لگے ہوتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے کہ اچھا کپڑا وہ ہے جس کی قیمت کم ہو۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ بدر میں شریک ہونے والے ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو صوف کے کپڑے پہنے دیکھا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صوف کے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہرم بن حبان رضوان اللہ علیہم اجمعین تینوں کا بیان ہے کہ انھوں نے ان کو پشم کے لباس میں دیکھا جس پر چیتھڑے لگے ہوئے تھے۔ اور حسن بصری، مالک بن دینار اور سفیان ثوری رحمہم اللہ سب کے سب پیوندوں والی گودڑی پہنتے تھے۔ اور محمد بن علی ترمذی اپنی کتاب تاریخ المشائخ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شروع میں صوف پوش اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضور نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا اور حضورﷺ نے آپ سے فرمایا: کیا تمھارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ میری سنت کو زندہ کرنے کے لیے لوگوں کے درمیان رہو؟ آپ نے فوراً گوشہ نشینی کی زندگی ترک کر دی۔لیکن اس کے بعد بھی کبھی بیش قیمت لباس نہیں پہنا۔ حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ بھی پیوند لگے پشم (صوف) کے کپڑے پہنتے تھے۔ اور ایک مرتبہ اسی حال میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تشریف لائے۔ امام صاحب کے شاگردوں نے انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: یہ ہمارے سردار حضرت ابراہیم ادہم ہیں۔ شاگردوں نے اسے مذاق سمجھا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ امام صاحب کبھی ہنسی مذاق کی بات تو نہیں کرتے، انھوں نے سرداری کا مرتبہ کیسے پا لیا۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بتایا کہ انھوں نے یہ مرتبہ اس طرح پا لیا کہ یہ ہمیشہ خدا کی بندگی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور ہم اپنی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔
صوفیاء کا یہ مسلک ان عملی مثالوں اور نبی کریمﷺ کے مذکورہ بالا ارشادات کے علاوہ حضورﷺ کے اس ارشاد پر بھی مبنی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی گروہ کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں گروہ کا فرد شمار ہوتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر خدا کے برگزیدہ لوگ پھٹے حالوں اور چیتھڑوں میں ہی ملبوس رہے، اس لیے بندے کا ان کے سے حال میں رہنا حق سے قربت کا زریعہ ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے ظاہر کو اہل اللہ کے موافق آراستہ کرتے ہیں اور جو کچھ لازم ہے اسے بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ باطن بھی اس ان کے موافق ہو جائے۔ نیز یہ کہتے ہیں کہ اہل اللہ کا لباس زیب تن کرنے سے تمام مخلوقات ہماری محافظ بن جاتی ہے اور یہ اس طرح سے کہ اگر ہم یہ لباس پہن کر اہل اللہ کے مرتبے کے خلاف کوئی بات کریں گے تو ہر طرف سے ہم پر زبان طعن دراز ہو گی اور ہر کوئی ہم کو ملامت کرے گا کہ یہ اہل اللہ کے نام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اس طرح سے ہم اپنے آپ کو معصیت میں مبتلا کرتے ہوئے شرمائیں گے۔ ہمارے نزدیک گودڑی وفا کا پیراہن ہے۔ ہم گودڑی اور گودڑی والوں سے محبت کرتے ہیں اور حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے: ہر شخص جس گروہ سے محبت رکھتا ہے، حشر کے روز اسی گروہ کے ساتھ ہو گا۔
چنانچہ اس مسلک کے مشائخ خود بھی گودڑی پہنتے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی اسی لباس میں آراستہ کرتے ہیں تاکہ یہ ان کے اہل اللہ کے گروہ میں سے ہونے کی علامت ہو اور تمام مخلوقات ان کی محافظ بن جائے۔

