ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر 8

0 comments

گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرتے ہوئے سالار نے فرقان سے کہا۔
"تمہاری سب سے ناپسندیدہ ڈش، پالک گوشت ہے اور تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟"
فرقان نے قہقہہ لگایا۔"کہنے میں کیا حرج ہے، ویسے ہو سکتا ہے وہ واقعی میں اتنا اچھا پکائیں کہ میں کھانے پر مجبور ہو جاؤں۔"
"تم جاؤ گے ان کے گھر؟"
سالار گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے حیران ہوا۔
"بالکل جاؤں گا، وعدہ کیا ہے میں نے اور تم نے۔"
"میں تو نہیں جاؤں گا۔" سالار نے انکار کیا۔
"جان نہ پہچان، منہ اٹھا کر ان کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاؤں۔"
"ڈاکٹر سبط علی صاحب کی فرسٹ کزن ہیں وہ اور مجھ سے زیادہ تو تمہاری جان پہچان ہے ان کے ساتھ۔" فرقان نے کہا۔
"وہ اور معاملہ تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی، میں نے کر دی اور بس اتنا کافی ہے۔ ان کے بیٹے یہاں ہوتے تو اور بات تھی لیکن اس طرح اکیلی عورتوں کے گھر تو میں کبھی نہیں جاؤں گا۔" سالار سنجیدہ تھا۔
"میں کون سا اکیلا جانے والا ہوں یار! بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ جانتا ہوں میرا اکیلا ان کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ نوشین بھی ان سے مل کر خوش ہو گی۔"
"ہاں،بھابھی کے ساتھ چلے جانا، کوئی حرج نہیں۔" سالار مطمئن ہوا۔
"میں جاؤں۔۔۔۔۔؟ تم کو بھی تو ساتھ چلنا ہے، انہوں نے تمہیں بھی دعوت دی ہے۔"
"میں تو نہیں جاؤں گا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ تم ہو آنا، کافی ہے۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"تم ان کے خاص مہمان ہو، تمہارے بغیر تو سب کچھ پھیکا رہے گا۔"
سالار کو اس کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
"کیا مطلب؟"
"میرا خیال ہے انہیں تم داماد کے طور پر پسند آ گئے ہو۔"
"فضول باتیں مت کرو۔" سالار نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، پروپوزل آئے گا تمہارا اس گھر سے۔ سعیدہ اماں کو تم ہر طرح سے اچھے لگے ہو۔ ہر بات پوچھی ہے انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں۔ یہ بھی کہ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں اور ہے تو کب تک کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا کہ جیسے ہی کوئی اچھا پروپوزل ملا وہ فوراً کر لے گا پھر وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتانے لگیں۔ اب جتنی تعریفیں وہ اپنی بیٹی کی کر رہی تھیں اگر ہم اس میں سے پچاس فیصد بھی سچ سمجھ لیں تو بھی وہ لڑکی۔۔۔۔۔ کیا نام لے رہی تھیں۔۔۔۔۔ ہاں آمنہ۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بہترین ہو گی۔"
"شرم آنی چاہئیے تمہیں ڈاکٹر سبط علی صاحب کی رشتہ دار ہیں وہ اور تم ان کے بارے میں فضول باتیں کر رہے ہو۔" سالار نے اسے جھڑکا۔
فرقان سنجیدہ ہو گیا۔
"میں کوئی غلط بات نہیں کر رہا ہوں، تمہارے لئے تو یہ اعزاز کی بات ہونی چاہئیے کہ تمہاری شادی ڈاکٹر سبط علی صاحب کے خاندان میں ہو۔۔۔۔۔"
"جسٹ اسٹاپ اٹ فرقان! یہ مسئلہ کافی ڈسکس ہو گیا، اب ختم کرو۔" سالار نے سختی سے کہا۔
"چلو ٹھیک ہے، ختم کرتے ہیں پھر کبھی بات کریں گے۔"
فرقان نے اطمینا ن سے کہا۔ سالار نے گردن موڑ کر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
"ڈرائیونگ کر رہے ہو، سڑک پر دھیان رکھو۔" فرقان نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ سالار کچھ ناراضی کے عالم میں سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سعیدہ اماں کے ساتھ ان کا رابطہ وہیں ختم نہیں ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ ایک شام ڈاکٹر سبط علی کے ہاں تھے جب انہوں نے اپنے لیکچر کے بعد ان دونوں کو روک لیا۔
"سعیدہ آپا آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں، مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں آپ لوگوں کے ہاں انہیں لے جاؤں، میں نےا ن کو بتایا کہ شام کو وہ لوگ میری طرف آئیں گے، آپ یہیں مل لیں۔ آپ لوگوں نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا ان کے ہاں جانے کا، مگر گئے نہیں۔"
فرقان نے معنی خیز نظروں سے سالار کو دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔
"نہیں، ہم لوگ سوچ رہے تھے مگر کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں جا پائے۔" فرقان نے جواباً کہا۔
وہ دونوں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ ان کے ڈرائینگ روم میں چلے آئے جہاں کچھ دیر بعد سعیدہ اماں بھی آ گئیں اور آتے ہی ان کی شکایات اور ناراضی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرقان انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہا جبکہ سالار خاموشی سے بیٹھا رہا۔
اگلے ویک اینڈ پر فرقان نے سالار کو سعیدہ اماں کی طرف جانے کے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ سالار کو اسلام آباد اور پھر وہاں سے گاؤ ں جانا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی مصروفیت بتا کر سعیدہ اماں سے معذرت کر لی۔
ویک اینڈ گزارنے کے بعد لاہور واپسی پر فرقان نے اسے سعیدہ اماں کے ہاں گزارے جانے والے وقت کے بارے میں بتایا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
"سالار! میں سعیدہ اماں کی بیٹی سے بھی ملا تھا۔"
فرقان نے بات کرتے ہوئے اچانک کہا۔
"بہت اچھی لڑکی ہے، سعیدہ اماں کے برعکس خاصی خاموش طبع لڑکی ہے۔ بالکل تمہاری طرح، تم دونوں کی بڑی اچھی گزرے گی۔ نوشین کو بھی بہت اچھی لگی ہے۔"
"فرقان! تم صرف دعوت تک ہی رہو تو بہتر ہے۔" سالار نے اسے ٹوکا۔
"میں بہت سیریس ہوں سالار!" فرقان نے کہا۔
"میں بھی سیریس ہوں۔" سالار نے اسی انداز میں کہا۔" تمہیں پتا ہے فرقان! تم جتنا شادی پر اصرار کرتے ہو، میرا شادی سے اتنا ہی دل اٹھتا جاتا ہے اور یہ سب تمہاری ان باتوں کی وجہ سے ہے۔"
سالار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
"میری باتوں کی وجہ سے نہیں۔ تم صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم امامہ کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔"
فرقان یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
"اوکے۔۔۔۔۔ صاف صاف کہہ دیتا ہوں ، میں امامہ کی وجہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا پھر۔۔۔۔۔؟"
سالار نے سرد مہری سے کہا۔
"یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔" فرقان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
"اوکے ، فائن۔ بچگانہ سوچ ہے پھر؟" سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
Then you should get rid of it (تب تمہیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئیے) ۔ فرقان نے نرمی سے کہا۔
I don’t want to get rid of it…. So? (میں اس سے چھٹکارا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ پھر؟)۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ فرقان کچھ دیر لاجواب ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
"میرے سامنے دوبارہ تم سعیدہ اماں کی بیٹی کی بات مت کرنا اور اگر تم سے وہ اس بارے میں بات کریں بھی تو تم صاف صاف کہہ دینا کہ مجھے شادی نہیں کرنی، میں شادی شدہ ہوں۔"
"اوکے، نہیں کروں گا اس بارے میں تم سے بات۔ غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
فرقان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے صلح جوئی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اس لئے تمہیں بلوایا ہے۔" سکندر نے مسکراتے ہوئے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ طیبہ کے ساتھ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے اور سالار ان کے فون کرنے پر اس ویک اینڈ اسلام آباد آیا ہوا تھا۔
سکندر عثمان نے قدرے ستائشی نظروں سے اپنے تیسرے بیٹے کو دیکھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ان کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اب کپڑے تبدیل کر کے ان کے پاس آیا تھا۔ سفید شلوار قمیض اور گھر میں پہنی جانے والی سیاہ چپل میں وہ اپنے عام سے حلیے کے باوجود بہت باوقار لگ رہا تھا۔ شاید یہ اس کے چہرے کی سنجیدگی تھی یا پھر شاید وہ آج پہلی بار کئی سالوں کے بعد اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور اعتراف کر رہے تھے کہ اس کی شخصیت میں بہت وقار اور ٹھہراؤ آ گیا ہے۔
انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سالار کی وجہ سے انہیں اپنے سوشل سرکل میں اہمیت اور عزت ملے گی۔ وہ جانتے تھے بہت جگہوں پر اب ان کا تعارف سالار سکندر کے حوالے سے ہوتا تھا اور انہیں اس پر خوشگوارحیرت ہوتی تھی۔ اس نے اپنی پوری ٹین ایج میں انہیں بری طرح خوار اور پریشان کیا تھا اور ایک وقت تھا، جب انہیں اپنے اس بیٹے کا مستقبل سب سے تاریک لگتا تھا۔ اپنی تمام غیرمعمولی صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود مگر ان کے اندازے اور خدشات صحیح ثابت نہیں ہوئے تھے۔
طیبہ نے خشک میوے کی پلیٹ سالار کی طرف بڑھائی۔
سالار نے چند کاجو اٹھا لئے۔
"میں تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔"
کاجو منہ میں ڈالتے ہوئے وہ ایک دم رک گیا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ سکندر عثمان اور طیبہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔
"اب تمہیں شادی کر ہی لینی چاہئیے سالار!"
سکندر نے کہا۔ سالار نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاجو دوبارہ خشک میوے کی پلیٹ میں رکھ دئیے۔
"میں اور طیبہ تو حیران ہو رہے تھے کہ اتنے رشتے تو تمہارے بھائیوں میں سے کسی کے نہیں آئے جتنے تمہارے لئے آ رہے ہیں۔"
سکندر نے بڑے شگفتہ انداز میں کہا۔
"میں نے سوچا، کچھ بات وات کریں تم سے۔"
وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
"زاہد ہمدانی صاحب کو جانتے ہو؟" عثمان سکندر نے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیڈ کا نام لیا۔
"جی۔۔۔۔۔ ان کی بیٹی میری کولیگ ہے۔"
"رمشہ نام ہے شاید؟"
"جی۔"
"کیسی لڑکی ہے؟"
وہ سکندر عثمان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ان کا سوال بہت "واضح" تھا۔
"اچھی ہے۔" اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
"تمہیں پسند ہے؟"
"کس لحاظ سے؟"
"میں رمشہ کے پروپوزل کی بات کر رہا ہوں۔" سکندر عثمان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"زاہد پچھلے کئی ہفتے سے مجھ سے اس سلسلے میں بات کر رہا ہے۔ اپنی وائف کے ساتھ ایک دو بار وہ ہماری طرف آیا بھی ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی طرف گئے ہیں۔ پچھلے ویک اینڈ پر رمشہ سے بھی ملے ہیں۔ مجھے اور طیبہ کو تو بہت اچھی لگی ہے۔ بہت well behaved ہے اور تمہارے ساتھ بھی اس کی اچھی خاصی دوستی ہے۔ ان لوگوں کی خواہش ہے بلکہ اصرار ہے کہ تمہارے ذریعے دونوں فیملیز میں کوئی رشتہ داری بن جائے۔"
"پاپا میری رمشہ کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے۔" سالار نے مدھم اور ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
"وہ میری کولیگ ہے، جان پہچان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت اچھی لڑکی ہے مگر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔"
"تم کہیں اور انٹرسٹڈ ہو؟"
سکندر نے اس سے پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔ سکندر اور طیبہ کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا۔
"اگر تمہاری کہیں اور دلچسپی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہو گی وہاں تمہاری شادی کی بات کرتے ہوئے اور یقیناً ہم تم پر بھی کوئی دباؤ نہیں دالیں گے اس سلسلے میں۔"
سکندر نے نرمی سے کہا۔
"میں بہت عرصہ پہلے شادی کر چکا ہوں۔"
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے مدھم لہجے میں کہا۔ سکندر کو کوئی دشواری نہیں ہوئی یہ سمجھنے میں کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ ان کے چہرے پر یک دم سنجیدگی آ گئی۔
"امامہ کی بات کر رہے ہو؟"
وہ خاموش رہا۔ سکندر بہت دیر تک بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے۔
"اتنے عرصے سے اس لئے شادی نہیں کر رہے؟"
سکندر کو جیسے ایک شاک لگا تھا۔ ان کا خیال تھا وہ اسے بھلا چکا تھا۔ آخر یہ آٹھ سال پرانی بات تھی۔
"اب تک تو وہ شادی کر چکی ہو گی، اپنی زندگی آرام سے گزار رہی ہو گی۔ تمہاری اور اس کی شادی تو کب کی ختم ہو چکی۔"
سکندر نے اس سے کہا۔
"نہیں پایا! اس کے ساتھ میری شادی ختم نہیں ہوئی۔" اس نے پہلی بار سر اٹھا کر کہا۔
"تم نے اسے نکاح نامے میں طلاق کا اختیار دیا تھا اور۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے تم اسے ڈھونڈنا چاہتے تھے تاکہ طلاق دے سکو۔"
سکندر نے جیسے اسے یاد کرایا۔
"میں نے اسے ڈھوندا تھا مگر وہ مجھے نہیں ملی اور وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس کے پاس طلاق کا ختیار ہے۔ وہ جہا ں بھی ہو گی ابھی تک میری ہی بیوی ہو گی۔"
"سالار! آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ ایک دو سال کی بات تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ جان گئی ہو کہ طلاق کا اختیار اس کے پاس ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب بھی تمہاری بیوی ہی ہو۔"
سکندر نے قدرے مضطرب ہو کر کہا۔
"میرے علاوہ تو کوئی دوسرا اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا اور میں نے اسے اس حق کے بارے میں نہیں بتایا اور جب تک وہ میرے نکاح میں ہے مجھے کہیں اور شادی نہیں کرنی۔"
"تمہارا کانٹیکٹ ہے اس کے ساتھ؟" سکندر نے بہت مدھم آواز میں کہا۔
"نہیں۔"
"آٹھ سال سے اس سے تمہارا رابطہ نہیں ہوا۔ اگر ساری عمر نہ ہوا تب تم کیا کرو گے؟"
وہ خاموش رہا اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
سکندر عثمان کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔
"تم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس لڑکی کے ساتھ ایموشنلی انوالوڈ ہو۔ تم نے تو مجھے یہی بتایا تھا کہ تم نے صرف وقتی طور پر اس کی مدد کی تھی وہ کسی اور لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ۔"
سالار اس بار بھی خاموش رہا۔
سکندر عثمان چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔ وہ اپنے اس تیسرے بیٹے کو کبھی نہیں جان سکے تھے۔ اس کے دل میں کیا تھا وہ اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ جس لڑکی کے لئے وہ آٹھ سال ضائع کر چکا تھا اور باقی کی زندگی ضائع کرنے کے لئے تیار تھا، اس کے ساتھ اس کے جذباتی تعلق کی شدت کیسی ہو سکتی تھی یہ اب شاید اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضروت نہیں تھی۔ کمرے میں خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا پھر سکندر عثمان اٹھ کر اپنے ڈریسنگ روم میں چلے گئے۔ ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہوئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے سالار کی طرف ایک لفافہ بڑھا دیا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے وہ لفافہ پکڑ لیا۔
"امامہ نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔"
وہ سانس نہیں لے سکا۔ سکندر عثمان ایک بار پھر صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
"یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ فون ناصرہ نے اٹھایا تھا اور اس نے امامہ کی آواز پہچان لی تھی۔ تب تم پاکستان میں تھے۔ ناصرہ نے تمہارےبجائے مجھ سے اس کی بات کرائی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کی بات کراؤں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مر چکے ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ تم سے رابطہ کرے اور جس مصیبت سے ہم چھٹکارا پا چکے ہیں اس میں دوبارہ پڑیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات پر یقین کر لے گی کیونکہ تم کئی بار خود کشی کی کوشش کر چکے تھے۔ وہ وسیم کی بہن تھی تمہارے بارے میں یہ سب جانتی ہو گی۔ کم از کم ایک ایسی کوشش کی تو وہ خود گواہ تھی۔ میں اسے نکاح نامے میں موجود طلاق کے اختیار کے بارے میں نہیں بتا سکا نہ ہی اس طلاق نامے کے بارے میں جو میں نے تمہاری طرف سے تیار کرایا تھا۔ تمہیں جب میں نے امریکہ بھجوایا تھا تو تم سے ایک سادہ کاغذ پر سائن لیے تھے، میں چاہتا تھا کہ مجھے ضرورت پڑے تو میں خود ہی طلاق نامہ تیار کرا لوں۔ یہ قانونی یا جائز تھا کہ نہیں ا س کا پتا نہیں مگر میں نے اسے تیار کرا لیا تھا اور میں امامہ کو اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور اسے تمام پیپرز بھی دینا چاہتا تھا مگر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے نمبر ٹریس آؤٹ کرایا وہ کسی پی سی او کا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد بیس ہزار کے کچھ ٹریولرز چیک مجھے اس نے ڈاک کے ذریعے بھجوائے اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔ شاید تم نے اسے کچھ رقم دی تھی۔ اس نے وہ واپس کی تھی۔ میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتایا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم دوبارہ اس معاملے میں انوالو ہو۔ میں امامہ کی فیملی سے خوفزدہ تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ تب بھی تمہاری تاک میں ہوں گے اور میں چاہتا تھا تم اپنا کیرئیر بناتے رہو۔"
وہ لفافہ ہاتھ میں پکڑے رنگ بدلتے ہوئے چہرے کے ساتھ سکندر عثمان کو دیکھتا رہا، کسی نے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے وجود سے جان نکال لی تھی۔ اس نے لفافے کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ طیبہ اور سکندر اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو دیکھ سکیں۔۔۔۔۔ وہ دیکھ چکے تھے مگر اس کے حواس چند لمحوں کے لئے بالکل کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ اپنے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھے اس لفافے پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اسے ٹیبل پر رکھے رکھے اس نے اس کے اندر موجود کاغذ کو نکال لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔

خدا حافظ
امامہ ہاشم
سالار کو لگا وہ واقعی مر گیا ہے۔ سفید چہرے کے ساتھ اس نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو دوبارہ لفافے میں ڈال دیا۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے لفافہ تھاما اور اٹھ کھڑا ہوا۔ سکندر اور طیبہ دم بخود اسے دیکھ رہے تھے جب وہ سکندر کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ اٹھ کھڑے ہو گئے۔
"سالار۔۔۔۔۔!"
