جمعہ، 17 اپریل، 2015

الرحیق المختوم چھٹا حصہ

0 comments
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1 زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ صحیح روایات میں ثابت شدہ اضافات کے ساتھ۔
اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ سے قربت وتدلّی تھی اور سورہ ٔ نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے انہیں دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، اور یہ حضرت جبریل ؑ تھے۔ انہیں محمدﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دومرتبہ دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم1
بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبیﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے ) کا واقعہ پیش آیا اور آپﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیز یں دکھلائی گئیں۔
آپﷺ پر دودھ اور شراب پیش کی گئی، آپﷺ نے دودھ اختیار فرمایا۔ اس پر آپﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ کو فطرت کی راہ بتائی گئی ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت پالی اور یا درکھئے کہ اگر آپﷺ نے شراب لی ہوتی تو آپﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں۔ دوظاہری اور دوباطنی ، ظاہری نہریں نیل وفرات تھیں۔یعنی ان کا عنصر تھا اور باطنی دونہریں جنت کی دونہریں ہیں۔ (نیل وفرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپﷺ کی رسالت نیل وفرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم )
آپﷺ نے مالک ، داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپﷺ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگا رے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپﷺ نے سود خوروں کوبھی دیکھا۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کر نے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپﷺ نے زنا کا روں کو بھی دیکھا۔ ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا۔ یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہر وں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں۔ (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں ، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے ) آپﷺ نے انہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ نیز دیکھئے: صحیح بخاری۔ ۱/۵۰ ، ۴۵۵ ، ۴۵۶ ، ۴۷۰ ، ۴۷۱، ۴۸۱، ۵۴۸،۵۴۹ ، ۵۵۰،۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۶
دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑ ے بڑے ٹیڑھے کا نٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا۔ اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔ 1
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جواللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت وضررسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں۔ اس پر اللہ نے آپﷺ کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ چنانچہ آپﷺ نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔ آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے۔ آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا پھر جیسا کچھ آپﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔ 2
کہاجاتا ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔ 3
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿١﴾ (۱۷: ۱)
''تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ) آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔''
اور انبیاء کرام کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ ارشاد ہے۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵)
''اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ کو آسمان وزمین کا نظامِ سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سابقہ حوالے۔ نیز ابن ہشام ۱/۳۹۷ ، ۴۰۲ -۴۰۶ اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ اسراء ۔
2 زاد المعاد ۱/۴۸ دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۶ ، ابن ہشام ۱/۴۰۲ ، ۴۰۳
3 ابن ہشام ۱/۳۹۹
اور موسی علیہ السلام سے فرما یا :
لِنُرِ‌يَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَ‌ى ﴿٢٣﴾ (۲۰: ۲۳)
''تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصد تھا۔ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵) (تاکہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرمادیا۔ چنانچہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کو اس کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں کہ ''شنید ہ کے بود مانند دیدہ'' اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھرکے پَر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذا رسانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔
اس واقعۂ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کا رفرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرارِ شریعت کی کتابیں ہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں ، جو اس مبارک سفر کے سر چشموں سے پُھوٹ کر سیرت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں، اس لیے یہاں مختصرا ًانہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کر کے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کے بیان کی جانب موڑدیا ہے۔ پھرانہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونوں باتیں بے جوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرمارہا ہے کہ اب یہود کو نوعِ انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہﷺ کو سونپا جائے گا اور دعوت ِ ابراہیمی کے دونوںمراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ بلفظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے۔ یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم وبدکاری سے بھری ہوئی ہے ، یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکے کے پہاڑوں میں لوگوں کے درمیا ن ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیا ت میں مشرکین کو کھلی وارننگ اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۶)
''اور جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے اصحا ب ِ ثروت کو حکم دیتے ہیں مگر وہ کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں، پس اس بستی پر (تباہی کا ) قول برحق ہوجاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔''
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۷)
''اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو تباہ کر دیا اور تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے۔''
پھر ان آیات کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد وضوابط اور دفعات ومبادی بتلائے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ گویا اب وہ کسی ایسی سرزمین پر اپنا ٹھکانا بناچکے ہیں، جہاں ہر پہلو سے ان کے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انہوں نے ایک ایسی وحدت متماسکہ بنالی ہے جس پر سماج کی چکی گھوما کرتی ہے۔ لہٰذا ان آیات میں اشارہ ہے کہ رسول اللہﷺ عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپﷺ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا۔
یہ اسرا ء ومعراج کے بابرکت واقعے کی تہہ میں پوشیدہ حکمتوں اور راز ہائے سر بستہ میں سے ایک ایسا راز اور ایک ایسی حکمت ہے جس کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کردیں۔ اسی طرح کی دوبڑی حکمتوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء کا واقعہ یا تو بیعت عقبۂ اولیٰ سے کچھ ہی پہلے کا ہے یا عقبہ کی دونوں بیعتوں کے درمیان کاہے۔ واللہ اعلم
پہلی بیعت عقبہ1

ہم بتاچکے ہیں کہ نبوت کے گیارہویں سال موسم ِ حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپﷺ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال موسمِ حج آیا ( یعنی ذی الحجہ ۱۲ نبوی، مطابق جولائی ۶۲۱ء ) تو بارہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب کو چھوڑ کر باقی پانچ وہی تھے جو پچھلے سال بھی آچکے تھے اور ان کے علاوہ سات آدمی نئے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں :
1 معاذ بن الحارث ، ابن عفراء قبیلۂ بنی النجار (خزرج)
2 ذکوان بن عبد القیس ؍؍ بنی زریق ( ؍؍ )
3 عباد ہ بن صامت ؍؍ بنی غنم (؍؍ )
4 یزید بن ثعلبہ ؍؍ بنی غنم کے حلیف (؍؍ )
5 عباس بن عبادہ بن نضلہ ؍؍ بنی سالم (؍؍ )
6 ابوالہیثم بن التیہان ؍؍ بنی عبد الاشہل (اوس)
7 عویم بن ساعدہ ؍؍ بنی عمرو بن عوف (؍؍)
ان میں صرف اخیر کے دوآدمی قبیلۂ اوس سے تھے۔ بقیہ سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تھے۔2ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی۔ یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 عقبہ (ع ، ق، ب تینوں کو زبر ) پہاڑ کی گھاٹی، یعنی تنگ پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے پر واقع ہے اس لیے اِسے جمرہ ٔ عقبہ کہتے ہیں۔اس جمرہ کا دوسرا نام جمرہ کبریٰ بھی ہے۔ باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ چونکہ منیٰ کا پورا میدان ، جہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔ ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے۔ اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے نبیﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔
2 ابن ہشام ۱/۴۳۱تا ۴۳۳
عَقَبَہ کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزادے دی جائے گی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔ پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے گا تو سزادے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔ حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپﷺ سے بیعت کی۔1
مدینہ میں اسلام کا سفیر :
بیعت پور ی ہوگئی اور حج ختم ہو گیا تو نبیﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ یثرب میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تا کہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے اور انہیں دین کے دروبست سکھائے اور جو لوگ اب تک شرک پر چلے آرہے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کرے۔ نبیﷺ نے اس سفارت کے لیے سابقین اولین میں سے ایک جوان کا انتخاب فرمایا۔ جس کا نام اور اسم گرامی مصعب بن عمیر عبدریؓ ہے۔
قابل رشک کامیابی:
حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ پہنچے تو حضرت اسعد بن زرارہؓ کے گھر نزول فرماہوئے۔ پھر دونوں نے مل کر اہلِ یثرب میں جوش خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ حضرت مصعب ؓ مُقری کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ (مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا۔ اس وقت معلم اور استاد کو مقری کہتے تھے )
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زرارہؓ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نامی کنویں پر بیٹھ گئے، ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبد الاشہل کے دونوں سردار، یعنی حضرت سعد بن معاذ ؓ اور حضرت اُسید بن حضیر (مسلمان نہیںہوئے تھے ) بلکہ شرک ہی پر تھے۔ انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد ؓ نے حضرت اُسید سے کہا کہ ذرا جاؤ اور ان دونوں کو ، جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں ، ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو۔ چونکہ اسعد بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے (اس لیے تمہیں بھیج رہا ہوں ) ورنہ یہ کام میں خود انجام دے دیتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح بخاری ، باب بعد باب حلاوۃ الایمان ۱/۷ ، باب وفود الانصار ۱/۵۵۰ ، ۵۵۱،(لفظ اسی با ب کا ہے ) باب قولہ تعالیٰ اذا جاء ک المؤمنات ۲/۷۲۷ ، باب الحدود کفارۃ ۲/۱۰۰۳ ۔
اسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور ان دونوں کے پاس پہنچے۔ حضرت اسعد ؓ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب ؓ سے کہا :یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پا س آرہا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا۔ حضرت مصعب ؓ نے کہا : اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔ اُسَیْد پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہوکرسخت سست کہنے لگے۔ بولے : تم دونوں ہمارے یہاں کیوں آئے ہو ؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو ! تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔
حضرت مصعبؓ نے کہا : کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کرلیں۔ پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔حضرت اسید نے کہا : بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد اپنا حربہ گاڑکر بیٹھ گئے۔ اب حضرت مصعب ؓ نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ ان کا بیان ہے کہ واللہ! ہم نے حضرت اُسید ؓ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی تو فرمایا: یہ تو بڑا عمدہ اور بہت ہی خوب تر ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہتے ہوتو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا : آپ غسل کرلیں۔ کپڑے پاک کرلیں۔ پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ انہوں نے اٹھ کر غسل کیا۔ کپڑے پاک کیے۔ کلمۂ شہادت ادا کیا اور دورکعت نماز پڑھی، پھر بولے : میرے پیچھے ایک اورشخص ہے ، اگر وہ تمہارا پیرو کار بن جائے تو اس کی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور میں اس کو ابھی تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ (اشارہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی طرف تھا )
اس کے بعد حضرت اُسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور پلٹ کر حضرت سعد ؓ کے پاس پہنچے۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرماتھے۔ (حضرت اُسید کو دیکھ کر) بولے: میں واللہ! کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص تمہارے پاس جو چہرہ لے کر آرہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لے کر گیا تھا۔ پھر جب حضر ت اُسید محفل کے پاس آن کھڑے ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ! مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا۔ ویسے میں نے انہیں منع کردیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے۔
اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ اسعدبن زرارہ کو قتل کر نے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد آپ کی خالہ کا لڑکا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کا عہد توڑ دیں۔ یہ سن کر سعد غصے سے بھڑک اٹھے اور اپنا نیز ہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ سمجھ گئے کہ اُسید کا منشا یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے۔ پھر اسعد بن زرارہ کو مخاطب کر کے بولے : اللہ کی قسم اے ابو امامہ !اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اس کی امید نہ رکھ سکتے تھے۔ ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں ؟
ادھر حضرت اسعد ؓ نے حضرت مُصعب ؓ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ واللہ! تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے، جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی توپھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔ اس لیے حضرت مصعب ؓ نے حضرت سعد سے کہا : کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ حضرت سعد نے کہا : انصاف کی بات کہتے ہو ، اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب ؓ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں حضرت سعد کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا : تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا :آپ غسل کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں ، پھر دورکعت نماز پڑھیں۔ حضرت سعدؓ نے ایسا ہی کیا۔
اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھا یا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لو گوں نے دیکھتے ہی کہا : ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعدؓ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسراہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب حضرت سعدؓ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل ! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا : اچھا تو سنو ! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م اُصیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہو ا کام آگیا۔ اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔
حضرت مصعب ؓ ، حضرت اسعد ؓ بن زرارہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکی ہوں۔ صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشہور شاعر ابو قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔ اس شاعر نے انہیں جنگ خندق ( ۵ ہجری ) تک اسلام سے روکے رکھا۔ بہرحال اگلے موسمِ حج، یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسمِ حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیرؓ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپﷺ کو قبائل یثرب کے حالات ، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں ، اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔ 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۳۵-۵۳۸ ، ۲/۹۰، زادالمعاد ۲/۵۱
دوسری بیعت عقبہ

