ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر آخری قسط

1 comments
اس سے فون پر بات کرنے والی وہی ملازمہ تھی جو سالار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں بھی کام کرتی رہی تھی اور اس نے امامہ کی آواز کو فوراً پہچان لیا تھا۔ امامہ کے فون بند کرتے ہی وہ کچھ اضطراب اور جوش و خروش کے عالم میں سکندر عثمان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے۔
"ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکی کا فون آیا ہے۔۔۔۔۔ وہ سالار صاحب سے بات کرنا چاہتی تھی۔"
"تو تم بات کروا دیتیں۔" سکندر عثمان قدرے لاپروائی سے بولے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سالار بھی ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا اور گھر پر موجود تھا۔ ملازمہ کچھ ہچکچائی۔
"صاحب جی! وہ امامہ بی بی تھیں۔"
سکندرعثمان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹے بچا، وہ یکدم حواس باختہ نظر آنے لگے۔
"امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ ہاشم کی بیٹی؟" ملازمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔
"تو کیا سالار ہر ایک کو بے وقوف بنا رہا ہے وہ ابھی تک امامہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ جانتا ہے وہ کہاں ہے۔ تو پھر یقینا وہ اس سے ملتا بھی رہا ہوگا۔" انہوں نے بے اختیار سوچا۔
"اس نے تمہیں خود اپنا نام بتایا۔؟" انہوں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ میں نے ان کی آواز پہچان لی اور جب میں نے ان کا نام لیا انہوں نے فون بند کردیا۔" ملازمہ نے سکندر عثمان کو بتایا۔ "مگر مجھے یقین ہے وہ ان ہی کی آواز تھی۔ مجھے کم از کم اس بارے میں کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔" اس سے پہلے کہ سکندر عثمان کچھ کہتے انہوں نےفون کی گھنٹی سنی مگر اس بار وہ ڈائننگ روم میں موجود ایکسٹینشن کی طرف بڑھ گئے اور انہوں نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف موجود لڑکی ایک بار پھر سالار سکندر کا پوچھ رہی تھی۔ ان کے استفسار پر اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ امامہ ہاشم ہی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کیوں مگر بے اختیا ران کے دل میں آیا کہ وہ اسے سالار کے مرنے کی خبر دے دیں، تاکہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر فون نہ کرے۔ انہیں اس سے بات کرکے یہ اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ بہت عرصےسے سالار کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکی ہے اور اس کے پاس ان کے بیان کی صداقت کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ وبارہ رابطہ نہ کرتی تو ان کی جان اس سے ہمیشہ چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ابھی تک اس ایک سال کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکے تھے۔ جب امامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سالار پر شبہ ہونے کی وجہ سے ہاشم مبین احمد نے ان کے لئے ہر قسم کی پریشانی کھڑی کی تھی۔
بہت سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ان کی فرم کی فائلز بہت آسانی سے نکل آئی تھیں۔ مہینوں پھنسی رہیں۔ ان کے گھر دھمکی آمیز کالز اور خط آتے رہے۔ کئی لوگوں نے بالواسطہ طور پر ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہاشم مبین احمد کی بیٹی کی واپسی کے لئے ان کی مدد کریں۔ ایک لمبے عرصے تک سالار کی نگرانی کی گئی اور نگرانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں باہر میں بھی جاری رہا۔ مگر جب کسی طرح بھی امامہ سے اس کے رابطے کا کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا تو رفتہ رفتہ یہ تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
سکندر عثمان کی بے پناہ کوشش کے باوجود بھی ہاشم مبین کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہوئے مگر ان کی طرف سے عدم تحفظ کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا اور اب ڈھائی سال بعد وہ لڑکی ایک بار پھر سالار سے رابطہ کرنا چاہتی تھی وہ کسی صورت بھی دوبارہ ان حالات کا سامنا نہ خود کرنا چاہتے تھے نہ ہی سالار کو کرنے دینا چاہتے تھے۔
اگر وہ خود ہاشم مبین احمد کی ٹکر کے آدمی نہ ہوتے تو وہ اب تک اس سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوتے، جتنا نقصان انہوں نے اس ایک سال اور خاص طور پر شروع کے چند ماہ میں اٹھایا تھا۔ وہ امامہ کو اس طلاق نامے کی ایک کاپی بھجوانا چاہتے تھے جو سالار کی طرف سے انہوں نے تیار کیا تھا اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ جائز تھا یا نہیں۔ وہ صرف امامہ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ سالار یا اس کے خاندان کے ساتھ اس کا تعلق ہونا چاہیے نہ ہی ہوگا۔
اگر کچھ تھا بھی تو وہ سالار کی موت اور اس سے پہلے کے تحریر شدہ اس طلاق نامے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا مگر یہ ایک اور اتفاق تھا کہ امامہ نے ان کی بات مکمل طور پر سنے بغیر فون بند کردیا انہوں نے فون کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ملتان کے ای پی سی او کا ثابت ہوا سالار ایک ہفتہ بعد واپس امریکہ جانے والا تھا اور انہوں نے اس ایک ہفتہ اس کی مکمل طور پر نگرانی کروائی۔ وہ ملازموں کو ہدایت دے چکے تھے کہ کسی کا بھی فون آئے وہ کسی بھی صورت سالار سے بات نہ کروائیں، چاہے فون کسی مرد کا ہو یا عورت کا جب تک وہ خود یہ نہ جان لیں کہ فون کرنے والا کون تھا۔ ملازمہ کو بھی وہ سختی کے ساتھ منع کرچکے تھے کہ وہ سالار کو امامہ کی اس کال کے باےر میں نہ بتائے۔ ایک ہفتے کے بعد جب سالار واپس امریکہ چلا گیا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
سر پر آئی ہوئی آفت ایک بار پھر ٹل گئی تھی۔ سالار کی واپسی کے چند ہفتے بعد انہیں ایک لفافہ موصول ہوا تھا۔
امامہ نے لاہور پہنچنے کے بعد وہ موبائل بیچ دیا تھا۔ وہ اسے واپس نہیں بھجوا سکتی تھی اور سالار کی وفات کے بعد اب یہ امکان نہیں تھا کہ کبھی اس کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہ اسے وہ موبائل واپس دے سکے گی۔ اس نے موبائل بیچنے سے ملنے والی رقم کے ساتھ اپنے پاس موجود کچھ اور رقم شامل کی۔ وہ اندازاً ان کالز کے بل کی رقم تھی جو ڈھائی تین سال پہلے سالار نے ادا کئے ہوں گے اور چند دوسرے اخراجات جو اپنے گھر قید کے دوران اور وہاں سے لاہور فرار کے دوران سالار نے اس پر کئے تھے۔ اس کے ساتھ سکندر عثمان کے نام ایک مختصر نوٹ بھجوایا۔ ٹریولرز چیکس۔ اس کے سر پر موجود اس آدمی کا قرض بھی اتر گیا تھا۔
اس رقم اور اس کے ساتھ ملنے والے نوٹ سے سکندر عثمان کو تسلی ہوگئی تھی کہ وہ دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی اور یہ بھی کہ اس نے واقعی ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ لاہور چلی آئی تھی۔ اسے گھر چھوڑے تین سال ہونے والے تھے اور اس کا خیال تھا کہ اب کم از کم اسے تلاش نہیں کیا جائے گا، جس طرح پہلے کیا جاتا رہا تھا۔ اگر کیا بھی گیا تو صرف میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اس نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے لئے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ بے حد محتاط تھی۔ یہ لاہور تھا یہاں کسی وقت کوئی بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ ملتان میں وہ صرف چادر اوڑھ کر کالج جاتی تھی۔ لاہور میں اس نے نقاب لگانا شروع کردیا۔
لاہور میں دوبارہ واپسی کے بعد وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نہیں رہی تھی، وہ سعیدہ اماں کے پاس رہنے لگی تھی

سعیدہ اماں سے اس کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سبط علی نے ملتان جانے سے پہلے لاہور میں کروائی تھی۔ سعدہ اماں کے بہت سے عزیز و اقارب ملتان میں رہتےتھے۔ ڈاکٹر سبط علی امامہ کو ان سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ملتان میں قیام کے دوران کسی بھی ضرورت یا ایمرجنسی میں وہ ان کی مدد لے سکے۔
سعیدہ اماں ایک پینسٹھ ستر سالہ بے حد باتونی اور ایکٹو عورت تھیں۔ وہ لاہور کے اندرون شہر میں ایک پرانی حویلی میں تنہا رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا جبکہ دو بیٹے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے اور ان کے بے حد اصرار کے باوجود سعیدہ اماں باہر جانے پر تیار نہیں تھیں۔ ان کے دونوں بیٹے باری باری ہر سال پاکستان آیا کرتے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ ان کے کزن ہوتے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کے بارے میں پہلے ہی سعیدہ اماں کو بتا دیا تھا۔ اس لئے جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تو وہ بڑی گرمجوشی سے اس سے ملی تھیں۔ انہوں نے ملتان میں موجود تقریباً اپنے ہر رشتے دار کے بارے میں تفصیلات اس کے گوش گزار کر دی تھیں اور پھر شاید اس سب کو ناکافی جانتے ہوئے انہوں نے خود ساتھ چل کر اسے ہاسٹل چھوڑ آنے کی آفر کی جسے ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے رد کردیا تھا۔
"نہیں آپا! آپ کو زحمت ہوگی۔" ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ نہیں مانے تھے۔
"بہتر تو یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ اسے میرے بھائیوں میں سے کسی سے گھر ٹھہرا دیں۔ بچی کو گھر جیسا آرام اور ماحول ملے گا۔
انہیں اچانک ہاسٹل پر اعتراض ہونے لگا اور پھر انہوں نے ہاسٹل کی زندگی کے کئی مسائل کے بارے میں روشنی ڈالی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی اور خود وہ بھی کسی کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاسٹل بہترین آپشن تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں سے اس کی دوسری ملاقات ملتان جانے کے چند ماہ بعد اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن اچانک اسے کسی خاتون ملاقاتی کی اطلاع ہاسٹل میں دی گئی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔ وہاں اس طرح اچانک اس سے ملنے کون آسکتا تھا اور وہ بھی ایک خاتون۔۔۔۔۔ مگر سعیدہ اماں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ اس سے اسی گرمجوشی سے ملی تھیں، جس طرح لاہور میں ملی تھیں۔ وہ تقریباً دو ہفتے ملتان میں رہی تھیں اور ان دو ہفتوں میں کئی بار اس سے ملنے آئیں۔ ایک بار وہ ان کے ساتھ ہاسٹل سے ان کے بھائی کے گھر بھی گئی۔
پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ چند ماہ ملتان آتیں اور اپنے قیام کے دوران باقاعدگی سے اس کے پاس آتی رہتیں۔ وہ خود جب مہینے میں ایک بار لاہور آتی تو ان سے ملنے کے لئے بھی جاتی۔ کئی بار جب اس کی چھٹیاں زیادہ ہوتیں تو وہ اسے وہاں ٹھہرنے کے لئے اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار وہاں رہی تھی۔ سرخ اینٹوں کا بنا ہوا وہ پرانا گھر اسے اچھا لگتا تھا یا پھر یہ تنہائی کا وہ احساس تھا جو وہ ان کے ساتھ شئیر کررہی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی تنہا تھیں۔ اگرچہ ان کی یہ تنہائی ان کے ہمہ وقت میل جول کی وجہ سے کم ہوجاتی تھی مگر اس کے باوجود امامہ ان کے احساسات کو بنا کوشش کئے سمجھ سکتی تھی۔
لاہور واپس شفٹ ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہوں نے امامہ سے یہ جان لینے کے بعد کہ وہ ایم ایس سی لاہور سے کرنا چاہ رہی ہے، اسے ساتھ رکھنے کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔
اسی عرصے کے دوران ڈاکٹر سبط علی کی سب سے بڑی بیٹی ان کے پاس بچوں سمیت کچھ عرصہ کے لئے رہنے چلی آئیں۔ ان کے شوہر پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کے بھتیجے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنی فیملی کو ان کے ہاں ٹھہرا گئے۔ ڈاکٹر سبط علی کے گھر میں جگہ کی کمی نہیں تھی مگر امامہ اب ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی کے احسانات کا بوجھ پہلے ہی اسے زیر بار کررہا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد اس کے جاب کرنے پر بھی وہ اسے کہیں اور رہنے نہ دیتے لیکن اگر وہ پہلے ہی علیحدہ رہائش اختیار رکھتی تو اس کے لئے ان سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا۔ سعیدہ اماں کا گھر اسے اپنی رہائش کے لئے بہت مناسب لگا تھا۔ وہ جاب شروع کرنے پر انہیں مجبور کرکے کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرسکتی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی شاید یہ سب کبھی گوارا نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کے لئے اس کا فیصلہ ایک شاک کی طرح تھا۔
"کیوں آمنہ! میرے گھر پر کیوں نہیں رہ سکتیں آپ؟" انہوں نے بہت ناراضی سے اس سے کہا۔ "سعیدہ آپا کے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہیں؟"
"وہ بہت اصرار کررہی ہیں۔"
"میں انہیں سمجھا دوں گا۔"
"نہیں، میں خود بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی تو ان کی تنہائی دور ہوجائے گی۔"
"یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جب چاہیں جاسکتی ہیں، مگر ساتھ رہنے کے لئے نہیں۔"
"پلیز، آپ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں، میں وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔ میں اب آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
پیروں پر کھڑے ہونے سے کیا مراد ہے آپ کی؟"
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
"میں آپ پر بہت لمبے عرصے تک بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ پہلے ہی میں بہت سال سے آپ پر انحصار کررہی ہوں، مگر ساری زندگی تو میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں گزار سکتی۔"
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اسے لگا اس کے آخری جملے نے ڈاکٹر سبط علی کو تکلیف دی تھی۔ اسے پچھتاوا ہوا۔
"میں نے کبھی بھی آپ کو بوجھ نہیں سمجھا آمنہ! کبھی بھی نہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں اور میرے لئے آپ ایک بیٹی کی طرح ہیں پھر یہ بات۔۔۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔"
"میں جانتی ہوں ابو! مگر میں صرف اپنی فیلنگز کی بات کررہی ہوں۔ دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہونا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ میں سعیدہ اماں کے ساتھ رہ کر زیادہ پرسکو ن رہوں گی میں انہیں پے (pay) کروں گی۔ آپ کو میں کبھی پے(pay) کرنا چاہوں بھی تو نہ کرسکوں گی۔ شاید مجھے دس زندگیاں بھی ملیں تو میں آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر اب بس۔۔۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔ میں نے زندگی کو گزارنے کے سارے طریقے ابھی سیکھنے ہیں۔ مجھے سیکھنے دیں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اس کے بعد اسے دوبارہ اپنے گھر میں رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بھی ان کی احسان مند تھی۔