وہ رک گیا۔ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
"جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔۔ نادانستگی میں ہوا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم۔۔۔۔۔ اگر تم نے کبھی مجھے امامہ کے بارے میں اپنی فیلنگز بتائی ہوتیں تو میں کبھی یہ سب نہ کرتا۔ میں اس سارے معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کرتا یا پھر اس کے ساتھ تمہارا رابطہ کرا دیتا۔ میرے بارے میں اپنے دل میں کوئی شکایت یا گلہ مت رکھنا۔"
سالار نے سر نہیں اٹھایا۔ ان سے نظر نہیں ملائی مگر سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اسے ان سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ سکندر نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹا لیا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا، سکندر چاہتے تھے وہ وہاں سے چلا جائے۔ انہوں نے اس کے ہونٹوں کو کسی بچے کی طرح کپکپاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بار بار انہیں بھینچ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چند منٹ اور وہاں رہتا تو شاید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ سکندر اپنے پچھتاوے میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
طیبہ نے اس ساری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی، مگر سالار کے باہر جانے کے بعد انہوں نے سکندر کی دل جوئی کرنے کی کوشش کی۔
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کی بہتری کے لئے کیا۔ وہ سمجھ جائے گا۔"
وہ سکندر کے چہرے سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی تھیں۔ سکندر ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہے تھے۔
"یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مجھے سالار سے پوچھے بغیر یا اس کو بتائے بغیر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ مجھے امامہ سے اس طرح کا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔"
وہ بات ا دھوری چھوڑ کر تاسف امیز انداز میں ایک ہاتھ کو مٹھی کی صورت میں بھینچے ہوئے کھڑکی میں جا کر کھڑے ہو گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی بہت محتاط انداز میں سڑک پر پھسل رہی تھی۔ سالار کئی سال بعد پہلی بار اس سڑک پر رات کے اس پہر گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ اسے لگا آٹھ سال اڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہیں تھا۔
کوئی بڑی آہستگی سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ گردن موڑ کر برابر والی سیٹ کو نہیں دیکھا۔ الوژن کو حقیقت بننے دیا۔ جانتے بوجھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ کوئی اب سسکیوں کے ساتھ رو رہا تھا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔

خدا حافظ
امامہ ہاشم

ایک بار پھر اس خط کی تحریر اس کے ذہن میں گونجنے لگی تھی۔
وہ سکندر عثمان کے پاس سے آ کر بہت دیر تک خط لئے اپنے کمرے میں بیٹھا رہا۔
اس نے امامہ کو کوئی رقم نہیں دی تھی مگر وہ جانتا تھا اس نے اس کا کون سا قرض لوٹایا تھا۔ موبائل فون کی قیمت، اور اس کے بلز، وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے بیڈ پر بیٹھے نیم تاریک کمرے کی کھڑکیوں سے باہر اس کے گھر کی عمارت کو دیکھتا رہا۔ ساری دنیا یک دم جیسے ہر زندہ شے سے خالی ہو گئی تھی۔
اس نے خط پر تاریخ پڑھی، وہ امامہ کے گھر سے جانے کے تقریباً ڈھائی سال بعد بھیجا گیا تھا۔
ڈھائی سال بعد اگر وہ بیس ہزار روپے اسے بھجوا رہی تھی تو اس کا مطلب تھا وہ خیریت سے تھی۔ کم از کم اس کے امامہ کے بارے میں بدترین اندیشے درست ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اسے خوشی تھی لیکن اگر اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سالار مر چکا تھا تو پھر وہ اس کی زندگی سے بھی نکل چکا گیا تھا اور اس کا کیا مطلب تھا وہ یہ بھی جانتا تھا۔
کئی گھنٹے وہ اسی طرح وہیں بیٹھا رہا پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا، اپنا بیگ پیک کر کے وہ گھر سے نکل آیا۔
اور اب وہ اس سڑک پر تھا۔ اسی دھند میں، اسی موسم میں، سب کچھ جیسے دھواں بن رہا تھا یا پھر دھند۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ اسی ہوٹل نما سروس سٹیشن کے پاس جا پہنچا۔ اس نے گاڑی روک لی۔ دھند میں ملفوف وہ عمارت اب بالکل بدل چکی تھی۔ گاڑی کو موڑ کر وہ سڑک سے اتار کر اندر لے آیا۔ پھر دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا، آٹھ سال پہلے کی طرح آج بھی وہاں خاموشی کا راج تھا۔ صرف لائٹس کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی۔ اس نے ہارن نہیں دیا، اس لئے اندر سے کوئی نہیں نکلا۔ برآمدے میں اب وہ پانی کا ڈرم نہیں تھا۔ وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا سالار نے اس سے کہا۔
"میں چائے پینا چاہتا ہوں۔"
اس نے جماہی لی اور واپس مڑ گیا۔
"آ جائیں۔۔۔۔۔"
سالار اندر چلا گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا مگر اندر سے کچھ بدل چکا تھا۔ پہلے کی نسبت میزوں اور کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی اور کمرے کی حالت بھی بہت بہتر ہو چکی تھی۔
"چائے لیں گے یا ساتھ کچھ اور بھی؟" اس آدمی نے مڑ کر اچانک پوچھا۔
"صرف چائے۔"
سالار ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
آدمی کاؤنٹر کے عقب میں اب اسٹوو جلانے میں مصروف ہو چکا تھا۔
"آپ کہاں سے آئے ہیں؟" اس نے چائے کے لئے کیتلی اوپر رکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
جواب نہیں آیا۔
اس شخص نے گردن موڑ کر دیکھا۔ چائے پینے کے لئے آنے والا وہ شخص کمرے کے ایک کونے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ بالکل پتھر کے کسی مجسمے کی طرح بے حس و حرکت۔
وہ نماز پڑھ کر اس کے بالمقابل میز کے دوسری جانب کرسی پر آ بیٹھی تھی۔ کچھ کہے بغیر اس نے میز پر پڑا چائے کا کپ اٹھایا اور اسے پینے لگی۔ لڑکا تب تک برگر لے آیا تھا اور اب ٹیبل پر برگر رکھ رہا تھا۔ سالار تیکھی نظروں کے ساتھ برگر کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے رکھی جا رہی تھی۔ جب لڑکے نے پلیٹ رکھ دی تو سالار نے کانٹے کے ساتھ برگر کا اوپر والا حصہ اٹھایا اور تنقیدی نظروں سے فلنگ کا جائزہ لیا پھر چھری اٹھا کر اس نے لڑکے سے کہا جو اب امامہ کے برگر کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔
"یہ شامی کباب ہے؟"
وہ filling کی اوپر والی تہہ کو الگ کر رہا تھا۔
"یہ آملیٹ ہے؟" اس نے نیچے موجود آملیٹ کو چھری کی مدد سے تھوڑا اونچا کیا۔
"اور یہ کیچپ، تو چکن کہاں ہے؟ میں نے تمہیں چکن برگر لانے کو کہا تھا نا؟"
اس نے اکھڑ لہجے میں لڑکے سے کہا۔
امامہ تب تک خاموشی سے برگر اٹھا کر کھانے میں مصروف ہو چکی تھی۔
"یہ چکن برگر ہے۔" لڑکے نے قدرے گڑبڑا کر کہا۔
"کیسے چکن برگر ہے؟ اس میں کہیں چکن نہیں ہے۔" سالار نے چیلنج کیا۔
"ہم اسے ہی چکن برگر کہتے ہیں۔" وہ لڑکا اب نروس ہو رہا تھا۔
"اور جو سادہ برگر ہے اس میں کیا ڈالتے ہو؟"
"اس میں بس شامی کباب ہوتا ہے۔ انڈہ نہیں ہوتا۔"
"اور انڈہ ڈال کر سادہ برگر چکن برگر بن جاتا ہے، چونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی کے گوشت کو چکن کہتے ہیں اس لئے directlyنہیں تو indirectly یہ چکن برگر بنتا ہے۔"
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ لڑکا کھسیانے انداز میں ہنسا۔ امامہ ان دونوں کی گفتگو پر توجہ دئیے بغیر ہاتھ میں پکڑا برگر کھانے میں مصروف تھی۔
"ٹھیک ہے جاؤ۔" سالار نے کہا۔
لڑکے نے یقیناً سکون کا سانس لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ چھری اور کانٹے کو رکھ کر سالار نے بائیں ہاتھ سے برگر کو اٹھا لیا۔ برگر کھاتے ہوئے امامہ نے پہلی بار پلیٹ سے سالار کے ہونٹوں تک بائیں ہاتھ میں برگر کے سفر کو تعجب آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ تعجب ایک لمحے میں غائب ہو گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر برگر کھانے میں مصروف تھی۔سالار نے اپنے برگر کو دانتوں سے کاٹا ایک لمحہ کے لئے منہ چلایا اور پھر برگر کو اپنی پلیٹ میں اچھال دیا۔
"فضول برگر ہے۔ تم کس طرح کھا رہی ہو؟" سالار نے لقمے کو بمشکل حلق سے نگلتے ہوئے کہا۔
"اتنا برا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔" امامہ نے بے تاثر انداز میں کہا۔
"ہر چیز میں تمہارا اسٹینڈرڈ بڑا لو ہے امامہ! وہ چاہے برگر ہو یا شوہر۔"
برگر کھاتے ہوئے امامہ کا ہاتھ رک گیا۔ سالار نے اس کے سفید چہرے کو ایک پل میں سرخ ہوتے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر ایک تپا دینے والی مسکراہٹ آئی۔
"میں جلال انصر کی بات کر رہا ہوں۔" اس نے جیسے امامہ کو یاد دلایا۔
“تم ٹھیک کہتے ہو۔" امامہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
"میرا اسٹینڈرڈ واقعی بہت لو ہے۔" وہ ایک بار پھر برگر کھانے لگی۔
"میں نے سوچا تم برگر میرے منہ پر دے مارو گی۔" سالار نے دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"میں رزق جیسی نعمت کو کیوں ضائع کروں گی۔"
"یہ اتنا برا برگر نعمت ہے؟" اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
"اور کون کون سی نعمتیں ہیں اس وقت تمہارے پاس۔۔۔۔۔"
"انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی جو حس ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔"
"اور ان لوگوں میں ٹاپ آف دی لسٹ سالار سکندر کا نام ہو گا، ہے نا؟"
اس نے امامہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
"سالار سکندر کم از کم اس طرح کی چیزیں کھا کر انجوائے نہیں کر سکتا۔"
اس شخص نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سالار یک دم چونک گیا۔ سامنے والی کرسی اب خالی تھی۔
"ساتھ میں کچھ اور چاہئیے؟" آدمی نے کھڑے کھڑے پھر پوچھا۔
"نہیں، بس چائے کافی ہے۔" سالار نے چائے کا کپ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
"آپ اسلام آباد سے آئے ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔۔۔"
"لاہور جا رہے ہیں؟" اس نے ایک اور سوال کیا۔
اس بار سالار نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ وہ اب چائے کا گھونٹ لے رہا تھا۔ اس آدمی کو شبہ ہوا اس نے چائے پینے والے شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی ہے۔
"میں کچھ دیر یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔" اس نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ شخص کچھ تعجب سے اسے دیکھتا ہوا واپس کچن میں چلا گیا اور ثانوی نوعیت کے کاموں میں مصروف گاہے بگاہے دور سے سالار پر نظریں دوڑاتا رہا۔
پورے پندرہ منٹ بعد اس نے سالار کو ٹیبل چھوڑ کر کمرے سے نکلتے دیکھا۔ وہ آدمی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کچن سے کمرے میں واپس آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سالار کے پیچھے باہر جاتا، میز پر خالی کپ کے نیچے پڑے ایک نوٹ نے اسے روک لیا۔ وہ بھونچکا سا اس نوٹ کو دیکھتا رہا، پھر اس نے آگے بڑھ کر اس نوٹ کو پکڑا اور تیزی سے کمرے سے باہر آ گیا۔ سالار کی گاڑی اس وقت ریورس ہوتے ہوئے مین روڈ پر جا رہی تھی۔ اس آدمی نے حیرانی سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑے اس ہزار روپے کے نوٹ کو برآمدے میں لگی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔
"نوٹ اصلی ہے مگر آدمی بے وقوف۔۔۔۔۔"
اس نے اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے زیر لب تبصرہ کیا اور نوت کو جیب میں ڈال لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔
"سالار کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔"
انہوں نے ملازم سے کہا۔" سالارصاحب تو رات کو ہی چلے گئے تھے۔"
سکندر اور طیبہ نے بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
"کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔؟ گاؤں؟"
"نہیں ، واپس لاہور چلے گئے۔ انہوں نے سالار کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل آف تھا۔ انہوں نے اس کے فلیٹ کا نمبر ڈائل کیا۔
وہاں جوابی مشین لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے پیغام ریکارڈ کرائے بغیر فون بند کر دیا۔ کچھ پریشان سے وہ دوبارہ ناشتے کی میز پر آبیٹھے۔
"فون پر کانٹیکٹ نہیں ہوا؟" طیبہ نے پوچھا۔
"نہیں موبائل آف ہے۔ اس کے فلیٹ پر آنسر فون لگا ہوا ہے۔ پتا نہیں کیوں چلا گیا؟"
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔ ناشتہ کریں۔" طیبہ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم کرو۔۔۔۔۔ میرا موڈ نہیں ہے۔"
وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ طیبہ بےا ختیار سانس لے کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا، باہر فرقان تھا۔ وہ پلٹ کر اندر آ گیا۔
"تم کب آئے؟" فرقان نے قدرے حیرانی سے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے کہا۔
"آج صبح۔۔۔۔۔" سالار نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔" تمہیں گاؤں جانا تھا؟" فرقان نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تو پارکنگ میں تمہاری گاڑی دیکھ کر آ گیا۔ بندہ آتا ہے تو بتا ہی دیتا ہے۔"
سالار جواب میں کچھ کہے بغیر صوفے پر بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا؟" فرقان نے پہلی بار اس کے چہرے کو دیکھا اور تشویش میں مبتلا ہوا۔
"کیا ہوا؟" سالار نے جواباً کہا۔
"میں تم سے پوچھ رہا ہوں، تمہیں کیا ہوا ہے؟" فرقان نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کچھ نہیں۔"
"گھر میں سب خیریت ہے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"تو پھر تم۔۔۔۔۔سر میں درد ہے؟ میگرین؟"
فرقان اب اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔" سالار نے مسکرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا۔
"تو پھر ہوا کیا ہے تمہیں؟ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔"
"میں رات سویا نہیں، ڈرائیو کرتا رہا ہوں۔"
سالار نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
"تو اب سو جاتے۔ یہاں آ کر فلیٹ پر، صبح سے کیا کر رہے ہو؟" فرقان نے کہا۔
"کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔"
"سوئے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟"
"نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔۔"
"تم تو سلپنگ پلز لے کر سو جاتے ہو، پھر نیند نہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟"
فرقان کو تعجب ہوا۔
"بس آج نہیں لینا چاہتا تھا میں۔ یا یہ سمجھ لو کہ آج میں سونا نہیں چاہتا تھا۔"
"کھانا کھایا ہے؟"
"نہیں، بھوک نہیں لگی۔۔۔۔۔"
"دو بج رہے ہیں۔" فرقان نے جیسے اسے جتایا۔
"میں کھانا بھجواتا ہوں کھا لو۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر سو جاؤ پھر رات کو نکلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے۔"
"نہیں، کھانا مت بھجوانا۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ شام کو اٹھوں گا تو باہر جا کر کہیں کھاؤں گا۔"
سالار کہتے ہوئے صوفہ پر لیٹ گیا اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ فرقان کچھ دیر بیٹھا اسے دیکھتا رہا ، پھرا ٹھ کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟"
رمشہ نے سالار کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسیپشن کی طرف جاتے ہوئے سالار کے کمرے کی کھڑکیوں کے چند کھلے ہوئے بلائنڈز میں اسے اندر دیکھا تھا۔ کوریڈور میں سے جانے کی بجائے وہ رک گئی۔ سالار ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے ہوئے تھا۔ رمشہ جانتی تھی کہ اسے کبھی کبھار میگرین کا درد ہوتا تھا۔ وہ ریسیپشن کی طرف جانے کی بجائے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
سالار اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا۔ وہ اب ٹیبل پر کھلی ایک فائل کو دیکھ رہا تھا۔
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" رمشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
"ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔"
اس نے رمشہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ رمشہ واپس جانے کی بجائے آگے بڑھ آئی۔
"نہیں تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔" اس نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"تم پلیز اس فائل کو لے جاؤ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ لو۔۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے فائل بند کر کے ٹیبل پر اس کی طرف کھسکا دی۔
"میں دیکھ لیتی ہوں، تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔"
رمشہ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔
"ہاں، بہتر ہے۔ میں گھر چلا جاؤں۔" اس نے اپنا بریف کیس نکال کر اسے کھولا اور اپنی چیزیں اندر رکھنا شروع کر دیں۔ رمشہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گیارہ بجے آفس سے واپس گھر آ گیا تھا۔ یہ چوتھا دن تھا جب وہ مسلسل اسی حالت میں تھا۔ یک دم، ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
بینک میں اپنی جاب
لمز (LUMS) کے لیکچرز
ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نشست۔۔۔۔۔
فرقان کی کمپنی
گاؤں کا اسکول۔
مستقبل کے منصوبے اور پلاننگ
اسے کوئی چیز بھی اپنی طرف کھینچ نہیں پا رہی تھی۔
وہ جس امکان کے پیچھے کئی سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا وہ" امکان" ختم ہو گیا تھا۔ اور اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ختم ہونے سے اس کے لئے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس حالت سے باہر لانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا اور وہ ناکام ہو رہا تھا۔
محض یہ تصور کہ وہ کسی اور شخص کی بیوی بن کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہو گی۔ سالار سکندر کے لئے اتنا ہی جان لیوا تھا جتنا ماضی کا یہ اندیشہ کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ چلی گئی ہو اور اس ذہنی حالت میں اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ واحد جگہ تھی جو اس کی زندگی میں اچانک آ جانے والی اس بے معنویت کو ختم کر سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر آسمان پر چاند اور ستاروں کی روشنی نے صحن کے ماربل سے منعکس ہو کر وہاں کی ہر چیز کو ایک عجیب سی دودھیا روشنی میں نہلا دیا تھا۔ چاند اور ستاروں کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہیں تھی۔
خانہ کعبہ کے غلاف پر لکھی ہوئی آیات، سیاہ غلاف پر عجیب طرح سے روشن تھے۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا اور اس گہرے سکوت کو صرف ایک آواز توڑ رہی تھی۔ اس کی آواز۔۔۔۔۔ اس کی اپنی آواز۔۔۔۔۔ وہ مقام ملتزم کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی نظریں خانہ کعبہ کے دروازے پر تھیں اور وہ سر اٹھائے بلند آواز سے کہنے لگا۔
"لبيك اللهم لبيك٭ لبيك لا شريك لك لبيك٭ إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك٭"
(حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک حمد وثنا تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں)۔
پوری وقت سے گونجتی ہوئی اس کی آواز خانہ کعبہ کے سکوت کو توڑ رہی تھی، اس کی آواز خلا کی وسعتوں تک جاری تھی۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
ننگے پاؤں، نیم برہنہ وہاں کھڑا وہ اپنی آواز پہچان رہا تھا۔
"لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔ وہ صرف اس کی آواز تھی۔ ٭ إن الحمد والنعمة لك والملك ۔"
اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کی ٹھوڑی سے نیچے اس کے پیروں کی انگلیوں پر گر رہے تھے۔
"لا شریک لک۔۔۔۔۔"
اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
اس نے خانہ کعبہ کے غلاف پر کندہ آیات کو یک دم بہت روشن دیکھا۔ اتنا روشن کہ وہ جگمگانے لگی تھیں۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی بھی اچانک بڑھ گئی۔ وہ ان آیات کو دیکھ رہا تھا۔ مبہوت سحر زدہ، کسی معمول کی طرح، زبان پر ایک ہی جملہ لئے۔۔۔۔۔ اس نے خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آہستہ ہستہ کھلتے دیکھا۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ ایک درد کی طرح، ایک سانس، ایک لے۔
"لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔"
اس وقت پہلی بار اس نے اپنی آواز میں کسی اور آواز کو مدغم ہوتے محسوس کیا۔
“إن الحمد والنعمة۔۔۔۔۔"
اس کی آؤاز کی طرح وہ آواز بلند نہیں تھی۔ کسی سرگوشی کی طرح تھی۔ کسی گونج کی طرح، مگر وہ پہچان سکتا تھا وہ اس کی آواز کی گونج نہیں تھی۔ وہ کوئی اور آواز تھی۔
"لک و الملک۔۔۔۔"
اس نے پہلی بار خانہ کعبہ میں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا۔