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج - جون ۶۲۲ ء - میں یثرب کے ستر سے زیادہ مسلمان فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے اور ابھی یثرب ہی میں تھے ، یامکے کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کو یوں ہی مکے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے ، ٹھوکریں کھا تے ، اور خوفزدہ کیے جاتے چھوڑے رکھیں گے ؟
پھر جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو درپردہ نبیﷺ کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کی اور آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں فریق ایام تشریق 1کے درمیانی دن - ۱۲؍ ذی الحجہ کو - منیٰ میں جمرہ ٔ اولیٰ، یعنی جمرہ ٔ عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اسی میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں بالکل خفیہ طریقے پر ہو۔
آیئے اب اس تاریخی اجتماع کے احوال ، انصار کے ایک قائد کی زبانی سنیں کہ یہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام وبت پرستی کی جنگ میں رفتارِزمانہ کا رخ موڑ دیا۔
حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں :
''ہم لوگ حج کے لیے نکلے۔ رسول اللہﷺ سے ایام تشریق کے درمیانی روز عَقَبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں رسول اللہﷺ سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبد اللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے ) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا - ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے - مگر ہم نے عبد اللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا: اے ابوجابر ! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہﷺ سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ ''
حضرت کعبؓ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم لو گ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے ، لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہﷺ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ماہ ذی الحجہ کی گیارہ بارہ ، تیرہ تاریخوں کو ایامِ تشریق کہتے ہیں۔
کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہوگئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتر مرد اور دو عورتیں ایک ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں۔ جو قبیلہ بنومازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع اسماء بنت عمرو تھیں۔ جن کا تعلق قبیلہ بنوسلمہ سے تھا۔
ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہﷺ کا انتظار کر نے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بن عبد المطلب بھی تھے۔ وہ اگر چہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملہ میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔1
گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس ؓ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح :
مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد وپیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کردیں جو اس عہد وپیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
خزرج کے لوگو ! عام اہل ِ عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے، یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے - ہمارے اندر محمدﷺ کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطۂ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے محمدﷺ کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت وعزت اور طاقت وحفاظت کے اندر ہیں۔ مگر اب وہ تمہارے یہاں جانے اور تمہارے ساتھ لاحق ہونے پر مصر ہیں۔ لہٰذا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم انہیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو اسے نبھالو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچالو گے تب تو ٹھیک ہے۔ تم نے جو ذمے داری اٹھائی ہے اسے تم جانو لیکن اگر تمہارایہ اندازہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کش ہوجاؤ گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہر حال عزت وحفاظت سے ہیں۔
حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عباس ؓ سے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسول ! آپ گفتگو فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو عہد وپیمان پسند کریں۔ 2
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم ذمے داری کو اٹھا نے اور اس پر خطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۰، ۴۴۱
2 ابن ہشام ۱/۴۴۱ ، ۴۴۲
کے عزمِ محکم ، شجاعت وایمان اور جوش واخلاص کا کیا حال تھا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے گفتگو فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی، اس کے بعد بیعت ہوئی۔
بیعت کی دفعات:
بیعت کا واقعہ امام احمدؒ نے حضرت جابرؓ سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟آپﷺ نے فرمایا : اس بات پر کہ :
چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔
تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے۔
بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔
اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پروا نہ کرو گے۔
اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہوا س سے میری بھی حفاظت کرو گے۔ اور تمہارے لیے جنت ہے۔ 1
حضرت کعبؓ کی روایت میں ...جسے ابنِ اسحاق نے ذکر کیا ہے...صرف آخری دفعہ (۵) کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے قرآن کی تلاوت ، اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی ترغیب دینے کے بعد فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر حضرت براء ؓ بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ہاں! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے! ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں...لہٰذا اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے بیعت لیجئے۔ ہم اللہ کی قسم! جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے۔ ہماری یہی ریت باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔
حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ حضرت براء رسول اللہﷺ سے بات کرہی رہے تھے کہ ابو الہثیم بن تیہان نے بات کاٹتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اور کچھ لوگوں...یعنی یہود...کے درمیان -عہد وپیمان کی- رسیاں ہیں اور اب ہم ان رسیوں کو کاٹنے والے ہیں ، تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم ایسا کر ڈالیں پھر اللہ آپﷺ کو غلبہ وظہور عطا فرمائے تو آپﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسے امام احمد بن حنبل نے حسن سند سے روایت کیا ہے ۳/۳۲۲، بیہقی نے سنن کبریٰ میں روایت کیا ہے ۹/۹ اور اما م حاکم اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ ابن اسحاق نے قریب قریب یہی چیز حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت کی ہے۔ البتہ اس میں ایک دفعہ کااضافہ کیا ہے جو یہ ہے کہ ہم اہلِ حکومت سے حکومت کے لیے نزاع نہ کریں گے۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۴۵۴
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، پھر فرمایا : (نہیں)بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون اور آپ لوگوں کی بربادی میری بربادی ہے۔ میں آپ سے ہوں اور آپ مجھ سے ہیں۔ جس سے آپ جنگ کریں گے اس سے میں جنگ کروں گا اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے میں صلح کروں گا۔ 1
خطر ناکی ٔ بیعت کی مکر ر یاد دہانی:
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی ، اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو صفِ اول کے دو مسلما ن جو ۱۱ نبوت او ر ۱۲ نبوت کے ایام حج میں مسلمان ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے اٹھے تاکہ لوگوں کے سامنے ان کی ذمے داری کی نزاکت اور خطرناکی کو اچھی طرح واضح کردیں اور یہ لوگ معاملے کے سارے پہلو ؤں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی بیعت کریں۔ اس سے یہ بھی پتہ لگانا مقصود تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے تو حضرت عباس ؓ بن عبادہ بن نضلہ نے کہا : تم لوگ جانتے ہوکہ ان سے (اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ) کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباسؓ نے کہا: تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دوگے تو ابھی سے چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہدنبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو۔ کیونکہ یہ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
اس پر سب نے بیک آواز کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ہاں ! اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : جنت۔ لوگوں نے عرض کی: اپنا ہاتھ پھیلائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیلا یا اور لوگوں نے بیعت کی۔ 2
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ نے ... جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے...آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : اہل یثرب ! ذراٹھہر جاؤ۔ ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے ۲کلیجے مار کر (لمبا چوڑا سفر کرکے ) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آج آپﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی ، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل ، اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو۔اور تمہارا اجر اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۲
2 ایضاً ۱/۴۴۶
پر ہے اور اگر تمہیںاپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہوگا۔1
بیعت کی تکمیل:
بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہوچکی تھیں ، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہوچکی تھی۔ اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا : اسعد بن زرارہ ! اپنا ہاتھ ہٹا ؤ۔ اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔2
اس جواب سے حضرت اسعدؓ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ قوم کس حد تک اس راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہے -- درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہ حضرت مُصعب بن عُمیر کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ اس لیے طبعی طور پر وہی ان بیعت کنندگان کے دینی سربراہ بھی تھے اور اسی لیے سب سے پہلے انہیں نے بیعت بھی کی۔ چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ بنو النجار کہتے ہیں کہ ابوامامہ اسعدبن زرارہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ سے ہاتھ ملایا۔ 3اورا س کے بعد بیعتِ عامہ ہوئی۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک آدمی کر کے اٹھے اور آپﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔4
باقی رہیں دوعورتیں جو اس موقعے پر حاضر تھیں تو ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔5
بارہ نقیب:
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں۔ جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔ آپ کا ارشاد تھا کہ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ نو خَزَرج سے منتخب کیے گئے اور تین اَوس سے۔ نام یہ ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند احمد حضرت جابرؓ سے ۳/۳۲۲۔ بیہقی ، سنن کبریٰ ۹/۹
2 ایضاً سابقہ حوالے
3 ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ بنوعبد الاشہل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ابو الہثیم بن تیہان نے بیعت کی اور حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ براء بن معرور نے کی (ابن ہشام ۱/۴۴۷) راقم کا خیال ہے کہ ممکن ہے بیعت سے پہلے نبیﷺ سے حضرت ابوالہثیماور براء کی جو گفتگو ہوئی تھی۔ لوگوں نے اسی کو بیعت شمار کرلیا ہو۔ ورنہ اس وقت آگے بڑھائے جانے کے سب سے زیادہ حقدار حضرت اسعد بن زرارہ ہی تھے۔ واللہ اعلم
4 مسند احمد ۳/۳۲۲ 5 دیکھئے : صحیح مسلم باب کیفیۃ بیعۃ النساء ۲/۱۳۱
خزر ج کے نقباء:
۱۔ اسعد بن زرارہ بن عدس ۲۔ سعد بن ربیع بن عَمرو
۳۔ عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ ۴۔رافع بن مالک بن عجلان
۵۔براء بن معرور بن صخر ۶۔ عبد اللہ بن عَمرو بن حرام
۷۔ عبادہ بن صامت بن قیس ۸۔ سَعد بن عُبادہ بن دلیم
۹۔ مُنذر بن عَمرو بن خنیس
اوس کے نقباء :
۱۔اُسید بن حضیر بن سماک ۲۔ سعد بن خیثمہ بن حارث
۳۔ رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر1
جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔2
شیطان معاہدہ کا انکشاف کرتا ہے:
معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا۔ چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچادی جائے، اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء ٹوٹ پڑیں ، اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں۔ اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے ، جو شاید ہی کبھی سنی گئی ہو ، یہ پکارلگائی : خیمے والو! محمد (ﷺ ) کو دیکھو۔ اس وقت بددین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے۔ او اللہ کے دشمن ! سن ، اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہورہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔3
قریش پر ضرب لگانے کے لیے انصار کی مستعدی:
اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس عبادہ بن نضلہؓ نے فر مایا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زبیر ، حرف ب سے ، بعض لوگوں نے ب کی جگہ ن کہا ہے یعنی زنیر۔ بعض اہل ِ سیر نے رفاعہ کے بدلے ابو الہثیم بن تیہان کا نام درج کیا ہے ۔
2 ابن ہشام ۱/۴۴۳، ۴۴۴، ۴۴۶ 3 ابن ہشام ۱/۴۴۷، زاد المعاد ۲/۵۱
ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔ اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔1
رؤساء یثرب سے قریش کا احتجاج:
یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا ، اور یوں عرض پرداز ہوا۔
خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔2
لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے ، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہیں نہیں۔ بالآخر یہ وفد عبد اللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ بھی کہنے لگا یہ باطل ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے ، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کاکام کرڈالے۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔
باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اورچپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔
خبر کا تیقن اور بیعت کرنے والوں کا تعاقب:
رؤساء مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے، لیکن اس کی کرید میں وہ برابر لگے رہے۔ بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے لیکن یہ پتہ اس وقت چلا جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے۔ اس لیے ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا لیکن موقع نکل چکا تھا۔ البتہ انہوں نے سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو کو دیکھ لیا اور انہیں جا کھدیڑا لیکن منذرزیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے اور نکل بھا گے۔ البتہ سعد بن عبادہ پکڑ لیے گئے اور ان کا ہاتھ گردن کے پیچھے انہیں کے کجاوے کی رسی سے باندھ دیا گیا۔ پھر انہیں مارتے پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے مکہ لے جایا گیا لیکن وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۸ 2 ایضاً ۱/۴۴۸
نے آکر چھڑادیا۔ کیونکہ ان دونوں کے جو قافلے مدینے سے گزرتے تھے۔ وہ حضرت سعد ؓ ہی کی پناہ میں گزرتے تھے۔ ادھر انصار ان کی گرفتاری کے بعد باہم مشورہ کررہے تھے کہ کیوں نہ دھا وا بول دیا جائے، مگر اتنے میں وہ دکھائی پڑگئے اس کے بعد تمام لوگ بخیر یت مدینہ پہنچ گئے۔1
یہی عقبہ کی دوسری بیعت ہے جسے بیعتِ عقبہ کُبریٰ کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ایک ایسی فضا میں زیر عمل آئی جس پر محبت ووفاداری ، منتشر اہلِ ایمان کے درمیان تعاون وتناصر ، باہمی اعتماد ، اورجاں سپاری وشجاعت کے جذبات چھا ئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یثربی اہلِ ایمان کے دل اپنے کمزور مکی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے ، ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم وغصہ تھا۔ ان کے سینے اپنے اس بھائی کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر محض للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے لیا تھا۔
اور یہ جذبات واحساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے۔ جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ ، ایمان بالرسول اور ایمان بالکتاب تھا۔ یعنی وہ ایمان جوظلم وعدوان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا۔ وہ ایمان کہ جب اس کی باد بہاری چلتی ہے تو عقیدہ وعمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحاتِ زمانہ پر ایسے ایسے کارنامے ثبت کیے اور ایسے ایسے آثار ونشانات چھوڑے کہ ان کی نظیر سے ماضی وحاضر خالی ہیں اور غالباً مستقبل بھی خالی ہی رہے گا۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
! زاد المعاد ۲/۵۱، ۵۲۔ ابن ہشام ۱/۴۴۸ - ۴۵۰
ہجرت کے ہر اول دستے

جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی۔ اسلام ، کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا -- اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی -- تو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں۔
ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میںہے۔ ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے۔ پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونماہوں گے۔
مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی۔ ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں۔ ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہؓ تھے۔ انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی ، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے۔ جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان۔ اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں ؟ چنانچہ انہوںنے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔ اس پر ا بوسلمہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوںنے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے۔ چنانچہ دونوں فریق نے اس بچے کو اپنی اپنی طرف کھینچا جس سے اس کا ہاتھ اکھڑ گیا اور ابوسلمہ ؓ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ابوسلمہ ؓ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔ اس کے بعد حضرت ام سلمہ ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روز انہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں۔(جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا) اور شام تک روتی رہتیں۔ اسی حالت میں ایک سال گزر گیا۔ بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کوترس آگیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے ؟ اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے۔ اس پر ام سلمہؓ سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے بیٹے کو اس ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں۔ اللہ اکبر ! کوئی پانچ سو کیلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں۔ جب تَنَعِیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا۔ اسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہو ا مدینہ پہنچانے لے گیا اور جب قباء کی آبادی نظر آئی تو بولا : تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے اسی میں چلی جاؤ۔ اللہ برکت دے۔ اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا۔1
! حضرت صہیب ؓ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا : تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیر وفقیر تھے لیکن یہاں آکر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے۔ اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دوتو واللہ ایسا نہیں ہوسکتا، حضرت صہیب ؓ نے کہا: اچھایہ بتاؤ کہ اگر میںا پنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ! حضرت صہیب ؓ نے کہا: اچھا تو پھر ٹھیک ہے ، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔ رسول اللہﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا : صہیب ؓ نے نفع اٹھایا۔ صہیب ؓ نے نفع اٹھایا۔2
" حضرت عمر بن خطابؓ ، عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل نے آپس میں طے کیا کہ فلاں جگہ صبح صبح اکٹھے ہوکر وہیں سے مدینہ کو ہجرت کی جائے گی۔ حضرت عمرؓ اور عیاش تو وقت مقررہ پر آگئے لیکن ہشام کو قید کر لیا گیا۔
پھر جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے توعیاش کے پاس ابوجہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے۔ تینوںکی ماں ایک تھی۔ ان دونوں نے عیاش سے کہا : تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی سر میں کنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی۔ یہ سن کر عیاش کو اپنی ماں پر ترس آگیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ کیفیت دیکھ کر عیاش سے کہا : عیاش ! دیکھو اللہ کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ کی قسم! اگر تمہاری ماں کو جوؤں نے اذیت پہنچائی توکنگھی کرلے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی۔ مگر عیاش نہ مانے ، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو۔ یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے۔ اس کی پیٹھ نہ چھوڑ نا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔
عیاش اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا : بھئی میرا یہ اونٹ تو بڑاسخت نکلا۔ کیوں نہ تم مجھے بھی اپنی اس اونٹنی پر پیچھے بٹھالو۔ عیاش نے کہا : ٹھیک ہے اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی۔ ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاںبٹھائیں۔ تاکہ ابوجہل عیاش کی اونٹنی پر پلٹ آئے ، لیکن جب تینوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۶۸، ۴۶۹، ۴۷۰
2 ایضاً ۱/۴۷۷
زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک عیاش پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا کہ اے اہلِ مکہ ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔1
عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے۔ اس کے یہ تین نمونے ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے۔ چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علی ؓ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا -- یہ دونوں حضرات رسول اللہﷺ کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے،البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا۔ رسول اللہﷺ بھی اپنا ساز وسامان تیار کر کے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کا رخت سفر بھی بندھا ہواتھا۔2
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا: مجھے تمہارا مقامِ ہجرت دکھلایا گیا ہے۔ یہ لاوے کی دوپہاڑوں کے درمیان واقع ایک نخلستانی علاقہ ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے مدینے کی جانب ہجرت کی۔ عام مہاجرین حبشہ بھی مدینہ ہی آگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی سفرِ مدینہ کے لیے سازوسامان تیار کرلیا۔ (لیکن) رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا : ذرا رُکے رہو کیونکہ توقع ہے مجھے بھی اجازت دے دی جائے گی۔ ابوبکرؓ نے کہا: میرے باپ آپ پر فدا۔ کیا آپ کو اس کی امید ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ہاں۔ اس کے بعد ابوبکرؓ رکے رہے۔ تاکہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کریں۔ ان کے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ انھیں بھی چار ماہ تک ببول کے پتوں کا خوب چارہ کھلایا۔3
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ہشام اور عیاش کفار کی قید میں پڑے رہے۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت فرماچکے تو آپ نے ایک روز کہا۔ کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش کو چھڑا لائے۔ ولید بن ولید نے کہا: میں آپ کے لیے ان کو لانے کا ذمہ دار ہوں۔ پھر ولید خفیہ طور پر مکہ گئے اور ایک عورت (جو ان دونوں کے پاس کھانا لے جارہی تھی اس کے) پیچھے پیچھے جاکر ان کا ٹھکانا معلوم کیا۔ یہ دونوں ایک بغیر چھت کے مکان میں قید تھے۔ رات ہوئی تو حضرت ولید دیوار پھلانگ کر ان دونوں کے پاس پہنچے۔اور بیڑیاں کاٹ کر اونٹ پر بٹھایا اور مدینہ بھاگ آئے۔ ابن ہشام ۱/۴۷۴ -۴۷۶ اور حضرت عمرؓ نے بیس صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ صحیح بخاری ۱/۵۵۸
2 زاد المعاد ۲/۵۲
3 صحیح البخاری ، باب ہجرۃ النبیﷺ واصحابہ ۱/۵۵۳
قریش کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں

جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کولا دپھاند کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جاپہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا۔ غم والم کے لاوے پھوٹ پڑے اور انہیں ایسا رنج وقلق ہوا کہ اس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جوان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا۔
مشرکین کو معلوم ہوا تھا کہ محمدﷺ کے اندر کمال قیادت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپﷺ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے۔ پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں۔
انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے۔ درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی۔ اہل ِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔
ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے۔ چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا ، جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمدﷺ ہی تھے۔
مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد ۲۶؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲/ ستمبر ۶۲۲ یوم جمعرات 1کو دن کے پہلے پہر 2مکے کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ تاریخ علامہ منصور پوری کی درج کردہ تحقیقات کی روشنی میں متعین کی گئی ہے۔ رحمۃ للعالمین ۱/۹۵، ۹۷،۱۰۲ ، ۲/۴۷۱
2 پہلے پہر اس اجتماع کے منعقد ہونے کی دلیل ابن اسحاق کی وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبیﷺ کی خدمت میں اس اجتماع کی خبر لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ صحیح بخاری میں مروی حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کو ملا لیجئے کہ نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ''مجھے روانگی کی اجازت دے دی گئی ہے۔'' روایت بہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
منعقد کیا اور اس میں قریش کے تمام قبائل کے نمائندوں نے شرکت کی۔ موضوع بحث ایک ایسے قطعی پلان کی تیاری تھی جس کے مطابق اسلامی دعوت کے علمبردار کا قصہ بہ عجلت تمام پاک کردیا جائے اور اس دعوت کی روشنی کلی طور پر مٹادی جائے۔
اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے:
ابوجہل بن ہشا م قبیلہ ٔ بنی مخزوم سے۔
جبیر بن مطعم ، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے
شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے
ابو البختری بن ہشام ، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے
امیہ بن خلف بنی جمح سے
وقتِ مقررہ پر نمائندگان دار الندوہ پہنچے تو ابلیس بھی ایک شیخ جلیل کی صورت ، عبا اوڑھے ، راستہ روکے ، دروازے پر آن کھڑا ہو ا۔ لوگوں نے کہا: یہ کون شیخ ہیں ؟ ابلیس نے کہا :یہ اہلِ نجد کا ایک شیخ ہے۔ آپ لوگوں کا پروگرام سن کر حاضر ہوگیا ہے۔ باتیں سننا چاہتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ آپ لوگوں کو خیر خواہانہ مشور ے سے بھی محروم نہ رکھے۔ لوگوں نے کہا : بہتر ہے آپ بھی آجائیے۔ چنانچہ ابلیس بھی ان کے ساتھ اندر گیا۔
پارلیمانی بحث اور نبیﷺ کے قتل کی ظالمانہ قرارداد پر اتفاق:
اجتماع مکمل ہوگیا تو تجاویز اور حل پیش کیے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی۔ پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کردیں، پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہا ں رہتا ہے۔ بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی۔
مگر شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم ! یہ مناسب رائے نہیں ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اس کے ذریعے کس طرح لوگوں کا دل جیت لیتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا تو کچھ اطمینان نہیں کہ وہ عرب کے کسی قبیلے میں نازل ہوا ور انہیں اپنا پیروبنا لینے کے بعد تم پر یورش کردے ، اور تمہیں تمہارے شہر کے اندر روند کرتم سے جیسا سلوک چاہے کرے۔ اس کے بجائے کوئی اور تجویز سوچو۔
ابوالبختری نے کہا: اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو۔ پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلا: زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے۔
شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ بھی مناسب رائے نہیں۔ واللہ !اگر تم لوگوں نے اسے قید کردیا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو اس کی خبر بند دروازے سے باہر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی۔ پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پردھاوا بول کر اس شخص کو تمہارے قبضے سے نکال لے جائیں۔ پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کرلیں-- لہٰذا یہ بھی مناسب رائے نہیں، کوئی اور تجویز سوچو۔
یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ رد کر چکی تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی۔ جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا۔ اس نے کہا : اس شخص کے بارے میں میری ایک رائے ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے ، لوگوں نے کہا : ابوالحکم وہ کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میری رائے یہ ہے کہ ہم ہرہر قبیلے سے ایک مضبوط ، صاحبِ نسب اوربان کا جوان منتخب کر لیں، پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں۔ اس کے بعد سب کے سب اس شخص کا رخ کریں اوراس طرح یکبار گی تلوار مار کر قتل کردیں ، جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو۔ یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے۔ لہٰذادیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے۔1
شیخ نجدی نے کہا : بات یہ رہی جوا س جوان نے کہی۔ اگر کوئی تجویز اور رائے ہوسکتی ہے تو یہی ہے، دیگر ہیچ۔
اس کے بعد پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۰- ۴۸۲
نبیﷺ کی ہجرت