سعیدہ امان کے ساتھ رہنے کا تجربہ اس کے لئے ہاسٹل میں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں رہنے سے بالکل مختلف تھا۔ اسے ان کے پاس ایک عجیب سی آزادی اور خوشی کا احساس ہوا تھا۔ وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ صرف ایک ملازمہ تھی جو دن کے وقت گھر کے کام کردیا کرتی تھی اور شام کو واپس چلی جایا کرتی تھی۔ وہ بے حد سوشل لائف گزارتی تھیں۔ محلے میں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ اور نہ صرف محلے میں بلکہ اپنے رشتے داروں کے ہاں بھی اور ان کے گھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا۔
انہوں نے محلے میں ہر ایک سے امامہ کا تعارف اپنی بھانجی کہہ کر کروایاتھا اور چند سالوں کے بعد یہ تعارف بھانجی سے بیٹی میں تبدیل ہوگیا تھا، اگرچہ محلے والے پچھلے تعارف سے واقف تھے، مگر اب کسی نئے ملنے والے سے جب وہ امامہ کو بیٹی کی حیثیت سے متعارف کرواتیں تو کسی کو کوئی تجسس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ سعیدہ اماں کی عادت سے واقف تھے کہ وہ کتنا محبت بھرا دل رکھتی تھیں۔ ان کے بیٹے بھی امامہ سے واقف تھے بلکہ وہ باقاعدگی سے فون پر سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے اس کا حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی اور بچے بھی اس سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔
ان کے بیٹے ہر سال پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے قیام کے دوران بھی امامہ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جیسے وہ ان کی فیملی کا حصہ نہیں تھی، بعض دفعہ اسے یوں ہی لگتا جیسے وہ واقعی سعیدہ اماں کی بیٹی اور ان کے بیٹوں کی بہن تھی۔ ان دونوں کے بچے اسے پھپھو کہا کرتے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد اس نے ڈاکٹر سبط علی کے توسط سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب شروع کردی۔ اس کی جاب بہت اچھی تھی اور پہلی بار اس نے مالی طور پر خودمختاری حاصل کرلی تھی۔ یہ ویسی زندگی نہیں تھی جیسی وہ اپنے والدین کے گھر گزارتی تھی نہ ہی ویسی تھی جیسی زندگی کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر یہ ویسی بھی نہیں تھی جن خدشات کا وہ گھر سے نکلتے وقت شکار تھی۔ وہ ہر ایک کے بارے میں نہیں کہہ سکتی مگر اس کے لئے زندگی معجزات کا دوسرا نام تھی۔ سالار سکندر جیسے لڑکے سے اس طرح کی مدد، ڈاکٹر سبط علی تک رسائی۔۔۔۔۔ سعیدہ اماں جیسے خاندان سے ملنا۔ تعلیم کا مکمل کرنا اور پھر وہ جاب۔۔۔۔۔ صرف جلال انصر تھا جس کا خیال ہمیشہ اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا اور شاید اسے مل جاتا تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
آٹھ سالوں نے اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت وہ جانتی تھی کہ اب دنیا میں اس کے نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسے کسی سے کوئی توقعات وابستہ کرنی تھیں نہ ہی ان کے پورا نہ ہونے پر تکلیف محسوس کرنی تھی۔ اس کا رونا دھونا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا تھا۔ بیس سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ اور پریشان ہونے والی امامہ ہاشم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی گئی تھی۔ نئی نمودار ہونے والی امامہ زیادہ پراعتماد اور مضبوط اعصاب رکھتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ محتاط بھی ہوگئی تھی۔ ہر چیز کے بارے میں، اپنی گفتگو کے بارے میں۔ اپنے طور اطوار کے بارے میں۔
ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں دونوں کے خاندانوں نے اسے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے، جو انہیں قابلِ اعتراض یا ناگوار لگے۔ ہاشم مبین کے گھر میں اسے یہ ساری احتیاطیں نہیں کرنی پڑتی تھیں مگر وہاں سے نکل کر اسے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا تھا۔
سعیدہ اماں کی گمشدگی کے دوران وہ آفس میں تھی۔ چار بجے کے قریب جب وہ گھر آئی تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس تالے کی دوسری چابی تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سعیدہ اماں کئی بار اِدھر اُدھر چلی جایا کرتی تھیں۔ اسے تشویش نہیں ہوئی۔
لیکن جب مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ پہلی بار فکر مند ہوئی کیونکہ وہ شام کو بتائے بغیر کبھی یوں غائب نہیں ہوئی تھیں ساتھ والوں کے ہاں پتا کرنے پر اسے پتا چلا کہ ان کا بیٹا انہیں بلال کے گھر صبح چھوڑ آیا تھا۔ سعیدہ اماں پہلے بھی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے امامہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے وہاں فون کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ دوپہر کو وہاں سے جاچکی تھیں اور تب پہلی بار اسے صحیح معنوں میں تشویش ہونے لگی۔
اس نے باری باری ہر اس جگہ پتا کیا جہاں وہ جاسکتی تھیں مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں اور تب اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اطلاع دی۔ اس کی حالت تب تک بے حد خراب ہوچکی تھی۔ سعیدہ اماں کا میل جول اپنے محلے تک ہی تھا۔ وہ اندرون شہر کے علاوہ کسی جگہ کو اچھی طرح نہیں جانتی تھیں۔ انہیں کسی دوسرے جگہ جانا ہوتا تو وہ ہمسایوں کے کسی لڑکے کے ساتھ جاتیں یا پھر امامہ کے ساتھ اور یہی بات امامہ کو تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔
دوسری طرف سالار اندرون شہر کے سوا شہر کے تمام پوش علاقوں سے واقف تھا۔ اگر اسے اندرون شہر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی ہوتیں تب بھی وہ سعیدہ اماں کے ادھورے پتے کے باجود کسی نہ کسی طرح ان کے گھر پہنچ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی نے رات گئے اسے سعیدہ اماں کی خیریت سے اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہونے کی اطلاع دی اور امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
مزید ایک گھنٹے بعد دروازے کی بیل بجی تھی اور اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے کی اوٹ سے اس نے سعیدہ اماں کے پیچھے کھڑے ایک خوش شکل آدمی کو دیکھا، جس نے دروازہ کھلنے پر اسے سلام کیا اور پھر سعیدہ اماں کو خداحافظ کہتے ہوئے مڑ گیا اور اس دوسرے دراز قامت شخص کے پیچھے چلنے لگا جس کی امامہ کی طرف پشت تھی۔ امامہ نے اس پر غور نہیں کیا وہ تو بے اختیار سعیدہ اماں سے لپٹ گئی تھی۔
سعیدہ اماں اگلے کئی دن اس کے سامنے ان دونوں کا نام لیتی رہیں، سالار اور فرقان۔ امامہ کو پھر بھی شبہ نہیں ہوا کہ وہ سالار۔۔۔۔۔ سالار سکندر بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ مردہ لوگ زندہ نہیں ہوسکتے تھے اور اسے اگر اس کی موت کا یقین نہ بھی ہوتا تب بھی سالار سکندر جیسا شخص نہ تو ڈاکٹر سبط علی کا شناسا ہوسکتا تھا نہ ہی اس میں اس طرح کی اچھائیاں ہوسکتی تھیں جن اچھائیوں کا ذکر سعیدہ اماں وقتاً فوقتاً کرتی رہتی تھیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد اس نے جس شخص کو اس رات سعیدہ اماں کے ساتھ سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا تھا اس شخص سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ فرقان اپنی بیوی کے ساتھ ان کے ہاں آیا تھا۔ اسے وہ اور اس کی بیوی دونوں اچھے لگے تھے پھر وہ چند ایک بار اور ان کے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی شناسائی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
اسے جاب کرتے تب دوسال ہوچکے تھے۔ کچھ وقت شاید اور اسی طرح گزر جاتا۔ اگر وہ اتفاقاً ایک روز اس سڑک سے نہ گزرتی جہاں جلال کے بنائی ہوئے ہاسپٹل کے باہر اس کا نام آویزاں تھا۔ جلال انصر کا نام اس کے قدم روک دینے کے لئے کافی تھا مگر کچھ دیر تک ہاسپٹل کے باہر اس کا نام دیکھتے رہنے کے بعد اس نے طے کیا تھا کہ وہ دوبارہ اس سڑک پر کبھی نہیں آئے گی۔
جلال شادی کرچکا تھا۔ یہ وہ گھر چھوڑتے وقت ہی سالار سے جان چکی تھی اور وہ دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اس کا یہ فیصلہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔
دو ہفتے کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنی کے آفس میں ہی اس کی ملاقات رابعہ سے ہوئی۔ رابعہ وہاں کسی کام سے آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے تو اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے۔ یہ مشکل رابعہ نے آسان کردی۔ وہ اس سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ملی تھی۔
"تم یک دم کہاں غائب ہوگئی تھیں۔ کالج اور ہاسٹل میں تو ایک لمبا عرصہ طوفان مچا رہا۔"
رابعہ نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"بس میں گھر سے چلی گئی تھی۔ کیوں گئی تھی تم تو جانتی ہی ہوگی۔" امامہ نے مختصراً کہا۔
"ہاں، مجھے کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ویسے ہم لوگوں کی بڑی کم بختی آئی۔ میری، جویریہ، زینب، سب کی۔۔۔۔۔ پولیس تک نے پوچھ گچھ کی ہم سے۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا تمہارے بارے میں، مگر ہاسٹل اور کالج میں بہت ساری باتیں پھیل گئی تھیں تمہارے بارے میں۔"
رابعہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسلسل بولے جارہی تھی۔
"تم اکیلی ہی گئی تھیں؟" اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
"ہاں۔" امامہ انٹر کام پر چائے کا کہتے ہوئے بولی۔
"مگر گئی کہاں تھیں؟"
"کہیں نہیں، یہیں لاہور میں تھی۔ تم بتاؤ، تم کیا کررہی ہو آج کل اور جویریہ۔۔۔۔۔ باقی سب۔"
امامہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
"میں پریکٹس کررہی ہوں لاہور میں۔ جویریہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی ہے اس کی ایک ڈاکٹر سے۔ میری بھی فاروق سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو یاد ہوگا کلاس فیلو تھا میرا۔"
امامہ مسکرائی۔ "اور زینب؟" اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔
"ہاں، زینب آج کل انگلینڈ میں ہوتی ہے۔ ریزیڈنسی کررہی ہے وہاں اپنے شوہر کے ساتھ۔ اس کے بھائی کے ہاسپٹل میں ہی فاروق پریکٹس کرتے ہیں۔"
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ "جلال انصر کے ہاسپٹل میں؟"
"ہاں، اسی کے ہاسپٹل میں۔ وہ اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہے کچھ عرصہ پہلے لیکن بے چارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ حالانکہ اتنا اچھا بندہ ہے مگر۔"
امامہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکی۔
"طلاق۔۔۔۔۔! کیوں؟"
"پتا نہیں، فارق نے پوچھا تھا اس سے۔ کہہ رہا تھا انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔ بیوی بھی بڑی اچھی تھی اس کی۔ ڈاکٹر ہے وہ بھی لیکن پتا نہیں کیوں طلاق ہوگئی۔ ہم لوگوں کا تو خاصا آنا جانا تھا ان کے گھر میں۔ ہمیں کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا کوئی مسئلہ ہے دونوں کے درمیان۔ ایک بیٹا ہے تین سال کا ۔وہ جلال کے پاس ہی ہے۔ اس کی بیوی واپس امریکہ چلی گئی ہے۔"
رابعہ لاپروائی سے تمام تفصیلات بتا رہی تھی۔
"تم اپنے بارے میں بتاؤ یہ تو میں جان گئی ہوں کہ یہاں جاب کررہی ہو، مگر اسٹڈیز تو تم نے مکمل نہیں کی۔"
"ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"اور شادی وغیرہ؟"
"وہ ابھی نہیں۔"
"پیرنٹس کے ساتھ تمہارا جھگڑا ختم ہوا یا نہیں؟"
امامہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
"نہیں۔" پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر چلی گئی۔ امامہ باقی کا سارا وقت آفس میں ڈسٹرب رہی۔ اس نے جلال انصر کو کبھی بھلایا نہیں تھا۔ وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھی۔ اس نے صرف اپنی زندگی سے اس کو الگ کردیا تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے اس دن اسے احساس ہوا کہ یہ بھی ایک خوش گمانی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جلال انصر کو اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس کی زندگی میں داخل ہو کر اسے کسی پریشانی سے دوچار کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کی ازدواجی زندگی کو خراب کرنا چاہتی تھی لیکن یہ جاننے کے بعد کہ اس کی ازدواجی زندگی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور وہ ایک بار پھر اکیلا تھا۔ اسے یاد آیا آٹھ سال پہلے وہ کس طرح اس شخص کے حصول کے لئے بچوں کی طرح مچلتی رہی تھی۔ وہ اسے حاصل نہیں کرسکی تھی۔ تب بہت سی دیواریں، بہت سی رکاوٹیں تھیں جنہیں وہ پار کرسکتی تھی نہ جلال انصر کرسکتا تھا۔
مگر اب بہت وقت گزر چکا تھا۔ ان رکاوٹوں میں سے اب کچھ بھی ان دونوں کے درمیان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ ایک شادی کرچکا تھا یا اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔
"مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے، شاید وہ اب بھی میرے بارے میں سوچتا ہو شاید اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہو۔" امامہ نے سوچا تھا۔
اس نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے اس سے جو کچھ کہا تھا، امامہ اس کے لئے اس کو معاف کرچکی تھی۔ جلال کی جگہ جو بھی ہوتا وہ یہی کہتا۔ صرف ایک لڑکی کے لئے تو کوئی بھی اتنے رسک نہیں لیتا اور پھر اس کا کیرئیر بھی تھا جسے وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کے پیرنٹس کی اس سے کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ ختم نہیں کرسکتا تھا۔ میری طرح وہ بھی مجبور تھا۔ بہت سال پہلے کہے گئے اس کے جملوں کی بازگشت نے بھی اسے دلبرداشتہ یا اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
"مجھے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے یہ موقع مجھے اللہ نے ہی دیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے میری دعاؤں کو اب قبول کرلیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ کو مجھ پر اب رحم آگیا ہو۔"
وہ باربار سوچ رہی تھی۔
"ورنہ اس طرح اچانک رابعہ میرے سامنے کیوں آجاتی۔ مجھے کیوں یہ پتا چلتا کہ اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اب میں اس کے سامنے جاؤں تو۔۔۔۔۔۔" وہ فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ جلال انصر کے پاس دوبارہ جانا چاہتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں ڈاکٹر جلال انصر سے ملنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے ریپشنسٹ سے کہا۔
"اپائنٹمنٹ ہے آپ کی؟ اس نے پوچھا۔