"لا شریک لک۔۔۔۔۔"
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل رہا تھا۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔"
وہ اس نسوانی آواز کو پہچانتا تھا۔
"لبیک لا شریک لک۔"
وہ اس کے ساتھ وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔
"لبیک إن الحمد والنعمة۔"
آواز دائیں طرف نہیں تھی بائیں طرف تھی۔ کہاں۔۔۔۔۔ اس کی پشت پر۔ چند قدم کے فاصلے پر۔
"لک و الملک لا شریک لک۔"
اس نے جھک کر اپنے پاؤں پر گرنے والے آنسوؤں کو دیکھا اس کے پاؤں بھیگ چکے تھے۔
اس نے سر اٹھا کر خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ اندر روشنی تھی۔ دودھیا روشنی۔ اتنی روشنی کہ اس نے بے اختیار گھٹنے ٹیک دئیے۔ وہ اب سجدہ کر رہا تھا، روشنی کم ہو رہی تھی۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا، روشنی اور کم ہو رہی تھی۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کا دروازہ اب بند ہو رہا تھا۔ روشنی اور کم ہوتی جا رہی تھی اور تب اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی صورت میں وہی نسوانی آواز سنی۔
اس بار اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ حرم شریف کے ایک برآمدے کے ستون سے سر ٹکائے ہوئے تھا۔ وہ کچھ دیر سستانے کے لئے وہاں بیٹھا تھا مگر نیند نے عجیب انداز میں اس پر غلبہ پایا۔
وہ امامہ تھی۔ بے شک امامہ تھی۔ سفید احرام میں اس کے پیچھے کھڑی۔ اس نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی مگر ایک جھلک بھی اسے یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ وہ امامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔ خالہ الذہنی کے عالم میں لوگوں کو ادھر سے ادھرجاتے دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا۔
آٹھ سال سے زیادہ ہو گیا تھا اسے اس عورت کو دیکھے جسے اس نے آج وہاں حرم شریف میں دیکھا تھا کسی زخم کو پھر ادھیڑا گیا تھا۔ اس نے گلاسز اتار دئیے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
آنکھوں سے ابلتے گرم پانی کو رگڑتے، آنکھوں کو مسلتے اسے خیال آیا۔ یہ حرم شریف تھا۔ یہاں اسے کسی سے آنسو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں سب آنسو بہانے کے لئے ہی آتے تھے۔ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا لئیے۔ اس پر رقت طاری ہو رہی تھی۔ وہ سر جھکائے بہت دیر وہاں بیٹھا روتا رہا۔
پھر اسے یاد آیا، وہ ہر سال وہاں عمرہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کی طرف سے بھی عمرہ کیا کرتا تھا۔
وہ اس کی عافیت اور لمبی زندگی کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
وہ امامہ ہاشم کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
اس نے وہاں حرم شریف میں اتنے سالوں میں اپنے اور امامہ کے لئے ہر دعا مانگ چھوڑی تھی۔ جہاں بھر کی دعائیں۔ مگر اس نے وہاں حرم شریف میں امامہ کو کبھی اپنے لئے نہیں مانگا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اس نے وہاں امامہ کے حصول کے لئے کبھی دعا نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو یک دم تھم گئے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
وضو کے بعدا س نے عمرے کے لئے احرام باندھا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس بار اتفاقاً اسے مقام ملتزم کے پاس جگہ مل گئی۔ وہاں ، جہاں اس نے اپنے آپ کو خواب میں کھڑے دیکھا تھا۔
اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دعا کرنا شروع کی۔
"یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں اور میری دعا میں بہت فرق ہے۔"
وہ گڑگڑا رہا تھا۔
"میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات، میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لئے نہیں رویا ہو گا۔ میری ذلت اور پستی کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہو گی کہ میں یہاں کھڑا ۔۔۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔۔۔ ایک عورت کے لئے گڑگڑا رہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔
یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی، یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں اس عورت کے لئے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا؟ میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا۔ میں وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت ، وہ عورت میری زندگی کے ہر راستے پر کھڑی ہے۔ مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لئے ہی روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لئے آنسو نہیں بہا سکوں گا۔ میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔
میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔
میں اپنی نسل کے لئے اس عورت کو مانگتا ہوں، جس نے آپ کے پیغمبرﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشات کو چھوڑ دیا۔
اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، تو مجھے اس کے عوض امامہ ہاشم دے دے۔ تو چاہے تو یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔
مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میری زندگی کو آسان کر دے۔
آٹھ سال سے میں جس تکلیف میں ہوں مجھے اس سے رہائی دے دے۔
سالار سکندر پر ایک بار پھر رحم کر، وہی جو تیری صفات میں افضل ترین ہے۔
وہ سر جھکائے وہاں بلک رہا تھا۔ اسی جگہ پر جہاں اس نے خود کو خواب میں دیکھا تھا مگر اس بار اس کی پشت پر امامہ ہاشم نہیں تھی۔
بہت دیر تک گڑگڑانے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی اب بھی مدھم تھی۔ خانہ کعبہ روشنیوں سے اب بھی بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم رات کے اس پہر بھی اسی طرح تھا۔ خواب کی طرح خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے ہٹتے ہوئے سالار سکندر کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
وہ اس کیفیت سے باہر آ رہا تھا جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے تھا۔ ایک عجیب سا قرار تھا جو اس دعا کے بعد اسے ملا تھا اور وہ اسی قرار اور طمانیت کو لیے ہوئے ایک ہفتے کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ جا رہا ہوں۔"
فرقان نے بے اختیار چونک کر سالار کو دیکھا۔
"کیا مطلب۔۔۔۔۔" سالار حیرانی سے مسکرایا۔
"کیا مطلب کا کیا مطلب؟ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یوں اچانک۔۔۔۔۔؟"
"اچانک تو نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنی تو تھی مجھے۔ بہتر ہے ابھی کر لوں۔" سالار اطمینان سے بتا رہا تھا۔
وہ دونوں فرقان کے گاؤں سے واپس آ رہے تھے۔ فرقان ڈرائیو کر رہا تھا جب سالار نے اچانک اسے اپنی پی ایچ ڈی کے ارادے کے بارے میں بتایا۔
"میں نے بینک کو بتا دیا ہے، میں نے ریزائن کرنے کا سوچا ہے۔ لیکن وہ مجھے چھٹی دینا چاہ رہے ہیں۔ ابھی میں نے سوچا نہیں کہ ان کی اس آفر کو قبول کر لوں یا ریزائن کر دوں۔"
"تم ساری پلاننگ کیے بیٹھے ہو۔"
"ہاں یار۔۔۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں واقعی اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے جا رہا ہوں۔"
"چند ماہ پہلے تک تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"
"ارادے کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں بن جاتا ہے۔"
سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر آنے والے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں ویسے بھی بینکنگ سے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن یہاں میں پچھلے کچھ سالوں میں اتنا مصروف رہا ہوں کہ اس پر کام نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں پی ایچ ڈی کےدوران میں یہ کتاب لکھ کر شائع بھی کرا لوں۔ میرے پاس کچھ فرصت ہو گی تو میں یہ کام آسانی سے کر لوں گا۔"
فرقان کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
"اور اسکول۔۔۔۔۔؟ اس کا کیا ہو گا؟"
"اس کا کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ بورڈ آف گورنرز ہے، وہ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ تم ہو۔۔۔۔۔ میں نے پاپا سے بھی بات کی ہے وہ بھی آیا کریں گے یہاں پر۔۔۔۔۔ میرے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سکول بہت پہلے سالار سکندر کی تھمائی ہوئی لاٹھیاں چھوڑ چکا ہے۔ آئندہ بھی اسے ان کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر میں مکمل طور پر اس سے قطع تعلق نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس کو دیکھتا رہوں گا۔ کبھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو آ جایا کروں گا۔ پہلے بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔"
وہ اب تھرمس میں سے چائے کپ میں ڈال رہا تھا۔
"پی ایچ ڈی کے بعد کیا کرو گے؟" فرقان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"واپس آؤں گا۔ پہلے کی طرح یہیں پر کام کروں گا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔"
سالار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکا۔
"کیا چند سال بعد نہیں جا سکتے تم؟"
"نہیں، جو کام آج ہونا چاہئیے اس آج ہی ہونا چاہئیے۔ میرا موڈ ہے پڑھنے کا۔ چند سال بعد شاید خواہش نہ رہے۔"
سالار نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ اب بائیں ہاتھ سے ریڈیو کو ٹیون کرنے میں مصروف تھا۔
"روٹری (Rotary) کلب والے اگلے ویک اینڈ پر ایک فنکشن کر رہے ہیں، میرے پاس انویٹیشن آیا ہے۔ چلو گے؟"
اس نے ریڈیو کو ٹیون کرتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
"کیوں نہیں چلوں گا۔ ان کے پروگرام دلچسپ ہوتے ہیں۔"
فرقان نے جواباً کہا۔ گفتگو کا موضوع بدل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس دن اتوار تھا۔ سالار صبح دیر سے اٹھا۔
اخبار لے کر سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگا۔ اس نے صرف منہ ہاتھ دھویا تھا۔ شیو نہیں کی۔ نائٹ ڈریس کے اوپر ہی اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہن لیا اس نے کتیلی میں چائے کا پانی ابھی رکھا ہی تھا جب ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ اخبار ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آ گیا، دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اس نے سعیدہ اماں کو وہاں کھڑا پایا۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔
"السلام علیکم! کیسی ہیں آپ؟"
"اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو؟"
انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے سر پر اپنےدونوں ہاتھ پھیرے۔
"میں بھی ٹھیک ہوں، آپ اندر آئیں۔"
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک لگ تو نہیں رہے ہو۔ کمزور ہو رہے ہو، چہرہ بھی کالا ہو رہا ہے۔" انہوں نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے اس کے چہرے پر غور کیا۔
"رنگ کالا نہیں ہوا، میں نے شیو نہیں کی۔" سالار نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آ گیا۔
"لو بھلا شیو کیوں نہیں کی۔ اچھا داڑھی رکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کا کام ہے۔ بہت اچھا کر رہے ہو۔"
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
"نہیں اماں! داڑھی نہیں رکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ آج اتوار ہے۔ دیر سے اٹھا ہوں کچھ دیر پہلے ہی۔ اس لئے شیو نہیں کی۔" وہ ان کی بات پر محظوظ ہوا۔
"دیر سے کیوں اٹھے۔۔۔۔۔ بیٹا! دیر سے نہ اٹھا کرو۔ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز پڑھا کرو۔۔۔۔۔ چہرے پر رونق آتی ہے۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ صبح نماز پڑھ کر بندہ قرآن پڑھے پھر سیر کو چلا جائے۔ صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔"
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
"میں نماز پڑھ کر سویا تھا۔ صرف اتوار والے دن ہی دیر تک سوتا ہوں۔ ورنہ روز صبح وہی کرتا ہوں جو آپ کہہ رہی ہیں۔"
وہ اس کی وضاحت پر بے حد خوش نظر آنے لگیں۔
"بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہے۔ رونق نظر آ رہی ہے۔"
انہوں نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔
"آپ کیا لیں گی؟"
وہ اپنے چہرے پر کوئی تبصرہ نہیں سننا چاہتا تھا، اس لئے موضوع بدلا۔
"ناشتا کریں گی؟"
"نہیں، میں ناشتا کر کے آئی ہوں۔ صبح چھ سات بجے میں ناشتہ کر لیتی ہوں۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تو میں دوپہر کا کھانا بھی کھا لیتی ہوں۔"
انہوں نے اپنے معمولات سے آگاہ کیا۔
"تو پھر دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ ساڑھے دس تو ہو رہے ہیں۔"
"نہیں ابھی تو مجھے بھوک ہی نہیں۔ تم میرے پاس آ کر بیٹھو۔"
"میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔"
وہ ان کے انکار کے باوجود کچن میں آ گیا۔
"پورے چھ ماہ سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ تم نے ایک بار بھی شکل نہیں دکھائی۔ حالانکہ وعدہ کیا تھا تم نے۔"
اسے کچن میں ان کی آواز سنائی دی۔
"میں بہت مصروف تھا اماں جی۔۔۔۔۔"
اس نےا پنے لئے چائے تیار کرتے ہوئےکہا۔
"لو ایسی بھی کیا مصروفیت۔۔۔۔۔ ارے بچے! مصروف وہ ہوتے ہیں، جن کے بیوی بچے ہوتے ہیں نہ تم نے گھر بسایا، نہ تم گھر والوں کے ساتھ رہ رہے ہو۔۔۔۔۔ پھر بھی کہتے ہو مصروف تھا۔۔۔۔۔"
وہ ٹوسٹر سے سلائس نکالتے ہوئے ان کی بات پر مسکرایا۔
"اب یہی دیکھو، یہ تمہارے کرنے کے کام تو نہیں ہیں۔"
وہ اسے چائے کی ٹرے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔
"میں تو کہتی ہوں یہ کام مرد کے کرنے والے ہیں ہی نہیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے میز پر برتن رکھنے لگا۔
"اب دیکھو بیوی ہوتی تو یہ کام بیوی کر رہی ہوتی۔ مرد اچھالگتا ہی نہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔"
"آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں جی! مگر اب مجبوری ہے۔ اب بیوی نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔"
سالار نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہیں اس کی بات پر جھٹکا لگا۔
"یہ کیا بات ہوئی، کیا کیا جا سکتا ہے؟ ارے بچے ! دنیا لڑکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ تمہارے تو اپنے ماں باپ بھی ہیں۔ ان سے کہو۔۔۔۔۔ تمہارا رشتہ طے کریں۔ یا تم چاہو تو میں کوشش کروں۔"
سالار کو یک دم صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا۔
"نہیں ، نہیں اماں جی! آپ چائے پئیں میں بہت خوش ہوں، اپنی زندگی سے۔۔۔۔۔ جہاں تک گھر کے کاموں کاتعلق ہے تو وہ تو ہمارے پیغمبرﷺ بھی کر لیا کرتے تھے۔"
"لو اب تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں تو تمہاری بات کر رہی ہوں۔" وہ کچھ گڑبڑا گئیں۔
"آپ یہ بسکٹ لیں اور کیک بھی۔۔۔۔۔"
سالار نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
"ارے ہاں، جس کام کے لئے میں آئی ہوں وہ تو بھول ہی گئی۔"
انہیں اچانک یاد آیا، اپنے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا بیگ انہوں نے کھول کر اندر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔
"تمہاری بہن کی شادی طے ہو گئی ہے۔"
سالار کو چائے پیتے بے اختیار اچھو لگا۔
"میری بہن کی۔۔۔۔۔ اماں جی! میری بہن کی شادی تو پانچ سال پہلے ہو گئی تھی۔"
اس نے کچھ ہکا بکا ہوتے ہوئے بتایا۔ وہ اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کارڈ برآمد کر چکی تھیں۔
"ارے میں اپنی بیٹی کی بات کر رہی ہوں۔ آمنہ کی، تمہاری بہن ہی ہوئی نا۔۔۔۔۔"
انہوں نے اس کے جملے پر بڑے افسوس کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کارڈ تھمایا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی کل تک وہ اسے اس کی بیوی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں اور اب یک دم بہن بنا دیا، مگر اس کے باوجود سالار کو بے تحاشا اطمینان محسوس ہوا۔ کم از کم اب اسے ان سے یا ان کی بیٹی سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
بہت مسرور سا ہو کر اس نے کارڈ پکڑ لیا۔
"بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ کب ہو رہی ہے شادی؟" اس نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا۔
"اگلے ہفتے۔۔۔۔۔"
"چلیں اماں جی! آپ کی فکر تو ختم ہو گئی۔"
سالار نے" میری" کے بجائے" آپ کی" کا لفظ استعمال کیا۔
"ہاں اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی جگہ رشتہ ہو گیا۔ میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی پھر میں بھی اپنے بیٹوں کے پاس انگلینڈ چلی جاؤں گی۔"
سالار نے کارڈ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی۔
"یہ کارڈ تمہیں دینے خاص طور پر آئی ہوں۔۔۔۔۔ اس بار کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ تمہیں شادی پر آنا ہے۔ بھائی بن کر رخصت کرنا ہے بہن کو۔"
سالار نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چائے کا کپ لیا۔
"آپ فکر نہ کریں، میں ضرور آؤں گا۔"
وہ کپ نیچے رکھ کر سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
"یہ فرقان کا کارڈ بھی لے کر آئی ہوں میں۔۔۔۔۔ اس کو بھی دینے جانا ہے۔"
انہیں اب فرقان کی یاد ستانے لگی۔
"فرقان کو تو آج بھابھی کے ساتھ اپنے سسرال جانا تھا۔ اب تک تو نکل چکا ہو گا۔ آپ مجھے دے دیں، میں اسے دے دوں گا۔" سالار نے کہا۔
"تم اگر بھول گئے تو؟" وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
"میں نہیں بھولوں گا، اچھا میں فون پر اس سے آپ کی بات کرا دیتا ہوں۔"
وہ یک دم خوش ہو گئیں۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، تم فون پر اس سے میری بات کرا دو۔"
سالار اٹھ کر فون اسی میز پر لے آیا۔ فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کر کے اس نے اسپیکر آن کر دیا اور خود ناشتہ کرنے لگا۔
"فرقان! سعیدہ اماں آئی ہوئی ہیں میرے پاس۔"
فرقان کے کال ریسیو کرنے پر اس نے بتایا۔
"ان سے بات کرو۔"
وہ خاموش ہو گیا، اب فرقان اور سعیدہ اماں کے درمیان بات ہو رہی تھی۔
دس منٹ بعد جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو سالار ناشتہ کر چکا تھا۔ برتن کچن میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا۔
"آئی کس کے ساتھ تھیں آپ؟" وہ باہر نکل آیا۔
"اپنے بیٹے کے ساتھ۔" سعیدہ اماں نے اطمینان سے کہا۔
"اچھا، بیٹا آ گیا آپ کا؟ چھوٹا والا یا بڑا والا؟"
سالار نے دلچسپی لی۔
"میں ساتھ والوں کے راشد کی بات کر رہی ہوں۔" سعیدہ اماں نے بے اختیار برا مانا۔
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سعیدہ اماں کے لئے ہر لڑکا اپنا بیٹا اور ہر لڑکی اپنی بیٹی تھی۔ وہ بڑے آرام سے رشتے گھڑ لیتی تھیں۔
"تو وہ کہاں ہے؟" سالار نے پوچھا۔
"وہ چلا گیا، موٹر سائیکل پر آئی ہوں اس کے ساتھ۔ آندھی کی رفتار سے چلائی ہے اس نے۔ نو بجے بیٹھی ہوں، پورے ساڑھے دس بجے ادھر پہنچا دیا اس نے۔ میری ایک نہیں سنی اس نے۔ سارا راستہ۔۔۔۔۔ بار بار یہی کہتا رہا آہستہ چلا رہا ہوں۔ یہاں اتارتے وقت کہنے لگا آپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر میرا آخری سفر تھا۔ دوبارہ کہیں لے کر جانا ہوا تو پیدل لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔۔۔"
سالار کو ہنسی آئی۔ آدھہ گھنٹہ میں طے ہونے والے راستے کو ڈیڑھ گھنٹےمیں طے کرنے والے کی جھنجھلاہٹ کا وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارنا خاصا مشکل کام تھا۔ یہ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات میں ہی جان گیا تھا۔
"تو واپس کیسے جائیں گی۔ راشد لینے آئے گا آپ کو؟"
"ہاں ، اس نے کہا تو ہے کہ میچ ختم ہونے کے بعد آپ کو لے جاؤں گا۔ اب دیکھو کب آتا ہے۔"
وہ اسے ایک بار پھر اپنی بیٹی اور اس کے ہونے والے سسرال کے بارے میں اطلاعات پہنچانے لگیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے سنتا رہا۔
اس قسم کی معلومات میں اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی مگر سعیدہ اماں اب اس کے ساتھ بینکنگ کے بارے میں تو گفتگو نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کی باتیں رتی بھر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ ہر بات سمجھ رہا ہے۔
دوپہر کا کھانا اس نے ان کے ساتھ کھایا۔ اس نے ان کے سامنے فریزر سے کچھ نکال کر گرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بار پھر شادی کے فوائد اور ضرورت پر لیکچر نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ فون کر کے لنچ کا آرڈر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے وقت تک راشد نہیں آیا تو سالار نے ان کی تشویش کو کم کرنے کے لئے کہا۔
"میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔"
وہ فوراً تیار ہو گئیں۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، اس طرح تم میرا گھر بھی دیکھ لو گے۔"