قریش کی تدبیر اور اللہ کی تد بیر:
مذکورہ قسم کے اجتماع کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اس میں انتہائی رازداری برتی جاتی ہے اور ظاہری سطح پر کوئی ایسی حرکت سامنے نہیں آنے دی جاتی جو روز مرہ کے معمول کے خلاف اور عام عادات سے ہٹ کر ہو تاکہ کوئی شخص خطرے کی بوسونگھ نہ سکے اور کسی کے دل میں خیال نہ آئے کہ یہ خاموشی کسی خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ قریش کا مکر یا داؤ پیچ تھا۔ مگر یہ مکر انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے انہیں ایسے ڈھنگ سے ناکام کیا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، چنانچہ جب نبیﷺ کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپﷺ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔1
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمالیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابوبکرؓ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابوبکرؓ سے کہا: یہ رسول اللہﷺ سرڈھان کے تشریف لارہے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپﷺ تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپﷺ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اجازت طلب کی۔ آپﷺ کو اجازت دی گئی اور آپﷺ اندر داخل ہوئے۔ پھر ابو بکرؓ سے فرمایا : تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو۔ ابوبکرؓ نے کہا : بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں۔ آپ پر میرے باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول! (ﷺ ) آپ نے فرمایا : اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے۔ ابوبکر ؓ نے کہا : ساتھ ......اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں۔2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۲ ، زاد المعاد ۲/۵۲
2 صحیح بخاری باب ہجرۃ النبیﷺ ۱/۵۵۳، اور ہجرت کے لیے دیکھئے : بخاری کی حدیث نمبر ۴۶۷، ۲۱۳۸، ۲۲۶۳، ۲۲۶۴، ۲۲۹۷، ۳۹۰۵، ۴۰۹۳، ۵۸۰۷،۶۰۷۹
اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہﷺ اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
رسول اللہﷺ کے مکان کا گھیراؤ:
ادھر قریش کے اکابرمجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دار الندوہ کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزاری اور اس مقصد کے لیے ان ا کابرمجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کیے گئے جن کے نام یہ ہیں :
ابوجہل بن ہشام ! حَکم بن عاص
عُقبہ بن ابی معیط 3 نضر بن حارث
اُمیہ بن خلف 5 زَمْعَہْ بن الاسود
طُعَیْمہ بن عدی ' ابولہب
( اُبی بن خلف ) نُبَیہ بن الحجاج
اور اس کا بھائی مُنَبہّ بن الحجاج1
نبیﷺ کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں تہجد کی نماز ادا فرماتے۔ اس رات آپ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سوجائیں اور آپ کی سبز حضرمی (۲)چادر اوڑھ لیں۔ یہ بھی بتلادیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ (آپﷺ وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے)
ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا ، اور عام لوگ اپنی خوابگاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا افراد نے خفیہ طور پر نبیﷺ کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے۔ وہ حضرت علیؓ کودیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ آپﷺ سوئے ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظار کرنے لگے کہ آپ اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ کو قتل کردیں۔
ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی۔ یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور پُر غرور انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا : محمد (ﷺ ) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے۔ پھر تم مرنے کے بعد اٹھا ئے جاؤ گے اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۲ 2 حضرموت (جنوبی یمن ) کی بنی ہوئی چادر حضرمی کہلاتی ہے۔
تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے۔1
بہرحال اس سازش کے نفاذ کے لیے آدھی رات کے بعد کا وقت مقرر تھا۔ اس لیے یہ لوگ جاگ کر رات گزار رہے تھے اور وقتِ مقررہ کے منتظر تھے ، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہ جوچاہتاہے کرتا ہے۔ جسے بچانا چاہے کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا اورجسے پکڑنا چاہے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پروہ کام کیا جسے ذیل کی آیت کریمہ میں رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ ۚ وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ (۸:۳۰)
''وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف مکر کررہے تھے تاکہ تمہیں قید کردیں یاقتل کردیں یانکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والاہے۔''
رسول اللہﷺ اپنا گھر چھوڑتے ہیں:
بہر حال قریش اپنے پلان کے نفاذکی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے کیونکہ رسول اللہﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے۔ مشرکین کی صفیں چیر یں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپﷺ کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپﷺ یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے :
وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُ‌ونَ (۳۶: ۹)
''ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔''
اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا۔ جس کے سر پر آپﷺ نے مٹی نہ ڈالی ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔2
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کررہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی ونامرادی کا علم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اورانہیں آپﷺ کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: محمد(ﷺ )کا۔اس نے کہا : آپ لوگ ناکام ونامراد ہوئے۔ اللہ کی قسم ! محمد(ﷺ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۲، ۴۸۳ 2 ایضاً ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲
تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔ انہوں نے کہا :واللہ! ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔
لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علیؓ نظر آئے۔ کہنے لگے :اللہ کی قسم ! یہ تو محمد(ﷺ ) سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علیؓ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کہا ں ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا : مجھے معلوم نہیں۔1
گھر سے غار تک:
رسول اللہﷺ ۲۷ ؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲ - ۱۳ ستمبر ۶۲۲ ء2کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاںسے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد، یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔
چونکہ نبیﷺ کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپﷺ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر اول و ہلہ میں نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا۔ یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپﷺ نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے۔ یہ نہایت بلند ، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں۔ جن سے رسول اللہﷺ کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکرؓ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپﷺ کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جاپہنچے جو تاریخ میں ''غارِ ثور'' کے نام سے معروف ہے۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲
2 رحمۃ للعالمین ۱/۹۵ صفر کا یہ مہینہ چودھویں سنہ نبوت کا اس وقت ہوگا جب سنہ کا آغاز محرم کے مہینے سے مانا جائے اور اگر سنہ کی ابتداء اسی مہینے سے کریں۔ جس میں آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا گیا تھا تو صفر کا یہ مہینہ قطعی طور پر تیرہویں سنہ نبوت کا ہوگا۔ عام اہل سیر نے کہیں پہلا حساب اختیار کیا ہے اور کہیں دوسرا، جس کی وجہ سے واقعات کی ترتیب میں خبط اور غلطی میں پڑ گئے ہیں ہم نے سنہ کا آغاز محرم سے مانا ہے۔
3 مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۶۷
غار میں:
غار کے پاس پہنچ کر ابوبکرؓ نے کہا: اللہ کے لیے ابھی آپﷺ اس میں داخل نہ ہوں۔ پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپﷺ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اندر گئے اور غار کو صاف کیا۔ ایک جانب چند سوراخ تھے۔ انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا لیکن دو سوراخ باقی بچ رہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دونوںمیں اپنے پاؤں ڈال دیے۔ پھر رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔
آپﷺ اندرتشریف لے گئے اور حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر ابوبکرؓ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا۔ مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہﷺ جاگ نہ جائیں لیکن ان کے آنسو رسول اللہﷺ کے چہرے پر ٹپک گئے۔ (اور آپﷺ کی آنکھ کھل گئی) آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ؓ تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے رسول اللہﷺ نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔1
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ ، سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میںچھپ کر گزاریں۔ 2 اس دوران ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبد اللہ بھی یہیں رات گزارتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک ، سخن فہم نوجوان تھے۔ سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے ، اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔ پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔
ادھر حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فُہَیْرَہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فُہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔3(مزید یہ کہ ) عامر بن فہیرہ ، حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا۔ (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا ) اور یہی موت کا سبب بنا۔ دیکھئے: مشکوٰۃ ۲/۵۵۶، باب مناقب ابی بکر۔
2 فتح الباری ۷/۳۳۶ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۴
4 ابن ہشام ۱/۴۸۶
قریش کی تگ و دَو:
ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علیؓ پر اتارا آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے۔1لیکن جب حضرت علیؓ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو ابوبکرؓ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا :تمہارے ابا کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا: واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہا ں ہیں۔ اس پر کمبخت خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی۔2
اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کر کے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں۔ چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جوکوئی رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یامردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا۔ 3اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات ِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں ، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا۔
تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ابوبکرؓ نے فرمایا: میں نبیﷺ کے ساتھ غار میں تھا۔ سر اٹھا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! خاموش رہو (ہم ) دوہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
((ما ظنک یا أبا بکر باثنین اللہ ثالثھما۔)) 4
'' ابوبکر ! ایسے دوآدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ جن کا تیسرا اللہ ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تاریخ طبری ۲/۳۷۴ 2 ابن ہشام ۱/۴۸۷ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۴
4 ایضاً ۱/۵۱۶ ، ۵۵۸۔ایسا ہی مسند احمد ۱/۴ میں ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابو بکرؓ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا۔ جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ابوبکرؓ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہﷺ پر آپ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا : اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو۔ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ دیکھئے: مختصرالسیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۱۶۸
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے۔ جب آپﷺ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔
مدینہ کی راہ میں:
جب جستجو کی آگ بجھ گئی۔ تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا۔ عبد اللہ بن اریقط لَیْثی سے ، جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا۔ یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا۔ اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہواتھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول ۱ ھ کی چاند رات تھی (مطابق ۱۶؍ستمبر ۶۲۲ ء) عبد اللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا اور اسی موقع پر ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ میری ان دوسواریوں میں سے ایک قبول فرمالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیمتاً
ادھر اسماء بنت ابی بکر ؓ بھی زاد سفر لے کر آئیں۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دوحصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب ذاتُ النّطاقین پڑ گیا۔1
اس کے بعد رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ نے کوچ فرمایا۔ عامر بن فُہیرہؓ بھی ساتھ تھے۔ دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دورتک لے گیا۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے۔شمال کی طرف مڑ گیا ، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا۔
رسول اللہﷺ اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب راہنماآپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیرین مکہ سے لے چلا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیر ین عسفان سے راستہ کاٹا ، پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قد ید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کا ٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہو ا خرار سے گزرا۔ پھر ثنیۃ المرہ سے ، پھر لقف سے ، پھر بیابان لقف سے گزرا ، پھر مجاح کے بیابان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶
میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا۔ پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا۔ پھر ذی کشرکی وادی میں داخل ہوا۔ پھر جدا جدکا رخ کیا۔ پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابا ن تعہن کے وادئ ذو سلم سے گزرا۔ وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا۔ پھر عرج میں اترا۔ پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قبا ء پہنچ گیا۔1
آیئے ! اب راستے کے چند واقعات بھی سنتے چلیں:
صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھراور دن میں دوپہر تک چلتے رہے۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا ، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی جس کے سائے پردھوپ نہیں آئی تھی۔ ہم وہیں اترپڑے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبیﷺ کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔ آپﷺ سو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش کی دیکھ بھا ل کے لیے نکلا۔ اچانک کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جوہم نے چاہا تھا۔ میں نے اس سے کہا : اے جوان تم کس کے آدمی ہو ؟ اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔ 2میں نے کہا: تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے ؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: دوھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا:ہاں اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: ذرا تھن کومٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔ اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ میں نبیﷺ کے پاس آیا لیکن گوارانہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ ) ! پی لیجئے۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا: ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں کہا: کیوں نہیں ؟ اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔3
اس سفر میں ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبیﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے۔ یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ انہیں کی طرف جاتی تھی۔ نبیﷺ پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کم جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکرؓ سے پوچھتا کہ یہ آپ کے آگے کون ساآدمی ہے ؟ (حضرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۹۱، ۴۹۲ 2 ایک روایت میں ہے کہ اس نے قریش کے ایک آدمی کا بتلایا ۔
3 صحیح البخاری ۱/۵۱۰
ابوبکرؓ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : ''یہ آدمی مجھے راستہ بتا تا ہے۔'' اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔1
" اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپﷺ کا گزر اُمّ معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہو ا۔ یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔ اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں۔ ہاتھ میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں : واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں۔ یہ قحط کا زمانہ تھا۔
رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے۔ فرمایا : ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں:اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ بولیں : وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اجازت ہے کہ اسے دھو لوں؟ بولیں: ہاں ،میرے ماں باپ تم پر قربان۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دھولو۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہﷺ نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اوردعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلادیئے۔ تھن میں بھر پور دودھ اُتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا۔ پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کوپلایا۔ وہ بھی شکم سیر ہوگئے توخود پیا ، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنادودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام ِ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو ، جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے۔ پوچھا :یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ؟ بولیں: واللہ! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔ ابومعبد نے کہا: یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کررہے ہیں۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔ اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپﷺ کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپﷺ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے -- کتا ب کے اخیر میں یہ اوصاف درج کیے جائیں گے -- یہ اوصاف سن کر ابو معبد نے کہا : واللہ! یہ تو وہی صاحبِ قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ آپﷺ کی رفاقت اختیا ر کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا۔
ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑرہا تھا۔ آواز یہ تھی :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح البخاری عن انس ۱/۵۵۶
جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد


''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے۔ وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جومحمدﷺ کا رفیق ہو اوہ کامیاب ہوا۔ ہائے قصی ! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو۔ تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو۔ تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی۔''
حضرت اسماء ؓکہتی ہیں: ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیرین مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا ، وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے، یعنی آپﷺ کا رُخ مدینہ کی جانب ہے۔1
3 راستے میں سُراقَہ بن مالک نے تعاقب کیا اور اس واقعے کو خود سُراقہ نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : میں اپنی قوم بنی مد لج کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوا اور ہم بیٹھے تھے۔ اس نے کہا:اے سُراقَہ ! میں نے ابھی ساحل کے پاس چند افراد دیکھے ہیں۔میرا خیال ہے کہ یہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی ہیں۔ سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا یہ وہی لوگ ہیں لیکن میں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ تم نے فلاں اور فلاں کودیکھا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے گزر کر گئے ہیں۔ پھرمیں مجلس میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اندر گیا اور اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا نکالے اورٹیلے کے پیچھے روک کرمیرا انتظار کرے۔ ادھر میں نے اپنا نیزہ لیا، اور گھر کے پچھواڑے سے باہر نکلا۔ لاٹھی کا ایک سرازمین پر گھسیٹ رہا تھا اور دوسرا اوپری سرا نیچے کر رکھا تھا۔ اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ حسب معمول مجھے لے کر دوڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ میں ان کے قریب آگیا۔ اس کے بعد گھوڑا مجھ سمیت پھِسلا میں اس سے گرگیا ، میں نے اٹھ کر ترکش کی طرف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے۔
ہاتھ بڑھایا اور پانسے کا تیر نکال کر یہ جاننا چاہا کہ میں انہیں ضرر پہنچا سکوں گا یا نہیں ؟ تو وہ تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا ، لیکن میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ جب میں رسول اللہﷺ کی قراء ت سن رہا تھا -- اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے ، جبکہ ابوبکر ؓ باربار مڑ کر دیکھ رہے تھے -- تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوںپاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جاپہنچے اور میں اس سے گرگیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔ بہر حال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں کے نشان سے آسمان کی طرف دھویں جیسا غبار اُڑرہا تھا۔ میں نے پھر پانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا۔ اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہر گئے۔اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی رسول اللہﷺ کامعاملہ غالب آکر رہے گا۔ چنانچہ میں نے آپﷺ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپﷺ کے بدلے دیت(کا انعام ) رکھاہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپﷺ کو آگاہ کیا اور توشہ اور سازو سامان کی بھی پیش کش کی۔ مگر انہوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق رازداری برتنا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پروانہ ٔ امن لکھ دیں۔ آپﷺ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کردیا۔ پھر رسول اللہﷺ آگے بڑ ھ گئے۔1
اس واقعے سے متعلق خود ابوبکرؓ کی بھی ایک روایت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا -جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا - اور کوئی ہمیں نہ پاس کا۔ میں نے کہا :اے اللہ کے رسول ! یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آلینا چاہتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :
(( لا تحزن إن اللّٰہ معنا۔))
''غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔''2
بہر حال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہنے لگا: ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں۔ یہاں تمہارا جو کام تھا کیا جاچکا ہے۔ (اس طرح لوگوں کو واپس لے گیا ) یعنی دن کے شروع میں تو چڑھا آرہا تھا اور آخر میں پاسبان بن گیا۔3
4 راستے میں نبیﷺ کو بُرَیْدَہ بن حصیب اَسْلَمی ملے ، ان کے ساتھ تقریباً اسی گھرانے تھے۔ سب سمیت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۴۔ بنی مدلج کا وطن رابغ کے قریب تھا اور سراقہ نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدید سے اوپر جارہے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۵۳ ) اس لیے اغلب یہ ہے کہ غار سے روانگی کے بعد تیسرے دن تعاقب کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
2 صحیح بخاری ۱/۵۱۶ 3 زادالمعاد ۲/۵۳
مسلمان ہوگئے اور رسول اللہﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی تو سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ بریدہ اپنی ہی قوم کی سرزمین میں قیام پذیر رہے اور احد کے بعد رسول اللہﷺ کی خدمت میں تشریف لائے۔
عبد اللہ بن بریدہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ فال لیتے تھے، بدشگونی نہیں لیتے تھے۔ بریدہ اپنے خاندان بنو سہم کے ستر سواروں کے ساتھ سوار ہوکر نبیﷺ سے ملے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کن سے ہو ؟ انہوں نے کہا : قبیلہ اسلم سے۔ آپ نے ابوبکر سے کہا: ہم سالم رہے۔ پھر پوچھا: کن کی اولاد سے ہو ؟ کہا: بنوسہم سے۔ آپ نے فرمایا : تمہارا سہم (نصیب ) نکل آیا۔1
رسول اللہﷺ عرج کے اندر جحفہ اور ہرشی کے درمیان قحداوات میں ابو اوس تمیم بن حجر یا ابو تمیم اوس بن حجراسلمی کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ کا کوئی اونٹ پیچھے رہ گیا تھا۔ چنانچہ آپ اور ابوبکر ایک ہی اونٹ پر سوار تھے اوس نے اپنے ایک نر اونٹ پر دونوں کو سوار کیا اور ان کے ساتھ مسعود نامی اپنے ایک غلام کو بھیج دیا اور کہا کہ جو محفوظ راستہ تم کو معلوم ہو ان سے ان کولے کر جاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ چنانچہ وہ ساتھ لے کر راستہ چلا اور مدینہ پہنچادیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے مسعود کو اس کے مالک پاس بھیج دیا اور اسے حکم دیا کہ اوس سے کہے کہ وہ اپنے اونٹوں کی گردن پر گھوڑے کی قید کا نشان لگائے۔ یعنی دوحلقے یا دائرے بنائے اور ان کے درمیان لکیر کھینچ دے۔ یہی ان کی نشانی رہے گی۔ جب احد کے دن مشرکین آئے تو اوس نے اپنے اسی غلام مسعود بن ہنید ہ کو ان کی خبر دینے کے لیے عرج سے پید ل رسول اللہﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ بات ابن ماکولا نے طبر ی کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ اوس نے رسول اللہﷺ کے مدینہ آجانے کے بعد اسلام قبول کرلیا مگر عرج ہی میں سکونت پذیر رہے۔2
راستے میں...بطن ریم کے اندر ...نبیﷺ کو حضرت زبیر بن عوامؓ ملے۔ یہ مسلمانوں کے ایک تجارت پیشہ گروہ کے ساتھ ملک شام سے واپس آرہے تھے۔ حضرت زبیر ؓ نے رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کو سفید پارچہ جات پیش کیے۔3
قبا ء میں تشریف آوری:
دوشنبہ ۸؍ ربیع الاول ۱۴ نبوت ...یعنی ۱ ہجری مطابق ۲۳؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو رسول اللہﷺ قباء میں وارد ہوئے۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسدالغابہ ۱/۲۰۹ 2 ایضاً ۱/۱۷۳، ابن ہشام ۱/۴۹۱
3 صحیح بخاری عن عروۃ ابن الزبیر ۱/۵۵۴
4 رحمۃ للعالمین۱/۱۰۲۔ اس دن نبیﷺ کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز ۹ / ربیع الاول ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق آپﷺ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے۔ البتہ جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز رمضان ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبرسن لی تھی۔ اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح حرہ کی طرف نکل جاتے تھے اور آپﷺ کی راہ تکتے رہتے۔ جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے۔ ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس -جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی - تشریف لارہے ہیں۔ اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا : عرب کے لوگو! یہ رہا تمہارا نصیب ، جس کا تم انتظار کررہے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیار وں کی طرف دوڑ پڑے۔ 1(اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے ) اور حرہ کی پشت پر رسول اللہﷺ کا استقبال کیا۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمر و بن عوف (ساکنان ِ قباء ) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی۔ مسلمان آپﷺ کی آمد کی خوشی میں نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے۔ پھر آپﷺ سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گرد وپیش پر وانوں کی طرح جمع ہوگئے۔ اس وقت آپﷺ پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی :
فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌ (۶۶: ۴)
''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں۔''2
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے، اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے۔ یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ ابوبکرؓ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہﷺ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جولوگ آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے ابوبکرؓ کو سلام کرتے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ پر دھوپ آگئی اور ابوبکرؓ نے چادر تان کر آپﷺ پر سایہ کیا۔ تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہﷺ ہیں۔3
آپﷺ کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ، جس کی نظیر سر زمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ آج یہود نے بھی حبقوق نبی کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا ''کہ اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔''4
رسول اللہﷺ نے قباء میں کلثوم بن ہدم...اور کہا جاتا ہے کہ سعد بن خیثمہ...کے مکان میں قیام فرمایا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۵ 2 زاد المعاد ۲/۵۴
3 صحیح بخاری ۱/۵۵۵ 4 کتاب بائبل ، صحیفہ حبقوق ۳ ، ۳
پہلا قول زیادہ قوی ہے۔
ادھر حضرت علی بن ابی طالبؓ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جوامانتیں رسول اللہﷺ کے پاس تھیں انہیں ادا کر کے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہﷺ سے آملے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام فرمایا۔1
رسول اللہﷺ نے قباء میں کل چار دن2(دوشنبہ ، منگل ، بدھ ، جمعرات ) یادس سے زیادہ دن قیام فرمایا اور اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی ، اور اس میں نماز بھی پڑھی۔ یہ آپﷺ کی نبوت کے بعد پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ پانچویں دن (یابارہویں دن ) جمعہ کو آپﷺ حکم الٰہی کے مطابق سوار ہوئے۔ ابوبکرؓ آپﷺ کے ردیف تھے۔ آپﷺ نے بنوالنجار کو - جو آپﷺ کے ماموؤں کا قبیلہ تھا - اطلاع بھیج دی تھی۔ چنانچہ وہ تلوار حمائل کیے حاضر تھے۔ آپﷺ نے (ان کی معیت میں ) مدینہ کا رخ کیا۔ بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت آگیا۔ آپﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھا جہاں اب مسجد ہے ، کل ایک سو آدمی تھے۔3
مدینہ میں داخلہ :
جمعہ کے بعد نبیﷺ مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے مدینۃ الرسول ... شہر رسولﷺ ... پڑگیا۔ جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی ومسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں۔
طلـع البـــــدر عـلـیـنـــــــــا مـــــــن ثنیــات الـوداع
''ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا
وجــب الشکـــــر علینــــــــا مـــــا دعــا للــــــہ داع
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۵۔ ابن ہشام ۱/۴۹۳
2 یہ ابن اسحاق کی روایت ہے۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۴۹۴صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپﷺ نے قباء میں ۲۴ رات قیام فرمایا (۱/۶۱) مگر ایک اور روایت میں دس رات سے چند روز زیادہ (۱/۵۵۵)اور ایک تیسری روایت میں چودہ رات (۱/۵۶۰ ) بتایا گیا ہے ، ابن قیم نے اسی آخری روایت کو اختیار کیا ہے۔ مگر ابن قیم نے خود تصریح کی ہے کہ آپﷺ قباء میں دوشنبہ کو پہنچے تھے اور وہاں سے جمعہ کو روانہ ہوئے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۵۴،۵۵) اور معلوم ہے کہ دوشنبہ اور جمعہ دو الگ الگ ہفتوں کالیا جائے تو پہنچ اور روانگی کا دن چھوڑ کر کل مدت دس دن ہوتی ہے اور پہنچ اور روانگی کا دن شامل کرکے ۱۲ دن ہوتی ہے۔ اس لیے کل مدت چودہ دن کیسے ہوسکے گی۔
3 صحیح بخاری ۱/۵۵۵، ۵۶۰۔ زاد المعاد ۲/۵۵۔ابن ہشام ۱/۴۹۴
أیــہــا الـــمـبـعــوث فـیـنـــا جـئـت بـالأمـر الـمـطاع
ہے اطاعت تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیر ا کبریا1
انصار اگر چہ بڑے دولت مند نہ تھے لیکن ہرا یک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہﷺ اس کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ آپﷺ انصار کے جس مکان یامحلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں تشریف لائیے ! مگر آپﷺ فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو۔ یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اورا س مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبویﷺ ہے لیکن آپﷺ نیچے نہیں اترے یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی۔ پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپﷺ نیچے تشریف لائے۔ یہ آپﷺ کے ننہیال والوں، یعنی بنو نجار کا محلہ تھا اور یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی۔ کیونکہ آپﷺ ننہیال میں قیام فرماکر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔ اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہﷺ سے عرض معروض شروع کی لیکن ابو ایوب انصاریؓ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ فرمانے لگے : آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے۔ ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی ا للہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی۔ چنانچہ یہ اونٹنی انھی کے پاس رہی۔2
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ہمارے کس آدمی کا گھر زیادہ قریب ہے ؟ حضرت ابوایوب انصاری ؓ نے کہا: میرا ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ رہا میرا مکان اور یہ رہامیرا دروازہ۔ آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اور ہمارے لیے قَیْلُولہ کی جگہ تیار کردو۔ انہوں نے عرض کی:آپ دونوں حضرات تشریف لے چلیں اللہ برکت دے۔3
چند دنوں کے بعد آپﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ ؓ اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ، اور حضرت اسامہ بن زید ؓ اور ام ایمن بھی آگئیں۔ ان سب کو حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں لے کر آئے تھے۔ البتہ نبیﷺ کی ایک صاحبزادی حضرت زینب، حضرت ابوالعاص ؓ کے پاس باقی رہ گئیں انہوں نے آنے نہیں دیا۔اور وہ جنگ ِ بدر کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اشعار کا یہ ترجمہ علامہ منصور پوری نے کیا ہے۔ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ اشعار تبوک سے نبیﷺ کی واپسی پر پڑھے گئے تھے۔ او ر جو یہ کہتا ہے کہ مدینہ میں آپﷺ کے داخلے کے موقعے پر پڑھے گئے تھے، اسے وہم ہوا ہے۔ (زادالمعاد ۳/۱۰) لیکن علامہ ابن قیم نے اس کے وہم ہونے کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں دی ہے۔ ان کے برخلاف علامہ منصور پوری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار مدینہ میں داخلے کے وقت پڑھے گئے۔ انہوں نے صحف بنی اسرائیل کے اشارات وتصریحات سے اسے مستنبط کیا ہے۔ (دیکھئے رحمۃ للعالمین ۱/۱۰۶ ) ممکن ہے یہ اشعار دونوں موقعوں پر پڑھے گئے ہوں۔
2 زاد المعاد ۲/۵۵۔ ابن ہشام ۱/۴۹۴ - ۴۹۶ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۶
بعد تشریف لاسکیں۔1
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وباخیز جگہ تھی۔ وادیٔ بطحان سڑے ہوئے پانی سے بہتی تھی۔
ان کا یہ بھی بیا ن ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓکو بخار آگیا۔میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ اباجان آپ کا کیا حال ہے ؟ اور اے بلال ! آپ کا کیا حال ہے ؟ وہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے :


کل امرئ مصبح فی أہلہ
والموت أدنی من شراک نعلہ


''ہر آدمی سے اس کے اہل کے اندر صبح بخیر کہا جاتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔''
اور حضرت بلالؓ کی حالت کچھ سنبھلتی تو وہ اپنی کربناک آواز بلند کرتے اور کہتے :


ألا لیت شعری ہل أبییتن لیلۃ
بـواد وحولی إذخـر وجلیل
وہل أردن یومـاّ میاہ مجنـــۃ
وہل یبدون لی شامۃ وطفیل


''کاش! میں جانتا کہ کوئی رات وادی (مکہ ) میں گزارسکوں گا اور میرے گرد اِذْخر اور جلیل (گھاس) ہوں گی اور کیا کسی دن مجنہ کے چشمے پروارد ہوسکوں گا اور مجھے شامہ اور طفیل (پہاڑ ) دکھلائی پڑیں گے۔''
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میںحاضر ہوکر اس کی خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا، یااس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا ء صحت بخش بنا دے ، اور اس کے صاع اور مد (غلے کے پیمانوں ) میں برکت دے۔ اوراس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچادے۔ 2اللہ نے آپﷺ کی دعا سن لی۔ چنانچہ آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک پراگندہ سر کالی عورت مدینہ سے نکلی اور مہیعہ، یعنی جحفہ میں جااتری۔ اس کی تعبیر یہ تھی کہ مدینہ کی وباء جحفہ منتقل کردی گئی اور اس طرح مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا کی سختی سے راحت مل گئی۔ یہاں تک حیات طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دَور(یعنی مکی دَور ) پورا ہوجاتا ہے۔ آئندہ اختصار کے ساتھ مدنی دور پیش کیا جارہا ہے۔ وباللہ التوفیق۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۵
2 صحیح بخاری ۱/۵۸۸ ، ۵۸۹ حدیث نمبر ۱۸۸۹، ۳۹۲۶، ۵۶۵۴،۵۶۷۷،۶۳۷۲
مدنی عہد-دعوت وجہاد اور کامیابی کا عہد

مدنی زندگی میں دعوت وجہاد کے مرحلے

مدنی عہد کو تین مرحلو ں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔پہلا مرحلہ:...اسلامی معاشرے کی تاسیس اور اسلامی دعوت کے قابو پانے کا مرحلہ۔ اس میں فتنے اوراضطرابات بر پا کیے گئے۔ اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور دعوت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے چڑھائیاں کیں۔ یہ مرحلہ مسلمانوں کے غلبے اور صورت حال پر ان کے قابو پانے کی صورت میں صلح حدیبیہ ذی قعد ہ ۶ھ پر ختم ہوجاتا ہے۔
۲۔دوسرا مرحلہ:... جس میں بت پر ست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی۔ شاہان عالم کو اسلام کی دعوت دی گئی اور سازشوں کے اطراف کا خاتمہ کیا گیا۔ یہ مرحلہ فتح مکہ رمضان۸ ھ پر منتہی ہوتا ہے۔
۳۔تیسرا مرحلہ:... جس میں خلقت اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئی۔ یہی مرحلہ مدینہ میں قوموں اور قبیلوں کے وفود کی آمد کا بھی مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے اخیر، یعنی ربیع الاول ۱۱ ھ تک کو محیط ہے۔
پہلا مرحلہ:

