جہاں پریاں اترتی ہیں



جہاں پریاں اترتی ہیں

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

انتساب


 محسن اعلیٰ
جناب
 ڈاکٹر محمد یعقوب جاوید (مرحوم)
سابق ڈائریکٹر جنرل فشریز پنجاب
کے نام

اپنی ذات میں ڈوبنے والے ٹھہریں اونچے لوگ
سب کا درد بٹانے والے کہلائیں ہرجائی




ہے اس میں حسن ذرا کم ادا زیادہ

The first condition of happiness is that the link between man and nature shall not be broken.
Leo Tolstoy
’’پُر مسرت زندگی  گزارنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اور فطرت کا  بندھن ٹوٹنے نہ پائے ۔ ‘‘
لیو ٹالسٹائی

 فطرت اور انسان کا بندھن قائم و دائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ فطرت نَوردی انسان کے معمولات میں روح کی طرح رچ بس جائے۔خوش قسمتی سے باشند گانِ پاکستان کے لئے فطرت سے ناتا جوڑے رکھنا بے حد آسان ہے کیونکہ کائنات کے دلکش ترین فطرت کدے (شمالی علاقہ جات) میں پائی جانے والی ان گنت وادیاں اپنی نکہت بھری فضاؤں کے ساتھ وطنِ  عزیز کے نقشے کو چار چاند لگا رہی ہیں اور:
یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمھیں
خموشیوں کی صدائیں بلا رہی ہیں تمھیں
 آج سے چند سال قبل مستی بھری یہ صدائیں صرف غیر ملکی باشندے سنتے تھے،اہلِ  وطن کان نہیں دھرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ملک کے گوشے گوشے میں پائے جانے والے فطرت کے پجاری ان صداؤں پر لبیک کہتے ہوئے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں ۔یہ صدائیں جنوبی پنجاب کے ’’کاٹن کنگ‘‘  وہاڑی تک بھی پہنچتی ہیں اور ہم جولائی ۲۰۰۸؁ ء کی اک حبس زدہ رات کے پہلے پہر قائدِاعظم پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے، خموشیوں کی صدائیں سُن رہے تھے اور گھر سے نکلنے کا سبب چن رہے تھے۔ اس سال ٹریک کے لئے رش پری لیک،  وادیِ حراموش،  راکاپوشی بیس کیمپ، اورمشہ بروم بیس کیمپ طاہر اور شوکت بھٹہ صاحب کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا موضوع تھے۔شوکت علی بھٹہ صاحب ہمارے گروپ کے نئے رکن ہیں اور اسلامیہ ہائی سکول وہاڑی میں استاد ہونے کے طفیل گفتار کے غازی سمجھے جاتے ہیں ۔ آپ جوڈو،کراٹے میں بلیک بیلٹ ہولڈر اور تیکوانڈو میں ’’استادی‘‘  کے عہدے پر فائز ہونے کے دعوے دار ہیں ۔ بھٹہ صاحب نے ’’ذرا شیوسار جھیل تک‘‘  کا مطالعہ کیا، دیوسائی کی تصاویر دیکھیں اور ہماری ٹیم میں شامل ہو گئے۔
ہم اپنی بحث سمیٹ کر راکا پوشی بیس کیمپ کے حق میں فیصلہ کرنے ہی والے تھے کہ عرفان کا فون آ گیا۔عرفان فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں انجینئر ہے۔اسے جنون کی حد تک ٹریکنگ کا شوق ہے۔میں نے عرفان کے ساتھ کوئی مکمل ٹریک نہیں کیا لیکن سکردو اور اسکولی تک ہمراہی کا شرف حاصل کر چکا ہوں ۔اس دوران اتنی ذہنی ہم آہنگی ہو چکی ہے کہ وہ ہر سال اپنے ساتھ ٹریک پر چلنے کی دعوت دیتا ہے اور میں کسی نہ کسی بہانے کنی کترا جاتا ہوں ۔ اس سال بھی وہ ٹیلی فونک رابطے میں تھا اور اُسے علم تھا کہ ٹریک کے تعین کے لئے ہمارے تین رکنی گروپ کا چلتا پھرتا اجلاس جاری ہے۔
’’جی ڈاکٹر صاحب!کہاں کا پروگرام بن رہا ہے؟‘‘  عرفان نے دریافت کیا۔
’’راکاپوشی بیس کیمپ کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔‘‘
 آپ نے کوئی پاس عبور کیا ہے؟‘‘
’’مارگلہ اور چھاچھر پاس سے گزر چکا ہوں ۔‘‘
’’بس یا جیپ کی بات نہیں ہو رہی، ٹریکنگ کی بات کریں ۔‘‘
’’سوال نصاب سے خارج ہے، مسترد کیا جاتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ پہاڑی درے پھلانگنے کے لئے تکنیکی مہارت درکار ہے۔ مجھے اس قسم کی پنگے بازیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔‘‘
’’کوہ نوردی کا دعویٰ کرنے والوں پر کم از کم ایک درہ عبور کرنا واجب ہے۔‘‘
’’میں نے آج تک کوہ نوردی کا دعویٰ نہیں کیا۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب راکاپوشی جیسے زنانہ و  بچکانا پروگرام بنانے کے بجائے دیانتر پاس ٹریک کی تیاری کریں اور یاد رکھیں کہ اس مرتبہ آپ کے پاس انکار کی گنجایش نہیں ہے۔ہمارا گروپ فیصلہ کر چکا ہے کہ آپ ہماری ٹیم کے رکن ہوں گے۔‘‘
’’زبردستی؟‘‘
’’زبردستی کی ضرورت پیش آئی تو کر لی جائے گی۔‘‘
’’اچھا؟میں اتنی اہم شخصیت ہوں ؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’شخصیت کا پتا نہیں ۔ہمارا خیال ہے آپ ہر وقت شغل میلہ لگائے رکھتے ہیں ، بور نہیں ہونے دیتے۔‘‘
’’آپ کا گروپ مجھے درباری مسخرہ سمجھتا ہے؟‘‘ میں نے خفگی کا اظہار کیا۔
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،آپ شہنشاہِ ظرافت کے پُر وقار عہدے پر فائز ہیں ۔‘‘
’’یعنی درباری مسخرے کا ماڈرن ورژن ؟بہرحال آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مجھے اپنے قدموں پر اتنا قابو نہیں جتنا ایک ٹریکر کو ہونا چاہئے۔اس لئے میں نے کبھی خواب میں بھی پاس عبور کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘‘
’’طاہر وغیرہ کے ساتھ آپ اس قسم کی مہم جوئی کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہماری ٹیم میں شامل ہو کر با آسانی پاس کراس کرنے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ اس دعوت پر شکرگزار ہونے کے بجائے نخرے دکھا نے کی کیا تک ہے؟‘‘
’’نخرے نہیں دکھا رہا،سچ مچ خوفزدہ ہوں ۔‘‘
’’ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور بے خوف و خطر دیانتر پاس عبور کر کے پی سی بھوربن میں ڈنر کا بندوبست فرمائیں ۔‘‘
’’بھوربن میں کانفرنس کے بہانے ڈنر کرنا اچھا لگتا ہے۔اپنے ذاتی پیسے بھوربن کے روکھے پھیکے کھانوں پر ضائع کرنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔آپ کو شاہی بازار لاہور میں پھجے کے سری پائے کھلائے جائیں گے۔‘‘
’’شاہی بازار لے جا کر بھی سری پائے ہی کھلائے جائیں گے۔‘‘  عرفان نے مایوسانہ انداز میں شکوہ کیا اور فون بند کر دیا۔
ٹریک خواہ جتنا بھی آسان اور بے ضرر ہو، اس کے نام کے ساتھ اگر ’’پاس ‘‘  لگا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس راستے پر چلنا خالہ جی کا گھر نہیں  … یہ وہ راہ ہے جو مقتل سے ہو کے جاتی ہے۔ مازینو پاس اور بروغل پاس کی کٹھنائیوں کے قصے زبان زدِ عام ہیں ۔میں نے دیانتر پاس کا نام ضرور سنا تھا،  اس کی دشواری و خطرناکی سے لاعلم تھا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب عرفان کی تجویز پر غیر معمولی حد تک پُر جوش نظر آنے لگے اور دیانتر پاس متوقع ٹریکس کی فہرست میں نمبر ون کے  درجے پر فائز ہو گیا۔فیصلہ کیا گیا کہ دیانتر پاس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں اور کوئی خاص رکاوٹ نہ ہو تو اس پروگرام کو حتمی شکل دے دی جائے۔ گائیڈ بکس اور انٹرنیٹ سائیٹس سے استفادہ کرنے کے باوجود دیانتر پاس ٹریک کے بارے میں مکمل تفصیلات میسر نہ آ سکیں ، البتہ دو تین ( Itineraries ) آئٹی نریری (پڑاؤ اور پروگرام کی معلومات) اور بنیادی معلومات حاصل ہو گئیں ۔
 دیانتر پاس تقریباً چار ہزار سات سو میٹر بلند(سولہ ہزار فٹ) ایک دشوار گزار پہاڑی درہ ہے۔ یہ درہ سلسلہ ہائے ہندوکش کی پانچ ہزار تیس میٹر بلند چوٹی ’’سنوڈوم‘‘  کے پہلو سے گزرتے ہوئے گلگت کی وادی نل تر کو نگر کی وادی دیانتر(دئینتر) سے ملاتا ہے۔ ہماری گزشتہ رسائی ساڑھے تیرہ ہزار فٹ سے(نانگا پربت بیس کیمپ ۴۱۰۰ میٹر) زیادہ نہیں تھی۔ دیانتر پاس ٹریک وادیِ  نل تر، وادیِ  دیانتر اور وادیِ  بر سے (جسے شین بار بھی کہا جاتا ہے) گزرتا ہوا وادیِ نگر کے مرکزی شہر چھلت پہنچتا ہے۔ اس گذر گاہ پر کئی خوبصورت سبزہ زاروں ، برف زاروں ، سنگ زاروں ، شجر پاروں اور آب پاروں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ ایک آدھ سائٹ پر تشویشناک انداز میں ٹریک کی تکنیکی دشواریوں کا ذکر بھی کر دیا گیا تھا، لیکن پوری چھان بین کے باوجود اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جا سکا کہ دیانتر پاس ٹریک کا حاصل کیا ہو گا؟میرے خیال میں ٹریک کی مشقت برداشت کرنے کے لئے ایک عدد ’’حاصل‘‘  کا لالچ بہت ضروری ہے۔پانچ کلومیٹر بے ڈھب چڑھائی کے اختتام پر فیری میڈوز اور نانگا پربت کا دیدار حاصل ہو جائے تو ٹریک پر بہنے والا پسینا کسے یاد رہتا ہے؟
دیانتر پاس ٹاپ سے نظر آنے والے پینوراما کی بے تحاشہ تعریف پڑھنے کے باوجود کسی خاص ’’حاصل‘‘  کے دیدار کی خوشخبری نہ مل سکی جسے دیکھ کر تسکینِ قلب و نظر کی توقع کی جا سکتی ہو۔ ان معلومات کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دیانتر پاس ٹریک ہم جیسے مبتدیوں کے لئے ایک منفرد اور سنسنی خیز تجربہ ثابت ہو سکتا ہے،اس کی برفیلی بلندیوں سے کسی ’’بیوٹی کوئین‘‘  قسم کے منظر کی توقع نہ رکھی جائے۔
ہے اس میں حسن ذرا کم ادا زیادہ
شراب پھیکی ہے لیکن نشہ زیادہ
ہم اس بات پر متفق تھے کہ اپنے بل بوتے پراس قسم کے نشے سے مخمور ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عرفان وغیرہ کے ساتھ ’’ٹاپ کراس ٹریکنگ‘‘  کا موقع مل رہا ہے تو اس پیشکش سے فائدہ نہ اٹھانا کفرانِ نعمت ہو گا۔میں نے حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے مزید چھان بین ضروری سمجھی کیونکہ دیانتر پاس ٹریک کے کچھ مراحل سخت ترین ٹریکنگ کے درجے میں شامل کیے گئے تھے اور میں خود کو سخت ترین ٹریک کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔
 میں پاس کرا سنگ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے فیصل بینک وہاڑی کے منیجر کامران صاحب کے آفس جا دھمکا۔اُن کی ٹیم نے پچھلے سال مازینو پاس عبور کیا تھا، وہ خود بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس مہم میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔میں نے انھیں اطلاع دی کہ ہم اس سال دیانتر پاس ٹریک کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
’’آپ نے پہلے کوئی پاس کراس کیا ہے؟ ‘‘  کامران صاحب نے سوال کیا۔
’’نو سر۔‘‘
’’آپ پاس کو کیا سمجھتے ہیں ؟‘‘
’’پاس ایک ایسا راستہ ہوتا ہے جو دو وادیوں کو ملاتا ہے۔آپ کو اتنا بھی نہیں پتا؟ ‘‘
’’پتا لگ جائے گا جب کوئی پاس عبور کریں گے۔مجھے دیانتر پاس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ، لیکن پچھلے سال مازینو پاس کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے علم ہوا کہ پاس کراسنگ کے لئے بہترین قسم کا فٹ نس لیول(Fitness level) درکار ہے۔‘‘
 ’’جیسا طاہر کا ہے؟‘‘
 اس انکشاف پر وہ باقاعدہ اچھل پڑے۔
 طاہر؟ جس کا وزن سو کلو سے زیادہ ہے ؟ ‘‘
’’زیادہ نہیں ہے، سات کلوگرام کم ہو گیا ہے۔ طاہر کا تازہ ترین وزن بانوے کلو نو سو ننانوے گرام ہے۔‘‘
’’بہت خوب۔اللہ کرے زورِ وزن اور زیادہ۔میری دعا ہے کہ آپ بہ خیر و عافیت دیانتر پاس عبور کریں ،اور مشورہ ہے کہ اپنے انتخاب پر دوبارہ غور فرما لیں ۔‘‘
’’ٹریک کا انتخاب عرفان نے کیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ جا رہا ہے۔آپ دیانتر پاس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ ‘‘
’’ٹریک پر آپ جا رہے ہیں ،معلومات میں حاصل کروں ۔‘‘
’’آپ ہر وقت انٹرنیٹ سے منسلک رہتے ہیں ۔مجھے باقاعدہ وقت نکالنا پڑے گا۔‘‘
’’آپ لوگ ٹریک کے دوران کھانے کا کیا بندوبست کرتے ہیں ؟‘‘ کامران صاحب نے موضوع تبدیل کر دیا۔
’’یہ شعبہ عرفان کا ہے۔میرا خیال ہے خشک راشن ساتھ لے جائیں گے اور باورچی  ہمارے لیے کھانا تیار کر ے گا۔‘‘
’’کھانا پکانے کے برتن،کراکری،کٹلری،گوشت،انڈے،سبزیاں ،گھی اور چاول وغیرہ ساتھ لے جائیں گے؟‘‘
’’کھانا کھانے کا پروگرام ہوا تو لے جانے ہی پڑیں گے۔‘‘
’’سیزن کے دنوں میں اچھا باورچی بہت مشکل سے ملتا ہے اور ضرورت سے کہیں زیادہ سامان خرید لیتا ہے۔ یہ سامان اٹھانے کے لیے اضافی پورٹرز درکار ہوتے ہیں اور اخراجات  خواہ مخواہ بڑھ جاتے ہیں ۔ میرے ساتھیوں نے مازینو پاس ٹریک پر ڈبہ بند کھانوں کا تجربہ کیا تھا جو بہت کامیاب رہا۔‘‘
’’عرفان پچھلے سال ڈبہ بند کھانے ہی لے گیا تھا، اس کی ٹیم کو پسند نہیں آئے اور وہ پورے ٹریک کے دوران تنقید کا نشانہ بنا رہا۔‘‘
’’وہ کمپنیوں کے تیار کر دہ کھانے کے ڈبے لے گیا ہو گا۔ کھانے گھر میں تیار کروائیں اور انھیں ڈبہ بند کروا لیں ۔چپاتی پورٹر ز کے ساتھ شیئر کر لیں ۔ٹریک پر گھر کے بنے ہوئے کھانے سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’کھانے ڈبہ بند کہاں سے کروائے جا سکتے ہیں ؟‘‘
’’فیصل فوڈ کینر شاہ جمال لاہور سے۔ اردو بازار سے بھی ہو سکتے ہیں ۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے کہ کھانوں کے پتیلے گاڑی میں رکھ کر پیک کروانے کے لئے لاہور لے جاؤں ؟ میں اتنا عقل مند نہیں ہوں ۔‘‘
’’کون بیوقوف آپ کو عقلمند کہنے کی جرأت کر سکتا ہے؟آپ صرف پروگرام فائنل کریں ۔ میں طارق سے درخواست کروں گا کہ کھانے پکوا کر پیک کرائے اور وہاڑی آنے والی کسی بس کے ڈرائیور کے حوالے کر دے۔ آپ ڈبے وصول کریں اور طارق کے آن لائن اکاؤنٹ میں اخراجات کا بل جمع کرا دیں ۔ ‘‘
’’بل جمع کرائے بغیر کام نہیں چل سکتا؟‘‘
’’وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔‘‘
میں نے ایک مرتبہ پھر ٹریک کی خوبصورتی اور ’’سخت ترینی‘‘  کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی اور واپس آ گیا۔ چند روز بعد کامران صاحب انتہائی پریشانی کے عالم میں میرے پاس تشریف لائے۔
’’ڈاکٹر صاحب میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے پروگرام پر نظر ثانی کر لیں ۔ دیانتر میں خوبصورتی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ‘‘
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟ ‘‘
’’آپ بھی پتا چلا لیں ۔‘‘ انہوں نے ایک میموری کارڈ میری طرف بڑھایا۔
 میں نے میموری کارڈ لیپ ٹاپ کی سلاٹ میں لگایا اور دنگ رہ گیا۔ دیانتر نامی فولڈر میں ایک سیاہ فام خاتون نیلے پیلے جلوے دکھا کر ’’پاس‘‘  ہونے کی کوشش میں مصروف تھی، لیکن بری طرح ’’فیل‘‘  ہو رہی تھی۔
’’یہ کیا پھڈے بازی ہے؟‘‘ میں کنفیوژ ہو گیا۔
’’یہ آپ کی دیانتر ہے۔ ‘‘
’’خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے …  وادیِ دیانتر گلگت کے گردو نواح میں پائی جاتی ہے،  زمبابوے کے نائٹ کلب میں کیسے پہنچ گئی؟‘‘
’’گوگل سرچ پر دیانتر لکھنے کے نتیجے میں ۔ ‘‘ انھوں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’اور آپ اس نتیجے کی تصاویر پر ہاتھ صاف کرتے رہے؟‘‘
’’تصاویر کے علاوہ اس کی کون سی چیز ہاتھ صاف کرنے کے قابل ہے جنابِ عالی؟‘‘  کامران صاحب نے نہایت معصومیت سے وضاحت چاہی۔
کامران صاحب کا فرمانا تھا کہ دیانتر کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں ۔وہ دیانتر پاس (DAINTAR PASS) ٹریک سٹوری سرچ کرتے کرتے تنگ آ گئے تو سپیلنگ تبدیل کر کے (DIANTER)سرچ کرنے کی کوشش کی اور جو کچھ ہاتھ لگا جوں کا توں میری خدمت میں پیش کر دیا گیا۔
میں ذہنی طور پر دیانتر پاس ٹریک کے لیے آمادہ ہو چکا تھا، جسمانی طور پر تذبذب کا شکار تھا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب کے ذوق و شوق نے تذبذب کا خاتمہ کر دیا اور ہم نے عرفان کی زیرِ  قیادت دیانتر پاس ٹیم میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
 فیصلے کے بعد سامان مکمل کرنے کی فکر ہوئی۔
ٹریکنگ کے سامان کے بارے میں ہماری معلومات ’’نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک‘‘  تک محدود تھیں ۔اس شریف النفس ٹریک میں کیمپنگ اور پاس کراسنگ جیسے مراحل نہیں پائے جاتے، اس لیے باقاعدہ ٹریک کے لئے درکار سامان کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ طاہر کا خیال تھا کہ سامان کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،جو چیز کم ہوئی گلگت سے خرید لی جائے گی۔ عرفان نے بھی گلگت ہی سے شاپنگ کا مشورہ دیا۔ بھٹہ صاحب سفر شروع کرنے سے پہلے تمام انتظامات مکمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں ، انھوں نے شرط عائد کر دی کہ ساتھ لے جانا ہے تو سامان کی فہرست فراہم کی جائے۔ میں نے اور طاہر نے اپنے محدود تجربات کی روشنی میں الٹی سیدھی فہرست بنائی اور بھٹہ صاحب کے حوالے کر دی۔
بھٹہ صاحب چند روز بعد کلینک پر نازل ہو گئے۔
’’ڈاکٹر صاحب،یہ آپ نے میرے ہاتھ میں کیا پکڑا دیا ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے جارحانہ انداز اختیار کیا۔
’’کیا پکڑا دیاہے؟‘‘ میں نے رازدارانہ انداز اختیار کیا۔
بھٹہ صاحب جھینپ گئے اور ان کی جارحیت ہوا ہو گئی۔
’’یہ کس قسم کا سامان ہے جو وہاڑی کی کسی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ؟‘‘
’’آپ کون سے سٹورز پر گئے تھے؟‘‘
’’میں کون سے سٹورز پر نہیں گیا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے تنک کر جوابی سوال کیا۔
’’لنڈا بازار گئے تھے؟‘‘
’’لاحول ولا قوۃ! لنڈا بازار میں شاپنگ کرتا ہوا پکڑا گیا تو شاگردوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟  ابا جان الگ چھترول کریں گے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اُن کا ارشاد ہے کہ فرنگی کا ناپاک لباس سیدھا جہنم میں جائے گا اور پہننے والے کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔‘‘
’’فہرست میں صرف لباس نہیں ،اور بھی بہت سی اشیاء شامل ہیں ۔‘‘
’’ابا جان کے اقوالِ زریں انگریز کی استعمال کی ہوئی ہر چیز پر نافذ ہوتے ہیں ۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے آپ فی الحال یہ ٹریک نہیں کر سکتے، کیونکہ پاکستان میں ابھی تک ٹریکنگ کا مکمل سامان دستیاب نہیں ۔ ‘‘
’’اچھا؟یہ تو معذوری ہوئی نا ں جی؛اور معذوری میں  … میرا مطلب ہے … ۔‘‘
’’جی ہاں !معذوری کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے آپ جہنم میں گورے ٹیکس کی جیکٹ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔‘‘  میں نے اُن کی بات مکمل کی۔
’’ٹریکنگ کا سارا سامان لنڈے سے خریدا جائے گا؟‘‘
’’میرا خیال ہے بیش ترسامان یا اس کی متبادل اشیاء عام سٹورز سے مل جائیں گی۔ رک سیک، سلیپنگ بیگ اور ٹریکنگ شوز ملنا مشکل ہے۔‘‘
’’سلیپنگ بیگ میرے پاس ہے۔‘‘
’’آپ کے پاس کس برانڈ کاسلیپنگ بیگ ہے؟‘‘
’’پتا نہیں کون سا ہے۔میرے پڑوسی نے رائے ونڈ سے خریدا تھا۔‘‘
’’ٹریک پر خاص قسم کے سلیپنگ بیگ درکار ہوتے ہیں جو درجہ حرارت کے مطابق منتخب کئے جاتے ہیں ۔دیانترپاس سطح سمندر سے تقریباً سولہ ہزار فٹ بلند ہے اور رات کے وقت اس کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے کم ہو جاتا ہے۔ٹاپ پر کیمپنگ کی ضرورت پیش آ گئی تو تبلیغی جماعت کا سلیپنگ بیگ نہیں چلے گا۔‘‘
’’غلط فہمی ہے آپ کی۔ تبلیغی بستر دنیا کے ہر مقام پر چلتا ہے۔ سلیپنگ بیگ کی فکر چھوڑیں اور یہ فرمائیں کہ رک سیک،رین گیئر،گورے ٹیکس جیکٹ یا فلیس کی شرٹ جیسی اوٹ پٹانگ چیزیں کہاں سے ملیں گی؟‘‘
’’لنڈے سے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔فٹافٹ تیار ہو جائیں ۔‘‘
‘‘ کیا مطلب؟‘‘
’’ٹریک باجماعت ہو گا تو لنڈے سے خریداری بھی با جماعت ہو گی۔‘‘
’’بالکل ہو گی،لیکن وہاڑی میں نہیں ، گلگت میں ۔‘‘
’’میں خریداری مکمل کر کے سفرشروع کرنے کا قائل ہوں ۔‘‘
’’خریداری کے لئے ایمرجنسی پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں فی الحال مصروف ہوں ۔ آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا ہو گی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد دوبارہ حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
ہماری توقع کے خلاف وہاڑی کے لنڈا بازار میں ایک عدد ’’یتیم و مسکین‘‘  رک سیک کے علاوہ کوئی اور چیز دستیاب نہ ہو سکی۔میں نے بھٹہ صاحب کو مشورہ دیا کہ لاہور تشریف لے جائیں ، وہاں ہر قسم کا سامان دستیاب ہو گا۔بھٹہ صاحب نے یہ تجویز اعتراض لگا کر مسترد کر دی۔
’’مجھے علم ہی نہیں کہ ٹریکنگ شوز، گورے ٹیکس(Gore-Tex) اور فلیس(Fleece) کن بلاؤں کے نام ہیں تو خریدوں گا کیسے؟‘‘
’’اس مسئلے کا ایک ہی حل …  گلگت چل بھئی گلگت چل۔‘‘
بھٹہ صاحب مجبوراً خریداری ملتوی کرنے پر رضامند ہو گئے۔
ہم پروگرام کے مطابق بائیس جولائی ۲۰۰۸؁  کو ڈاہابرادرز کے بس سٹینڈ پر پہنچے اور رات نو بجے والے اے۔سی ٹائم میں تشریف فرما ہو گئے۔بس چلتے ہی شوکت علی بھٹہ صاحب کھڑے ہو گئے اور شور مچانا شروع کر دیا:
’’روکیں روکیں  … بس روکیں  … میں نے نہیں جانا۔‘‘
’’اوئے کیوں نہیں جانا ؟‘‘ طاہر نے اُن کا بازو پکڑ لیا۔
’’شدید گھبراہٹ ہو رہی ہے،فوراً بس رکوائیں ۔‘‘
بھٹہ صاحب ایک ہاتھ سے باری باری اپنی پیشانی اور سینہ سہلا رہے تھے، دوسرے ہاتھ سے طاہر کے ساتھ پنجہ آزمائی میں مصروف تھے جو انہیں زبردستی سیٹ پر بٹھائے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انھوں نے بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح ٹکر رسید کرنے کی کوشش کی اور طاہر بوکھلا گیا۔بھٹہ صاحب نے اپنی کلائی چھڑا کر جست لگائی اور بس کے دروازے میں کھڑے ہوئے کنڈیکٹر سے جا ٹکرائے۔کنڈیکٹر نے انھیں اپنی سیٹ پر تشریف رکھنے کا مشورہ دیا تو انھوں نے مولا جٹ اینڈ نوری نت انداز میں بڑھک لگائی۔
’’اوئے چھیتی دروازہ کھول اوئے۔ نئی تے میں ایتھے ای مر جانا اے تیرے لئی نواں پواڑا پے جانا اے۔‘‘
کنڈیکٹر بھٹہ صاحب کے انداز سے گھبرا گیا۔اُس نے ڈرائیور کو بریک لگانے کا اشارہ کیا اور دروازہ کھول دیا۔بھٹہ صاحب نیچے اترے اور فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر گہری گہری سانسیں لینے لگے۔میں صورتحال جاننے کے لیے دروازے تک پہنچا تو بھٹہ صاحب کنڈیکٹر سے نہایت عاجزانہ انداز میں درخواست کر رہے تھے کہ ان کا سامان اتار دیا جائے، وہ کسی قیمت پر اسلام آباد نہیں جائیں گے۔
میں چکرا گیا۔بھٹہ صاحب ٹریک کیلئے ہم سے زیادہ پر جوش تھے۔
بھٹہ صاحب کی بہکی بہکی گفتگو سے بمشکل اندازہ لگایا گیا کہ وہ ’’کلوزڈ سپیس فوبیا‘‘   میں (بند جگہوں پر دم گھٹ جانے کا خوف ) مبتلا ہیں ،  اے سی بس میں سفر نہیں کر سکتے۔
’’یہ مسئلہ آپ کو ابتدا ہی میں بتا دینا چاہیے تھا۔ہم اے۔سی بس کے بجائے ٹرین سے سفر کر سکتے تھے۔‘‘  میں نے ناگواری کا اظہار کیا۔
’’میرا خیال تھا آپ لوگ ساتھ ہوں گے تو ڈر نہیں لگے گا۔ ‘‘ بھٹہ صاحب نے سہمے ہوئے انداز میں شرمندگی کا اظہار کیا۔
’’آپ آ جائیں ، خدانخواستہ کچھ ہوا تو سنبھال لیا جائے گا۔‘‘ میں نے حوصلہ دیا۔
’’کچھ ہو ہی گیا تو کیا سنبھالیں گے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
’’قبر میں تین چار روشن دان رکھوا دیں گے۔‘‘ میں نے نہایت خلوص سے وعدہ کیا۔
 ڈرائیور نے ہمارے مذاکرات طویل ہوتے دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔ اُسے اڈہ چھوڑنے کا نوٹس مل چکا تھا اور وہ بس سٹاپ کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا تھا۔
’’آپ کی سزا یہ ہے کہ کھلے شیشوں کی بس میں راولپنڈی پہنچیں ۔سامان ہمارے ساتھ جائے گا اور آپ وہاں نہ پہنچے تو کسی ڈسٹ بن میں پھینک دیا جائے گا۔اللہ نگہبان۔ ‘‘  میں نے بھٹہ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا اور دروازہ بند کر دیا۔
بس روانہ ہوئی، بھٹہ صاحب فٹ پاتھ پر کھڑے ہماری شان میں ناروا گستاخیاں فرماتے رہے اور ہم ان کے ارشاداتِ عالیہ کی زد سے دور ہوتے چلے گئے۔
بھٹہ صاحب بہ ظاہر داغِ مفارقت دے گئے تھے لیکن ہم اس جدائی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ میں نے اپنے فارماسسٹ شاہد چوہدری سے موبائل فون پر رابطہ کر کے صورتِ حال سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ بس سٹینڈ پہنچ کر بھٹہ صاحب کو واپس جانے سے باز رکھے۔ شاہد نے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد فون پر اطلاع دی کہ بھٹہ صاحب کو بس کنڈکٹر کی سپرداری میں دے کر ہدایت کر دی گئی ہے کہ انھیں فرار ہونے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ کنڈکٹر نے اس ذمہ داری سے دامن بچانا چاہا لیکن لمبی سواری کے لالچ اور شاہد کی صحافیانہ ’’تڑی‘‘  کے سامنے بے بس ہو گیا۔
 ہم نے ساہیوال کے قریب پہنچ کر بھٹہ صاحب سے رابطہ کیا۔
’’کہاں پہنچ چکے ہیں جناب؟‘‘
’’کہیں بھی نہیں ۔وہاڑی سے نکلے ہی تھے کہ ٹائر پنکچر ہو گیا۔ بس کا پورا عملہ وھیل تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔‘‘
’’اور آپ؟‘‘  میں پریشان ہو گیا۔
’’میں نزدیکی پٹرول پمپ کے ڈرائیور ہوٹل پر چائے پی رہا ہوں اور کوشش کر رہا ہوں کہ کوئی ٹرک ڈرائیور مجھے وہاڑی تک لفٹ دینے پر رضامند ہو جائے۔ ‘‘
’’سر جی !سارا پروگرام خراب ہو جائے گا۔‘‘ میں بوکھلا گیا۔
’’راولپنڈی سے آگے نان اے۔سی بس میں سفر کرنے کا حلف دیں تومیں اپنے ارادے پر نظر ثانی کر سکتا ہوں ورنہ … لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔‘‘
’’آپ کے سرِ عزیز کی قسم، راولپنڈی سے آگے گدھا گاڑی بھی قبول ہو گی۔‘‘
’’عرفان وغیرہ نہ مانے تو؟‘‘
’’وہ مانیں یا نہ مانیں ، ہم دونوں آپ کا ساتھ دیں گے۔ ‘‘
بھٹہ صاحب نے طاہر سے بھی وعدے وعید لیے اور راولپنڈی کے لیے سفر جاری رکھنے پر رضامند ہو گئے۔ ہم نے مطمئن ہو کر نشستوں کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
٭٭٭



اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں

A journey is best measured in friends rather than miles
Tim Cahill
سفر کی کامیابی کا بہترین پیمانہ سنگِ  میل نہیں دوست ہیں
ٹم کاہل

اسلام آباد کا سفر سوتے جاگتے کا قصہ بن کر گزر گیا۔
ہم تقریباً پونے سات بجے فیض آباد بس سٹاپ پر پہنچے اور ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر پیرودھائی کا رخ کیا۔ گلگت کے لئے سیٹیں بک کروانا ہماری ذمہ داری تھی۔ ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی (ناٹکو) کی کاؤنٹر کلرک نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اطلاع دی کہ گلگت جانے کے لیے پہلا ٹائم ایک گھنٹہ قبل روانہ ہو چکا ہے اور دس بجے والے ٹائم کی بکنگ جاری ہے۔ ہم نے شام کے وقت روانہ ہونے والے کسی نان اے۔ سی ٹائم میں بکنگ کی فرمائش کی۔ اُس نے یہ تشویش ناک اطلاع فراہم کر کے پریشان کر دیا کہ گلگت کے لیے ناٹکو کی نان اے۔سی بس سروس ایک سال پہلے ختم کر دی گئی تھی،آج کل صرف اے۔سی بسیں دستیاب ہیں ۔ گلگت کے لیے کئی پرائیویٹ کمپنیاں اے۔سی اور نان اے۔سی بس سروس مہیا کرتی ہیں ، لیکن افواہ ہے کہ ان کی گاڑیاں آرام دہ نہیں ہوتیں ۔
بھٹہ صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ وہ بہ خیر و عافیت محو سفر تھے اور اُن کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک راولپنڈی پہنچ جائیں گے۔
عرفان کو فون کرنے کی کوشش کی گئی تو کمپیوٹر نے فرمایا کہ آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا،تھوڑی دیر بعد دوبارہ کوشش کریں ۔
اس غیر یقینی صورتِ  حال اور عرفان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اور طاہر نے فیصلہ کیاکہ خواہ مخواہ پریشان ہونے کی بجائے چند گھنٹے آرام کر لیا جائے تاکہ سفر کی تھکاوٹ دور ہو سکے۔ ہم نے ناشتے کا پروگرام ملتوی کیا، بس سٹینڈ کے مین گیٹ سے باہر درمیانے درجے کے ہوٹل میں کمرے حاصل کیے، کاؤنٹر کلرک سے درخواست کی کہ دو گھنٹے بعد جگا دیا جائے اور لمبی تان کر سو گئے۔
میری آنکھ دروازے پر دستک کے بجائے … کوئی شہری بابو دل لہری بابو …  کی میوزیکل ٹون سے کھلی۔یہ طاہر کے موبائل کی گھنٹی تھی اور تکیے کے نیچے شور مچانے کے باوجود اس کے خراٹوں کا تسلسل توڑنے میں ناکام رہی تھی۔ میں نے کال وصول کرنے کے لئے فون اُٹھایا اور سکرین پر نظر آنے والا ٹائم دیکھ کر حیران رہ گیا۔کاؤنٹر کلرک شاید ہماری ہدایت بھول گیا تھا اور آرام کا وقفہ دو کے بجائے تین گھنٹے طویل ہو چکا تھا۔فون پر بھٹہ صاحب تھے اور اطلاع دینا چاہتے تھے کہ کلر کہار پہنچ چکے ہیں ۔
’’کلر کہار؟آپ دس بجے راولپنڈی پہنچنے والے تھے۔‘‘  میں نے حیرانی کا اظہار کیا۔
’’میں آپ سے پہلے راولپنڈی پہنچنا چاہتا تھا،لیکن نا ہنجار بس میری خواہش کا احترام نہیں کر رہی۔جگہ جگہ رکتی اور پنکچر لگواتی ہوئی چل رہی ہے۔ اجازت ہو تو ایک حسبِ حال شعر اگل دوں ؟ کافی دیر سے اٹکا ہو ا ہے۔‘‘
’’جی … ارشاد بلکہ مکرر ارشاد۔‘‘ مجھے خوشی ہوئی کہ بھٹہ صاحب تیرہ چودہ گھنٹے کے سفر کے بعد بھی ہشاش بشاش تھے۔
خرامِ ناز اور ’’بس‘‘  کا خرامِ ناز کیا کہنا
مجھے سارا جہاں گھوما ہوا محسوس ہوتا ہے
بھٹہ صاحب نے گنگناتے ہوئے قتیل شفائی کے اشعار گڈ مڈ کئے۔
’’سارے جہاں کو بے شک گھومنے دیں ، خود گھومنے سے پرہیز کریں اور جلد از جلد پیرودھائی پہنچ کر فون کریں ۔‘‘
’’عرفان وغیرہ سے رابطہ ہوا؟‘‘
’’ابھی تک تو نہیں ہوا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
بھٹہ صاحب کی کیوں نے احساس دلایا کہ فیصل آبادی گروپ کی آمد میں بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔فیصل آباد وہاڑی کی نسبت راولپنڈی کے قریب ہے،  وہ لوگ صبح کی نماز کے بعد سفر شروع کرتے تب بھی اب تک راولپنڈی پہنچ کر موبائل فون پر رابطہ کر چکے ہوتے۔ سوال یہ تھا کہ وہ پہنچے نہیں یا ہمیں بھول کر آگے روانہ ہو گئے ہیں ؟
میں نے عرفان کو فون کیا۔
عرفان نے سلام کا جواب دینے کے بعد جو ’’خار افشانی‘‘  کی وہ دیانتر پاس ٹریک کے لئے ہیرو شیما پر گرائے جانے والے بم سے کم تباہ کن نہیں تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب معذرت خواہ ہوں لیکن میں آ نہیں سکتا۔ ‘‘
’’یہ کیا مذاق ہے؟ ہوش میں تو ہیں آپ؟ ‘‘ میں بوکھلا گیا۔
’’آئی ایم سوری،یہ مذاق نہیں مجبوری ہے۔‘‘
’’مجبوری کو گولی ماریں اور فوراً راولپنڈی پہنچ جائیں ۔ طاہر اور بھٹہ صاحب صرف آپ کی وجہ سے دیانتر پاس ٹریک کے لئے تیار ہوئے ہیں ، اس اطلاع پر میرا تیا پانچہ کر دیں گے۔‘‘  میں نے کنکھیوں سے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے دبی آواز میں کہا۔ وہ فی الحال آنکھیں کھولنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’’نہیں آ سکتا ناں ۔ آفس میں تھوڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا گڑ بڑ ہو گئی ہے؟ ٹاؤن پلاننگ کے نقشوں کی جگہ ہیروئن بننے لگی ہے؟‘‘  میں نے جھلائے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
’’خدا کے لئے اتنی ہولناک قسم کی بد دعائیں نہ دیں ۔حکومتی اداروں میں اس قسم کے معاملات چلتے ہی رہتے ہیں ۔آڈٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔ڈائریکٹر صاحب نے رات گیارہ بجے اطلاع دی کہ میری چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں ۔میں اُسی وقت سے افسرانِ بالا کی منت سماجت کر رہا ہوں ۔ اجازت نہیں مل رہی۔‘‘
’’آپ کو اندازہ ہے کہ آپ راولپنڈی نہ پہنچے تو ہم آپ کو اور آپ کے افسرانِ  بالا کو کتنی اور کس قسم کی بد دعائیں دیں گے؟‘‘
’’یقین کریں آفس میں انتہائی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
’’شام تک آفس کے معاملات نمٹا کر راولپنڈی پہنچ جائیں ۔ گلگت کے لیے کل کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے۔ ‘‘
’’یہ مسئلہ ایک دن میں ختم نہیں ہو گا۔ تین چار دن لگیں گے۔‘‘
’’آپ کی ٹیم کے باقی اراکین راولپنڈی پہنچ چکے ہیں ؟‘‘
’’وہ؟ … وہ مختلف وجوہات کی بناء پر پہلے ہی انکار کر چکے ہیں ۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے آپ کا دماغ چل گیا ہے۔اتنی اہم اطلاعات آپ ہمیں راولپنڈی پہنچنے کے بعد دے رہے ہیں ؟ ‘‘   غصے کی شدت سے میری آواز تڑخنے لگی۔
’’مجھے سخت افسوس ہے۔میرا خیال تھا وہاڑی میں اطلاع مل گئی تو آپ لوگ دیانتر پاس پروگرام منسوخ کر دیں گے۔‘‘
’’اب یہ پروگرام جاری رہے گا؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں کتنا بددل اور پریشان ہوں ۔ شرمندگی کی وجہ سے فون کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی، لیکن نوکری پھرنوکری ہے۔میں اب بھی کوشش کر رہا ہوں مگر … ۔‘‘  عرفان نے مایوسی کی حالت میں فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’مگرہم کیا کریں ؟‘‘  میں نے بے چارگی سے سوال کیا۔
’’آپ ٹریک جاری رکھیں ۔‘‘
’’کیسے جاری رکھیں ؟ ہمارے پاس نہ تو ٹریکنگ کا سامان ہے اور نہ ہی ٹریک کے انتظامات کا تجربہ ہے۔ ‘‘ میں نے پریشانی ظاہر کی۔
’’سکردو میں حاصل کیا گیا تجربہ کافی رہے گا۔آپ لوگ راکا پوشی بیس کیمپ کا پروگرام بنا رہے تھے،وہاں ہو آئیں ۔‘‘
’’راکا پوشی بیس کیمپ ٹریک کے لئے پونے تین عدد رک سیک کافی رہیں گے؟‘‘  میں نے طنزیہ لہجہ اختیار کیا۔
’’سامان کا فکر نہ کریں ۔حتمی فیصلہ کرنے کے بعد مجھے فون کر دیں ۔ ٹریکنگ کا مکمل  سامان مع خیمے اور نیلا ڈرم کوہستان بس سروس کے ذریعے بھجوا دیا جائے گا۔ کریم آباد پہنچ کر ضرورت کے مطابق پورٹرز ہائر کریں اور ٹریک کے انتظامات کسی تجربہ کار پورٹر کو سونپ دیں ۔ امید ہے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘
 بے شک عرفان ’’امید سے تھا‘‘  لیکن ہماری امیدوں پر پانی پھیرنے کا خاطر خواہ انتظام کر چکا تھا۔
’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ طاہر نے آنکھیں ملتے ہوئے سوال کیا۔وہ غالباً ابھی بیدار ہوا تھا اور اس نے میری اور عرفان کی گفتگو کے آخری چند جملے سن کر اندازہ لگا لیا تھا کہ دیانتر پاس مہم کسی مسئلے سے دوچار ہو چکی ہے۔
چار ٹریکر، چلے دیانتر، تھے وہ پُر یقین
ایک ٹریکر ’’نھس‘‘  گیا ڈر کر باقی رہ گئے تین
میں نے صورتِ حال کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی۔
’’بھٹہ صاحب واپس چلے گئے ہیں ؟‘‘  طاہر پریشان ہو گیا۔
تین ٹریکر باقی تھے سر، پُر عزم تھے وہ
ایک ٹریکر، پھنس گیا دفتر، باقی رہ گئے دو
’’کیا اوٹ پٹانگ ہانک رہے ہیں ؟سیدھی طرح بتائیں مسئلہ کیا ہے؟‘‘
میں نے عرفان کے انکار اور اس کے ساتھیوں کے فرار کی ’’بد خبری‘‘  سنائی۔ طاہر کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے۔
’’رہنے دیں جی۔ آپ کے سارے کام شیخ چلی والے ہوتے ہیں ۔یہ عرفان کا پٹھا آپ نے ڈھونڈا کہاں سے تھا ؟بنے بنائے پروگرام کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔اتنی افراتفری کے عالم میں کسی نئے ٹریک کے انتظامات کرنا آسان کام ہے؟ اسے منع کر دیں کہ سامان وغیرہ بھیجنے کا ڈرامہ رچانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم ٹریک کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں تو سامان کا انتظام بھی کر لیں گے۔جن کے ساتھ عرفان نہیں ہوتا وہ لوگ ٹریک نہیں کرتے؟‘‘
طاہر تقریر بازی … اور اتنی طویل بازی پر اتر آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ غیظ و غضب کا پارہ قوّتِ  برداشت کی تمام حدیں عبور کر چکا ہے۔ اس وقت عرفان نظر آ جاتا تو دوبارہ کوئی ٹریک کرنے کے قابل نہ رہتا۔
اب ہمیں بھٹہ صاحب کا انتظار تھا کہ وہ تشریف لائیں اور موجودہ صورتِ  حال پر قابو پانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کریں ۔ انتظار کے لمحات طویل غسل اور گرما گرم کشمیری چائے کے کپ سے لطف اندوز ہو تے ہوئے گزارے۔ اس دوران ادھر ادھر کی گپ شپ  جاری رہی جو زیادہ تر عرفان کی شان میں ناروا گستاخیوں اور آیندہ کے خیالی منصوبہ جات پر مشتمل تھی۔ بھٹہ صاحب تقریباً ایک بجے نمودار ہوئے۔ہم نے نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ر سماً دریافت کیا کہ سفر کیسا گزرا؟
’’آپ زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے میری حالت سے اندازہ نہیں کر سکتے کہ سفر کیسا گزرا؟‘‘  بھٹہ صاحب نے انتہائی بے زاری سے جواب دیا۔
’’بالکل کر سکتے ہیں ۔آپ کی کہانی آپ کی زبانی سن کر چسکے لینا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’میں نے اتنا ہولناک سفر پہلے کبھی نہیں کیا۔اس لعنتی بس کا ہر پرزہ کھڑکا ہوا تھا اور ڈرائیور نشے میں تھا۔اُس نے وہاڑی سے اسلام آباد تک ہزاروں سٹاپ کر ڈالے۔ ہر سٹاپ پر دل چاہتا تھا واپس چلا جاؤں ۔‘‘
’’ہمہ یاراں واپس۔‘‘ میں نے دھیمے لہجے میں تائید کی۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ ذرا تازہ دم ہولیں ۔ہمارے پاس کئی غیر متوقع خوش خبریاں ہیں ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے واش روم کا رخ کیا اور تقریباً آدھا گھنٹا تازہ دم ہونے میں صرف کرنے کے بعد برآمد ہوئے۔
’’جی جناب!پہلی خوشخبری کیا ہے؟‘‘
’’ذرا دل تھام کر سنیے کہ ’’اپن‘‘  کے میرِ کارواں عرفان فیصل آبادی صاحب بعض ناگفتہ بہ مجبوریوں کے باعث دیانتر پاس ٹریک پر جانے سے قاصر ہیں ۔‘‘  میں نے پُر سکون لہجے میں اطلاع دی۔
’’ایہہ کی بکواس اے؟‘‘  بھٹہ صاحب کو یقین نہ آیا۔
’’اب جگر تھام کر سنیے کہ عرفان صاحب کی ٹیم کے تمام ارکان پہلے ہی ٹریک پر جانے سے انکار کر چکے تھے۔انھوں نے اطلاع دینا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ ہمارے شیشہ ء دل کو ٹھیس پہنچے گی۔‘‘
’’شیشہ ء دل کی ایسی تیسی۔سیدھی طرح بتائیں کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا؟‘‘  بھٹہ صاحب نے آستینیں چڑھاتے ہوئے جارحانہ انداز اختیار کیا۔آستینیں چڑھا کر جارحانہ انداز اختیار کرنا بھٹہ صاحب کا ’’تکیہ کلام‘‘ ہے۔ میں نے بھٹہ صاحب کی جارحیت پر توجہ دیئے بغیر بیان جاری رکھا۔
’’اب جو دل چاہے وہ تھام کر سنیے کہ دیانتر پاس ٹریک پر فاتحہ پڑھ لی گئی ہے۔ آپ جس بس میں راولپنڈی آئے ہیں اُسی سے واپس جانا پسند فرمائیں گے یا اُس سے زیادہ لعنتی بس کا انتظام کیا جائے؟‘‘
’’آپ اگر بے تکی لفاظی چھوڑ کر سیدھے سادھے الفاظ میں بتا دیں کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا تو شاید کوئی بہتر حل نکل آئے۔‘‘   بھٹہ صاحب سنجیدہ ہو گئے۔
میں نے سلیس اردو میں بتا دیا کہ عرفان کیوں نہیں آ رہا۔
بھٹہ صاحب کے چہرے پر بے پناہ بزرگی چھا گئی اور وہ مراقبے میں چلے گئے۔
’’انا للہ کا ورد شروع کر دیں ۔‘‘ انھوں نے چند منٹ بعد حکم صادر کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘  میں نے اور طاہر نے بیک وقت وضاحت چاہی۔
’’انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کریں ، بیس مرتبہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے وضاحت کر دی۔
’’یار خدا کا خوف کرو۔عرفان ٹریک پر جانے سے انکار ی ہے،خدا نخواستہ  …  ‘‘  میں نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’لا حول ولا قوۃ!میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ۔انا للہ کا ورد راستے سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو گھر واپس لانے کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔‘‘
’’ہم عرفان کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں ،آپ گھر واپس جانے کا نسخہ بتا رہے ہیں ۔ سچ مچ گھوم تو نہیں گئے؟‘‘
’’بال کی کھال اتارنے کے بجائے بیس مرتبہ انا للہ پڑھ لیں گے تو کون سی قیامت آ جائے گی؟‘‘  بھٹہ صاحب نے آنکھیں دکھائیں ۔
’’آپ کے خیال میں عرفان کی آمد اب بھی ممکن ہے؟‘‘
’’امید پر دنیا قائم ہے۔ہو سکتا ہے عرفان نے مذاق کیا ہو۔مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وہ اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔‘‘
بھٹہ صاحب بھی عرفان کی طرح امید سے تھے اور ان کا وہی حال تھا کہ:
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
بھٹہ صاحب نہایت سنجیدگی سے انگلیوں کے پوروں پر گن کرانا للہ وانا الیہ راجعون کی تسبیح پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔میں نے اُن کا دل رکھنے کے لئے مصنوعی خشوع و خضوع کے ساتھ با آوازِ بلند ورد شروع کر دیا اور طاہر نے طنزیہ انداز میں تقلید کی۔ ورد مکمل کرنے کے بعد بھٹہ صاحب نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی۔ دعا کے بعد ہم برنچ کی تلاش میں بس سٹینڈ پر آ گئے اور نہایت رغبت سے مرغ کڑاہی ’’زہر مار‘‘  فرمایا۔ کڑک چائے نے بیزاری اور کسلمندی دور کرنے میں بہت مدد کی۔ چائے کی چسکیوں کے دوران بھٹہ صاحب بار بار متوقع نظروں سے موبائل کی طرف دیکھتے رہے کہ شاید عرفان پلٹ وظیفہ کوئی کمال کر دکھائے  …  بالآخر وہ بھی مایوس ہو گئے اور تین رکنی کمیٹی کا ’’ٹریک ساز‘‘  اجلاس شروع ہوا جس میں فیصل آباد گروپ کے خلاف متفق علیہ قرار دادِ  مذمت منظور کرنے کے بعد ’’تھڑا کانفرنس کے چار نکات ‘‘  کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا:
۱۔عرفان نے دیانتر پاس ٹریک منصوبہ ’’ڈرون حملے ‘‘  کے ذریعے نیست و نابود کر دیا ہے۔ اس پر ٹیم کے منشور سے بغاوت کی فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔خوش قسمتی سے موقع میسر آ گیا تو کمرے میں بند کر کے …
نوٹ:سزا کا  اعلان موقع پر کیا جائے گا۔قبل از وقت انکشاف سے تھڑا کانفرنس کے شرکاء میں شدید اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہے … کہ پہل کون کرے گا؟
۲۔تھڑا کانفرنس کے شرکاء بہ صد افسوس اعتراف کرتے ہیں کہ دیانتر پاس ٹریک کے انگور کھٹے ہیں ۔یہ احمقانہ منصوبہ فی الفور منسوخ کیا جاتا ہے اور:
اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
۳۔ رہبر سے اپنی راہ جدا کرنے کے بعدٹیم مایوس ہو کر واپس جانے کے بجائے سکردو جائے گی اور گیشا بروم ہوٹل میں قیام کرے گی تاکہ ڈاکٹر صاحب کے گذشتہ تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔
۴۔ایڈونچر ٹورز کے منیجر مبارک صاحب کی مدد سے پورٹرز کا بندوبست کیا جائے گا اور بزرگ ترین پورٹر کو مشیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کی جائے گی۔ اُس کا فرض ہو گا کہ کیمپنگ سے مکمل پاک ایک ایسا ٹریک منتخب کرے جس میں آخری پڑاؤ تک قیام و طعام کی سہولت میسر آئے، ٹینٹ وغیرہ کی ضرورت پیش نہ آئے۔
چار نکات منظور ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عرفان کو فون کر کے کیمپنگ کا سامان بھجوانے کی پیشکش ٹھکرا دی جائے۔
’’جی جناب!پروگرام کہاں تک پہنچا؟گلگت کے لئے بکنگ ہو گئی؟‘‘ عرفان نے کال وصول کرتے ہی سوال کیا۔
’’گلگت؟ … کون سا گلگت؟ … کیسا گلگت؟ … کہاں ہے یہ گلگت؟‘‘
’’کیا مطلب؟آپ گلگت نہیں جا رہے؟‘‘
’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔‘‘  میں نے لاپرواہی سے کہا۔
’’اوہ مائی گاڈ!آپ نے واپسی کا سفر شروع تو نہیں کر دیا؟‘‘  عرفان کے لہجے میں ایک اَن جانی سی پریشانی تھی۔
’’واپس جائیں ہمارے فیصل آبادی دشمن،ہم سکردو جائیں گے۔‘‘  میں نے چٹخارے دار لہجے میں خوشخبری سنائی۔
’’سکردو؟ سکردو کہاں سے آن ٹپکا؟‘‘ عرفان مزید پریشان ہو گیا۔
’’دیانتر پاس کی برفیلی بلندیوں سے۔اور ہاں ،آپ سے بہ صد مذمت گزارش کی جاتی ہے کہ کوہستان بس سروس کو کسی قسم کی زحمت دینے کی ضرورت نہیں ، ہم کیمپنگ کریں گے تو سامان وغیرہ کا بندوبست بھی خود ہی کر لیں گے۔‘‘
’’ما شا اللہ … چشمِ بد دور!ذرا یہ بھی فرما دیں کہ اتنی خود اعتمادی کب سے آ گئی جناب میں ؟‘‘ عرفان نے طنزیہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی۔
’’آج سے،بلکہ ابھی سے۔‘‘ میں نے شاہانہ انداز میں کہا۔
’’چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد۔اس کا مطلب ہے میں پنڈی بھٹیاں سے واپس چلا جاؤں ؟‘‘  عرفان نے نہایت سادگی سے سوال کیا۔
’’کہاں سے واپس چلا جاؤں ؟‘‘  مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
’’پنڈی بھٹیاں سے۔‘‘
’’آپ پنڈی بھٹیاں میں کیا کر رہے ہیں ؟‘‘
’’میں پنڈی بھٹیاں سے گزر رہا ہوں ۔‘‘
’’کیوں گزر رہے ہیں ؟‘‘ میں نے بے تکے انداز میں سوال کیا۔
’’راولپنڈی آنے کے لیے پنڈی بھٹیاں سے گزرنا مجبوری ہے۔‘‘
’’عرفان صاحب پلیز! آپ مذاق کر رہے ہیں یا ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں ؟‘‘  میں نے سنجیدگی اختیار کی۔
’’سر جی ایسی کوئی بات نہیں ۔ میں دو تین گھنٹے تک راولپنڈی پہنچ رہا ہوں ۔آپ گلگت کے لیے چار سیٹیں بک کروالیں ۔‘‘
’’لیکن  … لیکن … اس سے پہلے آپ نے جو ڈراما بازی کی،وہ صرف ہمیں ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے تھی؟‘‘
’’آپ مجھے اتنا اذیت پسند سمجھتے ہیں ؟حالات اچانک بدلے،اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے حق میں بدلے۔ راولپنڈی پہنچ کر مکمل وضاحت کروں گا۔آپ ناٹکو کے آخری ٹائم میں سیٹیں بک کروالیں تاکہ آج کا دن ضائع نہ ہو۔‘‘
’’اطلاعاً عرض ہے کہ ہم نان۔ اے سی بس میں گلگت جائیں گے،اورنان اے سی بسیں اتنی فراوانی سے میسرہیں کہ پیشگی بکنگ کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘
’’نان اے سی بس؟میرا خیال ہے کوئی نان اے سی بس گلگت نہیں جاتی۔ نان۔اے سی سروس صرف مزدا یا ہائی ایس ویگنیں مہیا کرتی ہیں ۔‘‘
’’لہٰذا ہم مزدا یا ہائی ایس میں گلگت جائیں گے۔‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ناٹکو کی لگژری بس سروس کی موجودگی میں مزدا یا ہائی ایس میں بیس گھنٹے کا کمر توڑ سفر؟ میں ابھی اتنا پاگل نہیں ہوا۔‘‘
’’فکر نہ کریں ،یہاں پہنچتے ہی ہو جائیں گے۔‘‘
میں نے جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔
بھٹہ صاحب عرفان پلٹ وظیفے کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔میں نے اور طاہر نے انا للہ و انا الیہ راجعون کی کرامت کا اعتراف کیا اور بھٹہ صاحب کو نیند کی مختصر جھپکی سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دے کر بس سٹاپ کی مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ہم نے مشہ بروم، کے۔ٹو ٹریولز،سلک روٹ اور دیگر کمپنیوں کے کاؤنٹرز کے چکر لگائے۔ عرفان کے اس دعوے کی تصدیق ہو گئی کہ گلگت کے لئے نان اے سی سروس صرف ہائی ایس اور مزدا ویگنیں ہی مہیا کرتی ہیں ۔ہائی ایس یا مزدا میں سفر کرنے کے تصور ہی سے میرے جسم میں جھرجھری آ جاتی ہے۔وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب میں ہر ہفتے ملتان سے وہاڑی آتا تھا،ہائی ایس کو’’ڈیتھ کیپسول‘‘  اور مزدا کو ’’کنکریٹ مکسچر‘‘  کہتا تھا۔ایک مرتبہ پھر اس کنکریٹ مکسچر میں اٹھارہ گھنٹے اتھل پتھل ہونے کا خوفناک مرحلہ درپیش تھا،اور میں ذوقِ آوارگی کی خاطر اس مرحلے سے گزرنے پر آمادہ تھا۔
عرفان ایک عدد نیلے ڈرم اور دو سامان بند بوریوں سے لدا پھندا تقریباً تین بجے طلوع ہوا۔ہم نے جتنی نرم جوشی سے استقبال کیا اُس سے کہیں زیادہ گرم جوشی سے طعن و طنز کے تیر چلائے اور اُس کے پُر اسرار رویے کی وضاحت چاہی۔
’’آپ لوگ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں ۔سرکاری اداروں میں اس قسم کی ڈرامہ بازی روزمرہ کا معمول ہے۔‘‘
’’خواہ مخواہ؟آپ پورے پروگرام پر بلڈوزر پھیرنے لگے تھے اور خواہ مخواہ ہمیں کہہ رہے ہیں ۔دماغ شماغ ٹھیک ہے آپ کا؟‘‘ بھٹہ صاحب پھٹ پڑے۔
’’سر جی،  ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ  تاخیر بھی تھا۔اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ہم انشاء اللہ پروگرام کے مطابق ٹریک مکمل کریں گے۔‘‘
’’لیکن اس ڈرامائی تبدیلی کی کوئی وجہ ضرور ہو گی۔ آپ نہیں بتائیں گے تو خلش رہے گی کہ ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کی حمایت کی۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔کل آڈٹ ٹیم ایف۔ ڈی اے کے دفاتر میں اچانک نازل ہوئی اور بوکھلاہٹ کے عالم میں سب کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ۔آج بھی دوپہر تک ہنگامی صورتِ حال نافذ رہی اور آڈیٹرز حضرات مختلف شعبوں کا ریکارڈ الٹ پلٹ کرتے رہے۔چائے کے وقفے پر علم ہوا کہ جس اعتراض کی تفتیش ہو رہی ہے اُس کا میرے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ۔ مجھے این۔ او۔ سی مل گیا اور ڈائریکٹر صاحب نے تھوڑی بہت منت سماجت کے بعد چھٹیاں بحال کر دیں ۔ میں نے فوراً راولپنڈی کا رخ کیا۔‘‘
’’نوازش،کرم،شکریہ،مہربانی …  ہمیں بخش دی آپ نے زندگانی۔ اس بخشش کے طفیل آپ کو سنائی گئی سزا میں نرمی کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’کیسی سزا؟‘‘
’’اصل سزا نہایت شرمناک تھی،موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر آپ کو گلگت تک مزدا یا ہائی ایس میں سفرکرنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔‘‘
’’سفرِ  تنہائی با مشقت؟یہ انتہائی ظالمانہ فیصلہ ہے۔‘‘ عرفان بدک گیا۔
’’آپ کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔پوری ٹیم آپ کے ساتھ جائے گی۔‘‘
’’گلگت تک پوری ٹیم کی ہڈی پسلی ایک ہو چکی ہو گی۔رہبر ٹوٹ پھوٹ سے بچ بھی گیا تو دیانتر پاس کسے عبور کرائے گا؟یہ انتہائی احمقانہ فیصلہ ہے اور میں خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے ویٹو کرتا ہوں ۔‘‘
عرفان کو اس احمقانہ فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تو اُس کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے۔ کافی دیر تک سوچ بچار کرنے کی اداکاری فرمانے کے بعد اُس نے بھٹہ صاحب سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ اکیلے نان اے۔ سی بس میں سفر کر لیں تاکہ باقی اراکین غیر ضروری اذیت کا شکار نہ ہوں ۔بھٹہ صاحب نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیکھے بھالے راستے پر اکیلے سفر کیا جا سکتا ہے، اجنبی راستے پر ’’کلم کلے‘‘  سفر کرنا ممکن نہیں ۔ وہ گلگت تک اکیلے سفر کرنے کی نسبت واپس جانے کو ترجیح دیں گے اور کرایہ ہم سے وصول کریں گے۔عرفان نے ’’ملک و قوم‘‘  کے مفاد میں رولنگ دی:
’’ٹریکنگ کی دنیا میں پوری ٹیم ایک اکائی کی حیثیت سے شناخت کی جاتی ہے، اس لئے پوری ٹیم نان۔ اے سی بس میں گلگت جائے گی۔ ‘‘
ہم نے مشہ بروم ٹریولرز کی مزدا میں سیٹیں بک کروائیں اور شام پانچ بجے گلگت کے لیے روانہ ہوئے۔روانہ ہوتے ہی احساس ہو گیا کہ مزدا کی ’’گھٹنے جوڑ‘‘  نشستوں پر تشریف فرما ہو کر اٹھارہ گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہمارا کیا حشر ہو گا،مگر بھٹہ کردہ را علاج نیست اور خود بھٹہ صاحب سفر کی دشواریاں بھول بھال کر عجوبہ روزگار شاہراہِ قراقرم دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔ انھوں نے تاکید فرمائی کہ جیسے ہی بس شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھے انھیں مطلع کر دیا جائے۔شاہراہِ  قراقرم کا باضابطہ آغاز حویلیاں سے ہوتا ہے۔ ہم ٹیکسلا اور ہری پور سے گزر کر حویلیاں پہنچے تو شام کے سائے ظلمتِ شب میں گم ہو چکے تھے۔اردگرد کے ماحول پر تاریکی کا راج تھا۔آبادیوں میں ٹمٹمانے والی روشنیاں اس تسلط سے بغاوت کی کوشش کرتی تھیں ،لیکن ناکام تھیں ۔ شاہراہِ قراقرم کا صرف وہی حصہ نظر آ رہا تھا جو ویگن کی روشنیوں کی زد میں تھا۔میں نے بھٹہ صاحب کو اطلاع دی کہ ہم شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھ چکے ہیں ۔بھٹہ صاحب اپنی سیٹ سے اٹھے اور ڈرائیور کے پاس جا کر بونٹ پر تشریف فرما ہو گئے۔چند کلومیٹر شاہراہ کا جائزہ لینے کے بعد وہ اپنی نشست پر تشریف لائے اور یوں گویا ہوئے:
’’یہ قراقرم ہائی وے ہے جسے دنیا کا آٹھواں یا  نواں عجوبہ کہا جاتا ہے؟‘‘  اُن کے لہجے میں کسی حد تک طنز کی آمیزش تھی۔
’’بے شک۔‘‘
’’ہمارے ڈیرے تک جانے والی سڑک اس سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘
’’آپ ایک استاد ہیں اور میں آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہوں ۔اس کے علاوہ آپ سے بہت زیادہ بے تکلفی بھی نہیں ہوئی ہے،ورنہ اس تبصرے پر … خیر چھوڑیں ، آپ فی الحال خوابِ  خرگوش سے لطف اندوز ہوں ۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’کچھ نہیں ۔بائی دا وے … آپ کے خیال میں شاہراہِ قراقرم کو کیسا ہونا چاہیے؟‘‘
’’میرا خیال تھا کہ شاہراہ قراقرم پر مزدا اتنی سبک خرامی سے سفر کرے گی جیسے جھیل کی سطح پر مرغابی تیرتی ہے۔ اس بے مثال شاہراہ کے یہی تیور رہے تو گلگت پہنچتے پہنچتے ہڈی پسلی واقعی ایک ہو چکی ہو گی۔یہ آخر کس قسم کا عجوبہ ہے؟‘‘
 ’’آپ کے خیال میں شاہراہ قراقرم کے عجائبات اس کی بجری،  تارکول اور بناوٹ میں پوشیدہ ہیں ؟‘‘
’’پتا نہیں کہاں پوشیدہ ہیں ،نظر نہیں آرہے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے بیزاری سے کہا۔
’’جنابِ عالی شاہراہِ قراقرم کے عجائبات ساخت میں نہیں اس لینڈ سکیپ میں پوشیدہ ہیں جس کی تراش خراش کے نتیجے میں شاہراہ نے جنم لیا۔بد قسمتی سے اس وقت آپ اس لینڈ سکیپ کا نظارہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے گزارش کی تھی کہ فی الحال سو جائیں ،دن کی روشنی میں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔‘‘
بھٹہ صاحب نے خشمگیں نظروں سے مجھے گھورا، اور نشست پر نیم دراز ہو گئے۔
 شاہراہِ قراقرم پر ٹائر رکھتے ہی شمال کی سحر انگیز فضائیں اپنا جادو جگانے لگتی ہیں ۔ اوپن ایئر ویگن کی کھڑکیوں سے آنے والے پُر کیف ہوا کے جھونکے ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ بکھری ہوئی بستیوں میں جھلملاتی ہوئی روشنیاں چراغاں کا سماں باندھتی تھیں اور گہرائی میں بہنے والے دریا کی لہریں استقبالیہ دھنیں بکھیرتی تھیں ۔ دن کی روشنی میں قدرت کے چٹانی عجائب گھر کا منظر اپنی جگہ  …  رات کا پُر سکون سناٹا ’’شہریت‘‘  پر جو سحر طاری کرتا ہے وہ بہت دلفریب ہے۔
 شاہراہِ قراقرم کے ابتدائی حصے پر سفر کرنا مجھے مسرت اور سرشاری کے ساتھ ایک نامعلوم بے چینی، احساسِ کمتری اور احساسِ غلامی کی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس اذیت کی وجہ ہری سنگھ نلوہ،جیمز ایبٹ،مان سنگھ اور چھتر سنگھ ہیں جو ہماری غلامی کی تاریخ کے سیاہ ترین باب ہیں ۔ ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور چھتر پلین سے گزرتے ہوئے یہ اذیت ناک کردار یاد آ جاتے ہیں اور اس اذیت کا المناک پہلو یہ ہے کہ میں ان مقامات کا نام تبدیل کرنے کی خواہش نہیں کر سکتا۔ مغلِ اعظم کی جائے پیدائش ’’امرکوٹ‘‘  کو ’’عمرکوٹ‘‘  میں تبدیل کرنے کی غیر تاریخی حرکت کو میں نے ہمیشہ حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف سمجھا، اس لئے یادِ ماضی کے عذاب سے گزرنا ایک ’’خوشگوار‘‘  مجبوری ہے۔یہ اسمائے غلامی اُس سرور آمیز نشے کا انتہائی تلخ جام ہیں جس کے لئے سارا سال انتظار کیا جاتا ہے۔
مانسہرہ اور چھتر پلین پر بس نے مختصر قیام کیا اور ہم تھاکوٹ و بٹگرام سے گزرتے ہوئے رات دس بجے کے لگ بھگ بشام پہنچے جہاں کھانے کے وقفے کا اعلان کیا گیا۔ بشام کے بس سٹاپ کے نزدیک واقع ہوٹلوں میں دستیاب بے ذائقہ اور ٹھنڈا کھانا اب ایک ناخوشگوار معمول بن چکا ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی مجبوریاں مسافر کو بس سٹاپ کے نزدیکی ہوٹلوں تک محدود کر دیتی ہیں اور ڈرائیور حضرات ہمیشہ ان ہوٹلوں کے سامنے کھانے کا وقفہ کرتے ہیں جہاں ان کی  پُر جوش پذیرائی اور مسافروں کی’’جیب کترائی‘‘  کا  خاطر خواہ انتظام ہو۔بشام کے بس سٹاپ کے نزدیک واقع ہوٹلوں ،ریستوران اور کھوکھوں پر مسافروں کی لوٹ کھسوٹ کے فن کا شاندار مظاہرہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ ہم ایک ریستوران میں چکن بریانی کا ’’چربہ‘‘  نوش جاں فرما کر لکڑی کے بنچوں پر نیم دراز ہو گئے۔یہ نیم درازگی ضرورت سے زیادہ دراز ہونے لگی تو بھٹہ صاحب تشویش میں مبتلا ہو گئے۔
’’یار بشام ڈنر سٹاپ ہے یا نائٹ سٹاپ؟یہ ڈرائیور کا پٹھا سو تو نہیں گیا؟‘‘
’’ڈرائیور آپ سے زیادہ بے تاب ہو گا،لیکن بشام ڈنر سٹاپ ہونے کے علاوہ کارواں سٹاپ بھی ہے۔ کارواں مکمل ہو گا تو آگے سفر شروع ہو گا۔ ‘‘  عرفان نے جواب دیا۔
’’کارواں ؟آج کل کارواں کی صورت میں کون سفر کرتا ہے؟میرا خیال ہے کاروانوں کا زمانہ بیتے کئی زمانے بیت گئے۔‘‘
’’آپ کا خیال بالکل غلط ہے۔بشام سے شمالی علاقہ جات کی سرحد تک ہمارا سفر کارواں کی صورت میں ہو گا، اور کارواں اس وقت مکمل ہو گا جب بشام میں کم از کم دس گاڑیوں کا قافلہ مکمل ہو جائے۔‘‘
’’اس جدید دور میں کارواں کا لفظ کچھ اجنبی نہیں لگتا؟‘‘
’’رات کے وقت کوہستان کا علاقہ محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔گاڑیاں روک کر لوٹ مار کرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ۔اس کے علاوہ کوئی گاڑی خراب ہو جائے تو کسی قسم کی مدد میسر نہیں آتی۔ اس لئے دس بارہ گاڑیاں اکٹھی سفر کرتی ہیں اور رینجرز کی جیپ اس کارواں کو بحفاظت شمالی علاقہ جات کی سرحد تک پہنچا دیتی ہے۔ ‘‘
’’اغوا شغوا تو نہیں ہوتے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے فکر مندی ظاہر کی۔
’’کوہستانی پٹھان ڈاکو ہو سکتا ہے، اتنا بد ذوق نہیں ہو سکتا کہ تم جیسے سیاہ فام نمونے کو اغوا کرے۔ ‘‘  طاہر نے اطمینان دلایا۔
’’مجھے اپنی سیاہ فامی سے زیادہ تمھاری موٹی تازی گلفامی کی فکر ہے۔ کسی کوہستانی کی رال ٹپکنے لگی تو بھابھی جان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
’’دُر فٹے منہ۔‘‘
٭٭٭



بے باکیوں پہ شیخ ہماری نہ جائیو

In every walk with nature one receives far more than he seeks
John Muir
فطرت  کے ساتھ سفر کرنے والوں کو خواہش سے زیادہ عطا کیا جاتا ہے
جان موئر