"اماں جی! میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔"
سالار نے کار کی چابی تلاش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
آدھہ گھنٹہ کے بعد وہ اس گلی میں تھا جہاں سعیدہ اماں کا گھر تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر انہیں اندر گلی میں دروازے تک چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی، جسے اس نے شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔
"آج نہیں۔۔۔۔۔ آج بہت کام ہیں۔"
وہ اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔
"بچے اسی لئے کہتی ہوں شادی کر لو۔ بیوی ہو گی تو خود سارے کام دیکھے گی۔ تم کہیں آ جا سکو گے۔ اب یہ کوئی زندگی ہے کہ چھٹی کے دن بھی گھر کے کام لے کر بیٹھے رہو۔" انہوں نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب میں جاؤں؟"
اس نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہاں ٹھیک ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا شادی پر ضرور آنا۔ فرقان سے بھی ایک بار پھر کہہ دینا کہ وہ بھی آئے اور اس کو کارڈ ضرور پہنچا دینا۔"
سالار نے ان کے دروازے پر لگی ہوئی ڈور بیل بجائی اور خداحافظ کہتے ہوئے پلٹا۔
اپنے پیچھے اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ سعیدہ اماں اب اپنی بیٹی سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"پھر کیا پروگرام ہے، چلو گے؟"
فرقان نے اگلے دن شام کو اس سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
"نہیں، میں تو اس ویک اینڈ پر کراچی جا رہا ہوں۔ آئی بی ای کے ایک سیمینار کے لئے۔ اتوار کو میری واپسی ہو گی۔ میں تو آ کر بس سوؤں گا۔
"Nothing else۔ تم چلے جانا ۔، میں لفافہ دے دوں گا، وہ تم میری طرف سے معذرت کرتے ہوئے دے دینا۔" سالار نے کہا۔
"کتنے افسوس کی بات ہے سالار! وہ خود کارڈ دے کر گئی ہیں، اتنی محبت سے بلایا ہے۔"
فرقان نے کہا۔
"جانتا ہوں لیکن میں ادھر جا کر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔"
"ہم بس تھوڑی دیر بیٹھیں گے پھر آجائیں گے۔"
"فرقان! میری واپسی کنفرم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میں اتورا کو آ ہی نہ سکوں یا اتوار کی رات کو آؤں۔"
"بے حد فضول آدمی ہو تم۔ وہ بڑی مایوس ہوں گی۔"
"کچھ نہیں ہو گا، میرے نہ ہونے سے ان کی بیٹی کی شادی تو نہیں رک جائے گی۔ ہو سکتا ہے انہیں پہلے ہی میرے نہ آنے کا اندازہ ہو اور ویسے بھی فرقان! تم اور میں کوئی اتنے اہم مہمان نہیں ہیں۔"
سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"بہرحال میں اور میری بیوی تو جائیں گے، چاہے ہم کم اہم مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔" فرقان نے ناراضی سے کہا۔
"میں نے کب روکا ہے، ضرور جاؤ، تمہیں جانا بھی چاہئیے۔ سعیدہ اماں کے ساتھ تمہاری مجھ سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔" سالار نے کہا۔
"مگر سعیدہ اماں کو میرے بجائے تمہارا زیادہ خیال رہتا ہے۔"فرقان نے جتایا۔
"وہ مروت ہوتی ہے۔" سالار نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لئے بغیر کہا۔
"جو بھی ہوتا ہے بہرحال تمہارا خیال تو ہوتا ہے انہیں۔ چلو اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر سبط علی کی عزیزہ سمجھ کر ہی تم ان کے ہاں چلے جاؤ۔" فرقان نے ایک اور حربہ آزمایا۔
"ڈاکٹر صاحب تو خود یہاں نہیں ہیں۔ وہ تو خود شادی میں شرکت نہیں کر رہے اور اگر وہ یہاں ہوتے بھی تو کم از کم مجھے تمہاری طرح مجبور نہیں کرتے۔"
"اچھا، میں بھی نہیں کرتا تمہیں مجبور۔ نہیں جانا چاہتے تو مت جاؤ۔"
فرقان نے کہا۔
سالار ایک بار پھر اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک سرسبز و وسیع سبزہ زار تھا جہاں وہ دونوں موجود تھے۔ وسیع کھلے سبزہ زار میں درخت تھے مگر زیادہ بلند نہیں۔ خوبصورت بھولدار جھاڑیاں تھیں، چاروں طرف خاموشی تھی۔وہ دونوں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے بجائے ایک پھولدار جھاڑی کے قریب دھوپ میں بیٹھے تھے۔ امامہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی اور وہ گھاس پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ان دونوں کے جوتے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ امامہ نے اس بار خوبصورت سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی۔ امامہ اس سے کچھ کہتے ہوئے دور کسی چیز کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے اس کی چادر کے ایک پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ یوں جیسے دھوپ کی شعاعوں سے آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ اس کی چادر نے اسے عجیب سا سکون اور سرشاری دی تھی۔ امامہ نے چادر کے سرے کو اس کے چہرے سے ہتانے یا کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنے چہرے پر موجود چادر کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ نیند اسے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔
سالار نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ کسی چیز نے اس کی نیند کو توڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے کچھ دیر بے یقینی سے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا۔ ایک اور خواب۔۔۔۔۔ ایک اور الوژن۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور تب اس کو اس موبائل فون کی آواز نے متوجہ کیا، جو مسلسل اس کے سرہانے بج رہا تھا۔ یہ فون ہی تھا جو اسے اس خواب سے باہر لے آیا تھا۔ قدرے جھنجھلاتے ہوئے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس نے موبائل اٹھایا۔ دوسری طرف فرقان تھا۔
"کہاں تھے سالار! کب سے فون کر رہا ہوں۔ اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے تھے؟"فرقان نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"میں سو رہا تھا۔" سالار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر اب پہلی بار گھڑی پر پڑی جو چار بجا رہی تھی۔
"تم فوراً سعیدہ اماں کے ہاں چلے آؤ۔" دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
"کیوں؟میں نے تمہیں بتایا تھا ، میں تو۔۔۔۔۔"
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
"میں جانتا ہوں، تم نے مجھے کیا بتایا تھا مگر یہاں کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے۔"
"کیسی ایمرجنسی؟" سالار کو تشویش ہوئی۔
"تم یہاں آؤ گے تو پتا چل جائے گا۔ تم فوراً یہاں پہنچو، میں فون بند کر رہا ہوں۔"
فرقان نے فون بند کر دیا۔
سالار کچھ پریشانی کے عالم میں فون کو دیکھتا رہا۔ فرقان کی آواز سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پریشان تھا مگر سعیدہ اماں کے ہاں پریشانی کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی۔
پندرہ منٹ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد گاڑی میں تھا۔ فرقان کی اگلی کال اس نے کار میں ریسیو کی۔
"تم کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟ مجھے پریشان کر دیا ہے تم نے۔" سالار نے اس سے کہا۔
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ادھر ہی آ رہے ہو۔ یہاں آؤ گے تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ میں فون پر تفصیلی بات نہیں کر سکتا۔"
فرقان نے ایک بار پھر فون بندکر دیا۔
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے آدھے گھنٹے کا سفر تقریباً بیس منٹ میں طے کیا۔ فرقان اسے سعیدہ اماں کے گھر کے باہر ہی مل گیا۔ سالار کا خیال تھا کہ سعیدہ اماں کے ہاں اس وقت بہت چہل پہل ہو گی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہاں دور دور تک کسی بارات کے آثار نہیں تھے۔ فرقان کے ساتھ وہ بیرونی دروازے کے بائیں طرف بنے ہوئے ایک پرانی طرز کے ڈرائینگ روم میں آ گیا۔
"آخر ہوا کیا ہے جو تمہیں مجھے اس طرح بلانا پڑ گیا؟"
سالار اب الجھ رہا تھا۔
"سعیدہ اماں اور ان کی بیٹی کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔" فرقان نے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
"کیسا مسئلہ؟"
"جس لڑکے سے ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی اس لڑکے نے کہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔"
"مائی گڈنیس۔" سالار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"ان لوگوں نے ابھی کچھ دیر پہلے سعیدہ اماں کو یہ سب فون پر بتا کر ان سے معذرت کی ہے۔ وہ لوگ اب بارات نہیں لا رہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے ہاں گیا ہوا تھا، مگر وہ لوگ واقعی مجبور ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، اس لڑکے نے بھی انہیں صرف فون پر ہی اس کی اطلاع دی ہے۔" فرقان تفصیل بتانے لگا۔
"اگر وہ لڑکا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے بہت پہلے ہی ماں باپ کو صاف صاف بتا دینا چاہئیے تھا۔ بھاگ کر شادی کر لینے کی ہمت تھی تو ماں باپ کو پہلے اس شادی سے انکار کر دینے کی بھی ہمت ہونی چاہئیے تھی۔" سالار نے ناپسندیدگی سے کہا۔
"سعیدہ اماں کے بیٹوں کو اس وقت یہاں ہونا چاہئیے تھا، وہ اس معاملے کو ہینڈل کر سکتے تھے۔"
"لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کسی نہ کسی کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔"
"سعیدہ اماں کے کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہیں؟" سالار نے پوچھا۔
"نہیں، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے داکٹر سبط علی صاحب سے بات کی ہے فون پر۔" فرقان نے اسے بتایا۔
"لیکن ڈاکٹر صاحب بھی فوری طور پر تو کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یہاں ہوتے تو اور بات تھی۔" سالار نے کہا۔
"انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہاری فون پر ان سے بات کراؤں۔"فرقان کی آواز اس بار کچھ دھیمی تھی۔
"میری بات۔۔۔۔۔ لیکن کس لئے؟ سالار کچھ حیران ہوا۔
"ان کا خیال ہے کہ اس وقت تم سعیدہ اماں کی مدد کر سکتے ہو۔"
"میں ؟" سالار نے چونک کر کہا۔" میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟"
"آمنہ سے شادی کر کے۔"
سالار دم بخود پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟" اس نے بمشکل فرقان سے کہا۔
"ہاں، بالکل ٹھیک ہے۔" سالار کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"پھر تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔"
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ فرقان برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔
"کیا سوچ کر تم نے یہ بات کہی ہے۔" سالار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا۔
"میں نے یہ سب تم سے ڈاکٹرصاحب کے کہنے پر کہا ہے۔" سالار کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
"تم نے انہیں میرا نام کیوں دیا؟"
"میں نے نہیں دیا سالار! انہوں نے خود تمہارا نام لیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے درخواست کروں کہ میں اس وقت سعیدہ اماں کی بیٹی سے شادی کر کے اس کی مدد کروں۔"
کسی نے سالار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی یا سر سے آسمان، اسے انداز ہ نہیں ہوا۔ وہ پلٹ کر واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
"میں شادی شدہ ہوں فرقان! تم نے انہیں بتایا۔"
"ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ تم نے کئی سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، مگر پھر وہ لڑکی دوبارہ تمہیں نہیں ملی۔"
"پھر؟"
"وہ اس کے باوجود یہی چاہتے ہیں کہ تم آمنہ سے شادی کر لو۔"
"فرقان۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
"اور امامہ۔۔۔۔۔ اس کا کیا ہو گا؟"
"تمہاری زندگی میں امامہ کہیں نہیں ہے۔ اتنے سالوں میں کون جانتا ہے، وہ کہاں ہے۔ ہے بھی کہ نہیں۔"
"فرقان۔۔۔۔۔" سالار نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔" اس بات کو رہنے دو کہ وہ ہے یا نہیں۔ مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اگر کل امامہ آ جا تی ہو تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا؟"
"تم یہ بات ڈاکٹر صاحب سے کہو۔" فرقان نے کہا۔
"نہیں، تم یہ سب کچھ سعیدہ اماں کو بتاؤ، ضروری تو نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قبول کر لیتی جس نے کہیں اور شادی کی ہے۔"
"وہ اگر بارات لے کر آ جاتا تو شاید یہ بھی ہو جاتا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ آمنہ سے دوسری شادی پر بھی تیار نہیں ہے۔"
"اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔"
"ہاں، ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر یہ کام اس وقت نہیں ہو سکتا۔"
"ڈاکٹر صاحب نے آمنہ کے لئے غلط انتخاب کیا ہے۔ میں ۔۔۔۔۔ میں آمنہ کو کیا دے سکتا ہوں۔میں تو اس آدمی سے بھی بدتر ہوں جو ابھی اسے چھوڑ گیا ہے۔"
سالار نے بے چارگی سے کہا۔
"سالار! انہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے، ضرورت کے وقت صرف وہی آدمی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔ تم زندگی میں اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے آ رہے ہو، کیا ڈاکٹر سبط علی صاحب کی مدد نہیں کر سکتے۔"
"میں نے لوگوں کی پیسے سے مدد کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پیسہ نہیں مانگ رہے۔"
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے نمبر دیکھ کر موبائل سالار کی طرف بڑھا دیا۔
"ڈاکٹر صاحب کی کال آ رہی ہے۔"
سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ موبائل پکڑ لیا۔
وہاں بیٹھے موبائل کان سے لگائے سالار کو پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ زندگی میں ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جا سکتی۔ وہ جو کچھ فرقان سے کہہ سکتا تھا وہ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں دلائل دے سکتا تھا نہ بہانے بنا سکتا تھا۔ انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں اس سے درخواست کی تھی۔
"اگر آپ اپنے والدین سے اجازت لے سکیں تو آمنہ سے شادی کر لیں۔ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔ آپ سمجھیں میں اپنی بیٹی کے لئے آپ سے درخواست کر رہا ہوں، آپ کو تکلیف دے رہا ہوں لیکن میں ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوں۔"
"آپ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔"
اس نے مدھم آواز میں ان سے کہا۔
"آپ مجھ سے درخواست نہ کریں، آپ مجھے حکم دیں۔" اس نے خود کو کہتے پایا۔
فرقان تقریباً دس منٹ کے بعد اندر آیا۔ سالار موبائل فون ہاتھ میں پکڑے گم صم فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
"ڈاکٹر صاحب سے بات ہو گئی تمہاری؟"
فرقان نے اس کے بالمقابل ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کچھ کہے بغیر سینٹر ٹیبل پر اس کا موبائل رکھ دیا۔
"میں رخصتی ابھی نہیں کراؤں گا۔ بس نکاح کافی ہے۔"
اس نے چند لمحوں بعد کہا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔ فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ" مقدر" کا شکار ہونے والا پہلا انسان نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سڑک پر گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ رات بہت تیزی سے گزرتی جا رہی تھی۔ گہری دھند ایک بار پھر ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رہی تھی۔
سڑک پر جلنے والی سٹریٹ لائٹس کی روشنی دھند کو چیرتے ہوئے اس بالکونی کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں منڈیر کے پاس ایک اسٹول پر، سالار بیٹھا ہوا تھا۔ منڈٖیر پر اس کے سامنے کا فی کا ایک مگ پڑا ہوا تھا، جس میں سے اٹھنے والی گرم بھاپ دھند کے پس منظر میں عجیب سی شکلیں بنانے میں مصروف تھی اور وہ۔۔۔۔۔ وہ سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے یک ٹک نیچے سنسان سڑک کو دیکھ رہا تھا جو دھند کے اس غلاف میں بہت عجیب نظر آ رہی تھی۔
رات کے دس بج رہے تھے اور وہ چند منٹ پہلے ہی گھر پہنچا تھا۔ سعیدہ اماں کے گھر نکاح کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اسے وہاں عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ وہ گاڑی لے کر بے مقصد شام سے رات تک سڑکوں پر پھرتا رہا۔ اس کا موبائل آف تھا۔ وہ بیرونی دنیا سے اس وقت کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ موبائل آن ہوتا تو فرقان اس سے رابطہ کرتا۔ بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش کرتا یا ڈاکٹر سبط علی رابطہ کرتے، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے۔
وہ یہ دونوں چیزیں نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس وقت مکمل خاموشی چاہتا تھا۔ اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر چند گھنٹے پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچا۔ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ کاش خواب ہی ہوتا۔ اسے وہاں بیٹھے کئی ماہ پہلے حرم پاک میں مانگی جانے والی دعا یاد آئی۔
"تو کیا اسے میری زندگی سے نکال دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔" اس نے تکلیف سے سوچا۔
"تو پھر یہ اذیت بھی تو ختم ہونی چاہئیے۔ میں نے اس اذیت سے رہائی بھی تو مانگی تھی۔ میں نے اس کی یادوں سے فرار بھی تو چاہا تھا۔" اس نے منڈیر پر رکھا گرم کافی کا کپ اپنے سرد ہاتھوں میں تھام لیا۔
"تو امامہ ہاشم بالآخر تم میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔"
اس نے کافی کی تلخی اپنے اندر اتاری۔
"اور اب کیا میں پچھتاؤں کہ کاش میں کبھی سعیدہ اماں کو اس سڑک پر نہ دیکھ پاتا یا میں ان کو لفٹ نہ دیتا۔ ان کا گھر مل جاتا اور میں انہیں وہاں ڈراپ کر کے آ جاتا۔ ان کو اپنے گھر نہ لاتا، نہ روابط بڑھتے، نہ وہ اس شادی پر مجھے بلاتیں یا پھر کاش میں آج کراچی میں ہی نہ ہوتا ۔ یہاں ہوتا ہی نہیں یا میں موبائل آف کر کے سوتا۔ فون کا ریسیور رکھ دیتا۔ فرقان کی کال ریسیو ہی نہ کرتا یا پھر کاش میں ڈاکٹر سبط علی کو نہ جانتا ہوتا کہ ان کے کہنے پر مجھے مجبور نہ ہونا پڑتا یا پھر شاید مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہئیے کہ امامہ میرے لئے نہیں ہے۔" اس نے کافی کا مگ دوبارہ منڈیر پر رکھ دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے، پھر جیسے کوئی خیال آنے پر اپنا والٹ نکال لیا۔ والٹ کی ایک جیب سے اس نے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر کھول لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
اس نے نو ماہ میں کتنی بار اس کاغذ کو پڑھا تھا اسے یاد نہیں تھا۔ اس کاغذ کو چھوتے ہوئے اسے اس کاغذ میں امامہ کا لمس محسوس ہوتاتھا۔ اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا اپنا نام۔۔۔۔۔ کاغذ پر تحریر ان چند جملوں میں اس کے لئے کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امامہ کو اس کی موت کی خبر پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ خبر اس کے لئے ڈھائی سال بعد رہائی کا پیغام بن کر آئی تھی۔ اسے کیسے افسوس ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چند جملے اس لئے بہت اہم ہو گئے تھے۔
اس نے کاغذ پر لکھے جملوں پر اپنی انگلیاں پھیریں۔ اس نے آخر میں لکھے امامہ ہاشم کے نام کو چھوا۔۔۔۔۔ پھر کاغذ کودوبارہ اسی طرح تہہ کر کے والٹ میں رکھ لیا۔
منڈیر پر کافی کا مگ سرد ہو چکا تھا۔ سالار نے ٹھنڈی کافی کے باقی مگ کو ایک گھونٹ میں اپنے اندر انڈیل لیا۔
ڈاکٹر سبط علی ایک ہفتے تک لندن سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے اور اسے ان کا انتظار تھا۔ امامہ ہاشم کے بارے میں جو کچھ وہ اتنے سالوں سے انہیں نہیں بتا سکا تھا وہ انہیں اب بتانا چاہتا تھا۔ اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ وہ انہیں نہیں بتا پایا تھا اب وہ ان سے کہہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اب پرواہ نہیں تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمضان کی چار تاریخ تھی، جب ڈاکٹر سبط علی واپس آ گئے تھے۔ وہ رات کو کافی دیر سے آئے تھے اور سالار نے اس وقت انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ رات کو ان کے پاس پہلے کی طرح جانا چاہتا تھا مگر دوپہر کو خلاف توقع بینک میں ان کا فون آ گیا۔ سالار کے نکاح کے بعد یہ ان کا سالار سے تیسرا رابطہ تھا۔ وہ کچھ دیر اس کا حال احوال دریافت کرتے رہے پھر انہوں نے اس سے کہا۔
"سالار! آپ آج رات کو نہ آئیں، شام کو آجائی۔ افطاری میرے ساتھ کریں۔"
"ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا۔" سالار نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر ان کے درمیان مزید گفتگو ہوتی رہی پھر ڈاکٹر سبط علی نے فون بند کر دیا۔
وہ اس دن بینک سے کچھ جلدی نکل آیا۔ اپنے فلیٹ پر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ جب ان کے پاں پہنچا اس وقت افطاری میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
