جمعہ، 17 اپریل، 2015

الرحیق المختوم نواں حصہ

0 comments

ان ہی زخمیوں میں قُزمان بھی ملا۔ اس نے جنگ میں خوب خوب داد ِ شجاعت دی تھی۔ اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا۔ وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا ، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے۔ اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی۔ کہنے لگا : واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔ اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کر کے خودکشی کرلی۔ ادھر رسول اللہﷺ سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔1 (اور اس واقعے نے آپﷺ کی پیشین گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی) حقیقت یہ ہے کہ اِعلائِ کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے۔ چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔
اس کے بالکل بر عکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا۔ اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ، اپنی قوم سے کہا : اے جماعت یہود ! اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد کی مدد تم پر فرض ہے۔ یہود نے کہا : مگر آج سَبت (سنیچر ) کا دن ہے۔ اس نے کہا: تمہارے لیے کوئی سبت نہیں ، پھر اس نے اپنی تلوار لی۔ ساز وسامان اٹھا یا۔ اور بولا: اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد(ﷺ ) کے لیے ہے۔ وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔ اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مُخیریق بہترین یہودی تھا۔2
شہداء کی جمع و تدفین:
اس موقعے پر رسول اللہﷺ نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے۔ اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ تو خون ہی کا ہوگا لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔3
کچھ صحابہؓ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا۔ آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں ،پھر انہیں غسل دیئے بغیر جس حالت میں ہوں اسی حالت میں دفن کردیا جائے۔ آپﷺ دودوتین تین شہیدوں کو ایک ہی قبر میں دفن فرمارہے تھے۔ اور دودوآدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا لپیٹ دیتے تھے۔ اور دریافت فرماتے تھے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے۔ لوگ جس کی طرف اشارہ کرتے اسے لحد میں آگے کرتے اور فرماتے کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادا لمعاد ۲/۹۷ ، ۹۸۔ ابن ہشام ۲/۸۸
2 ابن ہشام ۲/۸۸، ۸۹
3 ایضاً ۲/۹۸
میں قیامت کے روز ان لوگوں کے بارے میں گواہی دوں گا1عبد اللہ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموحؓ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے ، کیونکہ ان دونوں میں دوستی تھی۔2
حضرت حنظلہؓ کی لاش غائب تھی۔ تلاش کے بعد ایک جگہ اس حالت میں ملی کہ زمین سے اوپر تھی اور اس سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلایا کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ان کی بیوی سے پوچھو کیا معاملہ ہے ؟ ان کی بیوی سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے واقعہ بتلایا۔ یہیں سے حضرت حنظلہ کا نام غَسیل الملائکہ۔ (فرشتوں کے غسل دیے ہوئے ) پڑگیا۔3
رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ کا حال دیکھا تو سخت غمگین ہوئے۔ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ تشریف لائیں ، وہ بھی اپنے بھائی حضرت حمزہؓ کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ انہیں واپس لے جائیں۔ وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ نہ لیں مگر حضرت صفیہؓ نے کہا : آخر ایسا کیوں ؟ مجھے معلوم ہوچکاہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اللہ کی راہ میں ہے اس لیے جو کچھ ہوا ہم اس پر پوری طرح راضی ہیں۔ میں ثواب سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ ضرور صبر کروں گی۔ اس کے بعد وہ حضرت حمزہؓ کے پاس آئیں۔ انہیں دیکھا۔ ان کے لیے دعا کی۔ إنا للہ پڑھی اور اللہ سے مغفرت مانگی۔ پھر رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ انہیں حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے ساتھ دفن کردیا جائے۔ وہ حضرت حمزہؓ کے بھانجے بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب پر جس طرح روئے اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے انہیں قبلے کی طرف رکھا۔ پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔4
درحقیقت شہداء کا منظر تھا ہی بڑا دلدوز اورزہرہ گزار۔ چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہؓ کے لیے ایک سیاہ دھاریوں والی چادر کے سوا کوئی کفن نہ مل سکا۔ یہ چادر سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھُل جاتے۔ اور پاؤںپر ڈالی جاتی تو سر کھُل جاتا۔ بالآخر چادر سے سر ڈھک دیا گیا اور پاؤں پر اذخر5گھاس ڈال دی گئی۔6
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری مع فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۳، ۱۳۴۶، ۱۳۴۷، ۱۳۴۸، ۱۳۵۳، ۴۰۷۹
2 صحیح بخاری ۲/۵۸۴ زاد المعاد ۲/۹۸ 3 زاد المعاد ۲/۹۴
4 یہ ابن شاذان کی روایت ہے۔ دیکھئے: مختصر السیرۃ للشیخ عبدا للہ ص ۲۵۵
5 یہ بالکل موج کے ہم شکل ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ بہت سے مقامات پر چائے میں ڈال کر پکائی جاتی ہے۔ عرب میں اس کا پودا ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ سے لمبا نہیں ہوتا۔ جبکہ ہندوستان میں ایک میٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔
6 مسند احمد ، مشکوٰۃ ۱/۱۴۰
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ مُصعب بن عُمیرؓ کی شہادت واقع ہوئی - اور وہ مجھ سے بہتر تھے - تو انہیں ایک چادر کے اندر کفنایا گیا۔ حالت یہ تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے۔ اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ ان کی یہی کیفیت حضرت خبابؓ نے بھی بیان کی ہے اور اتنا مزید اضافہ فرمایا ہے کہ (اس کیفیت کو دیکھ کر ) نبیﷺ نے ہم سے فرمایا کہ چادر سے ان کا سر ڈھانک دو اور پاؤں پر اِذخر ڈال دو۔1
رسول اللہﷺ اللہ عزوجل کی حمد وثنا کرتے اور اس سے دعافرماتے ہیں:
امام احمد کی روایت ہے کہ احد کے روز جب مشرکین واپس چلے گئے تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : برابر ہوجاؤ۔ ذرا میں اپنے رب عزوجل کی ثناء کروں۔ اس حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے پیچھے صفیں باندھ لیں۔ اور آپﷺ نے یوں فرمایا :
''اے اللہ !تیرے ہی لیے ساری حمد ہے۔ اے اللہ ! جس چیز کو تو کشادہ کردے اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔ اور جس چیز کو تو تنگ کردے اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا۔ جس شخص کو تو گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور جس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ جس چیز کو توروک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اور جو چیز تو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جس چیز کو تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا۔ اورجس چیز کو تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔اے اللہ ! ہمارے اوپر اپنی برکتیں رحمتیں اور فضل ورزق پھیلا دے۔
اے اللہ ! میں تجھ سے برقرار رہنے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ جو نہ ٹلے اور نہ ختم ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے فقر کے دن مددکا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! جو کچھ تونے ہمیں دیا ہے اس کے شر سے اور جو کچھ نہیں دیا ہے اس کے بھی شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ اے اللہ! ہمارے نزدیک ایما ن کو محبوب کردے۔ اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنما بنا دے۔ اور کفر ، فسق اور نافرمانی کو ناگوار بنادے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے۔ اے اللہ ! ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے وفات دے اور مسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ۔ اور رسوائی اور فتنے سے دوچار کیے بغیر صالحین میں شامل فرما۔ اے اللہ ! تو ان کا فروں کو مار اور ان پر سختی اور عذاب کر جو تیرے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔ اے اللہ ! ان کافروں کو بھی مار جنہیں کتاب دی گئی۔ یا الٰہ الحق ! ''2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۷۹،۵۸۴ مع فتح الباری ۳/۱۷۰ حدیث نمبر ۱۲۷۶ ، ۳۸۹۷ ، ۳۹۱۳، ۳۹۱۴ ، ۴۰۴۷ ، ۴۰۸۲ ، ۶۴۳۲، ۶۴۴۸
2 بخاری ، الادب المفرد ، مسند احمد ۳/۳۲۴
مدینے کوواپسی اور محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات:
شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء ودعا سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ نے مدینے کا رخ فرمایا۔ جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا اسی طرح اثناء راہ میں اہل ِ ایمان صحابیات سے صدق وجاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔
چنانچہ راستے میں آنحضورﷺ کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحشؓ سے ہوئی۔ انہیں ان کے بھائی عبد اللہ بن جحشؓ کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے پھر انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں۔ اور دھاڑ مار کررونے لگیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ',عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔''1
اسی طرح آپ کا گزر بنودینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا۔ جس کے شوہر ، بھائی ، اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے۔ جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں کہ رسول اللہﷺ کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا : ام فلاں ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بخیر ہیں۔ اور بحمد للہ جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔ خاتون نے کہا : ذرا مجھے دکھلادو۔ میں بھی آپﷺ کا وجود مبارک دیکھ لوں۔ لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا۔ جب ان کی نظر آپﷺ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: کل مصیبۃ بعدک جلل '' آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔''2
اثناء راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آپ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں۔ اس وقت حضرت سعدبن معاذ رسول اللہﷺ کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : یا رسول اللہﷺ میری والدہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: انہیں مرحبا ہو۔ اس کے بعد ان کے استقبال کے لیے رک گئے۔ جب وہ قریب آگئیں تو آپﷺ نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذ کی شہادت پر کلمات ِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ کہنے لگیں: جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی۔ اور فرمایا : اے اُمِ سعد ! تم خوش ہوجاؤ۔ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔
کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرمادیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ان کے دلوں کاغم دور کر۔ ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما۔ اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۹۸ 2 ایضا ۲/۹۹
3 السیرۃ الحلبیہ ۲/ ۴۷
رسول اللہﷺ مدینے میں:
اسی روز - شنبہ ۷/شوال ۳ ھ کو سرِ شام رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے۔ گھر پہنچ کر اپنی تلوار حضرت فاطمہ ؓ کو دی۔ اور فرمایا : بیٹی ! اس کا خون دھو دو۔ اللہ کی قسم !یہ آج میرے لیے بہت صحیح ثابت ہوئی۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی تلوار لپکائی۔ اور فرمایا: اس کا بھی خون دھودو۔ واللہ! یہ بھی آج بہت صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اگر تم نے بے لاگ جنگ کی ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حُنیف اور ابو دجانہ نے بھی بے لاگ جنگ کی ہے۔1
بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی۔ جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی ، یعنی ان کے ۶۵ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ۴۱ خزرج سے اور ۲۴ اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا۔ اور مہاجرین شہداء کی تعداد صرف چار تھی۔
باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد ۲۲ تھی ، لیکن اصحاب مغازی اور اہل ِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ۲۲ نہیں بلکہ ۳۷ہوتی ہے۔ واللہ اعلم2
مدینے میں ہنگامی حالت:
مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (۸ /شوال ۳ ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی ) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چوُر چوُر کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہﷺ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔
غزوۂ حمراء الاسد:
ادھر رسول اللہﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپﷺ کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی۔ اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لیے آپ نے فیصلہ کیا کہ بہر حال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ اہل ِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن، یعنی یک شنبہ ۸ /شوال ۳ھ کو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۰۰
2 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰
علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکۂ احد میں موجود تھا۔ تاہم عبداللہ بن اُبی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہمرکاب ہو۔ مگر آپ نے اجازت نہ دی۔ ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور ، غم سے نڈھال ، اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے ، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ اُحد میں شریک نہ تھے۔ حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے۔ یارسول اللہﷺ میں چاہتاہوں کہ آپ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں۔اور چونکہ (اس جنگ میں ) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں اس پر آپ نے انہیں اجازت دے دی۔
پروگرام کے مطابق رسول اللہﷺ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور مدینے سے آٹھ میل دورحمراء الاسد پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔
اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا - اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا - کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد ) تھا۔ بہر کیف اس نے کہا: اے محمد ! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے۔ ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا - اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا۔ چنانچہ مشرکین نے مدینے سے ۳۶ میل دور مقام رَوحاء پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی۔ کہنے لگے: تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی شوکت وقوت توڑ کر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا ، حالانکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر درد ِسر بن سکتے ہیں۔ لہٰذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔
لیکن ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی۔ اور کہا: لوگو! ایسا نہ کرو۔ مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوۂ احدمیں ) نہیں آئے تھے۔ وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے۔ ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کرو گے تو گردش میں پڑجاؤ گے، لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔ لیکن ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابو سفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گیا۔ ابو سفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگیا ہے اس نے پوچھا کہ معبد ! پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ معبد نے ...پروپیگنڈے کا سخت اعصابی حملہ کرتے ہوئے ... کہا : محمد اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں۔ ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں۔ سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں۔ اُحد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں ، وہ جو کچھ ضائع کر چکے ہیں اس پر سخت نادم ہیں۔ اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔
ابو سفیان نے کہا : ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو ؟
معبد نے کہا : واللہ! میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گے یا لشکر کا ہر اول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔
ابوسفیان نے کہا : واللہ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کا ٹ کر رکھ دیں۔
معبد نے کہا : ایسا نہ کرنا۔ میں تمہاری خیر خواہی کی بات کررہاہوں۔
یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہوگیا۔ اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں۔ البتہ ابو سفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکراؤ سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گزرا ، ابو سفیان نے کہا: کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد کو پہنچادیں گے ؟ میراوعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عُکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔
ان لوگوں نے کہا : جی ہاں !
ابو سفیان نے کہا : محمد کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراء الاسد میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا تو ان سے ابو سفیان کا پیغام کہہ سنایا۔ اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں۔ ان سے ڈرو ، مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا۔ اور انہوں نے کہا: حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ (اس ایمانی قوت کی بدولت ) وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے۔ انہیں کسی بُرائی نے نہ چھوا۔ اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
رسول اللہﷺ اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے۔ دوشنبہ ، منگل اور بدھ یعنی ۹/۱۰/۱۱/شوال ۳ھ کو وہیں مقیم رہے اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔ مدینہ واپسی سے پہلے ابو عَزہ جمحی آپﷺ کی گرفت میں آگیا۔ یہ وہی شخص ہے جسے بدر میں گرفتار کیے جانے کے بعد اس کے فقر اور لڑکیوں کی کثرت کے سبب اس شرط پر بلا عوض چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کے خلاف کسی کا تعاون نہیں کرے گا۔ لیکن اس شخص نے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی۔ اور اپنے اشعار کے ذریعہ نبیﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا - جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے- پھر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے خود بھی جنگ اُحد میں آیا۔ جب یہ گرفتار کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری لغزش سے درگزر کردو۔ مجھ پر احسان کردو اور میری بچیوں کی خاطر مجھے چھوڑ دو۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ نبیﷺ نے فرمایا : اب یہ نہیں ہوسکتا کہ تم مکے جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو، اور کہو کہ میں نے محمد کو دومرتبہ دھوکا دیا۔ مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت زبیر یا حضرت عاصم بن ثابت کو حکم دیا اور انہوں نے اس کی گردن ماردی۔
اسی طرح مکے کا ایک جاسوس بھی مارا گیا۔ اس کا نام معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ عبد الملک بن مروان کا نانا تھا۔ یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفانؓ سے ملنے آیا۔ حضرت عثمان نے اس کے لیے رسول اللہﷺ سے امان طلب کی۔ آپ نے اس شرط پر امان د ے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کردیا جائے گا لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا۔ اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔ 1
غزوہ حمراء الاسد کا ذکر اگر چہ ایک مستقل نام سے کیا جاتا ہے مگر یہ درحقیقت کوئی مستقل غزوہ نہ تھا بلکہ غزوہ احد ہی کا جزووتتمہ اور اسی کے صفحات میں سے ایک صفحہ تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات ابن ہشام ۲/۶۰ تا ۱۲۹ ، زاد المعاد ۲/۹۱ تا ۱۰۸ فتح الباری مع صحیح البخاری ۷/۳۴۵ تا ۳۷۷ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۲۴۲ تا ۲۵۷ سے جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیے گئے ہیں۔
جنگ احد میں فتح وشکست کا ایک تجزیہ

یہ ہے غزوہ احد ، اپنے تمام مراحل اور جملہ تفصیلات سمیت۔ اس غزوے کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں ؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی۔ اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا۔ جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا۔ اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا۔ اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ یقینا شکست کھاکر بھاگا۔ اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی۔ لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔
ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا۔ اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا۔ نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا نہیں ہوا تھا کہ مکی لشکر ان کا تعاقب کرتا۔ علاوہ ازیں کوئی ایک بھی مسلمان کافروں کی قید میں نہیں گیا۔ نہ کفار نے کوئی مال غنیمت حاصل کیا ، پھر کفار جنگ کے تیسرے راونڈ کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ حالانکہ اسلامی لشکرابھی کیمپ ہی میں تھا ، علاوہ ازیں کُفار نے میدان جنگ میں ایک یا دودن یا تین دن قیام نہیں کیا حالانکہ اس زمانے میں فاتحین کا یہی دستور تھا۔ اور فتح کی یہ ایک نہایت ضروری علامت تھی۔ مگر کفار نے بالکل جھٹ پٹ واپسی اختیار کی۔ اور مسلمانوں سے پہلے ہی میدان جنگ خالی کردیا۔ نیز انہیں ذریت اور مال لوٹنے کے لیے مدینے میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی حالانکہ یہ شہر چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا۔ اور فوج سے مکمل طور پر خالی اور ایک دم کھُلا پڑا تھا۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قریش کو زیادہ سے زیادہ صرف یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک وقتی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ذرا سخت قسم کی زک پہنچادی۔ ورنہ اسلامی لشکر کو نرغے میں لینے کے بعد اسے کلی طور پر قتل یا قید کرلینے کا جو فائدہ انہیں جنگی نقطۂ نظر سے لازما ًحاصل ہونا چاہیے تھا اس میں وہ ناکام رہے اور اسلامی لشکر قدرے بڑے خسارے کے باوجود نرغہ توڑ کر نکل گیا۔ اور اس طرح کا خسارہ تو بہت سی دفعہ خود فاتحین کو برداشت کرنا پڑ تا ہے، اس لیے اس معاملے کو مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
بلکہ واپسی کے لیے ابو سفیان کی عجلت اس بات کی غماز ہے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر جنگ کا تیسرا دور شروع ہوگیا تو اس کا لشکر سخت تباہی اور شکست سے دوچار ہوجائے گا۔ اس بات کی مزید تائید ابو سفیان کے اس موقف سے ہوتی ہے جو اس نے غزوہ حمراء الاسد کے تئیں اختیار کیا تھا۔
ایسی صورت میں ہم اس غزوے کو کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست سے تعبیر کرنے کے بجائے غیر منفصل جنگ کہہ سکتے ہیں۔ جس میں ہر فریق نے کامیابی اور خسارے سے اپنااپنا حصہ حاصل کیا۔ پھر میدان جنگ سے بھاگے بغیر اور اپنے کیمپ کو دشمن کے قبضہ کے لیے چھوڑے بغیر لڑائی سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اور غیر منفصل جنگ کہتے ہی اسی کو ہیں۔ اسی جانب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اشارہ نکلتا ہے :
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْ‌جُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْ‌جُونَ (۴: ۱۰۴)
''قوم (مشرکین ) کے تعاقب میں ڈھیلے نہ پڑو۔ اگر تم اَلَم محسوس کررہے ہو تو تمہاری ہی طرح وہ بھی اَلَم محسوس کررہے ہیں اور تم لوگ اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے ۔''
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ضرر پہنچانے اور ضرر محسوس کرنے میں ایک لشکر کو دوسرے لشکر سے تشبیہ دی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ دونوں فریق کے موقف متماثل تھے۔ اور دونوں فریق اس حالت میں واپس ہوئے تھے کہ کوئی بھی غالب نہ تھا۔
اس غزوے پر قرآن کا تبصرہ:
بعد میں قرآن مجید نازل ہوا تو اس میںاس معرکے کے ایک ایک مرحلے پر روشنی ڈالی گئی۔ اور تبصرہ کرتے ہوئے ان اسباب کی نشاندہی کی گئی جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور بتلایا گیا کہ اس طرح کے فیصلہ کن مواقع پر اہل ایمان اور یہ امت (جسے دوسروں کے مقابل خیرِ اُمت ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ ) جن اونچے اور اہم مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں لائی گئی ہے ان کے لحاظ سے ابھی اہل ایمان کے مختلف گروہوں میں کیا کیا کمزوریاں رہ گئی ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید نے منافقین کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی حقیقت بے نقاب کی۔ ان کے سینوں میں اللہ اور رسول کے خلاف چھپی ہوئی عداوت کا پردہ فاش کیا۔ اور سادہ لوح مسلمانوں میں ان منافقین اور ان کے بھائی یہود نے جو وسوسے پھیلارکھے تھے ان کا ازالہ فرمایا اور ان قابل ستائش حکمتوں اور مقاصد کی طرف اشارہ فرمایا جو اس معرکے کا حاصل تھیں۔
اس معرکے کے متعلق سورۂ آل عمران کی ساٹھ آیتیں نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے معرکے کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کیا گیا۔ ارشاد ہوا :
وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۳: ۱۲۱)
''یاد کرو جب تم اپنے گھر سے نکل کر (میدان احد میں گئے۔ اور وہاں ) مومنین کو قتال کے لیے جابجا مقرر کررہے تھے۔''
پھر اخیر میں اس معرکے کے نتائج اور حکمت پر ایک جامع روشنی ڈالی گئی۔ ارشاد ہوا :
مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ‌ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّ‌سُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ‌ عَظِيمٌ (۳:۱۷۹)
''ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے الگ کردے۔ اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کرے۔ لیکن وہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا تو تمہارے لیے بڑا اجر ہے ۔''
غزوے میں کارفرما الٰہی مقاصد اور حکمتیں:
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس عنوان پر بہت بسط سے لکھا ہے۔1 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء نے کہا ہے کہ غزوۂ احد اور اس کے اندر مسلمانوں کو پیش آنے والی زک میں بڑی عظیم ربانی حکمتیں اور فوائد تھے۔ مثلاً: مسلمانوں کو معصیت کے بُرے انجام اور ارتکاب نہی کی نحوست سے آگاہ کر نا۔ کیونکہ تیر اندازوں کو اپنے مرکز پر ڈٹے رہنے کا جو حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا ، انہوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرکز چھوڑ دیا تھا۔ (اور اسی وجہ سے زک اٹھانی پڑی تھی ) ایک حکمت پیغمبروں کی اس سنت کا اظہار تھا کہ پہلے وہ ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں ،پھر انجام کار انہیں کو کامیابی ملتی ہے۔ اور اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اگر انہیں ہمیشہ کامیابی ہی کامیابی حاصل ہو تو اہل ایمان کی صفوں میں وہ لوگ بھی گھس آئیں گے جو صاحب ایمان نہیں ہیں۔ پھر صادق وکاذب میں تمیز نہ ہوسکے گی۔ اور اگر ہمیشہ شکست ہی شکست سے دوچار ہوں تو ان کی بعثت کا مقصد ہی پورا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں صورتیں پیش آئیں تاکہ صادق وکاذب میں تمیز ہوجائے۔ کیونکہ منافقین کا نفاق مسلمانوں سے پوشیدہ تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اور اہل نفاق نے اپنے قول وفعل کا اظہار کیا تو اشارہ صراحت میں بدل گیا۔ اور مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ خود ان کے اپنے گھروں کے اندر بھی ان کے دشمن موجود ہیں۔ اس لیے مسلمان ان سے نمٹنے کے لیے مستعد اور ان کی طرف سے محتاط ہوگئے۔
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ بعض مقامات پر مدد کی آمد میں تاخیر سے خاکساری پیدا ہوتی ہے۔ اور نفس کا غرور ٹوٹتا ہے۔ چنانچہ جب اہل ایمان ابتلاء سے دوچار ہوئے تو انہوں نے صبر سے کام لیا ، البتہ منافقین میں آہ وزاری مچ گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: زاد المعاد ۲/۹۹ تا ۱۰۸
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ نے اہل ِ ایمان کے لیے اپنے اعزاز کے گھر (یعنی جنت ) میں کچھ ایسے درجات تیار کر رکھے ہیں جہاں تک ان کے اعمال کی رسائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ابتلاء ومحن کے بھی کچھ اسباب مقرر فرمارکھے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ان درجات تک اہل ایمان کی رسائی ہوجائے۔
اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ شہادت ، اولیاء کرام کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ لہٰذا یہ مرتبہ ان کے لیے مہیافرمادیا گیا۔
اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ اپنے دشمنوں کو ہلاک کرنا چاہتا تھا لہٰذا ان کے لیے اس کے اسباب بھی فراہم کردیئے۔ یعنی کفر وظلم اور اولیاء اللہ کی ایذاء رسانی میں حد سے بڑھی ہوئی سرکشی۔ (پھر ان کے اسی عمل کے نتیجے میں) اہل ایمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیا ، اور کافرین کو ہلاک وبرباد۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فتح الباری ۷/۳۴۷
کیا سیرت کی کتب میں ایسی کوئی بات ملتی ہے کہ غزوۃ احد میں مسلمانوں نے کفار کا تعاقب بھی کیا تھا اگر ایسا ہی ہے تو پھر باقی دلائل کے ساتھ کیا یہ کافی نہیں کہ مسلمان اس غزوۃ میں فاتح تھے ؟
اُحد کے بعد کی فوجی مہمات

مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا۔ ان کی ہوا اکھڑ گئی ، اور مخالفین کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں اہل ِ ایمان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ مدینے پر ہرجانب سے خطرات منڈلانے لگے۔ یہود ، منافقین اور بدّوؤں نے کھُل کر عداوت کا مظاہرہ کیا، اور ہر گروہ نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی۔ بلکہ یہ توقع باندھ لی کہ وہ مسلمانوں کاکام تمام کرسکتا ہے۔ اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اس غزوے پر ابھی دومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو اَسَد نے مدینے پر چھا پہ مارنے کی تیاری کی۔ پھر صفر ۴ھ میں عضل اور قارہ کے قبائل نے ایک ایسی مکارانہ چال چلی کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ اور ٹھیک اسی مہینے میں رئیس بنوعامر نے اسی طرح کی ایک دغابازی کے ذریعے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت سے ہمکنار کرایا۔ یہ حادثہ بئر معونہ کے نام سے معروف ہے۔ اس دوران بنو نَضِیر بھی کھُلی عداوت کا مظاہرہ شروع کر چکے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ربیع الاول ۴ھ میں خود نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ ادھر بنو غطفان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں مدینے پر حملہ کا پروگرام بنایا۔
غرض مسلمانوں کی جو ساکھ غزوہ احد میں اُکھڑ گئی تھی اس کے نتیجے میں مسلمان ایک مدت تک پیہم خطرات سے دوچار رہے ،, لیکن وہ تو نبی کریمﷺ کی حکمت بالغہ تھی جس نے سارے خطرات کا رُخ پھیر کر مسلمانوں کی ہیبت ِ رفتہ واپس دلادی۔ اور انہیں دوبارہ مجد وعزت کے مقامِ بلند تک پہنچا دیا۔ اس سلسلے میں آپ کا سب سے پہلا قدم حمراء الاسد تک مشرکین کے تعاقب کا تھا۔ اس کارروائی سے آپ کے لشکر کی آبروبڑی حد تک برقراررہ گئی۔ کیونکہ یہ ایسا پر وقار اور شجاعت پر مبنی جنگی اقدام تھا کہ مخالفین خصوصاً منافقین اور یہود کا منہ حیرت سے کھُلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر آپﷺ نے مسلسل ایسی جنگی کارروائیاں کیں کہ ان سے مسلمانوں کی صرف سابقہ ہیبت ہی بحال نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گیا۔ اگلے صفحات میں انہی کا کچھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔
۱۔ سریۂ ابو سلمہ:
جنگ اُحد کے بعد مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے بنو اسد بن خزیمہ کا قبیلہ اٹھا۔ اس کے متعلق مدینے میں یہ اطلاع پہنچی کہ خُویلِد کے دو بیٹے طلحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے اطاعت شعاروں کو لے کر بنو اسد کو رسول اللہﷺ پر حملے کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے جھٹ ڈیڑھ سو انصار ومہاجرین کا ایک دستہ تیار فرمایا۔ اور حضرت ابو سلمہؓ کو اس کا عَلَم دے کر اور سپہ سالار بنا کر روانہ فرمادیا۔ حضرت ابو سلمہؓ نے بنو اسد کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ان پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ وہ بھاگ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ مسلمانوں نے ان کے اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ اورسالم وغانم مدینہ واپس آگئے۔ انہیں دوبُدو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی۔
یہ سریہ محرم ۴ ھکا چاند نمودار ہونے پر روانہ کیاگیاتھا۔ واپسی کے بعد حضرت ابو سلمہؓ کا ایک زخم -جو انہیں اُحد میں لگا تھا - پھُوٹ پڑا اور اس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پاگئے۔1
۲۔ عبد اللہ بن اُنیسؓ کی مہم:
اسی ماہ محرم ۴ ھ کی ۵ / تاریخ کو یہ خبر ملی کہ خالد بن سفیان ہُذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کررہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس کے خلاف کارروائی کے لیے عبداللہ بن اُنیسؓ کو روانہ فرمایا۔
عبد اللہ بن اُنیسؓ مدینہ سے ۱۸ روز باہر رہ کر ۲۳/ محرم کو واپس تشریف لائے۔ وہ خالد کو قتل کرکے اس کا سر بھی ہمراہ لائے تھے۔ جب خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر انہوں نے یہ سر آپﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ایک عصا مرحمت فرمایا۔ اور فرمایاکہ یہ میرے اور تمہارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا۔ چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ عصا بھی ان کے ساتھ ان کے کفن میں لپیٹ دیا جائے۔2
رجیع کا حادثہ:
اسی سال ۴ ھ کے ماہ صفر میں رسول اللہﷺ کے پاس عضل اور قارہ کے کچھ لوگ حاضر ہوئے۔ اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچا ہے۔ لہٰذا آپﷺ ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کے لیے روانہ فرمادیں۔ آپﷺ نے ابن اسحاق کے بقول چھ افراد کو اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق دس افراد کو روانہ فرمایا۔ اور ابن اسحاق کے بقول مرثد بن ابی مرثد غنوی کو اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا حضرت عاصم بن ثابت کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔ جب یہ لوگ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہُذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اور قارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو چڑھادیا۔ اور بنو لحیان کے کوئی ایک سو تیرانداز ان کے پیچھے لگ گئے۔ اور نشانات ِ قدم دیکھ دیکھ کر انہیں جالیا۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ٹیلے پر پناہ گیر ہوگئے۔ بنو لحیان نے انہیں گھیر لیا، اور کہا: تمہارے لیے عہد وپیمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتر آؤ تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ حضرت عاصم نے اترنے سے انکار کردیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کردی۔ بالآخر تیروں کی بو جھاڑ سے سات افراد شہید ہوگئے۔ اور صرف تین آدمی حضرت خبیب، زید بن دثنہ اور ایک صحابی باقی بچے۔ اب پھر بنو لحیان نے اپنا عہد وپیمان دہرایا۔ اور اس پریہ تینوں صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بدعہدی کی۔ اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادا لمعاد ۲/۱۰۸ 2 ایضاً ۲/۱۰۹۔ابن ہشام ۲/۶۱۹ ، ۶۲۰
لیا، اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کھینچ گھسیٹ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے تو انہیں قتل کردیا۔ اور حضرت خبیب اور زید رضی اللہ عنہما کو مکہ لے جا کر بیچ دیا۔ ان دونوں صحابہ نے بدر کے روز اہل ِ مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا۔
حضرت خبیب کچھ عرصہ اہل مکہ کی قید میں رہے۔ پھر مکے والوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ اور انہیں حرم سے باہر تنعیم لے گئے۔ جب سولی پر چڑھانا چاہا تو انہوں نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو، ذرا دورکعت نماز پڑھ لوں۔ مشرکین نے چھوڑ دیا اور آپ نے دورکعت نماز پڑھی۔ جب سلام پھیر چکے تو فرمایا: واللہ! اگر تم لوگ یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کررہاہوں گھبراہٹ کی وجہ سے کررہا ہوں تو میں کچھ اور طول دیتا۔ اس کے بعد فرمایا : اے اللہ ! انہیں ایک ایک کر کے گن لے ،پھر بکھیر کر مارنا۔ اور ان میں سے کسی ایک کو باقی نہ چھوڑنا۔ پھر یہ اشعار کہے :


لقد أجمع الأحزاب حولـی وألـبوا قبائلہـــم واستجمعـوا کل مجـمـع​
وقـد قـربـوا أبنـاء ہم ونســاء ہم وقــربت مـن جـزع طـویـل ممـنــع​
إلـی اللہ أشکـو غربتی بعد کربتی وما جمع الأحزاب لی عند مضجـعی​
فذا العرش صبر لی علی ما یراد بی فقد بضعوا لحمی وقد بؤس مطعـمی​
وقـد خیرونی الکفر والموت دونـہ فقـد ذرفت عینـای من غیـر مدمـــع​
ولسـت أبالی حیـن أقتـل مسلمــاً علـی أی شــق کان للـہ مضـجـعـی​
وذلک فـی ذات الإلـــہ وإن یشـــأ یبـارک عـلی أوصـال شلــو ممــزع​


''لوگ میرے گرد گروہ در گروہ جمع ہوگئے ہیں۔ اپنے قبائل کو چڑھا لائے ہیں۔ اور سارا مجمع جمع کرلیا ہے، اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بھی قریب لے آئے ہیں۔ اور مجھے ایک لمبے مضبوط تنے کے قریب کردیا گیا ہے، میں اپنی بے وطنی وبیکسی کا شکوہ اور اپنی قتل گاہ کے پاس گروہوں کی جمع کردہ آفات کی فریاد اللہ ہی سے کررہاہوں۔ اے عرش والے ! میرے خلاف دشمنوں کے جو ارادے ہیں اس پر مجھے صبر دے۔ انہوں نے مجھے بوٹی بوٹی کردیا ہے۔ اور میری خوراک بُری ہوگئی ہے۔ انہوں نے مجھے کفر کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ موت اس سے کمتر اور آسان ہے۔ میری آنکھیں آنسو کے بغیر امنڈ آئیں۔ میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں کس پہلو پر قتل ہوں گا۔ یہ تو اللہ کی ذات کے لیے ہے۔ اور وہ چاہے تو بوٹی بوٹی کیے ہوئے اعضاء کے جوڑ جوڑ میں برکت دے ۔''
اس کے بعد ابو سفیان نے حضرت خبیبؓ سے کہا : کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ (تمہارے بدلے ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ہوتے۔ ہم ان کی گردن مارتے۔ اور تم اپنے اہل وعیال میں رہتے۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ واللہ! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہل وعیال میں رہوں اور (اس کے بدلے ) محمدﷺ کو جہاں آپ ہیں وہیں رہتے ہوئے کانٹا چبھ جائے ، اور وہ آپ کو تکلیف دے۔
اس کے بعد مشرکین نے انہیں سولی پر لٹکا دیا ، اور ان کی لاش کی نگرانی کے لیے آدمی مقرر کردیے لیکن حضرت عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ تشریف لائے۔ اور رات میں جھانسہ دے کر لاش اٹھا لے گئے۔ اور اسے دفن کردیا۔ حضرت خبیب کا قاتل عُقبہ بن حارث تھا۔ حضرت خبیب نے اس کے باپ حارث کو جنگ ِ بدر میں قتل کیا تھا۔
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ حضرت خُبیب پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے قتل کے موقع پر دورکعت نماز پڑھنے کا طریقہ مشروع کیا۔ اور انہیں قید میں دیکھا گیا کہ وہ انگور کے گچھے کھا رہے تھے۔ حالانکہ ان دنوں مکے میں کھجور بھی نہیں ملتی تھی۔
دوسرے صحابی جو اس واقعے میں گرفتار ہوئے تھے ، یعنی حضرت زید بن دثنہ ، انہیں صفوان بن اُمیہ نے خرید کر اپنے باپ کے بدلے قتل کردیا۔
قریش نے اس مقصد کے لیے بھی آدمی بھیجے کہ حضرت عاصم کے جسم کا کوئی ٹکڑ الائیں ، جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ کیونکہ انہوں نے جنگ ِ بدر میں قریش کے کسی عظیم آدمی کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ نے ان پر بھِڑوں کا جھُنڈ بھیج دیا۔ جس نے قریش کے آدمیوں سے ان کی لاش کی حفاظت کی۔ اور یہ لوگ ان کا کوئی حصہ حاصل کرنے پر قدرت نہ پاس کے۔ درحقیقت حضرت عاصمؓ نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کررکھا تھا کہ نہ انہیں کوئی مشرک چھوئے گا۔ نہ وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے۔ بعد میں جب حضرت عمرؓ کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ مومن بندے کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کرتا ہے جیسے اس کی زندگی میں کرتا ہے۔1
بئر معونہ کا المیہ:
جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا ٹھیک اسی مہینے بئر معونہ کا المیہ بھی پیش آیا ، جو رجیع کے حادثہ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔
اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک ، جو مُلاعِب ُالاسُنّہ (نیزوں سے کھیلنے والا ) کے لقب سے مشہور تھا ، مدینہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی ، اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا۔ لیکن دُوری بھی اختیار نہیں کی ، اس نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہلِ نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہلِ نجد سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا : وہ میری پناہ میں ہوں گے۔ اس پر نبیﷺ نے ابن اسحاق کے بقول چالیس اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کوبھیج دیا - ستر ہی کی روایت درست ہے - اور منذربن عَمرو کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ''معتق للموت '' (موت کے لیے آزاد کردہ ) کے لقب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۶۹ تا ۱۷۹ زارا لمعاد ۲/۱۰۹ صحیح بخاری ۲/۵۶۸،۵۶۹،۵۸۵
سے مشہور تھے۔ ان کا امیر بنادیا۔ یہ لوگ فضلاء ، قراء اور سادات واخیارِ صحابہ تھے۔ دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صُفّہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے، اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے۔ یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بنی سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے۔ وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمِ سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان کو رسول اللہﷺ کا خط دے کر اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کردیا جس نے حضرت حرام کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آر پار ہوگیا۔ خون دیکھ کر حضرت حرام نے فرمایا : اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
اس کے بعد فوراً ہی اس اللہ کے دشمن عامر نے باقی صحابہؓ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی۔ مگر انہوں نے ابو براء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔ ادھر سے مایوس ہوکر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی۔ بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا۔ اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا۔ جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے۔ صرف حضرت کعب بن زید بن نجارؓ زندہ بچے۔ انہیں شہد اء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا۔ اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔ ان کے علاوہ مزید دوصحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرارہے تھے۔ انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے۔ پھر حضرت منذر تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری کو قید کرلیا گیا لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹواکر اپنی ماں کی طرف سے -جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی- آزاد کردیا۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمریؓ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے۔ سَتّرافاضل مسلمین کی شہادت کا المیہ جس نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کردیا۔ اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دوبدو جنگ میں مارے گئے تھے ، مگر یہ بیچا رے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری واپسی میں وادی قناۃ کے سرے پر واقع مقام قرقرہ پہنچے تو ایک درخت کے سائے میں اتر پڑے وہیں بنو کلاب کے دوآدمی بھی آکر اتررہے۔ جب وہ دونوں بے خبر سو گئے تو حضرت عمرو بن امیہؓ نے ان دونوں کا صفایا کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے رہے ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے پاس رسول اللہﷺ کی طرف سے عہد تھا۔ مگر حضرت عَمرو جانتے نہ تھے۔ چنانچہ جب مدینہ آکر انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنی اس کارروائی کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ایسے دوآدمیوں کو قتل کیا ہے جن کی دیت مجھے لازماً ادا کرنی ہے۔ اس کے بعد آپ مسلمان اور ان کے حُلفاء یہود سے دیت جمع کرنے مشغول ہوگئے۔1 اور یہی غزوۂ بنی نضیر کا سبب بنا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
رسول اللہﷺ کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جوچند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے۔2 اس قدر رنج پہنچا ، اور آپ اس قدر غمگین ودلفگار ہوئے 3کہ جن قوموں اور قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا آپﷺ نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپﷺ کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ نے ان پر تیس روز تک بددعا کی۔ آپ نماز فجر میں رعل ، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اپنے نبی پر قرآن نازل کیا ، جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ وہ قرآن یہ تھا ''ہماری قوم کو یہ بتلادو کہ ہم اپنے رب سے ملے تو وہ ہم سے راضی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔ '' اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنا یہ قنوت ترک فرمادیا۔4
۵۔ غزوہ ٔ بنی نضیر:
ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے ، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے۔ سازشی اور دسیسہ کار تھے ، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔ البتہ بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا۔ لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی۔ انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبد عہدی کی۔ مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی۔ اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔5
نبیﷺ نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی۔ اور انہوں نے نبیﷺ ہی کے خاتمے کا پروگرام بنالیا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی - (جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۱۸۳تا ۱۸۸ ، زاد المعاد ۲/۱۰۹ ،۱۱۰ صحیح بخاری ۲/۵۸۴ ، ۵۸۶
2 ابن سعد نے لکھا ہے کہ رجیع اور معونہ دونوں حادثوں کی خبر رسول اللہﷺ کو ایک ہی رات میں ملی تھی۔ (۲/۵۳ )
3 ابن سعد نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ جس قدر اہل بئر معونہ پر غمگین ہوئے میں نے کسی اور پر آپ کو اتنا زیادہ غمگین ہوتے نہیں دیکھا۔ (۲/۵۴)
4 صحیح بخاری ۲/۵۸۶، ۵۸۷، ۵۸۸
5 سنن ابی داؤد باب خبر النضیر کی روایت سے یہ بات مستفاد ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۱۶،۱۱۷
نے غلطی سے قتل کردیا تھا ) ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ انہوں نے کہا : ابو القاسم ! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپﷺ یہاں تشریف رکھئے ہم آپﷺ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرماتھی۔
ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا۔ اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بناکر پیش کیا۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبیﷺ ہی کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گراکر آپﷺ کو کچل دے۔ اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا : میں ... ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی۔ اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔
ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل ؑ تشریف لائے۔ اور آپﷺ کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ آپﷺ تیزی سے اُٹھے۔ اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپﷺ سے آن ملے اور کہنے لگے : آپﷺ اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔ آپﷺ نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا۔ مدینہ واپس آکر آپﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایااور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کا ر سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو۔ ڈٹ جاؤ۔ اور گھر بار نہ چھوڑو۔ میرے پاس دوہزار مردانِ جنگی ہیں۔ جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوکر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے۔ اور اگرتم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔
یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی۔ اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ راس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لیے اس نے رسول اللہﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے ، آپ کو جوکرنا ہو کرلیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا۔ انجام خطرناک ہوسکتا تھا۔آپ دیکھ ہی رہے ہیںکہ سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جاچکے تھے ، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔ اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔ مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جونئی کروٹ لی تھی ، اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے ، اوران جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ ٔ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہﷺ کے قتل کا پروگرام بنایا تھا ، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے۔ خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ اکبر اور پھر لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھ میں عَلَم تھا بنونضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔
ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی۔ اور قلعہ بندرہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کاکام دے رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے۔بعد میں اسی کی طرف اشارہ کرکے حضرت حسانؓ نے فرمایا تھا :