تقریباً ساڑھے گیارہ بجے بشام کی پر سکون فضا پریشر ہارن کی خوفناک آوازوں سے درہم برہم ہو گئی۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کارواں کے لئے مطلوبہ گاڑیوں کی تعداد پوری ہو چکی ہے۔ چند منٹ بعد ہم نے بشام کو خدا حافظ کہا اور ’’قدرت کے چٹانی عجائب گھر‘‘  کے پُر ہول سناٹے میں داخل ہو گئے۔ چاند غالباً بدلیوں کی اوٹ میں تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ گہری تاریکی کے وسیع و عریض سمندر میں سفر کر رہے ہیں ۔ ہم نے تاکا جھانکی کرنے کے بجائے نشست کا سہارا لے کر اونگھنے کو ترجیح دی۔
بسیں صوبہ سرحد کے ضلع کوہستان اور شمالی علاقہ جات کی سرحد پر پہنچیں تو تلاشی اور رجسٹریشن کے لیے روک لی گئیں ۔ بیش تر مسافروں کی طرح ہم بھی بس سے نیچے اتر آئے تاکہ جکڑ بند جسم کو حرکت دے کر معمول پر لایا جا سکے۔ بھٹہ صاحب کی سوئی ابھی تک شاہراہِ قراقرم کی ’’غیر ضروری‘‘ شہرت میں اٹکی ہوئی تھی اور وہ تنقیدی نکتہ نظر سے شاہراہ کا جائزہ لے رہے تھے۔طاہر اور عرفان گھوم پھر کر بسوں کی لمبی قطار میں تاک جھانک کر رہے تھے۔ میں نے تلاشی کے وقفے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک ہموار پتھر پر لم لیٹ ہو گیا۔ اس عیاشی نے تھکاوٹ سے چور جسم کے لئے خواب آور دوا کا کام کیا اور میں باقاعدہ خراٹے لینے لگا۔بھٹہ صاحب نے جھنجوڑ کر جگایا تو علم ہوا کہ تلاشی کی بے نتیجہ کاروائی ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل ہوئی ہے۔ میں چھ سات مرتبہ تلاشی کے اس عمل سے گزر چکا ہوں ، آج تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ غیر ملکی سیاحوں کی رجسٹریشن راولپنڈی میں کی جا سکتی ہے۔ ان کے پاسپورٹ بس ڈرائیور کے پاس جمع کرائے جا سکتے ہیں جو منزلِ مقصود پر پہنچ کر واپس دے دیئے جائیں ۔ تلاشی کا عمل بھی راولپنڈی میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائی اگر شمالی علاقہ جات ہی کی پولیس کے ذریعے عمل میں لانا ضروری ہے تو ان کی چوکی راولپنڈی کے پیر ودھائی بس سٹینڈ پر قائم کی جا سکتی ہے، بہ شرطیکہ سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا مقصود ہو۔
ہم سورج طلوع ہونے کے چند منٹ بعد چلاس میں داخل ہوئے جہاں مشہ بروم ٹرانسپورٹ کمپنی کے سفارش کردہ ریستوران میں گھنٹوں پہلے تیار کردہ ناشتہ مسافروں کا انتظار کرتے کرتے ٹھنڈا ٹھار دل فگار ہو چکا تھا۔
رائے کوٹ پل سے دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے فیری میڈوز، بیال کیمپ اور نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ بھٹہ صاحب میرے قریب بیٹھے تھے اس لیے میں انھیں فیری میڈوز تک جانے والی جیپیں اور جیپ ٹریک دکھانے سے باز نہ رہ سکا۔ بھٹہ صاحب نے دلچسپی سے میری کمنٹری سنی کیونکہ وہ ’’نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘  کا مطالعہ کر چکے ہیں ۔ انھیں علم ہوا کہ نانگا پربت کا نظارہ شاہراہِ قراقرم سے بھی کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے ڈرائیور سے مذاکرات شروع کر دیئے اور اسے ’’نانگا پربت ویو پوائنٹ‘‘  پر چند منٹ بے ضابطہ قیام کے لئے آمادہ کر لیا۔
جگلوٹ سے ایک کلومیٹر پہلے تھالیچی نامی مقام نانگا پربت ویو پوائنٹ کہلا تا ہے۔ ڈرائیور نے اپنا وعدہ پورا کیا اور تھالیچی پہنچ کر دس منٹ سٹاپ کا اعلان کر دیا۔ خوش قسمتی سے مطلع بالکل صاف تھا اور نانگا پربت اپنی فطری شان و شوکت کے ساتھ دریائے سندھ کے اُس پار جلوہ افروز تھا۔بھٹہ صاحب نے برف کے سفید لبادے میں ملبوس نانگا پربت کا پُر تقدّس جاہ و جلال پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔وہ مبہوت ہو گئے اور سبحان تیری قدرت کا ورد شروع کر دیا۔میں چند روز نانگا پربت کے چرنوں میں گزار چکا تھا اور تھالیچی سے بھی کئی مرتبہ اس کا دیدار کر چکا تھا۔ میرے لیے بہ ظاہربھٹہ صاحب کی طرح مسحور ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی،پھر بھی حسن و جمال کے اس شاہکار کا شکار ہو گیا۔ آج نانگا پربت ایک نئی قیامت ڈھا رہا تھا۔ بے شک میں نے بہت قریب سے اس کے درشن کیے تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں موسم آنکھ مچولی کھیلتا رہا تھا۔ اتنا روشن، واضح اور چمک دار دن فیری میڈوز، بیال کیمپ، یہاں تک کہ نانگا پربت کے چرنوں میں بھی میسر نہیں آیا تھا۔ نانگا پربت اس وقت پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا اور میں اس کے دربار میں بے حس و حرکت کھڑا رہنے پر مجبور تھا۔میری خواہش تھی کہ یہ منظر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لا شعور کے نہاں خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائے۔ عرفان کی آواز میرے انہماک میں خلل انداز ہوئی:
’’سر جی ایک نظر اِدھر بھی۔‘‘
’’کائنات کی خوبصورت ترین بلندی کے سائے تلے کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر نظر ڈالنا کور ذوقی کی نشانی ہے۔‘‘  میں نے رخ تبدیل کئے بغیر جواب دیا۔
’’اس وقت کائنات کی خوبصورت ترین بلندیاں اِدھر اُدھر ہی پائی جاتی ہیں ۔ آپ بھی ایک نظر ڈال لیں ، بعد میں پوچھتے پھریں گے چولی کے پیچھے کیا تھا۔‘‘
 گردن خود بخود گھوم گئی۔
نانگا پربت ویو پوائنٹ پر ایک چبوترہ نما پلیٹ فارم بنایا گیا ہے تاکہ زائر تشریف فرما ہو کر نانگا پربت کے دیومالائی حسن سے آنکھیں سینک سکیں ۔اس چبوترے پر ایک سفید فام گروپ براجمان تھا۔ خواتین و حضرات اپنی جدید ترین تہذیب کے مطابق خود لطف اندوز ہو نے کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کو بھی لطف اندوز کر رہے تھے جو ایک چھوٹے سے ہجوم کی صورت میں چبوترے کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ایک گوری نانگا پربت کی مووی اور دوسری سٹل تصاویر بنا رہی تھی۔چند گورے گوریاں چبوترے کی دیوار کے پتھروں سے ٹیک لگائے دل خوش کن قسم کی ’’ٹچکریوں ‘‘  میں مصروف تھے۔میں نے ان کی حرکات و سکنات اور لباس کی تراش و ’’خراش‘‘  کا تفصیلی جائزہ لیا۔ بے شک گوری گوریوں بانکی چھوریوں کی بلندیاں نانگا پربت کو  …  آئی ایم سوری …  مجھے شرماتی تھیں ۔
’’کیا فرماتے ہیں ڈاکٹر صاحب بیچ ان بلندیوں کے؟‘‘  عرفان نے سوال کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ان بلندیوں کے بیچ کچھ فرمانے کی حماقت نہیں کرتے … البتہ یہ بلندیاں بذاتِ خود بہت کچھ فرما رہی ہیں ۔‘‘
’’کیا فرما رہی ہیں ؟‘‘
بے باکیوں پہ شیخ ہماری نہ جائیو
چولی تیاگ دیں تو فرشتے سعی کریں
 ’’آپ نے فیض کے شعر کی خوب مٹی پلید کی ہے، لیکن قافیے میں اٹک کر مار کھا گئے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے تنقیدی تبصرہ کیا۔
’’قافیہ با آسانی ملایا جا سکتا تھا،خیال کی گہرائی میں کمی آ جاتی۔ ‘‘
’’قافیہ کیسے ملایا جا سکتا تھا؟‘‘
آوارگی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
چولی اُدھیڑ لیں تو فرشتے رفو کریں
’’کیا خوب ارشاد فرمایا ہے  … سچ مچ مزہ آ گیا بادشاہو۔پیروڈی کا لطف دوبالا ہو گیا۔‘‘  بھٹہ صاحب نے دل کھول کر داد کے ڈونگرے برسائے۔
’’لطف دوبالا نہیں ہوا،غارت ہو گیا ہے۔آپ اردو کے استاد ہونے کے باوجود سعی کے پردے میں لپٹی ہوئی شرارت تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘  عرفان نے توجہ دلائی۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’حج یا عمرہ کیا ہے آپ نے؟‘‘
’’آپ کا مطلب ہے صفا اور مروہ کے درمیان کی جانے والی سعی؟ لاحول ولا قوۃ!  …  مگر واہ جی واہ! … واہ واہ! …  کتنی آوارہ قسم کی تشبیہ استعمال کی ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب پیروڈی پر دوبارہ غور و فکر کرنے کے بعد باقاعدہ وجد میں آ گئے۔ ’’مذہبی لحاظ سے آپ کی پیٹھ پر کم از کم دو سو کوڑے برسائے جانے چاہئیں ، ادبی نکتہ نظر سے اس خیال آفرینی کا جواب نہیں ۔ آپ کو سرجری  کے بجائے اردو میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہیے تھی۔‘‘
’’آداب۔‘‘  میں باقاعدہ کورنش بجا لایا۔
 ڈرائیور نے بار بار ہارن دینا شروع کیا تو ہم فطرت کی رنگینیاں آنکھوں میں بساتے ہوئے بس میں سوار ہو گئے۔جب تک نانگا پربت نظر آتا رہا ہم مڑ مڑ کر اسے دیکھنے سے باز نہ رہ سکے۔ جگلوٹ چند سیکنڈ کے فاصلے پر تھا اور ہمارا چائے سٹاپ تھا۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے بھٹہ صاحب کو مخاطب کیا۔
’’یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اہم جغرافیائی سنگِ  میل ہے۔‘‘
’’جی! … میں نے پڑھا ہے۔وہ مقام جہاں دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کی سرحدیں ملتی ہیں ۔‘‘
’’یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد مقام ہے۔بد قسمتی سے مجھے ایک مرتبہ بھی اپنی ٹرانسپورٹ پر یہاں سے گزرنے کا موقع نہیں ملا اس لئے اس کے تفصیلی مشاہدے سے محروم ہوں ۔ آپ بس کے ڈرائیور سے بے تکلف ہو چکے ہیں ،اُس سے درخواست کریں کہ وہاں بھی چند منٹ کے لئے گاڑی روک لے۔‘‘
’’اس میں کیا دشواری ہو سکتی ہے؟میں ابھی بات کرتا ہوں ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے ایک مرتبہ پھر ڈرائیور سے مذاکرات کئے جو بری طرح ناکام رہے۔ڈرائیور کا فرماناتھا کہ جگہ جگہ گاڑی روکنا ممکن نہیں ۔دوسری سواریاں اعتراض کریں گی۔ وہ پہلے ہی لیٹ ہو چکا ہے اور مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ۔
بھٹہ صاحب نے التجائیہ انداز اختیار کیا،تھوڑی بہت خوشامد اور چاپلوسی سے کام نکالنا چاہا، لیکن ڈرائیور نے گلگت سے پہلے بریک لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ بھٹہ صاحب طیش کے عالم میں دریائے سندھ سے زیادہ جھاگ اڑاتے ہوئے واپس تشریف لائے۔
’’الو کا پٹھا۔اس کا تو باپ بھی روکے گا۔‘‘ انھوں نے زیر لب کہا۔
’’بری بات!اچھے بچے گالی نہیں دیتے۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کو پچکارتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا زیادہ جلنے کڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ہم یہ مقام بس میں بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں اور شاید بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘
’’رہنے دیں جی۔اپنی مرضی سے یہ جگہ جگہ رُکتا اور بے تکے سٹاپ کرتا آیا ہے، اب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔میں بھی دیکھتا ہوں گاڑی کیسے نہیں روکتا۔‘‘
’’آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں ،بیس مرتبہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
’’یہاں انا للہ کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟‘‘ میں اس فرمائش پر سچ مچ حیران ہوا۔
’’ضرورت کو چھوڑیں ،ورد کریں ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے نادر شاہی فرمان جاری کیا اور آنکھیں بند کر کے انا للہ کے ورد میں مصروف ہو گئے۔
جگلوٹ سے باہر نکلتے ہی ایک خوبصورت برف پوش چوٹی نے درشن دیئے۔
’’ڈاکٹر صاحب راکا پوشی۔‘‘  عرفان نے مجھے چوٹی کی طرف متوجہ کیا۔
’’راکا پوشی؟راکا پوشی یہاں کہاں سے آ گئی؟ یہ نانگا پربت ہی ہے،ذرا مختلف زاویے سے نظر آ رہا ہے۔‘‘
’’آپ سچ مچ سٹھیا گئے ہیں ۔نانگا پربت کئی کلومیٹر پیچھے رہ گیا ہے،  وہ ہمیں اپنے سامنے کیسے نظر آ سکتا ہے؟‘‘
’’میں سٹھیا گیا ہوں تو آپ اٹھیا گئے ہیں ۔ میرے علم کے مطابق جگلوٹ کے آس پاس کوئی راکا پوشی ویو پوائنٹ نہیں ہے۔اگر ہوتا تونانگا پربت ویو پوائنٹ سے زیادہ مقبول ہوتا کیونکہ راکا پوشی پاکستان کی خوبصورت ترین چوٹی سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘
’’آپ دونوں ٹیک بولتا اے۔یہ نانگا پربت نئی اے،اور یہ راکاپوشی بی نئی اے۔‘‘  ایک مقامی شخص نے دخل اندازی کی۔
’’پھر یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’یہ حراموش اے۔‘‘
میں نے اور عرفان نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
اپنے دیو مالائی حسن کی بدولت ذہن کے پردے پر نقش ہونے والی یہ سفید فام حسینائیں اتنی بے پہچان کیسے ہو سکتی ہیں ؟ ایک سال پہلے میں اور عرفان حراموش بیس کیمپ ٹریک کا پروگرام بنا رہے تھے۔کوتوال جھیل اور مانی گلیشئر کی خوبصورتی اور دلکشی کے تذکرے کر رہے تھے۔وادیِ حراموش میں پائی جانے والی قدیم بلتستانی ثقافت میں چند دن گزارنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔آج حراموش کی برف پوش بلندی ہماری نظروں کے سامنے اپنی تمام تر رعنائی و دلربائی کے جلوے لٹا رہی تھی اور ہم جغرافیائی محل وقوع سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے پہچاننے سے قاصر تھے۔نہ جانے کس بے وقوف کا قول ہے کہ فطرت کا پجاری بد ذوق نہیں ہو سکتا۔
 بھئی کیوں نہیں ہو سکتا؟
جگلوٹ کے قرب و جوار میں نانگا پربت اور حراموش کی تال میل سے تخلیق پانے والا منظر اتنا دل فریب ہے کہ مزدا کی اچھل کود کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہونے والے جسم کی تھکاوٹ نظروں کی تراوٹ میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
ہم اس منظر کے تاثر میں گم تھے کہ بس کا انجن بند ہو گیا۔ بار بار اسٹارٹ کرنے کے باوجود بس نے رینگنے سے انکار کر دیا اور ڈرائیور نے اعلان کیا کہ تیل ختم ہو گیا ہے۔سواریوں نے ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ ڈیزل ختم ہونے کا خطرہ تھا تو جگلوٹ سے کیوں نہیں ڈلوایا گیا؟ڈرائیور خود پریشان تھا اور یقین دلا رہا تھا کہ وہ ہمیشہ پٹن سے ٹنکی بھرواتا ہے اور باآسانی گلگت پہنچ جاتا ہے، آج نہ جانے کیا گڑ بڑ ہو گئی ہے؟
’’تم نے فیول میٹر نہیں دیکھا؟‘‘  عرفان نے خفگی کا اظہار کیا۔
’’یہ کیا چیز ہوتا اے؟‘‘
’’گاڑی میں تیل کی مقدار بتانے والی سوئی۔‘‘  میں نے وضاحت کی۔
’’امارا گاڑی کا کوئی سوئی ام کو کچھ نئی بتاتا۔‘‘  ڈرائیور نے بے چارگی سے کہا۔
میں نے گاڑی کے ڈیش بورڈ کا جائزہ لیا۔ ڈرائیور کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ فیول میٹر بعد کی بات ہے اس میں سپیڈ میٹر بھی نہیں تھا۔اس علاقے میں دور دور تک پٹرول پمپ کا نام و نشان نہیں تھا اور ڈیزل ختم ہونا ایک تشویشناک مسئلہ تھا۔کنڈیکٹر نے کسی خفیہ خانے سے جری کین برآمد کیا اور اپنے اسسٹنٹ کے حوالے کر دیا۔ہیلپر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا تاکہ گلگت کی جانب سے آنے والی کسی گاڑی سے لفٹ لے کر جگلوٹ جائے، تیل حاصل کرے اور دوبارہ لفٹ لے کر واپس آئے۔ مقامی لوگوں کے اندازے کے مطابق یہ کم از کم ڈیڑھ دو گھنٹے کا مرحلہ تھا کیونکہ شاہراہِ قراقرم کے اس حصے پر پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم چلتی ہے اور پرائیویٹ گاڑیوں میں بہ خوشی لفٹ دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم بس سے نیچے اتر آئے اور ارد گرد کا جائزہ لیا۔
’’کیا مطلب؟ … یہ تو وہی جگہ ہے۔‘‘  میں نے بھٹہ صاحب کو گھورتے ہوئے سخت حیرانی کے عالم میں کہا۔
’’کون سی۔‘‘  عرفان نے دریافت کیا۔
’’جہاں تین پہاڑی سلسلوں کی سرحدیں ملتی ہیں ۔‘‘  میں نے کہا۔
’’اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟آپ نے کئی بار یہاں سے گزرنے  کے با وجود یہ مقام نہیں دیکھا؟ اور نہیں دیکھا تو … اب میں کیا کہوں ؟‘‘ عرفان نے طنز کی۔
’’کچھ کہے بغیر شوکت علی بھٹہ صاحب کے دستِ با برکت پر بیعت کر لیں ۔‘‘  میں نے بھٹہ صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’میرا مرید بننے سے بہتر ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کی کرامت پر ایمان لے آئیں ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے جھینپے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
’’یہ گفتگو کس سلسلے میں ہو رہی ہے؟‘‘ عرفان نے استفسار کیا۔
’’بھٹہ صاحب کی روشن ضمیری کے سلسلے میں ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
میں نے انھیں بھٹہ صاحب کی درخواست، ڈرائیور کے انکار اور اس مقام پر گاڑی روکنے کے بھٹہ صاحب کے دعوے کے بارے میں بتایا۔
’’اس ساری کہانی میں روشن ضمیری کہاں پائی جاتی ہے؟ سو فیصد کالی زبان کا کمال ہے۔‘‘ عرفان نے شوخ لہجے میں تبصرہ کیا۔
 ہم جس مقام پر موجود تھے،اس کے قرب و جوار میں دریائے گلگت دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے اور دنیا کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہمالیہ دوسرے بلند ترین سلسلے قراقرم اور تیسرے بلند ترین سلسلے ہندوکش سے گلے ملتا ہے۔ وہ سفید دیوار غالباً یہاں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھی جس پر انگریزی میں اس مقام کا تعارف کروایا گیا ہے اور ایک عدد راہنما نقشہ بھی بنا دیا گیا ہے جس کی مدد سے تینوں پہاڑی سلسلوں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ہم ان ’’مددگاروں ‘‘  سے استفادہ کرنے سے قاصر تھے لیکن عرفان بہترین گائیڈ ثابت ہوا۔ہم اس وقت دریائے گلگت کی جانب رخ کئے کھڑے تھے اور عرفان جغرافیہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ہمارے سامنے ہمالیہ، پیچھے ہندو کش اور بائیں ہاتھ قراقرم ہے۔‘‘
’’کیوں اور کیسے؟‘‘ میں نے اعتراض کیا۔
’’اس محدود لینڈ سکیپ میں کھڑے ہو کر مکمل جغرافیہ سمجھانا ممکن نہیں ۔ آپ سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر تشریف لے جائیں تو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔‘‘
’’یہ اتنے بندر نہیں ہیں ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے فقرہ کسا۔
’’یہ جتنے باندر ہیں اتنی اونچائی تک تو پہنچیں ۔باقی مدد اللہ کرے گا۔‘‘  طاہر نے کہا۔
’’آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم اس وقت دنیا کے منفرد ترین جغرافیائی مقام پر کھڑے ہیں جو بدقسمتی سے قدر ناشناسوں کی سر زمین پر واقع ہے۔ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو شہرتِ  دوام پاتا اور اس کے دامن میں بے شمار تفریحی ریسورٹ قائم ہو چکے ہوتے۔آپ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا نہیں چاہتے تو خاموش رہیں ،خواہ مخواہ ’’جھک‘‘  مار کر اس کی بے حرمتی نہ کریں ۔‘‘ عرفان نے تنبیہ کی۔
’’آئی ایم رئیلی سوری۔‘‘  بھٹہ صاحب نے شرمندگی کا اظہار کیا۔
’’بشام سے اس مقام تک دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ سلسلہ ہائے ہندو کش اور بائیں کنارے کے ساتھ کوہ ہمالیہ پھیلا ہو ا ہے، یعنی دریائے سندھ ان دونوں سلسلوں کو جدا کرتا ہے … ‘‘
’’میں نے پڑھا ہے کہ دریائے سندھ ہمالیہ اور قراقرم کو جدا کرتا ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے عرفان کی بات کاٹتے ہوئے اعتراض کیا۔
’’بالکل کرتا ہے،لیکن دریائے گلگت کے سنگم سے پہلے۔گلگت کے بائیں اور سندھ کے دائیں کنارے کی درمیانی تکون میں سلسلہ ہائے قراقرم پھیلا ہوا ہے۔‘‘
’’استاد جی ایک بے ضرر ’’جھک‘‘  مار لوں ؟‘‘ میں نے ایک با ادب طالب علم کی طرح ہاتھ بلند کرتے ہوئے اجازت طلب کی۔
’’جی!فرمائیے؟‘‘
’’مجھے علم نہیں کہ دریا کے دائیں اور بائیں کنارے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟‘‘
’’دریا کے پل پر پانی کے بہاؤ کی سمت رخ کر کے کھڑے ہو جائیں ۔ آپ کے دائیں طرف دریا کا دایاں کنارہ ہو گا۔‘‘
’’شکریہ۔بیان جاری رہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں ۔‘‘
’’مکمل کر چکے ہوں گے،سمجھا نہیں سکے۔‘‘
’’یہاں کھڑے ہو کر سمجھانا بہت مشکل ہے۔میں نے بلندی پر جانے کا مشورہ سنجیدگی سے دیا تھا۔‘‘
’’میں فرض کر لیتا ہوں کہ اس چٹان کی چوٹی پر کھڑا ہوں ۔ ‘‘
’’اب آپ اپنے ارد گرد کے لینڈ سکیپ کا جائزہ لیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ دریائے سندھ مشرق سے بہتا ہوا آ رہا ہے اور اس مقام پر ایک تنگ موڑ کاٹتا ہوا جنوب کی سمت بہنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘
’’فرض کیا کہ دریائے سندھ مشرق سے آ رہا ہے اور اس مقام پر ایک تنگ موڑ کاٹتا ہوا جنوب کی سمت بہہ رہا ہے۔‘‘ میں نے اس کا بیان دوہرایا۔
’’مزید تصور کریں کہ دریائے گلگت شمال کی جانب سے آ رہا ہے اور اس تنگ موڑ پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔اس سنگم کے نتیجے میں دریائے سندھ کے مشرقی بازو اور دریائے گلگت کے درمیان ایک تکون بن جاتی ہے۔‘‘
’’بن گئی تکون۔‘‘
’’اس تکون میں سلسلہ ہائے قراقرم پھیلا ہوا ہے جس میں کے۔ٹو، گیشا بروم،  مشہ بروم،  راکا پوشی اور لیلیٰ پیک جیسی چوٹیاں پائی جاتی ہیں ۔‘‘
’’او۔کے۔‘‘
’’دریائے سندھ مشرق سے جنوب کی جانب رخ بدلتا ہے تو اس کا بایاں کنارا ایک تنگ زاویہ بناتا ہے۔اس زاویے میں ،یعنی دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ ہمالیائی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔نانگا پربت اس سلسلے کا آخری پہاڑ ہے اور ہمالیہ کی مغربی سرحد بناتا ہے۔‘‘
’’او۔کے۔‘‘
’’دریائے سندھ اس مقام سے جنوب کا رخ کرتا ہے اور دریائے گلگت شمال کی جانب سے آ کر سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنگم سے آگے والا دریائے سندھ دراصل دریائے گلگت کا تسلسل ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک،اور میں سمجھتا ہوں یہ دریائے گلگت کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ دریائے گلگت شمال سے جنوب کی طرف بہہ رہا ہے اور مشرق کی طرف سے آنے والا سندھ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’آپ اپنی خیال آفرینی اپنے پاس رکھیں ۔ دریاؤں کے نام بہاؤ کی سمت کی مناسبت سے نہیں ،پہاڑی سلسلے کی جغرافیائی ساخت اور پانی کی تقسیم کے لحاظ سے رکھے جاتے ہیں ۔ ہر وادی کا اپنا اپنا دریا ہوتا ہے۔دریائے گلگت بے شک دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے لیکن دونوں کے پانی کا رنگ اور وادیاں الگ الگ ہیں ۔‘‘
’’شکریہ … مجھے اس کا علم نہیں تھا۔‘‘
’’دریائے گلگت کے دائیں اور سندھ کے جنوبی بازو کے بھی دائیں کنارے کے ساتھ سلسلہ ہائے ہندوکش پھیلا ہوا ہے جس کی بلند ترین چوٹی ترچ میر ہے۔ یہاں سے آگے ہمارے بائیں جانب تو ہندو کش ہی رہے گا، دائیں جانب سلسلہ ہائے قراقرم شروع ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ پڑھاتے بھی رہے ہیں ؟‘‘  بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’میں نے راک کلائمبنگ اور ٹریکنگ کے بارے میں کئی لیکچر لئے ہیں ۔‘‘
’’آپ یقینا بہترین لیکچر لیتے ہوں گے۔ مجھے اس مقام کا جغرافیہ بہت اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے۔کاش یہ پورا منظر نظروں کے سامنے ہوتا۔‘‘
دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کے مقامِ اتصال کا جغرافیہ سمجھنے کے بعد ہم نے بس کی سمت نظر ڈالی۔وہاں فی الحال مکمل سکون تھا اور ڈیزل کی آمد کے کوئی آثار نہیں تھے۔ہم نے کچھ دیر فوٹو گرافی کی اور پھر کمر سیدھی کرنے کے لئے سڑک کے کنارے پتھروں پر نیم دراز ہو گئے۔ بس کا ہارن اور مسافروں کا شور سنائی دینے پر بھاگم بھاگ بس تک پہنچے تاکہ ہماری وجہ سے تاخیر نہ ہو،لیکن یہاں ایک نیا ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا تھا۔
 ہیلپر بس ڈرائیور کے سامنے اٹین شن کھڑا تھا اور ڈرائیور غصے سے لال پیلا ہو کر جواب طلب کر رہا تھا کہ وہ خالی ہاتھ واپس کیوں آیا ہے؟ڈیزل کہاں ہے؟
’’تیل ادر نئی پہنچا؟‘‘  اسسٹنٹ کنڈیکٹر نے شدید حیرانی ظاہر کی۔
’’حرام خور کا بچہ تم لاتا تو تیل ادر پہنچتا ناں ۔خود بہ خود کیسے پہنچتا؟‘‘
’’ام نے بہت دیر پہلے تیل کا گیلن ایک پجارو والے کو دیا تھا۔وہ گلگت جا تا تھا۔ام نے اس کو بولا راستے میں ایک بس کھڑا ملے گا۔تیل اس کو پہنچانا اے۔‘‘
’’وہ تمھارے باپ کا نوکر تھا ناں کہ تمھارا بات مانتا؟تم اس کے ساتھ کیوں نئی آیا؟‘‘
’’ام کیسے آتا؟ گاڑی میں اس کا فیملی بھرا ہوا تھا۔ادر جگلوٹ میں گلگت جانے والا کوئی گاڑی نئی تھا۔ ام نے سوچا گاڑی پتا نئی کب آتا اے۔تیل آپ لوگوں تک پہنچ جاتا اے تو آپ لوگ گلگت پہنچتا اے۔ام بعد والا گاڑی سے آ جاتا اے۔‘‘
 کچھ مسافروں کو یاد آیا کہ اس دوران ایک پجارو گزری تھی لیکن اس نے رکنے یا  ڈیزل دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔
’’تم کو اس پجارو کا کوئی نشانی یاد اے؟‘‘  ڈرائیور نے سوال کیا۔
’’ام کو اس کا سارا نشانی اچھی طرح یاد اے۔پجارو کی اگلی سیٹ پے بیٹھا ہوا لیڈی بالکل نرگس لگتا تھا۔ اس نے نرگس کی طرح سرخی پوڈر لگا  رکھا تھا۔رنگ بی نرگس کی طرح گورا تھا، اور اس نے بالکل اس طرح کا عینک لگا رکھا تھا جیسا نرگس لگاتا اے۔‘‘
’’ماشا اللہ،کیا نرگسی نشانی بیان فرمائی ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے داد دی۔
’’ادر سے جو پجارو نکلا اے اس میں نرگس کی شکل کا لیڈی بیٹھا تھا۔‘‘  قریب کھڑے ہوئے ایک فرشتہ صورت بزرگ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا۔
ڈرائیور دونوں کو خونخوار نظروں سے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔
’’پجارو والا بوت شریف لوگ لگتا تھا۔ وہ کوئی فراڈ مراڈ نئی تھا۔امارا خیال اے اس کو غلطی ملطی لگ گیا اے۔وہ یاتوخود آتا اے یا ادر آنے والی کسی گاڑی سے تیل کا گیلن بھجواتا اے۔ ابی تھوڑاصبر کرو۔‘‘
پجارو نشین فیملی اتنی نرگسی نہیں تھی کہ دس لیٹر ڈیزل پجارو کی ٹنکی میں ڈالنے کے بجائے واپس کرنے کی زحمت اٹھاتی۔ہمارا طویل انتظار مایوسی پر ختم ہوا۔ڈرائیور اور سواریوں نے کنڈیکٹر کو برا بھلا کہنے کی دوسری قسط مکمل کی اور فیصلہ کیا کہ تیل دوبارہ منگوایا جائے۔ ڈرائیور نے اس مرتبہ اپنے ایک شناسا کو ڈیزل لانے کیلئے منتخب کیا جو گلگت سے آنے والی ہائی ایس میں سوار ہو کر جگلوٹ روانہ ہو گیا۔ خوش قسمتی سے ان صاحب کو واپسی کے لئے ایک موٹر سائیکل میسر آ گئی اور یہ توقع سے پہلے واپس آ گئے۔
بیس گھنٹے کمر توڑ سفر کے بعد ہم گلگت بس سٹینڈ پر اترے تو ہر جوڑ پُر شور احتجاج کر رہا تھا۔ گلگت بس اسٹینڈ کسی زمانے میں شہر کا مرکز ہوا کرتا تھا، آجکل شہر سے چند کلومیٹر دور منتقل کر دیا گیا ہے اور شہر جانے کے لیے ٹیکسی وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عرفان نے تین سال قبل سکائی ویز ہوٹل میں قیام کیا تھا اور اس کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں کوئی مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا اور سکائی ویز ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ ہوٹل چند سال پہلے قابلِ  رہائش رہا ہو گا، آجکل قابلِ  ’’کھدائش‘‘  معلوم ہوتا ہے۔ ہوٹل کے تنگ و تاریک اور مکڑی کے جالوں سے بھرپور کمروں کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے اس میں رہائش پذیر ہونے سے انکار کر دیا تو عرفان نے اس سے بہتر ہوٹل تلاش کرنے کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی۔ نیا ہوٹل تلاش کرنے کی ہمت کس میں تھی؟ اس لئے یہ سوچ کر کہ بات ایک رات ہی کی ہے،سکائی ویز میں ڈیرے ڈال دیے۔ بستر پر کمر ٹکاتے ہی جسم پر قابو نہ رہا اور ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گئے۔
٭٭٭



بستر ہے ناتواں سا جوتا ہے بے سلائی

Joy is found not in finishing an activity but in doing it
Greg Anderson
مسرت کا خزانہ مہم کے اختتام پر نہیں ، اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے نصیب ہوتا ہے
گریگ اینڈرسن

موبائل فون کے الارم سے آنکھ کھلی تو شام کے سائے ڈھل چکے تھے لیکن غنودگی کے سائے بدستور منڈلا رہے تھے۔ پنڈی سے گلگت تک نان اے۔سی بس میں سفر کرنا انتہائی ’’غیر شریفانہ ‘‘  حرکت ہے اور اس طویل حرکت کے دوران جسم پر کئی درد ناک ’’مقامات‘‘  نمودار ہو جاتے ہیں ۔ فضائی سفر اس حرکت میں برکت کا باعث بن سکتا ہے لیکن پنڈی سے گلگت کی پرواز موسم پر انحصار کرتی ہے۔ سیزن کے دوران موسم کے تیور مسلسل بگڑے رہتے ہیں اور یہ پرواز باقاعدگی کے ساتھ منسوخ ہونے کی عادی ہو چکی ہے۔ عرفان کے بیان کردہ ٹریکنگ کے پہلے اصول کے مطابق کفایت شعاری ٹریکنگ کا اٹوٹ انگ ہے۔ ٹیم کا کوئی رکن اگر اس لئے ’’منسوخ‘‘  کر دیا جاتا ہے کہ وہ فضائی سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تو ٹیم کے اراکین کو کسی خوبصورت سی جھیل میں ڈوب مرنا چاہیے۔
 بیدار ہونے کے بعد ٹریک کے لوازمات کا جائزہ لیا گیا۔عرفان نے ہمارے سامان کا معائنہ فرما یااور بیہوش ہوتے ہوتے بچا۔
’’آپ لوگ دیانتر پاس ٹریک کے لئے نکلے ہیں یا چنار باغ میں چہل قدمی کرنے تشریف لائے ہیں ؟‘‘  اُس نے ناگواری سے سوال کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘  بھٹہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں آستینیں چڑھاتے ہوئے اس سے بھی زیادہ نا گوار اور جارحانہ لہجہ اختیار کیا۔
’’دیانتر پاس باقاعدہ ٹریک ہے اور باقاعدہ ٹریک کے لئے پینتیس تا پینتالیس لیٹر کی گنجایش والے رُک سیک کی سفارش کی جاتی ہے۔آپ حضرات اپنے اپنے بچوں کے سکول بیگ اٹھا لائے ہیں ۔‘‘
’’رک سیک کی گنجایش لیٹر سے ناپی جاتی ہے؟‘‘  بھٹہ صاحب حیران ہوئے۔ ’’ہم اس میں کپڑے رکھیں گے یا دودھ اور پانی ڈالیں گے؟‘‘
’’رک سیک کی گنجایش لیٹر سے ہی ماپی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بستر بھی تبلیغی جماعت والوں سے مانگ کرلائے ہیں ۔آپ کا خیال ہے کہ دیانتر پاس ٹاپ پریہ سلیپنگ بیگ کام دے جائے گا؟‘‘
’’بے شک۔‘‘
’’لگتا ہے آپ چار ہزار سات سو میٹر بلندی پر رات کے درجہ حرارت سے واقف نہیں ۔‘‘
’’اور آپ اس بیگ کی کرامت سے واقف نہیں ۔وہاڑی کے امیر حضرت اسماعیل شاہ بخاری نے خصوصی دعائیں پڑھ کر دم کیا ہے۔ آپ چار ہزار میٹر کی بات کر رہے ہیں ، یہ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر بھی کام آ سکتا ہے۔ یقین اور آزمائش شرط ہے۔‘‘
’’آپ کے سپورٹس شوز فٹ بال کھیلنے کے کام آ سکتے ہیں ٹریکنگ لئے ہرگز مناسب نہیں ۔ ایک ہی دن کی ٹریکنگ ان کے بخیے ادھیڑ دے گی۔‘‘ عرفان نے بھٹہ صاحب کے شوز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’عرض کیا ہے … ۔‘‘  میں نے کنکھارتے ہوئے عرض کرنے کی اجازت چاہی۔
’’فرمائیے۔‘‘ عرفان نے اکھڑے ہوئے لہجے میں اجازت دی۔
بستر ہے ناتواں سا جوتا ہے بے سلائی
دیانتر عبور کرنے ہم جا رہے ہیں بھائی
میں نے عرفان کی ٹینشن کم کرنے کی کوشش کی۔
’’میں اسی لئے اپنے ٹریکنگ شوز ساتھ نہیں لایا کہ آپ ان کا مذاق اڑائیں گے۔ ویسے بھی بھاری بھرکم جوتے پہن کر چلتے ہوئے بہت دشواری ہوتی ہے، میں جوگرز پہن کر دیانتر پاس عبور کروں گا۔‘‘ طاہر نے مسرت آمیز لہجے میں اطلاع دی۔
’’آپ کے پاس ٹریکنگ شوز ہیں ؟‘‘  عرفان نے مشکوک لہجے میں دریافت کیا۔
’’تھے … میری بیگم لنڈے کی چیزیں گھر میں رکھنے کی قائل نہیں ۔اُس نے یہ شوز کام والی کے شوہر کو دے دیئے۔وہ بے چارہ روزانہ سبزی منڈی سے گھر تک پیدل مارچ کرتا ہے۔ میں نے واپس مانگنے مناسب نہیں سمجھے۔‘‘
’’طاہر صاحب پلیز!یہ انتہائی سنجیدہ موضوع ہے۔‘‘
’’میں سو فیصد سنجیدہ ہوں ۔‘‘
’’سنجیدہ ہوتے تو لباس کے نام پر کاٹن کے کلف لگے کرتے اور شلوار نہ اُٹھا لاتے، آپ بر دکھوے پر تشریف لائے ہیں ؟‘‘
’’اس لباس میں کیا برائی ہے؟فوٹو شوٹو ذرا رعب دار قسم کے آ جائیں گے۔نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کے فوٹو دیکھ کر میری بیگم نے سوال کیا تھا کہ آپ سیر کرنے گئے تھے یا لنڈا بازار والوں کی شہرت دلاؤ مہم پر نکلے تھے۔‘‘
’’آپ کی بیگم ہیں یا … ۔‘‘
’’پلیز … پلیز … بیگمات کے بارے میں کوئی غیر پارلیمانی تبصرہ خلافِ قانون اور قابلِ سزا جرم ہے۔اس لئے جو فرمائیں سوچ سمجھ کر فرمائیں ۔‘‘
’’میں کوئی غیر پارلیمانی بیان نہیں دے رہا،لیکن آپ کاٹن کا کلف لگا سوٹ پہن کر دولھا بنے اور بارش شروع ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘‘
’’ہو گا کیا؟ ٹریک کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔‘‘
’’کلف لگی کاٹن بھیگ کر بہت بھاری ہو جاتی ہے اور جلد خشک بھی نہیں ہوتی۔ کاٹن کا گیلا لباس پہن کر برفانی ہوا میں چند منٹ گزارنے پڑے تو نانی یاد آ جائے گی،  اور کاٹن کے دو تین گیلے سوٹ رک سیک میں موجود ہوئے تو اسے اٹھا کر چلتے ہوئے پڑ نانی بھی یاد آ جائے گی۔ ٹریکنگ کے لئے نائلن یا  پولسٹر کا لباس مناسب رہتا ہے جو نہایت ہلکا ہوتا ہے، پانی جذب نہیں کرتا اور بہت جلد خشک ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ سب کچھ آپ کو پہلے بتانا چاہئے تھا۔ ‘‘  طاہر نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
’’میں نے ٹریک کیلئے درکار اشیاء کی فہرست ڈاکٹر صاحب کو ای۔میل کر دی تھی۔‘‘
’’کب ؟‘‘ مجھے اس سفید جھوٹ پر حیرانی ہوئی۔
’’پچھلے سے پچھلے سال، جب آپ سکردو گئے تھے۔‘‘
’’یا ر خدا کا خوف کرو۔ پچھلے دو سال میں تین مرتبہ میرے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک تبدیل ہو چکی ہے۔ میں اتنی پرانی چیزیں سنبھال کر رکھنے کا عادی نہیں ہوں ۔‘‘
’’لیکن آپ کو جو کچھ یاد تھا وہ بتا دیتے تاکہ ہم انتظام مکمل کر کے گھر سے نکلتے۔‘‘  طاہر نے شکوہ کیا۔
’’اچھا؟‘‘  میں نے حیرانی سے کہا۔ ’’میں نے کتنی مرتبہ کہا کہ ٹریک پر جوگر نہیں چلیں گے، ٹریکنگ شوز خرید لیں ۔آپ نے خریدے؟‘‘
’’کہاں سے خریدتا؟ عرفان صاحب کی ہدایت تھی کہ ٹیم سامان کی فکر نہ کرے،جو چیزیں کم ہوئیں گلگت سے خرید لی جائیں گی۔اب اتنی لمبی چوڑی بحث اور تنقید کیوں ہو رہی ہے آخر؟ جو چیز کم ہے خرید لی جائے۔‘‘
’’میرا خیال تھا جو چیزیں وہاڑی میں دستیاب نہیں ہیں وہ گلگت سے خرید لی جائیں گی۔ میں کیسے سوچ سکتا تھا کہ آپ نہایت اہم اشیاء کے اتنے اوٹ پٹانگ متبادل اٹھا لائیں گے۔ ہم نے ہر چیز گلگت سے خریدی تو سارا بجٹ یہیں ختم ہو جائے گا اور ہم دیانتر پاس عبور کرنے کے بجائے دومانی میں کافی پی کر ٹھنڈے ٹھنڈے واپس لوٹ جائیں گے۔‘‘  عرفان کے لہجے میں تلخی اور مایوسی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
’’سر جی بد شگونی نہ کریں ۔یہ نالائق اور نا اہل ٹیم اس انداز میں دیانتر پاس عبور کرے گی کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔انگشت بدنداں کے معنی آتے ہیں آپ کو؟‘‘  میں نے ایک مرتبہ پھر ماحول کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی۔
’’بات نا لائقی یا نا اہلی کی نہیں ،غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کی ہے۔‘‘
’’ہمیں نا تجربہ کار کہا جا سکتا ہے، غیر سنجیدگی یا لا پرواہی کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ غیر سنجیدہ ہوتے تو بھٹہ صاحب وہاڑی واپس جا چکے ہوتے۔‘‘  میں نے وضاحت کی۔
’’ڈاکٹر صاحب کے سامان میں کوئی خامی نہیں نکالی آپ نے۔‘‘  طاہر نے طنز کی۔
’’ڈاکٹر صاحب آدھی آستینوں کی دو ٹی شرٹس، ایک بوسیدہ ٹراؤزر اور واکنگ سٹک کے ساتھ دیانتر پاس ٹریک کرنے چلے آئے ہیں ۔ ان کے پاس نہ تو رین گیئر ہے اور نہ کوئی واٹر پروف جیکٹ، ان کی بزرگی کا خیال آڑے آ رہا ہے … ورنہ … ورنہ … ‘‘
’’ہم بلا وجہ وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ سامان کی خریداری جلد از جلد مکمل کر لینی چاہیے تاکہ ٹریک پروگرام کے مطابق مکمل ہو سکے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے توجہ دلائی۔
’’ٹریک کیلئے درکار ذاتی سامان کی فہرست میرے پاس موجود ہے۔ آپ اس سے اپنے سامان کا موازنہ کر لیں اور جو چیزیں کم ہوں خرید لیں ۔ ‘‘  عرفان نے اپنے پرس سے ایک کاغذ نکال کر بھٹہ صاحب کی طرف بڑھایا۔
 فہرست کے مطابق میرے پاس جیکٹ،میٹرس اور جرابوں کی کمی تھی۔ طاہر اور بھٹہ صاحب کو فہرست میں شامل بیش تر اشیاء درکار تھیں ۔ عرفان کا رک سیک تبدیل کرنے کا مشورہ ہم نے سنا ان سنا کر دیا اور پندرہ تا بیس لیٹر کے رک سیک ہی سے ٹریک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب نے واکنگ سٹک فہرست سے حذف دی۔ان کا خیال تھا کہ وہ بزرگی کے اس درجے پر فائز نہیں ہوئے جہاں واکنگ سٹک کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عرفان ہمارے خود سر فیصلوں پر تاؤ کھاتا رہا۔
گلگت کا کاروباری مرکز این۔ایل۔آئی مارکیٹ اور نیا بازار ہیں لیکن ٹریکنگ کے سامان کی اکثر دکانیں سینما بازار میں پائی جاتی ہیں ۔ سیزن کے دنوں میں گلگت سے ٹریکنگ کا سامان خریدنا اچھا خاصا مہنگا سودا ہے۔ دکاندار کو علم ہوتا ہے کہ ’’صاب ‘‘  کو سلیپنگ بیگ، ٹریکنگ شوز، ٹراؤزرز یا جیکٹ خریدنی ہے تو دکاندار کی منہ مانگی قیمت پر خریدنی ہے۔ صاب کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ۔’’امارے پاس نہیں پھنستا اے تو چار قدم آگے جا کے پھنستا اے‘‘ ۔ مختلف دکانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم محمد علی کی دکان پر پہنچے۔ محمد علی کی ’’ہنزہ ٹریکنگ اینڈ ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ‘‘  میں ہماری ضرورت کی تمام اشیاء دستیاب تھیں اور اُن کی قیمتیں حسبِ بازار آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ۔
محمد علی میانہ قامت اور قدرے بھاری جسم رکھنے والا شخص تھا جس کے لبوں سے ایک مستقل مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔اُس نے ہماری مطلوبہ اشیاء کاؤنٹر پر سجانے کے بعد سوال کیا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
’’دیانتر پاس۔‘‘  عرفان نے مختصر جواب دیا۔
’’دیانتر پاس؟کس کے ساتھ جا تا اے؟‘‘ اُس نے عرفان کو مخاطب کیا۔
’’دیانتر نہیں ،دیانتر پاس۔اور ہم کسی کے ساتھ نہیں جا رہے ایک دوسرے کے ساتھ جا رہے ہیں ۔‘‘
محمد علی نے چھت شگاف قہقہہ لگایا۔
’’سر آپ ہمارے علاقے کا نام بولتا ہے اور ہمارا بات میں غلطیاں پکڑتا ہے۔ چلو ہم آپ کا بات مانتا ہے۔اب آپ بولو کہ دیانتر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’مطلب؟میں نے کہیں پڑھا تو ہے،یاد نہیں آ رہا۔‘‘ عرفان کنفیوژ ہو گیا۔
’’سر یہ دیانتر نہیں ،دئینتر ہے۔ دئینترکا مطلب ہے ہرا بھرا جگہ۔‘‘
ہمیں پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ہم دیانتر پاس نہیں ،دیانتر پاس عبور کرنے جا رہے ہیں ۔وہ دیانتر کے نون کو نون غنہ کے انداز میں ادا کر رہا تھا۔’’دئیں تر‘‘ ۔
 ہم ایک ایسے ٹریک پر جا رہے تھے جس کے درست تلفظ سے ناواقف تھے۔
’’آپ کا گائیڈ کون ہے؟‘‘ محمد علی نے دریافت کیا۔
’’گائیڈ؟کوئی بھی نہیں ۔میرا خیال ہے کہ دیانتر یا دیانتر پاس ٹریک کے لئے گائیڈ کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’گائیڈ کا ضرورت آپ کو پڑے گا۔جیپ کا بندوبست کر لیا ہے؟‘‘
’’اب کریں گے۔‘‘
’’آپ بولے توہم اُس طرف کے گائیڈ اور جیپ والے کو آپ کی طرف بھیجے؟ آپ لوگ کدر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘
’’شکریہ۔ہم خود بندوبست کر لیں گے۔‘‘ عرفان نے معذرت کی۔
’’سر آپ لوگ ٹھہرا کدر ہے؟‘‘
’’سکائی ویز میں ۔ ‘‘ عرفان نے مختصر جواب دیا۔
 محمد علی کی دکان سے سلیپنگ بیگ اور ٹریکنگ شوز نہیں مل سکے، ان کے علاوہ بیش تر سامان دستیاب ہو گیا۔ سلیپنگ بیگ اور ٹریکنگ شوز کی اچھی خاصی ورائٹی دستیاب تھی لیکن طاہر اور بھٹہ صاحب کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ ان اشیاء کے لئے کئی دکانیں کھنگالی گئیں ۔ ایک دکان پر سلیپنگ بیگ مل گیا اور طاہر کو پسند بھی آ گیا۔ ادائیگی سے فوراً پہلے اُسے ایک سٹکر نظر آیا اور اُس نے سلیپنگ بیگ مسترد کر دیا۔
’’میں پیوند لگا بیگ استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘
’’یار یہ پیوند نہیں سٹکر ہے۔‘‘ عرفان نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’سٹکر اتنی بے تکی جگہ پر کیوں لگا یا گیا ہے؟ بیگ یقیناً اس جگہ سے پھٹ گیا ہو گا جسے چھپانے کیلئے سٹکر استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
’’یہ تقریباً نیا بیگ ہے،اس کے پھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ممکن ہے سگریٹ وغیرہ کا داغ چھپانے کیلئے سٹکر استعمال کیا گیا ہو، لیکن سٹکر ایسی جگہ نہیں لگایا گیا کہ بیگ کی کارکردگی متاثر ہو۔یقین کریں اتنی اعلیٰ کوالٹی کے سلیپنگ بیگ آسانی سے نہیں ملتے، اور پندرہ سو میں تو بالکل نہیں ملتے۔‘‘  عرفان نے طاہر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’میں پیوند کی وجہ سے الجھن میں مبتلا رہوں گا اور نیند نہیں آئے گی۔ جس سلیپنگ بیگ میں بندہ سو ہی نہ سکے اسے خریدنے کا کیا فائدہ؟‘‘
’’آپ خواہ مخواہ وہم کا شکار ہو گئے ہیں ۔یہ کسی ایکسپیڈیشن کا بیگ ہے اور اس میں ’’ڈیکران‘‘  سے بنے ہوئے ’’ہولوفل‘‘  فائبر کا استعمال کیا گیا ہے۔ اتنی اعلیٰ نسل کے بیگ عام طور پر کوہ پیما استعمال کرتے ہیں ۔‘‘
’’یہ سلیپنگ بیگ آپ کے بیگ سے بہتر ہے؟‘‘  طاہر نے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔
’’بہت بہتر ہے۔‘‘
’’تبادلہ کر لیں ؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں اسے خرید لیتا ہوں ۔آپ اپنے سلیپنگ بیگ سے تبدیل کر لیں ۔ آپ کو اعلیٰ نسل کا سلیپنگ بیگ مل جائے گا اور میں پیوند لگے بیگ میں سونے کی خواری سے بچ جاؤں گا۔‘‘
’’مجھے بہ خوشی منظور ہے،لیکن آپ سراسر گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ۔‘‘ عرفان نے پیش کش قبول کرتے ہوئے انتباہ کیا۔
’’یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
سلیپنگ بیگز کا باضابطہ تبادلہ ہوٹل پہنچنے کے بعد عمل میں آیا۔ اس موقع پر عرفان نے مزید فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔اُس نے بیگ کے ساتھ پانچ سو روپے بھی طاہر کی خدمت میں پیش کیے۔ اُس کا کہنا تھا کہ طاہر کے سلیپنگ بیگ کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں زیادہ ہے، لیکن اس کا بجٹ پانچ سو روپے سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا۔ طاہر یہ رقم لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ سودا برابری کی بنیاد پر ہوا تھا۔عرفان نے پانچ سو کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ٹھونس دیا۔
مجھے حیرت ہوئی کہ اس روشن خیال زمانے میں اتنے وضع دار اور پراگندہ طبع لوگ پائے جاتے ہیں  … احمق کہیں کے!ـ
جنرل سٹور،کریانہ سٹور اور بیکری سے بقیہ اشیاء کی خریداری مکمل کرنے کے بعد ہم نے کمرے کا رخ کیا۔ اب بھی طاہر اور بھٹہ صاحب کے ٹریکنگ شوز ’’شارٹ ‘‘  تھے، لیکن ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور ٹریک کے تمام انتظامات باقی تھے۔
 کمرے کے سامنے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک دھان پان سا نوجوان ٹہل رہا تھا جس کے فاقہ زدہ چہرے پر خود ساختہ قسم کی مظلومیت طاری تھی۔ہم نے کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کر لی۔
’’السلام علیکم سر!اجازت ہے سر۔‘‘
’’جی فرمائیے۔‘‘ میں نے قدرے ناگواری کا اظہار کیا۔
’’ہمارا نام عالم خان ہے سر۔‘‘
’’ہو گا یا ر۔ہم کیا کریں ۔‘‘ طاہر نے بھی بے زار لہجہ استعمال کیا۔ اس وقت شاید ہم سب پر ایک نامعلوم بیزاری اور اکتاہٹ طاری تھی اور ہم کسی ایرے غیرے سے گپ شپ لگا کر وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
’’ہم نے سنا تھا کہ آپ لوگ دیانتر پاس جاتا ہے، مگر ہمارا خیال ہے ہم کسی غلط کمرے میں آ گیا ہے۔‘‘
’’ہمیں خود صرف چند منٹ پہلے علم ہوا ہے کہ ہم دیانتر پاس جا رہے ہیں ۔تمھیں کس نے بتا دیا؟‘‘
’’محمد علی بتاتا ہے کہ دیانتر پاس ٹریک والا گروپ ادھر ہوٹل میں ٹھہرا ہے۔ مگر سر  …  دیانتر پاس آپ لوگ جا رہا ہے؟ہمارا مطلب ہے آپ سب لوگ؟‘‘ س نے ایک نظر ہم پر ڈالی اور شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔
’’کیا مطلب؟تمھیں کوئی اعتراض ہے؟ ‘‘
عرفان کا لہجہ انتہائی سخت تھا۔اُس نے محمد علی کی مدد حاصل کرنے سے معذرت کر لی تھی لیکن محمد علی نے عالم خان کو ہمارے پاس بھیج دیا۔ عرفان کا خیال تھا کہ کمیشن مافیا کے چکر میں پھنسنے کے بجائے براہِ راست معاملات طے کرنا زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ عالم خان کو  کسی قسم کی لفٹ دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’’ہم اعتراض کیوں کرے گا؟مگر دیانتر پاس آسان ٹریک نہیں ہے ناں ۔ اُس طرف بہت فٹ بندہ جاتا ہے۔مگر … مگر … آپ لوگ؟‘‘  اُس نے ایک مرتبہ پھر ہم چاروں پر تفصیلی نظر ڈالی اور خاموش ہو گیا۔
’’بات پوری کرو یا کمرے سے باہر چلے جاؤ۔‘‘ عرفان نے جھلا کر کہا۔’’تمھیں ہماری فِٹ نس میں کیا خرابی نظر آتی ہے؟‘‘
’’آپ کی فٹ نس میں کوئی خرابی نہیں ،اور یہ صاحب بھی بالکل فٹ ہے۔‘‘  اُس نے بھٹہ صاحب کی طرف اشارہ کیا۔’’مگر … ۔‘‘
’’پھر مگر … تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’سر یہ صاحب پچاس سے زیادہ کا ہو گا۔‘‘ عالم خان نے میری طرف اشارہ کیا۔ ’’اس کا وزن بھی کم سے کم دو من ضرور ہو گا،اور یہ دوسرا صاحب … ۔‘‘
’’ان کے وزن کی سنچری مکمل ہونے میں صرف دو چوکوں کی کمی ہے۔‘‘ میں نے عالم خان کی بات کاٹتے ہوئے پُرمسرت لہجے میں اعلان کیا۔
’’اس کا کیا مطلب ہو اسر؟‘‘
’’سو کلو سے آٹھ کلوگرام نکال دیں تو باقی کتنے بچتے ہیں ؟‘‘  طاہر نے سوال کیا۔
’’آپ کا وزن نوے کلو سے زیادہ ہے؟‘‘
’’الحمدُ للہ! … ۔‘‘ طاہر نے قبہ شکم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فخریہ لہجے میں اعتراف کیا۔
’’اب ہم کیا بولے سر؟مگر ایمانداری سے بولتا ہے کہ اس قسم کے بندوں نے آج تک دیانتر پاس کراس نہیں کیا۔آپ پکھورا کرو۔ ہم ابھی پکھورا سے آیا ہے۔ آپ کو گائیڈ کرے گا اور کوئی پرابلم نہیں ہونے دے گا۔‘‘
’’ہمیں آپ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہو گا،آپ کو کس نے کہا کہ ہمیں گائیڈ کی ضرورت ہے؟‘‘
’’گائیڈ کا ضرورت سب کو ہوتا ہے سر۔آپ اگر دیانتر یا پکھورا جاتا ہے توہم آپ کو گائیڈ کرتا ہے۔ اس سائیڈ کے لئے آپ کو عالم خان سے اچھا گائیڈ نہیں مل سکتا۔‘‘
’’مسٹر عالم خان تمھیں کو ئی پاگل شخص ہی اچھا گائیڈ تسلیم کر سکتا ہے۔‘‘
’’کیوں سر؟‘‘ عالم خان پریشان ہو گیا۔
’’تم جنھیں گائیڈ کرنا چاہتے ہو انھیں ٹریک کے لئے نا اہل قرار دے رہے ہو۔ ہم نے محمد علی کو بتا یا تھا کہ ہمیں گائیڈ کی ضرورت نہیں ،اور تم جیسے گائیڈ کی تو ہرگز نہیں ۔‘‘
’’گائیڈ کے بغیر آپ دئینتر پاس کیسے کراس کرے گا سر؟‘‘
’’کر لے گا انشاء اللہ۔تم اب چھٹی کرو۔‘‘  عرفان نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
’’سر آپ ناراض ہو گیا ہے۔ہم کو ٹالنا چاہتا ہے۔ ہم سے غلطی ہوا تو معافی چاہتا ہے سر۔ گائیڈ تو آپ لے گا ناں ؟گائیڈ کے بغیر دیانتر پاس کراس نہیں ہو گا۔ ادھر کوئی راستہ واستہ نہیں ہے۔ہم مقامی باشندہ ہے،آپ کے بہت کام آئے گا۔‘‘
’’میں پکھورا کر چکا ہوں ۔ لوئر شانی تک راستہ دیکھا بھالا ہے۔ وہاں سے کسی بکر وال کو ساتھ لے لیں گے۔ہمارے بجٹ میں گائیڈ کی گنجائش نہیں ۔خدا حافظ۔ ‘‘
عالم خان کا پچکا ہوا چہرہ مزید پچک گیا اور وہ مایوسی کے عالم میں سر جھٹک کر باہر چلا گیا۔
  ہم نے خریدے ہوئے سامان کے شاپر کمرے میں پھینکے اور مدینہ گیسٹ ہاؤس کی جانب روانہ ہو گئے۔مدینہ گیسٹ ہاؤس گلگت کی مشہور و معروف این۔ ایل۔ آئی مارکیٹ کے  پہلو میں واقع ہے اور اپنے کھلے ڈلے ماحول کی وجہ سے غیر ملکی کوہ نوردوں میں بہت مقبول ہے۔ ہم اس گیسٹ ہاؤس سے تعلق رکھنے والے گائیڈ الطاف حسین سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے چند روز پہلے ایک ویب سائٹ پر الطاف حسین کا پروفائل دیکھ کر بذریعہ ای۔ میل رابطہ کیا تھا اور ٹریک کے بارے میں راہنمائی چاہی تھی۔ اس نے جواب دیا تھا کہ گلگت آ کر مدینہ گیسٹ ہاؤس سے رابطہ کر لیا جائے تو وہ ٹریک کا مناسب بندو بست کر دیگا۔ الطاف حسین کاؤنٹر پر موجود تھا۔اس نے نہایت گرمجوشی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے اسے اپنے منتخب ٹریک کے بارے میں بتایا اور انتظامات کے حوالے سے مدد چاہی۔ اس نے کاؤنٹر کی دراز سے کیلکولیٹر برآمد کیا اور حساب کتاب لگا کر اخراجات کا تخمینہ ہماری خدمت میں پیش کر دیا۔اس گوشوارے نے ہمارے ہوش اڑا دیئے۔
 رقم ہمارے اندازے سے تقریباً تین گنا زیادہ تھی۔
ہم نے الطاف حسین سے اجازت چاہی اور مدینہ گیسٹ ہاؤس سے باہر آ گئے۔
پلان نمبر ایک میں ناکامی کے بعد ہم پلان نمبر دو کے مطابق ایک عدد جیپ کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ عرفان کا خیال تھا کہ جیپ ڈرائیور پورٹرز کا بندوبست کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔سینما بازار کے کئی ہوٹلوں کے سامنے مناسب داموں پر جیپ مہیا کرنے کی خوشخبری ’’لٹکی‘‘  ہوئی تھی۔ عرفان کے خیال میں گلگت سے نل تر جھیل تک دو سے اڑھائی ہزار نہایت مناسب کرایہ تھا۔ ہوٹلوں کے کاؤنٹر پر تشریف فرما حضرات نے بیک زبان ساڑھے چار ہزار طلب کیے اور ڈرائیورز سے براہِ راست رابطہ کروانے سے صاف انکار کر دیا تو ہماری پہلے سے کھلی ہوئی آنکھیں مزید کھل گئیں ۔ ہم نے الطاف حسین پر بہت زیادہ انحصار کر لیا تھا اور اب پچھتا رہے تھے کہ عالم خان سے مزید گفت و شنید کیوں نہیں کی؟ ہمارے پاس وقت کم تھا اور رابطے نہ ہونے کے برابر تھے۔ پروگرام کے مطابق ہمیں کل صبح گلگت سے روانہ ہو جانا چاہیے تھا۔ پروگرام درہم بر ہم ہونے کی وجہ سے وقت کی شدید قلت محسوس ہو رہی تھی اور انتظامات مکمل ہونے کے امکانات ختم ہوتے جا رہے تھے۔آج انتظامات مکمل نہ ہوتے توہم گلگت میں ایک اضافی دن گزارنے پر مجبور ہو جاتے۔عرفان نے سکردو میں حاصل ہونے والے تجربے پر عمل کرتے ہوئے سکائی ویز کے کاؤنٹر مین سے رابطہ کیا۔ اُس نے پورٹرز مہیا کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے کی مہلت طلب کی،جو ہمارے پاس نہیں تھی۔اس ناکامی نے باقاعدہ بوکھلاہٹ طاری کر دی اور ہم نے محمد علی کی دکان کی طرف دوڑ لگائی تاکہ اُس سے عالم خان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں ۔
 دکان بند ہو چکی تھی۔
 سینما بازار کے کئی ہوٹلوں اور ٹور آپریٹر ایجنسیوں کے دفاتر کے چکر لگائے گئے، کسی جگہ بھی معاملات طے نہ ہو سکے۔ ہم نے مجبوراً ایک دن قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈھیلے ڈھالے قدموں سے ایک مرتبہ پھر کمروں کی جانب لوٹ آئے۔
 عالم خان ایک مرتبہ پھر کمروں کے سامنے ٹہل رہا تھا۔
ہم ایک پُر مسرت نعرہ بلند کرنا چاہتے تھے لیکن عرفان نے آنکھ کے اشارے سے منع کیا اور عالم خان کے ساتھ گفتگو کا فریضہ خود سنبھال لیا۔
 مذاکرات کا آغاز عالم خان نے کیا۔
’’السلام علیکم سر۔پلیز ناراض نہ ہوں ۔آپ کو گائیڈ کا ضرورت نہیں تو آپ ہم کو کک (Cook) کے طور پر ساتھ لے چلو۔ہم گائیڈ بننے سے پہلے کک تھا۔ آپ کو ٹریک پر مزے مزے کے کھانے کھلائے گا۔ آپ شہر کا کھانا بھول جائے گا۔‘‘
عرفان نے عالم خان کے سلام کا جواب نہ صرف گرم جوشی بلکہ باقاعدہ مصافحے سے دیا لیکن اسے ساتھ لے چلنے سے معذرت کر لی۔
’’مجھے افسوس ہے عالم خان، ہمیں کک کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘
’’کک کا ضرورت نہیں ہے۔آپ ٹریک کے دوران کھانا نہیں کھائے گا؟‘‘ عالم خان کا دھان پان جسم حیرت کی زیادتی کی وجہ سے باقاعدہ لرزنے لگا۔
’’کھائے گا، مگر خود پکائے گا۔ہمیں صرف پورٹرز کی ضرورت ہے۔‘‘
’’پورٹر کے طور پر ہم نہیں جا سکتا سر۔‘‘  عالم خان مایوس ہو گیا۔’’مگر آپ بولے تو ہم آپ کے لئے پورٹرز کا بندوبست کر دے۔‘‘
’’بائی دا وے آج کل پورٹرکا ریٹ کیا چل رہا ہے؟‘‘
’’پورٹر پانچ سو روپے ڈیلی لے رہا ہے سر۔‘‘
’’میری اطلاع کے مطابق اس سال پورٹر کا معاوضہ ساڑھے تین سو روپے فی سٹیج ہے۔‘‘
’’چلو آپ ساڑھے تین سو دے دینا۔‘‘  عالم خان نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔
’’دیانتر پاس کی سٹیج کتنی ہیں ؟‘‘
’’سات سٹیج بنتا ہے سر،آپ کو کتنا پورٹر چاہیے؟‘‘
’’پاکستان ٹورزم کی جاری کر دہ اٹرنری کے مطابق دیانتر پاس پانچ سٹیج پر مشتمل ہے۔ ہمیں تین پورٹرز درکار ہونگے۔ ذاتی رک سیک ہم خود اٹھائیں گے۔‘‘
’’آپ اٹھائیں گے۔میں دس بارہ کلو وزنی بیگ اٹھا کر دیانتر پاس کی چڑھائی نہیں چڑھ سکتا۔‘‘  میں نے چونک کر احتجاج کیا۔
’’میں بھی نہیں چڑھ سکتا۔‘‘  طاہر نے میرا ساتھ دیا۔
’’اس کا حل یہ ہے کہ آپ تین نہیں ، چار پورٹرز کی بات کریں ۔ تین کی ادائیگی ٹیم کے مشترکہ بجٹ سے کی جائے گی،چوتھے کی ادائیگی ٹیم کے وہ ارکان کریں گے جو اُس سے اپنا سامان اٹھوائیں گے۔‘‘  میں نے تجویز پیش کی۔
’’او۔کے۔ہمیں چار پورٹر درکار ہوں گے۔‘‘ عرفان نے فیصلہ دیا۔
’’سر تین چار کا بات نہیں ۔آپ جتنا بولو گے ملے گا۔ آپ ہمیں بھی ساتھ لے چلو۔ آپ کے بہت کام آئے گا۔‘‘
’’کیسے لے چلیں ؟ہم بہت غریب قسم کے ٹریکر ہیں ۔ہمارے بجٹ میں گائیڈ یا کک کی گنجائش بالکل نہیں ،اور تم مفتا مفتی ہمارے ساتھ چلنے سے رہے۔‘‘
’’سر آپ بیٹھ کر بات کرو ناں ۔ہم کوئی راستہ نکالتا ہے۔‘‘
ہمیں بھی احساس ہوا کہ یہ اہم ترین مذاکرات برآمدے میں کھڑے کھڑے کامیاب نہیں ہوں گے اور ہم کسی قیمت پر ان کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اس لئے عالم خان کو نہ صرف کمرے کی تین ٹانگوں والی اکلوتی کرسی پر تشریف فرما ہونے کی پیشکش کی گئی بلکہ اس کے اعزاز میں چائے کا آرڈر بھی دے دیا گیا۔ عالم خان گذشتہ تجربے کے پیش نظر اس عزت افزائی پر خوشگوار حیرت میں مبتلا نظر آتا تھا۔
ہم تینوں نے عرفان اور عالم خان کے مذاکرات میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا اور چائے کی چسکیاں لینے کے بعد آڑے ترچھے انداز میں بیڈز پر دراز ہو گئے۔لگ بھگ ایک  گھنٹے پر محیط بحث و مباحثہ کے بعد عرفان نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے  مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
 جیپ اور پورٹرز کا بندوبست عالم خان کرے گا۔ اُسے دو ہزار روپے فی پورٹر معاوضہ ادا کیا جائے گا، سٹیج یا ڈیلی کا چکر نہیں ہو گا۔پورٹرز اپنی خوراک کا بندوبست خود کریں گے۔
عالم خان پورٹرز کے برابر معاوضہ وصول کرے گا، پورٹر کی نسبت آدھا وزن اٹھائے گا،  گائیڈ کے فرائض مفت میں سرانجام دے گا اور کیمپنگ سائٹ پر کسی پورٹر سے روٹیاں پکوانا اس کی ذمہ داری ہو گی۔اس خدمت گاری کا معاوضہ پورٹرز کو خوراک کے سربند ڈبوں کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ معاہدے کی شرط نہیں ہے۔
ٹریک کے اختتام پر عالم خان کو ’’حسب نتائج‘‘  پانچ سو یا ایک ہزار روپے بطور انعام ادا کیے جائیں گے۔
مذاکرات کی کامیابی نے ہمیں ہر قسم کے تفکرات سے آزاد کر دیا۔ ٹریک کے انتظامات کا بھاری بھرکم بوجھ ہمارے ’’توانا‘‘  کاندھوں سے اتر کر عالم خان کے نا تواں شانوں پر منتقل ہو گیا۔ اس خوشی میں عرفان نے مکھن ٹافیاں تقسیم کیں اور عالم خان اپنے حصے کی ٹافی لیتے ہی جیپ تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ ہم نے بتا دیا تھا کہ صبح سویرے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور اسے وقت کی کمی کا پورا احساس تھا۔
  ٹریک کے انتظامات مکمل ہونے کی امید بندھی تو احساس ہوا کہ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی ہیں ۔نیند اور تھکاوٹ کا تقاضا تھا کہ سکائی ویز کے ڈائیننگ ہال میں جو کچھ میسر ہو تناول فرما لیا جائے لیکن سکائی ویز کے ڈائننگ ہال میں گردش کرتے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اور اس کی ٹیبل پر موجود ڈشوں کی ظاہری حالت نے ہمیں مجبور کر دیا کہ کھانے کے لیے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کیا جائے۔
ہم ایک مرتبہ پھر سینما بازار کی سڑک ناپ رہے تھے۔
گلگت کا رمضان ہوٹل اپنے کھانوں کی لذت کیلئے مقامی اور ڈاؤن سے آنے والے لوگوں میں یکساں مقبول ہے۔ آٹھ سال پہلے بھی رمضان ہوٹل اتنا ہی مشہور و معروف تھا اور رانا یونس، طاہر اور سعید کو یہاں کے چکن کڑاہی نے لکشمی چوک لاہور کا بھولا بسرا ذائقہ یاد دلا دیا تھا۔ رمضان ہوٹل اب تک اپنی ’’اصلی ‘‘  حالت میں قائم و دائم تھا۔صفائی آٹھ سال پہلے کی گئی تھی۔ مرغ اور مرغیاں کاؤنٹر کے اوپر نصب کنڈیوں سے جھولا جھولتے ہوئے سوال کر رہے تھے کہ ہمیں آٹھ سال پہلے ذبح کیا گیا تھا تو اب تک شرفِ ’’کڑھائیت‘‘  کیوں نہیں بخشا گیا؟ فٹ پاتھ کے کنارے تلے جانے والے چپل کبابوں کی رو سیاہی فریاد کناں تھی کہ آٹھ سا ل قبل بنائے جانے کے باوجود آج تک ’’فرائیت‘‘  کے مرحلے سے کیوں نہیں گزارا گیا؟مرغ، مرغیوں اور چپل کبابوں کی مظلومیت نے ہمیں رمضان ہوٹل سے بد دل کر دیا اور ہم اسے نظر انداز کر کے آگے چل دیئے۔ گلگت کے ریستورانوں کے بارے میں ہماری معلومات ناکافی تھیں ۔میں نے ایک بیکری والے سے دریافت کیا کہ گلگت میں اچھا کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟
’’اچھا کھانا؟آپ دریا کے پل کی طرف چلے جاؤ۔ادھر بہت بڑا بڑا ہوٹل ہے۔ دال کا پلیٹ ڈیڑھ سو روپے کا ملتا ہے۔‘‘
ہم اونچی دکان کے پھیکے پکوان کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے اس لئے سوال کا انداز تبدیل کر دیا۔
’’آپ گلگت کے کون سے ہوٹل میں کھانا پسند کرتے ہیں ؟‘‘
’’ہم دوپہر کا کھانا نیو پٹھان ہوٹل میں کھاتا ہے۔‘‘
’’یہ کس جگہ ہے؟‘‘
اُس نے اس سوال کا جواب عملی طور پر دیا اور کاؤنٹر چھوڑ کر ہماری راہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا۔ نیو پٹھان ہوٹل نسبتاً صاف ستھرا ہوٹل تھا اور حسن اتفاق یہ کہ سکائی ویز کے بالکل قریب تھا۔اُس شریف آدمی نے ہمیں با ضابطہ طور پر نیو پٹھان ہوٹل کے بل کلرک کے حوالے کیا اور بہترین کھانا مہیا کرنے کی سفارش کی۔ ہم نے اسے بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی لیکن اس نے معذرت کر لی اور چلتے چلتے اپنے مشورے سے نوازا۔
’’ہم کو ان کا افغانی پلاؤ بہت اچھا لگتا ہے۔آپ کو جو پسند ہو منگوا لو۔‘‘
 نیو پٹھان ہوٹل کا افغانی پلاؤ ’’ڈش آف دی ٹریک ‘‘  ثابت ہوا۔ اب بھی دیانتر پاس ٹریک کی روداد نیو پٹھان ہوٹل کے افغانی پلاؤ کی سندر خانی کشمش اور منفرد ذائقہ رکھنے والی نامعلوم اجزاء پر مشتمل چٹنی کے تذکرے کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہے۔طاہر نے پلاؤ سے زیادہ کشمش اور میں نے چاولوں سے زیادہ چٹنی کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا اور چٹخارے لیتے ہوئے سکائی ویز کے کمروں میں لوٹ آئے۔
 یہ تیسرا موقع تھا کہ ہم دروازے پر پہنچے تو عالم خان برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ عالم خان نے یہ اطلاع دے کر اپنی افادیت ثابت کر دی کہ وہ تین ہزار روپے کے عوض نل تر جھیل کے لئے جیپ بک کروا آیا ہے جو صبح سویرے ہوٹل کے سامنے پہنچ جائے گی۔اُس نے ہدایت کی کہ سامان ابھی پیک کر لیا جائے تاکہ صبح سات بجے کے لگ بھگ روانہ ہو سکیں ۔ اُسے شاید اس مرتبہ بھی گذشتہ سے پیوستہ پذیرائی کی توقع تھی لیکن دو طرفہ معاملات طے پا چکے تھے،نیند کے جھونکے چکر پہ چکر دے رہے تھے اور ہم اس وقت عالم خان کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس لئے زبردستی ہاتھ ملاتے ہوئے اسے کمرے کے باہر ہی سے چلتا کیا اور بیڈز پر لمبے لیٹ ہو گئے۔
صبح جس وقت سکائی ویز کے گیٹ کے سامنے جیپ کے پریشر ہارن کی آواز گونجی،  ہم آنکھیں ملتے ہوئے سامان پیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عالم خان کمرے میں داخل ہوا اور ہمیں سامان کے ساتھ گتھم گتھا ہوتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’ہم جانتا تھا کہ آپ لوگ رات کو سامان پیک نہیں کرے گا۔صبح لیٹ روانہ ہو گا اور ہمارے اوپر غصہ کرے گا کہ ہماری وجہ سے دیر ہوتا ہے۔‘‘
’’تم کیسے جانتے تھے؟ ولی اللہ ہو؟‘‘  بھٹہ صاحب نے جھلا کر پوچھا۔
’’کوئی بھی پارٹی رات کو سامان پیک نہیں کرتا۔ صبح کو ہم کرتا ہے۔‘‘
’’ضرور کرو،اللہ تمھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘  میں نے برتنوں کی بوری نیلے ڈرم میں ٹھونسنے کی کوشش سے دست بردار ہو کر بیڈ پر تشریف فرما ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہم محمود علی کو بلاتا ہے،پھر دونوں مل کر کرتا ہے۔‘‘
’’یہ کون صاحب ہیں ۔‘‘
’’ہمارا جیپ کا ڈرائیور ہے ناں ۔‘‘
ہمارا سامان اتنا بے ترتیب اور بے ڈھنگا تھا کہ عالم خان اور محمود علی کی تجربہ کاری اور برق رفتاری کے باوجود ایک گھنٹے سے پہلے پیک نہ ہو سکا۔اسے جیپ میں لوڈ کرنے میں مزید آدھا گھنٹہ صرف ہو گیا۔ ہم نے سکائی ویز کو خدا حافظ کہا اور جیپ گلگت بازار میں داخل ہوئی تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ بازار سے گزرتے ہوئے ہم نے بار بار جیپ روک کر چھوٹی موٹی اشیاء خریدیں ۔ اس چھوٹی موٹی خریداری میں ڈیڑھ دو گھنٹے صرف ہوئے۔ہم خریدار ی سے فارغ ہوئے تو عالم خان نے ایک مارکیٹ کے سامنے جیپ رکوائی اور غائب ہو گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں ٹریکنگ شوز نما جوگرز تھے۔ طاہر اور شوکت بھٹہ صاحب یہ شوز دیکھ کر چونک گئے۔ عالم خان جیپ میں سوار ہوا اور جیپ نے دوبارہ رفتار پکڑ لی تو طاہر نے عالم خان سے دریافت کیا:
’’ٹریکنگ شوز بہت ضروری آئٹم ہے؟‘‘
’’ٹریکنگ شوز کے بغیر دیانتر پاس تک کیسے پہنچے گا؟‘‘ عالم خان سخت حیران ہوا۔
’’ہمارے پاس ٹریکنگ شوز نہیں ہیں ۔ ‘‘  طاہر نے سادگی سے اطلاع دی۔
’’آپ لوگ دیانتر پاس کراس کرے گا اور آپ کے پاس ٹریکنگ شوز نہیں ہے۔ ابھی آپ لوگ مذاق کرتا ہے ناں سر؟‘‘  محمود علی نے دانت نکالے۔
’’اس میں مذاق کی کیا بات ہے۔ہم میں سے دو کے پاس ٹریکنگ شوز ہیں ، دو کے پاس نہیں ہیں ۔صرف جوگرز ہیں ۔‘‘
’’ٹریکنگ شوز کے بغیر دیانتر پاس؟ ابھی ہم کیا بولے صاب؟ آپ بڑا لوگ ہے، آپ جانے اور آپ کا کام۔ہم کو کیا؟ہم ڈرائیور ہے۔‘‘
’’عالم خان نے جوگرز ہی خریدے ہیں ۔انھیں ٹریکنک شوز نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
’’آپ عالم کا مقابلہ کرے گا صاب ؟یہ ادھر کے راستوں کا کیڑا ہے۔جس راستے پر چلنے کے لئے اسے نئے جوگر کا ضرورت ہے اُس پر ڈاؤن سے آیا ہوا لوگ ٹریکنگ شوز کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ مگر ہم کو کیا؟ ہم ڈرائیور ہے۔‘‘
طاہر اور بھٹہ صاحب نے کانا پھوسی کی اور محمود علی کو واپس چلنے کا حکم دیا۔
گلگت کے بازار ایک مرتبہ پھر ’’جوتا تلاشی‘‘  مہم کا مرکز بن گئے،لیکن گلگت بازار میں  پائے جانے والے بے شمار ٹریکنگ شوز میں سے کوئی ایک بھی طاہر کے دل میں ،میرا مطلب ہے پاؤں میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بھٹہ صاحب کو البتہ صرف چار سو روپے کے عوض بہت اچھی حالت میں سکینڈ ہینڈ ٹریکنگ شوز دستیاب ہو گئے۔ طاہر نے اعلان کیا کہ اب جو ہو سو ہو، وہ اپنے پرانے جوگرز پہن کر ہی دیانتر پاس عبور کرے گا۔ اس اعلان پر محمود علی نے جن نظروں سے طاہر کی طرف دیکھا ان کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، پنجابی ترجمہ کیا جا سکتا ہے:
’’خصماں نوں کھاؤ۔مینوں کی؟میں تے ڈرائیور آں ۔‘‘
٭٭٭




آنکھ میں مقدارِ خوش بینی زیادہ کیجیے

A lake carries you into recesses of feeling otherwise impenetrable
William Wordsworth
 جھیل احساسات کی اُن گہرائیوں سے آشنا کرتی ہے جو کسی اور ذریعے سے قابلِ رسائی نہیں
ولیم ورڈز ورتھ