ڈاکٹر سبط علی کا ملازم اسے اجتماع والے بیرونی کمرے کے بجائے سیدھا اندر لاؤنج میں لے آیا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے بغلگیر ہونے کے بعد بڑی محبت کے ساتھ اس کا ماتھا چوما۔
"پہلے آپ ایک دوست کی حیثیت سے یہاں آتے تھے، آج آپ گھر کا ایک فرد بن کر یہاں آئے ہیں۔"
وہ جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا۔
"آئیے بیٹھیے۔" وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئے۔
"بہت مبارک ہو۔ اب تو آپ بھی گھر والے ہو گئے ہیں۔"
سالار نے خاموش نظروں اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔ وہ مسکرا رہے تھے۔
"میں بہت خوش ہوں کہ آپ کی شادی آمنہ سے ہوئی ہے۔ وہ میرے لئے میری چوتھی بیٹی کی طرح ہے اور اس رشتے سے آپ بھی میرے داماد ہیں۔"
سالار نے نظریں جھکا لیں۔ اس کی زندگی میں امامہ ہاشم کا باب نہ لکھا ہوا ہوتا تو شاید ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ اپنے آپ پر فخر کرتا مگر سارا فرق امامہ ہاشم تھی۔ سارا فرق وہی ایک لڑکی پیدا کر رہی تھی وہ جو تھی اور نہیں تھی۔
ڈاکٹر سبط علی کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
"آپ اتنے سالوں سے میرے پاس آ رہے ہیں آپ نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نکاح کر چکے ہیں۔ تب بھی نہیں جب ایک دو بار آپ سے شادی کا ذکر ہوا۔"
سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"میں آپ کو بتانا چاہتا تھا مگر۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔
"سب کچھ اتنا عجیب تھا کہ میں آپ کو کیا بتاتا۔" اس نے دل میں کہا
"کب ہوا تھا آپ کا نکاح؟" ڈاکٹر سبط علی دھیمے لہجے میں پوچھ رہے تھے۔" ساڑھے آٹھ سال پہلے، تب میں اکیس سال کا تھا۔"اس نے کسی شکست خودہ معمول کی طرح کہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ انہیں سب کچھ بتاتا گیا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا تھا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک وہ چپ رہے تھے۔
بہت دیر بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
"آمنہ بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ خوش قسمت ہے کہ اسے ایک صالح مرد ملا ہے۔"
ان کی بات سالار کو ایک چابک کی طرح لگی۔
"صالح؟ میں صالح مرد نہیں ہوں ڈاکٹرصاحب! میں تو۔۔۔۔۔ اسفل السافلین ہوں۔ آپ مجھے جانتے ہوتے تو میرے لئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے نہ اس لڑکی کے لئے میرا انتخاب کرتے جسے آپ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔"
"ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر"زمانہ جاہلیت" سے ضرور گزرتے ہیں، بعض گزر جاتے ہیں، بعض ساری زندگی اسی زمانے میں گزار دیتے ہیں۔ آپ اس میں سے گزر چکے ہیں۔ آپ کا پچھتاوا بتا رہا ہے کہ آپ گزر چکے ہیں۔ میں آپ کو پچھتاوے سے رکوں گا نہ توبہ اور دعا سے، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی ساری زندگی یہ کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شکر بھی ادا کریں کہ آپ نفس کی تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔"
اگر دنیا آپ کو اپنی طرف نہیں کھینچتی، اگر اللہ کے خوف سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اگر دوزخ کا تصور آپ کو ڈراتا ہے، اگر آپ اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح کرنی چاہئیے، اگر نیکی آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور برائی سے آپ رک جاتے ہیں تو پھر آپ صالح ہیں۔ کچھ صالح ہوتے ہیں، کچھ صالح بنتے ہیں، صالح ہونا خوش قسمتی کی بات ہے، صالح بننا دو دھاری تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ اس میں زیادہ وقت لگتا ہے، اس میں زیادہ تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ صالح ہیں کیونکہ آپ صالح بنے ہیں، اللہ آپ سے بڑے کام لے گا۔"
سالار کی آنکھوں میں نمی آ گئی انہوں نے ایک بار پھر امامہ ہاشم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، کچھ نہیں کہا تھا۔ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی سے نکل گئی؟ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ آئندہ بھی کبھی اس کی زندگی میں نہیں آئے گی؟ اسے اپنی زندگی آمنہ کے ساتھ ہی گزارنے پڑے گی؟ اس کا دل ڈوبا۔ وہ ڈاکٹڑ صاحب کے منہ سے امامہ کے حوالے سے کوئی تسلی، کوئی دلاسا، کوئی امید چاہتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب خاموش تھے۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
"میں آپ کے لئے اور آمنہ کے لئے بہت دعا کروں گا بلکہ میں بہت دعا کر کے آیا ہوں خانہ کعبہ میں۔۔۔۔۔ روضہ رسول ﷺ پر۔" وہ لندن سے واپسی پر عمرہ کر کے آئے تھے۔ سالار نے سر جھکا لیا۔ دور اذا ن کی آواز آ رہی تھی۔ ملازم افتاری کے لئے میز تیار کر رہا تھا۔ اس نے بوجھل دل کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کیا پھر وہ اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے قریبی مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں کھانا کھایا اور پھر اپنے فلیٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کل میرے ساتھ سعیدہ اماں کے ہاں چل سکتے ہو؟"
اس نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے واپسی کے بعد دس بجے کے قریب فرقان کو فون کیا۔ فرقان ہاسپٹل میں تھا اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔
"ہاں ، کیوں نہیں۔ کوئی خاص کام ہے؟"
"میں آمنہ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔"
فرقان کچھ دیر بول نہیں سکا۔ سالار کا لہجہ بہت ہموار تھا۔ وہاں کسی تلخی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
"کیسی باتیں؟"
"کوئی تشویش ناک بات نہیں ہے۔" سالار نے جیسے اسے تسلی دی۔
"پھر بھی۔" فرقان نے اصرار کیا۔
"تم پھر امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟"
"تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ چلو گے؟"
سالارنے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے پوچھا۔
"ہاں، چلوں گا۔"
"تو پھر میں تمہیں کل ہی بتاؤں گا کہ مجھے اس سے کیا بات کرنی ہے۔"
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا، فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم اس سے امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟" فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
"نہیں، صرف امامہ کے بارے میں نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں۔"
"فارگاڈ سیک سالار! گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش مت کرو۔" فرقان نے ناراضی سے کہا۔
"اس کو میری ترجیحات اور مقاصد کا پتا ہونا چاہئیے۔ اب اسے ساری زندگی گزارنی ہے میرے ساتھ۔"
سالارنے اس کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیر کہا۔
"پتا چل جائے گا اسے، سمجھ دار لڑکی ہے وہ اور اگر کچھ بتانا ہی ہے تو گھر لا کر بتانا۔ وہاں پینڈورا باکس کھول کر مت بیٹھنا۔"
"گھر لا کر بتانے کا کیا فائدہ، جب اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں وہ میری باتوں کو سنے، سمجھے، سوچے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔"
"اب کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی وہ۔ تمہارا اور اس کا نکاح ہو چکا ہے۔"
"رخصتی تو نہیں ہوئی۔"
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔"
"کیوں نہیں پڑتا۔ اگر اس کو میری بات پر اعتراض ہوا تو وہ اس رشتے کے بارے میں نظر ثانی کر سکتی ہے۔" سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
فرقان نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
"اور اس نظر ثانی کے لئے تم کس طرح کے حقائق اور دلائل پیش کرنے والے ہو اس کے سامنے؟"
"میں اسے صرف چند باتیں بتانا چاہتا ہوں جس کا جاننا اس لئے ضروری ہے۔" سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"وہ ڈاکٹر سبط علی کی رشتہ دار ہیں، میں اس حوالے سے اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے نہیں کہا ہوتا تو یہ رشتہ قائم بھی نہ ہوتا لیکن میں۔۔۔۔۔"
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
"ٹھیک ہے، تم کو اس سے جو کہنا ہے ، کہہ لینا لیکن امامہ کے ذکر کو ذرا کم ہی رکھنا کیونکہ وہ اگر کسی بات سے ہرٹ ہوئی تو وہ یہی بات ہو گی، باقی چیزوں کی پرواہ وہ شاید نہ کرے۔ آفٹر آل۔ دوسری بیوی ہونا یا کہلانا آسان نہیں ہوتا۔"
فرقان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اور میں چاہتا ہوں وہ یہ بات محسوس کرے،سوچے اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ تم کہتے ہو وہ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، اچھی فیملی سے تعلق ہے اس کا۔۔۔۔۔"
فرقان نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
"ختم کرو اس موضوع کو سالار! تم کو اس سے جو کچھ کہنا ہے، اسے جو سمجھانا ہے جا کہ کہہ لینا۔۔۔۔۔"
"میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔" سالار نے کہا۔
"میں سعیدہ اماں سے کہہ دوں گا۔ وہ تمہیں اکیلے میں اس سے بات کرا دیں گی۔"
فرقان نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ میں سعیدہ اماں کے ہاں پہنچ گئے۔ دروازہ سعیدہ اماں نے ہی کھولا تھا اور سالار اور فرقان کو دیکھ کر وہ جیسے خوشی سے بے حال ہو گئی تھیں۔ وہ ان دونوں کو اسی بیٹھک نماکمرے میں لے گئیں۔
"سعیدہ اماں! سالار، آمنہ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔"
فرقان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کچھ الجھیں۔
"کیسی باتیں؟" وہ اب سالار کی طرف دیکھ رہی تھیں جو خود بھی بیٹھنے کے بجائے فرقان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔
"ہیں چند باتیں، جو وہ اس سے کرنا چاہتا ہے مگر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔" فرقان نے انہیں تسلی دی۔
سعیدہ اماں ایک بار پھر سالار کو دیکھنے لگیں۔ اس نے نظریں چرا لیں۔
"اچھا۔۔۔۔۔ پھر تم میرے ساتھ آ جاؤ بیٹا! آمنہ اندر ہے۔ ادھر آ کر اس سے مل لو۔"
سعیدہ اماں کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ سالار نے ایک نظر فرقان کو دیکھا پھر وہ خود بھی سعیدہ اماں کے پیچھے چلا گیا۔
بیٹھک بیرونی دروازے کے بائیں جانب تھی۔ دائیں جانب اوپر جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ بیرونی دروازے سے کچھ آ گے بالکل سامنے کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد لکڑی کا ایک اور پرانی طرز کا بہت بڑا دروازہ تھا جو اس وقت کھلا ہوا تھا اور وہاں سرخ اینٹوں کا بڑا وسیع صحن نظر آ رہا تھا۔
سعیدہ اماں کا رخ انہی سیڑھیوں کی طرف تھا۔ سالار ان سے کچھ فاصلے پر تھا۔ سعیدہ اماں اب سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ وہ جب سیڑھیاں چڑھ کر صحن میں داخل ہو گئیں تو سالار بھی کچھ جھجکتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کےدونوں اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراونڈ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ صحن کے ایک حصے میں دھوپ تھی اور دن کے اس حصے میں بھی وہ دھوپ بے حد تیز تھی۔ دھوپ نے سرخ رنگ کو کچھ اور نمایاں کر دیاتھا۔
آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سالار نے صحن میں قدم رکھ دیا اور وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ صحن کے دھوپ والے حصے میں رکھی چارپائی کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ شاید ابھی چارپائی سے اتری تھی۔ اس کی پشت سالار کی طرف تھی۔ وہ سفید کرتے اور سیاہ شلوار میں ملبوس تھی اور نہا کر نکلی تھی۔ اس کی کمر سے کچھ اوپر اس کے سیاہ گیلے بال لٹوں کی صورت میں اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا سفید دوپٹہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے کرتے کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرتے ہوئے سالار کی طرف مڑی۔
سالار سانس نہیں لے سکا۔ اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی یا پھر اسے اس لڑکی سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں لگا تھا۔ وہ یقیناً آمنہ تھی۔ اس کے گھر میں آمنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں لیا تھا۔ دھڑکن رکی تھی یا رواں وہ جان نہیں سکا۔
اس کے اور آمنہ کے درمیان بہت فاصلہ تھا آستین موڑتے ہوئے آمنہ کی پہلی نظر سعیدہ اماں پر پڑی۔
"سالار بیٹا آیا ہے۔"
سعیدہ اماں بہت آگے بڑھ آئی تھیں۔ آمنہ نے گردن کو ترچھا کرتے ہوئے صحن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ سالار نے اسے بھی ٹھٹکتے دیکھا، پھر وہ مڑی۔ اس کی پشت ایک بار پھر سالار کی طرف تھی۔ سالار نے اسے جھکتے اور چار پائی سے دوپٹہ اٹھاتے دیکھا۔ دوپٹے کو سینے پر پھیلاتے ہوئے اس نے اس کے ایک پلو کے ساتھ اپنے سر اور پشت کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔
سالار اب اس کی پشت پر بکھرے بال نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اسے آمنہ کے اطمینان نے حیران کیا تھا، وہاں کوئی گھبراہٹ، کوئی جلدی ، کوئی حیرانی نہیں تھی۔
سعیدہ اماں نے مڑ کر سالار کو دیکھا پھر اسے دروازے میں ہی کھڑے دیکھ کر انہوں نے کہا۔
"ارے بیٹا! وہاں کیوں کھڑے ہو، اندر آؤ۔ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔"
آمنہ نے دوپٹہ اوڑھنے کے بعد مڑ کر اسے ایک بار پھر دیکھا تھا۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، دم بخود، بے حس و حرکت۔
آمنہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ وہ اب آگے گیا تھا۔
"یہ آ منہ ہے، میری بیٹی۔" سعیدہ اماں نے اس کے قریب آنے پر تعارف کرایا۔
"السلام علیکم!" سالار نے آمنہ کو کہتے سنا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ وہ اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
وہ نروس ہو رہا تھا۔ آمنہ نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر لیا تھا۔
"سالار! تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔"
سعیدہ اماں نے آمنہ کو بتایا۔
آمنہ نے ایک بار پھر سالار کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں میل ، دونوں نے بیک وقت نظریں چرائیں۔
آمنہ نے سعیدہ اماں کو دیکھا اور سالار نے آمنہ کی کلائیوں تک مہندی کے نقش و نگار سے بھرے ہاتھوں کو۔
یک دم اسے لگا کہ وہ اس لڑکی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
"سالار بیٹا! اندر کمرے میں چلتے ہیں۔ وہاں تم اطمینان سے آمنہ سے بات کر لینا۔
سعیدہ اماں نے اس بار سالار کو مخاطب کیا۔
سعیدہ اماں کہتے ہوئے اندر برآمدے کی طرف بڑھیں۔ سالار نے آمنہ کو سر جھکائے ان کی پیروی کرتے دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا اسے اندر جاتا دیکھتا رہا۔ سعیدہ اماں کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔ آمنہ نے دروازے کے پاس پہنچ کر مڑتے مڑتے اسے دیکھا۔ سالار نے برق رفتاری سے نظریں جھکا لیں۔ آمنہ نے مڑ کر اسے دیکھا پھر شاید وہ حیران ہوئی۔ سالار اندر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ سالار نے اس کی طرف دیکھے بغیر سر جھکائے قدم آگے بڑھا دئیے۔ آمنہ کچھ مطمئن ہو کر مڑ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔
سالار جب کمرے میں داخل ہوا تو سعیدہ اماں پہلے ہی ایک کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔ آمنہ لائٹ آن کر رہی تھی۔ سالار کو دھوپ سے اندر آ کر خنکی کا احساس ہوا۔
"بیٹھو بیٹا!" سعیدہ اماں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ سالار کرسی پر بیٹھ گیا۔ آمنہ لائٹ آن کرنے کے بعد اس سے کچھ فاصلے پر ان کے بالمقابل ایک کاؤچ پر بیٹھ گئی۔
سالار منتظر تھا کہ سعیدہ اماں چند لمحوں میں وہاں سے اٹھ کر چلی جائیں گی۔ فرقان نے واضح طور پر انہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا، مگر چند لمحوں کے بعد سالار کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا یہ انتظار بے کار تھا۔وہ شاید یہ بھول گئی تھیں کہ سالار تنہائی میں آمنہ سے ملنا چاہتا تھا یا پھر ان کا یہ خیال تھا کہ وہ تنہائی صرف فرقان کی عدم موجودگی کے لئے تھی۔ سالار نے انہیں اس میں شامل نہیں کیا ہو گا یا پھر وہ ابھی سالار کو اتنا قابل اعتبار نہیں سمجھتیں کہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑ دیتیں۔
سالار کو آخری اندازہ صحیح لگا۔ وہ اس سے جو کچھ اور جتنا کچھ کہنا چاہتا تھا، سعیدہ اماں کے سامنے نہیں کہنا چاہتا تھا، وہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ اسے کچھ تو کہنا ہی تھا، وہ کچھ نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس کا ذہن خالی تھا۔
نیم تاریک خنک کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔ وہ اب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
آمنہ نے کمرے میں کوئی فینسی لائٹ روشن کی تھی۔ اونچی دیواروں والا فرنیچر سے بھرا ہوا وہ وسیع و عریض کمرہ شاید سیٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں بہت زیادہ دروازے تھے اور تمام دروازے بند تھے۔ کمرے میں موجود واحد کھڑکی برآمدے میں کھلتی تھی اور اس کے آگے پردے تھے۔ فرش کو بھاری بھر کم میرون نقش و نگار کے قالین سے ڈھکا گیا تھا اور فینسی لائٹ کمرے کو پوری طرح روشن کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔
کم از کم کمرے میں سالار کو تاریکی ہی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ اس کے احساسات تھے یا پھر۔
مجھے اپنے optician سے آج ضرور ملنا چاہئیے۔ قریب کے ساتھ ساتھ شاید میری دور کی نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔
سالار نے مایوسی سے سوچا۔ سینٹر ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی آمنہ کو وہ دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر نظر قالین پر جما دی پھر اس نے یک دم آمنہ کو اٹھتے دیکھا۔ وہ دیوار کے پاس جا کر کچھ اور لائٹس آن کر رہی تھی۔ کمرہ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں جگمگا اٹھا۔ فینسی لائٹ بند ہو گئی۔ سالار حیران ہوا۔ آمنہ نے پہلے ٹیوب لائٹ آن کیوں نہیں کی تھی، پھر اچانک اسے احساس ہوا وہ بھی نروس تھی۔
آمنہ دوبارہ پھر اس کے سامنے کاؤچ پر آ کر نہیں بیٹھی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر سعیدہ اماں کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس بار اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسی طرح قالین کو گھورتا رہا۔ سعیدہ اماں کا صبر بالآخر جواب دے گیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کھنکھار کر سالار کو متوجہ کیا۔
"کرو بیٹا! وہ باتیں ، جو تم نے آمنہ سے تنہائی میں کرنی تھیں۔"
انہوں نے سالار کو بڑے پیار سے یاد دلایا۔
"اتنی دیر سے چپ بیٹھے ہو، میرا تو دل ہول رہا ہے۔"
سالار نے ایک گہرا سانس لیا، پھر سعیدہ اماں اور آمنہ کو باری باری دیکھا۔
"کچھ نہیں، میں بس انہیں دیکھنا چاہتا تھا۔"
اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان ہموار رکھتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کے چہرے پر بشاشت آ گئی۔
"تو اتنی سی بات تھی اور فرقان نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ ہاں ہاں ضرور دیکھو، کیوں نہیں۔ بیوی ہے تمہاری۔" وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
"آپ ان سے کہہ دیں کہ سامان پیک کر لیں، میں باہر انتظار کرتا ہوں۔"
وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا سعیدہ اماں سے بولا۔ آمنہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"مگر بیٹا! تم تو صرف کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے اس سے، پھر رخصتی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میں چاہتی تھی باقاعدہ رخصت کروں اور۔۔۔۔۔"
سالار نے نرمی سے سعیدہ اماں کی بات کاٹی۔
"آپ یہ سمجھ لیں کہ میں باقاعدہ رخصت کروانے کے لئے ہی آیا ہوں۔"
سعیدہ اماں کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
"ٹھیک ہے بیٹا! تم اگر ایسا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی مگر افطار کے لئے رکو۔ چند گھنٹے ہی باقی ہیں ، کھانا تو کھا کر جاؤ۔"
"نہیں ، مجھے اور فرقان کو کچھ کام ہے۔ میں اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے لے کر آیا تھا۔ زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں ہے میرے لئے۔" وہ کھڑے کھڑے کہہ رہا تھا۔
"لیکن اماں! مجھے تو سامان پیک کرنے میں بہت دیر لگے گی۔"
آمنہ نے وہیں کرسی پر بیٹھے ہوئے پہلی بار ساری گفتگو میں حصہ لیا۔ سالار نے مڑ کر اسے دیکھے بغیر سعیدہ اماں سے کہا۔
“سعیدہ اماں! آپ ان سے کہیں یہ آرام سے پیکنگ کر لیں، میں باہر انتظار کروں گا۔ جتنی دیر یہ چاہیں۔"
