حیات قطب عالمؒ




حیات  قطب عالمؒ
قطب الاقطاب حضرت سید عبد اللہ برہان الدین سہروردی بخاری علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ

مرتبین
(۱)  مفتی مطیع الرحمٰن صاحب نعیمی
(۲)  عبدالرشید صاحب  شیخ  ( ابہامؔ  رشید)
(۳)  شیخ خواجہ معین الدین  احمد صاحب  محمد عثمان عطار
(۴) انصاری  محمد حسین صاحب  ( وفاؔ  جونپوری)
(۵)  شیخ  غلام رازق صاحب











انتساب


شمع  علم  و  ادب کے پروانے
 اس کتاب کے روحِ رواں
  پروفیسر سید امداد حسین .جی.بخاری  مرحوم
کے نام
 جنہوں نے اپنی حیاتِ مستعار کا  بیشتر حصہ
 حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ
اور ان کے اجداد کے  حالات  و  واقعات جمع  کرنے میں صرف کر دیا۔
تاریخ ولادت۔ ۲۳   مارچ ۱۹۳۹ِ
تاریخ وفات۔ ۲۳   جنوری ۲۰۱۰ ِ





عرضِ ناشر

اللّٰہ جلَّ شانہٗ و عمِّ نوالہٗ کا شکر و اِحسان ہے کہ اُس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور اِس سے بھی بڑا اِحسان یہ کہ اپنے حبیبِ مکرم نبیِ  معظم  ﷺ کی اُمت میں  پیدا کیا یعنی اشرفُ المخلوقات کا شرف عنایت فرمانے کے ساتھ ساتھ بہترین (خیر) امت میں بھی شمار کر لیا اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہمیں سلسلۂ  سہر وردیہ کے مشہور بزرگ حضرتا بو محمد عبداللہ سید برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ کی نسل میں پیدا فرمایا۔ ہم جتنا بھی شکر ادا کریں ،اللہ ربُّ العزت کے اِن عظیم اِحسانات کا شکر ادا کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
 جب کبھی ہم اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر غور کرتے یا اُن کی تعلیمات کے پیشِ نظر ہم اپنے پر اور ہمارے موجودہ سماج پر نظر ڈالتے تو ہمیں یہ اِحساس ہو تا کہ ہماری نئی نسل ہمارے بزرگوں کی تعلیمات سے دوٗر ہوتی جا رہی ہے۔  اور یہ اندیشہ رہنے لگا کہ دینی اِحکامات پر عمل کرنے میں یہ سستی کہیں بے عملی میں نہ بدل جائے۔  اور اگر ایسا ہوا تو شاید ہمیں اس کے لیے اللہ ربُّ العزت کے یہاں جواب دِہ ہونا پڑے گا۔
ہمارے بڑے بھائی پروفیسر مرحوم سید اِمداد حسین بخاری صاحب کو بھی یہ اِحساس شدت سے تھا۔  وہ اکثر اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کے دوران اِس بات کا اظہار بھی کرتے۔ اُن کی اِسی فکر مندی سے ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اُن کی عظمت و رفعت کا اِحساس کرا نا چاہیے۔  اور اِس کے لیے ہمارے اسلاف بالخصوص ہمارے جدِّ اعلیٰ حضرت ابو محمد سید برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ کے حالاتِ زندگی اُن کے سامنے پیش کرنا چاہیے تا کہ نہ صرف ساداتِ قطبیہ و ساداتِ شاہیہ کے نوجوانوں کو بلکہ پوری ملّتِ اِسلامیہ کو دعوتِ فکرو عمل دی جا سکے۔  بس پھر کیا تھا حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا ذوق ہم میں اس قدر پیدا ہوا کہ ہم ہر اہلِ علم سے اس سلسلے میں دریافت کرنے لگے۔  ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب دیسائی مرحوم اور ڈاکٹر اکبر علی ترمذی صاحب مرحوم جیسے مشہور تاریخ داں حضرات سے استفادہ کیا۔  دیگر تاریخ داں حضرات(Historians) اور عربی فارسی کے محقِّقین اور معروف ہستیوں سے اس سلسلے میں رابطہ قائم کیا۔ احمد آباد کے اہل علم کی لائبریریوں کی خاک چھانی۔  حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے کتب خانے اور حضرت پیر محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی لائبریری کی بارہا ملاقات لی۔  ہماری اسی دوڑ دھوپ کے دوران ہمیں پتا چلا کہ حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک سے لکھی ہوئی ایک عربی کتاب ’’جامعُ الطرق‘‘ اور حضرت جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تصنیف ’’مقرر نامہ ‘‘کے مخطوطات  (Manuscripts) کتب خانہ آصفیہ، حیدر آباد میں موجود ہیں ۔ ’’جامع الطرق‘‘ میں حضرت نے اپنے حسب و نسب نیز اِجازت و خلافت کے متعدد شجرات بہ دستِ خود قلم بند کیے ہیں ۔  لہٰذا اُسے حاصل کرنے کے لیے ہم پروفیسر سید امداد حسین بخاری(مرحوم) اور جناب ابراہیم شیخ صاحب(مرحوم) کے ساتھ حیدر آباد بھی گئے۔
وہاں پہنچ کر کتب خانہ کے اُصولوں کے مطابق اِن مخطوطات کے عکس اور ان کی نقلیں حاصل کرنے کے لیے درخواستیں پیش کیں ، کتب خانہ کے عملے نے ہماری درخواست پر ان دونوں مخطوطات کی جلدیں کتب خانے سے تلاش کر کے ہمیں دکھائیں ۔  تو وفور مسرت سے سرشار ہو کر ہم سبھی خوشی سے جھوٗم اُٹھے تبر کات کو سینے سے لگایا، آنکھوں سے مس کیا،  عقیدت و محبت سے چوما، سر پر اٹھایا اور یہ شاید ان تبرکات کی رِفعت اور بے پناہ عظمت ہی تھی کہ ان کو سرپر اٹھاتے ہی ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ الغرض ضابطے کی کار  روائی پوری کرنے کے کچھ دنوں کے بعد ہمیں ان دونوں تبرکات کے عکس حاصل ہوئے۔ تبرکات کے عکس کیا حاصل ہوئے ؟ گویا ہمیں نعمتِ غیر مترقبہ حاصل ہو گئی۔ یہ تبرکات اصل میں دو قدیم مخطوطات ہیں :
(۱) حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی فارسی تصنیف ’’مقرر نامہ‘‘کے باون۵۲ صفحات کا عکس (یہ مخطوطات اصل میں 114  صفحات پر مشتمل ہیں لیکن کتب خانۂ  آصفیہ کے اصولوں کے تحت وہ کسی بھی مخطوطہ کی بیک وقت مکمل نقل نہیں دیتے۔ لہٰذا ہمیں اس کے آدھے حصے کا عکس ہی مل سکا۔ )
(۲)  ’’جامع الطرق‘‘  (یہ  حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے دست مبارک سے لکھا ہوا نسب ناموں اور شجرات طیبات کا مجموعہ ہے۔ )
اِن دونوں مخطوطات کی دستیابی کے فوراً بعد ہم نے اُن کی تدوین و ترتیب اور ترجمے کا کام شروع کروایا حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی فارسی تصنیف   ’’ مقررنامہ ‘‘ کے ترجمے کے لیے ہماری نظرِ انتخاب پڑی حضرت قبلہ مفتی مطیع الرحمٰن صاحب نعیمی(مدظلہ العالی) کی ذات پر۔ اور ہم نے یہ کام اُن کے سپرد کر دیا۔ حضرت قبلہ         ’’ مقررنامہ‘‘ کا سلیس اُردوٗ زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں ۔ اس مخطوطہ کا باقی حصہ ملتے ہی اُس کا بھی ترجمہ کروا کے انشاء اللہ العزیزاسی کتاب کی طرح اُس کی بھی اِشاعت کی جائے گی۔
عربی  مخطوطہ’’جامع الطرق‘‘ کا ترجمہ ہم نے حیدر آباد کے دار الترجمہ سے کروایا اور اس کی ترتیب و تدوین کے لیے بھی حضرت قبلہ مفتی مطیع الرحمٰن صاحب نعیمی(مدظلہ العالی) کو زحمت دی۔  الحمد للّٰہ!یہ کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ عوام کی دلچسپی کی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا اِس کی اِشاعت تو نہیں کی جائے گی البتہ یہِ اہتمام ضرور کیا جائے گا کہ تشنگانِ علوم و تصوف کو نیز بالخصوص سلسلۂ  سہروردیہ کے بزرگوں پر تحقیقی کام کرنے والوں کو اس کا عکس مع ترجمے کے حاصل ہو سکے۔
اِسی اَثناء میں ہمیں پتا چلا کہ محترم جناب شاہد کلیمی صاحب،مالک کلیم بک ڈپو بھی حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر ایک کتاب ترتیب دے رہے ہیں ۔ یہ خبر سن کر ہم شش و پنج میں پڑ گئے۔ جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں وہ انہوں نے شروع بھی کر دیا ہے۔ بہر حال ہم اُن سے ملے۔ اُن کے کام کی نوعیت معلوم کی اُن کے کام کو دیکھا،سراہا،اور لگے ہاتھوں اُن سے یہ درخواست بھی کر ڈالی کہ صاحب آپ یہ کام رہنے دیجیے جتنا کام آپ کو کرنا تھا آپ کر چکے اب ایسا کیجیے کہ آپ اپنا سارا مواد ہمیں عنایت کر دیجیے۔ اب ہو گا یوں کہ آپ اور ہم ساتھ مل کر اس کام کو قدرے بڑے پیمانے پر کریں گے۔ تاکہ حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر مکمل تحقیقی کتاب تیار کرنے کا حق ادا ہو سکے۔ اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شاہد کلیمی صاحب نے ہماری پیش کش کو خندہ پیشانی کے ساتھ بخوشی قبول فرما لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر طرح کا تعاون دینے کا ہم سے وعدہ بھی کر لیا۔
اس کے بعد جناب ابراہیم شیخ صاحب اور پھر تو یکے بعد دیگرے کام کرنے والے ملتے چلے گئے اور یوں ہمارے قافلے میں حضرت قبلہ مفتی مطیع الرحمٰن صاحب نعیمی، عبد الرشید صاحب شیخ، خواجہ معین الدین صاحب، محمد حسین صاحب(وفا جونپوری)، غلام رازق صاحب شیخ،ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔  یہ سبھی حضرات مشورے کے لیے جمع ہوئے اس کتاب ’’حیاتِ قطبِ عالم‘‘ کا منصوبہ تیار ہوا ممکنہ ابواب کی فہرست کے مطابق کتاب کی بلو پرنٹ تیار کی گئی۔ برادر کبیر مرحوم پروفیسر سید امداد حسین صاحب بخاری نے حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ نیز آپ کے آباؤ اجداد، آپ کے خلفاء، آپ کے معاصرین اور آپ کی اولاد  و امجاد پر زندگی بھر جو کچھ مواد جمع کیا تھا اس کی متعدد زیراکس کاپیاں کروا کر ارباب قلم کے سپرد کر دیں ارباب قلم نے لکھنا شروع کیا۔ تصنیف و تالیف کے اس کام کے دوران سجّادہ نشین درگاہ قطبِ عالم حضرت قبلہ شمیم حیدر صاحب اور مسجد قطبِ عالم کے خطیب و اِمام حضرت قبلہ صدیقی صاحب نیز متعدد حضرات سے ہم نے مشورے بھی طلب کیے اور ان کے مشوروں کے مطابق اس کتاب کو حتی الامکان بہ سے بہتر  اور بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تا ہم ہماری ان تمام کوششوں کے باوجود بہت ممکن ہے کہ کچھ باتوں کو ہم اس کتاب میں شامل نہ کر سکے ہوں ۔  اس کتاب کی کسی غلطی یا  کتاب کے مواد میں کسی بات کی کمی کی طرف اگر ہماری توجہ مبذول کروائی جائے گی تو شکریہ کے ساتھ انہیں قبول کیا جائے گا۔
ہم ممنون ہیں حضرت سید جلال حسینی اشرفی صاحب سجادہ نشین درگاہِ  قتال حسینی اشرفی (کولم پلّی نارائن پیٹھ) کے انہوں نے کتب خانۂ  آصفیہ سے حاصل کیے ہوئے عربی مخطوطات کا اردو ترجمہ کروانے میں ہماری رہنمائی فرمائی اور اس میدان کے ماہرین سے ہماری ملاقات کروا کر ہمارا کام آسان کر دیا۔
ہم ممنون ہیں حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کے سجادہ نشین عالی جناب حضرت سید شمیم حیدر صاحب قبلہ بخاری مدظلہٗ العالی کے۔ انہوں نے اس کتاب کی ترتیب و اشاعت میں حتی الامکان ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ ہمیں پیش کش کی اور ساتھ ہی ساتھ اس کام کے تمام مراحل میں ہمارے لیے دُعاء فرماتے رہے۔ ہم شکر گذار ہیں جناب شاہد صاحب کلیمی کے کہ انہوں نے اس کتاب کی طباعت میں نہ صرف یہ کہ اپنے مفید مشوروں سے نوازا بلکہ طباعت کے ہر مرحلے میں اس کتاب کی نگرانی کی۔ اور اسے بہ سے بہتر بنانے میں مکمل جدو جہد کی۔
درگاہ قطب عالم کی مسجد کے خطیب و امام حضرت مولانا محمد عبدالحکیم صاحب قبلہ صدیقی کی ذاتِ گرامی کو ہم بھلا کیسے فراموش کر سکتے ہیں ،  ہم ان کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے بھی اس کتاب کے منصوبے سے لے کر تکمیل تک کے تمام مراحل میں نہ صرف یہ کہ اپنے مفید مشوروں سے ہمیں نوازا بلکہ اس کتاب کا بغور مطالعہ بھی کیا۔ اور عوام الناس  نیز عقیدت مندانِ قطب عالم علیہ الرحمہ کی دلچسپی کی بہت ساری معلومات کا اضافہ کروایا۔ بالخصوص ہمارے اہل قلم حضرات کی خدمات کا اعتراف کرنا بھی ہمارا  اخلاقی فریضہ ہے۔ کیونکہ ان حضرات کی قلمی کاوشوں کے بغیر اس کتاب کا منظر عام پر آنا مشکل تھا۔  اس لیے ہم ان سبھی کے شکر گذار ہیں ۔
حضرت قبلہ مفتی مطیع الرحمٰن صاحب نعیمی۔ جناب عبد الرشید صاحب شیخ(ابہام ،  رشید)۔ جناب شیخ خواجہ معین الدین صاحب عثمان عطار،۔ جناب شیخ محمد حسین صاحب(وفا جونپوری) اور جناب شیخ غلام رازق صاحب نیز ہمارے محب گرامی جناب شیخ محمد ابراہیم  صاحب نے اس کتاب کی منصوبہ سازی  سے لے کر اشاعت تک کے تمام  مراحل میں  ہر ہر قدم پر ہمارا ساتھ دیا ہم ان کے بھی مشکور ہیں ۔  اس کتاب کی  کمپیوٹر  کمپوزنگ  میں  نمایاں  خدمات پیش کرنے والے۔ عالی جناب حافظ محمد ظہیر صاحب صدیقی۔ عالی جناب محبوب حسین صاحب اوّا والا۔ عزیزی سید ظہیر عباس کے بھی ہم شکر گذار ہیں کہ انہوں نےا پنا قیمتی وقت صرف کر کے کتاب کی کمپوزنگ میں نمایاں خدمات پیش کیں ۔
ساتھ ساتھ ہم فوٹو گرافر شہزاد احمد ایم۔ اور ٹائیٹل پیج  ڈزائن کرنے والے منیر الرحمٰن صاحب و کلیم آف سیٹ و پرنٹرس کے مالک جناب منیر الاِسلام صاحب کے بھی شکر گذار ہیں ۔
اس کتاب کو پیش کرتے ہوئے جہاں ہمیں بے حد خوشی کا احساس ہے وہیں ہمیں اس بات کا بے حد قلق اور افسوس بھی ہے کہ اس کتاب کے لیے ہمہ وقت فکر مند رہنے والے اور زندگی بھر اس کتاب کا مواد جمع کرنے والے برادر کبیر (ہمارے بڑے بھائی صاحب)جناب پروفیسر سید امداد حسین جی بخاری اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اپنا خواب شرمندۂ  تعبیر ہونے سے قبل ہی وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔  اسی طرح ہمارے ایک اور ساتھی عالی جناب ابراہیم صاحب شیخ بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ البتہ وہ اس کتاب کی اشاعتِ اول کی رسمِ  اجراء میں موجود تھے۔  قارئینِ کرام (پڑھنے والوں)سے گزارش ہے کہ مرحوم کی مغفرت کے لیے دُعاِ  فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی علمی اور دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
ہم نے اور ہمارے اہل قلم حضرات نے اس کتاب کی ترتیب و تکمیل میں ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اسے جلد سے جلد عقیدت مندانِ قطبِ عالم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں لیکن کسی نہ کسی سبب سے اس کی تکمیل و اشاعت میں تاخیر ہوتی رہی اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں ۔
دعاء فرمائیں کہ اللہ رب العزت ہماری اس خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین۔
سید ناصر حسین بخاری
علامہ مسجد کے سامنے بی بی تالاب چوراہا،
وٹوا، احمد آباد، گجرات تاریخ : 20 جون 2010




بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اِسلامی تصوّف

تعریف کے لائق صرف اُس خدا کی ذات ہے جو اپنے جلال کے ساتھ منفرد ہے۔  جلال کے ساتھ یکتا ہے۔  اپنی احدیّت کے ساتھ سر بلند ہے۔ اپنی صمدیت کے ساتھ پاک ہے۔ کوئی نظیر اس کے مشابہ نہیں ہو سکتی۔ پاک ہے وہ ذات جو عزیز ہے اور حکیم ہے۔ سمیع ہے۔ اور بصیر ہے۔  وہ خبیر اور قدیر ہے۔  اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے وُجو ٗد بخشا۔ انہیں اپنی رُبوبیت کے ذریعے اپنی معرفت عطا کی۔ اُن میں سے بہترین اور نیک لوگوں کو چن لیا۔  ان میں سے جسے جس خصوصیت سے چاہا مختص فرمایا۔ اپنی مرضی کے مطابق اِحکامات کا پابند بنایا۔
بندے اس کے حکم کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اس کی حکومت میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔  اس کے اندر صرف وہی اُمور حاصل ہو سکتے ہیں جو تقدیر میں لکھے جا چکے ہیں ۔  بندوں کے تمام اعمال کا وہی خالق ہے۔ رسولوں کو الگ الگ قوموں کی طرف بھیجنا اس پر واجب نہ تھا اس کے باوجود وہ قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجتا رہا۔  انبیاء علیہ م السلام کی زبانی اس کے بندوں کو اس طرح غلام بنا رکھا ہے کہ اس پر کوئی اِعتراض نہیں کر سکتا۔  اُس نے واضح موجودات اور روشن آیات کے ساتھ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی تائید اس طرح کی کہ کوئی عذر باقی نہ رہا۔  رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے دَوران موجود مسلمان بزرگوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے سوا کسی اور نام کو اپنے لیے پسند نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے بڑھ کر کوئی اور فضیلت ہو نہیں سکتی تھی۔ اسی صحبتِ رسول کی بنیاد پر اُنہیں ’  صحابہ  ‘  کہا گیا۔  اُن کے بعد کے زمانے میں آنے والے لوگ جنہیں صحابۂ  کرام کی صحبت حاصل ہوئی تھی انہیں ’ تابعین‘ کہا گیا۔  اس کے بعد کے زمانے میں جن لوگوں کو تابعین حضرات کی صحبت حاصل ہوئی انہیں ’ تبع تابعین‘ کہا گیا۔
اس کے بعد اللہ کے جن نیک اور برگزیدہ بندوں نے دینی علوم حاصل کرنے کو ہی اپنی پہچان (شعار) بنا لیا تھا۔ انہیں انبیائے کرام کا وارث ہونے کا فخر حاصل ہوا۔  ان کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں  :
.1 محدثین
.2 فقہاِ   اور
.3 صوفیائے کرام
اِن حضرات نے علم قرآن،علمِ حدیث و بیان اور علم حقائقِ ایمان میں کافی دسترس حاصل کی۔ یہ لوگ علم و عمل اور حقیقتِ حال کے جاننے والے ہوتے ہیں ۔  اس میں انہیں اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا کہ انہوں نے حاصل کیا ہوتا ہے۔ کسی کو یہ کمال نہیں ہوتا کہ وہ تمام علوم کا احاطہ کر سکے جو جس کسی مقام پر فائز ہے  وہ اللہ ہی کے فضل سے ہے۔

محدثینِ کرام اور اُن کے مخصوص علوم و فنون

 محدثینِ کرام نے خود کو حدیثِ رسول ﷺ کی ظاہری صورت سے متعلق رکھا ہے۔  اور اسے ہی  دین کی اثاث (بنیاد) گردانا (مانا) ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت کریمہ:’’ اور جو کچھ تمھیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں نہ لو۔ ‘‘اور اس خطاب کے بعد احادیثِ کریمہ کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ان لوگوں نے دوٗر دراز کے سفر کیے۔  احادیث کی روایت کرنے والوں سے ملاقاتیں کیں ۔
ان کے پاس قیام کیا (رُکے۔ ٹھہرے)حدیث نقل کی صحابۂ  کرام اور تابعین حضرات نے جو کچھ روایت کیا اسے جمع کیا۔  ان صحابۂ  کرام اور تابعین حضرات کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ ان کے حالاتِ زندگی،اعمال و آثار، مسالک، اقوال و احوال اور ان کے اخلاق کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں ۔ محدثین نے بذات خود روایتوں کو سنا۔ درایت کے کڑے اصولوں کے مطابق انہیں پرکھا۔
ہر ہر روایت کی سندوں کے تمام سلسلوں پر گہری توجہ کی اور ان کی ثقاہت پر پورا  زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی معلوم کیا کہ کس راوی نے کتنی حدیثیں روایت کی ہیں ۔ کس نے اِرادی طور پر غلطی کی ہے اور کس نے غیر ارادی طور پر۔ اپنے اصولوں اور ضابطوں (اصول و ضوابط)کی بنیاد پر جھوٹے (دروغ گو) راوی اور سچے (راست گو) راوی کے فرق کو اُجاگر کیا۔
محدثین کرام نے تمام روایتوں کو اکٹھا کیا۔ ضعیف حدیثوں کو صحیح حدیثوں سے الگ کیا۔ موضوع اَحادیث(بناوٹی حدیثوں) کی نشاندہی کی۔ موضوعات کے لحاظ سے حدیثوں کی تقسیم کی۔  اور باب بنائے۔  قرآن کریم کے بعد حدیث دین کی سب سے بڑی بنیاد (اثاث) ہے۔  لہٰذا : اس فن میں خدا نے انہیں جتنی سمجھ (استطاعت) دی تھی۔ جتنی مدد کی تھی اس کے بل بوتے پر حدیثوں کو جمع کرنے میں ان کی جانچ کرنے میں محدثینِ کرام نے اپنی عمریں لگا دیں ۔  ان کی ان کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل امر  و نہی اور دعوت کے سلسلے میں ان کی گواہی قابلِ قبول مانی (گردانی)جاتی ہے۔ ان لوگوں سے فنِ حدیث کے مفہوم و معنیٰ اور اصول و قوانین کے بارے میں تصنیفات چھوڑی ہیں ۔