وہـان علـی سـراۃ بنـی لـوی​
حـریق بـالبویـــرۃ مستطیــر​


بنی لوی کے سرداروں کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ بَوُیَرْہ میں آگ کے شعلے بلند ہوں (بویرہ ! بنونضیر کے نخلستان کا نام تھا) اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا :
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَ‌كْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (۵۹: ۵)
''تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کورسواکرے ۔''
بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی۔ اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی :
كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ‌ فَلَمَّا كَفَرَ‌ قَالَ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ (۵۹:۱۶)
''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں ۔''
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات ...یابقول بعض پندرہ رات ... جاری رہاکہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہﷺ کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ،تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا۔ اور چھ سو اونٹوں پر لد لداکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
رسول اللہﷺ نے شرط کے مطابق بنونضیر کے ہتھیار ، زمین ، گھر اور باغات اپنے قبضے میں لے لیے ، ہتھیار میں پچاس زِرہیں ، پچاس خُود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔
بنونضیر کے یہ باغات ، زمین اور مکانات خالص رسول اللہﷺ کا حق تھا۔ آپ کو اختیار تھا کہ آپ اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔ چنانچہ آپ نے (مالِ غنیمت کی طرح ) ان اموال کا خُمس (پانچواں حصہ ) نہیں نکالا۔ کیونکہ اسے اللہ نے آپ کو بطور فَیْ دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑاکر اسے (بزور شمشیر ) فتح نہیں کیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے اس اختیار خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا۔ البتہ دو انصاری صحابہ، یعنی ابودجانہ اور سہل بن حُنیف رضی اللہ عنہما کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا۔ اس کے علاوہ آپ نے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لیے محفوظ رکھا جس میں سے آپ )اپنی ازواج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے۔ اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کے لیے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرمادیتے تھے۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول۴ھ ،اگست ۶۲۵ ء میں پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی۔ جس میں یہودکی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اور مال ِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔
ابن عباسؓ اس سورۂ (حشر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اسے سورہ ٔ بنی النضیر کہو۔1
یہ اس غزوہ کے بارے میں ابن اسحاق اور عام اہلِ سیر کے بیان کا خلاصہ ہے ، امام ابوداؤد اور امام عبد الرزاق وغیرہ نے اس غزوے کی ایک دوسری وجہ روایت کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب غزوۂ بدر پیش آیا تو اس غزوۂ بدر کے بعد قریش نے یہود کو لکھا کہ تم لوگوں کے پاس زِرہیں اور قلعے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ ہمارے صاحب (محمدﷺ ) سے لڑائی کرو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ ایسا اور ایسا کریں گے۔ اور ہمارے اور تمہاری عورتوں کے پازیب کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکے گی۔ جب یہود کو یہ خط ملا تو بنونضیر نے غدر کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نبیﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے ساتھیوں میں سے تیس آدمی لے کر ہماری جانب تشریف لائیں۔ اور ہماری طرف سے بھی تیس عالم نکلیں۔ فلاں جگہ جو ہمارے اور آپ کے بیچوں بیچ ہے ملاقات ہو۔ اور وہ آپ کی بات سنیں۔ اس کے بعد اگر وہ آپ کو سچا مان لیں ، اور آپ پر ایمان لے آئیں تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
اس تجویز کے مطابق نبیﷺ تیس صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ اور یہود کے بھی تیس عالم آئے۔ ایک کھلی جگہ پہنچ کر بعض یہود نے بعض سے کہا : دیکھو ان کے ساتھ تیس آدمی ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک ان سے پہلے مرنا پسند کرے گا۔ ایسی صورت میں تم ان تک کیسے پہنچ سکتے ہو ؟ اس کے بعد انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ساٹھ آدمی ہوں گے تو آپ کیسے سمجھائیں گے اور ہم کیسے سمجھیں گے ؟ بہتر ہے کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ آئیں اور ہمارے بھی تین عالم آپ کے پاس جائیں اور وہ آپ کی بات سنیں ، اگر وہ ایمان لائیں گے تو ہم سب ایمان لائیں گے۔ اور آپ کی تصدیق کریں گے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اپنے تین صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ادھر یہود نبیﷺ کے قتل کے ارادے سے خنجر چھپا کر آئے ، لیکن بنو نضیر کی ایک خیر خواہ عورت نے اپنے بھتیجے کے پاس - جو ایک انصاری مسلمان تھا - رسول اللہﷺ کے ساتھ بنونضیر کے غدر کے ارادے کی خبر کہلا بھیجی۔ وہ تیز رفتاری سے آیا۔ اور نبیﷺ کو ان تک پہنچنے سے پہلے ہی پالیا۔ اور سرگوشی کے ساتھ ان کی خبر بتائی۔ آپﷺ وہیں سے واپس آگئے۔ اور دوسرے دن صحابۂ کرام کے دستے لے کر تشریف لے گئے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ اور فرمایا کہ تم لوگ جب تک مجھے عہدوپیمان نہ دے دو قابل اطمینان نہیں۔ انہوں نے کسی قسم کا عہد دینے سے انکار کردیا۔ اس پر آپ نے اور مسلمانوں نے اس دن ان سے لڑائی کی۔ دوسرے دن گھوڑے اور دستے لے کر آپ بنو قریظہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور بنونضیر کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔ بنو قریظہ کو بھی عہد وپیمان کرنے کی دعوت دی۔ انہو ں نے معاہدہ کرلیا ، لہٰذا ا ٓپﷺ ان سے پلٹ آئے۔ اور دوسرے دن دستوں کے ساتھ پھر بنو نضیر کا رُخ کیا۔ اور ان سے جنگ کی۔ بالآخر انہوں نے اس شرط پر جلاوطنی منظور کرلی کہ ہتھیار وں کے سوا جو کچھ اونٹوں پر بار کیا جاسکتاہے اسے ہم لے جانے کے مجاز ہوں گے۔ چنانچہ بنونضیر آئے اور اپنے سازو سامان ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۹۰ ،۱۹۱ ، ۱۹۲ ، زاد المعاد ۲/۷۱، ۱۱۰ ، صحیح بخاری ۲/۵۷۴،۵۷۵
گھروں کے دروازے اور لکڑیاں غرض جو کچھ بھی اونٹوں سے اٹھ سکتا تھا اسے لاد لیا۔ اس کے لیے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر برباد کیے اور انھیں ڈھایا۔ اور جو لکڑیاں کام کی محسوس ہوئیں انہیں لادلیا۔ جلاوطنی ملک شام کی طرف ان لوگوں کا پہلا حشر یا پہلا ہانکا اور جماؤ تھا۔1
۶۔ غزوۂ نجد :
غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اس سے مدینے میں قائم مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا۔ اور منافقین پر بددلی چھا گئی۔ اب انہیں کھل کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی۔ اس طرح رسول اللہﷺ ان بدوؤں کی خبر لینے کے لیے یکسو ہوگئے جنہوں نے اُحد کے بعد ہی سے مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا۔ اور نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیانِ اسلام پر حملے کر کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ اورا ب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینے پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔
چنانچہ غزوۂ بنونضیر سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ ابھی ان بد عہدوں کی تادیب کے لیے اٹھے بھی نہ تھے کہ ا ٓپﷺ کو اطلاع ملی کہ بنی غَطْفَان کے دوقبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور اعرابیوں کی نفری فراہم کررہے ہیں۔ اس خبر کے ملتے ہی نبیﷺ نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا۔ اور صحرائے نجد میں دور تک گھُستے چلے گئے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے۔ اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کارروائیوں کے اعادے کی جرأت نہ کریں۔
ادھر سرکش بدو ، جو لوٹ مارکی تیاریاں کررہے تھے مسلمانوں کی اس اچانک یلغار کی خبر سنتے ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں جادبکے۔ مسلمانوں نے لٹیرے قبائل پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے بعد امن وامان کے ساتھ واپس مدینے کی راہ لی۔
اہل ِ سیر نے اس سلسلے میں ایک معیّن غزوے کا نام لیا ہے جو ربیع الآخر یا جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں سر زمین ِنجد کے اندر پیش آیا تھا۔ اور وہ اسی غزوہ کو غزوۂ ذات الرقاع قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک حقائق اور ثبوت کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ ان ایام میں نجد کے اندر ایک غزوہ پیش آیا تھا۔ کیونکہ مدینے کے حالات ہی کچھ ایسے تھے۔ ابوسفیان نے غزوۂ احد سے واپسی کے وقت آئندہ سال میدان بدر میں جس غزوے کے لیے للکارا تھا ، اور جسے مسلمانوں نے منظور کر لیا تھا اب اس کا وقت قریب آرہا تھا۔ اور جنگی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی طرح مناسب نہ تھی کہ بدوؤں اور اعراب کو ان کی سرکشی اور تمرد پر قائم چھو ڑ کر بدر جیسی زور دار جنگ میں جانے کے لیے مدینہ خالی کردیا جائے۔ بلکہ ضروری تھا کہ میدانِ بدر میں جس ہولناک جنگ کی توقع تھی اس کے لیے نکلنے سے پہلے ان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مصنف عبدالرزاق ۵/۳۵۸- ۳۶۰ ح ۳۳ ۷ ۹، سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والفی والعمارۃ ، باب فی خبر النضیر ۲/۱۵۴
بدوؤں کی شوکت پر ایسی ضرب لگائی جائے کہ انہیں مدینے کا رُخ کرنیکی جرأت نہ ہو۔
باقی رہی یہ بات کہ یہی غزوہ جو ربیع الآخر یا جمادی لاولیٰ۴ ھ میں پیش آیا تھا غزوہ ٔ ذات الرقاع تھا ہماری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں۔ کیونکہ غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ اور ابوہریرہؓ جنگ خیبر سے صرف چند دن پہلے اسلام لائے تھے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ (مسلمان ہوکر یمن سے روانہ ہوئے تو ان کی کشتی ساحل حبشہ سے جالگی تھی۔ اور وہ حبشہ سے اس وقت واپس آئے تھے جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس طرح وہ پہلی بار ) خیبر ہی کے اندر خدمت نبوی میں حاضر ہوسکے تھے۔ پس ضروری ہے کہ غزوۂ ذات الرقاع غزوۂ خیبر کے بعد پیش آیا ہو۔
۴ ھ کے ایک عرصے بعد غزوہ ٔ ذات الرقاع کے پیش آنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ نبیﷺ نے غزوہ ٔ ذات الرقاع میں صلوٰۃ ِ خوف 1پڑھی تھی اور صلوٰۃِ خوف پہلے پہل غزوہ ٔ عسفان میں پڑھی گئی۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غزوۂ عسفان کا زمانہ غزوہ ٔ خندق کے بھی بعد کا ہے۔ جبکہ غزوہ ٔ خندق کا زمانہ ۵ ھ کے اخیر کا ہے۔ درحقیقت غزوہ ٔ عسفان سفرِ حدیبیہ کا ایک ضمنی واقعہ تھا۔ اور سفر ِ حدیبیہ ۶ ھ کے اخیر میں پیش آیا تھا جس سے واپس آکر رسول اللہﷺ نے خیبر کی راہ لی تھی۔ اس لیے اس اعتبار سے بھی غزوۂ ذاتِ الرقاع کا زمانہ خیبر کے بعد ہی ثابت ہوتا ہے۔
۷۔ غزوہ ٔ بدر دوم:
اعراب کی شوکت توڑدینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اور محمدﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دودوہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔
چنانچہ شعبان ۴ ھ جنوری ۶۲۶ ء میں رسول اللہﷺ نے مدینے کا انتظام حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو سونپ کرا س طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا۔ آپﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے۔ آپﷺ نے فوج کا عَلَم حضرت علیؓ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حالت جنگ کی نماز کو صلوٰۃِ خوف کہتے ہیں۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدھی فوج ہتھیار بند ہو کر امام کے پیچھے نماز پڑھے باقی آدھی فوج ہتھیار باندھے دشمن پر نظر رکھے۔ ایک رکعت کے بعد یہ فوج امام کے پیچھے آجائے اور پہلی فوج دشمن پر نظر رکھنے چلی جائے۔ امام دوسری رکعت پوری کرلے تو باری باری فوج کے دونوں حصے اپنی اپنی نماز پوری کریں۔ اس نمازکے اس سے ملتے جلتے اور بھی متعدد طریقے ہیں جو موقع جنگ کی مناسبت سے اختیار کیے جاتے ہیں۔ تفصیلات کتب ِ احادیث میں موجود ہیں۔
دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سوار سمیت دوہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا۔ اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرا لظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا۔ باربار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کاا نجام سوچتا تھا۔ اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔ مَر الظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا : قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی او ر ہریالی ہوکہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں۔ تم بھی واپس چلے چلو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔
ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا۔ اور اس دوران اپنا سامانِ تجارت بیچ کر ایک درہم کے دودرہم بناتے رہے۔ اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ یہ غزوۂ بدر موعد ، بدر ثانیہ ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔1
غزوہ ٔ دُوْمَۃُ الجندل:
رسول اللہﷺ بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم ہوچکا تھا۔ اور پورے اسلامی قلمرو میں اطمینان کی بادبہاری چل رہی تھی۔ اب آپ عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لیے فارغ ہوچکے تھے۔ اور اس کی ضرورت بھی تھی تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے۔ اور دوست ودشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں۔
چنانچہ بدر صغریٰ کے بعدچھ ماہ تک آپ نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُوْمۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اور وہاں سے گزر نے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی جمعیت فراہم کرلی ہے۔ ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے سباع بن عرفطہ غفاریؓ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا۔ یہ ۲۵ / ربیع الاول ۵ھ کا واقعہ ہے۔ راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا تھا جس کا نام مذکور تھا۔
دُوْمۃ ...دال کو پیش ... یہ سرحد شام میں ایک شہر ہے۔ یہاں سے دمشق کا فاصلہ پانچ رات اور مدینے کا پندرہ رات ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس غزوے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۲/۲۰۹، ۲۱۰ ، زادا لمعاد۲/۱۱۲
اس غزوے میں آپﷺ کا معمول تھا کہ آپ رات میں سفر فرماتے اور دن میں چھُپے رہتے تھے تاکہ دشمن پر بالکل اچانک اور بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے مویشیوں اور چرواہوں پر ہلہ بول دیا ، کچھ ہاتھ آئے کچھ نکل بھاگے۔
جہاں تک دومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا، جب مسلمان دومہ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا۔ آپ نے چند دن قیام فرماکر ادھر اُدھر متعدد دستے روانہ کیے۔ لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا ، بالآخر آپ مدینہ پلٹ آئے اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی۔
ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ حزم وتدبر پر مبنی منصوبوں کے ذریعے نبیﷺ نے قلمرو اسلام میں امن وامان بحال کرنے اور صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اور وقت کی رفتار کا رُخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا۔ اور ان اندرونی اور بیرونی مشکلات ِ پیہم کی شدت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھیں۔ چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ یہود کا ایک قبیلہ جلاوطن کردیا گیا۔ دوسرے قبائل نے حق ہمسائیگی اور عہد وپیمان کے ایفاء کا مظاہرہ کیا۔ بدو اور اعراب ڈھیلے پڑگئے اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرانے سے گریز کیا۔ اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور رب العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کے مواقع میسر آئے۔
غزوہ ٔ احزاب (جنگ خندق)

