جمعہ، 17 اپریل، 2015

کلام اقبال

0 comments

کلامِ اقبال

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقامِ پادشاہی
تری زندگی اِسی سے، تری آبرو اِسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تورُوسیاہی
تُو عرب ہو یا عجم ہو تر ا لَآ اِلٰہَ اِلَّا لغت ِ
غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لئے اَب صلاحِ کار کی راہ
حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ
خداکرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ
فقر کے معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
علم فقیہہ و حکیم ، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جو یاے راہ، فقر ہے داناے ر اہ
فقر مقام نظر، علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
علم کا ’’موجود‘‘ اور ، فقر کا ’’ موجود‘‘ا ور
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلہَ ، اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ
کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تُو نے
گزاری عمر پستی میں مثالِ نقش پا تُو نے
رہا دل بستۂ محفل مگر اپنی نگاہوں کو
کیا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشناتُو نے
فدا کرتارہادل کو حسینوں کی اداؤں پر
مگر دیکھی نہ اِس آئینے میں اپنی ادا تُو نے
تعصب چھوڑ ناداں ! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تُو نے
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تُو نے
زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل؟
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تُو نے
ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
دکھا وہ حسنِ عالم سوز اپنی چشمِ پُر نم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو ،رلواتا ہے شبنم ک
نرا نظارہ ہی اے بو الہوس! مقصد نہیں اُس کا
بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشمِ آدم کو
اگر دیکھا بھی اُس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا؟
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
شجر ہے فرقہ آرائی ،تعصب ہے ثمر اُس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
نہ اُٹھا جذبۂ خورشید سے اِک برگِ گل تک بھی
یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اُڑتی ہے شبنم کو
پھرا کرتے نہیں مجروحِ اُلفت فکر ِ درماں میں
یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرہ سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے
جو تُو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیرِ اِمتیازِ ما و تُو رہنا
شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ اِنساں کی
سکھایا اِس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