"نہیں، اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے۔"
"پھر تو وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی پیشنٹ کو نہیں دیکھتے۔" اس نے بڑے پروفیشنل انداز میں کہا۔
"میں پیشنٹ نہیں ہوں۔ ان کی دوست ہوں۔" امامہ نے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
"ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ آپ اس وقت ان سے ملنے آئیں گی؟" ریپشنسٹ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔" اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
"ایک منٹ، میں ان سے پوچھتی ہوں۔" اس نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" وہ ریپشنسٹ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے اپنا سوال دہرایا۔
"امامہ ہاشم۔" اسے یاد نہیں اس نے کتنے سالوں بعد اپنا نام لیا تھا۔
"سر! کوئی خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی دوست ہیں۔ امامہ ہاشم نام ہے ان کا۔"
وہ دوسری طرف سے جلال کی گفتگو سنتی رہی۔
"اوکے سر۔" پھر اس نے ریسیور رکھ دیا۔
"آپ اندر چلی جائیں۔" ریپشنسٹ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ سر ہلاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ جلال انصر کا ایک مریض باہر نکل رہا تھا اور وہ خود اپنی میز کے پیچھے کھڑا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے پر حیرت دیکھی تھی۔ وہ اپنے دھڑکتے دل کی آواز باہر تک سن سکتی تھی۔ اس نے جلال انصر کو آٹھ سال اور کتنے ماہ کے بعد دیکھا تھا۔ امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اسے یاد نہیں آیا۔
“What a pleasant surprise Imama” (کیسا خوشگوار سرپرائز ہے امامہ!)۔
جلال نے آگے بڑھ کر اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا، تم کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟"
وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ چہرہ ہر وقت اس کے ساتھ رہا تھا اور یہ آواز بھی۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو۔"
اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود ٹیبل کے دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ وہ جلال انصر کو جب بھی دیکھے گی اس کا دل اسی طرح بے قابو ہوگا مگر اتنی خوشی ،ایسی سرشاری تھی جو وہ اپنے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی محسوس کررہی تھی۔
"کیا پیو گی؟ چائے، کافی سوفٹ ڈرنک؟" وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
"جو آپ چاہیں۔"
"اوکے، کافی منگوا لیتے ہیں۔ تمہیں پسند تھی۔"
وہ انٹر کام اٹھا کر کسی کو کافی بھجوانے کی ہدایت دے رہا تھا اور وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی اب نہیں تھی۔ اس کا ہیر اسٹائل مکمل طور پر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کا وزن پہلے کی نسبت کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت بہت پر اعتماد اور بے تکلف نظر آرہا تھا۔
"تم آج کل کیا کررہی ہو؟" ریسیور رکھتے ہی اس نے امامہ سے پوچھا۔
"ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کررہی ہوں۔"
"ایم بی بی ایس تو چھوڑ دیا تھا تم نے۔"
"ہاں، ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"کونسی کمپنی ہے؟" امامہ نے نام بتایا۔
"وہ تو بہت اچھی کمپنی ہے۔"
وہ کچھ دیر اس کمپنی کے بارے میں تعریفی تبصرہ کرتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
"میں اسپشلائزیشن کرکے آیا ہوں۔"
وہ اپنے بارے میں بتانے لگا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کسی معمول کی طرح اسے دیکھتی رہی۔ بعض لوگوں کو صرف دیکھنا ہی کتنا کافی ہوتا ہے۔ اس نے اسے بات کرتے دیکھ کر سوچا تھا۔
"ایک سال ہوا ہے اس ہاسپٹل کو شروع کئے اور بہت اچھی پریکٹس چل رہی ہے میری۔"
وہ بولتا رہا۔ کافی آچکی تھی۔
"تمہیں میرا کیسے پتا چلا؟" وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
"میں نے آپ کے ہاسپٹل کے بورڈ پر آپ کا نام پڑھا پھر رابعہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ جانتے ہوں گے۔ زینب بھی واقف تھی اس سے۔"
"رابعہ فاروق کی بات کررہی ہو۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کا شوہر ڈاکٹر فاروق میرے ساتھ کام کرتا ہے۔" اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
"ہاں، وہی۔۔۔۔۔ پھر میں یہاں آگئی۔"
امامہ نے ابھی کافی نہیں پی تھی۔ کافی بہت گرم تھی اور بہت گرم چیزیں نہیں پیتی تھی۔ اس نے کسی زمانے میں میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے شخص کو آئیڈلائز کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں ہر خوبی تھی، ہر وہ خوبی جو ایک مکمل مرد میں ہونی چاہیے۔ ہر وہ خوبی جو وہ اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی تھی۔ ساڑھے آٹھ سال گزر گئے تھے اور امامہ کو یقین تھا کہ وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ چہرے سے داڑھی کے ہٹ جانے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو اب حضرت محمد ﷺ سے محبت نہ رہی ہو۔ اپنے ہاسپٹل کی کامیابی کے قصیدے پڑھتے ہوئے بھی امامہ اس کی اسی آواز کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کررہی تھی، جس آواز نے ایک بار اس کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ آسان کردیا تھا۔
وہ اس کے منہ سے کامیاب پریکٹس اور شہرت کا سن کر مسرور تھی۔ جلال نے زندگی میں ان ہی کامیابیوں کو سمیٹنے کے لئے ساڑھے آٹھ سال پہلے اسے چھوڑ دیا تھا مگر وہ خوش تھی۔ آج سب کچھ جلال انصر کی مٹھی میں تھا۔ کم از کم آج فیصلہ کرنے میں اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
"تم نے شادی کرلی؟" بات کرتے کرتے اس نے اچانک پوچھا۔
"نہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
"تو پھر تم کہاں رہتی ہو،کیا اپنے پیرنٹس کے پاس ہو؟" جلال اس بار کچھ سنجیدہ تھا۔
"نہیں۔"
"پھر؟"
"اکیلی رہتی ہوں، پیرنٹس کے پاس کیسے جاسکتی تھی۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"آپ نے شادی کرلی؟" جلال نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
"ہاں، شادی کرلی اور علیحدگی بھی ہوگئی۔ تین سال کا ایک بیٹا ہے میرا۔ میرے پاس ہی ہوتا ہے۔" جلال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"آئی ایم سوری۔" امامہ نے اظہار افسوس کیا۔
"نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھا ہوا یہ شادی ختم ہوگئی۔"
“It was not a marriage, it was a mess” (یہ شادی نہیں تھی، ایک بکھیڑا تھا) ۔
جلال نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو امامہ نے توڑا۔
"بہت سال پہلے ایک بار میں نے آپ کو پروپوز کیا تھا جلال؟"
جلال اسے دیکھنے لگا۔
"پھر میں نے آپ سے شادی کے لئے ریکوئسٹ کی تھی۔ آپ اس وقت مجھ سے شادی نہیں کرسکے۔"
"کیا میں یہ ریکویسٹ آپ سے دوبارہ کرسکتی ہوں؟"
٭٭٭٭٭٭٭



کیا میں یہ ریکویسٹ آپ سے دوبارہ کرسکتی ہوں؟"
اس نے جلال انصر کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا۔
"اب تو حالات بدل چکے ہیں۔ آپ کسی پر ڈیپنڈنٹ نہیں ہیں۔ نہ ہی میرے پیرنٹس کے کسی ردعمل کا آپ کو اندیشہ ہوگا نہ ہی آپ کے پیرنٹس اعتراض کریں گے۔ اب تو آپ مجھ سے شادی کرسکتے ہیں۔"
وہ جلال کا جواب سننے کے لئے رکی۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ اس کی خاموشی نے امامہ کے اعصاب کو مضمحل کیا۔ شاید یہ اس لئے خاموش ہے کیونکہ اسے اپنی پہلی شادی یا بیٹے کا خیال ہوگا۔ امامہ نے سوچا۔ مجھے اسے بتانا چاہیے کہ مجھے اس کی پہلی شادی کی کوئی پروا نہیں ہے، نہ ہی اس بات پر اعتراض کہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔
"جلال مجھے آپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"امامہ! یہ ممکن نہیں ہے۔"
"کیوں ممکن نہیں ہے۔ کیا آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے؟"
"محبت کی بات نہیں ہے امامہ! اب بہت وقت گزر چکا ہے۔ ویسے بھی ایک شادی ناکام ہونے کے بعد میں فوری طور پر دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے کیرئر پر دھیان دینا چاہتا ہوں۔"
"جلال! آپ کو مجھ سے تو کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ میرے ساتھ تو آپ کی شادی ناکام نہیں ہوسکتی۔"
"پھر بھی۔۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"میں انتظار کرسکتی ہوں۔"
جلال نے ایک گہرا سانس لیا۔
"اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے امامہ! میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ تم سے شادی کرسکوں۔"
وہ دم سادھے اسے دیکھتی رہی۔
"یہ شادی میں نے اپنی مرضی سے کی تھی۔ دوبارہ میں اپنی مرضی نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری شادی میں اپنے پیرنٹس کی مرضی سے کرنا چاہتا ہوں۔"
"آپ اپنے پیرنٹس کو میرے بارے میں بتا دیں۔ شاید وہ آپ کو اجازت دے دیں۔" اس نے ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ کہا۔
"نہیں بتا سکتا۔ امامہ دیکھو! کچھ حقائق ہیں جن کا سامنا مجھے اور تمہیں بہت حقیقت پسندی سے کرنا چاہیے۔ میں اپنے لئے تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی زمانے میں، میں بھی تمہارے ساتھ انوالو تھا یا یہ کہہ لو کہ محبت کرتا تھا۔ میں آج بھی تمہارے لئے دل میں بہت خاص جذبات رکھتا ہوں اور ہمیشہ رکھوں گا مگر زندگی جذبات کے سہارے نہیں گزاری جاسکتی۔"
وہ رکا۔ امامہ کافی کے کپ سے اٹھتے دھویں کے پار اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
"تم جب سات آٹھ سال پہلے اپنا گھر چھوڑ رہی تھیں تو میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس طرح نہ کرو لیکن تم نے اس معاملے کو اپنی مرضی سے ہینڈل کیا۔ اپنے پیرنٹس کو مجھ سے شادی کے لئے کنوینس کرنے کے بجائے تم مجھے مجبور کرتی رہیں کہ میں تم سے چھپ کر شادی کرلوں۔ میں ایسا نہیں کرسکا اور نہ ہی یہ مناسب سمجھا۔ مذہب کی بات اپنی جگہ، مگر مذہب کے ساتھ معاشرہ بھی تو کوئی چیز ہوتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور جس کی ہمیں پرواہ کرنی چاہیے۔"
امامہ کو یقین نہیں آیا۔ وہ یہ سب اس شخص کے منہ سے سن رہی تھی جو۔۔۔۔۔۔
"تم تو چلی گئیں مگر تمہارے جانے کے بعد تمہارا اس طرح غائب ہوجانا کتنا بڑا سکینڈل ثابت ہوا اس کا تمہیں اندازہ نہیں۔ تمہارے پیرنٹس نے پریس میں یہ خبر نہیں آنے دی مگر پورے میڈیکل کالج کو تمہارےاس طرح چلے جانے کا پتا تھا۔ پولیس نے تمہاری بہت ساری فرینڈز اور کلاس فیلوز سے تمہارے بارے میں انوسٹی گیشن کی۔ زینب بھی اس میں شامل تھی۔ خوش قسمتی سے ہم بچ گئے۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوگیا۔
"میں نے اتنے سال محنت کرکے اپنا مقام بنایا ہے۔ میں اتنا بہادر نہیں ہوں کہ میں تم سے شادی کرکے لوگوں کی چہ مگوئیوں کا نشانہ بنوں۔ میرا اٹھنا بیٹھنا ڈاکٹرز کی کمیونٹی میں ہے اور امامہ ہاشم کی میری بیوی کے طور پر واپسی مجھے اسکینڈلائز کردے گی۔ تم سے شادی کرکے میں لوگوں سے نظریں نہیں چرانا چاہتا۔ تم اتنے سال کہاں رہی ہو، کیسے رہی ہو، یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ میرے پیرنٹس کو تمہاری کسی بات پر یقین نہیں آئے گاور مجھے لوگوں کی نظروں میں اپنا یہ مقام برقرار رکھنا ہے تم بہت اچھی ہو مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ تم اچھی لڑکی نہیں ہو اور میں کسی اسکینڈلائزڈ لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا۔ میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی یہ کہے کہ میری بیوی کا کردار اچھا نہیں ہے۔ آئی ہوپ، تم میری پوزیشن کو سمجھ سکتی ہو۔"
کافی کے کپ سے اٹھتا دھواں ختم ہوچکا تھا مگر جلال انصر کا چہرہ ابھی کسی دھویں کے پیچھے چھپا نظر آرہا تھا یا پھر یہ اس کی آنکھوں میں اترنے والی دھند تھی جس نے جلال انصر کو غائب کردیا تھا۔
کرسی کے دونوں ہتھوں کا سہارا لیتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
"ہاں، میں سمجھ سکتی ہوں۔" اس نے اپنے آپ کو کہتے سنا۔ "خدا حافظ۔"
"آئی ایم سوری امامہ! " جلال معذرت کررہا تھا۔ امامہ نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ جیسے نیند کی حالت میں چلتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی۔
شام کے سات بج چکے تھے، اندھیرا چھا چکا تھا۔ سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس اور نیون سائن بورڈز روشن تھے۔ سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک تھی۔ اس پورے روڈ پر دونوں طرف ڈاکٹرز کے کلینک تھے۔ اسے یاد تھا کسی زمانے میں اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کا بھی ایسا ہی کلینک ہو۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ وہ بھی اپنے نام کے آگے اسی طرح کوالی فیکشنز کی ایک لمبی لسٹ دیکھنا چاہتی تھی بالکل ویسے ہی جس طرح جلال انصر کے نام کے ساتھ تھیں۔ بالکل ویسے ہی جس طرح اس روڈ پر لگے ہوئے بہت سے ڈاکٹرز کے نام کے آگے تھیں۔ یہ سب ہوسکتا تھا، یہ سب ممکن تھا، اس کے ہاتھ کی مٹھی میں تھا اگر وہ ۔۔۔۔۔ وہ بہت سال پہلے اپنے گھر سے نہ نکلی ہوتی۔
وہ بہت دیر تک جلال کے ہاسپٹل کے باہر سڑک پر کھڑی خالی الذہنی کی کیفیت میں سڑک پر دوڑتی ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں سے کہاں جائے اس نے ایک بار پھر مڑ کر ہاسپٹل کے ماتھے پر جگمگاتے الیکٹرک بورڈ پر ڈاکٹر جلال انصر کا نام دیکھا۔
"تم اچھی لڑکی ہو، مگر لوگ تمہیں اچھا نہیں سمجھتے۔"
اسے چند منٹ پہلے کہے ہوئے اس کے الفاظ یاد آئے، وہاں کھڑے اسے پہلی بار پتا چلا کہ اس نے اپنی پوری زندگی یک طرفہ محبت میں گزاری تھی۔ جلال انصر کو اس سے کبھی محبت تھی ہی نہیں ۔نہ ساڑھے آٹھ سال پہلے، نہ ہی اب۔۔۔۔۔ اس کو صرف امامہ کی ضرورت نہیں تھی، اس کے ساتھ منسلک باقی چیزوں کی بھی ضرورت تھی۔ اس کا لمبا چوڑا فیملی بیک گراؤنڈ۔۔۔۔۔۔ سوسائٹی میں اس کے خاندان کا نام اور مرتبہ۔۔۔۔۔۔ اس کے خاندان کے کانٹیکٹس۔۔۔۔۔ اس کے خاندان کی دولت۔۔۔۔۔۔ جس کے ساتھ نتھی ہوکر وہ جمپ لگا کر راتوں رات اپر کلاس میں آجاتا۔۔۔۔۔۔ا ور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہی کہ وہ صرف اس کی محبت میں مبتلا تھا۔۔۔۔۔ اس کا خیا تھا کہ وہ ایک بار بھی اس کے کردار کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ کم از کم یہ یقین ضرور رکھے گا کہ وہ غلط راستے پر نہیں چل سکتی مگر وہ پھر غلط تھی۔۔۔۔۔ اس کے نزدیک وہ اسکینڈلائزڈ لڑکی تھی جس کے دفاع میں اپنی فیملی یا دوسرے لوگوں سے کچھ کہنے کے لئے اس کے پاس کوئی لفظ نہیں تھا۔ ساڑھے آٹھ سال پہلے گھر چھوڑتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ لوگ اس کے بارے میں بہت کچھ کہیں گے۔ وہ اپنے لئے کانٹوں بھرا راستہ، زہر اگلتی زبانیں اور طنز کرتی نظریں چن رہی تھی مگر یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان لوگوں میں جلال انصر بھی شامل ہوگا۔ زہر اگلتی باتوں میں ایک زبان اس کی بھی ہوگی۔ وہ زندگی میں کم ازکم جلال انصر کو اپنے کردار کے اچھا ہونے کے بارے میں کوئی صفائی یا وضاحت نہیں دینا چاہتی تھی۔ وہ اس کو کوئی صفائی دے ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے لفظوں نے ساڑھے آٹھ سال بعد پہلی بار اسے صحیح معنوں میں حقیقت کے تپتے ہوئے صحرا میں پھینک دیا تھا۔ وہ معاشرے کے لئے outcast بن چکی تھی۔
