بھیانک آدمی


روشی اسے بہت دیر سے دیکھ رہی تھی! وہ سر شام ہی ہوٹل میں داخل ہوا تھا اور اب سات بج رہے تھے۔ سمندر سے آنے والی ہوائیں کچھ بوجھل سی ہو گئی تھیں۔

جب وہ ہوٹل میں داخل ہوا تو روشی کی میز کے علاوہ اور ساری میزیں خالی پڑی تھیں۔ لیکن اب ہوٹل میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔

وہ ایک خوبصورت اور جامہ زیب نوجوان تھا۔ لیکن یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بنا پر روشی اس کی طرف متوجہ ہو جاتی۔ اسی ہوٹل میں اس نے اب سے پہلے درجنوں خوبصورت آدمیوں کے ساتھ سینکڑوں راتیں گذاری تھیں اور اس کی وہ حس کبھی کی فنا ہو چکی تھی، جو صنف قوی کی طرف متوجہ کرنے پر اکساتی ہے۔

روشی ایک اینگلوبرمیز عورت تھی۔۔۔ کبھی لڑکی بھی رہی ہو گی لیکن اب یہ بہت پرانی بات ہو چکی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سنگاپور پر جاپانیوں نے بمباری کی تھی اور جدھر جس کے سینگ سمائے تھے بھاگ نکلا تھا۔ روشی چودہ سال کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا باپ سنگا پور کا ایک بہت بڑا تاجر تھا۔ لیکن بہت بڑے تاجر کی بیٹی ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ روشی تین دن کے فاقے کے بعد ایک کپ چائے کے عوض لڑکی سے عورت نہ بن جاتی! ہو سکتا ہے کہ اس کے باپ کو ایک کپ چائے بھی میسر نہ آئی ہو کیوں کہ اس میں لڑکی سے عورت بننے کی صلاحیت توتھی نہیں۔۔۔ بہر حال روشی اس کے انجام سے آج بھی ناواقف تھی اور اب وہ ایک پچیس سال کی پختہ کار عورت تھی! لیکن گیارہ سال قبل کی روشی نہیں تھی۔۔۔ چائے کا وہ کپ اسے آج بھی یاد تھا۔۔۔ اور وہ اب تک ایسے درجنوں آدمیوں کو ایک ایک کپ چائے کے لئے محتاج کر چکی تھی۔

اب اس کے پاس ایک عمدہ سا آرام دہ فلیٹ تھا۔ دنیا کی ساری آسائشیں میسر تھیں اور اسے یقین تھا کہ اب وہ کبھی فاقے نہیں کرے گی۔

یہ ہوٹل اس کے کاروبار کے لئے بہت موزوں تھا اور وہ زیادہ تر راتیں یہیں گذارتی تھی۔ یہ ہوٹل کاروبار کے لئے یوں مناسب تھا کہ بندرگاہ یہاں سے قریب تھی اور دن رات یہاں غیر ملکیوں کا تار بندھا رہتا تھا جن میں زیادہ تر سفید نسل کے لوگ ہوتے تھے۔۔۔ اور یہ ہوٹل چلتابھی انہی کے دم سے تھا۔ ورنہ عام شہری تو ادھر کا رخ بھی نہیں کرتے تھے۔ مگر روشی اس بنا پر بھی اس نوجوان میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی کہ وہ کوئی جہاز راں نہیں تھا۔

بات دراصل یہ تھی کہ وہ جب آیا تھا قدم قدم پر اس سے حماقتیں سرزد ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی ویٹر نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر اسے سلام کیا اس ہوٹل کے سارے ویٹر آنے والے گاہکوں کو سلام کرنا ضروری خیال کرتے تھے خواہ وہ نئے ہوں خواہ پرانے، اس نے بھ باقاعدہ طور پر نہ صرف اس کے سلام کا جواب دیا بلکہ مؤدب انداز میں کھڑے ہوکر اس سے مصافحہ بھی کرنے لگا اور کافی دیر تک اس کے بال بچوں کی خیریت پوچھتا رہا۔

پہلے اس نے چائے منگوائی۔۔۔ اور خاموش بیٹھا رہا! حتٰی کہ چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ پھر ایک گھونٹ لے کر برا سا منہ بناتے کے بعد اس نے چائے واپس کرکے کافی کا آرڈر دیا!

کافی شائد ٹھنڈی چائے سے زیادہ بدمزا معلوم ہوئی اور اس نے کچھ اس قسم کا منہ بنایا جیسے ابکائی روک رہا ہو۔ پھر اس نے کافی بھی واپس کردی اور پے در پے ٹھنڈے گلاس چڑھا گیا۔

اندھیرا پھیل گیا اور ہوٹل میں برقی قمقمے روشن ہو گئے۔ لیکن اس احمق نوجوان نے شاید وہاں سے نہ اٹھنے کی قسم کھا لی تھی۔

روشی کی دلچسپی بڑھتی رہی! وہ بھی اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی!

رات کے کھانے کا وقت ہونے سے قبل ہی میز پوش تبدیل کر دئے گئے اور میزوں پر تروتازہ پھولوں کے گلدانوں کے ساتھ ہی ایسے گلاس بھی رکھے گئے جن میں نیپکن اڑسے ہوئے تھے۔

اس بیوقوف نوجوان نے اپنی کرسی پیچھے کھسکا لی تھی اور ایک ویٹر اس کی میز بھی درست کر رہا تھا۔ ویٹر کے ہٹتے ہی وہ ایک گلاب کا پھول گلدان سے نکال کر سونگھنے لگا! وہ خیالات میں کھویا ہوا سا معلوم ہو رہا تھا اور اس نے ایک بار بھی اپنے گردوپیش نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ شائد وہ وہاں خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔

روشی اسے دیکھتی رہی اور اب وہ نہ جانے کیوں اس میں خاص قسم کی کشش محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ اس نے کئی بار اٹھنا بھی چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئی۔

اتنے میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ اور اس نوجوان نے کھانے کا آرڈر دیا۔ پھول ابھی تک اس کی چٹکی میں دبا ہوا تھا جسے وہ کبھی سونگھنے لگتا اور کبھی آنکھیں بند کرکے اس طرح سے اس گال سہلانے لگتا جیسے ضرورتاً ایسا کر رہا ہو۔
کھانا میز پر چن دیا گیا۔لیکن وہ بدستور بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ وہ اب بھی کچھ سوچ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ویٹر کے آنے اور کھانے کی موجودگی کا اسے علم ہی نہ ہو۔

روشی اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ وہ گلاب کا پھول شوربے میں ڈبو رہا ہے اور پھر وہ اسے چبا بھی گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ اس نے اتنا بُرا منہ بنایا کہ روشی کو بیساختہ ہنسی آگئی۔ اس کے منہ سے کچلے ہوئے پھول کے ٹکڑے پھسل پھسل کر گر رہے تھے۔

"بوائے"۔ اس نے رو دینے کے سے انداز میں ویٹر کو آواز دی اور کئی لوگ چونک کر اسے گھورنے لگے۔۔ ڈائننگ ہال اب کافی آباد ہو چکا تھا۔ شائد پانچ میزیں خالی ہوں گی۔

"سب چوپٹ" اس نے ویٹر سے گلوگیر آواز میں کہا۔ "سب لے جاؤ۔۔۔ بل لاؤ!"

ویٹر برتن سمیٹ کر واپس چلا گیا۔ لیکن اسے واپس آنے میں دیر نہیں لگی۔ نوجوان نے طشتری میں رکھے ہوئے پرچے پر نظر ڈالی اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جیبوںسے نوٹوں کی کئی گڈیاں نکل آئیں۔ جنہیں وہ میز پر ڈالتا ہوا کھڑا ہو گیا اور اب وہ اپنی اندرونی جیبیں ٹٹول رہا تھا۔
آخر اس نے ایک کھلی ہوئی گڈی نکالی اور اس میں سے سو کا ایک بڑا نوٹ کھینچ کر طشتری میں رکھ دیا۔

روشی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں اور وہ نوجوان بڑی لاپروائی سے میز پر پڑی ہوئی نوٹوں کی گڈیوں کو کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس رہا تھا۔

روشی نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اس نے دیکھا کہ ڈائننگ ہال کے سارے لوگ اس احمق کو بری طرح گھور رہے ہیں اور اس نے وہاں کچھ برے لوگ بھی دیکھے جو للچائی ہوئینظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

روشی اپنی جگہ سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس احمق کی میز کے قریب پہنچ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ ڈائننگ ہال کے بعد دوسرے ہی کمرے میں بہت ہی اعلٰی پیمانے پر جوا ہوتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی دو تین دلال اسے گھیر کر اس کمرے میں لے جائیں گے۔۔۔ اور وہ چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جائے گا۔

"کہو طوطے اچھے تو ہو!" روشی نے نوجوان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اتنے بے تکلفانہ انداز میں کہا جیسے وہ نہ صرف اس سے واقف ہو بلکہ دونوں گہرے دوست بھی ہوں۔

نوجوان چونک کر اسے احمقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹ کھلے تھے اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

"اب تم کہو گے کہ میں نے تمھیں پہچانا ہی نہیں۔" روشی اٹھلا کر بولی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ دوسری طرف قمار خانے کے دلال ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

"آہا، کیا تمہیں بولنا نہیں آتا!" روشی پھر بولی۔

"مم۔۔۔ دو۔۔۔ ہپ!" نوجوان ہکلا کر رہ گیا۔

"تم شاید پاگل ہو!" وہ میز پر کہنیاں ٹیک کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سےبولی۔ "اس خطرناک علاقے میں اپنی امارت جتاتے پھرنے کا یہی مطلب ہو سکتا ہے۔"

"خطرناک علاقہ!" نوجوان آنکھیں پھاڑ کر کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔

"ہاں میرے طوطے! کیا تم پہلی بار یہاں آئے ہو۔"

نوجوان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"کیوں آئے ہو"۔

"اس نے یہیں ملنے کا وعدہ کیا تھا!" نوجوان نے شرما کر کہا۔

"کس نے!۔۔۔ کیا کوئی لڑکی ہے!"

نوجوان نے پھر سر ہلا دیا! لیکن اس بار اس نے شرم کے مارے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں! وہ کسی ایسی کنواری لڑکی کی طرح لجا رہا تھا جس کے سامنے اس کی شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا گیا ہو!

روشی نے اس پر ترحم آمیز نظر ڈالی۔

"اگر اس نے یہاں ملنے کا وعدہ کیا ہے تو وہ کوئی اچھی لڑکی نہیں ہو سکتی!"
 
کیوں!" نوجوان چونک کر بولا۔

"لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم اتنے روپے کیوں ساتھ لئے پھر رہے ہو!" 

روشی نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔

"جب تک اتنی ہی رقم میری جیب میں نہ ہو۔۔۔ میں گھر سے باہر نہیں نکلتا۔"

اچانک ایک دلال نے روشی کو اشارہ کیا۔! غالباً اس اشارے کا یہی مطلب تھا کہ اسے قمار خانے میں لے چلو!۔۔۔ لیکن روشی نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔

"تب تو پھر ہو سکتا ہے کہ یہ تمہاری زندگی کی آخری رات ہو۔" روشی نے نوجوان سے کہا۔

"کیوں خوامخواہ ڈرا رہی ہو!" نوجوان خوف زدہ سی آواز میں بولا۔ "میں یونہی بڑا بدنصیب آدمی ہوں۔ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتا! کوئی چیز ٹھنڈی معلوم ہوتی ہے اور کوئی چیز کڑوی۔ بڑا تھرڈ کلاس ہوٹل ہے میرے نانا کے گاؤں والی سرائے میں اس سے بدرجہا بہتر کھانا ملتا ہے۔"

روشی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔کچھ دیر خاموش رہی پھر وہ اٹھتا ہوا بولا۔ "اچھا اب میں جاؤں گا۔"

"شاید تم اس شہر کے ہی نہیں ہو۔" روشی نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔

"کیا تم غیب کی باتیں بھی بتا سکتی ہو!" نوجوان کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ پھربیٹھ گیا۔

"یہاں سے نکلنے کے بعد تمہیں سڑک تک پہنچنے کے لئے ایک ویرانہ طے کرنا پڑے گا!" روشی نے کہا۔ "ہوسکتا ہے کہ تم چیخ بھی نہ سکو اور کئی انچ ٹھنڈا لوہا تمہارے جسم میں اتر جائے۔"

"میں نہیں سمجھا۔"

"تم باہر مار ڈالے جاؤ گے بدھو!" روشی دانت پیس کر بولی۔ "کیا تم نے اس علاقے کی ہولناک وارداتوں کے متعلق اخبارات میں بھی نہیں پڑھا۔"

"میں کچھ نہیں جانتا!" نوجوان نے بے چینی سے پہلو بدل کر کہا۔
"وہ لڑکی کس وقت آئے گی!"

"اوہ اب تو آٹھ بج گئے! اس نے سات بجے ملنے کا وعدہ کیا تھا!"

"تم اسے کب سے جانتے ہو۔"

"کل سے"

"کیا مطلب!"

"ہاں ہاں کل سے! کل وہ مجھے ریلوے کے ویٹنگ روم میں ملی تھی!"

"اور تم آج یہاں دوڑے آئے! واقعی بدھو ہو۔"

"بات یہ ہے۔۔۔۔ کک۔۔۔۔ کہ۔۔۔"

"فضول باتیں نہ کرو! تمہارے لئے دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ لیکن ایک میں جان جانے کا خدشہ نہیں! البتہ لٹ ضرور جاؤ گے!"

"تمہاری کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آرہی!"

"باہر پھیلے ہوئے اندھیرے میں ایک خطرناک آدمی کی حکومت ہے اور وہ آدمی بعض اوقات یونہی تفریحاً کسی نہ کسی کو ضرور قتل کردیتا ہے! مگر تم۔۔۔ تم تو سونے کی چڑیا ہو اس لئے تمہیں جان و مان دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔"

"کس مصیبت میں پھنس گیا!" نوجوان نے گلوگیر آواز میں کہا۔

"جب تک میں کہوں خاموشی سے یہی بیٹھے رہو!" روشی نے کہا۔

"لیکن تم نے یہاں بھی کسی خطرے کا تذکرہ کیا تھا۔"

"یہاں تم لٹ جاؤ گے پیارے طوطے!" روشی نے مسکرا کر پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ "ادھر جوا ہوتا ہے اور جوئے خانے کے دلال تمہاری تاک میں ہیں۔"
"واہ۔۔۔ وا۔۔۔" احمق نے ہنس کر کہا۔" یہ تو بہت اچھی بات ہے! میں جوا کھیلنا پسند کروں گا۔ مجھے وہاں تک لے چلو۔"

"اوہ! میں سمجھی! تم یہاں جوا کھیلنے آئے ہو!"

"نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں۔۔۔ اف وہ ابھی تک نہیں آئی۔۔۔ ارے بھئی قسم لے لو۔۔۔ میں جوا کھیلنے کی نیت سے نہیں آیا تھا۔ مگر اب کھیلوں گا ضرور۔ ایسے مواقع روز روز نہیں ملتے!"

"یعنی تم حقیقتاً جواری نہیں ہو!"

"نہیں! میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ جوا کھیلا کس طرح جاتا ہے۔"

"تب پھر کیسے کھیلو گے!"

"بس کسی طرح! صرف ایک بار تجربے کے لئے کھیلنا چاہتا ہوں! سچ کہتا ہوں ایسا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا!"

"کیسا موقع!"

"بات یہ ہے!" احمق آگے جھک کر رازدارانہ انداز میں بولا۔ "نہ یہاں ڈیڈی ہیں اور نہ ممی!"

روشی بے اختیار ہنس پڑی۔ لیکن اس نوجوان کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی دیکھ کر خود بھی سنجیدہ ہو گئی اور نہ جانے کیوں اس وقت وہ خود کو بھی بیوقوف محسوس کرنے لگی تھی۔

"ڈیڈی اور ممی!" نوجوان پھر بولا "مجھے کڑی پابندیوں میں رکھتے ہیں! لیکن میں دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں اب بڑا ہو گیا ہوں نا۔۔۔ ہے کہ نہیں!۔۔۔ دیکھ لو وہ اب تک نہیںآئی۔۔۔"

"میں تمہیں جوا نہ کھیلنے دوں گی! سمجھے!"

"کیوں!۔۔۔ واہ۔۔۔ یہ اچھی رہی! تم ہوکون مجھے روکنے والی۔ میںنے آج سے پہلے کبھی تمہیں دیکھا تک نہیں۔"

"تم جوا نہیں کھیلو گے!" روشی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولی۔

"دیکھتا ہوں۔ تم کیسے روکتی ہو مجھے!"

اتنے میں قمار خانے کا ایک دلال اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کی میز کی طرف بڑھا۔ صورت ہی سے خطرناک آدمی معلوم ہورہا تھا! چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں اور خفیف سے کھلے ہوئے ہونٹوں سے دانت دکھائی دیتے تھے! آنکھوں سے درندگی جھانک رہی تھی! وہ ایک کرسی کھینچ کر روشی کے سامنے بیٹھ گیا۔

“کیا یہ تمھارے دوست ہیں!” اس نے روشی سے پوچھا۔

“ہاں!” روشی کے لہجے میں تلخی تھی۔

“کیا پہلی بار یہاں آئے ہیں۔”

ہاں۔۔۔ ہاں!” روشی جھلا گئی۔

“ناراض معلوم ہوتی ہو!” وہ لگاوٹ بھرے انداز میں بولا!

"جاؤ! اپنا دھندا دیکھو! یہ جواری نہیں ہے!”

“میں ضرور جوا کھیلوں گا!” احمق نے میز پر گھونسہ مار کر کہا!” تم مجھے نہیں روک سکتیں! سمجھیں!”

“اوہ یہ بات ہے!” دلال روشی کوگھورنے لگا! اس کی آنکھوں میں کینہ توزی کی جھلک تھی۔ پھر وہ احمق کی طرف مڑ کر بولا۔ “نہیں مسٹر آپ کو کوئی نہیں روک سکتا! آپ جیسے خوش قسمت لوگ یہاں سے ہزاروں روپے بٹور کر لے جاتے ہیں اور ان کی یہ کشادہ پیشانی آآہاہا۔۔۔ فتحمندی اور نصیب وری کی نشانی ہے! میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ کو کھیلنے کے گر بتاؤں گا۔ جیت پر صرف پندرہ فیصدی کمیشن۔۔۔ بولئے ٹھیک ہے نا!”
“بالکل ٹھیک ہے یار" احمق اس کے پھیلے ہوے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔ “اٹھو۔”
روشی خوامخواہ بور ہو رہی تھی! اسے تکلیف پہنچی تھی! نہ جانے کیوں؟ جہاں وہ تھی وہاں بیٹھی رہی! اس کے ذہن میں آندھیاں سی اٹھ رہی تھیں! بڑی عجیب بات تھی! آج اس سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ بھی زبردستی کی! لیکن اس کے باوجود بھی وہ محسوس کر رہی تھی جیسے اس احمق کے رویے کی بنا پر برسوں پرانی دوستی ٹوٹ گئی ہو! اس نے اس کا کہنا کیوں نہیں مانا! اس کی بات کیوں رد کردی۔

پھر اسے اپنی حماقت پر ہنسی آنے لگی۔ آخر وہ اسے منع کرنے والی ہوتی ہی کون ہے!۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ وہ کون ہے۔ کہاں سے آیا ہے؟ کل کہاں ہوگا؟ ایسے آدمی کے لئے اس قسم کا جذبہ رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے اس سے پہلے ایک نہیں سینکڑوں آدمیوں سے مل چکی تھی اور انہیں اچھی طرح لوٹتے وقت بھی اس کے دل میں رحم کا جذبہ بیدار نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس احمق نوجوان کو دوسروں کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کی انسانیت جاگ اٹھی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا کوئی نالائق لڑکا اس کا دل توڑ گیا ہو۔

“وہ جہنم میں جائے!” وہ آہستہ سے بڑبڑائی اور ویٹر کو بلا کر ایک پگ وہسکی کا آرڈر دیا۔

پھر اس نے اس طرح اپنے سر کو جھٹکا دیا جیسے اس احمق آدمی کے تصور سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہو۔

اس نے سوچا کہ وہ پی چکنے کے بعد یہاں سے اٹھ ہی جائے گی! ضرور ہی اٹھ جائے گی ۔

لیکن اٹھ جانے کا تہیہ کرلینے کے باوجود بھی وہ وہیں بیٹھی رہی۔۔۔ سوچتی رہی۔۔۔ اسی احمق نوجوان کے متعلق۔۔۔ ایک گھنٹہ گزر گیا اور پھر وہ اسے دوبارہ دکھائی دیا۔

وہ قمار خانے کے دروازے میں کھڑا اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ رہا تھا دونوں کی نظریں ملیں اور وہ تیر کی طرح اس میز کی طرف آیا۔

"تم ٹھیک کہتی تھیں " وہ ایک کرسی پربیٹھ کر ہانپستاہوا بولا۔ " میں نے تین ہزار روپے کھو دیئے!"

روشی اسے گھورتی رہی پھر دانت پیس کر بولی۔ "جاؤ چلے جاؤ! ورنہ الٹا ہاتھ رسید کردوں گی۔"

"نہیں۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ باہر خطرہ ہے۔!"

روشی خاموش ہو گئی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔!

"بتاؤ میں کیا کروں۔" احمق نے پھر کہا۔

"جہنم میں جاؤ۔"

"میں بھی کتنا گدھا ہوں!" احمق خود سے بولا " بھلا یہ بیچاری کیا بتائے گی۔"

احمق کرسی سے اٹھ گیا! روشی بری طرح جھلائی ہوئی تھی! اس نےذرہ برابر بھی پرواہ نہ کی۔ وہ اسے باہر جاتے دیکھتی رہی۔ حتٰی کہ وہ صدر دروازے سےگذر گیا!"

اچانک اس کے خیالات کی رو پلٹی اور وہ پھر اس کیلئے بے چین ہوگئی! اس کے ذہن میں باہر کے اندھیرے کا تصور رینگنے لگا او روہ مضطربانہ انداز میں اٹھ کھڑی ہوگئی!۔۔۔ وہ پھر اس احمق کے متعلق سوچ رہی تھی! اس نے صرف تین ہزار گنوائے تھے لیکن اس کے بعد بھی اس کی جیبوں میں کافی رقم ہوگی! وہ بڑے نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔۔۔ یقینا تیس یا چالیس ہزار ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔۔۔!

اس نے بڑی تیزی سے اپنا وینٹی بیگ اٹھایا اور ہوٹل سے نکل گئی۔ باہر اندھیرے کی حکمرانی تھی۔ کافی فاصلے پر ایک تاریک سایہ نظر آرہا تھا! متحرک سایہ۔۔۔ جو اس احمق کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ سامنے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے اور بائیں طرف گھنی جھاڑیوں کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ سڑک تک پہنچنے کے لئے ان ٹیلوں کے درمیان سے گزرنا ضروری تھا! لیکن موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وقت اس کے لئے موزوں نہیں تھا! خود پولیس اس علاقے کو خطرناک قرار دے چکی تھی!

روشی دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ کیوں نہ اس نے اس کو ادھر جانے سے باز رکھا ۔ اس نے اسے وہ راستہ کیوں نہ بتا دیا جو بندرگاہ کی طرف جاتا تھا۔

اب وہ اس الجھن میں پڑگئی تھی وہ اسے کس طرح آواز دے۔ وہ اس کے نام سے بھی واقف نہیں تھی!

اچانک اسے تھوڑے ہی فاصلے پرایک دوسرا سایہ دکھائی دیا جو پہلے سائے کے پیچھے تھا اور یک بیک کسی ٹیلے کی اوٹ سے نمودار ہوا تھا! پھر اس نے اسے اگلے سائے پر جھپٹتے دیکھا۔ اور وہ اپنی بے ساختہ قسم کی چیخ کو کسی طرح نہ دبا سکی جو اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی سناٹے میں دور تک لہراتی چلی گئی تھی!
 

روشی وہیں بیٹھی رہ گئی اور وہ دونوں اٹھ کر قمار خانے کی طرف چلے گئے
 
دونوں سائے گھتے ہوئے زمین پر گرے۔ پھر ایک فائر ہوا اور ایک سایہ اچھل کر جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔ 
روشی بدحواسی میں سیدھی دوڑی چلی گئی۔

اس نے تاروں کی چھاؤں میں ایک آدمی کو زمین پر پڑے دیکھا۔ دوسرا غائب ہو چکا تھا۔

اسے یقین تھا کہ وہ اس احمق آدمی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔
"
کیا ہوا!" وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں اس پر جھک پڑی۔

"نیند آ رہی ہے!‘ احمق نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

"اٹھو!" وہ اسے جھنجھوڑنے لگی۔ "بھاگو پوری قوت سے ہوٹل کی طرف بھاگو!"