گلگت سے نکلتے نکلتے گیارہ بج گئے۔ہم نے دریائے گلگت کا پل عبور کیا، دائیں جانب مڑ کر دریائے گلگت اور ہنزہ کے سنگم پر پہنچے ا ور دریائے ہنزہ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے تقریباً تیس منٹ بعد نومل کی دلکش فضاؤں میں داخل ہوئے۔
گلگت سے پچیس کلومیٹر دور نومل ایک روایتی پہاڑی قصبہ ہے لیکن سڑکوں پر دوڑنے بھاگنے والے بچوں کا لباس اور اطوار دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ فطرت کدہ روشن خیالی کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ نل تر کی آبادی دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ کافی ’’لمبائی‘‘  میں پھیلی ہوئی ہے اور سڑک کے دونوں جانب لگائے گئے درخت نومل کی فطری خوبصورتی میں دلکش اضافہ کرتے ہیں۔  نومل کے نزدیک نل تر نالا دریائے ہنزہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہم نے دریائے ہنزہ کو خدا حافظ کہا اور نل تر نالے کے ساتھ ہولیے۔ نومل سے آگے اس نالے پر بنایا گیا پاور پراجیکٹ ایک خوبصورت ’’پکچر پوائنٹ‘‘  کی مانند نظر آتا ہے۔
نومل سے سات کلومیٹر دور نل تر پائیں ہے جسے مقامی زبان میں ’’کلینی نل تر‘‘  کہا جاتا ہے۔یہ چھوٹا سا گاؤں شیعانِ علی کا گڑھ ہے۔ نل تر پائیں پہنچتے ہی میٹل روڈ اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ ہم نل تر پائیں میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ دائیں جانب پھولوں سے لدی ہوئی انتہائی سرسبز پہاڑی پر چند درخت زرد رنگ کا لبادہ اوڑھے کھڑے تھے۔یہ خوبانیاں تھیں۔ ہماری للچائی ہوئی نظریں دیکھ کر عالم خان بندر کی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے پہاڑی کی ٹاپ پر پہنچا اور خوبانیاں توڑ کر نیچے ٹپکانا شروع کر دیں۔  ہم نے اس شغل کو باقاعدہ مقابلے کی شکل دی اور کوئی کیچ ڈراپ نہیں ہونے دیا۔ شاپر خوبانیوں سے بھر گیا اور عالم خان شکست فاش سے دو چار ہوا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب خوبانیاں دھونے کے لئے پانی تلاش کرتے رہے، میں نے اور عرفان نے یہ تکلف کئے بغیر اپنے حصے کی خوبانیاں ٹھکانے لگا دیں۔ بے شک یہ خوبانیاں انتہائی خوش ذائقہ تھیں لیکن اُس شیرینی اور لذت سے محروم تھیں جو وادیِ  شگر کی خوبانیوں کا طرہ امتیاز ہے۔
 اس بچگانہ شغل نے احساس دلایا کہ آزاد فضاؤں نے ہمیں رسمی تکلفات سے بے نیاز کر دیا ہے اور فطرت نہایت فراخدلی سے رس بھری خوبانیوں کی صورت میں اپنی شیریں رعنائیاں نچھاور کر کے ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہے۔
 نل تر پائیں کے بعد چڑھائی نسبتاً عمودی ہو جاتی ہے اور سات کلومیٹر کے فاصلے پر نل تر بالا … یا اپر نل تر … یا اجینی نل تر … اور عرف عام میں صرف نل تر خوش آمدید کہتا ہے۔ نل تر پوری وادی کا نام ہے اور وہ مقام جسے نل تر کہا جاتا ہے در اصل جا گوٹ نامی بستی کی اضافت ہے۔اس وادی کے دوسرے قصبوں میں ناگر، گومت، کھیوٹ، چھوتی،دلان،چمارسو، بشاگری اور بدلو شامل ہیں۔  ان بستیوں کی بیش تر آبادی گوجر ہے،سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے اور گوجری زبان بولتی ہے۔ یہ لوگ سوات کے مختلف علاقوں سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ ہنزہ اور نگر سے نقل مکانی کر کے آنے والے باشندے بھی کافی تعداد میں آباد ہیں اور شینا زبان بولتے ہیں۔  نل تر وادیِ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں شامل ہے اور اسے برطانوی دورِ حکومت میں گلگت کی ’’شدید‘‘  گرمی سے بچاؤ کیلئے ہل سٹیشن کے طور پر آباد کیا گیا تھا۔تقریباً بیس کلومیٹر طویل اس وادی کا کل رقبہ سولہ ہزار آٹھ سو بیا لیس ہیکٹر ہے اور یہاں اوسطاً چارسو دس ملی میٹر سالانہ بارش (گلگت سے تین گنا زیادہ) ریکارڈ کی گئی ہے۔ نل تر سکائی انگ کے شوقین حضرات کی جنت کہلاتا ہے اور یہاں موسم سرما میں نیشنل سکائی انگ چمپین شپ، سعدیہ خان سکائی انگ  چمپین شپ، شاہ خان کپ اور چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی سکائی انگ چمپین شپ باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہیں۔  سکائی انگ فیڈریشن آف پاکستان  …  پاکستان ایئر فورس سکائی انگ ریسورٹ کے تعاون سے ان ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس فیڈریشن کا قیام ۱۹۹۰؁ ء میں عمل میں لایا گیا۔
نل تر یا جاگوٹ ہمارا لنچ سٹاپ تھا۔
 نل تر اپنے قدیم نام ’’نیلو در‘‘  (نیلودر= سر سبز خطہ)کی ترمیم شدہ شکل ہے اور نام کی مناسبت سے ایک سرسبز و شاداب اور پر رونق قصبہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوبصورت عمارتیں اور حد نظر تک پھیلے ہوئے آلو کے کھیت ایک خوبصورت منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں۔ آلو کے کھیت بنفشی مائل گلابی پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ آلوؤ ں کے کھردرے اور مٹیالے پس منظر میں اتنے سندر اور رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں۔  نل تر عمدہ قسم کے آلوؤں کی پیداوار کیلئے مشہور ہے اور مارکیٹ میں نل تر کے آلو نسبتاً زیادہ قیمت پاتے ہیں۔
ہم نے ہل ٹاپ ہوٹل اینڈ ریستوران دوپہر کے کھانے کے لئے منتخب کیا۔ ہل ٹاپ کے کچن میں اس وقت صرف نل تر کے تر و تازہ آلو دستیاب تھے، لیکن کھانے کی فہرست میں پوٹیٹو فرائی، پوٹیٹوکری، پوٹیٹو مسالا اور پوٹیٹو چپس جیسی ’’کئی‘‘  ڈشیں گنوائی گئیں۔ ہل ٹاپ ہوٹل اینڈ ریستوران کا چھوٹا سا سر سبز لان نل تر نالے کے کنارے پر بنایا گیا ہے۔ کھانے کی میز اور نل تر نالے کے جھلملاتے پانیوں کے درمیان صرف جیپ ٹریک حائل تھا۔نل تر نالے کے اُس پار پاکستان ایئر فورس کے زیرِ اہتمام سکائی انگ سکول قائم کیا گیا ہے جہاں سکائی انگ اور دوسرے برفانی کھیلوں کے علاوہ ’’ونٹر  سروائیول‘‘  کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں دو عدد سکائی لفٹس موجود ہیں جن سے صرف آرمی آفیسرز لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو مستفید کرا سکتے ہیں۔  افسوس صد افسوس، ہمارے لنگوٹیا یاروں میں کوئی ’’وڈا‘‘  آرمی آفسرس شامل نہیں (کرنل کامران نواز بھارہ سے معذرت کے ساتھ … ایک تو ہم انھیں وڈا نہیں سمجھتے دوسرے وہ ہمیں لفٹ کرانے سے پہلے بہت زیادہ سوچ بچار کرتے ہیں )  اس لئے ان لفٹس کے بارے میں سوچتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اس سکول کا سرسری دورہ ہمارے پروگرام میں شامل تھا جو ’’سامان بندھائی‘‘  اور ’’جوتا تلاشی‘‘  جیسی اہم ترین مصروفیات کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
کھانا تیار ہونے کا وقفہ ایک گھنٹے پر محیط ہو گیا اور ہم نے یہ وقت نل تر کے ارد گرد بکھری ہوئی خوبصورت چوٹیوں کے مناظر کی تصاویر بناتے ہوئے گزارا۔
  یہ کہنا مشکل ہے کہ نل تر کے آلو موروثی طور پر خوش ذائقہ تھے یا شدید بھوک کے احترام میں بھرپور لذت کا مظاہرہ کر رہے تھے، لیکن یہ طے ہے کہ ہم نے بے مسالا ہونے کے باوجود اتنے خوشبودار اور لذت سے بھرپور آلو پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔ ان میں ایک خاص تازگی اور مہک پائی جاتی تھی جو دنیا کے دوسرے آلوؤں میں نہیں پائی جاتی۔ ایک ایک پلیٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہم نے مزید آلوؤں کی فرمائش کی اور انھیں چمچ کی مدد سے براہِ  راست سے نوش فرمایا۔آلو طاہر کی پسندیدہ ترین ڈش ہے،وہ نل تر کے آلوؤں کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور اُس کی تجویز تھی کہ آلو بھرے نل تر کا نام ’’آلو تر‘‘  رکھ دینا چاہیے۔
لنچ کے بعد کچھ دیر لان پر قیلولہ کیا گیا اور تقریباً سوا دو بجے ہم نل تر جھیل کے لئے روانہ ہوئے۔ جھیل بستی سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چند سال پہلے جھیل تک جیپ ٹریک نہیں تھا۔ قصبے ہی سے ٹریکنگ کا آغاز ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے کی ٹریکنگ جھیل تک پہنچاتی تھی۔آج کل ایک باقاعدہ جیپ ٹریک پہاڑی ندی نالے عبور کر کے نل تر جھیل پہنچتا ہے۔ بیش تر نالوں پرپل وغیرہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، جیپ ان نالوں سے ’’شراپڑ شراپڑ‘‘  گزرتی ہے۔نل تر بالا سے نو کلو میٹر دور دریائے نل تر پر بنایا گیا پل عبور کر کے جیپ ٹریک بنگلا نامی بستی میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلا ایک عارضی بستی ہے جہاں بکروال موسمِ گرما کے چند مہینے گزارتے ہیں۔  یہ لوگ معاوضے پر مقامی باشندوں کے پالتو مویشی دور دراز چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہوتے ہی انھیں مالکان کے حوالے کر کے اپنے مستقل ٹھکانوں (نل تر بالا اور ارد گرد کی بستیاں) کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
وادیِ نل تر کو وادیِ پونیال سے ملانے والا بھچر پاس ٹریک(Bhichchar Pass)  بنگلا سے شروع ہوتا ہے۔ اس ٹریک کا ارادہ ہو تو جھیل کے بجائے بنگلا میں کیمپنگ کی جا سکتی ہے۔ بھچر پاس دو دن (ہمت ہو تو صرف ایک دن ) کا نسبتاً آسان لیکن گمنام ٹریک ہے۔ نل تر جھیل پر پکنک کے لیے آنے والے اسے گلگت واپسی کے لیے متبادل راستے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ایک دن کی کیمپنگ اور تھوڑی سی مشقت برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔
بنگلا سے آگے صنوبر، دیودار اور بھوج پتر کے خوبصورت جنگلات سے گزرتے ہوئے ہم پونے تین بجے نل تر جھیل پر پہنچے۔ یہ جھیل ’’بشکری جھیل‘‘  یا ’’کوتی‘‘  جھیل بھی کہلاتی ہے۔ اس جگہ جیپ روڈ کا اختتام اور پیدل ٹریک کا آغاز ہوتا ہے۔
نل تر جھیل کی پہلی نظر نے مجھے مایوس کیا۔
سکر دو کی کتپنا کے بعد دوسری جھیل جس کی پہلی نظر نے مایوس کیا۔
نل تر جھیل کے کنارے پہنچنے کے باوجود مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں جذبات و احساسات کی نازک گہرائیوں سے آشنا کرنے والے طلسم کدے میں قدم رکھ چکا ہوں۔  جھیل میں پانی کی مقدار بہت کم تھی اور اس کی تہہ میں نظر آنے والے پتھروں پر جمی ہوئی کائی صاف نظر آ رہی تھی۔ جھیل کا ’’سرسبز پانی‘‘  اسی کائی کے رنگوں کا کمال تھا۔ فشنگ کے شوقین حضرات کے لیے جھیل کے وسط میں ایک مصنوعی چبوترہ بنایا گیا ہے اور اردگرد کے درختوں پر رنگین جھنڈے لہرا کر ماحول کی دل کشی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسانی ہاتھوں سے کی گئی مصنوعی آرائش و زیبائش نے جھیل کے حسن میں اضافہ نہیں کیا، اس کی فطری معصومیت کو داغ دار کر دیا ہے۔ گلگت آنے کے باوجود نل تر جھیل کا درشن نہ کرنے کی میٹھی میٹھی خلش کئی برس سے میرے ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔ افسوس کہ یہ خوبصورت خلش نل تر جھیل کے کنارے پہنچ کر دور ہو گئی۔ حسرتوں اور محرومیوں کے پردے میں چھپی ہوئی رعنائیاں لاشعور کے پردے پر نہایت ہیجان خیز منظر نامہ تحریر کرتی ہیں، پردہ اٹھتے ہی بھید کھل جاتا ہے اور تصویر کے رنگ مدھم ہو جاتے ہیں۔ میں نے نل تر جیلہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کر دیا۔
’’آپ بد ذوق نہیں، بد ذوقی کے عالمی چمپئن ہیں۔ ‘‘  عرفان نے فیصلہ دیا۔ ’’اطلاعاً عرض ہے کہ ہر سال دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے سینکڑوں کوہ نورد نل تر جھیل کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ ‘‘
’’کون سے حسن کے؟‘‘ میں نے طنزیہ لہجے میں دریافت کیا۔
’’اس حسن کے جو جمالِ یار کا دیدار کرنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ اس بارے میں انور مسعود نے ایک مشورہ دیا ہے۔اجازت ہو تو عرض کروں ؟‘‘
’’فرمائیے؟‘‘
’’کچھ جمالِ زیست سے بھی استفادہ کیجیے
آنکھ میں مقدارِ خوش بینی زیادہ کیجیے‘‘
’’انور مسعود کے ساتھ آپ کو بھی علم ہونا چاہیے کہ جمالِ زیست آنکھیں چکا چوند کر دیتا ہے، خوش بینی کا محتاج نہیں ہوتا۔‘‘
’’حسن ہمیشہ ہی خوش بینی کا محتاج ہوتا ہے۔ بہرحال آپ اپنا تبصرہ محفوظ رکھیں۔  نل تر جھیل کا اصل حسن آپ کو شانی جاتے ہوئے نظر آئے گا۔‘‘
’’اُس وقت یہ ایشوریا رائے کا بھیس بدل لے گی؟‘‘
’’اللہ نہ کرے یہ ایشوریا رائے جیسی بوسیدہ خاتون کا روپ دھارے۔کترینہ کیف کی کوئی فلم نہیں دیکھی آپ نے؟‘‘
’’کیٹ ونسلٹ کا خمار اتر گیا؟‘‘
’’اجازت ہو تو اس کا جواب بھی بزبانِ  شاعر پیش کروں ؟‘‘
’’ضرور کریں۔ ‘‘
’’بہت گڑ بڑ گھٹالا ہو گیا ہے
صنم اب بچی والا ہو گیا ہے‘‘
’’بہت افسوس ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کترینہ کیف کے پہلو میں رات گزارنے کا پروگرام کیوں نہیں بنایا گیا؟ میرا خیال ہے تمام آئٹی نریری یہاں کیمپنگ کی سفارش کرتی ہیں۔ ‘‘
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ بنائے گئے شیڈول میں بلاوجہ ترمیم نہ کی جائے۔ جھیل کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، لیکن لوئر شانی کے مناظر بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ہم آج لوئر شانی پہنچ کر چشمے کے کنارے کیمپنگ کریں گے۔‘‘
’’تو پھر چلیں ؟‘‘
’’اب اتنی بھی ایمرجنسی نہیں ہے۔آپ کے پاس تقریباً ایک گھنٹا ہے۔ عالم خان پورٹرز کا بندوبست کرے گا،سامان تقسیم کرے گا،پھر ہم روانہ ہوں گے۔‘‘
’’یہاں پورٹرز کہاں سے آئیں گے؟‘‘
’’یہ عالم خان کا درد سر ہے۔آپ ذرا اِدھر اُدھر کا جائزہ لے لیں۔ جھیل کے علاوہ بھی یہاں بہت سی دلچسپیاں ہیں۔ ‘‘
یہ دلچسپیاں کہاں تھیں ؟
جھیل سے کچھ دور ایک خاکی رنگ کا خیمہ نصب تھا، نل تر جھیل کا اکلوتا ہو ٹل جو سیزن کے دنوں میں قائم ہوتا ہے اور سیزن ختم ہوتے ہی لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس ہوٹل کے ’’لان‘‘  میں ڈیرے ڈال دیئے۔
ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر ایک سرسبز قطعے میں آنچل لہراتی ہو ئی کچھ رنگین دلچسپیاں کھنکھناتے ہوئے قہقہے بکھیر رہی تھیں۔  ایک جانب کڑاہی میں کچھ فرائی کیا جا رہا تھا اور جو کچھ فرائی کیا جا رہا تھا اس کی اشتہا انگیز مہک دور دور تک پھیل رہی تھی۔ دوسری جانب ایک دو حضرات تشریف فرما تھے لیکن وہ آنچلوں کے رکھوالے کے بجائے ڈرائیور یا خدمت گار معلوم ہوتے تھے۔ تیسری جانب چند بچے فٹ بال کھیل رہے تھے اور نل تر کی فضائیں اُن کی معصوم قلقاریوں سے گونج رہی تھیں۔  یہ غالباً مقامی ’’جمال و اطفال‘‘  کا گروپ تھا جو پکنک منانے گلگت سے نل تر تشریف لایا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب کڑاہی میں کیا تلا جا رہا ہے؟مجھے دوبارہ بھوک محسوس ہو رہی ہے۔‘‘  عرفان نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوال کیا۔
’’جا کر دیکھ آئیں۔ ‘‘  میں نے مشورہ دیا۔
’’کسے؟ … فرائی کرنے والی کو  … یا فرائی ہونے والے کو؟‘‘
’’دونوں کو۔‘‘
فرائی کرنے والی کے خط و خال نظر نہیں آرہے تھے … البتہ ’’رنگ و روغن‘‘  کے لشکارے آنکھیں چکا چوند کر رہے تھے۔ عرفان کو شہہ ملی تو وہ اونٹ کی طرح منہ اٹھائے نیلی ترپال کی طرف چل دیا۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟عرفان کہاں جا رہا ہے؟‘‘  بھٹہ صاحب نے بوکھلا کر سوال کیا۔
’’فرائی کرنے والی کا دیدار کرنے۔‘‘  میں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے جو خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔غیر ملکی خواتین کی بات اور ہے۔ ان علاقوں کے باشندے اجنبی لوگوں کو اپنی خواتین سے گفتگو کی اجازت نہیں دیتے۔یہ عرفان کیسا ٹیم لیڈر ہے جو پہلے ہی سٹاپ پر جوتے پڑوانے کا انتظام کر رہا ہے۔‘‘  طاہر نے بھٹہ صاحب کا ساتھ دیا۔
’’جس کے پاس ٹریکنگ کے جوتے نہ ہوں اُسے جوتے پڑوانا غیر اخلاقی حرکت نہیں، اخلاقی اصولوں کے عین مطابق ہے۔‘‘
’’یہ مذاق کی بات نہیں۔ اجنبی جگہ پر اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’یار تم عرفان کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہو کہ وہ خواہ مخواہ کوئی مصیبت مول لے گا؟ اُس نے بے شمار ٹریک کیے ہیں اور ٹریکنگ کی اخلاقیات سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘
’’پھر وہ نا محرم خواتین کے پاس کیا لینے گیا ہے؟‘‘  بھٹہ صاحب نے اعتراض کیا۔
’’عاقل و بالغ حضرات نا محرم خواتین کے پاس کیا لینے جاتے ہیں ؟‘‘
’’آپ سے سنجیدگی کی توقع فضول ہے،اور مجھے خواہ مخواہ شرمندگی ہو رہی ہے کہ وہ معزز خواتین ہمارے کردار کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ اجنبی خواتین سے بلاوجہ گفتگو کرنے کی کوشش انتہائی چھچھوری اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتے ہیں‘‘  شوکت علی بھٹہ صاحب نے موقع میسر آتے ہی رسمِ استادی نبھانے کی عادت پوری کی۔
’’میرا خیال ہے معزز خاتون اخلاق سے گری ہوئی حرکت پر اعتراض کرنے کے بجائے نہایت پر سکون انداز میں گپ شپ کر رہی ہے۔‘‘
فرائی کرنے والی عرفان کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی اور اس کا اندازِ بے نیازی اتنی دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا تھا۔بھٹہ صاحب سخت حیران ہوئے۔
’’اس قسم کی خواتین ہی جہنم کا ایندھن بنیں گی۔‘‘  ان کے لہجے میں جہنم کی آگ کے شعلے رقص کر رہے تھے۔
’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘  میں نے اختلاف کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اتنی حسین و جمیل خواتین جہنم کی آگ کا ایندھن نہیں بن سکتیں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں بن سکتیں ؟‘‘
’’سر جی مردانہ ایندھن کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے اہلِ  بہشت بھی دوزخ میں تبادلے کی درخواست جمع کرا دیں۔ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ عالمِ بالا کا نظم و نسق درہم برہم کرنا پسند نہیں فرمائیں گے۔‘‘
’’استغفر اللہ۔ڈاکٹر صاحب فوراً توبہ کریں۔  مذہبی معاملات میں تبصرہ کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بے راہ روی پسند نہیں فرماتے اور ان کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔‘‘
’’بھٹہ صاحب پلیز!بے راہ رویاں وہاڑی اور فیصل آباد ہی میں میسر آسکتی ہیں، ان کے لیے دئینتر پاس جیسے کمر توڑ پروگرام بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹریک پر مختلف گروپس سے تعارف اور گپ شپ ٹریکنگ کا حصہ ہے۔خواتین کی جگہ مرد ہوتے تو ان سے بھی تعارف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود ’’سیرو فی الارض‘‘  کا حکم دے رہا ہے تو اس کی رحمت سے امید رکھنی چاہیے کہ چھوٹی موٹی بے قاعدگی پر ناراض نہیں ہو گا۔میرا مشورہ ہے آپ بھی شریکِ  محفل ہو جائیں، موڈ خوشگوار ہو جائے گا۔‘‘
’’معاذ اللہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔اس اثنا میں عرفان واپس آگیا۔
’’لیں جناب،آنٹی پتوڑی کے ہاتھ کی بنی ہوئی پتوڑیاں نوش فرمائیں۔ ‘‘  اُس نے شاپر ہماری طرف بڑھایا۔
’’یہ کیا بلا ہے؟‘‘ طاہر نے شاپر تھامتے ہوئے دریافت کیا۔
’’پتوڑیاں۔ ‘‘
’’پکوڑے ؟‘‘  طاہر نے شاپر میں جھانکا۔
’’جی نہیں، جادو کی پتوڑیاں  …  جن کی وجہ سے مجھے ایک خوبصورت خاتون کے حسن کی تعریف کرنے کا موقع ملا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں خاتون کے قریب پہنچ کر سوچ رہا تھا کہ اسے کس بہانے مخاطب کیا جائے۔ ایک شریر قسم کا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر آنٹی پتوڑیاں  … آنٹی پتوڑیاں  …  کی گردان کرنے لگا۔میں نے خاتون سے سوال کر دیا کہ یہ کون بدتمیز بچہ ہے جو آپ جیسی خوبصورت آنٹی کو پتوڑیاں کہہ رہا ہے۔‘‘
’’اور خاتون نے مائنڈ نہیں کیا؟‘‘
’’اس میں مائنڈ کرنے والی کیا بات تھی؟وہ نہایت خوشدلی سے ہنسی اور وضاحت کی کہ بچہ اُسے مخاطب نہیں کر رہا،اپنی توتلی زبان میں اُن پکوڑیوں کی فرمائش کر رہا ہے جو دہی بھلوں میں ڈالنے کے لیے فرائی کی جا رہی تھیں۔ ‘‘
’’آپ سو فیصد بکواس فرما رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘  میں نے دوستانہ بے تکلفی سے تردید کی۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘  عرفان مسکرایا۔
’’بس نہیں ہو سکتا۔افسانہ طرازی چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ اُن کا پروگرام کیا ہے۔‘‘
’’مجھے کیا پتا؟میں تو آنٹی پتوڑی کے درشن کرنے گیا تھا۔‘‘
’’ہرگز نہیں، آپ صرف یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ لوگ جھیل پر رات گزاریں گے یا واپس چلے جائیں گے۔‘‘ میں نے وثوق سے کہا۔
’’واپس چلے جائیں گے۔‘‘ عرفان نے منہ لٹکا کر جواب دیا۔
’’اُن کے پروگرام سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘  بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’بہت گہرا تعلق ہے۔وہ رات کی کیمپنگ کرتے تو کیمپ فائر بھی مناتے، کمپن فائر میں گانا شانا،ڈانس وانس معمول کا شغل ہے۔تھوڑا ہلا گلا ہو جاتا۔‘‘  میں نے جواب دیا۔
’’ہمارے پروگرام میں یہاں کیمپنگ شامل نہیں ہے،اور ہوتی بھی تو وہ اپنے کیمپ فائر میں ہمیں کیوں شامل کرتے؟‘‘
’’اُن کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا ہوتا توکیمپنگ خود بہ خود ہمارے پروگرام میں شامل ہو جاتی۔ کیمپ فائر میں کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جاتی، آپ میں صلاحیت ہو تو آپ کسی بھی  کیمپ فائر میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نل تر جھیل پر کیمپنگ ہمارے پروگرام میں شامل کیوں نہیں کی گئی؟ ہم روز روز ادھر نہیں آئیں گے۔نل تر جھیل اگر مقامی لوگوں کے لیے پکنک  پوائنٹ ہے تو ہمیں بھی ایک دن نل تر جھیل پر ضرور گزارنا چاہیے تھا۔ہو سکتا ہے شام تک کوئی اور گروپ یہاں آ جائے …۔ ‘‘
’’جو صرف خواتین پر مشتمل ہو؟‘‘  بھٹہ صاحب نے طاہر کی بات کاٹی۔
’’بات مردوں یا عورتوں کی نہیں۔ عالم خان بتا رہا تھا کہ ہمارا گروپ سیزن کا پہلا گروپ ہے جو دئینتر پاس ٹریک کے لیے آیا ہے۔اس کا مطلب ہے اگلی تمام کیمپنگ سائٹس پر الو بول رہے ہوں گے اور نل تر جھیل غالباً آخری مقام ہے جہاں کسی ملکی یا غیر ملکی گروپ سے ملاقات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اس صورت میں ٹریک کی واحد با رونق کیمپنگ سائٹ نظرانداز کرنے میں کیا مصلحت تھی؟‘‘
’’اجازت ہو تو اس سوال کا جواب میں عرض کروں ؟‘‘  بھٹہ صاحب نے ہاتھ کھڑا کیا۔
’’فرمائیے۔‘‘  عرفان نے اجازت دے دی۔
’’مصلحت یہ ہے کہ پروگرام ترتیب دینے والا نہ صرف نل تر جھیل بلکہ لوئر شانی پر بھی کیمپنگ کر چکا ہے۔ اسے صرف لوئر شانی سے آگے والی سائٹس میں دلچسپی ہے،نل تر جھیل پر رات گزارنا وقت ضائع کرنے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ سراسر زیادتی ہے۔‘‘ عرفان نے احتجاج کیا۔’’میں جلد از جلد دئینتر پاس عبور کرنا چاہتا ہوں۔  اس کے علاوہ کوئی بات نہیں۔ ‘‘
’’یعنی آپ انجوائے منٹ سے زیادہ اچیومنٹ کے چکر میں ہیں ؟‘‘
’’ٹریک کی انجوائے منٹ نل تر جھیل کیمپنگ میں پوشیدہ ہے تو ہم اپنا پروگرام تبدیل کر لیتے ہیں۔ شانی کے لیے کل روانہ ہو جائیں گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ نل تر جھیل ہم دیکھ چکے ہیں، مزید کیا دیکھیں گے؟آپ یہ فرمائیں کہ آنٹی پتوڑی کا حدود اربعہ کیا ہے اور ان کے ساتھ مرد کیوں نہیں ہیں ؟‘‘  میں نے بحث کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
’’آنٹی پتوڑیوں کا حدود اربعہ بیان نہیں کیا جاتا،دریافت کیا جاتا ہے۔ بائی دا وے ارادے کیا ہیں جناب کے؟‘‘
’’ارادوں سے کیا ہوتا ہے؟‘‘  میں نے حسرت آمیز لہجے میں کہا۔’’میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ دئینتر پاس ٹریک کے دوران نظر آنے والے پہلے یا شاید آخری گروپ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرنا اخلاقی فرض ہے۔‘‘
’’یہ گلگت کے ایک پرائیویٹ سکول کی استانیاں ہیں۔ آنٹی پتوڑی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ وہ اپنی سہیلیوں کو ٹریٹ دینے یہاں لائی ہے۔‘‘
’’آنٹی کی شادی ہو چکی ہے؟‘‘ طاہر نے مایوسانہ لہجے میں دریافت کیا۔
’’تازہ تازہ۔ دو ہفتے پہلے۔‘‘
’’اسے اتنی جلدی شادی کرانے کی کیا ضرورت تھی؟سارے رومان کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اب اپنا کیا پروگرام ہے؟‘‘ طاہر نے مصنوعی بے زاری کا اظہار کیا۔
’’ایک سے ایک نہلے پہ دہلا ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے زیرِ لب تبصرہ کیا۔
’’ہمیں اب روانہ ہو جانا چاہیے۔ عالم خان پتا نہیں کہاں د فان ہو گیا۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’ہم ادھر ہے سر،آپ کا بات سنتا ہے۔‘‘  ہمارے عقب سے آواز آئی۔
عالم خان سامان کے ڈھیر کی اوٹ میں رک سیک سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔
’’باتیں کیوں سنتا ہے؟آگے روانہ کیوں نہیں ہوتا۔‘‘  عرفان نے ڈانٹ پلائی۔
’’پورٹر اب پہنچا ہے ناں۔ بس اب چلتا ہے۔‘‘
’’پورٹر؟کہاں ہیں۔ پورٹرز؟‘‘
’’وہ سامنے آتا ہے۔‘‘
 دو عدد بزرگ ہماری جانب تشریف لا رہے تھے۔اُن کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ شہتوت کی ٹیڑھی میڑھی لاٹھیوں کے سہارے اپنے جسم بہ مشکل گھسیٹ رہے تھے۔ دونوں حضرات فاقہ زدہ ہڈیوں اور بھاری بھرکم داڑھیوں کا ملغوبہ تھے۔یہ بزرگانِ نل تر ہمارے قریب پہنچے تو ایک صاحب پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا جو کئی منٹ جاری رہا۔ کھانسی رکی تو سیٹیاں بجنے کا عمل شروع ہو گیا، آواز میں اتنی خرخراہٹ تھی کہ میں باقاعدہ خوفزدہ ہو گیا۔
’’عالم خان یہ کس قسم کا مذاق ہے۔‘‘  میں نے سہمی ہوئی آواز میں سوال کیا۔
’’یہ مذاق نہیں ہے سر۔ہمارا پورٹر ہے۔‘‘  عالم خان نے متانت سے جواب دیا۔
’’مذاق نہیں تو اور کیا ہے عالم خان؟‘‘  عرفان بھی سخت غصے میں تھا۔’’یہ بوڑھے آدمی جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتے ہمارا سامان اٹھا کر دئینتر پاس عبور کر لیں گے؟ میں نے آج تک اتنے قبر رسیدہ  پورٹرز نہیں دیکھے۔‘‘
’’سامان یہ نہیں لے جائے گا تو ہم لے جائے گا ناں۔  عمر کا بھی فکر مت کرو۔ یہ لوگ شانی پہنچتا ہے تو جوان ہو جاتا ہے۔‘‘  عالم خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’جوان کیسے ہو سکتے ہیں ؟تم ہمیں چڑا رہے ہو؟‘‘ عرفان گرجا۔
’’راستے میں جوان کرنے والا پانی آتا ہے سر۔ یہ لوگ وہ پانی پی لے گا اور جوان ہو جائے گا۔آپ خواہ مخواہ فکر کرتا ہے۔‘‘  عالم خان بدستور مسکراتا رہا۔
’’میں بھی وہ پانی پیوں گا۔‘‘ میں نے اشتیاق ظاہر کیا۔
’’آپ کس کی باتوں میں آرہے ہیں ڈاکٹر صاحب!یہ شخص ہمارے ساتھ فراڈ کر رہا ہے۔آپ نے پورٹرز کی کہانیاں نہیں سنیں ؟ اس کے منتخب کردہ پورٹرز کسی جگہ سامان پھینک پھانک کر واپس آ جائیں گے۔‘‘
’’تو آپ ہم کو کوئی پیسا مت دینا سر۔‘‘  عالم خان سنجیدہ ہو گیا
’’پیسے کی بات نہیں، ہمارا ٹریک خراب ہو جائے گا۔ جہاں یہ لوگ سامان چھوڑیں گے وہاں کوئی پورٹر نہیں ہو گا۔ تم لوگ ہمیں بلیک میل کرو گے اور طرح طرح کے مطالبات پیش کر کے اپنی پسند کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
’’سر آپ خواہ مخواہ شک کرتا ہے۔ایسا کوئی بات نہیں ہو گا۔آپ خود بول رہا تھا کہ شانی سے بکروال پکڑ لے گا۔ بکر وال آپ کو ہر جگہ سے ملتا ہے۔ بیس کیمپ سے بھی مل جاتا ہے۔پھر ہم آپ کو بلیک میل کیسے کرے گا؟‘‘
’’مگر … یہ لوگ سامان کیسے اٹھائیں گے؟‘‘  عرفان کچھ مطمئن ہو گیا۔
’’ابھی آپ آرام سے بیٹھو، پھر دیکھو کیسے اٹھاتا ہے۔‘‘
عالم خان نے سامان تین حصوں میں تقسیم کیا۔دو حصے ’’باباجیز‘‘ کے حوالے کئے، ایک اپنے لئے منتخب کیا اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔بابا جیز کی خمیدہ کمریں کچھ اور ٹیڑھی ہو گئیں۔
’’عالم خان خیموں کا تھیلا کس کے پاس ہے؟‘‘  عرفان نے چند قدم چلنے کے بعد پورٹرز پر لدے ہوئے سامان کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’تھیلا؟کون سا تھیلا؟ہم نے اِدھر کوئی تھیلا نہیں دیکھا۔‘‘
’’ہمارے ٹینٹ پلاسٹک کے سفید تھیلے میں تھے۔وہ کس کے پاس ہے؟‘‘
’’ایسا تھیلا کسی کے پاس نہیں ہے۔ہم نے سارا سامان چیک کر کے پورٹر کے حوالے کیا ہے۔‘‘  عالم خان نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔
’’او ہ مائی گاڈ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟میں نے وہ تھیلا خود جیپ میں رکھا تھا۔‘‘
’’اتارا بھی تھا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے دریافت کیا۔
’’سامان اکٹھا ہی اتارا گیا تھا۔‘‘ عرفان نے بے یقینی سے جواب دیا۔
’’ہو سکتا ہے وہ تھیلا اتارا نہ جا سکا ہو اور جیپ کے ساتھ ہی واپس چلا گیا ہو۔‘‘
’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محمود علی کی نیت خراب ہو گئی ہو اور وہ جان بوجھ کر لے گیا ہو۔‘‘  طاہر نے خیال آرائی کی۔
’’آپ لوگ ہر بات میں شک کیوں کرتا ہے سر۔‘‘  عالم خان نے احتجاج کیا۔’’ہم نے جیپ پر اچھی طرح نظر ڈال لیا تھا۔اُس میں کوئی چیز نہیں چھوڑا تھا۔‘‘
’’مگر،تھیلا جا کہاں جا سکتا ہے؟اور چلا گیا ہے تو ہم آگے جا کر کیا کریں گے؟ بہت بڑا پھڈا ہو گیا ہے سر جی۔ سارا پروگرام درہم برہم ہو جائے گا۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں بیس مرتبہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے ارشاد فرمایا۔
’’تھیلا تلاش نہ کریں ؟‘‘  عرفان نے جلے کٹے لہجے میں سوال کیا۔
’’ضرور تلاش کریں، اور یہ بھی بتا دیں کہ کہاں تلاش کریں ؟‘‘
یہ انتخاب واقعی مشکل تھا کہ خیموں کا تھیلا کہاں تلاش کیا جائے؟یہاں کوئی پوشیدہ یا خفیہ گوشہ تو تھا نہیں، نل تر جھیل کے ارد گرد کا سارا منظر نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے باوجود ہم اپنے رک سیک نیچے رکھ کر ادھر ادھر پھیل گئے اور تھیلے کی تلاش شروع کر دی۔ میں اور عرفان نیلی ترپال کے عقب میں ایک چھوٹی سی بلندی تک پہنچے جہاں کھڑے ہو کر ہم نے فوٹو گرافی کی تھی۔ تھیلا وہاں نہیں تھا،اور ہونے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ہم صرف رسمِ تلاشی نبھانے یہاں تک آ گئے تھے۔ تھیلا گم ہونے کے نتائج و عواقب پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نیلی ترپال کے قریب سے گزرے اور ایک سریلی آواز نے ہمیں مخاطب کیا۔
’’ایکسکیوز  می،آپ کچھ تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘
’’نہ جانے کہاں دل کھو گیا؟‘‘ عرفان نہایت دھیمی آواز میں گنگنایا۔
’’جی؟‘‘ آنٹی پتوڑی چونک اٹھیں۔
’’وہ … دراصل ہمارا ایک انتہائی اہم تھیلا گم ہو گیا ہے۔اُس میں ٹینٹ تھے اور ٹینٹ کے بغیر ٹریک مکمل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’کھاد والا تھیلا؟‘‘
’’جی بالکل۔آپ نے کہیں دیکھا ہے؟‘‘
’’ہمارے سامان کے پاس ایک ایسا تھیلا موجود ہے جس کے بارے میں ہم سب پریشان ہیں کہ وہ کس کا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کا ہو۔‘‘
’’یقیناً ہمارا ہو گا۔ پلیز مجھے دکھائیں۔ ‘‘
ہم ان کے سامان کے پاس آئے اور آنٹی پتوڑی نے ایک تھیلے کی طرف اشارہ کیا۔ عرفان نے لپک کر تھیلا اٹھایا اور اُس بے تاب ماں کی طرح سینے سے چمٹا لیا جس کا گمشدہ سپوت ایک طویل عرصے بعد گھر لوٹ آیا ہو۔
’’اس تھیلے میں سچ مچ آپ کا دل ہے؟‘‘ آنٹی پتوڑی نے نہایت سادگی سے سوال کر کے آگا ہ کیا کہ وہ عرفان کی فقرہ بازی سے لا علم نہیں تھی۔
’’وہ  … میرا مطلب ہے‘‘  عرفان بری طرح بوکھلا گیا۔’’ٹریکنگ کے سامان میں خیمے کی اہمیت دل سے کم نہیں ہوتی۔ خیموں کے بغیر پانچ دن کا ٹریک کیسے کیا جا سکتا ہے ؟اور ٹریک مکمل نہ کرنے کی اذیت آپ کسی ٹریکر کے دل سے پوچھیں۔  بہرحال آپ کا بہت بہت شکریہ، بلکہ دو مرتبہ شکریہ۔‘‘
’’دو مرتبہ کیوں ؟‘‘
’’ایک تھیلا تلاش کرنے کا اور دوسرا گرما گرم پکوڑے کھلانے کا۔‘‘
’’پکوڑے؟ آپ نے کھا لیے تھے؟‘‘  آنٹی نہ جانے کیوں بے حد حیران ہوئیں۔
’’آپ کے ہاتھوں سے بنے ہوئے پکوڑے نہ کھا نا کفرانِ نعمت ہے۔ہم بھلا اس کے مرتکب کیسے ہو سکتے تھے؟‘‘
’’کمال ہے۔‘‘ آنٹی مزید حیران ہوئیں۔
’’اس میں کمال کی کیا بات ہے؟‘‘
’’چند منٹ پہلے عدیل جھیل کی طرف گیا اور پکوڑوں والا شاپر واپس لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ انکل لوگ پکوڑیاں یہیں بھول کر آگے چلے گئے ہیں۔  آپ لوگوں نے پکوڑے کھا لیے، اس کے باوجود شاپر بدستور بھرا رہا۔اس سے بڑا کمال اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’وہ  …  وہ  … میرا مطلب ہے … میرا مطلب ہے …۔ ‘‘  عرفان کو شاید سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کمال کی کیا تاویل پیش کرے۔
’’میں آپ کا مطلب اچھی طرح سمجھ چکی ہوں۔ اللہ کرے آپ کا ٹریک کامیاب رہے۔‘‘   اُس نے ایک طنزیہ مسکراہٹ نچھاور کی اور واپس چلی گئی۔
’’الو کی پٹھی … آمین۔‘‘  عرفان نے دانت کچکچاتے ہوئے زیرِ لب ارشاد فرمایا۔
٭٭٭



ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع کے

Everything in nature contains all the power of nature.
Ralph Waldo Emerson
فطرت کا ہر منظر قدرت کی بھرپور طاقت کا مظہر ہے
رالف والڈو ایمرسن

ساڑھے تین بجے ٹریک کا باضابطہ آغاز ہوا۔
نل تر جھیل سے لوئر شانی جانے والی پگڈنڈی پر رکھا جانے والا دئینتر پاس ٹریک کا پہلا  قدم تفکرات میں گھرا ہونے کے باوجود نہایت پُر جوش، پُر عزم، پُر امید اور پُر تجسس تھا۔
کیا میں ٹریک مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا؟
 دئینتر پاس ایک ٹیکنیکل ٹریک کہلاتا ہے۔
 میں ٹریکنگ کی الف … بے …  نہیں جانتا۔
میری عمر کے کسی شوقیہ پاکستانی ٹریکر نے آج تک دئینتر پاس عبور نہیں کیا۔
اللہ کرے ایسا ہو کہ میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہ رہوں اور اپنے نام نہاد ٹریکنگ کیریئر کا پہلا ’’پاس‘‘  عبور کر کے اپنے رک سیک پر ’’ٹریکر‘‘  کا لیبل چسپاں کر سکوں۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
نل تر جھیل نہیں چاہتی تھی کہ اسے مایوسی کے عالم میں خدا حافظ کہا جائے۔مجھے صورت پسند نہیں آئی تو اس نے سیرت کے جال میں الجھا لیا۔
ہم نے اپنے اپنے رک سیک اٹھا کر چند ہی قدم اٹھائے ہوں گے کہ گھنگھور گھٹاؤں نے راگ ملہار چھیڑ دیا۔ ایک طرف سورج کی کرنیں سیاہ بادلوں میں نقب لگا رہی تھیں اور دوسری طرف نل تر جھیل کے سبز گوں پانی میں رم جھم رم جھم پڑنے والی پھواریں جادو جگا رہی تھیں۔  ہم رک سکو دوبارہ زمین پر ٹکانے اور خود ٹک جانے پر مجبور ہو گئے۔
 ہمارے قدموں میں بیڑیاں ڈالنے والا سحر نل تر جھیل کے پانیوں میں رقص کرنے والی قوسِ  قزح سے پھونکا جا رہا تھا جس کے طلسماتی رنگ جھیل کے شیشہ ور پانیوں سے مل کر لازوال منظر تخلیق کر رہے تھے۔ اس رقص کی فتنہ انگیزی کسی ایرے غیرے کی طبع آزمائی خاطر میں نہیں لاتی، پروین شاکر کے شیریں لبوں سے الفاظ کا جامہ پہنے ہے۔
نل تر کے ایک قطرے میں
جب سورج اتر آئے
رنگوں کی تصویر بنے
دھنک کی ساتوں قوسیں
اپنی بانہیں پھیلائے
نل تر کے بھیگے سے بدن میں
رنگوں کی دنیا کھینچ لائیں
 رنگوں کی یہ دنیا بہت حسین تھی،آنکھوں کے راستے دل میں اترتی تھی۔ہم سب اسے دل کے ساتھ ساتھ کیمرے میں بھی قید کر رہے تھے تاکہ جب چاہیں ’’آف لائن‘‘  رہ کر بھی اس کی دلکشی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
’’جی ڈاکٹر صاحب!کیا فرماتے ہیں آپ اس جھیل کے بارے میں ؟‘‘  عرفان نے موقع غنیمت جان کر سوال کیا۔
’’راجپوت کی زبان ایک ہوتی ہے۔جو فرمانا تھا فرما دیا۔‘‘
’’پھر آپ نل تر جھیل کے کنارے وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘
’’میں بارش کے قطروں اور سورج کی کرنوں کا کھیل دیکھ رہا ہوں۔ جھیل بارھویں کھلاڑی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آپ اس منظر کا کریڈٹ نل تر جھیل کو کیسے دے سکتے ہیں ؟‘‘
سورج نے غالباً میرے تبصرے کو پسند نہیں کیا اور اپنی کرنوں کا زاویہ بدل لیا۔ جھیل میں نظر آنے والا قوسِ قزح کا عکس آہستہ آہستہ معدوم ہوتا گیا اور ایک لازوال منظر کا طلسم نل تر جھیل کے پانیوں میں ڈوبنے لگا۔ چند لمحے بعد سورج پوری طرح گھٹاؤں کے پردے سے نکل آیا اور رنگوں کی دنیا چکا چوند روشنی میں گم ہو گئی۔میں نے احساسِ ندامت اور احساسِ شکست کے ملے جلے جذبات کے ساتھ  نل تر جھیل کی پرسکون سطح پر ایک نظر ڈالی،اپنا رک سیک اٹھایا اور عالم خان کے پیچھے چل دیا جو نل تر جھیل کی فضاؤں کے بدلتے رنگوں سے بے نیاز اگلے پڑاؤ کی طرف گامزن تھا۔ وہ بزرگ جو بہ ظاہر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تھے، ہمارا سارا سامان پشت پر باندھے عالم خان سے چار ہاتھ آگے چل رہے تھے۔سفر کا آغاز نل تر نالے کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ ہوا۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہم نے نل تر نالے پر درخت کے تنوں سے بنایا گیا پل عبور کیا اور نالے کے دائیں کنارے پر آ گئے۔
نل تر جھیل سے لوئر شانی ایک روایتی پہاڑی راستہ ہے جو بہ تدریج بلندیوں کی طرف گامزن رہتا ہے۔ میدانی علاقوں سے آنے والوں کے لیے بلندی کا سفر غیر متوقع تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ چڑھائی کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے معمولی چڑھائی پر بھی سانس پھولنے لگتا ہے اور تھوڑی سی چڑھائی حیران کر دیتی ہے۔ پریشان ہونے کے بجائے رفتار میں کمی کر کے دشواری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس دشواری سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہی میں غیر معمولی سست رفتاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
 جھیل سے کچھ آگے وادی کا دامن قدرے تنگ ہو گیا اور ہم ایک نا تراشیدہ راستے پر شمال کی سمت بڑھنے لگے۔میں رفتہ رفتہ اس عظیم الشان منظر کا حصہ بنتا گیا اور اپنی انفرادیت گم کر بیٹھا۔ دائیں جانب سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلہ تھا جس کی دراڑوں سے جھانکتے ہوئے پہاڑی پھولوں کے گل دستے خوش آمدید کہتے تھے۔ بائیں جانب کا وسیع منظر کسی حیرت کدے سے کم نہ تھا۔ یہ چند سو میٹر عریض پتھریلا میدان تھا جس میں نل تر نالے کے صاف و شفاف پانی بہتے تھے اور ان کا پتھروں سے ٹکراؤ فضا میں مدھر تانیں بکھیرتا تھا۔ اس میدان کے اس پار وادی نل تر کی برف پوش چوٹیاں فلک کے بوسے لیتی تھیں  لیکن ان پر منڈلانے والی بدلیاں انھیں گستاخ نظروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یہ بانکی گوریاں بدلیوں کے گھونگٹ میں شرماتی اور دلوں پر بجلیاں گراتی تھیں۔
کوہستانی مناظر بیان کرتے ہوئے مجھے رانا محمد یونس کا چوتھائی صدی قبل ہنزہ میں دیا گیا بیان اکثر یاد آ جاتا ہے۔انھوں نے فرمایا تھا:
’’مجھے سب پہاڑی منظر ایک جیسے لگتے ہیں۔ ایک طرف منہ زور دریا، دوسری طرف  برف یا سبزے سے ڈھکے ہوئے مٹیالے پہاڑ اور ان دونوں کے درمیان کچی پکی سڑک جس پر میں احمقوں کی طرح منہ اٹھائے چلتا ہوں اور خرچ کیے گئے پیسے حلال کرنے کے لیے فطرت کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی جھوٹی سچی اداکاری کرتا رہتا ہوں۔ ‘‘
بیان کی حماقت اپنی جگہ،لیکن بار بار د کھائے جانے والے ایک ہی منظر میں طرح طرح کے رنگ بھر کر دل فریبی کے نت نئے سامان پیدا کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اعلان ہے، جسے سن کر شہنشاہِ لال قلعہ بہادر شاہ ظفر حیران ہے:
ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع کے
بنایا رنگ پتھر کا سیاہ کیسا، سفید کیسا
ایک بلند چٹان کی چوٹی سے گزرتے ہوئے عرفان نے فوجی انداز میں کاشن دیا۔
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘
’’جی صاحب۔‘‘
’’گھوم جائیں۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ گھوم جانے کا مطلب نہیں سمجھتے؟میرا مطلب ہے اباؤٹ ٹرن پلیز۔‘‘
 میں نے پیچھے دیکھا،اور سچ مچ گھوم گیا۔
’’یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘ میں نے کنفیوژ ہو کر سوال کیا۔
’’پاکستان کی دوسری جھیل جس نے آپ کو مایوس کیا۔‘‘
’’نل تر؟‘‘  میرے لہجے میں بے یقینی تھی۔
‘‘ جی … نل تر۔‘‘
نل تر میرا مضحکہ اڑانے پر اتر آئی تھی۔دنیا کا کوئی بھی شخص،خواہ وہ اپنی بات پر قائم رہنے والا راجپوت ہو،یا بد ذوقی کا عالمی چمپئن،اس مقام پر کھڑے ہو کر بیان جاری نہیں کر سکتا تھا کہ نل تر جھیل نے اُسے مایوس کیا … یہ وہ لینڈ سکیپ نہیں تھا جو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
یہ ایک گل و گلزار لینڈ سکیپ تھا جس میں ایک نہیں، چار جھیلیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ ایک وہی جگمگاتا ہوا زمرد تھا جس میں ہم نے دھنک اترتے دیکھی تھی،اور دو نیلم، جن کے نیلے پانیوں سے پھوٹنے والی کرنیں ہمارے سنگ کئی کلومیٹر سفر طے کر چکی تھیں۔  ان سے کچھ فاصلے پر ایک اور جھیل کے شیشہ ور پانی لشکارے مارتے تھے۔سرسبز اور شاداب پس منظر میں جھلملاتے ہوئے یہ جواہر نگار پانی ایک نئی دنیا کی سیر کراتے تھے۔
’’ہم یہاں سے گزر چکے ہیں ؟‘‘  میں نے حسرت آمیز انداز میں سوال کیا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ عرفان نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’ہم نے باقی تین جھیلیں کیوں نہیں دیکھیں ؟‘‘
’’وقت بہت کم تھا جناب۔ ہماری آج کی منزل لوئرشانی ہے۔‘‘
 نشاط کی کلیاں چننے کے لیے حسن کی قربت اور وقت کی فراوانی شرط ہے۔ہمارے پاس وقت نہیں تھا تو ہم یہاں کیا لینے آئے تھے؟ میرا یہ گمان غلط ثابت ہوا کہ گلگت پہنچنے کے باوجود نل تر جھیل نہ دیکھنے کی خلش دور ہو چکی ہے۔نل تر جھیل کے کنارے کھڑے ہونے کے باوجود نل تر جھیل نہ دیکھنے کی کسک ابھی باقی ہے۔
نل تر جھیل پر آنے والے فطرت پسندوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس مقام سے سرسری انداز میں گزرنے کے بجائے یہاں کچھ وقت گزاریں اور باقی تین جھیلوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔  نل تر جھیل کے بائیں ( مغربی ) جانب ایک چھوٹی سی پہاڑی عبور کر کے آپ نیلگوں پانی کی دو عدد ننھی منی جھیلوں کا دیدار کر سکتے ہیں۔  اسی سمت تقریباً تیس منٹ کے فاصلے پر ان دونوں سے بڑی ایک اور جھیل آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔نل تر جھیل کا اصل حسن دیکھنا چاہتے ہیں تو چاروں جھیلوں کا دیدار کریں۔ وہ جھیل جو عرفِ عام میں نل تر جھیل کہلاتی ہے، صرف کوتی یا بشکری جھیل ہے۔
نل تر جھیل کے اصل حسن کا غائبانہ دیدار کرنے کے بعد میں آگے روانہ ہوا۔ ایک مقام پر نل تر نالا عبور کرنے کا مرحلہ درپیش تھا اور انتہائی تیز رفتار نالے کی تہہ سے بڑے بڑے پتھر جھانکتے تھے جن کی سطح انتہائی چکنی اور پھسلواں تھی۔ نالا عبور کرنے کے لیے بے شک ایک عدد پل موجود تھا،لیکن یہ پل برچ کے درخت کی ایک دبلی پتلی دیمک زدہ شاخ سے بنایا گیا تھا جس پر بمشکل آدھا پاؤں رکھنے کی گنجائش پائی جاتی تھی۔ میرے ساتھی یہ پل عبور کر کے آگے جا چکے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں ؟
 میرے لا شعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ پہاڑی ندی نالے عبور کرتے ہوئے یا کسی ایسی ڈھلوان بلندی پر چلتے ہوئے جس کی گہرائیوں میں پُر شور پہاڑی دریا بہہ رہا ہو، پھسلنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ پھسلنے سے بچنے کی ارادی کوشش کرتے ہوئے میں اتنا ثابت قدم نہیں رہتا جتنا ایک ٹریکر کو رہنا چاہیے اور اکثر اوقات بلاوجہ ڈرتا رہتا ہوں،  کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ میرے ساتھی میری اس کمزوری سے واقف نہیں تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ راز اتنے ننھے منے نالے کے کنارے فاش ہو جائے۔ میں نے دل پر جبر کر کے اس پل پر قدم رکھ دیا۔ چند قدموں کا یہ مرحلہ ختم ہوا تو ہتھیلیوں سے بہنے والا پسینہ نل تر نالے کے شفاف پانی کو آلودہ کر رہا تھا۔
 اس چھوٹے سے مرحلے نے مجھے بہت بڑے وسوسے میں مبتلا کر دیا۔ میں اگر چار قدم طویل پل عبور کرتے ہوئے اتنا ڈرتا ہوں تو دئینتر پاس کیسے عبور کروں گا جس میں کئی انتہائی مشکل مقام آتے ہیں ؟
تفکرات اور وسوسہ جات کی کیفیت چند لمحے طاری رہی۔ منظر کی دلکشی نے ایک مرتبہ پھر مجھے پُر کیف احساسات میں پناہ دی اور میں آنے والے خدشات سے بے نیاز ہو کر نل تر کی رنگینیوں میں کھو گیا۔وادیِ  نل تر ایک تنگ دامن وادی ہے اور پانچ ہزار سے چھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں میں گھری ہوئی ہے۔ان میں سے بیش تر چوٹیاں نل تر نالے کے ساتھ ساتھ صف آراء ہیں۔  برف پوش اور سبز پوش چوٹیوں کا اتنا گھنا جھرمٹ صرف نل تر کی انفرادیت ہے۔میرے اور اس برفیلے منظر کے بیچ ایک رکاوٹ حائل تھی۔پورے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے نل تر نالے کے شوریدہ سر پانیوں سے آنکھیں ملانا ضروری تھا،اور نل تر نالے کے پانی بہت زیادہ گہرائی میں بہتے تھے۔ عرفان اسکولی ٹریک کے دوران دریائے برالدو کے کنارے کنارے چلتے ہوئے کسی حد تک میری کمزوری سے واقف ہو چکا تھا، اُس نے فقرہ کسا:
‘‘ ڈاکٹر صاحب نل تر نالے کے پانیوں سے نظر چرانے کی کوشش میں آپ بار بار اس طرف کی آنکھ بند کر رہے ہیں۔ خیر تو ہے ناں ؟‘‘
 میں نے عرفان کی شر انگیزی پر کوئی توجہ نہ دی اور سر جھکائے سفر جاری رکھا۔
’’سر جی آپ نے وہ محاورہ نہیں سنا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ ایک نہ ایک دن نالے کے کنارے اٹک جائے گی۔‘‘  عرفان باز آنے والا نہیں تھا۔
’’بکرے کی ماں نہیں بکرے کا باپ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے تصحیح کی۔’’ڈاکٹر صاحب ادبی آدمی ہیں، گرامر کی غلطی معاف نہیں کریں گے۔‘‘
 مجھے علم نہیں تھا کہ شگوفے چھوڑنے والوں کی زبان اتنی کالی ہے۔
 ہم نے ایک سنگلاخ عبور کی اور دوسری پر سے گزرنا چاہتے تھے کہ دونوں کے درمیانی خلا میں ایک پُر زور پہاڑی نالا حائل ہو گیا۔اس طوفانی نالے پر پل بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ پتھروں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا اور پتھروں پر چل کر اسے با آسانی عبور کیا جا سکتا تھا۔نالے کے بہاؤ میں چھوٹے چھوٹے پتھر لڑھکتے تھے اور بڑے پتھروں سے ٹکرا کر عجیب قسم کا شور پیدا کرتے تھے۔ عرفان اور طاہر اس ندی نما نالے کے کنارے پہنچے۔ چند لمحے تفصیلی جائزہ لے کر قدم جمانے کیلئے پتھروں کا انتخاب کیا اور اطمینان سے نالا عبور کر گئے۔میں نالے کے کنارے پہنچ کر سچ مچ اٹک گیا۔ کنارے کے فوراً بعد نظر آنے والا پتھر اچھا خاصا گول مٹول تھا اور میرا خیال تھا کہ جونہی اس پر قدم رکھا گیا،یہ لڑھکنا شروع کر دے گا۔ طوفانی دھارے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بلند و بالا جھاگ بھی دشواری پیدا کر رہے تھے۔ یہ گھنے جھاگ ’’راستے کے پتھروں‘‘  کو چھپا لیتے تھے اور پتھریلا راستہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ میرا تذبذب دیکھ کر بھٹہ صاحب نے فرمایا :
’’ڈاکٹر صاحب کیٹ واک کی پریکٹس کہیں اور جا کے کر لینا،فی الحال نالا عبور کر لیں۔  وقت بہت کم ہے۔‘‘
میں نے پتھر پر قدم رکھا ہی تھا کہ عرفان نے ’’ذرا سنبھل کے‘‘  کی ہانک لگائی۔ میں سنبھلنے کی کوشش میں پھسل گیا۔پتھر میری توقعات سے زیادہ ثابت قدم نکلا۔ اس نے ہلنے جلنے کی کوشش نہیں کی اور میں لڑھکنے سے بچ گیا۔سوچ رہا تھا آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹ جاؤں کہ عرفان نے ایک مرتبہ پھر چیخ و پکار کی:
’’سر جی پھڑوپھڑو،نئی تے گیا جے۔‘‘  عرفان نے شور مچایا۔
’’کیا پکڑوں ؟‘‘ میں نے جھلا کر پوچھا۔
’’کیمرہ۔ او چلیا جے۔‘‘
 میں نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا اور مزید بوکھلا گیا۔’’کیٹ واک‘‘  کے دوران کیمر ے کا سٹریپ کندھے سے پھسل گیا تھا اور کیمرہ نالا برد ہو کر آہستہ آہستہ دور ہوتاجا رہا تھا۔ میں نے تیزی سے جھک کر سٹریپ پکڑنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں تھوڑا سا لڑکھڑا گیا۔ لڑکھڑاہٹ کے دوران سٹریپ خود بخود گرفت میں آگیا اور سونی سائبر  شاٹ نل تر نالے کے پانیوں میں غائب ہونے سے بال بال بچا۔ عرفان اندازہ کر چکا تھاکہ میں نالے میں قدم رکھتے ہوئے جھجک رہا ہوں۔  وہ پتھر پھلانگتا ہوا میری طرف آیا اور میں نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے سہارے نالا عبور کیا۔ طاہر نے یہ پورا منظر مووی کیمرے میں محفوظ کر لیا۔اُ س کا خیال تھا کہ یہ منفرد شاٹ مجھے شرمندہ کرنے اور مذاق اڑانے کے کام آئے گا،لیکن مووی کیمرہ طاہر سے زیادہ با مروت ثابت ہوا۔اس شرمناک منظر کی ’’کیمرہ بندی‘‘ دیکھ کر اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں کہ کون کس کو ’’پار لنگھا‘‘  رہا ہے؟
دوسرے کنارے پر پہنچ کر میں نے جھینپ مٹانے کیلئے گرجنا برسنا شروع کر دیا کہ عرفان کی ’’بے فضول‘‘  ہدایات اور چیخ و  پکار سے گھبرا کر میرا پاؤں پھسل جاتا تو کیا ہوتا ؟
’’بہت اچھا ہوتا۔علامہ اقبال کا شعر نہیں سنا آپ نے؟‘‘
’’کون سا شعر؟‘‘
وہ ایک پھڈا جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار پھڈوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
’’واہ  … واہ … سبحان اللہ … اپنا صوفیانہ شعر سن کر علامہ مرحوم کی روح یقیناً جھوم اٹھی ہو گی۔ اس خوبصورت شعر کی شرح بھی بیان فرما دیں۔ سیاق وا سباق کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘  بھٹہ صاحب نے فرمائش کی۔
’’اس کلام کا سیاق و اسباق سمجھنے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اس گمنام نالے میں پھسل کر پتھروں سے سر پھٹول کرتے ہوئے دریائے نل تر کے طوفانی دھارے میں تشریف لے جائیں اور اس جہانِ فانی کے ہزاروں پھڈوں سے نجات حاصل کریں۔  ماشاء اللہ، جزاک اللہ!‘‘  عرفان کے بجائے میں نے تشریح کی۔
’’جی نہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہ ممولا فطرت نالا بہت زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اس میں گرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑے ہونا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اور ڈگمگانے کے بعد سنبھلنے والا شاہین صفت کوہ نورد ہر قسم کے بے بنیاد خوف سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ عرفان نے اپنے نکتہ نظر سے سیاق و اسباق بیان کیا۔
’’بہت خوب  … آپ واقعی اقبال پر اتھارٹی ہیں۔ ذرا یہ بھی فرما دیں کہ اقبال صاحب اسی طرح ڈرتے رہے تو دئینتر پاس کیسے عبور کریں گے؟‘‘
’’فکر نہ کریں، میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں۔  انھوں نے میرے ساتھ بھانگسہ نالا عبور کیا جو واقعی خطرناک تھا۔ گونر فارم کے نزدیک لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے سے گزرتے ہوئے انھوں نے کئی تیز رفتار نالے عبور کئے اور ڈگمگانے کا نام تک نہیں لیا۔یہ بنئے کے بیٹے کی طرح کچھ دیکھ کر ہی گرتے ہیں، بے فضول میں کبھی نہیں پھسلتے۔‘‘
عرفان نے میرے حق میں ایک لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ مجھے علم ہے کہ یہ تقریر کیوں فرمائی گئی۔ ایک اچھا ٹیم لیڈر بخوبی جانتا ہے کہ ٹیم کے رکن کو کس وقت حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور کب خوش فہمی میں مبتلا کرنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ عرفان اس فن کا ماہر نہ ہوتا تو میں دئینتر پاس ٹریک کیوں کرتا؟
نالے سے آگے کچھ دور تک لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ تھا جہاں پتھر ہی پتھر تھے۔ اس کے بعد دوبارہ سرسبز پہاڑی راستہ شروع ہوا،اور ایک تنگ موڑ پر اچانک غائب ہو گیا۔
میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔
یہ ایک سکری زدہ چٹان کا انتہائی ڈھلوانی کنارہ تھا جو سیدھا نل تر نالے تک پہنچتا تھا۔ میرے ساتھی نظروں سے اوجھل تھے اور مجھے علم نہیں تھا کہ وہ یہاں سے کیسے گزرے تھے۔میں نے ناپید راستے کے بجائے چٹان کے اوپر سے گزرنے کا فیصلہ کیا اور آسانی سے نہ صرف چٹان سر کرلی بلکہ چند منٹ میں لینڈ سلائیڈنگ سے تباہ ہونے والا حصہ بھی عبور کر لیا۔ پگڈنڈی دوبارہ نظر آئی … اور میرے ہوش اُڑ گئے۔
نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔پگڈنڈی تک ایک عمودی ’’ڈراپ‘‘  تھا جس کے اختتام پر عرفان ٹانگے پسارے بیٹھا تھا اور میرا مذاق اڑاتا تھا۔
’’آ جائیں  … آ جائیں  …  رک سیک کا نشانہ لے کر چھلانگ لگا دیں۔  بہت آسان راستے سے تشریف لائے ہیں آپ۔‘‘  عرفان نے رک سیک آگے سرکاتے ہوئے کہا۔
’’یہ مذاق کا کون سا موقع ہے؟‘‘  میں روہانسا ہو گیا۔
’’مذاق میں نہیں، آپ کر رہے ہیں۔ ‘‘  عرفان اُٹھ کھڑا ہوا اور نہایت سنجیدہ ہو گیا۔ ’’آپ دئینتر پاس ٹریک پر آئے ہیں یا انارکلی کی سیر کرنے تشریف لائے ہیں ؟ اس طرح ڈرتے رہے تو ہو چکا ٹریک۔‘‘
’’میں آیا نہیں، لایا گیا ہوں۔ ‘‘  میں نے اسے یاد دلایا۔
’’آپ اس لیے لائے گئے ہیں کہ دئینتر پاس ٹریک کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں سے طاہر گزر سکتا ہے وہاں سے آپ کیوں نہیں گزر سکتے؟‘‘
’’جناب عالی !یہ جھاڑ پٹی بعد میں کی جا سکتی ہے۔فی الحال یہ فرمائیں کہ میں نیچے کیسے اتروں ؟‘‘  میں نے اسے مسکا لگانے کی کوشش کی۔
’’واپس جائیں اور سیدھے راستے سے تشریف لائیں۔ ‘‘  عرفان مسکرایا۔
’’واپس جاؤں ؟‘‘  میں دم بخود رہ گیا۔
’’نہ جائیں، براہِ راست یہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ ‘‘  عرفان نے بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رک سیک کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے اُسے غم و غصے سے لبریز نظروں سے گھورا۔ نیچے اترنے کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا،اور کان دبا کر واپس ہو لیا۔
عرفان کے دلائے ہوئے ’’تاؤ‘‘  اور واکنگ سٹک کا اعجاز تھا کہ میں سکری نما راستے سے اتنی آسانی سے گزر گیا کہ خود مجھے یقین نہیں آیا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب عرفان کے پاس پہنچ چکے تھے۔مجھے دیکھتے ہی ان کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور مجھے اندازہ ہو گا ا کہ عرفان انھیں میری حماقت سے آگاہ کر چکا ہے۔
’’اس پہاڑی کی چوٹی سے ایک منفرد منظر درشن دیتا ہے۔‘‘  میں نے اطلاع دی۔
’’اچھا؟ کترینہ کیف ڈانس کر رہی ہے؟‘‘  عرفان نے والہانہ انداز میں پوچھا۔
’’آپ اگر وہاں کا چکر لگا آئیں تو کترینہ شطرینہ بھول جائیں گے۔‘‘
’’کترینہ کو میں یہاں بیٹھے بیٹھے بھی بھول سکتا ہوں، لیکن ایک با موقع محاورہ بہت دیر سے تنگ کر رہا ہے۔ یاد آتا ہے،نہ بھولتا ہے۔‘‘
’کون سا ؟‘‘  بھٹہ صاحب نے پُر شوق لہجے میں پوچھا۔
’’ٹھیک طرح یاد نہیں آ رہا۔یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو سو پیازوں کا ذائقہ یاد آنے لگتا ہے۔‘‘  عرفان نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔
’’اور تڑاق تڑاق پڑنے والے سو جوتے یاد نہیں آتے۔‘‘  میں نے جلے کٹے لہجے میں محاورہ مکمل کیا۔
’’سبحان اللہ!میرا مطلب ہے استغفراللہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے داد دی۔
سفر دوبارہ شروع ہوا۔ نل تر وادی کی دلکشی بدستور ہمارے ساتھ سفر کر رہی تھی،لیکن کافی دیر سے محسوس ہو رہا تھا کہ منظر یکسانیت کا شکار ہو چکا ہے۔بائیں ہاتھ نل تر نالا اور نالے کے اُس پار ٹوئن پیک، شانی پیک اور’’سکھیوں‘‘  کے اوپر منڈلاتی ہوئی گھنگھور گھٹائیں۔ دائیں جانب کے سبزہ زار البتہ بعض اوقات سنگلاخ چٹانوں سے ’’واری وٹہ‘‘  کرتے رہتے تھے۔ہم اس منظر سے بہت حد تک مانوس ہو چکے تھے اس لیے رفتار میں کسی حد تک تیزی آ گئی اور ہم سر جھکا کر چلتے ہوئے گوپا نامی بستی کے قریب پہنچ گئے۔بنگلا کی طرح گوپا بھی ایک بکر وال بستی ہے جو صرف موسمِ گرما میں آباد ہوتی ہے۔اس بستی کے لکڑی اور پتھروں سے بنائے گئے جھونپڑوں کا کلاسیکل نام ’’شیفرڈ ہٹس‘‘  (Shephered Huts) ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں اب بھی اَن چھوئی فطرت بسیرا کرتی ہے۔ افسانوی،رومانوی اور طلسماتی ماحول کا لالچ دے کر کوہ نوردوں کو ایسی وادیوں میں ٹریکنگ کی ترغیب دی جاتی ہے جہاں شیفرڈ ہٹس پائے جاتے ہوں۔ مغربی ٹریکرز کے اعزاز میں شیفرڈ ہٹس کی ’’رومانیت‘‘  یقیناً  آشکار ہو جاتی ہو گی،ہمارے حصے میں گوپا کے چند ایسے نونہال آئے جن کے جسم پر موجود لباس ناکافی تھا، پاؤں میں’ جوتے ناکافی تھے، ہڈیوں پر منڈھا ہوا گوشت ناکافی تھا اور اُن کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے سرخ خلیات ناکافی تھے۔ ان بچوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہاں زندگی کتنی کٹھن تھی۔ایک یا دو کمروں پر مشتمل کچے پکے مکانات، ضروریاتِ زندگی نایاب، صحت کی سہولیات مفقود اور تعلیم؟
’’یہ ننھی منی گڑیا رانی سکول جاتی ہے؟‘‘۔  عرفان نے ایک بچی سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے سوال کیا۔
ننھی منی گڑیا رانی یہ پہیلی بوجھنے میں ناکام رہی اور حیران حیران نظروں سے عرفان کی طرف دیکھنے لگی۔وہ اردو سے ناواقف تھی۔عالم خان نے مترجم کا کردار ادا کیا اور عرفان کا سوال بچی تک پہنچا دیا۔بچی نے جواباً کچھ کہا اور عالم خان ہنسنے لگا۔
’’یہ پوچھتا ہے سکول کدھر ہوتا ہے؟‘‘
’’یہاں سکول نہیں ہے؟‘‘  عرفان حیران ہوا۔
’’سکول نل تر میں ہوتا ہے۔ادھر نہیں ہوتا۔ہم روز سکول جاتا اے۔‘‘  ایک بچے نے فخریہ انداز میں بتایا۔
’’کتنی دیر میں پہنچتے ہو وہاں ؟‘‘
’’دیر میں نہیں پہنچتا۔دیر میں پہنچتا اے تو ماسٹر صیب ڈنڈا چڑھاتا اے۔ ام بوت جلدی گھر سے نکلتا اے،شام کو دیر سے واپس آتا اے۔‘‘
گوپا سے روزانہ پیدل نل تر جانا آسان کام نہیں تھا۔ہمارے بچے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کی جنت نظیر وادیوں میں بسیرا کرنے والے بچے علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں۔ کاش اس وقت برخوردار محمد دانیال راؤ میرے ساتھ ہوتا۔ دانیال کی ٹیوشن اکیڈمی گھر سے بیس منٹ کی واک یا پانچ منٹ کی سائیکل سواری کے فاصلے پر ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ اکیڈمی تک سائیکل چلا کر بری طرح تھک جاتا ہے اس لیے فوری طور پر موٹر سائیکل کا بندوبست کیا جائے۔دانیال کی ملاقات اس بچے سے ہو جاتی جو روزانہ دو گھنٹے پیدل سفر کر کے گوپا سے نل تر جاتا ہے تو اُس کے خیالات میں صحت مندانہ تبدیلی کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔
عرفان نے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کی۔ بھٹہ صاحب نے بچیوں کے لباس پر کی گئی کشیدہ کاری کی طرف توجہ دلائی۔لباس انتہائی معمولی کپڑے سے تیار کیا گیا تھا لیکن اسے رنگین موتیوں اور دھاگوں کے تال میل سے دلکش بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔ یہ کوشش اس بات کا ثبوت تھا کہ ذوقِ جمال امارت سے مشروط نہیں۔
مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی جب کسی بچے نے ہمارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ شمالی علاقہ جات میں غیر ملکی سیاحوں کی باقاعدہ آمدورفت کی وجہ سے بچوں کا ’’ڈالر ڈالر‘‘  کہتے ہوئے کوہ نوردوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ حرکت پاکستانی کوہ نوردوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہے اور پاکستانی معاشرے کا انتہائی تاریک رخ پیش کرتی ہے۔ آج کل کچھ این۔جی۔اوز کی کوششوں کے نتیجے میں بچوں نے ڈالر کے بجائے پین (Pen) طلب کرنا شروع کر دیے ہیں، لیکن الفاظ کی تبدیلی چہرے کے تاثرات تبدیل نہیں کر سکتی۔
 عرفان نے ان بچوں میں ٹافیاں اور چاکلیٹ تقسیم کیے۔ بچوں کے چہروں کی سرخی یہ معمولی تحفے پا کر مزید شوخ ہو گئی اور اُن میں سے کئی ایک نے ’’تھینک یو‘‘  ادا کیا۔ ہم نے گوپا کے معصومین کے ساتھ گروپ فوٹو بنایا اور گوپا کی غربت و افلاس میں پرورش پانے والے غیرت مند ’’گوپیوں‘‘  کا خوشگوار تاثر لیے اپنے راستے پر گامزن ہو گئے۔
٭٭٭



منظروں کی ڈھیری پر شام کا بسیرا ہے

What humbugs we are,  pretend to live for Beauty,  never see the Dawn
Logan Pearsall Smith
ہم کتنے احمق ہیں، خوبصورتی کی تلاش میں زندگی گزار دیتے ہیں اور طلوعِ آفتاب کا منظر نہیں دیکھتے
لوگن پیئرسل سمتھ