"تو امامہ ہاشم یہ ہے تمہاری اوقات، ایک اسکینڈلائزڈ اور داغ دار لڑکی اور تم اپنے آپ کو کیا سمجھے بیٹھی تھیں۔"
وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ ہر بورڈ، ہر نیون سائن کو پڑھتے ہوئے۔۔۔۔۔ وہاں لگے ہوئے بہت سے ڈاکٹروں کے ناموں سے وہ واقف تھی۔ ان میں سے کچھ اس کے کلاس فیلوز تھے۔ کچھ اس سے جونیئر، کچھ اس سے سینئر اور وہ خود کہاں کھڑی تھی کہیں بھی نہیں۔
"تم دیکھنا امامہ! تم کس طرح ذلیل و خوار ہوگی، تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا، کچھ بھی نہیں۔"
اس کے کانوں میں ہاشم مبین کی آواز گونجنے لگی تھی۔ اس نے اپنے گالوں پر سیال مادے کو بہتے محسوس کیا۔ آس پاس موجود روشنیاں اب اس کی آنکھوں کو اور چندھیانے لگی تھیں۔ جلال انصر برا آدمی نہیں تھا۔ بس وہ، وہ نہیں تھا جو سمجھ کر وہ اس کی طرف گئی تھی۔ کیسا دھوکا تھا جو اس نے کھایا تھا۔ جان بوجھ کر کھلی آنکھوں کے ساتھ، وہ بھی ایک مادہ پرست تھا مکمل مادہ پرست۔ صرف اس کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اور اس کے لئے یہ سب ناقابل یقین تھا۔ وہ برا آدمی نہیں تھا اس کی اپنی اخلاقیات تھیں اور وہ ان کے ساتھ جی رہا تھا۔ امامہ ہاشم کو آج اس نے وہ اخلاقیات بتا دی تھیں۔ اس نے ایسی تضحیک اور تحقیر آٹھ سالوں میں پہلی بار دیکھی تھی اور وہ بھی اس شخص کے ہاتھوں جسے وہ خوبیوں کا مجموعہ سمجھتی رہی تھی اور خوبیوں کے اس مجموعے کی نظروں میں وہ کیا تھی؟ گھر سے بھاگی ہوئی ایک اسکینڈلائزڈ لڑکی۔ آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو اس کی آنکھوں سے امڈ رہا تھا اور اس میں سب کچھ بہہ رہا تھا، سب کچھ اس نے بے رحمی کے ساتھ آنکھوں کو رگڑا۔ اپنی چادر کے ساتھ گیلے چہرے کو خشک کرتے ہوئے ایک رکشے کو روک کر وہ اس میں بیٹھ گئی۔
دروازہ سعیدہ اماں نے کھولا تھا۔ وہ سرجھکائے اس طرح اندر داخل ہوئی کہ اس کے چہرے پر ان کی نظر نہ پڑی۔
"کہاں تھیں تم امامہ؟ رات ہوگئی میرا تو دل گھبرا رہا تھا۔ ساتھ والوں کے گھر جانے ہی والی تھی میں کہ کوئی تمہارے آفس جاکر تمہارا پتا کرے۔"
سعیدہ اماں دروازہ بند کرکے تشویش کے عالم میں اس کے پیچھے آئی تھیں۔
"کہیں نہیں اماں! بس آفس میں کچھ کام تھا اس لئے دیر ہوگئی۔"
اس نے ان سے چند قدم آگے چلتے ہوئے پیچھے مڑے بغیر ان سے کہا۔"پہلے تو کبھی تمہیں آفس میں دیر نہیں ہوئی۔ پھر آج کیا ہوگیا کہ رات ہوگئی۔ آخر آج کیوں اتنی دیر روکا انہوں نے تمہیں؟" سعیدہ اماں کو اب بھی تسلی نہیں ہورہی تھی۔
"اس کے بارے میں میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ آئندہ دیر نہیں ہوگی۔" وہ اسی طرح اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
"کھانا گرم کردوں یا تھوڑی دیر بعد کھاؤگی؟" انہوں نے اس کے پیچھے آتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔ میرے سر میں درد ہورہا ہے۔ میں کچھ دیر کے لئے سونا چاہتی ہوں۔"
اس نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"درد کیوں ہورہا ہے؟ کوئی دوائی دے دوں یا چائے بنا دوں۔" سعیدہ اماں کو اور تشویش لاحق ہوئی۔
"اماں! پلیز مجھے سونے دیں۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہوئی تو میں آپ سے کہہ دوں گی۔"
اس کے سر میں واقعی درد ہورہا تھا۔ سعیدہ اماں کو شاید اندازہ ہوگیا کہ ان کی تشویش اس وقت اسے بے آرام کررہی ہے۔
"ٹھیک ہے تم سوجاؤ۔" وہ جانے کے لئے پلٹیں۔
امامہ نے اپنے کمرے کی لائٹ آن نہیں کی، اس نے اسی طرح اندھیرے میں دروازے کو بند کیا اور اپنےبستر پر آکر لیٹ گئی۔ اپنا کمبل کھینچ کر اس نے سیدھا لیٹتے ہوئے اپنی آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔ وہ اس وقت صرف سونا چاہتی تھی۔ وہ کچھ بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی نہ جلال انصر سے ہونے والی کچھ دیر پہلے کی گفتگو نہ ہی کچھ اور۔۔۔۔۔۔ وہ رونا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اسے نیند کیسے آگئی یہ وہ نہیں جانتی تھی مگر وہ بہت گہری نیند سوئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس سے تین قدم آگے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ ہاتھ بڑھاتی تو اس کا کندھا چھو لیتی۔ وہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ وہ اس کے کندھے سے اوپر خانہ کعبہ کے کھلتے ہوئے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ نور کے اس سیلاب کو دیکھ رہی تھی جس نے وہاں موجود ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے غلاف پر تحریر آیات کو باآسانی دیکھ سکتی تھی۔ وہ آسمان پر موجود ستاروں کی روشنی کو یک دم بڑھتے محسوس کرسکتی تھی۔
ان میں سے آگے کھڑا شخص تلبیہ پڑھ رہا تھا۔ وہاں گونجنے والی واحد آواز اسی کی آواز تھی۔ خوش الحان آواز۔۔۔۔۔ اس نے بے اختیار اپنے آپ کو اس کے پیچھے وہی کلمات دہراتے پایا۔ اسی طرح جس طرح وہ پڑھ رہا تھا۔ مگر زیر لب پھر وہ اپنی آواز اس کی آواز میں ملانے لگی۔ اسی کی طرح زیر لب۔۔۔۔۔ پھر اس کی آواز بلند ہونے لگی پھر اس کو احساس ہوا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی آواز اس کی آواز کے ساتھ بلند نہیں کرپارہی تھی۔ اس نے کوشش ترک کردی۔ وہ اس کی آواز میں آواز ملاتی رہی۔
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل چکا تھا۔ اس نے اس شخص کو آگے بڑھ کر دروازے کے پاس جاکر کھڑے ہوتے دیکھا۔ اس نے اسے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے دیکھا۔ وہ دعا کررہا تھا وہ اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ہاتھ نیچے کر لئے۔ وہ اب نیچے بیٹھ کر زمین پر سجدہ کررہا تھا، کعبہ کے دروازے کے سامنے۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔ اب وہ کھڑا ہورہا تھا۔ وہ پلٹنے والا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کی آواز شناسا تھی مگر چہرہ، چہرہ دیکھے بغیر۔۔۔۔۔۔ وہ اب مڑ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ چند لمحوں کے لئے اسے لگا وہ وہیں ہو، خانہ کعبہ میں۔ پھر جیسے وہ حقیقت میں واپس آگئی۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ جلا دی اور پھر بیڈ پر آکر دوبارہ بیٹھ گئی۔ اسے خواب پوری جزئیات سمیت یاد تھا، یوں جیسے اس نے کوئی فلم دیکھی ہو، مگر اس آدمی کا چہرہ وہ اسے نہیں دیکھ سکی تھی۔ اس کے مڑنے سے پہلے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
"خوش الحان آواز، جلال انصر کے سوا کس کی ہوسکتی تھی۔" اس نے سوچا۔
"مگر وہ شخص دراز قد تھا۔ جلال انصر سانولا تھا، اس شخص کے احرام میں سے نکلے ہوئے کندھے اور بازوؤں کی رنگت صاف تھی اور اس کی آواز وہ شناسا تھی۔ وہ یہ پہچان نہیں پارہی تھی کہ وہ جلال کی آواز تھی یا کسی اور کی۔
خواب بہت عجیب تھا مگر اس کے سر کا درد غائب ہوچکا تھا اور وہ حیران کن طور پر پرسکون تھی۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی۔ وال کلاک ایک بجا رہا تھا۔ امامہ کو یاد آیا وہ رات کو عشاء کی نماز پڑھے بغیر ہی سوگئی تھی۔ اس نے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے تھے نہ ہی سونے سے پہلے وضو کیا تھا۔ اس نے کپڑے تبدیل کئے اور اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ سعیدہ اماں کے کمرے میں روشنی نہیں تھی۔ وہ سورہی تھیں۔ پورے گھر میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ صحن میں بلب جل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی دھند کی موجودگی بھی بلب کی روشنی میں محسوس کی جاسکتی تھی۔ صحن کی دیواروں کے ساتھ چڑھی سبز بیلیں سرخ اینٹوں کی دیواروں کے ساتھ بالکل ساکت تھیں۔ وہ وضو کرنے کے لئے صحن کے دوسری طرف موجود باتھ روم میں جانا چاہتی تھی مگر صحن میں جانے کے بجائے وہ برآمدے کے ستون کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اپنے سوئیٹر کی آستینوں کو اوپر کرتے ہوئے اس نے اپنی شرٹ کی آستینوں کے بٹن کھولتے ہوئے انہیں اوپر فولڈ کردیا۔ چند لمحوں کے لئے اسے جھرجھری آئی۔ خنکی بہت زیادہ تھی پھر وہ ان بیلوں کو دیکھنے لگی۔ ایک بار پھر جلال انصر کے ساتھ شام کو ہونے والی ملاقات اسے یاد آرہی تھی مگر اس بار اس کی باتوں کی گونج اسے اشک بار نہیں کررہی تھی۔
دستگیری میری تنہائی کی تونے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پر جب ٹوٹتی ہیں
نور ہوجاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
ایک افسردہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ گزرے ہوئے پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں یہ آواز۔۔۔۔۔ اور یہ الفاظ اس کے ذہن سے کبھی معدوم نہیں ہوئے تھے اور پھر اسے کچھ دیر پہلے کے خواب میں سنائی دینے والی وہ دوسری آواز یاد آئی۔
"لبیک الھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمتہ لک والملک لاشریک لک۔"
وہ آواز مانوس اور شناسا تھی مگر جلال انصر کی آواز کے علاوہ وہ اور کسی آواز سے واقف نہیں تھی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے خواب میں دیکھے ہوئے اس منظر کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ مقام ملتزم، خانہ کعبہ کا کھلا دروازہ غلاف کعبہ کی وہ روشن آیات۔۔۔۔۔ وہ پرسکون، ٹھنڈی معطر رات۔۔۔۔۔ خانہ کعبہ کے دروازے سے پھوٹتی وہ دھودھیا روشنی اور سجدہ کرتا تلبیہ پڑھتا وہ مرد۔۔۔۔۔ امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ کچھ دیر تک وہ صحن میں اتری دھند میں نظریں جمائے اس آدمی کے بارے میں سوچتی رہی۔
اس آدمی کے برہنہ کندھے کی پشت پر ہلکے ہلکے بالوں کے زخم کا ایک مندمل شدہ نشان تھا۔ امامہ کو حیرت ہورہی تھی۔ خواب کی اس طرح کی جزئیات اسے پہلے کبھی یاد نہیں رہی تھیں۔ اس نے زندگی میں پہلی بار خانہ کعبہ کو خواب میں دیکھا تھا اور وہاں بیٹھے اسے خواہش ہوئی تھی کہ کاش وہ کبھی اسی طرح مسجد نبوی ﷺ میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے کھڑی ہو اسی طرح مسجد نبوی ﷺ خالی ہو، وہاں صرف وہ ہو، وہ اندازہ نہیں کرسکی کہ وہ کتنی دیر وہاں اسی طرح بیٹھی رہی۔ وہ اپنے گردوپیش میں تب لوٹی تھی جب سعیدہ اماں تہجد پڑھنے کے لئے وضو کرنے کی خاطر باہر صحن میں نکلی تھیں۔ امامہ کو وہاں اس وقت دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔
"تمہارے سر کا درد کیسا ہے؟" اس کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے پوچھا۔
"اب تو درد نہیں ہے۔" امامہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"رات کو کھانا کھائے بغیر ہی سوگئی تھیں؟" وہ اس کے پاس برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
وہ خاموش رہی۔ سعیدہ اماں ایک گرم اونی شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ امامہ نے ان کے کندھے پر اپنا چہرہ ٹکا دیا۔ اس کے سن چہرے کو گرم شال سے ایک عجیب سی آسودگی کا احساس ہوا۔
"اب تم شادی کرلو آمنہ!۔" سعیدہ اماں نے اس سے کہا وہ اسی طرح گرم شال میں اپنا چہرہ چھپائے رہی۔ سعیدہ اماں پہلی بار یہ بات نہیں کہہ رہی تھیں۔
"آپ کردیں۔" وہ ہمیشہ ان کی اس بات پر خاموشی اختیار کرلیتی تھی۔ کیوں؟ وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن آج پہلی بار وہ خاموش نہیں رہی تھی۔
"تم سچ کہہ رہی ہو؟" سعیدہ اماں اس کی بات پر حیران ہوئی تھیں۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں۔" امامہ نے سر ان کے کندھے سے اٹھا لیا۔
"تمہیں کوئی پسند ہے؟" سعیدہ اماں نے اس سے پوچھا۔ وہ سرجھکائے صحن کے فرش کو دیکھ رہی تھی۔
"کوئی مجھے پسند ہے؟" نہیں مجھے کوئی بھی پسند نہیں ہے۔" سعیدہ اماں کو اس کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتیں اس نے ایک بار پھر ان کی شال میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
"تمہاری شادی ہوجائے تومیں بھی انگلینڈ چلی جاؤں گی۔"
انہوں نے اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے انہیں احساس ہوا کہ وہ ان کی شال میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
"آمنہ! آمنہ بیٹا کیا ہوا؟" انہوں نے پریشان ہوکر اس کا چہرہ اٹھانے کی کوشش کی۔
وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ لگ کر روتی رہی۔
"اللہ کے لئے۔۔۔۔۔ کچھ تو بتاؤ، کیوں رو رہی ہو؟" وہ دل گرفتہ ہوگئیں۔
"کچھ نہیں بس۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔۔۔ سر میں درد ہورہا ہے۔" انہوں نے زبردستی اس کا گیلا چہرہ اوپر کیا تھا۔ وہ اب اپنی آستینوں سے چہرہ پونچھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سعیدہ اماں سے آنکھیں نہیں ملائی تھیں۔ سعیدہ اماں ہکا بکا اسے باتھ روم کی طرف جاتے دیکھتی رہیں۔
سعیدہ اماں اس کی شادی کی بات کرنے والی اکیلی نہیں تھیں۔ اس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار پھر اس سے شادی کا ذکر کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تب اس نے کیوں انکار کردیا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اب آزاد تھی۔
"مجھے کچھ عرصہ جاب کرلینے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔" اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا تھا۔ شاید یہ پچھلے کئی سالوں سے ڈاکٹر سبط علی پر مالی طور پر ایک بوجھ بننے کا احساس تھا، جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتی تھی یا پھر کہیں اس کے لاشعور میں یہ چیز تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس کی شادی پر ایک بار پھر اخراجات کرنے پڑیں گے اور وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ ان اخراجات کے لئے خود کچھ جمع کرنے کی کوشش کرلے۔ اس نے یہ بات ڈاکٹر سبط علی کو نہیں بتائی تھی مگر اس نے ان سے جاب کی اجازت لے لی تھی۔
شاید وہ کچھ عرصہ ابھی مزید جاب کرتی رہتی، مگر جلال انصر سے اس ملاقات کے بعد وہ ایک تکلیف دہ ذہنی دھچکے سے دوچار ہوئی تھی اور اس نے یکدم سعیدہ اماں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ سعیدہ اماں نے ڈاکٹر سبط علی سے اس بات کا ذکر کیا یا نہیں مگر وہ خود ان دنوں مکمل طور پر اس کے لئے رشتے کی تلاش میں سرگرداں تھیں اور اس کوشش کا نتیجہ فہد کی صورت میں نکلا تھا۔