ہجرت کے وقت مدینہ کے حالا ت
ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُر امن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے۔ اسی لیے ہرصاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی ، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔
یہ بات توقطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام، قائد اور رہنماتھے۔ اور کسی نزاع کے بغیر سارے معالات کی باگ ڈور آپﷺ ہی کے ہاتھ میں تھی۔
مدینے میں رسول اللہﷺ کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جودوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے۔ یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں :
آپﷺ کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت۔
مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین ، جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے۔
یہود۔
(الف ) ... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپﷺ کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے۔ مکے میں اگر چہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھر ے ہوئے تھے اور مجبور ومقہور اور ذلیل وکمزور تھے۔ ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا۔ سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور رَذِیل وذلیل کا موں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی۔ ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا۔ اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات ، معاشیات واقتصادیات ، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے۔
وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ، یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت ِ اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے۔ اب جہاں تک احکام وقوانین صادر اور فراہم کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا کفیل تھا اور جہاں تک ان احکام کے نفاذ اور مسلمانوں کی تربیت ورہنمائی کا معاملہ ہے تو اس پر رسول اللہﷺ مامور رتھے۔ چنانچہ ارشادہے :
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۶۲: ۲)
''وہی ہے جس نے اُمِیّوں میں خود انہیں کے اندر سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک وصاف کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے اور یہ لوگ یقینا پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''
ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ آپﷺ کی طرف ہمہ تن متوجہ رہتے اور جو حکم صادر ہوتا اس سے اپنے آپ کو آراستہ کر کے خوشی محسوس کرتے، جیسا کہ ارشاد ہے :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ (۸: ۲)
''جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔''
چونکہ ان سارے مسائل کی تفصیل ہمارے موضوع میں داخل نہیں اس لیے ہم اس پر بقدر ضرورت گفتگو کریں گے۔
بہرحال یہی سب سے عظیم مسئلہ تھا جو رسول اللہﷺ کو مسلمانوں کے تعلق سے درپیش تھا اور بڑے پیمانے پر یہی دعوتِ اسلامیہ اور رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود بھی تھا۔ لیکن یہ کوئی ہنگامی مسئلہ نہ تھا بلکہ مستقل اور دائمی تھا۔ البتہ اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے۔ جن کی مختصرکیفیت یہ ہے :
مسلمانوں کی جماعت میں دوطرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو خود اپنی زمین ، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے۔ یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشت ہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں۔ ان کے پہلوبہ پہلودوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا۔ ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے ، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے ، اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع ووسائل۔ چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے۔
(ب) دوسری قوم:...یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے - کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی۔ کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّدمحسوس کررہے تھے ، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے۔ اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے۔
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّ ِ مقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپﷺ سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے۔ ان میں سرِ فہرست عبد اللہ بن ابی ا بن سلول تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے ، یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہﷺ کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپﷺ کی طرف ہوگیا، اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے، لہٰذاوہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپا ئے ہوئے تھا۔ اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیا وی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا ، لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا، اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا۔ اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا۔ یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کوبھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنالیتے تھے۔
(ج) تیسری قوم:... یہود تھی - جیسا کہ گزرچکا ہے - یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھا گ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی -- یہودی-- قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا : بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے ، جیسے چاہیں کھائیں۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ (۳: ۷۵)
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔''
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کو ئی پکڑ نہیں۔ ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی۔ لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ۔ انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے۔
یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی۔ غلّے ، کھجور ، شراب ، اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی۔ یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے۔ وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے۔ اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے۔ جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے۔ ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گرو ی رکھوالیتے تھے۔ اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے۔
یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے۔ ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا۔ اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپارہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سر د پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔ کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کاتماشا دیکھتے۔ البتہ بھاری بھرکم سود ی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہر انفع کماتے رہتے۔ ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔
یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے:
بنو قینقاع:... یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی۔
بنو نضیر
بنو قریظہ:...یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ا ن دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔
ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیا ن جنگ کے شعلے بھڑکارہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔
فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سواکوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو، جواُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی، سکون ملتا۔ پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی۔ بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی۔تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابندبناتی تھی۔اِ س کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماًوہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے ، لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلا عوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیالیا تھا۔
جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کررکھا تھا۔ اسی لیے یثرب میں رسول اللہﷺ کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی ، اگرچہ وہ اس کے مظاہر ے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے۔ اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے۔
ان کاارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی۔ میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھا تے۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور قباء میں بنو عمر و بن عوف کے یہاں نزول فرماہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپﷺ کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے۔ بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی ، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے:
کیا یہ وہی ہے ؟
انہوں نے کہا : ہاں ! اللہ کی قسم۔
چچا نے کہا: آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟
والد نے کہا: ہاں!
چچانے کہا : تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا : عداوت - اللہ کی قسم -جب تک زندہ رہوں گا۔1
اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے۔ آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپﷺ کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبیﷺ کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ پھر آپﷺ سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے۔ اگر انہیں اس سے قبل کہ آپﷺ کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے یہود کو بلا بھیجا۔ وہ آئے - اور ادھر عبد اللہؓ بن سلام گھر کے اندر چھپ گئے تھے - تو رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبد اللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں، ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں'' ...ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں ، اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں...رسول اللہ نے فرمایا : ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو؟'' یہود نے دو تین بار کہا: اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلامؓ برآمد ہوئے اور فرمایا: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمداً رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ) اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹
شرّنا وابن شرّنا''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے۔'' اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے فرمایا: ''اے جماعتِ یہود! اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم لوگ جانتے ہو کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپﷺ حق لے کر تشریف لائے ہیں ،'' لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔1
یہ پہلا تجربہ تھا جو رسول اللہﷺ کو یہود کے متعلق حاصل ہوا اور مدینے میں داخلے کے پہلے ہی دن حاصل ہوا۔
یہاں تک جو کچھ ذکر کیا گیا یہ مدینے کے داخلی حالات سے متعلق تھا۔ بیرون ِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے ، دہشت مچانے ، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے۔ طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے۔ منظم اور وسیع پر وپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے۔ پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں ، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کر لیا اور مسلمانو ں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ، بلکہ جس کو پاس کے قید کر کے طرح طرح کی اذیتیں دیں ، پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہﷺ کو قتل کرنے اور آپﷺ کی دعوت کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں۔ بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا۔ یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا، اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکااور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ درحقیقت مکے کے ان سرکشوںاور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے۔
مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں ، جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں ، اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کاموقع نہ مل سکے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱
یہ تھے وہ قضا یا اور مسائل جس سے رسول اللہﷺ کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا۔
رسول اللہﷺ نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یاسختی ودرشتی جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا ، یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلا م کے ہاتھ آگئی۔ اگلے صفحات میں انہی باتوں کی تفصیلات ہدیۂ قارئین کی جائیں گی۔
نئے معاشرے کی تشکیل

ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ ۱۲ ؍ ربیع الاول ۱ ھ مطابق ۲۷؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی۔ پھر آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔
مسجد نبوی کی تعمیر:
اس کے بعد نبیﷺ کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپﷺ نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاںآپﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ اس زمین کے مالک دویتیم بچے تھے۔ آپﷺ نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے۔ آپﷺ اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے تھے :


اللہم لا عیش إلا عیش الآخرۃ
فاغفر للأنصار والمہاجرۃ


''اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ، پس انصار ومہاجرین کو بخش دے۔''
یہ بھی فرماتے :


ہذا الحمال لا حمال خیبر
ہـذا أبـر ربنــا وأطہـر


''یہ بوجھ خیبر کا بوجھ نہیں ہے۔ یہ ہمارے پروردگار کی قسم زیادہ نیک اور پاکیزہ ہے۔''
آپﷺ کے اس طرزِ عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جوش و خروش اور سرگرمی میں بڑا اضافہ ہوجاتا تھا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے تھے :


لئن قعدنا والنبی یعمل
لذاک منا العمل المضلل


''اگر ہم بیٹھے رہیں اور نبیﷺ کام کریں تو ہمارا یہ کام گمراہی کا کام ہوگا۔''
اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں، کچھ ویرانہ بھی تھا۔ کھجور اور غَرْ قَد کے چند درخت بھی تھے۔ رسول اللہﷺ نے مشرکین کی قبریں اکھڑوا دیں ، ویرانہ برباد کرادیا ، اور کھجور وں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگادیا۔ ...اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا...دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے۔ دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں۔ چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوادیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنادیے گئے۔ زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھادی گئیں۔ تین دروازے لگا ئے گئے۔ قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی۔ چوڑائی بھی اتنی یااس سے کچھ کم تھی۔ بنیاد تقریباًتین ہاتھ گہری تھی۔
آپﷺ نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ یہی آپﷺ کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔ ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے۔1
مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارانظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعدادکا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال۔
پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی۔ یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روز انہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا۔ یہ روز انہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمدﷺ اللہ کے پیغامبر ہیں۔ یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا۔ اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ کو حاصل ہوا اور رسول اللہﷺ نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی دیکھا۔ (تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے )2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰ - زاد المعاد ۲/۵۶۔
2 ترمذی ، صلاۃ ، بدء الاذان ح ۱۸۹ (۱/۳۵۸ ، ۳۵۹ ) ابو داؤد ، احمد وغیرہ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