فقہ کی تعریفات

اُصولیین،فقہاء اور متصوفین تینوں طبقوں نے فقہ کی مختلف تعریفیں کی ہیں ۔  ہم قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے یہ تینوں تعریفیں پیش کرتے ہیں ۔

 اُصولیین کی تعریف

  فقہ احکامِ شرعیہ فرعیہ کے اُص علم کو کہتے ہیں جو دلائلِ فصیلیہ سے مکتسب ہو اور اس کی تعریف کے اعتبار سے فقہ مجتہدین کا خاصہ ہے۔

فقہاء کی تعریف

  فقہ مسائلِ فرعیہ کے حفظ کو کہتے ہیں ، عام ازیں کہ اُن مسائل کا اکتساب دلائلِ تفصیلیہ سے کیا گیا ہو یا اقوالِ مجتہدین سے۔ اس تعریف کے اعتبار سے مقلدین کے علم کو بھی فقہ کہہ سکیں گے۔

متصوفین کی تعریف

  فقہ دُنیا سے اعراض کرنا،آخرت کی طرف رغبت کرنا، دین پر بصیرت رکھنا، عبادت پر مواظبت (ہمیشگی اختیار) کرنا اور خلائق کو نصیحت کرنا ہے۔ اس تعریف کے اعتبار سے فقیہ کی تعریف عالمِ  با عمل اور متقیِ کامل پر صادق آئے گی۔ (محصلہ از شامی)

طبقاتِ فقہاء

  فقہ کی تعریف کے بعد اب ہم آپ کے سامنے طبقاتِ فقہاء پیش کرتے ہیں جن کے مطالعہ سے فقہائے کرام اور اُن کے مقام پر مزید روشنی پڑے گی۔
.1 مجتہدین فی الشرع: یہ وہ لوگ ہیں جو قواعد و اُصول مقرر فرماتے ہیں اور احکامِ فرعیہ کو اصولِ اربعہ سے مستنبط کرتے ہیں اور اُصول و فروع میں کسی کے تابع نہیں ہوتے۔ جیسے ائمۂ  اربعہ ہیں ۔
.2 مجتہدین فی المذہب :یہ صرف اُصول میں اِمام کے تابع ہوتے ہیں اور اَدِلّۂ اربعہ سے فروع کے استخراج پر قدرت رکھتے ہیں اور مسائلِ فرعیہ میں بعض جگہ امام کی مخالفت بھی کرتے ہیں ۔  جیسے اصحابِ ابی حنیفہ وغیرہم۔
.3 مجتہدین فی المسائل: یہ اُصول و فروع میں اِمام کے تابع ہوتے ہیں ۔ اور جن مسائل میں اِمام سے کوئی روایت نہیں ہوتی اُن میں اِمام کے اُصول کے مطابق استخراج کرتے ہیں ۔
.4 اَصحابِ تخریج: انہیں اجتہاد پر بالکل قدرت نہیں ہوتی۔ لیکن اُصول اور اُس کے مآخذ پر مکمل عُبور ہوتا ہے۔ اس لیے یہ قولِ مجمل کی تفصیل پر قدرت رکھتے ہیں ۔  جیسے ابوبکر رازی،جصاص اور کرخی وغیرہم (رحمہم اﷲتعالیٰ)۔
.5 اَصحابِ ترجیح:یہ بعض روایتوں کو دوسری بعض روایتوں پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔  جیسے ابو الحسن قدوٗری اور صاحبِ ’’ہدایہ‘‘(رحمہم اﷲتعالیٰ)۔
.6 ممیزین: یہ وہ لوگ ہیں جو روایات میں سے صحیح، اصحّ، قوی،ضعیف اور ظواہر و نوادِر وغیرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن میں روایات کو باہم متمیز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جیسے صاحبِ ’’کنز‘‘ اور  صاحبِ ’’وقایہ‘‘  وغیرہما۔
.7 محض مقلدین: یعنی وہ لوگ جنہیں اُموٗرِ  مذکورہ میں سے کسی پر قدرت نہیں ہوتی۔
        (ماخوذ از عقودِ رسم المفتی للشامی صفحہ (5-4:

  فقہائے کرام اور اُن کے علوم و فنون

  فقہائے کرام کو محدثین کرام پر فضیلت حاصل ہے۔  لیکن وہ محدثین کرام سے پورا اتفاق کرتے ہیں ۔  یہ لوگ حدیثوں کو سمجھنے میں احکامات کے انتسابات اور ترتیب میں بڑی عرق ریزی کرتے ہیں ۔  دین کی حدوٗد اور شریعت کے اُصول میں تحقیق کا مَلکہ رکھتے ہیں ۔  انہیں حضرات نے کتاب (یعنی قرآن کریم)اور سنت (یعنی حدیث پاک)اور اجماع و قیاس کی روشنی میں ناسخ و منسوخ، اُصول و فروع اور خاص کو عام سے جدا بیان کر کے اُن کے فرق کو واضح کیا۔  مسلمانوں کی سہولت کے لیے قرآن و حدیث کے احکام کو بیان کیا۔  اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ کون سی آیتیں اور حدیثیں ہیں جن کا حکم تو منسوخ مگر ان کی تحریری صورت (لکھی ہوئی شکل) باقی ہے۔  وہ کون سی آیتیں اور حدیثیں ہیں جن کی تحریری صورت (لکھی ہوئی شکل)تو باقی نہیں مگر ان کا حکم موجود (باقی)ہے۔ وہ کون سی آیتیں اور حدیثیں ہیں جو لفظ کی حیثیت سے تو عام ہیں ۔  مگر مفہوم کے لحاظ سے خاص ہیں یا لفظی طور پر خاص ہیں اور معنوی اعتبار سے عام ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ کن آیتوں اور حدیثوں میں خطاب جماعت سے ہے مگر اس سے مراد کوئی ایک فرد ہے۔  اور کس مقام پر خطاب ایک سے ہے اور مراد جماعت ہے۔ انہوں نے مخالفین کو عقلی دلائل سے بھرپور جواب دیے ہیں ۔  اور صاف اور روشن دلیلوں سے گمراہوں کی رہنمائی بھی کی ہے۔ ان کی یہ تمام کوششیں فقط خدمت دین کے لیے تھیں ۔  انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ اوامِر و نواہی میں کون سے اِحکامات ضروری ہیں ، کون سے مستحسن ہیں اور کون سے ترغیبی اور ترہیبی ہیں ۔   جن احکام میں اشکال تھا اُسے رفع کر دیا۔  قوانین وضع کر دیے،شبہات دوٗر کر دیے۔  اُصول سے فروٗع کو الگ کر دیا۔  دین کی حدوں کو اِس اِحتیاط کے ساتھ بیان کی کہ کوئی کمی باقی نہ رہی۔  فقہائے کرام نے علوم فقہ میں مستقل تصانیف چھوڑی ہیں ۔  علم فقہ کے مشہور اِماموں کی اِمامت پر اُمت کا اِجماع ہے۔

 صوفیائے کرام اور ان کے علوم و فنون

صوفیائے کرام کے تمام طبقے محدثین کرام فقہائے کرام سے کامل اِتفاق رکھتے ہیں ۔   اُن کے علوم و فنون، مطالب و مفاہیم اور طریقوں سے کوئی اِختلاف نہیں رکھتے۔ جہاں فقہاء اور محدثین میں اِختلاف ہو وہاں صوفیاء اَحسن، اَولیٰ اور مکمل ترین صورت کو اپناتے ہیں ۔  صوفیائے کرام کے یہاں اُمو ٗرِ دین کے سلسلے میں کسی قسم کی چھوٹ،تاویل و آسائش ڈھونڈنے اور شبہات کو راہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ۔  صوفیائے کرام کثرت کے مقابلے میں قلت پر قناعت کرتے ہیں ۔  شکم سیری پر بھوک کو اختیار کرتے ہیں ۔ غرورو تکبر  اور ہر قسم کے امتیازات سے دوٗر رہتے ہیں ، فقط اللہ سے لَو لگاتے ہیں ۔  آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں ۔  اللہ کے ہر فیصلے پر خوش رہتے ہیں ۔  وہ اپنی حقیقت سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں ۔  صوفیائے کرام نے علومِ دینیہ میں ایسے ایسے مسائل اور نِکات پیدا کیے ہیں جو فقیہ اور عالموں کی سمجھ سے بالا تر ہیں ۔  ان کی نشاندہی صرف صوفیاء کی بصیرت ہی کر سکتی ہے۔  مثلاً: عوارض و علائق، حجابات، پوشیدہ اَسرار، مقاماتِ اِخلاص، احوال و معارف۔   درجاتِ قرب، حقیقتِ توحید، منازل و تعزیر، حقیقتِ بندگی وغیرہ اُن میں سے چند ہیں ۔  خِلوت ہو یا جلوت وہ ہر وقت ان پر کار بند رہتے ہیں ۔  علمائے کرام اُن کا انکار نہیں کرتے مگر کچھ ظاہری علم رکھنے والے علم تصوف کے قائل نہیں ۔ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو تصوف میں مشغول رہنا چاہتے ہوں کیوں کہ اس میں جفا کشی اور محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔  اس میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ،یہ چھوٹوں کو بڑا اور بڑوں کو چھوٹا بنا دیتا ہے۔  اس میں نفس کشی، دُنیا  و ما فیہا سے بے خبری اور خواہشات سے کنارہ کشی کرنا پڑتی ہے۔  اسی لیے علمائے ظاہر علم کو  ترک کر کے ایسے علم میں مشغول ہو گئے ہیں جو انہیں دین میں بے جا گنجائش،تاویلات اور رُخصت کی اجازت دے۔  بشری لذّتوں سے زیادہ قریب ہوا ور عیش پسند طبیعتوں پر بار نہ ہو۔
ائمۂ  کرام کا اِتفاق ہے کہ انبیائے کرام علیہ م السلام  اللہ کے نزدیک سب سے بڑے مقام کے حامل ہوتے ہیں ۔  انبیاء علیہ م السلام    اور اولیائے کرام کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کا اپنے رب سے راز و نیاز کا تعلق ہوتا ہے۔  وہ اس کے احکام پر بھی پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں ۔  انبیاء علیہ م السلام  بشری تقاضوں جیسے کھانا، پینا، نیند اور دیگر عوارض سے مبرّا نہیں ہوتے۔  انہیں وحی، رسالت اور نبوّت کے سبب اولیائے کرام پر جو فوقیت حاصل ہے اس میں کوئی بھی ان کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔
صوفیائے کرام اللہ کی پوشیدہ حکمتوں پر غور کرتے ہیں ۔ خدا کا خوف ہر دم ان کے دلوں پر چھایا رہتا ہے۔  وہ اپنے دلوں کو برے خیالات اور غافل کرنے والے افکار سے پاک رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے معبوٗدِ حقیقی کے حضور سجدہ کرتے ہیں تب اُن کے دل حاضر اور نیتیں سیدھی ہوتی ہیں ۔ اللہ کی راہ میں زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ حرص اور ریاکاری سے بچتے ہیں ۔  آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہر فیصلے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اپنے نفسوں سے مجاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ خواہشاتِ نفسانی کے سخت مخالف ہوتے ہیں وہ اللہ کے ولیوں کے راستے پر چلتے ہیں ۔  اس کے خاص بندوں کی منزلوں کو پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔  گوہرِ مراد پانے کے لیے آسائش کی جگہ تنگی اور اِرادۂ  حق کو اپنا ارادہ تصور کرتے ہیں ۔