ایک سال سے زیادہ عرصے کی پیہم فوجی مہمات اور کارروائیوں کے بعد جزیزۃ العرب پر سکون چھاگیا تھا۔ اور ہرطرف امن وامان اور آشتی وسلامتی کا دور دورہ ہوگیا تھا۔ مگر یہود کو جو اپنی خباثتوں ، سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں طرح طرح کی ذلت ورسوائی کا مزہ چکھ چکے تھے ، اب بھی ہوش نہیں آیا تھا۔ اور انہوں نے غَدْر وخیانت اور مکرو سازش کے مکروہ نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ چنانچہ خیبر منتقل ہونے کے بعد پہلے تو انہوں نے یہ انتظار کیا کہ دیکھیں مسلمان اور بُت پرستوں کے درمیان جو فوجی کشاکش چل رہی ہے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ، لیکن جب دیکھا کہ حالات مسلمانوں کے لیے سازگار ہوگئے ہیں ، گردش ِ لیل ونہار نے ان کے نفوذ کو مزید وسعت دے دی ہے ، اور دور دور تک ان کی حکمرانی کا سکہ بیٹھ گیا ہے تو انہیں سخت جلن ہوئی۔ انہوں نے نئے سرے سے سازش شروع کی۔ اور مسلمانوں پر ایک ایسی آخری کاری ضرب لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کا چراغِ حیات ہی گل ہوجائے ، لیکن چونکہ انہیں براہ راست مسلمانوں سے ٹکر انے کی جرأت نہ تھی، اس لیے اس مقصد کی خاطر ایک نہایت خوفناک پلان تیار کیا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو نضیر کے بیس سردار اور رہنما مکے میں قریش کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہﷺ کے خلاف آمادۂ جنگ کرتے ہوئے اپنی مدد کا یقین دلایا۔ قریش نے ان کی بات مان لی۔ چونکہ وہ احد کے روز میدانِ بدر میں مسلمانوں سے صف آرائی کا عہد وپیمان کرکے اس کی خلاف ورزی کرچکے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ اب اس مجوزہ جنگی اقدام کے ذریعے وہ اپنی شہرت بھی بحال کرلیں گے۔ اور اپنی کہی ہوئی بات بھی پوری کردیں گے۔
اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو غَطفان کے پاس گیا۔ اور قریش ہی کی طرح انہیں بھی آمادۂ جنگ کیا۔ وہ بھی تیار ہوگئے۔ پھر اس وَفد نے بقیہ قبائل عرب میں گھوم گھوم کر لوگوں کوجنگ کی ترغیب دی۔ اور ان قبائل کے بھی بہت سے افراد تیار ہوگئے۔ غرض اس طرح یہودی سیاست کاروں نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے تمام بڑے بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبیﷺ اور آپ کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاکر جنگ کے لیے تیار کرلیا۔
اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش ، کنانہ ، اورتہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا ان سب کا سپہ سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا۔ اور ان کی تعداد چار ہزار تھی۔ یہ لشکر مَرّالظہران پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے۔ ادھر اسی وقت مشرق کی طرف سے غطفانی قبائل فزارہ ، مرہ اور اَشجع نے کوچ کیا۔ فزارہ کا سپہ سالار عُیینہ بن حصن تھا۔ بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ۔ انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے۔
ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کا رخ کیا تھا۔ اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک زبردست لشکر جمع ہوگیا یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری آبادی (عورتوں، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو ملا کر بھی ) اس کے برابر نہ تھی۔ اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوںکے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا۔ کچھ عجب نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی۔ اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا ، لیکن مدینے کی قیادت نہایت بیدار مغزاور چوکس قیادت تھی۔ اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کے نبض پر رہتی تھیں۔ اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی لگا تی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی۔ چنانچہ کفار کا لشکر ِ عظیم جوں ہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا مدینے کے مخبرین نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی۔
اطلاع پاتے ہی رسول اللہﷺ نے ہائی کمان کی مجلسِ شوریٰ منعقد کی۔ اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا۔ قائدین اہل شُوری نے غور وخوض کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک تجویز متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ تجویز حضرت سلمان فارسیؓ نے ان لفظوں میں پیش کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے۔
یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی۔ اہل عرب اس سے واقف نہ تھے۔رسول اللہﷺ نے اس تجویز پر فوراً عمل درآمد شروع فرماتے ہوئے ہر دس آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کاکام سونپ دیا۔ اور مسلمانوں نے پوری محنت اور دلجمعی سے خندق کھودنی شروع کردی۔ رسول اللہﷺ اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ خندق میں تھے۔ لوگ کھود رہے تھے۔ اور ہم کندھوں پر مٹی ڈھورہے تھے کہ (اسی اثناء میں ) رسول اللہﷺ نے فرمایا :
اللہم لا عیش إلا عیش الآخرۃ
فاغفر للمہاجرین والأنصار1
''اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ، پس مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔''
ایک دوسری روایت میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ خندق کی طرف تشریف لائے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری باب غزوۃ الخندق ۲/۵۸۸
تو دیکھا کہ مہاجرین وانصار ایک ٹھنڈی صبح میں کھودنے کاکام کررہے ہیں۔ ان کے پاس غلام نہ تھے کہ ان کے بجائے غلام یہ کام کردیتے۔ آپﷺ نے ان کی مشقت اور بھُوک دیکھ کر فرمایا :
اللہم إن العیش عیش الآخرۃ
فاغفر للأنصار والمہاجرۃ
''اے اللہ ! یقینا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس انصار ومہاجرین کو بخش دے۔''
انصار ومہاجرین نے اس کے جواب میں کہا :
نحن الذین بایعوا محمدًا
علی الجہاد ما بقینا أبداً 1
''ہم وہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے جب تک کہ باقی رہیں محمدﷺ سے جہاد پر بیعت کی ہے۔''
صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے۔ یہاں تک کہ غبار نے آپﷺ کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔ آپﷺ کے بال بہت زیادہ تھے۔ میں نے (اسی حالت میں ) آپﷺ کو عبد اللہ بن رواحہ کے رجزیہ کلمات کہتے ہوئے سنا۔ آپﷺ مٹی ڈھوتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے :
اللـہـم لولا أنت مـا اہتدینـا ولا تصدقنا ولا صلینــا
فأنـزلن سکینـــۃ علیـنـــــا وثبت الأقدام إن لا قیـنا
إن الألــی رغبـوا علینـــــا وإن أرادوا فتنـۃ أبینــــا
''اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے ، پس ہم پر سکینت نازل فرما۔ اور اگر ٹکراؤ ہو جائے تو ہمارے قدم ثابت رکھ۔ انہوں نے ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے۔ اگر انہوں نے کوئی فتنہ چاہا تو ہم ہرگز سر نہیں جھکائیں گے۔''
حضرت براء فرماتے ہیں کہ آپ آخری الفاظ کھینچ کر کہتے تھے۔ ایک روایت میں آخری شعر اس طرح ہے :
إن الألی قـد بغوا علینـا
وإن أرادوا فتنــۃ أبینـا2
''یعنی انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ اور اگر وہ ہمیں فتنے میں ڈالنا چاہیں گے تو ہم ہرگز سرنگوں نہ ہوں گے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۳۹۷ ، ۲/۵۸۸
2 ایضا ۲/۵۸۹
مسلمان ایک طرف اس گرمجوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دومٹھی جَو لایا جاتا تھا۔ اور ہیک دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ بھوکے ہوتے تھے۔ اور یہ حلق کے لیے بد لذت ہوتا تھا۔ اس سے مہک پھُوٹتی رہتی تھی۔1
ابو طلحہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا۔ اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلائے تو رسول اللہﷺ نے اپنا شکم کھول کر دوپتھر دکھلایا۔
خندق کی کھُدائی کے دوران نبوت کی کئی نشانیاں بھی جلوہ فگن ہوئیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہؓ ، نے نبیﷺ کے اندر سخت بھُوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا۔ اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جَو پیسا پھر رسول اللہﷺ سے رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر گزارش کی کہ اپنے چند رُفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں ، لیکن نبیﷺ نے تمام اہلِ خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی ، ہمراہ لے کر چل پڑے۔ اور سب لوگوں نے اسی ذرا سے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا۔ پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی۔ اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی۔ اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا۔ اس سے روٹی پکائی جاتی رہی۔2
حضرت نعمان بن بشیرؓ کی بہن خندق کے پاس دوپسر کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھالیں گے ، لیکن رسول اللہﷺ کے پاس سے گزریں تو آپﷺ نے ان سے وہ کھجور مانگ لی اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دی۔ پھر اہل ِ خندق کو دعوت دی۔ اہل خندق اسے کھاتے گئے اور وہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے۔ اور کھجور تھی کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گررہی تھی۔3
انہیں ایام میں ان دونوں واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جسے امام بخاری نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت پتھر یلا ٹکڑا آڑے آگیا۔ لوگ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ یہ چٹان نما ٹکڑا خندق میں حائل ہوگیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اتر رہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ اٹھے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا - ہم نے تین روز سے کچھ چکھا نہ تھا - پھر نبیﷺ نے کدال لے کر مارا تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھر بھرے تودے میں تبدیل ہوگیا۔4
حضرت براءؓ کا بیان ہے کہ خندق (کی کھدائی) کے موقع پر بعض حصے میں ایک سخت چٹان آپڑی۔ جس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۸۸ 2 یہ واقعہ صحیح بخاری میں مروی ہے دیکھئے ۲/۵۸۸ ، ۵۸۹
3 ابن ہشام ۲/۲۱۸ 4 صحیح بخاری ۲/۵۸۸
سے کدال اچٹ جاتی تھی ، کچھ ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ ہم نے رسول اللہﷺ سے اس کا شکوہ کیا۔ آپﷺ تشریف لائے۔ کدال لی۔اور بسم اللّٰہ کہہ کر ایک ضرب لگائی۔ (تو ایک ٹکڑ اٹوٹ گیا ) اور فرمایا : اللّٰہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ!میں اس وقت وہاں کے سُرخ محلوں کو دیکھ رہاہوں۔ پھر دوسری ضرب لگائی تو ایک دوسرا ٹکڑا کٹ گیا ، اور فرمایا : اللہ اکبر ! مجھے فارس دیا گیا ہے۔ واللہ ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہاہوں۔ پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا : بسم اللہ۔ تو باقی ماندہ چٹان بھی کٹ گئی۔ پھر فرمایا: اللہ اکبر ! مجھے یمن کی کُنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صَنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں۔1
ابن اسحاق نے ایسی ہی روایت حضرت سلمان فارسیؓ سے ذکر کی ہے۔2
چونکہ مدینہ شمال کے علاوہ باقی اطراف سے حَرّے (لاوے کی چٹان ) پہاڑوں اور کھجور کے باغات سے گھِرا ہوا ہے۔ اور نبیﷺ ایک ماہر اور تجربہ کار فوجی کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ مدینے پر اتنے بڑے لشکر کی یورش صرف شمال ہی کی جہت سے ہوسکتی ہے، اس لیے آ پﷺ نے صرف اسی جانب خندق کھدوائی۔
مسلمانوں نے خندق کھودنے کاکام مسلسل جاری رکھا۔ دن بھر کھدائی کرتے اور شام کو گھر پلٹ آتے۔ یہاں تک کہ مدینے کی دیواروں تک کفار کے لشکر جرار کے پہنچنے سے پہلے مقررہ پروگرام کے مطابق خندق تیار ہوگئی۔ 3
ادھر قریش اپنا چار ہزار کا لشکر لیکر مدینہ پہنچے تو رومہ ، جرف اور زغابہ کے درمیان مجمع الاسیال میں خیمہ زن ہوئے۔ اور دوسری طرف سے غطفان اور ان کے نجدی ہمسفر چھ ہزار کی نفری لے کر آئے تو احد کے مشرقی کنارے ذنب نقمی میں خیمہ زن ہوئے۔
وَلَمَّا رَ‌أَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (۳۳: ۲۲)
''اور جب اہل ایمان نے ان جتھوں کو دیکھا تو کہا : یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ ہی فرمایا تھا۔ اور اس (حالت) نے ان کے ایمان اور جذبۂ اطاعت کو اور بڑھادیا۔''
لیکن منافقین اور کمزور نفس لوگوں کی نظر اس لشکر پر پڑ ی تو ان کے دل ہل گئے۔
وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ إِلَّا غُرُ‌ورً‌ا (۳۳: ۱۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سنن نسائی ۲/۵۶ ، مسند احمد ، یہ الفاظ نسائی کے نہیں ہیں۔ اور نسائی میں عن رجل من الصحابہ ہے۔
2 ابن ہشام ۲/۲۱۹
3 ابن ہشام ۳/۲۲۰، ۲۲۱
''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ محض فریب تھا۔''
بہرحال اس لشکر سے مقابلے کے لیے رسول اللہﷺ بھی تین ہزار مسلمانوں کی نفری لے کرتشریف لائے اور کوہ سلع کی طرف پشت کرکے قلعہ بندی کی شکل اختیار کرلی سامنے خندق تھی جو مسلمانوں اور کفار کے درمیان حائل تھی۔ مسلمانوں کا شعار (کوڈ لفظ ) یہ تھا حٓم لا ینصرون۔ (حٓم ان کی مدد نہ کی جائے ) مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتومؓ کے حوالے کیا گیا تھا اور عورتوں اور بچوں کو مدینے کے قلعوں اور گڑھیوں میں محفوظ کردیا گیا تھا۔
جب مشرکین حملے کی نیت سے مدینے کی طرف بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوڑی سی خندق ان کے اور مدینے کے درمیان حائل ہے۔ مجبوراً انہیں محاصرہ کرنا پڑا ، حالانکہ وہ گھروں سے چلتے وقت اس کے لیے تیار ہوکر نہیں آئے تھے۔ کیونکہ دفاع کا یہ منصوبہ ... خود ان کے بقول ... ایک ایسی چال تھی جس سے عرب واقف ہی نہ تھے۔ لہٰذا انہوں نے اس معاملے کو سرے سے اپنے حساب میں داخل ہی نہ کیا تھا۔
مشرکین خندق کے پاس پہنچ کر غیظ وغضب سے چکر کاٹنے لگے۔ انہیں ایسے کمزور نقطے کی تلاش تھی جہاں سے وہ اتر سکیں۔ ادھر مسلمان ان کی گردش پر پوری پوری نظر رکھے ہوئے تھے اور ان پر تیر برساتے رہتے تھے تاکہ انہیں خندق کے قریب آنے کی جرأت نہ ہو۔ وہ اس میں نہ کود سکیں اور نہ مٹی ڈال کر عبو ر کرنے کے لیے راستہ بنا سکیں۔
ادھر قریش کے شہسواروں کو گوارانہ تھا کہ خندق کے پاس محاصرے کے نتائج کے انتظار میں بے فائدہ پڑے رہیں۔ یہ ان کی عادت اور شان کے خلاف بات تھی۔ چنانچہ ان کی ایک جماعت نے جن میں عَمرو بن عبدِوُدّ، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطاب وغیرہ تھے ایک تنگ مقام سے خندق پار کرلی۔ اور ان کے گھوڑے خندق اور سلع کے درمیان میں چکر کاٹنے لگے۔ ادھرسے حضرت علیؓ چند مسلمانوں کے ہمراہ نکلے اور جس مقام سے انہوں نے گھوڑے کدائے تھے اسے قبضے میں لیکر ان کی واپسی کا راستہ بند کردیا۔ اس پر عَمرو بن عبدِوُدّ نے مبارَزَت کے لیے للکار۔ حضرت علیؓ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مد مقابل پہنچے۔ اور ایک ایسا فقرہ چست کیا کہ وہ طیش میں آکر گھوڑے سے کود پڑا۔ اور اس کی کوچیں کاٹ کر ، چہرہ مار کر حضرت علیؓ کے دوبدو آگیا۔ بڑا بہادر اور شہ زور تھا۔ دونوں میں پُر زور ٹکر ہوئی۔ ایک نے دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے۔ بالآخرحضرت علیؓ نے اس کا کام تمام کردیا۔ باقی مشرکین بھاگ کر خندق پار چلے گئے۔ وہ اس قدر مرعوب تھے کہ عکرمہ نے بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ بھی چھوڑ دیا۔
مشرکین نے کسی کسی دن خندق پار کرنے یا اسے پاٹ کرراستہ بنانے کی بڑی زبر دست کوشش کی ، لیکن مسلمانوں نے بڑی عمدگی سے انہیں دوررکھا۔ اور انہیں اس طرح تیروں سے چھیلا اور ایسی پامردی سے ان کی تیر اندازی کا مقابلہ کیا کہ ان کی کوشش ناکام ہوگئی۔
اسی طرح کے پر زور مقابلوں کے دوران رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض نمازیں بھی فوت ہوگئی تھیں۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ ، خندق کے روز آئے۔ اور کفار کو سخت سست کہتے ہوئے کہنے لگے کہ یارسول اللہ!ﷺ آج بمشکل سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھ سکا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اور میں نے توواللہ! ابھی نماز پڑھی ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ بُطحان میں اترے۔ آپﷺ نے نماز کے لیے وضو فرمایا: اور ہم نے بھی وضو کیا۔ پھر آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ یہ سورج ڈوب چکنے کے بعد کی بات ہے۔ اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ 1
نبیﷺ کو اس نماز کے فوت ہونے کا اس قدر ملال تھا کہ آپ نے مشرکین پر بددعا فرمادی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے خندق کے روز فرمایا: اللہ ان مشرکین سمیت ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ جس طرح انہوں نے ہم کو نماز وسطیٰ (کی ادائیگی) سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔2
مسند احمد اور مسند شافعی رحمہ اللہ میں مروی ہے کہ مشرکین نے آپﷺ کو ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا۔ چنانچہ آپﷺ نے یہ ساری نمازیں یکجاپڑھیں۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگِ خندق کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پس کسی دن ایک صورت پیش آئی ، اور کسی دن دوسری۔3
یہیں سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ مشرکین کی طرف سے خندق عبور کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کی طرف سے پیہم دفاع کئی روز تک جاری رہا۔ مگر چونکہ دونوں فوجوں کے درمیان خندق حائل تھی، اس لیے دست بدست اور خونریز جنگ کی نوبت نہ آسکی ، بلکہ صرف تیر اندازی ہوتی رہی۔
اسی تیر اندازی میں فریقین کے چند افراد مارے بھی گئے ... لیکن انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، یعنی چھ مسلمان اور دس مشرک جن میں سے ایک یا دوآدمی تلوار سے قتل کیے گئے تھے۔
اسی تیر اندازی کے دوران حضرت سعد بن معاذؓ کو بھی ایک تیر لگا جس سے ان کے دستے کی شہ رگ کٹ گئی۔ انہیں حبان بن عرقہ نامی ایک قریشی مشرک کا تیر لگا تھا۔ حضرت سعد نے (زخمی ہونے کے بعد )دعا کی کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ جس قوم نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور انہیں نکال باہر کیا ان سے تیری راہ میں جہاد کرنا مجھے جس قدر محبوب ہے اتنا کسی اور قوم سے نہیں ہے۔ اے اللہ ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہماری ان کی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۹۰ 2 ایضا ۲/۵۹۰
3 شرح مسلم للنووی ۱/۲۲۷
جنگ کو آخری مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔ پس اگرقریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہوتو مجھے ان کے لیے باقی رکھ کہ میں ان سے تیری راہ میں جہاد کروں۔ اور اگر تونے لڑائی ختم کردی ہے تو اسی زخم کوجاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنادے۔1 ان کی اس دعا کا آخری ٹکڑا یہ تھا کہ (لیکن ) مجھے موت نہ دے یہاں تک کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوجائے۔ 2 بہر کیف ایک طرف مسلمان محاذ جنگ پر ان مشکلات سے دوچار تھے تو دوسری طرف سازش اور دسیسہ کاری کے سانپ اپنے بلوں میں حرکت کررہے تھے۔ اور اس کوشش میں تھے کہ مسلمانوں کے جسم میں اپنا زہر اتاردیں۔ چنانچہ بنو نضیر کا مجرم اکبر ... حیی بن اخطب ... بنو قریظہ کے دیار میں آیا۔ اور ان کے سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس حاضر ہوا۔ یہ کعب بن اسد وہی شخص ہے جو بنو قریظہ کی طرف سے عہد وپیمان کرنے کا مجاز ومُختارتھا۔ اور جس نے رسول اللہﷺ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کے مواقع پر آپ کی مدد کرے گا۔ (جیسا کہ پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے ) حُیی نے آکر اس کے دروازے پر دستک دی تو اس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ مگرحیی اس سے ایسی ایسی باتیں کرتا رہا کہ آخر کار اس نے دروازہ کھول ہی دیا۔ حیی نے کہا : اے کعب ! میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھاہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ میں نے قریش کو اس کے سرداروں اور قائدین سمیت لاکر رومہ کے مجمع الاسیال میں اتار دیا ہے۔ اور بنو غطفان کو ان کے قائدین اور سرداروں سمیت احد کے پاس ذنب نقمی میں خیمہ زن کردیا ہے۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدوپیمان کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا مکمل صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔
کعب نے کہا : اللہ کی قسم ! تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے ، مگر اس میں کچھ رہ نہیں گیا ہے۔ حیی ! تجھ پر افسوس ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے صدق ووفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا ہے۔
مگر حیی اس کو مسلسل چوٹی اور کندھے میں بٹتا اور لپیٹتا رہا ، یہاں تک کہ اسے رام کر ہی لیا۔ البتہ اسے اس مقصد کے لیے یہ عہد وپیمان کرنا پڑا کہ اگر قریش نے محمد کو ختم کیے بغیر واپسی کی راہ لی تو میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوجاؤں گا۔ پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا بھی ہو گا۔ حیی کے اس پیمان ِ وفا کے بعد کعب بن اسد نے رسول اللہﷺ سے کیا ہوا عہد توڑدیا۔
اور مسلمانوں کے ساتھ طے کی ہوئی ذمے داریوں سے بری ہو کر ان کے خلاف مشرکین کی جانب سے جنگ میں شریک ہوگیا۔3
اس کے بعد بنو قریظہ کے یہود عملی طور پر جنگی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۹۱ 2 ابن ہشام ۲/۲۲۷
3 ابن ہشام ۲/۲۲۰ - ۲۲۱
حضرت صفِیّہ بنت عبد المطلب ؓ حضرت حسان بن ثابتؓ کے فارغ نامی قلعے کے اندر تھیں۔ حضرت حسان عورتوں اور بچوں کے ساتھ وہیں تھے۔ حضرت صَفِیّہ کہتی ہیں: ہمارے پاس سے ایک یہودی گزرا اور قلعے کا چکر کاٹنے لگا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بنو قریظہ رسول اللہﷺ سے کیا ہوا عہد وپیمان توڑ کر آپ سے برسرپیکار ہوچکے تھے۔ اور ہمارے اور ان کے درمیان کوئی نہ تھا جو ہمارادفاع کرتا ... رسول اللہﷺ مسلمانوں سمیت دشمن کے مدِّ مقابل پھنسے ہوئے تھے۔ اگرہم پر کوئی حملہ آور ہوجاتا تو آپ انہیں چھوڑ کر آنہیں سکتے تھے۔ اس لیے میں نے کہا: اے حسان ! یہ یہودی ...جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ... قلعے کا چکر لگا رہا ہے۔ اور مجھے اللہ کی قسم! اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہود کو بھی ہماری کمزوری سے آگاہ کردے گا۔ ادھر رسول اللہﷺ اورصحابہ کرامؓ اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری مدد کو نہیں آسکتے۔ لہٰذا آپ جائیے اور اسے قتل کردیجیے۔ حضرت حسانؓ نے کہا : واللہ! آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں۔ حضرت صفیہ کہتی ہیں: اب میں نے خود اپنی کمر باندھی۔ پھر ستون کی ایک لکڑی لی۔ اور اس کے بعد قلعے سے اتر کر اس یہودی کے پاس پہنچی۔ اور اسے لکڑی مار مار کر اس کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان سے کہا :جایئے اس کا ہتھیا ر اور اسباب اتار لیجئے۔ چونکہ وہ مردہے۔ اس لیے میں نے اس کا ہتھیار نہیں اتارا۔ حسان نے کہا : مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی کوئی ضرورت نہیں۔1
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بچوں اور عورتوں کی حفاظت پر رسول اللہﷺ کی پھوپھی کے اس جانبازانہ کارنامے کا بڑا گہرا اور اچھا اثر پڑا۔ اس کارروائی سے غالبا ًیہود نے سمجھا کہ ان قلعے اور گڑھیوں میں بھی مسلمان کا حفاظتی لشکر موجود ہے -حالانکہ وہاں کوئی لشکر نہ تھا - اسی لیے یہود کو دوبارہ اس قسم کی جرأت نہ ہوئی۔ البتہ وہ بُت پرست حملہ آوروں کے ساتھ اپنے اتحاد اور انضمام کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے انہیں مسلسل رسد پہنچاتے رہے ، حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کی رسد کے بیس اونٹوں پر قبضہ بھی کر لیا۔
بہرحال یہود کی عہد شکنی کی خبر رسول اللہﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فوراً اس کی تحقیق کی طرف توجہ فرمائی۔ تاکہ بنو قریظہ کا موقف واضح ہوجائے۔ اور اس کی روشنی میں فوجی نقطۂ نظر سے جواقدام مناسب ہو اختیار کیا جا ئے۔ چنانچہ آپ نے اس خبر کی تحقیق کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ ، سعد بن عبادہ ، عبد اللہ بن رواحہ اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم کو روانہ فرمایا۔ اور ہدایت کی کہ جاؤ دیکھو ! بنی قریظہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا نہیں ؟ اگرصحیح ہے تو واپس آکر صرف مجھے بتا دینا۔ اور وہ بھی اشاروں اشاروں میں۔ لوگوں کے بازومت توڑنا۔ اور اگر وہ عہد وپیمان پر قائم ہیں تو پھر لوگوں کے درمیان علانیہ اس کا ذکر کردینا۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے قریب پہنچے تو انہیں انتہائی خباثت پر آمادہ پایا۔ انہوں نے علانیہ گالیاں بکیں۔ دشمنی کی باتیں کیں۔ اور رسول اللہﷺ کی اہانت کی۔ کہنے لگے:اللہ کا رسول کون ... ؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/ ۲۲۸
یہ سن کر وہ لوگ واپس آگئے۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ کر صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا : عضل وقارہ۔ مقصود یہ تھا کہ جس طرح عضل وقارہ نے اصحابِ رجیع کے ساتھ بدعہدی کی تھی اسی طرح یہود بھی بد عہدی پر تُلے ہوئے ہیں۔
باوجودیکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اخفائے حقیقت کی کوشش کی لیکن عام لوگوں کو صورتحال کا علم ہوگیا۔ اور اس طرح ایک خوفناک خطرہ ان کے سامنے مجسم ہوگیا۔
درحقیقت اس وقت مسلمان نہایت نازک صورت حال سے دوچار تھے۔ پیچھے بنو قریظہ تھے جن کا حملہ روکنے کے لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔ آگے مشرکین کا لشکر ِجرار تھا جنہیں چھوڑ کر ہٹنا ممکن نہ تھا۔ پھر مسلمان عورتیں اور بچے تھے جو کسی حفاظتی انتظام کے بغیر بد عہد یہودیوں کے قریب ہی تھے۔ اس لیے لوگوں میں سخت اضطراب برپا ہوا جس کی کیفیت اس آیت میں بیان کی گئی ہے :
إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ‌ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ‌ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (۳۳: ۱۰، ۱۱)
''اور جب نگاہیں کج ہوگئیں ، دل حلق میں آگئے ، اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت مومنوں کی آزمائش کی گئی، اور انہیں شدت سے جھنجوڑدیا گیا۔''
پھر اسی موقع پر بعض منافقین کے نفاق نے بھی سر نکالا۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ محمد تو ہم سے وعدے کرتے تھے کہ ہم قیصر وکِسریٰ کے خزانے کھائیں گے اور یہاں یہ حالت ہے کہ پیشاب پائخانے کے لیے نکلنے میں بھی جان کی خیر نہیں۔ بعض منافقین نے اپنی قوم کے اشراف کے سامنے یہاں تک کہاکہ ہمارے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ کیونکہ ہمارے گھر شہر سے باہر ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ بنو سلمہ کے قدم اکھڑرہے تھے۔ اور وہ پسپائی کی سوچ رہے تھے۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے :
وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ إِلَّا غُرُ‌ورً‌ا ﴿١٢﴾ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِ‌بَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْ‌جِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَ‌ةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَ‌ةٍ ۖ إِن يُرِ‌يدُونَ إِلَّا فِرَ‌ارً‌ا (۳۳: ۱۲،۱۳)
''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جووعدہ کیا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اور جب ان کی ایک جماعت نے کہا کہ اے اہل یثرب! تمہارے لیے ٹھہرنے کی گنجائش نہیں، لہٰذا واپس چلو۔ اور ان کا ایک فریق نبی سے اجازت مانگ رہا تھا۔ کہتا تھا ہمارے گھر خالی پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ خالی نہیں پڑے تھے یہ لوگ محض فرار چاہتے تھے۔''
ایک طرف لشکر کا یہ حال تھا۔ دوسری طرف رسول اللہﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ آپ نے بنو قریظہ کی بدعہدی کی خبر سن کر اپنا سر اور چہرہ کپڑے سے ڈھک لیا۔ اور دیر تک چت لیٹے رہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر لوگوں کا اضطراب اور زیادہ بڑھ گیا ، لیکن اس کے بعد آپ پر امید کی روح غالب آگئی۔ اور آپ اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اور فرمایا : مسلمانو! اللہ کی مدداورفتح کی خوشخبری سن لو ! اس کے بعد آپ نے پیش آمدہ حالات سے نمٹنے کا پروگرام بنایا اور اسی پروگرام کے ایک جزو کے طور پر مدینے کی نگرانی کے لیے فوج کا ایک حصہ روانہ فرماتے رہے تاکہ مسلمانوں کو غافل دیکھ کر یہود کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے ، لیکن اس موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کی ضرورت تھی جس کے ذریعے دشمن کے مختلف گروہوں کوایک دوسرے سے بے تعلق کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے سوچا کہ بنو غطفان کے دونوں سرداروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار پر مصالحت کرلیں تاکہ یہ دونوں سردار اپنے اپنے قبیلے لے کر واپس چلے جائیں۔ اور مسلمان تنہاقریش پر جن کی طاقت کا بار بار اندازہ لگایا جاچکا تھا۔ ضرب کاری لگانے کے لیے فارغ ہوجائیں۔ اس تجویز پر کچھ گُفت وشنید بھی ہوئی۔ مگر جب آپﷺ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے اس تجویز کے بارے میں مشورہ کیا تو ان دونوں نے بیک زبان عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر اللہ نے آپﷺ کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلاچوں چرا تسلیم ہے۔ اور اگر محض آپﷺ ہماری خاطر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جب ہم لوگ اور یہ لوگ دونوںشرک بت پرستی پر تھے تو یہ لوگ میزبانی یاخرید وفرخت کے سواکسی اور صورت سے ایک دانے کی بھی طمع نہیں کرسکتے تھے تو بھلا اب جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت ِ اسلام سے سرفروز فرمایا ہے ، اور آپ کے ذریعے عزت بخشی ہے ، ہم انہیں اپنا مال دیں گے ؟ واللہ! ہم تو انہیں صرف اپنی تلواردیں گے۔ آ پﷺ نے ان دونوں کی رائے کو درست قرار دیا۔ اور فرمایا کہ جب میں نے دیکھا کہ سارا عرب ایک کمان کھینچ کر تم پر پل پڑا ہے تو محض تمہاری خاطر یہ کام کرنا چاہا تھا۔
پھر -الحمد للہ - اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دشمن میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان کی جمعیت شکست کھاگئی ، اور ان کی دھار کند ہو گئی۔ ہوایہ کہ غطفان کے ایک صاحب جن کانام نُعَیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میں مسلمان ہوگیا ہوں ، لیکن میری قوم کو میرے اسلام لانے کا علم نہیں۔ لہٰذا آپﷺ مجھے کوئی حکم فرمایئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم فقط ایک آدمی ہو(لہٰذا کوئی فوجی اقدام تو نہیں کرسکتے ) البتہ جس قدر ممکن ہوان میں پھوٹ ڈالو اور ان کی حوصلہ شکنی کرو ، کیونکہ جنگ تو چالبازی کا نام ہے۔ اس پر حضرت نعیم فورا ً ہی بنو قریظہ کے ہاں پہنچے۔ جاہلیت میں ان سے ان کا بڑا میل جول تھا۔وہاں پہنچ کر انہوں نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت اور خصوصی تعلق ہے۔ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ نعیم نے کہا : اچھا تو سنئے کہ قریش کا معاملہ آپ لوگوں سے مختلف ہے۔ یہ علاقہ آپ کا اپنا علاقہ ہے۔ یہاں آپ کا گھربار ہے۔ مال ودولت ہے۔ بال بچے ہیں۔ آپ اسے چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتے مگر قریش وغطفان محمدﷺ سے جنگ کرنے آئے تو آپ نے محمدﷺ کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ ظاہر ہے ان کا یہاں نہ گھر بار ہے نہ مال ودولت ہے نہ بال بچے ہیں۔ اس لیے انہیں موقع ملا تو کوئی قدم اٹھائیں گے۔ ورنہ بوریا بستر باندھ کر رخصت ہوجائیں گے۔ پھر آپ لوگ ہوں گے۔ اور محمدﷺ ہوں گے۔ لہٰذا وہ جیسے چاہیں گے آپ سے انتقام لیں گے۔ اس پر بنو قریظہ چونکے۔ اور بولے : نعیم ! بتایئے اب کیاکیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا : دیکھئے ! قریش جب تک آپ لوگوں کو اپنے کچھ آدمی یرغمال کے طور پر نہ دیں ، آپ ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں۔ قریظہ نے کہا : آپ نے بہت مناسب رائے دی ہے۔
اس کے بعد حضرت نعیمؓ سیدھے قریش کے پاس پہنچے اور بولے : آپ لوگوں سے مجھے جومحبت اور جذبہ خیر خواہی ہے اسے تو آپ جانتے ہی ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! حضرت نعیمؓ نے کہا: اچھا تو سنئے کہ یہود نے محمدﷺ اور ان کے رفقاء سے جو عہد شکنی کی تھی اس پر وہ نادم ہیں۔ اور اب ان میں یہ مراسلت ہوئی ہے کہ وہ (یہود) آپ لوگوں سے کچھ یرغمال حاصل کر کے ان (محمد) کے حوالے کردیں گے۔ اور پھر آپ لوگوں کے خلاف محمدﷺ سے اپنا معاملہ استوار کرلیں گے۔ لہٰذا اگر وہ یرغمال طلب کریں تو آپ ہرگز نہ دیں۔ اس کے بعد غطفان کے پاس بھی جاکر یہی بات دہرائی۔ (اور ان کے بھی کان کھڑے ہوگئے )
اس کے بعد جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات کو قریش نے یہود کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ ہماراقیام کسی سازگار اور موزوں جگہ پر نہیں ہے۔ گھوڑے اور اونٹ مررہے ہیں۔ لہٰذا ادھر سے آپ لوگ اور ادھر سے ہم لوگ اٹھیں۔ اور محمد پر حملہ کردیں ، لیکن یہود نے جواب میں کہلایا کہ آج سنیچر کا دن ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہم سے پہلے جن لوگوں نے اس دن کے بارے میں حکم ِ شریعت کی خلاف ورزی کی تھی انہیں کیسے عذاب سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ علاوہ ازیں آپ لوگ جب تک اپنے کچھ آدمی ہمیں بطور ِ یرغمال نہ دے دیں ہم لڑائی میں شریک نہ ہوں گے۔ قاصد جب یہ جواب لے کر واپس آئے تو قریش اور غطفان نے کہا : واللہ! نعیمؓ نے سچ ہی کہا تھا ، چنانچہ انہوں نے یہود کو کہلا بھیجا کہ اللہ کی قسم ! ہم آپ کوکوئی آدمی نہ دیں گے ، بس آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی نکل پڑیں۔ اور (دونوں طرف سے) محمد پر ہلہ بول دیا جائے۔ یہ سن کر قریظہ نے باہم کہا: واللہ ! نعیمؓ نے تم سے سچ ہی کہا تھا اس طرح دونوں فریق کا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھ گیا۔ ان کی صفوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
اس دوران مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کررہے تھے: ((اللہم استر عوراتنا وآمن روعاتنا۔)) ''اے اللہ ہماری پردہ پوشی فرما۔ اور ہمیں خطرات سے مامون کردے۔''اور رسول اللہﷺ یہ دعا فرمارہے تھے :
(( اللہم منزل الکتاب، سریع الحساب، اہزم الأحزاب، اللہم اہزمہم وزلزلہم۔)) 1
''اے اللہ ! کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے۔ ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ ! انہیں شکست دے اور جھنجوڑکر رکھ دے۔''
بالآخر اللہ نے اپنے رسولﷺ اور مسلمانوں کی دعائیں سن لیں۔ چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑجانے اور بددلی وپست ہمتی سرایت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا۔ جس نے ان کے خیمے اکھیڑ دیئے ، ہانڈیاں الٹ دیں ، طَنابوں کی کھونٹیاں اکھاڑ دیں ، کسی چیز کو قرار نہ رہا اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کا لشکر بھیج دیا۔ جس نے انہیں ہلا ڈالا۔ اور ان کے دلوں میں رعب اور خوف ڈال دیا۔
اسی سرد اور کڑ کڑاتی ہوئی رات میں رسول اللہﷺ نے حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ موصوف ان کے محاذ میں پہنچے تو وہاں ٹھیک یہی حالت بپا تھی۔ اور مشرکین واپسی کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے خدمت ِنبویﷺ میں واپس آکر ان کی روانگی کی اطلاع دی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے صبح کی تو (دیکھا کہ میدان صاف ہے ) اللہ نے دشمن کو کسی خیر کے حصول کا موقع دیئے بغیر اس کے غیظ وغضب سمیت واپس کردیا ہے۔ اور ان سے جنگ کے لیے تنہا کافی ہواہے۔ الغرض! اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے لشکر کو عزت بخشی ، اپنے بندے کی مدد کی۔ اور تن تنہا سارے لشکر کو شکست دی چنانچہ اس کے بعد آپ مدینہ واپس آگئے۔
غزوۂ خندق صحیح ترین قول کے مطابق شوال ۵ھ میں پیش آیا تھا۔ اور مشرکین نے ایک ماہ یا تقریباً ایک ماہ تک رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا تھا۔ تمام مآخذ پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرے کا آغاز شوال میں ہوا تھا اور خاتمہ ذی قعدہ میں۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ جس روز خندق سے واپس ہوئے بدھ کادن تھا۔ اور ذی قعدہ کے ختم ہونے میں صرف سات دن باقی تھے۔
جنگِ احزاب درحقیقت خساروں کی جنگ نہ تھی بلکہ اعصاب کی جنگ تھی۔ا س میں کوئی خونریز معرکہ پیش نہیں آیا ، لیکن پھر بھی یہ اسلامی تاریخ کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے اور یہ واضح ہوگیا کہ عرب کی کوئی بھی قوت مسلمانوں کی اس چھوٹی سی طاقت کو جومدینے میں نشو نما پارہی ہے ختم نہیں کرسکتی کیونکہ جنگِ احزاب میں جتنی بڑی طاقت فراہم ہوگئی تھی اس سے بڑی طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے احزاب کی واپسی کے بعد فرمایا :
(( الآن نغزوہم ولا یغزونا، ونحن نسیر إلیہم۔)) 2
''اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے ، وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے، اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائے گا۔''