فہد ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کررہا تھا اور اس کی شہرت بھی بہت اچھی تھی۔ فہد کے گھر والے اسے پہلی ہی بار دیکھ کر پسند کرگئے تھے اور اس کے بعد سعیدہ اماں نے ڈاکٹر سبط علی سے اس رشتے کی بات کی۔
ڈاکٹر سبط علی کو کچھ تامل ہوا۔۔۔۔۔ شاید وہ اس کی شادی اب بھی اپنے جاننے والوں میں کرنا چاہتے تھے، مگر سعیدہ اماں کی فہد اور اس کے گھر والوں کی بے پناہ تعریفوں کے بعد اور فہد اور اس کے گھر والوں سے خود ملنے کے بعد انہوں نے سعیدہ اماں کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ انہوں نے فہد کے بارے میں بہت چھان بین کروائی تھی اور پھر وہ بھی مطمئن ہوگئے تھے۔
فہد کے گھر والے ایک سال کے اندر شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر اچانک انہوں نے چند ماہ کے اندر شادی پر اصرار کرنا شروع کردیا۔ یہ صرف اتفاق ہی تھا کہ ڈاکٹر سبط علی اسی دوران اپنی کچھ مصڑوفیات کی وجہ سے انگلینڈ میں تھے جب فہد کے گھر والوں کے اصرار پر تاریخ طے کردی گئی تھی۔ سعیدہ اماں فون پر ان سے مشورہ کرتی رہی تھیں اور ڈاکٹر سبط علی نے انہیں اپنا انتظار کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ فوری طور پر وہاں نہیں آسکتے تھے، البتہ انہوں نے کلثوم آنٹی کو واپس پاکستان بھجوا دیا تھا۔
اس کی شادی کی تیاری کلثوم آنٹی اور مریم نے ہی کی تھی جو راولپنڈی سے کچھ ہفتوں کے لئے اپنی سسرال لاہور آگئی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اس کی شادی کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد فون پر اس سے طویل گفتگو کی تھی۔ ان کی تینوں بیٹیوں کی شادی ان کے اپنے خاندان میں ہی ہوئی تھی اور ان کے سسرال میں سے کسی نے بھی جہیز نہیں لیا تھا، مگر ڈاکٹر سبط علی نے تینوں بیٹیوں کے جہیز کے لئے مخصوص کی جانے والی رقم انہیں تحفتاً دے دی تھی۔
"ساڑھے آٹھ سال پہلے جب آپ میرے گھر آئی تھیں اور میں نے آپ کو اپنی بیٹی کہا تھا تو میں نے آپ کے لئےبھی کچھ رقم رکھی تھی۔ وہ رقم آپ کی امانت ہے۔ آپ اسے ویسے لے لیں یا پھر میں مریم اور کلثوم سے کہہ دوں گا کہ وہ آپ کے جہیز کی تیاری پر اسے خرچ کریں۔ سعیدہ آپا کی خواہش تھی کہ شادی ان کے گھر پر ہو ورنہ میں چاہتا تھا کہ یہ شادی میرے گھر پر ہو۔ آپ کے گھر پر۔۔۔۔۔" انہوں نے اس سے کہا تھا۔
"مجھے اس بات پر بہت رنج ہے کہ میں اپنی چوتھی بیٹی کی شادی میں شرکت نہیں کرسکوں گا مگر شاید اس میں ہی کوئی بہتری ہے۔ میں پھر بھی آخری وقت تک کوشش کروں گا کہ کسی طرح شادی پرآجاؤں۔"
وہ ان کی باتوں کے جواب میں بالکل خاموش رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا نہ ہی یہ اصرار کیا تھا کہ وہ اپنی شادی پر اپنی رقم خرچ کرے گی اور نہ ہی یہ کہ وہ شادی ان کی رقم سے نہیں کرنا چاہتی۔ اس دن اس کا دل چاہا ان کا ایک اور احسان لینے کو۔ وہ اس پر اتنے احسان کرچکے تھے کہ اب اسے ان احسانوں کی عادت ہونے لگی تھی۔ اسے صرف ان سے ایک گلہ تھا وہ آخر اس کی شادی میں شرکت کیوں نہیں کررہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فہد کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ شادی سادگی سے ہو اور اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ امامہ خود بھی شادی سادگی سے کرنا چاہتی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ فہد کے گھر والوں کا سادگی پر اصرار دراصل کچھ اور وجوہات کی بناء پر تھا۔
اس کا نکاح مہندی والی شام کو ہونا تھا، مگر اس شام کو سہ پہر کے قریب فہد کے گھر والوں کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ نکاح اگلے دن یعنی شادی والے دن ہی ہوگا۔ تب تک اسے یا سعیدہ اماں کو کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ فہد کے گھر میں کوئی مسئلہ تھا۔ مہندی کی ویسے بھی کوئی لمبی چوڑی تقریب نہیں تھی۔ صرف سعیدہ اماں کے بہت قریبی لوگ تھے یا پھر نزدیکی ہمسائے۔ نکاح کی تقریب کے لئے جس کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا وہ ان لوگوں کو سرو کردیا گیا۔
شادی کی تقریب بھی سادگی سے گھر پر ہی ہونی تھی۔ چار بجے بارات کو آنا تھا اور چھے بجے رخصتی ہونی تھی۔ لیکن بارات آنے سے ایک گھنٹہ پہلے فہد کے گھر والوں نے سعیدہ اماں کو فہد کی روپوشی کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے اس رشتے سے معذرت کرلی۔
امامہ کو چار بجے تک اس سارے معاملے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ فہد کے گھر سے عروسی لباس پہلے بھجوادیا گیا تھا اور وہ اس وقت وہ لباس پہنے تقریباً تیار تھی جب مریم اس کے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ اس نے امامہ کو کپڑے تبدیل کرنے کے لئے کہا، اس نے امامہ کو فوری طور پر یہ نہیں بتایا تھا کہ فہد کے گھر والے انکار کرکے جاچکے تھے۔ اس نے امامہ سے صرف یہی کہا کہ فہد کے گھر والوں نے شادی کینسل کردی ہے اس کے گھر میں کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ یہ بتا کر بہت افراتفری میں کمرے سے باہر نکل گئی۔ امامہ نے کپڑے تبدیل کرلئے لیکن اس وقت اس کی چھٹی حس نے اسے اس پریشانی سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اسے مریم کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
کپڑے تبدیل کرکے وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی اور باہر موجود لوگوں کے تاثرات نے اس کے تمام شبہات کی تصدیق کردی تھی۔ وہ سعیدہ اماں کے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔ کلثوم آنٹی، میمونہ نورالعین آپا،۔۔۔۔۔۔ ہمسائے میں رہنے والی چند عورتیں، مریم اور سعیدہ اماں۔۔۔۔۔ مریم ،سعیدہ اماں کو پانی پلا رہی تھی۔ وہ بہت نڈھال نظر آرہی تھیں۔ ایک لمحے کے لئے اس کے دل کی دھڑکن رکی۔ انہیں کیا ہوا تھا۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی سب کی نظریں اس پر پڑیں۔ میمونہ آپا اس کی طرف تیزی سے بڑھیں۔
"آمنہ! تم باہر جاؤ۔" انہوں نے اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔
"اماں کو کیا ہوا ہے؟" وہ ان کی طرف بڑھ گئی۔ کلثوم آنٹی نے کمرے میں موجود لوگوں کو باہر نکالنا شروع کردیا۔ وہ سعیدہ اماں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"انہیں کیا ہوا ہے؟" اس نے بے تابی سے مریم سے پوچھا۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ سعیدہ اماں کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ امامہ کو دیکھ رہی تھیں مگر اسے یوں لگا جیسے وہ اس وقت اسے دیکھ نہیں پارہیں۔ گلاس ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے انہوں نے اسے ساتھ لگا کر رونا شروع کردیا۔
کمرہ خالی ہوچکا تھا۔ صرف ڈاکٹر سبط علی کی فیملی وہاں تھی۔
"کیا ہوا ہے اماں؟ مجھے بتائیں۔" امامہ نے انہیں نرمی سے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
"فہد نے اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر گھر سے جاکر کسی اور سے شادی کرلی ہے۔" مریم نے مدھم آواز میں کہا۔ "وہ لوگ کچھ دیر پہلے معذرت کرنے آئے تھے۔ وہ لوگ یہ رشتہ ختم کرگئے ہیں۔"
چند منٹ تک وہ بالکل ساکت رہی تھی۔ خون کی گردش، دل کی دھڑکن، چلتی ہوئی سانس۔۔۔۔۔۔ چند سیکنڈز سب کچھ جیسے رک گیا تھا۔
"کیا میرے ساتھ یہ بھی ہونا تھا؟" اس نے بے اختیار سوچا۔
"کوئی بات نہیں اماں! آپ کیوں رو رہی ہیں؟" اس نے بڑی سہولت سے سعیدہ اماں کے آنسو صاف کیے۔ سب کچھ ایک بار پھر بحال ہوگیا تھا سوائے اس کی رنگت کے وہ فق تھی۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔" سعیدہ اماں کو اس کی باتوں پر اور رونا آیا۔
"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔" امامہ نے انہیں بات مکمل کرنے نہیں دی۔
"اماں! چھوڑیں ناں۔ کوئی بات نہیں، آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ لیٹ جائیں، کچھ دیر آرام کرلیں۔" وہ انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
"میں تمہارے دل کی حالت کو سمجھتی ہوں۔ میں تمہارے غم کو جانتی ہوں۔ آمنہ! میری بچی مجھے معاف کردو۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔" انہیں تسلی نہیں ہوپارہی تھی۔
"مجھے کوئی غم نہیں ہے اماں! کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے سعیدہ اماں سے کہا۔
سعیدہ اماں یکدم روتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئیں۔
امامہ کسی سے کوئی بات کہے بغیر ایک بار پھر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کے بیڈ پر تمام چیزیں اسی طرح پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے انہیں سمیٹنا شروع کردیا۔ اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس وقت وہاں بیٹھی رو رہی ہوتی مگر وہ غیر معمولی طور پر پرسکون تھی۔
"اگر میں جلال کے نہ ملنے پر صبر کرسکتی ہوں تو یہ تو پھر ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ میری کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی۔" اس نے اپنے عروسی لباس کو تہ کرتے ہوئے سوچا۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، یہاں بھی لوگوں کے سامنے نظریں چرا کر اور سرجھکا کر چلنا پڑے گا۔ کچھ باتیں اور بے عزتی برداشت کرنی پڑے گی تو پھر کیا ہوا۔ اس میں میرے لئے نیا کیا ہے۔"
مریم کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے ساتھ چیزیں سمیٹنے لگی۔
"ابو کو فون کردیا ہے۔" اس نے امامہ کو بتایا۔
وہ پہلی بار کچھ جھنجھلائی۔
"کیوں خوامخواہ تم لوگ انہیں تنگ کررہے ہو۔ انہیں وہاں سکون سے رہنے دو۔"
"اتنا بڑا حادثہ ہوگیا ہے اور تم۔۔۔۔۔۔"
اس نے مریم کی بات کاٹ دی۔
"مریم میری زندگی میں اس سے بڑے حادثے ہوچکے ہیں۔ یہ کیا معنی رکھتا ہے۔ مجھے تکلیف سہنے کی عادت ہوچکی ہے۔ تم سعیدہ اماں کو تسلی دو۔ مجھے کچھ نہیں ہوا میں بالکل ٹھیک ہو اور ابو کو بھی خوامخواہ تنگ نہ کرو۔ وہ وہاں پریشان ہوں گے۔"
مریم کو چیزیں سمیٹتے ہوئے وہ ابنارمل لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی۔ کلثوم آنٹی، سعیدہ اماں کے ساتھ یکدم اندر آگئیں۔ امامہ کو ان دونوں کے چہرے بہت عجیب لگے۔ کچھ دیر پہلے کے برعکس وہ دونوں بے حد خوش نظر آرہی تھیں۔ اس کے کسی سوال سے پہلے کلثوم آنٹی نے اسے سالار کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ وہ دم بخود ان کی باتیں سن رہی تھی ۔
"اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو تمہارا نکاح اس سے کردیا جائے؟" آنٹی نے اس سے پوچھا۔
"سبط علی اسے بہت اچھی طرح جانتے تھے، وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔" وہ اسے تسلی دینے کی کوشش کررہی تھیں۔
"اگر ابو اسے جانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ جیسا بہتر سمجھیں کریں۔"
"اس کا ایک دوست تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔" وہ اس مطالبے پر کچھ حیران ہوئی تھی مگر اس نے فرقان سے ملنے سے انکار نہیں کیا۔
"میرے دوست نے آٹھ نو سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا۔ اپنی پسند سے۔"
وہ چپ چاپ فرقان کو دیکھتی رہی۔
"وہ آپ سے شادی پر تیار ہے، مگر وہ اس لڑکی کو طلاق دینا نہیں چاہتا۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ لڑکی اس کے ساتھ نہیں رہی لیکن وہ اب بھی اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو یہ سب بتا دوں تاکہ اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہو تو اس بات کو یہیں ختم کردیں گے لیکن میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ شاید وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہ ملے، آٹھ نو سال سے اس کا میرے دوست کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ ایک موہوم سی امید ہے، جس پر وہ اس کا انتظار کررہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی صاحب آپ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ اس وقت اس صورت حال سے نکلنے کے لئے یہی بہتر ہے کہ آپ اس سے شادی کرلیں۔ وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہیں ملے گی کیونکہ نہ تو وہ اسے پسند کرتی تھی نہ ہی آج تک اس نے اس سے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔"
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
"دوسری بیوی۔۔۔۔۔ تو امامہ ہاشم یہ ہے تمہاری وہ تقدیر جو اب تک تم سے پوشیدہ تھی۔" اس نے سوچا۔
"اگر ڈاکٹر سبط علی اس شخص کے بارے میں یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کو میرے لئے منتخب کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے میرے لئے یہی بہتر ہو۔ میں جلال کی بھی تو دوسری بیوی بننے کے لئے تیار تھی، اس سے محبت کرنے کے باوجود۔۔۔۔۔ اور اس شخص کی بیوی بننے پر مجھے کیا اعتراض ہوگا جس سے مجھے محبت بھی نہیں ہے۔"
اسے ایک بار پھر جلال یاد آیا۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کی بیوی جب بھی آئے وہ اسے رکھ سکتے ہیں۔ میں بڑی خوشی سے ان کو یہ اجازت دیتی ہوں۔" مدھم آواز میں کسی ملال کے بغیر اس نے فرقان سے کہا۔
پندرہ منٹ بعد اسے پہلا شاک اس وقت لگا تھا جب نکاح خواں نے اس کے سامنے سالار سکندر کا نام لیا تھا۔
"سالار سکندر۔۔۔۔۔ ولد سکندر عثمان۔" اسے نکاح خواں کے منہ سے نکلنے والے لفظو ں سے جیسے کرنٹ لگا تھا۔وہ نام ایسے نہیں تھے جو ہر شخص کے ہوتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


"سالار سکندر۔۔۔۔۔ سکندر عثمان؟ اور پھر اس ترتیب میں۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ شخص زندہ۔۔۔۔۔ ہے؟"
اس کے سر پر جیسے آسمان آگرا تھا۔ اس کے چہرے پر چادر کا گھونگھٹ نہ ہوتا تو اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات نے سب کو پریشان کردیا ہوتا۔ نکاح خواں اپنے کلمات دوبارہ دہرا رہا تھا۔
امامہ کا ذہن ماؤف اور دل ڈوب رہا تھا اگر یہ شخص زندہ تھا تو۔۔۔۔۔۔ میں تو اب تک اس کے نکاح میں ہوں۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی اسے کیسے جانتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک فشار برپا تھا۔
"آمنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! ہاں کہو۔" سعیدہ اماں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"سالار سکندر جیسے شخص کے لئے ہاں۔۔۔۔۔؟"
اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر بھینچا۔۔۔۔۔ وہ "ہاں" کے علاوہ اس وقت کچھ اور کہہ ہی نہ سکتی تھی۔ خوف اور شاک کے عالم میں اس نے کاغذات پر دستخط کئے تھے۔
"کاش کوئی معجزہ ہو۔ یہ وہ سالار سکندر نہ ہو۔ یہ سب ایک اتفاق ہو۔" اس نے اللہ سے دعا کی تھی۔
ان سب لوگوں کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مریم نے اس کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید ہوچکا تھا۔
"کیا ہوا؟ مریم کی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔
"مریم! Just do me a favour" اس نے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"میں نے نکاح کرلیا ہے، مگر میں آج رخصتی نہیں چاہتی۔ تم سعیدہ اماں سے کہو میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی۔"
اس کے لہجے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ مریم اٹھ کر باہر نکل گئی وہ بہت جلد ہی واپس آگئی۔
"امامہ رخصتی نہیں ہورہی ہے۔ سالار بھی رخصتی نہیں چاہتا۔
امامہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوگئی۔
"ابو کا فون آنے والا ہے تمہارے لئے، وہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔"
اس نے امامہ کو مزید اطلاع دی۔ وہ فون سننے کے لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کچھ دیر بعد اسے فون کیا تھا۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے۔ امامہ کا دل رونے کا چاہا۔
"سالار بہت اچھا انسان ہے۔" وہ کہہ رہے تھے۔ "میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی اسی سے ہو مگر چونکہ آپ سعیدہ آپا کے پاس رہ رہی تھیں اس لئے میں نے ان کی خواہش اور انتخاب کو مقدم سمجھا۔"
وہ سانس لینے تک کے قابل نہیں رہی تھی۔
"مجھے یہ علم نہیں تھا کہ سالار نے اس سے پہلے کبھی شادی کی تھی مگر تھوڑی دیر پہلے فرقان نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ صرف ضرورتاً کیا جانے والا کوئی نکاح تھا۔ فرقان نے مجھے تفصیل نہیں بتائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میرے جاننے والوں میں سالار سے اچھا کوئی شخص ہوتا تو اس کے نکاح کے بارے میں جان لینے کے بعد میں آپ کی شادی سالار سے کرنے کے بجائے کہیں اور کردیتا لیکن میرے ذہن میں سالار کے علاوہ اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ خاموش کیوں ہیں آمنہ؟"
انہیں بات کرتے کرتے اس کا خیال آیا۔
"ابو! آپ واپس کب آئیں گے؟"
"میں ایک ہفتے تک آرہا ہوں۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
"مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے۔"
"آپ خوش نہیں ہیں؟" ڈاکٹر سبط علی کو اس کے لہجے نے پریشان کیا۔
"آپ پاکستان آجائیں پھر میں آپ سے بات کروں گی۔" اس نے حتمی لہجے میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رات کو سونے سے پہلے وضو کے لئے باتھ روم میں گئی۔ وضو کرکے واپس آتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ صحن میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ گھر میں اس وقت کوئی مہمان نہیں تھا۔ وہ اور سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح تنہا تھے۔ سعیدہ اماں تھکاوٹ کی وجہ سے بہت جلد سو گئی تھیں۔ وہ ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود کام نبٹاتی رہی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ملازمہ بھی اپنا کام ختم کرکے سونے کے لئے چلی گئی۔ وہ شادی کے کاموں کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے وہیں رہ رہی تھی۔ امامہ کچن اور اپنے کمرے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی رہی۔
وہ جس وقت ان سب کاموں سے فارغ ہوئی اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ وہ بہت تھک چکی تھی مگر سونے سے پہلے وضو کرنے کے بعد صحن سے گزرتے ہوئے یکدم ہی اس کا دل اپنے کمرے میں جانے کو نہیں چاہا۔ وہ وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ صحن میں جلنے والی روشنیوں میں اس نے اپنے ہاتھ اور کلائیوں پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھا۔ مہندی بہت اچھی رچی تھی۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک سرخ بیل بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔اس نے کل بہت سالوں کے بعد پہلی بار بڑے شوق سے مہندی لگوائی تھی۔ اسے مہندی بہت پسند تھی۔ تہواروں کے علاوہ بھی وہ اکثر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگایا کرتی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال پہلے اپنے گھر سے نکل آنے کے بعد اس نے کبھی مہندی نہیں لگائی تھی۔ غیر محسوس طور پر ان تمام چیزوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال کے بعد پہلی بار اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھوں پر نقش و نگار بنوائے تھے نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پیروں پر بھی۔
وہ اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔ شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو اس کے نیچے چھپا لیا۔
"اسجد سے جلال۔۔۔۔۔ جلال سے فہد۔۔۔۔۔ اور فہد سے سالار۔۔۔۔۔ ایک شخص کو میں نے رد کیا۔ دو نے مجھے رد کیا اور چوتھا شخص جو میری زندگی میں شامل ہوا وہ سب سے بدترین ہے۔۔۔۔۔ سالار سکندر۔"
اس کے اندر دھواں سا بھر گیا۔ وہ اپنے اسی حلیے کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیر، ہیربینڈ میں بندھے بال، چبھتی ہوئی تضحیک آمیز نظریں،دائیں گال پر مذاق اڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ پڑنے والا ڈمپل، کلائیوں میں لٹکتے بینڈز اور بریسلٹ، عورتوں کی تصویروں والی تنگ جینز۔
وہ جیسے اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت خواب کی سب سے بھیانک تعبیر بن کر سامنے آیا تھا۔ اس کے دل میں سالار سکندر کے لئے ذرہ برابر عزت نہ تھی۔
"میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔" اس نے کئی سال پہلے فون پر اس سے کہا تھا۔
"شاید اسی لئے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی کیونکہ نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔"
سالار نے جواباً کہا تھا۔ امامہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
"چاہے کچھ ہوجائے سالار! میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ تم واقعی مر جاتے تو زیادہ اچھا تھا۔" وہ بڑبڑائی تھی۔
اس وقت ایک لمحے کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ سالار نے کبھی اس پر کوئی احسان کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈآکٹر سبط علی جس رات پاکستان واپس آئے تھے اس رات امامہ ان کے گھر پر ہی تھی مگر رات کو اس نے ان سے سالار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مریم ابھی لاہور میں ہی تھی اس لئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔
اگلے دن صبح بھی وہ سب اسی طرح اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ امامہ کو ان تحائف کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ انگلینڈ سے امامہ اور سالار کے لئے لے کر آئے تھے۔ امامہ خاموشی سے سنتی رہی۔
"سالار بھائی کو تو آج افطاری پر بلائیں۔" یہ مریم کی تجویز تھی۔
ڈاکٹر سبط علی نے مریم کے کہنے پر سالار کو فون کیا۔ امامہ تب بھی خاموش رہی۔
وہ دوپہر کی نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے لگے تو امامہ ان کے ساتھ باہر پورچ تک آگئی۔
"ابو! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" اس نے دھیرے سے کہا۔
"ابھی؟" ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے کہا۔
"نہیں، آپ نماز پڑھ آئیں پھر واپسی پر۔"
وہ کچھ دیر تشویش سے اسے دیکھتے رہے اور پھر کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"میں سالار سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔" وہ مسجد سے واپسی پر اسے لے کر اپنی اسٹڈی میں آگئے تھے اور امامہ نے بلا کسی تمہید یا توقف کے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔
"آمنہ! " وہ دم بخود رہ گئے۔
"میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔" وہ مسلسل فرش پر غور کررہی تھی۔
"آمنہ! آپ کے ساتھ اس کی دوسری شادی ضرور ہے لیکن اس کی پہلی بیوی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ فرقان بتا رہا تھا کہ تقریبا ً نو سال سے ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے اور شادی بھی نہیں، صرف نکاح ہوا تھا۔"
ڈاکٹر سبط علی اس کے انکار کو پہلی شادی کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔
"کون جانتا ہے وہ کہاں ہے، کہاں نہیں۔ نو سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔"
"میں اس کی پہلی بیوی کو جانتی ہوں۔" اس نے اسی طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔
"آپ؟" ڈاکٹر سبط علی کو یقین نہیں آیا۔
"وہ میں ہوں۔" اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
وہ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
"آپ کو یاد ہے نو سال پہلے میں ایک لڑکے کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آئی تھی جس کے بارے میں آپ نے مجھے بعد میں بتایا تھا کہ میری فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔"
"سالار سکندر۔۔۔۔۔" ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔
"یہ وہی سالار سکندر ہے؟" امامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر سے ان کی فرقان کے توسط سے پہلی ملاقات امامہ کے گھر سے چلے آنے کے چار سال بعد ہوئی تھی اور ان کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اس سالار کا امامہ سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔ چار سال پہلے سنے جانے والے ایک نام کو وہ چار سال بعد ملنے والے ایک دوسرے شخص کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے تھے اور کربھی دیتے اگر وہ چار سال پہلے والے سالار سے ہی ملتے مگر وہ جس شخص سے ملے تھے، وہ حافظ قرآن تھا۔ اس کے انداز اطوار اور گفتار میں کہیں اس ذہنی مرض کا عکس نہیں پایا جاتا تھا جس کا حوالہ انہیں امامہ نے کئی بار دیا تھا۔ ان کا دھوکا کھا جانا ایک فطری امر تھا یا پھر یہ سب اسی طرح سے طے کیا گیا تھا۔
"اور آپ نے نوسال پہلے اس سے شادی کی تھی؟" وہ ابھی بھی بے یقینی کا شکار تھے۔
"صرف نکاح۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"اور پھر اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے تھے پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے تھا آمنہ! میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"آپ ٹھیک کہتے ہیں مجھے آپ پر اعتبار کرلینا چاہیے تھا مگر اس وقت میرے لئے یہ بہت مشکل تھا۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ میں اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی تھی یا پھر شاید میری قسمت میں یہ آزمائش بھی لکھی تھی اسے آنا ہی تھا۔"
وہ بات کرتے کرتے رکی پھر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
"لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا۔ اب تو آپ طلاق لینے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔"
"نہیں، میں اب اس طلاق میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آمنہ! میں نے اس سے آپ کی شادی کروائی ہے۔" انہوں نے جیسے اسے یاد دلایا۔
"اسی لئے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ اس سے مجھے طلاق دلوا دیں۔"
"لیکن کیوں، میں کیوں اس سے آپ کو طلاق دلوا دوں؟"
"کیونکہ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک۔۔۔۔۔ اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو سالار جیسے آدمی کے ساتھ گزارنے کا نہیں سوچا۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔" وہ بے حد دلبرداشتہ ہورہی تھی۔
"میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی ابو! میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی مگر اس بار مجھے اللہ سے بہت شکایت ہے۔"
وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔
"میں اتنی محبت کرتی ہوں اللہ سے۔۔۔۔۔ اور دیکھیں اللہ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے لئے دنیا کے سب سے برے آدمی کو چنا۔"
وہ اب رو رہی تھی۔
"لڑکیاں اتنا کچھ مانگتی ہیں۔۔۔۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا، صرف ایک "صالح آدمی" مانگا تھا۔ اس نےمجھے وہ تک نہیں دیا۔ کیا اللہ نے مجھے کسی صالح آدمی کے قابل نہیں سمجھا۔" وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی۔
"امامہ! وہ صالح آدمی ہے۔"
"آپ کیوں اسے صالح آدمی کہتے ہیں؟ وہ صالح آدمی نہیں ہے۔ میں اس کو جانتی ہوں، میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔"
"میں بھی اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔"
"آپ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتی ہوں۔ وہ شراب پیتا ہے، وہ نفسیاتی مریض ہے کئی بار خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ گریبان کھلا چھوڑ کر پھرتا ہے۔ عورت کو دیکھ کر اپنی نظر تک نیچی رکھنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں وہ صالح آدمی ہے؟"
"امامہ! میں اس کے ماضی کو نہیں جانتا، میں اس کے حال کو جانتا ہوں۔ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں جو آپ کہہ رہی ہیں۔"
"آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ وہ جھوٹامکار ہے میں اس کو جانتی ہوں۔"
"وہ ایسا نہیں ہے۔"
"ابو! وہ ایسا ہی ہے۔"
"ہوسکتا ہے اسے واقعی آپ سے محبت ہو۔ وہ آپ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو۔"
"مجھے ایسی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس کی نظروں سے گھن آتی ہے۔ مجھے اس کے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔ میں ایسے کسی آدمی کی محبت نہیں چاہتی۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ایسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ صرف اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں۔"
"نہیں، سالار ایسا کچھ نہیں کررہا۔"
"ابو! میں سالار جیسے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز کا مذاق اڑاتا ہے۔ مذہب کا، زندگی کا، عورت کا۔۔۔۔۔ کیا ہے جسے وہ چٹکیوں میں اڑانا نہیں جانتا۔ جس شخص کے نزدیک میرا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے، جس کے نزدیک مذہب پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جو صرف "What is next to ecstasy" کا مطلب جاننے کے لئے خودکشیاں کرتا پھرتا ہو، جس کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف عیش ہے۔ وہ میرے ساتھ محبت کرے بھی تو کیا صرف محبت کی بنیاد پر میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟ میں نہیں گزار سکتی۔"
"ساڑھے آٹھ سال سے وہ آپ کے ساتھ قائم ہونے والے اس اتفاقیہ رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو آپ کے تمام نظریات اور عقائد کو جانتے ہوئے بھی اور وہ آپ کے انتظار میں بھی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجائیں گی۔ کیا ان ساری خواہشوں کے ساتھ اس نے اپنے اندر کچھ تبدیلی نہیں کی ہوگی؟"
"میں نے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔" وہ اب بھی اپنی بات پر مصر تھی۔ "مجھے حق ہے کہ میں اس شخص کے ساتھ نہ رہوں۔"