علومِ معانی میں صوفیائے کرام کا اِمتیازی مقام

قرآن کریم کی بہت سی آیتیں اور کئی حدیثیں ایسی ہیں جن کا مفہوم اور تشریح و تفسیر بیان کرنے میں صوفیاء دیگر طبقاتِ اہل علم سے بالکل الگ ہیں ۔ ان کی شرح دین میں بلند اور اعلیٰ مقام کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔  علماء اور فقہاء سے اس فن میں وہ بہت آگے ہیں ۔   صوفیاء نے جو عقائد بیان کیے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں ۔
توبہ کی حقیقت اس کی صفات توبہ کرنے والے کے درجات،ورع، پرہیز گاری کی باریکیاں ، اہلِ ورع کے احوال، اہلِ توکل کے طبقات۔  اللہ کے فیصلے کے آگے سر جھکانے (خم کرنے) والوں کے مقامات اور صبر کرنے والوں کے مراتب وغیرہ۔
صوفیاء میں سے ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق ان حقائق کو بیان کیا۔ جس قدر حصہ علم و دانش کا اللہ انہیں عنایت فرماتا ہے اسی کے مطابق وہ بیان کرتے ہیں ۔  کتابُ اللّمع ۔  مُصنّفہٗ ابو نصر سَرَّاج (رحمۃ اللہ علیہ)سے ایک اقتباس نقل ہے:
’’ صوفیائے کرام نے علوم دینیہ میں ایسے ایسے مسائل اور نِکات پیدا کیے جو فقیہوں اور عالموں کی سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ اور  یہ باریک مسائل ان اشارات میں مخفی(چھپے) ہوتے ہیں جن کی نشاندہی صرف صوفیاء کی بصیرت ہی کر سکتی ہے۔ جیسے عوارض و علائق،حجابات،پوشیدہ اسرار،مقاماتِ اخلاص، احوال و معارف،درجاتِ قُرب، حقیقتِ توحید، منازِلِ تعزیر، حقیقتِ بندگی،وجودِ عالم کو ازل کے ساتھ مٹانا (یعنی صِرف ازل جو کہ اللہ کا حکمِ  ذاتی ہے اور ہمارے وُجوٗد سے قبل بھی اس طرح موجوٗد تھا جیسے اب ہے،اس کے ذریعہ کائنات کے وجود کو جو بہر طور ازل کے مقابلے میں نیست ہے، فانی گردانا جائے) قرب قدیم سے حادث کا معدوٗم ہو جانا،عطا کرنے والے کے دیدار کی بقا عطا۔  محسن کی خطا،  احوال و مقامات سے گذر، اِحساسِ مقصد کو اِحساسِ مقصوٗد میں فنا کر دینا،دشوار گذار تاریک راستوں کو طے کرنا۔ یہ ہیں وہ موضوعات جو صوفیاء کا حصہ ہیں ۔  یہی وہ لوگ ہیں جنہیں مذکورہ تمام موضوعات سے متعلق پیچیدگیوں کا علم ہے۔ خلوت ہو کہ جلوت ہر وقت اُن پر کاربند رہتے ہیں ۔ اور ان کی آبکاری خونِ جگر سے کرتے ہیں ۔  انہیں اِن سے اِس قدر آگہی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اُن کے ذرائع اور کمی بیشی کے بارے میں صحیح معلومات دے سکتے ہیں ۔   وہ ان نِکات و مسائل کے بارے میں کسی کے بے دلیل دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔  اور وہ ان میں سے غلط و صحیح کی پہچان رکھتے ہیں ۔ ‘‘
علمِ شریعت کی کیفیت :- بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ تو علمِ شریعت کو ظاہری طور پر جاننے کا اقرار کرتے ہیں ۔ لیکن علمِ باطن اور علمِ تصوّف بالکل بے معنیٰ نہیں ہیں ۔  علمِ شریعت ایک ہی علم اور اِسم ہے جس کا مفہوم دو لفظوں سے واضح ہوتا ہے۔  (۱) روایت (۲) درایت:- علمِ شریعت بیک وقت اعمالِ ظاہری اور اعمالِ باطنی کو دعوت دیتا ہے۔ علم جب تک دل میں رہتا ہے باطن کہلاتا ہے اور زبان تک پہنچے تو علمِ ظاہری کہلاتا ہے۔
اعمالِ ظاہری :- جن اَعمال کو اِنسان کے ظاہری اَعضاء اَنجام دیتے ہیں اُنہیں اعمالِ ظاہری کہتے ہیں ۔ اُن کی دو قسمیں ہیں : عبادات اور احکامات۔ عبادات میں طہارت،نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ شامل ہیں ۔ احکامات میں حدوٗدِ طلاق،غلاموں کو آزاد کرنا،خرید و  فروخت کے مسائل، وراثت اور قصاص وغیرہ شامل ہیں ۔
اعمالِ باطنی :-قلب سے متعلق اعمال کو اعمالِ باطنی کہتے ہیں ۔ مثلاً :مقاماتِ احوال یعنی تصدیقِ ایمان،یقین، اِخلاص، معرفت، توکل،محبت، رضا،ذِکر،شکر،توبہ،خشیت، تقویٰ،مراقبہ،فکر،اعتبار، خوف، اُمید، صبر، قناعت،تسلیم،تفویض، قرب، شوق، وجہ، حزن، ندامت، حیائ، شرم، تعظیم اور ہیبت وغیرہ۔ ان تمام اعمالِ باطنی کا اپنا اپنا معنیٰ اور مفہوم ہے۔  ان میں سے ہر ایک کی صِحّت و عدم صِحّت پر آیاتِ قرآنیہ اور اَحادیثِ نبویہ شاہد ہیں ۔
      (کتاب العلماء)
 تصوّف کیا ہے  :- پروفیسر سید صوفی حیدر دانش نے تو لکھا ہے :
’’ نا محرمانِ تصوّف کا ذکر ہی کیا،خود صدر نشینانِ بزمِ  تصوّف اس کی ایسی تعریف کرنے سے قاصر ہیں ، جو جامع و مانع ہو۔ ‘‘
یہ تصوّف کی تعریف میں مختلف اقوالِ صوفیاء کے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔  ذیل میں صوفیاء کے ذریعے دی گئی تصوّف کی تعریفیں درج ہیں ۔
حضرت ابو محمد بن حریری:
’’تصوّف نیک خصلتوں سے مزیّن ہونا اور تمام بُری عادتوں کا دِل سے نکال دینا ہے۔ ‘‘
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ تصوّف یہ ہے،حق تعالیٰ تجھے تیری ذات سے فنا کر دے اور اپنی ذات کے ساتھ زندہ رکھے۔ ‘‘
حضرت عمر بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ   مکّی کا قول ہے:
’’تصوّف یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اِس حالت میں رہے جو اس کے لیے وقت کے مطابق بہتر ہو۔ ‘‘
حضرت محمد علی رحمۃ اللہ علیہ      قصّاب فرماتے ہیں :
’’ تصوّف وہ کریمانہ اخلاق ہیں جو کریمِ زمانہ کریم آدمی سے کریم لوگوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت سمنون رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:
’’ نفس کو اللہ کے ساتھ چھوڑ دینا کہ جیسا چاہے کرے(یعنی راضی بہ رضائے اِلٰہی رہنا تصوّف ہے۔ )‘‘
یہ اور ایسے بہت سے اَقوال سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ جس ذات پر جن حالات و صفات کا غلبہ رہا اور شخصیت سازی اور تزکیۂ  قلبی کے لیے جس طریقے کو مؤثر جانا اسی کو  تصوّف کا نام دِیا اور اپنی کیفیات و واردات کو تصوّف کی تعریف میں الفاظ کا جامہ پہنایا۔                       (کائنات تصوّف ضیاء شہبازی صفحہ: ۳ (کائنات تصوّف ضیاء شہبازی صفحہ: 133-134)
لفظ صوفی کی تحقیق :- شیخ علی ہجویری حضرت داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :    ’’ لوگوں نے اس اسم کی تحقیق کے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں اور کتابیں تصنیف کی ہیں ‘‘پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لفظ صوفی کے مادّۂ  اِشتقاق(یعنی کس لفظ سے یہ لفظ نکلا ہے)کی ایک مختصر فہرست دی ہے۔  جو درج ذیل ہے۔
(۱)  صفا : بہ معنی پاکیزگی و صفائی قلب۔
(۲)  اہلِ  صُفّہ رسولِ اکرم  ﷺ کے زمانے میں کچھ اَصحاب تھے جو مسجد نبوی میں ہر وقت عبادت کرتے رہتے تھے۔
(۳)  صف: وہ لوگ جو ہمیشہ صفِ اوّل میں نماز اَدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
(۴)  صُفّا:  ایک قدیم قبیلے کا نام ہے جو کعبے کا خادم تھا۔
(۵)  صفوۃ الکفیٰ: گُدّی پر جو بال ہوتے ہیں  ان کو ’’  صِفوۃ الکفیٰ ‘‘ کہتے ہیں ۔
(۶)  تھیو سوفیا: - (Theosophia)یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ حکمتِ اِلٰہی‘‘
(۷)  سُفانا : ایک قسم کا پودہ ہے۔
(۸)  صوف : بہ معنی پشمینہ یاا  وٗن
اِسے قولِ تصوّف کے باب میں بہت شہرت حاصل ہے۔  جس کے معنیٰ اوٗن ہیں ۔  یہ دلق پوشی صوفیاء کو محبوب رہی اس لیے وہ صوفی کے لقب سے مشہور ہوئے۔  مقدمہ ابن خلدون۔ جلد :۳ کے صفحہ ۱۲۷   پر درج ہے۔  ’’ تصوف صَوف سے مشتق ہے کیونکہ اوٗنی لباس (کا پہننا) اصحاب تصوف کے لیے مخصوص تھا۔ کہا گیا ہے کہ ان کی جانب نسبت اس اعتبار سے ہے کہ یہ لباس متقدمین و اسلاف کا زیادہ پسندیدہ تھا۔ کیونکہ ان کی غربت زہد اور تواضع سے زیادہ تھی، یہی وجہ ہے کہ انبیاء کا بھی یہی لباس رہا۔
تصوف بہ اعتبار حروفِ تہجی  :-سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قدّس سر ہٗ نے لفظ تصوف میں مستعمل حروف کے اعتبار سے تصوف کے عجیب غریب حقائق و اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں ،آپ فرماتے ہیں :حرف (تاء) سے مقصود توبہ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔  (۱) توبۂ  ظاہری (۲) توبۂ  باطنی۔  توبۂ  ظاہری یہ ہے کہ آدمی اپنے قول و فعل میں اپنے تمام اعضاءِ ظاہری کو گناہوں اور برائیوں سے الگ کر کے اطاعت کی راہ پر گامزن کر دے۔ نیز خلافِ شریعت اعمال سے توبہ کر کے اس کے احکام کے مطابق عمل کرے۔  توبۂ  باطنی یہ ہے کہ آدمی دِل کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رکھے۔ شریعت کے موافق اعمالِ صالحہ کی طرف رجوع کرے جب برائی اچھائی سے بدل جائے گی تو ’تاء‘ کا مقام مکمل ہو جائے گا۔ (صاد) سے مراد صفائی ہے۔  یہ بھی دو طرح کی ہو تی ہے۔ (۱) دِل کی صفائی (۲) مقام سِرّ کی صفائی یعنی، دِل کی صفائی یہ کہ دِل بشری کدوٗرتوں اور آلائشوں سے پاک ہو جائے۔ جو عام طور پر ہر دِل کے اندر موجوٗد ہوتی ہیں ۔  مقام سِرّ کی صفائی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک کی طرف سے منہ پھیر لینے اور اس کی محبت کے ساتھ اسماءِ توحید کا ذکر باطنی زبان سے دائمی طور پر کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔ جس اِنسان کو کامل طور پر اِن صفات کا حصول ہو گیا تو گویا مقام (صاد) اس پر تمام و کمال ہو گیا۔
’’واو ‘‘سے مراد وِلایت ہے۔ یہ ایک مرتبۂ  عالیہ ہے جو کامل صفائی کے بعد ہی قلب کو حاصل ہوتا ہے۔  وِلایت کا نچوڑ یہ ہے کہ خود اِنسان اَخلاقِ اِلٰہی کی صفات سے متصف ہو جائے۔ جو طالبِ مولیٰ اس منزل تک پہنچا اسے مقامِ واو حاصل ہو گیا۔
’’ف‘‘ سے مراد فناء فی اللہ ہے۔  جب صفاتِ بشری فناِ  ہو جاتی ہیں تو صفات احدیّہ باقی رہ جاتی ہیں ۔ وہ پاک ذات اللہ کی ہے جسے نہ فناِ  ہے نہ زوال، جب بندہ اللہ کی خوشنوٗدی پا لیتا ہے تو اِس پسندیدہ اور برگزیدہ بندے کو راضی ہونے والی ذات،یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بقاء حاصل ہو جاتی ہے۔  اسے فاء کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔
لفظ ولی کی تحقیق :-اگر ہم لفظِ ’’ولی‘‘ کا مطلب لغات میں دیکھتے ہیں تو درجِ ذیل معنیٰ ہاتھ آتے ہیں :
(1) ولی :- دوست، سرپرست، پڑوسی، حلیف، محبت کرنے والا، مددگار وغیرہ۔
     (المنجد۔ عربی۔ اردو۔ )
(2) ولی:- دوست،مددگار،کفیل،ذمّہ دار،خدا رسیدہ،سردار،مالک،شہزادہ،وغیرہ۔                                                    (فرہنگ عامرہ صفحہ۔ 562)
(3) ولی  :- محبوب،آقا،شریک،ساتھی،وارث،سرپرست،مددگار، کار ساز، دوست   وغیرہ۔                                        (فیروز الغات صفحہ۔ 854)
لفظِ’ ولی‘ قرآن پاک میں متعدد جگہ وارِد ہوا ہے۔ لغت میں مذکورہ معانی کے اِعتبار سے ہر ایک معنیٰ کا بندوں پر اطلاق صحیح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن
ذات اِلٰہی پر اس کے تمام معانی کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ دو آیتوں کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ :
(1) ’’اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے۔ اُنہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ ‘‘                                                 (سورۂ  بقرہ۔ آیت۔ 257)
(2) ’’خبردار!بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کسی کا خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں ۔ ‘‘                                               (سورہ یونس آیت62-62:)
جو ہر حال میں اللہ سے دوستی کا رشتہ اُستوار رکھتا ہے وہی اللہ کا ’’ولی‘‘ ہے۔ جب وہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے تو اللہ پاک اس کا دوست بن جاتا ہے۔  ایک دوستی کی نسبت بندے سے خدا کی طرف ہے۔ دوسری دوستی کی نسبت خدا سے بندے کی طرف ہے۔  اگر صرف بندے کی دوستی اللہ سے ہوتی تو خود بندہ بھی یقین سے نہیں جان پاتا کہ وہ اللہ کا دوست ہے بھی یا نہیں ۔  پہلے اللہ اپنے بندے کو چاہتا ہے اس کو دوست بناتا ہے اس کے بعد بندہ اپنے رب سے محبت کرتا ہے۔  اور دوستی پیدا کرتا ہے۔
 صوفی کا لفظ کب اور کس کے لیے اِستعمال ہوا:-’’ تصوف‘‘ کا انکار کرنے والوں نے بڑی شدّ و مد کے ساتھ ’’صوفیاء ‘‘ کی اصطلاح کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عہدِ رسالت میں کوئی شخص صوفی کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔ یہ اصطلاح بہت بعد کو ایجاد ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیوں کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں یہ لفظ رائج تھا۔ جبکہ آپ تابعی تھے۔  اور عہدِ رسالت کے انتہائی قریبی زمانے سے تعلق رکھتے تھے۔  آپ    ۲۱   ھ میں پیدا ہوئے تھے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال ابھی باقی تھے۔ اور  ۱۲۰   ھ میں آپ نے اِنتقال فرمایا۔ ان کی زندگی کے دوران بڑے بڑے نامور صحابہ موجود تھے جن کی زیارت  و قربت سے آپ فیضیاب ہوئے تھے۔ اسی ضمن میں عوارف المعارف سے ایک اکتساب پیش ہے:
’’رسولِ خدا  ﷺ کا  عہدِ مسعود ختم ہونے کے بعد جن حضرات نے صحا بۂ  کرام سے تعلیم حاصل کی (اور شرفِ صحبت پایا)ان کو ’’تابعی‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔  لیکن جب عہدِ رسالت اور انقطاعِ وحی کو لمبی مدت گزر گئی اور نورِ مصطفٰے ﷺ کو رخصت ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔   لوگ مختلف الآراِ  ہو گئے۔  اور لوگوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔   اور صائب الرائے (گہری سوجھ بوجھ رکھنے والا) اپنی رائے میں خود رائے (اپنی ہی بات چلانے والا)ہو گیا۔ اور اِس طُرفہ خیالی اور آزاد روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفسیاتی خواہشات نے علمی غذا کو مکدّر کر دیا،پرہیز گاروں کی بنیادیں ہل گئیں ۔  اور زاہدوں کے اِرادے متزلزل ہو گئے۔  جلالتوں نے غلبہ پا لیا اور کثیف پردے دِلوں پر پڑ گئے، عادتیں بگڑ گئیں اور اربابِ دُنیا  خُرافاتِ دُنیا میں گھر گئے اور خطا کاریوں میں مبتلاء ہو گئے،لوگ اعمالِ صالحہ کو چھوڑ بیٹھے۔ بد اعمالیوں میں گرفتار ہو گئے۔ نہ صدقِ عظیمت ان میں باقی رہی اور نہ قوتِ دینی اور یہ سب دُنیا  اور دُنیا کی محبت میں پھنس کر رہ گئے۔
ایسے نا شائستہ اور غیر صالح ماحول میں کچھ حضرات نے عزلت اور گوشہ نشینی کو غنیمت سمجھا اور زاویوں (کونوں) میں جا کر بیٹھ گئے۔ کبھی کبھار وہاں یہ لوگ جمع ہوتے اور پھر الگ ہو جاتے۔ اُن میں اہل صفّہ کا نمونہ موجود تھا۔  اسباب کو انہوں نے چھوڑ دیا۔ اور ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے نیک اعمال کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔ اور اس ریاضت کے باعث ان میں صفائے فہم پیدا ہوئی۔  اور علومِ اِلٰہیہ کے قبول کرنے کے لائق بن گئے۔  اس طرح ان کو ظاہری زبان کے ساتھ ساتھ باطنی زبان اور عرفانِ  صالحہ سے ایک اور نیا عرفان حاصل ہوا اور اس طرح ایمانِ ظاہری کے ساتھ وہ ایمانِ باطنی سے بھی بہرہ ور ہو گئے۔ جیسا کہ حضرتِ حارثہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جب مجھے غیر معمولی ایمان کے مرتبے کا کشف ہوا۔ جو عام لوگوں میں نہیں پایا جاتا تو اس وقت میں حقیقی اور صحیح معنوں میں مومن بن گیا۔ ان علوم نے ان زاویہ نشینوں اور گوشہ نشینوں (یعنی کونوں میں بیٹھ کر عبادت کرنے والوں)کو نئے علوم سے واقف کرایا اور انہوں نے ان علوم جدیدہ کے لیے ایسی اِصطلاحات(Technical Terminologies)وضع کیں جو ان کے خیالات کی ترجمانی کر سکیں اور اُن کے وِجدان اور باطنی کیفیات کو ظاہر کر سکیں ۔ انہیں اِصطلاحات اور انہیں علوم جدیدہ کو تعلیمات تصوف یا تصوف کہا جانے لگا۔  اور اَخلاف نے اَسلاف سے اُن کی تعلیمات حاصل کرنا شروع کیں ۔  اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہو گیا،یہاں تک کہ بعد کے زمانے میں اس نے باقاعدہ علموں اور رسموں کی شکل اختیار کر لی اور اسی وقت سے یہ لفظ صوفی بھی ان میں رائج ہو گیا اور یہ حضرات خود بھی اِسی نام سے موسوم ہو گئے۔ (یعنی صوفی کہلائے) پس اس وقت سے یہی نام ان کی نشانی ہے۔ اور علمِ اِلٰہی اُن کی صفت ہے۔ عبادتِ اِلٰہی اُن کا سراپا ہے اور تقویٰ اُن کا لباس۔ حقیقت اِلٰہی کے اَسرار اُن کے حقائق ہیں ۔  یہ حضرات (جو فضائل کے مالک ہیں) اپنے کنبہ و قبیلوں کو چھوڑ کر اور ان سے منہ موڑ کر غیرت کے کنبوں میں رہتے ہیں ۔ اور حیرت کی دُنیا میں آباد ہو گئے ہیں ۔   اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لحظہ بہ لحظہ ترقی و صعود کی جانب رواں ہیں ۔  محبت کی آگ ان کے دلوں میں شعلہ زَن ہے،اس پر بھی ان کی تشنگی (پیاس) کا یہ عالم ہے کہ۔ ٭ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ٭(کچھ اور زیادہ ہے)کا نعرہ بلند کرتے ہیں اِلٰہی ہمارا حشر اس گروہ کے ساتھ کرنا اور ان کے حالات باطنی ہم کو نصیب فرمانا۔ ! واللہ اعلم۔
حضرت علامہ جامی علیہ الرحمہ کے مطابق سب سے پہلے جس بزرگ نے صوفی کے لقب کو اختیار کیا وہ شیخ ابو عاصم کوفی ہیں ۔ (المتوفیٰ ۱۵۰  ھ  ۷۶۷ء) آپ شام کے بہت بڑے شیخِ کامل تھے۔ اصل میں کوفہ کے رہنے والے ہیں ۔ اُنہوں نے ہی صوفیوں کے لیے  رملہ، شام (Syria) میں سب سے پہلی خانقاہ تعمیر کروائی ہے۔
ہر علم اور ہر فن کے اپنے اپنے ماہرین ہوتے ہیں ۔  ایسا نہیں ہوتا کہ محدثین نے کبھی اپنے مسائل کے حل کے لیے فقیہوں کی طرف رجوع کیا ہویا کبھی فقیہوں نے فقہ کی پیچیدگیوں کے بارے میں محدثین سے رجوع کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص مقاماتِ سلوک و لطائفِ قلب کے بارے میں صوفیاء کے علاوہ کسی اور سے معلومات حاصل کر سکے۔

صوفیائے کرام کے سلسلے

منگولوں کے حملے کے بعد سے اِسلامی دُنیا میں بہت سے حوادث اور واقعات روٗ نما ہوئے ہیں ۔ جنہوں نے بڑے بڑے ملکوں کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا ہے۔  یہ بات اَب بھی دُہرائی جاتی ہے کہ اِسلامی دُنیا میں منگولوں کی یلغار سے بڑھ کر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ اُن کے ظلم و ستم کی داستانوں سے تاریخ کے اَوراق بھرے پڑے ہیں ۔ اَیسے وقت میں صوفیاء نے اُن کی طلبِ سکون کو تصوف کا بہترین سہارا دیا۔ وہ اُن مظلومین اور پریشان لوگوں کے دِل و دماغ کے غبار دھونے میں مصروف ہو گئے۔ لاکھوں بے سہارا اور مصیبت زدہ لوگ اُن صوفیوں کی طرف آس لگا کر جمع ہو جاتے تھے۔ صوفیائے کرام نے سکون کے متلا شی لوگوں کو تصوف کی خوشگوار چھاؤں عطا کی اور مُردہ اِنسانیت میں نئی روٗح پھوٗنک دی۔ تھکے ہارے اور نا امید لوگوں میں پھر سے جی اٹھنے کی اُمنگ پیدا کر دی۔ صوفیاء نے ملت کے منتشر افراد کو ایک بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا کیا۔ اس کام میں علاقوں زبانوں اور قوموں کا اختلاف نیز الگ الگ رسوم و عادات مزاج اور رواج کا بڑا مسئلہ تھا مگر صوفیاء نے اللہ کی مدد کے ذریعے اس مسئلے کو بہ آسا نی حل کر دیا۔
شیخ نظام الدین اولیاء اور ضیاء الدین برنی کے بیچ ہونے والی گفتگو کا ایک حصہ پیش خدمت ہے۔ آپ نے فرمایا:
‘‘ خدائے تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنی حکمتِ بالغہ سے ایک خاصیت پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے کے آدمیوں کے طریقے اور رسم و رواج علاحدہ اور جُدا ہوتے ہیں ۔ اور زمانے کی رفتار لوگوں میں اس درجہ اثر کرتی ہے کہ موجودہ لوگوں کے زمانے کے مزاج اور طبیعت گزشتہ لوگوں کے اخلاق و طبیعت کے ساتھ بالکل مشابہت نہیں رکھتے۔ البتہ بہت کم آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کی طبیعت پہلے کے لوگوں سے ملتی جلتی ہے‘‘    (سیرۃ الاولیا صفحہ :  315)
پاکیزہ شعور کی بیداری اور علمی جدّ و جہد نے وہ دِن بھی دِکھایا کہ حلقوں اور  دائروں میں محصور تصوّف نے ایسی ہی حکمتِ عملی کی بنا پر عوامی تحریک کی شکل اِختیار کر لی۔  صوفیاء کی یہ کوششیں رائگاں نہ گئیں ، آہستہ آہستہ یہی تحریک منظم اور باقاعدہ سلاسلِ طریقت کی صورت میں نمایاں ہوئی۔ انہی صوفیاء کی فکری اور نظری کاوشوں اور عملی اِقدام نے وہ دِن بھی دکھایا جب اِسلامی دُنیا کے مختلف گوشوں میں یہ روٗحانی سلسلے پھیل گئے۔ ایمان و یقین کے سوتے پھوٹ پڑے۔ جُمود اور بے عملی کا ماحول چھٹ گیا۔ سماج کو نئی زندگی ملی اور ساری گُھٹن دوٗر ہو گئی۔
سلسلے کے قیام میں اُس کے علاقے، عام ذہنی فضاء، جغرافیائی حالات، وہاں کے رہنے والوں کے ریت رواج، عادات و خصائل اور فکری پس منظر کو پوری طرح نگاہ میں رکھا گیا جس کی وجہ سے اُن علاقوں میں بسنے والوں کے لیے نہ سلسلے سے ہی اَجنبیت رہی نہ اُس کی تعلیم نا مانوس لگی۔  سلسلے کی نشود و نما کے لیے حالات سازگار ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ صوفیاء نے سلسلے میں داخل ہونے والوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اَشغال تجویز کیے اس میں بھی علاقے اور وہاں کے بسنے والوں کے مزاج کا خاص طور پر لحاظ کیا۔ ایک اور نکتہ تصوّرِ ولایت کا تھا۔  کچھ لوگوں نے اسے توہّم پرستی کہا ہے۔ کچھ نے اِسے صوفیاء کی اِفتراء بتایا ہے۔ حالانکہ احادیث و سیرت کا بغور مطالعہ کرنے سے اس کے جواز کی بہت سی صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ اس تصورِ وِلایت کے اُصول سے صوفیاء کو کام کرنے میں بڑی آسانی ہوئی۔ ہر شخص کا دائرۂ  عمل واضح اور متعین ہو گیا اور گروہ کی شکل میں دوٗر دراز کے علاقوں تک پھیلتا چلا گیا۔ ہر گروہ خلق اللہ کی ہدایت،اِصلاح اور تربیت کے لیے علاقہ در علاقہ پھیل کر اپنے کاموں میں منہمک ہو گیا۔
  صوفیاء کے یہاں ملک ولایت اور مقام طریقت میں قطب،ابدال اَوتاد، اغواث، نُقَبَاء، نُجَبَاء، بُدَلَاء، تلوین، تمکین، عارف، ابوالوقت، ابن الوقت، نہنگ اور صوفی وغیرہ کی اصطلاحیں رائج ہیں ۔ اس کی کتاب و سنت اور اقوال و احوالِ اکابر صالحین میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور موجود ہے۔ ساتھ ہی ولایت اور قطب و ابدال کے منصب سے ایک اور  با مقصد کام لیا گیا ہے۔ چھوٹے بڑے مختلف علاقوں میں ایک ذمہ داری ان کے سر ڈال دی تھی جس کے تحت وہ منظم طریقے پر اپنے سلسلے کی اشاعت کرتے رہے۔
طریقت کے سلسلوں کے درمیان  یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ سب سے پہلے کون سا سلسلہ وجود میں آیا؟اس ضمن میں پروفیسر خلیق احمد نظامی نے درج ذیل نکتے بیان فرمائے ہیں :
.1 شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش لاہوری علیہ الرحمہ کے بیان کردہ گروہ کی حیثیت در حقیقت سلسلوں کی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مکاتبِ فکر کی تھی جو بعد میں سلاسل کے طور پر منظم ہوئے۔
.2 شجرہ کے اِعتبار سے جو ترتیب دکھائی دیتی ہے وہ بالکل ویسی نہیں بلکہ بعض ممتاز اور مرکزی شخصیتوں سے یہ رشتہ بعد میں جوڑا گیا ہے۔
.3 سلاسلِ طریقت میں رشتہ جوڑنے کی کوشش جو مختلف خانوادوں نے کی اس کے پیچھے فکری ربط اور روٗحانی تاثیر کا اِحساس کار فرما تھا۔ بعض صورتوں میں ایک ہی مرکزی شخصیت سے مختلف مشائخ نے اپنے سلسلے کو منسلک کر لیا۔ جیسے حضرت شیخ معروٗف کرخی علیہ الرحمہ سے شیخ ابو علی دقّاق علیہ الرحمہ ،شیخ جعفر الخلدی علیہ الرحمہ  اور صدرالدین محمد حمویہ علیہ الرحمہ کے طریقوں کو جوڑا گیا۔
.4 بعض صورتوں میں اَیسا بھی ہوا ہے کہ سلسلہ کی واضح شکل اور نظام شیخ کے وِصال کے کافی عرصے کے بعد وجود میں آیا، مثلاً :حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ  کے   سلسلۂ  قادریہ کی تنظیمی شکل اُن کے وِصال سے کم و بیش پچاس سال بعد ظاہر ہوئی۔
.5 سلسلۂ  خواجگان،سلسلۂ  کبرویہ اور سلسلۂ  قادریہ۔ قدامت کے اعتبار سے سرِ فہرست رکھے جاتے ہیں ۔ صوفیاء کے بہت سے دیگر سلسلے حقیقتاً انہیں سلسلوں کی شاخ ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے وجود میں آئے ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مختلف روٗحانی سلسلوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: ’’حاصلِ کمال یہ کہ سب طریقوں کے مقابلے میں قادریہ طریقہ عرب و ہند میں زیادہ مشہور ہے۔ نقشبندیہ سلسلہ، ملکِ ہندستان اور ماوراء النہر iمیں بہت زیادہ مشہور ہے۔
سہروردیہ سلسلہ خراسان اور کشمیر و سندھ میں ۔  کبرویہ طریقہ طہران و کشمیر میں شطاریہ ہندستان میں ۔ شاذلیہ مغرب و مصر، سوڈان اور مدینہ میں اورعیدروسیّہ طریقہ حضر موت میں ۔ ‘‘                                                      ّّّّّّّّّّّّّّ         (الانتباہ  فی سلاسل اولیاء۔ ۹.۱)
صوفیاء کے بہت سے سلسلے حقیقت میں انہیں سلسلوں کی شاخیں ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے وجود میں آئی ہیں بعض سلسلوں سے جو فروٗع نکلے اور اُن سے وابستہ مختلف شاخیں پھوٹیں وہ اس وقت کے حالات اور ضرورت کے اعتبار سے اہم تھیں ۔ مگر حال کے اس شہرت پسندی اور نام و نمود کے دور میں بے کار و بے جا طور پر نئے نئے سلسلے بنتے چلے جا رہے ہیں ۔  اس بارے میں مولانا مناظر احسن گیلانی نے کیا خوب بات کہی ہے :’’ شاخ در شاخ فروعی سلاسل (بلا ضرورت) پھیلائے جانے کا  بڑا خسارہ یہ ہوا کہ اصل سلسلے کو لوگ بھول بیٹھے کہ بعد کی نسلیں اُن کے نام تک سے بھی واقف نہ رہیں ۔  اُن کے بھلائے جانے والے کام سے کہاں تک آشنا ہوتیں ۔ ‘‘
سلاسل میں با اعتبار نام کے ساتھ شاخ در شاخ پھیلاؤ روز بروز ہوتا چلا جا رہا ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ واقعتاً جو سلاسلِ طریقت اپنے نام اور کام کے اِعتبار سے اہم ترین ہیں اور خدمتِ تصوّف کے لیے اُن کا قیام عمل میں آیا ہے۔  اُن سلاسل کے تمام اصول و فروع کو چھانٹ کر یکجا کر لیا جائے،ساتھ ہی اُن قابلِ قدر شخصیات کا تعارُف بھی تحقیق میں شامل کر لیا جائے جن کی ذات سے اُن سلسلوں کا ظہور ہوا ہے۔
نظامی صاحب کی پیش کردہ فہرست جو مختلف فہرستوں کی مدد سے انہوں نے مکمل کی ہے اور ان سلاسل کا انہوں نے اہم ناموں میں شمار کیا ہے۔  اس میں تقریباً ۱۷۳سلسلوں کے نام شامل ہیں جو اس وقت دُنیائے اِسلام کے گوشے گوشے میں موجود ہیں ۔ چونکہ بیرون ہند سلاسل کے نام دینے کی یہاں گنجائش  نہیں ہے لہٰذا ہم یہاں پر ان تمام ناموں کی فہرست دینے کے بجائے اِس وقت ہندوستان میں موجود اہم سلاسل کے ناموں پر ہی اکتفا کریں گے۔
.1 سلسلۂ عید روسبہ (سلسلۂ کبرویہ  کی یمنی شاخ)
.2 جلالیہ بخاریہ (سلسلۂ سہروردیہ کی شاخ اوچ میں)
.3 غوثیہ (شطاریہ سلسلہ کی ہندوستانی شاخ)
.4 قادریہ
.5 ملامتیہ
.6 خواجگان۔ نقشبندیہ
.7 کُبرویہ
.8 مداریہ(ہندوستان)
.9 مغربیہ
.10 چشتیہ
.11 ناصریہ(شاذلیہ کی شاخ)
.12 رسول شاہیہ (گجرات)
.13 شطاریہ
.14 سہروردیہ
.15 طیفوریہ
یہاں پر ہم ان میں سے خاص سلسلوں کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کریں گے :