****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱/۴۱۱ کتاب المغازی ۲/۵۹۰ 2 صحیح بخاری ۲/۵۹۰۔
غزوہ ٔ بنو قریظہ

جس روز رسول اللہﷺ خندق سے واپس تشریف لائے اسی روز ظہر کے وقت جبکہ آپ حضرت اُمِ سلمہؓ کے مکان میں غسل فرمارہے تھے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ اور فرمایا : کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے حالانکہ ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے۔ اور میں بھی قوم کا تعاقب کرکے بس واپس چلا آرہا ہوں۔ اُٹھئے ! اور اپنے رفقاء کو لے کر بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ میں آگے آگے جارہا ہوں۔ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں گا ، اور ان کے دلوں میں رعب ودہشت ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت جبریل ؑ فرشتوں کے جلو میں روانہ ہوگئے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے ایک صحابی سے منادی کروائی کہ جوشخص سمع وطاعت پر قائم ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم کو سونپا۔ اور حضرت علیؓ کو جنگ کا پھریرا دے کر آگے روانہ فرمادیا۔ وہ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو بنو قریظہ نے رسول اللہﷺ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔
اتنے میں رسول اللہﷺ بھی مہاجرین وانصار کے جلو میں روانہ ہوچکے تھے۔ آپ نے بنوقریظہ کے دیار میں پہنچ کر ''انا'' نامی ایک کنویں پر نزول فرمایا۔ عام مسلمانوں نے بھی لڑائی کا اعلان سن کر فوراً دیار ِ بنی قریظہ کا رُخ کیا۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض نے کہا : ہم - جیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے - بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ بعض نے عصر کی نماز عشاء کے بعد پڑھی ، لیکن دوسرے صحابہ نے کہا: آپ کا مقصود یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ ہم جلد ازجلد روانہ ہوجائیں۔ اس لیے انہوں نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی البتہ جب رسول اللہﷺ کے سامنے یہ قضیہ پیش ہوا تو آپﷺ نے کسی بھی فریق کو سخت سُست نہیں کہا۔
بہرکیف مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر اسلامی لشکر دیار ِ بنو قریظہ میں پہنچا اور نبیﷺ کے ساتھ جاشامل ہوا۔ پھر بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا ، اس لشکر کی کل تعداد تین ہزار تھی اور اس میں تیس گھوڑے تھے۔
جب محاصرہ سخت ہوگیا تو یہود کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین متبادل تجویزیں پیش کیں :
یاتو اسلام قبول کرلیں۔ اور محمدﷺ کے دین میں داخل ہوکر اپنی جان ، مال اور بال بچوں کو محفوظ کرلیں۔ کعب بن اسد نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ واللہ! تم لوگوں پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ واقعی نبی اور رسول ہیں۔ اور وہ وہی ہیں جنہیں تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔
یا اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردیں۔ پھر تلوار سونت کر نبیﷺ کی طرف نکل پڑیں۔ اور پوری قوت سے ٹکراجائیں۔ اس کے بعد یاتو فتح پائیں یاسب کے سب مارے جائیں۔
یا پھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دھوکے سے سنیچر کے دن پل پڑیں کیونکہ انہیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔
لیکن یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی۔ جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا:تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔
ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور اپنی قسمت کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیں ، لیکن انہوں نے چاہا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنے بعض مسلمان حلیفوں سے رابطہ قائم کرلیں۔ ممکن ہے پتہ لگ جائے کہ ہتھیا ر ڈالنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابو لبابہ ان کے حلیف تھے۔ اور ان کے باغات اور آل اولاد بھی اسی علاقے میں تھے۔ جب ابو لبابہ وہاں پہنچے تو مرد حضرات انہیں دیکھ کر ان کی طرف دوڑ پڑے۔ اور عورتوں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت ابولبابہؓ پررقت طاری ہوگئی۔ یہود نے کہا : ابو لبابہ ! کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم محمدﷺ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ! لیکن ساتھ ہی ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ بھی کردیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ذبح کردیئے جاؤ گے ، لیکن انہیں فورا ً احساس ہوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس واپس آنے کے بجائے سیدھے مسجد نبوی پہنچے۔ اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ لیا۔ اور قسم کھائی کہ اب انہیں رسول اللہﷺ ہی اپنے دست مُبارک سے کھولیں گے۔ اور وہ آئندہ بنوقریظہ کی سرزمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ محسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں دیر ہورہی ہے۔ پھر جب تفصیلات کا علم ہو اتو فرمایا: اگر وہ میرے پاس آگئے ہوتے تو میں ان کے لیے دعائے مغفرت کردیئے ہوتا ، لیکن جب وہ وہی کام کربیٹھے ہیں تو اب میں بھی انہیں ان کی جگہ سے کھول نہیں سکتا ، یہاں تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔
ادھر ابو لبابہ کے اشارے کے باوجود بنو قریظہ نے یہی طے کیا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور وہ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں حالانکہ بنو قریظہ ایک طویل عرصے تک محاصرہ برداشت کرسکتے تھے کیونکہ ایک طرف ان کے پاس وافرمقدارمیں سامان خوردو نوش تھا ، پانی کے چشمے اور کنوئیں تھے۔ مضبوط اور محفوظ قلعے تھے۔ اور دوسری طرف مسلمان کھلے میدان میں خون منجمد کر دینے والے جاڑے اور بھُوک کی سختیاں سہ رہے تھے۔ اور آغازِ جنگِ خندق کے بھی پہلے سے مسلسل جنگی مصروفیات کے سبب تکان سے چور چور تھے ، لیکن جنگ بنی قریظہ درحقیقت ایک اعصابی جنگ تھی۔ اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تھا۔ اور ان کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ پھر حوصلوں کی یہ شکستگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت زبیر بن عوامؓ نے پیش قدمی فرمائی۔ اور حضرت علیؓ نے گرج کر یہ اعلان کیا کہ ایمان کے فوجیو! اللہ کی قسم ! اب میں بھی یا تو وہی چکھوں گا جو حمزہؓ نے چکھا یاان کا قلعہ فتح کرکے رہوں گا۔
چنانچہ حضرت علیؓ کایہ عزم سن کر بنو قریظہ نے جلدی سے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ مردوں کو باندھ دیا جائے۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ انصاریؓ کے زیر نگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیئے گئے۔ اور عورتوں اور بچوں کو مَردوں سے الگ کردیا گیا۔ قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہﷺ سے عرض پر داز ہوئے کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزْرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں۔ لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کیا آپ لوگ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک آدمی فیصلہ کرے ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : تو یہ معاملہ سعد بن معاذ کے حوالے ہے۔ اَوس کے لوگوں نے کہا : ہم اس پر راضی ہیں۔
اس کے بعد آپ نے حضرت سعد بن معاذ کو بلا بھیجا۔ وہ مدینہ میںتھے ، لشکر کے ہمراہ تشریف نہیں لائے تھے ، کیونکہ جنگِ خندق کے دوران ہاتھ کی رگ کٹنے کے سبب زخمی تھے۔ انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا۔ اور کہنے لگے : سعد ! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا ... رسول اللہﷺ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔ مگر وہ چپ چاپ تھے کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے : اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔ یہ سن کر بعض لوگ اسی وقت مدینہ آگئے اور قیدیوں کی موت کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد جب حضرت سعد نبیﷺ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا: اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔ (لوگوں نے بڑھ کر ) جب انہیں اتارلیا تو کہا: اے سعد ! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اترے ہیں۔ حضرت سعد نے کہا : کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! انہوں نے کہا مسلمانوں پربھی ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ! انہوں نے پھر کہا : اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟ ان کا اشارہ رسول اللہﷺ کی فرودگاہ کی طرف تھا۔ مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کررکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں! مجھ پر بھی۔ حضرت سعد نے کہا : تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے۔ اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔
حضرت سعد کا یہ فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پر مبنی تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مسلمانوںکی موت وحیا ت کے نازک ترین لمحات میں جو خطرناک بدعہدی کی تھی وہ تو تھی ہی ، اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں ، دوہزار نیزے ، تین سوزِرہیں اور پانچ سو ڈھال مہیا کررکھے تھے جس پر فتح کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد رسول اللہﷺ کے حکم پر بنو قریظہ کو مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت - جو حارث کی صاحبزادی تھیں - کے گھر میں قید کردیا گیا۔ اور مدینہ کے بازار میں خندقیں کھود ی گئیں ، پھر انہیں ایک ایک جماعت کرکے لے جایا گیا۔ اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماردی گئیں۔ کارروائی شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد باقی ماندہ قیدیوں نے اپنے سردار کعب بن اسد سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے ؟ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے ؟ اس نے کہا : کیا تم لوگ کسی بھی جگہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ؟ دیکھتے نہیں کہ پکار نے والا رک نہیں رہا ہے اور جانے والاپلٹ نہیں رہا ہے؟ یہ اللہ کی قسم! قتل ہے۔ بہر کیف ان سب کی (جن کی تعداد چھ اور سات سو کے درمیان تھی ) گردنیں ماردی گئیں۔
اس کارروائی کے ذریعے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پرخاتمہ ہوگیا جنہوں نے پختہ عہدوپیمان توڑا تھا۔ مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ان کی زندگی کے نہایت سنگین اور نازک ترین لمحات میں دشمن کو مدد دے کر جنگ کے اکابر مجرمین کا کردار ادا کیا تھا۔ اور اب وہ واقعتا مقدمے اور پھانسی کے مستحق ہوچکے تھے۔
بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ ِ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ کا باپ تھا۔ قریش وغَطفان کی واپسی کے بعد جب بنو قریظہ کا محاصرہ کیا گیا۔ اور انہوں نے قلعہ بندی اختیار کی تو یہ بھی ان کے ہمراہ قلعہ بند ہوگیا تھا۔ کیونکہ غزوۂ احزاب کے ایام میں یہ شخص جب کعب بن اسد کو غدر وخیانت پر آمادہ کرنے کے لیے آیا تھا تو اس کا وعدہ کررکھا تھا۔ اور اب اسی وعدے کو نباہ رہا تھا ، اسے جس وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لایا گیا ، ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھا جسے خود ہی ہر جانب سے ایک ایک انگل پھاڑ رکھا تھا تاکہ اسے مال غنیمت میں نہ رکھوالیا جائے۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے رسی سے یکجا بندھے ہوئے تھے۔ اس نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرکے کہا : سنئے ! میں نے آپ کی عداوت پراپنے آپ کو ملامت نہیں کی ، لیکن جو اللہ سے لڑتا ہے مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر لوگوں کو مخاطب کرکے کہا : اللہ کے فیصلے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو نوشتہ ٔ تقدیر ہے اور ایک بڑا قتل ہے۔ جو اللہ نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بیٹھا اور اس کی گردن ماردی گئی۔
اس واقعہ میں بنو قریظہ کی ایک عورت بھی قتل کی گئی۔ اس نے حضرت خَلاّد بن سُویدؓ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا۔
رسول اللہﷺ کا حکم تھا کہ جس کے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے ، چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے۔ لہٰذا انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو کر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
حضرت ثابت بن قیس نے گزارش کی کہ زبیر بن باطا اور اس کے اہل وعیال کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے - اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر نے ثابت پر کچھ احسانات کیے تھے - ان کی گزارش منظور کرلی گئی۔ اس کے بعد ثابت بن قیس نے زبیر سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے تم کو اور تمہارے اہل وعیال کو میرے لیے ہبہ کردیا ہے۔ اور میں ان سب کو تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ (یعنی تم بال بچوں سمیت آزاد ہو ) لیکن جب زبیر بن باطا کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم قتل کردی گئی ہے تو اس نے کہا : ثابت ! تم پر میں نے جو احسان کیا تھا اس کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی دوستوں تک پہنچادو۔ چنانچہ اس کی بھی گردن مار کراسے اس کے یہودی دوستوں تک پہنچا دیا گیا۔ البتہ حضرت ثابت نے زبیر بن باطاکے لڑکے عبدالرحمن کو زندہ رکھا، چنانچہ وہ اسلام لاکر شرف ِصحبت سے مشرف ہوئے۔ اسی طرح بنو نجار کی ایک خاتون حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیس نے گزارش کی کہ سموأل قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے۔ ان کی بھی گزارش منظور ہوئی۔ اور رفاعہ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔ انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا۔ اور وہ بھی اسلام لاکر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔ اسی رات عَمر و نامی ایک اورشخص - جس نے بنو قریظہ کی بدعہدی میں شرکت نہ کی تھی - باہر نکلا۔ اسے پہرہ داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے دیکھا لیکن پہچان کر چھوڑ دیا ، پھر معلوم نہیں وہ کہاں گیا۔
بنو قریظہ کے اموال کو رسول اللہﷺ نے خمس نکال کر تقسیم فرمادیا۔ شہسوار کو تین حصے دیئے۔ ایک حصہ اس کا اپنا اور دوحصہ گھوڑو ں کا۔ اور پیدل کو ایک حصہ دیا ، قیدیوں اور بچوں کو حضرت سعد بن زید انصاریؓ کی نگرانی میں نجد بھیج کر ان کے عوض گھوڑے اور ہتھیار خرید لیے۔
رسول اللہﷺ نے اپنے لیے بنو قریظہ کی عورتوں میں سے حضرت ریحانہ بنت عمرو بن خنافہ کو منتخب کیا۔ یہ ابن اسحاق کے بقول آپﷺ کی وفات تک آپ کی ملکیت میں رہیں۔1 لیکن کلبی کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے انہیں ۶ھ میں آزاد کرکے شادی کرلی تھی۔ پھرجب آپ حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو ان کا انتقال ہوگیا۔ اور آپ نے انہیں بقیع میں دفن فرمادیا۔2
جب بنو قریظہ کاکام تمام ہوچکا تو بندہ ٔ صالح حضرت سعد بن معاذؓ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا جس کا ذکر غزوۂ احزاب کے دوران آچکا ہے۔ چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا۔ اس وقت وہ مسجد نبوی میں تھے۔ نبیﷺ نے ان کے لیے وہیں خیمہ لگوادیا تھا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں۔ حضرت عائشہ ؓ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۲۴۵ 2 تلقیح الفہوم ص ۱۲
کا بیان ہے کہ زخم ان کے لبہ (سینے)سے پھوٹ کر بہا۔ مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا : خیمہ والو ! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہماری طرف آرہا ہے ؟ دیکھا تو حضرت سعد کے زخم سے خون کی دھاررواں تھی ، پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔1
صحیحین میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذؓ کی موت سے رحمان کا عرش ہل گیا۔ 2امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا : ان کا جنازہ کسی قدر ہلکا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے فرشتے اٹھا ئے ہوئے تھے۔3
بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران ایک مسلمان شہید ہوئے جن کا نام خَلاّد بن سُوَیْد ہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عکاشہ کے بھائی ابو سنان بن محصن نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔
جہاں تک حضرت ابولبابہؓ کا معاملہ ہے تو وہ چھ رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ ان کی بیوی ہرنماز کے وقت آکر کھول دیتی تھیں۔ اور وہ نماز سے فارغ ہو کر پھر اسی ستون میں بندھ جاتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ پر صبح دم ان کی توبہ نازل ہوئی۔ اس وقت آپ حضرت ام سلمہ ؓکے مکان میں تشریف فرماتھے۔ حضرت ابو لبابہؓ کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہؓ نے اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر مجھ سے کہا : اے ابو لبابہ خوش ہوجاؤ۔ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ یہ سن کر صحابہ انہیں کھولنے کے لیے اچھل پڑے لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ انہیں رسول اللہﷺ کے بجائے کوئی اور نہ کھولے گا۔ چنانچہ جب نبیﷺ نماز فجر کے لیے نکلے اور وہاں سے گزرے تو انہیں کھول دیا۔
یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔4اللہ نے اس غزوہ اور غزوہ ٔ خندق کے متعلق سورۂ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں۔ اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا۔ اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔

****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۹۱ 2 ایضاً ۱/۵۳۶ صحیح مسلم ۲/۲۹۴ جامع ترمذی ۲/۲۲۵
3 جامع ترمذی ۲/۲۲۵
4 ابن ہشام ۲/۲۳۷، ۲۳۸ غزوے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۲/۲۳۳ تا ۲۷۳ صحیح بخاری ۲/۵۹۰، ۵۹۱ زاد المعاد ۲/۷۲، ۷۳، ۷۴، مختصر السیرۃ للیشخ عبد اللہ ص ۲۸۷ ،۲۸۸، ۲۸۹، ۲۹۰
غزوۂ احزاب وقریظہ کے بعد کی جنگی مہمات