احمق اچھل کر کھڑا ہوگیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے روشی کو کندھے پر لاد کر ہوٹل کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ روشی "ارے ارے" ہی کرتی رہ گئی!

پھر تھوڑی دیر بعد ہی دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہانپ رہے تھے اور وہ ہوٹل کے صدر دروازے کے قریب تھے! فائر اور چیخ کی آواز سن کر یہاں پہلے ہی سے بھیڑ جمع ہو گئی تھی!

"کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔" روشی نے اس سے پوچھا۔

"چوٹ آئی نہیں بلکہ چوٹ ہوگئی! میں اس وقت کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں!"

ہوٹل کا مینیجر انہیں اندر لایا اور سیدھا اپنے کمرے میں لیتا چلا گیا۔

"آپ نے بڑی غلطی کی ہے!" اس نے احمق سے کہا۔

"ارے جناب! میں شام کو ادھر ہی آیا تھا!"

"کیا آپ نے سڑک کے کنارے لگے ہوئے بورڈ پر نظر نہیں ڈالی تھی جس پر تحریر ہے کہ سات بجے کے بعد اس طرف جانے والوں کی جان وہ مال کی حفاظت نہیں کی جاسکتی! یہ بورڈ محکمہ پولیس کی طرف سے نصب کرایا گیا ہے۔"

"میں نے نہیں دیکھا تھا!"

"کتنی رقم گئی!" مینیجر نے متاسفانہ لہجے میں پوچھا۔

"سینتالیس ہزار۔۔۔!"

"میرے خدا!" مینیجر کی آنکھیں متحیرانہ انداز میں پھیل گئیں!

"اور تین ہزار میں آپ کے قمار خانے میں ہار گیا۔"

"مجھے افسوس ہے!" مینیجر نے مغموم انداز میں کہا۔ "مگر جوا تو مقدر کا کھیل ہے ہو سکتا ہے کہ کل آپ چھ ہزار کی جیت میں رہیں۔"

وہ دونوں مینیجر کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ ایک بار پھر لوگ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگے تھے! لیکن روشی اسے ان کے نرغے سے صاف نکال لے گئی۔

وہ دوسری طرف کے دروازے سے پیدل بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے۔

"کیوں طوطے اب کیا خیال ہے۔" روشی نے اس سے پوچھا۔

"اب خیال یہ ہے کہ میں اپنے روپے وصول کئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا! پچاس ہزار کی رقم تھوڑی نہیں ہوتی۔۔۔"

"لیکن تم اتنی رقم لے کرآئے ہی کیوں تھے۔"
 
"مجھے پچاس بھینیسں خریدنی تھیں!" 

"بھینسیں!" 

"ہاں بھینسیں۔۔۔ اور میں ان بھینسوں کے بغیر واپس نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ڈیڈی ذرا غصہ ور قسم کے آدمی ہیں!" 

"کیا وہ بھینسوں کی تجارت کرتے ہیں!" 

"نہیں۔ انہیں بھینسوں سے عشق ہے!" احمق نے سنجیدگی سے کہا اور روشی بے ساختہ ہنس پڑی۔ 

"ہائیں تم مذاق سمجھی ہو کیا!" احمق نے حیرت سے کہا۔ "یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے گردو پیش سے زیادہ بھینسیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں!" 

"وہ اور کیا کرتے ہیں! یعنی ذریعہ معاش کیا ہے!" 

"یہ تو مجھے نہیں معلوم!" 

"اب تمہارے پاس کتنی رقم ہے۔" 

"شاید ایک چونی! رقم کی فکر نہ کرو۔ میں ایک ایک پائی وصول کرلوں گا!" 

"کس سے!" 

"جس نے چھینی ہے اس سے!" 

"طوطے تم بالکل گدھے ہو!" روشی ہنسنے لگی۔ "پتہ نہیں زندہ کیسے ہو! وہ آدمی اپنے شکاروں کو زندہ نہیں چھوڑتا۔" 

"وہ آخر ہے کون!" 

"کوئی نہیں جانتا۔ پولیس والے اس علاقے میں قدم رکھتے ہوئے تھراتے ہیں! وہ اب تک نہ جانے کتنے آفیسروں کو جان سے مار چکا ہے۔" 

"ہوسکتا ہے۔۔۔ مگر میں اپنے روپے وصول کر لوں گا۔" 

"کس طرح بڈھے طوطے۔" 

"کل سرشام ہی ان جھاڑیوں میں چھپ جاؤں گا۔" 

روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی! 

"طوطے تم سچ مچ پاگل ہو!" اس نے کہا۔ "یہ بتاؤ تمہارا قیام کہاں ہے!" 

"ہوٹل نبراسکا میں!" 

"لیکن اب تمہاری جیبیں خالی ہو چکی ہیں! وہاں کیسے رہو گے۔" 

"اس کی فکر نہیں! وہاں سے کسی خیراتی مسافر خانے میں چلا جاؤں گا، لیکن بھینسوں کے بغیر واپسی ناممکن ہے!"
روشی خاموش ہو گئی۔ بندرگاہ کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیکسی رکوائی۔ 

"چلو بیٹھو!" 

"مجھے بھوک لگ رہی ہے!" 

"تو اب تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کھانا بھی کھلاؤں۔" روشی اسے ٹیکسی میں دھکیلتے ہوئے بولی۔ 
وہ دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور ٹیکسی چل پڑی۔ 

"تم یہ نہ سمجھو کہ میں مفلس ہوں۔ میں نے یہ کہا تھا کہ میری جیب میں ایک چونی ہے۔ لیکن ٹھہرو میں الو نہیں ہوں! پردیس میں اپنا سارا روپیہ ایک جگہ نہیں رکھتا!" 

احمق خاموش ہو کراپنے جوتے کا فیتہ کھولنے لگا۔ اس نے دونوں جوتے اتار دیے اور انہیں الٹا کر کے جھٹکنے لگا! دوسرے لمحے اس کے ہاتھ پر دو نوٹوں کی گڈیاں تھیں!" 

٬یہ ڈھائی ہزار ہیں!" احمق نے بڑی سادگی سے کہا۔ 

"اگر اب میں انہیں ہتھیا لوں تو!" روشی مسکرا کر بولی۔ 

"تم ہرگز ایسا نہیں کرسکتیں۔ میں تمہیں ڈرا دوں گا۔" 

"ڈرا دو گے!" 

"ہاں میرے پاس ریوالور ہے اور میں نے اس آدمی پر فائر بھی کیا تھا۔" 

"کیا تمہارے پاس لائسنس ہے۔" 

"میں لائسنس وغیرہ کی پروا نہیں کرتا۔۔۔ یہ دیکھو میں جھوٹ نہیں کہہ رہا۔" 

احمق نے جیب سے ریوالور نکال کر روشی کی طرف بڑھا دیا۔ اور روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی۔ 

ریوالور کی چرخی میں پٹاخوں کی ریل چڑھی ہوئی تھی اور وہ ساڑھے چار روپے والا ٹوائے ریوالور تھا۔ 

"طوطے!" اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم آدمیوں کے کس ریوڑ سے تعلق رکھتے ہو!" 

"دیکھو! تم بہت بڑھتی جا رہی ہو۔" احمق غصےمیں بولا۔ "ابھی تم مجھے طوطا کہتی رہی ہو لیکن میں کچھ نہں بولا تھا۔۔۔ لیکن اب جانور کہہ رہی ہو!" 

"نہیں میں نے جانور تو نہیں کہا۔" 

"پھر ریوڑ کا کیا مطلب ہوتا ہے! بھینس میرے ڈیڈی کی کمزوری ہے! میری نہیں۔" 

"پھر بھی تم طوطے سے مشابہت رکھتے ہو!" روشی نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔ 

"ہرگز نہیں رکھتا۔۔۔ تم جھوٹی ہو۔۔۔ تم اسے ثابت نہیں کرسکتیں کہ میں طوطے سے مشابہت رکھتا ہوں۔" 

"پھر بھی ثابت کردوں گی! یہ بتاؤ کہ تم۔۔۔!" 

لیکن جملہ پورا ہونے سے قبل ہی اس کی آواز ایک بے ساختہ قسم کی چیخ میں تبدیل ہوگئی! 

برابر سے گزرتی ہوئی ایک کار سے فائر ہوا تھا۔ 

"روکو۔۔۔ ڈرائیور۔۔۔ روکو۔" احمق چیخا۔ 

کار ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ ڈرائیور پہلے ہی خوف زدہ ہو گیا تھا۔
دوسری کار فراٹے بھرتی ہوئی اندھیرے میں گم ہوگئی۔ اس کی عقبی سرخ روشنی بھی غائب تھی! احمق روشی پر جھکا ہوا تھا۔ 

"عورت۔۔۔ اے عورت۔۔۔ ار۔۔۔ لل۔۔۔ لڑکی!" وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔

روشی کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ اس طرح ہانپ رہی تھی۔ جیسے گھونسلے سے گرا ہوا چڑیا کا بچہ ہانپتا ہے!

عمران کے جھنجھوڑنے پر بھی اس کے منہ سے آواز نہ نکلی۔

"ارے کچھ بولو بھی۔۔۔ کیا گولی لگی ہے۔"

روشی نے نفی میں سر ہلادیا۔

یہ حقیقت تھی کہ وہ صرف سہم گئی تھی! اس نے قریب سے گزرتی ہوئی کار کی کھڑکی میں شعلے کی لپک دیکھی تھی۔۔۔ اور پھر فائر کی آواز۔۔۔ ورنہ گولی تو شاید ٹیکسی کی چھت پر پھسلتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔

"یہ کیا تھا صاحب!" ڈرائیور نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"پٹاخہ۔۔۔!" احمق سرہلا کر بولا۔ "میرے ایک شریر دوست نے مذاق کیا ہے!۔۔۔ چلو آگے بڑھاؤ! ہاں۔۔۔ لیکن اندر کی روشنی بجھا دو۔ ورنہ وہ پھر مذاق کرے گا۔"

پھر وہ روشی کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔ "گھر کا پتہ بتاؤ۔۔۔ تاکہ تمہیں وہاں پہنچا دوں!"

روشی سنبھل کر بیٹھ گئی! اس کی سانسیں ابھی تک چڑھی ہوئی تھیں!

"کیا یہ وہی ہو سکتا ہے!" احمق نے آہستہ سے پوچھا۔

"پتہ نہیں۔" روشی ہانپتی ہوئی بولی۔

"تو اب یہ مستقل طور پر پیچھے پڑ گیا!" احمق نے بڑے بھولپن سے پوچھا۔

"اوہ۔۔۔ طوطے! اب میری زندگی بھی خطرے میں ہے!"

"ارے۔۔۔ تمہاری کیوں؟"

"وہ پاگل ہے جس کے بھی پیچھے پڑ جائے ہرحال میں مار ڈالتا ہے! اسیے کیس بھی ہو چکے ہیں کہ بعض لوگ اس کے پہلے حملے سے بچ جانے کے بعد دوسرے حملے میں مارے گئے ہیں!"

"آخر وہ ہے کون؟ اور کیا چاہتا ہے؟ روپے تو وہ چھین چکا! پھر اب کیا چاہئے؟"

"میں نہیں جانتی کہ وہ کون ہے کہ اور کیا کیا چاہتا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ تمہاری حماقتوں کی وجہ سے ہوا!"

"یعنی تم چاہتی ہو کہ میں چپ چاپ مر جاتا!" احمق نے بڑی سادگی سے سوال کیا۔

"نہیں طوطے! تمہیں اس طرح اپنی امارت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا!"

"مجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں کے لوگ پچاس ہزار جیسی حقیر رقم پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں!"

"تم اسے حقیر رقم کہتے ہو۔" روشی نے حیرت سے کہا۔ "ارے میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنی رقم یکمشت نہیں دیکھی۔۔۔ طوطے! تم آدمی ہو یا ٹکسال۔۔۔"

"چھوڑو اس تذکرے کو! تم کہہ رہی تھیں کہ تم خود کو خطرے میں محسوس کر رہی ہو!"

"ہاں یہ حقیقت ہے!"

"کہو تو میں یہ رات تمہارے ساتھ ہی گذاروں!"

"اوہ طوطے ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ایک بات میں نے ضرور مارک کی ہے! تم بالکل طوطے ہونے کے باوجود بھی لاپرواہ اور نڈر ہو! لیکن تمہارا یہ ریوالور ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکا۔"

"اچھا تو پھر۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہی چل رہا ہوں! لیکن کیا تمہارے گھر پر کچھ کھانے کو مل سکے گا!"
 
"دیکھو یہ رہا میرا چھوٹا سا فلیٹ!" روشی نے کہا۔

وہ دونوں فلیٹ میں داخل ہو چکے تھے اور احمق اتنے اطمینان سے ایک ایک صوفے میں گر گیا تھا جیسے وہ ہمیشہ سے یہیں رہتا آیا ہو!

"یہ مجھے اس صورت میں اور زیادہ اچھا معلوم ہوگا اگر کھانے کو کچھ مل جائے!" احمق نے سنجیدگی سے کہا۔

"اس کے لئے تمہیں میرا ہاتھ بٹانا پڑے گا! میں یہاں تنہا رہتی ہوں!"

تقریبا ایک گھنٹے بعد وہ کھانے کی میز پر تھے اور احمق بڑھ بڑھ کر ہاتھ مار رہا تھا۔

"اب مزا آرہا ہے!" وہ منہ چلاتا ہوا بولا۔ "اس ہوٹل کے کھانے بڑے واہیات ہوتے ہیں!"

"طوطے۔۔۔ کیا تم حقیقتا ایسے ہی ہو جیسے نظر آتے ہو۔" وہ اسے غور سے دیکھنے لگی!

"میں نہیں سمجھا!"

"کچھ نہیں۔ میں نے ابھی تک تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں! "

"تو اب پوچھ لو۔۔۔ لیکن مجھے اپنا نام قطعی پسند نہیں!"

"کیا نام ہے!"

"عمران۔۔۔ علی عمران!"

"کیا کرتے ہو!"

"خرچ کرتا ہوں! جب پیسے نہیں ہوتے تو صبر کرتا ہوں!"

"پیسے کہاں سے آتے ہیں۔"

"آہ۔۔۔"عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "یہ بڑا بیڈھب سوال ہے اگر کسی انٹرویو مین پوچھ لیا جائے تو مجھے نوکری سے مایوس ہونا پڑے۔ میں بچپن سے یہی سوچتا آیا ہوں کہ پیسے کہاں سے آتے ہیں! لیکن افسوس آج تک اس کا جواب پیدا نہیں کر سکا! بچپن میں سوچا کرتا تھا شائد کلدار روپے بسکٹ سے نکلتے ہیں۔"

"بہرحال تم اپنے متعلق مجھے کچھ بتانا نہیں چاہتے!"

"اپنے متعلق میں نے سب کچھ بتا دیا ہے! لیکن تم زیادہ تر ایسی باتیں پوچھ رہی ہو جن کا تعلق مجھ سے نہیں بلکہ میرے ڈیڈی سے ہے!"

"میں سمجھی! یعنی تم خود کوئی کام نہیں کرتے!"

"اف فوہ۔۔۔! ٹھیک۔۔۔ بالکل ٹھیک!۔۔۔ بعض اوقات میرا دماغ غیر حاضر ہوتا ہے۔۔۔ غالبا مجھے تمہارے سوال کا یہی جواب دینا چاہئے تھا!۔۔۔ اچھا تمہارا کیا نام ہے!"

"روشی!"

"واقعی! تم صورت ہی سے روشی معلوم ہوتی ہو!"

"کیا مطلب؟"

"پھر وہی مشکل سوال! جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے اسے میں سمجھا نہیں سکتا! بس یونہی پتہ نہیں کیا بات ہے! غالبا مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ تمہارا نام 
گے بڑی مشکل ہے! ابھی وہ لفظ ذہن میں تھا۔۔ غائب ہو گیا۔۔۔!" 

عمران بے بسی سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

روشی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا سمجھے! نیم دیوانہ یا کوئی بہت بڑا مکار۔۔۔ مگر مکار سمجھنے کے لئے کوئی معقول دلیل اس کے ذہن میں نہیں تھی۔ اگر وہ مکار ہوتا تو اتنی بڑی رقم اس طرح کیسے گنوا بیٹھتا!

"اب آہستہ آہستہ ساری باتیں میری سمجھ میں آرہی ہیں!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا! "وہ لڑکی جو ویٹنگ روم میں ملی تھی اس بدمعاش کی ایجنٹ رہی ہوگی!۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور کیا ورنہ وہ مجھے اس ہوٹل میں کیوں بلاتی۔۔۔ مگر جوشی۔۔۔ آر۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔ اوہ۔۔۔ روشی۔۔۔ روشی! وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں تم اچھی لگنے لگی ہو! مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے تمہارے کہنے پر عمل نہ کیا۔۔۔ کیا اب تم میری مدد نہ کرو گی!"

روشی بڑے دلآویز انداز میں مسکرا رہی تھی۔

"میں کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟" اس نے پوچھا۔

"دیکھو روشی۔۔۔ روشی۔۔۔ واقعی یہ نام بہت اچھا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زبان کی نوک مصری کی ڈلی سے جا لگی ہو۔۔۔ روشی۔۔۔ واہ۔۔۔ وا۔۔۔ ہاں تو روشی میں اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس لینا چاہتا ہوں!"

"ناممکن ہے۔ تم بالکل بچوں کی سی باتیں کررہے ہو! تم نے وہ رقم بینک میں کیوں نہیں رکھوائی تھی کہ واپس مل جائے گی۔"

"کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ کیا تم نے نیپولین کی زندگی کے حالات نہیں پڑھے!"
"میرے طوطے!" روشی ہنس کر بولی۔ "تم اتنی جلدی پالنے سے باہر کیوں آگئے!"

"میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں!" عمران کسی ضدی بچے کی طرح جھلا کر بولا۔

روشی کی ہنسی تیز ہو گئی! وہ بالکل اس طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچے کو چڑا رہی ہو!

"اچھا تو میں جا رہا ہوں!" عمران بگڑ کر اٹھتا ہوا بولا۔

"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ یک بیک سنجیدہ ہوگئی۔ "چلو بتاؤ۔ کیا کہہ رہے تھے!"

"نہیں بتاتا!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ "میں کسی سے مشورہ لئے بغیر ہی نپٹ لوں گا!"

"نہیں مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو!"

"کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں اس سے اپنے روپے وصول کرنا چاہتا ہوں!"

"خام خیالی ہے بچپنا!" روشی کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ "اس علاقے میں پولیس کی بھی دال نہیں گلی! آخر تھک ہا رکر اسے وہاں خطرے کا بورڈ لگانا پڑا۔"

"کیا ہوٹل والےبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔" عمران نے پوچھا۔

"میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتی!"

"پولیس نے انہیں بھی ٹٹولا ہوگا۔"

"کیوں نہیں! عرصے تک اس ہوٹل میں پولیس کا ایک دستہ دن اور رات متعین رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطرناک آدمی کام کر ہی گذرتا تھا۔"

"روشی روشی! تم مجھے باز نہیں رکھ سکتیں!" عمران ڈائیلاگ بولنے لگا! "میں اس کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے واپس نہ جاؤں گا۔"
 
گے بڑی مشکل ہے! ابھی وہ لفظ ذہن میں تھا۔۔ غائب ہو گیا۔۔۔!" 

عمران بے بسی سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

روشی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا سمجھے! نیم دیوانہ یا کوئی بہت بڑا مکار۔۔۔ مگر مکار سمجھنے کے لئے کوئی معقول دلیل اس کے ذہن میں نہیں تھی۔ اگر وہ مکار ہوتا تو اتنی بڑی رقم اس طرح کیسے گنوا بیٹھتا!

"اب آہستہ آہستہ ساری باتیں میری سمجھ میں آرہی ہیں!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا! "وہ لڑکی جو ویٹنگ روم میں ملی تھی اس بدمعاش کی ایجنٹ رہی ہوگی!۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور کیا ورنہ وہ مجھے اس ہوٹل میں کیوں بلاتی۔۔۔ مگر جوشی۔۔۔ آر۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔ اوہ۔۔۔ روشی۔۔۔ روشی! وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں تم اچھی لگنے لگی ہو! مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے تمہارے کہنے پر عمل نہ کیا۔۔۔ کیا اب تم میری مدد نہ کرو گی!"

روشی بڑے دلآویز انداز میں مسکرا رہی تھی۔

"میں کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟" اس نے پوچھا۔

"دیکھو روشی۔۔۔ روشی۔۔۔ واقعی یہ نام بہت اچھا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زبان کی نوک مصری کی ڈلی سے جا لگی ہو۔۔۔ روشی۔۔۔ واہ۔۔۔ وا۔۔۔ ہاں تو روشی میں اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس لینا چاہتا ہوں!"

"ناممکن ہے۔ تم بالکل بچوں کی سی باتیں کررہے ہو! تم نے وہ رقم بینک میں کیوں نہیں رکھوائی تھی کہ واپس مل جائے گی۔"

"کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ کیا تم نے نیپولین کی زندگی کے حالات نہیں پڑھے!"
"میرے طوطے!" روشی ہنس کر بولی۔ "تم اتنی جلدی پالنے سے باہر کیوں آگئے!"

"میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں!" عمران کسی ضدی بچے کی طرح جھلا کر بولا۔

روشی کی ہنسی تیز ہو گئی! وہ بالکل اس طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچے کو چڑا رہی ہو!

"اچھا تو میں جا رہا ہوں!" عمران بگڑ کر اٹھتا ہوا بولا۔

"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ یک بیک سنجیدہ ہوگئی۔ "چلو بتاؤ۔ کیا کہہ رہے تھے!"

"نہیں بتاتا!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ "میں کسی سے مشورہ لئے بغیر ہی نپٹ لوں گا!"

"نہیں مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو!"

"کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں اس سے اپنے روپے وصول کرنا چاہتا ہوں!"

"خام خیالی ہے بچپنا!" روشی کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ "اس علاقے میں پولیس کی بھی دال نہیں گلی! آخر تھک ہا رکر اسے وہاں خطرے کا بورڈ لگانا پڑا۔"

"کیا ہوٹل والےبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔" عمران نے پوچھا۔

"میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتی!"

"پولیس نے انہیں بھی ٹٹولا ہوگا۔"

"کیوں نہیں! عرصے تک اس ہوٹل میں پولیس کا ایک دستہ دن اور رات متعین رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطرناک آدمی کام کر ہی گذرتا تھا۔"

"روشی روشی! تم مجھے باز نہیں رکھ سکتیں!" عمران ڈائیلاگ بولنے لگا! "میں اس کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے واپس نہ جاؤں گا۔"
 

بھی تمہاری ہی طرح۔۔۔ ہے۔۔۔ اچھا بتاؤ کیا کہیں
گے بڑی مشکل ہے! ابھی وہ لفظ ذہن میں تھا۔۔ غائب ہو گیا۔۔۔!" 

عمران بے بسی سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

روشی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا سمجھے! نیم دیوانہ یا کوئی بہت بڑا مکار۔۔۔ مگر مکار سمجھنے کے لئے کوئی معقول دلیل اس کے ذہن میں نہیں تھی۔ اگر وہ مکار ہوتا تو اتنی بڑی رقم اس طرح کیسے گنوا بیٹھتا!

"اب آہستہ آہستہ ساری باتیں میری سمجھ میں آرہی ہیں!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا! "وہ لڑکی جو ویٹنگ روم میں ملی تھی اس بدمعاش کی ایجنٹ رہی ہوگی!۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور کیا ورنہ وہ مجھے اس ہوٹل میں کیوں بلاتی۔۔۔ مگر جوشی۔۔۔ آر۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔ اوہ۔۔۔ روشی۔۔۔ روشی! وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں تم اچھی لگنے لگی ہو! مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے تمہارے کہنے پر عمل نہ کیا۔۔۔ کیا اب تم میری مدد نہ کرو گی!"

روشی بڑے دلآویز انداز میں مسکرا رہی تھی۔

"میں کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟" اس نے پوچھا۔

"دیکھو روشی۔۔۔ روشی۔۔۔ واقعی یہ نام بہت اچھا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زبان کی نوک مصری کی ڈلی سے جا لگی ہو۔۔۔ روشی۔۔۔ واہ۔۔۔ وا۔۔۔ ہاں تو روشی میں اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس لینا چاہتا ہوں!"