گوپا سے آگے راستہ دوبارہ ’’اے بیوٹی فل پائن فارسٹ‘‘  کا عنوان بن گیا۔سرسبز جھاڑیوں اور خوش رنگ پھولوں سے گھرے ہوئے اس راستے پر پھسلنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے میں ٹاٹا اینڈ بائی بائی کے انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا اور نل تر نالے کے جلترنگ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لوئر شانی کی طرف بڑھتا رہا۔میری بے خودی میں عالم خان کی چیخ و پکار خلل انداز ہوئی جو ایک سرسبز بلندی کی چوٹی کے قریب پہنچ کر مجھے اپنی جانب آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میں اتنی ہموار چہل قدمی کے بعد کوہ پیمائی کے موڈ میں نہیں تھا اس لیے ٹھٹک گیا۔ عالم خان کو میرا رکنا پسند نہ آیا اور اس نے اشارے سے تیز تیز چلنے کا حکم دیا۔ حکمِ گائیڈ مرگِ مفاجات پر عمل کرتے ہوئے میں نے بلندی کا سفر شروع کر دیا۔یہ چڑھائی اتنی عمودی تھی کہ چند منٹ بعد ہی میری ’’بس‘‘  ہو گئی اور میں نے ایک پتھر پر بیٹھ کر ہانپنا شروع کر دیا۔ عالم خان نے ایک مرتبہ پھر مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا لیکن میں نے کوئی توجہ نہ دی۔میرا خیال تھا کہ ساتھیوں کی معیت میں یہ سفر نسبتاً آسان ہو جائے گا۔طاہر اور بھٹہ صاحب نے میری تقلید کی اور ایک نزدیکی پتھر پر تشریف فرما ہو کر عرفان کا انتظار کرنے لگے۔ عرفان چند کوہستانی پھولوں کی دلکشی سے متاثر ہو کر ان کی تصاویر بنانے کے چکر میں پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ منظر نامے میں داخل ہوا اور ہماری طرف توجہ دیے بغیر نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ ہم نے با جماعت شور مچا کر اسے سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کی۔
’’سر جی … اِدھر … اِدھر۔‘‘
عرفان رک گیا۔
’’آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘  اس نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’لوئر شانی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لوئر شانی کیمپنگ سائٹ سامنے نظر آ رہی ہے۔وہاں جانے کے لیے آسمان پر ٹنگنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’عالم خان اور پورٹرز اسی طرف گئے ہیں۔ ‘‘
’’انھیں جانے دیں۔ میں یہاں سے گزر چکا ہوں اور مجھے علم ہے کہ یہ پگڈنڈی سیدھی لوئر  شانی جاتی ہے۔‘‘
’’سر جی، پہاڑی راستے بدلتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آجکل لوئر شانی جانے کے لیے اس پہاڑی پر سے گزرنا ضروری ہو۔‘‘
’’جی نہیں !لوئر شانی پہنچنے کے لیے کسی چکر پھیری کی ضرورت نہیں۔ آپ بے فکر ہو کر میرے ساتھ آئیں۔ یہاں راستہ بھولنے کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘
عالم خان بے شک ہمارا گائیڈ تھا، لیکن عرفان ایک آسان اور سیدھا راستہ دکھا رہا تھا۔ ہم نے بلندی کا جائزہ لیا اور گائیڈ کی راہنمائی مسترد کر کے عرفان کے ساتھ ہو لیے۔ عالم خان نے چیخ و پکار کر کے ہمیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہم نے کان نہ دھرے۔ تقریباً چھ بجے ہم ایک پتھریلے لیکن انتہائی سرسبز  میدان (Meadow)میں پہنچے۔ اس میدان کی خوبصورتی نے قدموں میں بیڑیاں ڈال دیں۔  لشکارے مارتی ہوئی گھاس میں رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے اور بہتے پانیوں کے صاف و شفاف دھارے سبزہ زار کو باغیچہ نما قطعات میں تقسیم کرتے تھے۔ میدان کی غیر متوقع ہمواری دعوتِ قیام دیتی تھی۔ٹریک کے پہلے دن جسم طویل واک کا عادی نہیں ہوتا اور پٹھوں میں غیر معمولی کھنچاؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اس لیے تین گھنٹے کی مسلسل واک کے بعد اس فطری قیام گاہ سے صرفِ نظر کر کے گزر جانا آسان کام نہیں تھا۔
’’یہ لوئر شانی ہے؟‘‘  میں نے کاندھوں پر لدے ہوئے رک سیک کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے ُپر شوق انداز میں سوال کیا۔
’’یہ لوئر شانی نہیں ہے۔‘‘ عرفان نے نہایت رکھائی سے جواب دیا۔’’لوئر شانی ابھی کافی دور ہے۔نیت خراب کرنے سے بہتر ہے سفر جاری رکھا جائے۔‘‘
’’فطرت کے ُپر کیف سراپے پر نیت خراب کرنا کترینہ کیف پر نیت خراب کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘
’’عمر کی نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد میں بھی اسی قسم کے ’’کھسروانہ‘‘  اقوالِ زریں نشر کروں گا۔‘‘ عرفان نے نہایت خلوص سے وعدہ کیا۔
’’عرفان صاحب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ہم ٹریکنگ کے لیے نکلے ہیں یا دئینتر پاس کراس کرنے کی اولمپک چمپئن شپ میں حصہ لے رہے ہیں ؟بے شک منزل دئینتر پاس ہی ہے، لیکن ہمارے پاس اگر اتنے خوبصورت مقام پر چند لمحے گزارنے کا وقت نہیں تو ہم ٹریک کی لطافت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس کی مشقت سمیٹنے میں مصروف ہیں جو کوہ نوردی کے پہلے اصول کے سخت خلاف ہے۔‘‘
عرفان میری سنجیدگی پر حیران ہوا، اور جواب دینے کے بجائے اپنا رک سیک ایک پتھر کے سہارے ٹکا کر سبزے کے فرش پر نیم دراز ہو گیا۔
یہ سبزہ زار چاروں طرف سے سبز پوش چوٹیوں میں گھرا ہوا تھا۔ندیا کے اس پار برفیلی بلندیوں سے کئی آبشار جنم لیتے تھے جو فضا میں موسیقی کی جھنکار پیدا کرتے ہوئے جھرنوں میں تبدیل ہوتے تھے اور نل تر نالے کے پانیوں میں گم ہو جاتے تھے۔طاہر کو بھی یہ منظر کافی پسند آیا اور اس نے مووی کیمرہ نصب کر کے آبشاروں اور جھرنوں کی فلم بندی شروع کر دی۔ میں اور بھٹہ صاحب سٹل فوٹوگرافی میں مصروف ہو گئے۔
اس منظر کی پُر کیف فضائیں ایک بے ہنگم شور سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ یہ عالم خان تھا جو ہمیں متوجہ کرنے کے لیے ایک کنگ سائز کفگیر کی مدد سے ٹیڑھی میڑھی بالٹی پر تھاپ دے کر ’’طبلہ‘‘  بجا رہا تھا۔
ہمارے نزدیک پہنچ کر اس نے بالٹی زمین پر رکھی اور ہانک لگائی:
’’چائے پی لیں سر۔‘‘
ویرانوں کی برفیلی شام میں، تھکاوٹ سے چور جسم شدت سے ایک کپ چائے یا کافی کا طلب گار ہو، آس پاس بندہ نہ بندے کی ذات ہو،چائے بنانے اور نوش فرمانے کے لوازمات نیلے ڈرم اور بوریوں میں بند ہوں، انھیں اٹھانے والے پورٹرز نہ جانے کہاں غائب ہوں، اور آپ ’’چائے پی لیں سر‘‘  کی نوید سن رہے ہوں تو یقین کر لینا چاہیے کہ بھاپ اڑاتی ہوئی یہ چائے فطرت کی طرف سے استقبالیہ کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔
ہم عالم خان کا ’’تاخیر زدہ فرار‘‘  بھول کر بالٹی کے گرد اکٹھے ہو گئے۔
’’یہ چائے پی کیسے جائے گی؟کپ سامان میں پیک ہیں۔ ‘‘  میں نے سوال کیا۔
’’کپ ہمارے پاس ہے نا سر۔‘‘ عالم خان نے کہا اور چمچ بالٹی میں گھما کر یکے بعد دیگرے چار عدد کپ برآمد کیے۔اس سے پہلے کہ ہم اس حرکت پر تبصرہ کر سکیں وہ کپ دھونے کے لیے نالے کی طرف چلا گیا۔
’’یہ چائے ہے یا گندے مندے کپوں کا جوس؟‘‘  میں نے بھنا کر کہا۔’’کون بے وقوف یہ چائے پینا پسند گا؟‘‘
’’جسے اس وقت چائے کی طلب ہو رہی ہے۔‘‘  عرفان نے کہا۔
’’اس نان سنس کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کپ الگ شاپر میں باندھ لاتا۔‘‘
’’کیسے لاتا سر؟ہمارے دو ہاتھ ہیں تو تین چیزیں کیسے اٹھا لاتا؟‘‘ عالم خان کپ دھونے کے بجائے انھیں ٹھنڈے پانی میں غوطہ دے کر واپس آ چکا تھا۔
’’عقل استعمال کر کے۔ چمچ تو چائے میں ڈالنا ہی تھا، تم اسے بالٹی میں ڈال لیتے۔ کپ الگ شاپر میں باندھے جا سکتے تھے۔‘‘  عرفان نے سمجھایا۔
’’پھر ہم بالٹی کیسے بجاتا؟‘‘  عالم خان کے لہجے میں ہلکا سا اکھڑ پن جھلکنے لگا۔
’’بالٹی بجانا کیوں ضروری تھا۔‘‘ میں نے غصے سے پوچھا۔
’’تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ عالم خان آپ کے لیے چائے لاتا ہے۔‘‘
’’بالٹی کی آواز سن کر ہمیں بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ تم چائے لا رہے ہو۔‘‘
’’آپ کی جگہ گورا لوگ ہوتا تو فوراً سمجھ جاتا کہ گائیڈ بالٹی کھڑکاتا ہے تو چائے لاتا ہے، اور کیا لا سکتا ہے؟‘‘
میں عالم خان کی پیش کردہ چائے پینے سے کسی حد تک گریزاں تھا۔عالم خان نے میرے تذبذب کا اندازہ لگایا اور چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہوا۔
’’یہ خالص دودھ کا چائے ہے سر اور ہم نے اس میں تازہ مکھن بھی شامل کیا ہے۔ اسے ہمارے علاقے کا خاص تحفہ سمجھو۔ ہم بڑے شوق سے بنوا کر لایا ہے۔ آپ لوگ نہیں پیتا ہے تو ہم کو بہت افسوس ہو تا ہے۔‘‘
میں نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ذائقہ واقعی نرالا تھا۔
عالم خان کے بقول اس نادر و نایاب چائے میں زو کے تازہ دودھ کا تراوٹ تھا، گھر میں بنائے گئے مکھن کا چکناہٹ تھا، مقامی جڑی بوٹیوں کا مہک تھا اور عالم خان کے خلوص کا نمک تھا، چینی بالکل نہیں تھا۔ابتدائی چند چسکیوں پر طرح طرح کے منہ بنانے کے بعد میں اس پہاڑی ذائقے سے اس قدر متاثر ہوا کہ ٹریک کے بقیہ دنوں میں کئی مرتبہ اس کی فرمائش کی اور عالم خان نہ جانے کہاں کہاں سے اجزا فراہم کر کے میری فرمایش پوری کرتا رہا۔چائے کے بعد عرفان نے عالم خان سے باز پرس شروع کی۔
’’تم غائب کہاں ہو گئے تھے؟‘‘
’’آپ کو چائے پلانا تھا او رپورٹر کو جوان بنانا تھا،اس لیے بستی میں چلا گیا تھا۔‘‘  اُس نے کھلکھلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پورٹر جوان ہو گئے؟مگر کیسے؟‘‘  میں نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’ہم نے بولا تھا کہ ان کو جوان ہونے والا پانی پلائے گا تو وہ جوان ہو جائے گا۔ ہم نے پانی پلایا اور وہ جوان ہو گیا۔‘‘
’’مجھے کیوں نہیں پلایا وہ پانی؟‘‘
’’ہم آپ کو بلاتا تھا۔آپ آیا نہیں تو پانی کیسے پلاتا؟‘‘
’’مجھے عرفان صاحب نے منع کر دیا تھا۔‘‘
’’عرفان صاحب نہیں چاہتا ہو گا کہ آپ جوان بن جاؤ۔‘‘
’’یہ کیا بکواس ہے۔‘‘  عرفان بگڑ کر بولا۔’’ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ بہت زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پورٹرز دیکھے بغیر اس کی بات پر یقین کر لیا؟آخر وہ جواں شدہ پورٹرز ہیں کہاں ؟‘‘
’’وہ آتا ہے ناں۔ ‘‘  عالم خان نے اُس جانب اشارہ کیا جدھر سے وہ آیا تھا۔
ہمارے عقب والی بلند پہاڑی سے دو پورٹرز  اتر رہے تھے جن کے شانوں پر سامان لدا ہوا تھا۔وہ ابھی کافی دور تھے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ نہ صرف جوان بلکہ نوجوان ہیں۔
’’یہ تو سچ مچ کمال ہو گیا،ریشماں جوان ہو گیا۔عالم خان تم فٹافٹ واپس جاؤ اور میرے لیے آبِ جوانی کی بوتل بھر لاؤ۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب پلیز!آپ ا چھی طرح جانتے ہیں کہ پورٹرز جوان نہیں ہوئے، تبدیل ہو گئے ہیں۔  یہ اُن بزرگوں کے بیٹے یا بھتیجے ہوں گے۔عالم خان تم مسخرہ پن ختم کر کے چلنے کی تیاری کرو۔ وقت بہت کم ہے۔‘‘
’’اب کدھر جاتا ہے ؟اس جگہ کیمپ کرتا ہے ناں۔ ‘‘   عالم خاں نے اعلان کیا۔
 ’’کیمپ لوئر شانی پہنچ کر ہو گا۔‘‘ عرفان نے جوابی اعلان کیا۔
’’لوئر شانی تقریباً دو تین گھنٹے کا دوری پر ہے۔ آ پ دیکھتا ہے کہ اندھیرا پھیل رہا ہے اور موسم بہت خراب ہے۔بارش شروع ہو گیا تو بہت زیادہ گڑبڑ ہو گا۔ ہمارا خیال ہے ادھر کیمپ لگانا زیادہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’کل بھی بارش ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘‘ عرفان نے اعتراض کیا۔
’’سر روشنی تو ہو گا ناں۔ اب تھوڑا دیر میں اندھیرا ہوتا ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن اس طرح کل کی سٹیج لمبی ہو جائے گی۔‘‘  عرفان پریشان ہو گیا۔
’’کتنا لمبا ہو جائے گا؟کل اگر سات بجے بھی نکلتا ہے تو شام سے پہلے بیس کیمپ پہنچتا ہے۔ آج آپ نے خواہ مخواہ دیر کیا۔‘‘
عرفان نے قیام کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں اعتماد میں لینا مناسب سمجھا۔ہم اس سلسلے میں کہاں کے دانا تھے ؟کس ہنر میں یکتا تھے کہ کوئی مشورہ دیتے۔اپنی ’’نا اہلیت‘‘  چھپا نے کے لیے اُس کی اہلیت پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ایسے ٹیم لیڈر کو لیڈری چھوڑ کر ’’بن باس‘‘  لے لینا چاہیے جو یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ ٹریک کا پہلا پڑاؤ کہاں کیا جائے؟ عرفان کے چہرے پر شاہانہ جاہ و جلال کے تاثرات ابھرے اور اس نے فیصلہ صادر کیا کہ اس جگہ سے فوراً بوریا بستر لپیٹ لیا جائے۔ پہلا پڑاؤ لوئر شانی ہی میں ہو گا۔
’’جلالی کیفیت میں کیے گئے اکثر و بیش تر فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ‘‘  میں نے نہایت اطمینان سے تبصرہ کیا۔
’’آپ آخر چاہتے کیا ہیں ؟ میری بات مان رہے ہیں، نہ خود کوئی مشورہ دیتے ہیں۔ ‘‘  عرفان زچ ہو گیا۔
’’ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ پر تھوی راج کپور کے ’’مغل اعظمی‘‘  لہجے کے بجائے اپنی منظورِ نظر کترینہ کپور کے دلبرانہ لہجے میں حکم صادر فرمائیں تاکہ بے ترتیب دھڑکنیں اعتدال پر آئیں۔  آپ کے لہجے کی گھن گرج پہلے سے کانپتی ہوئی ٹانگوں کو مزید لرزا رہی ہے، لوئر شانی تک سفر کیسے کٹے گا؟‘‘
عرفان کے چہرے پر تناؤ کی جگہ ایک لمبی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’‘  کترینہ کپور نہیں کترینہ کیف … اور …۔ ‘‘
’’کترینہ کیف نہیں، کرینہ کپور۔‘‘  میں نے پینترا بدلا۔
’’ایک ہی بات ہے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان دونوں کے نام پر دل کی دھڑکنیں مزید تیز اور بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ انھیں اعتدال پر لانا چاہتے ہیں تو اپنے جیسے سال خوردہ چہرے کا تصور کریں۔ ‘‘
’’مثلاً۔‘‘ میں نے عرفان کی خیال آفرینی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سوال کیا۔
’’میرے خیال میں مسرت نذیر مناسب رہے گی بشرطیکہ تصور کرنے سے پہلے جھریاں چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا سرخی پوڈر صاف کر لیا جائے۔‘‘
’’ہوشیار … خبردار … لپ سٹک ہاتھ سے صاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے شرط عائد کی۔
’’پھر کیسے صاف کی جائے؟‘‘ عرفان نے دریافت کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب اتنے بچے بھی نہیں ہیں کہ ہاتھ استعمال کیے بغیر لپ سٹک صاف کرنے کے طریقے نہ جانتے ہوں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’استادِ محترم!یہ آپ بول رہے ہیں ؟‘‘ میں حیران ہو۔
’’صحبت کا اثر ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’مگر … اس طرح تو ڈاکٹر صاحب خدا نخواستہ شادیِ مرگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ‘‘  عرفان نے شرارت آمیز انداز میں تشویش ظاہر کی۔
میں ابھی اس تابڑ توڑ فقرے بازی کے جواب میں کچھ کہنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ نئے پورٹرز تشریف لے آئے اور زوردار انداز میں السلام علیکم کہنے کے بعد زبردستی گلے ملنا شروع کر دیا۔ عالم خان نے رسمِ تعارف نبھائی۔
’’یہ میر عالم ہے اور یہ شیر احمد۔‘‘
’’یہ شیر احمد ہے یا شیر بیگم؟‘‘  عرفان نے دورانِ بغل گیری شیر احمد کے نرم و نازک جسم پر پیار بھرے انداز میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وضاحت چاہی۔
عرفان کا مشاہدہ سو فیصد درست تھا۔شیر احمد کے لچکیلے اور نازک اندام جسم سے بھرپور نسوانیت پھوٹ رہی تھی۔رہی سہی کسر اس نے نیل پالش اور لپ سٹک سے استفادہ کر کے اور نہ جانے کس کی فرمائش پر کالا چولا ’’پا‘‘ کے پوری کر دی تھی۔عالم خان تعارف نہ کراتا تو ہم اس خاتون نما نوجوان کو شیر احمد کے بجائے شیر بیگم سمجھ کر ’’جپھی‘‘  کا دورانیہ اچھا خاصا طویل کر دیتے۔میر عالم اور شیر احمد شاید عرفان کا طنز سمجھ نہیں سکے۔ انھوں نے ایک مصنوعی اور بے تکی ہنسی کے ساتھ ملنے ملانے کا شغل جاری رکھا۔عالم خان نے بھی ایک عدد مسکراہٹ سے زیادہ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
عرفان نے اپنا رک سیک اٹھانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ دو عدد مزید السلام علیکم تشریف لے آئے۔یہ وہی ’’بابا جیز‘‘  تھے جو نل تر جھیل سے بطور پورٹر ہمارے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھیوں کے سہارے ہانپتے کانپتے ایک ٹیلے کی اوٹ سے نمودار ہوئے۔ ہمیں روانگی کے لیے تیار ہوتا دیکھ کر انھوں نے بیک زبان ایک مختصر لیکچر دیا اور اپنے نوے سالہ تجربے کی بنیاد پر مشورہ دیا کہ موسم اور راستے کے حالات اس وقت لوئر شانی جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اُن کا فرمانا تھا کہ کل دوپہر تک با آسانی بیس کیمپ پہنچا جا سکتا ہے تو اس وقت خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟
’’ٹھیک ہے  … لیکن اس فیصلے کی وجہ سے کل کی سٹیج بہت لمبی ہو گئی اور ہم شام تک بیس کیمپ نہ پہنچ سکے تو عالم خان اور پورٹرز کی ایک سٹیج کی اجرت کاٹ لی جائے گی۔‘‘ عرفان نے مشروط آمادگی کا اظہار کیا۔
’’آپ چلتا رہتا ہے تو ضرور پہنچتا ہے،چلتا ہی نہیں ہے تو کیسے پہنچتا ہے؟‘‘  عالم خان نے حسبِ عادت ٹانگ اڑائی۔
’’ہم اسی انداز میں چلیں گے جیسے آج چلے ہیں۔ ‘‘
’’پھر آپ ظہر کے بعد نہیں پہنچتا تو ہمارا بیٹا آپ سے کل کا سٹیج کا کوئی پیسا نہیں لے گا۔‘‘  بابا جی نے چیلنج قبول کیا اور عرفان نے رک سیک دوبارہ زمین پر رکھ دیا۔
’’او۔کے۔آج یہیں کیمپنگ ہو گی۔اس جگہ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ڈھیری۔‘‘
’’ڈھیری؟کس چیز کی ڈھیری؟‘‘
’’خوبصورتی کا ڈھیری صاب۔نظاروں کا ڈھیری۔ہم لوگ اس کو نیلو لوٹ بولتا ہے جس کا مطلب ہے سبزے کا ڈھیری۔‘‘ بابا جی نے جواب دیا۔
  نیلو لوٹ اسم با مسمّٰی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہم مناظر کی ڈھیری بلکہ ڈھیر پر تشریف فرما تھے۔
غروب ہوتے ہوئے سورج کی کرنیں برف پوش چوٹیوں پر رنگ و نور کی پھوار بن کر ایک طلسماتی منظر نامہ تشکیل دے رہی تھیں۔  قریب سے گزرنے والے نالے نے ایک چھوٹے سے گہرے اور ہموار نشیب میں ننھی منی جھیل کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس جھیل کے صاف و شفاف اور سراپا آئینہ پانیوں میں برف کا لبادہ اوڑھے سرسبز چوٹیاں رقص کر رہی تھیں۔  ٹوئن ہیڈ(جڑواں ) پیک اور شانی پیک کی بلندیوں سے اترنے والے رُپہلے  گلیشئرز ہمیں مسحور کرتے تھے۔ یہ دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے کے ملاپ کا بہترین منظر تھا:
منظروں کی ڈھیری پر شام کا بسیرا ہے
سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے
قیام کا فیصلہ سنتے ہی ہم لوگ بڑے بڑے پتھروں اور صاف ستھرے سبزے پر لمبے لیٹ ہو گئے۔ پورٹرز نے خیمے نصب کرنے شروع کر دیے۔عرفان کو ہماری ’’بیکاری‘‘  پسند نہ آئی اور اس نے حکم جاری کیا کہ خیمے خود لگائے جائیں تاکہ ٹیم کا ہر ممبر کیمپ لگانے میں  ماہر ہو جائے۔ ہم اس وقت کیمپنگ کی سپیشلائزین کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اس لیے عرفان کا حکم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ اس نے اپنے حکم کی لاج رکھنے کے لیے خود پورٹرز کی مدد کرنا شروع کر دی۔ اُسے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘  حرکت میں مبتلا دیکھ کر ہمیں بھی بہ شرم و حضوری ہاتھ پاؤں ہلانے پڑے اور ہم نے خیمے کی طنابیں کس کر ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی۔خیمے نصب ہو چکے تو میں نے اپنے پہلے ٹریک کی پہلی کیمپنگ سائٹ کا تفصیلی جائزہ لیا۔
ہمارے خیموں سے چند قدم کے فاصلے پر درختوں کے بوسیدہ تنوں کا بے ہنگم ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ جلانے والی لکڑیوں کا ڈھیر ہے اور کیمپ فائر کے لیے ایندھن کا کام دے سکتا ہے۔ ایک بزرگ نے انکشاف فرمایا کہ یہ بہک ہے اور اسکی لکڑی جلانا بہت بڑا معاشرتی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے۔
’’بہک کا کیا کرتے کیا ہیں ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’آپ کا مرضی ہے صاب۔ اس میں سو سکتا ہے، نماز پڑھ سکتا ہے، بارش سے بچ سکتا ہے۔آپ لوگ اندر چل کر دیکھواور کھانا مانا ادھر ہی کھاؤ۔‘‘
’’اندر کیسے جائیں ؟راستہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘‘
’’آپ ادھر چلو گے تو راستہ نظر آئے گا ناں۔ ‘‘
ہم بہک کے قریب آئے۔ بھوج پتر کے کئی درجن تنے ڈیڑھ دو فٹ گہرے نشیب کے گرد اس انداز میں کھڑے کیے گئے تھے کہ اوپر والے سرے ایک دوسرے سے مل کر مخروطی شامیانے کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جنوب مشرقی کونے میں دو تنوں کے درمیان تھوڑا سا خلا چھوڑ دیا گیا تھا جو دروازے کا کام دیتا تھا۔ اس دروازے میں سے کھڑے ہو کر گزرنا ممکن نہیں تھا، بیٹھ کر بلکہ رینگ کر ہی بہک کے اندر داخل ہُوا جا سکتا تھا۔اس قسم کی کثیر المقاصد ’’تنا گاہیں‘‘  (شیفرڈ ہٹس) بکروالوں کی پیشہ ورانہ زندگی کا ’’اٹوٹ انگ‘‘  ہیں اور آبادیوں سے دور واقع سرسبز چراگاہوں میں عام پائی جاتی ہیں۔  عالم خان نے پورٹرز کو حکم دیا کہ کچن کا سامان بہک میں منتقل کر دیا جائے۔ہم کتنے خوش نصیب ٹھہرے کہ بکروالوں کے افسانوی جھونپڑے میں رات کے کھانے کا شرف حاصل کرنے والے تھے۔
عالم خان کچن سجانے میں مشغول ہوا اور ہم ڈھیری کے طلسماتی ماحول سے سرمستی کی شراب کشید  کرنے کی کوشش کرنے لگے۔طاہر ٹوئن ہیڈ پیک او شانی پیک کا پینوراما  فلمبند کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میں، عرفان اور بھٹہ صاحب آبشار کے پانیوں کی رم جھم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سرد ہواؤں کی شوریدہ سری ناقابلِ برداشت ہو گئی تو ہم نے بہک کے گرم ماحول میں پناہ حاصل کی جہاں عالم خان ارد گرد سے چنی گئی لکڑیوں کی مدد سے الاؤ روشن کر چکا تھا۔ اس الاؤ کے گرد پتھروں سے بنائی گئی دیواروں پر ایک عدد ساس پین ’’چڑھا‘‘   ہوا تھا جس میں چکن ہاٹ اینڈ ساور سوپ تیار ہو رہا تھا۔
 بہک کی گرم فضا اور ڈھیری کی سرد ہوا کے تضاد میں نوش  کیے گئے گرما گرم سوپ کا اپنا مزا ہے جو ڈھیری آئے بغیر چکھا ہی نہیں جا سکتا۔ آپ نے یہ ذائقہ نہیں چکھا تو یقین کیجیے کہ زندگی کے ایک ان مول ’’سواد‘‘  سے محروم رہ گئے ہیں۔
سوپ کے بعد کھانے کی باری تھی۔ہمارا کھانا ڈبوں میں پیک تھا جو عالم خان کے حوالے کر دیا گیا۔عالم خاں ڈبہ پیک کھانے کا سسٹم اور بغیر لیبل ڈبوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
’’یہ ڈبہ کس کمپنی کا ہے؟‘‘ اس نے کھانے کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’کسی کمپنی کا نہیں ہے۔کھانا گھر میں پکا کر ڈبوں میں پیک کروایا گیا ہے۔‘‘
’’یہ ہمارے پیٹ پر لات مارنے والا سسٹم ہے۔‘‘ اس نے ڈبہ ڈھولکی کی طرح بجایا۔
’’کیا مطلب! تم نے پہلے یہ سسٹم نہیں دیکھا؟‘‘ ہم بھی حیران ہوئے۔
’’سسٹم دیکھا ہے۔اس میں گھر کا کھانا نہیں دیکھا۔ڈ بے والا کھانا اچھا نہیں ہوتا اس لیے ٹیمیں ایک آدھ ڈبہ ہی ساتھ لاتی ہیں۔  آپ بولتے ہو کہ گھر کا کھانا پیک کروایا ہے۔ سارا لوگ گھر کا کھانا لاتا ہے تو ہم کیا کرے گا؟‘‘
’’تم صبر کرے گا۔‘‘  بھٹہ صاحب نے تلقین کی۔
’’پارٹی خشک راشن ساتھ لائے اور ہم کھانا پکائے تو اتنا کھانا ضرور بچ جاتا ہے کہ ہمارا گزارا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’بچ جاتا ہے یا تم پکاتے اتنا ہو کہ بچ جائے۔‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
’’خودبخود پک جاتا ہے ناں سر۔‘‘  عالم خان نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’آپ گن گن کر ڈبے کھولے گا تو ہمارا کیا بنے گا ؟‘‘
’’ہمارے پاس ڈبوں کی کمی نہیں، تمہارا گزارا ہو جائے گا۔‘‘
’’شکریہ سر۔یہ ڈبہ کیسے کھلے گا؟‘‘
’’عالم خان تم کک ہونے کے دعوے دار ہو اور اتنا بھی نہیں جانتے کہ ڈبے کا ڈھکن ٹن کٹر سے کاٹا جاتا ہے۔‘‘ عرفان نے جھاڑ پلائی۔
’’ہم جانتا ہے سر۔مگر یہ نہیں جانتا کہ ٹن کٹر کدھر ہے؟‘‘
ٹن کٹر کہاں ہے؟
ہم نے ٹن کٹر خریدا ہی نہیں تھا تو کیسے بتا سکتے تھے کہ ٹن کٹر کہا ں ہے؟ ڈبہ کاٹنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کیے گئے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ایکوئپمنٹ پورا ہونا چاہیے۔ماچس اور ٹن کٹر جیسی معمولی چیزیں ٹریکنگ ایکوئپمنٹ کا انتہائی اہم جز ہیں۔ ‘‘  عرفان نے کہا۔
’’یہ اصول گلگت میں بتایا جانا چاہیے تھا۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔
’’بتایا تھا۔میں نے ذاتی سامان کی فہرست میں کثیر المقاصد چاقو لکھا تھا۔ آپ لوگوں نے اسے اجتماعی سامان میں شامل کیا اور خریدنے کی زحمت نہیں کی۔‘‘
’’کوشش کی تھی،دکاندار کو کثیر المقاصد کے معنی نہیں آتے تھے۔‘‘  میں نے بہانا بنایا۔
’’آپ ملٹی پرپز نائف یا ملٹی نائف کہتے تو وہ سمجھ جاتا۔‘‘
’’کثیر المقاصد کو اردو میں ملٹی پرپز کہتے ہیں ؟‘‘  میں نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا۔
’’سبحان اللہ!‘‘  بھٹہ صاحب نے فرمایا۔
ڈبے کا ڈھکن کاٹنا ٹینشن کا باعث بننے لگا تو عرفان نے ڈبہ ایک صاف ستھرے شاپر میں لپیٹ کر پتھر پر رکھا اور انتہائی محتاط انداز میں دوسرے پتھر سے ضرب لگائی۔ شاپر کھولا گیا تو ڈبے کا ڈھکن اکھڑ چکا تھا، جسے با آسانی ڈبے سے الگ کر دیا گیا۔
شیر احمد نے فنکارانہ انداز میں تالی بجا کر عرفان کی فنکاری کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
 ڈبہ ’’توڑنے‘‘  کا یہی طریقہ پورے ٹریک کے دوران استعمال کیا جاتا رہا۔
کھانا نسبتاً خاموشی سے کھایا گیا اور کھانے کے بعد بہک کے اندر کیمپ فائر منعقد کرنے کی کوشش کی گئی۔شیر احمد کی نسوانیت کا احترام کرتے ہوئے درخواست کی گئی کہ وہ علاقائی رقص کا نمونہ پیش کرے۔شیر احمد نے یہ درخواست دلبرانہ انداز میں مسترد کر دی۔ اس کا فرمانا تھا کہ گانے کے بغیر ڈانس وانس نہیں کیا جا سکتا۔
’’تم ڈانس وانس کرو۔ گانے کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘  عرفان نے وعدہ کیا۔
’’کیسے ہو جائے گا؟‘‘  بھٹہ صاحب نے تفتیش کی۔
’’ڈاکٹر صاحب نہ صرف گلوکار بلکہ شاعر بھی ہیں۔  غزل کہنا اور ترنم سے سنانا ان کا مرغوب مشغلہ ہے۔‘‘  عرفان نے شرارت آمیز انداز میں کہا۔
’’میں ؟کون کہتا ہے کہ میں شاعر یا گلوکار ہوں ؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’آپ کا اپنا ارشادِ  گرامی ہے۔‘‘ عرفان نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’میں نے یہ احمقانہ ارشاد کب نشر کیا تھا؟‘‘
’’ذرا شیوسار جھیل تک پڑھی ہے آپ نے؟‘‘
’’وہ صرف شغل میلہ تھا اور گلوکاری پر جو داد ملی، اب تک یاد ہے۔ دیوسائی کے بعد ڈھیری میں ہوٹ ہونے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ ‘‘
’’ہم صدقِ دل سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہوٹنگ وغیرہ نہیں کریں گے۔‘‘  اُن تینوں نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے وعدہ کیا۔
’’آپ کی گذشتہ حرکات کے پیش نظر اس وعدے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے گانے کی زحمت مجھ جیسے اناڑی کو اُٹھانا پڑے گی۔‘‘ عرفان نے بظاہر مایوسی کا اظہار کیا۔
’’جزاک اللہ!‘‘ بھٹہ صاحب نے نعرہ بلند کیا۔
عرفان نے گذشتہ سے پیوستہ سال آرمی پبلک سکول سکر دو کے ہوسٹل میں محمد رفیع کا گایا ہوا ایک سدا بہار نغمہ سنایا تھا۔میرا خیال تھا کہ وہ اسی قسم کا گانا سنائے گا،لیکن ڈھیری کی مست مست فضائیں کسی سنجیدہ نغمے کے لیے مناسب نہیں تھیں۔ عرفان نے شرارت آمیز انداز میں ابرارالحق کے لوک گیت کا حشر نشر کیا:
جٹ چڑھیا دئینتر …  بلے بلے
ایہدی پاٹے گی نیکر …  بلے بلے
جیپاں ٹُرگیاں نل تروں خالی
تے گٹے وچہ موچ آ گئی
نیلا پنا وے عالما تیرا
جے خیروخیری پار لنگھ جائیں
نئی تے ہو جائیں توں اندر … بلے بلے
جٹ چڑھیا دئینتر …  بلے بلے
ایہدی پاٹے گی نیکر …  بلے بلے
ترجمہ: جٹ صاحب دئینتر پاس عبور کرنے نکلے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس پنگے میں ان کی نیکر پھٹ جائے گی( عرفان یقیناً نیکر کے بجائے کچھ ’’اور‘‘  کہنا چاہتا ہو گا لیکن تہذیب اور ردیف اجازت نہیں دیتے تھے)۔جیپ نل تر سے واپس جا چکی ہے اور جٹ صاحب کے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔عالم خان تم اگر ان دشواریوں کے باوجود بہ خیر و عافیت دئینتر پاس ٹریک مکمل کرا دو تو نیلا نوٹ تمہیں بطور انعام پیش کیا جائے گا۔ناکام ہونے کی صورت میں دلی دعا ہے کہ تم سیدھے جیل جاؤ اور کبھی واپس نہ آؤ۔
شیر احمد نے نازک نازک ٹھمکے لگا تے ہوئے،عالم خان نے بے ہنگم انداز میں چمچ سے ساس پین پر تھاپ دیتے ہوئے، اور ہم تینوں نے بلے بلے کی سنگت پر والہانہ انداز میں تالیاں بجا تے ہوئے عرفان کی تک بندی کا بھر پور ساتھ دیا۔میر عالم نے شوقین مزاج تماش بین کی طرح شیر احمد کی اداؤں پر نوٹ نچھاور کرنے کی کامیاب ایکٹنگ کی۔اُس نے شیر احمد کو آغوش میں لے کر عرفان ہاشمی کی فلم کے سین ری پلے کرنے کی بھی ’’منہ زور‘‘  کوشش کی لیکن شیر احمد نے لچکیلے انداز میں یہ کوشش ناکام بنا دی۔ڈھیری کی بے نام بہک کی راحت بخش فضائیں ’’بلے بلے‘‘  کے مستانہ نعرے عرصہ دراز تک یاد رکھیں گی اور ہم اس بہک میں گزارے گئے چند لمحات شاید کبھی نہ بھول پائیں کہ شادمانی کے تاروں سے گندھا ہوا یہ پُرکیف ہنگامہ دئینتر پاس ٹریک کا انمول تحفہ ہے۔
ہے کوئی جو یہ بیش قیمت تحفہ مفتا مفتی حاصل کرنا چاہتا ہے؟
کھانے اور ہلے گلے کے بعد ظاہر ہے سونے کی باری تھی اور ٹریکنگ لائف کی پہلی کیمپنگ نائٹ ہونے کے ناتے میرے لیے یہ ایک یادگار رات تھی۔ بے شک میں نے پچھلے سال عرفان کے ساتھ اسکولی میں ایک رات کیمپنگ کی تھی، لیکن وہاں ہم نے ایک پرائیویٹ کیمپنگ سائٹ کے بنے سنورے لان میں خیمے نصب کیے تھے۔ نیلولوٹ بے تحاشہ پتھریلا سبزہ زار تھا اور ہمیں بمشکل چند مربع فٹ ہموار قطعہ میسر آیا جس کے پتھر چن کر خیمے لگانے کے قابل بنایا گیا۔ اس چھوٹے سے قطعے پر بے شمار جنگلی پھول نازِ عروساں کے منتظر تھے۔ان بے چاروں کو علم نہیں تھا کہ ان کی قسمت میں سیجِ  عروس کے بجائے ہم جیسے ٹریکرز کے خیموں تلے روندا جانا لکھ دیا گیا ہے۔یہ پھول بد قسمت ہو سکتے ہیں، ہماری خوش نصیبی میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ڈھیری جیسے ویرانے میں پھولوں کی سیج نصیب ہوئی … کہاں میں کہاں ڈھیری کے پھول اللہ اللہ
میں اور عرفان ایک خیمے میں، طاہر اور بھٹہ صاحب دوسرے خیمے میں تھے۔ ٹریکنگ کے دوران پہلے دن کا اختتام ہمیشہ تھکا دینے والا ہوتا ہے، ہم شاید کچھ زیادہ ہی تھک گئے تھے کہ پتھروں کا بستر مولٹی فوم کے میٹریس سے زیادہ نرم و ملائم لگ رہا تھا۔ کوہساروں کی بھیگی بھیگی رات کا سکوت اور گنگناتے جھرنوں کی لوریاں مجھے نیند کی وادی میں پہنچانے ہی والی تھیں کہ دوسرے خیمے سے آنے والی طاہر کی کپکپاتی ہوئی آواز نے چونکا دیا:
  ’’ڈاکٹر صاحب! ذرا باہر نکل کر دیکھنا۔مجھے لگتا ہے کوئی نامعقول جانور ہمارے خیمے کی رسیوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
 جانور؟ یہاں کونسا جانور آ سکتا ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’بھٹہ صاحب کا سلیپنگ بیگ چیک کر لیں۔ ہو سکتا ہے وہ خیمے سے باہر نکل گئے ہوں۔ ‘‘  عرفان نے بلند آواز میں مشورہ دیا۔
’’میں اندر ای آں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب کی کپکپاتی ہوئی آواز بلند ہوئی۔
’’عرفان صاحب مذاق نہ کریں۔  ہمارا خیمہ بہت زور زور سے ہل رہا ہے۔ سچ مچ کوئی گڑبڑ ہے۔ پلیز باہر نکل کر دیکھیں۔ ‘‘   طاہر نے دوبارہ فرمائش کی۔
 میں نے کیمپ کی دیوار میں لگی ہوئی جالی کی زپ کھول کر اُن کے خیمے کے اطراف کا جائزہ لیا۔ باہر بیکراں سناٹے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’او یار کچھ نہیں ہے۔ سو جاؤ آرام سے۔‘‘
’’ دوسری طرف آ کر دیکھیں ادھر ضرور کچھ ہے۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے خیمے کا باقاعدہ طواف کیا جائے؟ تم خود اپنے سلیپنگ بیگ سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟‘‘
’’وہ … باہر … پتا نہیں کیا گڑ بڑ ہو؟‘‘
’’اس علاقے میں برفانی ریچھ اور چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ ‘‘  عرفان نے ایک مرتبہ پھر زوردار انداز میں ہانک لگائی۔
’’آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے،ہماری جان پر بنی ہے۔‘‘
طاہر نے خفگی آمیز لہجے میں کہا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے بھی کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے اطمینان تھا کہ ان علاقوں میں ریچھ یا چیتے نہیں پائے جاتے۔عرفان نے صرف شوشا چھوڑا تھا،ہو سکتا ہے کوئی زو یا بھیڑ بکری قریب آ گئی ہو اور خیمے کی طنابوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہو۔ میں بہرحال سلیپنگ بیگ میں داخل ہو نے کے بعد خیمے سے باہر چلنے والی انتہائی تیز اور سرد ہوا کا سامنا کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ چند منٹ خاموشی طاری رہی تو میں نے سمجھ لیا کہ طاہر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔نیند کی دیوی ایک مرتبہ پھر مہربان ہونے والی تھی کہ بھٹہ صاحب کی چہکتی ہوئی آواز آئی:
’’ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں یہاں کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟ وہ گڑ بڑ کہاں چلی گئی؟‘‘  میرے بجائے عرفان نے سوال کیا۔
’’کوئی گڑ بڑ شڑ بڑ نہیں ہے جی۔خیمے کی ایک رسی ڈھیلی تھی اور تیز ہوا کی وجہ سے پھڑپھڑا رہی تھی۔ ہم سمجھے کوئی جن بھوت ہمیں ڈرانے کی کوشش کرہا ہے۔‘‘
’’ویری گڈ۔‘‘ عرفان نے دھیمی آواز میں کہا۔’’ڈاکٹر صاحب آپ کس قسم کے نمونے ساتھ لائے ہیں ؟ بھوتوں سے ڈرنے والے اس ویرانے میں سکون کی نیند کیسے سوئیں گے؟ اور نیند پوری نہ ہو سکی تو ٹریک کیسے کریں گے؟‘‘
’’میں خود ان نمونوں کا حصہ ہوں، اور یہی نمونے چلیں گے تو روشنی ہو گی۔ میرا مطلب ہے یہ نمونے آپ کو حیران کر دیں گے۔‘‘
’’ابھی اور حیران کریں گے؟‘‘  عرفان نے مصنوعی حیرانی سے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں پہلے ہی آپ حضرات کے اندازِ ٹریکنگ پر بہت حیران ہوں۔  مزید حیران ہونے کی گنجائش کہاں سے لاؤں ؟‘‘
’’بجھارتیں نہ ڈالیں۔ سیدھی طرح بتائیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ‘‘  
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ٹیم لیڈر کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔میں نے خیمے خود لگانے کی تجویز پیش کی تو آپ لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ہمارا گروپ لیڈر بہت سخت ہے۔ نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر ڈانٹ شانٹ پلا دیتا ہے۔‘‘
’’ہم اتنے بنیاد پرست ٹریکر نہیں ہیں۔  ڈانٹ شانٹ پلانے سے اجتناب کریں اور خیال رکھیں کہ آپ کے خلاف تحریک اعتماد بھی آسکتی ہے۔ووٹنگ ہوئی تو آپ کی لیڈری انا للہ ہو جائے گی اور تین نمونوں میں سے کو ئی ایک ٹیم کا سربراہ منتخب ہو جائے گا۔‘‘
’’ہو چکا دئینتر پاس۔‘‘  عرفان نے ٹھنڈی سانس لی۔
 ’’پاس واس کا شوق آپ کو ہو گا، ہم پاس عبور کیے بغیر واپس چلے گئے تب بھی ہماری شان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔‘‘
’’آئی ایم سوری۔ آپ جو دل چاہے کریں، مگر چلتے رہیں۔  میں کسی قیمت پر دئینتر پاس ٹریک کی قربانی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔‘‘
’’ٹریک انشاء اللہ ضرور مکمل ہو گا۔ میں نے جو کچھ کہا ہے شدید نیند کی حالت میں کہا ہے۔ اس لیے کہا سنا معاف اور شب بخیر۔‘‘
 میں نے سلیپنگ بیگ کے کنٹوپ کی زپ بند کر لی۔
نیند گہری ہونے سے پہلے احساس ہوا کہ باہر طوفانی بارش ہو رہی ہے۔ میں نے اس احساس کو خواب سمجھا اور سونے کی کوشش جاری رکھی۔ یہ کوشش ایک زوردار گڑگڑاہٹ نے ناکام بنا دی تو میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
’’سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا ہے اور ڈراؤنے خواب آرہے ہیں۔ ‘‘
’’برفانی چیتے کے؟‘‘  عرفان ہنسا۔
’’جی نہیں۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ خیمے کے باہر شدید بارش ہو رہی ہے اور شاید آسمانی بجلی بھی گری ہے۔‘‘
’’بارش سچ مچ ہو رہی ہے۔بجلی کڑک رہی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کا شور قیامت ڈھا رہا ہے۔میں خود کافی دیر سے جاگ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں لینڈ سلائیڈنگ کا رخ ہمارے خیموں کی طرف ہو گیا تو کیا ہو گا۔‘‘
’’بارش کہاں سے آ گئی؟شام کے وقت بارش کا سان و گمان تک نہیں تھا۔‘‘
’’ان علاقوں میں بارش کی کیفیت انتہائی غیر یقینی ہوتی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے ہمارے خیمے کے نیچے پانی جمع ہو رہا ہو گا، تھوڑی دیر تک میٹریس اور سلیپنگ بیگ گیلے ہو کر سونے کے قابل نہیں رہیں گے۔پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’خیمے کے نیچے پانی جمع نہیں ہو گا اور میٹریس انشاء اللہ خشک رہیں گے۔‘‘
’’اتنی بارش کے با وجود؟‘‘
’’جی جناب۔ یہ جگہ منتخب کرنے کے فن کا کمال ہے۔ خیمے ایسی جگہ نصب کیے گئے ہیں جہاں پانی ٹھہر نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بارش کا پانی اردگرد سے گزر جائے گا خیمے کا فرش انشاء اللہ خشک ہی رہے گا۔‘‘
’’یہ فن کہاں سے سیکھا آپ نے؟‘‘
 ’’یہ فن سیکھنے کیلئے پورٹرز سے خیمے نصب کروانے کے بجائے خود زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔فی الحال خیمہ لگانے کی باریکیاں سمجھنے کے بجائے دعا کریں کہ کیمپنگ سائٹ کے اوپر چھائے ہوئے سنگلاخ پر لینڈ سلائیڈنگ نہ ہو۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں، بیس مرتبہ۔‘‘  میں نے بھٹہ صاحب کا کلیہ آزمایا۔
’’یہ ورد نیلو لوٹ کے باسی کریں گے۔لینڈ سلائیڈ کے بعد۔‘‘
 میں کچھ دیر بارش کے شور اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے خوفزدہ رہا،پھر کان اس موسیقی کے عادی ہو گئے اور تھکے ماندے جسم پر نیند کی دیوی پوری طرح حاوی ہو گئی۔
صبح آنکھ کھلی تو مطلع صاف تھا۔
 آسمان دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ چند گھنٹے قبل طوفانی بارش ہوئی ہو گی۔ طاہر اور بھٹہ صاحب کا بیان تھا کہ وہ ساری رات جاگتے رہے ہیں۔ خیمے سے باہر کے حالات دیکھ کر یقین آگیا کہ خیمہ لگانے کیلئے جگہ تلاش کرنا ایک فن ہے۔ ہمارے خیموں کے اردگرد جل تھل کی کیفیت تھی، خیموں کے نیچے والے پتھر قریب قریب خشک تھے۔ہم ان جل تھل پانیوں سے گزرتے ہوئے بہک تک گئے تاکہ اپنے پورٹرز کی حالت زار ملاحظہ کر سکیں۔  بہک خالی تھی۔عالم خان اور پورٹرز غالباً کسی اور جگہ منتقل ہو گئے تھے۔ بہک کے اندر کا جائزہ لینے پر احساس ہوا کہ بہک بنانے والے بہت بڑے فنکار ہیں۔  بہک چھت سے بے نیاز تھی اور درختوں کے تنوں کے درمیان اچھا خاصا خلا تھا۔بارش کا پانی بہک کے اندر داخل ہونے میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی،لیکن درختوں کے تنے کھڑے کرنے میں جیومیٹری کے نہ جانے کون سے اصول مد نظر رکھے گئے تھے کہ بہک کا فرش تقریباً خشک تھا۔اس کے اندر سونے والا یقیناً بارش سے محفوظ رہتا ہو گا۔ہمیں حیرانی تھی کہ عالم خان وغیرہ اتنی محفوظ پناہ گاہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں چلے گئے؟ بعد میں علم ہوا کہ اُن لوگوں نے رات بہک ہی میں گزاری تھی اور ہمارے بیدار ہونے سے پہلے ناشتے کا بندوبست کرنے نیلو لوٹ تشریف لے گئے تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب یہاں کہیں ٹائلٹ ہو گا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’کیوں نہیں ؟ میرے ساتھ تشریف لائیں۔ ‘‘
میں بھٹہ صاحب کا بازو تھام کر بہک سے باہر آیا اور بارش سے پیدا شدہ جھیلوں سے بچتے بچاتے ایک ٹیلے کے کنارے پہنچ کر رک گیا۔
’’وہ گلیشئر نظر  آ رہا ہے ناں ؟شانی گلیشئر کہلاتا ہے اور غالباً آٹھ دس کلومیٹر طویل ہے۔‘‘  میں نے سامنے اشارہ کیا۔
’’میں نے گلیشئر نہیں ٹائلٹ کے بارے میں دریافت کیا تھا۔‘‘
’’میں آپ کو ٹائلٹ ہی دکھا رہا ہوں۔  یہاں سے وہاں تک،اور وہاں سے شانی کی چوٹی تک ٹائلٹ ہی ٹائلٹ ہے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے نہایت اطمینان سے جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا سکہ نکال کر مجھے تھما دیا۔
’’اس کا کیا کروں ؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’مجھے کیا پتا ٹائلٹ کے رکھوالے پانچ روپے کا کیا کرتے ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے  پر وقار انداز سے فرمایا اور آگے روانہ ہو گئے۔
 میں بُری طرح بولڈ آؤٹ ہو گیا اور جھینپے ہوئے انداز میں سکے سے بھٹہ صاحب کے سرکو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ وفادار سکہ بھٹہ صاحب کے سر کو زحمت دیئے بغیر پرواز کا رخ تبدیل کر کے پتھروں کے درمیان لینڈ کر گیا۔بھٹہ صاحب نظروں سے اوجھل ہو گئے اور میں نے مخالف سمت کا رخ کیا۔
ڈھیری کے یخ بستہ پانیوں میں منہ ہاتھ منہ دھوتے اور برش کرتے وقت باقاعدہ کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے نالے کے کنارے پتھر پر تشریف فرما ہو کر شیو بنانے کا ارادہ کیا تو عرفان نے اعتراض کیا:
’’ڈاکٹر صاحب آپ ٹریک پر ہیں یا کسی کانفرنس میں تشریف لائے ہیں ؟ ٹریک پر شیو وغیرہ کا تکلف نہیں کیا جاتا۔‘‘
’’کیوں نہیں کیا جاتا؟‘‘  میں نے بھٹہ صاحب کی طرح آستینیں چڑھائیں۔
’’بس ایسے ہی،میرا مطلب ہے یہاں دیکھنے والا کون ہے؟‘‘
’’شیو کیے بغیر دن تبدیل ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘
’’یعنی آپ روزانہ شیو کریں گے ؟‘‘
’’آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
’’اعتراض تو کوئی نہیں  … مگر … مگر  … ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ٹریک پر بناؤ سنگھار سے پرہیز کیا جائے۔ہم یہاں فطرت سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں اس لیے  فطرت کے قریب ترین طرزِ زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ہمارا امیر ٹریک کے دوران شیونگ وغیرہ کو فطرت کی توہین قرار دیتا ہے۔‘‘
’’آپ اپنے امیر کو وہاڑی لائیں۔ میں اس کا دماغی معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
میں نے یخ بستہ پانی سے شیو کی، عرفان نے یہ ’’غیر شریفانہ‘‘  حرکت اپنے کیمرے میں محفوظ کر لی، اس اعلان کے ساتھ کہ وہ اپنے فطرت پسند امیر کو دکھانا چاہتا ہے کہ ٹریکنگ کی دنیا میں کس قسم کے غیر فطری نمونے پائے جاتے ہیں۔
عالم خان، میر عالم اور شیر احمد ناشتے سے لدے پھندے وارد ہوئے اور بہک میں تشریف لے گئے۔ہم نے بہک کی طرف چلنا شروع کیا ہی تھا کہ مشرقی پہاڑیوں کی اوٹ سے آفتاب ابھرا جس کی کرنیں رنگ و نور کی برسات کر رہی تھیں۔  ابھی نیلو لوٹ کی چمپئی شام کا نشہ نہیں اترا تھا،کہ سرمئی اجالے میں ابھرتے ہوئے سورج کی کرنوں نے ’’شرابِ ظہور‘‘  کے جام لنڈھانے شروع کر دیے۔ و الشمس و ضحٰحا  … قسم ہے سورج کی اور اس کی کرنوں کی۔جو مفسرین اس آیت میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی صناعی اور قدرت کے اظہار کا عملی مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ نیلو لوٹ میں طلوعِ آفتاب کے منظر سے محروم نہ رہیں۔  یہ خوبصورت منظر فطرت کدوں میں پہلی رات گزارنے پر قدرت کی طرف سے پیش کیا گیا انمول تحفہ تھا۔صرف میں نہیں، میرے تینوں ساتھی بھی طلسم نور افشانی کا شکار ہو چکے تھے اور نورانی کرنیں روح کی گہرائیوں میں اجالے بکھیر رہی تھیں۔  شمالی علاقہ جات پر تحریر کی گئی کوئی کتاب نیلو لوٹ کی صبح کا  جادو بیان نہیں کر سکتی۔
 کون کر سکتا ہے؟
مجھے اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ مناظر سے لطف اندوز ہونے اور الفاظ کا جامہ پہنانے کا ذوق عطا کیا ہے تو منظر نگاری کے فن پر مکمل عبور حاصل کرنے کی توفیق کیوں نہیں بخشی؟ کاش میں سورج کی شعاعوں کے بوسوں کے جواب میں شرماتی لجاتی ٹوئین پیک اور شانی پیک کے بدلتے رنگوں کا حسن بیان کر سکتا:
صبحِ ’’ٹوئین پیک‘‘  کے جادو کو دیکھ کر
ہم نے نظر سے اپنی چھپائی ہوئی ہے رات
نیلو لوٹ کی صبح کے اعزاز میں اتنا کہنا کافی ہے کہ مجھے ٹریک کے پہلے دن اتنی خوبصورت صبح دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔ ایسے مناظر ٹریک کی سختیاں اور کٹھنائیاں جھیلنے کے بعد نظر آتے ہیں۔  ابھی ہم پکنک کے خمار میں تھے، بلندیاں طے نہیں کیں تھیں،  پہلے دن کی متوقع منزل تک نہیں پہنچ پائے تھے،اور قدرت نے نہایت فراخدلی سے ہمیں ایک خوبصورت مارننگ شو کا تحفہ عطا کر دیا تھا۔ ہم بخوبی اندازہ کر سکتے تھے کہ دئینتر پاس کی بلندیوں پر کتنی عنایات ہماری منتظر ہوں گی۔دئینتر پاس کی شراب اتنی بھی پھیکی نہیں تھی۔
سورج کی روشنی پھیلنے لگی اور ہم نے سفید براق بلندیوں پر لہراتے ہوئے ماورائی رنگ تصاویر کے البم میں قید کرنے کی کوشش کی،لیکن منظر جتنا دلکش تھا، اتنا ہی غیر یقینی تھا۔چند رنگین ساعتوں کا مسحور کن کھیل، اس کے بعد ڈھیری کی بہک میں ’’زو‘‘  کے تازہ دودھ، ڈھیری کی ہوم میڈ ڈبل روٹی اور کارن فلیکس جیسے قوت بخش اجزا پر مشتمل ناشتا،میں نے مقامی مکھن کی فرمائش کی لیکن عالم خان نے معذرت کر لی۔ ناشتے کے دوران عالم خان سے سوال کیا گیا کہ اُن لوگوں نے رات کہاں بسر کی ؟
’’ادھر ہی تھا ناں۔ آپ کے جاگنے سے پہلے ناشتا لینے نکل گیا تھا۔ مگر میر عالم رات کو بستی پہنچ گیا تھا، اس کو ماشوقہ کے بغیر نیند نہیں آتا۔‘‘
 ’’لاحول ولا قوۃ الابا اللہ۔ معشوقہ کے گھر والے اعتراض نہیں کرتے ؟‘‘ بھٹہ صاحب شدید غصے میں آ گئے۔
’’اعتراض کیوں کرے گا؟‘‘  میر عالم حیران ہوا
’’اس علاقے میں شادی کے بغیر رات گزارنے پر کوئی اعتراض … ‘‘
’’آپ کو کس نے بولا کہ ان کا شاد ی نہیں ہوا؟‘‘  عالم خان نے بات کاٹی۔
’’اس مرتبہ میری طرف سے لاحول ولا قوۃ الابا اللہ۔‘‘  عرفان نے دخل اندازی کی۔’’شادی ہو گئی ہے تو بیوی کہو،معشوقہ کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘
’’بیوی ماشوقہ نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’نہیں ہو سکتا۔شادی کے بعد معشوقہ چند دن کے لیے بیگم بنتی ہے پھر ہانڈی چولھے کو پیاری ہو کر منے کی اماں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘
’’میر عالم کا بیوی تین بچوں کا ماں ہے،پھر بھی اس کا ماشوقہ ہے۔‘‘
عالم خان ٹھیک کہہ رہا تھا تو میر عالم کی بیوی دنیا کی خوش قسمت ترین خاتون تھی۔
’’تم بیوی کے بغیر سو نہیں سکتے تو اگلے تین چار دن کیسے گزارو گے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے تجسس آمیز لہجے میں میر عالم سے سوال کیا۔
’’گزار لوں گا سر۔‘‘  میر عالم نے معنی خیز انداز میں شیر احمد کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’کیسے گزار لو گے؟‘‘  عرفان بھی تجسس کا شکار ہو گیا۔
’’شیر احمد ہے ناں سر۔اس کے ساتھ سو جائے گا۔‘‘
 ’’کیا مطلب؟ یہ شیر احمد اے یا سچ مچ شیر بیگم ہے۔‘‘  بھٹہ صاحب چونکے۔
’’ام شیر احمد ہے صاب، بیگم ویگم مت بولو۔‘‘  شیر احمد نے نازک سا احتجاج کیا۔
’’پھر میر عالم تمھارے ساتھ کیسے سو سکتا ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے اعتراض کیا۔
’’سر آپ ناراض ہوتا ا ے تو ام آپ کے پاس لیٹ جاتا اے۔‘‘
’’اوئے کی بکواس کر دا پیا ایں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب کا پارہ شانی پیک کی بلندی عبور کر گیا۔ ’’عرفان صاحب آپ کس قسم کے بندے پکڑ لائے ہیں جنھیں بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔  میں اس قسم کی خرافات برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ ناراض ہوتا اے ناں صاب۔ام نے آپ کے ساتھ کون سا خرافات کیا اے؟‘‘  شیر احمد نے عاجزی سے سوال کیا۔
’’یہ بے چارہ تو اپنے ساتھ خرافات کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔‘‘   میں نے وضاحت کی۔
’’اس سے بات نہ کریں سر۔ کوئی بات برا لگا ہے تو ہم معافی چاہتا ہے۔یہ آپ کا بات ٹھیک طرح نہیں سمجھتا اس لیے گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ آپ دل صاف رکھو۔یہ لوگ آپ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘   عالم خان نے معذرت کی۔
بھٹہ صاحب خاموش ہو گئے۔
ناشتے کے بعد ہم نے خیمے لپیٹے۔ عرفان نے چاکلیٹ، نمکو، بسکٹ اور ڈرائی فروٹ کا یومیہ کوٹہ تقسیم کیا۔ ٹریک پر باقاعدہ لنچ کا کوئی تصور نہیں، کم از کم عرفان کے ’’سنگلاخ‘‘  ذہن میں بالکل ہی نہیں۔  تقسیم شدہ سامان ہمارا موبائل لنچ تھا۔مقدار اور وزن صنم کی کمر جیسی  …  توانائی اور حرارت صنم کی … میرا مطلب ہے ہلکا پھلکا اور قوت بخش۔
٭٭٭



منہ پھیکا کرا دیں گے

Any man that walks the mead
In bud, or blade, or bloom, may find
A meaning suited to his mind.
Alfred D. Souza

ہر شخص فطرت کدے کی کلیوں، پتیوں اور پھولوں سے من چاہی مسرت کشید کر سکتا ہے
الفریڈ ڈی سوزا

ساڑھے آٹھ بجے ہم نے نیلولوٹ کی دلکش فضاؤں کو اللہ حافظ کہا۔
آج کا ٹریک نسبتاً طویل ہونے کی توقع تھی کیونکہ کل ہم مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ لوئر شانی پہنچ کر آج کی باضابطہ سٹیج کا آغاز ہوتا۔
نیلو لوٹ سے آگے تھوڑی دور تک گل و گلزار نے ہمارا ساتھ نبھایا، پھر لینڈ سکیپ بدل گیا اور ہم پتھروں کے ایک وسیع و عریض میدان میں داخل ہوئے۔ دائیں جانب نظر آنے والے پتھروں کے ڈھیر اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ یہ لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیش تر پتھر گول مٹول ہونے کے بجائے چپٹے اور ہموار تھے لیکن لڑھکنے میں گول مٹول پتھروں کو شرماتے تھے۔ میں اس قسم کے دوغلے اور دغا باز پتھر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا اور اندازہ لگا رہا تھا کہ رات کی تاریکی میں یہاں سے گزرنا کس قسم کے ’’پنگوں‘‘  کا باعث بن سکتا تھا۔
اس پتھریلے میدان سے گزرتے ہوئے ’’تین سری‘‘ (Triple Headed) شانی پیک ہر وقت نظروں کے سامنے رہتی ہے جس کی چوٹیوں سے الگ الگ اترنے والے گلیشئر نیچے پہنچ کر ایک ہو جاتے ہیں اور ان کے سنگم سے نل تر نالا جنم لیتا ہے۔ اس میدان کے پہلو میں نل تر نالے کا پاٹ کافی وسیع ہے اور اسے دریائے نل تر کہا جا سکتا ہے۔ شانی پیک کی بلندیوں سے اترتے ہوئے گلیشئرز اور گلیشئرز سے جنم لینے والا دریاے نل تر ایک ایسی وسیع المنظر تصویر تخلیق کرتے ہیں جو اس پتھریلے میدان کی منفرد خصوصیت ہے۔ یہ  وسیع المنظری ٹوئن پیک سے گلے مل کر بے حد طویل ہو جاتی ہے اور ایک فوٹو فریم میں نہیں سماتی۔اس مقام سے گزرتے ہوئے مجھے ’’وائڈ اینگل لینز‘‘  کی کمی کا شدت سے احساس ہوا جس کی مدد سے پورا منظر ایک تصویر میں سمویا جا سکتا تھا۔ وہاڑی پہنچنے پر میں نے ٹریک کی مختلف تصاویر اور سوفٹ ویئر کی مدد سے شانی پیک،شانی گلیشئر، دریائے نل تر اور ٹوئن پیک پر مشتمل پینوراما (Panorama)   ترتیب دیا۔یہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی لیکن سوفٹ ویئر کی مدد سے ترتیب دیا گیا پینوراما اس تاثر کی مکمل عکاسی کرنے سے قاصر ہے جو ڈھیری سے لوئر شانی جاتے ہوئے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔لوئر شانی پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک چھوٹی سی (صرف ایک ہزار ایک سو فٹ بلند) پہاڑی سر کرنا پڑی۔ اس اچانک چڑھائی نے چند ہی منٹ میں ہمارا سانس اتھل پتھل کر دیا اور دس بجے لوئر شانی پہنچے تو باقاعدہ ہانپ رہے تھے۔
 لوئر شانی صرف ایک نام ہے، یہاں کوئی شناختی علامت نہیں۔ ہمیں اگر بتایا نہ جاتا کہ یہ آئٹی نریری کا با ضابطہ پڑاؤ ہے تو نہایت سرسری انداز میں اس ننھے منے سبزہ زار سے گزر جاتے۔لوئر شانی کا کل اثاثہ شانی پیک کا بہترین منظر اور ایک پہاڑی نالا ہے جو بہ مشکل نظر آتا ہے، پر سکون انداز میں بہتا ہے اور منظر میں رنگ بھرنے کے بجائے پانی کی بوتلیں بھرنے کے کام آتا ہے۔ ایک دو جگہ چٹانی پتھروں کے درمیان غار نما خلا نظر آ رہاتھا۔ عالم خان نے بتا یا کہ یہ بھی ایک قسم کے بہک ہیں اور بکروال انھیں عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔  لوئر شانی کے سبزے میں وہ تراوٹ اور ہریالی نہیں جو ڈھیری میں بے تحاشہ ٹھاٹھیں مارتی تھی۔ جھرنوں کی راگ اور راگنیاں نہیں،  دہکتی ہوئی آتشِ گل نہیں ؛ ہم مطمئن ہو گئے کہ ڈھیری کی ’’بہکی مہکی‘‘  آغوش میں رات گزار کر کوئی غلطی نہیں کی۔
لوئر شانی میں تقریباً تیس منٹ قیام کیا گیا۔
لوئر شانی تک پہنچانے والی چڑھائی سر کر تے ہوئے ہمارے جسم کے بہت سے نمکیات اور پانی پسینا بن کر بہہ گئے تھے۔یہ کمی پوری کرنے کے لیے شانی نالے کے پانی میں انرجائل، ٹینگ اور مٹھی بھر نمک گھول کر بنایا گیا ’’جامِ نمکیں‘‘  نوش فرمایا اور ہموار پتھروں پر ہاتھ پاؤں پسار کر تھکاوٹ دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔ پورٹرز بہ ظاہر اس مشقت سے متاثر نہیں ہوئے، لیکن انھوں نے نمکین مشروب کی کئی بوتلیں خالی کر دیں۔  ان کا کہنا تھا کہ جسم سے خارج ہونے والا نمک پورا نہ کیا جائے تو معمولی سی تھکاوٹ بھی برداشت نہیں ہوتی۔ ہم نے اُن کی ہدایت پر اپنی بوتلیں پانی کے بجائے جامِ  نمکیں سے لبریز کیں اور چند اضافی بوتلیں میر عالم کی پشت پر لدے ہوئے سامان میں ٹھونس دیں۔
تقریباً ساڑھے دس بجے دئینتر پاس ٹریک کی دوسری سٹیج کا آغاز ہوا۔
یہ آغاز ایک سبزہ زار سے ہوا جسے لوئر شانی کا بغل بچہ کہا جا سکتا تھا۔ سبزہ زار کے اختتام پر ایک رنگین بلندی سر اٹھائے کھڑی تھی جس کا چپہ چپہ کومل کومل پہاڑی پھولوں سے مرصع تھا۔ یہ دل چھو لینے والا منظر تھا۔
اللہ، اس طرح کی جنوں آفریں بہار
جوشِ بہار تھا کہ قیامت ’’بغل‘‘  میں تھی
میں چند ثانیے مبہوت کھڑا جنوں آفریں بہار یادداشت کے خفیہ گوشوں میں مقفل کرتا رہا کہ جب ذرا گردن جھکاؤں، مجنوں بن جاؤں۔ پھر نہایت محتاط انداز میں پہاڑی کے پہلو کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔
’’اوئے سر تم کدر جاتا اے۔‘‘ اچانک شیر احمد کی آواز آئی۔
میں رک گیا۔ شیر احمد پہاڑی کے دامن میں اسی جگہ کھڑا تھا جہاں چند سیکنڈ پہلے میں نے قیامتِ  چمن کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔
’’دئینتر پاس جاتا ہے،اور کدھر جاتا ہے۔‘‘
’’اوئے سر دئینتر پاس ادھر نہیں ہے،ادھر سے تم دوبارہ نل تر پہنچ جائے گا۔ دئینتر پاس جاتا ہے تو ہمارے ساتھ آؤ۔‘‘
شیر احمد نہایت بے دردی سے پھولوں کی نزاکت مسلتا ہوا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ میں بوکھلائے ہوئے انداز میں واپس آیا اور سراسیمہ نظروں سے اس گل رنگ بلندی کو تکنے لگا۔یہ بلندی سر کرنے میں دو قباحتیں تھیں۔  کومل کومل فرشِ  گل پاؤں تلے روندتے ہوئے چلنا فطرت کی توہین کے مترادف تھا،اور میں یہ بلند و بالا شادابی تسخیر کرنے کا اعتماد نہیں رکھتا تھا۔ میرے ساتھی میرے جذبات و احساسات سے بے خبر چوٹی کی طرف گامزن تھے۔ میں ان کی تقلید میں فطرت کی توہین نہ کرتا تو کیا کرتا؟
چڑھائی شروع ہوتے ہی سانس پھولنا شروع ہو گیا۔ میں چند قدم بعد منظر سے لطف اندوز ہونے کی ایکٹنگ اور فوٹو گرافی کرنے لگتا۔ طاہر کا حال مجھ سے زیادہ پتلا تھا اور اس نے پرانی روش اختیار کر لی تھی جسے میں نے تین سال پہلے بیال کیمپ میں طاہری واک کا نام دیا تھا اور جو دس منٹ واک اور پھر کسی پتھر پر بیٹھ کر دس منٹ ٹاک پر مشتمل تھی۔ میرے جوڑ اور پٹھے طاہر کے اعضاء کی نسبت دس سال پرانے ہیں، اس بوسیدگی پر چڑھائی کا حاوی ہو جانا غیر معمولی بات نہیں تھی۔تھکاوٹ سے مغلوب اعصاب آرام کا وقفہ کرنے کے بعد باقاعدہ التجا کرتے تھے  …  میں یہاں بیٹھ چکا ہوں مجھے پھر سے اٹھانا لوگو …  عالم خان کے ہاتھ کبھی یہ صدا سن کر سہارا دیتے تھے،کبھی  بے نیازی سے جھولتے رہ جاتے تھے۔
’’آپ اتنا کمزور ہے تو ان لوگوں کے ساتھ کیا لینے آیا ہے؟‘‘
عالم خان نے سوال کیا اور … اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے … اسے کیسے سمجھایا جا سکتا تھا کہ میں جو لینے آیا تھا وہ مجھے ہائے وائے کرنے کے باوجود مل رہا تھا اور نہایت فراوانی سے مل رہا تھا …  تھکاوٹ اپنی جگہ … آسودگی اپنی جگہ … تھکاوٹ کے صلے میں حاصل ہونے والا تلذذ ہی کوہ نورد کو فطرت کدے کا رخ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
شیر احمد اور میر عالم نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ عالم خان گائیڈ ہو نے کے ناتے ہمارا ساتھ دینے پر مجبور تھا اور میں عالم خان کے قدم بہ قدم چلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ عرفان اور بھٹہ صاحب مجھ سے زیادہ سمارٹ تھے۔ وہ بے فکری سے ٹہلتے اور اٹکھیلیاں کرتے ہوئے گامزن تھے، لیکن تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر تھے۔ عام طور پر ٹیم کا بہترین رکن ٹیم کی ’’ٹیل‘‘  سنبھالنے کا ذمہ دار ہوتا ہے،عرفان سب سے پیچھے رہ کر اپنی ٹیم کی بھاری بھرکم دُم سنبھال رہا تھا،آگے کیسے نکل جاتا؟
میرا فوٹو گرافی کرنے کا دورانیہ بڑھنے لگا اور عالم خان نے سوال داغ دیا۔
’’سر آپ لوگ اس رفتار سے چلے گا تو پاس کیسے کراس کرے گا؟‘‘
’’بس ایسے ہی کرے گا۔‘‘  میں نے بے ترتیب سانس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
’’آپ لوگ دئینتر پاس کراس نہیں کر سکتا۔‘‘  عالم خان نے پیش گوئی کی۔
’’کر رہے ہیں۔ ‘‘  میں نے لا پرواہی سے جواب دیا
’’کدھر کر رہا ہے ؟اس طرح آپ اگلے سیزن تک بھی ٹاپ پہ نہیں پہنچے گا۔ دئینتر پاس کراس کرنا مذاق نہیں ہے۔ ادھر گورا لوگ بھی سوچ سمجھ کر آتا ہے۔ ابھی وقت ہے، اپنے لوگوں سے مشورہ کر لو۔‘‘
’’مشورہ ہوچکا۔ اب کوئی بھی واپس نہیں جائے گا۔‘‘
’’واپس جانے کا بات نہیں، مگر آپ دئینتر کے بجائے پکھورا کراس کرو۔‘‘
’’ہمارا لیڈر عرفان ہے۔تم اس سے بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’عرفان صاحب نے ہمارے ساتھ دئینتر پاس کا بات کیا ہے۔ ہم انھیں ٹریک بدلنے کا مشورہ کیسے دے سکتا ہے؟ آپ ان کو بولو کہ آپ لوگ چل نہیں سکتا۔‘‘
’’ہم چل رہے ہیں۔ ‘‘
’’ناراض مت ہونا سر۔ آپ چل کدھر رہا ہے؟ آپ ایسے چلتا ہے جیسے پیٹ میں بچے والا عورت چلتا ہے۔ دئینتر پاس آپ لوگوں کے لیے بہت مشکل ٹریک ہے سر۔ پکھورا کے راستے میں اس طرح کا سیدھا چڑھائی نہیں ہے۔آپ آرام سے کراس کرے گا۔‘‘
’’عرفان پکھورا کر چکا ہے۔وہ دوبارہ وہاں کیوں جائے گا؟‘‘
’’تو ٹھیک ہے سر۔ آپ حایول پاس کیوں نہیں کراس کرتا؟‘‘
’’یہ کہاں ہے؟‘‘
’’اپرشانی سے آگے نل تر پاس ہے ناں۔ پکھورا پاس اور حایول پاس نل تر پاس سے تھوڑا آگے ہے۔‘‘
’’عالم خان تم خواہ مخواہ کنفیوژ کر رہے ہو۔بتانا چاہتے ہو تو ڈھنگ سے بتاؤ ورنہ چپ چاپ چلتے رہو۔ بے تکان بولنے سے سانس چڑھتا ہے۔‘‘
عالم خان نے اپنا بوجھ ایک بڑے پتھر پر رکھ دیا۔
’’ہم آپ کو سمجھاتا ہے۔لوئر شانی تو آپ جانتا ہے ناں ؟اُدھر سے ہم دائیں ہاتھ کی طرف نکل آیا تھا۔ سیدھا جاتا تو شانی گلیشئر کے کنارے کنارے چل کر اپر شانی پہنچ جاتا۔ اپر شانی بڑا زبردست کیمپ سائٹ ہے۔ادھر سے کھل تر چوٹی کا بہترین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ابھی تک تو کوئی کنفیوژن نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں  … آگے چلو۔‘‘
’’اپر شانی سے آگے شانی گلیشئر پر چلتا ہے اور نل تر پاس ٹاپ پہنچ کر کیمپ کرتا ہے۔ ادھر بہت بیوٹی فل نظارہ ہے۔نانگا پربت، راکاپوشی،  دیراں پیک،سنتری پیک اور دوسری کی  پیک کا بہترین نظارہ نل تر پاس ٹاپ سے ہوتا ہے۔ نل تر پاس کراس کر کے اشکومن وادی میں داخل ہوتا ہے۔کچھ لوگ بولتا ہے کہ اشکومن ہنزہ کا سب سے خوبصورت وادی ہے۔ نل تر پاس سے نیچے اترنے کا دو راستہ بنتا ہے۔دائیں طرف جاتا ہے تو لال پتھر سے گزر کر پکھورا پہنچتا ہے۔ بائیں طرف جاتا ہے تو حایول پاس کراس کرتا ہے اور چتور کھنڈ جا نکلتا ہے۔ اب بولو بات صاف ہوا کہ نہیں ہوا؟‘‘
’’بالکل نہیں ہوا۔ ہم اگر حایول جاتے ہیں تو ایک کے بجائے دو پاس کراس کرنے ہوں گے۔ اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ حایول پاس آسان ٹریک ہے؟‘‘
’’دئینتر سے آسان ہے۔ دئینتر کا چڑھائی بالکل سیدھا ہے اور سارا راستہ میں پتھر ہی پتھر ہے۔دئینتر پاس سے آگے بھی کوئی بہت اچھا سائٹ نہیں ملتا،پتھر ہی پتھر ملتا ہے۔ اس طرف زیادہ لوگ نہیں آتا تو کوئی وجہ ہو گا ناں ؟ہم ابھی دس دن پہلے لاہور یونیورسٹی کی ٹیم کے ساتھ آیا تھا۔ وہ بہت فٹ فاٹ لوگ تھا۔‘‘
’’وہ دئینتر کراس نہیں کر سکے؟‘‘
’’وہ دئینتر نہیں، پکھورا جاتا تھا۔اپر شانی پہنچ کر پورا گروپ ایسا گرا کہ اٹھنے کا نام نہیں لیا۔ ان کا لیڈر بولتا تھا کہ ہمارا سب کچھ ’’پاٹ‘‘  گیا ہے،آگے نہیں جا سکتا۔ ہم نے ان کا حوصلہ بڑھانے کا بہت کوشش کیا مگر وہ نہیں مانا۔ واپس چلا گیا۔‘‘
’’اس کے باوجود تم ہمیں پکھورا لے جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’پکھورا دئینتر سے آسان ہے ناں، مگر پاس تو پاس ہوتا ہے۔ اس میں تھوڑا مشکل نہ ہو تو سارا لوگ پاس کرنے لگے۔‘‘
عالم خان نے اپنا سامان اٹھایا اور سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
مجھے ٹریک تبدیل کرنے کی تجویز پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ میرے لیے تینوں ٹریک یکساں تھے۔ میں بہرحال یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ عالم خان ہاتھ دھوکر دئینتر پاس ٹریک کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ واویلا کرتے ہوئے چلنا اور آنے والی سٹیج کے بارے میں خواہ مخواہ فکرمند رہنا میری عادتِ  ثانیہ بن چکی ہے ورنہ ابھی تک دئینتر پاس ٹریک نے مجھے مایوس نہیں کیا تھا۔نل تر جھیل سے ڈھیری اور ڈھیری سے لوئر شانی ایک شاندار واک تھی جو ذوقِ آوارگی کے ہر معیار پر پورا اترتی تھی۔ لوئر شانی سے آگے کے مناظر بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ جہاں تک سست رفتاری اور چلنے کے انداز کا سوال تھا تو یہ ہمارا مخصوص انداز تھا۔اسی انداز میں چلتے ہوئے ہم نانگا پربت بیس کیمپ پہنچے تھے جہاں آرٹس کالج کے انتہائی فٹ جوانوں کی ٹیم پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔ کیا واقعی ہمیں ٹریک تبدیل کرنے کی ضرورت تھی؟
 میں آہستہ آہستہ ڈگمگاتے قدموں سے عالم خاں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور پہاڑی عبور کر لی۔ پہاڑی سے آگے راستہ پتھریلا ہو گیا،لیکن یہ پتھریلا میدان نہیں تھا، پتھریلی چٹانیں تھیں۔ یکے بعد دیگرے کالے پیلے پتھروں کے اونچے نیچے ڈھیر آتے گئے اور میں ہانپتا کانپتا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا عالم خان کا ساتھ دیتا رہا۔ ایک دو جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے سکری زدہ علاقے سے پالا پڑ ا جس کے دائیں جانب سینکڑوں فٹ گہری کھائی تھی اور پھسلنے سے پہلے قدم نہ اٹھانے کی صورت میں ٹھیک ٹھاک پنگے میں مبتلا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ دشواری کے لحاظ سے یہ راستہ ٹریکنگ کے درمیانے درجے میں رکھا جا سکتا تھا، نظر اٹھانے اور اردگرد کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی مہلت با آسانی میسر آ جاتی تھی۔
لوئر شانی سے بیس کیمپ تک سفر کرتے ہوئے بنیادی پس منظر تبدیل نہیں ہوتا۔ ایک طرف نل تر وادی اپنے تمام نشیب و فراز آشکار کیے رکھتی ہے، دوسری طرف شانی گلیشئرکا برفاب منظر نظریں ہٹانے کی مہلت نہیں دیتا اور تیسری طرف سنو ڈوم کی دلکش گولائیاں کبھی شرماؤں کبھی نظریں چراؤں کی تصویر بنی رہتی ہیں کیونکہ دئینتر پاس ٹریک اسی گنبد نما بلندی سے بوس و کنار کرتے ہوئے گزرتا ہے۔
ایک ننھے منے گل زار سے گزرتے ہوئے عالم خان نے پانی کے وقفے کا اعلان کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہم آج کی سٹیج کا نصف فاصلہ طے کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں دئینتر پاس ٹریک کے دوران شانی پیک اور سنتری پیک کا خوبصورت ترین منظر اس گمنام سبزہ زار سے نظر آتا ہے۔ میں شانی پیک اور گلیشئر کی تصاویر بنانے لگا۔ اچانک ایک مہیب گڑگڑاہٹ نے دلکش منظر کی فضاؤں کو درہم برہم کر دیا اور شانی پیک کی بلندیاں نقرئی غبار کے بے شمار بگولوں میں روپوش ہو گئیں، لگتا تھا وہاں ایک قیامت برپا ہو چکی ہے۔ مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ماجرا ہو گیا؟
’’ایوا لانچے۔‘‘  عالم خان نے سرسری انداز میں کہا۔
’’ایوالانچے؟‘‘  میں نے بے یقینی،جوش اور مسرت کی ملی جلی کیفیت میں دہرایا۔
’’ہاں ناں۔ ہم اتنا زبردست ایوالانچے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
شانی پیک سے گلیشئر تک برف کے تودوں کا سفر جاری تھا اور پیک نقرئی ذرات کے چمکیلے گھونگھٹ سے چند لمحات کے لیے درشن دیتی تھی،پھر روپوش ہو جاتی تھی۔ جب تک یہ مسحور کن منظر رنگ بکھیرتا رہا میں محویت کے عالم میں ساکت و جامد کھڑا سبحان اللہ کا ورد کرتا رہا۔ مجھے آج تک اس بات کا افسوس ہے کہ یہ منفرد منظر کیمرہ بند نہ ہو سکا۔میں نے برفانی تودے گرنے کے مناظر پردۂ سکرین پر دیکھے تھے اور ان سے آنے والی تباہی کے بارے میں پڑھا بھی تھا، لیکن لائیو شو پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ نانگا پربت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے علم ہوا کہ ایک مہم کے دوران پچاس سے زائد کوہ پیما برفانی تودے کی بھینٹ چڑھ گئے تھے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایک برفانی تودہ اتنی تباہی کیسے مچا سکتا ہے؟ شانی سے نیچے آنے والے تودے نے بہت کچھ سمجھا دیا۔ شانی جیسی شریف الطبع چوٹی کے یہ تیور ہیں تو ’’کلر ماؤنٹین‘‘  کے غضب کا عالم کیا ہو گا؟ عرفان وغیرہ ہم تک پہنچے تو بتا یا کہ اس منظر نے چند منٹ کے لیے انھیں بھی اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔طاہر اپنے تمام تر ذوقِ فلمبندی کے با وجود ایوالانچے پر نظریں جمائے رکھنے کے سواکچھ نہ کر سکا اور مووی کیمرہ کاندھے پر جھولتا رہ گیا۔ دئینتر پاس ٹریک کی آزاد فضاؤں میں جنم لینے والا یہ منظر دل میں بسانے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا، فطرت اسے کیمرے میں قید کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھی۔
پانی کے وقفے کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔آسمان پر کالی کالی بدلیوں کی یلغار بڑھتی جا رہی تھی۔عالم خان ہماری سست روی پر بار بار شکوہ کر رہا تھا۔
’’سراب اگلا گیئر بھی لگاؤ ناں۔ آپ لوگ صرف پہلے گیئر میں چلتا ہے۔‘‘
’’عالم خان تم ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار کیوں رہتے ہو؟ ہم تمھاری رفتار سے نہیں چل سکتے،خواہ مخواہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘  طاہر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
’’جلدی کرنا پڑتا ہے ناں سر۔ بارش یا برف باری ہو جاتا ہے اور راستہ پھسلنے والا بن جاتا ہے تو آپ لوگ ٹاپ پر کیسے پہنچے گا؟‘‘
’’اللہ مالک ہے۔ آج کی منزل  دئینتر پاس ٹاپ نہیں ہے۔ بیس کیمپ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جائیں گے،اور دئینتر پاس عبور کرنا کوئی فرض نہیں ہے۔ہم مناظر سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔  گھوم پھر کر واپس …۔ ‘‘
’’واپس؟‘‘ عرفان نے چونک کر بات کاٹی۔’’نو واپس سر جی۔واپسی کی بات پر عالم خان کی موجیں لگ جائیں گی۔‘‘
’’کیا مطلب؟ٹریک کا دورانیہ کم ہوا تو مزدوری میں کمی آئے گی، اس میں موجیں لگنے والی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’مزدوری زیادہ ہو جائے گا سر۔‘‘ عالم خان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’زیادہ کیسے ہو جائے گی؟ اصولاً مزدوری کم ہونا چاہیے۔ تم لوگ بوجھ اٹھا کر پاس کی بلندی عبور کرنے کی مشقت سے بچ جاؤ گے۔‘‘
’’آپ نے ہمیں دئینتر پاس کیلئے بک کیا ہے سر، آپ پاس نہیں کر سکتا تو ہمارا کیا قصور؟ وہ پیسا ہم پورا لے گا۔ ادھر ادھر گھوم کر واپس جانے کا پیسا الگ ہو گا۔‘‘
’’پھر وہی۔تم نے کیسے فرض کر لیا کہ ہم واپس جائیں گے؟‘‘
’’صرف ہم نے نہیں کیا، ہمارا بزرگ لوگ بھی یہی بولتا تھا۔‘‘
’’ہم تمھاری اور تمھارے بزرگوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے دئینتر پاس عبور کریں گے،انشاء اللہ۔‘‘
میرے سنجیدہ اور پُر عزم لہجے کے جواب میں عالم خان کے چہرے پر طنزیہ و مزاحیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’او۔کے۔دئینتر آئے گا تو دیکھا جائے گا۔تم یہ بتاؤ کہ بیس کیمپ کتنی دور ہے؟‘‘
’’وہ سامنے نظر آتا ہے ناں۔ ‘‘  اس نے ایک بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
سامنے نظر آنے والے بیس کیمپ اور ہمارے درمیان ایک بلند و بالا سنگلاخ حائل تھا۔ یہ تقریباً ویسی ہی چڑھائی تھی جو ہم نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے عبور کی تھی،لیکن یہ اتنی سرسبز اور فرحت بخش نہیں تھی۔اس سنگلاخ کی تسخیر مجھے ایک دشوار مرحلہ معلوم ہوتا تھا لیکن بیس کیمپ تک پہنچنا تھا تو اسے عبور کرنا مجبوری تھی۔چڑھائی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ پھر مسرت نذیر کی بھولی بسری یادیں تازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی … چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ  …  سفر کٹنا شروع ہوا اور حیرت انگیز انداز میں کٹتا ہی چلا گیا۔ سنگلاخ کی تقریباً ایک تہائی بلندی پر پہنچ کر انتہائی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔ جسم غالباً چڑھائی کا عادی ہو گیا اور سانس پھولنے کی رفتار برداشت کی حد میں رہنے لگی۔ پتھروں کا لڑھکنا کم ہوا،قدموں کی ڈگمگاہٹ استقامت میں تبدیل ہو ئی اور میں تقریباً ایک گھنٹے میں ٹاپ پر پہنچ گیا،جہاں ایک وسیع و عریض سرسبز حیرت کدے نے خوش آمدید کہا۔
دئینتر پاس ٹریک کا ایک اور تحفہ … دل موہ لینے والا ایک اور منظر
 یہ ایک روایتی پہاڑی چراگاہ تھی جس کے وسط میں ایک سرسبز ٹیلا تھا اور اطراف میں بہنے والے کئی پانی جھلمل کر رہے تھے۔آس پاس کی بلندیوں کے دامن میں کئی درجن مویشی (یاک xگائے= زو یا زومو) (نر= زو  مادہ =زومو) چہل قدمی فرما رہے تھے۔ اس قسم کی ’’لش گرین میڈوز‘‘  بھی افسانوی شہرت رکھتی ہیں اور تاروں بھری رات میں بلندیوں سے اُتر کر یہاں رقص کرنے والی پریوں کے قصے لوک داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
میر عالم اور شیر احمد اپنے اپنے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر کے سستا رہے تھے۔ عالم خان نے اپنا بوجھ اتار کر ٹیلے پر رکھ دیا۔ میں بھی سر سبز گھاس پر دراز ہو گیا۔ چند منٹ بعد میر عالم اور شیر احمد میرے پاس آئے۔
’’سفر کیسا گزرتا اے سر؟‘‘  میر عالم نے دریافت کیا۔
’’ابھی تک تو ٹھیک گزرتا ہے،آگے کا پتا نہیں۔ ‘‘
’’کل کا کل دیکھے گا سر۔آج آپ اتنی جلدی بیس کیمپ پہنچتا اے تو کل کا فکر مت کرو، کل بڑے آرام سے ٹاپ پہ پہنچتا اے۔‘‘
’’یہ بیس کیمپ ہے؟‘‘  میں نے سرخوشی کے عالم میں تصدیق چاہی۔
’’آپ کو نئی پتا؟‘‘ میر عالم حیران ہوا۔
اس کا مطلب تھا آج کا سفر تمام ہوا۔ یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ گائیڈ بک کے مطابق ہمارا آج کا سفر چار سے پانچ گھنٹے طویل تھا۔ گذشتہ روز کی سٹیج یعنی نل تر جھیل سے لوئر شانی کا سفر تین تا چار گھنٹے بتایا گیا تھا، ہم تین گھنٹے میں ڈھیری پہنچے تھے اور ڈھیری سے لوئر شانی پہنچے میں مزید دو گھنٹے صرف ہوئے تھا۔ اس اندازے کے مطابق آج کا سفر چھ سے سات گھنٹے طویل ہونا چاہیے تھا جو پونے چھ گھنٹے میں اختتام کو پہنچا۔ اس حساب کتاب کی روشنی میں میر عالم یہ پیش گوئی کرنے میں حق بجانب تھا:
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں
دئینتر کی تسخیر کے آثار نظر آتے ہیں
بیس کیمپ سے وادیِ  نل تر کا نظارہ ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ تنگ دامن نل تر وادی کی پوری وسعت ایک منظر میں سما جاتی ہے۔ ہم نے نل تر جھیل سے ٹریک شروع کیا تھا اور نل تر نالے کے دونوں طرف صف آرا برفیلی بلندیوں کے بیچ سفر کرتے ہوئے پہلے ڈھیری اور پھر لوئر شانی پہنچے۔ لوئر شانی سے بیس کیمپ تک کا سفر مرغزاروں اور سنگلاخ چٹانوں کا ملا جلا مجموعہ تھا۔ بیس کیمپ کی بلندی سے اس پورے سفر کے مناظر خوبصورت تصویر کی طرح نظروں کے سامنے پھیلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔اس منظر کے انتہائی جنوب میں نل تر جھیل تھی اور شمالی کنارے پر شانی پیک۔نل تر نالا ان دونوں خوبصورتیوں کو آپس میں ملاتا تھا۔ اس طویل منظر میں کیا نہیں تھا؟ جھیلیں، گلیشئرز، جھرنے،آبشار، چشمے، سبزہ زار، گل زار  …  اور ان سب پر سایہ فگن برف پوش یا  سبز پوش بلندیاں جن کی چوٹیوں پر کالی گھٹائیں رقص کرتی تھیں اور سورج کی کرنیں ان سیاہ ’’زلفوں‘‘  میں رنگ برنگے موتی پروتی تھیں۔ سبز و سفید بلندیوں کا یہی جھرمٹ وادیِ  نل تر کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔
میں نے عالم خان سے فرمائش کی کہ دئینتر پاس کے درشن کرائے۔ عالم خان نے مشرقی پہاڑی سلسلے کی طرف اشارہ کر دیا۔ان بلندیوں پر سنو ڈوم اور مہربانی پیک کی برف لشکارے مارتی تھی اور ارد گرد کی سرمئی چٹانیں گلیشئرز سے ڈھالا گیا نقرئی زیور پہن کر نئی نویلی دلہن کے سنگھار کو شرماتی تھیں۔  دئینتر پاس بیس کیمپ دراصل سنوڈوم نامی چوٹی کا بیس کیمپ ہے۔ ہم سنو ڈوم کے دامن میں تشریف فرما تھے اور اس برف پوش بلندی کے دوسری جانب وادیِ  دئینتر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
’’یہ سنو ڈوم ہے۔پاس کہاں ہے؟‘‘ میں نے عالم خان سے دریافت کیا۔
اُس نے سنو ڈوم کے پہلو میں ایک سرمئی بلندی کی طرف اشارہ کیا۔ اس بلندی تک پہنچنے والی چڑھائی تقریباً عمودی تھی۔
’’پاس اس چوٹی کے قریب سے گزرتا ہے؟‘‘
’’قریب وریب سے نہیں گزرتا۔بالکل اوپر سے گزرتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ؟ تم کہنا چاہتے ہو اس پہاڑ پر سیدھا چڑھنا ہو گا؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’اُلٹا کیسے چڑھ سکتا ہے؟‘‘ عالم خان مجھ سے زیادہ حیران ہوا۔
’’میرا مطلب ہے عام طور پر ایک بل کھاتا ہوا راستہ اس قسم کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔چڑھائی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
’’ادھر کوئی بل ول نہیں ہوتا سر۔ بالکل سیدھا راستہ ہے۔‘‘
میں کچھ دیر حیرانی و پریشانی کے عالم میں دئینتر پاس کی پتھریلی بلندی کی طرف دیکھتا رہا جس کی چڑھائی تقریباً ساٹھ درجے کا زاویہ بناتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں حساب کتاب کیا اور فیصلہ صادر کر دیا:
’’میں اس عمودی چڑھائی کو سیدھا سیدھا عبور نہیں کر سکتا۔‘‘
’’نہیں کر سکتا ناں ؟اسی لئے توہم بولتا ہے کہ واپس چلو یا پکھورا پاس کراس کر لو، اُس طرف ایسا چڑھائی نہیں ہے۔آپ مانتا ہی نہیں۔ ‘‘
میں نے اس منظر سے آنکھیں چرا لیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا کہ قوتِ  تسخیر عنایت نہیں فرمائی تو اتنے خوبصورت مقامات تک رسائی چہ معنی دارد؟
جب میری پہنچ میں کوئی ’’پنگا‘‘  ہی نہیں ہے
پھر کس لئے لگتا ہے یہ میلا میرے آگے
میرا خیال تھا کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کے با موقع اور بے موقع ورد کا حقیقی نتیجہ اب سامنے آیا ہے اور دئینتر پاس کہانی کم از کم میرے اور طاہر کے لیے منطقی انجام کو پہنچی۔
’’آپ ناراض ہو گیا سر؟‘‘ عالم خان نے سوال کیا۔
’’نہیں یار، بیزار ہو گیا ہوں۔ ‘‘ میں نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
’’کوئی گانا مانا سنائے سر؟‘‘ اُس نے شوخ لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔
’’گانا؟کون سا گانا؟‘‘  میری بیزاری ہوا ہو گئی۔
’’جو آپ بولے۔‘‘
طاہر،عرفان اور بھٹہ صاحب ہمارے پاس پہنچے تو عالم خان لہک لہک کر …  جب پیار کیا تو ڈرنا کیا  …  پر طبع آزمائی کر رہا تھا اور میں داد کے ڈونگرے لٹا رہا تھا۔اُن کے آنے پر عالم خان نے گانے کا سلسلہ روک کر پُر مسرت لہجے میں اطلاع دی کہ ڈاکٹر صاحب دئینتر پاس والے پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا اس لیے واپس جائے گا۔
’’کون سے پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتے؟‘‘ طاہر نے دریافت کیا۔
’’یہ جو سامنے نظر آتا ہے۔‘‘ عالم خان نے وادیِ  دئینتر کے راستے میں حائل بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
 ’’یہ پہاڑ ہے؟‘‘ طاہر نے حیرانی کا اظہار کیا۔
’’اور کیا ہے؟‘‘
’’مجھے تو کوئی آوارہ حسینہ لگتی ہے جو اپنی بلندیوں کو تسخیر کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ ا س پر چڑھنا کون سا مشکل کام ہے؟‘‘  طاہر نے بہ غور سنو ڈوم کا جائزہ لینے کی اداکاری کی۔
’’یار خدا کا خوف کرو۔ سیدھے راستے پر تم اڑیل ٹٹو کی طرح اٹکتے ہوئے چل رہے ہو، آوارہ حسینہ کی بلندی تک کتنے دن میں پہنچو گے؟‘‘
’’جتنے دن میں بھی پہنچے،پہنچ تو جائیں گے ناں ؟ وقت سے پہلے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘  طاہر کے بجائے عرفان نے جواب دیا۔
’’بائی دا وے، آپ کو کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ ہم جیسے مبتدیوں کو دئینتر پاس جیسے ٹیکنیکل ٹریک میں پھنسائیں ؟‘‘  میں نے عرفان کو مخاطب کیا۔
’’الو کے پٹھے نے نہیں الو کی پٹھی نے۔‘‘ عرفان نے تصحیح کی۔
’’کون الو کی پٹھی؟‘‘
’’دئینتر پاس کا خیال مجھے ازابیل شا کی کتاب پڑھ کر آیا تھا۔‘‘
’’اُس نے خبردار نہیں کیا کہ اس ٹریک پر بچے بچونگڑے ساتھ نہ لائیں ؟‘‘
’’اچھا جی؟آپ بچے بچونگڑے ہیں ؟‘‘
’’ٹریکنگ کی دنیا کے طفلِ  مکتب ہی ہیں۔ دئینتر پاس کی چڑھائی اس جگہ سے ایک ٹیکنیکل کلائمبنگ معلوم ہوتی ہے اور اس کی ٹاپ تک پہنچنا بچوں کا کھیل نہیں۔ ‘‘
’’دئینتر پاس کوئی ٹیکنیکل ٹریک نہیں ہے۔‘‘
’’ٹیکنیکل ٹریک نہیں ہے تو آپ آئس ایکس، روپس اور کریمپونز کیوں اٹھا لایا ہے۔‘‘  میرے کچھ کہنے سے پہلے عالم خان نے سوال کیا۔
’’وہ ؟ صرف احتیاط کے طور پر ساتھ لایا ہوں۔ ‘‘
’’ہم ٹیکنیکل ٹریکنگ کا ایکوئپمنٹ ساتھ لائے ہیں ؟‘‘  میں اس انکشاف پر ایک مرتبہ پھر حیران و پریشان ہو گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں۔ وہ صرف حفظِ ما تقدم کے طور پر لائے گئے ہیں۔  ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ایکوئپمنٹ مکمل ہونا چاہیے۔ مجھے سو فیصد امید ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘
’’ٹاپ کی اترائی پر برف ہوا تو آ بھی سکتا ہے۔‘‘  عالم خان نے انکشاف کیا۔
 ’’عالم خان تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے؟میں کہہ رہا ہوں کہ کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’ایکوئپمنٹ کی ضرورت پیش آ گئی تب بھی کچھ نہیں ہو گا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
 سر جی کوئی ضرورت ورورت پیش نہیں آئے گی،اور آ ہی گئی تو یہ میری ذمہ داری ہے۔ آپ بلا وجہ پریشان نہ ہوں۔ ‘‘
’’ذمہ داری کیا کرے گی جب ہمیں ان اشیاء کا استعمال ہی نہیں آتا؟‘‘
’’استعمال آنے میں کون سی دیر لگتی ہے؟ ابھی آپ کو کریمپونز باندھنا، روپ اپ ہونا اور آئس ایکس استعمال کرنا سکھا دیتا ہوں، لیکن ایک سو ایک فیصد امید یہی ہے کہ اس کاٹھ کباڑ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ ٹاپ کی برف پگھل چکی ہے۔‘‘
’’عالم خان کا خیال ہے کہ ہم دئینتر پاس کراس نہیں کر سکتے۔‘‘
عرفان یہ سن کر چراغ پا ہو گیا۔
’’عالم خان فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟تمھیں چاہیے کہ اپنے کلائنٹس کی ہمت بندھاؤ، واپس جانے پر کیوں اکسا رہے ہو؟‘‘
’’اس نے واپس جانے کا نہیں کہا۔اس کی تجویز تھی کہ دئینتر کے بجائے پکھورا یا حایول پاس کراس کر لیا جائے کیونکہ وہ بہت آسان ٹریک ہیں اور اُن کے مناظر دئینتر پاس کی نسبت بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ ‘‘  میں نے عالم خان کی صفائی پیش کی۔
’’میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ دئینتر پر پکھورا یا حایول کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔  پکھورا اور حایول دئینتر کی نسبت اس لیے آسان ہیں کہ وہاں سٹیجز کی تعداد زیادہ ہے۔ دئیننتر پاس ٹریک کی پانچ سٹیج ہیں جبکہ پکھورا یا حایول کے لیے یہ لوگ سات تا نو سٹیجز کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔  آپ حایول کا فیصلہ کریں، عالم خان فوراً مطالبہ کر دے گا کہ حایول کی سٹیجز زیادہ ہیں، معاوضے میں کم از کم دوگنا اضافہ کر دیا جائے۔‘‘  عالم خان نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ عرفان کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے۔عرفان نے بیان جاری رکھا۔
’’بے شک پکھورا نسبتاً آسان ٹریک ہے۔نل تر پاس ایک پیالہ نما برفیلا میدان ہے جہاں کئی درجن خیمے لگائے جا سکتے ہیں۔  اس کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، لیکن وہاں سے گزرتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کوئی پہاڑی سلسلہ عبور کر رہے ہیں۔ دئینتر پاس کی چڑھائی اور اُترائی پاس کراسنگ کا اصل حسن ہے۔مجھے امید ہے آپ انجوائے کریں گے۔‘‘
’’شرط یہ ہے کہ وہاں تک پہنچ جاؤں۔ ‘‘
’’آپ خود کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔  سب سے آگے چل رہے ہیں اور سب سے زیادہ واویلا کر رہے ہیں۔ اب تک کوئی خاص دشواری پیش آئی؟‘‘
’’اب تک تو لطف ہی لطف پیش آیا ہے۔‘‘  میں نے اعتراف کیا۔
’’کل انشاء اللہ ٹاپ پر پہنچیں گے تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔ وعدہ کریں کہ پاس عبور کرنے کے بعد پی سی بھوربن میں ڈنر دینا نہیں بھو لیں گے۔‘‘
’’فکر نہ کریں :
منہ پھیکا کرا دیں گے
آپ اگر ہم کو
دئینتر پاس کرا دیں گے
مایوسی اور تذبذب بیس کیمپ کی گنگناتی فضاؤں میں تحلیل ہو گئے۔
٭٭٭