۱۔ سلام بن ابی الحُقَیق کا قتل :
سلام بن ابی الحقیق - جس کی کنیت ابو رافع تھی - یہود کے ان اکابر مجرمین میں تھا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ورغلا نے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اور مال اور رسد سے ان کی امداد کی تھی۔1اس کے علاوہ رسول اللہﷺ کو ایذا بھی پہنچاتا تھا۔ اس لیے جب مسلمان بنو قریظہ سے فارغ ہوچکے تو قبیلہ خزرج کے لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی چونکہ اس سے پہلے کعب بن اشرف کا قتل قبیلہ ٔ اوس کے چند صحابہ کے ہاتھوں ہوچکاتھا ، اس لیے قبیلہ خزرج کی خواہش تھی کہ ایسا ہی کوئی کارنامہ ہم بھی انجام دیں ، اس لیے انہوں نے اجازت مانگنے میں جلدی کی۔
رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت تو دے دی لیکن تاکید فرمادی کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس کے بعد ایک مختصر سادستہ جو پانچ آدمیوں پر مشتمل تھا اپنی مہم پر روانہ ہوا۔ یہ سب کے سب قبیلہ ٔ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہ بن عتیک تھے۔
اس جماعت نے سیدھے خیبر کا رخ کیا کیونکہ ابورافع کا قلعہ وہیں تھا۔ جب قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک نے کہا : تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ میں جاتا ہوں اور دروازے کے پہرے دار کے ساتھ کوئی لطیف حیلہ اختیار کرتاہوں۔ ممکن ہے اندر داخل ہوجائوں۔اس کے بعد وہ تشریف لے گئے اور دروازے کے قریب جاکر سرپرکپڑا ڈال کر یوں بیٹھ گئے گویا قضائے حاجت کررہے ہیں۔ پہرے دار نے زور سے پکار کر کہا : اواے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو آجاؤ ورنہ میں دروازہ بند کرنے جارہا ہوں۔
عبد اللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں اندر گھس گیا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو پہرے دار نے دروازہ بند کرکے ایک کھونٹی پر چابیاں لٹکا دیں۔ (کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو ) میں نے اٹھ کر چابیاں لیں۔ اور دروازہ کھول دیا۔ ابو رافع بالاخانے میں رہتا تھا۔ اور وہاں مجلس ہواکرتی تھی۔ جب اہل مجلس چلے گئے تو میں اس کے بالاخانے کی طرف چڑھا۔ میں جو کوئی دروازہ بھی کھولتا تھا اسے اندر کی جانب سے بند کر لیتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو میرا پتہ لگ بھی گیا تو اپنے پاس ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے ابو رافع کو قتل کرلوں گا۔ اس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: فتح الباری ۷/۳۴۳
طرح میں اس کے پاس پہنچ تو گیا ،(لیکن ) وہ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک تاریک کمرے میں تھا۔ اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کس جگہ ہے۔ اس لیے میں نے کہا : ابو رافع ! اس نے کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے جھٹ آواز کی طرف لپک کر اس پر تلوار کی ایک ضرب لگائی لیکن میں اس وقت ہڑبڑایا ہوا تھا۔ اس لیے کچھ نہ کر سکا۔ ادھر اس نے زور کی چیخ ماری۔ لہٰذا میں جھٹ کمرے سے باہر نکل گیا اور ذرا دور ٹھہرکر پھر آگیا۔ اور (آواز بدل کر ) بو لا: ابو رافع ! یہ کیسی آوازتھی؟ اس نے کہا : تیری ماں برباد ہو۔ ایک آدمی نے ابھی مجھے اس کمرے میں تلوار ماری ہے۔ عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ اب میں نے ایک زور دار ضرب لگائی۔ جس سے وہ خون میں لت پت ہوگیا لیکن اب بھی میں اسے قتل نہ کرسکا تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبا دیا۔ اور وہ اس کی پیٹھ تک جارہا۔ میں سمجھ گیا کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے۔ اس لیے اب میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا واپس ہوا اور ایک سیڑھی کے پاس پہنچ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ زمین تک پہنچ چکا ہوں۔ پاؤں رکھا تو نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ پنڈلی سرک گئی ، میں نے پگڑی سے اسے کس کر باندھا۔ اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا۔ اور جی ہی جی میں کہا کہ آج جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے یہاں سے نہیں نکلوں گا۔ چنانچہ جب مرغ نے بانگ دی تو موت کی خبر دینے والا قلعے کی فصیل پر چڑھا۔ اوربلند آواز سے پکار اکہ میں اہلِ حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی اطلاع دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا: بھاگ چلو۔ اللہ نے ابو رافع کو کیفر ِ کردار تک پہنچا دیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا ، آپﷺ نے اس پر اپنا دست مُبارک پھیرا۔ اور ایسا لگا گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔1
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ابن اسحاق کی روایت یہ ہے کہ ابو رافع کے گھر میں پانچوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھسے تھے۔ اور سب نے اس کے قتل میں شرکت کی تھی۔ اور جس صحابی نے اس کے اوپر تلوار کا بوجھ ڈال کر قتل کیا تھا وہ حضرت عبد اللہ بن انیس تھے۔ اس روایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے رات میں ابو رافع کو قتل کرلیا اور عبد اللہ بن عتیک کی پنڈلی ٹوٹ گئی تو انہیں اٹھا لائے۔ اور قلعہ کی دیوار کے آرپار ایک جگہ چشمے کی نہر گئی ہوئی تھی اسی میں گھُس گئے۔ ادھر یہود نے آگ جلائی اور ہرطرف دوڑ دوڑ کر دیکھا۔ جب مایوس ہوگئے تو مقتول کے پاس واپس پلٹ آئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واپس ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عتیک کو لادکر رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے آئے۔2
اس سرِیہ کی روانگی ذی قعدہ یا ذی الحجہ ۵ھ میں زیر عمل آئی تھی3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۷۷ 2 ابن ہشام ۲/۲۷۴ ، ۲۷۵
3 رحمۃ للعالمین ۲/۲۲۳ اور غزوہ احزاب میں مذکور دوسرے مآخذ۔
جب رسول اللہﷺ احزاب اور قریظہ کی جنگوں سے فارغ ہوگئے۔ اور جنگی مجرمین سے نمٹ چکے توان قبائل اور اعراب کے خلاف تادیبی حملے شروع کی جو امن وسلامتی کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے تھے۔ اور قُوتِ قاہرہ کے بغیر پُر سکون نہیں رہ سکتے تھے۔ ذیل میں اس سلسلے کے سرایا اور غزوات کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے۔
۲۔ سریۂ محمد بن مسلمہ :
احزاب وقریظہ کی جنگوں سے فراغت کے بعد یہ پہلا سریہ ہے جس کی روانگی عمل میں آئی۔ یہ تیس آدمیوں کی مختصر سی نفری پر مشتمل تھا۔
اس سریہ کو نجد کے اندر بکرات کے علاقہ میں ضریہ کے آس پاس قرطاء نامی مقام پر بھیجا گیا تھا۔ ضریہ اور مدینہ کے درمیا ن سات رات کا فاصلہ ہے۔ روانگی ۱۰/محرم ۶ ھ کو عمل میں آئی تھی۔ اور نشانہ بنو بکر بن کلاب کی ایک شاخ تھی۔ مسلمانوں نے چھاپہ مارا تو دشمن کے سارے افراد بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے چوپائے اور بکریاں ہانک لیں۔ اور محرم میں ایک دن باقی تھا کہ مدینہ آگئے۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو بھی گرفتار کر لائے تھے۔ وہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبیﷺ کو قتل کرنے نکلے تھے۔1لیکن مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اور مدینہ لاکر مسجد نبوی کے ایک کھمبے سے باندھ دیا۔نبیﷺ تشریف لائے تو دریافت فرمایا : ثمامہ! تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اے محمد ! میرے نزدیک خیر ہے۔ اگر تم قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے۔ اور اگراحسان کروتو ایک قدردان پر احسان کرو گے۔ اور اگر مال چاہتے ہوتو جو چاہومانگ لو۔ اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسی حال میں چھوڑ دیا۔ پھر آپ دوبارہ گذرے تو پھر وہی سوال کیا۔ اور ثمامہ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس کے بعد آپﷺ تیسری بار گذرے۔ تو پھر وہی سوال وجواب ہوا۔ اس کے بعد آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو آزاد کردو۔ انہوں نے آزاد کردیا۔ ثمامہ مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے۔ غسل کیا اور آپﷺ کے پاس واپس آکر مشرف باسلام ہوگئے۔ پھرکہا :اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھا ، لیکن اب آپﷺ کا چہرہ دوسرے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے۔ اور اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی دین میرے نزدیک آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ مگر اب آپ کا دین دوسرے تمام ادیان سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے۔ اور آپ کے سواروں نے مجھے اس حالت میں گرفتار کیا تھا کہ میں عمر ہ کا ارادہ کررہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں بشارت دی اور حکم دیا کہ عمرہ کرلیں۔ جب وہ دیارِ قریش میں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ثمامہ ! تم بددین ہوگئے ؟ ثمامہ نے کہا : نہیں ! بلکہ میں محمدﷺ کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہوں۔ اور سنو ! اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ نہیں آسکتا جب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت حلبیہ ۲/۲۹۷
تک کہ رسول اللہﷺ اس کی اجازت نہ دے دیں۔ یمامہ ، اہل ِ مکہ کے لیے کھیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت ثمامہؓ نے وطن واپس جاکر مکہ کے لیے غلہ کی روانگی بند کردی۔ جس سے قریش سخت مشکلات میں پڑ گئے۔ اور رسول اللہﷺ کو قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ ثمامہ کو لکھ دیں کہ وہ غلے کی روانگی بند نہ کریں ، رسول اللہﷺ نے ایسا ہی کیا۔1
۳۔ غزوہ بنو لحیان :
بنو لحیان وہی ہیں جنہوں نے مقام رجیع میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے گھیر کر آٹھ کو قتل کردیا تھا۔ اور دو کو اہل ِ مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ جہاں وہ بے دردی سے قتل کردیئے گئے تھے لیکن چونکہ ان کا علاقہ حجاز کے اندر بہت دور حدودِ مکہ سے قریب واقع تھا ، اور اس وقت مسلمانوں اور قریش واعراب کے درمیان سخت کشاکش برپا تھی، اس لیے رسول اللہﷺ اس علاقے میں بہت اندر گھُس کر ''بڑے دشمن '' کے قریب چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے تھے ، لیکن جب کفار کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ پڑگئی۔ ان کے عزائم کمزور پڑ گئے۔ اور انہوں نے حالات کے سامنے بڑی حد تک گھٹنے ٹیک دیئے تو آپﷺ نے محسوس کیا کہ اب بنو لحیان سے رجیع کے مقتولین کا بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ آپ نے ربیع الاول یا جمادی الاولیٰ ۶ ھ میں دوسو صحابہ کی معیت میں ان کا رُخ کیا۔ مدینے میں حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا جانشین بنایا۔ اور ظاہر کیا کہ آپ ملک شام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ یلغار کرتے ہوئے امج اور عسفان کے درمیان بطن غران نامی ایک وادی میں -جہاں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا تھا - پہنچے اور ان کے لیے رحمت کی دعائیں کیں۔ ادھر بنو لحیان کو آپ کی آمد کی خبر ہوگئی تھی۔ اس لیے وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر نکل بھاگے۔ اور ان کا کوئی آدمی گرفت میں نہ آسکا۔ آپﷺ نے انکی سر زمین میں دوروز قیام فرمایا۔ اس دوران سریے بھی بھیجے ، لیکن بنو لحیان نہ مل سکے۔ اس کے بعد آپﷺ نے عسفان کا قصد کیا۔ اور وہاں سے دس شہسوار کو کراع الغمیم بھیجا تاکہ قریش کو بھی آپ کی آمد کی خبر ہو جائے۔ اس کے بعد آپ کل چودہ دن مدینے سے باہر گزار کر مدینہ واپس آگئے۔
----------------
اس مہم سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ نے پے درپے فوجی مہمات اور سریے روانہ فرمائے۔ ذیل میں ان کا مختصرا ً ذکر کیا جارہا ہے۔
۴۔ سریۂ غمر :
ربیع الاول یا ربیع الآخر ۶ ھ میں حضرت عکاشہ بن محصنؓ کو چالیس افراد کی کمان دے کر مقام غمر کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ بنو اسد کے ایک چشمے کا نام ہے۔ مسلمانوں کی آمد سن کر دشمن بھاگ گئے۔ اور مسلمان ان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۱۱۹ صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۳ وغیرہ ، فتح الباری ۷/۶۸۸
کے دوسو اونٹ مدینہ ہانک لائے۔
۵۔ سرِ یۂ ذو القصہ(۱):
ربیع الاول یا ربیع الآخر ۶ ھ میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کی سربراہی میں دس افراد کا ایک دستہ ذو القصہ کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ مقام بنوثعلبہ کے دیار میں واقع تھا۔ دشمن جس کی تعداد ایک سو تھی کمین گا ہ میں چھپ گیا۔ اور جب صحابہ کرام سو گئے تو اچانک حملہ کرکے انہیں قتل کردیا۔ صرف محمد بن مسلمہؓ بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے اور وہ بھی زخمی ہو کر۔
۶۔ سریۂ ذو القصہ(۲):
محمد بن مسلمہؓ کے رفقاء کی شہادت کے بعد ربیع الآخر۶ھ ہی میں نبیﷺ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو ذوالقصہ کی جانب روانہ فرمایا۔ انہوں نے چالیس افراد کی نفری لے کر مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت گاہ کا رخ کیا۔ اور رات بھر پیدل سفر کر کے علی الصباح بنو ثعلبہ کے دیار میں پہنچتے ہی چھاپہ ماردیا لیکن بنو ثعلبہ اس تیزی سے پہاڑوں میں بھاگے کہ مسلمانوں کی گرفت میں نہ آسکے۔ صرف ایک آدمی پکڑا گیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔ البتہ مویشی اور بکریاں ہاتھ آئیں۔
۷۔ سریۂ جموم :
یہ سریہ زید بن حارثہؓ کے زیرقیادت ربیع الآخر ۶ ھ میں جموم کی جانب روانہ کیا گیا۔ جموم ، مَرّالظّہرَان (موجودہ وادی فاطمہ ) میں بنو سُلیم کے ایک چشمے کانام ہے۔ حضرت زید وہاں پہنچے تو قبیلہ مُزَیْنہ کی ایک عورت جس کا نام حلیمہ تھا گرفت میں آگئی۔ اس نے بنوسلیم کے ایک مقام کا پتہ بتایا جہاں سے بہت مویشی ، بکریاں اور قیدی ہاتھ آئے۔ حضرت زید یہ سب لے کر مدینہ واپس آئے۔ رسول اللہﷺ نے اس مزنی عورت کو آزاد کر کے اس کی شادی کردی۔
۸۔ سریۂ عِیْص:
یہ سریہ ایک سو ستر سواروں پر مشتمل تھا۔ اور اسے بھی حضرت زید بن حارثہؓ کے زیر قیادت جمادی الاولیٰ ۶ھ میںعیص کی جانب روانہ کیا گیا۔ اس مہم میں قریش کے ایک قافلے کا مال ہاتھ آیا جو رسول اللہﷺ کے داماد حضرت ابو العاص کی قیادت میں سفر کررہا تھا۔ ابو العاصؓ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ وہ گرفتار تو نہ ہوسکے لیکن بھاگ کر سیدھے مدینہ پہنچے۔ اور حضرت زینب کی پناہ لے کر ان سے کہا کہ وہ رسول اللہﷺ سے کہہ کر قافلے کا مال واپس دلادیں۔ حضرت زینب نے رسول اللہﷺ کے سامنے یہ بات پیش کی تو آپ نے کسی طرح کا دباؤ ڈالے بغیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اشارہ کیا کہ مال واپس کردیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تھوڑا زیادہ اور چھوٹا بڑ اجو کچھ تھا سب واپس کردیا۔ ابو العاص سارا مال لے کر مکہ پہنچے امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کیں۔ پھر مسلمان ہو کر مدینہ تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ نے پہلے ہی نکاح کی بنیاد پر حضرت زینب کو ان کے حوالہ کردیا ، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔1
آپ نے پہلے ہی نکاح کی بنیاد پر اس لیے حوالہ کردیا تھا کہ اس وقت تک کفار پر مسلمان عورتوں کے حرام کیے جانے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اور ایک حدیث میں یہ جوآیا ہے کہ آپ نے نکاح جدید کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ یا یہ کہ چھ برس کے بعدرخصت کیا تھا تو یہ نہ معنی ً صحیح ہے نہ سنداً۔2بلکہ دونوں لحاظ سے ضعیف ہے اور جو لوگ اسی ضعیف حدیث کے قائل ہیں۔ وہ ایک عجیب متضاد بات کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابو العاص ۸ ھ کے اواخر میںفتح مکہ سے کچھ پہلے مسلمان ہوئے تھے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ۸ ھ کے اوائل میں حضرت زینب کا انتقال ہوگیا تھا۔ حالانکہ اگر یہ دونوں باتیں صحیح مان لی جائیں تو تضاد بالکل واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ابو العاص کے اسلام لانے اور ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے کے وقت حضرت زینب زندہ ہی کہاں تھیں کہ انہیں ان کے پا س نکاح ِ جدید یا نکاح ِ قدیم کی بنیاد پر ابو العاص کے حوالے کیا جاتا۔ ہم نے اس موضوع پر بلوغ المرام کی تعلیق میں بسط سے گفتگو کی گئی ہے۔3
اس کے علاوہ رسول اللہﷺ سے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ حدیبیہ کی صلح فرمالینے کے باوجود قریش کے قافلے پرچھاپہ مارنے کے لیے مسلمانوں کو بھیجیں گے۔ تمام اہلِ سیر کا اتفاق ہے کہ اس صلح کی خلاف ورزی مسلمانوں نے نہیں بلکہ قریش نے کی تھی۔
مشہور صاحب مغازی موسیٰ بن عقبہ کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ واقعہ۷ ھ میں ابو بصیر اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں پیش آیا تھا لیکن یہ نہ حدیث صحیح کے موافق ہے نہ حدیث ضعیف کے۔
۹۔ سر یۂ طرف یا طرق :
یہ سریہ بھی حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں جمادی الآخر ہ ۶ھ میں طرف یا طرق نامی مقام کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ مقام بنو ثعلبہ کے علاقہ میں تھا۔ حضرت زیدؓ کے ساتھ صرف پندرہ آدمی تھے لیکن بدوؤں نے خبر پاتے ہی راہ فرار اختیار کی۔ انہیں خطرہ تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لارہے ہیں۔ حضرت زیدؓ کو چار اونٹ ہاتھ لگے۔ اور وہ چار روز بعد واپس آئے۔
۱۰۔ سریۂ وادی القریٰ:
یہ سریہ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا اور اس کے کمانڈر بھی حضرت زیدؓ ہی تھے۔ وہ رجب ۶ھ میں وادی القری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ، باب الی متی ترد علیہ امرأتہ اذا اسلم بعدہا
2 دونوں حدیثوں پر کلام کے لیے ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی ۲/۱۹۵، ۱۹۶
3 اس سریہ کو ابن حجر نے بھی فتح الباری میں ۶ ھ کے واقعات میں شمار کیا۔ (۷/۴۹۸)
کی جانب روانہ ہوئے۔ مقصد دشمن کی نقل وحرکت کا پتہ لگانا تھا مگر وادی القریٰ کے باشندوں نے ان پر حملہ کر کے نو صحابہ کو شہید کردیا۔ اور صرف تین بچ سکے۔ جن میں ایک خود حضرت زیدؓ تھے۔1
۱۱۔ سریہ ٔخبط:
ا س سریہ کا زمانہ رجب ۸ ھ بتایا جاتا ہے مگر سیاق بتاتا ہے کہ یہ حدیبیہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے تین سو سواروں کی جمعیت روانہ فرمائی۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے۔ قریش کے ایک قافلہ کا پتہ لگانا تھا۔ ہم اس مہم کے دوران سخت بھوک سے دوچار ہوئے۔ یہاں تک کہ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھا نا پڑے۔ اسی لیے اس کا نام جیش خبط پڑ گیا۔ (خبط جھاڑے جانے والے پتوں کو کہتے ہیں۔ ) آخر ایک آدمی نے تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر تین اونٹ ذبح کیے ، لیکن اس کے بعد ابو عبیدہ نے اسے منع کردیا۔ پھر اس کے بعد ہی سمندر نے عنبر نامی ایک مچھلی پھینک دی۔ جس سے ہم آدھے مہینے تک کھاتے رہے۔ اوراس کا تیل بھی لگاتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمارے جسم ہماری طرف پلٹ آئے۔ اور تندرست ہوگئے۔ ابوعبیدہؓ نے اس کی پسلی کا ایک کانٹا لیا۔ اور لشکر کے اندر سب سے لمبے آدمی اور سب سے لمبے اونٹ کو دیکھ کر آدمی کو اس پر سوار کیا۔ اور وہ (سوار ہوکر ) کانٹے کے نیچے سے گزر گیا۔ ہم نے اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے توشہ کے طور پر رکھ لیے اور جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ ایک رزق ہے ، جو اللہ نے تمہارے لیے برآمد کیا تھا۔ اس کا گوشت تمہارے پاس ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ہم نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں کچھ گوشت بھیج دیا۔2واقعہ کی تفصیل ختم ہوئی۔
اوپر جویہ کہا گیا ہے کہ اس واقعے کا سیاق بتا تا ہے کہ یہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان قریش کے کسی قافلے سے تعرض نہیں کرتے تھے۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 رحمۃ للعالمین۲/۲۲۶ ، ا ن سرایا کی تفصیلات رحمۃ للعالمین ، زاد المعاد ۲/۱۲۰ ، ۱۲۱ ، ۱۲۲ اور تلقیح فہوم اہل الاثر کے حواشی ص ۲۸ ، ۲۹ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
2 صحیح بخاری ۲/۶۲۶۶۲۵ صحیح مسلم ۲/۱۴۵، ۱۴۶
غزوہ ٔ بنی المصطلق یا غزوہ ٔ مریْسیع