۱۔ قادریہ سلسلہ :
قادریہ سلسلہ کی تنظیم حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے قریب ۵۰سال بعد ہوئی۔ افغانستان،بلقان،بنگلہ دیش، پاکستان، ترکستان،  چین، ہندوستان، نیز بشمول مراقش مشرقی اور مغربی افریقہ میں اس سلسلے کی خوب اشاعت ہوئی۔ یورپ اور امریکہ میں بھی اس کے سات چھوٹے چھوٹے گروہ پائے جاتے ہیں ۔ مشہور سیاح و مصنف ازابیل (Isabelle Eberhardt)بھی اسی سلسلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہندوستان میں سلسلۂ  قادریہ کے سب سے پہلے بزرگ شیخ حضرت نور الدین مبارک غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ اخبار الاخیار کے مطابق آپ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۶۳۳   ھ)کے خلیفہ تھے۔ حضرت شیخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ  سلسلۂ قادریہ میں حضرت غوث پا ک رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور ان کے صحبت یافتہ تھے۔ حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان اور نسب والا شان سے تعلق رکھنے والے بزرگان بغرضِ اِشاعتِ اِسلام اور ترویجِ روٗحانیت ہند و سندھ کے علاقہ میں نویں صدی ہجری سے پہلے آتے رہے ہیں ۔ انہیں میں مشہور قادریہ سلسلے کے بزرگ حضرت سید محمود غوث قادری حلبی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۸۸۷ ھ میں ہندوستان تشریف لائے اور اُوچ میں مقیم ہوئے۔ اسی سلسلہ میں ایک دوسرے بزرگ سید بہاء الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ بہاول شیر قلندر کا نام بھی آتا ہے۔ انہوں نے ۹۷۳ ھ میں وفات پائی۔
خزینۃ  الاصفیاِ  میں قادری سلسلے کے ایک اور مشہور بزرگ حضرت سید نعمت اللہ ولی قادری رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر آتا ہے۔ جو ۸۴۰ ھ میں بغداد سے تشریف لائے اور بہار شریف میں قیام فر مایا۔ ۸۶۰ھ میں اُن کا وصال ہوا۔ قادری سلسلے کے ایک اوربزرگ جو صوبۂ بہار میں امجھر شریف، ضلع اورنگ آباد میں ۸۴۶ ھ میں تشریف لائے۔  یہیں  ۹۴۰ ھ میں آپ کا وِصال ہوا۔ علاقہ بنگال میں حضرت تاج الدین محمود قادری۸۹۹ ھ میں تشریف لائے۔ وہ خود تو ہندوستان میں نہیں رُکے البتہ ان کے شہزادے ابو الحیات قادری کے حوالے تزکیہ و ارشادِ خلق کی خدمت سونپ گئے۔ ان کی نسل اور ان کا سلسلۂ  طریقت بنگال، پنجاب،بہار،یوپی اور سندھ میں پھیلا۔ زمینِ دکن کے سب سے مشہور قادری بزرگ شاہ نعمت اللہ قادری (المتوفیٰ ۱۴۳۰ ھ) تھے۔ ان کے علاوہ مختلف جگہوں پر قادریہ سلسلے کے دیگر مشائخ بھی سلسلۂ  قادریہ کی خدمت میں دن رات لگے ہوئے تھے۔ مثلاً:شیخ بہاء الدین بن ابراھیم بن عطاء اللہ قادری شطاری،سید حامد گنج بخش،شیخ داوٗد کرمانی۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی،سیدشہباز محمدبھاگلپوری،شیخ ابو المعالی قادری،حضرت میاں میر،ملاّشاہ وغیرہ وغیرہ ان بزرگوں نے عہدِ مغلیہ میں قادریہ سلسلے کو کافی فرو غ دیا۔

۲۔ سلسلۂ خواجگان۔ سلسلۂ نقشبند
اس سلسلے کا قیام سب سے پہلے ترکستان میں ہو ا۔ یہ اپنی تعلیم محبت کے باعث ان کی اجتماعیت کا اہم جز بن گیا۔ خواجہ احمد بسوی (المتوفی۱۱۶۶ھ )اس سلسلہ کے سرخیل ہیں ۔ جنہیں لوگ خواجہ عطا کہتے تھے۔ ان کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۱۱۷۹ء )کے ذریعہ اس سلسلے کے روحانی نظام کو اِستحکام ملا۔ ان کے بعد حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ (۷۹۱ھ  ۔   ۱۳۸۸ء) کی ذات با برکات تھی جن کی وجہ سے اس سلسلے کو قبولیتِ عام اور شہرت تام ملی۔ ان کی بے پناہ جدوجہد کی وجہ سے ہی آپ کے بعد اس سلسلہ کا نام سلسلۂ  نقشبندیہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔
اکبر بادشاہ کے عہد میں حضرت خواجہ باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں اِستحکام بخشا۔ اُن کے حلقۂ  مرید ین میں سے ایک بڑی ہی نام ور شخصیت حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ہیں ۔ اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک تصوف میں مجدّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے شریعت اور سنت کی اِتباع پر زور دے کر رسمی طور پر داخل ہو جانے والے غیر اِسلامی عناصر کو اسلا می فکر سے بالکل علاحدہ کر دیا۔  اور تحریک تصوف میں پھر سے نئی جان ڈال دی۔ اس سلسلے کے مشہور بزرگوں نے مثلاً :خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ ،خواجہ سیف الدین  رحمۃ اللہ علیہ ،شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ،مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ ،اور شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں بے حد کامیاب کوششیں کیں ۔

طریقتِ نقشبندیہ

        طریقتِ نقش بندیہ کو پانے کے لیے حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ اُصول وضع فرمائے۔ جن کی وسعت سے اور جن پر عمل کرنے سے کتابِ الہٰی کے فرامین کی روٗح، یعنی بندگی و قربِ معبود، نیز سنتِ رسول اللہ ﷺ کی متابعت اور بدعتوں سے اِجتناب کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ ان میں سے اولین آٹھ اصولوں کی بنیاد حضرت خواجہ عبدالخالق  غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی اور بقیہ تین اصول کا اضافہ حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے۔
.1 ہوش در دم  :عام معنی کا بھی حامل ہے اور خاص معنی کا بھی۔ حضورِ قلب اور آگاہی کے ساتھ سانس لے اور غفلت میں نہ گذارے بلکہ ہر سانس ذِکرِ الہٰی اور یادِ حق میں آئے جائے اور قلب کا حق ادا کرے اور ہر سانس میں اﷲ کا ذکر کرے۔ خاص معنیٰ یہ ہے کہ ہر سانس میں غیر کی نفی کرے اور حق کا اثبات کرے۔
.2 نظر بر قدم  :  اس کے عام معنی ٰ میں کہا گیا ہے کہ سالک کو سلوک کے طے کرنے کے دوران دائیں بائیں اور اوپر نیچے نہیں دیکھنا چاہیے۔ یعنی ناحق کو اپنے پاؤں کے نیچے لائے اور عاجزی و انکساری اور حلم و نرمی کے ساتھ راستے پر چلے۔ اور خاص معنیٰ میں اس سے مراد ہے کہ جب سالک معرفت کی راہ طے کرنے لگے تو وہ بالا تر معرفتوں پر پہنچنے کے لیے قدم بہ قدم چلے اور آگے بڑھتا جائے۔
.3 سفر در  وطن :  سالک کے طریقت میں داخل ہونے کے ابتدائی زمانے سے لے کر انتہاِ  تک کا مقام قرب، ہمراہی، سلوک کی ساری منزلیں اور مطلوب و مقصود تک کے سارے منازل حالتِ  سفر میں داخل ہیں ۔ یہ باطنی سفر بغیر علم کے، جس کی تعبیر وطن سے کی گئی ہے، واقع نہیں ہوتا اور اس سفر کی کسی بھی حالت سے سالک اس وطن سے باہر نہیں آتا ہے۔ اور ہر وقت وطن میں سفر کرتا ہے۔
.4 خلوت در انجمن :  اس کے عام معنیٰ یہ ہیں کہ سالک کو اپنا ظاہر سنتوں اور فرائض کے نور سے نورانی  اور باطن کو اﷲ تعالیٰ کے نورِ مشاہدہ سے منوّر کرنا چاہیے اور ذرّہ بھر غفلت سے نہ کام لے اور نہ ہی تغافل کو دِل میں راہ دے۔ چنانچہ دُنیوی معاملات و مشاغل میں مصروف ہو کر بھی اﷲ تعالیٰ کو یاد کرتا رہے۔
.5 یاد کرد  :  یعنی یاد کردن (اﷲ کی یاد - اﷲ کو یاد کرنے کا ذِکر)  یہ نکتہ دراصل  فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْ کُرُکُمْ سے ماخوذ ہے اور حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کے ضمن میں فرمایا ہے کہ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْ کُرُکُم یاد کرنے کی توفیق ہے۔ ان مراتب کے عین مطابق جو ذکر کے ہیں جو کچھ بھی دیکھا اور جانا جا چکا، وہ سب غیر ہے اور حجاب۔ اس کی نفی کلمۂ  لا سے کرنی چاہیے۔ در اصل ذکر کے معنی ہیں غفلت کو دوٗر کرنا اور جب غفلت دوٗر ہو گی تب آدمی ذاکر ہو گا، خواہ خاموش ہی رہے۔
.6 باز گشت  :  یہ اصل میں مذکور یعنی خالص اﷲ کی طرف جس کا ذاکر ذکر کرتا ہے، لوٹ جانا ہے۔ اس کے بھی عام اور خاص معنیٰ ہیں ۔  عام معنیٰ یہ ہیں کہ اپنے پروردِگار کے نام کو یاد کرنا، تمام مخلوقات سے مکمل طور پر منقطع ہو جانا اور ہر حال میں بس صرف اﷲ کی طرف متوجہ رہنا اور خاص معنیٰ یہ کہ اپنے پروردِگار کو یاد کرنا۔ جب ذاکر یا سالک نے خود کو فرا موش کر دیا ہو، کیوں کہ ذکر کی حقیقت ہے ذاکر کا مذکور کی یاد میں خود کو فنا کر دینا۔
.7 نگاہ  داشت  :  اس سے مراد یہ ہے کہ سالک کا مراقبہ ایسا ہو کہ ظاہر اور باطن کو حق تعالیٰ کی طرف مبذول رکھے، اور خاص معنیٰ یہ ہیں کہ استغراقِ مرا قبہ اس حد تک ہو کہ سالک کو نہ ظاہری کی خبر رہے نہ باطن کی، نہ مراقبہ کی اور نہ ہی غیر کی۔
.8 یادداشت  :  اس سے چونکہ سالک کی حق تعالیٰ سے ہر وقت آگاہی رکھنا مراد ہے، اس لیے ضروری ہے کہ سالک خاص توجہ کی راہ سے، حق تعالیٰ کی حقانیت اور حقیقت و اصلیت کی طرف باطن کو مشغول رکھے۔ اِس طرح سے دل میں جو تخیلات یا غبار آلودہ خاطرات یا  حتّٰی کہ الفاظ بھی کہیں موجود ہوں گے، اُن سے دِل خالی ہو جائے اور دائمی آگاہی کی مراد، محبت کے جوش، ذوق و شوق کی بدولت حاصل ہو جائے گی۔
.9 وقوفِ زمانی  :   اس میں احوال سے واقفیت رکھنے کی وُسعت سے سالک غفلت و فراموشی سے بھی واقف ہو جائے گاجو اس سے سر زد ہوئی ہے،اور اس طرح سے اسے معافی و معذرت کے مواقع بھی ملتے رہیں گے۔ اور شکر گزاری کی سعادت بھی۔ جب کہ اشتغالِ ذکر میں اس کی سانسیں نسیان و غفلت سے معرّیٰ آتی جا تی رہیں گی۔
.10 وقوفِ عددی  :  اس سے مراد ہے کہ سالک ذکر کرنے میں عدد کا لحاظ رکھے یعنی ایک سانس میں وہ چند بار ذکر کرنے کے اہل ہو جائے۔ مثلاً تین بار، پا نچ بار،سات بار،نو بار، گیارہ بار یا اکیس بار ذکر کرے۔  حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ " ذکرِ قلبی میں عدد کی رعایت کرنا اس لیے ہے کہ پریشانیِ خاطر کو سنبھالا جائے۔
.11 وقوفِ قلبی  :  اس سے مراد ہے کہ سالک و ذاکر کا دل ہی زبان بن جائے یعنی جو ذکر وہ زبان سے کرتا ہو۔ وہ ذِکر دِل کو گویا بنا کے کرے، اور ذِکر خود جریانِ دل کا لازمی حصہ اور جدا نہ ہونے والی دھڑکن بن جائے، اور سالک و ذاکر خواہ سویا ہو یا بیدار، یا دُنیا کے ظاہری مشاغل و کاروبار میں اُلجھا ہوا ہو، اس کا قلب خود بخود زبان کی مانند ذکرِ الہٰی میں مستغرق رہے۔ اس طرح سے سالک اِنتہائی منزل کو پائے گا جو اُس کی غایت مراد ہے۔

سلسلۂ شاذلیہ

  یہ سلسلہ شیخ ابوالحسن علی شاذلی بن عبداﷲ شریف حسینی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے جو  اسکندریہ کے رہنے والے تھے۔ آپ کی ولادت  ۵۵۱  ھ میں مراکش میں ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے آپ کو مغربی بھی لکھتے ہیں ۔  آپ کے آباؤ اجداد کا نسب حضرت امام حسن بن علی مرتضیٰ سے جا ملتا ہے۔ آپ اپنے مریدوں کو کسی بھی میٹھے چشمے سے پیاس بجھانے سے منع نہیں فرماتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ کسی بھی ولی اﷲ کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض پانے کی آپ کو میری طرف سے اجازت ہے۔ میرا طریقہ الگ ہے میں سند و شجرہ کا قائل نہیں ۔

سلسلۂ کبرویّہ

اس سلسلہ کے بانی شیخ نجم الدین کبریٰ تھے (۱۲۲۱ئ ) ان کا نظام اِصلاح و تربیت غیر معمولی طور پر موثر تھا۔ یہ طریقہ کچھ ایسا حیا ت بخش تھا کہ وہ جس پر توجہ فرما دیتے پتھر بھی ہوتا تو آئینہ بن جاتا۔ اسی بنا پر ان کو ’شیخِ ولی تراش ‘کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں طریق سلوک سے متعلق آپ کی دو تصانیف بہت مشہور ہیں ۔ آپ نے منگولوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ لیکن آپ کے مرید ین نے انہی منگولوں میں ایسا کام  کیا کہ وہ گروہ در گروہ مسلمان ہوتے گئے۔ ان میں شیخ مجد الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۱۹ء)شیخ سعد الدین حموی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۵۲ء)،شیخ رضی الدین علی لالہ رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۴۴ء)شیخ سیف الدین با خرزی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۶۰ء)اور شیخ بہاء الدین ولد مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ  کے نام خاص ہیں ۔ خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ مجد الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔
کبرویہ سلسلے کی بعد میں بہت سی شاخیں بن گئیں ۔ مثلاً فردوسیہ،ہموانیہ،اشرفیہ وغیرہ،شیخ سیف الدین باخرزی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید شیخ بد رالدین سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے فردوسی سلسلے کو ہندوستان میں روشناس کرایا۔ بعد میں یہی تینوں سلسلے سید علی ہمدانی شیخ شرف الدین یحیٰ مَنیَری رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۸۰ئ )اور سید اشرف جہانگیرسِمنانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۸۰ئ )کے ناموں سے منسوب ہو کر خوب پھلے پھولے۔ سلسلۂ  فردوسیہ کے متعلق اہل تصوف کی دو رائیں ملتی ہیں ۔ بعض اسے شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کر کے کبرویہ میں داخل کرتے ہیں اور بعض سہروردیہ بتاتے ہیں ۔
سلسلۂ فردوسیہ کا آغاز دہلی سے ہوا لیکن اس کی نشو و نما،شہرت اور وُسعت بہار کے حصہ میں آئی۔ دیوریا میں خاندانِ ساداتِ عباسیان کے درمیان بھی قادریہ،چشتیہ،شطاریہ کے علاوہ خاص طور پر سلسلۂ فردوسیہ بھی مرکز توجہ رہا اور قاضی شاہ محمد عبا س دیوریاوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ذریعے اسے بڑا فروغ حاصل ہو ا۔

