مرتبہ عشق اور عقل



تحریر مدثرحسین
عشق کا مقام دیکھ کر عقل ہمیشہ گمراه ہو جاتی ہے لہذا عشق کی بات کو عقل کو کسوٹی سے پرکھنا بیوقوفی اور سراسر اپنا نقصان ہے عشق کی کچھ باتیں ایسی ہیں جو عقل سے ماورا ہیں۔ مثلا جب کسی عاشق کا عشق کمال کو پہنچ جاتا ہے تو عاشق خود معشوق بن جاتا ہے اور یہیں پر عقل آ کر جواب دے جاتی ہے بقول بابا بلہے شاه
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھے کوئی
اور یہی وهنازک مقام اور عشق کا مرتبہ عروج ہے جہاں آ کر ہمیشہ عقل گمراه ہوئی ہے۔
عاشق کی مرتبہ انتہا محبوب ہے اور عاشق ہر صورت میں اس مقام تک پہنچتا ہے  کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے۔ اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:
مرتبہ عشق اصل میں مرتبہ معشوق ہے ۔ عِشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے معشوق کو جس چیز کی خواہش ہو عاشق اسے مہیا کردیتا ہے بلکہ معشوق کے دِل میں جو بھی خیال گزرتا ہے اس کی خبرعاشق کو ہو جاتی ہے اور وہ معشوق کی خواہش کو ایک ہی نگاہ میں پورا کردیتا ہے۔
اقبالؒ اس مقام کے متعلق فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عقل راز کو سمجھ کر اس کا ادراک کرتی ہے۔ جبکہ عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یعنی حقیقت ہستی کا بلاِ واسطہ مشاہدہ کرتا ہے۔
عقل زمان و مکان کی پابند جبکہ عشق زمان و مکاں کی حدود سے نکل کر اُ س عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں حقیقت بے حجاب ہوتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔عقل کی منزل مقصود ہستی مطلق کی معرفت وہ خدا جو ہے لیکن اس کی جستجو ناتمام ہے عشق خدانما ہے جو راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے۔گویا اقبال کے نزدیک عقل اور عشق میں بنیادی تضاد اتنا زیادہ نہیں بلکہ ابتدائی مراحل پر تو عقل کی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مگرعشق جب اپنے مقام کو پہنچتا ہے تو یہی عقل گمراه ہو جاتی ہے۔
عقل میں بہت سی صفات موجود ہیں البتہ اس میں وہ جوش و خروش ، تڑپ ، حرکت اور وہ جرات نہیں جو عشق کا شیوہ ہے۔ عقل اگرچہ آستانِ حقیقت سے دور نہیں لیکن اکیلی اس تک پہنچ نہیں سکتی ۔ بقول اقبال
عقل گو آستا ںسے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
اس لیے میری اہل علم سے گزارش ہے کہ عشق کے مقام و مرتبے عام لوگوں کیلۓ نہیں بلکہ خاص لوگوں کیلۓ ہوتے ہیں اور نہ ہر کوئی عاشق بن سکتا ہے بقول مظفر مورثی صاحب کے کہ
یہ معرفت کے راستے ہیں اہل دل کے واسطے جنیدیوں سے جا کے مل غزالیوں میں بیٹھ جا
اور مقام عشق میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوتیں ہیں جو شریعت کی کتابوں میں درج نہیں ہوتیں بلکہ ان باتوں کا مشاہده عشق خود اپنی آنکھوں سے کرتا ہے اور جب یہ باتیں عقل کو پتا چلتی ہیں تو عقل اس کو علم کی کھوسٹی پر پرکھتی ہے اور پھر علم سے نہ کا جواب پا کر اس کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ بقول اقبال
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں مفسر کتا ب ِ ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
جواب میں دل کہتا ہے کہ،
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو خدا نما ہوں میں
لہذا عشق کی باتیں عشق والوں کیلۓ ہی ہوتیں ہیں اور یہ بات ذہن نشین کر لیجۓ کہ عاشق کا مرتبہ عشق اس کا محبوب ہے یعنی عشق اپنے مرتبہ عروج کو پہنچ کا محبوب کا روپ اختیار کر لیتا ہے اس سلسلے میں ایک واقعہ آپ کو گوش گزارنا چاہوں گا تاکہ آپ عشق کا مقام سمجھ سکیں۔