کڑکتی بجلی، ہواؤں سے ڈولتے خیمے


Mighty oceans of darkness gently flow
Shiny pearls like stars brightly glow
Sensation of your elegant bloom
Appears once in a blue moon
Hemakumar Nanayakkara
جب گھٹا ٹوپ اندھیرے کے سمندر میں ستاروں کے موتی جگمگا رہے ہوں تو محبت بھرے جذبات و احساسات چاند کی کرنوں کا بھیس بدل لیتے ہیں
ہیما کمار نانا یاکر

ہم اپنی نوک جھونک اور گپ شپ میں مگن تھے کہ طاہر نے ایک زوردار چیخ ماری اور چھلانگ لگا کر دور جا کر کھڑا ہو۔ہمارے قریب کھڑی ہوئی ایک دیو قامت زومو اسے خوفناک نظروں سے گھور رہی تھی۔
’’یہ مجھے کچا ہی کھانے لگی تھی۔‘‘  طاہر نے گردن سہلاتے ہوئے فریاد کی۔
  اس کی قمیص کا کالر گیلا ہو رہا تھا۔زو مو نے غالباً کالر چبانے کی کوشش کی تھی۔
ہم نے زومو کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگانے کی کوشش کی،اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ہمیں احساس ہوا کہ ارد گرد کی چٹانوں پر گھومنے پھرنے والے مویشی جوق در جوق ہماری جانب امڈے چلے آرہے ہیں۔ کم و بیش پندرہ بیس ’’زویات‘‘  ہمیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے چکے تھے اور اس انداز میں جائزہ لے رہے تھے جیسے کسی ’’زو‘‘  (zoo )کے تعلیمی و تفریحی دورے پر تشریف لائے ہوں۔
’’عالم خان یہ نامعقول فوج حملے کی تیاری کیوں کر رہی ہے؟ ان کے تیور ٹھیک نہیں لگتے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے کہا۔
’’سر یہ حملہ نہیں کرتا نمک مانگتا ہے۔‘‘
’’نمک؟ہم سے نمک کیوں مانگ رہے ہیں ؟‘‘
’’ان کا مالک ہر ہفتے ادھر آتا ہے اور انہیں نمک کھلاتا ہے تاکہ ان کا پیٹ ٹھیک رہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ ہم لوگ ان کے لیے نمک لایا ہے۔‘‘
’’مالک ہفتے میں صرف ایک مرتبہ آتے ہیں ؟‘‘  بھٹہ صاحب حیران ہوئے۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
’’ان کا دودھ کو ن نکالتا ہے؟‘‘
’’دودھ کوئی نہیں نکالتا۔ ان کا بچہ پیتا ہے۔ بچہ لوگ تین چار سال کا ہو جاتا ہے تو مالک اسے بیچ کر پیسا بناتا ہے۔‘‘
’’اور زوکو یہیں چھوڑے رکھتا ہے،رکھوالے کے بغیر؟‘‘
’’رکھوالا ادھر کیا کرے گا؟‘‘
’’یہ تمام زو ایک ہی مالک کے ہیں ؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’نہیں سر۔ پورے علاقے کے لوگوں کا ہے ناں۔ سب نے اپنا اپنا نشان لگایا ہوا ہے۔ زو مو بچہ دیتا ہے تو مالک آتا ہے اور اس کے جسم پر اپنا خاص نشانی داغ دیتا ہے، جانور ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے اور بچہ دیتا رہتا ہے۔‘‘
’’سردیوں میں ہر طرف برف ہوتی ہو گی۔اُس وقت مویشی کہاں جاتے ہیں ؟‘‘
’’سردیوں میں جانور نیچے چلا جاتا ہے ناں۔ پھر مالک ان کا دودھ نکالتا ہے اور شہر جا کر بیچ دیتا ہے۔مکھن بنا کر بھی بیچتا ہے۔‘‘
’’یہ جم کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ انھیں یہاں سے بھگانے کی کوشش کرو۔‘‘
’’ان کو نمک نہیں ملتا ہے تو اپنی مرضی سے واپس جاتا ہے۔ بھگانے سے نہیں جاتا۔‘‘
’’ان میں کوئی یاک نہیں ہے؟میں نے پڑھا ہے کہ دئینتر پاس بیس کیمپ کے آس پاس یاک اور مارخور نظر آ سکتے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے کہا۔
’’بہت پرانا بات ہو گیا سر۔کسی زمانے میں ادھر بہت مارخور ہوتا تھا اب نظر نہیں آتا۔اصل یاک بھی اب نظر نہیں آتا۔گورا لوگ زو کو یاک سمجھ لیتا ہے اور ہم لوگ انھیں یہی بتاتا ہے کہ یہ یاک ہے۔‘‘
’’یاک اب نظر کیوں نہیں آتا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’یاک پالنا بڑا مشکل کام ہے۔ خرچامرچا بہت زیادہ ہوتا ہے۔اب وہ صرف فارم وغیرہ میں نظر آتا ہے۔‘‘
’’وہ گورے جو زو کو یاک سمجھ لیتے ہیں اب یہاں نہیں آتے؟‘‘
’’آج کل نہیں آتا۔چار پانچ سال پہلے بہت گورا لوگ آتا تھا۔ ہم کو یاد ہے ایک گوری نے بہت طوفان مچایا تھا۔‘‘
’’طوفان؟کیسا طوفان؟‘‘ عرفان نے دریافت کیا۔
’’سر وہ ادھر آیا اور اس چوٹی کے گلیشئر پر خیمہ لگا کر پورا ہفتہ گزار دیا۔‘‘ عالم خان نے سنو ڈوم نامی چوٹی کی طرف اشارہ کیا۔
’’ایک ہفتے تک وہ یہاں کیا کرتی رہی؟‘‘
’’وہ پریوں کا دیدار کرنے ادھر آیا تھا۔یہ جو سنو ڈوم اور مہربانی پیک ہے نا سر۔ اس کے اوپر بہت سارا پری لوگ رہتا ہے۔‘‘
’’پریوں کے دیدار کے لیے کوئی مرد پاگل ہو سکتا ہے، ایک خاتون کو پریوں سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟‘‘ عرفان نے اعتراض کیا۔
’’پریوں کے شوہروں پر ڈورے ڈالنا چاہتی ہو گی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے وہ ہم جنس پرستی کی شوقین ہو۔‘‘  بھٹہ صاحب نے بھی خیال آفرینی کی۔
’’شوقین تو تھا ناں سر۔ اس کا سکریو بھی تھوڑا ڈھیلا تھا۔جس دن دھوپ نکلتا اور موسم اچھا ہوتا تو وہ اپنا جیکٹ، شرٹ اور ٹراؤزر اتار دیتا تھا۔‘‘
’’ہائیں ؟ پھر وہ پہنے کیا رہتی تھی؟‘‘ بھٹہ صاحب نے تجسس سے سوال کیا۔
’’بلاؤزر اور کچھی پہنتا تھا ناں، اور کیا پہنتا؟‘‘
’’وہ اکیلی تھی؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔
’’بالکل اکیلا تھا۔‘‘
’’کمال ہے۔ پھر وہ کسے دکھانے کے لیے جیکٹ اور ٹراؤزر اتارتی تھی؟‘‘
’’کمال تو آپ کرتا ہے سر۔اسے دیکھنے والوں کا کون سا کمی تھا؟ آپ یقین کرو سات آٹھ دن تک میلا لگا رہا تھا۔ہم خود اسے دیکھنے روزانہ ادھر آتا تھا۔‘‘
’’کہاں سے آتا تھا۔‘‘
’’ہمارا گھر نل تر میں ہے ناں، اُدھر سے آتا تھا۔‘‘
’’اسے کوئی روکتا ٹوکتا نہیں تھا؟‘‘
’’ادھر روک ٹوک والا لوگ نہیں آتا تھا۔نظارا کرنے والا لوگ آتا تھا۔‘‘
’’اُس نے کسی کو لفٹ نہیں دی؟‘‘
’’نو سر جی۔اس معاملے میں وہ بہت حرامی تھا۔ سب کی طرف دیکھ کے مسکراتا تھا۔ ہاتھ واتھ ہلاتا تھا۔ اپنے پاس نہیں بلاتا تھا۔‘‘
’’کسی نے اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اکیلی عورت اگر خود دعوتِ نظارہ دے تو کئی منچلے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
’’ادھر ایسا نہیں ہوتا سر۔ہمارا روزی ٹورسٹ کے سر پر چلتا ہے۔ ہم اگر ٹورسٹ سے زبردستی کرے گا تو ٹورسٹ ادھر نہیں آئے گا۔ ہم روزی کیسے کمائے گا؟‘‘
’’لیکن کئی علاقوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ نانگا پربت کے آس پاس ایسے ہی ایک واقعے کو زبردست شہرت ملی تھی۔‘‘ میں نے یاد دلایا۔
’’ہوا ہو گا سر۔ ہمارے علاقے میں زبردستی نہیں  ہوتا۔‘‘
’’اور رضامندی سے؟‘‘
’’رضامندی سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے کئی لڑکوں نے گوریوں سے دوستی بنایا۔ گوریوں کو وہ لوگ اتنا پسند آیا کہ شادی کر کے انھیں اپنے ساتھ باہر لے گیا۔ اب وہ سب باہر کے ملک میں عیش کرتا ہے۔‘‘
’’تم نے کسی کے ساتھ دوستی نہیں بنائی؟‘‘
’’سر جی جب سے طالبان شالبان کا چکر شروع ہوا ہے سارا معاملہ گڑ بڑ ہو گیا ہے۔ آپ دس سال پہلے آتا تو بیس کیمپ پر گورا لوگ کا میلہ لگا ہوتا۔کیمپ فائر ہوتا، ڈانس مانس ہوتا، بوتل شوتل کھلتا۔مگر اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔دوستی کا چانس کیسے بنتا ہے؟‘‘
’’تم نے کسی ڈانس مانس میں شرکت کی ہے؟‘‘
’’بہت سارے میں کیا ہے۔‘‘
’’کسی گوری نے لفٹ نہیں دی۔‘‘  بھٹہ صاحب نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
’’دیا تھا سر۔کیوں نہیں دیا تھا؟‘‘
’’اچھا؟تم جیسوں کو بھی لفٹ مل جاتی ہے؟‘‘  عرفان حیران ہوا۔
’’بالکل ملتا تھا سر۔‘‘
’’کس بے وقوف سے ملی تھی؟‘‘  عرفان نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
’’ایک جاپانی گڑیا تھا۔ہم نے اسے حایول پاس کرایا تھا۔‘‘
’’وہ حایول پاس کراس کرنے جاپان سے اکیلی پاکستان چلی آئی تھی؟‘‘
’’اس کا بوائے فرینڈ ساتھ تھا ناں۔ پورا بندر کا بچہ لگتا تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور وہ جاپانی بندر بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ڈاکٹر کہتا تھا کہ اسے گردن توڑ بخار ہو گیا ہے، ہفتہ دس دن ہسپتال میں گزارنا پڑے گا۔‘‘
’’اور اس کی گرل فرینڈ اسے ہسپتال میں چھوڑ کر تمھارے ساتھ حایول پاس کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔‘‘ بھٹہ صاحب نے ملامت آمیز لہجے میں افسوس کا اظہار کیا۔
’’اور کیا کرتا؟‘‘
’’اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی۔ اس کی تیمار داری کرتی۔‘‘
عالم خان ہنسنے لگا۔
’’جاپان میں ایسا نہیں ہوتا ناں۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان کا نرس لوگ بھی بیمار کا اتنا ہی دیکھ بھال کرتا ہے جتنا جاپان کا نرس کرتا ہے۔وہ ہسپتال میں قید ہو کر اپنا ٹائم اور پیسا ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
’’اور تم دونوں نے کلم کلے حایوں پاس کراس کیا ؟‘‘  بھٹہ صاحب فکر مند ہو گئے۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
 ’’کوئی پورٹر ساتھ نہیں تھا؟‘‘
’’پورٹر کا ضرورت نہیں تھا۔اس کا سامان بہت تھوڑا تھا۔جین کا دو تین ٹراؤزر تھا، دو تین شرٹ، ایک جیکٹ، سلیپنگ بیگ اور ٹینٹ۔ٹینٹ ہم اٹھاتا تھا،اپنا رک سیک وہ خود اٹھاتا تھا۔‘‘
’’اور تمھارا سامان؟‘‘
’’ہمارا کیا سامان تھا؟صرف سلیپنگ بیگ تھا۔‘‘
’’کھانے کا سامان تو ہو گا نا؟‘‘
’’کھانا ہم آس پاس کی بستی سے لاتا تھا جیسے آپ کے لیے روٹی لاتا ہے۔نل تر ٹاپ کے پاس کوئی بستی نہیں تھا تو ہم نے ڈرائی فروٹ پر گزارا کیا۔‘‘
’’ٹینٹ ایک تھا تو تم کہاں سوتے تھے؟‘‘
’’جہاں آج سوئے گا۔کوئی بہک وغیرہ مل جاتا تھا ناں، مگر نل تر پاس پر رات کا ٹائم بہت برف باری ہوا تو ہم اس کے ٹینٹ ہی میں سویا تھا۔‘‘
’’اوئے تم دونوں ساری رات کیا کرتے رہے تھے؟‘‘ بھٹہ صاحب چونکے۔
’’لڈو کھیلتا تھا ناں۔ ‘‘ عالم خان نے بھٹہ صاحب کی لا علمی کا مذاق اڑایا۔
’’لڈو کھیلتے تھے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے حیرانی سے دہرایا۔
’’اور کیا کرتا؟‘‘ عالم خان نے معصومیت کا مظاہرہ کیا۔
’’تمھیں پتا نہیں کہ کوئی گوری اپنے خیمے میں سونے کی اجازت دے تو کیا کرتے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے آنکھیں نکالیں۔
   ’’پتا تو ہے سر جی، مگر نل تر ٹاپ کے نالے کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے اور ہم کو  ٹھنڈے پانی میں نہانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘  عالم خان نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
’’اس نے تمھیں اپنے ساتھ جاپان چلنے کی دعوت نہیں دی؟‘‘
’’ہم واپس گلگت پہنچا تو بندر کا بچہ ٹھیک ہو چکا تھا۔‘‘  عالم خان کے لہجے میں حسرتوں کا طوفان ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
یہ خوش گپیاں سبزہ زار پر دراز ہو کر اس وقت تک جاری رہیں جب تک تھکاوٹ کا احساس باقی رہا۔ زائل ہونے والی توانائی واپس لوٹ آئی تو منظر بینی اور منظر کشی کا خیال آیا۔ عالم خان کو چائے کی تیاری کا حکم دیا گیا اور ہم فوٹو گرافی میں مصروف ہو گئے۔ دئینتر پاس بیس کیمپ ایک خوبصورت کیمپنگ سائٹ ہے۔نل تر پیک کی ہم آغوش ہونے والی جڑواں بلندیوں کا بہترین نظارہ اسی سبزہ زار سے کیا جا سکتا ہے۔ شانی پیک کی رعنائیاں، سنوڈوم کی دل ربائیاں اور مہربانی پیک کی مہربانیاں بیس کیمپ کی دلکشی میں افسانوی رنگ بھرتی ہیں۔
ٹوئین ہیڈ پیک (جڑواں چوٹیاں ) نل تر وادی کے ماتھے کا جھومر کہلانے کی حق دار ہیں۔ نیلولوٹ سے لوئر شانی تک سفر کے دوران یہ آپ کے بائیں (مغرب )جانب رہتی ہیں۔ جنوبی چوٹی کی بلندی ۵۶۳۹ میٹر ہے اور شمالی چوٹی ۵۵۹۸ میٹر بلند ہے۔ بعض کتابوں میں یہ بلندی ۵۷۹۸ اور ۵۷۰۰ میٹر بھی لکھی ہے۔ مقامی روایات کے مطابق جنوبی چوٹی آج تک صرف دو مرتبہ سر کی جا سکی ہے۔ کوہ پیمائی ریکارڈ کے مطابق رابرٹ میکفرلین اور پاؤل وُڈ ہاؤس نے سب سے پہلے ٹوئن پیک سر کی۔ان بلندیوں پر صبح سویرے پیش کیا جانے والا سنہری کرنوں کا رقص دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منظر کی تصویر نے فلکر ڈاٹ کام(Flickr.com) پر سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا۔
ٹوئین پیک سے آگے (شمال کی جانب) وادیِ  نل تر کی بیوٹی کوئین شانی پیک اور شانی گلیشئر کا ہوش ربا منظر ہے۔انیس ہزار تین سو بیس فٹ ( پانچ ہزار آٹھ سو پچپن میٹر) بلند شانی اس علاقے میں برطانوی کوہ پیماؤں کی پسندیدہ ترین جولان گاہ بن چکی ہے۔ اسے پہلی مرتبہ راجر ایورٹ اور گائے موہلی مین نے ۱۹۸۶؁  میں سر کیا۔ اس سال (۲۰۰۸؁  ) ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے چار کوہ پیماؤں نے قسمت آزمائی کی۔ وہ مشرقی روٹ سے چوٹی تک پہنچ کر مغربی جانب سے نیچے اترنا چاہتے تھے۔ شانی پیک نے سر نگوں ہونا مناسب نہ سمجھا اور مسلسل گرنے والے برف کے تودوں سے خوف زدہ کوہ پیما ناکام ہو کر واپس چلے گئے۔
ٹوئین پیک اور شانی پیک کے بالمقابل (مشرق میں ) سنو ڈوم اور مہربانی پیک سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ بیس کیمپ کی مشرقی جانب ان کا مشترکہ نظارہ ٹریک کا بہترین منظر نامہ تخلیق کرتا ہے۔ مہربانی پیک وادیِ  نل تر اور وادیِ  چپروٹ،جبکہ سنوڈوم وادیِ  نل تر اور وادیِ  دئینتر کی سرحد بناتی ہیں۔ سنوڈوم کے ایک پہلو (شمال) میں دئینتر پاس اور  دوسرے پہلو (جنوب) میں چپروٹ پاس ہے۔ مہربانی پیک ۵۶۳۹ میٹر اور سنوڈوم ۵۰۳۰ میٹر بلند ہیں۔ ہالسٹن اور مورگن نے اس سال (۲۰۰۸؁) سنوڈوم کو سکائی انگ کر کے عبور کیا۔یہ وہی برفیلا میدان ہے جہاں عالم خان کے بقول ایک گوری بلاؤزر اور کچھی پہن کر نوجوانانِ نل تر کے دلوں پر بجلیاں گراتی تھی،اور کسی کے ہاتھ نہ آتی تھی۔
بیس کیمپ کے سبزہ زار سے حسینانِ نل تر کا  اجتماعی حسن دیکھنے کی چیز ہے، اس پر رواں تبصرہ ممکن نہیں۔ طاہر نے ان کی ملاحت اور بانکپن مووی کیمرے میں محفوظ کرنے کی کوشش کی  …  لیکن  …  جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں کہاں ؟
عالم خان نے چائے تیار ہونے کا اعلان کیا اور ہم اس کے خود ساختہ کچن کے گرد بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے لگے۔چائے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ابھی شام ہونے میں کافی دیر ہے۔آج کی سٹیج ہم نے گائیڈ بک کے معیار سے بہت پہلے مکمل کر لی تھی۔بے شک منظر بہت خوبصورت تھا،لیکن چائے پینے سے پہلے نظروں میں بسایا جا چکا تھا۔عرفان نے تجویز پیش کی کہ مزید آرام کرنے کے بجائے سفر جاری رکھا جائے تاکہ کل کی سٹیج نسبتاً مختصر ہو جائے۔ عالم خان نے یہ تجویز سختی سے رد کر دی۔اس کا کہنا تھا کہ بیس کیمپ سے ٹاپ تک سارا راستہ ڈھلوانی ہے اور ابھی کوئی جگہ میسر نہیں آئے گی جہاں خیمے نصب کیے جا سکیں۔ بیس کیمپ سے ٹاپ تک کا سفر ایک ہی قسط میں طے کرنا ہو گا۔ ہم میں اگر اتنی سکت ہے کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ٹاپ تک پہنچ سکیں تو بسم اللہ،ورنہ خیمے نصب کر لیے جائیں۔
 بیس کیمپ سے دئینتر پاس ٹاپ تک تین سے چار گھنٹے کا ٹریک ’’سخت ترین‘‘  کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ہم اس وقت کوئی سخت ترین پنگا لینے کے قابل نہیں تھے اس لیے پورٹرز کو حکم جاری کیا گیا کہ بیس کیمپ کے سبزہ زار میں خیمے نصب کر دیئے جائیں۔ خیمے نصب ہوتے ہی ’’زویات‘‘  نے ایک مرتبہ پھر ہمارا محاصرہ کر لیا لیکن اس مرتبہ ہم نے ان کی موجودگی پر توجہ نہ دی اور وہ مایوس ہو کر ارد گرد کی سرسبز چٹانوں پر بکھر گئے۔بیس کیمپ کی تنہائی اور فارغ البالی نے احساس دلایا کہ ٹریکنگ کے سامان کی فہرست میں تاش، لڈو یا شطرنج جیسے تفریحی عناصر خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس ان میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی، وقت گزارنے کے لیے مجبوراً ’’بارہ ٹینی‘‘  کی بازیاں لگا کر بچپن کی یاد تازہ کی گئی۔پنجاب کے دیہات کا یہ مقبول ترین کھیل بارہ چھوٹی چھوٹی کنکریوں اور زمین پر کھینچی گئی چند لکیروں کی مدد سے کھیلا جاتا ہے۔بھٹہ صاحب اس کھیل کے سپیشلسٹ تھے۔ انھوں نے باری باری ہم سب کو شکست فاش دی۔ عرفان بازیاں ہار ہار کر تنگ آ چکا تو اس نے تجویز پیش کی:
’’ڈاکٹر صاحب اس بے فائدہ مشغلے سے بہتر ہے کہ روپ اپ ہو نے کا طریقہ اور کریمپونز کا استعمال سیکھ لیں۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘  میرے کان کھڑے ہوئے۔’’آپ کہہ رہے تھے اس کاٹھ کباڑ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘
’’اب بھی یہی کہہ رہا ہوں، لیکن فارغ وقت فضولیات میں ضائع کرنے کے بجائے کسی مفید سر گرمی میں صرف کر لیا جائے تو کیا حرج ہے؟ آپ دئینتر پاس کراس کرنے میں کامیاب ہو جا تے ہیں تو غونڈو غورو کا نمبر لگ سکتا ہے۔‘‘
’’میں ٹریکر ہوں، پاگل نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ہو تو سکتے ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے خدشہ ظاہر کیا۔
اس طرح ٹریکنگ کی باقاعدہ ٹریننگ کا آغاز ہوا۔
عرفان نے ہمیں روپ اپ (رسے کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہو نا) ہونے کے علاوہ بھی رسے کے کئی استعمال سکھانے کی کوشش کی۔فگر آف ایٹ کے کمالات نے ہمیں بہت حیران کیا۔یہ جادوئی گرہ عمودی ڈھلوان رکھنے والی برفیلی یا پتھریلی بلندیوں کو بہ خیر و عافیت عبور کرنے میں حیران کن کردار ادا کر سکتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس دوران رسّا آپ کے جسم کے بہت سے نازک مقامات کے ساتھ نہایت بیہودہ قسم کی چھیڑ چھاڑ کرتا ہوا گزرتا ہے اور آپ کوئی دفاعی ’’حرکت‘‘  نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں ہاتھ رسے کو قابو رکھنے میں بے تحاشہ مصروف ہوتے ہیں۔ عرفان نے ہمیں دوچار ناٹس اور بھی سکھائیں۔ ہم نے یہ ناٹس (Knots) شغل کے طور پر سیکھیں اور اسی وقت بھلا دیں، کیونکہ انھیں یاد رکھنا ہمارے بس کا روگ نہیں تھا۔اس نے کریمپونز (Crampons) کا استعمال سکھانے کی بھی کوشش کی۔یہ نوکدار فولادی ڈھانچہ ٹریکنگ شوز یا جوگرز کے نیچے فٹ ہو جاتا ہے اور پھسلواں گلیشئرزپر چلنے میں تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔ ایک ننھا منا گلیشئر ہماری دسترس میں تھا، لیکن کریمپونز کے استعمال کے لیے مناسب نہیں تھا۔ کریمپونز پہن کر پاؤں غلط سلط انداز میں رکھا جائے تو اسکے نوکیلے دندانے پاؤں زخمی کر سکتے ہیں۔ ہم زخمی ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے، اس لیے کریمپونز ٹریننگ ادھوری رہ گئی۔ آئس ایکس سے برف کاٹ کر قدم جمانے کا طریقہ کسی حد تک سمجھ میں آ گیا،اس کے بقیہ استعمال حسب معمول سروں پر سے گزر گئے۔
 عالم خان اس ٹریننگ میں خصوصی دلچسپی لے رہا تھا۔ اُس نے ’’ناٹس‘‘  میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور عرفان کی مہارت کی تعریف کی۔
’’سرہم اپنی گستاخی کا معافی چاہتا ہے۔ہم آپ کو اتنا قابل نہیں سمجھتا تھا۔ آپ کا تعلق کلائمبر نسل سے لگتا ہے۔‘‘
’’خواہ مخواہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے خواب میں بھی کلائمبنگ نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب اینڈ کو پر رعب شعب ڈال رہا ہوں۔ ‘‘
’’یہ ناچیز حضور والا کے رعب سے تھر تھر کانپ رہے ہیں، اور اِن کی آنتیں خوفزدہ ہو کر قل ھو اللہ پڑھنے پر اتر آئی ہیں۔ ‘‘ میں نے آداب بجا لاتے ہوئے عرضداشت پیش کی۔
’’عالم خان رات کا کھانا فوراً پیش کیا جائے۔‘‘  عرفان نے فرمان جاری کیا۔
’’چولھا تیار نہیں ہوا سر،کھانا کیسے پیش کرے؟‘‘
’’پھر ڈاکٹر صاحب کی آنتوں کو قل ھو اللہ پڑھنے سے روک دیا جائے۔‘‘
’’کیسے روکے سر۔‘‘ عالم خان سچ مچ پریشان ہو گیا۔
’’ان کو ڈرائی فروٹ کا پیکٹ لا دو بے وقوف،اور تم ہانڈی چولھے کی فکر کرو۔‘‘
ہمارے پاس گیس کا چولھا موجود تھا اور بہ ظاہر چولھا تعمیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دئینتر پاس بیس کیمپ پر ہوا کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گیس کے چولھے نے جلنے سے صاف انکار کر دیا۔ عالم خان نے سلیب نما پتھروں کے چوکور ٹکڑے تلاش کیے اور ان کی مدد سے ایک چھوٹا سا کوٹھڑی نما کچن تیار کر کے گھریلو فنکاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔یہ کچن ہوا کا رخ مد نظر رکھتے ہوئے خیموں سے کافی فاصلے پر بنایا گیا تھا۔ہم نے اس کاوش کی دل کھول کر داد دی۔ اس کچن کی سہ دیواری میں (کچن کی ایک سائیڈ اوپن تھی) ہوا کی بڑی حد تک رکاوٹ ہو گئی۔ چوتھی جانب عالم خان،میر عالم اور شیر احمد سر  جوڑ کر بیٹھ گئے اور گیس کا چولھا روشن ہوا۔ سالن کسی حد تک گرم ہو گیا، لیکن روٹیاں ٹھنڈی ٹھار حالت میں حلق سے نیچے اتاری گئیں۔ عالم خان روٹیوں کا  ذخیرہ نیلو لوٹ ہی سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ ہم نے یاد دلایا کہ معاہدے کے مطابق عالم خان گرما گرم تازہ روٹیاں ہماری خدمت میں پیش کرنے کا پابند ہے اور ہم ان تینوں کے لیے سالن مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں، اس لیے تازہ پکائی گئی روٹیاں پیش کی جائیں ورنہ انھیں کھانے کے ڈبوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ عالم خان کھانے کے سارے ڈبے پہلے ہی اپنی تحویل میں لے چکا تھا اس لیے اسے ہماری فرمائش ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دینے میں کو ئی دشواری پیش نہ آئی۔روٹیاں ٹھنڈی ضرور تھیں، بہت زیادہ سخت نہیں تھیں۔ آلو قیمے کے ساتھ ٹھیک ٹھاک گزارا ہو گیا، اور دئینتر پاس بیس کیمپ جیسی بے آباد جگہ پر ٹھیک ٹھاک گزارا ہو جانا قدرت کا انعام تھا۔کھانے کے بعد عالم خان نے اپنی مخصوص چٹ پٹی چائے پیش کی اور ہماری تھکاوٹ دور ہو گئی۔
پہاڑوں پر سانجھ بھئے ہی رات کی تاریکی بسیرا کر لیتی ہے۔خنکی میں اضافہ ہو رہا تھا اور سنو ڈوم کی برف پوش چوٹی سے پلٹ کر آنے والی ہوائیں ہمارے جسم منجمد کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھیں۔ عرفان کے خیال میں موسم کی یہ تبدیلی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ اُس کا خیال درست ثابت ہوا اور چند لمحے بعد ہم اچانک شروع ہونے والی موسلا دھار بارش میں گھر چکے تھے۔ ہم نے اندھا دھند انداز میں خیموں کا رخ کیا لیکن پانی کی چادر اتنی دبیز تھی کہ خیمے نظر ہی نہیں آئے۔کوئی نالے میں اٹکا تو کوئی پتھروں میں بھٹکا۔اس مشکل وقت میں شیر احمد ہمارے کام آیا۔وہ نہ جانے کس طرح ہمارے خیموں تک پہنچا اور ایک خیمے کے اندر گیس کا چولھا روشن کر دیا۔گیس کی روشنی میں سرخ رنگ کے خیمے نے ہمارے لئے لائٹ ہاؤس کا کام کیا اور ہم گرتے پڑتے خیمے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ پریشان کن کیفیت ہی ذوقِ آوارہ گردی کے صلے میں ملنے والا منفرد انعام ہے جو بیکراں ویرانوں کے کھلے آسمان تلے تقسیم کیا جاتا ہے۔
سوال یہ تھا کہ عالم خان، میر عالم اور شیر احمد کہاں پناہ لیں گے؟
 گلگت میں عرفان نے تجویز پیش کی تھی کہ پورٹرز کیلئے ترپال خرید لی جائے جسے تان کر عارضی خیمہ اور کچن تیار کیا جا سکتا ہے۔ عالم خان نے بتایا کہ اس کے پاس ایک وسیع و عریض امپورٹڈ میس ٹینٹ (Mess Tent)ہے۔ نل تر پہنچ کر وہ اپنے گھر سے ٹینٹ لے آئے گا اور مناسب کرایے پر ہماری خدمت میں پیش کر دے گا۔نل تر پہنچنے پر انکشاف ہو ا کہ خیمہ اُس کی والدہ محترمہ نے اپنے بھانجے کو عاریتاً بخش دیا تھا جو کسی غیر ملکی گروپ کو پکھورا پاس لے جا رہا تھا۔ اس بخشش نے ہمیں کچن اور عالم خان وغیرہ کو بیڈ ٹینٹ سے محروم کر دیا۔
عالم خان، شیر احمد اور میر عالم نے دبے لفظوں میں تجویز پیش کی کہ وہ لوگ بھی ٹھنس ٹھنسا کر ہمارے خیموں ہی میں گزارا کر لیں گے۔عرفان نے سختی سے یہ تجویز مسترد کر دی۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک خیمے میں دو افراد سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ٹھنس ٹھنسا کر گزارا کرنے سے ہم لوگ ساری رات بے آرام رہیں گے اور یہ اس لیے مناسب نہیں کہ کل ہمارے ٹریک کا طویل ترین اور سخت ترین دن ہے۔آج کی پر سکون نیند ٹریک کی کامیابی کے لیے اشد ضروری ہے،اسے ڈسٹرب کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔
’’آپ اس حالت میں آرام سے سو جائے گا؟‘‘  عالم خان نے طنز یہ لہجے میں پو چھا۔
’’بارش ساری رات نہیں رہے گی۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’ہمیں یہ بارش رکنے والا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہمیں ہوتا ہے۔‘‘
عالم خان نے محسوس ضرور کیا ہو گا،پیشہ ورانہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔بارش کا زور ٹوٹا تو اس نے رخصت ہونے کی تیاری کی۔
’’شیر احمد کی گنجایش نکالی جا سکتی ہے،ڈاکٹر صاحب اپنے سلیپنگ بیگ میں بخوشی جگہ فراہم کر دیں گے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے فقرہ کسا۔
’’ڈاکٹر صاحب کو ٹھنڈے پانی سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘ عرفان نے معصومیت سے بھرپور لہجے میں سوال کیا۔
عالم خان کے ساتھ شیر احمد نے بھی زوردار قہقہہ لگایا۔وہ غالباً اس قسم کی چھیڑ چھاڑ کا عادی تھا۔میرے چہرے پر غیض و غضب کے آثار دیکھ کر وہ تینوں فرار ہو گئے۔
’’یہ اس طوفانی بارش میں کہاں جائیں گے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’یہ لوگ اپنے گھر میں ہیں اور ان حالات کے عادی ہیں۔ با آسانی کسی غار یا بہک تک پہنچ جائیں گے۔صبح یہ واپس آئیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ انھوں نے ہم سے بہتر انداز میں رات گزاری ہے۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’کیونکہ اُن کے ساتھ شیر احمد ہے؟‘‘  بھٹہ صاحب نے معنی خیز انداز میں سوال کیا۔
’’آئی ایم سوری۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ سچ مچ شیر احمد کے تیرِ  نگاہ سے گھائل ہو چکے ہیں۔ حکم ہو تو باہر نکل کر آواز دوں ؟ہو سکتا ہے واپس آ جائے۔‘‘  عرفان نے پیشکش کی۔
بھٹہ صاحب لا حول پڑھتے ہوئے نیلے خیمے میں تشریف لے گئے۔
 ہم نے ٹارچ کی روشنی میں خیمے کا سامان سیٹ کیا،میٹرس بچھائے اور جیکٹ سمیت سلیپنگ بیگ میں داخل ہو گئے۔ بارش کا زور بہت حد تک ٹوٹ چکا تھا لیکن گرج چمک کا طوفان بدستور جاری تھا۔باہر بجلی چمکتی تھی اور اس کی لہریے دار چمک خیمے کی دیوار پر رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔بادل گرجتے تھے اور محسوس ہوتا کہ خیمے کے دروازے پر کھڑے اندر آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔
’’اوئے سر جی یہ کہاں لے آئے ہیں۔ ‘‘  دوسرے خیمے سے آنے والی بھٹہ صاحب کی منمناتی ہوئی آواز بہ مشکل ہم تک پہنچ پائی۔
’’جی ی ی کیا فرمایا؟ذرا زور سے فرمائیں۔ ‘‘ عرفان نے جوابی ہانک لگائی۔
اس ہانک کا جواب بھٹہ صاحب کے بجائے آسمانی بجلی نے دیا۔ایک زوردار کڑاکے نے خیمے کو جھلمل کر دیا اور اس کے فوراً بعد وہی شورِ قیامت شروع ہو گیا جو شانی گلیشئر  پر ایوالانچے کے لڑھکنے سے پیدا ہوا تھا۔غالباً ایک اور ایوا لانچے اپنا سفر شروع کر چکا تھا۔شور ختم ہوا تو عرفان نے بھٹہ صاحب سے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی۔
’’بھٹہ صاحب آپ کچھ فرما رہے تھے۔‘‘
جواب ندارد۔
’’بھٹہ صاحب خیریت تو ہے ناں ؟سو تو نہیں گئے؟‘‘
’’بھٹہ صاحب کوئی لمبا چوڑا وظیفہ شروع کر چکے ہیں،  بولنے چالنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب کے بجائے طاہر نے جواب دیا۔
’’ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی حال ہے۔ چند منٹ پہلے بلند آواز میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کی تھی،اب پتا نہیں کس چیز کی خاموش تسبیح کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’چیک کر لیں سر جی،انا للہ کی تسبیح تو نہیں کر رہے؟ہم اس وقت عرشِ بریں کے آس پاس پہنچ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انا للہ کا ورد قبول کر لیا تو فوراً اپنے دربار میں طلب کر لے گا۔‘‘
طاہر اور عرفان غلط بیانی نہیں کر رہے تھے۔ میں بار بار آیت الکرسی پڑھ رہا تھا اور جتنی دعائیں یاد تھیں سب دہرا رہا تھا۔ ہمارے سروں پر ایک پتھریلی بلندی سایہ فگن تھی،جس کی چوٹی پر ایک عدد گلیشئر صاف نظر آ تاتھا۔یہ ننھا منا گلیشئر غالباً کوئی ایوا لانچے جنم دینے سے قاصر تھا۔ اس کی چھوٹی موٹی شرارت لینڈ سلائیڈ کا باعث ضرور بن سکتی تھی۔ میرے خیال میں ہمارے خیمے لینڈ سلائیڈنگ کی زد سے باہر نہیں تھے۔ عرفان ان حالات کا عادی تھا اور پریشان ہونے کے بجائے چسکے لے رہا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب طوفانی بارش بوندا باندی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کیا خیال ہے باہر نہ نکلیں ؟ایسا موسم و ہاڑی یا فیصل آباد میں کہاں ملتا ہے؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ فطرت کی ایک ایک ادا سے لطف اٹھایا جائے۔ خیمے سے باہر ایک انمول منظر ہمیں دعوتِ نظارہ دے رہا ہے اور ہم کنویں کے مینڈک بنے سلیپنگ بیگ میں سر چھپائے لیٹے ہیں۔ ہمارے لئے دئینتر پاس کراس کرنا واجب ہے تو ان منفرد مناظر سے لطف اندوز ہونا فرض سمجھنا چاہیے۔ ٹریکنگ کے آغاز میں مجھے بھی طوفانِ باد و باراں سے بہت ڈر لگتا تھا، اب یہ جل ترنگ ٹریک کی ترنگ دوبالا کر دیتی ہے۔‘‘
’’باہر زور دار گرج چمک ہو رہی ہے۔‘‘ میں نے عرفان کے لمبے چوڑے ترغیبی لیکچر کا انتہائی مختصر جواب دیا۔
’’پیراشوٹ کے کپڑے کی دیواریں پانی روک سکتی ہیں، آسمانی بجلی کے آگے ڈھال نہیں بن سکتیں، پھر اندر باہر میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟‘‘
عرفان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔فطرت کے تھنڈر اینڈ لائٹ شو سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہ رکھنے والے فطرت کی تمام تر رعنائیاں کیسے سمیٹ سکتے ہیں ؟
میں نے جیکٹ پہنی اور جھجکتے ہوئے باہر آ گیا۔سفید پوش بلندیوں پر ایشوریہ رائے سے زیادہ چمکیلی بجلیاں رقص کر رہی تھیں اور نقرئی برف پر دیومالائی آتش بازی کا یادگار مظاہرہ پیش کیا جا رہا تھا۔ بادلوں کی مسلسل گڑگڑاہٹ کسی حد تک خوفزدہ کرتی تھی لیکن کچھ دیر بعد اس نے شعلوں کے رقص کے لیے ’’آئٹم سانگ‘‘  کی حیثیت اختیار کر لی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ سازو آواز کی بے کراں دنیا میں رنگ و نور کا سیلاب ٹھاٹھیں مارتا ہے اور روح کی گہرائیوں میں اجالے بھرتا جاتا ہے۔ میں کچھ دیر سہما سہما رہا، اس کے بعد عرفان کے ساتھ ایک بڑے پتھر پر تشریف فرما ہو کر فطرت کے نائٹ کلب میں پیش کئے جانے والے سنسنی خیز رقص و سرود سے لطف اندوز ہونے لگا۔ رقاصانِ  فطرت اپنے نقابِ  رخ الٹ کر دلوں پر بجلیاں گراتے تھے اور کائنات کی دل کشی میں حقیقی رنگ بھرنے والے کرداروں سے روشناس کرا تے تھے:
کڑکتی بجلی، ہواؤں سے ڈولتے خیمے
یہی تو بولتے کردار ہیں کہانی کے
میں بار بار عرفان کا شکریہ ادا کرتا تھا کہ اس نے بیس کیمپ کی سحر طراز رات کے جوبن سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دی۔
’’اوئے تسی کلم کلے باہر کی کر دے پئے او؟‘‘  طاہر نے خیمے کے اندر سے ہانک لگائی۔
’’مزے کر دے پئے آں، تسی وی آ جاؤ۔‘‘  میں نے جوابی ہانک لگائی۔
طاہر کے خیمے کا پردہ ہٹا اور ٹارچ کی روشنی نے باہر کا ماحول کسی حد تک روشن کر دیا۔ ہمیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر طاہر اور بھٹہ صاحب خیمے سے برآمد ہو گئے۔
’’واہ جی واہ! … کمال ہو گیا سر جی … وہاڑی کی بجلیاں تو اتنی خوبصورت نہیں ہوتیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے ارد گرد کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ارشاد فرمایا۔
’’ہوتی ہیں، مگر سٹیج پر کڑکتی اور دلوں پر گرتی ہیں۔ ‘‘  میں نے تصحیح کی۔
’’کیا مطلب؟آپ سٹیج پر پھیلائی جانے والی غلاظت کا موازنہ فطرت کی پاکیزگی سے کرنا چاہتے ہیں ؟لاحول ولا قوۃ الا با اللہ،بلکہ ہزار بار لاحول ولا قوۃ الا با اللہ۔‘‘
بھٹہ صاحب کی لاحول سو فیصد درست تھی۔سٹیج یا پردہ سکرین پر کڑکڑانے والی کوئی بجلی بیس کیمپ پر ہونے والی برق پاشی کے سامنے ایک پل بھی نہیں ٹھہر سکتی۔
’’موسم کی حالت یہی رہی تو کل کے ٹریک کا کیا ہو گا؟‘‘  میں نے بات بدلی۔
’’سب اچھا ہو گا۔ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس وقت نہ صرف بارش ہوئی بلکہ ہوا بھی چلنا شروع ہو گئی۔ گھٹائیں اپنے خزانے لٹا کر ہلکی پھلکی ہو چکی ہیں اور تندو تیز ہوائیں انہیں اڑا کر کہیں سے کہیں لے جائیں گی۔امید ہے کہ تھوڑی دیر تک آسمان صاف ہو چکا ہو گا اور کل ٹریک کے لیے آئیڈیل موسم ہو گا۔‘‘
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو۔‘‘  میں نے بے یقینی سے دعا کی۔
’’انشا ء اللہ ایسا ہی ہو گا۔‘‘ عرفان نے نہایت اعتماد سے یقین کا اظہار کیا۔’’اور اب ہمیں آرام کرنا چاہیے۔کل موسم کیسا بھی ہو،ٹریک انتہائی دشوار ہو گا۔‘‘
’’کچھ دیر اور۔‘‘ بھٹہ صاحب نے فرمائش کی۔
کچھ دیر بعد ہم ایک مرتبہ پھر اپنے اپنے سلیپنگ بیگز میں غروب ہو چکے تھے۔ سارے دن کی تھکاوٹ خیمے سے باہر ہونے والے شور شرابے پر غالب آ گئی اور میں نیند کی راحت بخش وادیوں میں گم ہو گیا۔
رات کے نہ جانے کون سے پہر ’’شو شو‘‘  کے زور سے آنکھ کھلی۔میں نے فطرت کے تقاضے نظر انداز کر کے دوبارہ سونے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ برفانی ہواؤں اور بارش کی موجودگی میں سلیپنگ بیگ کے گرما گرم ماحول سے باہر نکلنا آسان کام نہیں تھا،لیکن دوبارہ سونے کے لیے اس دشواری کا سامنا کرنا مجبوری تھی۔میں نے خیمے کے دروازے کی زپ کھول کر باہر جھانکا اور بوکھلا کر آنکھیں ملنے لگا۔ یہ کوئی ناقابل یقین خواب ہے یا کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر بیس کیمپ کا ماحول یک سر تبدیل کر دیا ہے؟
خیمے کے باہر طوفانِ باد و باراں کے بجائے رنگ و نور کا سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا، ’’کالے کالے‘‘  امبر پر بے شمار ستارے جھلمل جھلمل کر رہے تھے۔ اپنے حجم سے کئی گنا بڑا چاند سنو ڈوم کی چوٹی پر لشکارے مارنے والی نقرئی برف میں اٹکا ہوا تھا،اور اتنا قریب تھا کہ میرا قد عرفان جتنا لمبا ہوتا تو میں اسے توڑ کر اپنے رک سیک میں چھپا سکتا تھا۔ میں نے دبے دبے انداز میں عرفان کو آواز دی۔ اس کے دھیمے دھیمے خراٹے بتا رہے تھے کہ وہ گہری نیند کے مزے لوٹ رہا ہے۔اُسے ڈسٹرب کرنے کا ارادہ تبدیل کر کے میں خیمے سے باہر رینگ گیا۔ فالتو پانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد میں نے نل تر وادی کی گہرائیوں پر نظر ڈالی اور ایک مرتبہ پھر آنکھیں ملنے لگا۔میں ابھی تک سو رہا ہوں یا بیداری کی حالت میں سہانا سپنا دیکھ رہا ہوں ؟ بقول تنویر سیٹھی:
ستاروں کی روانی اُتر آئی آنکھ میں
یہ کیسی خوش نمائی اُتر آئی آنکھ میں
آسمان کی رفعتوں میں جگمگانے والے سارے ستارے زمین پر اتر آئے تھے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ستارے قطار اندر قطار نل تر جھیل کے پانیوں میں اتر رہے ہیں اور پانی کی نیلاہٹ سے شرابور ہو کر نل تر نالے کے پانیوں میں تیرتے ہوئے شانی پیک اور ٹوئن پیک جیسے برف پاروں کی جگمگاہٹ میں گم ہو رہے ہیں۔ شمال سے جنوب تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا روشنیوں کا سیلاب ایک ایسے نورانی راستے کا منظر پیش کرتا تھا جو چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو کی صدائیں لگاتا تھا۔ میں نیند کے خمار کی وجہ سے اس منظر کو ایک دلکش سراب سمجھتا رہا اور بہت دیر بعد سمجھ پایا کہ زمین پر اتر آنے والے ستارے نل تر نالے کے ارد گرد پائی جانے والی جھاڑیوں میں جگمگانے والے جگنو ہیں۔ آسمان اور زمین کے ستاروں کا یہ دلکش ملن دئینتر پاس کی انفرادیت تھی۔ دوسرے پاسز کی ٹاپ سے بھی اس قسم کے لازوال مناظر یقیناً نظر آتے ہوں گے، اسی لئے پاس کراسنگ کو ٹریکنگ کی دنیا میں منفرد مقام حاصل ہے۔
 رات کی گڑگڑاہٹ اور کڑکڑاہٹ کے جاہ و جلال سے بھر پور مظاہرے کے بعد نیلگوں صباحت و ملاحت کا یہ روح پرور سکوت ’’ایک ٹکٹ میں دو مزے‘‘  کے مترادف تھا۔ایک ہی پس منظر میں پیش کئے جانے والے دو انتہائی متضاد لیکن ’’ایک سے بڑھ کر ایک‘‘  سٹیج شوز اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی جامع تفسیر تھے جس میں ترغیب دی گئی ہے کہ زمین پر چل پھر کر اُس کی قدرت کا مشاہدہ کیا جائے تاکہ ایمان والوں کے ایمان مزید پختہ ہو جائیں۔ اے ایمان والو تم اگر اپنا یقین محکم کرنا چاہتے ہو تو رک سیک اٹھا کر دئینتر پاس بیس کیمپ پر شب باشی کے لیے روانہ ہو جاؤ،اور ہاں اپنے ساتھ ایک عدد طاقتور ٹیلی سکوپ لانا مت بھولنا کہ مجھے شدت سے اس کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔
ماحول کی ٹھنڈک روح کے ساتھ ساتھ جسم پر اثر انداز ہونے لگی اور دو چار چھینکیں آ گئیں تو میں نے خیمے کا رخ کیا۔
’’کہاں تشریف لے گئے تھے جناب؟‘‘  خیمے میں داخل ہوتے ہی عرفان نے سوال کیا۔
’’پتھر کی اوٹ میں۔ ‘‘
’’خیمے کی زپ بند کیے بغیر؟‘‘
’’کیا مطلب؟اس ویرانے میں بھی چوری چکاری کا خطرہ ہے؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’چوری کی بات نہیں۔ کیمپنگ کا پہلا اصول ہے کہ خیمے کا پردہ ایک منٹ کے لیے بھی کھلا نہ چھوڑا جائے۔ خیمہ خالی ہو تب بھی زپ بند رکھنی چاہیے۔‘‘
’’اس احمقانہ اصول کی وجہ؟‘‘
’’آپ کو باہر جانے سے پہلے خیمے کے اندر کسی مچھر کی موجودگی کا احساس ہو ا تھا؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔ ایک بھی مچھر ہو تا تو مجھے نیند نہ آتی۔‘‘
’’اب نہیں آئے گی۔ میری آنکھ مچھروں کی بھنبھناہٹ کی وجہ سے کھلی ہے۔ہو سکتا ہے دوچار کیڑے مکوڑے بھی خیمے میں داخل ہو چکے ہوں۔ پہاڑی علاقوں کے حشرات الارض ٹھیک ٹھاک زہریلے ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’آئی ایم سوری۔مجھے اس خطرے کا اندازہ نہیں تھا۔اب کیا ہو گا؟‘‘
’’اب وہ کیڑے مار سپرے کام آئے گا جو میں احتیاطاً ساتھ لے آیا تھا۔‘‘
’’وہ ابھی تک کام کیوں نہیں آیا؟‘‘
’’میں سلیپنگ بیگ سے باہر نکلنے کے موڈ میں ہوتا تو آپ کی حماقت کا ازالہ کر چکا ہوتا۔ یہ زحمت آپ ہی کو اٹھانا پڑے گی۔‘‘
’’سلیپنگ بیگ سے باہر نکلنے کا موڈ بنا لیں تو دئینتر پاس ٹریک کے خوبصورت ترین منظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
’’میں اس منظر سے لطف اندوز ہو کر بیگ میں داخل ہوا تھا۔‘‘
’’منظر نامہ بدل چکا ہے۔‘‘
’’اس وقت کائنات کا بہترین منظرنامہ میرا سلیپنگ بیگ ہے۔ آپ بھی مہربانی کر کے نیند پوری کر لیں۔ کل کے ٹریک میں ڈگمگانے یا لڑکھڑانے کی سہولت میسر نہیں ہو گی۔‘‘
میں نے عرفان کو جگنوؤں کی چمک سے جنم لینے والے منظر نامے کی تفصیلات بتانے کی کوشش کی لیکن اُس نے مصنوعی خراٹے نشر کرنا شروع کر دیے۔ میں نے اس کے رک سیک سے سپرے برآمد کیا اور مچھروں کی بربادی کے اسباب پیدا کر کے نیند کی دوسری قسط پوری کرنے کے لیے سلیپنگ بیگ میں ملبوس ہو گیا۔
٭٭٭



یہ پربتوں کا عکس ہے

May your trails be crooked, winding, lonesome and dangerous
leading to the most amazing view.
wolf dyke Edward

خدا کرے تمھارے راستے انتہائی کٹھن،پیچیدہ، تنہا اور خطرناک ہوں تاکہ تم کائنات کے خوبصورت ترین مناظر تک رسائی حاصل کر سکو
ولف ڈائک ایڈورڈ