( ۵ ھ یا ۶ ھ )​
یہ غزوہ جنگی نقطۂ نظر سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے مگر اس حیثیت سے اس کی بڑی اہمیت ہے کہ اس میں چند واقعات ایسے رُونما ہوئے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اضطراب اور ہلچل مچ گئی۔ اور جس کے نتیجے میں ایک طرف منافقین کا پردہ فاش ہو ا۔ تو دوسری طرف ایسے تعزیری قوانین نازل ہوئے جن سے اسلامی معاشرے کو شرف وعظمت اور پاکیزگی کی ایک خاص شکل عطا ہوئی۔ ہم پہلے غزوے کا ذکر کریں گے۔ اس کے بعد واقعات کی تفصیل پیش کریں گے۔
یہ غزوہ --- عام اہل سیر کے بقول شعبان ۵ ھ میں اور ابن اسحاق کے بقول ۶ ھ1میں پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبیﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ سے جنگ کے لیے اپنے قبیلے اور کچھ دوسرے عربوں کو ساتھ لے کر آرہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن حصیب اسلمیؓ کو تحقیق حال کے لیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسی غزوہ سے واپسی میں افک ( حضرت عائشہ ؓ پر جھوٹی تہمت لگائے جانے ) کا واقعہ پیش آیا۔ اور معلوم ہے کہ یہ واقعہ حضرت زینب سے نبیﷺ کی شادی اور مسلمان عورتوں کے لیے پردے کا حکم نازل ہوچکنے کے بعد پیش آیا تھا۔ چونکہ حضرت زینب کی شادی ۵ ھ کے بالکل اخیر میں یعنی ذی قعدہ یا ذی الحجہ ۵ھ میں ہوئی تھی۔ اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ غزوہ شعبان ہی کے مہینے میں پیش آیا تھا، اس لیے یہ ۵ ھ کا شعبان نہیں بلکہ ۶ ھ ہی کا شعبان ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف جو لوگ اس غزوہ کا زمانہ شعبان ۵ ھ بتاتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث افک کے اندر اصحاب ِ افک کے سلسلے میں حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے درمیان سخت کلامی کا ذکر موجود ہے۔ اور معلوم ہے کہ سعد بن معاذؓ ۵ ھ کے اخیر میں غزوہ ٔ بنو قریظہ کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ اس لیے واقعہ افک کے وقت ان کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ - اور یہ غزوہ - ۶ ھ میں نہیں بلکہ ۵ ھ میں پیش آیا۔
اس کا جواب فریق ِ اول نے یہ دیا ہے کہ حدیث افک میں حضرت سعد بن معاذؓ کا ذکرراوی کا وہم ہے۔ کیونکہ یہی حدیث حضرت عائشہ ؓسے ابن اسحاق نے بہ سند زہری عن عبد اللہ بن عتبہ عن عائشہؓ روایت کی ہے تو اس میں سعد بن معاذ کے بجائے اسید بن حضیرؓ کا ذکر ہے۔ چنانچہ امام ابو محمد بن حزم فرماتے ہیں کہ بلا شبہ یہی صحیح ہے۔ اور سعد بن معاذ کا ذکر وہم ہے۔ (دیکھئے: زادا لمعاد ۲/۱۱۵ )
راقم عرض پرداز ہے کہ گو فریق اول کا استدلال خاصا وزن رکھتا ہے۔ (اور اسی لیے ابتدا میں ہمیں بھی اسی سے اتفاق تھا۔ ) لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس استدلال کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ نبیﷺ سے حضرت زینبؓکی شادی ۵ ھ کے اخیر میں ہوئی تھی۔ درانحالیکہ اس پر بعض قرائن کے سوا کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔ جبکہ واقعۂ افک میں اور اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ (متوفی ۵ ھ ) کی موجودگی متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے جنہیں وہم قرار دینا مشکل ہے۔ جبکہ حضرت زینبؓکی شادی کا ۴ ھ کے اواخر یا ۵ ھ کے اوائل میں ہونا بھی مذکور ہے۔ اس لیے واقعہ افک -اور غزوہ بنی المصطلق - شعبان ۵ ھ میں پیش آنا عین ممکن ہے۔
روانہ فرمایا۔ انہوں نے اس قبیلے میں جاکر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی۔ اور واپس آکر رسول اللہﷺ کو حالات سے باخبر کیا۔
جب آپﷺ کو خبر کی صحت کا اچھی طرح یقین آگیا تو آپﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور بہت جلد روانہ ہوگئے۔ روانگی ۲/شعبان کوہوئی۔ اس غزوے میں آپ کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت تھی۔ جو اس سے پہلے کسی غزوے میں نہیں گئی تھی۔ آپ نے مدینہ کا انتظام حضرت زید بن حارثہ کو (اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو ذر کو ، اور کہا جاتا ہے کہ نمیلہ بن عبد اللہ لیثی کو ) سونپا تھا۔ حارث بن ابی ضرار نے اسلامی لشکرکی خبر لانے کے لیے ایک جاسوس بھیجا تھا ، لیکن مسلمانوں نے اسے گرفتار کرکے قتل کردیا۔
جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے رفقاء کو رسول اللہﷺ کی روانگی اور اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے۔ اور جو عرب ان کے ساتھ تھے ، وہ سب بکھر گئے۔ رسول اللہﷺ چشمۂ مریسیع1 تک پہنچے تو بنو مصطلق آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے بھی صف بندی کر لی۔ پورے اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت ابو بکرؓ تھے اور خاص انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا کچھ دیر فریقین میں تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ کے حکم سے صحابہ کرام نے یکبارگی حملہ کیا۔ اور فتح یاب ہوگئے ، مشرکین نے شکست کھائی۔ کچھ مارے گئے۔ عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا گیا۔ مویشی اور بکریاں بھی ہاتھ آئیں۔ مسلمان کا صرف ایک آدمی ماراگیا۔ اسے ایک انصار ی نے دشمن کا آدمی سمجھ کر مار دیا تھا۔
اس غزوے کے متعلق اہل سیر کا بیان یہی ہے ، لیکن علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ وہم ہے۔ کیونکہ اس غزوے میں لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ آپ نے چشمے کے پاس ان پر چھاپہ مار کر عورتوں بچوں اور مال مویشی پر قبضہ کر لیاتھا۔ جیسا کہ صحیح کے اندر ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنو المصطلق پر چھاپہ مار ااور وہ غافل تھے۔ الیٰ آخر الحدیث۔2
قیدیوں میں حضرت جویریہ ؓ بھی تھیں۔ جو بنو المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرارکی بیٹی تھیں۔ وہ ثابت بن قَیس کے حصے میں آئیں۔ ثابت نے انہیں مکاتب3بنا لیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے ان سے شادی کرلی۔ اس شادی کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے۔ آزاد کردیا۔ کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرال کے لوگ ہیں۔4
یہ ہے اس غزوے کی روداد۔ باقی رہے وہ واقعات جو اس غزوے میں پیش آئے توچونکہ ان کی بنیاد عبد اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مریْسیع۔ م کو پیش۔ اور ر کو زبر ، قدید کے اطراف میں ساحل سمندر کے قریب بنو مصطلق کے ایک چشمے کا نام تھا۔
2 دیکھئے: صحیح بخاری کتاب العتق ۱/۳۴۵ فتح الباری ۵/۲۰۲ ، ۷/۴۳۱
3 مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کر کے آزاد ہوجائیگا۔
4 زادالمعاد ۲/۱۱۲، ۱۱۳ ابن ہشام ۲۸۹، ۲۹۰ ، ۲۹۴ ، ۲۹۵
بن ابی رئیس المنافقین اور اس کے رفقاء تھے ، اس لیے بیجانہ ہوگا کہ پہلے اسلامی معاشرے کے اندر ان کے کردار اوررویّے کی ایک جھلک پیش کردی جائے۔ اور بعد میں واقعات کی تفصیل دی جائے۔
غزوہ بنی المصطلق سے پہلے منافقین کا رویہ:
ہم کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کو اسلام اور مسلمانوںسے عموماً اور رسول اللہﷺ سے خصوصاً بڑی کَدْ تھی۔ کیونکہ اوس وخزرج اس کی قیادت پر متفق ہوچکے تھے۔ اور اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج بنایا جارہا تھا کہ اتنے میں مدینہ کے اندر اسلام کی شعائیں پہنچ گئیں۔ اور لوگوں کی توجہ ابن ابی سے ہٹ گئی ، اس لیے اسے احساس تھا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
ا س کی یہ کَدْ اور جَلن ابتدائے ہجرت ہی سے واضح تھی جبکہ ابھی اس نے اسلام کااظہار بھی نہیں کیا تھا۔ پھر اسلام کا اظہار کرنے کے بعدبھی اس کی یہی روش رہی۔ چنانچہ اس کے اظہار اسلام سے پہلے ایک بار رسولﷺ گدھے پر سوار حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک مجلس سے گزر ہوا جس میں عبد اللہ بن اُبی بھی تھا۔ اس نے اپنی ناک ڈھک لی اور بو لا : ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر جب رسول اللہﷺ نے اہل مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا : آپ اپنے گھر میں بیٹھئے۔ ہماری مجلس میں ہمیں نہ گھیریے۔1
یہ اظہار ِ اسلام سے پہلے کی بات ہے ، لیکن جنگِ بدر کے بعد جب اس نے ہوا کا رُخ دیکھ کر اسلام کا اظہار کیا تب بھی وہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کا دشمن ہی رہا۔ اور اسلامی معاشرے میں انتشار برپا کرنے اور اسلام کی آواز کمزور کرنے کی مسلسل تدبیریں سوچتا رہا۔ وہ اعدائے اسلام سے بڑا مخلصانہ ربط رکھتا تھا، چنانچہ بنو قینقاع کے معاملے میں نہایت نامعقول طریقے سے دخل انداز ہوا تھا۔(جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے ) اسی طرح اس نے غزوۂ اُحد میں بھی شر ، بدعہدی مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی وانتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ (اس کا بھی ذکر گزر چکا ہے )
اس منافق کے مکر وفریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہﷺ خطبہ دینے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا:لوگو!یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ نے ان کے ذریعے تمہیں عزت واحترام بخشا ہے ، لہٰذا ان کی مدد کرو ، انہیں قوت پہنچاؤ اور ان کی بات سنو اور مانو۔ اس کے بعد بیٹھ جاتا۔ اور رسول اللہﷺ اُٹھ کر خطبہ دیتے۔ پھر اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب جنگِ اُحد کے بعد پہلا جمعہ آیا کیونکہ -یہ شخص اس جنگ میں اپنی بدترین دغابازی کے باوجود خطبہ سے پہلے - پھر کھڑا ہوگیا اور وہی باتیں دہرانی شروع کیں جو اس سے پہلے کہا کرتا تھا ، لیکن اب کی بار مسلمانوں نے مختلف اطراف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۵۸۴ ، ۵۸۷ صحیح بخاری ۲/۹۲۴ صحیح مسلم ۲/۱۰۹
سے ا س کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا : او اللہ کے دشمن ! بیٹھ جا۔ تو نے جو جوحرکتیں کی ہیں اس کے بعد اب تو ا س لائق نہیں رہ گیا ہے۔ اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا کہ میں ان صاحب کی تائید کے لیے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی مجرمانہ بات کہہ دی۔ اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا : تیری بربادی ہو۔ واپس چل ! رسول اللہﷺ تیرے لیے دعائے مغفرت کردیں گے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتاکہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں۔1
علاوہ ازیں ابن اُبی ّ نے بنونضیر سے بھی رابطہ قائم کررکھا تھا۔ اور ان سے مل کر مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشیں کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ابن اُبی ّ اور اس کے رفقاء نے جنگ ِ خندق میں مسلمانوں کے اندر اضطراب اور کھلبلی مچانے اور انہیں مرعوب ودہشت زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے تھے۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کی حسب ذیل آیات میں کیا ہے:
وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِ‌بَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْ‌جِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَ‌ةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَ‌ةٍ ۖ إِن يُرِ‌يدُونَ إِلَّا فِرَ‌ارً‌ا ﴿١٣﴾ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِ‌هَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرً‌ا ﴿١٤﴾ وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّـهَ مِن قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ‌ ۚ وَكَانَ عَهْدُ اللَّـهِ مَسْئُولًا ﴿١٥﴾ قُل لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَ‌ارُ‌ إِن فَرَ‌رْ‌تُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٦﴾ قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّـهِ إِنْ أَرَ‌ادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَ‌ادَ بِكُمْ رَ‌حْمَةً ۚ وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿١٧﴾ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٨﴾ أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَ‌أَيْتَهُمْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَيْكَ تَدُورُ‌ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ‌ ۚ أُولَـٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّـهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرً‌ا ﴿١٩﴾ يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَ‌ابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢٠﴾ (۳۳: ۱۲تا ۲۰)
''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوںمیں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا تھا وہ محض فریب تھا۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ کہہ رہا تھا کہ اے یثرب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۰۵
والو ! اب تمہارے لیے ٹھہرنے کی گنجائش نہیں لہٰذا پلٹ چلو۔ اور ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی سے اجازت طلب کررہا تھا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ( یعنی ان کی حفاظت کا انتظام نہیں ) حالانکہ وہ کھلے پڑ ے نہ تھے۔ یہ لوگ محض بھاگنا چاہتے تھے۔ اور اگر شہر کے اطراف سے ان پر دھاوا بول دیا گیا ہوتا۔ اور ان سے فتنے (میں شرکت ) کا سوال کیا گیا ہو تا تو یہ اس میں جاپڑتے۔ اور بمشکل ہی کچھ رکتے۔ انہوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پُرس ہو کر رہنی ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم موت یا قتل سے بھاگوگے تو یہ بھگدڑ تمہیں نفع نہ دے گی۔ اور ایسی صورت میں تمتع کا تھوڑا ہی موقع دیا جائے گا۔ آپ کہہ دیں کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچاسکتا ہے اگر وہ تمہارے لیے برا ارادہ کرے یا تم پر مہربانی کرنا چاہے۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو حامی ومدد گار نہیں پائیں گے۔ اللہ تم میں سے ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو روڑے اٹکاتے ہیں۔ اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آؤ۔ اور جو لڑائی میں محض تھوڑا سا حصہ لیتے ہیں۔ جو تمہارا ساتھ دینے میں انتہائی بخیل ہیں۔ جب خطرہ آپڑے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دے دے پھر اپھرا کر دیکھتے ہیں جیسے مرنے والے پر موت طاری ہورہی ہے۔ اور جب خطرہ ٹل جائے تو مال ودولت کی حِرص میں تمہار ااستقبال تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی زبانوں سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت ایمان ہی نہیں لائے ہیں۔ اس لیے اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے۔ اور اللہ پر یہ بات آسان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ (پھرپلٹ کر ) آجائیں تو یہ چاہیں گے کہ بدوؤں کے درمیان بیٹھے تمہاری خبر پوچھتے رہیں۔اور اگر یہ تمہارے درمیان رہیں بھی تو کم ہی لڑائی میں حصہ لیں گے۔''
ان آیا ت میں موقع کی مناسبت سے منافقین کے انداز ِ فکر ، طرز عمل ، نفسیات اور خود غرضی وموقع پرستی کا ایک جامع نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔
ان سب کے باوجود یہود ، منافقین اور مشرکین غرض سارے ہی اعدائے اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اسلام کے غلبے کا سبب مادّی تفوُّق ،اور اسلحے لشکر اور تعداد کی کثرت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سبب وہ اللہ پر ستی اور اخلاقی قدریں ہیں جن سے پورا اسلامی معاشرہ اور دین ِ اسلام سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سرفراز وبہرہ مند ہے۔ ان اعدائے اسلام کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس فیض کا سر چشمہ رسول اللہﷺ کی ذات گرامی ہے ، جو ان اخلاقی قدروں کا معجزے کی حد تک سب سے بلند نمونہ ہے۔
اسی طرح یہ اعدائے اسلام چار پانچ سال تک برسرِ پیکار رہ کر یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس دین اور اس کے حاملین کو ہتھیار وں کے بل پر نیست و نابود کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے انہوں نے غالبا ًیہ طے کیا کہ اخلاقی پہلو کو بنیاد بنا کراس دین کے خلاف وسیع پیمانے پر پر وپیگنڈے کی جنگ چھیڑ دی جائے۔ اور اس کا پہلا نشانہ خاص رسول اللہﷺ کی شخصیت کو بنایا جائے چونکہ منافقین مسلمانوں کی صف میں پانچواں کالم تھے۔ اور مدینہ ہی کے اندر رہتے تھے۔ مسلمانوں سے بلا تردُّد مل جل سکتے تھے۔ اور ان کے احساسات کو کسی بھی ''مناسب ''موقع پر بآسانی بھڑ کا سکتے تھے۔ اس لیے اس پروپیگنڈے کی ذمہ داری ان منافقین نے اپنے سر لی ، یا ان کے سر ڈالی گئی اور عبد اللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین نے اس کی قیادت کا بیڑ ااٹھایا۔
ان کا پروگرام اس وقت ذرا زیادہ کھل کر سامنے آیا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت زینب کو طلاق دی۔ اور نبیﷺ نے ان سے شادی کی۔ چونکہ عرب کا دستور یہ چلا آرہا تھا کہ وہ مُتَبَنّیٰ (منہ بولے بیٹے ) کو اپنے حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے۔ اور اس کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے ، اس لیے جب نبیﷺ نے حضرت زینب سے شادی کی تو منافقین کو نبیﷺ کے خلاف شور وشغب برپا کرنے کے لیے اپنی دانست میں دو کمزور پہلو ہاتھ آئے۔
ایک یہ کہ حضرت زینب آپﷺ کی پانچویںبیوی تھیں۔ جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس لیے یہ شادی کیونکر درست ہوسکتی ہے ؟
دوسرے یہ کہ زینب آپﷺ کے بیٹے -یعنی منہ بولے بیٹے - کی بیوی تھیں۔ اس لیے عرب دستور کے مطابق ان سے شادی کر نا نہایت سنگین جرم اور زبردست گناہ تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اور طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے۔ کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ محمد نے زینب کو اچانک دیکھا اور ان کے حسن سے اس قدر متأثر ہوئے کہ نقد دل دے بیٹھے۔ اور جب ان کے صاحبزادے زید کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے زینب کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خالی کردیا۔
منافقین نے اس افسانے کا اتنی قوت سے پروپیگنڈہ کیا کہ اس کے اثرات کتب احادیث وتفاسیر میں اب تک چلے آرہے ہیں۔ اس وقت یہ سارا پروپیگنڈہ کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے اندر اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ بالآخر قرآن مجید میں اس کی بابت واضح آیات نازل ہوئیں۔ جن کے اندر شکوک ِ پنہاں کی بیماری کا پورا پورا علاج تھا۔ اس پر وپیگنڈے کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سورۂ احزاب کا آغاز ہی اس آیت کریمہ سے ہوا۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾ (۳۳: ۱)
''اے نبی ، اللہ سے ڈرو۔ اور کافرین ومنافقین سے نہ دبو۔ بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔''
یہ منافقین کی حرکتوں اور کارروائیوں کی طرف ایک طائرانہ اشارہ اور ان کاایک مختصر ساخاکہ ہے۔ نبیﷺ یہ ساری حرکتیں صبر ، نرمی اور تلطف کے ساتھ برداشت کررہے تھے۔ اور عام مسلمان بھی ان کے شر سے دامن بچا کر صبر و برداشت کے ساتھ رہ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ منافقین قدرت کی طرف سے رہ رہ کر رسواکیے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
أَوَلَا يَرَ‌وْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّ‌ةً أَوْ مَرَّ‌تَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ (۹: ۱۲۶)
''وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال ایک بار یادو بار فتنے میں ڈالاجاتا ہے، پھروہ نہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔''
غزوۂ بنوالمصطلق میں منافقین کا کردار
جب غزوہ بنی المصطلق پیش آیا۔ اور منافقین بھی اس میں شریک ہوئے، تو انہوں نے ٹھیک وہی کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
لَوْ خَرَ‌جُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۹: ۴۷)
''اگر وہ تمہارے اندر نکلتے تو تمہیں مزید فساد ہی سے دوچار کرتے اور فتنے کی تلاش میں تمہارے اندر تگ ودو کرتے۔''
چنانچہ اس غزوے میں انہیں بھڑاس نکالنے کے دو مواقع ہاتھ آئے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں خاصا اضطراب وانتشار مچایا۔ اور نبیﷺ کے خلاف بدترین پر وپیگنڈہ کیا۔ ان دونوں مواقع کی کسی قدر تفصیلات یہ ہیں :
۱۔ مدینہ سے ذلیل ترین آدمی کو نکالنے کی بات :
رسول اللہﷺ غزوہ بنی المصطلق سے فارغ ہوکر ابھی چشمہ مُریسیع پر قیام فرماہی تھے کہ کچھ لوگ پانی لینے گئے ان ہی میں حضرت عمر بن خطابؓ کا ایک مزدور بھی تھا۔ جس کا نام جَہْجَاہ غِفاری تھا۔ پانی پر ایک اور شخص سنان بن وبرجُہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئی۔ اور دونوں لڑپڑے۔ پھر جُہنی نے پکارا : یا معشر الانصار (انصار کے لوگو! مدد کو پہنچو ) اور جہجاہ نے آوازدی : یامعشر المہاجرین (مہاجرین ! مدد کو آؤ!) رسول اللہﷺ (خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے۔ اور )فرمایا: میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ؟ اسے چھوڑو، یہ بدبودار ہے۔
اس واقعے کی خبر عبد اللہ بن ابی بن سَلُول کو ہوئی تو غصے سے بھڑک اٹھا۔ اور بولا: کیا ان لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ یہ ہمارے علاقے میں آکر اب ہمارے ہی حریف اور مدّ ِ مقابل ہوگئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہماری اور ان کی حالت پر تو وہی مثل صادق آتی ہے ، جو پہلوں نے کہی ہے کہ اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں کو پھاڑ کھائے۔ سنو ! اللہ کی قسم ! اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں کا معزز ترین آدمی ، ذلیل ترین آدمی کونکال باہر کرے گا۔ پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولا: یہ مصیبت تم نے خود مول لی ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا۔ اور اپنے اموال بانٹ کر دیئے۔ دیکھو ! تمہارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اگر اسے دینا بند کر دو تو یہ تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلتے بنیں گے۔
اس وقت مجلس میں ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی۔ ان کے چچا نے رسول اللہﷺ کو اطلاع دی۔ اس وقت حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ بولے : حضور عباد بن بِشر سے کہئے کہ اسے قتل کردیں۔ آپ نے فرمایا : عمر ! یہ کیسے مناسب رہے گا لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کررہا ہے ؟ نہیں بلکہ تم کوچ کا اعلان کردو۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لوگ چل پڑے تو حضرت اُسید بن حُضَیرؓ حاضر خدمت ہوئے۔ اور سلام کر کے عرض کیا کہ آج آپ نے ناوقت کوچ فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے صاحب (یعنی ابن اُبیّ) نے جو کچھ کہا ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس کا خیال ہے کہ وہ مدینہ واپس ہوا تو معززترین آدمی ذلیل ترین آدمی کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اگر چاہیں تو اسے مدینے سے نکال باہر کریں۔ اللہ کی قسم! وہ ذلیل ہے اور آپ باعزت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے ساتھ نرمی برتئے۔ کیونکہ واللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے پا س اس وقت لے آیا جب اس کی قوم اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج تیار کررہی تھی۔ اس لیے اب وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
پھر آپ شام تک پورا دن اور صبح تک پوری رات چلتے رہے بلکہ اگلے دن کے ابتدائی اوقات میں اتنی دیر تک سفر جاری رکھا کہ دھوپ سے تکلیف ہونے لگی۔ اس کے بعد اتر کر پڑاؤ ڈالا گیا تو لوگ زمین پر جسم رکھتے ہی بے خبر ہوگئے۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو سکون سے بیٹھ کر گپ لڑانے کا موقع نہ ملے۔
ادھر عبداللہ بن ابی کو جب پتہ چلا کہ زید بن ارقم نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ اس نے جوبات آپ کو بتائی ہے وہ بات میں نے نہیں کہی ہے۔ اور نہ اسے زبان پر لے آیا ہوں۔ اس وقت وہاں انصار کے جو لوگ موجود تھے انہوں نے بھی کہا: یارسول اللہ ! ابھی وہ لڑکا ہے۔ ممکن ہے اسے وہم ہوگیا ہو۔ اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا اسے ٹھیک ٹھیک یاد نہ رکھ سکا ہو۔ اس لیے آپ نے ابن ابی کی با ت سچ مان لی۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ اس پر مجھے ایسا غم لاحق ہوا کہ ویسے غم سے میں کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں صدمے سے اپنے گھر میں بیٹھ رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ منافقین نازل فرمائی۔ جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں۔
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا (۶۳: ۷)
''یہ منافقین وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جولوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ چلتے بنیں ''
يَقُولُونَ لَئِن رَّ‌جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ‌جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (۶۳: ۸)
''یہ منافقین کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو اس سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔''
حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد ) رسول اللہﷺ نے مجھے بلوایا۔ اور یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ، پھر فرمایا : اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔ 1
اس منافق کے صاحبزادے جن کا نام عبد اللہ ہی تھا ، اس کے بالکل برعکس نہایت نیک طینت انسان اور خیارِ صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سے برأت اختیار کرلی۔ اور مدینہ کے دروازے پر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے۔ جب ان کا باپ عبد اللہ بن اُبیّ وہاں پہنچاتو اس سے بولے : اللہ کی قسم! آپ یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ اجازت دے دیں۔ کیونکہ حضور عزیز ہیں اور آپ ذلیل ہیں۔ اس کے بعد جب نبیﷺ وہاں تشریف لائے تو آپ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور تب صاحبزادے نے باپ کا راستہ چھو ڑا۔ عبداللہ بن اُبی کے ان ہی صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے آپ سے یہ بھی عرض کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے فرمایئے اللہ کی قسم میں اس کا سر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا۔2
۲۔ واقعہ ٔ افک :
اس غزوے کا دوسرا اہم واقعہ اِفک کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے۔ جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔ اس غزوہ میں قرعہ حضرت عائشہ ؓکے نام نکلا ، اور آپﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ اپنی حاجت کے لیے گئیں۔ اور اپنی بہن کا ہار جسے عاریتاً لے گئی تھیں کھو بیٹھیں۔ احساس ہوتے ہی فورا ً اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہو ا تھا۔ اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کا ہَودَج اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا آپ ہودج کے اندر تشریف فرما ہیں۔ اس لیے اسے اونٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح بخاری ۱/۴۹۹ ، ۲/۲۲۷، ۲۲۸، ۲۲۹ صحیح مسلم حدیث نمبر ۳۵۸۴ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۳۱۲،ابن ہشام ۲/۲۹۰ ، ۲۹۱ ، ۲۹۲
2 ابن ہشام ایضا ، مختصر السیرہ للشیخ عبدا للہ ص ۲۷۷
پر لاددیا ، اور ہودج کے ہلکے پن پر نہ چونکے۔ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ ابھی نو عمر تھیں۔ بد ن موٹا اور بوجھل نہ تھا نیز چو نکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھا اس لیے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا۔ اگر صرف ایک یا دو آدمی اٹھا تے تو انہیں ضرور محسوس ہوجاتا۔
بہرحال حضرت عائشہ ؓہار ڈھونڈ ھ کر قیام گا ہ پہنچیں تو پورا لشکر جاچکا تھا۔ اور میدان بالکل خالی پڑا تھا۔ نہ کوئی پکارنے والا تھا نہ جواب دینے والا۔ وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ لوگ انہیں نہ پائیں گے تو پلٹ کر وہیں تلاش کرنے آئیں گے ، لیکن اللہ اپنے امر پر غالب ہے۔ وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓکی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں۔ پھر صفوان بن معطلؓ کی یہ آواز سن کر بیدار ہوئیں کہ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون رسول اللہﷺ کی بیوی ... ؟ صفوان لشکر کے پچھلے حصے میں سوئے ہوئے تھے۔ ان کی عادت بھی زیادہ سونے کی تھی۔ انہوں نے جب حضرت عائشہ ؓ کودیکھا تو پہچان لیا۔ کیونکہ وہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی انہیں دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے انا للہ پڑھی اور اپنی سواری بٹھا کر حضرت عائشہ ؓکے قریب کردی۔ حضرت عائشہؓ اس پر سوار ہوگئیں۔ حضرت صفوان نے انا للہ کے سوا زبان سے ایک لفظ نہ نکالا۔ چُپ چاپ سواری کی نکیل تھامی اور پیدل چلتے ہوئے لشکر میں آگئے۔ یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا ، اور لشکر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔
انہیں اس کیفیت کے ساتھ آتا دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز پر تبصرہ کیا۔ اور اللہ کے دشمن خبیث عبد اللہ بن اُبی کو بھڑاس نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا۔ یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا ، تہمت کے خاکے میں رنگ بھرنا ، اور اسے پھیلانا بڑھانا اور اُدھیڑ نا اور بُننا شروع کیا۔ اس کے ساتھی بھی اسی بات کو بنیاد بناکر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔ اور جب مدینہ آئے تو ان تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈہ کیا۔ ادھر رسول اللہﷺ خاموش تھے۔ کچھ بول نہیں رہے تھے لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپ نے حضرت عائشہؓ سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت علیؓ نے صراحت کیے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کرکے کسی اور سے شادی کرلیں ، لیکن حضرت اسامہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپ انہیں اپنی زوجیت میں برقرار رکھیں اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں۔ اس کے بعد آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر عبد اللہ بن اُبی کی ایذا رسانیوں سے نجات دلانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس پر حضرت اُسید بن حضیرؓ نے رغبت ظاہر کی کہ اسے قتل کردیں ، لیکن حضرت سعد بن عبادہ پر جو عبد اللہ بن ابی کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے ، قبائلی حمیت غالب آگئی۔ اور دونوں حضرات میں ترش کلامی ہوگئی ، جس کے نتیجے میں دونوں قبیلے بھڑک اٹھے۔ رسول اللہﷺ نے خاصی مشکل سے انہیں خاموش کیا ، پھر خود بھی خاموش ہوگئے۔
ادھر حضرت عائشہ ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمار پڑگئیں۔ اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں۔ انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسول اللہﷺ کی طرف سے جو لطف وعنایت ہوا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک را ت اُم مسطح کے ہمراہ قضائے حاجت کے لیے میدان میں گئیں۔ اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بددعا دی۔ حضرت عائشہؓ نے اس حرکت پر انہیں ٹوکا تو انہوں نے حضرت عائشہؓکو یہ بتلانے کے لیے کہ میرا بیٹا بھی پروپیگنڈے کے جرم میں شریک ہے۔ تہمت کا واقعہ کہہ سنا یا۔ حضر ت عائشہؓ نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگانے کی غرض سے رسول اللہﷺ سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی پھر اجازت پاکر والدین کے پاس تشریف لے گئیں اور صورتِ حال کا یقینی طور پر علم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں۔ اور پھر دو رات اور ایک دن روتے روتے گزر گیا۔ اس دوران نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسو کی جھڑی رکی۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہوجائے گا۔ اسی حالت میں رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ کلمہ ٔ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھا۔ اور امّا بعد کہہ کر فرمایا: اے عائشہ ! مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کا پتہ لگا ہے۔ اگر تم اس سے بَری ہوتو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہاری براء ت ظاہر فرمادے گا۔ اور اگر خدانخواستہ تم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگو اور توبہ کرو ، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔
اس وقت حضرت عائشہؓکے آنسو ایک دم تھم گئے۔ اور اب انہیں آنسو کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہورہا تھا۔ انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ آپ کو جواب دیں ، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے خود ہی کہا : واللہ ! میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی ہے۔ اور آپ لوگوں نے اسے بالکل سچ سمجھ لیا ہے اس لیے اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں - اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں - تو آپ لوگ میری بات سچ نہ سمجھیں گے۔ اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کرلوں - حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں - تو آپ لوگ صحیح مان لیں گے۔ ایسی صورت میں واللہ میرے لیے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثل ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا کہ :
فَصَبْرٌ‌ جَمِيلٌ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾ (۱۲: ۱۸)
''صبر ہی بہتر ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کہتے ہواس پر اللہ کی مدد مطلوب ہے۔''
اس کے بعد حضرت عائشہؓ دوسری جانب پلٹ کر لیٹ گئیں۔ اور اسی وقت رسول اللہﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب آپﷺ سے نزول ِ وحی کی شدت وکیفیت ختم ہوئی تو آپ مسکرا رہے تھے۔ اور آپ نے پہلی بات جوفرمائی وہ یہ تھی کہ اے عائشہؓ! اللہ نے تمہیں بری کردیا۔ اس پر (خوشی سے ) ان کی ماں بولیں: (عائشہ !) حضور کی جانب اٹھو (شکریہ ادا کرو)۔ انہوں نے اپنے دامن کی براء ت اور رسول اللہﷺ کی محبت پر اعتماد ووثوق کے سبب قدرے ناز کے انداز میں کہا : واللہ! میں تو ان کی طرف نہ اٹھوں گی۔ اور صرف اللہ کی حمد کروں گی۔
اس موقع پر واقعہ ٔ افک سے متعلق جو آیات اللہ نے نازل فرمائیں وہ سورۂ نور کی دس آیات ہیں جو إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّ‌ا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِ‌ئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَ‌هُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۲۴: ۱۱)سے شروع ہوتی ہیں۔
اس کے بعد تہمت تراشی کے جُرم میں مِسطح بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حَمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم کو اسی اسی کوڑے مارے گئے۔ 1البتہ خبیث عبد اللہ بن ابی کی پیٹھ اس سزا سے بچ گئی۔ حالانکہ تہمت تراشوں میں وہی سرِ فہرست تھا۔ اور اسی نے اس معاملے میں سب سے اہم رول ادا کیا تھا۔ اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پر حدود قائم کردی جاتی ہیں وہ ان کے لیے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اور عبد اللہ بن ابی کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرمادیا تھا ، یا پھر وہی مصلحت کار فرماتھی جس کی وجہ سے اسے قتل نہیں کیا گیا۔ 2
اس طرح ایک مہینے کے بعد مدینہ کی فضا شک وشبہے اور قلق واضطرا ب کے بادلوں سے صاف ہوگئی۔ اور عبد اللہ بن ابی اس طرح رسوا ہو اکہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ کوئی گڑبڑ کرتا تو خود اس کی قوم کے لوگ اسے عتاب کرتے ، اس کی گرفت کرتے اور اسے سخت سُست کہتے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ سے کہا : اے عمر ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو! واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اس دن قتل کردیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس پر بہت سی ناکیں پھڑک اٹھتیں ، لیکن اگر آج انہیں ناکوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔حضرت عمرنے کہا : واللہ! میری خوب سمجھ میں آگیا ہے کہ رسول اللہﷺ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسلامی قانون یہی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کی تہمت لگائے اور ثبوت نہ پیش کرے اسے (یعنی اس تہمت لگانے والے کو ) اسی کوڑے مارے جائیں۔
2 صحیح بخاری ۱/۳۶۴ ، ۲/۶۹۶ ، ۶۹۷، ۶۹۸ ، زاد المعاد۲/۱۱۳، ۱۱۴، ۱۱۵، ابن ہشام ۲/ ۲۹۷ تا ۳۰۷
3 ابن ہشام ۲/۲۹۳
غزوہ ٔ مریْسیع کے بعد کی فوجی مہمات