"ناممکن ہے۔ تم بالکل بچوں کی سی باتیں کررہے ہو! تم نے وہ رقم بینک میں کیوں نہیں رکھوائی تھی کہ واپس مل جائے گی۔"

"کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ کیا تم نے نیپولین کی زندگی کے حالات نہیں پڑھے!"
"میرے طوطے!" روشی ہنس کر بولی۔ "تم اتنی جلدی پالنے سے باہر کیوں آگئے!"

"میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں!" عمران کسی ضدی بچے کی طرح جھلا کر بولا۔

روشی کی ہنسی تیز ہو گئی! وہ بالکل اس طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچے کو چڑا رہی ہو!

"اچھا تو میں جا رہا ہوں!" عمران بگڑ کر اٹھتا ہوا بولا۔

"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ یک بیک سنجیدہ ہوگئی۔ "چلو بتاؤ۔ کیا کہہ رہے تھے!"

"نہیں بتاتا!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ "میں کسی سے مشورہ لئے بغیر ہی نپٹ لوں گا!"

"نہیں مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو!"

"کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں اس سے اپنے روپے وصول کرنا چاہتا ہوں!"

"خام خیالی ہے بچپنا!" روشی کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ "اس علاقے میں پولیس کی بھی دال نہیں گلی! آخر تھک ہا رکر اسے وہاں خطرے کا بورڈ لگانا پڑا۔"

"کیا ہوٹل والےبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔" عمران نے پوچھا۔

"میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتی!"

"پولیس نے انہیں بھی ٹٹولا ہوگا۔"

"کیوں نہیں! عرصے تک اس ہوٹل میں پولیس کا ایک دستہ دن اور رات متعین رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطرناک آدمی کام کر ہی گذرتا تھا۔"

"روشی روشی! تم مجھے باز نہیں رکھ سکتیں!" عمران ڈائیلاگ بولنے لگا! "میں اس کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے واپس نہ جاؤں گا۔"
 
"بکواس مت کرو!" روشی جھنجھلا گئی۔ پھر اس نے کہا۔ "جاؤ اس کمرے میں سو جاؤ۔ بستر صرف ایک ہے۔ میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گی۔" 

"نہیں۔۔۔ تم اپنے بستر پر جاؤ۔۔۔ میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گا۔" عمران نے کہا۔ 

اس پر دونوں میں بحث ہونے لگی۔ آخر کچھ دیر بعد عمران ہی کو خواب گاہ میں جانا پڑا اور روشی اسی کمرے کے ایک صوفے پر لیٹ گئی۔ 

ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا! اس لئے اس نے ایک ہلکا کمبل اپنے پیروں پر ڈال لیا تھا! وہ اب بھی عمران ہی کے متعلق سوچ رہی تھی۔ لیکن اس خطرناک اور گمنام آدمی کا خوف اب بھی اس کے ذہن پر مسلط تھا۔ 

وہ آدمی کون تھا!اس کا جواب شاداب نگر کی پولیس کے پاس نہیں تھا۔ اس نے اب تک درجنوں وارداتیں کی تھیں۔ لیکن پولیس اس تک پہنچنے میں ناکام رہی تھی! او رپھر سب سے عجیب بات تو یہ کہ ایک مخصوص علاقہ ہی اس کی چیرہ دستیوں کا شکار تھا! شہر کے دوسرے حصوں کی طرف وہ شاذ و نادر ہی رخ کرتا تھا! 

روشی اسی کے متعلق سوچتی اور اونگھتی رہی! اسے خوف تھا کہ کہیں وہ ادھر ہی کا رخ نہ کرے۔ اس لئے اس نے روشنی بھی گل نہیں کی تھی اس کے ذہن پر جب بھی غنودگی طاری ہوتی اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے کان کے پاس کسی نے گولی چلائی ہو۔ وہ چونک کر آنکھیں کھول دیتی! 

دیوار کے ساتھ لگی ہوئی کلاک دو بجا رہی تھی اچانک وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی! نہ جانے کیوں اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ خطرے میں ہو۔ 

وہ چند لمحے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر صوفے سے اٹھ کر پنجوں کے بل چلتی ہوئی اس کمرے کے دروازے تک آئی جہاں وہ احمق نوجوان سو رہا تھا۔ 

اس نے دروازہ پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ کھل گیا لیکن ساتھ ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ بستر خالی پڑا تھا اور کمرے کا بلب روشن تھا اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور حلق خشک ہونے لگا۔ 

اچانک ایک خیال بڑی تیزی سے اس کے ذہن میں چکرا کر رہ گیا۔ کہیں یہ بیوقوف نوجوان اسی خوفناک آدمی کاکوئی گرگا نہ رہا ہو!۔ 

وہ بے تحاشہ پلنگ کے سرہانے رکھی ہوئی تجوری کی طرف لپکی اس کا ہینڈل پکڑ کر کھینچا۔ تجوری مقفل تھی! لیکن وہ سوچنے لگی۔۔۔ تجوری کی کنجی تو تکیے کے نیچے ہی رہتی ہے۔۔۔ ایک بار پھر اس کی سانسیں تیز ہو گئیں! اس نے تکیہ الٹ دیا۔ تجوری کی کنجی جوں کی توں اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملی۔ لیکن روشی کو اطمینان نہ ہوا! وہ تجوری کھولنے لگی۔۔۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہنی انتشار کم ہوتا گیا! اس کی ساری قیمتی چیزیں اور نقد رقم محفوظ تھی۔ 

پھر آخر وہ گیا کہاں؟ تجوری بند کرکے وہ سیدھی کھڑی ہوگئی! پچھلا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ اسی دروازے سے نکل گیا ہوگا! دروازہ مقفل نہیں تھا۔ ہینڈل گھماتے ہی کھل گیا تھا! دوسرے طرف کی راہداری تاریک پڑی تھی! وہ باہر نکلنے کی ہمت نہ کرسکی! اس نے دروازہ بند کر کے اندر سے مقفل کر دیا۔ 

وہ پھر اسی کمرے میں آگئی جہاں صوفے پر سوئی تھی۔۔۔ آخر وہ احمق اس طرح کیوں چلا گیا۔ وہ سوچتی رہی! آخر اس طرح بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اسے زبردستی تو لائی نہیں تھی۔ وہ خود ہی آیا تھا! لیکن کیوں آیا تھا؟۔۔۔ اس کا مقصد کیا تھا؟ 

اچانک اسے محسوس ہواجیسے کسی نے بیرونی دروازہ پر ہاتھ مارا ہو۔ وہ چونک کر مڑی مگر اتنی دیر میں شیشے کے ٹکڑے جھنجھناتے ہوئے فرش پر گر چکے تھے۔ 

پھر ٹوٹے ہوئے شیشے کی جگہ سے ایک ہاتھ داخل ہو کر چٹخنی تلاش کرنے لگا بڑا سا بھلا ہاتھ! جو بالوں سے ڈھکا ہوا تھا! روشی کے حلق سے ایک دبی دبی چیخ نکلی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ ہاتھ غائب ہو گیا اور روشی کو ایسا محسوس ہوا جیسے باہ راہداری میں دو آدمی ایک دوسرے سے ہاتھا پائی پر اتر آئے ہوں۔
روشی بیٹھی ہانپتی رہی! پھر اس نے ایک کریہہ سی آواز سنی اور ساتھ ہی ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بہت وزنی چیز زمین پر گری ہو۔

پھر بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں۔

اور اب بالکل سناٹا تھا! قریب یا دور کہیں سے کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی البتہ خود روشی کے ذہن میں ایک نہ مٹنے والی "جھائیں جھائیں" گونج رہی تھی حلق خشک تھا اور آنکھوں میں جلن سی ہونے لگی تھی۔

وہ بے حس و حرتک سمٹی سمٹائی صوفے پر بیٹھی رہی! اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک پھر کسی نے دروازہ تھپتھپایا اور ایک بار پھر اسے اپنی روح جسم سے پرواز کرتی ہوئی محسوس ہوئی۔

"میں ہوں! دروازہ کھولو۔۔۔" باہر سے آواز آئی لیکن روشی اپنے کانوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ آواز اسی نوجوان احمق کی معلوم ہوئی تھی۔

"پھوسی۔۔۔ پھوسی۔۔۔ آرر۔۔۔ روشی دروازہ کھولو!۔۔۔ میں ہوں، عمران!"

روشی اٹھ کر دروازے پر جھپٹی دوسرے ہی لمحے عمران اس کے سامنے کھڑا برے برے سے منہ بنا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کئی جگہ ہلکی ہلکی سی خراشیں تھیں اور ہونٹوں پر خون پھیلا ہوا تھا۔ روشی نے مضطربانہ انداز میں اسے اندر کھینچ کر دروازہ بند کردیا۔

" یہ کیا ہوا۔۔۔ تم کہاں تھے۔"

"تین پیکٹ میں نے وصول کر لئے دو ابھی باقی ہیں! پھر سہی!" عمران نوٹوں کے تین بنڈل فرش پر پھینکتا ہوا بولا۔

"کیا وہی تھا" روشی نے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔

"وہی تھا۔۔۔ نکل گیا۔۔۔ دو پیکٹ ابھی باقی ہیں!"

"تم زخمی ہو گئے ہو! چلو باتھ روم میں۔۔۔" روشی اس کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے کی طرف کھینچی ہوئی بولی۔

کچھ دیر بعد وہ پھر صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے!

"تم باہر کیوں چلے گئے!" روشی نے پوچھا!

"میں تمہاری حفاظت کے لئے آیا تھا نا۔۔۔ میں جانتا ھتا کہ وہ ضرور آئے گا! وہ آدمی جو بیچ سڑک پر فائر کر سکتا ہے اسے مکانوں کے اندر گھسنے میں کب تامل ہوگا!"

"کیا تم واقعی بیوقوف ہو؟" روشی نے حیرت سے پوچھا۔

"پتہ نہیں! میں تو خود کو افلاطون کا دادا سمجھتا ہوں مگر دوسرے کہتے ہیں کہ میں بیوقوف ہوں۔ کہنے دو! اپنا کیا بگڑتا ہے! اگر میں عقلمند ہوں تو اپنے لئے احمق ہوں تو اپنے لئے۔"

"تو اب وہ نامعلوم آدمی میرا بھی دشمن ہو گیا!" روشی خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی!

"ضرور ہو جائے گا! تم نے کیوں میری جان بچانے کی کوشش کی تھی؟"

"اوہ۔۔ مگر۔۔۔ میں کیا کروں؟ کیا تم ہر وقت میری حفاظت کرتے رہو گے؟"
"
دن کو وہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرے گا! رات کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔"

"مگر کب تک۔۔۔"

"جب تک میں اسے جان سے نہ مار دوں۔" عمران بولا۔

"مگر کب تک۔۔۔"

"جب تک میں اسے جان سے نہ مار دوں۔" عمران بولا۔

"تم۔۔۔ تم آخر ہو کیا بلا!"

"میں بلا ہوں!" عمران برا مان گیا۔
"
اوہ۔۔۔ ڈیئر۔۔۔ تم سمجھے نہیں!"

"ڈیئر۔۔۔ یعنی کہ تم مجھے ڈیئر کہہ رہی ہو!" عمران مسرت آمیز لہجے میں چیخا۔

"ہاں کیوں کیا حرج ہے!کیا ہم گہرے دوست نہیں ہیں۔" روشی مسکرا کر بولی۔

"مجھے آج تک کسی عورت نے ڈیئر نہیں کہا!" عمران مغموم آواز میں بولا۔
 
شاداب نگر کے محکمہ سراغ رسانی کے دفتر میں سب انسپکٹر جاوید کی خاصی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ ایک ذہین اور نوجوان آفیسر تھا! تعلق تو اس کا محکمہ سراغ رسانی سے تھا لیکن اس کے لئے بے تکلف دوست عموما اسے تھانیدار کہا کرتے تھے! وجہ یہ تھی کہ ذہن کے ساتھ ہی ساتھ ڈنڈے کے استعمال کو بڑی اہمیت دیتا تھا۔ اس کا قول تھا کہ آج تک ڈنڈے سے زیادہ خوفناک سراغرساں اور کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ 

اکثر وہ شبے کی بنیاد پر ملزموں کی ایسی مرمت کرتا کہ انہیں چھٹی کا دودہ یاد آجاتا۔ 

وہ کافی لحیم شحیم آدمی تھا۔ بہتیرے تو اس کی شکل ہی دیکھ کر اقرار جرم کر لیتے! مگر وہ شاداب نگر کے اس مجرم کی جھلک بھی نہ دیکھ سکا تھا جس نے بندرگاہ کے علاقہ میں بسنے والوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ 

اس وقت سب انسپکٹر جاوید اپنے محکمے کے سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں بیٹھا تھا غالبا اس بات کا منتظر تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اپنا کام ختم کرکے اس کی طرف متوجہ ہو! 

سپرنٹنڈنٹ سرجھکائے کچھ لکھ رہا تھا! تھوڑی دیر بعد قلم رکھ کر اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور جاوید کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ 

"بھئی میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تمہیں عمران صاحب کو اسسٹ کرنا ہوگا! اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوگی کہ ہمیں سینٹرل والوں سے مدد طلب کرنی پڑی ہے۔" 

"عمران صاحب!" جاوید نے حیرت سے کہا۔"وہی لی یوکا والے کیس کے شہرت یافتہ!" 

"وہی۔۔۔ وہی!" سپرنٹنڈنٹ سرہلا کر بولا۔ "وہ حضرت یہاں پرسوں تشریف لائے ہیں اور ابھی تک اس کی شکل نہیں دکھائی دی۔ یہ سینٹرل والے بہت چالاک ہوتے ہیں! اس کا خیال رہے کہ ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی نہ کرانا۔ یہاں تمہارے علاوہ اور کسی پر میری نظر نہیں پڑی!" 

"آپ مطمئن رہیں! میں حتی الامکان کوشش کروں گا۔" 

"خود سے کسی معاملے میں پیش پیش نہ رہنا۔ جو کچھ وہ کہی کرنا!" 

"ایسا ہی ہوگا!" 

فون کی گھنٹی بجی اور سپرنٹنڈنٹ نے ریسیور اٹھا لیا۔ 

"ہیلو۔۔۔! اوہ آپ ہیں۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ اچھا ٹھہریئے! ایک سیکنڈ!" 

سپرنٹنڈنٹ نے پنسل اٹھا کر اپنی ڈائری میں کچھ لکھنا شروع کردیا۔ ریسیور بدستور اس کے کان سے لگا رہا۔ 

کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "تو آپ مل کب رہے ہیں۔۔۔ جی۔۔۔ اچھا اچھا! بہت بہتر!" اس نے ریسیور رکھ دیا اور کرسی کی پشت گاہ سے ٹیک لگا کرکچھ سوچنے لگا۔ 

"دیکھو جاوید" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "عمران صاحب کا فون تھا! انہوں نے کچھ جعلی نوٹوں کے نمبر لکھوائے ہیں اور کہا ہے کہ ان نمبروں پر کڑی نظر رکھی جائے جس کے پاس بھی ان نمبروں کا کوئی نوٹ نظر آئے اسے بیدریغ گرفتار کر لیا جائے۔ ان نمبروں کو لکھ لو۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے، یہ میں بھی نہی جانتا!" 

"وہ یہاں کب آئیں گے!" جاوید نے پوچھا۔ 

"ایک بج کر ڈیڑھ منٹ پر۔ بھئی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ آفیسر آن سپیشل ڈیوٹیز ہے اور اس نے اپنا سیکشن بالکل الگ بنایاہے جو براہ راست ڈائریکٹر جنرل سے تعلق رکھتا ہے!" 

" میں نے سنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل صاحب ان کے والد ہیں۔" 

"ٹھیک سنا ہے۔۔۔ مگر یہ کیا لغویت ہے۔۔۔ ایک بج کر ڈیڑھ منٹ!"
عمران ریلوے اسٹیشن پر ٹہل رہا تھا! اسے اپنے ماتحت ہدہد کی آمد کا انتظار تھا! ہدہد جو ہکلا کر بولتا تھا اور دوران گفتگو بڑے بڑے الفاظ ادا کرنے کا شائق تھا۔

ٹرین آئی۔۔۔ اور نکل بھی گئی۔۔۔ لیکن ہد ہد کا کہیں پتہ نہ تھا۔ عمران گیٹ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ بھیڑ زیادہ تھی۔ اس لئے ہدہد کافی دیر بعد دستیاب ہو سکا۔

"ادھر آؤ!" عمران اس کا ہاتھ پکڑ کر ویٹنگ روم کی طرف کھینچتا ہوا بولا۔

ہدہد اس کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔۔۔ ویٹنگ روم میں پہنچ کر اس نے کہا۔

"مم۔۔۔ میرے۔۔۔۔ اوسان۔۔۔ بج۔۔۔ بجا نہیں تھے! لل لہٰذا اب آداب بجا لاتا ہوں۔"

اس نے نہایت ادب سے جھک کر عمران کو فرشی سلام کیا۔

"جیتے رہو!" عمران اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ "کیا تم اس شہر سے واقفیت رکھتے ہو۔"

"جی ہاں یہ۔۔۔ مم۔۔۔ میرے برادر نسبتی کا وطن مالوف ہے!"

"میرے پاس وقت کم ہے! ورنہ تم سے برادر نسبتی اور وطن مالوف کے معن پوچھتا! خیر تم یہاں مچھلیوں کا شکار کھیلنے کے لئے آئے ہو!"

"جی۔۔۔!" ہد ہد حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ "اس بات کا۔۔۔ مم۔۔۔مطلب۔۔۔ مم۔۔۔ میرے ذہن نشین نن۔۔۔ نہیں ہوا!"

"تم یہاں بندرگاہ کے علاقے میں مچھلیوں کا شکار کھیلو گے۔۔۔ قیام اے بی سی ہوٹل میں ہوگا! بازار سے مچھلیوں کے شکار کا سامان خریدو اور چپ چاپ وہیں چلے جاؤ!۔۔۔ جاؤ اور شکار کھیلو!"

"معاف کیجئے گا یہ مم میرے لئے ناممکن ہے!"

"ناممکن کیوں ہے؟" عمران اسے گھورنے لگا۔

"والد مرحوم کی وصیت۔۔۔ فف۔۔۔۔ فرماتے تھے۔۔۔ شکار ماہی کار بیکاران است۔۔۔"

"مطلب کیا ہوا! مجھے عربی نہیں آتی ۔"

"فف۔۔۔ فارسی ہے جناب! اس کا مطلب یہ ہو اکہ مچھلی کا شکار کھیلنا بیکار آدمیوں کا کام ہے۔"

"اچھی بات میں تمھیں اسی وقت ملازمت سے برطرف کئے دیتا ہوں تاکہ تم اطمینان سے مچھلی کا شکار کھیل سکو۔"

"اوہ۔۔۔ آپ کو۔۔۔ کک۔۔۔ کس طرح سمجھاؤں!" ہدہد نے کہا۔ پھر سمجھانے کے سلسلے میں کافی دیر تک ہکلاتا رہا! عمران بھی جلدی میں نہیں تھا۔ورنہ وہ اس طرح وقت نہ برباد کرتا۔

"چلو اب جاؤ۔" وہ اسے دروازے کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔ "یہ سرکاری کام ہے! اور کام ضرورت پڑنے پر بتایا جائے گا بھولنا نہیں۔۔۔ بندرگاہ کے علاقے میں اے، بی، سی ہوٹل ہے۔۔۔ تمہیں وہیں قیام کرنا ہوگا۔ شکار کا گھاٹ وہاں سے دور نہیں ہے! لیکن خبردار۔۔۔ شام کو سات بجے کے بعد ادھر ہرگز نہ جانا۔"

ہدہد تھوڑی دیر تک کھڑا سوچتا رہا پھر بولا۔ "اچھا جناب! میں جا رہا ہوں! لل۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ مچھلیوں کے شکار۔۔۔ کک۔۔۔ کے لئے مجے کیا۔۔۔ خخ۔۔۔ خریدنا پڑے گا!"

عمران اسے سامان کی تفصیل بتاتا رہا۔
 
عمران ٹھیک ایک بجکر ڈیڑھ منٹ پر سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں داخل ہوا اور سپرنٹنڈنٹ اپنے سامنے ایک نوعمر آدمی کو کھڑا دیکھ کر پلکیں جھپکانے لگا۔

"تشریف رکھیئے۔ تشریف رکھیئے!" اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

"شکریہ!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ اس وقت اس کے چہرے پر حماقتیں نہیں برس رہی تھی وہ ایکا چھی اور جاذب نظر شخصیت کا مالک معلوم ہو رہا تھا۔

"بہت انتظار کرایا آپ نے" سپرنٹنڈنٹ نے اس کی طرف سیگرٹ کا ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ 

"شکریہ! میں سیگرٹ کا عادی نہیں ہوں!" عمران نے کہا۔ "دیر سے ملاقات کی وجہ یہ ہے کہ میں مشغول تھا! اب تک اپنے طور پر حالات کا جائزہ لیتا رہا ہوں۔"

"میں پہلے ہی جانتا تھا۔" سپرنٹنڈنٹ ہنسنے لگا۔

"نوٹوں کے متعلق کچھ معلوم ہوا۔"

"ابھی تک تو کوئی رپورٹ نہیں ملی! لیکن۔۔۔!"

"نوٹوں کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں آپ!" عمران مسکرا کر بولا۔

"ہاں! میں اپنی معلومات کے لئے جاننا چاہتا ہوں۔"

"اس آدمی کے پاس جعلی نوٹوں کے دو پیکٹ ہیں اور یہ میرے ہی ذریعے سے اس کے پاس پہنچے ہیں۔"

"آپ کے ذریعہ سے!" سپرنٹنڈنٹ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"جی ہاں! میں دیدہ دانستہ کل رات کو اس خطرناک علاقے میں گیا تھا اور میری جیبوں میں جعلی نوٹوں کے پیکٹ تھے۔"

"ارے تو کیا آج کے اخبار میں آپ ہی کے متعلق خبر تھی!"

"غالبا"

"لیکن یہ ایک خطرناک اقدام تھا۔"

"ہاں۔ بعض اوقات اس کے بغیر کام بھی تو نہیں چلتا۔۔۔ مگر اس سے ٹکرانے کے بعد اب میں نے اپنا خیال بدل دیا ہے۔ جعلی نوٹ بازار میں نہیں آسکیں گے! وہ تو بس یونہی احتیاطا میں نے آپ کو اطلاع دیدی تھی! وہ بہت چالاک ہے اور اس قسم کے حربے اس پر کام نہیں کر سکتے!"

سپرنٹنڈنٹ خاموشی سے عمران کی صورت دیکھ رہا تھا۔

"سوال یہ ہے کہ رات کو وہ علاقہ خطرناک کیوں ہوجاتا ہے۔" عمران بڑبڑایا۔ "ظاہر ہے کہ سرکاری طور پر وہاں سڑک ہی پر خطرے سے ہوشیار کرنے کے لئے بورڈ لگا دیا ہے! اس لئے عام طور پر وہ راستہ ٹریفک کے لئے بند ہو گیا ہے! لیکن اس کے باوجود بھی مجھ جیسے بھولے بھٹکے آدمی پر حملہ کیا گیا!۔۔۔ اس کا یہی مطلب تو یہ ہوا کہ ساری رات وہاں اس آدمی کی حکومت رہتی ہے۔"

"جی ہاں! قطعی یہی بات ہے اور اسی لئے وہاں خطرے کا بورڈ لگایا گیا ہے!"

"لیکن مقصد جناب! آخر اس اجاڑ علاقے میں ہے کیا! اگر یہ کہا جائے کہ وہ اجاڑ علاقہ لٹیروں کا اڈہ ہے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ اے بی سی ہوٹل پر کبھی حملہ کیوں نہیں ہوتا۔ وہاں روزانہ ہزاروں روپے کا جوا ہوتا ہے۔"

"شبہ تو ہمیں بھی ہے کہ اے بی سی والوں کا اس سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے! لیکن ہم ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔"
عمران کچھ نہ بولا! اس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس کا کاغذ پھاڑ کر ایک سپرنٹنڈنٹ کو پیش کیا جو بوکھلاہٹ میں شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر ندامت کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی اور وہ چھینپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

اس کے برخلاف عمران بڑے اطمینان سے اسے اپنے دانتوں میں کچل رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ "اس واقعہ کا تذکرہ آپ ہی تک محدود رہے تو بہتر ہے۔"

"ظاہر ہے!" سپرنٹنڈنٹ بولا۔

اس نے چیونگم کو عمران کی نظر بچا کر میز کی دراز میں ڈال دیا تھا!