صبح آنکھ کھلی تو سورج کے ساتھ ساتھ عالم خان اور اُس کے حواری طلوع ہو چکے تھے۔ تینوں حضرات کافی نکھرے نکھرے نظر آرہے تھے، صاف ظاہر تھا کہ انھوں نے ایک آرام دہ اور پُر سکون رات گزاری ہے۔
’’رات کیسا گزرا سر؟‘‘ عالم خان نے آتے ہی دریافت کیا۔
’’فرسٹ کلاس۔ تم اپنی سناؤ ؟‘‘  میں نے جوابی مزاج پرسی کی
’’ہمیں ایک زبردست بہک مل گیا تھا سر۔مگر سلیپنگ بیگ نہیں  ملا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ہمارے پاس دو چادر تھا ناں۔ ایک ہم نے لیا، ایک ان دونوں کو دے دیا۔‘‘
’’میر عالم نے ہم چادری کا فائدہ اٹھا کر شیر احمد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی؟ نیلو لوٹ کی بہک میں یہ اچھا خاصا بہکا ہوا نظر آتا تھا۔‘‘
’’ام نے کبی اپنا ماشوق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا،اس سے کیوں کرتا؟بس اس کے اوپر ٹانگ رکھ کے سو گیا تھا۔‘‘ میر عالم نے شوخ لہجے میں جواب دیا۔
’’اسے ٹھنڈے پانی سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔‘‘  عالم خان نے انکشاف کیا۔
 ’’ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریں، ’’ہم چادری‘‘ کے نتائج سے چسکے لینے کے بجائے آیت الکرسی یا درود شریف کی تسبیح کر لیں۔ دادی جان مرحوم و مغفور فرمایا کرتی تھیں کہ نور کے تڑکے اللہ محمد کا نام لینا چاہیے تاکہ دن کی مصروفیات میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہے۔ ہمیں آج کے مرحلے سے گزرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔‘‘  عرفان نے مربیانہ لہجے میں مہذبانہ قسم کی ڈانٹ پھٹکار کی۔
’’انا للہ کا ورد ضرور کریں، بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے نصیحت فرمائی۔
’’لگتا ہے جب تک پورے ٹریک پر انا للہ نہیں پڑھ لی جاتی تمھیں چین نہیں آئے گا۔‘‘  طاہر نے تشویشناک انداز میں میرے خیالات کی ترجمانی کی۔
ہمیں بحث میں الجھا دیکھ کر عالم خان اور شیر احمد نے ’’کچن‘‘  کا رخ کیا اور چولھا گرم کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ میر عالم نے خیمے اکھاڑنے کا فریضہ سنبھالا اور ہم سنو ڈوم و مہربانی پیک کی برفیلی بلندیوں سے آنے والے یخ بستہ ندی نالوں کے نزدیک پائے جانے والے ’’اوپن ایئر واش رومز‘‘  کی طرف روانہ ہو گئے۔
ناشتا گرما گرم دودھ پر مشتمل تھا جس میں شہد، گلوکوز، چاکلیٹ اور پتا نہیں کیا کیا الا بلا گھول کر کارن فلیکس کا تڑکا لگا دیا گیا تھا۔ اس عجیب و غریب اور خود ساختہ ملغوبے کے بارے میں عرفان کا فرمانا تھا کہ غذائیت سے بھرپور مشروب کا ایک گلاس چار تا چھ گھنٹے کے لیے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز کر سکتا ہے۔ہم نے اس جناتی مشروب کے دو گلاس فی کس نوش جاں کیے اور سطح سمندر سے ساڑھے پندرہ ہزار فٹ بلند دئینتر پاس ٹاپ کی دو ہزار فٹ (بیس کیمپ تا دئینتر پاس ٹاپ) سے زائد بلندی تسخیر کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آج کی سٹیج چھ تا آٹھ گھنٹے پر مشتمل تھی۔پہلا مرحلہ دئینتر پاس ٹاپ کی بلندی سر کرنا تھا اور دوسرے مرحلے میں تقریباً چار ہزار فٹ گہری گھاٹی ( ٹاپ تا طولی بری) سے گزر کر وادیِ  دئینتر کے قصبے طولی بری (Toliberi)  کی کیمپنگ سائٹ پر ٹریک کا آخری پڑاؤ کرنا تھا۔
حسبِ عادت سات کے بجائے آٹھ بجے بیس کیمپ سے روانگی ہوئی۔
آخری سٹیج کا ابتدائی مرحلہ نسبتاً آسان ثابت ہوا۔راستہ ہموار تھا اور دائیں جانب موجود وادیِ  نل تر کی سرسبز گھاٹیاں غیر معمولی شرافت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ آسانی صرف ایک گھنٹے میں اختتام کو پہنچی۔ گہرائیاں عمیق سے عمیق تر اور نام نہاد راستہ بلند سے بلند تر ہوتا گیا،پھسلنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔
میر عالم او ر شیر احمد خان فراٹے بھرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ وہ ٹاپ تک پہنچنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ دریافت کرنا چاہتے تھے۔
عالم خان بطور گائیڈ سب سے آگے تھا اور آسان راستہ دریافت کرنے کی کامیاب اداکاری کر رہا تھا۔ وہ جگہ جگہ پتھروں کے چھوٹے چھوٹے مینار بناتا ہوا چل رہا تھا۔ یہ مینار پیچھے آنے والوں کے لیے راستے کی نشاندہی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ میں عالم خان کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ عالم خان راستے سے پوری طرح واقف نہیں، وہ کئی جگہ بلا وجہ راستہ بدلتا اور چکر کاٹ کر پرانے راستے پر واپس آ جاتا۔ طاہر نے چڑھائی کا آغاز ہوتے ہی ’’دس منٹ واک اینڈ دس منٹ ٹاک‘‘  کی پالیسی اپنا لی تھی اور کافی پیچھے رہ گیا تھا۔ عرفان ٹیم کی بھاری بھرکم دُم سنبھالنے کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے سب سے پیچھے چلنے پر مجبور تھا۔ بھٹہ صاحب آزاد منش لوٹے کی طرح کبھی ہم سے آگے نکل جاتے، کبھی عرفان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگتے۔
کچھ دیر بعد راستے کے تیور ایک مرتبہ پھر بدلنے لگے۔
 لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشئر سلائیڈنگ کا علاقہ شروع ہوا جو سنگریزوں پر مشتمل عمودی ڈھلان تھی اور قدموں سے شروع ہو کر دئینتر پاس ٹاپ تک پہنچتی تھی۔ اس ڈھلواں راستے کے ایک حصے میں تقریباً پچاس میٹر طویل گلیشئر تشریف فرما تھا۔عالم خان کا اندازہ تھا کہ کچھ روز پہلے تک پوری ڈھلان برف سے ڈھکی ہو گی۔سورج کی حرارت سے برف کا بیش تر حصہ پگھل گیا، گلیشئر کے مقام پر برف کی تہہ بہت زیادہ ’’صحتمند‘‘  تھی اس لیے پگھلنے سے محفوظ رہی۔یہ محفوظ حصہ میرے لئے انتہائی غیر محفوظ صورتِ حال کا باعث بن رہا تھا کیونکہ ڈھلواں اور چمکدار سطح پر ٹریکنگ شوز بار بار پھسلتے تھے۔ گلیشئر کی دراڑیں بظاہر خطرناک نہیں تھیں لیکن عالم خان نے نرم و ملائم برف میں پوشیدہ دراڑوں کے ’’پھندوں‘‘  سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی اور برف پر چلنے کی تکنیک کا عملی مظاہرہ کیا۔وہ ایک پاؤں قدرے ترچھا رکھتے ہوئے ایڑی کا پہلو برف میں دھنسانے کے بعد دوسرا قدم آگے بڑھاتا تھا۔میں چلا عالم خان کی چال، اپنی چال بھول گیا۔ اس بھول چوک کا نتیجہ بے تکے انداز میں زمین بوس ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟
عالم خان نے گرج دار قہقہہ لگایا۔
’’ڈاکٹر صاحب ہم نے کہا تھا ناں دئینتر بہت مشکل ہے۔اب یقین آیا؟‘‘
’’عالم خان مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ دئینتر پاس بہت مشکل ٹریک ہے۔اب تمھیں یقین آ جانا چاہیے کہ اسے با آسانی عبور کر لیا جائے گا۔ ہم اتنے کمزور ہوتے جتنے تم سمجھ رہے ہو تو دئینتر پاس ٹریک کا ارادہ ہی نہ کرتے۔میں خوف زدہ ہو کر نہیں، عادت سے مجبور ہو کر دشواری اور بیزاری کا شور مچاتا رہتا ہوں۔ سچ مچ خوف زدہ ہوتا تو کب کا واپس جا چکا ہوتا۔ اس شور شرابے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عرفان سٹیجز کا تعین کرتے وقت ہماری نا تجربہ کاری مد نظر رکھے۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم بطور گائیڈ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئے۔ ایک ایسے وقت، دوچار ہاتھ جب کہ لبِ  بام رہ گیا، حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے واپس جانے کا سبق پڑھانے پر تلے ہوئے ہو۔ آخر کیوں ؟‘‘
عالم خان کے پاس ’’آخر کیوں‘‘  کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اُس نے شدید بے چینی کے عالم میں ’’دئینتر چھوڑ‘‘  تبلیغ کے خلاف تقریر سنی، چند لمحے خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا اور گردن جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
جوں توں گلیشئر عبور کر لیا گیا۔گلیشئر کے بعد ایک چھوٹا سا سکری زدہ ہموار قطعہ تھا۔
’’یہاں کیمپنگ نہیں ہو سکتی ؟‘‘  میں نے عالم خان کو مخاطب کیا۔
’’ہو سکتا ہے سر۔کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘  عالم خان نے بد دلی سے جواب دیا۔
’’ہم نے کل یہاں پہنچ کر کیمپنگ کیوں نہیں کی؟ ہمارے پاس کافی وقت تھا۔کل یہاں پہنچ جاتے تو آج کا ٹریک مختصر ہو جاتا۔‘‘
’’یہ گلیشئر پھسلتا ہے۔‘‘
’’اس قسم کے گلیشئر بھی پھسلتے ہیں ؟‘‘
’’بالکل پھسلتا ہے۔ ایک مہینا پہلے یہاں بہت زیادہ برف موجود تھا جو گرمی سے پگھل کر نالے میں پہنچ گیا۔‘‘
’’گلیشئرپھسلتا ہے تو پھسلتا رہے۔ خیمے گلیشئر سے ہٹ کر لگائے جا سکتے تھے۔‘‘
’’وہ اوپر والا گلیشئر بھی کھسکتا ہے ناں۔ ‘‘  اُس نے بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے اشارے کا تعاقب کیا۔ ایک وسیع و عریض گلیشئر ہموار میدان کے سر پر مسلط تھا۔ یہ گلیشئر پھسلتا تو میدان کی سکری اور اس پر نصب خیمے نشیب میں بہنے والے نالے کے راستے نل تر جھیل میں پہنچ جاتے۔
میں نے بلندی پر نظر آنے والے گلیشئر کی تصویر لی۔ مجھے محسوس ہو ا کہ اس بے داغ سفیدی کے وسط میں نیلگوں پانی سے لبریز کٹورا رکھ دیا گیا ہے۔
’’عالم خان اس گلیشئر پر کوئی جھیل ہے؟‘‘
’’گلیشئر پر جھیل؟ہم نے نہیں سنا۔‘‘
عالم خان نے نہ سنا ہو۔میں عثمان ڈار کی زبانی گلیشئرز پگھلنے کے نتیجے میں بننے والی چھوٹی بڑی جھیلوں کے بارے میں سن چکا تھا۔ اُس نے نانگا پربت ہائی کیمپ پر ایک گلیشئریائی جھیل کے بارے میں بتایا تھا۔ اُس جھیل تک نارسائی کی کسک ا بھی باقی تھی۔
’’میں اس گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘  میں نے عالم خان سے فرمائش کی۔
عالم خان بدک گیا۔
’’سیدھے رستے پر آپ گرتا پڑتا چلتا ہے۔گلیشئر تک کیسے پہنچے گا۔‘‘
’’میں اس گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘  میں نے میکانکی انداز میں فرمائش دہرائی۔
’’ٹھیک ہے سر۔ہمیں اصل راستے سے ہٹنا پڑے گا۔ابھی ادھر انتظار کرو۔آپ کا ساتھی پہنچ جائے پھر چلتا ہے۔‘‘
’’میں اپنے ساتھیوں کے یہاں پہنچنے سے پہلے گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ عرفان راستہ بدلنے پر رضامند نہیں ہو گا۔‘‘
عالم خان چند سیکنڈ اس انداز میں گھورتا رہا جیسے میری دماغی صحت کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو۔میرے چہرے پر مستقل مزاجی کے آثار دیکھ کر اُس نے راستہ بدل دیا۔
’’او۔کے سر۔مگر تھوڑا تیز چلو۔‘‘
میں نے رینگتے ہوئے گلیشئر تک جانے والی چڑھائی سر کی اور اپنی ٹریکنگ لائف کی پہلی گلیشریائی جھیل دیکھی۔ جھیل کے پانی میں چاندی رنگ ذرات تیرتے تھے اور نقرئی لہریں فوارے کی مانند اچھلتی تھیں۔ پانی کی رنگت اور بہاؤ دونوں انوکھے تھے۔ اس ننھی منی جھیل کی گہرائی میں ہلکورے لینے والا سنوڈوم کا عکس گلیشئر تک پہنچنے کے لیے اُٹھائی گئی مشقت کا بیش قیمت انعام تھا:
یہ پربتوں کا عکس ہے
کہ چاندنی سے حاشیے پہ جھیل کے
یہ سنو ڈوم کا رقص ہے
ان مناظر کا عادی ہونے کے باوجود عالم خان جھیل کے پانیوں میں تیرتے ہوئے چمکیلے ذرات دیکھ کر حیران تھا۔اس کا خیال تھا کہ گلیشئر کی تہہ سے کو ئی چشمہ پھوٹتا ہے اور یہ عجیب و غریب ذرات چشمے کے پانی میں موجود کسی دھات کا کرشمہ ہیں۔ گلیشریائی ہونے کے ناتے جھیل کی زندگی کے دن بہت تھوڑے تھے۔ گلیشئر پگھلنے کے ساتھ اس کا وجود مٹ جاتا۔کل یہ جھیل رہے نہ رہے، آج اس کا وجود میرے شوقِ  آوارگی کے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ تھا۔کون کہہ سکتا تھا کہ میں ایک ا ور گلیشریائی جھیل دیکھنے کا موقع حاصل کر پاؤں گا؟
میں نے جھیل کا کلوز اپ لیا۔ دئینتر پاس ٹریک کی یادیں تازہ کرتے وقت اس بے نام جھیل کے آئینہ در آئینہ پانیوں میں سنو ڈوم کا عکس دیکھ کر طاہر اور بھٹہ صاحب سوال کرتے ہیں کہ یہ تصویر آپ نے کہاں سے چرائی تھی؟ اس قسم کی کوئی جھیل ہمارے راستے میں آئی ہی نہیں۔ میں چٹخارے لے لے کر اس نادر الوجود جھیل کا محل وقوع سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ نمک مرچ لگا کر اس کے نقرئی ذرات سے منعکس ہونے والی نورانی کرنوں کی تصویر کشی کرتا ہوں، اس کی تہہ سے اچھلنے والے جادوئی چشمے کے کرشمے بیان کرتا ہوں، سنو ڈوم کے رقص پر غزل کہنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر رقص کرنے والی حسرت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ یہ بے نام و نشان جھیل ایک پر اسرار منظر کی حیثیت سے ہمارے تصویری البم میں محفوظ ہے، دئینتر پاس ٹریک پر شاید معدوم ہو چکی ہو۔
لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشریائی علاقے سے گزرنے کے بعد دئینتر پاس سنگلاخ کی ’’خالص‘‘  چڑھائی شروع ہوئی جسے ٹریکنگ کے سخت ترین درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر قدم رکھتے ہی احساس ہو ا کہ کلائمبنگ کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہم گذشتہ دو روز سے بلندی کی جانب گامزن تھے اور کئی بلندیاں عبور کر چکے تھے۔ ان چڑھائیوں میں قسم قسم کے سبزہ زار اور ہموار میدانوں کی’’ملاوٹ‘‘  پائی جاتی تھی جو پھولی ہوئی سانسیں معمول پر لانے اور تھکاوٹ زدہ جسم کو تسکین پہنچانے کے کام آتی تھی۔ آج حالات یکسر مختلف تھے۔ آرام کا وقفہ کرتے وقت ایک قدم نیچے والے پتھر پر اور دوسرا اس سے اوپر والے پتھر پر رکھا جاتا تھا۔ بعض اوقات کسی جگہ تشریف ٹکا کر دم لینے کا موقع ملتا بھی تھاتو اگلے چند قدم اس عیاشی کا ازالہ کر دیتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ خالص چڑھائی اتنی بے رنگ یا بیزار کن نہیں تھی جتنی بیس کیمپ سے دیکھے جانے پر نظر آتی تھی۔ سنگین دراڑوں میں اگنے والے جنگلی پھول سرمئی ماحول میں رنگینیاں بکھیرتے تھے اور پتھرائی ہوئی نظروں کے لیے تسکین کے اسباب پیدا کرتے تھے۔میں نے ان پھولوں کی تصویر لینے کے بہانے کئی مرتبہ آرام کا وقفہ کیا۔
اس عمودی کلائمبنگ کے بعض مراحل سے گزرتے ہوئے کبھی کبھی احساس ہو جا تا تھا کہ یہ عام ٹریک نہیں ’’پاس کراسنگ‘‘ ہے۔ اس قسم کے ایک مقام پر مجھے رکنا پڑا۔ چند قدم کا یہ فاصلہ انتہائی ترچھا تھا اور اس کے دائیں پہلو میں موجود گھاٹی کی گہرائی نظر نہیں آتی تھی۔میں نے ادھر ادھر دیکھا، عالم خان اگلے موڑ سے گزر کر نظروں سے غائب ہو چکا تھا اور دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہیں تھا۔ میں اگر یہاں پھسل جاتا ہوں تو کسی کو علم نہیں ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب دئینتر پاس سے گزرنے کے چکر میں عالمِ  بالا کے پاس سے گزر چکے ہیں۔ میں نے عالم خان کو آواز دی، اور جو منمناہٹ برآمد ہوئی اس پر خود مجھے ہنسی آ گئی۔ دوسری کوشش کامیاب رہی اور عالم خاں واپس آ گیا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ڈھلواں راستے پر قدم رکھ دیا اور عالم خان کے قریب آنے سے پہلے عبور کر لیا۔
’’کیا ہوا سر؟‘‘ عالم خاں نے تشویش زدہ انداز میں سوال کیا۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ میں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔
’’آپ نے آواز نہیں دیا تھا؟‘‘
’’نہیں تو،میں پل صراط عبور کرنے سے بالکل نہیں ڈرتا۔تمھیں مدد کے لیے آواز کیوں دیتا؟‘‘  میں نے ڈھلوانی راستے کی طرف اشارہ کیا۔
 عالم خاں ہنسنے لگا۔
’’سوری سر۔ ہمیں خیال نہیں رہا تھا کہ ادھر سے گزرتے ہوئے آپ ڈرے گا۔‘‘
’’ہم یہاں سے گزرتے ہوئے ہرگز نہیں ڈرے۔‘‘  میں نے سینہ پھلانے کی کوشش کی،لیکن اس نے مزید پھولنے سے معذرت کر لی۔
عالم خان نے مسکراتے ہوئے دوبارہ سفر شروع کر دیا اور کچھ دور چلنے کے بعد ایک بڑے پتھر پر لمبے لیٹ ہو کر آرام کے وقفے کا اعلان کیا۔اس پتھر پر لیٹے لیٹے میں نے موبائل لنچ تناول فرمایا۔ہمیں اپنے ساتھیوں کا انتظار تھا لیکن اُن کے بجائے میر عالم نمودار ہوا۔ میرا خیال تھا کہ میر عالم اور شیر احمد کافی آگے جا چکے ہوں گے۔ میر صاحب نے بتایا کہ جو راستہ انھوں نے اختیار کیا تھا اس کی ایک گھاٹی ناقابل عبور تھی اس لیے انھیں واپس آنا پڑا۔ وہ عرفان اور طاہر کا پیغام عالم خان تک پہنچانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ فرمان میں یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ عالم خان پورے گروپ کا گائیڈ ہے۔اُسے صرف ڈاکٹر صاحب کی ’’ٹی۔سی‘‘  کرنے کے بجائے سب کے ساتھ چلنا چاہیے۔اُس کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو ٹیم لیڈر اس کا معاوضہ بحق ’’متاثرین‘‘  ضبط کرنے کے جملہ حقوق محفوظ رکھتا ہے۔
عالم خان اس ہدایت پر ہتھے سے اکھڑ گیا۔
اُس نے جوابی پیغام دیا کہ عالم خان کسی کی ٹی سی۔وی سی نہیں کرتا، اور وہ ڈاکٹر صاحب کو پیٹھ پر اٹھا کر آگے نہیں لے جا رہا۔ اُس کا کام صرف کھانا بنانا اور بوجھ اٹھانا ہے۔ وہ گائیڈ کے طور پر ساتھ نہیں آیا اس کے باوجود راستہ بنانے اور ٹیم کی راہنمائی کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔عرفان صاحب ناراض ہو تا ہے تو وہ اسی جگہ رک جاتا ہے۔موسم خراب ہو گیا یا راستے میں اندھیرا ہو گیا تو عرفان صاحب خود ذمہ دار ہو گا۔
میں نے یاد دلایا کہ ایک ہزار روپے کا انعام عرفان کا صوابدیدی اختیار ہے اور عالم خان کے رویے اور اضافی خدمات سے مشروط ہے،اس کا لہجہ فوراً تبدیل ہو گیا۔
’’سر آپ خود بولو ہم کیا کرے؟ آپ جانتا ہے کہ ہم آپ کو ساتھ لے کے نہیں چلتا۔ ہم نے کسی جگہ رک کر آپ کا انتظار کیا؟ آپ ہمارا ساتھ دیتا ہے تو ہم کیسے روکے؟ وہ لوگ ہمارا ساتھ دے گا تو ہم اُن کو بھی نہیں روکے گا۔ابھی ٹھیک ہے،ہم ادھر رک جاتا ہے۔ عرفان صاحب آتا ہے تو آگے چلتا ہے۔‘‘
’’وہ ابھی بوت دور ہوتا اے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ادھر پہنچتا اے۔‘‘  میر عالم نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔دو گھنٹے میں پہنچتا ہے،دو گھنٹے آرام کرتا ہے اور اللہ کو منظور ہوتا ہے تو رات تک ٹاپ پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘  عالم خان نے بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔
’’ٹاپ پرکیمپنگ نہیں ہو سکتی ؟‘‘
اس سوال کا جواب عالم خان کے بجائے میر عالم نے دیا اور نہایت روانی سے دئینتر پاس ٹاپ پر کی جانے والی کیمپنگ کی منظر کشی کی۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ ٹاپ پر پہنچ کر گلیشئر کے اوپر ٹینٹ لگاتا اے۔ پانی کی جگہ برف استعمال کرتا اے۔آپ لوگ کیمپ میں سلیپنگ بیگ کے اندر سوتا اے۔ میر عالم گلیشئر پر بستر کے بغیر سوتا اے۔ رات کو برف والا ہوا چلتا اے۔ صبح تک میر عالم برف بنتا اے۔ آپ اپنا سامان خود اٹھاتا اے۔ میر عالم کو ماشوق اٹھا تا اے۔سیدھا قبرستان لے جاتا اے۔‘‘
حالات غالباً ٹھیک ڈگر پر نہیں جا رہے تھے۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ عالم خان راستہ دریافت کرنے میں کافی وقت صرف کر رہا تھا اور اس کا اندازہ درست تھا کہ پوری ٹیم ساتھ ہوئی تو ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔ میں نے دخل اندازی کا فیصلہ کیا اور تجویز پیش کی کہ میر عالم واپس جا کر عرفان وغیرہ کو صورتِ  حال سمجھائے اور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُن کا ساتھ دینے کا فریضہ سنبھالے تاکہ انھیں تنہائی کا احساس نہ ہو۔ عالم خان میری فکر چھوڑے اور راہنمائی کرنے والے مینار بناتا ہوا فٹا فٹ ٹاپ پر پہنچے۔ ٹاپ کی بلندی سے ٹیم کی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ضرورت محسوس ہو تو عالم خان واپس جا کر ٹیم کی راہنمائی کا فریضہ سنبھال سکتا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ عالم خان کا ساتھ دوں، کسی وجہ سے پیچھے رہ گیا تو اس کے بنائے ہوئے میناروں کے سہارے ٹاپ تک پہنچ جاؤں گا۔عالم خان نے میری ذمہ داری پر اس تجویز سے اتفاق کیا اور میر عالم اپنا بوجھ وہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔
 عام تاثر کے بر عکس ہمارے پورٹرز نہایت مخلص اور تعاون کرنے والے تھے۔
میں نے ایک کالا کلوٹا سنگلاخ عبور کیا جس کے نشیب میں ایک تیز رفتار پہاڑی نالا چٹانوں سے ٹکرا کر جھلملاتے ہوئے قطروں کے نقرئی موتی اچھالتا ہوا بہتا تھا۔یہ خوبصورت تضاد دل پر نقش ہو جاتا اگر طوفانی نالا عبور کرنے کا مرحلہ درپیش نہ ہوتا۔ بظاہر اسے عبور کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی لیکن کناروں پر جمے ہوئے پتھر حسبِ معمول بہت زیادہ پھسلواں اور لڑھکیلے معلوم ہوتے تھے۔میں دل کے کیلکو لیٹر پر حساب کتاب کر رہا تھا کہ اس مقام سے ’’نکل جانے‘‘  کے امکانات زیادہ ہیں یا ’’گزر جانے‘‘  کے؟
عالم خان میرا تذبذب دیکھ کر حیران تھا۔
’’سر ویسے تو آپ ٹھیک ٹھاک چلتا ہے،نالے پر آ کر کیا ہو جاتا ہے؟‘‘
’’نالے پر آ کر اسکولی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اسکولی؟‘‘ عالم خان مزید حیران ہوا۔’’آپ کنکارڈیا کر چکا ہے؟‘‘
’’میں کنکارڈیا جا سکتا ہوں ؟‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتا؟آج کل فوج کا خچر لوگ بھی کنکارڈیا پہنچ جاتا ہے۔‘‘
’’میں خچر لوگ نہیں ہوں۔ ‘‘
’’آپ کنکارڈیا نہیں گیا تو اسکولی کیا لینے گیا تھا؟‘‘
’’بس چلا گیا تھا۔تم یہ بتاؤ نالا کیسے عبور کیا جائے؟‘‘
’’سیدھا چھلانگ لگاؤ۔‘‘
میں نے سیدھی چھلانگ لگانے کی کوشش کی جو خودبخود ٹیڑھی ہو گئی اور میں ایک مرتبہ پھر گرتے گرتے بچا۔کنارے کا پتھر لڑھک کر نالے میں پہنچ گیا۔ عالم خان کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے گھبراہٹ طاری ہوئی لیکن مجھے سنبھلتے دیکھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
’’ہم دیکھ رہا تھا آپ کا قصور نہیں ہے۔یہ پتھر کا بچہ بہت حرامی تھا۔‘‘
 نالے کے فوراً بعد ایک ننھا منا چٹانی سلسلہ سر اٹھائے کھڑا تھا۔اس کے دیو قامت پتھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔اس سلسلے کو لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے عبور کیا۔کچھ دیر بعد پتھروں کا سائز اور فاصلہ کم ہونے لگا اور انھوں نے ایک قدرتی سیڑھی کی شکل اختیار کر لی جو ایک سرمئی سنگلاخ کی چوٹی تک پہنچتی تھی۔یہ زیادہ سے پچاس میٹر کا فاصلہ ہو گا جسے عبور کرتے ہوئے سچ مچ مزا آ گیا۔ چوٹی پر پہنچ کر محسوس ہو ا کہ چڑھائی دائیں جانب موڑ کاٹ رہی ہے اور سامنے صرف اترائی ہے۔ میں نے راہنما میناروں کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ میناروں کے بجائے عالم خان نظر آیا جو ایک بہت بڑے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام فرما رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی لپک کر میری طرف آیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:
’’مبارک ہو سر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘  میں نے ہاتھ تھامتے ہوئے تجسس آمیز لہجے میں وضاحت چاہی۔
’’یہ دئینتر پاس ٹاپ ہے ناں سر۔‘‘
’’یہ ٹاپ ہے؟‘‘  میرے لہجے میں بے یقینی،حیرت،مسرت، جوش اور نہ جانے کون کون سے جذبات چھپے ہوئے تھے۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔
دئینتر پاس ٹاپ پر قدم رکھ کر میں باقاعدہ ٹریکر کے عہدے پر فائز ہو گیا تھا۔
میں شروع سے ہی دئینتر پاس عبور کرنے کے بارے میں بے یقینی کا شکار تھا۔ یہ بہت چھوٹی بلندی تھی۔صرف چار ہزار سات سو میٹر،پندرہ ہزار پانچ سو فٹ، لیکن مجھ جیسے نام نہاد ٹریکر کیلئے نانگا پربت سے کم نہیں تھی۔ مجھے علم تھا کہ ٹریک ابھی اختتام کو نہیں پہنچا اور ایک انتہائی دشوار گزار اترائی باقی ہے، لیکن بے یقینی کی کیفیت اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ٹاپ پر قدم رکھتے ہی واپسی کا سوال ختم ہو چکا تھا۔
 میں نے نہایت پُر جوش انداز میں ایک مرتبہ پھر عالم خاں سے مصافحہ بلکہ معانقہ کیا، شکریہ ادا کیا اور اعتراف کیا کہ اسکی راہنمائی اور مدد کے بغیر میں اتنی آسانی سے ٹاپ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عالم خان نے فخریہ انداز میں باچھیں پھیلاتے ہوئے میرے اعتراف نامے کو شرفِ قبولیت بخشا اور تکلفاً بھی یہ کہنے کی زحمت نہیں کی کہ ٹاپ تک پہنچنے میں میری اپنی ہمت اور حوصلے کا کوئی عمل دخل تھا۔
دئینتر پاس ٹاپ کی پہلی جھلک سنسنی خیز ثابت نہیں ہوئی۔مجھے توقع تھی کی ٹاپ سے نظر آنے والا منظر ششدر کر دے گا۔ جس جانب نظر اُٹھے گی ’’پتھر کے صنم‘‘   اپنے جلوے دکھانے کے لیے اٹین شن کھڑے ہونگے، لیکن فی الحال آسمان گھنگھور گھٹاؤں کے نرغے میں تھا اور برف پوش بلندیاں چمکیلے غبار میں پوشیدہ تھیں۔
 دئینتر پاس ٹاپ کا اصل سرمایہ سنو ڈوم (برفانی گنبد) نامی خوبصورت چوٹی کی قربت ہے۔ اس برفانی گنبد کی چوٹی دئینتر پاس ٹاپ سے بظاہر چند قدم کے فاصلے پر دکھائی دیتی ہے اور دونوں کے بیچ صرف تین سو تیس میٹر کی بلندی حائل ہے۔ میں نے ابھی تک پانچ ہزار میٹر سے زائد بلند ’’سمٹ‘‘  (Summit) اتنے قریب سے نہیں دیکھی تھی۔ میرا خیال ہے آئس ایکس اور کریمپونز کے استعمال سے واقفیت رکھنے والے ٹریکرز سنوڈوم سر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں تکنیکی معلومات کا حصول بہت ضروری ہے۔ سنو ڈوم کی چوٹی سے دئینتر پاس ٹاپ تک پھیلا ہوا سفید براق گلیشئر ایک خوبصورت برفانی شاہراہ کا منظر پیش کرتا ہے۔میں اس برفانی شاہراہ کی دل کشی میں کھو گیا۔
’’یہ پری لوگ کا راستہ ہے سر۔‘‘ عالم خان نے مجھے برفانی گنبد کے منظر میں دلچسپی لیتے دیکھ کر انکشاف کیا۔
’’پریوں کا راستہ؟وہ کہاں سے آتی ہیں اور کہاں جاتی ہیں ؟‘‘
’’آس پاس کا سارا ٹاپ پری لوگ کے رہنے کی جگہ ہے سر۔ سب سے زیادہ پری لوگ سنوڈوم پر رہتا ہے۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے آس پاس کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والی پریاں اس مقام پر اتر آتی ہیں جہاں ہم کھڑے ہیں ؟‘‘
’’بالکل اترتا ہے سر۔یہاں نہیں اترے گا تو کہاں اترے گا؟ ہمارا بزرگ بتاتا ہے کہ پری لوگ رات کے وقت سنوڈوم سے اتر کر ڈانس وانس کرتا ہے اور آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ آپ لوگ دیکھنا چاہتا ہے تو آج رات ادھر کیمپ کرو۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔میر عالم یہاں کیمپ کرنے کے نتائج سے آگاہ کر چکا ہے۔ پریاں کتنی بھی خوبصورت ہوں اُن کے لیے برف میں تبدیل ہونے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ تم گپیں ہانکنے کے بجائے واپس کیوں نہیں جاتے؟ہو سکتا ہے عرفان وغیرہ تمھاری ضرورت محسوس کر رہے ہوں۔ ‘‘  میں نے عالم خان کو یاد دلایا۔
’’سب ٹھیک ہے سر۔ہم نے ٹاپ پر پہنچتے ہی نیچے نظر ڈالا تھا۔وہ لوگ آرام سے چلتا ہے اور تھوڑی دیر میں اِدھر پہنچتا ہے۔‘‘
میں نے ٹاپ کے کنارے پر پہنچ کر نشیب میں جھانکا اور بوکھلا کر پیچھے ہٹ آیا۔
’’اچھا؟میں یہاں سے گزر کر ٹاپ تک پہنچا ہوں ؟‘‘
میرے ساتھی چہروں کے بجائے لباس کی وجہ سے شناخت کیے جا سکتے تھے۔ عرفان کی سرخ شرٹ سب سے آگے تھی۔ وہ سر جھکائے ’’مائل بہ پرواز‘‘  تھا اور اس کے قدموں تلے آنے والے پتھر لڑھک لڑھک کر نشیب کا رخ کر رہے تھے۔ بھٹہ صاحب کی کالی اور طاہر کی نیلی جیکٹ پتھروں پر تشریف فرما ہو کر عمودی چڑھائی سر کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھیں۔ میں نے اپنا ہیٹ لہرا کر انھیں خوش آمدید کہا۔طاہر نے پیپسی کی خالی بوتل ایک خاص انداز میں بلند کی۔ میں اس اشارے کی ’’بیہودگی‘‘  سے پوری طرح متفق تھا۔ دئینتر پاس ٹیم اپنی مہم میں کامیاب تھی، لیکن پتا نہیں کہاں کہاں سے ’’پاٹ‘‘  گئی تھی۔
مہم کی کامیابی کا یقین ہونے کے بعد مجھے دئینتر پاس ٹریک کی تفصیلات میں ایک حوصلہ افزا ’’خامی‘‘  کا احساس ہوا۔
 دئینتر پاس ٹریک ہوّا بن کر ذہن پر سوار ہو گیا تھا۔میں اس لیے طاہر وغیرہ سے آگے نہیں چل رہا تھا کہ سب سے پہلے ٹاپ پر پہنچنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پیش روی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کسی مقام پر تھک کر لڑھک جاؤں تو مددگار میسر آسکیں۔ میں اُن مراحل کا انتظار ہی کرتا رہ گیا جن کی بنیاد پر دئینتر پاس سخت ترین ٹریک کہلاتا ہے، انتظار ختم ہونے سے پہلے دئینتر پاس آ گیا اور مجھے مستند ٹریکر بنا گیا۔
پہنچ کے ٹاپ پر ہم کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رَہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
 دئینتر پاس ٹریک کی شراب اتنی پھیکی نہیں جتنی بیان کی جاتی ہے۔
ایک کوہ نورد ٹریک کی مشقت جھیل کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
اس سوال کا جواب الفاظ میں دینا ممکن نہیں، لیکن وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، بیس کیمپ سے ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے اُس سے کئی گنا زیادہ حاصل کر لیتا ہے۔ دئینتر پاس ٹریک اتنا کٹھن یا خطرناک بھی نہیں جتنا بدنام کر دیا گیا ہے۔ سخت ترین (Strenous) ٹریک اگر دئینتر پاس جیسا ہوتا ہے تو ’’سخت ترینی‘‘  کی ایسی تیسی!میں کنکارڈیا کیوں نہیں جا سکتا؟ غونڈو غورو میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اسے صرف عرفان عبور کر سکتا ہے؟
میں خوش فہمی کی دنیا میں نہ جانے کون کون سے ٹریک بھگتا ڈالتا کہ عالم خان کی آواز حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔
’’سر آپ کو اذان دینا آتا ہے ناں ؟ٹاپ پر پہنچ کر اذان دینا ضروری ہے۔‘‘
’’گورے دیتے ہیں اذان؟‘‘
’’گورا لوگ دعا پڑھتا ہے، کراس بناتا ہے۔‘‘
’’عرفان وغیرہ آ جائیں تو اذان دے لیں گے۔ مووی بھی بن جائے گی۔‘‘  
’’سر مووی کیلئے دوبارہ اذان دے لینا۔ ٹاپ پر پہنچ کر رک سیک اتارتے ہی اذان دینا بہت ضروری ہے ورنہ نیچے اترتے وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’نماز کا وقت نہ ہو تب بھی اذان دینا ضروری ہے؟‘‘
’’ہاں ناں۔ ‘‘
پتا نہیں عالم خان کس حد تک درست کہہ رہا تھا،لیکن میں نیچے اترتے وقت کسی قسم کا مسئلہ کھڑا ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا اس لیے گلیشئر کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے وضو کر کے ٹاپ کے بلند ترین مقام پر کھڑے ہو کر اذان دی۔اذان کے بعد نماز واجب ہو گئی، اور اسی پتھر پر دو نفل ادا کیے گئے۔ ٹاپ پر تشریف لے آنے کے بعد عرفان وغیرہ ناراض ہوئے کہ اُن کے آنے سے پہلے اذان کیوں دی گئی؟ میں نے عالم خان کے فتوے کے بارے میں بتا یا تو عرفان نے وضاحت کی کہ اذان کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں دی جاتی۔ اس حدیث کی روشنی میں دی جاتی کہ بلندی کی جانب سفر کرتے ہوئے تکبیر بلند کی جائے تو اللہ تعالیٰ سفر کی دشواریاں آسان کر دیتے ہیں۔ ٹاپ پر پہنچ کر اذان دینا ایک روایت بن چکی ہے، اسے ضعیف الاعتقادی کا رنگ دینا مناسب نہیں۔
ہمارے بعد میر عالم اور شیر احمد ٹاپ پر پہنچے۔
میں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی کہ فیصلے کے مطابق انھیں عرفان وغیرہ کے ساتھ رہنا چاہیے تھا،وہ آگے کیوں نکل آئے ہیں ؟انھوں نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پوری ٹیم بخیر و عافیت دئینتر پاس کی آخری چڑھائی کے دامن تک پہنچ گئی ہے اور تھوڑی دیر میں ٹاپ پر پہنچ کر جشن منا رہی ہو گی۔
سرخ جیکٹ تقریباً چالیس منٹ بعد دئینتر پاس ٹاپ پر جلوہ افروز ہوئی۔
عرفان نے آتے ہی باقاعدہ ’’جپھا‘‘  ڈالا اور مجھے زمین سے اونچا اٹھا کر گھمانے کی کوشش کی۔ میری ’’کمریا‘‘  ماشا ء اللہ اتنی وسیع و عریض ہے کہ اس کا جپھا ادھورا رہا اور وہ تھک ہار کر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا:
تجھے اٹھانے کی کوششیں بھی تمام ناکام ہو چکی ہیں
تیری کمریا کو تھامنے میں نہ جانے یہ کیا مقام آیا
’’بہت بہت مبارک ہو ڈاکٹر صاحب۔یہ دئینتر پاس ٹاپ ہے جہاں پہنچنا آپ کے لیے ممکن نہیں تھا۔‘‘  عرفان نے طائرانہ نظروں سے پاس کے دونوں جانب نظر آنے والے منظر کا جائزہ لیا۔اُس کی بلوری آنکھیں جوشِ  مسرت سے جگمگا رہی۔
’’مبارک باد کے مستحق آپ ہیں۔ میں سارے راستے آپ کو برا بھلا کہتا آیا ہوں۔ ‘‘
’’اب کیا خیال ہے؟‘‘ اُس نے سنو ڈوم کے برفانی گنبد کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ اعجاز ہے حسنِ ’’عرفانگی‘‘  کا … دئینتر پہ ہم داستاں چھوڑ آئے۔‘‘
’’انجوائے کیا؟‘‘
’’بہت زیادہ۔فنٹاسٹک۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے فائیو سٹار ہوٹل میں ڈنر کنفرم؟‘‘
’’فائیو سٹار ہوٹل میں پھجے کے سری پائے ملتے ہیں ؟‘‘
’’سر جی ادھر آئیں۔ ‘‘ عالم خان نے دخل اندازی کی۔
’’کیوں ؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’میرے ساتھ مل کر بیٹھ جائیں، چولہا جلا کر چائے بنانا ہے۔‘‘
’’چائے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟بوتلوں کا پانی کب کا ختم ہو چکا ہے۔‘‘
’’گلیشئر پر بیٹھ کر پانی کا فکر مت کرو۔ پانی ہم ابھی بنا لیتا ہے۔‘‘
 میر عالم اور شیر  احمد سٹیل کے ڈونگے کی مدد سے گلیشئر کی برف کھرچ کھرچ کر ساس پین میں جمع کر رہے تھے۔ عالم خان ایک پتھر کی آڑ لے کر چولھا جلانے کی کوشش میں مصروف تھا اور تند و تیز ہواؤں کی وجہ سے بری طرح ناکام ہو رہا تھا۔ٹاپ پر ہوا کی شدت ناقابلِ  یقین حد تک طوفانی تھی۔ عالم خان اور شیر احمد کے مفلر جھنڈے کی طرح لہرا رہے تھے۔ عرفان نے اس منظر کی تصویر بنائی، تصویر میں عالم خاں کی انگلیاں ’’وی‘‘  کا نشان بنا رہی ہیں تو وہ ہواؤں پر وکٹری حاصل کرنے کی خوشی میں ہے، دئینتر پاس ٹاپ پر پہنچنے کی خوشی میں نہیں ہے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے،اوپر نیچے نظر آنے والے گلیشئرز کی برفابی سے بھرپور ہواؤں کے تیور دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ رات کے وقت ان کی شوریدہ سری کیا قیامت ڈھاتی ہو گی۔ مجھے سو فیصد یقین آ گیا کہ میر عالم کی ’’مثنوی برف البیان‘‘  مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں تھی۔
چائے تیار ہونے تک طاہر اور بھٹہ صاحب بھی پہنچ گئے۔
طاہر کسی حد تک ان مناظر کا عادی تھا بھٹہ صاحب ٹاپ کا منظر دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھے۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان میں اتنے خوبصورت مناظر پائے جا تے ہیں۔ وہ ’’پریوں کی پھسلن گاہ‘‘  پر نظر ڈالتے، دئینتر کی گہرائیوں میں اترنے والے سبزہ زاروں کا جائزہ لیتے، نل تر کی رنگینیوں پر حیران ہوتے، اور سبحان اللہ کا ورد شروع کر دیتے۔
عالم خان نے چائے تیار ہونے کا اعلان کیا۔
ہم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ ہلکی پھلکی برف باری شروع ہو گئی۔ آج صبح جب ہم نے ٹریک آغاز کیا آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ٹریک کے دوران قدموں سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھنے کی مہلت ہی نہ ملی اور نہ جانے کب نیلے نیلے امبر پر گھنگھور گھٹائیں چھا گئیں۔ یہ گھٹائیں سفید گلاب کی پتیوں جیسے نرم و ملائم برف کے گالے نچھاور کر کے رسمِ استقبال نبھا رہی تھیں اور خوشیوں کے بیش بہا خزانے لٹا رہی تھیں۔
دئینتر پاس ٹاپ کے لیے یہ ایک آئیڈیل موسم تھا۔
ہم نے بچوں کی طرح یہ موسم یہ مست نظارے انجوائے کیے۔عرفان نے سنو مین بنانے کی کوشش کی لیکن گلیشئر کی برف انتہائی سخت تھی اور تازہ برف کی مقدار اتنی نہیں تھی کہ اسے سنو مین کی شکل دی جا سکتی۔برف کے ننھے منے گولے ایک دوسرے کی طرف اچھالے جا سکتے تھے، لہٰذا بے تحاشہ اچھالے گئے۔پریوں کے ’’سکائی انگ فیلڈ‘‘  پر بے تکے انداز میں سکائی انگ کرتے ہوئے سنو ڈوم کے دامن تک پہنچنے کی کوشش کی گئی لیکن برف کی سخت اور پھسلواں سطح پر ’’کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا‘‘  کے نتیجے میں یہ کوشش ترک کر دی گئی۔
برف باری آہستہ آہستہ اختتام کو پہنچی لیکن مطلع بدستور ابر آلود تھا اور ہم جس منظر نامے کا خواب آنکھوں میں بسائے ٹاپ تک پہنچے تھے اُس کی تعبیر سے محروم رہے۔موسم کی رنگینی دھیرے دھیرے سنگین ہوتی جا رہی تھی۔
‘‘ یہ سراسر فاؤل ہے۔ٹاپ پر پہنچا کر دئینتر پاس کے جلووں سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فریاد کی۔
’’شکوے کے بجائے شکر کریں کہ ٹاپ پر پہنچ گئے ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے نصیحت کی۔
’’کچھ نظر آئے گا تو ضرور شکر کروں گا۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب اتنا پیارا موسم آپ کو پسند نہیں آتا ہے؟ دئینتر پاس پر ایسا موسم قسمت والے کو ملتا ہے۔‘‘  عالم خان نے حسبِ عادت ٹانگ اڑائی۔
’’پیارے اللہ میاں جی،آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس موسم کا نظارہ کرنے نہیں آئے۔ یہ بادل وادل ہٹا لیں فٹا فٹ۔آپ کی عین نوازش ہو گی۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں۔ بیس مرتبہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے آزمودہ نسخہ بتایا۔
شیڈول کے مطابق ہم مزید ایک گھنٹہ ٹاپ پر گزار سکتے تھے۔ اس دوران فوٹو گرافی کی کوشش کی گئی، لیکن روشنی ناکافی تھی، اس لیے رک سیک کا تکیہ بنا کر برف آمیز سکری کے فرش پر دراز ہو گئے اور ہلکی ہلکی برف باری سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
روانگی سے پندرہ بیس منٹ پہلے پیارے اللہ میاں جی نے ہماری عاجزانہ درخواست قبول فرما لی۔ برف باری آہستہ آہستہ رک گئی اور یخ بستہ ہوائیں بادلوں کی فوج ظفر موج مشرق کی سمت اُڑا لے گئیں۔ سورج کی کرنوں نے گھٹاؤں کی چلمن ہٹا کر ماورائی رنگ بکھیرنے شروع کر دیئے۔ ماحول گرم ہوتا گیا اور دئینتر پاس منظر نامے کے برفیلے خط و خال واضح ہونے لگے۔ ہم نے اپنے قیام میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر دیا۔
دئینتر پاس منظر نامہ ایک ایسے نقشین پیالے کی مانند ہے جو وادیِ  دئینتر اور وادیِ  نل تر کی برف پوش بلندیوں اور سبز پوش پستیوں کے ملاپ سے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس پیالے کے نشیب میں وادیِ  نل تر اور وادیِ  دئینتر کے گل زار کسی مصور کے شاہکار کی مانند نظر آتے ہیں۔ منظر کے وسط سے وہ پہاڑی سلسلہ گزرتا ہے جو پیالے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور جس کے ’’پاس‘‘  پر کھڑے ہو کر ہم فطرت کی کاری گری کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ مغربی جانب وادیِ  نل تر اور مشرقی جانب وادیِ  دئینتر۔ سنوڈوم اور مہربانی پیک دونوں وادیوں کو تقسیم کرنے والے سلسلے کا حصہ ہیں اور بے داغ سپید دردیوں میں ملبوس سرحدی محافظ کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ ٹوئین پیک، شانی پیک اور مہربانی پیک پورے ٹریک کے دوران ہماری نظروں کے سامنے رہی تھیں۔ وادیِ  دئینتر کی جانب نظر آنے والی بلندیاں  … جو نل تر کی بلندیوں سے مل کر ’’پیالہ‘‘  بناتی ہیں  … ہم سے بہت دور تھیں اور کسی کھلونے کی مانند نظر آتی تھیں۔ عرفان اور عالم خان ان بلندیوں میں ’’بتورا پیک‘‘  اور ’’شسپر پیک‘‘  کی نشاندہی کرنے کی انگلی توڑ کوشش کر رہے تھے۔مجھے یہ پورا سلسلہ ایک برفانی پٹی کی مانند نظر آتا تھا اور میں پوری کوشش کے باوجود افق پر چھائی ہوئی سفیدی میں بتورا پیک یا شسپر پیک جیسے مشہورِ عالم پتھر کے صنم ’’تراشنے‘‘  میں کامیاب نہ ہو سکا۔
 عرفان اس منظر کی برفابی، نیل آبی،گلکاری اور سنگلاخی کے تضاد سے جنم لینے والی ’’بیوٹی‘‘  پر رواں تبصرہ نشر کر رہا تھا۔بھٹہ صاحب مبہوت ہو کر ’’بھٹہ میاں دیوانے‘‘  بن جانے کی کوشش فرما رہے تھے۔ طاہر کی آنکھیں مسلسل گردش میں تھیں لیکن وہ خود کیم روبوٹ کی مانند ساکت و جامد کھڑا تھا  … اور میں ؟
میرا ذوقِ تماشا میرے جسم کی طرح زوال کا شکار تھا یا میں دئینتر ٹاپ پر پہنچ کر اس سے کہیں زیادہ دلکش، انمول اور سنسنی خیز انعام کی توقع کر رہا تھا؟
میں نے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا اور عرفان کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے۔
’’آپ کے دماغ کی چولیں ڈھیلی ہو گئی ہیں، اگلے سال ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے تشریف لے جائیں، خود بہ خود ٹھکانے پر آ جائیں گی۔‘‘
’’کے۔ٹو اور نانگا پربت ایک ہی سیزن میں نمٹا ڈالوں تو کیسا رہے گا؟‘‘  میں نے عرفان کی جھلاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے نہایت خلوص سے اجازت چاہی۔
’’بوتھا ویکھیا ای اپنا؟‘‘  طاہر بھنا گیا۔’’عرفان بھائی آپ ان کی چالاکی سمجھ نہیں رہے۔ پسند نا پسند کا چکر چلا کر فائیو سٹار ہو ٹل میں ڈنر دینے کے وعدے سے مکرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’سر جی گلگت پہنچ کر ہم کو گرین ڈریگن میں چائنیز کھانا کھلاؤ۔ آپ لوگوں کو ٹاپ پر لانے میں ہمارا بہت محنت ہوا ہے۔‘‘ عالم خان نے فرمایش کی۔
’’خاک محنت ہوا ہے۔ تمھیں گرین ڈریگن میں چائنیز کھانا کھلانے کے بجائے سینما بازار میں دیسی جوتے کھلانے چاہئیں۔ ‘‘  طاہر بھڑک اٹھا۔
’’کیوں سر جی؟‘‘ عالم خان دم بخود رہ گیا۔
’’تم دو دن سے ہماری برین واشنگ کر رہے تھے کہ دئینتر پاس ٹریک ہمارے بس کا روگ نہیں۔ ہمیں پکھورا یا حایول پاس کراس کرنا چاہیے۔‘‘
 ’’سراب تو ٹاپ پہ پہنچ گیا ہے۔‘‘
’’تمھارا کیا کردار ہے اس میں، حوصلہ شکنی کرنے کے علاوہ؟‘‘
’’ہم آپ کو آسان راستے سے اِدھر لایا ہے۔‘‘  عالم خان بوکھلا گیا۔
’’آسان سے نہیں، غلط سلط راستے سے۔مجھے پتا ہے تم نے کتنی مرتبہ راستہ تبدیل کیا ہے۔‘‘ میں نے توتا چشمی کا مظاہرہ کیا۔
’’سر آپ کھانا بے شک مت کھلاؤ، ہمارا محنت کا خانہ خراب نہ کرو۔ آپ سمجھتا نہیں ہے کہ ٹاپ پر پہنچ کر ہمارا کتنا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘
’’ٹاپ پر پہنچ کر نقصان،وہ کیسے؟‘‘  عرفان چونک گیا۔
’’’ہم سچی بات بولے گا تو آپ ناراض ہو گا۔‘‘
’’خواہ مخواہ سسپنس پیدا کرنے کی کوشش مت کرو۔سیدھی طرح بتاؤ بات کیا ہے؟‘‘
’’سر آپ ہمیں ایک پورٹر کے نام کا دو ہزار دے گا ؟‘‘ عالم خان نے تصدیق چاہی۔
’’ظاہر ہے۔جو طے ہوا ہے وہی دیں گے۔‘‘
’’ہم ان دونوں کو پانچ ہزار دے گا۔‘‘ اُس نے افسردگی سے بتایا۔
’’شیر احمد کی لپ اسٹک پر نچھاور کرو گے یا نیل پالش کا صدقہ اتارو گے؟‘‘ میں نے معنی خیز انداز میں سوال کیا۔
’’یہ مذاق کا بات نہیں ہے سر۔آپ یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ آپ لوگوں نے تین پورٹر ڈیمانڈ کیا، ہم نے صرف دو ہائر کیا۔‘‘
’’تم پوری بات کیوں نہیں بتاتے؟ پورٹر کم ہونے سے ہمارا فائدہ ہو سکتا ہے، تمھارا کیا نقصان ہے؟تم نے فی پورٹر مزدوری دو ہزار طے کی تھی تو انھیں چار ہزار کے بجائے پانچ ہزار کیوں دو گے؟‘‘  عرفان نے وضاحت چاہی۔
’’پورا بات یہ ہے سر کہ ہمارا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ ہم نے ان کو بولا کہ ٹاپ کراس ہوتا ہے تو دونوں کو اڑھائی اڑھائی ہزار دے گا،نہیں ہوتا تو تین سو روپیا روز دے گا۔اب ان کو پانچ ہزار دیتا ہے تو ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟صرف دو ہزار ناں۔ انعام والا روپیا تو یہ لوگ لے جاتا ہے۔پھر ہمارا نقصان ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا؟‘‘
’’پتا نہیں ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔مجھے تمھاری کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘
‘‘ سمجھ آ جائے گا جب ہم بتائے گا کہ ہمیں ٹاپ پر پہنچنے کا امید نہیں تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘  عرفان چونک اُٹھا۔
’’ہمارا خیال تھا کہ لوئر شانی سے آگے آپ ڈھیلا پڑ جائے گا اور بیس کیمپ پہنچنے سے پہلے بالکل ٹھس ہو کر واپس آ جائے گا۔‘‘
’’یعنی ٹریک صرف دو دن چلے گا۔تم ان دونوں کو بارہ سو روپے دو گے اور باقی اٹھائیس سو اپنی جیب میں ڈال کر بغلیں بجاتے ہوئے گھر چلے جاؤ گے؟‘‘
’’ہاں ناں۔ ‘‘
’’تم نے ہماری ٹیم سے اتنی اعلیٰ کارکردگی کی توقعات کیوں وابستہ کی تھیں ؟‘‘
’’ ڈھیری کے بہک میں ہم نے کافی دیر تک آپ کے بارے میں بات چیت کیا تھا۔‘‘
’’اچھا ؟ہمارے بارے میں بات کرتے رہے تھے؟ میرا خیال تھا تم نے وہ قیمتی وقت شیر احمد کے ساتھ دل پشوری کرتے ہوئے گزارا ہو گا۔میر عالم تو گھر چلا گیا تھا۔‘‘  عرفان کے لبوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’آپ پھر مذاق کرتا ہے، ہمدردی نہیں کرتا۔‘‘  عالم خان نے رونے والے انداز میں کہا۔
’’ہمدردی بھی کریں گے اگر تم صاف صاف بتا دو کہ ہمیں اتنا کمزور اور نکما کیوں سمجھ رہے تھے۔تمھارے خیال میں ہم یہاں جھک مارنے آئے تھے؟‘‘ عرفان سنجیدہ ہو گیا۔
’’اب ہم کیا بتائے سر؟وہ لاہور والا گروپ تھا ناں، اُس نے ہمارا دماغ خراب کیا۔ ہم نے سوچا اتنا فٹ فاٹ لوگ اپر شانی نہیں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب اور طاہر صاحب جیسا ان فٹ لوگ دئینتر ٹاپ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟‘‘
’’مگر یہ پہنچ گیا۔‘‘  عرفان نے مصنوعی تاسف اور مایوسی کا اظہار کیا۔
’’اب آپ انصاف سے بولو کہ ہمارا بیڑا غرق ہوا کہ نہیں ہوا؟اوپر سے یہ دونوں کھانا کھلانے کی بات پے ناراض ہوتا ہے۔‘‘
’’اور جوتا مارنے کی بات کرتا ہے۔‘‘  عرفان نے مزید مایوسی کا اظہار کیا۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘  عالم خان کے چہرے کی فطری یتیمی میں اضافہ ہو گیا۔
عالم خان کے بے ساختہ اعترافِ جرم نے اُس کے حوصلہ شکن رویے اور غیر متوقع فیصلوں کی وضاحت کر دی۔لوئر شانی کے بجائے نیلولوٹ پر کیمپ کر کے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ نل تر جھیل سے نیلولوٹ تک سامان لانے والے بابا صاحبان کو اس نے آدھی سٹیج کی اجرت ادا کی ہو گی۔اس غیر روایتی پڑاؤ کی وجہ سے دوسرے دن کی سٹیج بہت زیادہ طویل اور بہت زیادہ ’’بلند‘‘  ہو گئی۔ عالم خان کا خیال ہو گا کہ ہم لوئر شانی والی چڑھائی سر کرنے کے فوراً بعد ایک عدد مزید چڑھائی کے متحمل نہیں ہو سکیں گے اور لاہوری گروپ کی طرح ’’ٹھس‘‘  ہو کر واپسی کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بیس کیمپ سے دئینتر پاس ٹاپ کے سفر کے دوران راستہ بنانے کے بہانے اُس نے ایک مرتبہ پھر ہمیں غیر ضروری چکر پھیریوں میں ڈال کر بد دل کرنے کی کوشش کی، لیکن ہماری سست رفتار پالیسی اور عرفان کی موقع بہ موقع حوصلہ افزائی نے اُس کی سازشوں کا جال تار تار کر دیا۔ اعترافِ جرم کی بنیاد پر عالم خان کو شرمندہ کرنے اور اس کا انعام بحق سرکار ضبط کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی، لیکن عالم خان کے خود غرض ارادے ماضی کا حصہ بن چکے تھے اور اس کی خدمات سے استفادے کی ضرورت باقی تھی۔ اس لیے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے عالم خان کی سازش صدقِ دل سے معاف کر دی گئی اور کامیابی کی خوشی میں ایک ہزار روپے اضافی انعام کا اعلان کیا گیا۔
وادیِ دئینتر کی اترائی پر پہلا قدم رکھتے ہی وادیِ نل تر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جانے والی تھی۔ ہم نے اس کے دل نواز نشیب و فراز پر آخری نظر ڈالی:
وادیِ نلتر کی اے رنگیں بہارو الوداع
کوہسارو مرغزارو آبشارو الوداع
٭٭٭




عجب ٹریک پرستوں سے واسطہ تھا مرا

Next time a meadow of flowers leave you speechless, remain that way
Say nothing, and listen as heaven whispers
Do you like it? I did it just for you
Max Lucado
اگلی مرتبہ جب تم پھولوں سے لبریز میدان دیکھ کر ششدر ہو جاؤ تو ہلنے جلنے یا بولنے کے بجائے آفاق سے آنے والی سرگوشیاں سننے کی کوشش کرنا جو سوال کر رہی ہوں گی:
 یہ دنیا یہ محفل صرف تمھارے لئے سجائی گئی ہے
 پسند آئی؟
میکس لوکاڈو

وادیِ دئینتر میں قدم رکھنے سے پہلے اس کی گہرائی میں اترنے والے راستے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اترائی کے آغاز اور ہمارے درمیان چند فٹ عریض وہ گلیشئر حائل تھا جسے کھرچ کر چائے بنانے کے لیے برف حاصل کی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک پتھریلی اور بہت زیادہ عمودی ڈھلان تھی۔ ڈھلان کے نیچے لشکارے مارتا ہوا سفید گلیشئر تشریف فرما تھا جس کی سطح پر موجود دراڑیں صاف نظر آ رہی تھیں۔
گلیشئر کے بعد ’’جہانِ پتھراں‘‘  آباد تھا جو  گلیشئر ہی کا حصہ رہا ہو گا۔چٹانی دراڑوں میں کہیں کہیں برف جھلملاتی تھی اور سرمئی پس منظر میں نقرئی کشیدہ کاری کا منظر پیش کرتی تھی۔اس میدان کے دائیں پہلو میں مٹیالے پانی کی چھوٹی سی جھیل منظر کا حصہ ہونے کے باوجود بے گانگی کا تاثر دے رہی تھی۔نل تر و دئینتر کے ’’شیشہ ور‘‘  پانیوں کی دنیا میں اس جھیل کے مٹیالے پانی شرمندہ شرمندہ نظر آتے تھے۔
پتھریلے میدان سے آگے ایک سرسبز قطعہ تھا،اور اس کے بعد شیطان کی آنت نما گھاٹی غالباً پاتال میں اترتی تھی۔اس گھاٹی کے نادیدہ اختتام پر پائے جانے والے بکروالوں کے چند جھونپڑے طولی بری کہلاتے تھے اور ہمارے ٹریک کا آخری پڑاؤ تھے۔
یہ منظر گائیڈ بکس اور انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے سراسر خلاف تھا۔  توقع سے زیادہ خوبصورت، اور بہت زیادہ طویل۔
میرا خیال تھا کہ اصل مرحلہ ٹاپ تک پہنچنا ہے۔ٹاپ سے طولی بری تک جانے والی اترائی کتنی بھی خطرناک ہو، زیادہ سے زیادہ دو تین گھنٹے میں طے ہو جائے گی اور ہم شام کے سائے ڈھلنے سے پہلے کیمپ سائٹ پہنچ کر اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہوں گے۔اس خوبصورت لیکن غیر متوقع منظر نے سارا تصور درہم برہم کر دیا۔ مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے طولی بری پہنچ سکیں گے۔
 اترائی کے آغاز پر گلیشئر کے چند فٹ اتنے عمودی تھے کہ عرفان اسے براہِ راست عبور کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ہم گلیشئر کے مغربی کنارے پر چلتے ہوئے اس کے مخروطی اختتام تک پہنچے اور مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے واپس آ کر اسی مقام سے اترائی کا سفر شروع کیاجہاں ہمارا قیام تھا۔گلیشئر کی ’’نوک‘‘  کے پاس سے بھی نیچے اترا جا سکتا تھا بشرطیکہ ہم سب نے عرفان کی طرح راک کلائمبنگ کی تربیت حاصل کی ہوتی۔ آسان سمجھے جانے والے مقام پر بھی اترائی کا ابتدائی حصہ ستر درجے کے زاویے سے زیادہ ڈھلان بناتا تھا۔ یہ قدرتی ’’سلائیڈ‘‘  جو اس وقت پتھروں اور سنگریزوں پر مشتمل تھی چند روز پہلے تک گلیشئر کے نیچے دبی ہوئی ہو گی کیونکہ اس کے کئی حصے ابھی تک برف میں پوشیدہ تھے۔ بیش تر برف پانی میں تبدیل نہ ہو چکی ہوتی تو یہاں سے کریمپونز اور آئس ایکس استعمال کیے بغیر گزرنا ممکن نہ ہوتا۔ یہ دئینتر پاس ٹریک کا سخت ترین،مگر دلچسپ ترین مرحلہ تھا۔
’’چلیں سر جی۔ بسم اللہ کریں۔ ‘‘  عرفان نے کہا۔
’’اگر پھسل گیا تو؟‘‘  میں بسم اللہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا۔
’’پھسل گئے تو گیا ہو گا؟ نہایت اطمینان سے ’’گھِسّی‘‘  کرتے ہوئے نیچے پہنچیں گے اور خواہ مخواہ کی خجل خواری سے بچ جائیں گے۔‘‘  طاہر نے ’’حوصلہ افزائی‘‘  کی۔
’’یار کچھ بھی نہیں ہو گا۔یہاں سے اترتے وقت صرف اتنی احتیاط کریں کہ جسم کا بوجھ پیچھے کی جانب رکھیں۔ پنجوں کے بل چلنے کی کوشش نہ کریں اور اگلے قدم کی ایڑی اچھی طرح جمانے کے بعد پچھلا قدم اٹھائیں۔ ‘‘
عرفان کی ہدایات کی روشنی میں بسم اللہ کی گئی اترائی بہت زیادہ ڈھلوانی ہونے کے باوجود غیر معمولی دشوار یا خطرناک ثابت نہیں ہوئی، لیکن قطار بنا کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے اترنے کی وجہ سے کچھ’’ با ضرر‘‘ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پیچھے آنے والوں کے قدموں سے نکل جانے والے پتھر گرجتے برستے ہوئے نیچے جاتے تھے اور آگے چلنے والوں پر ناگہانی افتاد کی طرح نازل ہوتے جس کے نتیجے میں :
ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھل جاتے تھے لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے پھسل جاتے تھے لوگ
 پتھروں کی لڑھکان لینڈ سلائیڈنگ میں تبدیل ہونے لگی تو فیصلہ کیا گیا کہ ایک ایک کر کے نیچے اترا جائے۔عالم خان سب سے آگے تھا۔ہم رک گئے اور وہ باآسانی گلیشئر تک پہنچ گیا۔عالم خان کے بعد میں، عرفان اور بھٹہ صاحب یکے بعد دیگرے نیچے پہنچے۔طاہر تقریباً سو فٹ کی بلندی پر پہنچ کر رک گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘  میں نے پوچھا۔
’’میں سوچ رہا ہوں اس جگہ سچ مچ گھِسّی لگا ئی جائے تو زیادہ مزہ آئے گا۔‘‘  طاہر نے قدرتی ’’سلائیڈ‘‘  کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’اوئے حیا نوں ہتھ مار۔تیری پتلون شتلون پاٹ جانی اے،تے شیم شیم ہو جانی اے۔ فیر ہتھ لا لا کے ویکھیں گا کیویں پاٹ گئی اے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے ٹراؤزر پھٹ جانے کی صورت حال باقاعدہ اشارہ کر کے سمجھائی۔
بھٹہ صاحب کے تبصرے پر ہنسی آنا قدرتی بات تھی اور با جماعت قہقہے کے بعد طاہر کے پاس گھِسّی سے بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔اُس نے تشریف کا ٹوکرا قدرتی سلائیڈ کے سنگریزوں پر رکھا اور پھسلنا شروع کر دیا۔ جب تک ہمیں اس شرارت کے غیر متوقع نتائج کا اندازہ ہوتا اُس کی گھسی ایک بے قاعدہ قلابازی میں تبدیل ہو چکی تھی۔
’’سٹک استعمال کریں  … سٹک۔‘‘  عرفان پوری قوت سے چیخا اور اُس کے چہرے پر شدید پریشانی چھا گئی۔
طاہر لڑھکا ضرور،لیکن ہوش و حواس قائم رہے اور اس نے دوسری قلابازی سے پہلے اپنی سٹک پتھروں میں پھنسا دی۔
طاہر کے پاس اگر عرفان کی سٹک نہ ہوتی؟
طاہر کے پاس سٹک نہیں تھی۔عرفان نے نیچے اترتے وقت حفظ ماتقدم کے طور پر اپنی سٹک اسے پکڑا دی تھی اور خود آئس ایکس نکال لیا تھا۔ یہ چھوٹا سا فیصلہ بہت بڑے حادثے سے بچنے کا سبب بن گیا۔ اس حادثے کی وجہ طاہر کی پشت پر بندھا ہوا رک سیک تھا۔ہم سب یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہے کہ مجوزہ گھِسی کے دوران پشت پر بندھا ہوا رک سیک کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔رک سیک کی وجہ سے طاہر پوری طرح پیچھے کی طرف نہ جھک سکا اور توازن کھو بیٹھا۔اللہ کا شکر ہے کہ بروقت سنبھل گیا اور سنبھلنے کے بعد شرمندگی چھپانے کیلئے بے تکے انداز میں دانت نکالتا ہوا نیچے تشریف لایا۔
’’آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘  ہمیں گم سم دیکھ کر اُس نے سوال کیا۔
’’آئی۔ایم رئیلی سوری۔‘‘  عرفان نے سنجیدگی سے معذرت کی۔
’’کیا مطلب؟کیسی سوری؟‘‘  طاہر حیران ہوا۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مظاہر فطرت کا احترام کیا جائے۔انھیں کھلونا سمجھ کر کھیلنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ہم نے اس وقت یہ اہم اصول نظر انداز کر دیا تھا۔‘‘
’’چھوڑیں جی،اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ تو اس طرح منہ بسور رہے ہیں جیسے میں بھٹہ صاحب والا انّا للہ ہو چکا ہوں۔ ‘‘
طاہر نے اپنی قلابازی خود نہیں دیکھی تھی، شاید اسی لئے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنے سنگین حادثے سے بال بال بچا ہے۔
ٹاپ سے گلیشئر تک تقریباً ایک سو میٹر ڈھلوان طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زائد وقت چٹ ہو گیا لیکن یہ منفرد مرحلہ ہم نے بچوں کی طرح شور مچاتے اور ایک دوسرے پر طنزیہ فقرے اچھالتے ہوئے طے کیا۔
اب ہمارے سامنے گلیشئر عبور کرنے کا مرحلہ تھا۔
میں نے اس سے پہلے ایک دو نام نہاد گلیشئر عبور کیے تھے،اتنا بے داغ اور دراڑوں سے بھر پور گلیشئر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ گلیشئر کے بائیں کنارے پر اسی قسم کی گلیشریائی جھیل نظر آرہی تھی جس کے لیے میں نے آدھے گھنٹے کی اضافی مشقت برداشت کی تھی، لیکن یہ اُس کی نسبت بہت چھوٹی تھی۔اس قسم کی ننھی منی جھیلیں آس پاس کے گلیشئرز پر بھی دکھائی دے رہیں تھیں۔ مٹیالے اور سرسبز پس منظر میں دور دور تک بکھرے ہوئے سفید گلیشئرز اور ننھی منی جھیلوں کی یہ دنیا بہت دلکش تھی،ہمارے ٹریک کا منفرد ترین منظر۔اس منظر میں جگہ جگہ دراڑیں نظر آ رہی تھیں اور ان دراڑوں سے بلند ہونے والے نیلگوں بخارات ظاہر کرتے تھے کہ گہرائی میں بہنے والے پانی کا دھارا بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ گلیشئر کی دراڑیں زیادہ چوڑی نہیں تھیں اور انھیں پھلانگنا بائیں ’’پاؤں‘‘  کا کھیل تھا۔ یہ کھیل جان لیوا نہ سہی، شفاف اور ڈھلواں سطح کی وجہ سے ’’ٹانگ لیوا‘‘  ثابت ہو سکتا تھا۔ ہم واکنگ سٹکس اور ایک دوسرے کا سہارا لینے کے باوجود پھسلتے پھسلاتے ہی اس مرحلے سے گزرنے میں کامیاب ہوئے۔عالم خان اس کھیل کا کھلاڑی تھا۔ اس نے گلیشئر کے وسط میں پہنچ کر ہمارا دل بہلانے کے لیے سکائی انگ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ گھٹنوں کو خم دے کر نہایت تیزی سے پھسلتا اور دراڑ کے نزدیک پہنچ کر اچانک کنی کترا جاتا۔سکائی انگ کٹ کی غیر موجودگی میں اس کی مہارت قابل داد تھی۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ سکائی انگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کر چکا ہے اور نل تر سکائی انگ سکول کے کئی مقابلوں میں حصہ لے چکا ہے۔
’’تمھیں مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت کیسے مل گئی؟میں نے سنا ہے اس میں صرف آرمی آفیسرز حصہ لے سکتے ہیں۔ ‘‘  عرفان نے وضاحت چاہی۔
’’وہ پرانا بات ہو گیا ہے۔اب ادھر بہت سارا مقابلہ ہوتا ہے جس میں سویلین لوگ بھی آتا ہے۔اس سال بڑا زبردست چمپئن شپ ہوا تھا۔بہت سارا ٹیم آیا تھا۔ایک ایسا میاں بیوی بھی تھا جس کا نیا نیا شادی ہوا تھا،اس نے کمال کر دیا تھا۔‘‘
’’میاں بیوی؟مقابلے میں جوڑے بھی حصہ لیتے ہیں ؟‘‘
’’وہ مقابلہ نہیں کرتا تھا۔شوقیہ طور پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جھیل سے ادھر ٹاپ تک سکائی انگ کرتا تھا۔‘‘
’’دئینتر ٹاپ سے نل تر جھیل تک؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
’’یہاں اتنی برف کہاں ہے کہ اس پر سکائی انگ کی جا سکے؟ اور میرا خیال ہے پاکستانی خواتین اس کھیل کی اتنی ماہر نہیں ہوتیں کہ ٹاپ سے جھیل تک سکائی انگ کر سکیں۔ ‘‘
’’آپ فروری میں ادھر آؤ ناں، پھر دیکھو کتنا برف ہوتا ہے اور عورت لوگ کا مقابلہ کتنا زبردست ہوتا ہے۔‘‘
’’عورتوں کے مقابلے؟تمھارا مطلب ہے کہ یہاں اتنی خواتین آ جاتی ہیں کہ ان کے مقابلے منعقد ہو سکیں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں آتا؟ادھر بڑا بڑا شوقین عورت آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے سارا پری لوگ نل تر میں اتر آیا ہے۔ آپ سکائی انگ کے سیزن میں ادھر آتا ہے تو ہم کو ضرور یاد کرتا ہے۔‘‘
’’میں اتنا بد ذوق نہیں ہوں کہ پریوں موجودگی میں تمھیں یاد کروں۔ ‘‘
’’آپ نہ کرنا۔آپ کو خود بخود یاد آئے گا کہ سردی کا موسم میں نل تر آنے کا مشورہ عالم خان نے دیا تھا۔‘‘
عالم خان اگر درست کہہ رہا تھا تو( بعد میں تصدیق ہو گئی کہ فروری کے مہینے میں نل تر میں سعدیہ خان کپ سکائی انگ چمپین شپ منعقد ہوتی ہے جس میں صرف خواتین اور بچے حصہ لے سکتے ہیں ) فروری کی وادیِ  نل تر بے تحاشہ ہیجان خیز ہو تی ہو گی۔نل تر سے دئینتر پاس تک پھیلے ہوئے …  نل تر پیک … شانی پیک … مہربانی پیک  …  جڑواں پیک اور نہ جانے کون کون سی بلندیوں کے دودھیالے نشیب و فراز،اور اس بے داغ سفیدی کے پس منظر میں سکائی انگ کے لیے اترتی ہوئی ’’شوقین پریاں‘‘  ؟
اس فروری میں نل تر آ کر ہم بھی دیکھیں گے
گلیشئر کنارے کے رخنوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سبزہ نورستہ کی صورت میں نمودار ہو رہی تھی۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس منجمد سر زمین پر اتنی رنگا رنگ جڑی بوٹیاں اُگ سکتی ہیں۔ وہ نہ صرف اُگ رہی تھیں بلکہ گلیشئر کے سفید براق منظر کو حیران کن حد تک رنگین بنا رہی تھیں۔ عالم خان نے ان جڑی بوٹیوں سے پیلے رنگ کے ننھے منے پھل توڑ کر ہماری خدمت میں پیش کئے۔ یہ انتہائی خوش ذائقہ پھل مقامی زبان میں ’’میو‘‘  کہلاتے ہیں۔ عالم خان کا کہنا تھا کہ یہ دئینتر پاس کی برفیلی بلندی کا تحفہ ہیں، گلیشئر کا علاقہ عبور کرنے کے بعد نظر نہیں آئیں گے۔ ہم نے مزید پھلوں کی فرمائش کی لیکن عالم خان پوری کوشش کے با وجود مزید پھل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اترائی کی پہلی قسط با مشقت ہونے کے باوجود انتہائی با مقصد تھی۔اسی قسم کے مناظر کے لیے فطرت کدوں کے بے نام و نشان راستے اپنائے جاتے ہیں۔ نل تر جھیل سے اس گلیشئر تک ہونے والی تھکاوٹ گلیشریائی جھیلوں کے صاف و شفاف پانی میں تحلیل ہو گئی۔ دئینتر پاس کی پچاس ساٹھ میٹر چڑھائی اور سو میٹر اترائی کو دئینتر پاس ٹریک کا حاصل کہا جا سکتا ہے اور یہ ایک انمول حاصل ہے۔ انھی پتھروں سے زندگی کے حقیقی چشمے پھوٹتے ہیں، انہی برف پاروں میں کائنات کا اصل حسن بسیرا کرتا ہے،انھی جھیلوں کے پانی سے خمارِ فطرت کے پیمانے لبریز کیے جاتے ہیں ؛ان پیمانوں کا نشہ فضاؤں پر راج کرتا ہے،یہاں آئے بغیر اس نشے سے حاصل ہونے والے سرور کا اندازہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔پاس کراسنگ واقعی کوہ نوردی کی دنیا کا انوکھا جام ہے۔ذوقِ  آوارگی تجھے آفریں  …  کہ یہ جام ہم کو پلا دیا۔
 گلیشئر کے بعد ایک مختصر سا مٹیالا لینڈ سکیپ تھا جس کے دائیں جانب گدلے پانی کی جھیل تھی،اور جھیل سے آگے:
اترائی کی یلغار ہے میں یکا و تنہا
کھائی میرے پیچھے ہے تو کھڈّا میرے آگے
  کھائی اور کھڈّے اُس گلیشئر کے بائیں کنارے کا ’’ملبہ‘‘  تھے جو غالباً سنوڈوم ٹاپ سے آتا تھا اور وادیِ  دئینتر کی گہرائی میں پہنچ کر دریا میں تبدیل ہو جاتا تھا۔اس میدان کے پتھر قدم بہ قدم بے تحاشہ لڑھکتے تھے اور لڑھکتے ہی چلے جاتے تھے۔ آگے چلنے والوں کے لئے ایک مرتبہ پھر خطرہ پیدا ہو گیا اور ایک ایک کر کے اترنے کی ضرورت محسوس ہو نے لگی۔ فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ یہ پالیسی اپنانے کی صورت میں اسی مقام پر شب باشی کے سو فیصد امکانات تھے۔ میں اوپر سے آنے والے پتھروں کی زد میں تھا۔طاہر اور بھٹہ صاحب بار بار ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے کی صدا لگا رہے تھے۔ہٹنے بچنے کے چکر میں ایک جگہ میرا ٹریکنگ شو دو پتھروں کے درمیانی خلا میں پھنس گیا۔ بدقسمتی سے خلا کے نیچے والے پتھر نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ میرے قدم بری طرح لڑکھڑائے اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں پورا جسم ’’ہاف ٹوئسٹ‘‘  ہو گیا۔ ٹوئسٹ کے اختتام پر ایک عدد کڑکڑاہٹ بلند ہوئی اور مجھے محسوس ہوا کہ کوئی جوڑ شکن حادثہ وقوع پذیر ہو چکا ہے،لہٰذا ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔چند لمحے ہلنے جلنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ڈرتے ڈرتے قدم اٹھانے کی کوشش کی اور یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ پاؤں باآسانی گڑھے سے باہر آ گیا اور درد محسوس نہیں ہوا۔پھر یہ کڑکڑاہٹ کس چیز کی تھی؟
میں نے پاؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کی تو عرفان وغیرہ نے سنجیدگی سے ہدایت کی کہ راستے سے ہٹ جاؤں ورنہ سچ مچ کسی پتھر کی زد میں آ جاؤں گا۔اس جگہ راستے سے ہٹنے کی گنجائش نہیں تھی۔ دونوں جانب اچھی خاصی گہرائیاں تھیں۔ میں نے بتا یا کہ میرے پاؤں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو گیا ہے اس لیے وہ جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں اور مجھے پاؤں کا معائنہ کرنے کی مہلت دیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’’گوڈے گِٹّے‘‘  سو فیصد سلامت تھے اور میں انتہائی مضبوط سمجھے جانے والے ٹریکنگ شو کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا جس کا امپورٹڈ سول داغِ مفارقت دے کر غالباً اسی خلا میں رہ گیا تھا جہاں میرا پاؤں پھنسا تھا۔
’’جی جناب؟کیا صورتِ حال ہے؟‘‘  عرفان نے دریافت کیا۔
’’جوتا بے کار ہو گیا ہے۔‘‘  میں نے انھیں جوتا دکھایا۔
’’اپنے جوگر نکال لیں۔ ‘‘  طاہر نے مشورہ دیا۔
’’کہاں سے نکال لوں ؟‘‘ میں نے پُر شوق لہجے میں دریافت کیا۔
’’کیا مطلب؟آپ کو پتا نہیں کہ آپ کے جوگرز کہاں ہیں ؟‘‘
’’مجھے پتا ہے کہ میرے جوگر گلگت کی کسی دکان میں رکھے ہیں۔ ‘‘
’’یعنی آپ جوگرز گلگت ہی میں چھوڑ آئے ہیں، فالتو سامان سمجھ کر؟‘‘  عرفان نے حیران ہو کر سوال کیا۔
’’آپ نے ٹریکنگ کا پہلا اصول بتاتے ہوئے پُر زور نصیحت کی تھی کہ ذاتی سامان کا وزن کم سے کم رکھا جائے۔‘‘
’’سر جی خدا کا خوف کریں۔ میں نے غیر ضروری سامان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔یہ نہیں کہا تھا کہ جوگرز جیسا بنیادی ایکوئپمنٹ فالتو سامان کی فہرست میں شامل کر دیں۔ ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مکمل … ۔‘‘
’’عرفان صاحب پلیز۔یہ ٹریکنگ کے اصول پڑھانے کا وقت نہیں ہے۔اس کے باوجود بور کرنا ہی چاہتے ہیں تو ٹریکنگ کا دوسرا اصول بتا دیں۔ پہلا اصول سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ ‘‘  طاہر نے عرفان کی بات کاٹی۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مکمل ایکوئپمنٹ ساتھ لے کر چلیں۔ یہ بات میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں لیکن جب تک عملی تجربہ نہ ہو زبانی کلامی بتائے گئے اصول سمجھ نہیں آتے۔امید ہے اب اس اصول کی اہمیت پوری طرح اجاگر ہو جائے گی۔ایک اور پہلا اصول یہ ہے کہ ٹریکنگ شوز اور جوگرز کو ٹریکنگ ایکوئپمنٹ کا لازمی حصہ سمجھا جائے۔‘‘  عرفان نے طاہر کے اعتراض پر دھیان دیے بغیر خطاب پورا کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ادھر اُدھر ہو جائیں پلیز،میرا بیلنس خراب ہو رہا ہے۔ پھسل گیا تو نیچے جاتے جاتے آپ کو بھی ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘  طاہر نے کہا۔
ادھر ادھر ہونے کی جگہ کہاں تھی؟میں ایک نسبتاً بڑے پتھر کی آڑ میں ہو گیا۔ میرے ساتھی نیچے تشریف لائے،ٹریکنگ شو کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا اور بے پیندے کے جوتے یا چپل میں ٹریک جاری رکھنے کا مشورہ دے کر آگے روانہ ہو گئے۔ اصل سول غائب ہونے کے بعد سخت گتّے کا پیتابہ جوتے کا ’’پیندہ‘‘  بنا رہا تھا۔ جن پتھروں پر ٹریکنگ شوز کا اصل سول جواب دے گیا ہو وہاں اس گتے کی کیا حیثیت تھی؟ چند قدم بعد ہی بے چارے کا تیا پانچہ ہو گیا اور میرے پاس حیران و پریشان حالت میں ایک پتھر پر تشریف فرما ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ پتھروں کے میدان کا بیش تر حصہ عبور ہو چکا تھا، لیکن طولی بری بہت دور تھا۔ لینڈ سکیپ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ طولی بری تک انتہائی نامعقول قسم کی اترائی ہے۔ چپل پہن کر اتنی طویل اترائی کے تصور سے خوف آتا تھا۔
مصائب اور تھے پر ’’شو‘‘  کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
 اس سانحے کے بعد ٹریکنگ کا پہلا اصول ذہن پر نقش ہو گیا ہے۔اب ٹریک پر جاتے وقت جوگرز کو فالتو سامان سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاتی، ممکن ہو تو ٹریکنگ شوز کے سول پر اضافی سلائی لگوائی جاتی ہے اور چپل کی جگہ ہلکے پھلکے کیمپ شوز منتخب کئے جاتے ہیں تا کہ ہنگامی صورتِ  حالت میں جوگرز کی جگہ استعمال کئے جا سکیں۔
عالم خان الٰہ دین کے جن کی طرح نمودار ہوا۔
’’ڈاکٹر صاحب کیا مسئلہ بن گیا ہے؟‘‘
’’ٹریکنگ شوز ٹوٹ گئے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے دکھائیں۔ ‘‘
میں نے ’’لیر و لیر‘‘  جوتا اس کے حوالے کر دیا۔اس نے جوتے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اسے پوری قوت سے گدلے پانی کی جھیل کی طرف اچھال دیا۔
’’آپ ہمارا جوگر استعمال کرو۔اپنا چپل ہمیں دو۔‘‘
عالم خان کا جوگر مجھے کسی حد تک چھوٹا تھا اور پنجے پر ناقابلِ برداشت حد تک دباؤ ڈالتا تھا،لیکن میرے پاس کوئی اور متبادل نہیں تھا۔جوگر پہن کر چلنا شروع کیا تو علم ہوا کہ تنگ جوتے پہن کر بے ڈھب اور لڑھکیلی سطح پر چلنا کتنا مشکل کام ہے۔ اترتے وقت جسم کا بیش تر بوجھ پاؤں کے انگوٹھے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میرا انگوٹھا عالم خان کے تنگ جوگرز کا مسلسل دباؤ برداشت نہ کر سکا اور درد کا احساس جگا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا شروع کر دیا۔ ابتدا میں معمولی محسوس ہونے والا درد رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور رفتار کم ہوتی گئی۔ کچھ دیر بعد میں باقاعدہ لنگڑانے لگا اور عرفان وغیرہ دور … بہت دور نکل گئے۔
جہانِ پتھراں ایک ہموار میدان کے کنارے پہنچ کر ختم ہوا تو میں نے پانی کے بہانے درد کش دوا کا وقفہ کیا۔اس میدان کی گھاس غیر معمولی حد تک سرسبز اور ہموار تھی۔ابھی تک ٹری لائن کی حد ختم نہیں ہوئی تھی اس لیے سبزہ زار میں درخت یا جھاڑیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔ بے تحاشہ سبز گھاس کی نرم و نازک پتیوں کے درمیان رنگ رنگ کے پھول فرشِ زمین سے براہِ راست نمودار ہو رہے تھے۔یہ دیوسائی کا مِنی ایڈیشن تھا اور اردگرد کے بلیک اینڈ وائٹ(پتھر اور گلیشئر) لینڈ سکیپ میں سبز نگینے کی طرح جگمگا رہا تھا۔ یہ غالباً وہی سبزہ زار تھا جسے چرواہوں نے ’’دئیں۔ تر‘‘  (سر سبز میدان) کا خطاب دیا اور جو پوری وادی کے نام کی وجہ تسمیہ بنا۔ یہ سبزہ زار ایک قدرتی پڑاؤ ہے۔ دئینتر پاس ٹریک کی منفرد اور خوبصورت ترین کیمپنگ سائٹ۔ ایک طرف دئینتر پاس کی سرمئی بلندی، دوسری طرف سنوڈوم سے اترنے والے گلیشئر کی بے داغ سفیدی اور تیسری طرف وادی  دئینتر کی سر سبز گہرائیاں، مجھے دلی افسوس ہوا کہ یہ مقام ہماری آئٹی نریری میں کیمپنگ سائٹ کے طور پر شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
لینڈ سکیپ پر چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں نمودار ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ ’’ٹری فری‘‘  زون ختم ہو چکا ہے۔ ماورائی رنگوں کے پھولوں سے لبریز جھاڑیاں بہاروں کی ملکہ کے دربار کی سیر کراتی تھیں۔ یہ بلا شبہ ایک یادگار سفر تھا۔ اتنا دلفریب کہ میں پاؤں کے انگوٹھے سے اٹھنے والی ٹیسیں نظر انداز کر کے دربارِ حسن کی رنگینیو ں میں کھو گیا۔دل کش سبزہ زار کا اختصار ہی اس کی انفرادیت تھی۔ نل تر اور دئینتر کی تمام بہاریں ایک چھوٹی سی جنتِ  ارضی میں سمٹ آئی تھیں اور مجھے بجا طور پرفخر ہوا کہ یہ جنت میری اور صرف میری تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے عرش سے فرش پر اتاری گئی ہے۔ اس کی رنگین بہاروں میں میرے ساتھیوں کا حصہ ہوتا تو وہ اس قدرتی پڑاو پر پانی کا وقفہ ضرور کرتے۔
دیکھ کر میرا دشت تنہائی
رنگ روئے بہار اترا ہے
میں رنگ روئے بہار کے جلووں میں گم ہو کر سچ مچ راستہ کھو بیٹھا۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں کے لبادے میں ملبوس سبز ’’پریاں‘‘  نظر آتی تھیں اور ہوش و حواس چھین لیتی تھیں۔ پوری کوشش کے باوجود آگے جانے کے لیے سمت کا تعین نہ ہو سکا تو میں نے دونوں ہاتھوں سے بھونپو بنا کر زوردار ’’کوک‘‘   نشر کی۔ چند سیکنڈ بعد کوک کا جواب آیا۔آواز غالباً عالم خان کی تھی۔ میں آواز کی سمت کا تعین نہ کر سکا اور ایک مرتبہ پھر کوک بلند کی۔اس کے جواب میں آنے والی آواز کافی بلند تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کس سمت جانا ہے۔مزید چند سیکنڈ بعد میں گل رنگ بھول بھلیاں عبور کر کے گلیشئر کے کنارے پہنچ چکا تھا اور مجھے اپنے ساتھیوں کی جیکٹیں نظر آنے لگی تھیں۔ میں نے انھیں چلتے رہنے کا اشارہ کیا اور نہایت سست رفتاری سے اترائی کا سفر طے کرنے لگا۔ ہر قدم پر درد کی شدت میں اضافہ ہو تا گیا اور کچھ دیر بعد یہ درد شدید اذیت میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے شک ہوا کہ انگوٹھے کے ناخن کے نیچے خون رسنا شروع ہو گیا ہے۔ ناخن جوگر کے اوپر والے حصے سے ٹکراتا تو مجھے دانتوں پسینا آ جاتا۔میری کوشش تھی کہ چلنے کے دوران پاؤں کے انگوٹھے پر وزن نہ آئے اور ناخن جوگر کے کسی حصے سے نہ ٹکرائے۔ اس غیر فطری انداز کی وجہ سے پنڈلی کے وہ پٹھے بہت زیادہ استعمال ہوئے جو عام حالات میں استعمال نہیں ہوتے۔ ان پٹھوں کو مشقت برداشت کرنے کی عادت نہیں تھی اس لیے بہت جلد جواب دے گئے اور مجھے باقی سفر ایک عذاب کی مانند نظر آنے لگا۔ میری شدید خواہش تھی کہ سفر میں وقفہ کروں اور جوگرز اتار کر چپل پہن لوں۔ فی الحال دونوں باتیں ممکن نہیں تھیں اس لیے دعائیں مانگنا شروع کر دیں کہ میرے ساتھی میرے جتنی تھکاوٹ کا شکار ہو کر ایک طویل وقفہ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ زخمی پاؤں کی فریاد رنگ لائی اور تھوڑی دیر بعد میں ایک ہموار خطے پر پہنچا جہاں عرفان وغیرہ ٹیڑھے میڑھے انداز میں فرشِ زمین پر استراحت فرما رہے تھے۔میں ان کے نزدیک پہنچ کر ’’اڑ ا ڑا دھم‘‘  ہو گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب اس رفتار سے چلتا ہے تو کل نیچے پہنچتا ہے۔‘‘  عالم خان نے خبردار کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ا سی رفتار سے چلے گا۔‘‘  میں نے دھمکی آمیز لہجے میں جواب دیا۔
’’ہم آپ کو نہیں سب کو بولتا ہے۔‘‘
’’میں بھی اس سے تیز نہیں چل سکتا۔‘‘  طاہر نے میرا ساتھ دیا۔
’’کام خراب ہو جائے گا ناں۔ آدھی رات کو اُدھر پہنچے گا تو کیا کرے گا؟‘‘
’’ہمیں کیا پتا کیا کرے گا؟ گائیڈ تم ہو،تمھیں وقت کا اندازہ ہو نا چاہیے تھا۔‘‘  عرفان نے جواب دیا۔
’’سب لوگ اُدھر ایک دن میں پہنچتا ہے۔آپ بھی پہلے کی طرح چلے تو رات سے پہلے پہنچ جاتا ہے۔پتا نہیں آپ لوگ ایک دم سست کیو ں ہو گیا ہے۔‘‘
’’ہم لوگ کا بس ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔
’’بس ہونے سے کام نہیں چلتا سر،آپ نہیں چل سکتا تو ایڈوانس پارٹی بھیجو۔‘‘
’’ایڈوانس پارٹی کیا کرے گی؟‘‘
’’ٹینٹ لگائے گا، کھانا تیار کرے گا اور روشنی کرے گا۔ ہم کیمپ سائٹ کا روشنی دیکھ کر اُدھر پہنچے گا۔اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو چٹنی بن جاتا ہے۔‘‘
’’تم …  راستے سے اِدھر اُدھر ہو سکتے ہو؟‘‘  عرفان نے بے یقینی سے سوال کیا۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ روز روز تو اِدھر نہیں آتا ناں۔ آس پاس کا نشانی دیکھ کے راستہ بناتا ہے۔اندھیرے میں کوئی چیز نظر نہیں آتا ہے تو ہم کیا کرتا ہے؟‘‘
’’ایڈوانس پارٹی کو راستہ کون بتائے گا؟‘‘
’’میر عالم اور شیر احمد ہے ناں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔انھیں بھیج دو۔‘‘  عرفان نے اجازت دی۔
’’آپ لوگ میں سے کون ساتھ جائے گا؟‘
’’ہم؟ہم کیا کریں گے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ان کا مدد کرے گا سر۔یہ بے چارہ دو آدمی سارا کام نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ہم بے چارہ چار آدمی آدھا کام بھی نہیں کر سکتا۔‘‘  میں نے مایوسی سے کہا۔
’’آپ اعتراض نہ کریں تو میں ان کے ساتھ چلا جاؤں ؟‘‘  بھٹہ صاحب نے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔
’’آپ؟آپ ان کا ساتھ دے سکتے ہیں ؟‘‘  میں حیران ہوا۔
’’میں ان سے پہلے وہاں پہنچوں گا،انشاء اللہ۔‘‘
’’میں بھی آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ ‘‘  عرفان نے اعلان کیا۔
’’ہرگز نہیں۔ آپ بھی چلے گئے تو ہم کس کے سہارے کیمپنگ سائٹ تک پہنچیں گے؟‘‘  میں نے احتجاج کیا۔
’’اللہ بڑا کار ساز ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
  بظاہر اُس نے میرے سوال کا جواب دیا تھا … لیکن بلوری آنکھوں میں امڈنے والی شرارت پکار رہی تھی کہ اصل مقصد کچھ اور ہے۔
’’کیا مطلب؟‘‘  میں نے وضاحت چاہی۔
’’وہ … ابھی چند منٹ پہلے مجھے شدت سے گھریلو ماحول یاد آ رہا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ میں اس غیر متوقع جواب پر چونک گیا۔
’’آپ کے الفاظ اور انداز سے مجھے محسوس ہوا کہ منے کی اماں منے کے ابا کو پردیس جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گھریلو ماحول کی اس سے بہتر جھلک اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’لا حول ولا … ‘‘  میں بری طرح جھینپ گیا۔
’’سبحان اللہ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے داڑھی کھجائی۔
عالم خان کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے بھٹہ صاحب،شیر احمد اور میر عالم پر مشتمل ایڈوانس پارٹی روانہ ہو گئی۔ میں نے جوگرز اتار کر پاؤں کا جائزہ لیا۔دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کے نیچے خون جمنے کی تصدیق ہو گئی۔ میں نے چپل پہن کر چلنے کا تجربہ کیا۔یہ تجربہ شدید اذیت ناک ثابت ہوا کیونکہ چپل کی سامنے والی پٹی ناخن سے ٹکراتی تھی اور چپل پہن کر اس انداز میں چلنا ممکن ہی نہیں تھا کہ انگوٹھوں پر زور نہ پڑے۔مجبوراً عالم خان کے جوگرز ایک مرتبہ پھر پاؤں پر ’’چڑھا‘‘  لیے۔ درد کی شدت کم کرنے کے لیے میں نے فلو جن کی ڈبل خوراک استعمال کی اور سفر جاری رکھنے کے لیے تیار ہو گیا۔
اس سفر کے دوران برداشت کی جانے والی درد کی ٹیسوں کی شدت بیان کرنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک ایک قدم اٹھانا دو بھر،معاف کیجئے گا،سو بھر محسوس ہو رہا تھا۔ کبھی کبھار اکھڑا ہوا ناخن کسی پتھر سے ٹھوکر کھاتا تھا تو … تو … تو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، میں نہایت اطمینان سے چلتا رہتا تھا۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں سفر نامہ بیان کر رہا ہوں اذیت نامہ تحریر نہیں کر رہا۔ طاہر اپنی تمام تر سست روی کے باوجود عرفان کی معیت میں ’’فارورڈ بلاک‘‘  بنا کر بہت آگے جا چکا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان ایک قسم کی آنکھ مچولی جا ری تھی۔طاہر اور عرفان آرام کرنے کے لیے کسی مقام پر تشریف فرما ہو کر میرے پہنچنے کا انتظار کرتے،میں ہانپتا کانپتا اُن تک پہنچتا اور وہ میری جھلک دیکھتے ہی آگے روانہ ہو جاتے۔ مجھے چار و ناچار ان کا ساتھ نبھانا پڑتا۔میری خواہش تھی کہ آرام کے وقفے ذرا طویل ہوں، عرفان چاہتا تھا کہ جلد از جلد طولی بری پہنچ جائیں۔ اس کھینچا تانی میں میرے رگ و پٹھے جواب دیتے جا رہے تھے۔ ایک مقام پر ہم تینوں اکٹھے ہوئے تو میں نے طویل اجتماعی آرام کی درخواست پیش کر دی۔ میرے لہجے میں اتنی بے چارگی، بے بسی اور لجاجت شامل تھی کہ خود مجھے ترس آ گیا۔ عرفان ایک روائتی پاکستانی راہنما ہے۔ عوام الناس پر ترس وغیرہ کھانا اُس کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
’’ڈاکٹر صاحب چلتے رہیں۔ مغرب سے پہلے طولی بری پہنچنا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’جان بوجھ کر آہستہ نہیں چل رہا۔ انگوٹھے کا ناخن اکھڑ نا شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے چلنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ میرے لہجے میں کسی حد تک جھلاہٹ تھی۔
’’ناخن پھر ناخن ہے اکھڑے گا تو جم جائے گا۔‘‘
’’بے شک جم جائے گا،جمنے سے پہلے کباڑا کر جائے گا۔‘‘
’’سر جی ناخن وغیرہ اترنا ٹریک کی سائڈ ڈش ہے۔ اس ٹیسٹ (Taste) کے بغیر ٹریکنگ کا نشہ پورا نہیں ہوتا۔‘‘
’’اس نشیلی ڈش میں درد کا تڑکا ناقابلِ  برداشت ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’انگوٹھا سلامت ہے ناں ؟ لنگڑے لولے بھی تو چلتے ہیں۔ ‘‘
میں ششدر رہ گیا۔بے شک لنگڑے لولے چلتے ہیں، لیکن وہ دئینتر پاس ٹریک کرنے کی حماقت نہیں فرماتے۔ ٹریکنگ شو پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا،دل کا شیشہ عرفان کے لٹھ مار تبصرے نے چکنا چور کر دیا:
عجب ٹریک پرستوں سے واسطہ تھا مرا
کہ پاؤں میں وہ مرا خونِ جگر نہ دیکھ سکے
 میں نے قدرے بوجھل دل کے ساتھ سفر جاری رکھا لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہا۔ فارورڈ بلاک نظروں سے غائب ہو گیا اور میرا دماغ شیطانی خیالات کی آماجگاہ بننے لگا۔
یہ آخر کس قسم کی ٹریکنگ ہے؟میں نے صرف یہی درخواست کی ہے ناں کہ دس پندرہ منٹ آرام کا وقفہ کر لیں۔ وہ بھی اس لیے کہ راستہ واضح نہیں ہے اور بھٹک جانے کے امکانات رد نہیں کیے جا سکتے۔یہ سب لوگ اگر کیمپنگ سائٹ پر پہنچ جاتے ہیں اور میں راستے سے بھٹک کر کسی اور جانب نکل جاتا ہوں، طولی بری نہیں پہنچتا، تو فارورڈ بلاک کیا کرے گا؟ لمبی تان کر سو جائے گا؟عرفان کو ٹریکنگ کے سارے اصول آتے ہیں، وہ اس بنیادی اصول سے ناواقف کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹریکنگ انفرادیت کا نہیں اجتماعیت کا درس دیتی ہے۔ ایک مرتبہ اُس نے ٹیم ورک پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ٹیم ایک اکائی کی مانند ہوتی ہے۔یہ کیسی اکائی ہے جس کا ایک سرا پاؤں گھسیٹ رہا ہے،دوسرا خود کو میراتھن میں شامل سمجھ رہا ہے۔ بیشک کوہ نورد پہاڑی راستوں پر تنہا ہوتا ہے،لیکن مسائل میں مبتلا کسی اجنبی ٹریکر کی ہر ممکن مدد کرتا ہے خواہ اس کی اپنی منزل کھوٹی ہو رہی ہو … وغیرہ وغیرہ … مزید وغیرہ
غم و غصے سے بھرپور خیالات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میں نے درد کی شدت سے بے نیاز ہو کر ایک قسط میں کافی فاصلہ طے کر لیا۔
  افسوس، صد افسوس …  جوں جوں بلندی کم ہوتی گئی جوشِ رفتار عرقِ ندامت میں  ڈھلتا گیا، اپنے فاسد خیالات پر شرمندگی کا احساس ہونے لگا،جذبات کے ریلے میں بہہ کر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے پٹھوں نے اپنی اوقات میں آ کر حرکت جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور میں ایک بڑے پتھر پر لم لیٹ ہو کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ورنہ  …  ورنہ  …  آپ کو یقین کیوں نہیں آتا کہ میں طولی بری کیمپنگ سائٹ پیچھے چھوڑ کر تالنگ پہنچ جاتا، فارورڈ بلاک اپنا سا منہ لے کے رہ جاتا۔
سورج دھیرے دھیرے بلندیوں کی اوٹ میں روپوش ہوتا جا رہا تھا اور چمکیلی سبز پوش پہاڑیاں گہرے مٹیالے رنگ میں رنگتی جا رہی تھیں۔ اس رومان پرور ماحول کا پُر کیف سناٹا نشہ بن کر رگ و پے میں اترنے لگا اور میں مدہوش ہو گیا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد عالم خان نے بازو ہلا کر مجھے بیدار کرنے کی کوشش کی:
’’ڈاکٹر صاحب چلتا ہے یا رات ادھر ٹھہرتا ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب بالکل نہیں چلتا،ادھر ٹھہرے گا۔تم میرا سلیپنگ بیگ یہیں لے آؤ۔‘‘  میں نے غنودگی سے بھرپور لہجے میں فرمائش کی۔
’’ٹھیک ہو گیا سر۔سانپ کاٹنے والا ٹیکہ تو ہو گا ناں آپ کے پاس؟‘‘
’’سانپ؟اوئے سانپ کا یہاں کا کام؟‘‘  میں نہایت پھرتی سے اٹھ بیٹھا۔
’’سانپ کا کام جھاڑی میں نہیں ہو تا ہے تو کدھر ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ … سانپ … خطرناک  … میرا مطلب ہے اس علاقے کا سانپ زہریلا تو نہیں ہوتا ؟‘‘  رُک سیک آٹومیٹک انداز میں میرے کاندھے پر سوار ہو گیا۔
’’زیادہ زہری نہیں ہوتا ناں۔ پانچ سات زو کو ڈس لے تو دو تین بچ جاتا ہے۔‘‘
’’اور تین چار؟‘‘
’’وہ مر جاتا ہے ناں۔ ‘‘
’’عالم خاں۔ ‘‘ میں نے شاہانہ لہجہ اختیار کیا۔
’’جی سر۔‘‘
’’سر نہیں، شہنشاہ گیتی پناہ کہو گستاخ گائیڈ  … اور بقائمی ہوش و حواس گوش نشین کر لو کہ مابدولت بہت آزردہ خاطر ہوئے۔طاہر جیسے بندگانِ سست رفتار نے منزل کو جالیا  …  ہم محو نالہ دردِ بے سُرا رہے۔کیوں نہ تمھیں زندانِ تیرہ شب کا دائمی اسیر بنا دیا جائے؟‘‘
’’آپ ٹھیک تو ہے ناں سر؟پتا نہیں کیا بول رہا ہے۔‘‘  عالم خان پریشان ہو گیا۔
’’میں کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب چلتا نہیں دوڑتا ہے۔تم چلتے کیوں نہیں ؟‘‘
عالم خان ہنسنے لگا۔
’’سچ بولتا ہوں سر آپ نے ہمارا دماغ گھما دیا ہے۔‘‘
’’کیوں گھما دیا ہے؟‘‘
’’صبح کے ٹائم آپ نے طبعیت خوش کر دیا تھا۔ ہمارا خیال تھا آپ چڑھائی پر اتنا اچھا چلتا ہے تو اترتے وقت سب کو پیچھے چھوڑے گا۔مگر آپ تو بالکل ڈھے گیا ہے۔ آپ کی وجہ سے سب لوگ پریشان ہوتا ہے۔‘‘
’’تمھیں اندازہ ہے کہ پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن اکھڑ جائے تو کتنا درد ہوتا ہے؟‘‘
’’ہم کو اندازہ نہیں ہے، مگر آپ کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ راستے میں رات پڑتا ہے تو کتنا بڑا مصیبت پڑتا ہے۔اس لیے تھوڑا ہمت کرو۔‘‘
میں نے ہمت کرنا شروع کی لیکن بہت زیادہ ڈھلواں اترائی پر چیخیں نکلتی رہیں۔ عالم خان مجھے تیز چلانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ایک مقام پر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر سہارا دینے بلکہ کھینچنے کی کوشش کی۔اس کا خیال تھا کہ میں خوف کی وجہ سے اترتے ہوئے جھجک رہا ہوں۔ میں نے اس کھینچا تانی کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس نے لاتعلقی سے گردن جھٹکی اور آگے روانہ ہو گیا۔
قافلہ منزل پہ پہنچا اور سارے ہم سفر
مثلِ گردِ کارواں اک میں بچھڑ کے رہ گیا
مجھے اب اترائی کا اختتام، اس اختتام پر بہنے والے پہاڑی نالے کے کنارے موجود  دیو قامت پتھر اور نالے کے ساتھ ساتھ کیمپنگ سائٹ تک جانے والی پگڈنڈی نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ابھی بہت راستہ باقی تھا لیکن بھٹکنے کے امکانات ختم ہونے کے ساتھ ہی ایک نئی ترنگ نے اپنا رنگ جمایا اور میں عالم خان کا ’’غدارانہ‘‘  فرار نظر انداز کر کے ارد گرد کے مناظر پر توجہ دینے لگا۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ سورج میری لا علمی میں غروب ہو گیا اور میں ’’غیر صحتمندانہ‘‘  سر گرمیوں میں الجھ کر اس خوبصورت منظر کی دلکشی سے محروم رہ گیا۔
اترائی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے رات کے ساڑھے نو بج گئے۔چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے کا راج تھا۔پہاڑی نالے کا شورِ قیامت تھا۔ دیو قامت پتھر تھے۔ پگڈنڈی نظر نہیں آ رہی تھی۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ پٹھوں نے مزید ہلنے جلنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔میرا خیال تھا کہ نیچے پہنچوں گا تو  کیمپ میں روشن ہونے والی آگ نظر آ جائے گی اور کیمپ تک پہنچنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ کیمپ شاید کسی بلندی کی اوٹ میں تھا اس لیے وہاں ہونے والی روشنی نظروں سے اوجھل تھی۔مجھے یہ اطمینان ضرور تھا کہ کیمپ کہیں آس پاس ہی ہے اور اترائی ختم ہو چکی ہے۔میں نے رک سیک نیچے پٹخا اور نالے کے کنارے بیٹھ کر تھکے ہوئے جانور کی طرح پیاس بجھانے لگا۔
پانی پینے سے جان میں جان آئی۔
 ایک روشنی مجھے اپنی جانب آتی نظر آئی تو مزید جان میں جان آئی۔یہ روشنی ایک ٹارچ سے پھوٹ رہی تھی اور ٹارچ کے دوسرے سرے پر میر عالم تھا۔
’’پہنچ گیا صاب؟کیا حال مال اے؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔کیمپ کہاں ہے؟‘‘  میں کم سے کم الفاظ استعمال کرنا چاہتا تھا۔
’’اب تو پہنچ گیا ناں۔ بس پندرہ بیس منٹ اور چلے گا۔‘‘
’’پندرہ بیس منٹ؟‘‘
 میر عالم کے پندرہ بیس منٹ میرے ایک گھنٹے سے زیادہ طویل ہو سکتے تھے۔
’’اب کیا فکر کرتا اے صاب۔بیس منٹ ایک سیکنڈ میں گزر جاتا اے۔‘‘
میں نے رک سیک اٹھانے کی کوشش کی لیکن میر عالم نے مجھے اس زحمت سے بچا لیا۔ رک سیک سے نجات حاصل کرنے کے باوجود میری چال ڈھال سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ میں عالم خان کے بقول پوری طرح ’’ڈھے‘‘  چکا ہوں اور قدم اٹھانے میں شدید دشواری ہو رہی ہے۔ میر عالم نے آفر کی:
 ’’سر چلا نہیں جا تا تو گدھا  لائے آپ کے لیے؟‘‘
’’گدھا کہاں سے آئے گا؟‘‘
 ’’ کیمپ کے پاس بستی ہوتا اے ناں۔ اُدر ام نے کئی گدھا دیکھا اے۔‘‘
 ’’وہ میرے ساتھی ہوں گے۔‘‘
’’نئی صاب وہ گدھا اے۔‘‘  اس نے یقین دلایا۔
’’میرا خیال ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں طولی بری پہنچتے ہی اپنے ساتھیوں کو بتا دوں گا کہ تم انھیں گدھا سمجھ رہے تھے۔‘‘
’’ابی خدا کا خوف کرو صاب۔ام ایسا بات کیوں بولے گا؟ام آپ کو یہ بتاتا اے کہ اُدر علاقے کا لوگ موجود اے۔ان کے ساتھ گدھا بی اے۔آپ بولتا اے تو ام گدھا لاتا اے۔ مگر آپ کدر پہنچ کر عرفان صاب کو بتانے کی بات کرتا اے؟‘‘
’’طولی بری؟‘‘  میں اس کے سوال پر حیران ہوا۔
’’یہ کدر ہوتا اے؟‘‘
’’جہاں ہم جا رہے ہیں۔ اس ٹریک کی آخری کیمپ سائٹ۔‘‘
’’ام تھولائی بر جاتا اے۔طولی بری وری نئی جاتا۔‘‘
’’کتابوں میں طولی بری لکھا ہے۔‘‘
’’ٹیک نئی لکھا ناں۔ ‘‘  اُس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔’’اب بولو گدھا لاتا اے کہ نئی لاتا۔‘‘
’’گدھا لانے اور لے جانے میں جتنا وقت لگے گا اتنی دیر میں طولی بری یا تھولائی بر پہنچ نہیں جائیں گے؟‘‘
’’آپ چلتا اے تو بڑے آرام سے پہنچتا اے۔‘‘
تھولائی بر پہنچ کر تصدیق ہو گئی کہToliberiیاTolyberi جیسے مرضی لکھا جاتا ہو، اس کا مقامی تلفظ تھولائی بر ہے۔ انٹرنیٹ سائٹس یا انگریزی میں لکھی ہوئی گائیڈ بکس سے حاصل کی گئی معلومات میں درست تلفظ کا پتا نہیں چلتا۔آپ کے ساتھ اگر گائیڈ نہیں ہے اور راستہ بھٹک گئے ہیں تو طولی بری طولی بری کرتے ہلکان ہو جائیں گے،کوئی شریف آدمی آپ کو تھولائی بر کا راستہ  بتانے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکے گا۔
میں دس بجے کے لگ بھگ پاؤں میں چھالے لب پر نالے لیے ہوئے کیمپ سائٹ میں داخل ہوا:
پہنچا تھولائی بر میں جو میں اک سفر کے بعد
تو حال میرا دشت کے مجنوں سے کم نہ تھا
دشت کا مجنوں تھکا ہوا ضرور تھا لیکن کامیابی کے نشے سے مخمور تھا۔آج کا دن میری ٹریکنگ لائف کا سخت ترین دن تھا،لیکن یہ ایک یادگار دن بھی تھا۔ آج طاری ہونے والی تھکاوٹ کی شدت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں، محسوس ہوتا تھا کہ جسم کی ساری توانائی نچوڑ لی گئی ہے۔آج کے سفر کے دوران قدم قدم پر نصیب ہونے والی شادمانی اور سرشاری کو بھی الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں، لگتا تھا فطرت نے اپنی تمام لطافتیں چن چن کر میرے ڈگمگاتے قدموں تلے بچھا دی ہیں۔ دئینتر پاس تیرا شکریہ … میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔
عالم خان نے پاس عبور کرنے کی خوشی میں چکن کڑاہی کے کئی ڈبے توڑ ڈالے تھے اور انھیں مزید فرائی کرنے کے لیے بہک والوں سے تازہ مکھن اور دہی خریدا گیا تھا۔ کھانے کے بعد کیمپ فائر کا پروگرام تھا لیکن میں کسی قسم کی سرگرمی میں حصہ لینے کے قابل نہیں تھا،اس لیے درد کش دواؤں کی ڈبل خوراک لینے اور اکھڑے ہوئے ناخن پر سنی پلاسٹ لگانے کے بعد پیشگی نصب کیے گئے خیمے میں میٹریس بچھا کر چاروں شانے چت ہو گیا۔
سونے سے پہلے مجھے ایڈوانس پارٹی کی خدمات کا احساس ہوا۔میں طولی بری پہنچتا اور اُس کے بعد خیمے لگانے اور کھانا پکانے کے انتظامات شروع ہوتے تو؟ بھٹہ صاحب کے’’ذوقِ ایڈوانسیت‘‘  کو ڈھیروں سلام۔
٭٭٭