سلسلۂ چشتیہ

ہندوستان میں صوفیائے کرام کا آنا چوتھی صدی کے اخیر سے شروع ہو چکا تھا۔ مدتوں تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کامل اور عہد ساز شخصیت تھی۔  آپ نے دعوت و تبلیغ اور اِشاعت کے لیے اجمیر کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ آپ سلسلۂ  چشتیہ کے وہ عظیم المرتبت بزرگ تھے جن کا نام ہندوستان میں سلسلۂ  چشتیہ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (۵۸۸ھ )میں  اجمیر میں رائے پتھو را کی حکومت تھی۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اس وقت بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر یہ حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عزم مصمم کا کمال تھا کہ آپ نے اس علاقے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور بھی چشتی بزرگ اس عہد میں ہندوستان آئے۔ مثلاً ترکستان سے حضرت محمد ترک نارنولی رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان آئے اور نارنول میں سکونت پذیر ہوئے۔  وہیں (۶۴۲ھ )جام شہادت نوش فر مایا۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سامنے ہی اپنے چہیتے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلے کی نشر و اشاعت کے لیے مقرر کر دیا۔ ان کے ذریعہ شمالی ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کو زبردست عروج حاصل ہو۔  سلسلے کی اِشاعت کے تعلق سے شیخ قطب الدین بختیار  کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد شیخ حمید الدین صوفی سُوالی ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کافی مشہور ہے۔ شیخ ناگوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کی ایک کتاب اصول الطریقت کافی مشہور ہوئی۔ آپ نے (۶۷۲ھ ) مطابق ۱۲۳۷ء  میں وصال فر مایا۔
حضرت قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سارے خلفاء ہوئے لیکن حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ   اور شیخ بدر الدین غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں کافی شہرت حاصل کی ہے۔ بابا فرید الدین گنج شکر نے شروعات میں دہلی میں کافی جدو جہد کی اس کے بعد آپ ہانسی گئے اور اس کے بعد اجودھن میں مقیم ہو گئے۔ جس کی وجہ سے چشتیہ سلسلے کی کافی اِشاعت ہوئی۔ آپ کا نام عام طور سے پورے ہندوستان میں اور خاص طور پر شمالی ہند میں کافی مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ دوٗر دوٗر سے آپ کے پاس ہدایت حاصل کرنے کو حاضر ہوتے انہیں میں شیخ نظام الدین اولیاِ  رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے مضبوط نظامِ اِصلاح و تربیت کے ذریعہ مرید ین کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جس نے چشتیہ سلسلے کی خانقاہوں سے ملک کے گوشے گوشے کو آباد کر دیا۔ آپ کے خلفاء میں شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ بدر الدین اسحا ق رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ علاء الدین صابر رحمۃ اللہ علیہ ،اور شیخ عارف رحمۃ اللہ علیہ ، جیسی شخصیتیں شامل ہیں ۔ ان سب میں شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ، اس بات میں سب سے الگ نظر آتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہی چشتیہ سلسلے کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ دہلی میں ان کی خانقاہ پر نصف صدی سے زیادہ تر لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا۔ اور رشد و ہدایات کے دروازے سب پر کھلے رہتے تھے۔  ہزاروں لوگ وہاں لنگر کھاتے اور ہدایات حاصل کرتے تھے۔ آپ نے اپنے بہت سارے خلفاء کو پورے ہندوستان میں دوٗر دوٗر تک سلسلے کی اِشاعت کی غرض سے بھیجا تھا۔
حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ ،کے بعد حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کو وسعت اور استحکام بخشا۔ آپ نے دہلی کے نامساعد حالا ت میں بھی سلسلے کی خوب خوب اشاعت کی۔ تُراب نامی ایک قلندر نے آپ پر چھرے سے حملہ کر دیا۔ اس حادثے کے تین سال بعد(۷۵۷ھ ) مطابق ۱۳۵۶ء میں آپ نے وصال فرمایا۔
شیخ سراج الدین المعروف بہ اخی سرائج نے بنگال کی زمین پر چشتیہ سلسلے کو آگے بڑھانے میں کافی محنت کی ہے۔ آپ کے سب سے زیادہ مشہور خلیفہ شیخ علاِ  الحق بن اسعد پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ ،بنگالی تھے۔ انہوں نے پنڈوہ میں ایک بڑی خانقاہ قائم کی اور سلسلے کی تعلیمات کو عام کرنے لگے۔  ان کے بعد حضرت نور قطبِ عالم پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ ور میر سید اشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کو بہت فروغ دیا۔
حضرت شیخ برہان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ نے سرزمینِ دکن میں سلسلے کی اِشاعت اور اُس کی تعلیم کو رواج دینے میں بہت محنت کی ہے۔  آپ اپنے مریدوں کی اِصلاح اور تربیت پر کافی محنت کرتے تھے۔ اُن کے مرید شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سلسلے کو کافی پھیلایا۔ اسی زمانے میں اسی سلسلے کے ایک مشہور بزرگ حضرت سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ دکن پہنچے۔ آپ کی ذات سے دکن میں چشتیہ سلسلے کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ گلبرگہ میں آپ نے ایک عظیم الشان خانقاہ قائم کی۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔   آپ اعلیٰ درجہ کے شارح تھے۔ آپ کے خلفاء میں شاہ ید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ علاؤ الدین گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ ابوالفتح قریشی رحمۃ اللہ علیہ ،سید صدرالدین اودھی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ فخر الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ محمد اکبر حسینی رحمۃ اللہ علیہ ،سید یوسف حسینی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ زادہ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ  اور قاضی محمدسلیمان رحمۃ اللہ علیہ ، خاص طور سے مشہور ہوئے۔  حضرت گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ ،کے خلفاء و مریدین اور ان کی تصنیف و تالیف دونوں نے زبر دست کام کیا۔ اور تصوف کے خیالات کو عوام و خواص سب تک پہنچا دیا۔
گجرات میں چشتیہ سلسلے کا کام حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ ،اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے عہد سے کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ لیکن باقاعدہ طور پر نشر و اشاعت کا معرکہ علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ یعقوب رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ کبیر الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، اور سید کمال الدین قزوینی رحمۃ اللہ علیہ ،نے انجام دیا۔ علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۷۵۷ھ)حضرت چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، کے خلیفہ اور بھانجے تھے۔  ان کی اولاد میں برابر با فیض اور با صلاحیت بزرگ پیدا ہوتے رہے۔  جن سے چشتیہ سلسلہ گجرات میں رو بہ ترقی رہا۔ شیخ یعقوب رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۷۵۷ھ)  مولانا خواجگی رحمۃ اللہ علیہ ، کے فرزند اور شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ ، دولت آبادی کے خلیفہ تھے۔ شیخ کبیرالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، (۸۵۸ھ)   (۴۵۴ ۱ ئ) حضرت شیخ حمید الدین صوفی سُوالی ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، کے پوتے تھے۔
صوبۂ  بہار میں حضرت آدم صوفی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت فرید الدین طویلہ بخش رحمۃ اللہ علیہ ، خلیفہ نور قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ، اور جمال الحق بندگی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ چشتیہ سلسلے نے وسعت پائی۔  حضرت مخدوم الملک شیخ سیف الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ ،کے زمانے میں ہی بلکہ ان سے قبل سے ہی سلسلۂ چشتیہ بہار کے مختلف حصوں میں پہنچ چکا تھا۔ حضرت فرید الدین گنج شکر  رحمۃ اللہ علیہ ،کے مرید و خلیفہ حضرت خضر پارہ دوست رحمۃ اللہ علیہ ،نے چشتی جماعت خانہ قائم کیا تھا۔ جس کی یادگار کے طور پر بہار شریف کا محلہ چشتیانہ آج بھی آباد ہے۔ اسی طرح میر سید السادات شاہ یٰسین رحمۃ اللہ علیہ ،خلیفہ حضرت مولانا وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ ،ابن نصر اللہ العلوی رحمۃ اللہ علیہ ،نے سلسلۂ  چشتیہ کی بھی زبردست اِشاعت کی اور آپ کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت مولانا شہباز رحمۃ اللہ علیہ ،بھاگلپوری نے بھی سلسلۂ  چشتیہ کو مضبوط بنایا۔ عظیم آباد اور پٹنہ کے علاقوں میں مختلف خانقاہیں اور دیگر سلاسل کے علاوہ چشتیہ سلسلے کے فیضان سے شاد آباد   رہیں ۔ یہاں چشتیہ سلسلہ،سلسلۂ  ابوالعلائیہ کی صورت میں بہار کی مختلف خانقاہوں میں پہنچا۔
سلسلۂ  چشتیہ کی دوسری مضبوط شاخ صابریہ کہلاتی ہے۔ حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ ،کے ذریعہ سلسلۂ  چشتیہ کا کام نہ پھیل سکا۔ شیخ صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ ،کے جانشین شیخ شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ ،تھے۔  وہ مرشد کے حکم کے مطابق پانی پت میں ہی تلقین و ارشاد کرتے رہے (المتوفیٰ ۱۳۱۸ء)(۷۱۸ھ) ان کے بعد شیخ جمال الدین پانی پتی جانشین ہوئے۔ جن کے ۴۰خلفاء تھے۔ ان کی خانقاہ رُدَولی شریف میں ہے۔
شیخ کلیم اللہ دہلوی نے دہلی،دکن،پنجاب،ملتان،تونسہ،چاچڑان کوٹ،اورمٹھن وغیرہ میں چشتیہ سلسلے کی زبردست اشاعت کی۔ انہی کے ایک عزیزمرید و خلیفہ شاہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ ،نے پنجاب میں چپہ چپہ پر چشتیہ سلسلے کی خانقاہیں آباد کروائیں ۔  شاہ فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ ،کے ایک اور خلیفہ شاہ نیاز احمد بریلوی  رحمۃ اللہ علیہ ،کے ذریعہ بھی اس سلسلے کا بہت فروغ ہوا۔ انہوں نے روہیل کھنڈ میں اپنی خانقاہ بنائی۔

شطاریہ سلسلہ

حضرت شاہ عبد اللہ شطاری رحمۃ اللہ علیہ ،پندرہویں صدی میں ایران سے ہندوستان تشریف لائے۔ آپ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ،کی اَولاد میں سے تھے۔ علوم نبوی اور فیضان شطاری لے کر ہندوستان آئے تب آپ نے فرمایا ’ے کوئی خدا کا چاہنے والا،تو آئے تاکہ اسے میں خدا تک پہنچنے کی راہ دکھاؤں ،اس سلسلہ کے بزرگوں کو ہندوستان میں حضرت شاہ عبداللہ شطاری رحمۃ اللہ علیہ ،کے علاوہ شیخ حافظ جونپوری کی خدمات کا بھی فیض پہنچا ہے۔ ان کے علاوہ جونپور کے ہی شیخ بدھن رحمۃ اللہ علیہ ،اور بدولی کے شیخ ولی شطاری رحمۃ اللہ علیہ ، نے بھی سلسلے کو آگے بڑھانے میں اور لوگوں تک اس کا فیض عام کرنے کی کوشش کی۔ خواجہ گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ،کی نسل سے امیر سید علی قوام رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ ،کے برادر زادہ شیخ حاجی ابن شیخ علم الدین رحمۃ اللہ علیہ ،نے بھی شطاری سلسلے کو کافی ترقی دی۔
جب شاہ عبد اللہ شطاری رحمۃ اللہ علیہ ،نے سفرِ آخرت اختیار فرمایا تو اُن کا خرقۂ  خلافت شیخ محمد علی یعنی شیخ قاضن رحمۃ اللہ علیہ ،کو ملا۔ اور ان کے بعد شیخ ابوالفتح ہدایت اللہ سرمست رحمۃ اللہ علیہ ،کو حاصل ہوا اور ان کے بعد شیخ ظہور حاجی حضور رحمۃ اللہ علیہ ،کی خدمت میں پہنچا۔ ان کے بعد منصب ہدایت و اجازت اور مژدۂ  قطب الاقطابی حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچا جنہوں نے اس انجمن کو طرح طرح کی معرفتیں اور حقیقتیں بیان کر کے نئی وضع کی انجمن بنایا۔ شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ (۹۷۰ھ) (۱۵۶۲ء)کا سلسلۂ نسب خواجہ فرید الدین عطاری رحمۃ اللہ علیہ (۶۲۸ھ) (۱۲۳۰ء)سے ملتا ہے۔ آپ کے پر دادا معین الدین قتال ہندوستان تشریف لائے اور جونپور میں اِنتقال فرمایا۔ شاہ محمد غوث  رحمۃ اللہ علیہ ،جامع علوم و فنون تھے اور معقول و منقول پر مکمل دستر س حاصل تھی۔ آپ کثیر التصانیف بزرگ ’جواہر خمسہ‘ ’اورادِ غوثیہ ‘،اور ’بحر الحیات‘ آ پ کی مشہور تصانیف ہیں ۔ آپ کے اخلاق کا اثر تھا کہ کثرت کے ساتھ لوگ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوتے تھے۔ آپ کی خانقاہ ’غوث پورہ‘ میں مجلسِ سماع کا انعقاد زبردست انداز میں ہوتا تھا۔ میاں تان سین جو فن موسیقی کے مشہو ر زمانہ اُستاد تھے آپ ہی کے مرید تھے۔ ان کا مزار بھی شیخ کے پائیں (قدموں کی جانب)ہے۔
آپ کے بے شمار خلفاء تھے جن میں شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ ، (۹۹۷ھ) (۱۵۸۸ء)جیسے جلیل القدر عالم بھی شامل تھے۔ آپ سلطان محمود بیگڑا کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا نام سید احمد اور لقب وجیہ الدین اور آسمانی خطاب ’علی ثانی ‘تھا۔ آپ حنفی مذہب،شطاری مشرب تھے۔ آپ کا نسب ۲۷ واسطوں سے سید نا علی مرتضیٰ  رضی اللہ عنہ،سے ملتا ہے۔ آپ نے بچپن ہی میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔ اپنے چچا قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ ،سے اکثر عربی فنون کی کتابیں پڑھیں ۔ اپنے ماموں شاہ بڑا ابولقاسم رحمۃ  رحمۃ اللہ علیہ ،سے بھی اکثر علوم کا اِستفادہ کیا آپ نے حدیث کا دورہ ابو البرکات بنیانی عباسی  رحمۃ اللہ علیہ ،سے لیا۔ اور علوم عقلیہ کی کتابیں علامہ عماد طارمی رحمۃ اللہ علیہ ،سے پڑھیں ۔ آپ مسلسل ۲۴ سال تک علم حاصل کرتے رہے ۲۵ویں سال سے آپ نے اپنے مدرسے میں طلباء کو تعلیم دینا شروع کیا۔ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی نے آپ کی تصنیف کردہ کتابوں کی تعداد: ۱۹۷ بتائی ہے۔ جب کہ دوسروں کا ماننا ہے کہ اُن کی تصنیف کردہ کتابوں کی تعداد اِس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دس سے بارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ (۲۹ محرم ۹۹۸ھ)کے روز ۸۸ سال کی عمر میں وِصال فر مایا۔ آپ کے خلفاء اور شاگردوں میں سے اکثر حضر ات علامہ، محدث،مفتی،قاضی اور مُلاّ کے القاب سے نوازے گئے۔
شاہ وجیہ الدین علوی رحمۃ اللہ علیہ ، (احمد آباد)کے علاوہ شیخ عبداللہ صوفی رحمۃ اللہ علیہ ، (آگرہ)شیخ عارف رحمۃ اللہ علیہ ،(برہانپور)شیخ صدر الدین ذاکر رحمۃ اللہ علیہ ،(بڑودہ)شیخ نورالدین ضیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ ، (آگرہ)وغیرہ نے بھی شطاری سلسلے کو حتی الامکان آگے بڑھایا۔ بہت سارے لوگوں تک اس سلسلے کے فیوض و برکات سے اُن کے مریدوں اور ان کے بعد اُن کے مریدین کے ذریعے سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔

سلسلۂ   سہروردیہ

چشتیہ سلسلے کے بعد ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی آمد ہوئی۔ اس سلسلے کی بنیاد حضرت شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۱۰۹۷ ھ/  ۱۱۱۸ ِ) نے بغداد میں ر کھی تھی۔  وہ اِمام ابوٗ حامد الغزالی( ۵۴۰ ھ) کے بھائی احمد غزالی کے مرید تھے اور بغداد کی جامعہ نظامیہ میں شافعی فقہ پڑھاتے تھے۔ ان کی باقیّاتِ میں صرف ایک کتاب آداب المریدین پائی جاتی ہے۔ لیکن حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر ابو حفص سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلۂ  سہروردیہ کے مؤسسِ ثانی کی حیثیت حاصل ہے۔ ابن خلکان کے مطابق ۱۶   واسطوں سے آپ کا نسب خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے۔ آپ ۵۳۵   ھ میں زنجان کے ایک قصبہ سہرورد میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے عم محترم اور مرشد حضرت شیخ ابو النجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت نہیں تھے۔ اس کے باوجود بچپن ہی سے آپ کو غوث الاعظم کی عنایت حاصل تھی۔ اور آپ کی نظرِ عنایت کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ روحانی فیض حاصل ہوا۔ بغداد میں  حضرت عبد القادِر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے وِصال کے بعد حضرت شیخ ابو النجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سال تک اور اُن کے بعد برسوں تک حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد کی روٗحانی سیادت کا نظام نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔  آ پ کی ذاتِ گرامی سے لاکھوں بند گانِ خدا کو فیض پہنچا۔ آپ کی علمی لیاقت اور رِیاضت کا شہرہ نہ صرف عراق میں بلکہ مصر و شام و حجاز اور ایران میں دوٗر دوٗر تک پہنچ چکا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی آپ کی بزرگی کا غلغلہ بلند تھا۔ دُنیا بھر کے مشائخ عِظام کے لیے آپ کی ذات گرامی ملجاء بنی ہوئی تھی۔ آپ کے خلفاء اور مریدین ہمہ وقت آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے تھے۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔
حضرت شیخ نجیب الدین علی بخش رحمۃ اللہ علیہ تھے جن کے ذریعے عجم یعنی ایران میں سہروردی سلسلہ کی بہت زیادہ اِشاعت ہوئی۔ حضرت شیخ نور الدین مبارک غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جن کی مساعی اور کاوِشوں کی وجہ سے شمالی ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اُس زمانے میں حضرت شیخا  لاِسلام بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ مرشدِ کامل کی تلاش میں ہندوستان سے نکل کر اِسلامی دُنیا میں ملکوں ملکوں پھرتے ہوئے بغداد شریف میں حضرت شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جا پہنچے اور اپنا گوہرِ مراد پا لیا۔ مرشدِ کامل نے بھی کمال مرحمت فرماتے ہوئے صرف تین ہفتوں کی ریاضت کے بعد آپ کو خلافت عطا فرما دی۔ اور ملتان کی طرف مراجعت فرما ہونے کا حکم دیا تاکہ برِّ صغیر میں سہروردی سلسلے کی بنیادیں مضبوط فرمائیں صحیح معنوں میں ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی ترویج و اشاعت مین شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کی زبردست جدوجہد کا بڑا کامیاب رول رہا ہے۔ آپ نے ملتان،اُوچ اور دوسرے مقامات پر سہروردیہ سلسلے کی مشہور خانقاہیں قائم کیں ۔  شب و روز کی انتھک محنت سے ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی جڑیں مضبوط کیں ۔ ان کے مشہور خلفاء میں شیخ اِسمٰعیل قریشی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ حسین رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ نتھو رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ فخر الدین ابراہیم عراقی رحمۃ اللہ علیہ ،سید جلال الدین سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور شیخ صد رالدین رحمۃ اللہ علیہ  عارف ہیں ۔ شیخ صدرالدین عارف رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ شیخ رُکن الدین رحمۃ اللہ علیہ بو الفتح ملتانی ہیں جنہوں نے سلسلے کی تنظیم کے لیے بہت کوشش کی ہیں ۔ حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری کے خاندان میں پیدا ہونے والی زبردست شخصیتوں میں سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ ور ان کے دونوں با کمال فرزندوں سید صدرالدین راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ ور سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ہوتا ہے۔
بنگال میں سہروردی سلسلہ شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے پہنچا آپ کی اور آپ کے خلیفہ حضرت شیخ علی بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی محنت کی وجہ سے بنگال میں سہروردی سلسلے کی کافی ترویج و اِشاعت ہوئی۔
گجرات میں سہروردی سلسلے کی اِشاعت حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ین اور خلفاء نے کی۔ اس کے علاوہ آپ کے اہلِ خانہ اور خاندان کے افراد نے بھی احمد آباد اور گجرات کے دیگر علاقوں میں اپنی علمی اور عملی لیاقتوں کے بل پر اس سلسلے کی تنظیم کی اور اپنے مرید ین اور دیگر عوام تک اِس سلسلے کی فیض رسانی کی ہے۔ سید صدرالدین راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے بذات خود سید برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ  کو گجرات کی وِلایت سونپی اور انہیں تبلیغِ دین کے واسطے گجرات بھیجا۔ احمد شاہ بادشاہ نے یہاں آپ کا شاندار اِستقبال کیا اور آپ کو یہاں سکونت اختیار کرنے کی خاطر بٹوہ میں جاگیر عطا کی۔ یہاں پر حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کے لیے اپنے اور اپنے سلسلے کے فیض کے دروازے کھول دِیے۔ آپ کے بعد آپ کے لائق فرزند حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے رسوٗل آبا دمیں رہ کر اس کام کو آگے بڑھایا۔ ہر دو حضرات نے اپنی علمی قابلیت کے ذریعے اعلیٰ تصانیف اور اپنی عملی ریاضتوں اور مکاشفتوں کے ذریعہ عوام کو دینِ اِسلام کا گرویدہ بنایا۔ اپنی نگاہِ پُر تاثیر کے ذریعے عوام کو خواص میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں کو سلوک کی راہ میں اعلیٰ مرتبوں تک پہنچا دیا۔ اُن کے بعد حضرت شاہ بُڈھا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  اور پیارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اَسلاف کی روشنی پر چلتے ہوئے سلسلے کی خدمات انجام دیں ۔ حضرت قاضی نجم الدین رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عبدالطیف دارُ الملک رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت قاضی محمود رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی سہروردیہ سلسلہ کی تنظیم اور اس کی ترویج و اِشاعت میں کافی جدوجہد کی۔
اپنے اثر اور فیض رسانی کے معاملہ میں سہروردیہ سلسلہ پنجاب اور سندھ تک ہی محدود رہا۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اِس نے عام رواج نہ پایا۔ لیکن شہرت کے اعتبار سے شیخ بہاء اُلدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ رُکن الدین ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ور مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ جیسے جید علماء اور اولیاء کی لِیاقت اور رِیاضت کا نور اُن کے علاقوں تک محدوٗد نہ رہا بلکہ اُن کی روٗحانی شہرت ہندوستان کی حدوٗد کو پار کر کے اِسلامی ممالک میں بھی پھیل گئی۔