وہ اب کمرے سے نکل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان نے حیرانی سے سالار کو دیکھا۔ وہ بیٹھک میں داخل ہو رہا تھا۔
"تم اتنی جلدی واپس آ گئے، میں تو سوچ رہا تھا تم خاصی دیر کے بعد واپس آؤ گے۔"
سالار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بیٹھ گیا۔
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
"خیریت ہے؟"
"ہاں۔"
"آمنہ سے ملاقات ہوئی؟"
"ہاں۔"
"پھر؟"
"پھر کیا؟"
"چلیں؟"
"نہیں۔"
"کیوں؟"
"میں آمنہ کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔"
"کیا؟" فرقان بھونچکا رہ گیا۔
"تم تو اس سے بات کرنے کے لئےآئے تھے۔"
سالار جواب دینے کے بجائے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"یہ یک دم رخصتی کا کیوں سوچ لیا؟"
"بس سوچ لیا۔"
اس بار فرقان نے اسے الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو گھنٹے کے بعد آمنہ جب فرقان اور سالار کے ساتھ سالار کے فلیٹ پر پہنچی، تب افطار میں زیادہ وقت نہیں تھا۔ سالار نے افطاری کا سامان راستے سے لے لیا تھا۔ فرقان ان دونوں کو افطاری کے لئے اپنے فلیٹ پر لے جانا چاہتا تھا مگر سالار اس پر رضامند نہیں ہوا۔ فرقان نے اپنی بیوی کو بھی سالار کے فلیٹ پر بلوا لیا۔
افطاری کے لئے ٹیبل فرقان کی بیوی نے ہی تیار کیا تھا۔ آمنہ نے مدد کرنے کی کوشش کی تھی جسے فرقان اور اس کی بیوی نے رد کر دیا۔ سالار نے مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ موبائل لے کر بالکونی میں چلا گیا۔ لاونج میں بیٹھے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار آمنہ نے اسے بالکونی میں ٹہلتے موبائل پر کسی سے بات کرتے دیکھا۔ وہ بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
اس نے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنے فلیٹ تک ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ یہ صرف فرقان تھا جو وقتاً فوقتاً اسے مخاطب کرتا رہا تھا اور اب بھی یہی ہو رہا تھا۔
سالار نے وہ خاموشی افطار کی میز پر بھی نہیں توڑی۔ فرقان اور اس کی بیوی ہی آمنہ کو مختلف چیزیں سرو کرتے رہے۔ آمنہ نے اس کی خاموشی اور سرد مہری کو محسوس کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
افطار کے بعد وہ فرقان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لئے نکل آیا تھا۔ فرقان کو مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ہاسپٹل جانا تھا۔
مسجد سے نکل کر فرقان کے ساتھ کار پارکنگ کی طرف آتے ہوئے فرقان نے اس سے کہا۔
"تم بہت زیادہ خاموش ہو۔" سالار نے ایک نظرا سے دیکھا مگر کچھ کہے بغیر چلتا رہا۔
"کیا تمہیں کچھ کہنا نہیں ہے؟"
وہ مسلسل اس کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سالار نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
مغرب کے وقت ہی دھند نمودار ہونے لگی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے فرقان کو دیکھا۔
"نہیں، مجھے کچھ نہیں کہنا۔"
چند لمحے ساتھ چلنے کے بعد فرقان نے اسے بڑبڑاتے سنا۔
"میں آج کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہوں۔"
فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ ساتھ چلتے چلتے اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا۔
میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں مگر زندگی میں یہ سب ہوتا رہتا ہے، تم امامہ کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے تم نے کیا۔ جتنا انتظار کر سکتے تھے تم نے کیا۔ آٹھ نو سال کم نہیں ہوتے۔ اب تمہاری قسمت میں اگر یہی لڑکی ہے تو ہم یا تم کیا کر سکتے ہیں۔"
سالار نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھا۔
"اس گھر میں آنا امامہ کا مقدر نہیں تھا، آمنہ کا مقدر تھا۔ سو وہ آ گئی۔ اس سے نکاح ہوئے سات دن ہوئے ہیں اور آٹھویں دن وہ یہاں ہے۔ امامہ کے ساتھ نکاح کو نو سال ہونے والے ہیں وہ ج تک تمہارے پاس نہیں آ سکی۔ کیا تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ امامہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے۔"
وہ پوری دلجمعی سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"ہماری بہت ساری خواہشات ہوتی ہیں۔ بعض خواہشات اللہ پوری کر دیتا ہے ، بعض نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے امامہ کے نہ ملنے میں تمہاری لئے بہتری ہو۔ ہو سکتا ہے اللہ نے تمہیں آمنہ کے لئے ہی رکھا ہو۔ ہو سکتا ہے آج سے چند سال بعد تم اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکو۔"
وہ دونوں اب پارکنگ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان کی گاڑی شروع میں ہی کھڑی تھی۔
"میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا جس کی ہر خواہش پوری ہو، جس نے جو چاہا ہو پالیا ہو پھر شکوہ کس بات کا۔ آمنہ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔"
وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا مگر بیٹھنے سے پہلے اس نے سالار کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے باری باری اس کے دونوں گالوں کو نرمی سے چوما۔
"تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم نے ایک نیکی کی ہے اور اس نیکی کا اجر اگر تمہیں یہاں نہیں ملے گا تو اگلی دنیا میں مل جائے گا۔"
وہ اب سالار کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار سر کو ہلکا سا خم کرتے ہوئے تھوڑا سا مسکرایا۔
فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔ آج کے دن یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس نے سالار کے چہرے پر دیکھی تھی۔ اس نے خود بھی مسکراتے ہوئے سالار کی پشت تھپتھپائی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
سالار نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔ فرقان اگنیشن میں چابی لگا رہا تھا۔ جب اس نے سالار کو کھڑکی کا شیشہ انگلی سے بجاتے دیکھا۔ فرقان نے شیشہ نیچے گرا دیا۔
"تم کہہ رہے تھے کہ تم نے آج تک کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا، جس نے جس چیز کی بھی خواہش کی ہو اسے مل گئی ہو۔"
سالار کھڑکی پر جھکے پُرسکون آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ فرقان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بے حد پُرسکون اورمطمئن نظر آرہا تھا۔
"پھر تم مجھے دیکھو کیونکہ وہ انسان میں ہوں، جس نے آج تک جو بھی چاہا اسے وہ مل گیا۔"
فرقان کو لگا اس کا ذہن غم کی وجہ سے متاثر ہورہا تھا۔
"جسے تم میری نیکی کہہ رہے ہو وہ دراصل میرا "اجر" ہے جو مجھے زمین پر ہی دے دیا گیا ہے۔ مجھے آخرت کے انتظار میں نہیں رکھا گیا اور میرا مقدر آج بھی وہی ہے جو نو سال پہلے تھا۔"
وہ ٹھہر ٹھہر کر گہری آواز میں کہہ رہا تھا۔
"مجھے وہی عورت دی گئی ہے جس کی میں نے خواہش کی تھی، امامہ ہاشم اس وقت میرے گھر پہ ہے، خداحافظ۔"
فرقان دم بخود دور جاتے ہوئے اس کی پشت دیکھتا رہا۔ وہ کیا کہہ گیا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
"شاید میں ٹھیک سے اس کی بات نہیں سن پایا۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس کا دماغ خراب ہوگیاہے۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس نے صبر کرلیا ہے۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔؟" سالار اب بہت دور نظر آرہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لئے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ جویریہ اور باقی لوگوں سے رابطہ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس کے گھر والے اس کی دوستوں سے واقف تھے اور چند گھنٹوں میں وہ اسے لاہور میں ڈھونڈنے والے تھے، بلکہ ہوسکتا ہے اب تک اس کی تلاش شروع ہوچکی ہو اور اس صورت حال میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کے لئے صبیحہ کی صورت میں واحد آپشن رہ جاتا تھا، مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھی کہ وہ ابھی پشاور سے واپس آئی تھی یا نہیں۔
صبیحہ کے گھر پر ملازم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لوگ ابھی پشااور میں ہی تھے۔
"واپس کب آئیں گے؟" اس نے ملازم سے پوچھا۔ وہ اسے جانتا تھا۔
"کیا آپ کے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟" اس نے قدرے مایوسی کے عالم میں پوچھا۔
"جی، وہاں کا فون نمبر میرے پاس ہے۔" ملازم نے اس سے کہا۔
"وہ آپ مجھے دے دیں۔ میں فون پر اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
اسے کچھ تسلی ہوئی۔ ملازم اسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر اس نے وہ نمبر لادیا۔ اس نے موبائل پر وہیں بیٹھے بیٹھے صبیحہ کو رنگ کیا۔ فون پشاور میں گھر کے کسی فرد نے اٹھایا تھا۔ اور اسے بتایا کہ صبیحہ باہر گئی ہوئی ہے۔
امامہ نے فون بند کردیا۔
"صبیحہ سے میری بات نہیں ہوسکی۔ میں کچھ دیر بعد اسے دوبارہ فون کروں گی۔" اس نے پاس کھڑے ملازم سے کہا۔
"تب تک میں یہیں بیٹھوں گی۔"
ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ اس نے ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ صبیحہ کو فون کیا۔ وہ اس کی کال پر حیران تھی۔
اس نے مختصر طور پر اپنا گھر چھوڑ آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے اسے سالار سے اپنے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی صبیحہ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھے گی۔
"امامہ! تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں کورٹ سے رابطہ کرو۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے پروٹیکشن مانگو۔" صبیحہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا۔
"میں یہ کرنا نہیں چاہتی۔"
"کیوں؟"
"صبیحہ! میں پہلے ہی اس مسئلے کے بارے میں بہت سوچ چکی ہوں۔ تم میرے بابا کی پوزیشن اور اثرورسوخ سے واقف ہو۔ پریس تو طوفان اٹھا دے گا۔ میری فیملی کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں چاہتی کہ میرے گھر پر پتھراؤ ہو، میری وجہ سے میرے گھر والوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور آج تک جتنی لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے کورٹ پروٹیکشن لینے کی کوشش کی ہے ان کے ساتھ کیا ہواہے۔ کورٹ دارالامان بھجوا دیتی ہے۔ وہ جیل بھجوانے کے مترادف ہے۔ کیس کا فیصلہ کتنی دیر تک ہو، کچھ پتا نہیں۔
گھر والے ایک کے بعد ایک کیس فائل کرتے رہتے ہیں۔ کتنے سال اس طرح گزر جائیں گے، کچھ پتا نہیں ہوتا اگر کسی کو کورٹ آزاد رہنے کی اجازت دے بھی دے تو وہ لوگ اتنے مسئلے کھڑے کرتے رہتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ میں نہ تو دارالامان میں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہی نہ ہی لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتی ہوں۔ میں نے خاموشی کے ساتھ گھر چھوڑا ہے اور میں اسی خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔"
"میں تمہاری بات سمجھ سکتی ہوں امامہ! لیکن مسائل تو تمہارے لئے ابھی بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ وہ تمہیں تلاش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور ان لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو تمہیں پناہ دیں گے اور وہ جب تمہیں ڈھونڈنا شروع کریں گے تو مجھ تک پہنچنا تو ان کے لئے بہت آسان ہوگا۔ تمہاری مدد کرکے ہمیں بہت خوشی ہوگی مگر میرے ابو یہی چاہیں گے کہ مدد چھپ کر کرنے کی بجائے کھل کر کی جائے اور کورٹ اس معاملے میں یقیناً تمہارے حق میں اپنا فیصلہ دے گا۔ تم ابھی میرے گھر پر ہی رہو۔ میں اس بارے میں ملازم کو کہہ دیتی ہوں اور آج میں ابو سے بات کرتی ہوں ہم کوشش کریں گے، کل لاہور واپس آجائیں۔"
امامہ نے ملازم کو بلا کر فون اس کے حوالے کردیا۔ صبیحہ نے ملازم کو کچھ ہدایت دیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
"میں صبیحہ بی بی کا کمرہ کھول رہا ہوں، آپ وہاں چلی جائیں۔" ملازم نے اس سے کہا۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں چلی آئی مگر اس کی تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ صبیحہ کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود صبیحہ اور اس کی فیملی پر کوئی مصیبت آئے۔ اس معاملے میں صبیحہ کے اندیشے درست تھے۔ اگر ہاشم مبین کو یہ پتا چل جاتا کہ اسے صبیحہ کی فیملی نے پناہ دی تھی تو وہ ان کے جانی دشمن بن جاتے۔ شاید اس لئے صبیحہ نے اس سے قانون کی مدد لینے کے لئے کہا تھا مگر یہ راستہ اس کے لئے زیادہ دشوار تھا۔
جماعت کے اتنے بڑے لیڈر کی بیٹی کا اس طرح مذہب چھوڑ دینا پوری جماعت کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس سے پورے ملک میں جماعت اور خود ان کے خاندان کو کتنی زک پہنچے گی اور وہ اس بے عزتی سے بچنے کے لئے کس حد تک جاسکتے تھے، امامہ جانتی نہیں تھی مگر اندازہ کرسکتی تھی۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں داخل ہورہی تھی جب اس کے ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ سیدہ مریم سبط علی کا خیال آیا تھا۔ وہ صبیحہ کی دوست اور کلاس فیلو تھی۔ وہ اس سے کئی بار ملتی رہی تھی۔ ایک بار صبیحہ کے گھر پر ہی مریم کو اس کےقبول اسلام کا پتا چلا تھا۔ وہ شاید صبیحہ کی واحد دوست تھی جسے صبیحہ نے امامہ کے بارے میں بتا دیا تھا اور مریم بہت حیران نظر آئی تھی۔
"تمہیں اگر کبھی میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو مجھے ضرور بتانا بلکہ بلا جھجک میرے پاس آجانا۔"
اس نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ امامہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ بعد میں بھی امامہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ اس سے اسی گرم جوشی کے ساتھ ملتی رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اس کا کیوں خیال آیا تھا یا وہ کس حد تک اس کی مدد کرسکتی تھی مگر اس وقت اس نے اس سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے موبائل سے فون کرنا چاہا مگر موبائل کی بیٹری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اسے ری چارج کرنے کے لئے لگایا اور خود لاؤنج میں آکر اپنی ڈائری سے مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ڈاکٹر سبط نے اٹھایا تھا۔
"میں مریم سے بات کرنا چاہتی ہوں، میں ان کی دوست ہوں۔"
اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے پہلی بار مریم کو فون کیا تھا۔
"میں بات کرواتا ہوں۔" انہوں نے فون ہولڈ رکھنے کا کہا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد امامہ نے دوسری طرف مریم کی آواز سنی۔
"ہیلو۔۔۔۔۔"
"ہیلو مریم! میں امامہ بات کررہی ہوں۔"
"امامہ۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم؟" مریم نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔"
وہ اسے اپنے بارے میں بتاتی گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جب اس نے بات ختم کی تو مریم نے کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"
"میں صبیحہ کے گھر پر ہوں، مگر صبیحہ کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔ صبیحہ پشاور میں ہے۔"
اس نے صبیحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔
"تم وہیں رہو۔ میں ڈرائیور کو بھجواتی ہوں۔ تم اپنا سامان لے کر اسکے ساتھ آجاؤ۔۔۔۔۔ میں اتنی دیر میں اپنی امی اور ابو سے بات کرتی ہوں۔"
اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ اس نے ڈاکٹر سبط کے گھر کی جانے والی کال سالار کے موبائل سے نہیں کی تھی ورنہ سکندر عثمان ڈاکٹر سبط علی کے گھر بھی پہنچ جاتے اور اگر امامہ کو یہ خیال آجاتا کہ وہ موبائل کے بل سے اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لاہور آکر ایک بار بھی موبائل استعمال نہ کرتی۔
یہ ایک اور اتفاق تھا کہ ڈاکٹر سبط علی نے اپنے آفس کی گاڑی اور ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھجوایا تھا، ورنہ صبیحہ کا ملازم مریم کی گاڑی اور ڈرائیور کو پہچان لیتا کیونکہ مریم اکثر وہاں آیا کرتی تھی اور صبیحہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یہ جان جاتے کہ وہ صبیحہ کے گھر سے کہاں گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھ گھنٹہ بعد ملازم نے ایک گاڑی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔
"کیا آپ جارہی ہیں؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"مگر صبیحہ بی بی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں رہیں گی۔"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں جارہی ہوں۔۔۔۔۔ اگر صبیحہ کا فون آئے تو آپ اسے بتا دیں کہ میں چلی گئی ہوں۔" اس نے دانستہ طور پر اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ مریم کے گھر جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پہلی بار مریم کے گھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں جاکر اسے ایک بار پھر مریم اور اس کے والدین کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا پڑے گا۔ وہ ذہنی طور پر خود کو سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
"ہم لوگ تو ناشتہ کرچکے ہیں تم ناشتہ کرلو۔"
مریم نے پورچ میں اس کا استقبال کیا تھا اور اسے اندر لے جاتے ہوئے کہا۔ اندر لاؤنج میں ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی سے اس کا تعارف کروایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ امامہ کے چہرے پر اتنی سراسیمگی اور پریشانی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس پر ترس آیا۔
"میں کھانا لگواتی ہوں۔ مریم تم اسے اس کا کمرہ دکھا دو۔۔۔۔۔ تاکہ یہ کپڑے چینج کرلے۔" سبط علی کی بیوی نے مریم سے کہا۔
وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
"امامہ! اب آپ جاکر سوجائیں۔ میں آفس جارہا ہوں، شام کو واپسی پر ہم آپ کے مسئلے پر بات کریں گے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اسے ناشتہ ختم کرتے دیکھ کر کہا۔
"مریم! تم اسے کمرے میں لے جاؤ۔" وہ خود لاؤنج سے نکل گئے۔
وہ مریم کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
"امامہ! اب تم سوجاؤ۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم پچھلے کئی گھنٹوں سے نہیں سوئیں۔ عام طور پر تھکن اور پریشانی میں نیند نہیں آتی اور تم اس وقت اس کا شکار ہوگی۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ لاکر دیتی ہوں اگر نیند آگئی تو ٹھیک ورنہ ٹیبلٹ لے لینا۔"
وہ کمرے سے باہر نکل گئی، کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"تم بالکل ریلیکس ہوکر سوجاؤ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تم سمجھو کہ تم اپنے گھر میں ہو۔" وہ کمرے کی لائٹ آف کرتی ایک بار پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
صبح کے ساڑھے نوبج رہے تھے مگر ابھی تک باہر بہت دھند تھی اور کمرے کی کھڑکیوں پر پردے ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا تھا۔ اس نے کسی معمول کی طرح ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی۔ اس کے بغیر نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ذہن میں اتنے بہت سے خیالات آرہے تھے کہ بیڈ پر لیٹ کر نیند کا انتظار کرنا مشکل ہوجاتا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر ایک غنودگی طاری ہوتی محسوس کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت دوبارہ اٹھی اس وقت کمرہ مکمل طور پر تاریک ہوچکا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دیوار کی طرف گئی اور اس نے لائٹ جلا دی۔ وال کلاک پر رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ وہ فوری طور پر اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ اتنی لمبی نیند ٹیبلٹ کا اثر تھی یا پھر پچھلے کئی دنوں سے صحیح طور پر نہ سو سکنے کی۔
"جو کچھ بھی تھا وہ صبح سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے افراد اس وقت جاگ رہے ہوں گے یا نہیں۔ بہت آہستگی سے وہ دروازہ کھول کر لاؤنج میں نکل آئی۔ ڈاکٹر سبط علی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
"اچھی نیند آئی؟" وہ بڑی بشاشت سے بولے۔
"جی۔۔۔۔۔!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"اب ایسا کریں کہ وہ سامنے کچن ہے، وہاں چلی جائیں۔ کھانا رکھا ہوا ہے۔ گرم کریں۔ وہاں ٹیبل پر ہی کھالیں اس کے بعد چائے کے دو کپ بنائیں اور یہاں آجائیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ فریج میں رکھا ہوا کھانا نکال کر اس نے گرم کیا اور کھانے کے بعد چائے لے کر لاؤنچ میں آگئی۔ چائے کا ایک کپ بنا کر اس نے ڈاکٹر سبط علی کو دیا۔
وہ کتاب میز پر رکھ چکے تھے۔ دوسرا کپ لے کر وہ ان کے بالمقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ اندازہ کرچکی تھی کہ وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
"چائے بہت اچھی ہے۔"