بیوی بچے پاس رکھ ’’فادر  مدر‘‘  کی خیر ہے


Study nature, love nature, stay close to nature. It will never fail you
Frank Lloyd Wright

فطرت کا مطالعہ کیجئے،اس سے محبت کیجئے، اس کی قربت حاصل کیجئے۔ یہ آپ کو ناکام نہیں ہونے دے گی۔
فرانک لائڈ رائٹ

صبح سویرے آنکھ کھلی تو نیند کا خمار اور بدن میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار باقی تھے۔جوں ہی خیمے سے باہر آیا،طبیعت باغ باغ ہو گئی۔
جھیل سیف الملوک والی ملکہ پربت تھولائی بر میں کہاں سے آ گئی؟
تھولائی برکی خیمہ گاہ اور اس پر سایہ فگن برف پوش چوٹیوں کی ’’پیالہ نمائی‘‘  ملکہ پربت اور اس کے دربار سے اس حد تک مشابہ ہیں کہ آنکھیں دھوکا کھا جاتی ہیں۔ کیمپنگ سائٹ برف پوش چوٹیوں سے گھری ہوئی تھی اور ’’پائیں باغ‘‘  کے سبزہ زار کو نیلگوں پانیوں کے کئی دھارے قطع کرتے تھے۔ یہ چھوٹا سا لینڈ سکیپ اپنی بناوٹ کے لحاظ سے انتہائی منفرد تھا۔ چٹانی حجم کے بے شمار پتھروں سے ترتیب پانے والے در و دیوار سے سبزہ اگ رہا تھا۔ ارد گرد سے اترنے والے گلیشئرز اور ان سے پھوٹنے والے جھرنے اور آبشار در و دیوار کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔ فضائیں پرندوں کی چہچہاہٹ سے معمور تھیں لیکن پرندے نظر نہیں آرہے تھے، ان کی جولان گاہ دور دور تک پھیلے ہوئے صنوبر اور جونیپر کے بلند و بالا جھرمٹوں میں چھپی ہوئی تھی۔تھولائی بر دئینتر پاس ٹریک کا بہترین منظر نہ سہی، بہترین ماحول ضرور تھا۔
 میری وارفتگی اس وقت ختم ہوئی جب بھٹہ صاحب کیمپنگ سائٹ کے نزدیک سے گزرنے والے نالے کے صاف و شفاف پانی سے ٹائلٹ بوتل بھرتے نظر آئے۔ تھولائی بر کی صبح کے رومان پرور ماحول میں اتنی غیر رومانی ترمیم مجھے پسند نہیں آئی،رشک ضرور آیا کہ اتنا گل و گلزار ’’فراغت خانہ‘‘  اس جہانِ رنگ و بو کے کتنے باسیوں کو نصیب ہوتا ہے؟
میر عالم اور شیر احمد نے خیمے سمیٹنے شروع کر دیے۔ عالم خان ناشتا بنانے کی تیاری کر نے لگا۔ بستی کی جانب سے ایک مقامی شخص مٹی کی ہانڈی ہاتھ میں لٹکائے ہمارے کیمپ کے کچن کی طرف آتا نظر آیا،یہ غالباً تازہ دودھ کی سپلائی تھی۔
 میں نے ایک پتھر پر بیٹھ کر طلوعِ آفتاب کے دلکش منظر کا نظارہ کیا۔ یخ بستہ پانی سے برش کیا … شیو کی …  اور ڈرائی کلین ہونے کے بعد ’’کچن‘‘  کا رخ کیا جہاں عالم خان انڈے ابالنے کے ساتھ ساتھ مقامی شخص سے گپ شپ میں مصروف تھا۔
’’تم نے لیڈی کو گود میں اٹھایا ؟‘‘ عالم خان مقامی شخص کا انٹرویو لے رہا تھا۔
’’جی آ‘‘  مقامی شخص نے والہانہ انداز میں جواب دیا۔
’’کیسی تھی؟‘‘ عالم خان نے رازدارانہ انداز میں پوچھا۔
’’بہت اچھا تھا۔اس کا سارا چیز بہت اچھا تھا۔جی آ۔‘‘
’’سارا چیز؟ اس کا سارا چیز نظر آتا تھا؟‘‘
’’جی آ۔اس کا پینٹ غلط جگہ سے پھٹتا تھا۔شرٹ بی غلط جگہ سے پھٹتا تھا۔ پھر سارا چیز نظر آتا تھا کہ نئی آتا تھا؟جی آ۔ام اللہ کے ڈر سے اپنا ایک آنکھ بند کرتا تھا، مگر دوسرا کھل جاتا تھا۔ اللہ ام کو ماف کرے گا۔جی آ۔‘‘
’’نہیں کرے گا۔تم نے اسے گود میں اٹھایا تھا تو چھیڑ چھاڑ بھی کیا ہو گا۔ زنانہ لوگ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو اللہ معاف نہیں کرتا۔‘‘
’’وہ خود امارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔جی آ۔ اپنا دونوں بازو ہمارا گردن میں ڈالتا تھا۔ اللہ اس کو پکڑے گا۔ام کو کیوں پکڑے گا؟ جی آ۔‘‘
’’اوئے یہ کیا پھڈے بازی ہے؟اتنے فحش انداز میں کس لیڈی کا ذکر ہو رہا ہے۔‘‘  میں نے دخل اندازی کی۔
’’لیڈی کا ذکر تو فوش انداز میں ہو گا سر۔ پاک صاف انداز میں کیسے ہو گا؟‘‘
’’یار عالم خان تم گلگت سے یہاں تک جتنا فلسفہ بگھار چکے ہو اس کی بنیاد پر کوئی بھی یونیورسٹی تمھیں فلسفے میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری دے سکتی ہے۔تم ہر ٹریکر کے ساتھ اتنے ہی فلسفیانہ انداز میں گفتگو کرتے ہو؟‘‘
’’ہر کلائنٹ بات کدھر سنتا ہے سر؟۔آپ ناراض نہیں ہوتا تو آپ کے ساتھ تھوڑا گپ شپ کر لیتا ہے۔ابھی آپ ناراض ہوتا ہے توہم خاموش ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ کس لڑکی کا تذکرہ ہے؟‘‘
’’آپ کے مطلب کا کہانی ہے سر۔یہ بولتا ہے دو سال پہلے ادھر ایک گورا جوڑا آیا تھا۔ اُن لوگوں نے دئینتر کراس کیا تھا اور بہت برے حال احوال میں ادھر پہنچا تھا۔‘‘
’’اس میں میرے مطلب کی کیا بات ہے؟‘‘
’’ہم آپ کو بولتا تھا کہ ہم نے بڑی محنت سے آپ کے لیے راستہ بنایا ہے تو آپ ہمارا مذاق اڑاتا تھا۔ یہ بتاتا ہے کہ گورا جوڑا گائیڈ کے بغیر ادھر آ کر بہت خوار ہوا تھا۔ وہ لوگ راستہ بھول گیا تھا اور پانچ دن میں بیس کیمپ سے تھولائی بر پہنچا تھا۔ اس نے ان کا مدد کیا تھا۔‘‘
’’لڑکی کو گود میں اٹھا کے؟‘‘
’’جی آ۔‘‘  عالم خان کے بجائے مقامی شخص نے جواب دیا۔
’’اُس کے ساتھی نے کیوں نہیں اٹھایا؟‘‘  میں نے سوال کیا۔
 ’’ساتھی میں خود کھڑا ہونے کا بی ہمت نئی ہوتا اے۔ جی آ۔ وہ ادر ای پڑا رہتا اے۔ام پہلے لیڈی صائبہ کو بہک میں لٹا کر آتا اے،پھر اس کے ساتھی کو لے جاتا اے۔ ان کو گرم گرم دودھ مودھ پلاتا اے تو وہ اٹھ کے بیٹھتا اے۔جی آ۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب کل بھی عرض کی گئی تھی کہ صبح کا آغاز اللہ تعالیٰ کے با برکت نام سے کرنا چاہیے۔آپ پھر نا معقولات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے دخل اندازی کی۔
’’یہ نا ما قو لات نئی اے۔بالکل سچا بات اے۔جی آ۔‘‘  مقامی شخص برا مان گیا۔
’’تمھیں ان کی زبان آتی تھی؟‘‘
’’کدر آتا تھا؟وہ فرانس کا لوگ تھا۔اُدر کا زبان بولتا تھا۔جی آ۔‘‘
’’پھر تمہیں کیسے پتا چلا کہ وہ دئینتر پاس کراس کر کے آئے ہیں اور پانچ دن میں یہاں  پہنچے ہیں۔ ‘‘  میں نے اعتراض کیا۔
’’ام کو پتا چل گیا۔ وہ پتا نئی کیا کیا بولتا تھا،ام کو دئینتر اور گلگت سمجھ آتا تھا۔ ام ان کو تالنگ لے گیا۔ادر جیپ آیا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے ان کا بات سنا اور ام کو بتایا۔جی آ۔‘‘
ناشتہ تیار ہو گیا تو عالم خان نے کارن فلیکس اور دلیے کا آمیزہ ہانڈی میں ڈال کر مقامی شخص کے حوالے کیا۔اُس نے بتایا کہ دودھ تحفتاً پیش کیا گیا تھا اور مقامی رسم و رواج کے مطابق تحفہ دینے والے شخص کو خالی ہاتھ لوٹانا اُس کی توہین کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مقامی شخص ہانڈی ہاتھ میں لٹکائے خوشی خوشی واپس چلا گیا … جی آ۔
ناشتے کے بعد تالنگ تک سفر کا مرحلہ درپیش تھا اور مجھے پسینے آرہے تھے۔میں چلنے سے زیادہ عالم خان کے جوگرز سے خوف زدہ تھا جو مجھے بہت زیادہ تنگ تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جوگرز کے بجائے اپنے چپل استعمال کروں گا۔یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب راستہ نہ تو بہت زیادہ طویل ہو اور نہ اس میں بے تکے اتار چڑھاؤ ہوں۔
’’عالم خان تالنگ یہاں سے کتنا دور ہے اور راستہ کیسا ہے؟میرا مطلب ہے اترائی چڑھائی کتنی ہے؟‘‘
’’سر بالکل صاف اور سیدھا رستہ ہے۔آپ سمجھ لو مارننگ واک کے لیے نکلتا ہے اور آدھا گھنٹہ میں تالنگ پہنچتا ہے۔‘‘
تھولائی بر سے نکلتے ہی ایک ایسے پہاڑی نالے سے واسطہ پڑا جس نے مارننگ واک کا تصور درہم برہم کر دیا۔عرفان کی معلومات کے مطابق اس نالے پر گلیشئر کا پل ہونا چاہیے تھا۔پل موجود تھا،لیکن برف پگھلنے کی وجہ سے اس کی پسلیاں نظر آ رہی تھیں اور بظاہر وہ ہمارا وزن برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ عرفان گلیشئر سے تھوڑا اوپر جا کر نالا عبور کرنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں اُس جگہ نالے کا پاٹ کافی وسیع تھا اور گہرائی کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے تجویز پیش کی کہ تھوڑا نہیں،  بہت زیادہ اوپر جا کر اُس مقام سے نالا عبور کیا جائے جہاں اس کا پاٹ نسبتاً تنگ ہو اور تہہ کے پتھر نظر آ رہے ہوں۔
’’ایسا مقام نہ مل سکا تو؟‘‘  عرفان نے اعتراض کیا۔
’’تو … تو … پتا نہیں کیا تو۔میرا مطلب ہے آپ لیڈر ہیں، آپ خود فیصلہ کریں کہ ایسا مقام نہ ملا تو کیا کریں گے۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ ڈرتا ہے سر۔تالنگ کا سارا لوگ یہ پل کراس کرتا ہے۔ ہم پہلے گزرتا ہے ناں۔ پھر آپ لوگ نہیں ڈرے گا۔‘‘  عالم خان نے حوصلہ دیا۔
’’تم؟تمھارا وزن ہی کتنا ہے؟‘‘
اس بحث کے دوران تالنگ کی جانب سے ایک گدھا آیا اور بغیر سوچے سمجھے پل عبور کر کے تھولائی بر کی طرف روانہ ہو گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ بے فکر ہو کر بسم اللہ کریں۔ یہ پل ایک گدھے کا وزن با آسانی برداشت کر سکتا ہے۔‘‘  طاہر نے فرمایا۔
’’پہلے آپ۔‘‘  میں نے احتراماً جھک کر کہا۔
’’ناں جی ناں۔ اسے پہلے نہ بھیجیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے سہمے ہوئے لہجے میں التجا کی۔
’’کیوں ؟اس میں سرخاب کے پر لگے ہیں ؟‘‘  میں نے تنک کر پوچھا۔
’’پتا نہیں یہ پل دو گدھوں کا وزن برداشت کر سکتا ہے یا نہیں ؟‘‘  بھٹہ صاحب نے نہایت معصوم لہجے میں تشویش کا اظہار کیا۔
طاہر نے خونخوار نظروں سے بھٹہ صاحب کو گھورا،اور بغیر سوچے سمجھے پل عبور کر لیا۔
’’عالم خان یہ نالا کہاں سے آ رہا ہے؟‘‘ پل عبور کرنے کے بعد میں نے سوال کیا۔
’’اوپر سے آتا ہے ناں۔ ‘‘
’’اوپر سے کہاں سے؟اُس جگہ کا کوئی نام تو ہو گا۔‘‘
’’یہ تو سر ابھی تک کسی کو بھی پتا نہیں چل سکا۔ادھر کا لوگ بولتا ہے جو اس نالے کا سورس (source) دیکھنے اوپر جاتا ہے اسے دیو لوگ اٹھا کر لے جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پورا گورا ٹیم غائب ہو گیا تھا ناں۔ ‘‘
’’ٹیم غائب ہو گئی تھی؟‘‘
’’ہاں ناں۔ وہ کئی لوگ تھا۔ دئینتر نالے کے ساتھ ساتھ سفر کرتا تھا اور بولتا تھا کہ وہ اس کا سورس معلوم کرنے آیا ہے،بس پھر وہ غائب ہو گیا۔‘‘
’’غائب نہیں ہوئے ہوں گے۔ منبع دیکھنے کے بعد کوئی پہاڑی درہ عبور کر کے کسی اور وادی میں اتر گئے ہوں گے۔‘‘
’’ادھر ایسا نہیں ہوتا سر۔وہ کہیں بھی اترتا مقامی لوگ خبردار ہو جاتا۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے انھیں جن بھوتوں نے غائب کر دیا؟‘‘
’’دیو لوگ نے ناں۔ ‘‘
’’اُس ٹیم میں لڑکیاں شامل تھیں ؟‘‘
’’لڑکی کوئی نہیں تھا۔‘‘
’’پھر دیو لوگ نے ان کا کیا کیا ہو گا؟‘‘
’’سر اُدھر پری بھی تو ہوتا ہے ناں، وہ لوگ پریوں کے کام آیا ہو گا۔ ویسے سر ادھر کا لوگ بتاتا ہے کہ گورا لڑکا بہت خوبصورت تھا۔دیو لوگ کو پسند آ سکتا تھا۔‘‘
’’دیو لوگ میں بھی پٹھان لوگ ہوتا ہے؟‘‘
’’ضرور ہوتا ہو گا سر۔پٹھان لوگ کدھر نہیں ہوتا؟ہماری طرف کا لوگ بولتا ہے کہ آلو، پٹھان اور گورا دنیا میں ہر جگہ ملتا ہے۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘  میں اس کہاوت سے محظوظ ہوا۔
اُس وقت مجھے یہ داستان سو فیصد من گھڑت اور افسانوی لگی،بعد میں علم ہوا کہ برطانوی مہم جو سر جارج کاکرل اور سر فرانسس ینگ ہسبینڈ اس کہانی کے حقیقی کردار تھے۔ یہ دونوں حضرات بیسویں صدی کے آغاز میں دئینتر نالے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک دشوار گزار درہ عبور کر کے وادیِ  اشکومن میں داخل ہو گئے تھے۔ مقامی لوگ یہی سمجھتے رہے کہ انھیں جن بھوتوں نے غائب کر دیا ہے اور ان کی مہم ایک ’’دیو پرور‘‘ داستان بن گئی۔
’’سر آپ کے پاؤں کا کیا حال ہے؟‘‘  عالم خان نے میری خیریت دریافت کی۔
’’چپل کا کنارہ ناخن سے نہ ٹکرائے تو بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہم بہت شرمندہ ہوتا ہے سر۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’آپ کا پاؤں ہمارے جوگر نے خراب کیا ہے ناں۔ آپ درد کی وجہ سے رکتا ہے تو ہم خود بخود شرمندہ ہوتا ہے۔‘‘
’’تمہارے جوگرز نہ ہوتے تومیں تھولائی بر کیسے پہنچتا؟‘‘
’’کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتا۔ہمارا جوگر پر الزام نہ آتا۔‘‘
’’شاید پہنچ جاتا،لیکن بات صرف انگوٹھے کے ناخن پر نہ ٹلتی۔ میرے دونوں پاؤں بری طرح زخمی ہو جاتے۔میں تمہارا ہی نہیں، تمہارے جوگرز کا بھی شکر گزار ہوں، اس لیے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
’’اچھا؟پھر تو ذرا جلدی جلدی قدم اٹھاؤ سر جی۔اس رفتار سے چلتا ہے تو مغرب کے بعد تالنگ پہنچتا ہے۔‘‘
’’تم کہہ رہے تھے کہ تالنگ مارننگ واک کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے گلگت صرف  دو گھنٹے کا سفر ہے۔ پھر اتنی افراتفری مچانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’تالنگ سے اگر جیپ نہیں ملتا ہے تو کیا کرے گا؟‘‘
 ’’کیا مطلب؟جیپ کیوں نہیں ملے گی؟‘‘ میں چلتے چلتے رک گیا۔
’’سر ادھر باقاعدہ جیپ سروس نہیں ہے ناں۔ آلو اٹھانے والا لوڈر جیپ آتا ہے۔ آج پتا نہیں آتا ہے یا نہیں آتا،اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح صبح آیا ہو اور آلو اٹھا کر چلا گیا ہو۔‘‘
’’جیپ نہ ملنے کی صورت میں کیا ہو گا؟‘‘ میں نے گھبرا کر سوال کیا۔
 ’’برداس تک ٹریک کرنا پڑتا ہے ناں۔ ‘‘ اُس نے سادگی سے انکشاف کیا۔
 ’’برداس کیا بلا ہے؟‘‘
’’گاؤں ہے ناں۔ اُدھر دئینتر نالا اور گرم سائی نالا ملتا ہے۔گلگت سے برداس تک جیپ اور ہائی ایس چلتا ہے۔‘‘
’’میری معلومات کے مطابق اس گاؤں کا نام تربتوداس ہونا چاہیے جہاں گرم سائی نالا دئینتر نالے سے ملتا ہے اور جہاں پبلک ٹرانسپورٹ مل سکتی ہے۔‘‘
’’آپ لوگ پتا نہیں کیسا کیسا الٹ پلٹ کتاب پڑھتا ہے۔ اس علاقے کا سارا لوگ برداس بولتا ہے تو وہ تربتوداس کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’پتا نہیں کتاب الٹا پلٹا ہے یا تم لوگوں کا زبان الٹا پلٹا ہے۔ سب جگہوں کے نام بگاڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ تربتوداس ہو یا برداس،تالنگ سے کتنا دور ہے؟‘‘
 ’’تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے۔‘‘
’’تمہارے دو گھنٹے کا مطلب ہے میرے تین گھنٹے۔‘‘
’’اس طرح چلتا ہے تو پانچ گھنٹے۔‘‘
’’عالم خان۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’تم مجھے اپنی کمر پر لاد کر تربتوداس لے جا سکتے ہو؟‘‘
’’ہم گھوڑا نہیں ہے۔‘‘ اُس نے بدک کر کہا۔
’’ویری سیڈ‘‘  میں نے افسوس کا اظہار کیا۔
’’سر آپ فکر نہ کریں۔ تالنگ میں جیپ وافر نہیں ملتا مگر گدھا بہت وافر ملتا ہے۔ آپ مزے سے ٹخ ٹخ کرتا ہوا برداس پہنچے گا۔‘‘
’’میں ٹخ ٹخ کرتا ہوا برداس نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’پھر کیسے جائے گا؟‘‘  اس نے سادگی سے پوچھا۔
 ’’جیسے اب جا رہا ہوں۔ ‘‘
 ’’ایسے تو آپ آدھی رات کو برداس پہنچے گا۔‘‘
 ’’میں گدھے پر بیٹھ گیا تو پوری رات تک بھی برداس نہیں پہنچ سکوں گا۔‘‘
 ’’کیوں سر؟‘‘
’’طاہر ایک ایک قدم کی مووی بنائے گا،عرفان تصاویر بنائے گا، بھٹہ صاحب براہِ راست تبصرہ نشر کریں گے۔ اس فلم کا عنوان ہو گا ’’ڈاکٹر صاحب ٹخ ٹخ کرتے ہوئے‘‘  اور یہ شرمناک فلم یو ٹیوب (youtube)پر ریلیز کر دی جائے گی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت ڈاکٹر صاحب کو ’’تھلے لگانے‘‘  کے کام آئے۔‘‘
 ’’یہ شرمناک نہیں، یادگار فلم ہو گا سر۔‘‘  عالم خان اس منظر کشی سے بہت خوش ہوا۔
’’میں اس یادگار فلم کا ہیرو نہیں بننا چاہتا۔‘‘
’’ہیرو تو گدھا بنے گا سر۔‘‘  عالم خان نے معصومیت سے بتایا۔
میں یہ معلومات عرفان کے گوش گزار کرنا چاہتا تھا۔لیکن وہ کافی آگے نکل چکا تھا اور میں مزید تیزی نہیں دکھا سکتا تھا۔ میں نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا پیشگی پریشانی سے فائدہ؟
تھولائی بر سے تالنگ تک راستہ واقعی بہت آسان اور خوبصورت ہے۔ دونوں جانب دیودار، بھوج پتر،چیڑ، صنوبر اور جونیپر کے گھنے جنگلات میں چھپی ہوئی ڈھلانیں جہانِ  فطرت کے بہشت زاروں سے اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ بائیں جانب کی سرمئی بلندیوں پر بکھرے ہوئے سفید برف کے تودے نگار خانۂ فطرت میں سجائے گئے اوراقِ  مصوَّر کی مانند نظر آتے تھے۔ ان تضادات کے درمیان بہتے ہوئے دئینتر نالے کے جھاگ اڑاتے پانی روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی موسیقی کی تانیں اڑاتے تھے۔ یہ ایک روایتی پہاڑی منظر تھا، لیکن فطرت کی معجزہ ساز کاری گری یکساں مناظر میں ایسی انفرادیت بھر دیتی ہے کہ ہر قدم نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے۔ اس سفر کے دوران تالنگ کا پولو گراؤنڈ ہر وقت نظروں کے سامنے رہتا ہے اور مسلسل یقین دلاتا رہتا ہے کہ تالنگ بس آیا ہی چاہتا ہے،لیکن آدھے گھنٹے کے فاصلے پر موجود تالنگ ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے نہیں آتا،اور آتا ہے تو نئی قیامت ڈھاتا ہے۔
تالنگ اَن گھڑے پتھروں اور نا تراشیدہ درختوں کے تنوں سے بنائے گئے ایک یا دو کمروں کے مکانات پر مشتمل روایتی پہاڑی گاؤں ہے۔ یہ گھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بنائے گئے ہیں اور آبادی وسیع علاقے میں بکھری ہوئی ہے۔گاؤں کی نمایاں خصوصیت ایک خوبصورت پولو گراؤنڈ ہے جہاں باقاعدہ ٹورنامنٹ منعقد ہوتا ہے جس میں ارد گرد کی بستیوں کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ گندم کی کٹائی کے بعد پولو گراؤنڈ میں ایک عظیم الشان جشن منایا جاتا ہے جس میں لوک رقص اور گدھا دوڑ کے مقابلے شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی پولو گراؤنڈ میں مقامی باشندوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ گدھوں پر سوار نوعمر لڑکے شہتوت کی خمیدہ شاخوں اور کپڑے کی گیند کی مدد سے ہاکی نما پولو کھیل رہے تھے۔
ہم نے میدان کے ایک گوشے میں ڈیرے ڈال دیے۔ مقامی حضرات نے ہماری آمد پر کوئی توجہ نہ دی اور گپ شپ میں مصروف رہے۔پولو میچ دیکھنے والے چند بچے البتہ ہمارے گرد جمع ہو گئے۔بھٹہ صاحب نے پاؤچ سے ٹافیاں نکالیں اور بچوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ یہ دیکھ کر پولو کھیلنے والے بچے بھی متوجہ ہو گئے۔بھٹہ صاحب نے ایک ’’بالغ نظر‘‘  برخوردار کو انٹرویو کے لیے منتخب کیا۔اُس کی خدمت میں ٹافی کے ساتھ چاکلیٹ بھی پیش کی گئی۔
’’بیٹا آپ کے گاؤں سے گلگت کے لیے جیپ مل جائے گی؟‘‘
’’آلو لینے آتا اے تو مل جاتا اے۔‘‘
’’آج نہیں آئی؟‘‘
’’کل آیا تھا۔اب مشکل آتا اے۔‘‘
’’اس وقت کسی جیپ کے آنے کا کوئی چانس نہیں ؟‘‘
 ’’قسمت کا بات اے۔ آپ کسی کو ٹیم دیتا اے تو وہ ضرور آتا اے۔‘‘
’’ہم نے کسی کو ٹائم نہیں دیا۔‘‘
’’پھر جیپ کا چانس مشکل اے۔‘‘
’’آلو اٹھانے والی جیپ کس وقت آتی ہے؟‘‘
’’سارا جیپ صبح کے ٹیم آتا اے۔کبی کبی تھوڑا لیٹ ہوتا اے۔ابی تھوڑا انتظار کر کے دیکھو۔آپ کا قسمت اچھا ہوتا اے تو جیپ آتا اے۔‘‘
’’ہماری معلومات کے مطابق تالنگ میں ہر وقت جیپ مل سکتی ہے۔‘‘
’’آپ کا مالومات بوت غلط ہوتا اے۔ادھر مشکل سے جیپ ملتا اے۔ آلو زیادہ ہوتا اے تو ڈریور لوگ سواری نئی بٹھاتا۔ بولتا اے جیپ کا بیلنس خراب ہوتا اے۔سارا ٹورسٹ لوگ اپنا جیپ لاتا اے۔ نئی لاتا تو برداس جاتا اے۔ اُدر سے کبی کبی گاڑی مل جاتا اے۔‘‘
’’وہاں سے بھی کبھی کبھی؟‘‘  بھٹہ صاحب گھبرا گئے۔
 ’’ہاں ناں۔ اُدر ہر ٹیم گاڑی کھڑا نئی ہوتا۔‘‘
 ’’وہاں گاڑی نہ ملے تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘
’’پھر چھلت جاتا اے۔اُدر سارا دن گاڑی ملتا اے‘‘
’’برداس کا راستہ کیسا ہے؟‘‘
’’بوت اچھا اے۔ پورا سڑک اے۔جیپ چلتا اے ناں۔ ‘‘
یہ انٹرویو جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا، میرے ہوش اڑتے گئے اور پاؤں کا انگوٹھے کی ’’پھڑپھڑاہٹ‘‘ میں اضافہ ہوتا گیا۔مارننگ واک کا مارننگ تا ایوننگ واک میں تبدیل ہونا ہم سب کے لیے ’’اعصاب شکن دھماکے‘‘  کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ میر عالم اور شیر احمد سب سے زیادہ پریشان تھے۔اُ ن کا بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا خواب نہ صرف چکنا چور ہوا، بلکہ عالم خان کے ٹھیکیداری نظام کی بدولت ناقابلِ  برداشت نقصان کا باعث بنتا نظر آ نے لگا۔ تالنگ سے  اگر جیپ مل جاتی تو وہ دوپہر تک گلگت اوررات ہونے سے پہلے اپنے اپنے ’’ماشوقوں‘‘  کے پہلو میں پہنچ جاتے۔ موجودہ صورتِ حال میں مغرب سے پہلے گلگت پہنچنا بہت مشکل تھا اور مغرب کے بعد نل تر کے لیے سواری ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تالنگ سے جیپ ملنے کی امید تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن ہم نے کچھ دیر انتظار کا فیصلہ کیا کہ شاید … ؟میں اور طاہر جیکٹیں بچھا کر سبزے کے فرش پر دراز ہو گئے۔بھٹہ صاحب بچوں میں گھل مل گئے اور عرفان نے مقامی باشندوں کی محفل کا رخ کیا۔بھٹہ صاحب گپ شپ کے دوران چند بچے منتخب کر کے میرے پاس لے آئے۔انھیں طبی امداد کی ضرورت تھی اور ہمارے پاس بچ جانے والی دوائیں اُن کے کام آ سکتی تھیں۔ ان میں سے کئی بچے معمولی نزلہ زکام میں مبتلا تھے، انھیں مناسب ادویات فراہم کر دی گئیں۔ دو بچے خصوصی توجہ کے مستحق تھے اور تالنگ کی پس ماندگی، ناخواندگی، نارسائی اور غربت کی نمائندگی کرتے تھے۔ ایک نو خیز بچی کے رخسار پر ناسور نما  زخم تھا جس نے اس گڑیا کی فطری خوبصورتی کو بد نمائی میں تبدیل کر دیا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ زخم مندمل ہونا چاہیے۔‘‘  بھٹہ صاحب نے سفارش کی۔
’’یہ فنگس ہے۔پوری طرح ٹھیک ہونے میں کئی ہفتے لے سکتی ہے۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں، باقاعدگی سے استعمال کی گئی تو انشاء اللہ بہت جلد چہرہ صاف ہو جائے گا۔‘‘
’’ادر دوائی نئی ملتا۔آپ ڈاکٹر  اے تو دوائی کیوں نئی دیتا؟‘‘  بچی کے سرپرست نے کہا۔
  ’’ہمارے پاس ابتدائی طبی امداد کا سامان ہے۔فنگس کی دوائیں شہر سے ملیں گی۔‘‘
’’ام گلگت سے دوا نئی لے سکتا۔‘‘
’’ہم تمھیں پیسے دے دیتے ہیں۔ گلگت جا کر دوائیں خرید لینا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے پیشکش کی۔
’’پیسے کا بات نئی اے۔ام دو سال سے گلگت نئی جاتا اے۔ گلگت جاتا اے تو اسپتال سے دوائی لے لیتا اے۔آپ کے پاس دوائی ہوتا اے تو ٹیک اے،نئی تو اللہ مالک اے۔‘‘
میں نے اسے اینٹی بایوٹک گولیاں دیں۔ مجھے علم تھا کہ یہ دوائیں فنگل السر کا علاج نہیں ہیں۔ میں چشمِ تصور سے اس معصوم چہرے کو برباد ہوتے دیکھ رہا تھا۔ناخن وغیرہ کی فنگس بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، چہرے کی فنگس بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ایک اور بچے کے سر میں پھوڑا تھا جس سے ریشہ بہہ رہا تھا اور اس کی گہرائی میں رینگنے والے کیڑے صاف نظر آ رہے تھے۔
’’اس کا علاج کیوں نہیں کروایا؟‘‘  میں نے زخم کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’بوت علاج کراتا اے مگر یہ ٹھیک نئی ہوتا اے۔‘‘
 ’’کس سے علاج کراتے ہو؟‘‘
’’امار ا حکیم صاب ہوتا اے ناں، وہ تین دن کے بعد پٹی کرتا اے۔‘‘
 ’’تین دن کے بعد ؟اس زخم کی باقاعدہ صفائی ہونی چاہیے اور دن میں دو مرتبہ پٹی تبدیل کی جانی چاہیے۔‘‘
’’اتنا تیل کدھر سے آئے گا؟امارے پاس اتنا پیسا نئی اے۔‘‘
 ’’تیل؟ کیسا تیل؟‘‘
’’حکیم صاحب تیل میں نمک،ہلدی اور گوبر کا راکھ ملا کے پٹی لگاتا اے۔‘‘
’’اس زخم پر گوبر کی راکھ کی پٹی ہوتی ہے؟‘‘  میں ششدر رہ گیا۔
’’جی صاب۔حکیم صاب بولتا اے ایسا زخم کئی سال میں ٹھیک ہوتا ہے۔‘‘
مجھے سخت افسوس ہوا۔اس جدید دور میں راکھ سے پٹی کر کے زخم ٹھیک ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔یہ بچہ بہت زیادہ خوش قسمت تھا کہ اب تک ٹیٹنس سے بچا ہوا تھا۔ زخم پایوڈین سے صاف کیا گیا اور دافع جراثیم مرہم سے پٹی کر دی گئی۔ہمارا ٹریک ختم ہو چکا تھا اور ہمیں چند گھنٹوں میں گلگت پہنچنے کی توقع تھی۔اس لیے بچی ہوئی تمام پایوڈین اور اینٹی بایوٹک ٹیوبز اس بچے کے حوالے کر دیں گئیں۔ مجھے امید نہیں تھی کی حکیم صاحب ایلوپیتھک دواؤں کو گوبر کی راکھ کے خاندانی نسخے پر ترجیح دیں گے، لیکن اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بچوں کے معائنے سے فارغ ہوا تو کچھ لوگ اصرار کرنے لگے کہ میں بستی میں چلوں۔ کوئی اپنی والدہ کا معائنہ کروانا چاہتا تھا اور کسی کی بیوی شدید بیمار تھی۔ میں نے بتایا کہ میرے پاس صرف چوٹ وغیرہ کی دوائیں ہیں اور پاؤں میں درد کی وجہ سے بستی کے گھروں میں جانا ممکن نہیں۔ مریض یہاں آ جائیں تو نسخہ لکھ دیا جائے گا۔
 ’’نسخے کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالتا اے، سب کا بیماری دفع دور ہو جاتا اے۔‘‘  ایک انتہائی سنجیدہ نظر آنے والے پیر فرتوت نے مذاق فرمایا۔
میں نے مذاق پر دھیان دینے کے بجائے برداس ٹریک کی تیاری پر توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی۔ عالم خان کے جوگرز پہننے کے تصور سے باقاعدہ ہول آتے تھے اور چپل پہن کر تین چار گھنٹے کی مسلسل اترائی تقریباً ناممکن تھی۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے جھجکتے ہوئے عرفان سے درخواست کی کہ وہ اپنے ٹریکنگ شوز مجھے عنایت کر دے اور خود میرے چپل پہن کر بقیہ سفر طے کرے،ورنہ میرے لئے برداس تک پیدل سفر کرنا ممکن نہیں۔ عرفان نے معمولی تذبذب کے بعد میری درخواست قبول کر لی۔
ہم نے ایک مقامی باشندے سلطان خان کی معیت میں تالنگ کو خدا حافظ کہا۔ سلطان ایک ہاتھ میں پوٹلی لٹکائے ہوئے تھا اور گلگت جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
تالنگ سے شروع ہونے والے جیپ ٹریک پر ’’پاؤں پاؤں‘‘  چلتے ہوئے ہمیں اپنی منصوبہ بندی کی خامیوں کا ادراک ہوا۔ بے شک اس خامی کی وجہ لا علمی تھی اور لا علمی کی وجہ دئینتر پاس ٹریک پر معلومات کے حصول میں ناکامی تھی۔گائیڈ بکس اور انٹر نیٹ پر اس ٹریک کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں، جو ملتی ہیں اُن میں سے بیش تر انتہائی گمراہ کن ہیں۔ ایک ویب سائٹ پر ’’طولی بری‘‘  سے جیپ مل جانے کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو دوسری ویب سائٹ پر ٹاپ سے طولی بری تک ایک تا ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچنے کا اطمینان دلایا جاتا ہے۔ تالنگ کے بارے میں دی گئی اطلاعات سے تاثر ملتا ہے کہ ٹریکر وہاں پہنچے گا تو جیپوں کی لمبی قطار اسے خوش آمدید کہنے کے لیے صف آرا ہو گی اور ڈرائیور حضرات چلو چلو گلگت چلو کی صدائیں بلند کر رہے ہوں گے۔ ٹریک کا منتظم اعلیٰ عرفان تھا جس کی زبانی ٹریکنگ کے پندرہ بیس ’’پہلے اصول‘‘  سن سن کر ہم باقی سب اصول بھول چکے تھے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ٹریکنگ کا پہلا اصول سمجھانے کی منہ توڑ (اپنا)کوشش کی جا رہی تھی۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ جیپ ٹریک پر ٹھمک ٹھمک چلنے کے بجائے جیپ کا بندوبست کیا جائے۔‘‘  بھٹہ صا حب نے ماسٹرانہ لہجے میں قانون پڑھایا۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول بھول جانا انتظامیہ کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘  طاہر نے فردِ جرم عائد کی۔
’’ایسی نا اہل انتظامیہ کی پیٹھ پر کوڑے لگنے چاہئیں۔ ‘‘  میں نے سزا سنائی۔
’’انتظامیہ کو موشن لگے ہیں، پیٹھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہے۔‘‘  عرفان نے معذوری کا سرٹیفکیٹ پیش کیا۔ بظاہر وہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا،بباطن ہم سے کم پریشان نہیں تھا۔
تالنگ سے برداس ایک سہانا سفرہے جو جیپ روڈ کی موجودگی میں غیر ضروری مشقت معلوم ہوتا ہے۔ یہ آئٹی نریری کا ’’سرکاری‘‘  حصہ ہوتا تو دئینتر پاس ٹریک کا خوبصورت ترین آئٹم ثابت ہو سکتا تھا۔ تالنگ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر بائیں جانب کی بلندیوں سے آنے والادئینتر نالا تھولائی بر نالے کے ساتھ سنگم بناتا ہے اور ٹریکر سے تقاضا کرتا ہے کہ اس نالے کے ساتھ ساتھ سفر کر کے وادیِ  دئینتر کے پوشیدہ حسن سے لطف اندوز ہوا جائے۔یہ سائیڈ ٹریک دئینتر پاس ٹریک میں ایک دلکش باب کا اضافہ کر سکتا ہے بشرطیکہ آپ ٹریک کی تمام تر رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنا کر آئے ہوں۔
 تالنگ کے بعد ہم وادی کے مرکزی گاؤں دئینتر سے گزرے۔ یہ بستی پتھر کے زمانے کی سو فیصد نمائندگی کرتی ہے اور تاریخ کے طالبِ علم جو مختلف ادوار کے عملی مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہوں دئینتر کے بے ڈھب پتھروں سے علم کے بیش بہا موتی چن سکتے ہیں۔ تالنگ کے مکانات کا طرزِ تعمیر بھی یہی تھا، لیکن وہ دور دور بکھرے ہوئے تھے اور ’’پتھریت‘‘  کا وہ تاثر پیدا کرنے سے قاصر تھے جو دئینتر کے ’’ہم دیوار‘‘  گھر پیدا کرتے تھے۔ بیش تر مکانات کی چوکھٹ کواڑوں سے بے نیاز تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ دئینتر کے خوش قسمت مینل چوری کے کھٹکے سے نا واقف ہیں۔ سوال یہ تھا کہ یہ خوش قسمت لوگ ہیں کہاں ؟دئینتر کے در و دیوار سے پھوٹنے والے پتھریلے تاثر کا بنیادی سبب اس کی پُر اسرار ویرانی ہی تھی۔
’’یہ بستی آباد نہیں ہے؟‘‘ میں نے سلطان سے پوچھا۔وہ غالباً از راہِ مروت میرے ساتھ چل رہا تھا اور میں حسب توفیق اپنے ساتھیوں میں سب سے پیچھے تھا۔
’’آباد کیوں نہیں ہے؟ علاقے کا سب سے بڑا گاؤں ہے۔ہم اس کے سکول میں استاد لگا ہوا ہے۔‘‘
’’ویری گڈ۔آج ڈیوٹی پر نہیں گئے؟‘‘
’’آج انڈے دینے گلگت جانا تھا۔اس لیے چھٹی کر لی ہے۔‘‘
’’انڈے دینے؟آپ انڈے دیتے ہیں ؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘ اُس نے سنجیدگی سے اعتراف کیا۔
’’انڈے دینے کے لیے گلگت جانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہیں دے لیا کریں۔ ‘‘  میں نے نہایت خلوص سے مشورہ دیا۔
’’اوئےئے … ہم کیا بکواس کرتا ہے؟‘‘ بات پوری طرح سمجھ آئی تو وہ ہنسی کا گول گپا بن گیا۔’’ہم اردو پڑھاتا ہے مگر ہمارا اردو بہت کمزور ہے۔ ہمارا مطلب ہے ہم تالنگ سے انڈہ اکٹھا کرتا ہے اور گلگت جا کر بیکری والے کو دے دیتا ہے۔یہ ہمارا سائڈ بزنس ہے۔‘‘
’’دئینتر آباد ہے تو اس کے باشندے کہاں ہیں ؟‘‘
’’عورتیں کھیتوں میں کام کر رہی ہوں گی اور مرد خرید و فروخت کے لیے برداس یا گلگت چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
’’گھر کھلے چھوڑ کر؟‘‘
’’گھر بند کیسے ہو سکتے ہیں ؟‘‘
’’دروازے لگا کر۔‘‘
’’دروازے صرف جانوروں کے کمرے کو لگائے جاتے ہیں تاکہ بکری کے بچے سخت سردی میں باہر نکل کر بیمار نہ ہو جائیں۔ ‘‘
’’انسانوں کو سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی ؟‘‘
’’ہوتی ہے۔رہائشی کمروں کے لیے ہم لوگ درختوں کی شاخوں اور گھاس سے بنایا گیا ایک سے ڈیڑھ فٹ موٹا پردہ استعمال کرتے ہیں جو رات کو دروازے کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہی ہٹا دیا جاتا ہے۔‘‘
’’مستقل چوکھٹ اور لوہے یا لکڑی کے کواڑ کیوں نہیں استعمال کرتے؟‘‘
’’وہ ٹھیک طرح سردی نہیں روکتا۔‘‘
دئینتر کے دامن میں بکھری ہوئی بے شمار خود رو جھاڑیوں میں رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔ سلطان جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں داخل ہوا اور کچھ دیر بعد جامنی مائل سرخ رنگ کے فالسہ نما پھلوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس نے بتایا کہ ان پھلوں کو مقامی زبان میں ’’بھنگروسو‘‘  کہا جاتا ہے اور جو مرد رات کے کھانے کے ساتھ باقاعدگی سے ایک چھٹانک بھنگروسو کھاتا ہے،تین شادی بناتا ہے۔
’’چار کیوں نہیں بناتا ؟‘‘
’’پتا نہیں۔ والد صاحب کہتے ہیں تین بناتا ہے،چار نہیں بناتا۔‘‘
’’آپ رات کے کھانے کے ساتھ ایک چھٹانک بھنگروسو کھاتے ہیں ؟‘‘  میں نے  تجسس آمیز انداز لہجے میں سوال کیا۔
اُس نے مایوسانہ انداز میں گردن ہلا دی۔
’’کیوں ؟‘‘
’’تیسری شادی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ‘‘  لہجے میں حسرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
بھنگروسو کا ذائقہ مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔ممکن ہے تیسری،میرا مطلب ہے دوسری شادی کے خوف نے اس ’’ویاگرا کے پٹھے‘‘  میں کڑواہٹ گھول دی ہو۔
بھنگروسو کی بے ترتیب جھاڑیوں نے مجھے وادیِ  دئینتر کی پھلوں سے تہی دامنی کا احساس دلایا۔ اس وادی کے خط و خال بلتستان کا باغ کہلانے والی وادیِ  شگر سے ملتے جلتے ہیں، لیکن شگر کے مقابلے میں پھل دار درختوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ خوبانی، شہتوت یا سیب کا اکّا دکّا درخت کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے، باغات دکھائی نہیں دیتے۔ جیپ روڈ اور دئینتر نالے کی درمیانی ڈھلان پر آلو، مکئی اور گندم کے کھیت اور چٹانوں کی فطری سبزہ زاری زمین کی زرخیزی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ اس زرخیز علاقے کو ’’نگر کے باغ‘‘  میں تبدیل کرنے کے لیے شاید کسی مہتہ منگل سنگھ کی ضرورت تھی، لیکن بلتستان سکھوں کی حماقتوں سے مکمل ’’پاک‘‘  ہو چکا ہے اس لیے فی الحال کسی بڑے پیمانے پر شجر کاری کی توقع کرنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔
میرے ساتھی پہلے ہی فراٹے بھرتے ہوئے نظروں سے غائب ہو چکے تھے، سلطان خان بھی میری سست روی برداشت کرتے کرتے اکتا گیا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا:
یہ اکثر دیکھتے ہیں دوستو سنسار کے وچ میں
کہ اپنے چھڈ کے نس جاتے ہیں سب منجدھار کے وچ میں
 ایک مرتبہ پھر میں تھا اور میری تنہائی  …  دور دور تک بکھرے ہوئے دلفریب مناظر تھے اور بے تحاشہ ہریالی  …  رنگارنگ پھولوں کے جھرمٹ تھے اور بے کراں سناٹا  … صاف و شفاف پانی کے گنگناتے ہوئے دھارے تھے اور جھرنوں کی مدھر موسیقی … اور … اور دئینتر کی پتھریلی فضاؤں میں نرماہٹ گھولتے ہوئے نسوانی قہقہے !
یہ قہقہے دئینتر کے ایک موڑ پر اچانک نمودار ہوئے اور مجھے دیکھ کر گم سم انداز میں جیپ ٹریک کے کنارے منجمد ہو گئے۔ میں دئینتر کی ویران فضاؤں میں رنگ برنگی مٹیاروں کا جمگھٹ دیکھنے کی توقع نہیں رکھتا تھا،اس لیے اُن سے زیادہ گم سم ہو گیا۔ چند سیکنڈ بعد مجھے خیال آیا کہ دئینتر پاس ٹریک کے پہلے اور شاید آخری نسوانی منظر سے صرفِ نظر کر کے چپ چاپ گزر جانا انتہائی بد ذوقی ہو گی۔میں نے اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تکلفانہ اور زوردار انداز میں السلام علیکم کا نعرہ لگایا۔اُنھوں نے چوری چوری اکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا  …  چند لمحے تذبذب کا اظہار کیا اور جل ترنگ ہنسی کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔اس جل ترنگ میں جھجک نہیں تھی … بے باکی تھی … اور اُ ن کے اڑتے آنچل اور تنگ بدن پیراہن ہنسی سے زیادہ بے باک تھے۔
’’آپ اسی گاؤں میں رہتی ہیں ؟‘‘  میں نے تصدیق چاہی۔
’’اور کدر رہے گا؟‘‘
’’میرا مطلب ہے شاید وہاں رہتی ہوں۔ ‘‘  میں نے عقب میں نظر آنے والی برف پوش بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
’’اُدر کوئی نئی رہتا۔ام سب اس بستی میں رہتا اے۔‘‘
’’ہمارا گائیڈ بتا رہا تھا کہ پری لوگ وہاں رہتا ہے۔‘‘
اُن میں سے کچھ نے مجھے غضب ناک نظروں سے گھورا، کچھ کے چہرے گلنار ہوئے اور میں ان کے مزید رد عمل کا انتظار کئے بغیر آگے روانہ ہو گیا۔ دئینتر کی بستی سے کچھ آگے ایک پہاڑی نالے کے راستے میں بڑے بڑے پتھر رکھ کر ایک مصنوعی آبشار بنائی گئی ہے۔ اس آبشار کا پانی جیپ ٹریک سے گزر کر ایک دلدلی جھیل بناتا ہوا کئی نالیوں میں تقسیم ہوتا ہے اور چھوٹے چھوٹے کیاری نما کھیتوں کی آبپاشی کے کام آتا ہے۔ میں آبشار کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کر اس کی پھواروں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ یہ ننھی منی آبشار اس علاقے میں پائی جانے والی قدرتی آبشاروں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی،لیکن انسانی ہاتھوں نے اسے سجانے اور سنوارنے کے لیے اچھی خاصی محنت کی تھی۔ ارد گرد اُگی ہوئی خود رو جھاڑیوں کی غالباً باقاعدہ تراش خراش کی جاتی تھی اور پہاڑی پھولوں کے کئی جھرمٹوں کو پتھروں کی بے ترتیب چاردیواری بنا کر محفوظ کر دیا گیا تھا تاکہ انھیں پاؤں تلے روندا جانے سے بچایا جا سکے۔ ایسے ہی ایک جھرمٹ کے سفید براق پھولوں کی دل موہ لینے والی پاکیزگی میرے دل کو بھا گئی اور میں نے اسے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
 ’’او … نو … نو فوٹو … کون ہو تم؟‘‘  گھبرائی ہوئی آواز نے احتجاج کیا۔
میں چونک اٹھا۔ایک مقامی نو نہال پھولوں کی اوٹ سے نمودار ہو کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہو ا میری جانب آ رہا تھا۔میرا جائزہ لینے کے بعد اس کی گھبراہٹ غصے میں تبدیل ہو گئی۔
’’یہ تصویر ڈیلیٹ کر دو۔‘‘ اُس نے پست آواز میں حکم صادر کیا۔
’’تم اتنے گلفام نہیں ہو کہ میں تمھاری تصویر اتاروں۔ ‘‘ میں نے معذرت خواہانہ کے بجائے جارحانہ لہجہ استعمال کرنا مناسب سمجھا۔
’’میری نہیں ہماری۔‘‘ اس نے پھولوں کے جھرمٹ کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے اس کے اشارے کا تعاقب کیا تو ٹھٹک گیا۔ ایک نو خیز دوشیزہ لجائے ہوئے انداز میں اپنا دو پٹا ٹھیک کر رہی تھی۔یہ غالباً اس دور افتادہ علاقے کی ماروی تھی اور اپنے عمر سے ملاقات کے لیے کچھ زیادہ بن ٹھن کر آئی تھی۔اس کی معصوم سفیدی پر اترتے ہوئے شرم و حیا کے رنگ پھولوں کے جھرمٹ سے کم دلکش نہیں تھے۔
’’میں نے تمہاری نہیں پھولوں کی تصویر بنائی ہے۔‘‘  میں نے کیمرے کی ڈسپلے سکرین پر تصویر دکھا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
’’ویسے تمہاری جوڑی پھولوں سے کم خوبصورت نہیں، میں اگر تم دونوں کی تصویر بنا لوں تو تمھارا کیا نقصان ہو گا؟‘‘
’’ہم تصویر نہیں بنوائے گا۔‘‘ اُس نے کھردرے لہجے میں جواب دیا۔
’’اوکے۔اللہ تمھاری محبت میں مزید اضافہ کرے۔‘‘  میں نے بزرگانہ انداز میں دعا دی تو اس کے چہرے پر نرمی کے آثار نظر آئے۔
’’آپ کوئی غلط بات مت سوچو۔ یہ میری منگیتر ہے۔‘‘
 ’’میں کوئی غلط تاثر نہیں لے رہا۔ یہ اگر واقعی تمہاری منگیتر ہے تو چھپ چھپ کر ملنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
 ’’منگیتر بننے سے پہلے ہم سب کے سامنے ملتا تھا۔ ایک مہینے بعد ہمارا شادی ہے اس لیے چھپ کر ملتا ہے۔‘‘  اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اتنی چھوٹی عمر میں شادی؟ تمھاری منگیتر پڑھتی نہیں ؟‘‘
 ’’پڑھ کر کیا کرے گا؟میرا والدہ صائبہ فوت ہو گیا ہے۔یہ روٹی پکائے گا اور میرے والد شریف کا خدمت کرے گا۔‘‘
 ’’اپنے والد صاحب کی خدمت تمھیں خود کرنا چاہیے۔‘‘
’’لو جی!پھر عورت کس کام آئے گا؟ عورت کا اصل کام یہی ہے کہ گھرس نبھالے اور شوہر کے ماں باپ کا خدمت کرے۔میرا والدہ صائبہ والد کے والد کا خدمت کرتا تھا، یہ میرے والد کا خدمت کرے گا۔‘‘ اُس نے حاکمانہ شان سے فیصلہ سنایا۔
 ’’یعنی تمہارے والد نے الگ گھر نہیں بنایا؟‘‘
’’الگ گھر؟وہ اپنے والد سے الگ گھر کیسے بنا سکتا ہے؟ادھر کا لوگ ایسا نہیں کرتا۔یہ بڑا زبردست نمک حرامی ہوتا ہے۔‘‘
 ’’فرائض کے ساتھ ساتھ بیوی کے کچھ حقوق بھی ہیں۔ الگ گھر بیوی کے بنیادی حق میں شامل ہے۔‘‘ میں نے اُسے جدید دور کے تقاضے بتانے کی کوشش کی۔
 ’’مہربانی کر کے آپ ہماری منگیتر کا ذہن خراب مت کرو۔ ہمارے علاقے میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کے پاس ٹائم ہو تو ہم اس  بارے میں باقاعدہ بحث کرتا ہے۔‘‘
’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘
’’ایبٹ آباد میں پڑھتا ہے۔‘‘
’’کونسی کلاس میں ؟‘‘
’’سیکنڈ ایئر میں۔ ہم نے کالج میں اس ٹاپک پر تازہ تازہ تقریر کیا ہے۔‘‘
’’کس ٹاپک پر؟‘‘
’’مشترکہ خاندانی نظام کے فائدے اور نقصانات۔‘‘
’’ویری گڈ۔تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ کس قسم کی بحث کرنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے ریلیکس ہونے کے لیے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ہم بھی اپنے زمانے میں کالج کے بیسٹ ڈیبیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے تھے۔
’’دیکھیں جی، ہم ڈاؤن میں روز یہ بات سنتا ہے کہ بیوی کے لیے الگ گھر کا انتظام کرنا شوہر کا مذہبی فریضہ ہے کیونکہ رسول پاک نے اپنا بیوی لوگ کے لیے الگ الگ گھر بنایا تھا۔ آپ ہمیں یہی بات بتانا چاہتا ہے ناں ؟‘‘
’’بالکل۔‘‘
’’آپ جناب (رسولِ پاک ﷺ) نے اپنا بیوی کو کس سے الگ گیا تھا؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ جناب نے بیوی لوگ کو اپنا ماں باپ سے الگ گھر لے کر نہیں دیا تھا۔ ایک بیوی کو دوسرا بیوی سے الگ رکھا تھا۔آپ اس میں شک کرتا ہے؟‘‘
’’تم … کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہم آپ کا رائے جاننا چاہتا ہے کہ آپ جناب کا والد اور والدہ شریف اماں عائشہ سے شادی کے وقت زندہ ہوتا تواماں عائشہ کیا کرتا ؟آپ جناب کو بولتا ہم آپ کے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہے گا۔ ان کا خدمت آپ جناب پر فرض ہے ہمارے اوپر نہیں ہے؟ ہم ان کے لیے کھانا نہیں بنائے گا، ان کا بدن نہیں دبائے گا، ان کا کپڑا نہیں دھوئے گا۔یہ سارا کام آپ جناب خود کرے گا۔ آپ اماں عائشہ کے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہے ناں ؟‘‘
 اُس کے سوال میں انتہائی جارحانہ قسم کی عالمانہ شان تھی،اور میرے پاس اس اچانک سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
’’اصل پرابلم اس لیے بنتا ہے کہ رسولِ پاک کا ماں باپ بچپن میں فوت ہو گیا۔ آپ جناب کا بیوی صائبہ کو اپنے ساس سسر کے ساتھ رہنے کا چانس نہیں ملا،پھر سیرت اور حدیث کی کتاب میں اس رشتے کا ذکر کیسے آئے گا؟آپ نے سیرت کا کتاب پڑھا ہے؟‘‘
’’تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے۔‘‘  میں اُس کے انداز سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
’’یہ تو پڑھا ہو گا ناں کہ آپ جناب نے ایک صحابی کو جہاد پر جانے کے بجائے اپنے بوڑھے ماں باپ کا خدمت کرنے کا حکم فرمایا تھا؟‘‘
’’اُس کو فرمایا تھا،اس کی بیوی کو نہیں فرمایا تھا۔‘‘  میں نے اعتراض کیا۔
’’آپ درست فرماتا ہے۔مگر یہ تو بتا یا ہو گا ناں کہ انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرو۔‘‘
میں کیا جواب دیتا؟اُس کے سوالات غیر محسوس انداز میں ایک ایسے فیصلے کی طرف لے جا رہے تھے جو میرے نکتہ نظر سے یکسر مختلف تھا اور میں نے اس موضوع پر اتنی گہرائی میں جا کر کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔
’’آپ ایمانداری سے بتاؤ کہ جس کا رتبہ اللہ کے پاس پاس بتایا جائے اُس کے ماں باپ کا رتبہ کیا بنے گا؟آپ نے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا ہے؟‘‘
’’تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے۔‘‘
’’اُس میں لکھا ہے کہ اللہ اور رسول کا حکم مانو۔آپ جناب کی پر وی کرو۔ آپ جناب کا ا دب کرو۔یہ کدھر لکھا ہے کہ آپ کے ماں باپ یا دادا اور چاچا کا ادب کرو؟‘‘
میں خاموش رہا۔کیا کہتا؟
’’آپ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مسلمان لوگ آپ جناب کے والدین کا عزت کیوں کرتا ہے؟آپ کا چچا آپ پر ایمان نہیں لاتا مگر ابو طالب کو سب لوگ حضرت ابوطالب بولتا ہے۔ کیوں بولتا ہے؟آپ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے بولتا ہے ناں ؟ اب یہ سوچو کہ جس کا رتبہ سجدہ کرنے کے برابر ہو اس کے ماں باپ کا رتبہ کتنا بڑا ہو گا؟ اُن کا کتنا حق بنتا ہے ؟مگر بات نیت کا ہے۔ آپ ٹھیک نیت سے غور کرے گا تو نتیجہ صاف صاف ملے گا۔ نیت خراب ہو گا تو ٹھیک بات کا پتا نہیں چلے گا۔ آپ کو ہمارا بات سمجھ آیا کہ نہیں آیا؟‘‘
چند منٹ تک میں واقعی اُس کی بات سمجھ نہیں سکا …  اور سمجھا تو دم بہ خود رہ گیا۔ میں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ کل کے بچے نے مجھے لا جواب کر دیا تھا۔ اُس وقت میرا خیال تھا کہ تھکاوٹ کی وجہ سے میرا دماغ پوری طرح سوچنے سمجھنے اور جواب دینے کے قابل نہیں ہے، لیکن آج بھی،پوری طرح غور و خوض کرنے کے باوجود میں اُس کے سوال کا مدلل جواب تلاش نہیں کر سکا، کج بحثی اور ہٹ دھرمی کی بات اور ہے۔ جدید ترین معاشرے میں قائم ہونے والے اولڈ ہومز پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ساس سسر کے رشتے کی ’’اسلامی‘‘  تشریح نہ کی گئی تو والدین کی خدمت کے پیمانے روشن خیالی کی شراب سے لبریز ہونے لگیں گے:
شرم کیسی ہے تجھے؟ یہ دور ہے دورِ جدید
بیوی بچے پاس رکھ ’’فادر مدر‘‘  کی خیر ہے
میں نے اُس کی علمیت اور نکتہ رسی کی تعریف کی،مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ہاتھ ملا کر آگے روانہ ہو گیا۔تھولائی بر سے شروع ہونے والی مارننگ واک اپنی فطرت میں نوری کے ساتھ ساتھ ’’ناری‘‘  ہو کر میری تھکاوٹ اور درد کا مداوا بنتی جا رہی تھی۔ دئینتر کے باشندے اور باشندیوں کو دیکھ کر اس کی پتھراہٹ کا تصور درہم برہم ہو گیا۔دئینتر کے در و دیوار جتنا چاہیں پتھر کے دور کی عکاسی فرمائیں، دئینتر کے طرزِ معاشرت میں جگمگانے والے روشن خیالی کے دیپ آنکھیں کھول دیتے ہیں۔
 دئینتر سے آگے جیپ ٹریک عمودی ڈھلوان کی صورت میں نیچے اترتا ہے اور ایک پُل عبور کر کے دئینتر نالے کے دائیں جانب آ جاتا ہے۔ میں نے رفتار میں اضافہ کر کے آرام کے وقفوں کی تلافی کرنے کی کوشش کی۔ایک ایسے منظر نامے میں جس کا چپہ چپہ دعوتِ نظارہ دے رہا ہو، سر جھکا کر چلتے رہنا آسان کام نہیں، اور سر اٹھاتے ہی ٹھوکر لگتی تھی یا غیر متوقع ڈھلان کی وجہ سے پاؤں کے انگوٹھے پر دباؤ آ جاتا تھا۔ تیز رفتاری کا خمار بہت جلد اتر گیا۔
ٹھمک ٹھمک چلنے کی پالیسی دوبارہ اپنانے کے بعد میں نے ارد گرد کے ماحول پر توجہ دی۔ وادیِ  دئینتر کے ہریالے پس منظر میں قدم قدم پر بل کھاتا ہوا سرمئی جیپ ٹریک اور اس کے پہلو میں سفر کرنے والے دئینتر نالے کے نقرئی پیچ و خم ایک منفرد منظر نامہ تخلیق کرتے ہیں۔ جیپ ٹریک کسی بلندی سے گزرتا تو وادی کی گہرائیوں میں اترنے والے لہریے دار مناظر روح کی گہرائیوں میں اترتے محسوس ہوتے تھے۔نل تر نالے پر بنائے گئے پل کھلونے کی مانند نظر آتے تھے۔ ایسے ہی ایک پل کے کنارے نصب خاکی رنگ کے خیمے نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ جیپ ٹریک پر صرف ہم ہی پیدل نہیں چل رہے،کوئی اور بھی ہے جو یہ ’’حماقت‘‘  کر رہا ہے۔میں نے دخل در نا معقولات کرتے ہوئے خیمے میں تانک جھانک کی۔ خلافِ توقع یہ ٹریکرز کا خیمہ نہیں تھا،اس میں چند مقامی حضرات کھانا تناول فرما رہے تھے۔ میں نے سلام کرنے کے بعد سوری کہا اور اپنی راہ لگنے کی کوشش کی۔
اُن میں سے ایک نے جواب دیا اور مجھے آگے بڑھتا دیکھ کر ننگے پاؤں ہی باہر آ گیا۔
’’ایسے کیسے جائے گا؟ آپ ادر مہمان اے، کھانا مانا کھا کے جائے گا۔‘‘
’’جی شکریہ مجھے بھوک نہیں ہے،آپ کو ڈسٹرب کرنے کی معذرت چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’مازرت وازرت کیا چیز ہوتا اے یارا؟ ام اتنا جانتا اے کہ مہمان امارے گھر آتا اے تو کھانا کھائے بغیر باہر نئیں جا سکتا۔‘‘
میں نے ایک مرتبہ پھر معذرت کی جو اُس کے پُر خلوص اصرار نے ناکام بنا دی اور میں کھانے کے تھال کے گرد بنائے گئے دائرے میں شامل ہو گیا۔گرما گرم روٹیاں، سبز مرچ اور چینی ملا ہوا مکھن اور گاڑھی گاڑھی نمکین دہی۔میرا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،لیکن کھانے کی انفرادیت کی وجہ سے پوری روٹی ٹھکانے لگا دی۔تفصیلی تعارف پر علم ہوا کہ یہ حضرات ماڈرن قسم کے خانہ بدوش ہیں۔ گلگت سے مقامی لوگوں کی ضرورت کا سامان خریدتے ہیں اور جگہ جگہ خیمہ نشین ہو کر فروخت کرتے جاتے ہیں۔ واپسی پر مقامی مصنوعات بشمول انڈے، گھی، دستکاری کے نمونے اور چھوٹے موٹے جانور خرید کر گلگت لے جاتے ہیں۔ میرا انٹرویو لینے اور میری دلچسپی کا اندازہ کرنے کے بعد ان میں سے ایک نے پیشکش کی:
’’آپ لوگ سیر کرنے آیا ہے تو ایک آدھ روز امارے ساتھ گزارو،ام آپ کو ایسا ایسا جگہ دکھائے گا جو کوئی بی نئیں دیکھتا۔‘‘
’’آپ بتا دیں۔ موقع ملا تو میں خود ہی دیکھ لوں گا۔‘‘
’’ابی آپ برداس جاتا اے ناں ؟اُدر سے ایک روڈ گرم سائی کا وادی میں جاتا اے۔ آپ اُدر سفر کرو۔ دل خوش نئی ہوتا تو بے شک اپنا خرچا ام سے واپس لو۔‘‘
’’خرچ واپس لینے کے لیے آپ کو کہاں تلاش کروں ؟‘‘  میں نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
’’ایسے ای کدر مل جاتا اے ناں۔ ‘‘  اُس نے اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’بہت بہت شکریہ۔ فی الحال میں بہ خیریت و عافیت برداس پہنچ جاتا ہوں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کروں گا۔ برداس یہاں سے کتنا دور ہے؟‘‘
’’دور کدر اے؟ سمجھو پہنچ گیا۔ابی تم جیپ روڈ چھوڑ دو۔ تھوڑا آگے جا کے لیفٹ سائیڈ والا راستہ پکڑو۔ اس کو پکڑتا اے تو پانچ منٹ میں برداس پہنچتا اے۔‘‘
میں نے انھیں اللہ حافظ کہا اور لیفٹ سائیڈ والا راستہ پکڑ کر پانچ منٹ میں برداس پہنچنے کا دل خوش کن تصور لیے آگے روانہ ہو گیا۔وہ مقام جہاں سے بتایا گیا راستہ جیپ ٹریک سے الگ ہوتا تھا،قدرے بلندی پر تھا اور اس جگہ سے برداس نامی بستی پوری طرح نظروں کے احاطے میں  آ جاتی تھی۔برداس پہلی نظر میں ایک غیر فطری بستی معلوم ہوتی ہے۔مجھے محسوس ہو ا کہ اس خوبصورت نشیب کا اصل منظر رنگا رنگ پھولوں سے لبریز ایک سر سبز و شاداب تھال پر مشتمل تھا۔ اس تھال کے وسط میں برداس کا بے جوڑ اضافہ کسی بد ذوق بھوت کی کارستانی تھی جو پتا نہیں کہاں سے یہ بستی اُٹھا لایا تھا اور ایک بہشت سازمنظر کے سحر کو بے اثر کر گیا تھا۔برداس کی مختلف زاویوں سے فوٹو گرافی کرنے کے بعد میں نے بائیں جانب والے راستے پر توجہ دی اور خیمہ نشین حضرات کے مذاق پر دل کھول کر قہقہہ لگایا۔ ایک بے تحاشہ ترچھی ڈھلان برداس کے سبزہ زاروں میں اتر رہی تھی جس پر کسی راستے کا نام و نشان نہیں تھا۔ برداس براستہ لیفٹ سائیڈ والا راستہ پانچ منٹ کے نہیں، صرف ایک لڑھکنی کے فاصلے پر تھا۔ میں یہ لڑھکنی لگانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا اس لیے جیپ ٹریک پر گامزن رہا۔
دوکے بجائے چار گھنٹے کے سفر کے بعد میں برداس کی حدود میں داخل ہوا تو سینہ دھونکنی کی طرح پھول پچک رہا تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سفر تھکا دینے والا یا دشوار ہے۔تھولائی بر سے تربتوداس تک مناظر سے بھرپور واک بہت خوبصورت، بہت دلکش اور بہت ’’حلوہ‘‘  ہے بشرطیکہ ٹریکنگ شوز یا جوگرز اپنے ہوں اور پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن سلامت ہو۔
٭٭٭