 اَشغالِ  سلسلۂ   سہروردیہ

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید حضرت مخدوٗم بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ (ملتان شریف) نے ہندوستان میں سلسلۂ  سہروردیہ کی بنیاد رکھی۔ اِس سلسلے کے مشائخ صوفیاء اپنے تمام اَوقات کو تقسیم کر کے اعمال بجا لاتے ہیں ۔
خرقہ:   مرشد اپنے مرید کو خرقہ عطا کرتا ہے۔ خرقہ کی بیعت کی سند حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  تک مسلسل ہے۔
صبح صادق کے اَوراد :    صبحِ صادق طلوع ہو تو شہادت کی تجدید کراتے ہیں ۔ اس کے بعد صبح کی سنت ادا کرے۔ پہلی رکعت میں الحمد کے بعد  قُلْ یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ  اور دوسری رکعت میں  قُلْ ھُوَ اللّٰہُ  پڑھے۔ اس کے بعد کم از کم ایک سو بار  سُبْحَا نَا للّٰہِ  وَ بِحَمْدِہٖ  سُبْحَا نَا للّٰہِ الْعَظِیْمِ  وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہِ  پڑھے۔
پھر جس قدر ممکن ہو رسول پاک ﷺ پر دُروٗد بھیجے اور سنت و فرض کے درمیان دعاءِ ماثورہ پڑھے۔ اُس کے بعد فرض نماز با جماعت پڑھے۔ فرضوں کے بعد اپنے معمول کے اَوراد و وظائف پڑھے۔ بعد ازاں  لا اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہ کا ذِکر کرے۔
سر کو ناف پر جھکائے۔ یہی طہورِ نفس کی جگہ ہے۔ اور وہاں سے لا الٰہ نکالے اور دائیں کندھے پر لائے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اِعتراف کرے اور  اِلّا اللّٰہ کی ضرب  پوری ہمت و قوّت سے قلبِ صنوبری پر مارے۔ تاکہ آتشِ ذِکر کی حرارت دِل کو پہنچے اور دِل پر واقع چربی پگھل جائے۔ اس چربی کے جلنے اور پگھلنے کی ایک مخصوص بو ہے۔  اس آگ کے پیچھے ایک نور ہے۔ اس نار اور نور کا اثر گاڑھے خون پر ہوتا ہے۔  جو حیات حیوانی کا سر چشمہ ہے۔
حاضر کرنا:  ذاکر کو چاہیے کہ نفس یعنی سانس کو دِل پر حاضر کرے اور اِلَّا اللّٰہ کا ایک دائرہ بنائے جو قلب کو محیط کرے۔ اس میں نفی کے مقابلے میں اثبات کی طرف زیادہ  توجہ دی جاتی ہے۔
مبتدی : لا الٰہَ الا اللّٰہُ سے مراد  لا  معبود   اِلَّا اللّٰہ  کی نیت کرے۔
متوسط : لا  مطلوب  اِلَّا اللّٰہ یا  لا  مقصود   اِلَّا اللّٰہ  کی نیت کرے۔
مخلوق کی محبت دور کرنے کے لیے لا محبوب  اِلَّا اللّٰہ  دھیان میں رکھے کشف و کرامات کے اِظہار سے پرہیز کرے
بعض صوفیاء جس دم سے سانس کو دِل پر حاضر کر کے با قاعدہ گنتی کرتے ہیں ۔
یہ ہندوٗ جوگیوں کا طریقہ ہے اس سے بچنا چاہیے۔
مذکورہ مراقبہ :  جب سورج چڑھ جائے تو سالک کو چاہیے کہ ذِکر کو چھوڑ کر مذکورہ کا مراقبہ کرے اور تصور کرے کہ اللہ کی نظر میری ذات کے ذرّے  ذرّے کو گھیرے ہوئے ہے۔ اِس طرح سالک حق تعالیٰ کے قُرب کا اِدراک حاصل کرے۔
تلاوت قرآن مجید :   بعد ازاں دو رکعت اِشراق پڑھے۔ ذِکر کرے اور دُعا مانگ کر قرآن مجید کی تِلاوت کرے۔ یوں سمجھے کہ گویا اللہ تعالیٰ کے سامنے پڑھ رہا ہے۔ یا اَللہ تعالیٰ اپنا کلام خود بول رہا ہے۔ قرآن مجید کی قرأت اِنتہائی حضوریِ قلب، صفائے باطن، ادب و اِحترام اور خشوع و انکساری کے ساتھ کرے۔ ایک یا دو پارے تلاوت کرے۔ اس سلسلہ میں چلہ کشی بھی کی جاتی ہے اور تمام نماز چاشت اور دیگر نمازیں پڑھتا رہے اور ذِکر اور  اوراد  و  وظائف بھی کرتا رہے۔
چلہ کشی  :   سالک کو مسجد میں بیٹھ کر جملہ وظائف، ذِکر اَذکار، مراقبہ اور تلاوتِ قرآن مجید کا چلہ بھی کروایا جاتا ہے۔ (سلوک صوفیاء۔ صفحہ :۱۱۲۔ ۱۱۳۔ مصنفہ سلطان العارفین حضرت سلطان بابو رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے آباء  و  اجداد
(حضرت خواجہ سید جلال الدین جلال اعظم منیر شاہ میر سرخ بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ)

آپ کا نام جلال الدین  رحمۃ اللہ علیہ ے۔ آپ کی کنیت ابو احمد اور ابوالبرکات ہے۔  آپ کے مشہور القاب۔  میر سرخ۔  منیر شاہ۔  بشیر شاہ وغیرہ  ہیں ۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت خواجہ ابو الموئید سید انیس الدین علی بخاری  رحمۃ اللہ علیہ ہے۔  آپ کی والدہ کا نام حضرت بی بی فاطمہ صالحہ ہے۔ جو سلطانِ بخارا محمود شاہ کی دُخترِ نیک اختر ہیں ۔
سلسلۂ  نسب:
حضرت خواجہ سید جلال الدین بخاری  رحمۃ اللہ علیہ ۔  صحیح النسب سادات نقوی ہیں ۔  آپ کا سلسلۂ  نسب حسب ذیل ہے۔
(۱) حضرت خواجہ سید جلال الدین میر سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت خواجہ سید ابو الموئید انیس الدین علی بخاری  ابن حضرت ظفر ثالث ملقب بہ فضل اللہ بخاری  ابن  سید ملقب نور اللہ بخاری ابن سید محمود غوّاص بخاری ابن سید ابو حامد ناصر الدین احمد بخاری   ابن سید احمد عبداللہ شہاب الدین بخاری بن علی اشکر بن حضرت سید ابو عبد اللہ جعفر توّاب ذکی  بن حضرت امام علی نقی رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت امام محمد نقی رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت امام علی رضا رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت اِمام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت اِمام جعفر صادِق رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت اِمام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت اِمام زین العابدین رضی اللہ عنہ بن حضرت سید امام حسین رضی اللہ عنہ  شہید کربلا بن حضرت اِمام علی کرم اللہ وجہ الکریم بن ابوطالب رضوان اللہ تعالیٰ ععلیہ م اجمعین:(انسابِ سادات،قلمی، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد۔ )
حضرت خواجہ سید جلال الدین حیدر جلالِ اَعظم منیر شاہ میٖر سُرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت ۵۹۵   ھ مطابق ۱۱۹۸ ِ  میں سرزمین بُخارامیں ہوئی۔  آپ ولیِ مادرزاد تولد ہوئے۔ آپ کی اِبتدائی تعلیم شہر بُخارا میں اپنے والدِ گرامی حضرت ابوالموئید انیس الدین علی بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیرِ نگرانی میں ہوئی۔ آپ نے چار سال کی عمر میں قرآنِ کریم حفظ کر لیا تھا اور سولہ(۱۶) سال کی عمر میں جملہ علومِ ظاہری کی تکمیل بخارا کے مشہور ماہرینِ فضل و کمال اَساتذہ سے کی۔  تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے اِسلامی ممالک کی سیاحت کی۔  سب سے پہلے نجفِ اشرف تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے مدینۂ  منوّرہ جا کر حضور  ﷺ کے روضۂ  اقدس پر حاضری دی۔  وہاں سے بیت المقدس گئے پھر واپس آ کر مدینہ شریف میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے۔ وہاں سے حجّ بیت اللہ کے لیے مکۂ  معظمہ میں مقیم رہے۔  حضور پر نور  ﷺ سے اِشارہ پا کر سندھ کی طرف روانہ ہو گئے۔

ملتان میں آمد

سب سے پہلے آپ ملتان پہنچے اور حضرت خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی خانقاہ میں اِقامت گزیں ہوئے۔ اور آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے نام کے ساتھ سُہروردی کا اِضافہ ہو گیا۔ اس کے بعد آپ اُن کے خلیفہ بھی بن گئے۔ وہاں پر آپ نے تیس۳۰  سال کامل رِیاضت و مجاہدہ کیا۔ کمالاتِ باطنی کی منزلیں طے کیں اور اپنے مرتبے کو اونچا کیا۔

اپنے نام کے ساتھ بُخاری کا اِستعمال

آپ نے اور آپ کے بعد آپ کی نسل کے لوگوں نے بھی اپنے نام کے ساتھ بُخاری  لفظ کا اِ ستعمال کیا ہے۔  اِس کی وجہ درج  ذیل ہے۔
حضرت جلالِ اَعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اَجداد و اَمجاد، میں سے چار عظیم المرتبت شخصیتیں  سرزمینِ بخارا میں ہی پیدا ہوئیں اور وہیں اُن کا وِصال ہوا۔  اِسی وجہ سے آپ کا خاندان بخاری مشہور ہوا۔
حضرت میٖر سُرخ بُخاری رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصے تک ملتان میں ہی رہے اس کے بعد اپنے مرشد کے فرزند اور جانشین کے حکم سے آپ   ۶۴۱   ھ مطابق۱۲۴۳ ِ  میں اُوچ میں مستقل سکونت پزیر ہوئے۔  اور تبلیغِ اِسلام میں مصروٗف ہو گئے۔  آپ کی ہدایت اور تبلیغ کی وجہ سے  جدھر، ڈہر اور سیال اقوام نے اِسلام قبول کر لیا اِس علاقے کا راجا گھلو بھی مشرف بہ اِسلام ہو گیا۔  آپ کی اِس تبلیغ سے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے۔ پنجاب کے مشہور شہر زنگ سالان کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی۔

آپ کی  ازواج  اور  اولاد

حضرت جلال اَعظم کی پہلی شادی آپ کے حقیقی ماموں بُخارا کے سُلطان کی لڑکی سے ہوئی۔  اُن بی بی صاحبہ کے بطنِ پاک سے دو فرزند پیدا ہوئے۔  ایک سید علی اور دوسرے سید ظفر جو آپ کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ لیکن پھر بُخارا واپس تشریف لے گئے۔ آپ کی دوٗسری شادی ہندوستان تشریف لانے کے بعد بھکّر کے رئیس سید بدر الدّین ابنِ صدر الدّین کی دُختر حضرت بی بی قائمہ کے ساتھ ہوئی۔  آپ کے بطن سے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے جدِّ امجد حضرت خواجہ احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔  وفات کے بعد آپ نے اُن کی بہن بی بی ظہیرہ بنت سید بدرالدین بھکری کے ساتھ آپ نے تیسری شادی کی۔  اُن کے  بطن سے (۱) حضرت سید صدر الدین راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ (۲) حضرت سید غوث رحمۃ اللہ علیہ ور (۳) حضرت بہاؤالدین احمد رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔  ۱۹  جمادی الاوّل ۶۹۰    ھ مطابق ۲۰  مئی  ۱۲۹۱  ِ  کو ۹۵، سال کی عمر میں آپ کا وِصال ہوا۔ لفظِ ‘مخدوم ‘ سے آپ کا سنِ وِصال نکلتا ہے۔  آپ اُوچ میں ہی مدفون ہوئے۔ سندھ میں آنے کے بعد سے اپنے وصال تک آپ نے سات سلاطین کا زمانہ پایا ہے۔

حضرت خواجہ سلطان الاولیاء احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ

حضرت احمد کبیر کی وِلادت  ۶۴۸   ھ میں اُوچ شریف میں ہوئی اُس وقت دہلی کے تخت پر سلطان ناصر الدین محمود اِبن سلطان شمسُ الدین التمش حکمران تھا۔  حضرت احمد کبیر کے دَور میں اُوچ مرکزِ علم و فضل تھا۔  آپ نے اِبتدائی تعلیم اپنے والدِ بزرگوار حضرت جلال الدین سے حاصل کی حضرت شیخ جلال الدین خندہ روٗ  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت میٖرسُرخ نے فرمایا تھا کہ میرا فرزند اَحمد کبیر بڑا با شوق اور عشقِ اِلٰہی میں سرشار ہو گا۔  تم اُس کی حفاظت کرنا لہٰذا اُن کی رِعایت ملحوظ رکھتا ہوں ۔  حضرت اَحمد کبیر خشیت اِلٰہی سے لرزہ بر اندام رہتے تھے۔ حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خوفِ ربّانی کی وجہ سے کبھی والدِ ماجد کو بستر پر سوتے نہیں دیکھا۔  حضرت خواجہ احمد کبیر  رحمۃ اللہ علیہ سردی  اور گرمی کے لیے علاحدہ لباس کا اِنتظام نہیں کرتے تھے۔
آپ نے پہلی بیعت اپنے والد حضرت میٖر سُرخ سے کی تھی۔ اِس کے علاوہ آپ کو حضرت خواجہ صدر الدین عارف بن حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا ملتانی سے بھی اِرادت اور خلافت کا شرف حاصل تھا۔ آپ کا دروازہ ہمیشہ خلقِ خدا کے لیے کھلا رہتا تھا۔  آپ کو خدا کی مخلوق کی خدمت کا بے حد شوق تھا۔

آپ کی  ازواج  اور  اولاد

آپ کی پہلی شادی سیدہ مریم بنتِ حضرت سیدمر تضیٰ بن بدر الدین نقوی بھکری سے ہوئی تھی۔ جن کے  بطنِ  مبارک سے حضرت سید جلال الدین المعروف مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔  آپ کی دوٗسری شادی سیدہ فاطمہ بنت سید مرتضیٰ سے ہوئی۔  جن کے بطنِ مبارک سے حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ ۔  حضرت سید جعفر اور ایک  صاحبزادی سیدہ بی بی فاطمہ صغریٰ پیدا ہوئے۔ آپ نے ۶۷  سال کی عمر میں ۵  ذی الحجہ  ۷۱۴    ھ مطابق  ۱۳۱۴  ِ  میں وِصال فرمایا۔   آپ نے اپنی عمر میں ۵  سلاطین کا زمانہ پایا۔

خواجہ سید جلال الدین حسین المعروف حضرت سید مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت سُہروردی بُخاری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مخدوم ۱۴ شعبان  ۷۰۷   ھ (۸  فروری ۱۳۰۸  ِ ) کو اُوچ میں پیدا ہوئے۔  آپ کے والدین اور دیگر بزرگوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ کی تھی۔  شروٗعات میں آپ نے حضرت سید محمد بخاری، حضرت شیخ جمال الدین خندہ روٗ، اور قاضی بہاؤالدین سے تعلیم حاصل کی۔  اس کے بعد آپ ملتان حضرت بہاؤ الدین زکریا کے پوتے حضرت شیخ  رکن الدین کے پاس پہنچے آپ نے اُن کے طعام و قیام کا بندو بست فرما کر حضرت کریم شیخ موسوی اور مولانا مجید الدین کو آپ کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر فرما دیا۔ اِس دَوران آپ کے عِلم اور رِیاضت کی شہرت دوٗر دوٗر تک پہنچ چکی تھی، لہٰذا :(۷۲۵    ھ سے ۷۵۲   ھ مطابق  ۱۳۲۵ ِ  سے  ۱۳۵۱  ِ ) میں حضرت مخدوم کو شیخ الاِسلام مقرر کر دیا۔ ۴۰  خانقاہوں کی نگرانی بھی آپ کے سُپرد کر دی۔  لیکن آپ نے بہت جلد اِس عہدے سے اِستعفیٰ دے دِیا۔ اور سرزمینِ  حجاز کی سمت روانہ ہو گئے۔

آپ کے اَسفار  (سفر)

مکۂ  مکرمہ میں حضرت مخدوم نے شیخِ مکہ حضرت عبد اللہ یافعی سُہروردی اور مدینہ منوّرہ میں حضرت عبد اللہ مطری سُہر وردی سے مختلف کتابیں پڑھیں اور مدینہ کے شیخ آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔  ایک بار آپ نے حضرت مخدوٗم سے مسجد نبوی میں اِمامت بھی کروائی۔
مکۂ  مکرمہ میں آپ نے سات سال گزارے۔ اِس دَوران آپ قرآنِ کریم کی کتابت کر کے اپنی ضروریات پوری فرماتے تھے۔  مدینہ منورہ میں آپ نے دو سال گزارے۔  پھر آپ یمن و عدن تشریف لے گئے۔  آپ دمشق اور لبنان بھی گئے۔  مدائن، اور عراق بھی پہنچے۔ آپ سیر و سیاحت کی غرض سے بصرہ،کوفہ،شام(سیریا)  تبریز،خراسان،بلخ، نیشا پور، سمرقند، گازرون، حسّاہ،(بحرین)  قطیف اور غزنی بھی تشریف لے گئے  برِّ صغیر میں آپ نے ملتان، دِہلی، بھکر، الور، روبری، لارہ، اور ٹھٹھ کے سفر کیے۔
آپ اکثر فرماتے تھے کہ رِعایا کو حکمرانوں کا مخلص اور خیر خواہ ہونا چاہیے۔ باد شاہ کے لیے بد دُعا نہ کرنی چاہیے۔ بلکہ اس کی اِصلاح کی دُعا کرنی چاہیے۔ دوٗسری جانب آپ حکام سے کہا کرتے تھے کہ انہیں اپنے فرائض  پوری دیانت داری سے بجا لانا چاہیے۔ رِعایا کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔  ناداروں ،مسکینوں اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ حضرت مخدوٗم رحمۃ اللہ علیہ نے اہم سیاسی امور میں جو نما یاں کردار ادا کیا ہے تاریخ کی کتابیں اس کی شاہد ہیں ۔
حضرت مخدوٗم رحمۃ اللہ علیہ کا علم ایک وسیع سمندر کی مانند تھا۔ جس سے ایک دُنیا فیض حاصل کرتی تھی۔ آپ قرآن کریم کا بہت گہرا فہم رکھتے تھے۔  ساتوں قراءتوں کے ساتھ قرآن کریم کی قرأت کرتے تھے۔ حدیث اور فقہ کے بہت بڑے عالم تھے۔ چاروں مشہور فقہی مذاہب پر آپ کو عبوٗر حاصل تھا۔ آپ عربی اور فارسی زبان میں مکمل مہارت رکھتے تھے، اس کے علاوہ آپ ہندی، ملتانی، اور سندھی زبانیں بولتے تھے اور ان میں تبلیغ بھی فرماتے تھے۔  آپ کا کتب خانہ بہت عمدہ تھا۔  آپ نادر و نایاب کتابوں کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔  آپ زندگی کے ہر لمحے کو شریعت کے مطابق گذارنا پسند فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تاکید کیا کرتے تھے۔

آپ کے ذریعے  تبلیغ اِسلام

حضرت مخدوٗم رحمۃ اللہ علیہ کی اِصلاحی تحریک کے نتیجے میں خصوصاً پنجاب، سندھ اور گجرات میں اِسلام کی اِشاعت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ ان علاقوں میں بہت سارے لوگ آپ کے ہاتھوں یا آپ کے بعد آپ کے وُرثاء اور خلفاء کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔ آپ کے ہاتھوں مسلمان ہونے والے  لوگوں میں کھرل راجپوت اور نون قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں ۔
حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے سات مجموعے مرتب کیے گئے ہیں ۔  یہ ملفوظات بہت مقبول ہوئے۔  حضرت مخدوٗم نے بہت سے حج ( تقریباً  ۳۶)کیے۔  آپ نے سلطان غیاث الدین تغلق کے زمانے میں   ۶۲۵   ھ مطابق   ۱۱۲۵  ِ  میں اپنے مبارک سفر کا آغاز کیا تھا اور  ۷۵۱   ھ مطابق  ۱۱۵۰  ِ  میں محمد تغلق کے عہدِ حکومت میں ہی ۲۶  سال بعد واپس لوٹے۔

آپ کی پیشین گوئیاں

ایک دِن اَیسا ہوا کہ آپ کی خانقاہ میں لنگر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ اُس دن دُرویشوں کے کھانے کے لیے بھی خانقاہ میں کوئی اِنتظام نہ تھا۔  اِس بات کی خبر ظفر خان کو ہوئی۔  اُس نے لنگر کے لیے کافی مقدار میں غلّہ اور مٹھائیاں بھیجیں ۔  ظفر خان حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کا مرید تھا جب وہ سامان خانقاہ میں لایا گیا تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ خوش ہوئے۔ اور ظفر خان کو طلب فرمایا اور اُس سے کہا، ’’ اَے ظفر خان! اِس کھانے کے بدلے میں ملک گجرات کی تمام سلطنت تم کو عطا کی تم کو مبارک ہو ‘‘ حضرت مخدوم نے ظفر خان کو دُعا کے ساتھ ساتھ ایک چادر بھی عطا فرمائی۔
ایک دِن حسبِ معمول حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی صاحبہ سیدہ ہاجرہ بی بی صبح کے وقت حضرت مخدوم کو سلام کرنے کی غرض سے آئیں تو حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ ن کی تعظیم کی غرض سے کھڑے ہو گئے۔  یہ بات حضرت ناصر الدین کی دیگر بیویوں کو ناگوار معلوم ہوئی۔  جب آپ سے وجہ پوچھی گئی تو حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا’’ ہاجرہ بی بی کے پیٹ سے ایک قطبِ وقت پیدا ہونے والا ہے۔  اِس لیے میں نے کھڑے ہو کر اُن کی تعظیم کی ‘‘۔
ایک دفعہ حضرت مخدوٗم گجرات تشریف لے گئے اُس وقت احمد آباد وجود میں نہیں آیا تھا۔  وہ وٹوا بھی تشریف لے گئے۔ فجر اور اشراق کی نماز کے بعد انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور سونگھ کر فرمایا، ’’اِس پاک زمین سے تو ہماری ہڈ یوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ ‘‘ حاضرین سے اُنہوں نے اس مٹّی کی زیارت کرنے کے لیے کہا اور یہ پیشین گوئی فرمائی کہ’’ یہ مقام قطبیت کا خزانہ ہو گا اور روٗحانیت کا سر چشمہ ہو گا۔ ‘‘
ایک دِن حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے سعادت خاتون کو وہ چادر جس کو وہ خود عبادت کرتے وقت اوڑھا کرتے تھے۔ عطا کی۔  پھر اپنے صاحبزادے حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو حکم دیا کہ میری وفات کے بعد سعادت خاتون کے  بطن سے لڑکا ہو گا، ’’ یہ میری امانت اُس بچے کو دینا ‘‘جب بچہ پیدا ہو تو اُس کے لیے کپڑے اسی چادر سے بنائے جائیں اور چادر کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی نہایت احتیاط سے رکھے جائیں جو بچہ پیدا ہو گا وہ قطب الاقطاب ہو گا۔ اُس کو مقام عبدیت حاصل ہو گا۔  مقامِ عبدیت پر فائز ہونے والے کو عبداللہ کہتے ہیں اور سلوک میں یہ سب سے بڑا درجہ شمار کیا جاتا ہے۔