انہوں نے ایک سپ لے کر مسکراتے ہوئے کہا وہ اتنی نروس تھی کہ ان کی تعریف پر مسکرا سکی نہ شکریہ ادا کرسکی۔ وہ صرف انہیں دیکھتی رہی۔
"امامہ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی مگر فیصلہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کم عمری میں، مگر بعض دفعہ فیصلے کرنے کے لئے اتنی جرات کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ان پر قائم رہنے کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ عرصہ بعد اس کا اندازہ ہوگا۔"
وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
"میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ صرف مذہب کے لئے ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے۔"
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے مجھے زیادہ واضح طور پر یہ سوال پوچھنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے کہنے پر یا اس کے لئے آپ نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہو یا مذہب بدلنے کا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ مت سوچنا کہ اگر ایسی کوئی وجہ ہوگی تو میں آپ کو برا سمجھوں گا یا آپ کی مدد نہیں کروں گا۔ میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے اس لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی ملنا ہوگا۔"
ڈاکٹر سبط اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امامہ کو پہلی بار مریم سے اتنی دیر سے رابطہ کرنے پر پچھتاوا ہوا اگر سالار کی بجائے ڈاکٹر سبط، جلال سے یا اس کے گھر والوں سے بات کرتے تو شاید۔۔۔۔۔" اس نے بوجھل دل سے نفی میں سر ہلادیا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔"
"کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟" انہوں نے ایک بار پھر پرسکون انداز میں اس سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ میں نے اسلام کسی لڑکے کے لئے قبول نہیں کیا۔" وہ اس بار جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس نے اسلام واقعی جلال انصر کے لئے قبول نہیں کیا تھا۔
"پھر آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"مجھے اندازہ ہے۔"
"آپ کے والد ہاشم مبین صاحب سے میں واقف ہوں۔ جماعت کے بہت سرگرم اور بارسوخ لیڈر ہیں اور آپ کا ان کے مذہب سے تائب ہوکر اس طرح گھر سے چلے آنا ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے اور واپس لے جانے کے لئے وہ زمین آسمان ایک کردیں گے۔"
"مگر میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔"
"گھر آپ نے چھوڑ دیا ہے۔ اب آپ آگے کیا کریں گی؟" امامہ کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے کورٹ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
"میں کورٹ میں نہیں جاؤں گی۔ میں کسی کے بھی سامنے آنا نہیں چاہتی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سامنے آکر میرے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"
"پھر آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟" انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سامنے نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیکل کالج میں اپنی اسٹڈیز جاری نہیں رکھ سکیں گی۔"
"میں جانتی ہوں۔" اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"میں ویسے بھی خود تو میڈیکل کی تعلیم افورڈ کر بھی نہیں سکتی۔"
"اور اگر کسی دوسرے میڈیکل کالج میں کسی دوسرے شہرے یا صوبے میں آپ کی مائیگریشن کروا دی جائے تو؟"
"نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ ان کے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی آئے گا کہ میں مائیگریشن کروانے کی کوشش کروں گی اور اتنے تھوڑے سے میڈیکل کالجز میں مجھے ڈھونڈنا بہت آسان کام ہے۔"
"پھر۔۔۔۔۔؟"
"میں بی ایس سی میں کسی کالج میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں مگر کسی دوسرے شہر میں۔۔۔۔۔ لاہور میں وہ ایک ایک کا لج چھان ماریں گے اور میں اپنا نام بھی بدلوانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر آپ ان دونوں کاموں میں میری مدد کرسکیں تو میں بہت احسان مند رہوں گی۔"
ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔
"امامہ! ابھی کچھ عرصہ آپ کو یہیں رہنا چاہیے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ چند ہفتے انتظار کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے۔ آپ اس گھر میں بالکل محفوظ ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کورٹ میں نہیں جانا چاہتیں؟ میں آپ کو اس کے لئے مجبور بھی نہیں کروں گا اور آپ کو یہ ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہاں تک آجائے گا یا آپ کو زبردستی یہاں سے لے جائے گا۔ آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتا۔"
انہوں نے اس رات اسے بہت سی تسلیاں دی تھیں۔ اسے ڈاکٹر سبط علی کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہاشم مبین یاد آتے رہے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن ڈاکٹر سبط علی شام پانچ بجے کے قریب اپنے آفس سے آئے تھے۔
"صاحب آپ کو اپنی اسٹڈی میں بلا رہے ہیں۔"
وہ اس وقت مریم کے ساتھ کچن میں تھی جب ملازم نے آخر اسے پیغام دیا۔
"آؤ امامہ! بیٹھو۔" اسٹڈی کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا وہ اپنی ٹیبل کی ایک دراز سے کچھ پیپرز نکال رہے تھے وہ وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
"آج میں نے کچھ معلومات کروائی ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔"
انہوں نے دراز بند کرتے ہوئے کہا۔
"یہ سالار سکندر کون ہے؟"
ان کے اگلے سوال نے اس کے دل کی دھڑکن کو چند لمحوں کے لئے روک دیا تھا۔ وہ اب کرسی پر بیٹھے اسے بغور دیکھ رہے تھے۔ اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت نے انہیں بتا دیا کہ وہ نام امامہ کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
"سالار۔۔۔۔۔! ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ والے۔۔۔۔۔ گھر۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ رہتا۔۔۔۔۔۔ ہے۔" اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"اس نے میری بہت مدد کی ہے۔ گھر سے نکلنے میں۔۔۔۔۔ اسلام آباد سے لاہور مجھے وہی چھوڑ کر گیا تھا۔"
وہ دانستہ رک گئی۔
"کیا اس کے ساتھ نکاح کے بارے میں بھی بتانا چاہئے؟" وہ گومگو میں تھی۔
"آپ کے والد نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے، آپ کو اغوا کرنے کے الزام میں۔"
امامہ کے چہرے کی رنگت اور زرد ہوگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سالار سکندر اتنی جلدی پکڑا جائے گا اور اب اس کے گھر والے یقیناً جلال انصر تک بھی پہنچ جائیں گے اور وہ نکاح اور اس کے بعد کیا وہ یہاں آجائیں گے۔
"کیا وہ پکڑا گیا؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ یہ ٹریس آؤٹ کرلیا گیا تھا کہ وہ اس رات کسی لڑکی کے ساتھ لاہور تک آیا تھا لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ نہیں تھیں۔ کوئی دوسری لڑکی تھی۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ۔۔۔۔۔ اور اس نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے دانستہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکی کوئی طوائف تھی۔
"پولیس اسے گرفتار اس کے اپنے والد کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ اس کے ثبوت دینے کے باوجود آپ کے گھر والوں کا یہی اصرار ہے کہ آپ کی گمشدگی میں وہی ملوث ہے۔ امامہ! کیسا لڑکا ہے یہ سالار سکندر؟"
ڈاکٹر سبط نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے اچانک پوچھا۔
"بہت برا۔" بے اختیار امامہ کے منہ سے نکلا۔ "بہت ہی برا۔"
"مگر آپ تو یہ کہہ رہی تھیں کہ اس نے آپ کی بہت مدد کی ہے۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔"
"ہاں، اس نے میری مدد کی ہے مگر وہ بہت برے کردار کا لڑکا ہے۔ میری مدد شاید اس نے اس لئے کی ہے کیونکہ میں نے ایک بار اسے فرسٹ ایڈ دی تھی۔ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تب۔۔۔۔۔ اور شاید اس لئے بھی اس نے میری مدد کی ہوگی کیونکہ میرا بھائی اس کا دوست ہے۔ ورنہ وہ بہت برا لڑکا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ پتا نہیں عجیب باتیں کرتا ہے۔ عجیب حرکتیں کرتا ہے۔"
امامہ کے ذہن میں اس وقت اس کے ساتھ کئے گئے سفر کی یاد تازہ تھی جس میں وہ پورا راستہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
"پولیس آپ کی فرینڈز سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے اور صبیحہ کے گھر تک بھی پولیس گئی ہے۔ صبیحہ پشاور سے واپس آگئی ہے، مگر مریم نے صبیحہ کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ہمارے یہاں ہیں۔ آپ اب صبیحہ سے رابطہ مت کریں۔ اسے فون بھی مت کریں کیونکہ ابھی وہ اس کے گھر کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور فون کو بھی وہ خاص طور پر چیک کریں گے، بلکہ آپ اب کسی بھی دوست سے فون پر کانٹیکٹ مت کرنا نہ ہی یہاں سے باہر جانا۔"
انہوں نے اسے ہدایت دیں۔
"میرے پاس موبائل ہے۔ اس پر بھی کانٹیکٹ نہیں کرسکتی؟"
وہ چونکے۔
"آپ کا موبائل ہے؟"
"نہیں، اسی لڑکے سالار کا ہے۔"
وہ سالار تک پہنچ گئے تو موبائل تک بھی پہنچ جائیں گے۔" وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
"جو کال آپ نے ہمارے گھر کی تھی وہ اس موبائل سے کی تھی؟" اس بار ان کی آواز میں کچھ تشویش تھی۔
"نہیں، وہ میں نے صبیحہ کے گھر سے کی تھی۔"
"آپ اب اس موبائل پہ دوبارہ کوئی کال کرنا نہ کال ریسیور کرنا۔"
وہ کچھ مطمئن ہوگئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے کچھ دنوں میں اسے ڈاکٹر سبط سے اس کی تلاش کے سلسلے میں اور خبریں موصول ہوتی رہی تھیں۔ ان کے ذرائع معلومات جو بھی تھے مگر وہ بے حد باوثوق تھے۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔ میڈیکل کالج، ہاسپٹل، کلاس فیلوز۔۔۔۔ ہاسٹل، روم میٹس اور فرینڈز۔۔۔۔ ہاشم مبین نے اسے ڈھونڈنے کے لئے نیوز پیپر کا سہارا نہیں لیا تھا۔ میڈیا کی مدد لینے کا نتیجہ ان کے لئے رسوا کن ثابت ہوتا۔
وہ جس حد تک اس کی گمشدگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرسکتے تھے کررہے تھے، مگر وہ پولیس کی مدد حاصل کئےہوئے تھے۔ ان کی جماعت بھی اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کررہی تھی۔
وہ لوگ صبیحہ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ یہ جان نہیں پائے تھے کہ وہ لاہور آنے کے بعد اس کے گھر گئی تھی۔ شاید یہ صبیحہ کے ان دنوں پشاور میں ہونے کا نتیجہ تھا جن دنوں امامہ اپنے گھر سے چلی آئی تھی۔ ورنہ شاید صبیحہ اور اس کے گھر والوں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
مریم نے صبیحہ کو امامہ کی اپنے ہاں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے مکمل طور پر یوں ظاہر کیا تھا جیسے امامہ کی اس طرح کی گمشدگی باقی اسٹوڈنٹس کی طرح اس کے لئے بھی حیران کن بات تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند ہفتے گزر جانے کے بعد جب امامہ کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی کے ہاں محفوط ہے اور کوئی بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے سالار سکندر کو فون کیا۔ وہ اس سے نکاح کے پیپرز لینا چاہتی تھی اور تب پہلی بار یہ جان کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ سالار نے نہ تو طلاق کا حق اسے تفویض کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ڈآکٹر سبط علی کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے پہلی بار موبائل کا استعمال کیا تھا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر اور سالار سے فون پر بات کرنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔ اسے سالار جیسے شخص پر کبھی بھی اس حد تک اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے پیپرز کو دیکھنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا جو اس نے انہیں دیکھنے سے اجتناب کیا اور پھر آخر اس نے پیپرز کی ایک کاپی فوری طور پر اس سے کیوں نہیں لی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اپنے گھر سے نکل آئی تھی۔
اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ شخص اس کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن گیا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں۔۔۔۔۔ وہ اب ہر بات پر پچھتا رہی تھی۔ اگر اسے اندازہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی جیسے آدمی کے پاس پہنچ جائے گی تو وہ کبھی بھی نکاح کرنے کی حماقت نہ کرتی اور سالار جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اور اگر اسے یقین ہو تاکہ ڈاکٹر سبط علی ہر حالت میں اس کی مدد کریں گے تو وہ کم از کم سالار کے بارے میں ان سے جھوٹ نہ بولتی پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے، مگر اب جب وہ انہیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ یہ یقین دلا چکی تھی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی بھی طرح انوالو نہیں تھی تو اس نکاح کا انکشاف اور وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ جس کی برائیوں کے بارے میں وہ ڈاکٹر سبط علی سے بات کرچکی تھی اور جس کے بارے میں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امامہ کے والدین نے اس کے خلاف اغوا کا کیس فائل کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگر اب ڈاکٹر سبط علی کو یہ حقائق بتانے کی کوشش کرے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کم ازکم اس وقت وہ واحد ٹھکانہ کھونے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اگلے کئی دن اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی۔ مستقبل یکدم بھوت بن گیا تھا اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ اسے اس شخص سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے شوٹ کردیتی۔ اسے عجیب عجیب خدشے اور اندیشے تنگ کرتے رہتے۔ پہلے اگر اسے صرف اپنے گھر والوں کا خوف تھا تو اب اس خوف کے ساتھ سالار کا خوف بھی شامل ہوگیا تھا اگر اس نے میری تلاش شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔
اس کا وزن یکدم کم ہونے لگا۔ وہ پہلے بھی خاموش رہتی تھی مگر اب اس کی خاموشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور یہ سب کچھ ڈاکٹر سبط علی اور ان کے گھر والوں سے پوشیدہ نہیں تھا ان سب نے اس سے باری باری ان اچانک آنے والی تبدیلیوں کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں ٹالتی رہی۔
"تم پہلے بھی اداس اور پریشان لگی تھیں مگر اب ایک دو ہفتے سے بہت زیادہ پریشان لگتی ہو۔ کیا پریشانی ہے امامہ؟"
سب سے پہلے مریم نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔
"نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بس میں گھر کو مس کرتی ہوں۔"
امامہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں، میں یہ نہیں مان سکتی۔ آخر اب اچانک اتنا کیوں مس کرنے لگی انہیں کہ کھانا پینا بھول گئی ہو۔ چہرہ زرد ہوگیا ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے ہیں اور وزن کم ہوتا جارہا ہے۔ کیا تم بیمار ہونا چاہتی ہو؟"
وہ مریم کی کہی ہوئی کسی بات کو رد نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی بھی اس کی پریشانی کا اندازہ باآسانی لگاسکتا ہے اور شاید یہ اندازہ بھی یہ کہ پریشانی کسی نئے مسئلے کا نتیجہ تھی مگر وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ سالار کے ساتھ ہونےو الے نکاح اور اس سے متعلقہ خدشات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔
"مجھے اب اپنے گھر والے زیادہ یاد آنے لگے ہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں وہ مجھے زیادہ یاد آرہے ہیں۔"
امامہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا اور یہ جھوٹ نہیں تھا اسے واقعی اب اپنے گھر والے پہلے سے زیادہ یاد آنے لگے تھے۔
وہ کبھی بھی اتنا لمبا عرصہ ان سے الگ نہیں رہی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر اس طرح کٹ کر۔ لاہورہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی وہ مہینے میں ایک بار ضرور اسلام آباد جاتی اور ایک دوبار وسیم یا ہاشم مبین لاہور اس سے ملنے چلے آتے اور فون تو وہ اکثر ہی کرتی رہتی تھی مگر اب یکدم اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ سمندر میں موجود کسی ویران جزیرے پر آن بیٹھی ہو۔ جہاں دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں اور وہ چہرے۔۔۔۔۔ جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی وہ خوابوں اور خیالوں کے علاوہ نظر آہی نہیں سکتے تھے۔
پتا نہیں مریم اس کے جواب سے مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے موضوع بدل دیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اس طرح اس کا ذہن بٹ جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کی تین بیٹیاں تھیں، مریم ان کی تیسری بیٹی تھی۔ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جب کہ مریم ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ڈاکٹر سبط نے امامہ کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بھی متعارف کروایا تھا۔ وہ دونوں بیرون شہر مقیم تھیں اور ان کا رابطہ زیادہ تر فون کے ذریعہ ہی ہوتا تھا مگر یہ اتفاق ہی تھا کہ امامہ کے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے دوران وہ دونوں باری باری کچھ دنوں کے وہاں آئیں۔
امامہ سے ان کا رویہ مریم سے مختلف نہیں تھا۔ ان کے رویے میں اس کے لئے محبت اور مانوسیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن امامہ کو انہیں دیکھ کر ہمیشہ اپنی بڑی بہنیں یاد آجاتیں اور پھر جیسے سب کچھ یاد آجاتا۔ اپنا گھر۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ بڑے بھائی۔۔۔۔۔ وسیم۔۔۔۔۔ اور سعد۔۔۔۔۔ سعد سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت کے بااثر خاندان اپنے گھروں میں اولاد ہونے کے باوجود بے سہارا یتیم بچوں میں سے کسی ایک لڑکے کو گود میں لینے لگے تھے۔ یہ اپنی جماعت کے افراد کی مستقبل میں تعداد بڑھانے کے لئے کوششوں کا ایک ضروری حصہ تھی۔ ایسا بچہ ہمیشہ عام مسلمانوں کے بچوں میں سے ہی ہوتا اور ہمیشہ لڑکا ہوتا۔ سعد بھی اسی سلسلے میں بہت چھوٹی عمر میں اس کے گھر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسکول کے آخری سالوں میں تھی اور اسے گھر میں ہونے والے اس عجیب اضافے نے کچھ حیران کیا تھا۔
"ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے سعد کو گود لیا ہے، تاکہ ہم بھی دوسرے لوگوں پر احسانات کرسکیں اور نیکی کا یہ سلسلہ جاری رہے۔"
اس کی امی نے اس کےا ستفسار پر اسے بتایا۔
"تم سمجھو، وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔"
تب اسے اپنے بابا اور امی پر بہت فخر ہوا تھا۔ وہ کتنے عظیم لوگ تھے کہ ایک بے سہارا بچے کو اچھی زندگی دینے کے لئے گھر لے آئے تھے، اسے اپنا نام دے رہے تھے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔ اس نے تب غور نہیں کیا تھا کہ ایسا ہی ایک بچہ اس کے تایا اعظم کے گھر پر بھی کیوں تھا۔ ایسا ہی ایک بچہ اس کے چھوٹے چچا کے گھر پر کیوں تھا؟ ایسے ہی بہت سے دوسرے بچے ان کے جاننے والے کچھ اور بااثر خاندانوں کے گھر پر کیوں تھے؟ اس کے لئے بس یہی کافی تھی کہ وہ ایک اچھا کام کررہے تھے۔ ان کے جماعت ایک "اچھے" کام کی ترویج کررہی تھی۔ یہ اس نے بہت بعد جانا تھا کہ اس "اچھے" کام کی حقیقت کیا تھی؟
سعد اس سے بہت مانوس تھا۔ اس کا زیادہ وقت امامہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ شروع کے کئی سال امامہ کے کمرے میں اس کے بیڈ پر ہی سوتا رہا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد میڈیکل کالج سے وہ جب بھی اسلام آباد آتی،وہ سعد کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بتاتی رہتی۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کسی چیز کو منطقی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا تھا مگر وہ اس سے صرف ایک بات کہتی رہی۔
"جیسے اللہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ہمارے پیغمبر محمد ﷺ بھی ایک ہی ہیں۔ ان سا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔"
وہ اسے ساتھ یہ تاکید بھی کرتی رہتی کہ وہ ان دونوں کی آپس کی باتوں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائے اور امامہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی یہ کوشش بے کار تھی۔ سعد کو بھی بچپن ہی سے مذہبی اجتماعات میں لے جایا جانے لگا اور وہ اس اثر کو قبول کررہا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد سعد کو لے کر اپنے گھر والوں سے الگ ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا۔