حضرت بایزید بسطامی رحمة الله علیہ ایک بار وعظ فرما رہے تھے کہ آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ وعظ فرماتے فرماتے کہنے لگے کہ میری ذات پاک ہے میں وحده لاشریک ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں۔ لوگ یہ سن کر حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ آج حضرت کو کیا ہو گیا ہے یہ کسی کفرانہ باتیں کر رہیں۔ حضرت بایزید بسطامی جب اس حالت سے واپس لوٹے اور وعظ ختم کیا تو لوگوں نے آپ سے کہا یا حضرت آپ نے آج ایسے کفرانہ جملے بولے ہیں جنہیں سن کر حضرت بایزید بسطامی فرمانے لگے بیشک یہ کفرانہ جملے ہیں مگر میں نے یہ نہیں کہا۔ وہاں پر موجود سب لوگ نے آپ کی نفی کی تو آپ نے فرمایا آئنده اگر میری زبان سے یہ الفاظ نکلیں تو میرا سر تن سے جدا کر دینا ہے۔ اگلے جمعے پھر آپ جب وعظ فرما رہے تھے تو آپ بے اختیار کہنے لگے کہ میری ذات پاک ہے میرا کوئی شریک نہیں۔ یہ سن کر وہاں بیٹھا ایک شخص اٹھا اور نیام سے تلوار نکال کر آپ پر وار کیا مگر تلوار آپ کے جسم سے اس طرح نکل گئی جیسے تلوار کو آپ پر نہیں بلکہ ہوا میں مارا ہو اس شخص آپ پر بہت وار کیا مگر ہر بار تلوار آپ کے جسم سے آر پار ہو جاتی مگر آپ کو کچھ نقصان نہ کر پاتی تھک ہار کر وه شخص واپس جا کر بیٹھ گیا جب آپ نے وعظ ختم کیا تو لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ آپ نے آج پھر کفرانہ جملے کہے تو آپ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی اور فرمایا تم لوگوں نے مجھے قتل نہیں کیا تو لوگوں نے کہا ھم نے کوشش کی تھی مگر ہر بار تلوار آپ کے جسم سے اس طرح نکل جاتی تھی جیسے آپ کا جسم ہوا ہو۔ تو آپ فرمانے لگے تو یقین جانو اس وقت میں میں نہیں تھا۔ یہی وه بات ہے جو عقل کو گمراه کردیتی ہے اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بھی منسوب ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وه اپنی ہر رات کسی دوسری ام المومنین کے پاس گزارا کرتے تھے ایک بار جب رات گزارنے کی باری ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تھی تو آپ ان کے پاس جانے کی بجاۓ جنت البقیع کی طرف چل دیۓ۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے دل میں تجسس ہوا کہ آج رات آپ کس ام المومنین کے پاس بسر کرنے جا رہے ہیں یہ پتہ کرنے ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا آپ کے پیچھے ہو لیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کسی ام المومنین کے پاس جانے کی بجاۓ سیدھے جنت البقیع میں جا کر بیٹھ گۓ اور حضرت عائشہ صدیقہ بھی وہاں تشریف لے آئیں آپ کی آہٹ سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کون۔۔۔؟
فرمایا "عائشہ"
کون عائشہ۔۔۔؟
صدیق اکبر کی بیٹی عائشہ۔
پوچھا کون "صدیق"
فرمایا محمد صلی الله علیہ وسلم کے غلام صدیق
فرمایا کون محمد۔؟
یہ سن کر حضرت عائشہ رضی الله عنہا واپس پلٹ گئیں اور اگلے دن جب حضورپاک صلی الله علیہ وسلم گھر تشریف لاۓ تو آپ نے سارا واقعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو سنایا جسے سن کو حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عائشہ میرے اور خدا کے درمیان ایک وقت ایسا ہوتا ہے جس میں فرشتوں کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پس رات وہی وقت تھا۔
یہ بات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عاشق کی انتہا مرتبہ معشوق )محبوب( ہے۔

عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے۔
اگر اس تحریر کے مطلق آپ کے ذہن میں کوئی سوال و جوابات ره گۓ ہوں تو بذریعہ کمنٹ مجھے آگاه کر دیجۓ گا انشاءالله میں آپ کی الجھن رفع کرنے کی کوشش کروں گا۔
آپ کا دعاؤں کا طالب
مدثرحسین

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