آپ کی ازواج  اور اولاد

حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل گھرانوں میں چار عقد فرمائے تھے۔
(۱) حضرت بی بی زیب النساِ   معروف تنکنی بنتِ لنگاہ والئی ملتان۔
(۲) حضرت بی بی کلثوم بنت ابو الخیر ساداتِ دہلی۔
(۳) حضرت  رافعہ خاتون بنت سید جلال الدین رومی۔
(۴) حضرت بی بی فردوس بنت سید صدر الدین۔
جن سے آپ کی بہت ساری اولادیں ہوئیں ۔
ان کے نام درج ذیل ہیں ۔
(۱)  حضرت خواجہ سید نصیر الدین محمود نوشہ رحمۃ اللہ علیہ ٭ (۲) حضرت سید محمد اکبر رحمۃ اللہ علیہ ٭  (۳) حضرت سید عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ  ٭ (۴) حضرت سید علی رحمۃ اللہ علیہ  ٭(۵) حضرت سید یوسف رحمۃ اللہ علیہ  ٭(۶) حضرت سید  نظام الدین  رحمۃ اللہ علیہ  ٭ (۲) حضرت سید جلال رحمۃ اللہ علیہ  ٭ اِن کے علاوہ تین صاحبزادیاں تھیں ۔
 (۱)  بی بی ملکہ جہاں  رحمۃ اللہ علیہا٭  (۲)   بی بی عائشہ رحمۃ اللہ علیہ ٭  اور  (۳)  بی بی حلیمہ  رحمۃ اللہ علیہ ٭

حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کا وصال شریف

آپ کا وِصال سُلطان فیروز تغلق کے دَورِ حکومت میں ۱۰  ذی الحجہ ۷۸۵   ھ مطابق ۳   فروری ۱۳۸۴  ِ  میں خاص بقر عید کے دِن ہوا۔  غروٗب آفتاب کے وقت علم و فضل کا یہ آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے اہلِ دُنیا کی نظروں سے روٗ پوش ہو گیا۔  اس وقت آپ کی عمر ۷۸  سال کی تھی۔   آپ کا مزار مبارک اُوچ شریف رِیاست بہا ولپور میں ہے۔  آپ نے سات سلطانوں کا دَورِ حکومت پایا ہے۔

حضرت سید اَشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات

سُلطان العارفین، محبوبِ رَبُّ العٰلمین حضرت سید اَشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سید محمد اشرف تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ملکِ ایٖران کے ایک تاریخی شہر سِمنان میں  ۷۰۷   ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد سلطان سید ابراہیم سمنان کے حکمراں تھے۔ شہر سمنان آج بھی آباد ہے۔  یہ شہر بحرۂ  کیپسن سے تقریباً ۱۰۰  میل کے فاصلے پر شمال کی سَمت واقع ہے۔ شہر سمنان کی نسبت سے آپ سِمنانی کہلائے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم سید ابراہیم بڑے عادِل حکمراں تھے۔ رِعایا کی فلاح و بہبود ی ہمیشہ پیش نظر رہتی تھی۔ بہت ہی نیک اور پرہیز گار تھے۔ آپ نے اپنے زمانۂ  حکومت میں علوٗمِ اِسلامیہ کی اِشاعت فرمائی۔ آپ کے دَور حکومت میں سمنان میں علماء  اور فقہاء  کی ایک کثیر تعداد سمنان میں موجود تھی۔ آپ کے مبارک دَور میں تقریباً بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) طلبہ کو علوم و فنون میں درجۂ  کمال حاصل تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدۂ  محترمہ خدیجہ بیگم بھی بہت پرہیز گار تھیں ۔ ہمیشہ عِبادتِ اِلٰہی میں مصروف رہتیں ۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ بچپن میں بڑے ذہین تھے۔ سات سال کی عمر میں قرآن مجید ساتوں قراء ت کے ساتھ حفظ کر لیا تھا۔ معقولات اور منقولات کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔   حدیث و تفسیر، ادب، فلسفہ، علمِ کلام اور علمِ منطق پر عبور حاصل کر کے اپنے  وقت کے ممتاز علماء میں شمار ہوئے۔
شہر سِمنان علومِ اِسلامیہ علم تصوف اور روٗحانیت کا ایک عظیم مرکز تھا۔ خود سلطان سید ابراہیم نے سمنان میں ایک مشہور خانقاہ تعمیر کرائی تھی۔ اس خانقاہ کا نام خانقاہِ سکاکیہ تھا۔ اس زمانے کے مشہور بزرگ صوفی حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ رحمۃ اللہ علیہ سِمنانی اس خانقاہ کے روٗحِ رواں تھے۔ اُس خانقاہ میں تقریباً ۱۶  برس تک آپ کی تعلیمات کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی خانقاہ سے تصوف کے انوارِ سمنان کو پر نور بناتے رہے۔ ‘‘لطائف اشرفی‘‘ میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ رحمۃ اللہ علیہ سِمنانی کا ذکر خیر کئی جگہ پایا جاتا ہے۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت اور کردار پرحضرت شیخ رکن الدین علاء  الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کا بہت گہرا  اثر ہوا۔ یہ ان کی صحبت بابرکت ہی کی تاثیر تھی کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ  نے وِزارت (وزیر)کے عہدے کو ترک کر کے روحانیت کو اختیار کیا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ  کم عمر ہی میں سلطان ابراہیم کے وزیر مقرر کیے گئے تھے۔ دِل دُنیا سے بیزار ہوا تو عہدۂ  وزارت کو ترک کر کے ۶۷۲   ھ میں بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں مشہور صوفی شیخ رکن الدین عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ  کے مرید ہو گئے۔ آپ زہد و تقویٰ میں یکتا تھے۔ عیش و آرام سے سخت نفرت تھی۔ سلطان ابراہیم اُن کی بے حد عزت کرتا تھا۔ وہ اولیاء اللہ کا دلدادہ تھا۔ ۶۸۱    ھ میں خلافت پانے کے بعد  ۷۲۰   ھ تک خانقاہِ  سکاکیہ کو رونق بخشی۔ آپ اسبابِ دُنیا سے بے نیاز تھے۔ حالانکہ بڑے ناز و نعم میں پرورش پائی تھی۔ آپ تصوف اور روٗحانیت میں اعلیٰ درجات کے حامل ہونے کے ساتھ ہی بہت بڑے عالم اور مفکر بھی  تھے۔ دُنیائے اِسلام کے جید عالموں اور حاکموں نے آپ کی عزت و تکریم کی ہے۔  عرب و عجم میں ہر خاص و عام نے آپ کی عِلمیت کا اِقرار کیا ہے۔ آپ نے اپنے علمی مکتوبات میں علمی مسائل پر بڑی عالمانہ بحث کی ہے۔ حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب کردہ کتاب ’’لطائفِ اشرفی ‘‘ میں آپ کے ملفوظات علم تصوف کا بیش بہا خزانہ  ہیں۔
منشی امیر احمد مؤلف ’’ سیرۃ الاشرف ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘ ایام سلطنت میں اگر چہ فوج اور لشکر کی نگرانی میں وقت صرف ہوتا تھا اور امور ملکی و مالی درپیش رہتے تھے۔ لیکن فرائض و سنن اور واجبات و نوافل اس وقت بھی ترک نہیں ہوتے تھے۔ اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی سائل درگاہِ عالم پناہ سے محروم نہ جاتا تھا۔   (ماخوذ۔ اشرف جہانگیر۔ مرتبہ: سید عبد الباری)
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ عبد الرزاق کاشانی رحمۃ اللہ علیہ سے اِستفادہ کیا۔ ان سے شیخ محی الدین اِبن عربی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات اور ’’وحدتُ الوجود ‘‘ کے مسائل کے متعلق اِکتسابِ فیض کیا۔ آپ کو میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی قربت حاصل رہی۔ حضرت خواجہ اویس قرنی  رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور ان کے انوار و افکار سے آپ نے روشنی حاصل کی ہے۔
ترکِ سلطنت کر کے آپ نے ۲۵  سال کی عمر میں والدۂ  محترمہ کی اِجازت لے کر ہندوستان کا سفرِ اختیار کیا۔ خود شیخ علاء الدولہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کو الوداع کہنے آئے۔  ابتدائے سفر میں حضرت اشرف جہانگیر کی زبان مبارک پر یہ اشعار روا تھے۔
ترک دُنیا گیر تا سلطان شوی
محرمِ  اسرار  با  جاناں  شوی
بگزر  از  خواب و خور  مردانہ وار
تا براہِ عشق  چوں  مرداں شوی
ترجمہ : ترک دُنیا اِختیار کر کے سلطان بن جا۔ اپنے معشوق کے اَسرار سے واقف ہو کر راز دار بن جا۔ کھانے اور سونے سے کنارہ کشی اِختیار کر لے۔ تاکہ رہِ عشق کا مردِ میدان بن جائے۔
کچھ دوٗر جانے کے بعد آپ نے تمام فوجیوں کو رخصت کر دیا حتیٰ کہ اپنی سواری کا گھوڑا بھی ایک فقیر کو بخش دیا اب ساتھ کوئی نہ تھا۔ بس ایک خدا آپ کے ساتھ تھا۔ دُشوار سفر بھی اب آسان تھا۔ تنگ وادیوں ،جنگلوں ، اور کہساروں سے گزرتے ہوئے دیوانہ  وار اُوچ پہنچے۔  یہ ملتان کے قریب کا علاقہ ہے۔  موجودہ پاکستان میں اب اس شہر کو بہاولپور کہتے ہیں ، اُوچ بڑا مبارک شہر ہے۔  اولیائے کرام کی آرام گاہ ہے۔ اسی شہر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیان جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے  ہوئی۔
سید اشرف جہانگیر رحمۃ اللہ علیہ پنے مکتوب میں لکھتے ہیں :’’اس مرتبہ ملتان کے مزارات کی زِیارت کرنے کے بعد ہم اُوچ پہنچے اور حضرت (سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ)مخدوم جہانیان جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔  اُنہوں نے مختلف  معاملات و حالات میں خصوصیت کا اِظہار فرمایا۔ آگے لکھتے ہیں :
شرفِ ملاقات کے بعد آپ ہی کے زیرِ سایہ آپ نے شیخ رکن الدین ابو الفتح سے فیضیاب ہونے کے بعد زیارت حرمین شریفین کا قصد کیا۔ علم کی پیاس ابھی بجھی نہ تھی۔ حجاز پہنچ کر یہاں کے مشہور مشائخ سے بھی اِستفادہ کیا۔ مکّۂ   مکرمہ میں قِیام کر کے اِمام عبد اللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ سے علم و حکمت کے جواہر سے اپنے دامن کو بھر لیا۔ حضرت مخدوم جہا نیان جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی نظر کرم جو تھی !
سلطان محمد تغلق کے زمانے میں دہلی تشریف لائے۔ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اَقد س میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ رشدو ہدایت کے کام پر معمور کیا گیا۔ لیکن دِل میں حضرت مخدوم جہا نیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے کی تڑپ نے چین لینے نہیں دیا۔  رُخِ زیبا اُوچ کی طرف ہی رہتا تھا۔ روٗحانی فیوض کی تشنگی(پیاس) بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ بالآخر قدم اُوچ کی طرف اُٹھ ہی گئے۔ خوش نصیبی دوبارہ اُوچ لے گئی۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ(رحمۃ اللہ علیہ) کا تہ دل سے استقبال کیا۔ روحانی فیوض عطا کِیے۔ اور روٗحانی نمائندگی کے منصبِ اعلیٰ پر فائز کیا۔ یہ آپ کی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے دوٗسری ملاقات تھی۔ کچھ دن آپ کی صحبت میں گزارے۔ اُنہیں دِنوں بنگال کے ایک مشہوٗر و معروٗف بزرگ شیخ علاء اُلدین گنجِ نبات رحمۃ اللہ علیہ کا غائبانہ تعارُف ہوا۔ ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ فیضیاب ہونے کی تمنّا نے بے چین کر دیا۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازت حاصل کر کے بنگال کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک طویل مسافت کے بعد بنگال کے پنڈوہ شہر میں وارِد ہوئے۔ شیخ علاء اُلدین گنجِ نبات  رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا اِستقبال کیا۔ آپ کی بڑی عزّت کی، نہایت ہی محبت سے پیش آئے۔ اپنی سکھ پال پر بٹھا کر اپنی خانقاہ تک لے آئے۔ اِتنی خاطر مدارت کی کہ حضرت جہانگیر سمنانی  رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مبارک سے یہ شعر ادا ہوا۔
چہ  خود  بشاد  کہ  بعد  از  اِنتظار
بر  امّیدی   رسد      امّید  وار
ترجمہ: کیا ہی خوشی کا مقام ہے کہ ایک طویل اِنتظار کے بعد ایک اُمیدوار اپنی اُمید کو پورا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
حضرت سید اَشرف جہانگیر سمنانی  رحمۃ اللہ علیہ ۔ حضرت شیخ علاء اُلدین پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ  اِرادت میں شامل ہوئے یعنی ان کے مرید ہو گئے۔
حضرت شیخ علاء اُلدین  رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت فرمائی۔ خلق اُللہ کی خدمت کے لیے کمر بستہ کیا۔ یہاں چار سال تک قیام کیا۔ بہت محنت و مشقت اور ریاضت میں دِن گزارے۔ حضرت شیخ علاء اُلدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ’’جہانگیر‘‘ کا لقب عنایت فرمایا۔  مرشد کی اِس عنایت پر آپ نے ایک قطعہ اِرشاد فرمایا:
مرا  از  حضرتِ  پیٖر  جہاں  بخش
خطاب آمد  کہ  اَے  اشرف  جہانگیر !
کنوں  گیرم  جہا نِ  معنوی   ر ا
کہ  فرماں  آ مد  از  شاہم  جہانگیر
ترجمہ: مجھ کو اپنے پیر   ات:ج  اور اولاد  :  فرا  جُد                                                                                                  جہاں بخش کی جانب سے  یہ خطاب ’’جہانگیر‘‘ عطا ہوا۔  میں اَب جہانِ معنوی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوں ۔ کیوں کہ میرے باد شاہ کا  فرمان ہے کہ میں جہانگیر بنوں ۔
حضرت شیخ علاء اُلدین پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرید حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی روشن ضمیری کے سبب دُعا کی تھی کہ ‘‘ خدا کرے کہ اُن کے علم و معرفت اور کردارو عمل کی خوشبو مشرق سے مغرب تک پہنچے۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ صاف لفظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ  مریدوں کو پیر کی صفات پر نگاہ رکھنی چاہیے ورنہ پیٖر سے نسبت باقی نہیں رہ سکتی۔ مرشد کی اِجازت سے آپ ولایتِ جونپور میں تشریف فرماں ہوئے۔ جونپور ہوتے ہوئے آپ بھڑود تشریف لائے۔ ملک محمود نے تالاب سے گھرا ہوا خِطۂ  آراضی(زمین کا ٹکڑا) آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے یہاں اِسلام کی تبلیغ فرمائی۔ ملک محمود کے متوصلین بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ  اِرادت میں شامل ہوئے۔ ملک محمود کی سخاوت اور حضرت سید جہانگیر اَشرف کی روٗحانیت نے کچھوچھہ کو مرکزِ رشدو ہدایت بنا دیا۔
بعد ازاں اِسلامی تعلیمات کی اِشاعت کے لیے آپ اودھ تشریف لے گئے۔ اجودھیا میں دین کی شمع روشن کی۔  یہاں دعوتِ حق کی تبلیغ و اِشاعت کے بعد لکھنؤ تشریف لے گئے۔ پھر واپس اجودھیا تشریف۔ لائے یہاں حضرت ابراہیم مجذوب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات فرمائی۔ وہاں سے روٗح آباد واپس تشریف لائے۔ اودھ کا منصب دار صیف خاں حلقۂ  اِرادت میں شامل ہوا اور ترکِ دُنیا کا خواہشمند ہوا۔   آپ نے اجازت نہ دی۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے طلب کرنے والوں کو ایسا شرفِ قرب عطا فرماتا ہے کہ دولتِ دُنیا کی کثرت ان کی توجِّہ باطنی میں حائل نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے :
رِجَال لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجاَرَۃٌ وَلَا بَیْعٌ  عَنْ ذِ کْرِ  اللّٰہِ
(ترجمہ: وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا نہ خریدو فروخت اللہ کی یاد سے  (پارہ: ۱۸ سورۂ  نور۔ آیت ۳۷)
آپ رُدَولی تشریف لے گئے۔ اور وہاں چالیس دِن قیام فرمایا۔ سارے اُمور انجام دینے کے ساتھ ساتھ دِل تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لگا ہوا تھا۔ آپ کے دل میں پھر بیت اللہ شریف کی زیارت کی طلب پیدا ہوئی۔ سوئے حجاز روانہ ہوئے۔ زیارتِ حرمین  کے سفر سے واپسی کے بعد روٗح آباد تشریف لائے۔ جنوبی ہند کا سفر اِختیار کیا۔ ۷۰۷  ھ میں آپ پھر روٗح آباد تشریف لائے۔ یہاں نواحِ اودھ کے تقریباً دس ہزار آدمی کے مرید ہوئے۔ پھر بنارس کا سفر کیا۔ وہاں دین کی تبلیغ و اشاعت فرمائی۔ متعدد لوگ مشرف بہ اِسلام ہوئے۔ سید عبدالباری لکھتے ہیں کہ آپ کی محبت و شفقت سے لبریز اور درد انسانیت سے بھرپور شخصیت ہندوستان ہی نہیں پورے ایشیاء میں مہرِ نیم روز کی طرح روشن تھی۔  ۷۸۲   ھ میں ماہِ رمضان المبارک میں اپنے روحانی پیشوا سے ملنے دوبارہ پنڈوہ تشریف لے گئے۔ وہاں سے بہار تشریف لائے۔ یہاں حضرت شیخ یحیٰ مَنیری رحمۃاللہ علیہ کی وفات کے وقت آپ موجود تھے۔ آپ نے اُن کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اُن کے مکتوبات سے اِستفادہ کیا۔ آپ کے نہ تھکنے والے قدموں نے پھر عرب و فلسطین کا تیسرا سفر اختیار کیا۔
جامِ  حیات  گردش  مسلسل  میں ہے
اس کا ساقی رکتا نہیں کسی مے خانے میں
روم اور شام (سیریا) سے ہوتے ہوئے فلسطین گئے۔ فلسطین کے باشندے عیسائیوں سے خوف زدہ تھے۔ آپ نے اُنہیں جواں مردی اور اِستقلال کا سبق دیا۔  جرأت ایمانی پیدا کی۔ عوام کو شریعت کی تعلیم دی۔  وہاں کے نام نہاد صوفیوں اور جوگیوں کو اپنی خاص ادا سے  اِدْفَعْ بِِا الَِّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ‘‘ بروئے کار لا کر انہیں دائرۂ  اِسلام میں داخل فرمایا۔ بہت سے انگریز عیسائی بھی مشرف بہ اِسلام ہوئے۔ وہاں سے پھر ہندوستان وارِد ہوئے۔ گلبرگہ تشریف لائے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات فرمائی۔ یہاں بھی آپ نے غلط کار لوگوں کو راہِ راست دکھائی۔
دُرویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا  نہ دلّی   نہ  صفاہاں   نہ سمرقند
دلِ مضطرب و پائے بے تاب پھر شام(سیریا)اور فارس (ایران) روم اور ماوراء النہر کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ یہ آپ کا چوتھا اور آخری سفر تھا۔ جہاں گئے علم کی شمع روشن کی، اِسلام کے عَلم لہرائے۔ تصوّف کے جھنڈے گاڑے۔ روٗم کے شیخ الاِسلام کوفُقراء سے بد ظن نہ ہونے کی تنبیہ فرمائی۔ دمشق کی مسجد میں قاضی زادہ روٗمی اور مخدوٗم زادہ مولانائے روم رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ مہدی آخر الزماں کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص کی یہ کہ کر اِصلاح کی کہ اَے عزیز! یہ نعمت دعوے سے حاصل نہیں ہو تی۔ حق تعالیٰ جس شخص کو اس منصب پر سرفراز فرمائے گا اس کے آثار ظاہر ہو جائیں گے۔ یہ سن کر اس شخص نے توبہ کی اور اپنی اِصلاح کر لی۔
آپ فلسطین میں مزاراتِ انبیاء علیہ م السلام کی زِیارت سے مشرف ہوئے۔ کوہِ طور پربھی تشریف لے گئے۔ زہے قسمت !زہے نصیب !ملکِ ایران میں شیراز کا سفرکیا۔ بلبلِ شیراز حافظ شیرازی سے ملاقات کی۔ آپ معرفت آمیز شعر و ادب اور روٗحانیت سے لبریز نیز تصوّف کی روشنی سے تابناک اشعار کی قدر دانی فرماتے تھے۔ سفر کے دوران  خواجہ بہاء الدین نقشبند ی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ملاقات کی۔ گویا مردانِ حق آگاہ کی تلاش اُن کی زندگی کا مقصدِ اوّلین تھا۔
سفر  دُشوار  تھا،  مگر  شوقِ  دل  بسیار  تھا
تلاش  مردانِ  حق نما کی تھی،  شوق  دیدار تھا
ممالکِ اِسلامیہ کے سفر سے واپسی ہوئی تو پھر ایک بار اپنے محبوب، اپنے عزیز تر مخدوم، حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی یاد سے دل بیتاب ہوا۔  قدم بے اختیار اُس کی طرفا ُٹھ گئے۔
تمنّا  دامنِ دل  می  کشد جا  ایں جاست
ترجمہ: تمنّا دل کا دامن کھینچتی ہے کہ جس کے پانے کو دل چاہتا ہے وہ جگہ یہیں ہے۔
دلِ مضطرب کو اپنے سینۂ  پر نور میں سنبھالے حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دی۔ روٗحانیت کے بحر بے کنار سے سیراب ہوئے۔ فیضان کے انوار سے اپنے سینے کو اور منوّر کیا۔ علم و فضل کے معطّر پھولوں سے اُن کا دامن مہک اٹھا۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سِمنانی رحمۃ اللہ علیہ پنے مکتوبات میں حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں یوں لکھتے ہیں :
‘‘  حضرت سید مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں  فرمایا،’’ فرزند ! بسیار مردانہ بر آمدِہ  مبارک باد ! زود قدم در  راہ  نہ۔ ‘‘
ترجمہ:  ’’ فرزند  !  بہت بہادری کا کام کیا ہے۔ مبارک ہو۔ راہِ سلوک میں جلد قدم رکھو۔ ‘‘
ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں :
‘‘ پہلی مرتبہ جب ہم ولایتِ خراسان و عراق سے آئے حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات سے مشرف ہوئے تو انہوں نے صوفیاء کے مختلف مقامات، اس عالی مرتبہ گروہ کے درجات بلکہ آثارِ قطبیہ اور انوارِ غوثیہ سے نوازا کہ ان کا سلسلۂ  عالیہ حضرت اِمام علی نقی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ یہ دُرویش (مخدوم اشرف جہانگیر رحمۃ اللہ علیہ) تمام دُنیا میں گھوما پھرا ہے۔ میں نے جو نور اس نادرِ روزگار (حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ) کی جبینِ مبارک میں دیکھا وہ اس زمانے کے کسی ولی یا صوفی میں نہیں دیکھا۔ ‘‘ (مکتوباتِ اشرفی اقتباس مکتوب نمبر :  ۳۲  ماخوذ  : مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ۔ حیات  و تعلیمات۔ از  ڈاکٹر محمد ایوب قادری)
ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں  :
حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات سے مشرف ہوا کہ تینوں مقامات کہ جن سے تجلّیِ  بسیطی نوری اور مقتول اعضائی مراد ہے۔ اور یا غفور کے تعویذ سے مشرف فرمایا۔ اس مرتبہ چودہ خانوادوں اور ایک سو چودہ مشائخ کی اجازت وخلافت میں کہ جن کی زِندگی میں اور وصال کے بعد مشرف ہوئے تھے اور اکثر مشائخ کہ ان سے ان کی زندگی میں مستفیض و مستفید ہوئے تھے اور تمام ان کے اکابر کو کہ جن سے ملاقات ہوئی تھی۔ اور ان معاصر کو کہ جنہیں حاصل کیا تھا۔ بتایا اور جو کچھ جس کسی سے پایا تھا اور مختلف قسم کی نعمتیں اور فضیلتیں جو حاصل کی تھیں اس درویش (مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ)کو مرحمت فرمائیں ۔ ‘‘ (مکتوباتِ اشرفی،خطّی، ذاتی۔ اقتباس از: مکتوب نمبر : ۲۹ ماخوذ : مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ۔ حیات  و تعلیمات۔ از  ڈاکٹر محمد ایوب قادری)
شہر احمد آباد کے ایک گاؤں وٹوا میں جہاں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت قطب الاقطاب سید عبد اللہ برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا روضۂ  مبارک ہے۔ روضۂ  مبارک سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ٹیلہ واقع ہے۔ جو احمد آباد کے لوگوں میں جہانیاں پیر کا ٹیلہ (جہانیاں پیر کا ٹیکرا) کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ عوام الناس میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ اسی ٹیلے پر حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ چلّہ کش ہوئے تھے۔ آج بھی عید الاضحیٰ کی شام کو حضرت سید مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند اور ان کے اخلاف یہاں آ کر عرس مناتے ہیں ۔ کھانا پکتا ہے۔ فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔
حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے آخری ایام روح آباد میں بسر ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ممالکِ اِسلامیہ کی سرزمین نے آپ کے بابرکت قدموں کا بوسہ لیا ہے۔ بلادِ اِسلامیہ میں آپ کی ہدایت سے اِسلام کا نور پھیلا۔ ہندوستان کے اولیائے کرام میں آپ ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ بلکہ دُنیا کے مشہور اکابر میں سے آپ ایک مایۂ  ناز شخصیت کے مالک ہیں ۔  آپ کی عمر (۱۰۰)سو سال کی ہو چکی تھی۔ آپ ماہِ محرم کا چاند دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اس طرح اِرشاد فرمایا کہ اِس ماہ میں ہمارے جدِّ امجد حضرت اِمام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت  نصیب ہوئی تھی۔ اگر ہمیں بھی موافقت ہو جائے تو بہت خوب۔ یہی ہوا عاشورے کے دن طبیعت خراب ہوئی۔ محرم کی ۲۷  تاریخ تھی۔ نمازِ فجر کی اِمامت نہ کر سکے۔ سجّادہ نور العین کے حوالے کیا۔ ۲۸  محرم کو تبرکات کا بقچہ (پیٹی) منگوایا۔  اور نور العین کے حوالے کیا۔ وقت آخر شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے یہ  اشعار سنے۔
خوب تر زیں دگر نہ باشد کار
یار خنداں  رود  بہ جانبِ یار
سیر بیند  جمالِ  ناں را
جاں سپار و  نگارِ خنداں را
  ترجمہ:اِس سے بہتر کوئی کام دوسرا کام نہیں کہ دوست اپنے دوست کی جانب مسکراتا ہوا روانہ ہو۔ اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک جان قربان کرنے والا عاشق اپنے معشوق کے جمال کی سیر کرتا ہے۔ اور آخر کار بصد شوق اپنے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے۔ کچھوچھہ شریف (یو۔ پی۔ ) میں آپ کا مزارِ مبارک مرجعِ خلائق ہے۔
حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ شریعت کے سخت پابند تھے۔ فرائض و سنن اور نوافل نیز اوراد و وظائف نہایت پابند سے ادا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ عوام سے گہرا تعلق تھا۔  طبیعت میں سادگی تھی۔ نہایت خاکسار تھے۔ راست باز اور مفکر و مدبر تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ صوفی وہ ہے جس کا ظاہر و باطن  پاک ہو۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ تصوف سرا سر ادب ہے۔
اقرار توحید،انکساری،اہل اللہ کا قرب، عبادت اِلٰہی اَور اَذکار و اشغال سے ادب حاصل ہوتا ہے۔ عارف کی تعریف یہ ہے کہ وہ نفع حاصل ہونے پر شکرانے کی نیت بجا لائے۔ اور نقصان کو بھی نفع ہی سمجھے۔ معرفت ہزار سال کی فضیلت رکھتی ہے۔ آپ نے اِرشاد فرمایا کہ اولیائے درگاہِ حق کے وزراِ  اور ندیم ہیں ۔ وہ خدا کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں ۔ اور اپنی مراد سے کوئی تصرف نہیں کرتے۔ توبہ اور اِستغفارِ اَولیاء کا مشغلہ ہے۔ آپ رحمۃاللہ علیہ غلط رسم و رواج کے سخت مخالف تھے۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ خود بڑے عالم و فاضل تھے۔ روٗحانیت میں یگانۂ  روزگار تھے۔ بڑے جید علماء اور فضلاء آپ کے خلفاء میں شامل تھے۔ آپ کے خلفاء میں محدث بھی تھے اور فقیہ بھی۔  علوم و فنون کے ماہر بھی تھے۔ معقولات اور منقولات کے زبردست عالم بھی تھے۔ یہ سب شریعت کے پابند تھے۔ طریقت ان کی ما حصل تھی۔ گجرات کے ایک عالم شیخ مبارک بھی آپ کے خلیفہ تھے۔ ایک خلیفہ شیخ راجا تو شریعت کے ایسے زبردست پابند تھے کہ نماز نہ پڑھنے والے سے ملنا  جُلنا۔  بولنا چالنا اور اس کے ساتھ کھانا پینا کسی حال میں پسند نہ فرماتے تھے۔
آپ کے وصال کے بعد حضرت عبد الرزاق نور العین سجّادہ نشین ہوئے۔ آپ نے حضرت جہانگیر کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے چالیس سال تک (۴۰) بندگانِ خدا کو رُشد و ہدایت دینے کا فریضہ انجام دیا۔ بے شک وُہی سچّے سجّادہ نشین ہیں جو اپنے مرشد کے علم و عمل کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔  خلق خدا کی خدمت میں اپنی زندگی صرف کر دیتے  ہیں ۔