عالم تمام حلقۂ دامِ فراڈ ہے

Mountains are the beginning and the end of all natural scenery
John Ruskin

 بلندیاں ہی فطرت کے دل کش مناظر کا آغاز اور اختتام ہیں
جان رسکن

 میں قصبے کی مرکزی گلی سے گزرتا ہوا ایک چوک تک پہنچا جہاں چند دکانیں مارکیٹ کا منظر پیش کر رہی تھیں اور میرے ساتھی تھڑوں پر اپنے اپنے رک سیک سے ٹیک لگائے آرام فرما رہے تھے۔ مقامی باشندوں کا چھوٹا سا ہجوم اُنھیں گھیرے ہوئے تھا۔میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا۔ مقامی حضرات نے جواب دیے بغیر با جماعت انداز میں میرا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے یہاں آ کر کوئی جرم کیا ہے۔
’’یہ بابا تمارا ساتھی اے؟‘‘  ایک بہت زیادہ بابے نے عرفان سے سوال کیا۔
’’اے بابا اے؟ باباتیرے ورگا ہوندا اے بھوتنی دے آ۔‘‘  بھٹہ صاحب نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں اتنی تیزی سے جواب دیا کہ باباجی اور اُن کے چیلے چانٹے سمجھنے سے قاصر رہے۔
’’تم نے اتنا دیر کدر لگا دیا۔‘‘  بابا جی نے سخت لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔
میں نے جواب دینے کے بجائے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ جیپ کا بندوبست ہو چکا ہے یا نہیں ؟ عرفان نے بتایا کہ جیپ والے سے سودا بازی ہو رہی ہے،وہ چار ہزار مانگ کر رہا ہے،ہم دو ہزار پر اڑے ہوئے ہیں۔
 ’’تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود اڑے ہوئے ہیں ؟‘‘
’’ہمیں ایک ہائی ایس کا انتظار ہے۔ابھی ابھی گلگت سے آئی ہے، بر گاؤں میں سواریاں اتار کر واپس آ جائے گی۔اُس کا ڈرائیور مان گیا تو ایک ہزار میں گلگت پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’تم امارا بات کا جواب کیوں نئی دیتا؟ اتنا لیٹ کیوں آتا اے؟‘‘  بابا جی نے جارحانہ انداز میں اپنا سوال دہرایا۔
’’یہ بابا جی کیا چیز ہیں ؟‘‘  میں نے اسے جواب دینے کے بجائے عرفان سے سوال کیا۔
’’یہاں کے وڈیرے ہیں۔ ان کی فرمائش ہے کہ ہم بر نامی گاؤں ضرور جائیں اور آج رات یہیں کیمپنگ کریں۔ ‘‘ عرفان نے انگلش میں جواب دیا۔
’’کیوں کریں ؟‘‘
’’تاکہ یہ کیمپنگ فیس وصول کریں۔ دوسو روپے فی کیمپ۔‘‘
بابا جی اس لیے اپنا غصہ اتار رہے تھے کہ میری وجہ سے ہونے والی تاخیر نے انھیں چارسو روپے کی متوقع آمدنی سے محروم کر دیا۔میں بر وقت پر پہنچ جاتا تو شاید وہ ہمیں گرم سائی ٹریک کے لیے قائل کر لیتے اور ہم برداس میں کیمپنگ کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گرم سائی میں ٹریکنگ کی دعوت مجھے خیمہ نشین پارٹی بھی دے چکی تھی۔
 برداس گرم سائی نالے اور دئینتر نالے کے سنگم سے بننے والی تکون میں واقع ہے۔ مقامی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ گرم سائی دئینتر سے زیادہ خوبصورت ہے۔ یہ ایک گمنام وادی ہے اور اس کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ تربتوداس کے باشندے یقیناً چاہیں گے کہ دئینتر کی طرح گرم سائی بھی ٹریکرز کی توجہ حاصل کر سکے تاکہ دونوں وادیوں کے جنکشن پر واقع ہونے کی وجہ سے اُن کا گاؤں ٹریکرز کے قیام و طعام کا مرکز بن سکے۔وادیِ  دئینتر اور وادیِ  گرم سائی کے مجموعے کا نام ’’بروادی‘‘  ہے۔ برداس اور تھولائی بر جیسے ناموں میں ’’بر‘‘  اسی وادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ برگاؤں وادیِ  گرم سائی کا مرکزی قصبہ ہے اور برداس یا تربتو داس سے صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ہائی ایس سواریاں اتار کر واپس آ گئی۔ اُس کے ڈرائیور نے گلگت جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ گاڑی میں ہیڈ لائٹس نہیں ہیں، وہ اس وقت گلگت جاتا ہے تو رات کو واپس نہیں آ سکے گا اور صبح کے پھیرے سے محروم رہ جائے گا۔
 ایک مرتبہ پھر ’’بابا جی اِن ایکشن‘‘  کا سماں پیدا ہو گیا۔
’’تم لوگ اس وقت بی نکلتا اے تو رات کے ٹیم گلگت پہنچتا اے۔ اس ٹیم گلگت پہنچ کر سونے کے علاوہ اور کیا کرتا اے؟‘‘
’’گلگت جیسے شہر میں رات کے وقت واقعی کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ عرفان نے مایوسانہ لہجے میں اعتراف کیا۔
’’پھر ادر ای سو جاؤ ناں۔ ‘‘
’’ادھر کچھ کر سکتے ہیں ؟‘‘ عرفان نے چونک کر پُر امید لہجے میں دریافت کیا۔
’’چار ہزار روپے بچا سکتا اے۔‘‘  بابا جی نے لالچ دیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘  عرفان ایک مرتبہ پھر چونکا۔
’’اس ٹیم آپ گلگت جاتا اے تو جیپ والا تین ساڑھے تین ہزار روپیہ لیتا اے۔ بولو  لیتا اے کہ نئی لیتا اے؟‘‘
’’پتا نہیں لیتا ہے کہ نہیں لیتا۔ چار ہزار پر اڑا ہوا ہے۔‘‘ عرفان نے بیزاری سے کہا۔
’’اور گلگت پہنچ کر ہوٹل والے کو دو تین ہزار دیتا اے۔ بولو دیتا اے کہ نئی دیتا؟‘‘
’’نہیں دیتا۔ہم ہوٹل والے کو صرف آٹھ سو روپے دیں گے۔‘‘
’’آٹھ سو ؟ تم ہوٹل کا بات کرتا اے یا گلگت جا کے بی کیمپ لگاتا اے؟‘‘
عرفان نے اس نامعقول سوال کا کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
’’چلو آٹھ سو دیتا اے ناں۔ اس کا مطلب اے ایک رات کے لیے چار ہزار سے زیادہ خرچ کرتا اے۔ بولو کرتا اے کہ نئی کرتا؟‘‘
’’کرنے ہی پڑیں گے۔‘‘  عرفان نے مجبوری کا اظہار کیا۔
’’امارا بات مانتا اے تو نئی کرتا اے ناں۔ ابی آپ ادھر کیمپ کرتا اے اور چارسو روپے فیس دیتا اے۔ صبح صبح ہائی ایس سے گلگت جاتا اے اور سات آدمی کا ساڑھے تین سو روپے کرایہ دیتا اے۔ آپ لوگ بڑا آرام سے ساڑھے سات سو میں گلگت پہنچتا ہے اور تین ساڑھے تین ہزار روپیا بچاتا اے۔بولو بچاتا اے کہ نئی بچاتا؟‘‘
’’نہیں بچاتا۔‘‘ عرفان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
’’کیوں نئی بچاتا؟‘‘ بابا جی نے ڈپٹ کر پوچھا۔
’’مائنڈ یور اون بزنس مسٹر بابا جی۔ بچاتے ہیں یا نہیں بچاتے،تمھیں کیا تکلیف ہے؟‘‘  عرفان کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔
مسٹر بابا جی نے کھا جانے والی نظروں سے عرفان کو گھورا اور مقامی زبان میں غالباً دو چار گالیاں پھٹکارنے اور جہنم میں جانے کا مشورہ دے کر … خود چلے گئے۔بابا جی کے غائب ہوتے ہی جیپ ڈرائیور بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو گیا۔ وہ شاید ہجوم کی اوٹ میں چھپ کر بابا جی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے لیے دعا کر رہا تھا۔ بابا جی کے بتائے ہوئے متبادل اقدامات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ جیپ ڈرائیور چار ہزار کی رٹ چھوڑ کر ساڑھے تین ہزار پر آیا اور تین ہزار پر رضامند ہو گیا۔عرفان ابھی مزید سودے بازی کے موڈ میں تھا لیکن طاہر نے عالم خان اور پورٹرز کو سامان جیپ میں رکھنے کا اشارہ دے کر ڈرائیور کے چہرے پر خوشیوں کے رنگ بکھیر دیے۔
ہم نے عصر کے وقت برداس یا تربتوداس کو خدا حافظ کہا۔
برداس سے چھلت تک کے راستے کو جیپ ٹریک کے بجائے کچی سڑک کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اس پر نہ صرف باقاعدہ ہائی ایس سروس چلتی ہے بلکہ کہیں کہیں چھوٹے ٹرک بھی نظر آ جاتے ہیں۔ منظر تقریباً وہی تھا جو تالنگ سے برداس تک ہمارے سامنے رہا تھا اس لیے ہم مناظر پر توجہ دینے کے بجائے اونگھنے میں مصروف تھے، لیکن فطرت ہمیں ایک غیر متوقع الوداعی تحفہ پیش کرنا چاہتی تھی۔
 دیکھتے ہی دیکھتے ایک دلکش برفانی حیرت کدہ افق پر نمودار ہوا اور اپنی پوری آب و تاب سے وادیِ  بر کے منظر نامے پر چھا گیا۔ اس برف پوش چوٹی کے سر پر کالے کالے بادل منڈلا رہے تھے اور اس کا چندن روپ کبھی اپنی چھب دکھاتا تھا،کبھی کالی گھٹاؤں کی اوٹ میں چھپ جاتا تھا۔
میں ذہنی اور جسمانی طور پر دئینتر پاس ٹریک کو الوداع کہہ چکا تھا اور اختتامی لمحات میں اتنے زبردست ’’سرپرائز‘‘  کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ میرے ساتھی مجھ سے کم حیران نہیں تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ کون سی چوٹی ہو سکتی ہے؟‘‘  عرفان نے سوال کیا۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟آپ نے ازابیل شا کی کتاب پڑھ کر اس ٹریک کا انتخاب کیا ہے،آپ کو علم ہونا چاہیے کہ تربتو داس سے آگے کون سی چوٹی کا ویو پوائنٹ ہے۔‘‘
’’ازابیل شا بکواس کرتی ہے۔میں شرط لگا تا ہوں کہ دنیا کا کوئی ٹریکر لوئر شانی سے بیس کیمپ ایک گھنٹے میں نہیں پہنچ سکتا۔ بیس کیمپ سے چھ گھنٹے میں تھولائی بر پہنچنا بھی ناممکن ہے۔اس چوٹی کا اس نے کوئی ذکر ہی نہیں کیا، ٹریک کی روداد سنی سنائی باتوں پر رکھ کر خواہ مخواہ گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
 عرفان نے غیر معمولی رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ایک شاندار اور مناظر سے بھرپور ٹریک کے بعد ازابیل شاکا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے تھا … اتنی سخت تنقید مناسب نہیں تھی۔ الفاظ اور انداز بھی عرفان کی ’’آئس کریم طبیعت‘‘  سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ صرف میں ہی ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا نہیں،  عرفان کے اعصاب بھی تناؤ کا شکار ہیں۔
’’یہ راکا پوشی اے صاب‘‘  جیپ ڈرائیور نے تجسس کا خاتمہ کر دیا۔
’’راکا پوشی؟‘‘ عرفان نے بے یقینی سے دہرایا۔
اور میں شرمندہ ہوا۔
راکا پوشی نے مجھے ہمیشہ شرمندہ کیا۔ یہ میری پہلی محبت ہے۔اس کی دل کشی نے میرے دل میں کوہ نوردی کا شوق پیدا کیا۔ کریم آباد میں گزری ہوئی ہر صبح کا آغاز اس کی بارگاہِ حسن میں حاضری سے ہو تا تھا۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ راکاپوشی کے دل کش نشیب و فراز بھول سکتا ہوں۔ راکاپوشی اتنی ستم ظریف ہے کہ جب بھی درشن دیتی ہے میری محبت کے آگے سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ فیری میڈوز کے راستے میں دوری کا بہانہ تھا، یہاں میں کیا بہانہ کر سکتا تھا؟ راکا پوشی اپنے پورے جوبن کے ساتھ میری نظروں کے سامنے تھی اور میں اسے پہچاننے سے قاصر رہا تھا۔راکا پوشی سے آنکھیں چار کرنا دشوار تھا، اس کے حسن کی تجلی سے نظریں ہٹانا کسی طور ممکن نہیں تھا۔میرا حال جو تھا سو تھا،عرفان جیسا ’’عادی نشے باز‘‘  بھی راکا پوشی کے اچانک نمودار ہونے والے جلوے کی تاب نہ لا کر بہکا بہکا نظر آتا تھا۔ ہم نے اس مقام پر فوٹو گرافی کا وقفہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر حسبِ  معمول ویڈیو بنانے میں مصروف ہو گیا۔ میں نے ایک دو شاٹ لیے اور راکا پوشی پر نظریں جما کر اس کی دلکشی میں گم ہو گیا۔ میرے ساتھی جیپ میں سوار ہو گئے اور ڈرائیور نے ہارن دے کر متوجہ کرنے کی کوشش کی تو میں چونکا۔
’’آپ لوگ چند منٹ صبر نہیں کر سکتے؟ پیسے تو اب پورے ہونے لگے ہیں۔ ‘‘
’’اچھا جی؟آپ کے پیسے اب پورے ہونے لگے ہیں ؟دئینتر پاس ٹاپ پر جھک مارتے رہے تھے؟‘‘  عرفان ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھا۔
’’وہ جھونگا تھا۔ کہاں راکاپوشی کہاں دئینتر ٹاپ؟اور مجھے علم ہی نہیں تھا کہ اس ٹریک پر راکا پوشی کے درشن بھی ہوں گے۔ میں آپ کے علاوہ ازابیل شا کی کتاب کا بھی شکر گزار ہوں جس نے آپ کو دئینتر پاس کی راہ دکھائی۔‘‘
’’آپ کچھ زیادہ اوور نہیں ہو رہے؟‘‘  عرفان سنجیدہ ہو گیا۔
 ’’اوور شوورکی بات نہیں، راکا پوشی دیکھ کر پاگل پاگل نظر آنا ان کی پرانی عادت ہے۔ یہ اداکاری فیری میڈوز جاتے ہوئے بھی کی گئی تھی۔‘‘  طاہر نے با موقع اطلاع فراہم کی۔
 ’’عرفان صاحب آپ نے کریم آباد سے راکا پوشی کا نظارہ کیا ہے۔ ایمانداری سے بتائیں یہ جلوہ کریم آباد کے منظر سے زیادہ خوبصورت ہے یا نہیں ؟‘‘
’’کریم آباد سے راکا پوشی کا مغربی پہلو نظر آتا ہے، یہ غالباً ساؤتھ فیس ہے اور بلا شبہ اُس منظر سے زیادہ دلکش ہے۔ میرا خیال ہے راکا پوشی کا اس سے بہتر منظر بیس کیمپ کے علاوہ شاید ہی کسی اور مقام سے نظر آتا ہو۔‘‘  عرفان نے اعتراف کیا۔
’’بھٹہ صاحب نانگا پربت ویو پوائنٹ پر سبحان اللہ کی تسبیح پڑھتے پڑھتے تھک گئے تھے۔ راکاپوشی ویو پوائنٹ کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
’’نانگا پربت کے نام سے مردانہ جلال،اور راکا پوشی کے نام سے زنانہ جمال چھلکتا ہے  …   اور … ہم تو عاشق ہیں زنانے نام کے … باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ ‘‘  بھٹہ صاحب نے فلسفیانہ انداز میں اظہارِ خیال کیا۔
’’پس ثابت ہو ا کہ راکاپوشی آل ٹائم ملکہ حسن ہے۔دنیا کی کوئی چوٹی راکا پوشی سے زیادہ دلکش نہیں ہو سکتی۔‘‘  میں نے فیصلہ صادر کیا۔
 ’’کے۔ٹو بھی نہیں ؟‘‘ طاہر نے سوال کیا۔
’’ہرگز نہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کنکارڈیا کا منظر نامہ کے۔ٹو کا محتاج نہیں۔ اس میں سے کے۔ٹو نفی کر دیں تب بھی فطرت کے برفانی عجائب گھر کا جادو اسی طرح سر چڑھ کر بولتا رہے گا۔ہنزہ اور نگر سے راکاپوشی غائب ہو جائے تو باقی کیا بچے گا؟راکا پوشی اور کے۔ٹو کا موازنہ کرنا سراسر حماقت ہے۔‘‘
’’کیونکہ کے۔ٹو دسترس سے باہر ہے۔‘‘ طاہر نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’بالکل ٹھیک۔میں بھی یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کے۔ٹو کا حسن فطری خوبصورتی نہیں، اُس کی نا رسائی اور بلندی ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ میری پہنچ سے باہر ہے۔ میں اُس حسن سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں جو میری دسترس میں ہے۔ اس لیے اپنے اپنے منہ بند رکھیں تو عین نوازش ہو گی۔‘‘
’’راکا پوشی کا فکر مت کرو۔یہ چھلت تک آپ کے سامنے رہے گا۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے جتنا مرضی لطف لیتے رہنا۔مگر اب چلنے والا بات کرو۔ہماری گاڑی کا لائٹ نہیں ہے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاڑی روڈ سے اترتا ہے تو آپ خود ذمہ دار ہو گا۔‘‘
 اندھیرا ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں تھا لیکن جیپ ڈرائیور کی دھمکی بہت خوفناک تھی،میں فٹافٹ جیپ میں سوار ہو گیا۔
چھلت سے پہلے ہمیں بودی لاس (Bodelas) نامی قصبے سے گزرنا چاہیے تھا، لیکن جیپ ڈرائیور کے تلفظ کے مطابق ہم بڑالدس سے گزرے۔بڑالدس کافی بڑا قصبہ ہے اور برنالے کا رخ موڑ کر بنائے گئے پاور ہاؤس کے پس منظر میں اچھا خاصا دلکش معلوم ہوتا ہے۔ بڑالدس کے بعد راکا پوشی اپنے جلوے سمیٹنے لگتی ہے اور چھلت پہنچتے پہنچتے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ چھلت ایک تاریخی اور وادیِ  نگر کا سب سے بڑا شہر ہے جسے ایک طویل عرصے تک وادیِ  نگر کا دارالحکومت ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔برطانیہ نے بلتستان پر تسلط جمانے کے لیے چھلت فتح کر کے اسے اپنا فوجی مستقر بنایا اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کیا۔ چھلت کے لیے ہونے والی جنگ سے پہلے میر آف ہنزہ نے بیان دیا۔
’’چھلت ہمارے لئے اپنی بیوی کے ازاربند سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
میر آف ہنزہ کا بیان حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔چھلت کا ازار بند کھلتے ہی برطانوی گوروں، نیپالی گورکھوں اور کشمیری ڈوگروں کی متحدہ طاقت نے ۱۸۹۱ عیسوی میں وادیِ  ہنزہ اور نگر کی مشترکہ افواج کو نلت کے مقام پر شکستِ فاش دی اور وادی کی عصمت پامال کرنے میں کاما ب ہو گئے۔
چھلت ایک با رونق شہر ہے اور وادیِ بر اور وادیِ چپروٹ میں ٹریکنگ کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔چھلت میں لنچ اور چند گھنٹے قیام ہمارے پروگرام کا حصہ تھا جو تالنگ سے برداس تک غیر متوقع واک کی نذر ہو گیا۔
دریائے چپروٹ اور دریائے ہنزہ پر بنے ہوئے پل عبور کر کے ہم شاہراہِ قراقرم پر آ گئے۔چھلت سے گلگت کی نسبت کریم آباد زیادہ نزدیک ہے۔دئینتر پاس سے اضافی فوائد حاصل کرنے ہوں تو گلگت کے بجائے کریم آباد تشریف لے جائیں۔ وادیِ  ہنزہ کے حسن سے لطف اندوز ہوں اور وہیں سے راولپنڈی کے لیے بکنگ کرا لیں۔ چند سال پہلے کریم آباد سے پنڈی کے لیے ناٹکو بس سروس دستیاب نہیں تھی … اب ہے۔
چھلت سے گلگت تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ہم نے پندرہ بیس کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہو گا کہ طاہر نے فرمائش کی۔
’’کسی جگہ جیپ روک کر مجھے ٹھندا ٹھار پانی پلا دیں۔ سخت پیاس لگی ہے۔‘‘
طاہر چھلت میں پیپسی کی دو عدد ٹھنڈی ٹھار بوتلیں ڈکار چکا تھا اور جیپ کی عقبی نشست پر انٹا  غفیل حالت میں لم لیٹ تھا۔ عرفان اور میں آگے بیٹھے تھے۔ہم نے ٹھنڈے ٹھار پانی کی تلاش میں سڑک کے دونوں جانب نظریں دوڑائیں، لیکن پانی تو دور کی بات ہے آبادی کے بھی آثار نظر نہ آئے۔طاہر نے پانچ منٹ بعد اپنی فرمائش دوہرائی اور جیپ کی رفتار میں کمی کے آثار نظر نہ آئے تو باقاعدہ سُر تال میں گانا شروع کر دیا۔
بچیاں والیو مینوں ٹھنڈا پانی پلا دیو۔
اللہ تہانوں حشر دے میدان وچہ ٹھنڈا پانی پلائے گا۔
ہماری طرف سے جواب نہ پا کر اُسے غصہ آ گیا اور اس نے کڑک کر سوال کیا۔
’’اوئے تسی مینوں ٹھنڈا پانی کیوں نئی پلاندے؟‘‘
’’پانی نظر آئے گا تو ضرور پلائیں گے۔ تم اگر چند منٹ صبر کر لو گے تو کون سی قیامت آ جائے گی ؟ گلگت پہنچ کر جتنا چاہے پانی پی لینا۔‘‘  میں نے تجویز پیش کی۔
’’کیوں ؟یہ کربلا ہے جہاں پانی نہیں ملتا؟ آپ جان بوجھ کر جیپ نہیں روک رہے۔‘‘
’’جیپ میں  نے نہیں ڈرائیور نے روکنی ہے۔آپ لیٹنے کے بجائے سیدھے ہو کر بیٹھ جائیں اور جہاں پانی نظر آئے گاڑی رکوا لیں۔ ‘‘  مجھے بھی غصہ آ گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب آپ ہر جگہ لیڈری چمکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ٹریک پر سب کے اخراجات برابر ہوتے ہیں اور حقوق بھی برابر ہوتے ہیں۔ میرے لئے گلگت پہنچنے سے زیادہ ٹھنڈا پانی پینا ضروری ہے۔آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
دونوں طرف تھی ہائٹ برابر لگی ہوئی۔
عرفان نے ہم دونوں کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور ہمارے ٹھنڈا ہونے سے پہلے رحیم آباد آ گیا جو کسی زمانے میں ماتم داس کہلاتا تھا۔ڈرائیور نے ایک دکان کے سامنے گاڑی روکی۔ منرل واٹر کی دو عدد ٹھنڈی ٹھار بوتلیں طاہر کے حوالے کی گئیں تو وہ ماتم تمام کر کے ایک مرتبہ پھر انٹا غفیل ہو گیا۔ ڈرائیور نے شاہراہِ قراقرم کو خیر باد کہہ کر پرانی گلگت روڈ کا رخ کیا جو دینور سے آگے ایک چھوٹی سی پہاڑی سرنگ سے گزرتی ہے۔جیپ سرنگ سے چند گز کے فاصلے پر رہ گئی تو بھٹہ صاحب نے شور مچانا شروع کر دیا:
’’روکو … روکو۔‘‘
ڈرائیور نے گھبرا کر بریک لگا دیئے۔ جیپ رکتے ہی بھٹہ صاحب نے چھلانگ لگائی اور فرار ہو گئے۔ انھوں نے کافی دور جاکر بریک لگائے اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر ہانپنے لگے۔
’’شوکت صاحب کیا مسئلہ ہے؟‘‘  عرفان نے پریشان ہو کر دریافت کیا۔
’’اے شوکت سارے دا سارا ای مسئلہ اے۔‘‘  طاہر نے بیزاری سے کہا جو بھٹہ صاحب کے شور شرابے کی وجہ سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا اور صورت حال کا اندازہ کر چکا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
 ’’مطلب یہ خود بتائے گا۔‘‘
’’شوکت صاحب پلیز، آخر پرابلم کیا ہے؟‘‘
’’میں اس سرنگ میں سے نہیں گزر سکتا۔‘‘  بھٹہ صاحب نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
’’کیوں نہیں گزر سکتے؟‘‘  عرفان سخت حیران ہوا
’’مر جاؤں گا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے کپکپاتے ہوئے لہجے میں مختصر جواب دیا۔
’’تسی سارے ای نمونے او۔‘‘ عرفان نے زیر لب تبصرہ کیا۔
’’بھٹہ صاحب آپ کا فوت ہونے کا پروگرام ہوتا تو گلیشئر کی کسی دراڑ میں لڑھک گئے ہوتے۔یہاں تک صحیح سلامت پہنچ گئے ہیں تو آگے بھی کچھ نہیں ہو گا۔آ جائیں شاباش۔‘‘  میں نے پچکارتے ہوئے سمجھایا۔
’’آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ؟بند جگہوں پر میرا دم گھٹتا ہے۔‘‘
’’دم کی ایسی تیسی۔سیدھی طرح آ جاؤ ورنہ … ‘‘  طاہر نے دھمکی دی۔
’’میں نئی آنا۔‘‘  بھٹہ صاحب بچوں کی طرح ٹھنکے۔
’’تیرا تے پیو وی آئے گا۔‘‘
طاہر آستینیں چڑھاتا ہوا جیپ سے نیچے اترا۔ عرفان نے اس کا ساتھ دیا۔ دونوں نے تقریباً ڈنڈا ڈولی کے انداز میں بھٹہ صاحب کو اٹھا کر جیپ میں ’’انڈیل‘‘  دیا۔ اُن کے چہرے پر بے پناہ دہشت چھا گئی، رنگ زرد ہو گیا اور ہونٹوں پر نیلاہٹ دوڑ گئی۔ میں یہ کیفیت دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔
’’یار بھٹہ صاحب کی تھوڑی سی سائیکو تھراپی کر لی جائے تو بہتر ہے۔ سرنگ سے گزرتے ہوئے کچھ ہو گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘  میں نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’چار قدم طویل سرنگ سے گزرتے ہوئے کیا ہو سکتا ہے؟‘‘  عرفان نے سوال کیا۔
’’ویزو ویگل شاک ہو سکتا ہے۔ ان کی جلد کی رنگت بتا رہی ہے کہ بلڈ پریشر خطرناک حد تک کم ہو چکا ہو گا۔ اس کیفیت میں بے ہوش ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور فوت ہونے کے خدشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میں سچ مچ فوت ہو جانا اے۔‘‘  بھٹہ صاحب خوفناک آواز میں دہاڑے۔
’’پھر کیا کیا جائے؟‘‘  عرفان میری سنجیدگی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
’’کچھ دیر انتظار کریں۔ انرجائل وغیرہ پلائیں اور ممکن ہو تو سرنگ کی زیارت کرا دیں تاکہ انھیں اطمینان ہو جائے کہ سرنگ زیادہ طویل نہیں ہے۔‘‘
’’او۔کے۔‘‘  عرفان نے منظوری دی۔
بھٹہ صاحب کے چہرے پر اطمینان کے آثار نظر آئے اور چہرے کی رنگت واپس آ گئی۔ طاہر اور عرفان ابھی تک جیپ میں سوار نہیں ہوئے تھے۔ جیپ ڈرائیور نے بہ ظاہر حماقت کا مظاہرہ کیا،بہ باطن ایک زبردست ماہرِ نفسیات ہونے کا ثبوت دیا اور غیر محسوس انداز میں گیئر تبدیل کر کے پوری قوت سے ایکسلریٹر دبا دیا۔ جیپ غراتی ہوئی روانہ ہوئی اور اس سے پہلے کہ بھٹہ صاحب مرحوم و مغفور ہونے کا ارادہ کرتے، سرنگ سے گزر گئی۔
بھٹہ صاحب ہکا بکا رہ گئے۔
عرفان اور طاہر پیدل سرنگ عبور کر کے جیپ تک پہنچے تو بھٹہ صاحب اپنی نبض پر ہاتھ رکھے دل کی دھڑکنیں شمار کر رہے تھے۔
’’مجھے لگتا ہے میں فوت نہیں ہوا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے بے یقینی کا اظہار کیا۔
’’بکواس ہے۔تم سرنگ میں داخل ہوتے ہی فوت ہو گئے تھے اور گلگت پہنچتے ہی دفنا دیے جاؤ گے۔‘‘  طاہر نے بھنا کر کہا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔
جیپ سکائی ویز ہوٹل کی پارکنگ میں داخل ہوئی تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔
بھٹہ صاحب کو اُن کے شناسا کی دکان میں رکھا ہوا سامان اٹھانے کے لیے بھیج دیا گیا جو ہم ٹریک پر جانے سے پہلے ’’فالتو‘‘  سمجھ کر جمع کروا گئے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ بھٹہ صاحب کی واپسی پر کسی ایسے بس ٹائم میں بکنگ کروا لی جائے گی جو رات بارہ بجے کے لگ بھگ روانہ ہوتا ہو۔ اس طرح ہم تھوڑی بہت شاپنگ کر کے دو تین گھنٹے آرام بھی کر سکتے تھے۔ بھٹہ صاحب واپس تشریف لائے تو سارا پروگرام درہم برہم ہو گیا۔انھوں نے اطلاع دی کہ نہ صرف ہماری مطلوبہ دکان، بلکہ گلگت کی بیش تر دکانیں بند ہیں اور این۔ایل۔آئی مارکیٹ تو بالکل ہی بند ہے۔ اس لیے نو سامان نو شاپنگ!
گلگت کے بازاروں میں ہر ماہ کی اٹھائیس تاریخ کو کاروباری چھٹی ہوتی ہے۔کیوں ہوتی ہے؟ پوری کوشش کے باوجود اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اس چھٹی کا مطلب تھا کہ آج راولپنڈی کے لیے روانہ ہونا ممکن نہیں، کل بھی دس گیارہ بجے سے پہلے مارکیٹ نہیں کھلے گی اور شاپنگ کرتے کرتے شام ہو جائے گی۔ گلگت کے قیام میں تقریباً ایک دن کا  ’’جورا جوری‘‘  اضافہ ہو گیا ہے۔
دئینتر پاس جیسے انگوٹھا شکن ٹریک کے بعد ایک رات مکمل آرام نہ کرنا اعلیٰ درجے کی بد ذوقی ہے۔ گلگت میں تعطیل کے صدقے ہم اس درجے پر فائز ہونے سے بال بال بچے اور سکائی ویز کے ڈائننگ ہال میں چکن مسالا …  معاف کیجئے گا  …  چکن ہڈی بے مسالا …  تناول فرما کر نیند کی راحت بخش وادیوں میں کھو گئے۔
اگلے روز ہم نے دن چڑھے تک گہری نیند کے مزے لوٹے۔ناشتے کے بعد شام تین بجے روانہ ہونے والی بس میں سیٹیں بک کرائیں اور این۔ ایل۔ آئی (ناردرن ایریا لائٹ انفنٹری) مارکیٹ میں داخل ہو گئے۔ گلگت کی یہ مشہور و معروف مارکیٹ میڈ ان چائنا مال سے اٹی پڑی ہے۔ چین کی بنی ہوئی مصنوعات کے معیار سے قطع نظر پارچہ جات،برقی آلات،کراکری اور سامانِ آرایش و  زیبائش کی بے تحاشہ ورائٹی انتخاب میں دشواری پیدا کرتی ہے۔عرفان اور طاہر کچھ فرمائشی تحائف کی تلاش میں تھے لہٰذا نہایت باریک بینی سے مختلف مصنوعات کا معائنہ کر رہے تھے۔ میں شاپنگ کے سلسلے میں انتہائی نا اہل ثابت ہو ا ہوں اور اہل و عیال میری نالائقی کے طفیل ’’صابر و شاکرہ‘‘  کے پُر تقدس رتبے پر فائز ہو چکے ہیں، میں نے مارکیٹ سے فرار ہو کر سکائی ویز ہوٹل کا رخ کیا۔ میرا خیال تھا جب تک یہ لوگ شاپنگ سے فارغ ہوں گے میں نیند کے مختصر جھونکے سے لطف اندوز ہو چکا ہوں گا۔ تیس گھنٹے کا نان سٹاپ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ نیند ایک بہترین جنرل ٹانک ثابت ہو سکتی تھی۔ میں ابھی ہوٹل سے کچھ دور تھا کہ عالم خان سے ٹکراؤ ہو گیا۔اُس کا چہرہ مجھے دیکھ کر کھِل اُٹھا۔
’’اوئے سر جی ہم کافی دیر سے آپ کو تلاش کر تا ہے۔دو بار آپ کے کمرے کا چکر لگا چکا ہے۔ہمارا خیال تھا آپ لوگ آرام کرے گا۔ اتنا جلدی کدھر نکل گیا تھا؟‘‘  
’’کہیں نہیں، یہیں مارکیٹ میں تھا۔ سب خیریت ہے ناں ؟‘‘
’’بالکل خیریت ہے سر،بہت زیادہ خیریت ہے۔عرفان صاحب کدھر ہے؟‘‘
’’شاپنگ کر رہا ہے۔‘‘
’’کب فارغ ہو گا؟‘‘
’’پتا نہیں، میرا خیال ہے تین چار گھنٹے لگ جائیں گے۔‘‘
’’اتنا دیر میں ہمارا کام خراب ہو جائے گا۔آپ تھوڑا مہربانی کرو اور مدینہ گیسٹ ہاؤس کا چکر لگا لو تو ہماری روزی کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘
’’اتنی جلدی کوئی اور ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘  میں گھبرا گیا۔
مجھے یاد آ گیا تھا کہ مدینہ ہوٹل کے چکر نے ہمیں عالم خان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر مجبور کیا تھا۔
’’آپ کا بات نہیں ہے سر۔ ہوٹل میں ایک گورا گروپ آیا ہے۔وہ راکا پوشی ٹریک کرنا چاہتا ہے۔ آپ اُن کو بتا ؤ کہ دئینتر پاس بہت بیوٹی فل ٹریک ہے اور اس میں راکاپوشی کا زبردست منظر نظر آتا ہے تو ہمارا کام بن جائے گا۔‘‘
’’میں بغیر تعارف اُس گروپ سے گفتگو کیسے کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’وہ … سر آپ کا الطاف حسین کے ساتھ سلام دعا تو ہے ناں۔ آپ اُس کو بولو کہ آپ دئینتر پاس ٹریک سے آیا ہے تو وہ خود اُن لوگوں سے آپ کا تعارف کرائے گا اور ہمارا کام سیدھا ہو جائے گا۔‘‘
‘‘ چکر کیا ہے عالم خان؟‘‘  میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وضاحت چاہی۔
’’کوئی چکر نہیں ہے سر۔ گورا گروپ راکاپوشی جاتا ہے توہم ان کے ساتھ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ ہمارا سائیڈ نہیں ہے۔ہم نے اُن کے لیڈر کا گفتگو سنا ہے۔وہ کوئی مشکل ٹریک کرنا چاہتا ہے۔ہم نے اسے بتایا ہے کہ راکا پوشی بچہ لوگ کا ٹریک ہے۔‘‘
’’راکا پوشی بچہ لوگ کا ٹریک نہیں ہے۔‘‘  میں نے بات کاٹی۔
’’آپ بات سمجھتا نہیں ہے۔راکاپوشی جیسا بھی ہے گورا لوگ ادھر جاتا ہے تو الطاف ہمیں ان کے ساتھ نہیں بھیجے گا۔ وہ ہمارا علاقہ نہیں ہے ناں۔ وہ دئینتر پاس جاتا ہے تو لازمی طور پر ہمیں بھیجے گا۔ روزی کا ضرورت کسے نہیں ہوتا سر؟‘‘
’’تم خود کیوں نہیں بتاتے کہ دئینتر پاس کر آئے ہو اور یہ راکا پوشی ٹریک کی نسبت قدرے مشکل اور بہت زیادہ خوبصورت ٹریک ہے۔‘‘
’’ہم بتاتا ہے ناں۔ مگر گورا لوگ ہماری بات پر یقین نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے ہم گائیڈ ہے اور کاروباری بات کرتا ہے۔‘‘
مجھے عالم خان کا فلسفہ سمجھ نہیں آیا لیکن مدینہ ہوٹل جانے کا آئیڈیا پسند آیا۔ میں خود بھی الطاف سے مل کر بتانا چاہتا تھا کہ ہم نے دئینتر پاس ٹریک کے لیے صرف چھ ہزار روپے فی کس (گلگت تا گلگت ) خرچ کئے تھے۔
مدینہ ہوٹل کے کاؤنٹر پر الطاف کی جگہ ایک نیا چہرہ براجمان تھا۔اُس نے بتایا کہ الطاف صاب کسی غیر ملکی گروپ کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ گیا ہے۔وہ الطاف خان کا کزن اور بزنس پارٹنر ہے۔
’’آپ کو الطاف صاب سے کیا کام تھا؟‘‘
’’کوئی کام نہیں تھا۔اُس نے کہا تھا ٹریک سے واپسی پر مل کر جانا۔ ہم آج واپس جا رہے ہیں اس لیے الوداعی سلام کرنے حاضر ہوا تھا۔‘‘
’’آپ کون سے ٹریک سے واپس آئے ہیں۔ ‘‘
’’دئینتر پاس گئے تھے۔‘‘
’’جی ی ی …  آپ دئینتر پاس کراس کر آئے ہیں۔ ‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آف کورس۔‘‘   …  ریمبو خوش ہوا۔
’’آپ کس کے ساتھ گیا تھا؟‘‘
 ’’عالم خان کے ساتھ۔وہ بتا رہا تھا کہ اُس کا تعلق اسی ہوٹل سے ہے۔‘‘
’’عالم خان ہمارا با قاعدہ گائیڈ نہیں ہے۔ وہ بہت فراڈی بندہ ہے۔ ہم لوگ اسے چکری خان بولتے ہیں۔ اُس نے آپ کے ساتھ کوئی چکر نہیں چلایا؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔ ہم اس کی خدمات کے لیے شکرگزار ہیں۔ ‘‘
 ’’کمال ہو گیا جی۔میں نے پہلا کلائنٹ دیکھا ہے جو چکری خان کی تعریف کر رہا ہے۔ بہرحال یہ بتائیں کہ دئینتر پاس آپ کو کیسا لگا؟ہمارا ایک گروپ دئینتر پاس میں دلچسپی لے رہا ہے اور ہمارے پاس اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ ‘‘
’’اُس گروپ سے میری ملاقات نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’پتا نہیں سر۔ وہ بہت اکھڑ مزاج لوگ ہے۔‘‘  اُس نے تذبذب کا اظہار کیا۔
’’ہم اُن سے زیادہ اکھڑ مزاج لوگ ہے۔اللہ حافظ۔‘‘  میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آپ ایک منٹ رکو سر۔میں ان کو بلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ لوگ درمیانے درجے کا کوئی ٹریک کرنا چاہتا تھا اور ہم نے ان کے لیے راکاپوشی ٹریک تجویز کیا تھا۔ یہاں پتا نہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ وہ بالکل آسان ٹریک ہے۔ اب وہ خواہ مخواہ ہمارے اوپر غصہ کرتا ہے کہ ہم نے انھیں غلط گائیڈ کیا۔‘‘
اُس نے گھنٹی بجائی اور اس کے نتیجے میں نمودار ہونے والے لڑکے کو حکم دیا کہ کچن میں چائے کا کہنے کے بعد کمرہ نمبر چار سے جیک صاحب کو بلا لائے۔
 چائے آنے کے چند منٹ بعد ایک دبلا پتلا دراز قامت گورا کمرے میں داخل ہوا اور سوالیہ نظروں سے کاؤنٹر مین کو گھورنے لگا۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ روایتی ’’گورا صاب‘‘  ہے جو کالوں کو منہ لگانا پسند نہیں کرتا۔
’’سر یہ لوگ دئینتر پاس ٹریک سے واپس آیا ہے۔‘‘  کاؤنٹر مین نے انتہائی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں گورا صاحب کا اطلا ع دی۔
گورا صاحب نے اچٹتی ہوئی نظر مجھ پر ڈالی،پھر تفصیل سے جائزہ لینے کی اداکاری کی۔
’’یہ شخص دئینترکر آیا ہے تو میں اس ٹریک سے دستبردار ہوتا ہوں۔ ‘‘
’’کیوں سر؟‘‘ اُس نے حیرت سے پوچھا۔
 ’’میں نے ہزاروں میل کا سفر واک کرنے کے لیے نہیں کیا۔ ٹریک کسی حد تک ٹف ہونا چاہیے۔ پہلے راکا پوشی،اب دئینتر۔تم کوئی ڈھنگ کا ٹریک منتخب نہیں کر سکتے؟‘‘
’’یہ لوگ مشکل ٹریک کرنا چاہتے ہیں تو تم انھیں غونڈو غورو  یا سنو لیک کیوں نہیں لے جاتے؟‘‘  میں نے اردو میں تجویز پیش کی۔
’’یہ اُدھر نہیں جا سکتا۔‘‘  اُس کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘
’’یہ بات ان کا گروپ دیکھنے کے بعد ہی سمجھ میں آئے گا، ایسے بتانا بہت مشکل ہے۔ میں اسے جواب دے لوں پھر آپ سے بات ہو گی۔‘‘
’’راکاپوشی ٹریک واک نہیں ہے سر،اور دئینتر پاس بہت ٹف ٹریک ہے۔‘‘  
’’کیا یہ شخص انگلش بول سکتا ہے؟‘‘
کاؤنٹر مین نے جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے بالواسطہ سوال کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور خاموش رہا۔ اس نے فرض کر لیا کہ میں انگلش سے نا بلد ہوں۔
’’تم اسے چند منٹ روکے رکھو۔میں اپنے ساتھیوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ دئینتر پاس کس قسم کے ٹریکرز کو سوٹ کرتا ہے۔‘‘ اُس نے حکم صادر کیا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
’’آپ نے اسے جواب نہیں دیا۔آپ سچ مچ انگلش نہیں سمجھتے؟‘‘
’’جواب بھی دے لیں گے،ذرا اُس کے ساتھیوں کا دیدار ہو جائے۔‘‘
’’ضرور …  ضرور۔بڑا مزہ آئے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
 ’’ابھی وہ لوگ آتا ہے ناں۔ آپ خود سمجھ جائے گا۔‘‘
 چند منٹ بعد جیک تین افراد کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا جن میں دو انتہائی متضاد خواتین شامل تھیں۔ ایک خاتون کی نزاکت گلاب کے پھول کو شرماتی تھی، دوسری کی جسامت گوبھی کے پھول کو ڈراتی تھی۔
 ’’تم دئینتر پاس سے گھبرا رہی ہو۔یہ اولڈ مین دئینتر کراس کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں کر سکیں  ؟ویسے میں اب وہاں نہیں جانا چاہتا۔‘‘  جیک نے دیو قامت خاتون کو مخاطب کیا۔
’’اب کیا ہو گیا ہے؟‘‘
جثے کے برعکس اُس کی آواز انتہائی باریک اور سریلی تھی۔مجھے محسوس ہوا کہ کسی سفید ہتھنی نے پی ہو پی ہو کرنا شروع کر دیا ہے۔
’’میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس ٹریک کو اس قسم کے حضرات آسانی سے مکمل کر سکتے ہیں وہ دشوار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’تمھارے ذہن پر دشواری کیوں سوار ہو گئی ہے؟مائیکل بھی اس ٹریک کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے۔یہ ٹریک ہماری توقع سے آسان ہے تو برائی کی کیا بات ہے؟ تم اس سے ٹریک کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرو۔‘‘  گڑیا نما خاتون نے اپنے ساتھی کو تجویز پیش کی۔
’’یہ انگلش نہیں بول سکتا۔‘‘ جیک نے بیزاری سے کہا۔
’’دئینتر پاس ٹریک کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے۔‘‘  خاتون نے الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بیک وقت اشاروں اور آنکھوں کی زبان سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی …  واللہ  …   مزہ آ گیا۔
’’دئینتر پاس اتنا آسان ٹریک نہیں ہے معزز خاتون جتنا تمہارا بوائے فرینڈ سمجھ رہا ہے۔ یہ واقعی سٹرنس ہے اور اس کا ثبوت میرے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن ہے۔‘‘
’’تم انگلش بول سکتے ہو؟‘‘  جیک نے اس انداز میں سوال کیا جیسے میں نے دھوکے میں رکھ کر اُس کی توہین کر دی ہو۔
’’آف کورس۔‘‘
’’او۔کے۔ ٹریک کے بارے میں بتانے سے پہلے تصحیح کر لو کہ روزی میری گرل فرینڈ نہیں، مائیکل کی ساتھی ہے۔میری گرل فرینڈ ہنی ہے۔‘‘ اس نے مکھن پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھردرے لہجے میں کہا۔
ہنی لمبی چوڑی ضرور تھی،خط و خال برے نہیں تھے۔دیو پیکر کے بجائے دیو اینڈ پری پیکر کا نمونہ تھی۔ موپساں کی باؤل ڈی سوف،مکھن کا پہاڑ۔ نام کی مناسبت سے دیکھا جائے تو شہد ملے مکھن کا پہاڑ۔ میں بخوبی سمجھ گیا کہ کاؤنٹر مین اس گروپ کے بارے میں بتاتے ہوئے مسکرا کیوں رہا تھا۔ جیک ضرورت سے زیادہ سمارٹ تھا اور اس کی گرل فرینڈ کا حجم اُس سے چار گنا زیادہ تھا۔ روزی اور مائیکل کا معاملہ بالکل الٹ تھا۔ یہ سو فیصد پہاڑ اور گلہری یا ہاتھی اور پدی کی جوڑیاں تھیں۔ مجھے اس تضاد اور اس کے ’’نفاذ‘‘  پر شدید حیرت ہوئی۔ مغربی معاشرے کی آزاد خیالی اس قسم کی بے ترتیبی قبول نہیں کرتی۔ نہ جانے وہ کیوں کر ایک دوسرے کا ساتھ نبھا رہے تھے۔
’’تم اگر مائنڈ نہ کرو تو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ ‘‘  میں نے عالم خاں کی خاطر  بے تکلفی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی،اور وہ فوراً پیدا ہو گیا۔
’’ہم ضرور مائنڈ کریں گے۔ تم جو مشورہ دینا چاہتے ہو میں جانتا ہوں۔ دشواری یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ان کا تعلق سپین سے اور ہمارا ہالینڈ سے ہے۔‘‘  جیک کے بجائے مائیکل نے جواب دیا،اور قدرے مسکراتے ہوئے دیا۔
’’میں صرف یہ مشورہ دینا چاہتا تھا کہ مس ہنی نام کی مناسبت سے شہد کا باقاعدہ استعمال شروع کر دیں تو ان کی صحت مزید بہتر ہو سکتی ہیں۔ ‘‘  میں نے معصومیت سے کہا۔
جیک کے علاوہ سب نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’آپ لوگ اکٹھے کیسے ہو گئے؟‘‘ میں نے مائیکل سے سوال کیا۔
 ’’یاہو (Yahoo)کے ٹریکنگ فورم پر۔ابتدا میں ہمارا گروپ بارہ افراد پر مشتمل تھا۔ آہستہ آہستہ اراکین کی تعداد کم ہوتی گئی۔‘‘
 ’’وہ کیوں ؟‘‘
’’لگتا ہے تمھیں اپنے ملک کے اندرونی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘
’’دہشت گردی کا خوف؟‘‘
’’آف کورس۔‘‘
میں افسردہ ہونے کے علاوہ اور کیا کر سکتا تھا؟
’’تم کسی ثبوت کی بات کر رہے تھے؟‘‘ جیک نے دخل اندازی کی۔
میں نے چپل سے پاؤں نکالا اور ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔دائیں پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن اکھڑ کر سیاہ ہو چکا تھا۔بائیں پاؤں کے انگوٹھے کے علاوہ چند انگلیوں کے ناخنوں کے نیچے خون جما ہوا تھا۔ بے شک یہ ٹریک کی دشواری سے زیادہ عالم خان کے جوگرز کی کارستانی تھی،لیکن عالم خان کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ بے ضرر فراڈ ناگزیر تھا۔آخر عالم خان کی روزی کا مسئلہ تھا۔
 جیک کے سپاٹ چہرے پر اکھڑا ہوا ناخن دیکھ کر نرمی اتر آئی اور وہ کئی سیکنڈ تک اوہ مائی گاڈ،اوہ مائی گائیڈ کی گردان کرتا رہا۔
 ’’ویری سیڈ، مگر یہ ہوا کیسے ؟‘‘
 ’’وہاں پتھر بہت زیادہ ہیں اور کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے۔ خاص طور پر ٹاپ کی چڑھائی اور اترائی کے دوران بے تحاشہ ٹھوکریں لگتی ہیں۔ میرے ٹریکنگ شوز قدرے تنگ تھے اور پاؤں پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے تھے۔‘‘
 ’’اس کا مطلب ہے میں اس ٹریک کیلئے فٹ نہیں ہوں ؟‘‘ پری پیکر ہنی نے کہا۔
 ’’مجھے سخت افسوس ہے مادام کہ میں تمہیں اپنے ساتھی سے نہیں ملوا سکتا جس کا قد مجھ سے ایک انچ کم اور وزن پندرہ کلو زیادہ ہے۔ اس نے ٹریک کے دوران ٹریکنگ شوز استعمال کرنے کی زحمت نہیں کی،عام جوگرز میں ٹریک مکمل کیا ہے۔اُ سے دیکھ کر تمہیں فوراً یقین آ جاتا کہ تم یہ ٹریک با آسانی کر سکتی ہو۔‘‘
’’تمھارا وہ گریٹ ساتھی کہاں ہے؟‘‘
’’شاپنگ کر رہا ہے۔‘‘
’’یہاں نہیں آ سکتا؟‘‘
 ’’کیوں نہیں آ سکتا۔ میں اگر اسے بتاؤں کہ ایک دلکش خاتون اُس سے ملاقات کی شائق ہے تو سر کے بل دوڑا آئے گا۔‘‘
 ’’پلیز اسے بتا ؤ۔‘‘   اُس نے فرمائش کی۔
’’ویری سوری مادام۔‘‘
 ’’کیوں ؟‘‘
’’اس ٹریک میں کسی خاتون سے ملاقات تو دور کی بات ہے، ڈھنگ کے مرد سے بھی مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔میں یہ اعزاز صرف اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں کہ دئینتر پاس ٹریک کے دوران غیر ملکی خواتین سے نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ کافی دیر گپ شپ بھی رہی۔‘‘
 ’’ویری امیزنگ۔ میں نے کسی مقامی سے اس انداز میں گفتگو کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ میرا خیال ہے تم لوگ بہت ریزرو رہتے ہو۔‘‘
  ’’ریزرو نہیں رہتے،مرعوب ہو جاتے ہیں، لیکن اتنی دل کش اور سمارٹ خاتون سے گپ شپ کرتے وقت مرعوب ہونے کی حماقت کون کرے گا؟‘‘
ایک با جماعت قہقہہ بلند ہوا۔
’’میں اپنی دلکشی سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس وقت ٹریک کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
 ’’تم نے دئینتر پاس کے بارے میں معلومات کہاں سے حاصل کی تھیں ؟‘‘
 ’’کہیں سے نہیں۔ ہم راکا پوشی بیس کیمپ ٹریک کرنے آئے تھے۔ جیک نے کسی پورٹر وغیرہ سے سن لیا کہ یہ ایک سادہ سی واک ہے اور اس کے مناظر صرف راکاپوشی ویو تک محدود ہیں۔ جیک نے اسی بجٹ اور دورانیے کے متبادل ٹریک کے بارے میں دریافت کیا توپورٹر نے دئینتر پاس کی تجویز پیش کر دی اور یہ بھی بتا یا کہ اس ٹریک پر راکا پوشی کا اتنا ہی خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا ہے جتنا بیس کیمپ سے نظر آتا ہے۔‘‘
’’اور تم نے کسی پورٹر کے کہنے پر اپنا پروگرام تبدیل کر دیا؟‘‘
’’ابھی تبدیل نہیں کیا۔سوچ رہے ہیں کہ راکا پوشی ویو کے ساتھ ساتھ نل تر، دئینتر اور بار وادیوں کی سیر ہو جائے تو کیا بُرا ہے۔تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘
 یہ ’’پورٹر‘‘  عالم خان کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا؟ وہ سچ مچ چکری تھا۔ اُس نے چند ہفتے پہلے ایک گروپ پکھورا پاس کیلئے گائیڈ کیا اور فوراً بعد ہمیں پکھورا کے لیے ورغلانے کی کوشش کی۔ اب وہ تازہ تازہ دئینتر پاس سے واپس آیا تھا اور گوروں کو اسی ٹریک کے لیے پھنسانے کی کوشش کر رہا تھا۔غیرملکی گروپ گھر سے آئٹی نریری بنا کر نکلتے ہیں اور اس میں ’’کسی‘‘  کے کہنے پر تبدیلی کرنا پسند نہیں کرتے۔عالم خان کی چکر بازی کا کمال تھا کہ ہنی  گروپ راکا پوشی بیس کیمپ جیسے خوبصورت ٹریک سے متنفر ہو کر اس کا متبادل تلاش کر رہا تھا۔ میں انھیں مشورہ دینا چاہتا تھا کہ:
چکری کے مت فریب میں آ جائیو ہنی
’’عالم‘‘  تمام حلقہ دامِ فراڈ ہے
لیکن عالم خان کی روزی کے پیش نظر میں نے کہا:
’’تم بے فکر ہو کر دئینتر پاس ٹریک کرو۔میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم اسے انجوائے کرو گے اور پاکستان کو ہمیشہ یاد رکھو گے۔‘‘
راکاپوشی بیس کیمپ ٹریک کے پرستاروں، اور خود راکا پوشی کی تمام تر دل نوازی سے معذرت کے ساتھ،میں نے یہ مشورہ عرفان کے فرمودات کی روشنی میں دیا تھا۔ عرفان کئی مواقع پر ارشاد فرما چکا تھا کہ راکاپوشی بیس کیمپ زنانہ و بچکانا ٹریک ہے جس میں ایک چھوٹی سی گلیشئر واک اور راکا پوشی کے منظر کے سوا کچھ نہیں رکھا۔
 عالم خان کے لیے اس سے زیادہ چکر بازی نہیں کی جا سکتی تھی۔ میں جیک اینڈہنی وغیرہ کو بائی بائی کہہ کر سکائی ویز ہوٹل آ گیا۔پروگرام کے مطابق ہمیں ساڑھے بارہ بجے نیو پٹھان ہوٹل میں افغانی پلاؤ تناول فرمانا تھا،سامان پیک کرنا تھا،اور اڑھائی بجے سکائی ویز سے چیک آؤٹ کر کے بس سٹاپ کے لیے روانہ ہو جانا تھا۔
٭٭٭




گائیڈ باب

 A good Itinerary can convert the toughest trek into a leisurely walk
Caroline Costello

ایک مناسب آئٹی نریری سخت ترین ٹریک کو چہل قدمی میں تبدیل کر دیتی ہے
(کیرولین کاسٹیلو)

 یہ باب مستند ٹریکرز کے علم میں اضافہ نہیں کر سکے گا۔ دئینتر پاس ٹریک کی آئٹی نریری ترتیب دینے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
کوہ نوردی کی دنیا میں پہلا قدم رکھنے والے اپنی جسمانی استطاعت کے مطابق ٹریک کا انتخاب کریں۔ ٹریک کے لیے چار تا بیس افراد ایک آئیڈیل گروپ تشکیل دیتے ہیں۔ ٹریک کی  منصوبہ بندی کرنے سے پہلے کوہ نوردی کی درجہ بندی کے بارے میں معلومات حاصل کر نا کافی سودمند ثابت ہو تا ہے۔ دئینتر پاس ایک آسان ٹریک ہے جس کے چند مراحل درمیانے اور ’’چند قدم‘‘  سخت ترین کے درجے پر فائز ہیں۔ آپ اگر ذیابیطس،بلند فشارِ خون یا دل کے امراض جیسے سرمایہ دارانہ خصائص سے ’’محفوظ‘‘  ہیں تو بلا جھجک دئینتر پاس ٹریک منتخب کر سکتے ہیں۔

انتخاب
ٹریکنگ کی درجہ بندی میں روزانہ چلنے کا دورانیہ، ٹریک کی بلندی، راستے کی نوعیت اور  جسمانی صحت جیسے عوامل مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ دشواری کی بنیاد پر بنائے گئے بیش تر نظام تین تا پانچ درجوں (ABCDE)  پر مشتمل ہیں۔ سادہ ترین درجہ بندی درجِ ذیل طریقے سے کی جا سکتی ہے۔
۱۔آسان(Easy)(A): پیدل چلنے کا روزانہ دورانیہ تقریباً تین تا چار گھنٹے ہے۔ عام طور پر باقاعدہ راستہ موجود ہوتا ہے۔ٹریک کی بلندی تین ہزار میٹر کے لگ بھگ اور نشیب و فراز نسبتاً کم ڈھلوانی ہوتے ہیں۔
۲۔ درمیانہ (Moderate) (B): روزانہ چلنے کا دورانیہ تقریباً چار تاچھ گھنٹے ہے۔ ٹریک عموماً تین تا چار ہزار میٹر کی بلندی سے گزرتا ہے۔راستہ کبھی حاضر کبھی غائب رہتا ہے اور نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے چھوٹی موٹی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔
۳۔ سخت  یا مشکل(Strenuous) (C): روزانہ چلنے کا دورانیہ چھ تا آٹھ گھنٹے ہے۔ ایسے تمام ٹریکس جو ساڑھے چار ہزار میٹر یا اس سے زائد بلندی سے گزرتے ہوں سخت ٹریکس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ خطرناک مراحل سے گزرتے ہوئے صرف ایک پھسلن ’’قربِ الٰہی‘‘  کا باعث بن سکتی ہے۔
ٹریکنگ کیلئے عام طور پر درجِ ذیل سامان کی سفارش کی جاتی ہے۔
ذاتی سامان:
۱۔رک سیک  سائز پینتالیس لٹر
۲۔سلیپنگ بیگ  زیرو ڈگری سنٹی گریڈ
۳۔ٹریکنگ شوز(VIBRAM کا سول بہتر ہے)
۴۔پولسٹر کی جیکٹ(GORE-TEX  بہتر ہے)
۵۔رین گیئر (برساتی)
۶۔نائلن یا پولسٹر کے ٹراؤزرز( حسبِ ضرورت)
۷۔شرٹس (حسبِ ضرورت) (فلیس کی بہتر ہے)
۸۔موٹی سوتی جرابیں (تین یا چار)
۹۔ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش،صابن
۱۰۔واکنگ سٹک
۱۱۔فوم میٹرس
۱۲۔دھوپ کا چشمہ
۱۳۔ہیٹ
۱۴۔ہیڈ لائٹس یا ٹارچ
۱۵۔کثیر المقاصد چاقو
۱۶۔تام چینی کا مگ
۱۷۔سن بلاک
۱۸۔پانی کی بوتل

ہم نے ذاتی سامان کی فہرست  سے رین گیئر، کثیر المقاصد چاقو اور واکنگ سٹک وغیرہ پر خط تنسیخ پھیر دیا اور کئی آئٹم ذاتی سامان سے نکال کر مشترکہ سامان کی فہرست میں شامل کر دیئے۔ عرفان کی نسبت اونچے (یا شاید نیچے) درجے کے ٹریکرز مشورہ دیتے ہیں کہ جتنے دن کا ٹریک ہو اتنے بنیان اور انڈر ویئرذاتی سامان کی فہرست میں شامل ہونے چاہئیں۔ عرفان کا قول ہے کہ ٹریک پر بنیان یا انڈرویئر استعمال کرنا غیر فطری ذہنیت کی نشانی ہے۔ میرے خیال میں ان سے بے نیاز ہونے کے لیے گورے ٹیکس یا فلیس کے ملبوسات کا استعمال ناگزیر ہے۔ آپ یہ ’’لنڈوسات‘‘  ڈرائی کلین کرانے کے بعد بھی استعمال نہیں کر سکتے تو اس فہرست میں حسب منشا ترمیم کر لیں۔ گورے ٹیکس (Gore-Tex)  اور فلیس (Fleece) کی مصنوعات کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ ’’چین۔ون‘‘  یا ’’پیس‘‘  لاہور میں دستیاب ہیں۔
یہ ذاتی سامان کی فہرست تھی۔درجِ ذیل سامان مشترکہ بجٹ سے خریدا جا سکتا ہے۔

اجتماعی سامان
عمدہ نسل کے واٹر پروف خیمے حسبِ ضرورت
نیلا ڈرم بمعہ لاک (کیمیکلز کی دکانوں سے دستیاب ہے) حسبِ ضرورت
کیمرہ،مووی کیمرہ،تاش، شطرنج
گیس کا چولھا
لائٹر یا ماچس اور ٹن کٹر (بھول نہ جانا پھر بابا)
 کھانا پکانے کے برتن بشمول توا،پریشر ککر،ساس پین،فرائی پین وغیرہ
کھانا کھانے کے برتن۔ پلیٹیں، چمچ،تام چینی کے مگ، گلاس
 خشک راشن مثلاً آٹا، ریڈی میڈ سوپ کے پیکٹ، خشک دودھ، چائے، کافی، چینی، نمک،کالی مرچ، چاکلیٹ، انرجائل، ٹینگ اور ڈرائی فروٹ وغیرہ وغیرہ
کھانے کے انتظام کے لیے مناسب منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔ آپ ڈبہ بند کھانے استعمال کر سکتے ہیں تو آسانی رہے گی۔مختلف کمپنیوں کے کھانے گلگت کی بیکریوں سے باآسانی دستیاب ہیں۔ آپ اگر تازہ بنے ہوئے چکن کڑاہی، فرائیڈ رائس، پراٹھے اور آملیٹ کے بغیر ٹریک نہیں کر سکتے تو چاول،سبزیاں، انڈے، گھی اور مختلف مسالا جات خریداری کی فہرست میں شامل کر لیں۔ دیسی مرغی اور بکرا آپ کو نل تر، گوپا، ڈھیری اور تالنگ سے مل جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت ایک عدد ماہرِ فن اور تھوڑا بہت ایماندار باورچی درکار ہے، ورنہ بجٹ دو بالا اور کھانا تہ و بالا ہو جائے گا۔
چند سال پہلے تک خیمے، رک سیک اور ٹریکنگ شوز پاکستان میں دستیاب نہیں تھے، آج کل باآسانی دستیاب ہیں۔ ہائر اور ذوفلاح کے خیمے اور رک سیک روز بروز مقبول ہو رہے ہیں۔ دونوں کمپنیاں لاہور کے مختلف سپر سٹورز میں اپنے ا پنے سٹال لگاتی ہیں۔ فورٹریس اسٹیڈیم لاہور کے ’’ہائپر سٹار سپر سٹور‘‘  اور مین بلیوارڈ گلبرگ لاہور کے ’’پیس‘‘  کے سٹال خاصے فعال ہیں۔ ہائر کی مصنوعات اُن کے شو روم واقع راوی چوک لاہور، اور ذوفلاح کی مصنوعات ان کی فیکٹری واقع اعظم پارک نزد منصورہ ملتان روڈ لاہور سے براہِ راست خریدی جا سکتی ہیں۔ ان مصنوعات کا معیار ’’گزارا‘‘  ہے،اعلیٰ نہیں۔ دو افراد کی گنجایش والا خیمہ چھ تا آٹھ ہزار میں مل جاتا ہے، رک سیک کیلئے دو سے تین ہزار روپے درکار ہیں۔ ٹریکنگ شوز صرف پیس میں ملتے ہیں اور اچھے شوز کی قیمت آٹھ ہزار تا بیس ہزار روپے ہے۔
بھٹہ صاحب نے تبلیغی بستر میں اور طاہر نے جو گرز میں ٹریک مکمل کیا۔ برساتی ہم تینوں کے پاس نہیں تھی۔اس لیے سامان کی فکر چھوڑیں، دئینتر پاس ٹریک کرنے کی نیت کریں، اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے اور آپ ’’خواہ مخواہ‘‘  دئینتر پاس سے گزر جائیں گے۔ یاد رہے کہ ٹریکنگ شوز اور برساتی سے استثنا شدید مجبوری کی حالت میں ہے۔

اخراجات
عرفان نے تاکید کی تھی کہ اپنے اخراجات کے بارے میں کسی قسم کا انکشاف نہ کیا جائے، بد نیت لوگ شک کریں گے کہ انھوں نے ٹریک کیا بھی تھا یا بے پر کی اڑا رہے ہیں۔ ہمارے پنڈی تا پنڈی اخراجات سات ہزار(ذاتی سامان اور ایکوئپمنٹ شامل نہیں ) روپے فی کس ہوئے۔ عرفان کے خیال میں ہم نے اچھی خاصی فضول خرچی کی کیونکہ کھانے کے ایک تہائی ڈبے بچ رہے جو عالم خان اور پورٹرز نے مختلف بہانے کر کے ہتھیا لئے۔ ذاتی استطاعت اور صلاحیت بجٹ میں پچاس ہزار روپے فی کس اضافہ کر سکتی ہے،یا ہزار پانچ سو مزید بچا سکتی  ہے۔ میرے خیال میں دئینتر پاس ٹریک کیلئے دس سے بارہ ہزار روپے فی کس ( ۲۰۰۸؁ ئ) ایک اعتدال پسند بجٹ ہے بشرطیکہ ٹریکنگ کا بنیادی سامان پہلے سے موجود ہو۔

وقت
دئینتر پاس ٹریک کے لیے جون تا ستمبر کی سفارش کی جاتی ہے لیکن جولائی کے وسط تک دئینتر پاس ٹاپ کی برف شاذو نادر ہی پگھلتی ہے اور کریمپونز کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔

رسائی
 گلگت جانے کے لیے فضائی یا زمینی راستے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی سے گلگت کیلئے پی۔آئی۔اے روزانہ دو پروازیں مہیا کرتی ہے جو عموماً صبح کے وقت روانہ ہوتی ہیں اور ایک گھنٹے میں گلگت پہنچا دیتی ہیں۔ پشاور سے بھی گلگت کے لیے پرواز دستیاب ہے۔ نشستیں روانگی کے پروگرام سے دو ہفتے پہلے بک کرا لیں۔ جہاز کے اگلے حصے میں دائیں جانب کھڑکی کے ساتھ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ جہاز کے ونگز نانگا پربت کے دلکش نظارے میں حائل نہ ہو سکیں۔ آپ با اعتماد ڈرائیور ہیں تو زمینی سفر کے لیے اپنی گاڑی کی عیاشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے راولپنڈی کے پیرودھائی بس سٹینڈ پر تشریف لائیں یا فون پر ناٹکو آفس سے رابطہ کریں۔ ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی کے ’’پہلے ٹائم‘‘  میں بکنگ مناسب رہے گی لیکن اپنی سہولت مد نظر رکھیں۔ بس میں ڈرائیور کی جانب نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ نانگا پربت ویو پوائنٹ اور تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کا سنگم دائیں جانب سے ہی نظر آتا ہے۔ناٹکو بکنگ آفس آپ کو سولہ گھنٹے میں گلگت پہنچ جانے کی خوشخبری سنائے گا اور آپ اٹھارہ سے بیس گھنٹے میں گلگت پہنچ جائیں گے۔

قیام
گلگت بس سٹینڈسے آپ سوزوکی وین یا ٹیکسی کے ذریعے دس منٹ میں اپنے مطلوبہ ہوٹل پہنچ سکتے ہیں۔ کم خرچ بالا نشیں ہوٹل سینما بازار  …  اور اعلیٰ خرچ بالا نشین ہوٹل چنار باغ کے گرد و نواح میں پائے جاتے ہیں۔ قیام و طعام آپ کے بجٹ پر منحصر ہے۔ این۔ ایل۔آئی چوک کے آس پاس نچلے اور نچلے نما درمیانے درجے کے بے شمار ہوٹل پائے جاتے ہیں جہاں پانچ سو سے ایک ہزار کرائے تک کے ڈبل روم دستیاب ہیں۔ اس درجے میں سکائی ویز، ٹاپ مون، جے۔ ایس۔آر، آئی بیکس لاج،ڈائمنڈ پیک اور ہنزہ ان شامل ہیں۔ جمال ہوٹل بھی اسی درجے میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن قدرے مہنگا ہے اور اس کا ریستوران ’’گرین ڈریگن‘‘  چائنیز فوڈ کے معیار کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ روپل ان خاص طور پر بڑے گروپس کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ درمیانے درجے میں پارک ہوٹل، رویرا، گلگت کانٹی نینٹل،میر لاج اور ہوریزان گیسٹ ہاؤس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ڈبل بیڈ کا کرایہ پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہے۔ بالا نشینوں میں چنار اِن (PTDC موٹیل) اور کینوپی نک سس شامل ہیں جو سنگل بیڈ کیلئے دوسے اڑھائی ہزار اور ڈبل بیڈ کیلئے ساڑھے تین سے چھ ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ سٹیٹس کانشس حضرات کے لیے گلگت سیرینا اپنی نوعیت کا واحد ہوٹل ہے۔ یہ ایک بلند پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے اور یہاں سنگل بیڈ بانوے، ڈبل بیڈ ایک سو پانچ اور لگژری سوٹ دوسو امریکن ڈالرزمیں دستیاب ہے۔ سیرینا کا ریستوران ’’دومانی‘‘  اپنے کھانوں اور رات کے وقت سرو کئے جانے والے باربی کیو کی وجہ سے اچھی شہرت کا حامل ہے۔

طعام
 چنار اِن اور سیرینا کے ریستوران اچھے ماحول اور بجٹ توڑ طعام کے لحاظ سے سرِفہرست ہیں۔ جمال ہوٹل،پارک ہوٹل۔ٹورسٹ کاٹیج اور ہوریزان گیسٹ ہاؤس کے ریسٹوران درمیانے بجٹ میں مناسب معیار فراہم کرتے ہیں۔ بازار میں واقع ہوٹلوں میں سالار ہوٹل اور بیگ ہوٹل کی صفائی ستھرائی کا معیار قدرے بہتر ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے رمضان ہوٹل اور نیو پٹھان ہوٹل بہت پسند کیے جاتے ہیں، مقامی لوگ انھی کی سفارش کرتے ہیں۔

انتظام
قیام و طعام کا بندوبست کرنے کے بعد آپ کے پاس اگر وقت ہے تو ٹریکنگ کا سامان مکمل کر لیں۔ ہنزہ ٹریکنگ اینڈ ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ، قراقرم ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ، لانگ لائف ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ اور مدینہ ہوٹل سے بیش تر سامان مل جائے گا۔ یہ سب سنٹر سینما بازار میں پائے جاتے ہیں۔
آپ اگر فائیو سٹار ٹریک کرنا چاہتے ہیں تو تمام انتظامات کسی ٹور آپریٹر کو سونپ کر بے فکر ہو جائیں۔ گلگت میں ٹورز آپریٹرز کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اور قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں مدینہ ہوٹل، پارک ہوٹل، جمال ہوٹل،ہوریزان گیسٹ ہاؤس اور چنار ان خاصے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپ اگر سودے بازی کے ماہر ہیں تو گلگت تا گلگت پندرہ سے بیس ہزار فی کس میں (۲۰۰۸؁ کے مطابق) سودا ہو سکتا ہے۔ ٹور آپریٹر عام طور پر چار سو سے ایک ہزار امریکن ڈالر طلب کرنے کے عادی ہیں۔
 آپ اگر عرفان اور اسکی ٹیم کی طرح کنجوس مکھی چوس ہیں (عرفان سے معذرت کے ساتھ،لیکن نام لیڈر کا ہی لکھا جائے گا) تو ہنزہ ٹریکنگ اینڈ ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ کے پروپرائیٹر محمد علی سے رابطہ کریں۔ محمد علی سے رابطہ نہ ہو سکے تو کوئی ایسی جیپ تلاش کریں جو گلگت بازار میں تنہا کھڑی ہو اور اس کا ڈرائیور بیزاری کے عالم میں ہر اُس شخص کا جائزہ لے رہا ہو جس پر ٹورسٹ یا ٹریکر ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح آپ پانچ سو تا پندرہ سو روپے کمیشن بچاسکتے ہیں۔ جیپ ڈرائیور آپ کے لیے گائیڈ نما پورٹرز کا بندوبست کر دے گا۔ دئینتر پاس ٹریک کے لیے مستند گائیڈ کی ضرورت نہیں، تجربہ کار پورٹر یہ فریضہ بہ حسن و خوبی سرانجام دے سکتا ہے۔ بنگلا، گوپا …  یا نیلو لوٹ سے بکروال ’’پکڑنے‘‘  کی عرفانی تجویز بھی قابل عمل ہے۔
مزید بچت چاہیں تو پبلک ٹرانسپورٹ سے نل تر جائیں۔ گلگت بس سٹینڈ سے دوپہر کے وقت دو یا تین جیپ ٹائم نل تر کے لیے روانہ ہوتے ہیں  … کرایہ ایک سو روپے فی کس۔نل تر کے کسی بھی ہو ٹل میں لنچ کریں اور انتظامیہ کو آگاہ کر دیں کہ آپ نل تر جھیل پر ایک رات کے لیے پکنک   کا پروگرام بنا کر آئے ہیں، ڈھنگ کے پورٹرز مل گئے تو شاید دئینتر پاس کا پروگرام بن جائے۔پروگرام خود بخود بن جائے گا اور مناسب بجٹ میں بن جائے گا، اس پالیسی کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس ٹریکنگ کا بنیادی سامان مکمل ہو۔آپ اپنے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے تو ہوٹل کے کاؤنٹر سے معلومات حاصل کر کے گلگت کے کسی ایسے دکاندار سے رابطہ کریں جس کا گھر نل تر میں ہو، وہ آپ کے لیے سب کچھ کر دے گا۔

پروگرام
 دئینتر پاس ٹریک کے لیے ٹور آپریٹرز کی سفارش کردہ آئٹی نریری درجِ  ذیل ہے:

۱۔پہلا دن
(بہت آسان)
 گلگت سے نل تر جھیل بذریعہ جیپ
رات کو کیمپنگ اور کیمپ فائر
دو سے تین گھنٹے
۲۔دوسرا دن
(آسان)
نل تر جھیل سے لوئر شانی تک ٹریکنگ
لوئر شانی پر کیمپ
پانچ تا چھ گھنٹے
۳۔تیسرا دن
 (درمیانہ)
لوئر شانی تا بیس کیمپ ٹریکنگ
بیس کیمپ پر کیمپ
دو تا تین گھنٹے
۴۔چوتھا دن
(بہت مشکل)
بیس کیمپ تا دئینتر ٹاپ تا تھولائی بر
تھولائی بر میں کیمپ
چھ سے آٹھ گھنٹے
۵۔پانچواں دن
(بہت آسان)
تھولائی بر سے تالنگ تک ٹریکنگ
تالنگ تا گلگت جیپ  یا
تالنگ تا برداس ٹریک اور
برداس سے گلگت جیپ  یا ویگن
ایک گھنٹہ
تین تا چار گھنٹے
دو سے چار گھنٹے
تین گھنٹے
ٹریک کے مختلف مقامات کی بلندی درجِ ذیل ہے۔
۱۔ نل تر بالا ۲۹۰۰میٹر ۹۵۷۰ فٹ
۲۔نل تر جھیل ۳۲۷۰ میٹر ۱۰۷۹۱ فٹ
۳۔لوئر شانی ۳۶۹۰ میٹر ۱۲۱۷۷ فٹ
۴۔ بیس کیمپ ۴۱۰۰ میٹر ۱۳۵۳۰ فٹ
۵۔دئینتر پاس ٹاپ ۴۷۰۰ میٹر ۱۵۵۱۰ فٹ
۶۔ تھولائی بر ۳۴۵۰ میٹر ۱۱۳۸۵ فٹ
۷۔تربتوداس ۲۱۰۰ میٹر ۶۹۳۰ فٹ
مندرجہ بالا بلندیاں اور آئٹی نریری دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریک کا چوتھا دن انتہائی سخت ہے۔ اس دن آپ چھ سو میٹر (۲۰۰۰ فٹ) کی عمودی بلندی اور ایک ہزار دوسو پچاس میٹر (۴۱۲۵ فٹ)اترائی طے کرتے ہیں۔ یہ چڑھائی اور اترائی تقریباً ساٹھ درجے کا زاویہ بناتی ہیں۔ دئینتر پاس ٹریک کا یہی مرحلہ اسے سخت ترین (Strenuous) کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ بھٹہ صاحب اور پورٹرز نے یہ سٹیج گیارہ گھنٹے، عرفان اور طاہر نے تیرہ گھنٹے اور میں نے چودہ گھنٹے میں مکمل کی۔ آپ ٹور آپریٹر کی سفارش کردہ آئٹی نریری کے مطابق ٹریک کرنا چاہتے ہیں تب بھی معمولی ترمیم اور تفصیلی معلومات کی مدد سے اس بے جا مشقت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تیسرے دن کے ٹریک کو لوئر شانی تا بیس کیمپ کے بجائے لوئر شانی تا دئینتر پاس ٹاپ تک وسعت دے دی جائے تو یہ سٹیج کافی آسان ہو جائے گی۔ اس تبدیلی سے پہلے مقامی لوگوں سے تصدیق کر لی جائے کہ ٹاپ پر پانی میسر آ جائے گا،جو بیش تر حالات میں میسر آ جاتا ہے کیونکہ عالم خان کے بقول جہاں برف ہو وہاں پانی کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٹاپ پر کیمپنگ نہ بھی ہو سکے تو تھوڑی سی اترائی کے بعد گلیشئر کنارے کیمپ لگائے جا سکتے ہیں، اس صورت میں تیسرا دن نسبتاً سخت ہو جائے گا لیکن پھر بھی مشقت اور تھکاوٹ کے اس درجے تک نہیں پہنچے گا جو روایتی آئٹی نریری کے چوتھے دن کی خصوصیت ہے۔ٹاپ پر کیمپنگ کے فیصلے سے پہلے یقین کر لیں کہ آپ کا ٹینٹ، سلیپنگ بیگ اور جیکٹ وغیرہ اعلیٰ معیار کے ہیں اور رات کے وقت نقطۂ انجماد سے چار یا پانچ ڈگری کم درجہ حرارت پر آپ کو منجمد ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
 دئینتر پاس ٹریک اپنی فطرت میں انتہائی لچک دار ٹریک ہے۔ اسے چار دن میں نمٹایا جا سکتا ہے اور دو ہفتوں پر محیط کر کے ذوقِ فطرت کی تسکین کی جا سکتی ہے۔

گلگت میں پہلا دن
فرض کیجیے کہ آپ راولپنڈی سے گذشتہ روز صبح چھ بجے روانہ ہو کر رات بارہ بجے گلگت پہنچے تھے۔ آج گلگت میں آپ کا پہلا دن ہے۔امید ہے نو بجے تک ناشتے سے فارغ ہو کر ٹریک کی تیاری شروع کر چکے ہوں گے۔ آئٹی نریری میں آسانی پیدا کرنے کے لیے بہتر ہے کہ تین بجے تک ٹریک کے انتظامات مکمل کر لیں۔ آپ نے گذشتہ رات سونے سے پہلے کاؤنٹر کلرک کو ٹریک کے بارے میں بتا دیا تھا تو یہ کام بہت آسان ہو جائے گا۔ ساڑھے تین بجے نل تر جھیل کے لیے روانہ ہوں اور جیپ ڈرائیور سے واپسی کے سفر (تالنگ تا گلگت) کے لیے بات چیت کر لیں۔ نل تر جھیل پر موجود عارضی ہوٹل آپ کے قیام و طعام کا بندوبست کر دے گا اور آپ کے پاس نل تر جھیل سے لطف اندوز ہونے کیلئے کافی وقت ہو گا۔

ٹریک کا پہلا دن
 آئٹی نریری میں معمولی ترمیم کی وجہ سے آج کی منزل لوئر شانی کے بجائے دئینتر پاس بیس کیمپ ہے۔ ہوٹل والے سے صبح چھ بجے ناشتا طلب کریں اور سات بجے ٹریک شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وادیِ  نل تر کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ نیلو لوٹ پر موبائل لنچ اور لوئر شانی پر چائے کا وقفہ کرتے ہوئے آپ عصر کے وقت بیس کیمپ پہنچ جائیں گے۔ اپنے ٹریک کی دوسری کیمپنگ سائٹ پر ’’زویات‘‘  کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور کیمپ فائر کا بندوبست کریں۔

ٹریک کا دوسرا دن
گذشتہ روز کی اضافی مشقت نے آج کی سٹیج نسبتاً آسان کر دی ہے۔آٹھ بجے ٹریک شروع کریں اور دو بجے ٹاپ پر پہنچ کر اذان دیں۔ دو تین گھنٹے گزارنے کے بعد اترائی کا سفر شروع کریں اور گلیشئر کے بعد نظر آنے والے پہلے سبزہ زار (دئینتر میڈوز) پر پڑاؤ ڈال دیں۔

 ٹریک کا تیسرا دن
آٹھ بجے ٹریک شروع کریں اور تین بجے تک تالنگ پہنچ جائیں جہاں پیشگی بک کرائی گئی جیپ گلگت لے جانے کے لیے آپ کا انتظار کر رہی ہو گی۔
دئینتر پاس … گلگت تا گلگت یا ہنزہ …  صرف چار دن اور چھ ہزار روپے میں  …  چلے بھی آؤ کہ روزی کا کاروبار چلے!

سائڈ ٹریکس
آپ کے پاس وقت کی فراوانی ہے اور آپ دئینتر پاس ٹریک کی تمام تر دلکشی اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں تو جان لیجیے کہ دئینتر پاس ٹریک کی اصل رعنائیاں قدم قدم پر پائے جانے والے سائڈ ٹریکس میں پوشیدہ ہیں۔ ان کے جلوے دئینتر پاس ٹریک سے کشید کی گئی سر مستی میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔
 نل تر جھیل پر اگر ایک دن قیام کیا جائے تو بھچر پاس(Bhichchar Pass)  ٹریک ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ درہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر بلند ہے اور وادیِ  نل تر کو وادیِ  پونیال سے ملاتا ہے۔ بھچر پاس بنگلا نامی بستی سے صرف ایک سٹیج کی دوری پر ہے اور مقامی بکروال اس درے تک آپ کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ درے کا ٹاپ آپ کی خدمت میں  نل تر اور پونیال کے مشترکہ منظر کا تحفہ پیش کرتا ہے، اور درے کے اُس پار شیر قلعہ جیسا تاریخی سنگِ میل آپ کے قدوم میں منت لزوم کا منتظر ہے۔
لوئر شانی سے نل ترپاس ٹریک کے (۴۷۰۰ میٹر بلند،تین یا چار اضافی دن) ذریعے آپ وادیِ  اشکومن کے ہوش ربا حسن کی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں۔ نل تر پاس ٹاپ سے چار مختلف پہاڑی سلسلوں،  قراقرم، ہمالیہ، ہندو کش اور ہندو راج کی خوبصورت چوٹیوں کا(راکا پوشی، نانگا پربت، کھل تر، سنتری پیک،شسپر وغیرہ) کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
تالنگ میں کیمپنگ کر کے دئینتر نالے کے ساتھ ساتھ اپر دئینتر وادی میں چہل قدمی کی جا سکتی ہے۔مقامی حضرات بجا طور پر فرماتے ہیں کہ دئینتر کی اصل خوبصورتی یہیں نظر آتی ہے کیونکہ اپردئینتر ابھی تک جیپ ٹریک سے آلودہ نہیں ہوئی۔ دئینتر وادی کا یہ حصہ مقامی ثقافت اور تہذیب کے متلاشی ٹریکرز کی دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔
دئینتر گاؤں سے شروع ہونے والا پیدل راستہ چپروٹ کے پہاڑی سلسلے کا گمنام درہ عبور کرتے ہوئے چپروٹ کے مرکزی گاؤں پہنچا دیتا ہے۔ آج کل یہ راستہ متروک ہو چکا ہے۔ مہم جو ٹریکرز چھلت پہنچنے کے لیے اس خوبصورت متبادل پر غور فرما سکتے ہیں۔ اس ایک روزہ گمنام ٹریک کے لیے دئینتر سے کوئی بکروال ’’پکڑا‘‘  جا سکتا ہے۔
 برداس میں کیمپنگ کر کے ( بقول مسٹر باباجی ) چار ہزار روپے کے قیمتی زر مبادلہ کی بچت کے ساتھ ساتھ وادیِ  گرم سائی کے نرم گرم نظاروں سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ گائیڈ بکس اس وادی کے شیفرڈ ہٹس اور چراگاہوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
چھلت میں ایک دن کا قیام وادیِ  چپروٹ تک رسائی کا باعث بنتا ہے۔ برطانوی کوہ نورد شوم برگ صاحب فرماتے ہیں کہ چپروٹ گلگت ایجنسی کی خوبصورت ترین وادی ہے۔ چپروٹ کا مرکزی قصبہ چھلت سے تین گھنٹے کی ٹریکنگ کے فاصلے پر ہے۔ چھلت اور چپروٹ خوبصورت ترین قصبے ہونے کے علاوہ تاریخی مقامات بھی ہیں۔ ٹریکنگ کا مقصد اگر مناظر سے لطف اندوز ہونا ہے تو چپروٹ کے ملکوتی حسن سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ادنیٰ درجے کی بد ذوقی ہے۔

گلگت
ہم نے ٹریک کے بعد گلگت میں گزارا جانے والا وقت شاپنگ کی نذر کر دیا تھا۔ آپ گلگت کے درجِ  ذیل مقامات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
۱۔گلگت سے تقریباً دس کلومیٹر فاصلے پر کارگہ نالے کے کنارے ایک بلند چٹان پر بنایا گیا مہاتما بدھ کے مجسمے کا خاکہ …  بذریعہ جیپ یا سوزوکی وین۔
۲۔ ریور ویو پوائنٹ(Riverview Point) اور دریائے گلگت پر بنایا گیا جناح برج۔
۳۔ دریائے گلگت کے کنارے چنار باغ اور شہدائے آزادی کی یادگار۔
۴۔آرمی پبلک سکول کے گراؤنڈ میں پائے جانے گوہر امان کے ’’مغل قلعے‘‘  کے کھنڈرات۔ ان کھنڈرات میں صرف ایک برج کسی حد تک قائم و دائم ہے جسے غیر ملکی سیاحوں پر رعب ڈالنے کے لیے گوہر امان ٹاور کا خطاب دے دیا گیا ہے۔
۵۔ این۔ایل۔ آئی مارکیٹ اور اسکی پارکنگ میں تعمیر کیا گیا مینارِ آزادی۔
۶۔گلگت کینٹ میں واقع نام نہاد چڑیا گھر
۷۔دینیور میں حضرت سلطان علی عارف المعروف سلطان الف کی درگاہ
۸۔دینیور کی ایک چٹان پر خطاطی کا نمونہ جسے قومی نوادرات میں شامل کر لیا گیا ہے۔
۹۔دینیور ہی میں چینی جوانوں کا قبرستان جنھوں نے دیارِ غیر میں شاہراہِ  قراقرم کی تعمیر کے لیے اپنی اَن مول جانوں کا نذرانہ پیش کیا انھیں  … مرے وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں۔

ہنزہ
چھلت سے آپ گلگت کے بجائے ہنزہ پہنچ جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ بے شک راولپنڈی کے سفر میں دو گھنٹے کا اضافہ ہو جائے گا لیکن آپ ہنزہ کے مشہورِ عالم حسن کی تجلیوں سے محروم نہیں رہیں گے۔ آپ پہلے کریم آباد میں وقت گزار چکے ہیں، تب بھی ہنزہ آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔ ہر سال اس کے جوبن پر ایک نئی آب و تاب آ جاتی ہے، اس کے پانیوں میں جھلملانے والے سنہری تار ایک نیا طلسم تخلیق کرتے ہیں، التت کی رسیلی خوبانیاں نیا ذائقہ پیش کرتی ہیں، بلتت فورٹ کے محافظ کی روایتی ٹوپی میں مرغِ زریں کا نیا پر لگ جاتا ہے، راکاپوشی، دیراں، لیڈی فنگر اور التر پیک نیا سنگھا ر کر کے آپ کی راہ میں برفیں بچھاتی ہیں اور  …  بہت کچھ اور … آتے جائیے،دیکھتے جائیے!
کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے
پھر چھلکنے لگے سبو آؤ
{اللہ حافظ}
٭٭٭

مصنف کی اجازت اور ان پیج فائل فراہمی کے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