"آپ کا قیام کہاں ہے؟" اس نے عمران سے پوچھا۔

"کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔" عمران نے جواب دیا۔

سپرنٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
چند لمحے خاموشی رہی اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ بولا۔ "آپ کو اسسٹ کرنے کے لئے میں نے ایک آدمی منتخب کر لیا ہے۔ کہیئے تو ابھی ملا دوں۔"

"نہیں فی الحال ضرورت نہیں۔ آپ مجھے نام اور پتہ لکھوا دیجئے۔ پتہ ایسا ہونا چاہیئے جہاں اس سے ہر وقت رابطہ قائم کیا جاسکے۔ ویسے میری کوشش یہی رہے گی کہ آپ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہ دوں۔"

آخری جملہ شاید سپرنٹنڈنٹ کو گراں گذرا تھا! اس کے چہرے پر سرخی پھیل گئی! لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

عمران تھوڑی دیر تک غیر ارادی طور پر ٹانگیں ہلاتا رہا! پھر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔ "اچھا بہت بہت شکریہ۔"

"اوہ۔۔۔ اچھا! لیکن اگر آج شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں تو کیا حرج ہے؟"

"ضرور کھاؤں گا!" عمران مسکرا کر بولا۔ "مگر آج نہیں! ویسے مجھے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی۔"

"ہماری طرف سے آپ مطمئن رہیں۔"

"اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران کمرے سے باہر نکل گیا۔

اور سپرنٹنڈنٹ بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سر ہلاتا رہا!۔۔۔ پھر اس نے میز کی دراز کھول کر عمران کی دی ہوئی چیونگم نکالی اور ادھر ادھر دیکھ کر اسے منہ میں ڈال لیا۔
 
عمران کچھ نہ بولا! اس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس کا کاغذ پھاڑ کر ایک سپرنٹنڈنٹ کو پیش کیا جو بوکھلاہٹ میں شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر ندامت کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی اور وہ چھینپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

اس کے برخلاف عمران بڑے اطمینان سے اسے اپنے دانتوں میں کچل رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ "اس واقعہ کا تذکرہ آپ ہی تک محدود رہے تو بہتر ہے۔"

"ظاہر ہے!" سپرنٹنڈنٹ بولا۔

اس نے چیونگم کو عمران کی نظر بچا کر میز کی دراز میں ڈال دیا تھا!

"آپ کا قیام کہاں ہے؟" اس نے عمران سے پوچھا۔

"کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔" عمران نے جواب دیا۔

سپرنٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
چند لمحے خاموشی رہی اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ بولا۔ "آپ کو اسسٹ کرنے کے لئے میں نے ایک آدمی منتخب کر لیا ہے۔ کہیئے تو ابھی ملا دوں۔"

"نہیں فی الحال ضرورت نہیں۔ آپ مجھے نام اور پتہ لکھوا دیجئے۔ پتہ ایسا ہونا چاہیئے جہاں اس سے ہر وقت رابطہ قائم کیا جاسکے۔ ویسے میری کوشش یہی رہے گی کہ آپ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہ دوں۔"

آخری جملہ شاید سپرنٹنڈنٹ کو گراں گذرا تھا! اس کے چہرے پر سرخی پھیل گئی! لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

عمران تھوڑی دیر تک غیر ارادی طور پر ٹانگیں ہلاتا رہا! پھر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔ "اچھا بہت بہت شکریہ۔"

"اوہ۔۔۔ اچھا! لیکن اگر آج شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں تو کیا حرج ہے؟"

"ضرور کھاؤں گا!" عمران مسکرا کر بولا۔ "مگر آج نہیں! ویسے مجھے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی۔"

"ہماری طرف سے آپ مطمئن رہیں۔"

"اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران کمرے سے باہر نکل گیا۔

اور سپرنٹنڈنٹ بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سر ہلاتا رہا!۔۔۔ پھر اس نے میز کی دراز کھول کر عمران کی دی ہوئی چیونگم نکالی اور ادھر ادھر دیکھ کر اسے منہ میں ڈال لیا۔
 

 
عمران کچھ نہ بولا! اس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس کا کاغذ پھاڑ کر ایک سپرنٹنڈنٹ کو پیش کیا جو بوکھلاہٹ میں شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر ندامت کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی اور وہ چھینپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

اس کے برخلاف عمران بڑے اطمینان سے اسے اپنے دانتوں میں کچل رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ "اس واقعہ کا تذکرہ آپ ہی تک محدود رہے تو بہتر ہے۔"

"ظاہر ہے!" سپرنٹنڈنٹ بولا۔

اس نے چیونگم کو عمران کی نظر بچا کر میز کی دراز میں ڈال دیا تھا!

"آپ کا قیام کہاں ہے؟" اس نے عمران سے پوچھا۔

"کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔" عمران نے جواب دیا۔

سپرنٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
چند لمحے خاموشی رہی اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ بولا۔ "آپ کو اسسٹ کرنے کے لئے میں نے ایک آدمی منتخب کر لیا ہے۔ کہیئے تو ابھی ملا دوں۔"

"نہیں فی الحال ضرورت نہیں۔ آپ مجھے نام اور پتہ لکھوا دیجئے۔ پتہ ایسا ہونا چاہیئے جہاں اس سے ہر وقت رابطہ قائم کیا جاسکے۔ ویسے میری کوشش یہی رہے گی کہ آپ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہ دوں۔"

آخری جملہ شاید سپرنٹنڈنٹ کو گراں گذرا تھا! اس کے چہرے پر سرخی پھیل گئی! لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

عمران تھوڑی دیر تک غیر ارادی طور پر ٹانگیں ہلاتا رہا! پھر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔ "اچھا بہت بہت شکریہ۔"

"اوہ۔۔۔ اچھا! لیکن اگر آج شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں تو کیا حرج ہے؟"

"ضرور کھاؤں گا!" عمران مسکرا کر بولا۔ "مگر آج نہیں! ویسے مجھے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی۔"

"ہماری طرف سے آپ مطمئن رہیں۔"

"اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران کمرے سے باہر نکل گیا۔

اور سپرنٹنڈنٹ بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سر ہلاتا رہا!۔۔۔ پھر اس نے میز کی دراز کھول کر عمران کی دی ہوئی چیونگم نکالی اور ادھر ادھر دیکھ کر اسے منہ میں ڈال لیا۔
 
سات بجے عمران روشی کے فلیٹ میں پہنچا! وہ شاید اسی کا انتظار کر رہی تھی! عمران کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا اور جھلائے ہوئے لہجے میں بولی۔ "اب آئے ہیں، صبح کے گئے ہوئے! میں نے لنچ پر آپ کا انتظار کیا! شام کو کافی دیر تک چائے کے لئے بیٹھی رہی!"

"میں دوسری روڈ کی ایک بلڈنگ پر تمہارا فلیٹ تلاش کر رہا تھا۔!" عمران نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔

"دن بھر کہاں رہے!"

"اسی مردود کو تلاش کرتا رہا جس سے ابھی دو پیکٹ وصول کرنے ہیں!"

"اپنی زندگی خطرے میں نہ ڈالو! میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں!"

"میرا خیال ہے کہ وہ اے بی سی ہوٹل میں ضرور آتا ہوگا!"

"بکواس نہیں بند کرو گے تم!" روشی اٹھ کر اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔ "تم ہوٹل سے اپنا سامان کیوں نہیں لائے؟"

"سامان۔۔۔ دیکھا جائے گا۔۔۔ چلو کہیں ٹہلنے چلتی ہو؟"

"میں نے آج دروازے کے باہر قدم بھی نہیں نکالا۔" روشی نے کہا۔

"کیوں؟"

"خوف معلوم ہوتا ہے!"

عمران ہنسنے لگا پھر اس نے کہا۔ "وہ صرف رات کا شہزادہ معلوم ہوتا ہے دن کا نہیں!"

"کچھ بھی ہو! مگر۔۔۔!" روشی کچھ کہتےکہتے رک گئی۔ اس نے پلٹ کر خوفزدہ نظروں سے دروازہ کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی۔ "دروازہ مقفل کردو!"

"اوہو! بڑی ڈرپوک ہو تم!" عمران پھر ہنسنے لگا۔

"تم بند توکردو! پھر میں تمہیں ایک خاص بات بتاؤں گی۔"

عمران نے دروازہ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی۔

روشی نے اپنے بلاوز کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک لفافہ نکالا اور عمران کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آج تین بجے ایک لڑکا لایا تھا۔ پھر لفافہ چاک کرنے سے قبل ہی وہ بھاگ گیا۔"

عمران نے لفافے سے خط نکال لیا۔ انگریزی کے ٹائپ میں تحریر تھا۔

"روشی
تم مجھے نہ جانتی ہوگی! لیکن میں تم سے اچھی طرح واقف ہوں اگر تم
اپنی خیریت چاہتی ہو تو مجھے اس کے متعلق سب کچھ بتا دو جو پچھلی رات
تمہارے ساتھ تھا وہ کون ہے! کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ تم یہ
سب کچھ مجھے فون پر بتا سکتی ہو! میرا فون نمبر سکس ناٹ ہے! میں تمہیں
معاف کردوں گا۔
ٹیرر"​

"بہت خوب!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "فون پر گفتگو کرے گا۔"

"مگر سنو تو! میں نے ساری ٹیلیفون ڈائریکٹری چھان ماری ہے مگر مجھے نمبر کہیں نہیں ملا۔"

"تمہارے پاس ہے ڈائریکٹری!" عمران نے پوچھا۔
 
"نہیں پڑوس میں ہے اور فون بھی ہے!"

"ذرا لاؤ تو ڈائریکٹری٬" عمران نے کہا۔

"تم بھی ساتھ چلو!"

"اوہ۔۔۔ چلو!"

وہ دونوں دروازہ کھول کر باہر نکلے۔ روشی برابر والے فلیٹ میں چلی گئی اور عمران باہر اس کا انتظار کرتا رہا۔

شاید پانچ منٹ بعد روشی واپس آگئی!

واپسی پر پھر روشی نے بہت احتیاط سے دروازہ بند کیا! ڈائریکٹری میں سکس ناٹ کی تلاش شروع ہوگئی۔ یہ نمبر کہیں نہ ملا۔

"مجھے تو یہ بکواس ہی معلوم ہوتی ہے۔" روشی نے کہا۔ "ہوسکتا ہے کہ یہ خط کسی اور نے مجھے خوفزدہ کرنے کے لئے بھیجا ہو!"

"مگر ان واقعات سے اور کون واقف ہے!"

"کیوں! کل جب تم پر حملہ ہوا تھا تو ہوٹل میں درجنوں آدمی موجود تھے اور ظاہر ہے کہ تم ہی مجھے اپنے کاندھے پر اٹھا کر ہوٹل تک لے گئے تھے!۔۔۔ تم میرے ہی پاس سے اٹھ کر جوئے خانے میں بھی گئے تھے!"

عمران خاموش رہا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر چند لمحے بعد اس نے کہا۔ "ہم اس وقت کا کھانا کسی شاندار ہوٹل میں کھائیں گے۔"

"پھر وہی پاگل پن! نہیں ہم اس وقت کہیں نہیں جائیں گے۔" روشی نے سختی سے کہا۔

"تمہیں چلنا پڑے گا۔" عمران نے کہا۔ "ورنہ مجھے رات بھر نیند نہیں آئے گی۔"

"کیوں نیند نہ آئے گی!"

"کچھ نہیں!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "بس یہی سوچ کر کڑھتا رہوں گا کہ تم میری ہوکون جو میرا کہنا مان لو گی!"

روشی اب اسے غور سے دیکھنے لگی۔

"کیا تمہیں واقعی اس سے دکھ پہنچے گا!" اس نے آہستہ سے کہا۔

"جب میری کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو میرا دل چاہتا ہے کہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔" عمران نے بڑی معصومیت سے کہا۔ 

روشی پھر اسے غور سے دیکھنے لگی! عمران کے چہرے پر حماقت پھیل گئی تھی!

"اچھا میں چلوں گی!" روشی نے آہستہ سے کہا اور عمران کی آنکھیں مسرور بچوں کی طرح چمکنے لگیں۔

تھوڑی دیر بعد روشی تیار ہو کر نکلی اور عمران کو اس طرح دیکھنے لگی جیسے حسن کی داد طلب کر رہی ہو۔

عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ "تم سے اچھا میک اپ تو میں کر سکتا ہوں۔"

"تم"

"ہاں کیوں نہیں! اچھا پھر سہی! اب ہمیں باہر چلنا چاہیئے!"

"تم خوامخواہ چڑاتے ہو!" روشی جھنجھلا کر بولی۔
"افسوس کہ تمہیں اردو نہیں آتی ورنہ میں کہتا

ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیشدستی ایک دن!"

"چلو بکواس مت کرو!" وہ عمران کو دروازے کی طرف دھکیلتی ہوئی بولی۔

روشی اس وقت سچ مچ بہت حسین نظر آرہی تھی! عمران نے نیچے اتر کر ایک ٹیکسی کی اور وہ دونوں "وہائٹ ماربل" کے لئے روانہ ہو گئے! یہ یہاں کا سب سے بڑا اور شاندار ہوٹل تھا۔

"روشی کیوں نہ میں اسے فون کروں!" عمران بولا۔

"مگر ڈائریکٹری میں اس کا نمبر کہاں ملا۔ نہیں ڈئیر کسی نے مذاق کیا ہے مجھ سے!"
"میں ایسا نہیں سمجھتا۔"

"تمہاری سمجھ ہی کب اس قابل ہے کہ کچھ سمجھ کو۔ تمہارا نہ سمجھنا ہی اچھا ہے۔"

"میں کہتا ہوں تم سکس ناٹ پر ڈائل کرو۔ اگر جواب نہ ملے تو اپنے کان اکھاڑ لینا۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔ میرے کان!"

"مگر میں کہوں گی کیا۔۔۔!"

"سنو راستے میں کسی پبلک بوتھ سے فون کریں گے! تم کہنا کہ وہ ایک پاگل رئیس زادہ ہے! کہیں باہر سے آیا ہے! لیکن آج ایک مشکل میں پھنس گیا تھا۔ رشوت دے کر بڑی دشواریوں سے جان چھڑائی۔ اس کے پاس غلطی سے کچھ جعلی نوٹ آگئے ہیں جنہیں استعمال کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔"

"جعلی نوٹ!" روشی نے گھبرا کر کہا۔

"ہاں روشی یہ درست ہے!" عمران نے دردناک لہجے میں کہا۔ "آج میں بال بال بچا۔ ورنہ جیل میں ہوتا! میرے نوٹوں میں کچھ جعلی نوٹ مل گئے ہیں! میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔"

"لیکن وہ انہیں پیکٹوں سے تعلق نہ رکھتے ہوں جو تم نے اس سے پچھلی رات چھینے تھے۔"

"پتہ نہیں۔" عمران مایوسانہ انداز میں سرہلا کر بولا "مجھ سے حماقت یہ ہوئی کہ میں نے ان نوٹوں کو دوسرے نوٹوں میں ملا دیا ہے!"

"تم مجھے سچ کیوں نہیں بتاتے کہ تم کون ہو!" روشی بھنا کر بولی۔

"میں نے سب کچھ بتا دیا ہے روشی!"

"یعنی تم واقعی احمق ہو!"

"تم بات بات پر میری توہین کرتی ہو۔" عمران بگڑ گیا۔

"ارے نہیں! نہیں!" روشی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔ "اچھا جعلی نوٹوں کا کیا معاملہ ہے!"

"میں تو کہتا ہوں کہ یہ اسی لڑکی کی حرکت ہے جو مجھے ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں ملی تھی! اس نے اصلی نوٹوں کے پیکٹ غائب کرکے جعلی نوٹ رکھ دیئےاور پھر مجھے اے بی سی ہوٹل میں آنے کی دعوت دی! میرا دعوٰی ہے کہ وہ اسی نامعلوم آدمی کی ایجنٹ تھی اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھلی رات میں نے جو پیکٹ چھینے ہیں وہ دراصل میں نےچھینے نہیں بلکہ وہ خود ہی میرے حوالے کر گیا ہے! جانتی ہو اس کا کیا مطلب ہوا یعنی جو پیکٹ اب بھی اس کے پاس ہیں وہ اصلی نوٹوں کے ہیں۔ یعنی وہ پھر مجھ سے اصلی ہی نوٹ لے گیا ہے اور جعلی میرے سر پٹخ گیا۔"

"اچھا وہ نوٹ!۔۔۔ جو تم نے جوئے میں ہارے تھے!" روشی نے پوچھا۔
 
"ان کے بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جعلی ہوں۔۔۔ یا ان میں بھی ایک آدھ پیکٹ اصلی نوٹوں کا چلا گیا ہو! اب تو اصلی اور نقلی مل جل کر رہ گئے ہیں۔ میری ہمت نہیں پڑتی کہ ان میں سے کسی نوٹ کو ہاتھ لگاؤں۔"

"مگر اس لڑکی نے تمہارے نوٹ کس طرح اڑائے ہوں گے!"

"اوہ۔۔۔!" عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔ "میں بڑا بدنصیب آدمی ہوں۔ بلکہ اب مجھے یقین آگیا ہے کہ میں احمق بھی ہوں۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو! ہاں تو کل سردی زیادہ تھی نا۔۔۔ میں نے السٹر پہن رکھا تھا اور پندرہ بیس پیکٹ اس کی جیبوں میں ٹھونس رکھے تھے!"

"تم احمق سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے ہو۔" روشی جھلا کر بولی۔

"نہیں سنو تو! میں نے اپنی دانست میں بڑی عقل مندی کی تھی! ایک بار کا ذکر ہے میرے چچا سفر کر رہے تھے۔ ان کے پاس پندرہ ہزار روپے تھے جو انہوں نے سوٹ کیس میں رکھ چھوڑے تھے! سوٹ کیس راستے میں کہیں غائب ہو گیا! جب سے میرا یہ معمول ہے کہ ہمیشہ سفر میں ساری رقم اپنے پاس ہی رکھتا ہوں۔ پہلے کبھی ایسا دھوکا نہیں کھایا۔ یہ پہلی چوٹ ہے!"

"لیکن آخر اس لڑکی نے تم پر کس طرح ہاتھ صاف کیا تھا؟"

"یہ مت پوچھو! میں بالکل الو ہوں!"

"میں جانتی ہوں کہ تم الو ہو! مگر میں ضرور پوچھوں گی!"

"ارے اس نے مجھے الو بنایا تھا! کہنے لگی تمہاری شکل میرے دوست سے بہت ملتی ہے جو پچھلے سال ایک حادثے کا شکار ہو کر مر گیا! اور میں اسے بہت چاہتی تھی! بس پندرہ منٹ میں بے تکلف ہو گئی!۔۔۔ میں کچھ مضمحل سا تھا! کہنے لگی کیا تم بیمار ہو! میں نے کہا نہیں۔ سر میں درد ہو رہا ہے! بولی لاؤ چمپی کردوں۔۔۔چمپی سمجھتی ہو!"

"نہیں میں نہیں جانتی۔" روشی نے کہا۔

عمران اس کے سر پر چمپی کرنے لگا۔

"ہٹو! میرے بال بگاڑ رہے ہو!" روشی اس کا ہاتھ جھٹک کر بولی۔

"ہاں تو وہ چمپی کرتی رہی اور میں ویٹنگ روم کی آرام کرسی پر سو گیا! پھر شائد آدھے گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی۔۔۔ وہ برابر چمپی کئے جا رہی تھی۔۔۔ سچ کہتا ہوں وہ اس وقت مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح ساری زندگی چمپی کئے جائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ پھر اے بی سی ہوٹل ملنے کا وعدہ کرکے مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی!"

عمران کی آواز تھرا گئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب رو دے گا۔ 

"ہائیں بدھو تم اس کے لئے رو رہے ہو جس نے تمہیں لوٹ لیا۔" روشی ہنس پڑی۔

"ہائیں! میں رو رہا ہوں" عمران اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتا ہوا بولا۔ "نہیں میں غصے میں ہوں! جہاں بھی ملی اس کا گلا گھونٹ لوں گا۔"

"بس کرو میرے شیر بس کرو۔" روشی اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔

"اب تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔" عمران بگڑ گیا۔

"نہیں مجھے تم سے ہمدردی ہے! لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر جوئے میں بھی تم جعلی نوٹ ہارے ہو تو اب وہاں گذر نہیں ہوگا! کچھ تعجب نہیں کہ مجھے اس کے لئے بھی بھگتنا پڑے۔"

"نہیں تم پروا نہ کرو۔ تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا! میں لاکھوں روپے خرچ کردوں گا۔"

روشی کچھ نہ بولی۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔

"میرا خیال ہے کہ یہاں ایک ٹیلیفون بوتھ ہے۔" عمران نے کہا اور ڈرائیور سے بولا۔
"گاڑی روک دو۔"

ٹیکسی رک گئی۔ روشی اور عمران اتر گئے۔

بوتھ خالی تھا! روشی نے ایک بار پھر عمران سے پوچھا کہ اسے کیا کہنا ہے عمران نے اس سلسلے میں کچھ دیر قبل کہے ہوئے جملے دہرائے۔ روشی فون میں سکہ ڈال کر نمبر ڈائیل کرنے لگی اور پھر عمران نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے۔

وہ ایک ہی سانس میں وہ سب کچھ دہرا گئی، جو عمران نے بتایا تھا! پھر خاموش ہو کر شائد دوسری طرف سے بولنے والی کی بات سننے لگی۔

"دیکھئے!" اس نے تھوڑی دیر بعد ماؤتھ پیس میں کہا۔ "مجھے جو کچھ بھی معلوم تھا میں نے بتا دیا! اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی! ویسے مجھے بھی اس کے متعلق تشویش ہے کہ اس کی اصلیت کیا ہے! بظاہر بیوقوف اور پاگل معلوم ہوتا ہے۔"

"آیا کہاں سے ہے!" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"وہ کہتا ہے کہ دلاور پور سے آیا ہوں۔"

"کیا وہ اس وقت تمہارے پاس موجود ہے!"

"نہیں باہر ٹیکسی میں ہے! میں ایک پبلک بوتھ سے بول رہی ہوں۔ اس سے بہانہ کرکے آئی ہوں کہ ایک سہیلی تک ایک پیغام پہنچانا ہے۔"

"کل رات سے قبل بھی اس سے کبھی ملاقات ہوئی تھی۔"

"نہیں کبھی نہیں!" روشی نے جواب دیا۔

"کیا اسے میرا خط دکھایا تھا۔"

"نہیں۔۔۔ کیا دکھا دوں؟" روشی نے پوچھا لیکن اس کا کوئی جواب نہ ملا۔

دوسرے طرف سے سلسلہ منقطع کردیا گیا تھا۔ روشی نے ریسیور رکھ دیا۔ عمران نے فورا ہی انکوائری کے نمبر ڈائیل کیے۔

"ہیلو انکوائری!"

"ہیلو" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"ابھی پبلک بوتھ نمبر چھیالیس سے کسی کے نمبر ڈائیل کئے گئے ہیں! میں پتہ چاہتا ہوں۔

"آپ کون ہیں۔"

"میں ڈی ایس پی سٹی ہوں!" عمران نے کہا۔

"اوہ۔۔۔ شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "چھیالیس بوتھ سے تقریبا آدھے گھنٹے سے کوئی کال نہیں ہوئی۔"

"اچھا شکریہ!" عمران نے ریسیور رکھ دیا اور وہ دونوں باہر نکل آئے۔

"تم ڈی ایس پی سٹی ہو۔" روشی ہنسنے لگی۔

"اگر یہ نہ کہتا تو وہ ہرگز کچھ نہ بتاتا۔" عمران نے کہا۔

"لیکن اس نے بتایا کیا!"

"یہی کہ چھیالیسیویں بوتھ سے پچھلے آدھ گھنٹہ سے کوئی کال نہیں ہوئی! مگر روشی تم نے کمال کر دیا!۔۔۔ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی تم نے بھی کیا۔"
"تم کیا جانو کہ اس نے کیا کہا تھا۔"

"تمہارے جوابات سے میں نے سوالوں کی نوعیت معلوم کر لی تھی۔"

"تم صرف عورتوں کے معاملے میں بیوقوف معلوم ہوتے ہیں۔"

"تم خود بیوقوف!" عمران بگڑ کر بولا۔

"چلو۔۔۔ چلو!" وہ اسے ٹیکسی کی طرف دھکیلتی ہوئی بولی۔

"نہیں تم بار بار مجھے بیوقوف کہہ کر چڑا رہی ہو!"