"لیکن اللہ یہ کیوں کررہا ہے کہ اس شخص کو باربار آپ کے سامنے لارہا ہے۔ دو دفعہ آپ کا نکاح ہوا اور دونوں دفعہ اسی آدمی سے۔"
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"میں نے زندگی میں ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا، اس لیے میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آمنہ! آپ کبھی ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہوگیا ہے آپ کو؟" ڈاکٹر سبط علی حیران تھے۔
"آپ مجھے مجبور کریں گے تو میں آپ کی بات مان لوں گی کیونکہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں تو آپ کی کسی بات کو رد کر ہی نہیں سکتی لیکن آپ اگر یہ کہیں گے کہ میں اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس کے ساتھ زندگی گزاروں تو وہ میں کبھی نہیں کرسکوں گی۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کتنے اچھے عہدے پر کام کررہا ہے یا مجھے کیا دے سکتا ہے۔ آپ ایک ان پڑھ آدمی سے شادی کردیتے لیکن وہ اچھا انسان ہوتا تو میں کبھی آپ سے شکوہ نہیں کرتی لیکن سالار، وہ آنکھوں دیکھی مکھی ہے جس کو میں اپنی خوشی سے نگل نہیں سکتی۔ آپ سالار کے بارے میں وہ جانتے ہیں جو آپ نے سنا ہے۔ میں اس کے بارے میں وہ جانتی ہوں جو میں نے دیکھا ہے۔ ہم پندرہ سال ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں۔ آپ تو اس کو چند سالوں سے جانتے ہیں۔"
"آمنہ! میں آپ کو مجبور کبھی نہیں کروں گا۔ یہ رشتہ آپ اپنی خوشی سے قائم رکھنا چاہیں گی تو ٹھیک لیکن صرف میرے کہنے پر اسے قائم رکھنا چاہو تو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ایک بار سالار سے مل لیں پھر بھی اگر آپ کا یہی مطالبہ ہوا تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔"
ڈاکٹر سبط علی بے حد سنجیدہ تھے۔
اسی وقت ملازم نے آکر سالار کے آنے کی اطلاع دی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اپنی گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اور ملازم سے کہا۔
"انہیں اندر لے آؤ۔"
"ٰیہاں؟" ملازم حیران ہوا۔
"ہاں یہی پر۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں ابھی اس طرح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔"
اس کا اشارہ اپنی متورم آنکھوں اور سرخ چہرے کی طرف تھا۔
"آپ نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔" انہوں نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔
"یہاں نہیں، میں اندر کمرے میں سے اسے دیکھ لوں گی۔"
وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اسے بند نہیں کیا۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج سے آنے والی روشنی اتنی کافی نہیں تھی کہ کمرے کے اندر اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں سے وہ لاؤنج کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نوسال کے بعد اس نے ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج میں نمودار ہوتے اس شخص کو دیکھا۔ جیسے وہ ایک طویل عرصہ پہلے مردہ سمجھ چکی تھی جس سے زیادہ نفرت اور گھن اسے کبھی کسی سے محسوس نہیں ہوئی تھی جسے وہ بدترین لوگوں میں سے ایک سمجھتی تھی اور جس کے نکاح میں وہ پچھلے کئی سالوں سے تھی۔
تقدیر کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟
اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے گلے مل رہے تھے۔ اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ اس نے معانقہ کرنے سے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اور ایک پیکٹ سینٹر ٹیبل پر رکھا تھا۔ معانقے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور تب پہلی بار امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں لٹکتے بینڈز، ربر بینڈ میں بندھے بالوں کی پونی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کریم کلر کے ایک سادہ شلوار سوٹ پہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔
"ہاں ظاہر طور پر بہت بدل گیاہے۔" اسے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی۔۔۔۔۔ اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اب ڈاکٹر سبط علی سے باتیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ وہاں بیٹھی ان دونوں کی آوازیں باآسانی سن سکتی تھی اور وہ ڈاکٹر سبط علی کے استفسار پر انہیں امامہ کے ساتھ ہونے والے اپنے نکاح کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا کہ کس طرح اس نے جلال کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ کس طرح اس نے طلاق کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔
"میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اتنی تکلیف کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ وہ میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں۔"
وہ دھیمے لہجے میں ڈاکٹر سبط علی کو بتا رہا تھا۔
"بہت عرصے تو میں ابنارمل رہا۔ اس نے مجھ سے حضرت محمد ﷺ کے واسطے مدد مانگی تھی۔ یہ کہہ کر کہ میں ایک مسلمان ہوں، ختم نبوت پر یقین رکھنے والا مسلمان۔ میں دھوکا نہیں دوں گا اسے اور میری پستی کی انتہا دیکھیں کہ میں نے اسے دھوکا دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ میرے نبی ﷺ سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ سب کچھ چھو ڑکر گھر سے نکل آئی اور میں اس کا مزاق اڑاتا رہا، اسے پاگل سمجھتا اور کہتا رہا۔ جس رات میں اسے لاہور چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے راستے میں کہا تھا کہ ایک دن ہر چیز مجھے سمجھ آجائے گی، تب مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔"
وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔
"اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ مجھے واقعی ہر چیز کی سمجھ آگئی۔ اتنے سالوں میں، میں نے اللہ سے اتنی دعا اور توبہ کی ہے کہ۔۔۔۔۔"
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے اسےسینٹر ٹیبل کے شیشے کے کنارے پر اپنی انگلی پھیرتے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
"بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میری دعا اور توبہ قبول ہوگئی۔" وہ رکا۔
"مگر اس دن۔۔۔۔۔ میں آمنہ کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کررہا تھا تو مجھے اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ میری دعا اور توبہ کچھ بھی قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہوتا تو مجھے امامہ ملتی، آمنہ نہیں۔ خواہش تو اللہ انسان کو وہ دے دیتا ہے کہ معجزوں کے علاوہ کوئی چیز جسے پورا کر ہی نہیں سکتی۔ میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا۔ ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے۔ جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے، جسے میں نو سال سے ڈھونڈ رہا ہوں مگر اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔
اور میں۔۔۔۔۔ میں خواہش لئے پھر رہا ہوں اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی۔ یوں جیسے وہ مل ہی جائے گی، یوں جیسے وہ مل گئی تو میرے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائے گی، یوں جیسے وہ جلال انصرکو بھلا چکی ہوگی۔ ولیوں جتنی اور ولیوں جیسی عبادت کرتا تو شاید اللہ میرے لئے یہ معجزے کردیتا پر میرے جیسے آدمی کے لئے۔۔۔۔۔ میری اوقات تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بخشش مانگتے ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوکر بھی اسے ہی مانگتا رہا۔ شاید اللہ کو یہی برا لگا۔"
امامہ کے جسم سے ایک کرنٹ گزرا تھا۔ ایک جھماکے کی طرح وہ خواب اسے یاد آیا تھا۔
"میرے اللہ!" اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لئے تھے۔ وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔ "کیا وہ یہ شخص تھا، یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے، یہ آدمی؟" اس نے خواب میں اس آدمی کو جلال سمجھا تھا مگر اسے یاد آیا جلال دراز قد نہیں تھا، وہ آدمی دراز قد تھا۔ سالار سکندر دراز قد تھا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ جلال کی رنگت گندمی تھی۔ اس آدمی کی رنگت صاف تھی۔ سالار کی رنگت صاف تھی۔ اس نے خواب میں اس آدمی کے کندھے پر ایک تیسری چیز بھی دیکھی تھی۔ وہ تیسری چیز؟
اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔
وہ معجزوں کے نہ ہونے کی باتیں کررہا تھا اور ۔۔۔۔۔ اندر ڈاکٹر سبط علی خاموش تھے۔ وہ کیوں خاموش تھے۔ یہ صرف وہ اور امامہ جانتے تھے، سالار سکندر نہیں۔ امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔
نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔
اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔
نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔
اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے سوچا۔ اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اسے صالح آدمی کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی وہ یہ بات کس لئے کہہ رہے تھے۔ وہ سالار کو نہیں بتارہے تھے۔ وہ امامہ کو بتا رہے تھے۔ وہ اسے صالح قرار نہ بھی دیتے تب بھی وہ اسے صالح ماننے پر مجبور تھی۔
اس کے پاس جو گواہی تھی وہ دنیا کی ہر گواہی سے بڑھ کر تھی۔ اس کے پاس جو ثبوت تھا اس کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ اسے کیا "بتا" دیا گیا تھا، اسے کیا "جتا" دیا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔۔۔۔۔ صرف وہی جان سکتی تھی۔
افطاری کے بعد سالار اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔
وہ منہ ہاتھ دھو کر کچن میں چلی آئی۔ ان کے آنے سے پہلے اس نے ملازم کے ساتھ مل کر کھانا لگا دیا تھا۔ سالار کی واپسی کھانے کے بعد ہوئی تھی اور اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر سبط علی جس وقت کچن میں آئی، اس وقت امامہ کچن کی میز پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اب بھی متورم تھیں مگر چہرہ پرسکون تھا۔
"میں نے سالار کو آپ کے بارے میں نہیں بتایا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اب جلد از جلد اس سے مل کر بات کرلیں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا۔
"مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔" وہ پانی پیتے ہوئے رک گئی۔ "اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے اور میں اللہ کے انتخاب کو رد کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ اس نے کہا ہے کہ وہ توبہ کرچکا ہے وہ نہ بھی کرتا ویسا ہی ہوتا جیسا پہلے تھا تب بھی میں اس کے پاس چلی جاتی اگر میں جان لیتی کہ اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے۔"
وہ اب دوبارہ پانی پی رہی تھی۔ "آپ اس سے کہیں مجھے لے جائے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار جس وقت مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تب تک امامہ فرقان کی بیوی کے ساتھ کھانے کی میز پر کھانا لگا چکی تھی۔ فرقان اور سالار کی عدم موجودگی میں اس بار آمنہ اصرار کرکے اس کے ساتھ کام کرنے لگی۔
سالار کے آنے پر وہ اپنے فلیٹ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ سالار اور امامہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
"نہیں، مجھے بچوں کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ وہ بے چارے انتظار کررہے ہوں گے۔"
"آپ انہیں بھی یہیں بلوا لیں۔" سالار نے کہا۔
"نہیں بھئی، میں اس قسم کی فضول حرکت نہیں کرسکتی۔ امامہ تو پھر تمہیں پتا ہے یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے گی۔" نوشین نے اپنی بیٹی کا نام لیا۔
"سالار بڑا پیار کرتا ہے امامہ کے ساتھ۔"
فرقان کی بیوی نے امامہ سے کہا۔ ایک لمحے کے لئے سالار اور امامہ کی نظریں ملیں پھر سالار برق رفتاری سے مڑ کر ٹیبل پر پڑے گلاس میں جگ سے پانی انڈیلنے لگا۔ نوشین نے حیرانی سے امامہ کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا مگر وہ سمجھ نہیں پائیں۔
"تم لوگ کھانا کھاؤ۔ سحری بھی میں ملازم کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔ تم لوگ کچھ تیار مت کرنا۔"
ان کے جانے کے بعد سالار دروازہ بند کرکے واپس آگیا۔ امامہ کو مخاطب کئے بغیر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا لیکن اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔
امامہ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھ جانے کے بعد سالار نے اپنے سامنے پڑے پلیٹ میں چاول نکالنا شروع کئے۔ کچھ چاول نکال لینے کے بعد اس نے دائیں ہاتھ سے چاولوں کا ایک چمچ منہ میں ڈالا۔ چند لمحوں کے لئے امامہ کی نظر اس کے دائیں ہاتھ سے ہوتے ہوئےاس کے چہرے پر گئی۔ سالار اس کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی تھی۔
کھانا بہت خاموشی سے کھایا گیا۔ امامہ کو اس کی خاموشی اب بری طرح چبھنے لگی تھی۔ آخر وہ اس سے بات کیوں نہیں کررہا تھا؟
"کیا مجھے دیکھ کر اتنا شاک لگا ہے اسے؟ یا پھر؟"
اسے اپنی بھوک غائب ہوتی محسوس ہوئی۔ اسے اپنی پلیٹ میں موجود کھانا ختم کرنا مشکل لگنے لگا۔
سالار اس کے برعکس بہت اطمینان اور تیز رفتاری سے کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے جس وقت کھانا ختم کیا، اس وقت عشاء کی اذان ہورہی تھی۔
امامہ کے کھانا ختم کر کرنے کا انتظار کئے بغیر وہ میز سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔ امامہ نے اپنی پلیٹ پیچھے سرکادی۔
وہ میز پر پڑے برتن سمیٹنے لگی جب اس نے سالار کو تبدیل شدہ لباس میں برآمد ہوتے دیکھا۔ ایک بار پھر اسے مخاطب کئے بغیر وہ فلیٹ سے نکل گیا تھا۔ امامہ نے بچے ہوئے کھانے کو فریج میں رکھ دیا۔ برتنوں کو سنک میں رکھنے کے بعد اس نے میز صاف کی اور خود بھی نماز پڑھنے چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ عشاء کی نماز کے بعد جس وقت واپس لوٹا اس وقت وہ کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔ سالار اپنے پاس موجود چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ سالار لاؤنج سے گزرتے ہوئے رک گیا۔ کچن کے دروازے کی طرف امامہ کی پشت تھی اور وہ سنک کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کا دوپٹہ لاؤنج کے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔
سالار نے پہلی بار اسے سعیدہ اماں کے ہاں کچھ گھنٹے پہلے دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا اور اب وہ ایک بار پھر اسے دوپٹے کے بغیر دیکھ رہا تھا۔