اس نے گھر سے بھاگتے ہوئے بھی سعد کو اپنے ساتھ لے آنے کا سوچا تھا مگر یہ کام ناممکن تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے لاتے ہوئے خود بھی پکڑی جائے۔ وہ اسے وہاں چھوڑ آئی تھی اور اب ڈاکٹر سبط کے ہاں پہنچ جانے کے بعد اسے اس کا بار بار خیال آتا اگر وہ کسی طرح اسے وہاں سے لے آتی تو وہ بھی اس دلدل سے نکل سکتا تھا مگر ان تمام سوچوں، تمام خیالوں نے اپنے گھر والوں کے لئے اس کی محبت کو کم نہیں کیا نہ اپنے گھر والوں کے لئے، نہ جلال انصر کے لئے۔
وہ ان کا خیال آنے پر رونا شروع ہوتی تو ساری رات روتی ہی رہتی۔ شروع کے دنوں میں وہ ایک الگ کمرے میں تھی اور مریم کو اس کا اندازہ نہیں تھا مگر ایک رات وہ اچانک اس کے کمرے میں اپنی کوئی کتاب لینے آئی۔ رات کے پچھلے پہر اسے قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ امامہ جاگ رہی ہوگی اور نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ رو رہی ہوگی۔
امامہ کمرے کی لائٹ آف کئے اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے رو رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا تو اس نے کمبل سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی مریم کو کیسے اس کے جاگنے کا اندازہ ہوا تھا۔
"امامہ! جاگ رہی ہو؟"
اس نے امامہ کو آواز دی۔ امامہ نے حرکت نہیں کی مگر پھر مریم اس کی طرف چلی آئی اور اس نے کمبل اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔
"میرے اللہ۔۔۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔۔۔ اور اس وقت؟"
وہ اس کے پاس ہی تشویش کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ امامہ کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا، مگر اسے سب سے زیادہ ندامت پکڑے جانے کی تھی۔
"اس لئے تمہیں راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ تم روتی رہتی ہو اور صبح یہ کہہ دیتی ہو کہ رات کو سونے میں دقت ہوئی اس لئے آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔ بس تم آج سے یہاں نہیں سوؤ گی۔ اٹھو میرے کمرے میں چلو۔"
اس نے کچھ برہمی کے عالم میں اسے کھینچ کراٹھایا۔ امامہ ایک لفظ نہیں بول سکی۔ وہ اس وقت بے حد شرمندہ تھی۔
مریم نے اس کے بعد اسے اپنے کمرے میں ہی سلانا شروع کردیا۔ راتوں کو دیر تک رونے کا وہ سلسلہ ختم ہوگیا مگر نیند پر اس کا اب بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ اسے نیند بہت دیر سے آتی تھی۔
کئی بار مریم کی عدم موجودگی میں اس کی میڈیکل کی کتابیں دیکھتی اور اسکا دل بھر آتا۔ وہ جانتی تھی سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
صبح مریم اور ڈاکٹر سبط کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ سارا دن آنٹی کے ساتھ گزار دیتی یا شاید وہ سارا دن اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اسے اکیلا نہ رہنے دینے کی کوشش میں مصروف رہتی تھیں مگر ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ پتا نہیں کن کن سوچوں میں ڈوبی رہتی تھی۔
اس نے سالار کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کی ذہنی پریشانی میں اضافے کے علاوہ اس رابطے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں آئے تین ماہ ہوگئے تھے جب ایک دن انہوں نے رات کو اسے بلایا۔
"آپ کو اپنا گھر چھوڑے کچھ وقت بیت گیا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کی تلاش ابھی تک ختم تو نہیں کی ہوگی مگر چند ماہ پہلے والی تندی و تیزی نہیں رہی ہوگی اب۔۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اب آگے کیا کرنا چاہتی ہیں۔"
انہوں نے مختصر تمہید کے بعد کہا۔
"میں نے آپ کو بتایا تھا میں اسٹڈیز جاری رکھنا چاہتی ہوں۔"
وہ اس کی بات پر کچھ دیر خاموش رہے پھر انہوں نے کہا۔
"امامہ! آپ نے اپنی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟" وہ ان سے اس سوال کی توقع نہیں کررہی تھی۔
"شادی۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔۔۔؟" وہ بے اختیار ہکلائی۔
"آپ جن حالات سے گزر رہی ہیں ان میں آپ کے لئے سب سے بہترین راستہ شادی ہی ہے کسی اچھی فیملی میں شادی ہوجانے سے آپ اس عدم تحفظ کا شکار نہیں رہیں گی جس کا شکار آپ ابھی ہیں۔ میں چند اچھے لڑکوں اور فیملیز کو جانتا ہوں میں چاہتا ہوں ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کی شادی کردی جائے۔"
وہ بالکل سفید چہرے کے ساتھ انہیں چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ ان کے پاس آنے سے بہت پہلے اپنے لئے اسی حل کو متنخب کرچکی تھی اور اسی ایک حل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سالار سکندر سے نکاح کی حماقت کرچکی تھی۔
اس وقت اگر وہ سالار سکندر سے نکاح نہ کرچکی ہوتی تو وہ بلا حیل و حجت ڈاکٹر سبط علی کی بات ماننے پر تیار ہوجاتی۔ وہ جانتی تھی ان حالات میں کسی اچھی فیملی میں شادی اسے کتنی اور کن مصیبتوں سے بچا سکتی تھی۔ اس نے آج تک کبھی خودمختار زندگی نہیں گزاری تھی۔ وہ ہر چیز کے لئے اپنی فیملی کی محتاج رہی تھی اور وہ یہ تصور کرتے ہوئے بھی خوفزدہ رہتی تھی کہ آخر وہ کب اور کس طرح صرف اپنےبل بوتے پر زندگی گزار سکے گی۔
مگر سالار سے وہ نکاح اس کے گلے کی ایسی ہڈی بن گیا تھا جسے وہ نہ نگل سکتی تھی اور نہ اگل سکتی تھی۔
"نہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
"کیوں؟" اس کے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا، مگر حقیقت بتانے کے لئے حوصلہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر سبط علی اس کے بارے میں کیا سوچتے یہ کہ وہ ایک جھوٹی لڑکی ہے جو اب تک انہیں دھوکا دیتے ہوئے ان کے پاس رہ رہی تھی۔ یا یہ کہ شاید۔۔۔۔۔ وہ سالار سے شادی کے لئے ہی اپنے گھر سے نکلی تھی اور باقی سب کچھ کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھی۔
اور اگر انہوں نے حقیقت جان لینے پر اس کی مدد سے معذرت کرلی یا اسے گھر سے چلے جانے کا کہا تو۔۔۔۔۔؟ اور اگر انہوں نے اس کے والدین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔؟ وہ تین ماہ سے ڈآکٹر سبط علی کے پاس تھی۔ وہ کتنے اچھے تھے وہ بخوبی جانتی تھی لیکن وہ اس قدر خوفزدہ اور محتاط تھی کہ وہ کسی قسم کا رسک لینے پر تیار نہیں تھی۔
"میں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ کسی پر بھی۔۔۔۔۔ شادی کر لینے کی صورت میں اگر مجھے بعد میں کبھی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو میں کیا کروں گی۔ اس وقت تو میرے لئے شاید تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔"
اس نے ایک لمبی خاموشی کے بعد جیسے کسی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
"امامہ! ہم ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کے لئے موجود رہیں گے۔ آپ کی شادی کردینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ میرے گھر سے آپ کا تعلق ختم ہوجائے گا یا میں آپ سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آپ میرے لئے میری چوتھی بیٹی ہیں۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالوں گا جو آپ چاہیں گی وہی ہوگا یہ صرف میری ایک تجویز تھی۔"
ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
"کچھ سال گزر جانے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔ جہاں بھی آپ کہیں گے۔" اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔ "مگر ابھی فوری طور پر نہیں۔"
ابھی مجھے سالار سکندر سے جان چھڑانی ہے۔ اس سے طلاق لینے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔"
وہ ان سے بات کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
"کس شہر میں پڑھنا چاہتی ہیں آپ؟"
ڈاکٹر سبط علی نے مزید کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
"کسی بھی شہر میں، میری کوئی ترجیح نہیں ہے۔" اس نے ان سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے گھر سے آتے ہوئے، اپنے سارے ڈاکومنٹس اپنے پاس موجود زیورات اور رقم بھی لے آئی تھی۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس گفتگو کے چند دن بعد اسے بلاکر ملتان میں اس کے ایڈمیشن کے فیصلے کے بارے میں بتانے کے ساتھ اس کے ڈاکومنٹس کے بارے میں پوچھا تو وہ اس بیگ کو لے کر ان کے پاس چلی آئی اس نے ڈاکومنٹس کا ایک لفافہ نکال کر انہیں دیا پھر زیورات کا لفافہ نکال کر ان کی میز پر رکھ دیا۔
"میں یہ زیورات اپنے گھر سے لائی ہوں۔ یہ بہت زیادہ تو نہیں ہیں مگر پھر بھی اتنے ہیں کہ میں انہیں بیچ کر کچھ عرصہ آسانی سے اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتی ہوں۔"
"نہیں، یہ زیورات بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ کی شادی میں کام آئیں گے۔ جہاں تک تعلیمی اخراجات کا تعلق ہے تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آپ میری ذمہ داری ہیں۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"
وہ بات کرتے کرتے چونکے۔ ان کی نظر اس کے ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کھلے بیگ کے اندر تھی۔ امامہ نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہ بیگ میں نظر آنے والے چھوٹے سے پستول کو دیکھ رہے تھے۔ امامہ نے قدرے شرمندگی کے عالم میں اس پسٹل کو بھی نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
"یہ میرا پسٹل ہے۔ میں یہ گھر سے لائی ہوں، میں نے آپ کو بتایا تھا مجھے سالار سے مدد لینی تھی اور وہ اچھا لڑکا نہیں تھا۔"
وہ انہیں اس کے بارے میں مزید نہیں بتا سکتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی پستول کو اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔
"چلانا آتا ہے آپ کو اسے؟"
امامہ نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سرہلایا۔
"کالج میں این سی سی کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ میرا بھائی وسیم بھی رائفل شوٹنگ کلب میں جایا کرتا تھا کبھی کبھار مجھے بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے بابا سے ضد کرکے خریدا تھا۔ یہ گولڈ پلیٹڈ ہے۔"
وہ ان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔
"آپ کے پاس اس کا لائسنس ہے؟"
"ہے مگر وہ ساتھ لے کر نہیں آئی۔"
"پھر آپ اسے یہیں پر رہنے دیں۔ ملتان ساتھ لے کر نہ جائیں۔ زیورات کو لاکر میں رکھوا دیتے ہیں۔" امامہ نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ چند ماہ کے بعد ملتان اپنی اسٹڈیز کے سلسلے کو ایک بار پھر جاری رکھنے کے لئے آگئی تھی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، دوسرے سے تیسرے شہر۔۔۔۔۔ ایک ایسا شہر جس کے بارے میں اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، مگر اس نے تو خواب میں اور بہت کچھ بھی نہیں سوچا تھا۔ کیا س نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک بار پھر بی ایس سی میں داخلہ لے گی۔ اس عمر میں جب لڑکیاں بی ایس سی کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے میڈیکل کالج چھوڑ دے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے والدین کے لئے کبھی اس قدر تکلیف اور شرمندگی کا باعث بنے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اسجد کے بجائے کسی اور سے محبت کرے گی اور پھر اس سے شادی کے لئے یوں پاگلوں کی طرح کوشش کرے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ سالار سکندر جیسے کسی لڑکے کے ساتھ اپنی مرضی سے نکاح کر لے گی۔
اور کیا اس نے یہ سوچا تھا کہ ا یک بار گھر سے نکل جانے کے بعد اسے ڈاکٹر سبط علی کے گھرانے جیسا گھر مل سکے گا۔
اسے باہر کی دنیا میں پھرنے کی عادت نہیں تھی اور اسے باہر کی دنیا میں پھرنا نہیں پڑا تھا۔ اپنے گھر سے نکلتے وقت اس نے اللہ سے اپنی حفاظت کی بے تحاشا دعائیں مانگی تھیں۔ اس نے دعائیں کی تھیں کہ اسے دربدر نہ پھرنا پڑے۔ وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کہ وہ مردوں کی طرح ہر جگہ دندناتی پھرتی۔
اور واقعی نہیں جانتی تھی کہ جب اسے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں خود جگہ جگہ پھرنا پڑے گا۔ ہر طرح کے مردوں اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسےکرے گی۔ وہ بھی اس صورت میں جب کہ اس کے پیچھے فیملی بیک گراؤنڈ نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
وہ اپنی فیملی کے سائے کے نیچے لاہور آکر میڈیکل کالج میں پڑھنا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کے خواب دیکھنا اور بات تھی۔۔۔۔۔ تب اس کے لئے کوئی مالی مسائل نہیں تھے اور ہاشم مبین احمد کے پاس اتنی دولت اور اثرورسوخ تھا کہ صرف ہاشم مبین احمد کے نام کا حوالہ کسی بھی شخص کو اس سے بات کرتے ہوئے مرعوب اور محتاط کردینے کے لئے کافی تھا۔
گھر سے نکلنے کے بعد اسے جس ماحول کے سامنے کا خدشہ تھا اس ماحول کا سامنا اسے نہیں کرنا پڑا تھا۔ پہلے سالار اسے بخریت لاہور چھوڑ گیا تھااور اس کے بعد ڈاکٹر سبط علی تک رسائی جس کے بعد اسے اپنے چھوٹے بڑے کسی کام کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ڈاکومنٹس میں نام کی تبدیلی، ملتان میں ایڈمیشن۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں رہائش کا انتظام۔ اس کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری۔۔۔۔۔ وہ اس ایک نعمت کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی وہ کم تھا۔ کم از کم اسے کسی برے ماحول میں بقا کی جنگ لڑنے کے لئے جگہ جگہ دھکے کھانے نہیں پڑے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ملتان چلی آئی، یہ اس کے لئے زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ایک مشکل اور تکلیف دہ دور۔ وہ ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور و ہ عجیب زندگی تھی۔ بعض دفعہ اسے اسلام آباد میں اپنا گھر اور خاندان کے لوگ اتنی شدت سے یاد آتے کہ اس کا دل چاہتا وہ بھاگ کر ان کے پاس چلی جائے۔ بعض دفعہ وہ بغیر کسی وجہ کے رونے لگتی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ جلال انصر سے رابطہ کرے۔ اسے وہ بے تحاشا یاد آتا۔ وہ بی ایس سی کررہی تھی اور اس کے ساتھ بی ایس سی کرنے والی لڑکیاں وہی تھیں جو ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر نہیں آسکی تھیں اور اب وہ بی ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں جانے کی خواہش مند تھیں۔
"میڈیکل کالج۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر۔" اس کے لئے بہت عرصے تک یہ دونوں الفاط نشتر بنے رہے۔ کئی بار وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھ کر حیران ہوتی رہتی۔ آخر وہاں کیا تھا جو ہر چیز کو مٹھی کی ریت بنا رہا تھا۔ کئی بار اسے جویریہ سے کی جانے والی اپنی باتیں یاد آتیں۔
"میں اگر ڈاکٹر نہیں بن سکی تو میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی۔ میں مرجاؤں گی۔"
وہ حیران ہوتی وہ مری تو نہیں تھی۔ اسی طرح زندہ تھی۔
"پاکستان کی سب سے مشہور آئی اسپیشلسٹ؟"
سب کچھ ایک خواب ہی رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر چیز کے اتنے پاس تھی وہ ہر چیز سے اتنا دور تھی۔
اس کے پاس گھر نہیں تھا۔
اس کے پاس گھر والے نہیں تھے۔ اس کے پاس اسجد نہیں تھا۔ میڈیکل کی تعلیم نہیں تھی۔
جلال بھی نہیں تھا۔ وہ زندگی کی ان آسائشوں سے ایک ہی جھٹکے میں محروم ہوگئی تھی جن کی وہ عادی تھی اور اس کے باوجود وہ زندہ تھی۔ امامہ کو کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر بہادر تھی یا کبھی ہوسکتی تھی مگر وہ ہوگئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تکلیف میں کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ یوں جیسے اسے صبر آرہا تھا۔ اللہ کے بعد شاید زمین پر یہ ڈاکٹر سبط تھے جن کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی تھی۔
مہینے میں ایک بار ویک اینڈ پر وہ ان کے پاس لاہور آتی۔ وہ وقتاً فوقتاً اسے ہاسٹل فون کرتے رہتے، اسے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے۔ ان کی بیٹیاں اور بیوی بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کے نزدیک ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔ وہ کئی بار سوچتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان میں اپنے قیام کے دوران بھی اس نے سالار کو کبھی اپنے ذہن سے فراموش نہیں کیا تھا۔ تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع کرنے کے بعد وہ ایک بار اس سے رابطہ کرنا چاہتی تھی اور اگر وہ پھر اسے طلاق دینے سے انکار کردیتا تو وہ بالآخر ڈاکٹر سبط علی کو اس تمام معاملے کے بارے میں بتا دینا چاہتی تھی۔
اور سالار سے رابطہ اس نے بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد لاہور آنے سے پہلے کیا۔ اپنے پاس موجود سالار کے موبائل کا استعمال وہ بہت پہلے ترک کرچکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ دو سال کے عرصہ میں سالار دوبارہ اسی موبائل کا استعمال کرنا شروع کرچکا ہے یا پھر اس نئے نمبر کو استعمال کررہا تھا جو اس نے اپنا موبائل دے دینے کے بعد دیا تھا۔
ایک پی سی او سے اس نے سب سے پہلے اس کا نیا نمبر ڈائل کیا۔ وہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے پاس موجو دموبائل کے نمبر کو ڈائل کیا۔۔۔۔۔ وہ نمبر بھی کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اب وہ کوئی اور نمبر لئے ہوئے تھا اور وہ نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔
اس نے بالآخر گھر کا نمبر ڈائل کیا کچھ دیر تک بیل ہوتی رہی، پھر فون اٹھا لیا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔!" کسی عورت نے دوسری طرف سے کہا۔
"ہیلو میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"سالار صاحب سے۔۔۔۔۔! آپ کون بول رہی ہیں۔"
امامہ کو اچانک محسوس ہوا جیسے اس عورت کے لہجے میں یکدم تجسس پیدا ہوا تھا۔
امامہ کو پتا نہیں کیوں اس کی آواز شناسا لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک اس عورت نے بڑی پرجوش آواز میں کہا۔ "امامہ بی بی آپ امامہ بی بی ہیں؟"
ایک کرنٹ کھا کر امامہ نے بے اختیار کریڈل دبا دیا۔ وہ کون تھی جس نے اسے صرف آواز سے پہچان لیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی۔۔۔۔۔ اور اتنی جلدی وہ بھی سالار سکندر کے گھر پر۔۔۔۔۔
کچھ دیر اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ وہ پی سی او کے اندر والے کیبن میں تھی اور کچھ دیر ریسیور اسی طرح ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
"جو بھی ہو مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اسلام آباد سے اتنی دور ہوں کہ یہاں مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔"
اس نے سوچا اور پی سی او کے مالک کو ایک بار پھر کال ملانے کے لئے کہا۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس بار فون اٹھا لیا گیا تھا۔ مگر اس بار بولنے والا کوئی مرد تھا اور وہ سالار نہیں تھا۔ یہ وہ آواز سنتے ہی جان گئی تھی۔
"میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"آپ امامہ ہاشم ہیں؟"
مرد نے کھردری آواز میں کہا۔ اس بار امامہ کو کوئی شاک نہیں لگا۔
"جی۔۔۔۔۔" دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
"آپ ان سے میری بات کروا دیں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔" دوسری طرف سے کہا۔
"کیوں؟"
"سالار زندہ نہیں ہے۔"
"کیا؟" بے اختیار امامہ کے حلق سے نکلا۔
"وہ مر گیا؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"کب۔۔۔۔۔؟"
اس بار مرد خاموش رہا۔
"آپ سے آخری بار ان کا رابطہ کب ہوا؟"
اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس آدمی نے کہا۔
"چند سال پہلے۔۔۔۔۔ ڈھائی سال پہلے۔"
"ایک سال پہلے اس کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ آپ۔۔۔۔۔"
امامہ نے کچھ بھی اور سننے سے پہلے فون بند کردیا۔ کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ آزاد ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک انسان کے طور پر اسے اس کی موت پرافسوس ہونا چاہیے تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگر اس نے اس طرح اسے طلاق دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو یقیناً اس کے لئے دکھ محسوس کرتی مگر اس وقت ڈھائی سال کے بعد اسے بے اختیار سکون اور خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ تلوار جو اس کے سر لٹکی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی تھی۔
اسے اب ڈاکٹر سب علی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی وہ صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی تھی وہ اس کا وہاں ہاسٹل میں آخری دن تھا اور اس رات اس نے سالار سکندر کے لئے بخشش کے لئے دعا کی۔
وہ اس کی موت کے بعد اسے معاف کرچکی تھی اور وہ اس کی موت پر بے پناہ خوش تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