"اس کی آواز بھی عجیب تھی!" روشی نے کہا۔ "ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی بھوکا بھیڑیا غرا رہا ہو! مگر۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ ایکسچینج کو اس کی اطلاع تک نہ ہوئی!"

"اونہہ مارو گولی!۔۔۔ ہمیں کرنا ہی کیا ہے!" عمران نے گردن جھٹک کر کہا۔

"مجھے تو اب اس لڑکی کی تلاش ہے جس نے میرے نوٹوں میں گھپلا کیا تھا۔"

"نہیں عمران!" روشی بولی۔ "یہ عجیب و غریب اطلاع پولیس کے لئے کافی دلچسپ ثابت ہوگی۔"

"کون سی اطلاع!"

"یہی کہ سکس ناٹ کو رنگ کیا جاتا ہے۔ باقاعدہ کال ہوتی ہے اور ٹیلیفون ایکسچینج کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی!"

"اے روشی۔۔۔ خبردار۔۔۔ خبردار۔۔۔ کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا!۔۔۔ کیا تم سچ مچ اپنی گردن تڑوانا چاہتی ہو! اگر پولیس تک یہ بات پہنچ گئی تو سمجھ لو کہ میں اور تم دونوں ختم کردیئے جائیں گے! وہ کوئی معمولی چور یا اچکا نہیں معلوم ہوتا۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں نے سینکڑوں جاسوسی ناول پڑھے ہیں! ایک ناول میں پڑھا تھا کہ ایک بہت بڑے مجرم نے اپنا ذاتی ٹیلیفون ایکسچینج قائم کر رکھا تھا اور سرکاری ایکسچینج کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔"

"تو تم اب اس سے خائف ہوگئے ہو۔"

"خائف تو نہیں ہوں! مگر میں کیا کروں۔۔۔ میں نے جاسوسی ناول میں پڑھا تھا کہ وہ آدمی ہر جگہ موجود رہتا تھا۔۔۔ جہاں نام لو وہیں دھرا ہوا ہے۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا اور روشی ہنسنے لگی اور کافی دیر تک ہنستی رہی پھر اچانک چونک کر سیدھی ہوگئی! وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔

"تم ہوش میں ہو یا نہیں!" اس نے عمران کی طرف جھک کر آہستہ سے کہا۔ "ہم شہر میں نہیں ہیں۔"

عمران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔۔۔ کار حقیقتا ایک تاریک سڑک پر دوڑ رہی تھی اور دونوں طرف تک کھیتوں اور میدانوں کے سلسلے بکھرے ہوئے تھے۔

"پیارے ڈرائیور گاڑی روک دو!" عمران نے ڈرائیور سے کہا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسے اپنی پشت پر شیشہ ٹوٹنے کا چھناکا سنائی دیا اور ساتھ ہی کوئی ٹھنڈی چیز اس کی گردن سے چپک کر رہ گئی۔

"خبردار چپ چاپ بیٹھے رہو!" اس نے اپنے کان کے قریب ہی کسی کو کہتے سنا۔ "تمہاری گردن میں سوراخ ہو جائے گا اور لڑکی تم دوسری طرف کھسک جاؤ!"

ٹیکسی پرانے ماڈل کی تھی اور اس کی اسٹپنی اوپر کی طرف کھلتی تھی۔۔۔ غالبا شروع ہی سے یہ آدمی اسٹپنی میں چھپا ہوا تھا۔ جنگل میں پہنچ کر اس نے اسٹپنی کھولی اور کار کا پچھلا شیشہ توڑ کر ریوالور عمران کی گردن پر رکھ دیا۔

روشی خوفزدہ نظروں سے اس چوڑے چکلے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جس میں ریوالور دبا ہوا تھا۔
 
عمران نے جنبش تک نہ کی۔ وہ کسی پتھر کے بت کی طرح بے حس و حرکت نظر آرہا تھا! حتٰی کہ اس کی پلکیں تک نہیں جھپک رہی تھیں۔

کار بدستور فراٹے بھرتی رہی۔ روشی پر غشی سی طاری ہو رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا! جیسے کار کا رخ تحت الثرٰی کی طرف ہو۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں۔

اچانک اس نے ایک چیخ کی آواز سنی۔۔۔ بالکل اپنے کان کے قریب اور بوکھلا کر آنکھیں کھول لیں! عمران کار کے عقبی شیشے کے ٹوٹنے سے پیدا ہوجانے والی خلا سے اندھیرے میں گھور رہا تھا اور ریوالور اس کے ہاتھ میں تھا۔

"ڈرائیور روکو گاڑی!" عمران نے ریوالور اس کی طرف کرکے کہا۔

ڈرائیور نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں!

"میں تم سے کہہ رہا ہوں! اس نے اس بار ریوالور کا دستہ ڈرائیور کے سر پر رسید کردیا۔ ڈرائیور ایک گندی سی گالی دے کر پلٹا لیکن ریوالور کا رخ اپنی طرف دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔

"گاڑی روک دو پیارے!" عمران اسے چمکار کر بولا۔ "تمہارے ساتھی کی ریڑھ کی ہڈی ضرور ٹوٹ گئی ہوگئی کیونکہ کار کی رفتار بہت تیز تھی!"

کار رک گئی۔

"شاباش!" عمران آہستہ سے بولا۔ "اب تمہیں بھیرویں سناؤں یا درگت۔۔۔ یا جو کچھ بھی اسے کہتے ہیں۔۔۔ دھرپت کہتے ہیں شائد۔۔۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ عموما دروپد کہتے ہیں!"

ڈرائیور کچھ نہ بولا! وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔

"روشی اس کے گلے سے ٹائی کھول لو!" عمران نے روشی سے کہا۔
 

تھوڑی دیر بعد کار شہر کی طرف واپس جا رہی تھی! روشی اور عمران اگلی سیٹ پر تھے! عمران کار ڈرائیو کر رہا تھا! پچھلی سیٹ پر ڈرائیور بےبس پڑا ہوا تھا۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ پشت پر اسی کی ٹائی سے باندھ دیئے گئے تھے اور پیروں کو جکڑنے کے لئے عمران نے اپنی پیٹی استعمال کی تھی اور اس کے منہ میں دو عدد رومال حلق تک ٹھونس دیئے گئے تھے۔

سیٹ کے نیچے ایک لاش تھی جس کا چہرہ بھرتا ہو گیا تھا۔

کھڑکی کے شیشوں پر سیاہ پردے کھینچ دیئے گئے تھے۔

روشی اس طرح خاموش تھی جیسے اس کی اپنی زندگی بھی خطرے میں ہو!

وہ کافی دیر سے کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ابھی تک اسے کامیابی نہیں نصیب ہوئی تھی! لیکن کب تک! کار میں پڑی ہوئی لاش اسے پاگلوں کی طرح چیخنے پر مجبور کر رہی تھی۔

"میرا خیال ہے کہ اب تم سیدھے کوتوالی چلو۔" روشی نے کہا۔

"ارے باپ رے!" عمران خوفزدہ آواز میں بڑبڑایا۔

"نہیں تمہیں چلنا پڑے گا! کچھ نہیں کوئی خاص بات نہیں! ہم جو کچھ بھی بیان دیں گے وہ غلط نہیں ہوگا۔ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے اسے نیچے گرایا تھا۔"

"وہ تو سب ٹھیک ہے۔۔۔ مگر پولیس کا چکر!۔۔۔ نہیں یہ میرے بس کا روگ نہیں۔"

"پھر لاش کا کیا ہوگا۔ تم نے اسے وہاں سے اٹھایا کیوں؟ ڈرائیور کو بھی وہیں چھوڑ آئے ہوتے! کار کو ہم شہر کے باہر چھوڑ کر پیدل چلے جاتے۔"

"اس وقت کیوں نہیں دیا تھا یہ مشورہ!" عمران غصیلی آواز میں بولا۔ "اب کیا ہو سکتا ہے اب تو ہم شہر میں داخل ہوگئے ہیں!"

روشی کے ہاتھ پیر ڈھیل ہوگئے اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ "اب بھی غنیمت ہے پھر وہیں واپس چلو۔"

"تم مجھ سے زیادہ احمق معلوم ہوتی ہو۔ اس بار اگر دس پانچ سے ملاقات ہوگئی تو میرا سرمہ بن جائیگا اور تمہاری جیلی!"

"پھر کیا کرو گے۔"

"دیکھو ایک بات سوجھ رہی ہے۔ مگر میں تمہیں نہ بتاؤں گا اور نہ تم پھر کوئی ایسا مشورہ دوگی کہ مجھے اپنی عقل پر رونا آجائے گا!"

روشی خاموش ہوگئی! اس لئے نہیں کہ لاجواب ہوگئی تھی بلکہ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور حلق میں کانٹے پڑے جا رہے تھے۔

عمران کار کو شہر کے ایک ایسے حصے میں لایا جہاں کرائے پر دیئے جانے والے بہت سے گیراج بنے تھے۔

اس نے کار ایک جگہ روک دی! اور اتر کر ایک گیراج حاصل کرنے کے لئے گفت و شنید کرنے لگا۔ اس نے مینیجر کو بتایا کہ وہ سیاح ہے۔ کارونیشن ہوٹل میں قیام ہے مگر چونکہ وہاں کاروں کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے وہ یہاں ایک گیراج کرائے پر حاصل کرنا پڑا ہے۔ بات غیر معمولی نہیں تھی اس لئے اسے گیراج حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ اس نے ایک ہفتہ کا پیشگی کرایہ ادا کرکے گیراج کی کنجی اور رسید حاصل کی اور پھر کار کو گیراج میں مقفل کرکے روشی کے ساتھ ٹہلتا ہوا دوسری طرف سڑک پر آگیا۔

"لیکن کا انجام کیا ہوگا۔" روشی بڑبڑائی۔

"صبح تک وہ ڈرائیور بھی مر جائے گا۔" عمران نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔

"تم بالکل گدھے ہو۔" روشی جھلا گئی۔
 
"نہیں اب میں اتنا گدھا بھی نہیں ہوں! میں نے اپنا صحیح نام اور پتہ نہیں لکھوایا۔"

"اس خیال میں نہ رہنا۔" روشی نے تلخ لہجے میں کہا۔ "پولیس شکاری کتوں کی طرح پیچھا کرتی ہے۔"

"فکر نہ کرو! ایک ہفتے تک تو وہ گیراج کھلنا نہیں! کیوں کہ میں نے ایک ہفتے کا پیشگی کرایہ ادا کیا ہے اور پھر ایک ہفتے میں۔۔۔ میں نہ جانے کہاں ۃوں گا! ہوسکتا ہے مر ہی جاؤں ہوسکتا ہے اس نامعلوم آدمی کی موت آجائے۔۔۔ بہرحال وہ اپنے دو ساتھیوں سے محروم ہو ہی چکا ہے!"

روشی کچھ نہ بولی! اس کا سر چکرا رہا تھا۔

عمران نے ایک گزرتی ہوئی ٹیکسی رکوائی! روشی کے لئے دروازہ کھولا اور پھر خود بھی اندر بیٹھا ہوا ڈرائیور سے بولا۔ "وہاٹ ماربل۔"

روشی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں" عمران سرہلا کر بولا "وہیں کھانا کھائیں گے! کافی پیئں گے اور تم دو ایک پیگ لے لینا! طبیعت سنبھل جائے گی۔ ویسے اگر چیونگم پسند کرو تو ابھی دوں۔۔۔ اور ہاں ہم وہاں دو ایک راؤنڈ رمبا بھی ناچیں گے۔"

"کیا تم سچ مچ پاگل ہو!" روشی آہستہ سے بولی۔

"ہائیں! کبھی احمق۔ کبھی پاگل! اب میں اپنا گلا گھونٹ لوں گا۔"

روشی خاموش ہوگئی! وہ اس سلسلے میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ذہنی انتشار اپنی انتہائی منزلیں طے کر رہا تھا۔ 

وہ وہاٹ ماربل میں پہنچ گئے!۔۔۔ روشی کا دل چاہ رہا تھا کہ پاگلوں کی طرح چیختی ہوئی گھر کی طرف بھاگ جائے۔ 

عمران اسے ایک کیبن میں بٹھا کر باتھ روم کی طرف چلا گیا! باتھ روم کا تو صرف بہانہ تھا! وہ دراصل اس کیبن میں جانا چاہتا تھا جہاں گاہکوں کے استعمال کرنے کا فون تھا۔

اس نے وہ نمبر ڈائل کئے جس پر انسپکٹر جاوید سے ہر وقت رابطہ کیا جا سکتا تھا۔

"ہیلو!۔۔۔ کون۔۔۔ انسپکٹر جاوید سے ملنا ہے! اوہ آپ ہیں، سنئے میں علی عمران بول رہا ہوں۔ ہاں۔۔۔ دیکھئے۔۔۔ امیر گنج کے گیراج نمبر تیرہ میں جو مقفل ہے آپ کو نیلے رنگ کی ایک کار ملے گی۔۔۔ اس میں دو شکار ہیں! ایک تو مر چکا ہے اور دوسرا شاید آپ کو زندہ ملے۔۔۔ گیراج کی کنجی میرے پاس ہے۔ آپ تلاشی کا وارنٹ لے کر جائیے اور بے دریغ تالا توڑ دیجئے۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ دونوں اسی کے آدمی ہیں! اور نئے کافی رازداری کی ضرورت ہے! اس واقعے کو راز ہی رہنا چاہیئے! مکمل واقعات آپ کو کل صبح معلوم ہوں گے! اچھا شب بخیر!"

عمران ریسیور رکھ کر روشی کے پاس واپس آگیا۔

روشی کی حالت ابتر تھی! عمران نے کھانے سے قبل اسے شیری پلوائی۔۔۔ نتیجہ کسی حد تک اچھا ہی نکلا۔۔۔ روشی کے چہرے پر تازگی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔۔۔ لیکن پھر بھی کھانا اس کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔۔۔ اور وہ عمران کو حیرت سے دیکھ رہی تھی! جو کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑا تھا جیسے کئی دن سے بھوکا ہو اور اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی تھی۔

"تم بہت خاموش ہو۔" عمران نے سر اٹھائے بغیر روشی سے کہا۔

"رمبا کی کیا رہی۔۔۔ میں ناچنے کے موڈ میں ہوں۔"

"خدا کے لئے مجھے پریشان مت کرو۔"

"تم عورت ہو یا۔۔۔ ذرا مجھے بتاؤ کہ کیا میں ان کے ہاتھوں مارا جاتا! وہ ہمیں کہیں لے جا کر ہماری چٹنی بنا ڈالتے!"
"میں اس موضوع پر بات نہں کر چاہتی۔" روشی نے اپنی پیشانی رگڑتے ہوئے کہا۔ 

"میں خود نہیں کرنا چاہتا تھا! خود چھیڑتی ہو اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے مجھے کھا جاؤ گی۔"

"عمران ڈیئر۔۔۔ سوچو تو اب کیا ہوگا۔"

"دوسرا بھی مر جائے گا۔۔۔ اور دو چار دن لاشوں کی بدبو پھیلے گی تو گیراج کا تالا توڑ دیا جائے گا اور پھر وہ پکڑا جائے گا جس کی وہ کار ہوگی۔۔۔ ہاہا۔۔۔!"

"اور جو تم انہیں اپنی شکل دکھا آئے ہو۔" روشی بھنا کر بولی۔

"گیراج والوں کو!" عمران نے پوچھا اور روشی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

عمران نے کہا۔ "مگر وہ لوگ تمہاری شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔ تم محفوظ رہو گی۔!

"میں تمہارے لئے کہہ رہی ہوں۔" روشی جھپٹ پڑی۔

"میری فکر نہ کرو۔۔۔ میں پٹھان ہوں! جب تک اس نامعلوم آدمی کا صفایا نہ کر لوں اس شہر سے نہیں جاؤں گا۔ ویسے میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔"

"کیوں!" روشی اسے گھورنے لگی۔

"تم بات بات پر میری توہین کرتی ہو! احمق۔۔۔ پاگل اور نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی ہو! خود بوری ہوتی ہو اور مجھے بور کرتی ہو۔"

روشی کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"تم میرے ساتھ رمبا ناچو گی؟" عمران ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔

"ہوں! اچھا!" روشی اٹھتے ہوئے بولی۔ "چلو! لیکن یہ یاد رکھنا۔۔۔ تم مجھے آج بہت پریشان کر رہے ہو۔"

وہ دونوں ریکرئیشن ہال میں داخل ہوئے۔۔۔ درجنوں جوڑے رقص کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عمران او روشی بھی ان کی بھیڑ میں غائب ہو گئے۔
دوسرے دن عمران محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھا تھا۔

جس وقت وہ یہاں داخل ہوا تھا اس کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی اور چہرے پر کچھ ایس قسم کا تقدس تھا کہ وہ کوئی نیک دل پادری معلوم ہوتا تھا۔۔۔ آنکھوں پر تاریک شیشوں کی عینک تھی۔۔۔ داڑھی اب بھی موجود تھی لیکن چشمہ اتار دیا گیا تھا۔

سپرنٹنڈنٹ وہ رپورٹ پڑھ رہا تھا جو عمران نے پچھلی رات کے واقعات کے متعلق مرتب کی تھی۔

"مگر جناب!" سپرنٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ "وہ کار چوری کی ہے! اس کی چوری کی رپورٹ ایک ہفتہ قبل کوتوالی میں درج کرائی گئی تھی۔"

"ٹھیک ہے!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "اس قسم کی مہموں میں ایسی ہی کاریں استعمال کی جاتی ہیں! میرا خیال ہے کہ یہاں آئے دن کاریں چرائی جاتی ہوں گی!"

"آپ کا خیال درست ہے۔ لیکن وہ کہیں نہ کہیں مل بھی جاتی ہیں! لیکن ایسی کار کے ساتھ کسی آدمی کا بھی پکڑا جانا پہلا واقعہ ہے۔"

"ڈرائیور سے آپ نے کیا معلوم کیا؟" عمران نے پوچھا۔

"کچھ بھی نہیں! وہ کہتا ہے کہ کل شام ہی کو اس کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ وہ دراصل ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے اور اسے صرف تین گھنٹے کام کرنے کی اجرت تین سو روپے پیشگی دے دی گئی تھی۔"

"آہم! تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سے کچھ معلوم ہونے کی توقع کی جاسکتی وہ ختم ہی ہو گیا۔ خیر۔۔۔ لیکن یہ تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مرنے والا کون تھا کہاں رہتا تھا کن حلقوں سے اس کا تعلق تھا۔"

"جاوید اس کے لئے کام کر رہا ہے اور مجھے توقع ہے کہ وہ کامیاب ہوگا۔"

"ٹھیک! اچھا کیا آپ اس بات سے واقف ہیں۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ خیر میں ابھی کیا کہہ رہا تھا!

عمران خاموش ہو کر اپنی پیشانی پر انگلی مارنے لگا۔۔۔ وہ دراصل سپرنٹنڈنٹ سے فون نمبر سکس ناٹ کے متعلق گفتگو کرنے جا رہا تھا۔۔۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔

"کیا آپ کوئی خاص بات کہنے والے تھے۔" سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا۔

"وہ بھی بھول گیا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا! پھر اس کے چہرے پر نہ جانے کہاں کا غم ٹوٹ پڑا اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر دردناک لہجے میں بولا۔"میں نہیں جانتا کہ یہ کوئی مرض ہے یا ذہنی کمزوری۔۔۔اچانک اس طرح ذہنی رو بہکتی ہے کہ میں وقتی طور پر سب کچھ بھول جاتا ہوں ہو سکت اہے کہ تھوڑی دیر بعد وہ بات یاد ہی آجائے، جو میں آپ سے کہنا چاہتا تھا۔"

سپرنٹنڈنٹ اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھنے لگا! لیکن عمران کے چہرے سے اس کی دلی کیفیات کا اندازہ کرلینا آسان کام نہیں تھا۔

پھر اس کیس کے متعلق دونوں میں کافی دیر تک مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ سپرنٹنڈنٹ نے اسے بتایا کہ اے بی سی ہوٹل کے تین آدمی جعلی نوٹوں سمیت پکڑے گئے ہیں۔ عمران نے نوٹوں کے نمبر طلب کئے سپرنٹنڈنٹ نے دراز سے لسٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دی۔

"نہیں۔" عمران سرہلا کر بولا۔ "اس میں صرف وہی نمبر ہیں جو میں ہوٹل میں ہارا تھا۔ ایک بھی ایسا نمبر نہیں نظر آتا، جو اس آدمی والے پیکٹوں سے تعلق رکھتا ہو!"

"تب تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اے بی سی والوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں! ظاہر ہے کہ اگر وہ ہوشیار ہو گیا تو اسے اے بی سی والوں کو بھی نوٹوں کے استعمال سے روک دینا چاہیئے تھا۔"
"نہیں اس کے بارے میں تو کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا۔" عمران نے کہا۔" ہوسکتا ہے کہ تعلق ظاہر نہ کرنے ہی کے لئے اس نے دیدہ دانستہ ان آدمیوں کو پولیس کے چنگل میں دے دیا ہو!"

"جی ہاں یہ بھی ممکن ہے!" سپرنٹنڈنٹ سرہلانے لگا۔

"فی الحال ہمیں اے بی سی والوں کو نظر انداز کر دینا چاہیئے۔" عمران نے کہا۔

"لیکن اب آپ کیا کریں گے!" سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا۔

"بتانا بہت مشکل ہے۔ میں پہلے سے کوئی طریق کار متعین نہیں کرتا۔ بس وقت پر جو سوجھ جائے! پچھلی رات کے واقعات کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ اب اس کا منتظر ہوں۔"

پھر عمران زیادہ دیر تک وہاں نہیں بیٹھا، کیوں کہ ایک نیا خیال اس کے ذہن میں سر ابھار رہا تھا! وہ وہاں سے نکل کر ایک طرف چلنے لگا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی اندازہ کرتا جا رہا تھا کہ کہیں کوئی اس کا تعاقب تو نہیں کر رہا۔

اس نے آج بھی سپرنٹنڈنٹ سے روشی کا تذکرہ نہیں کیا تھا! وہ اسے پس منظر ہی میں رکھنا چاہتا تھا۔ 

کچھ دور چل کر وہ ایک ٹیلیفون بوتھ کے سامنے رک گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا دور دور تک کسی کا پتہ نہیں تھا۔ سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہیں تھی۔ کبھی کبھار ایک آدھ کار گزرجاتی تھی۔ کوئی راہ گیر چلتا ہوا نظر آجاتا تھا۔

عمران بوتھ کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا اور پھر اسے اندر سے بولٹ کرنے کے بعد سوراخ میں سکہ ڈالا۔۔۔ دوسرے لمحے میں سکس ناٹ کو ڈائیل کر رہا تھا۔ 

"ہیلو!" دوسری طرف سے ایک بھاری آواز آئی۔

"میں روشی بول رہی ہوں۔" عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا! اگر اس وقت روشی یہاں موجود ہوتی تو اسے عمران کی آواز سن کر غش ضرور آجاتا!

"روشی"

"ہاں! میں بہت پریشان ہوں۔"

"کیوں؟"

"اس نے پچھلی رات ایک آدمی کو مارڈ ڈالا ہے۔۔۔ وہ ہماری کار کی اسٹپنی میں چھپ گیا تھا۔۔۔ پھر ایک جگہ اس نے پچھلا شیشہ توڑ کر ہمیں ریوالور دکھایا۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اسے اس نے کس طرح نیچے گرادیا۔" عمران نے پورا واقعہ دہراتے ہوئے کہا۔ "میں بہت پریشان تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ پولیس کو اطلاع دے مگر اس نے انکار کر دیا۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں! بہرحال میں نے گھبراہٹ میں پولیس کو فون کر دیا تھا کہ فلاں نمبر کے گیراج میں ایک لاش ہے۔ لیکن میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں کون ہوں۔"

"اسے علم ہے کہ تم نے پولیس کو فون کیا ہے۔"

"نہیں! میں نے اسے نہیں بتایا! میں بہت پریشان ہوں! وہ کوئی خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔۔۔ کون ہے؟ یہ میں نہیں جانتی!"

"تم اس وقت کہاں سے بول رہی ہو!" 