نوسال پہلے وضو کرتے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار امامہ کو اس چادر کے بغیر دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی جو وہ اوڑھے رکھتی تھی۔ نوسال بعد اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے نوسال میں کئی بار اسے اپنے گھر میں "محسوس" کیا تھا مگر آج جب وہ اسے وہاں "دیکھ" رہا تھا تو وہ دم بخود تھا۔ اس کے سیاہ بال ڈھیلے ڈھالے انداز میں جوڑے کی شکل میں لپیٹے گئے تھے اور سفید سویٹر کی پشت پر وہ یکدم بہت نمایاں ہوگئے تھے۔
نکاح نامے پر آمنہ مبین ولد ہاشم مبین احمد کو اپنی بیوی کے طور پر تسلیم کرنے کا اقرار کرتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا تھا نہ ہی ہاشم مبین احمد کے نام نے اسے چونکایا تھا۔ وہ سعیدہ اماں کی "بیٹی" سے شادی کررہا تھا۔ اس کا نام امامہ ہاشم بھی ہوتا تب بھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ کبھی نہیں آتا کہ یہ وہی امامہ تھی، کوئی اور نہیں اور اسے سعیدہ اماں کے صحن میں کھڑا دیکھ کر اسے ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس کا نکاح کس سے ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟"
خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے نلکا بند کردیا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ اگر مڑنے کی کوشش کرتی تو اس کا کندھا ضرور اس کے سینے سے ٹکرا جاتا۔ اس نے مڑنے کی کوشش نہیں کی۔
وہ اپنی گردن کی پشت پر اس کے سانس لینے کی مدھم آواز سن سکتی تھی۔ وہ اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ سنک کے کناروں پر ہاتھ جمائے وہ نلکےسے گرتے ہوئے چند آخری قطروں کو دیکھتی رہی۔
"کیا ان سالوں میں ایک بار بھی تم نے میرے بارے میں سوچا؟ سالار کے بارے میں؟"
اس کے سوال مشکل ہوتے جارہے تھے۔ وہ ایک بار پھر چپ رہی۔
"What is next to ecstasy؟" وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کہہ رہا تھا۔
"تم نے کہا تھا pain تم نے ٹھیک کہا تھا It was pain "
وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔
"میں یہاں اس گھر میں ہر جگہ تمہیں اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ اب تم میرے سامنے ہو تو مجھے یقین نہیں آرہا۔"
امامہ نے سنک کے کناروں کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو روکنے کے لئے وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
"مجھے لگتا ہے، میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھولوں گا تو۔۔۔۔۔"
وہ رکا۔ امامہ نے آنکھیں بند کرلیں۔
"تو سب کچھ ہوگا، بس تم نہیں ہوگی۔ آنکھیں بند کروں گا تو۔۔۔۔۔"
امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے گال بھیگ رہے تھے۔
"تو بھی اس خواب میں دوبارہ نہیں جا پاؤں گا۔ تم وہاں بھی نہیں ہوگی، مجھے تمہیں ہاتھ لگاتے ڈر لگتا ہے۔ ہاتھ بڑھاؤں گا تو سب کچھ تحلیل ہوجائے گا جیسے پانی میں نظر آنے والا عکس۔"
"اور تم ہو کون امامہ۔۔۔۔۔؟ آمنہ۔۔۔۔۔؟ میرا وہم۔۔۔۔۔؟ یا پھر کوئی معجزہ؟"
"کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تم سے۔۔۔۔۔"
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ امامہ کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے چہرے کو بھگوتا ہوا اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہا تھا۔ وہ کیوں رکا تھا، وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے زندگی میں کبھی خاموشی اتنی بری نہیں لگی تھی جتنی اس وقت لگی تھی۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ وہ اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی اور تب اسے پتا چلا کہ وہ کیوں خاموش ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے قریب کہ وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظر آنے والے اپنے اپنے عکس کو بھی دیکھ سکتے تھے پھر سالار نے نظریں چرانے کی کوشش کی تھی۔
وہ اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کررہا تھا۔
"تم مجھ سے اور میں تم سے کیا چھپائیں گے سالار! سب کچھ تو جانتے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں۔"
امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار نے ہاتھ روک کر سراٹھایا۔
"میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ میں آنسوؤں کو صاف کررہا ہوں تاکہ تمہیں اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تم پھر کسی دھند میں لپٹی ہوئی نظر نہ آؤ۔"
وہ اس کے کان کی لو میں لٹکنے والے ان موتیوں کو دیکھ رہا تھا جنہیں اس نے بہت سال پہلے بھی دیکھا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ آج وہ بہت قریب تھے۔ ایک بار ان موتیوں نے اسے بہت رلایا تھا۔ وہ موتی آج بھی رلا رہے تھے، اپنے ہر ہلکورے کے ساتھ، وہم سے جنبش، جنبش سے وہم بنتے ہوئے۔
وہ اپنے کانوں کی لوؤں پر اس کی محویت محسوس کررہی تھی۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں کبھی تمہارے اتنے قریب کھڑے ہوکر تم سے بات کروں گی۔"
وہ مسکرایا لیکن نم آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ امامہ نے اس کے دائیں گال میں چند لمحوں کے لئے ابھرنے والا گڑھا دیکھا۔ مسکراتے ہوئے اس کے صرف ایک گال میں ڈمپل پڑتا تھا، دائیں گال میں اور نو سال پہلے امامہ کو اس ڈمپل سے بھی بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ نوسال کے بعد اس ڈمپل نے پہلی بار عجیب سے انداز میں اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
"میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی تمہارے کان میں موجود ائیررنگ کو ہاتھ لگاؤں گا اور تم۔۔۔۔۔"
وہ اب اس کے دائیں کان میں ہلکورے لیتے ہوئے موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے روک رہا تھا۔
"اور تم۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک تھپڑ نہیں کھینچ مارو گی۔"
امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اگلے لمحے وہ گیلے چہرے کے ساتھ بے اختیار ہنسی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔
"تمہیں ابھی بھی وہ تھپڑ یاد ہے۔ وہ ایک reflex action تھا اور کچھ نہیں۔"
امامہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے بھیگے گالوں کو صاف کیا۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ڈمپل ایک بار پھر نمودار ہوا۔ اس نے بہت آہستگی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے ہاتھ تھام لیے۔
"تم جاننا چاہتے ہو کہ میں اتنے سال کہاں رہی، کیا کرتی رہی، میرے بارے میں سب کچھ؟"
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ رہا تھا۔
"میں کچھ جاننا نہیں چاہتا، کچھ بھی نہیں۔ تمہارے لئے اب میرے پاس کوئی اور سوال نہیں ہے۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم میرے سامنےکھڑی ہو، میرے سامنے تو ہو۔ میرے جیسا آدمی کسی سے کیا تحقیق کرے گا۔"
امامہ کے ہاتھ سالار کے سینے پر اس کے ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔ پانی نے اس کے ہاتھوں کو سرد کردیا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ کیوں اس کے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے تھا۔ لاشعوری طور پر وہ اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بڑا کسی بچے کے سرد ہاتھوں میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ سویٹر کے نیچے سے اس کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرسکتی تھی۔ وہ بے ترتیب تھی۔ تیز۔۔۔۔۔۔ پرجوش۔۔۔۔۔ کچھ کہتی ہوئی۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہوئی۔۔۔۔۔ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اس وقت اس کے دل تک پہنچی ہوئی تھی، اسے شبہ نہیں تھا۔
وہ شخص اس سے محبت کرتا تھا، کیوں کرتا تھا؟ اس کا جواب سامنے کھڑا ہوا شخص بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے اس شخص سے یہ سوال کیا بھی نہیں تھا۔ سالار کی آنکھیں پرسکون انداز میں بند تھیں نہ بھی ہوتیں تب بھی ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اب اسے کوئی الجھن نہیں ہورہی تھی۔ ان آنکھوں میں جو کچھ نو سال پہلے تھا اب نہیں تھا۔ جو اب تھا وہ نو سال پہلے نہیں تھا۔
"ہم کیا ہیں، ہماری محبتیں کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیا پاتے ہیں۔"
اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی اترنے لگی تھی۔
"جلال انصر۔۔۔۔۔ اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ خواب سے حقیقت۔۔۔۔۔ حقیقت سے خواب۔۔۔۔۔ زندگی کیا اس کے سوا اور کچھ ہے؟"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا۔ وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے تہجد ادا کی تھی۔ وہ تہجد کے نوافل کے بعد وہاں سے چلے جایا کرتے تھے۔ آج نہیں گئے، آج وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان بہت لوگ تھے اور بہت فاصلہ تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں جہاں بیٹھتے تھے وہاں سے وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔
وہاں بیٹھتے وقت ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی خواب تھا۔ وہ اس رات کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حرم پاک کے فرش پر اس جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے سالار سورۃ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا۔ امامہ جان بوجھ کر اس کے برابر بیٹھنے کی بجائے بائیں جانب اس کے عقب میں بیٹھ گئی۔ سالار نے تلاوت کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے برابر والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ امامہ اٹھ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ اب خانہ کعبہ کے دروازے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔
امامہ بھی خانہ کعبہ کو دیکھنے لگی۔ وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے اس خوش الحان آواز کو سنتی رہی جو اس کے شوہر کی تھی۔ فبای الاء ربکما تکذبان۔
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
نوسال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔
"ساری دنیا کی ذلت اور رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔"
انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔
"تمہارے جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔"
امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
"ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹو گی۔ منت سماجت کرو گی۔ گڑگڑاؤ گی۔ تب ہم تمہیں دھتکار دیں گے۔ تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی۔ کہو گی کہ میں غلط تھی۔"
امامہ اشک بار آنکھوں سے مسکرائی۔
"میری خواہش ہے بابا!۔" اس نے زیر لب کہا۔ "کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتا دوں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر ﷺ نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیرکامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد ﷺ کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔"
سالار نے سورۃ رحمٰن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے رکا پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوئے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔
سالار نے اٹھنا چاہا، وہ اٹھ نہیں سکا۔ امامہ نے بہت نرمی کے ساتھ اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنےلگا۔
"یہ جو لوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئی وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہے؟"
رات کے اس پچھلے پہر نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
"محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نو سال پہلے میں نے جب جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں، کیا تھا جو میں نے نہیں کر چھوڑا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔"
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔
"پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔"
سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔ سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔
"مجھے اب لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا تھا۔ وہ مجھے کسی ایسے شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جو میری ناقدری کرتا، مجھے ضائع کرتا اور جلال، وہ میرے ساتھ یہی سب کچھ کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔ نو سال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتا دی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھا دیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے کر آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔"
وہ بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ "مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی، میں نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔" اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔ وہ اب سر جھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔
سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک بخش دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے نو سال اس نے ہر وقت اور ہرجگہ دعا کی تھی۔
کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا۔ اسے اس عورت کا کفیل بنا دیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔
امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی، جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرف نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ وہ حرم پاک میں بیٹھے اور چلتے لوگوں کی قطاروں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔
وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہا تھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔ گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے باوجود اس نے صرف اللہ کا کرم دیکھا تھا اور اس کے باوجود اس وقت کوئی اس سے زیادہ اللہ کے غضب سے خوف نہیں کھا رہا تھا۔ وہ شخص جس کا آئی کیو لیول 150 تھا اور جو فوٹوگرافک میموری رکھتا تھا نوسال میں جان گیا تھا کہ ان دونوں چیزوں کے ساتھ بھی زندگی کے بہت سارے مقامات پر انسان کسی اندھے کی طرح ٹھوکر کھا کر گرسکتا تھا۔ وہ بھی گرا تھا بہت بار۔۔۔۔۔ بہت مقامات پر۔۔۔۔۔ تب اس کا آئی کیولیول اس کے کام آیا تھا نہ اس کی فوٹوگرافک میموری۔
ساتھ چلتی ہوئی لڑکی وہ دونوں چیزیں نہیں رکھتی تھی۔ اس کی مٹھی میں ہدایت کا ایک ننھا سا جگنو تھا اور وہ اس جگنو سے امڈتی روشنی کے سہارے زندگی کے ہر گھپ اندھیرے سے کوئی ٹھوکر کھائے بغیر گزر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