گودڑی پہننے کی شرطیں

اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پیشہ ور صوفیوں کی تو بات دوسری ہے، لیکن اصلی اہل طریقت میں سے جو گودڑی پہننا اور اپنے مریدوں کو اس کا پہنانا ضروری قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک گودڑی پہننا کفن پہننے کے ہم معنی ہے، اور اس کی شرائط بھی وہی ہیں جو کفن پہننے کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ آدمی دنیا سے اسی طرح سے دست کش ہو کر گودڑی پہنے جس طرح دنیا سے دستکش ہو جانے کے بعد ہی آدمی کو کفن پہنایا جاتا ہے۔ وہ دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیاز (کنارہ کش نہیں) ہو جائے اور اس کے بعد اپنی تمام عمر خدا کی ملازمت کے لیے وقف کر دے۔ گویا یہ مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کی ایسی علامت ہے کہ اب گودڑی پوش اپنی جان سمیت سب کچھ خدا کے لیے قربان کرنے کے لیے کھڑا ہے۔ گودڑی پہنانے کا اصل طریقہ جو مشائخ نے جاری کیا وہ یہی ہے کہ جب مرید اس درجہ کو پہنچ جائے اس وقت ہی پیر اس کو اس خلعت سے آراستہ کرے اور پھر مرید اس کا حق ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرے۔ چنانچہ ان مشائخ عظام رحمہم اللہ کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی طالب عقبیٰ ان سے تعلق پیدا کرتا ہے تو وہ تین سال تک اسے ادب سکھاتے اور اس کی تربیت کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی طلب میں صادق اور عزم میں پختہ نکلا تو بہتر ورنہ اسے صاف طور پر فرما دیتے ہیں کہ تجھے طریقت قبول نہیں کرتی۔ اور ان تین برسوں میں ایک برس مخلوقات کی خدمت میں، ایک برس خدا کا حق بجا لانے کی ملازمت میں اور ایک برس اپنے دل کی حفاظت و پاسبانی میں لگایا جاتا ہے۔ مخلوقات کی خدمت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی تمام مخلوق خدا کو بلا تمیز مخدوم اور اپنے آپ کو اس کا خادم سمجھے۔ ان سب کو اپنے سے بہتر اور سب کی خدمت کو اپنے اوپر واجب تصور کرے۔ ورنہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنا خود ایک آفت ہے جس کا مداوا ضروری ہے۔ خدا کی ملازمت اور خدمت آدمی اس وقت بجا لاسکتا ہے کہ جب وہ اپنی تمام لذتوں کو خواہ وہ دنیا کی ہوں یا عقبیٰ کی، سب کو چھوڑ دے اور ہر طرف سے یکسو ہو کر خدا کی بندگی کے کام میں مشغول ہو جائے۔ دل کی محافظت اور پاسبانی اس وقت آدمی کر سکتا ہے جب کہ دل کو دوسرے تمام غموں اور ارمانوں سے فارغ کر کے صرف عقبیٰ کے غم اور ارمان کو اس میں آباد کر لے۔
جب یہ تینوں شرطیں پوری ہو جائیں، تب مرید کو گودڑی پہنائی جاتی ہے اور تبھی پہنائی جانی چاہیے۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، گودڑی پہننا کفن پہننے کے مترادف ہے۔