"یہ نہیں بتاؤں گی! مجھے تم سے خوف معلوم ہوتا ہے۔"
دوسری طرف سے ہلکے قہقہے کی آواز آئی او ربولنے والے نے کہا۔ "تم پبلک بوتھ نمبر چوبیس سے بول رہی ہو۔"

اور عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"میں جا رہی ہوں!" اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

"نہیں ٹھہرو! اسی میں تمہاری بہتری ہے۔۔۔ ورنہ جانتی ہو کہ کیا ہوگا؟ اگر پولیس کے ہتھے چڑھ گئیں تو۔۔۔ میرا تم سے کوئی جھگڑا نہیں بلکہ تم کئی بار نادانستہ طور پرمیرے کام بھی آچکی ہو۔۔۔ میں تمہیں اس جنجال سے بچانا چاہتا ہوں۔۔۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم بوتھ کے باہر ٹھہرو! آدھ گھنٹےکے اندر ہی اندر میراایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا۔"

"کیوں۔۔۔ نہیں نہیں!" عمران نے احتجاجا کہا۔ "میں بالکل بے قصور ہوں میں کیا کروں وہ خوامخواہ میرے گلے پڑ گیا ہے۔"

"ڈرو نہیں روشی!" بولنے والے نے اسے چمکار کر کہا۔ "میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔"

عمران نے فورا ہی کوئی جواب نہیں دیا۔

"ہیلو!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ 

"ہیلو" عمران کپکپائی ہوئی آواز میں بولا۔ "اچھا میں انتظار کروں گی لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے۔"

"بہت ڈر گئی ہو!" قہقہے کے ساتھ کہا گیا۔ "ارے اگر میں تمہیں مارنا چاہتا تو تم اب تک زندہ نہ ہوتیں۔ اچھا تم وہیں انتظار کرو۔"

سلسلہ منقطع کر دیا گیا! عمران بوتھ سے نکل آیا! اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی اور داڑھی میں یہ مسکراہٹ نہ جانے کیوں خطرناک معلوم ہو رہی تھی۔

آدھے گھنٹے تک اسے انتظار کرنا تھا۔ وہ ٹہلتا ہوا سڑک کی دوسری جانب چلا گیا۔ ادھر چند سایہ دار درخت تھے۔

روشی کا انتظام اس نے پچھلی رات ہی کو کر لیا تھا! وہ اس وقت ایک غیر معروف سے ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھی اور عمران نے پچھلی رات اسی کے فلیٹ میں تنہا گذاری تھی!۔

وہ درختوں کے نیچے ٹہلتا رہا۔ بار بار اس کی نظر گھڑی کی طرف اٹھ جاتی تھی۔ بیس منٹ گذر گئے! اب وہ پھر بوتھ کی طرف جا رہا تھا!

زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ ایک کار قریب ہی اس کی پشت پر آکر رکی ہے۔

اچانک عمران پر کھانسیوں کا دورہ پڑا۔ وہ پیٹ دبائے ہوئے جھک کر کھانسنے لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہو کر بوتھ کی طرف مکا لہراتا ہوا غصیلی آواز میں بولا "سالی کبھی تو باہر نکلو گی۔"

"کیا بات ہے جناب۔" کسی نے پشت سے کہا۔

عمران چونک کر مڑا۔ اس کے تین یا چار فٹ کے فاصلے پر ایک نوارد نوجوان کھڑا تھا اور سڑک پر ایک خالی کار موجود تھی!

"کیا بتاؤں جناب!" عمران اس طرح بولا جیسے کھانسیوں کے دوررے کی وجہ سے اس کی سانسیں الجھ رہی ہوں! وہ چند لمحے ہانپتا رہا پھر بولا۔ "ایک گھنٹے سے اندر گھسی ہوئی ہے۔ مجھے بھی ایک ضروری فون کرنا ہے۔۔۔ کئی بار دستک دے چکا ہوں! ہر بار یہی کہہ دیتی ہے کہ ایک منٹ ٹھہریئے! ایک منٹ کی ایسی کی تیسی ایک گھنٹہ ہو گیا۔۔۔"
"اوہ ٹھہریئے! میں دیکھتا ہوں!" نووارد آگے بڑھتا ہوا بولا۔ اس نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا لیکن پھر اسے مڑنا نصیب نہیں ہوا۔ عمران کا ہاتھ اس کی گردن دبوچ چکا تھا!۔۔۔ اس نے اسے بوتھ کے اندر دھکا دے دیا اور خود بھی طوفان کی طرح اس پر جاپڑا۔

بوتھ کا دروازہ خودکار تھا اس لئے اسے بند کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی وہ ان دونوں کے داخل ہوتے ہی خود بخود بند ہو گیا تھا۔

تپھڑوں، گھونسوں اور لاتوں کا طوفان۔

ہاتھ کے ساتھ ہی ساتھ عمران کی زبان بھی چل رہی تھی۔

"میں روشی تمہاری ٹھکائی کر رہی ہوں مری جان! اپنے بلڈاگ سے کہہ دینا کہ میرے بقیہ نوٹ مجھے واپس کردے ورنہ ایک دن اسے بھی کسی چوہے دان میں بند کرکے ماروں گا۔۔۔ اور وہ سالی روشی۔۔۔ وہ بھی مجھے جل دے گئی۔ کل رات سے غائب ہے اور بیٹا کل رات میں نے تمہارے ایک ساتھی کی کمر توڑ دی ہے!"

عمران اس پر اچانک اس طرح ٹوٹ پڑا تھا کہ اسے کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ پھر ایسی صورت میں چپ چاپ پٹتے رہنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں اس نے ہاتھ پاؤں ڈال دیئے۔

عمران نے اسے کالر سے پکڑ کر اٹھایا لیکن اس کے پیر زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے!

"دیکھ بیٹا! اپنے بلڈاگ سے کہہ دینا کہ آج رات کو میرے بقیہ نوٹ واپس مل جانے چاہئیں۔۔۔ وہ جعلی ہیں! میں انہیں ابھی بازار میں نہیں لانا چاہتا تھا! مگر اس کتے کی وجہ سے میرا کھیل بگڑ گیا ہے! آخر وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والا ہوتا کون ہے۔ اس سے کہو آج رات مجھے نوٹ واپس ملنے چاہئیں۔ میں روشی ہی کے فلیٹ میں ہوں! وہ مجھ سے خائف ہو کر کہیں چھپ گئی ہے۔۔۔ آج رات کو۔۔۔ بھولنا نہیں۔۔۔ میں روشی ہی کے فلیٹ میں ملوں گا اور یہ بھی کہہ دینا اس چڑیمار سے کہ اے بی سی ہوٹل میں ایک پولیس آفیسر مچھلیوں کے شکار کے بہانے ٹھہرا ہوا ہے ہوشیار رہنا۔"

پھر اس نے اسے کھینچ کر بوتھ سے باہر نکالا۔

سڑک ویران پڑی تھی!۔۔۔ نووارد اگر چاہتا تو کھلی جگہ میں اس سے نپٹ سکتا تھا! مگر حقیقت تو یہ تھی کہ اب اس میں جدوجہد کی سکت نہیں رہ گئی تھی!

عمران نے اسے اسٹیرنگ پر بٹھا دیا۔

"جاؤ اب دفع ہو جاؤ!" عمران نے کہا۔ "ورنہ ہو سکتا ہے کہ مجھے تم پر پھر پیار آنے لگے۔ اپنے بلڈاگ تک میرا پیغام ضرور پہنچا دینا! نہیں تو پھر جانتے ہو مجھے جہاں بھی اندھیرے اجالے مل گئے تمہارا آملیٹ بنا کر رکھ دوں گا۔"
 
ہدہد کو عمران نے بالکل اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔ وہ سچ مچ تھوڑا سا بیوقوف تھا۔ لیکن عمران کے اشارے پر بالکل مشین کی طرح کام کرتا تھا۔ کاہل اور سست ہونے کے باوجود بھی کام کے وقت اس میں کافی پھرتیلا پن آجاتا تھا۔

مگر اس کام سے وہ بری طرح بیزار تھا جو آج کل اسے سونپا گیا تھا وہ اس کام کو کسی حد تک برداشت کر سکتا تھا! مگر کم از کم اے بی سی ہوٹل میں قیام کرنے کے لئے تیار نہیں تھا! لیکن عمران سے خوف معلوم ہوتا تھا اور وہ بے چارہ ابھی تک اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اسے حقیقتا کرنا کیا ہے۔ ویسے محکمہ اسے مچھلی کا شکار کرنے کی تنخواہ تو دیتا نہیں تھا۔

کل وہ ہوٹل میں داخل ہوا تھا اور آج اسے عمران کی ہدایت کے مطابق شکار کے لئے صبح سے شام تک سمندر کے کنارے بیٹھنا تھا۔

لیکن وہ اے بی سی کی فضا اور ماحول سے سخت بیزار تھا! اسے وہاں ہروقت برے آدمی اور بری عورتیں نظر آتی تھیں۔

اس وقت وہ ناشتے کی میز پر بیٹھا جلدی جلدی حلق میں چائے انڈیل رہا تھا! وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا!۔۔۔ بات یہ تھی کہ اسے کاوئنٹر کے قریب وہی عورت نظر آگئی تھی جس نے پچھلی رات اسے بہت پریشان کیا تھا! رات وہ نشے میں تھی اور ہدہد کے سر ہو گئی تھی کہ وہ اسے فلم دیوداس کا گانا "بالم آبسو مورے من میں!" سنائے ہدہد کی بوکھلاہٹ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس تفریح میں دلچسپی لینے لگے تھے۔

پتہ نہیں کس طرح ہدہد نے اس سے پیچھا چھڑایا تھا۔

اب اس وقت پھر اسے دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔

لیکن عورت جو اس وقت نشے میں نہیں تھی۔ کافی سنجیدہ نظر آرہی تھی! ہدہد نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور کمرے سے شکار کا سامان لے کر گھاٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔

ہدہد یہاں آنے کے مقصد سے تو واقف نہیں تھا! وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عمران کو اس علاقے میں کیوں دلچسپی ہوسکتی ہے! مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ خود اسے کیا کرنا ہے۔۔۔ البتہ وہ اپنی آنکھیں ضرور کھلی رکھنا چاہتا تھا۔ 

اس حصے میں سمندر پرسکون تھا اور ادھر لانچوں اور کشتیوں کی بھی آمد و رفت نہیں رہتی تھی۔ اسے اپنے علاوہ دو تین آدمی اور بھی نظر آئے جو پانی میں ڈوریں ڈالے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔

وہ ایک بجے تک جھک مارتا رہا۔ لیکن ایک مچھلی بھی اس کے کانٹے میں نہ لگی۔

لیکن وہ شاید اس بات سے بے خبر تھا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک آدمی کھڑا خود اس کا شکار کرنے کی تاک میں ہے۔ 

وہ آدمی چند لمحے کھڑا سیگرٹ کے کش لیتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ ہدہد کی طرف بڑھا۔

"آج کل شکار مشکل ہی سے ملتا ہے!" اس نے ہدہد سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

ہدہد چونک کر اسے گھورنے لگا۔یہ ایک دبلا پتلا اور دراز قد آدمی تھا۔ عمر تیس اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ اس نے شانے سے ایک کیمرہ لٹک رہا تھا۔

"جج جی ہاں!" ہدہد اپنے چہرے پر خوش اخلاقی کے آثار پیدا کرتا ہوا بولا۔

"آپ اس شوق کو کیسا سمجھتے ہیں۔" نووارد نے پوچھا!

"مم۔۔۔ معاف فرمائیے گا! مم۔۔۔ میں سمجھا نہیں۔"

"اوہ! میرے اس سوال کو کسی اور روشنی میں نہ لیجئے گا! میرا تعلق دراصل ایک باتصویر ماہنامے سے ہے، اور میرا کام یہ ہے کہ میں مختلف قسم کی ہابیز کے متعلق معلومات اور تصاویر فراہم کروں۔"

"یہ میرے ہابی نہیں بلکہ۔۔۔ پپ پیشہ ہے۔" ہدہد مسکرا کر بولا۔
"میں نہیں یقین کر سکتا جناب!" نووارد بھی ہنسنے لگا۔ "ہمارے یہاں کے پیشہ ور سمندر میں جال ڈالتے ہیں اور ان کا لباس اتنا شاندار نہیں ہوتا۔۔۔ اور وہ تنکوں کے ہیٹ بھی نہیں لگاتے۔"

ہدہد بھی خوامخواہ ہنسنے لگا اور نووارد نے کہا۔" میں آپ کا شکر گذار ہوں گا! اگر آپ مجھے شکار کھیلتے ہوئے دو تین پوز دے دیں۔"

"یہاں اکیلا۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ ہی۔۔۔ تت تو نہیں ہوں۔"

"درست ہے! لیکن میں انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی تصویر کسی ایسے ماہنامے میں شائع ہو جو امریکہ، انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ جیسے ممالک میں جاتا ہو۔"

ہدہد گدھے کی طرح پھول گیا اور اس نے اپنے تین پوز دے دیئے! لیکن اس شوق کے متعلق اظہار خیال کرتے وقت وہ بری طرح ہکلانے لگا۔ظاہر ہے کہ اسے مچھلیوں کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ ہر مچھلی لذیذ نہیں ہوتی اور خواہ وہ کسی قسم سے تعلق رکھتی ہو اس میں کانٹے ضرور ہوں گے۔

"میں زبانی۔۔۔ نن نہیں۔۔۔ بب۔۔۔ بب۔۔۔ بتا سکتا!" اس نے آخرکار تنگ آکر کہا۔ "لکھ کر۔۔۔ ددے۔۔۔ سکتا ہوں۔"

"ہوتا ہے۔۔۔ ہوتا ہے۔" نووارد سرہلا کر بولا۔" بعض لوگ لکھ سکتے ہیں بیان نہیں کرسکتے۔ اچھا کوئی بات نہیں! ۔۔۔ مجھے اس کے بارے میں جتنا بھی علم ہے خود ہی لکھ لوں گا! ویسے آپ مجھے اپنا نام اور پتہ لکھوا دیجیئے۔"

ہدہد نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس نے نام اور پتہ غلط ہی لکھوایا ہوگا۔

نووارد رخصت ہوگیا۔۔۔ لیکن اس نووارد کی گھات میں کوئی اور بھی تھا۔ جیسے ہی وہ دور ریتلے حصے کو پار کرکے بندرگاہ کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچا! ایک آدمی تودے کی اوٹ سے نکل کر اس کا تعاقب کرنے لگا اور یہ آدمی عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
 
روشی اپنے اقامتی ہوٹل میں پچھلی رات سے عمران کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اسے ہوٹل میں ٹھہرا کر جلدی ہی واپس آنے کا وعدہ کرکے رخصت ہو گیا تھا۔ روشی اس کے لئے بے حد متفکر تھی! لیکن اتنی ہمت بھی نہیں رکھتی تھی کہ اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔

اسے پولیس کا بھی خوف تھا اور وہ بھیانک آدمی تو تھا ہی اس کی تلاش میں۔۔۔ سارا دن گذر گیا لیکن عمران نہیں آیا۔ اس وقت شام کے چار بج رہے تھے اور روشی قطعی ناامید ہو چکی تھی اسے یقین تھا کہ عمران کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔

یا تو وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا! یا پھر اس بھیانک آدمی نے۔۔۔ وہ اس خیال ہی سے کانپ اٹھی۔۔۔ اس کے تصور میں عمران کی لاش تھی۔

وہ پلنگ پر کروٹیں بدل رہی تھی! اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے! اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی اور روشی اچھل پڑی۔۔۔ لیکن پھر اس نے سوچا ممکن ہے ویٹر ہو کیوں کہ یہ چائے کا وقت تھا۔ 

"آجاؤ" روشی نے بے دلی سے کہا۔

دروازہ کھلا! عمران سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

"تم!" روشی بے تحاشہ اچھل کر اسکی طرف لپکی۔ "تم کہاں تھے! میں تمہیں مار ڈالوں گی۔"

"ہائیں!" عمران اس طرح بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا جیسے اسے سچ مچ روشی کی طرف سے قاتلانہ حملے کا خدشہ ہو۔

روشی ہنسنے لگی۔۔۔ مگر اسے جھنجھوڑ کر بولی۔ "تم بڑے سور ہو بتاؤ کہاں تھے۔"

"چچی فرزانہ کا مکان تلاش کر رہا تھا۔" عمران سنجیدگی سے بولا۔

"کیوں؟ یہ کون ہیں؟"

"میں نہیں جانتا!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ایسے آدمی سے واقف ہیں جس کا بائیاں کان آدھا کٹا ہوا ہے۔"

"کرنے لگے بے تکی بکواس! تم مجھے اس طرح چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔"

"کیا تم مرنا چاہتی ہو۔"

"ہاں میں مرنا چاہتی ہوں۔" روشی جھلا گئی۔

"اچھا تو اردو کے عشقیہ ناول پڑھنا شروع کردو! تم بہت جلد بو ہو کر مر جاؤ گی۔"

"عمران! میں تمھیں گولی مار دوں گی۔"

"چلو بیٹھ جاؤ!" عمران اسے ایک آرام کرسی پر دھکیلتا ہوا بولا۔ "ہم دونوں کی زندگی کا انحصار صرف اس نامعلوم آدمی کی موت پر ہے۔"

روشی اسے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر بولی۔ "تم آخر ہو کیا بلا۔۔۔ مجھے بتاؤ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"

"میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا کل رات فون پر تم نے پولیس کو اطلاع دی تھی!"

"کس بات کی اطلاع!" روشی چونک پڑی۔

"یہی کہ گیراج نمبر تیرہ میں ایک لاش ہے۔"

"ہرگز نہیں! بھلا میں کیوں اطلاع دینے لگی۔"
"پتہ نہیں۔ پھر وہ عورت کون ہے۔ تم نے شام کا کوئی اخبار دیکھا۔"

"نہیں! میں نے نہیں دیکھا۔ مجھے پوری بات بتاؤ! الجھن میں نہ ڈالو۔"

"پولیس نے گیراج کا تالا توڑ دیا ہے اور لاش دریافت کر لی ہے۔ ڈرائیور زندہ ہی نکلا تھا۔ صرف بیہوش ہو گیا تھا۔ اخبار کی خبر ہے۔ پچھلی رات کسی نامعلوم عورت نے جو لہجے سے اینگلو انڈین معلوم ہوتی تھی فون پر اس کی اطلاع پولیس کو دی تھی۔"

"میں قسم کھانے کو تیار ہوں۔"

"مجھے یقین ہے کہ تم ایسی حرکت نہیں کر سکتیں۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم میری اجازت کے بغیر اس ہوٹل سے باہر قدم نہ نکالنا خواہ مجھے سے ایک ہفتے کے بعد ہی ملاقات کیوں نہ ہو۔"

"میں وعدہ نہیں کرسکتی۔" 

"کیوں؟"

"میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔ تم مجھے تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔"

"یعنی تم چاہتی ہو کہ ہم دونوں کی گردنیں ساتھ ہی کٹیں۔"

"نہ جانے کیوں! مجھے تمہاری موجودگی میں کسی سے بھی خوف نہیں محسوس ہوتا۔"

"اچھا، صرف آج رات اور یہاں ٹھہر جاؤ!"

"آخرکیوں؟۔۔۔ تم کیا کرتے پھر رہے ہو۔ مجھے بتاؤ!"

"نہیں روشی تم بہت اچھی ہو! تم آج رات یہیں قیام کرو گی! اچھا یہ بتاؤ کبھی تمہیں اے بی سی ہوٹل میں کوئی ایسا آدمی نظر آیا ہے جس کا با بائیاں کان آدھا کٹا ہوا ہو۔"

روشی پلکیں جھپکانے لگی۔ شاید وہ کچھ یاد کرنے کے لئے ذہن پر زور دے رہی تھی۔

"کیوں! تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو!" اس نے آہستہ سے پوچھا۔ "نہیں! میں نے وہاں ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا! لیکن میں ایسے ایک آدمی کو جانتی ضرور ہوں۔"

"اے بی سی سے تعلق ہے اس کا؟" عمران نے پوچھا۔

"نہیں! وہ اس حیثیت کا آدمی نہیں ہے کہ اس کا گذر اے بی سی جیسی مہنگی جگہوں میں ہوسکتے۔ وہ ماہی گیروں کی ایک کشتی پر ملازم ہے۔"

"تمہیں یقین ہے کہ اس کا بائیاں کان کٹا ہوا ہے۔"

"ہاں! لیکن تم۔۔۔!"

"شش ٹھہرو! مجھے بتاؤ کہ وہ اس وقت کہاں ملےگا ۔"

"میں بھلا کیسے بتا سکتی ہوں! مجھے اس کا گھر نہیں معلوم۔"

"تو اس کشتی ہی کا پتہ نشان بتاؤ جس پر کام کرتا ہے۔"

"ہرشفیلڈ فشریز!"

"ہرشفیلڈ فشریز!" عمران نے ایک طویل سانس لے کر آہستہ سے دہرایا۔ پھر اٹھتا ہوا بولا۔ "اچھا ٹاٹا۔۔۔ کل صبح ملاقات ہوگی۔"

"ٹھہرو! مجھے بتاؤ کہ تم کس چکر میں ہو۔"

"میں بقیہ نوٹ واپس لینا چاہتا ہوں۔"

"کچھ بھی ہو!" روشی اسے گھورتی ہوئی بولی۔ "اب تم مجھے اتنے احمق نہیں معلوم ہوتے جیسے اس شام اے بی سی میں معلوم ہوتے تھے۔"

"پھر احمق کہا!۔۔۔ تم خود احمق۔۔۔!"

عمران اسے گھونسہ دکھاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
روشی کا فلیٹ آج بہت زیادہ روشن نظر آرہا تھا! عمران نے چند مزید بلیوں کا اضافہ کیا تھا اور وہ فلیٹ میں تنہا تھا۔

اگر اس کے محکمے کے کسی آدمی کو اس کی ان حرکات کا علم ہو جاتا تو وہ اسے قطعی دیوانہ اور خبطی تصور کرلیتا۔

آج دن بھر وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا تھا! مجرموں میں سے ایک کا ہاتھ آجانا اور پھر اسے صرف معمولی سی مرمت کرکے واپس کردینا اصولا ایک بہت بڑی غلطی تھی! ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عمران اسے باقاعدہ طور پر گرفتار کرکے اسے اس کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی پر مجبور کردیتا۔ پھر اس نے اسے ہدہد کے وجود سے آگاہ کردیا بلکہ اپنے متعلق بھی بتا دیا کہ روشی کے فلیٹ ہی میں رات بسر کرے گا۔

اور اب اس میں اس طرح چراغاں کیے بیٹھا تھا جیسے کسی خاص تقریب کے انتظامات میں مشغول ہو۔

کلاک نے بارہ بجائے اور اس نے دروازوں کی طرف دیکھا جو کھلے ہوئے تھے لیکن اسے کلک کی ٹک ٹک کے علاوہ اور کوئی آواز نہ سنائی دی۔

دروازے تو کیا آج اس نے کھڑکیاں تک کھلی رکھی تھیں حالانکہ آج سردی شباب پھر تھی۔

اچانک اسے راہداری میں قدموں کی آواز سنائی دی جو رفتہ رفتہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔

پھر کسی نے گنگنا کر کہا۔ "روشی ڈارلنگ۔"

دوسرے ہی لمحے ایک نوعمر آدمی دروازے میں کھڑا احمقوں کی طرح پلکیں جھپکا رہا تھا۔ 

"فرمائیے!" عمران بڑے دلآویز انداز میں مسکرایا۔

"اوہ۔۔۔ معاف کیجئے گا!" اس نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا "یہاں پہلے روشی رہتی تھی!"

"اب بھی رہتی ہے! تشریف لائیے۔" عمران بولا۔

نوجوان کمرے میں چلا گیا۔

"روشی کہاں ہے؟"

"وہ آج کل اپنی خالہ کے یہاں مرغیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ سیکھ رہی ہے۔"

"آپ کون ہیں"

"میں ایک شریف آدمی ہوں!"

"روشی!" نوجوان نے روشی کو آواز دی!