۱۔ سرِیہ دیار بنی کلب۔ علاقہ دُومۃ الجندل:
یہ سریہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کی قیادت میں شعبان ۶ ھ میں بھیجا گیا۔رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے پگڑی باندھی۔ اورلڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی۔ اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرلینا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے وہاں پہنچ کر تین روز پیہم اسلام کی دعوت دی۔ بالآخر قو م نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے تماضر بنت اصبغ سے شادی کی۔ یہی حضرت عبد الرحمن کے صاحبزادے ابو سلمہ کی ماں ہیں۔اس خاتون کے والد اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ تھے۔
۲۔ سر یہ دیار بنی سعد۔ علاقہ فدک :
یہ سریہ شعبان ۶ ھ میں حضرت علیؓ کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کی ایک جمعیت یہود کو کمک پہنچا نا چاہتی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت علیؓ کو دوسو آدمی دے کر روانہ فرمایا۔ یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے ، آخر ایک جاسوس گرفت میں آیا اور اس نے اقرار کیا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجور کے عوض امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جاسوس نے یہ بھی بتلایا کہ بنو سعد نے کس جگہ جتھ بندی کی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان پر شبخون مار کر پانچ سو اونٹ اور دوہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ البتہ بنو سعد اپنی عورتوں بچوں سمیت بھاگ نکلے ان کا سردار وبر بن علیم تھا۔
۳۔ سریہ وادی القری:
یہ سریہ حضر ت ابو بکر صدیقؓ یا حضرت زید بن حارثہؓ کے زیر قیادت رمضان ۶ ھ میں روانہ کیا گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بنو فزارہ کی ایک شاخ نے دھوکے سے رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ لہٰذا آپﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو روانہ فرمایا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ اس سریہ میں مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا۔ اور چشمے پر دھاوا بول دیا۔ ابو بکر صدیقؓ نے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا۔ تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے۔ ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو عرب کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے تھی۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابو بکر صدیقؓ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے وہ لڑکی مجھے عطاکی ، لیکن میں نے اس کا کپڑا نہ کھولا۔ بعد میں رسول اللہﷺ نے یہ لڑکی حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے مانگ کر مکہ بھیج دی۔ اور اس کے عوض وہاں کے متعدد مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا۔1
ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی۔نبیﷺ کے قتل کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔ اور ا س مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے ، لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے۔
۴۔ سر یہ عرنییّن :
یہ سریہ شوال ۶ ھ میں حضرت کرز بن جابر فہریؓ 2کی قیادت میں روانہ کیا گیا اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا ، لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبیﷺ نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہﷺ کے راعی کو قتل کردیا۔ اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا۔ لہٰذارسول اللہﷺ نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا، اور یہ دعافرمائی کہ : اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ، ان پر راستہ اندھا کردیا۔ چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے۔ آنکھیں داغ دی گئیں۔ اور انھیں حرّہ کے ایک گوشے میں چھوڑ دیا گیا۔ جہاں وہ زمین کریدتے کریدتے اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے 3ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔4
اہل ِ سیر اس کے بعد ایک اور سریہ کا ذکر کرتے ہیں جسے حضرت عَمروبن امیّہ ضمریؓ نے حضرت سلمہ بن ابی سلمہ کی رفاقت میں شوال ۶ ھ میں سرکیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری ابو سفیان کو قتل کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے تھے کیونکہ ابو سفیان نے نبیﷺ کو قتل کرنے کے لیے ایک اعرابی کو مدینہ بھیجا تھا۔ البتہ فریقین میںسے کوئی بھی اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اہل ِ سیر یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی سفر میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح مسلم ۲/۸۹ ، کہا جاتا ہے کہ یہ سریہ ۷ ھ میں پیش آیا۔
2 یہ وہی حضرت کرز بن جابر فہری ہیں جنہوں نے غزوہ بدر سے پہلے غزوہ سفوان میں مدینہ کے چوپایوں پر چھاپہ مارا تھا۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور فتح مکہ کے موقع پر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے۔
3 زاد المعاد ۲/۱۲۲ مع بعض اضافات
4 صحیح بخاری ۲/۶۰۲ وغیرہ۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری نے تین کافروں کو قتل کیا تھا اور حضرت خبیبؓ کی لاش اٹھائی تھی۔حالانکہ حضرت خبیب کی شہادت کا واقعہ رجیع کے چند دن یا چند مہینے بعد کا ہے اور رجیع کا واقعہ صفر ۴ ھ کا ہے، اس لیے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا یہ دونوں دو الگ الگ سفر کے واقعات تھے۔ مگر اہل ِ سیر پر مختلط اور گڈ مڈ ہوگئے۔ اور انہوں نے دونوں کو ایک ہی سفر میں ذکر کردیا ؟ یا یہ کہ واقعتا دونوں واقعے ایک ہی سفر میں پیش آئے لیکن اہلِ سیر سے سنہ کے تعیین میں غلطی ہوگئی۔ اور نہوں نے اسے ۴ ھ کے بجائے ۶ ھ میں ذکر کردیا۔ حضرت علامہ منصور پوریlنے بھی اس واقعے کو جنگی مہم یا سریہ تسلیم کر نے سے انکار کیا ہے۔ واللہ اعلم
یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ ِ احزاب وبنی قریظہ کے بعد پیش آئے۔ ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی۔ صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں۔ لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور ا کڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔
حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت ِ حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوتِ اسلام کوتوڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے۔ یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
بے چینی سے انتظار ہے اللہ تعالی جلد تکمیل فرمائے اور اللہ تعالی آپ کو توفیق عطأٔ ف مائے ٲمین ثم آمین
صلح حدیبیہ

(ذی قعدہ ۶ھ )​
عمرہ ٔ حدیبیہ کا سبب :
جب جزیرہ ٔ نمائے عرب میں حالات بڑی حد تک مسلمانوں کے موافق ہوگئے تو اسلامی دعوت کی کامیابی اور فتح ِ اعظم کے آثار رفتہ رفتہ نمایاں ہونا شروع ہوئے۔ اور مسجدِ حرام میں جس کا دروازہ مشرکین نے مسلمانوں پر چھ بر س سے بند کررکھا تھا مسلمانوں کے لیے عبادت کا حق ِ تسلیم کیے جانے کی تمہیدات شروع ہوگئیں۔
رسول اللہﷺ کو مدینہ کے اندر یہ خواب دکھلایا گیا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی لی۔ اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا۔ پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفاکی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ا س خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی۔ اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپﷺ عمرہ ادا فرمائیں گے۔ لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے۔
مسلمانوں کی روانگی کا اعلان:
آپﷺ نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرمادیا کہ لو گ آپ کے ہمراہ روانہ ہوں ، لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی۔ ادھر آپﷺ نے اپنے کپڑے دھوئے۔ مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم یا نمیلہ لیثی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعد ہ ۶ ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بھی تھیں۔ چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمرکاب تھے۔ آپﷺ نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوااور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیاتھا۔
مکہ کی جانب مسلمانوں کی حرکت:
آپ• کا رُخ مکہ کی جانب تھا۔ ذو الحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی1کو قلادے پہنائے۔ کوہان چیر کر نشان بنایا۔ اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ جنگ نہیں کریں گے۔ آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ہدی ، وہ جانورجسے حج وعمرہ کرنے والے مکہ یامنیٰ میںذبح کرتے ہیں۔ دور جاہلیت میں عرب کا دستور تھا کہ ہَدْی کا جانور اگر بھیڑ بکری ہے تو علامت کے طور پر گلے میں قلادہ ڈال دیا جاتا تھا اور اگر اونٹ ہے توکوہان چیر کر خون پوت دیا جاتا تھا۔ ایسے جانور سے کوئی شخص تعرض نہ کرتا تھا۔ شریعت نے اس دستور کو برقرار رکھا۔
جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے۔ عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش1 (حلیف قبائل ) کو جمع کررکھا ہے۔ اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں۔ اور وہ آپ سے لڑنے اورآپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا : کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمر بستہ ہیں ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں ؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کا ٹ چکا ہوگا۔ یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں۔ اور جو راہ میں حائل ہواس سے لڑائی کریں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہم عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے نبیﷺ نے فرمایا : اچھا تب چلو۔ چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا۔
بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش:
ادھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی۔ اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب احابیش سے کتراکر اپنا سفر جاری رکھاتو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دوسو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیا ر کھڑے ہیں (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے ) خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے۔ ہم نے حملہ کردیا ہوتا تو انھیں مارلیاہوتا۔ اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے ، لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا۔ اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں۔ یہ حبشی -ح کو پیش ، ب ساکن ش کو زیر -پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔ جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے۔ یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا، اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے ، اور حبشی پہاڑاپنی جگہ برقرار ہے ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے۔ ( معجم البلدان ۲/۲۱۴، المنمق ۵ ۷ ۲ )
خونریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی :
ادھر رسول اللہﷺ کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہوکر گزرتا تھا۔ یعنی آپ داہنے جانب کترا کر حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا۔ ثنیۃالمرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں۔ اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا ، اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا وہ بائیں جانب چھوٹ گیا۔ خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیاکہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت ِ حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا ، جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگو ں نے کہا : حل حل ، لیکن وہ بیٹھی ہی رہی۔ لوگوں نے کہا : قصواء اڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا :قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے ، لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کوروک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ، پھر آپ نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا۔ جس میں تھو ڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذراذرا سالے رہے تھے، چنانچہ چند ہی لمحوں میں ساراپانی ختم ہوگیا۔ اب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد واللہ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہوکر واپس ہوگئے۔
بدیل بن ورقاء کا توسط :
رسول اللہﷺ مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا۔ تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ ) رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا۔ بدیل نے کہا : میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑ اؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے۔ اور سخت ضرر پہنچا یا ہے اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں۔ اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں۔ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی۔
اور اگر انہیں لڑائی کے سو ا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذنہ کردے۔
بُدَیل نے کہا : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوںگا۔ اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا۔ اور بولا: میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں میں نے ان سے ایک بات سنی ہے ، اگر چاہو تو پیش کردوں۔ اس پر بیوقوفوں نے کہا:ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو۔لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا : لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ بدیل نے کہا : میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے۔ اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ بد عہد آدمی ہے، چنانچہ جب اس نے آپ کے پاس آکر گفتگوکی تو آپ نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور ا س کے رفقاء سے کہی تھی۔ اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا۔
قریش کے ایلچی :
اس کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا: مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لو گوں نے کہا: جاؤ۔ جب وہ نمودار ہوا تو نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا : سبحان اللہ ! ان لوگوںکو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں۔ اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا۔ اور بو لا : میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلادے ہیں۔ اورجن کی کوہان چیری ہوئی ہیں۔ اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے۔ اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا۔
اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بو لا : اس شخص (محمدﷺ ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذا اسے قبول کرلو۔ اور مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لوگوں نے کہا : جاؤ ! چنانچہ وہ آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اور گفتگو شروع کی۔ نبیﷺ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ نے کہا : اے محمد ! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو۔ اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم! میں ایسے چہرے اور ایسے اوباش لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے کہا: لات کی شرمگاہ کا لٹکتا ہوا چمڑا چوس۔ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے ؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : ابو بکرؓ ہیں۔ اس نے حضرت ابو بکر کو مخاطب کرکے کہا : دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی کہ تم نے مجھ پر ایک احسان کیا تھا اور میں نے اس کا بدلہ نہیں دیا ہے ، تو میں یقینا تمہاری اس بات کا جواب دیتا۔
اس کے بعد عروہ پھر نبیﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب گفتگو کرتا تو آپ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نبیﷺ کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود ، عروہ جب نبیﷺ کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبیﷺ کی داڑھی سے پرے رکھ۔ آخر عروہ نے اپناسر اٹھایا ، اور بولا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ اس پر اس نے کہا: ... او ...بدعہد ... ! کیا میں تیری بدعہدی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ نہیں کررہا ہوں ؟ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ جاہلیت میں حضرت مغیرہ کچھ لوگوں کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں قتل کرکے ان کا مال لے بھاگے تھے۔ اور آکر مسلمان ہوگئے تھے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام تو قبول کرلیتا ہوں ، لیکن مال سے میرا کوئی واسطہ نہیں (اس معاملے میں عروہ کے دوڑدھوپ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مغیرہ اس کے بھتیجے تھے )
اس کے بعد عروہ نبیﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا۔ پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا : اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑپڑیں گے۔ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے۔ اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذااسے قبول کرلو۔
وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے :
جب قریش کے پُر جوش اور جنگ بازنوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جو یا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا۔ اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپا کردیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ پھر انہوں نے اس پروگرام کی تنفیذ کے لیے عملی قدم بھی اٹھا یا۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں ستر یااسیّ نوجوانوں نے جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے کیمپ میں چپکے سے گھسنے کی کوشش کی لیکن اسلامی پہرے داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے ان سب کو گرفتار کر لیا پھر نبیﷺ نے صلح کی خاطر ان سب کو معاف کرتے ہوئے آزاد کر دیا۔ اسی کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا :
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَ‌كُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرً‌ا (۴۸: ۲۴)
''وہی ہے جس نے بطن ِ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے۔ اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے۔ اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے چکا تھا۔''
حضرت عثما نؓ کی سفارت :
اب رسول اللہﷺ نے سوچا کہ ایک سفیر روانہ فرمائیں جو قریش کے سامنے مؤکد طریقے پر آپ کے موجودہ سفر کے مقصد وموقف کی وضاحت کردے۔ اس کام کے لیے آپﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کو بلایا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے اذّیت دی گئی تو مکہ میں بنی کعب کا ایک فرد بھی ایسا نہیں جو میری حمایت میں بگڑ سکتا ہو۔ آپﷺ حضرت عثمان بن عفانؓ کو بھیج دیں۔ ان کا کنبہ قبیلہ مکہ ہی میں ہے۔ وہ آپﷺ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیں گے۔ آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو بلایا۔ اور قریش کے پاس روانگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: انہیں بتلادو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں۔ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ انہیں اسلام کی دعوت بھی دو۔ آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ مکہ میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے پاس جاکر انہیں فتح کی بشارت سنا دیں۔ اور یہ بتلادیں کہ اللہ عزوجل اب اپنے دین کومکہ میں ظاہر وغالب کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایمان کی وجہ سے کسی کو یہاں روپوش ہونے کی ضرورت نہ ہوگی۔
حضرت عثمانؓ آپﷺ کا پیغام لے کر روانہ ہوئے۔ مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گذرے تو انہوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ قریش نے کہا : ہم نے آپ کی بات سن لی۔ آپ اپنے کام پر جایئے۔ ادھر سعید بن عاص نے اُٹھ کر حضرت عثمانؓ کو مرحبا کہا۔ اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا۔ اور ساتھ بٹھا کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا ، وہاں جاکر حضرت عثمانؓ نے سربراہان ِ قریش کو رسول اللہﷺ کا پیغام سنایا۔ اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ مگر آپ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہﷺ کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کر لیں۔
حضرت عثما نؓ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :
حضرت عثمانؓ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے ، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کر کے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمانؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر حضرت عثمانؓ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے۔ سب سے پہلے ابو سنان اسدی نے بیعت کی۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے تین بار بیعت کی۔ شروع میں ، درمیان میں اور اخیر میں۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمانؓ بھی آگئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔ اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا شرکت نہیں کی ، اس کا نام جد بن قیس تھا۔
رسول اللہﷺ نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی۔ حضرت عمرؓ دست مبارک تھا مے ہوئے تھے۔ اور حضرت معقل بن یسارؓ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہﷺ کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں۔ اسی بیعت کا نام بیعت ِ رضوان ہے۔ اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے:
لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ (۴۸: ۱۸)
''اللہ مومنین سے راضی ہوا۔ جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔''
صلح اور دفعات ِ صلح:
بہر حال قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی۔ لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپﷺ ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے۔ ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ نبیﷺ نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا۔ تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا۔ اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں۔ سُہیل نے آپﷺ کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی۔ اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھیں:
رسول اللہﷺ اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے۔ اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے۔ اور تین روز قیام کریں گے۔ ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا۔ میانوں میں تلواریں ہوں گی۔ اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا۔
دس سال تک فریقین جنگ بندرکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔
جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ اور جو قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی۔
قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر - یعنی بھاگ کر- محمد ﷺ کے پاس جائے گا محمدﷺ اسے واپس کردیں گے ، لیکن محمدﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص - پناہ کی غرض سے بھاگ کر - قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں۔ اور یہ املا کرایا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس پر سہیل نے کہا: ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے ؟ آپ یوں لکھئے : باِسْمِک اللہمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ) نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو۔ اس کے بعد آپ نے یہ املا کرایا۔ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ نے مصالحت کی۔ اس پر سہیل نے کہا : اگر ہم جانتے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے ، اور نہ جنگ کرتے ، لیکن آپﷺ محمد بن عبد اللہ لکھوایئے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اگر چہ تم لوگ جھٹلاؤ۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمد بن عبد اللہ لکھیں۔ اور لفظ ''رسول اللہ '' مٹادیں ، لیکن حضرت علیؓ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں۔ لہٰذا نبیﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی۔
پھر جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خُزاعہ رسول اللہﷺ کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔ یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنوہاشم کے حلیف تھے جیسا کہ آغازِ کتاب میں گزرچکا ہے۔ اس لیے اس عہدوپیمان میں داخلہ درحقیقت اسی قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی۔ دوسری طرف بنو بکر قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔
ابو جَندل کی واپسی:
نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جارہاتھا کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آپہنچے۔ وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے۔ انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ سہیل نے کہا : یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں۔ نبیﷺ نے فرمایا : ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے۔ اس نے کہا : تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا۔نبیﷺ نے فرمایا: اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑدو۔ اس نے کہا : میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ نے فرمایا : نہیں نہیں اتنا تو کرہی دو۔ اس نے کہا نہیں میں نہیں کرسکتا۔ پھر سہیل نے ابو جند ل کے چہرے پر چانٹا رسید کیا۔ اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کاگلا پکڑ کر گھسیٹا۔ ابو جندل زور زور سے چیخ کر کہنے لگے : مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو جندل ! صبر کرو۔ اور اسے باعث ِ ثواب سمجھو۔ اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا۔ ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے۔ اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کواس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے۔ اس لیے ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ اچھل کر ابو جندل کے پاس پہنچے۔ وہ ان کے پہلو میں چلتے جارہے تھے اور کہتے جارہے تھے: ابو جندل ! صبر کرو۔ یہ لوگ مشرک ہیں۔ ان کا خون تو بس کتے کا خون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کا دستہ بھی ان کے قریب کرتے جارہے تھے۔حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ مجھے امید تھی کہ وہ تلوار لے کر اپنے باپ (سہیل ) کو اڑادیں گے ، لیکن انہوں نے اپنے باپ کے بارے میں بخل سے کام لیا۔ اور معاہدۂ صلح نافذ ہو گیا۔
عمرہ سے حلال ہونے کے لیے قربانی اور بالوں کی کٹائی:
رسول اللہﷺ معاہدہ ٔ صلح لکھوا کر فارغ ہوچکے تو فرمایا : اٹھو ! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو ، لیکن واللہ کوئی بھی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اُم سلمہ ؓ کے پاس گئے۔ اور لوگوں کے اس پیش آمدہ طرزِ عمل کا ذکر کیا۔ ام المومنین نے کہا : یارسول اللہ! کیا آپﷺ ایسا چاہتے ہیں ؟ تو پھر آپﷺ تشریف لے جایئے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چُپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیجیے۔ اور اپنے حجام کو بلا کر سر منڈا لیجئے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے۔ اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا۔ یعنی اپنا ہَدی کا جانور ذبح کردیا۔ اور حجام بلا کر سرمنڈا لیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے۔ اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ کیفیت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا فرطِ غم کے سبب ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ابو جہل کا ایک اونٹ ذبح کیا۔ جس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین جل بھن کر رہ جائیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے سرمنڈانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا کی۔ اور قینچی سے کٹانے والوں کے لیے ایک بار۔ اسی سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت کعب بن عجرہ کے سلسلے میں یہ حکم بھی نازل فرمایا کہ جو شخص اذّیت کے سبب اپنا سر (حالت احرام میں ) منڈالے وہ روزے یا صدقے یا ذبیحے کی شکل میں فدیہ دے۔
مہاجر ہ عورتوں کی واپسی سے انکار:
اس کے بعد کچھ مومنہ عورتیں آگئیں۔ ان کے اولیاء نے مطالبہ کیا کہ حدیبیہ میں جو صلح مکمل ہوچکی ہے اس کی روسے انہیں واپس کیا جائے ، لیکن آپ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنا پر مسترد کردیا کہ اس دفعہ کے متعلق معاہدے میں جو لفظ لکھاگیا تھا وہ یہ تھا :
(( وعلی أن لا یأتیک منا رجل وإن کان علی دینک إلا رددتہ علینا)) 1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری۱/۳۸۰

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