طریقت اور اخلاص فی الدین کا مدار لباس نہیں ہے

لیکن گودڑی پہننے اور پہنانے پر اصرار کے سلسلے میں پہلی توجہ طلب بات یہ ہے کہ تصوف و طریقت اور اخلاص فی الدین کسی خاص قسم کا لباس پہننے پر منحصر نہیں ہیں۔ ان کا مدار انسان کے عمل اور اس کے قلب کی کیفیت پر ہے۔ جو شخص طریقت سے آشنا ہے اس کی قبائے امیرانہ بھی قبائے فقیرانہ کی طرح ہوتی ہے، اور جو شخص طریقت سے بیگانہ ہے، اس کی گودڑی بھی قیامت کے روز اس کے لیے نحوست کی نشان اور عقوبت و بد بختی کا فرمان ہو گی۔ پس اے گودڑی پوش! اگر تو یہ لباس (گودڑی) اس لیے پہنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے پہچان لے تو وہ بغیر اس لباس کے بھی پہچان لیتا ہے۔ اور اگر اس لباس کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ مخلوقات تجھے اولیاء اللہ کے زمرے میں سمجھے تو دو صورتوں میں سے ایک بہر حال ہو گی۔ اگر تو فی الحقیقت اس زمرے میں داخل ہے تو اس کا اظہار ریاء ہو گا، اور اگر تو ان میں داخل نہیں ہے تو یہ نفاق ہو گا۔ اور جو شخص اپنے معاملات کو اپنے ظاہر کے مطابق درست نہیں رکھتا، اس کا لباس (ظاہر) اس کے جھوٹے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اوراس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا لباس صفا کا نہیں فریب کا لباس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا    بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ    وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (٦٢۔٥) ان لوگوں کی مثال جن کو تورات کے حامل بنایا گیا لیکن انھوں نے اس ذمہ داری کا حق ادا نہ کیا، اس گدھے کی مانند ہیں جس پر کتابیں لدی ہوں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ظاہر سے پہلے باطن کی درستی کی فکر کرنی چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے امت کے لیے کسی خاص وضع کے لباس کو مقرر نہیں فرمایا۔ آپﷺ کی اور آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگیاں بھی اسی پر گواہ ہیں۔ جو چیز سب میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ جو اور جیسا لباس میسر آیا اسے انھوں نے پہن لیا۔ البتہ جس بات کا اہتمام فرمایا اور تاکید بھی فرمائی وہ یہ کہ تمھارا لباس تقویٰ کا لباس ہو۔ یعنی یہ پوری طرح سے ساتر ہو، زینت میں حد سے بڑھا ہوا بھی نہ ہو اور آدمی کی عام حیثیت سے گرا ہوا بھی نہ ہو۔ غرور و تکبر اور ریاء کی شان لیے ہوئے نہ ہو۔ مرد کے لباس میں زنانہ پن نہ ہو اور عورت کے لباس میں مردانہ پن نہ ہو، اور نہ کسی دوسری قوم کی اسی مشابہت اس میں پائی جائے جو ذہنی غلامی اور احساس کمتری سے پیدا ہوتی ہے۔ جہاں تک اپنے اوپر مصنوعی طور پر مفلسی کے آثار طاری کرنے اور اپنے ظاہر کو اپنی حیثیت سے فروتر بنا کر رکھنے کا تعلق ہے، اس چیز کو دین میں پسند نہیں کیا گیا ہے-
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس نعمت کا اثر اس بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی یہ کہ وہ اس نعمت سے لطف اندوز بھی ہو اور اس کے لیے اپنے منعم کا شکر گزار بھی ہو۔ یہی نہیں قرآن مجید میں تو ارشاد ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ  َخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ    قُلْ هِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ (٧:٣٢) اے نبی! ان سے کہو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، دنیا میں بھی یہ ساری چیزیں دراصل ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو صرف انھی کے لیے ہوں گی۔

صحیح اور اعتدال کی راہ

چنانچہ میں علی بن عثمان جلابی اسی طریقہ پر عامل ہوں اوراسی کو پسند کرتا ہوں کہ لباس کے بارے میں کسی تکلف سے کام نہ لیا جائے۔ جیسا ملا پہن لیا جائے۔ اگر ایک وقت میں قبا ملی تو وہی پہن لی اور اگر گودڑی میسر آئی تو اس کو پہن لیا اور کچھ نہ ملا تواسی طرح وقت گذار لیا۔ بلکہ بہتر صورت یہ ہے کہ کسی چیز کو بھی عادت نہ بنائے، کیونکہ جب کوئی چیز عادت بن جاتی ہے تو آدمی کو اس سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ اس کی طبیعت میں داخل ہو کر حجاب بن جاتی ہے۔ اسی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: سب (نفلی) روزوں میں سے بہتر روزہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا کہ وہ کیسے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ: وہ ایک روز روزہ رکھتے اور ایک روز ناغہ کرتے تاکہ نفس کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی عادت نہ ہو جائے اور اس عادت کے سبب وہ محجوب نہ ہو جائے۔
میرے شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی طریقہ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ لباس میں صوفیوں کے رسوم سے کنارہ کش رہے۔ پس جو ملا اور میسر آیا پہن لیا۔ حضرت موید غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی طریقہ ہے۔ شیخ محمد بن حنیف رحمۃ اللہ علیہ جنھوں نے خود بیس سال ایک سخت ٹاٹ پہنا، ہر سال چار چلے کھینچے اور ہر چلہ میں علوم کی باریکیوں پر ایک کتاب تصنیف فرمائی، ان کے ہم عصر ایک عالم محمد بن زکریا پارس رحمۃ اللہ علیہ پارس میں رہتے تھے اور انھوں نے کبھی گودڑی نہیں پہنی تھی۔ شیخ محمد بن حنیف رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ گودڑی پہننے کی شرط کیا ہے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، وہی جو محمد بن زکریا سفید پیراہن میں بجا لا رہے ہیں۔ یاد رکھو! ان کے لیے اس پیراہن کا پہننا اسی طرح سے واجب ہے جس طرح سے میرے لیے یہ ٹاٹ۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اسے وہ لباس عطا فرمایا ہے اور مجھے یہ دیا ہے۔
٭٭٭


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