"میں کہہ رہا ہوں ناکہ وہ اس وقت یہاں نہیں ہے!" عمران بولا۔

"ارے وہ بڑی شریر ہے!" نوجوان ہنس کر بولا۔ "میری آواز سن کر چھپ گئی ہے! خیر میں ڈھونڈ لیتا ہوں۔"

نوجوان بڑی بے تکلفی سے روشی کی خوابگاہ میں داخل ہوگیا۔ عمران اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ نوجوان نے دو تین منٹ کے اند رہی اندر پورے فلیٹ کی تلاشی لے ڈالی۔۔۔ پھر دوسری طرف تاریک راہداری میں ٹارچ کی روشنی ڈالنے لگا۔

"بس کرو میرے لال!" عمران اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"ابھی تمہارے منہ سے دودھ کی بو آتی ہے۔"
"کیا مطلب؟" نوجوان جھلا کر مڑا۔

"مطلب بھی بتاؤں گا۔۔ آؤ میرے ساتھ!" عمران نے کہا اور پھر اسے بیٹھنے کے کمرے میں واپس لایا۔۔۔ نوجوان اسے قہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا۔

"تشریف رکھیئے جناب!" عمران نے غیر متوقع طور پر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔

"ابھی تم نے کیا کہا تھا۔" نوجوان نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

"میں نے عرض کیا تھا کہ آپ تلاشی لے چکے اور اب آپ کو یہ اطمینان ہو گیا کہ میرے ساتھ دوسرے آدمی نہیں ہیں۔۔۔ اب تشریف لیجائیے اور اپنے بلڈاگ سے کہہ دیجیئے کہ میرے نوٹ مجھے واپس کر دے۔ میں بہت برا آدمی ہوں! اپنے ساتھ بھیڑ بھاڑ نہیں رکھتا۔ تنہا کام کرتا ہوں! میں اس وقت فلیٹ میں تہنا ہوں! لیکن میرا دعوٰی ہے کہ تمہارا بلڈاگ میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ یہ دیکھو۔ میں نے سارے دروازے کھول رکھے ہیں۔۔۔ اور یہاں سارے بلب روشن ہیں!۔۔۔ لیکن۔۔۔ ہاہا۔۔۔ کچھ نہیں۔"

"میں سمجھا نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔"

"جاؤ یار بھیجا نہ چاٹو۔۔۔ اسے میرا پیغام پہنچا دو جس نے تمہیں بھیجا ہے۔ چلو اب کھسکو بھی ورنہ میرا ہاتھ تم پر بھی اٹھ جائے گا۔ آج ہی میں تمہارے ایک ساتھی کی اچھی خاصی مرمت کرچکا ہوں۔"

"میں تمہیں دیکھ لوں گا!" نوجوان اٹھتا ہوا بولا۔۔۔ اور آندھی کی طرح کمرے سے باہر نکل گیا۔

لیکن عمران اس طرح کھڑا تھا جیسے اسے ابھی کسی اور کا انتظار ہو۔ اس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور ایک منتخب کرکے اسے آہستہ آہستہ کچلنے لگا۔

سیکنڈ منٹوں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ لیکن قریب یا دور کسی قسم کی بھی آواز نہ سنائی دی۔

اور پھر عمران خود کو سچ مچ احمق سمجھنے لگا! اسے توقع تھی کہ وہ نامعلوم آدمی ضرور آئے گا! لیکن اب دو بج رہے تھے اور کائنات پر سناٹے کی حکومت تھی۔

اس نے سوچا کہ اب اس حماقت کا خاتمہ کردے! ممکن ہے کہ وہ نوجوان روشی ہی کا کوئی گاہک رہا ہو!۔۔۔ عمران دروازے اور کھڑکیاں بندکرنے کے لئے اٹھا۔

ابھی وہ دروازے کے قریب بھی نہیں پہنچا تھا کہ راہداری میں قدموں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ کوئی بہت تیزی سے اسی طرف آرہا تھا۔ عمران بڑی پھرتی سے تین چار قدم پیچھے ہٹ آیا۔

لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ روشی دروازے میں کھڑی بری طرح ہانپ رہی تھی لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔

"تم نے میرا کہا نہیں مانا۔" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔

"بس تم اسی طرح بکواس کیا کرو!" روشی ایک صوفے پر گرتی ہوئی بولی پھر اپنا وینٹی بیگ کھول کر دو پیکٹ نکالے اور انہیں عمران کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔ "اپنے بقیہ دو پیکٹ بھی سنبھالو۔"

عمران نے پیکٹوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر حیرت سے روشی کی طرف دیکھنے لگا۔

"کچھ دیر قبل میرا ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے۔" روشنی نے کہا۔

"کیوں؟ تمہیں یہ پیکٹ کہاں سے ملے!"

"بتاتی ہوں۔۔۔ ذرا دم لینے دو!" روشی نے کہا اور اٹھ کر الماری سے وہسکی کی بوتل نکالی۔۔۔ بڑے گلاس میں چھ انگل خالص وہسکی لے کر اس کی چسکیاں لینے لگی۔

پھر اس نے رومال سے ہونٹ خشک کرتے ہوئے کہا۔ "مجھے نیند نہیں آرہی تھی! ٹھیک ایک بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں سمجھی تم ہو۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ لیکن وہ تم نہیں تھے!ایک دوسرا آدمی تھا اس نے مجھے یہ دونوں پیکٹ کیئے اور ایک لفافہ۔۔۔ جس پر میرا نام لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے پوچھنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ چپ چاپ واپس چلا گیا۔"

روشی نے وینٹی بیگ سے وہ لفافہ نکال کر عمران کی طرف بڑھا دیا!

عمران نے لفافے سے خط نکال کر میز پر پھیلاتے ہوئے ایک طویل سانس لی۔ تحریر تھا۔

"روشی! تمہارے دوست کے بقیہ دونوں پیکٹ واپس کر رہا ہوں لیکن تم انہیں کھول کر دیکھو گی نہیں! ہوٹل کے باہر ایک نیلے رنگ کی کار موجود ہے! چپ چاپ اس میں بیٹھ جاؤ۔
وہ تمہیں تمہارے فلیٹ تک پہنچا دے گی! تم دونوں خواہ کہیں چھپو میری نظروں سے نہیں چھپ سکتے! مجھے تم دونوں سے کوئی پرخاش نہیں ہے ورنہ تم اب تک زندہ نہ ہوتے! تمہارا دوست معمولی سا مجرم ہے۔ جعلی نوٹوں کا دھندا کرتا ہے اور بس! اس سے کہو کہ چپ چاپ اس شہر سے چلا جائے! ورنہ تم تو مجھے عرصہ سے جاتنی ہو! میں اور کچھ نہیں چاہتا! یہاں سے اسی وقت چلی جاؤ!

عمران نے خط ختم کرکے روشی سے کہا "اورتم نیلی کار میں بیٹھ گئیںَ"

"کیا کرتی! میں نے سوچا کہ جب اس نے میری جائے رہائش کا پتہ لگا لیا تو مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں اسے کیا عار ہوسکتا ہے!"

ٹھیک ہے تم نے عقلمندی سے کام لیا ۔

"مگر۔۔۔!" روشی عمران کو گھورتی ہوئی بولی۔ "کیا اس نے تمارے متعلق سچ لکھا ہے!"

"جھک مارتا ہے! اب میں اس سے اپنی توہین کا بدلہ لوں گا!"

"دیکھو طوطے۔۔۔ میں نے تمہارے متعلق بہت کچھ سوچا ہے اور ہاں۔۔۔ تم نے یہ چراغاں کس خوشی میں رکھا ہے!"

"میں بہت زیادہ روشنی چاہتا ہوں! مگر تم نے بھی میرے متعلق غلط ہی سوچا ہوگا اچھا اب تم مجھے یہاں کبھی نہیں دیکھو گی!"

"تو واقعی اس شہر سے جا رہے ہو!"

"میں کسی کے حکم کا پابند نہیں ہوں اور پھر بھلا اس مسخرے سے ڈر کر بھاگوں گا!"

"خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو!"

"ایک معمولی سا مجرم۔ کیا تمہیں اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔"

"نہیں مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ایک معمولی سا مجرم اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔۔۔ یہاں کے اچھے اچھے دل گردے والے اس کے تصور سے ہی کانپتے ہیں۔ تم میرے پیشے سے واقف ہی ہو! ہر قسم کے آدمیوں سے سابقہ پڑتا ہے!"

"میں ایک شریف آدمی ہوں! ممی اور ڈیڈی بچپن سے مجھے اس کا یقین دلاتے رہتے ہیں!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "ویسے میں کبھی کبھی سچ مچ حماقتیں کربیٹھتا ہوں!جیسا کہ آج۔۔۔!"

عمران نے اپنا ٹیلیفون بوتھ والا کارنامہ دہرایا!۔۔۔ روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی! اس نے کہا۔ "تم جھوٹے ہو! تم نے میری آواز کی نقل کیسے اتاری ہوگی۔"

"اس طرح۔۔۔ اس میں کیا مشکل ہے" عمران نے ہوبہو روشی کے لہجے اور آواز میں نقل اتاری۔

روشی چندلمحے اسے حیرت سے دیکھتی رہی پھر بولی۔ "مگر اس حرکت کا مقصد کیاتھا!"

"تفریح!۔۔۔ اور کیا کہوں! مگر نتیجہ دیکھو! کہ اس نے خود ہی پیکٹ واپس کردیئے!"

"تمہاری عقل خبط ہو گئی ہے!" روشی نے کہا۔ "مجھے اس میں بھی کوئی چال معلوم ہوتی ہے۔"

"ہوسکتا ہے۔۔۔ بہرحال میں جانتا ہوں کہ اس کے آدمی ہر وقت پیچھے لگے رہتے ہیں! ورنہ اسے تمہارا پت
" کیسے معلوم ہوتا۔"

"یہی میں بھی سوچ رہی تھی!"

"یہ اسی وقت کی بات ہے جب میں آج شام تم سے ملا تھا! میرے ہی ذریعہ وہ تم تک پہنچا ہوگا۔"
"مگر عمران!۔۔۔ وہ آدمی۔۔۔ جو ان پیکٹوں کو لایا تھا!۔۔۔ جانتے ہو کون تھا۔۔۔؟ مجھے حیرت ہے۔۔۔ وہ وہی کان کٹا ماہی گیر تھا جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے!"

عمران سنبھل کر بیٹھ گیا!

"کیا وہ تمہیں پہچانتا ہے۔" اس نے پوچھا۔

"یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی! نہیں مجھے اس پہلے کبھی اس سے بات چیت کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔"

عمران کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا! تھوڑی دیر بعد اس نے ایک طویل انگڑائی لے کر کہا۔ "جاؤ اب سو جاؤ! مجھے بھی نیند آرہی ہے اور اگر اب بھی مجھے بور کرو گی تو اسی وقت یہاں سے چلا جاؤں گا!"

روشی چپ چاپ اٹھی اور اپنی خواب گاہ میں چلی گئی۔

عمران دروازے اور کھڑکیاں بندکرکے تھوڑی دیر تک چیونگم سے شغل کرتا رہا پھر نوٹوں کے پیکٹ کھول دیئے۔۔۔ اسے توقع تھی کہ ان پیکٹوں میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیوں کہ روشی کواس کے خط میں پیکٹ کو نہ کھولنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کا خیال صحیح نکلا۔ ایک پیکٹ میں نوٹوں کے درمیان ایک تہہ کیا ہوا کاغذ کا ٹکڑانظر آیا! یہ بھی ایک خط تھا لیکن اس میں عمران کو مخاطب کیا گیا تھا۔

"دوست۔۔۔ بڑے جیالے معلوم ہوتے ہو! ساتھ ہی شاطر بھی! مگر جعلی نوٹوں کا دھندا چھچھورا پن ہے! اگر ترقی کی خواہش ہو تو کل رات گیارہ بجے اسی ویرانے میں ملو جہاں میں نے تم پر پہلا حملہ کیا تھا!۔۔۔ اے بی سی ہوٹل والے شکاری کے متعلق اطلاع فراہم کرنے کا شکریہ! اس نے صرف مچھلیوں کے شکار کے لئے وہاں قیام کیا ہے! لیکن مچھلیوں کے شکار کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔۔۔! تو کل رات کو تم ضرور مل رہے ہو۔۔۔ میں انتظار کروں گا۔۔۔"

عمران نے خط کو پرزے پرزے کرکے آتشدان میں ڈال دیا! اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔۔۔ وہ اٹھا اور دبے پاؤں روشی کے فلیٹ سے نکل گیا۔
 
بیہوشی کے بعد ہوش کیسے آتا ہے؟ کم از کم یہ کسی بیہوش ہونے والے کی سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہے!۔۔۔ بہرحال عمران کو نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کس طرح ہوش میں آیا! لیکن آنکھ کھلنے پر شعور کی بیداری میں دیر نہیں لگی۔

وہ ایک کشادہ اور سجے سجائے کمرے میں تھا! لیکن تنہا نہیں۔۔۔ اس کے علاوہ کمرے میں چار آدمی اور بھی تھے۔ ان کے جسموں پر سیاہ رنگ کے لمبے لمبے چسٹر تھے۔۔۔ اور چہرے سیاہ نقابوں میں چھپے ہوئے تھے! ان میں سے ایک آدمی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا۔

"ہاں بھئی! کیا دیکھا؟" ان میں سے ایک نے اس سے پوچھا۔

آواز سے عمران نے اسے پہچان لیا! یہ وہی تھیا جس سے کچھ دیر قبل ٹیلوں کے درمیان اس نے گفتگو کی تھی۔

"جی ہاں آ پ کا خیال درست ہے! دوسرے آدمی نے کتاب پر نظر جماتے ہوئے کہا۔ "علی عمران ایم ایس سی، ڈی ایس سی لندن۔۔۔ آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹیز۔۔ فرام سینٹرل انٹیلی جینس بیورو۔۔۔"

"کیوں دوست کیا خیال ہے!" گمنام آدمی عمران کی طرف مڑ کر بولا۔

"ایم ایس سی، ڈی ایس سی نہیں بلکہ ایم ایس سی، پی ایچ ڈی!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

"شپ اپ!" گمنام آدمی نے گرج کر کہا۔

"واقعی میں بڑا بیوقوف ہوں! روشی ٹھیک ہی کہتی تھی!" عمران اس طرح بڑبڑایا جیسے خود سے مخاتب ہو!

"تم ہمارے متعلق کیا جانتے ہو!" گمنام آدمی نے پوچھا۔

"یہی کہ تم سب پردہ نشین خواتین ہو اور مجھے خوامخواہ ڈرا رہی ہو۔"

"تم یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے!" گمنام آدمی کی آواز میں غراہٹ تھی۔

"فکر نہ کرو! مرنے کے بعد چلا جاؤں گا۔" عمران نے لاپرواہی سے کہا۔

گمنام آدمی کی خوفناک آنکھیں چند لمحے نقاب سے عمران کو گھورتی رہیں پھر اس نے کہا"تمہیں بتانا ہی پڑے گا کہ تمہارے کتنے آدمی کہاں کہاں کام کر رہے ہیں۔"

"کیا تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو؟" عمران اپنے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا کرتا ہوا بولا۔ 

کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ اس وقت ان کی خاموشی بھی بڑی ڈراؤنی لگ رہی تھی۔

عمران پھر بولا۔ "تمہیں یقینا غلط فہمی ہوئی ہے!"

"بکواس!۔۔۔ ہمارے ہاں فائیل بہت احتیاط سے مرتب کئے جاتے ہیں!" گمنام آدمی نے کہا۔

"تب پھر تو میں ہی غلط ہو گیا ہوں۔" عمران نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا۔ "کمال ہے۔۔۔ میں یعنی۔۔۔ واہ کیا بات ہے گویا اب اپنے لئے کہیں بھی جگہ نہیں ہے یارو یہ ظلم ہے کہ تم لوگ مجھے محکمہ سراغ رسانی سے منسلک کر رہے ہو۔"

"ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے!" گمنام آدمی غصیلے لہجے میں بولا۔ "تمہیں صبح تک کی مہلت دی جاتی ہے اپنے آدمیوں کے پتے اور نشان بتادو! ورنہ۔۔۔!"
"میرا خیال ہے!" ایک نقاب پوش نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ "جلتے لوہے والی تدبیر کیسی رہے گی۔"

"وقت نہیں ہے!" گمنام غرایا! "صبح دیکھیں گے!"

وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے اور دروازہ باہر سے مقفل کر دیا گیا! عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور سر کا وہ حصہ ٹٹول کر جہاں چوٹ لگی تھی برے برے منہ بنانے لگا۔

اسے توقع نہیں تھی کہ اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا جائے گا وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھا کہ اس نے مجرموں کو اپنے جال میں پھانس لیا۔

اس نے نے وجہ ان لوگوں کو ہدہد کا پتہ نہیں بتایا تھا اس کے ذہن میں ایک اسکیم تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا! اس نے اس آدمی کا تعاقب کرکے جس نے سمندرکے کنارے ہدہد کے فوٹو لئے تھے کم از کم مجرموں کے ایک ٹھکانے کا پتہ تو لگا ہی لیا تھا۔۔۔۔ اور وہیں اس نے اس آدمی کو بھی دیکھا تھا جس کا بائیاں کان آدھا غائب تھا۔

عمران تھوڑی دیر تک بے حس و حرکت آرام کرسی میں پڑا رہا۔۔۔ اس کا ذہن بڑی تیزی سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ 

آدھا گھنٹہ گزر گیا!۔۔۔ شاید پوری عمارت پر سناٹے کی حکمرانی تھی! کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی۔

عمران اٹھ کر کھڑکیوں اور دروازوں کا جائزہ لینے لگا! لیکن چند ہی لمحوں میں اس پر واضح ہوگیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا! یہ سارے دروازے ایسے تھے جو باہر سے مقفل کئے جاسکتے تھے اس کے ذہن میں ایک دوسرا اور انتہائی اہم سوال بھی تھا عمارت اس وقت خالی ہے یا کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں حالات غیر یقینی تھے۔۔۔ عمارت میں اس کا تہنا رہنا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے تو عمارت پر قبرستان کی سی خاموشی کیوں طاری تھی؟۔۔۔ کیا وہ سو رہے ہیں؟ عمران نے سوچا کہ یہ بھی ناممکن ہے کہ انہوں نے اپنی دانست میں ایک خطرناک دشمن پکڑ لیا ہے! لہٰذا اس کی طرف سے غافل ہو کر سو رہنا قرین قیاس نہیں!

عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح اسے ناشتے کی میز پر خوش آمدید کہنے کے لئے مہمان نہیں بنایا گیا۔۔۔ یہاں ایسی آؤ بھگت ہوگی کہ شکریہ ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔

وہ پھر اٹھ کر ٹہلنے لگا۔۔۔ پھر اچانک اس نے دروازہ پیٹ کر چیخنا شروع کردیا۔

باہر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی عورت نے سریلی آواز میں ڈانٹ کر کہا۔ "کیوں شور کر رہے ہو!"

"میں باہر جانا چاہتا ہوں" عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔

"بکواس مت کرو۔" 

"شٹ اپ!" عمران بہت زور سے گرجا۔ "میں تجھ جیسی کتیا کی بچی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ کسی مرد کو بھیج دے۔۔۔!"

"تم کتے کے پلے خاموشی سے بیٹھے رہو! ورنہ گولی مار دی جائے گی۔"

اس بار عمران نے اسے بڑی گندی گندی گالیاں دیں جواب میں وہ بھی برس پڑی!

عمران نے اس سے اندازہ لگا لیا کہ وہ عورت عمارت میں تنہا ہے! ورنہ وہ اس کی مرمت کے لئے کسی مرد کو ضرور بلاتی۔

عورت تھوڑی دیر تک اسے برا بھلا کہتی رہی! پھر خاموش ہوگئی۔ عمران اس کے قدموں کی آواز سن رہا تھا! اس نے اندازہ لگا لیا کہ قریب ہی کسی کمرے میں گئی ہے۔ 

عمران سوچ رہا تھا کہ اگر ایسے حالات میں بھی وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا تو آئندہ نسلیں اسے سچ مچ احمق اعظم ہی کے نام سے یاد کریں گی۔!

وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا!۔۔۔ اچانک اس کی نظر رسی کے ایک لچھے پر پڑی تھی اس نے جھپٹ کر اسے اٹھا لیا۔۔۔ رسی کی موٹائی آدھ انچ سے زیادہ نہیں تھی۔اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ پانی بھی بھگو کر خشک کی گئی ہو! عمران چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔!
عمران کے منہ سے گالیاں سن کر اس عورت کا موڈ بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا! وہ کافی حسین تھی اور عمر بھی بیس بائیس سال سے زیادہ نہ رہی ہوگی! ممکن ہے کہ اس کے ساتھ اس کی ناز برداریاں بھی کرتے رہتے ہوں! بہرحال وہ ایسی نہیں معلوم ہوتی تھی کہ کسی کی تلخ کلامی برداشت کرسکتی۔

اور یہ حقیقت تھی کہ وہ اس عمارت میں بالکل تنہا تھی۔۔۔ عمران کو محبوس کرنے والوں کو شاید یقین واثق تھا کہ وہ یہاں سے نکل نہ سکے گا! ورنہ وہ ایسی غلطی نہ کرتے! وہ عورت غصے میں ہانپتی ہوئی مسہری پر گری! اسے شاید اپنے ساتھیوں پر بھی غصہ آرہا تھا۔

وہ سو جانا چاہتی تھی۔ مگر نیند کا کوسوں پتہ نہیں تھا۔۔۔ بیس منٹ گذر گئے وہ کروٹیں لیتی رہی۔

اچانک اس نے ایک چیخ کی آواز سنی، جو قیدی کے کمرے سے بلند ہوئی تھی اور پھر کچھ اس قسم کی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹ رہا ہو۔

وہ بےتحاشہ اچھل کر کھڑی ہوگئی اور غیر ارادی طور پر قیدی کے کمرے کی طرف دوڑنے لگی۔ لیکن اب سناٹا تھا۔

"کیا ہے! کیوں شور مچا رکھا ہے!" اس نے کمرے کے سامنے پہنچ کر کہا۔

لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا! ایک دروازے کی جھری پر اس کی نظر پڑی اور اس نے اندازہ کرلیا کہ اندر کا بلب روشن ہے!

دوسرے ہی لمحے اس کی ایک آنکھ جھری سے جالگی! لیکن پھر وہ اس طرح جھٹکے کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی جیسے الیکٹرک شاک لگا ہو۔ اس کمرے کے اندر جو کچھ بھی دیکھا وہ اس کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی تھا! چھت سے ایک لاش لٹک رہی تھی! اس کے پیر زمین سے تقریبا تین فٹ اونچائی پر جھول رہے تھے اور گردن میں رسی کا پھندا۔۔۔ چہرہ دوسری طرف تھا! صاف ظاہر ہوتا تھا کہ قیدی نے ایک کرسی پر کھڑے ہوکر پھندا اپنی گردن میں ڈالا اور پھر لات مار کر کرسی ایک طرف گرا دی! سیاہ السٹر اور سیاہ پتلون میں وہ لاش بڑی ڈروانی معلوم ہو رہی تھی!

وہ ایک بار پھر جھری سے اندر جھانکنے لگی۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ اس نے قیدی کی دلیرانہ حرکتوں کے متعلق اپنے ساتھیوں سے بہت کچھ سنا تھا! 

خواب و خیال میں بھی اسے توقع نہیں تھی کہ ایسا بے جگر آدمی اس طرح خودکشی کرلے گا۔۔۔ حالانکہ وہ کچھ دیر پہلے اس کی توہین کرچکا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کے انجام پر متاسف ہوئے بغیر رہ نہ سکی۔ 

وہ کوئی کمزور دل عورت نہیں تھی۔ کمزور دل کی عورت ایسے خطرناک مجرموں کے ساتھ رہ ہی کیسے سکتی تھی!

وہ چند لمحے کھڑی سوچتی رہی پھر دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔ لاش کی پشت دروازے کی طرف تھی عورت آگے بڑھی تاکہ اسکا چہرہ دیکھ سکے!

لیکن قبل اس کے کہ وہ اس کے قریب پہنچتی لاش رسی کے پھندے سے نکل کر دھم سے فرش پر آرہی۔ عورت گبھرا کر پیچھے ہٹ گئی! لیکن عمران نے اسے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی صراحی دار گردن عمران کی گرفت میں تھی!

"وہ یہاں کب واپس آئیں گے!" عمران نے گرفت مضبوط کرتے ہوئے پوچھا۔

عورت تھوک نگل کر رہ گئی! اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی ہوئی تھیں اور وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔

"بتاؤ ورنہ گلا گھونٹ دوں گا!" عمران کے چہرے پر سفاکی نظر آنے لگی۔
"ساڑھے۔۔۔ ساڑھے تین بجے!" 

"جھوٹ بک رہی ہو! خدا سے ڈرو ورنہ زبان سڑ جائے گی!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا اور اس کی گردن چھوڑ دی!

عورت اسی جگہ کھڑی ہانپتی رہی۔

"تم نے کچھ دیر پہلے مجھے برا بھلا کہا تھا۔ اب کہو! تو تمہارے کان اور ناک کاٹ لوں!"

عورت کچھ نہ بولی۔۔۔ عمران بکتا رہا۔ "تم صورت سے شریف معلوم ہوتی ہو!ورنہ میں ابھی تمہیں گلا گھونٹ کر مار ڈالتا! کیا تم ان میں سے کسی کی بیوی ہو!"

عورت نے نفی میں سر ہلا دیا اور عمران گرجدار آواز میں بولا۔ "پھر تم کیا بلا ہو! زبان سے بولو ورن
ہ اسی رسی پر تمہاری لاش لٹکتی نظر آئے گی۔"

"میں ان کے کسی جرم میں شریک نہیں ہوں۔" عورت نے بھرائی ہوئی آواز مین کہا۔

"تم آخر ہو کون!"

"میں جو کچھ بھی ہوں! یہی ہوں اور زندگی سے تنگ آگئی ہوں! انہوں نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ لیکن میں اب ہر حال میں ان کے پنجے سے نکلنا چاہتی ہوں!"

"شاباش! اچھا میں تمہیں بچا لوں گا!۔۔۔ لیکن جو کچھ میں کہوں گا اس پر عمل کرو۔"

"میں تیار ہوں۔"

"باہر نکلنے کا دروازہ تو مقفل ہوگا؟" عمران نے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔ مقفل نہیں ہے!"

" تو پھر ان کی آمد پر دروازہ کون کھولے گا؟ کیا تم جاگتی رہو گی؟"

"نہیں وہ خود کھول لیں گے اور اس کی ترکیب ان کے علاوہ اور کسی کو نہیں معلوم!"

"کیا یہ عمارت ہرشفلیڈ فشریز والوں کی ہے!" عمران نے پوچھا اور عورت نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


"یہ عمارت جیمس اسٹریٹ میں ہے نا!" عمران نے پوچھا اور اس کا جواب بھی اثبات میں ہی ملا اور عمران مطمئن ہوگیا کہ یہ وہی عمارت ہے جس کا سراغ اسے فوٹوگرافر کا تعاقب کرنے پر ملا تھا۔

وہ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ "تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتیں اپنے کمرے میں جاؤ۔"

وہ چپ چاپ وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ عمران اس کے پیچھے تھا! جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ عمران نے دروازہ باہر سے بند کردیا۔

"چپ چاپ پڑی رہنا ورنہ گردن صاف! مجھے عورتوں پر بھی رحم نہیں آتا۔" عمران غرا کر بولا۔

اندر سے کوئی جواب نہیں ملا! عمران آگے بڑھا۔

وہ بڑی تیزی سے عمارت کا جائزہ لیتا پھر رہا تھا۔۔۔ باہر کے سارے دروازے آزمائے لیکن انہیں کھولنے میں کامیاب نہ ہوسکا!۔۔۔ ایک کمرے میں اسے اسلحہ جات کا ذخیرہ نظر آیا۔ دروازہ مقفلنہیں تھا! شاید یہاں سے جاتے وقت انہوں نے کچھ اسلحہ لیا تھا اور کمرے کو مقفل کرنا بھول گئے تھے۔۔۔ عمران نے ایک ٹامی گن اٹھا کر اسے لوڈ کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ ٹامی گن اس کے ہاتھ میں تھی۔

لیکن اگر کوئی دوسرا اسے اس حال میں دیکھتا تو قطعی مخبوط الحواس سمجھتا! ہونا یہ چاہیئے تھا کہ عمران فون پر پولیس سے رابطہ قائم کرکے عمارت کا محاصرہ کرلیتا۔ یہاں فون موجود تھا۔ عمران چاہتا تو اسے استعمال کرسکتا تھا! مگر اس نے ایسا نہیں کیا!۔۔۔ وہ کسی شکاری کت کی طرف عمارت کا گوشہ گوشہ سونگھتا پھر رہا تھا! اسے مجرموں کی واپسی کی بھی پروا نہیں تھی!۔۔۔ وہ ان کے جرائم سے واقف ہو چکا تھا اور اے بی سی ہوٹل کے قریب والے ویرانے پر اس بھیانک آدمی کی حکمرانی کا مقصد بھی اس کے ذہن میں آگیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔ جہاں اسے قید کیا گیا تھا! اس نے عورت کے دروازے کی طرف نظر ڈالی جس کا دروازہ بدستور بند تھا!۔۔۔ اندر روشنی ضرور تھی لیکن کسی قسم کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی!

پھر عمران نے اس بطخ کی طرف دیکھا جو اس کے بائیں ہاتھ پر لٹک رہی تھی! یہ اسے اس عمارت کے ایک ڈربے سے ملی تھی! وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔۔۔ ٹامی گن میز پر رکھی۔ رسی ابھی تک چھت میں لگے کڑے سے لٹک رہ تھی۔

چند لمحوں بعد عمران بطخ کو ذبح کر رہا تھا!۔۔۔ کچھ خون فرش پر پھیل گیا تھا اور کچھ اس نے بڑی احتیاط سے ایک گلاس میں جمع کر لیا۔
 
ٹھیک تین بجے عمارت کا صدر دروازہ کھلا اور دس آدمی اندر داخل ہوئے! ان میں سے صرف ایک کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا اور بقیہ نو آدمی بے نقاب تھے! ان کے چہروں سے تھکن ظاہر ہو رہی تھی!

لیکن قیدی کے کمرے کے سامنے روشنی دیکھ کر ان کے چہروں سے اضمحلال کے آثار غآئب ہو گئے! کھلے ہوئے دروازے سے روشنی باہر برآمدے میں رینگ آئی تھی۔

ان کا نقاب پوش سرغنہ بے تحاشہ بھاگتا ہوا کمرے میں جا گھسا اور پھر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں! کمرہ خالی تھا۔ چھت سے ایک خون آلودہ رسی لٹکی ہوئی تھی۔۔۔ اور فرش پر بھی خون نظر آرہا تھا۔۔۔ پھر خون کے چھوٹے چھوٹے دھبے اس جگہ سے دروازے تک چلے گئے۔۔۔ وہ دروازے کی طرف جھپٹا۔۔۔ اس کے بقیہ نو ساتھی ساکت و صامت دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔

خون کے لاتعداد چھوٹے چھوٹے دھبے دروازے کے باہر برآمدے میں بھی تھے۔ وہ سب انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔

اب دھبوں کا رخ اسلحہ کے کمرے کی طرف ہو گیا تھا! ان میں سے ایک نے جیب سے ٹارچ نکالی کیوں کہ یہ ایک تاریک راہداری تھی!۔۔۔ انہیں اسلحہ خانے کا دروازہ بھی کھلا ہوا ملا۔۔۔ خون کے دھبوں کی قطار دروازے میں مڑ کر اسلحہ خانے کی طرف چلی گئی تھی۔ وہ سب بے تحاشہ اندر چلے گئے۔۔۔ اور کسی کے منہ سے نکلا۔

"ارے بطخ۔۔۔ یہ کیا؟"

پھر وہ مڑنے بھی نہیں پائے تھے کہ دروازہ باہر سے بند ہوگیا۔۔۔! اندھیرے میں عمران کا قہقہہ گونج رہا تھا۔

لیکن عمران کو اس کی خبر نہیں تھی کہ یہی اندھیرا جس سے اس نے فائدہ اٹھایا ہے خود اسی کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کا سرغنہ باہر ہی رہ گیا ہے!

اس نے للکار کر کہا۔ "کیوں دوستو! اب کیا خیال ہے!"

وہ سب اندر سے دروازے پیٹنے اور شور مچانے لگے!

عمران نے پھر قہقہہ لگایا۔ لیکن یہ قہقہہ اچانک اس طرح رک گیا جیسے کسی سائیکل کے پہیوں میں پورے بریک لگ گئے ہوں۔

کسی نے پشت سے اس پر حملہ کردیا تھا! ٹامی گن اس کے ہاتھ سے نکل کر اندھیرے میں کہیں دور جاگری!

حملہ آور ان کا سرغنہ تھا جو اسلحہ خانے میں بند کر دیئے گئے تھے!۔۔۔ جب وہ خون کے دھبوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو وہ قیدی والے کمرے کے سامنے ہی رک کر کچھ سوچنے لگا تھا! وہ سب اسلحہ خانے تک پہنچ گئے اور وہ وہیں کھڑا تشویش آمیز نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا۔ 

اور اب۔۔۔ شاید تقدیر عمران پر قہقہے لگا رہی تھی! حملہ بڑا شدید تھا!۔۔۔ عمران کو بالکل یہی محسوس ہوا جیسے کوئی سینکڑوں من وزنی چٹان اس پر آگری ہو!۔

خود اس کا جسم بھی کافی جاندار تھا۔ لیکن اس حملے نے اس کے دانت کھٹے کردیئے! نقاب پوش اس سے لپٹ پڑا تھا!

عمران نے اس کی گرفت سے نکلنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا!
چچچچچاس نے اسے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ عمران کا دم گھٹنے لگا تھا! اسلحہ خانے کے اندر ابھی تک شور جاری تھا۔

"خاموش رہو!" ان کے سرغنہ نے انہیں ڈانٹا۔۔۔ لیکن اس کی آواز اتنی پرسکون تھی جیسے اس نے کسی آرام کرسی پر کاہلوں کی طرح پڑے پڑے انہیں سرزنش کی ہو!۔

دوسری طرف اس نے عمران کو زمین سے اکھاڑ دیا تھا اور بتدریج اسے اوپر اٹھاتا چلا جا رہا تھا۔۔۔! عمران نے اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسانی چاہیں لیکن کامیاب نہ ہوا۔۔۔ وہ اسے اوپر اٹھاتا چلا جا رہا تھا۔

یہ حقیقت تھی کہ اس وقت عمران کے حواس جواب دے گئے تھے اور حملہ آور پر گویا کسی قسم کا جنون طاری ہو گیا تھا! اسے بھی شاید اس بات کا ہوش نہیں رہ گیا تھا کہ اب اس کی گردن بآسانی عمران کی گرفت میں آسکتی ہے! وہ تو اس چکر میں تھا کہ عمران کو اٹھا کر کسی دیوار پر دے مارے اور اس کی ہڈیاں سرمہ ہو جائیں۔

اس قسم کے خطرناک مجرم اگر خاص موقعہ پر اس طرح اپنی عقل نہ گنوا بیٹھیں تو قانون بےچارہ عجائب خانے کی الماریوں کی زینت بن کر رہ جائے۔

اچانک عمران کے ہاتھ اس کی گردن سے ٹکرائے اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ مل گیا! 

اس نے بری طرھ اس کی گردن دبوچ لی۔۔۔ اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ زمین پر آرہے۔ 

عمران کے ہاتھوں سے اس کی گردن نکل چکی تھی! لیکن اس نے گرتے گرتے اپنی کہنی اس کی ناک پر جما دی اور بائیں ہاتھ سے اس زور کا گھونسہ اس کی پیشانی پر رسید کیا کہ نقاب پوش کے منہ سے ایک بے ساختہ قسم کی چیخ نکل گئی!

عمران اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا!۔۔۔ وہ اس پر لد پڑا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ نقاب پوش چت پڑا تھا۔۔۔ اور عمران اس کے سینے پر سوار تھا۔۔۔ ساتھ ہی وہ سارا زور اس کے ہاتھ کو زمین پر لگائے رکھنے پر صرف کر رہا تھا!۔۔۔ اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا۔۔۔ مگر یہ پوزیشن بھی خطرے سے خالی نہیں تھا!۔۔۔ عمران اس کی قوت کا اندازہ تو کر ہی چکا تھا۔۔۔ لہٰذا اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر اسے ذرا سا بھی موقع مل گیا تو اسے گیند کی طرح اچھال دے گا۔۔۔!

اس نے بوکھلاہٹ میں اپنا سر نقاب پوش کے چہرے پر دے مارا۔۔۔ چوٹ ناک پر پڑی! نقاب پوش بلبلا اٹھا۔۔۔ پھر تو عمران کے سر نے رکنے کا نام ہی نہ لیا۔۔۔ نقاب پوشی کی چیخیں کریہہ اور ڈروانی تھیں۔۔۔ اس کے ساتھیوں نے پھر شور مچانا شروع کردیا۔

لیکن خود اس کی آواز آہستہ آہستہ دبتی ہوئی ہلکی ہلکی سسکیوں میں تبدیل ہوتی گئی۔
دوسری سہہ پہر کو شام کے اخبارات کی ایک کاپی بھی کسی ہاکر کے پاس نہیں بچی!

ایک اخبار روشی کے سامنے بھی تھا!۔۔۔ اور اس کی آنکھیں متحیرانہ انداز میں پھیل کر رہ گئی تھیں۔ علی عمران۔۔۔ عمران۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔۔ وہی احمق۔۔۔ وہی دلیر۔۔۔ محکمہ سراغرسانی کا آفیسر! بعید از قیاس۔۔۔ اس نے ایک بہت بڑے مجرم کو اس کے ساتھیوں سمیت تنہا گرفتار کیا تھا!۔۔۔ مجرم بھی کیسا۔۔۔؟ جس نے مہینوں مقامی پولیس کو ناکوں چنے چبوائے تھے! جس کا ذاتی ٹیلیفون ایکسچینج تھا۔۔۔ شہر میں جس کی متعدد کوٹھیاں تھیں! ایک بہت بڑا سمگلر تھا!۔۔۔ جس کے متعدد گوداموں میں پولیس نے ناجائز طور پر درآمد کیا ہوا بیش قیمت مال دریافت کیا تھا جو بظاہر ایک معمولی ماہی گیر تھا اور ہرشفیلڈ فشریز کے ایک اسٹیمر پر ملازم تھا۔۔۔ یعنی یہ اسٹیمر خود اسی کا تھا۔ لیکن اسٹیمر کا کپتان اسے اپنا ماتحت سمجھت اتھا۔۔۔ ہرشفیلڈ کی فرم کا مالک ہی تھا لیکن فرم کا مینیجر اس کے وجود تک سے ناواقف تھا! ظاہر ہے کہ ایک معمولی سے ملاح کو مینیجر کیا جانتا۔۔۔ وہ اس وقت ان سب کا مالک ہوتا تھا جب اس کے چہرے پر سیاہ نقاب ہوتی تھی۔۔۔ اس وقت ہرشفیلڈ فشریز کے تینوں اسٹیمر مچھلیوں کا شکار کرنے کی بجائے اسمگلنگ کا ذریعہ بن جاتے تھے۔ وہ ساحل سے پچاس ساٹھ میل کے فاصلے سے گذرنے والے غیر ملکی جہازوں سے اترا ہوا ناجائز مال بار کرتے اور پھر ساحل کی طرف لوٹ آتے۔۔۔ بحری پولیس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی کیونکہ مال نچلے حصوں میں ہوتا تھا اور اوپر عرشون پر مچھلیوں کے ڈھیر دکھائی دیتے!

یہ اخبار کی رپورٹ تھی لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ بحری پولیس کا عملہ ہرشفیلڈ والوں سے اللہ واسطے کی عقیدت رکھتا تھا! اس لئے ان کی کڑی نگرانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

خبر میں یہ بھی تھا کہ اے بی سی ہوٹل کے سامنے والے ویراے پر اس بھیانک آدمی کی حکومت کیوں تھی؟

اس کی حقیقت یہ تھی کہ اسمگل کیا ہوا مال اسی راستے سے خفیہ گوداموں تک پہنچایا جاتا تھا! لہٰذا راستہ صاف رکھنے کے لئے اس بھیانک آدمی نے (جس کا بائیاں کان آدھا کٹا ہوا تھا) وہاں کشت و خون کا بازار گرم کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کو وہان خطرے کا بورڈ نصب کرنا پڑا۔

خبر میں یہ بات بھی واضح کردی گئی تھی کہ اے بی سی ہوٹل والوں کا اس گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

روشی بڑی دیر تک اخبار پر نظر جمائے رہی! پھر اچانک کسی آہٹ پر چونک کر دروازے کی طرف مڑی۔ عمران سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

روشی بوکھلا کر کھڑی ہوگئی! اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔

"پچاس بھینسوں کا سوا ہو گیا ہے!" عمران نے کہا۔

روشی کچھ نہ بولی۔ اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک کر اسکرٹ میں جذب ہو گئے۔۔۔ اخبار پڑھنے سے قبل وہ ایک بیوقوف عورت کی طرح عمران کے متعلق بہت کچھ سوچتی رہی تھی!۔۔۔ اور اس نے ان دو دنوں میں عمران کو تلاش کرنے کے سلسلے میں شہر کا کونا کونا چھان مارا تھا!۔۔۔

"تم رو رہی ہو!۔۔۔ کمال ہے بھئی!" عمران اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔

"جایئے! جایئے!" روشی ہاتھ بڑھا کر بولی۔"اب مجھ میں بیوقوف بننے کی سکت نہیں رہ گئی!"

"روشی ایمانداری سے کہنا۔" عمران یک بیک سنجیدہ ہوگیا۔ "کیا میں تم سے زبردستی ملا تھا!

"لیکن اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟"
 
"تمہارا شکریہ ادا کرنے اور ساتھ ہی ایک بات اور بھی ہے! تم نے ایک بار کہا تھا کہ تم اپنے موجودہ طرز حیات سے بیزار ہو! لہٰذا میں ایک مشورہ دینے آیا ہوں۔"

"مشورہ۔۔۔ میں جانتی ہوں۔" روشی خشک لہجے میں بولی۔ "آپ یہی کہیں گے کہ اب باعزت طور پر زندگی بسر کرو! لیکن میں اس مشورے کا احسان اپنے سر پر نہیں لینا چاہتی! ذلیل آدمی بھی اکثر یہ سوچتا ہے کہ اسے باعزت طور پر زندگی بسر کرنا چاہیئے!"

"میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں!" عمران نے کہا۔ "میرے سیکشن کو ایک عورت کی بھی ضرورت ہے۔ تنخواہ معقول ملے گی۔"

روشی کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔۔۔ وہ چند لمحے عمران کے چہرے پر نظر جمائے رہی پھر بولی۔

"میں تیار ہوں۔"

"ہاہا!" عمران نے احمقانہ انداز میں قہقہہ لگایا۔ "اب میں اپنے ساتھ ایک ہزار بھینسیں لے جا رہا ہوں۔"

روشی کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

"تم سچ مچ بہت اداس نظر آرہی ہو!" عمران نے کہا۔

"نہیں۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں!" وہ زبردستی ہنس پڑی۔

کچھ دیر تک خاموش رہی پھر روشی نے کہا۔ "ایک بات ہے!" 

"ایک نہیں دس باتیں۔۔۔ کچھ کہو بھی تو۔۔۔"

"میں تمہارا ادب نہیں کروں گی! تمہیں باس نہیں سمجھوں گی۔"

طوطے! کہو گی مجھے۔۔۔ آں؟" عمران دیدے پھرا کر بولا۔

روشی ہنسنے لگی۔ مگر اس ہنسی میں شرمندگی کی جھلک بھی تھی!

"آخر تم نے سراغرسانی کا کون سا طریقہ اختیار کیا تھا! یہ بات اب میری سمجھ میں نہ آسکی۔"

"یہ سراغرسانی نہیں تھی۔۔۔ جوشی۔۔۔ آر۔۔۔ روشی! اسے عرف عام میں بنڈل بازی کہتے ہیں۔۔۔ اور میں اسی طرح اپنا کام نکالتاہوں۔ سراغرسانی کا فن جسے کہتے ہیں! وہ بہت اونچی چیز ہے! لیکن یہ کیس ایسا تھاجس میں سراغرسانی جھک مارتا رہ جاتا اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کیس میں بری طرح الو بنا ہوں۔"

"کیوں!"

"میں سمجھ رہا تھا کہ میں انہیں الو بنا رہا ہوں! لیکن جب میں ان کے پھندے میں پھنس گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں الوؤں کا قبلہ و کعبہ ہوں! ٹھہرو میں خود ہی بتائے دیتا ہوں!۔۔۔ میں دراصل ان پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں بھی ان ہی کی طرح ایک بدمعاش ہوں اور جعلی نوٹوں کا کاروبار میرا مشغلہ ہے! مجھے توقعی تھی کہ میں اس طرح ان میں گھل مل سکوں گا۔ میری توقع پوری ہوگئی! ان کے سرغنہ نے مجھے اسی ویرانے میں بلایا جہاں پہلی بار مجھ پر حملہ ہوا تھا۔"

"لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی! جب کہ تم ان کے سرغنہ سے پہلے ہی واقف تھے! تم نے مجھ سے کان کٹے آدمی کے متعلق پوچھ گچھ کی تھی یا نہیں؟"
"کی تھی!۔۔۔ لیکن اس وقت تک نہیں جانتا تھا کہ سرغنہ وہی ہے اور پھر محض جاننے سے کیا ہوتا ہے! اس کے خلاف ثبوت فراہم کئے بغیر میں اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اور ثبوت کی فراہمی کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا تھا جو میں نے اختیار کرنا چاہا تھا ہاں جب وہاں پہنچا تو انہوں مے اندھیرے میں میرا پارسل بیرنگ کر دیا! سر کی وہ چوٹ ابھی تک دکھ رہی ہے! پھر وہ مجھے اپنے ٹھکانے پر لے گئے!۔۔۔ اور وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری شخصیت سے اچھی طرح واقف ہے۔"

پھر عمران نے اپنی خودکشی کے واقعات دہراتے ہوئے کہا!۔ "میں نے رسی کمر میں باندھی تھی اور اسے السٹر کے اندر سے اس طرح گردن کی سیدھ میں لے گیا تھا کہ دور سے پھندہ گردن میں ہی معلوم ہو۔۔۔ ہاہا!۔۔۔ پھر وہ پھنس ہی گئی!"

"ہاں! بس صرف عورتوں ہی کو بیوقوف بنانا جانتے ہو!" روشی منہ بنا کر بولی۔

"میں خود ہی بیوقوف ہوں روشی! یقین کرو!۔۔۔ اب تو اکثر ایک خاص قسم کا موڈ مجھ پر طاری ہوتا جب میں دوسروں کو بیوقوف نہیں نظر آتا۔"

پھر اس نے بطخ کے خون والا لطیفہ دہرایا اور روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی۔

"لیکن۔۔۔" عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔ "یہاں بھی میں الو بن گیا تھا! اس کے سارے ساتھیوں کو تو میں نے اس طرح بند کردیا تھا! لیکن وہ خود باہر ہی رہ گیا تھا۔۔۔ اور پھر حقیقت یہ ہے روشی کہ میں عمران ہوں یا نہیں۔۔۔ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔"

"کیا مطلب!"

"میں عمران کا بھوت ہوں اور اگر میں بھوت نہیں ہوں تو اس پر یقین آنے میں عرصہ لگے گا کہ واقعی زندہ ہوں! اف فوہ! وہ کم بخت پتہ نہیں کتنے ہارس پاور کا ہے! ہارس نہیں بلکہ ایلیفینٹ پاور کہنا چاہئے! مجھے تو قطعی امید نہین تھی کہ اس کے ہاتھوں زندہ بچوں گا! یہ کہو کہ میرے اوسان خطا نہیں ہوئے ورنہ مجھے فٹ بال کی طرح اچھال دیتا۔"

عمران خاموش ہو کر چیونگم چبانے لگا۔

"اب مجھے یقین آگیا ہے کہ تم واقعی بیوقوف ہو!"

"ہوں۔۔۔ نا۔۔۔ ہاہا!" عمران نے قہقہہ لگایا۔

"قطعی! دنیا کا کوئی عقلمند آدمی تنہا ان سے نپٹنے کی کوشش نہ کرتا! تمہارے پاس بہت وقت تھا! کمرے سے نکلنے کے بعد تم پولیس کی مدد حاصل کرسکتے تھے!"

.ہاں ہے تو یہی بات!۔۔۔ لیکن اس صورت میں ہمیں اس کی پرچھائیں بھی نصیب نہ ہوتیں! وہ کوئی معمولی گروہ نہیں تھا روشی۔۔۔ تم خود سوچو۔۔۔ پولیس کی بھیڑ بھاڑ۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔ اسرا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔ اف فوہ۔۔۔ خیر۔۔۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا اس سلسلے میں ڈیڈی مجھ سے ضرور جواب طلب کریں گے اور پھر شائد مجھے استعفٰی دینا پڑے۔"

"تو پھر مجھے کیوں ساتھ لے جا رہے ہو!" روشی نے کہا۔

"پروا مت کرو! جاسوسی ناولیں چھاپنے کا دھندا کر لیں گے! تم انہیں ٹھیلے پر سجا کر پھیری لگایا کرنا۔۔۔ اور میں ایجنٹوں کو لکھوں گا کہ ہم ایک کتاب کے آرڈر پر بھی آپ کو پچاس فیصدی کمیشن دیں گے اور کتاب کا سرورق ایک ماہ پہلے ہی آپ کی خدمت میں رونہ کردیا کریں گے!۔۔۔ آپ کا دل چاہے تو آپ صرف سرورق ایک روپیہ میں فروخت کرکے کتاب کسی ردی فروش کے گلے لگا سکتے ہیں! وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ہپ!"

ختم شد

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