حضرت خواجہ سید ناصر الدین محمود نوشہ رحمۃ اللہ علیہ سہروردی بخاری    

آپ کا نام ناصر الدین محمود ہے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ کا لقب نوشہ بخاری ہے۔ آنحضرت قطب عالم بخاری سہر وردی رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ ماجد ہیں ۔  آپ کی ولادتِ با سعادت ۲  ذوالحجّہ ۷۴۰ھ  مطابق ۱۳۴۱ِ   کو ہوئی۔ اس وقت دہلی کے تخت پر سلطان محمد شاہ تغلق حکمران تھا۔ آپ کے والدِ ماجد حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ہیں ۔  آپ کی والدہ کا نام بی بی فردوس بنت سید شرف الدین ہے۔ آپ کی والِدہ ماجدہ اپنے وقت کی رابعہ بصری تھیں ۔
آپ ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہا کرتیں تھیں علم و فضل کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتی تھیں ۔ حضرت مخدومہ بی بی فردوس عوارف المعارف کا درس بھی دیتی تھیں ۔ آپ کو بیماروں کی تیمار داری کا بڑا شوق تھا۔ آپ کی پرورش اور تربیت نے حضرت ناصر الدین محمود نوشہ کی ذات میں چار چاند لگا دِیے تھے۔ آپ نے اپنے والدِ گرامی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے زیرِ سایہ اور اس زمانے کے دیگر جلیل القدر ماہرینِ علوم و فنون سے تمام علومِ و فنون کی مکمل تعلیم حاصل کی تھی۔ حضرت مخدوم نے آپ کی نسبت ایک بار فرمایا تھا ’’ اللہ اکبر ‘‘ ایسا قطب پیدا ہوا ہے کہ تنہا خود ہی قطب نہیں بلکہ اس کی پشت اقطاب کی کان ہے۔
حضرت مخدوم کو آپ سے بے حد محبت تھی اور وہ آپ پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے۔ آپ اپنے والد صاحب کے اِطاعت شِعار اور خدمت گذار تھے۔ ۷۸۱ھ  میں آپ نے بھی حضرت مخدوم کے ساتھ دہلی کا سفر کیا تھا۔ آپ کو ہر قسم کے علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کثیر الاولاد تھے۔  ۴  منکوحہ ازواج کے علاوہ ۱۴۰  حرم یعنی لونڈیاں بھی تھیں ۔  آپ کے اخراجات بہت زیادہ تھے اس لیے آپ کو اکثر قرض لینا پڑ جاتا تھا۔ آپ کی اولاد بھی کثیر تعداد میں تھی۔ صاحبِ نظام الانصاب نے ۲۰  فرزند لکھے ہیں ۔ صاحب الفراس انعامی نے ۱۸  لڑکے اور ۳  لڑکیاں تحریر کی ہیں ۔ جن میں سے ذیل کی ہستیاں خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں ۔
(۱)   حضرت سید حامد کبیر رحمۃ اللہ علیہ
(۲)   حضرت سید برہان الدین قطب عالم بخاری  احمد آبادی  رحمۃ اللہ علیہ
(۳)   حضرت سید علم الدین  رحمۃ اللہ علیہ
(۴)   حضرت جلال الدین  رحمۃ اللہ علیہ
اور دو صاحبزادیوں کے نام اس طرح ہیں
(۱)   حضرت سیدہ  بی بی  مریم عرفِ تاج الملک
(۲)   حضرت سیدہ  بی بی آمنہ عرفِ  بی بی سعادت
آپ نے ۲  رمضان المبارک ۸۰۰ ھ  مطابق ۱۳۹۸ِ   کے روز وصال فرمایا۔  اس وقت دہلی خاص پر سلطان ناصر الدین محمود شاہ اور اس سے پانچ میل کی دوری پر فیروز آباد میں ملک نصرت شاہ بن فتح خان بن سلطان فیروز تغلق کی حکمرانی تھی۔ اسی عرصے میں امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کیا۔ آپ نے نو ۹  سلطانوں کا زمانہ دیکھا۔

حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے اجداد کی کرامات

ِ حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ آپ کے فرزند ارجمند سید ناصر الدین محمود بخاری رحمۃ اللہ علیہ ور آپ کے فرزند حضرت قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ نیز آپ کے فرزند حضرت سراج الدین شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی سرگرمیوں ،غرباء پروری،نیز تقویٰ و عبادت کے واقعات سے کتابیں لبریز ہیں ۔  ان حضرات کی کون سی ادا اور کون سی بات ایسی نہ تھی جو محیّر العقل(عقل کو حیران کرنے والی)اور کرامت کا رنگ نہ رکھتی ہو۔ ان حضرات کی زبانِ فیض اثر سے جو بات نکل جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرما دیتا تھا۔
یہاں معلومات اور حصولِ خیر و برکت کی غرض سے چند واقعات درج کیے جاتے ہیں ۔ یقیناً باعثِ خیر و برکت ثابت ہوں گے ان واقعات میں حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں کسی کنہ کسی طرح صراحتاً یا ضمناً حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر خیر بھی موجود ہے۔ جو یقیناً پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی اور معلومات کا سبب ہو گا۔

(۱) عرسِ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ پر عجیب کرامت:
حضرت سید برہان الدین قطب عالم بخار ی رحمۃ اللہ علیہ پنے جد بزرگوار حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک نہایت اہتمام اور شان و شوکت سے اپنے یہاں کرتے تھے۔ جس سال حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت ہوئی۔ اس سال عرس مبارک کے موقع پر حضرت شاہِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف صرف ۱۳ دن کی تھی۔ ا س لیے کہ آپ کی پیدائش ۱۷ ذی القعدہ  ۸۱۷ِ  کو بروز پیٖر بوقت صبح ہوئی۔ حضرت مخدوٗم  رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک عید الاضحٰی کے دوٗسرے دِن تھا۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت کے بعد یہ پہلا عرس تھا۔ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ  شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کو آپ کی دایہ بی بی حلیمہ نے دیوار سے تکیہ لگا کر بٹھا دیا تھا۔ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا ‘‘ بابا تمہارے جدّ امجد بزرگوار کا عرس مبارک ابھی تک میں کرتا تھا اب تمہاری قیادت میں دیا۔ اب تم پیدا ہو گئے‘‘ اپنے جدِّ بزرگوار کا عرس کرو۔ یہ سن کر آپ نے اپنا پائے مبارک دراز کیا۔ یہاں تک کہ پائے مبارک دیوار سے لگا اور دیوار آسمان کی طرف بلند ہو گئی۔ دیوار کے بلند ہونے سے دیوار کی بنیاد کے پاس شگاف پڑا۔ اس شگاف میں بید گنڈی(۲۰من)گندم بر آمد ہوئے جس سے عرسِ حضرت مخدوم جہاں نیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریبات ادا کی گئیں ۔

(۲)بارگاہ رسالت  ﷺ   اور نورانی خرما:
حضرت محمد سراج الدین شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کی وِلادت شریف سے ایک سال پہلے ایک نورانی رات کا واقعہ ہے کہ روٗحانی مجلس قائم تھی۔ روٗئے زمین کے قطب بارگاہ رسالت مآب  ﷺ میں دیدار جمالِ مصطفٰے سے سیراب ہو رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے از راہ عنایت اس مجمع پر نگاہِ کرامت ڈالی تو معائنہ فر مایا کہ اکثر قطب کے ساتھ ان کے عالی مرتبہ فرزند بھی موجود ہیں ۔ لیکن حضرت سید برہان الدین قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ تنہا ہیں ۔   آ پ ﷺ نے دریافت فر مایا :’’اَے فر زند! تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے ؟ اور ساتھ ہی ساتھ حکم ہوا کہ اس کو کھالو حضرت قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بحکم رسالت مآب ﷺ ، حکم کی تعمیل میں خرما تناول فرما لیا۔ منقول ہے کہ اس مبارک شب میں آ پ کی اہلیہ محترمہ مخدومہ آمنہ سلطانہ حاملہ ہوئیں ۔ اور بعد مدّت مُعیِّنہ حضرت سراج الدین شاہ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے سر زمین گجرات روشن ہوئی۔ (تذکرۂ  سادات ص۴۲)

(۳)شبِ ولادت  اور حضرت سرکار دو عالم  ﷺ کی بشارت  :
منقول ہے کہ سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات کو آبادی سے دور ایک گنبد میں رونق افروز ہو کر عبادت اِلٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔  جس رات حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت ہونے والی تھی اُس رات کو بھی آپ حسب معمول آبادی سے باہر اسی گنبد میں مشغول عبادت تھے کہ یکبارگی حضور اکرم ﷺ کی جلوہ گری ہوئی۔ آپ کی تشریف آوری سے گنبد تجلیاتِ رسالت سے جگمگا اٹھا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت قطبِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا،’’اے برہان الدین! اپنے گھر جاؤ تمہارے گھر ایک فرزند پیدا ہوا ہے۔ جو محمدیُ المشرب ہو گا۔ اس کا نام ہمارے نام پر محمد ﷺ رکھنا اور یہ خرقہ لو اُسے پہنا دینا۔ اور اس کی تعظیم تکریم کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ اس لیے کہ درگاہ خداوندی میں وہ محبوبیت کا مرتبہ رکھتا ہے۔ یہی بشارت دینے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔  حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ سے سر اٹھایا تو ابھی تک دیوار سے انواررسا لت ﷺ ظاہر ہو رہے تھے۔ اور تمام فضا آپ کی زلف مشک بو سے معطر ہو گئی۔ اور آپ کا عطا کردہ خرقہ بھی موجود تھا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سرکار دو عالم  ﷺ کے حکم کے مطابق اپنے دولت کدہ پر تشریف لائے۔ تو خوشخبری ملی کہ فرزند کی وِلادت ہو گئی ہے۔ آپ نے غسل دِیے جانے کے بعد سرکار دو عالم  ﷺ کا عطا کردہ خرقہ پہنا یا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہی اور آپ کا نام محمد رکھا۔
(صد حکایت  فارسی صفحہ:۱۰۱۸)

(۴) غلطی کی اِصلاح  :
صد حکایات فارسی میں ہے کہ حضرت سید صفی الدین جعفر بدر عالم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ جب حضرت سید محمد سراج الدین شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ پنی والدہ ماجدہ کے شکم مبارک میں تھے۔ آپ کی والدہ حضرت بی بی آمنہ خاتون بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ سید برہان الدین قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ تخت پر استراحت فرما رہے تھے اور آپ بھی اسی تخت پر اپنے خاندانی اوراد و وظائف میں مشغول تھیں ۔ اتفاقًا ایک دُعاء کی عبارت کے اعراب یعنی زیر و زبر میں آپ سے غلطی ہو گئی۔ حضرت شاہِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی والدہ کے شکم مبارک سے اس عبارت کے اعراب کی دُرستگی کے لیے ٹوکا۔ حضرت آمنہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی بھول پر آگاہ ہو کر فوراً عبارت کے اعراب کو درست کر لیا اور وظیفہ خوانی سے فارغ ہو کر میں نے حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ یہ آواز آپ کی تو تھی نہیں اس لیے کہ آپ کی آواز کو میں پہچانتی ہوں ۔ حیرت ہے کہ جب آپ کی آواز نہیں تھی تو پھر یہ آواز کس کی تھی اور وہ کون تھا جس نے مجھے میری غلطی پر ٹوکا۔ حضرت سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے تبسم فرما کر ارشاد فرمایا یہ آواز اس بچے کی تھی جو تمہارے شکم میں موجود ہے۔ حق تعالیٰ نے اس بیٹے کو علوم اوّلین و آخرین بطور کرامت عطا فرمایا ہے۔ (صد حکایات ص ۸)

(۵)  ۹ ماہ،  ۱۳  دن کی عمر میں روزہ  :
صاحبِ صد حکایت نے نقل فر مایا ہے کہ حضرت سیدنا شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت ۱۷ ذی القعدہ  ۸۱۷ِ  کو بروز دو شنبہ ہوئی۔ جب آپ کی عمر ۹ ماہ ۱۳ دِن کی تھی۔ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد آپ نے دو دن تک دِن کے وقت اپنے والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیا۔  بظاہر کوئی بیماری کے آثار بھی نہ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے اس بات کا تذکرہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے کیا۔ یہ سن کر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے اور گود میں لے کر آپ کے کان میں فرمایا:
  باباہنوز شما  متکلفِ شرعی نیست و روزہ گرفتنِ شما  سببِ شُہرتِ مامی شود۔ حالا بطرزِ اطفال بروز  بِخورید کہ ما مستورہستیم۔
تر جمہ: بابا تم شرعی اعتبار سے روزہ رکھنے کے مکلف نہیں ہو۔ تمہارا روزہ رکھنا میری شہرت کا سبب ہو گا۔ لہٰذا ابھی تم بچوں کی طرح کھاؤ پیو تاکہ میں پوشیدہ رہوں ۔ اس کے بعد آپ نے حضرت شاہِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کی دایہ بی بی حلیمہ کو حکم دیا کہ انہیں دودھ پلاؤ۔ دایہ حلیمہ نے آپ کو دودھ دیا تو آپ نے نوش فرما لیا۔   (صد حکایت فارسی ص ۱۳)

(۶)  خوشبو کے خوان اور ملائکہ:
ایام طفلی میں ایک مرتبہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ پالنے میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے دونوں ہاتھ کے لپ بنا کر اس طرح اوپر اچھالے جیسے کسی پر کوئی چیز نچھاور کی جاتی ہے۔ گھر میں جو لوگ حاضر تھے وہ یہ ادا دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ حضرت قطب عالم بخاری  رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس عجیب واقعہ کا اِظہار کیا اور دریافت کیا کہ آخر بچے کی اس ادا کے کیا معنی ہیں ؟حضرت سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ بہ نفس نفیس خود  رونق افروز ہوئے اور آپ کی حالت کا مشاہدہ فرمایا اور شکر اِلٰہی بجا لائے۔ اس کے بعد بعض محرم اسرار حضرات سے فرمایا کہ درگاہ اِلٰہی سے چند خوان خوشبوئے ولایت کے ملائکہ لے کر آئے تھے۔ اور انہوں نے التماس کی کہ اس میں سے ہمارے نصیب کا جو حصہ ہے عطا فر مائیں ۔ لہٰذا آپ نے چند لپ خوشبو کے ان پر نچھاور کیے۔ یہ ہاتھ کا اچھالنا اسی لیے تھا۔ (صد حکایات ص ۱۳۔ ۱۴)

(۷) تازہ بہ تازہ دوٗدھ حاضر  :
اس طرح ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ نے اپنے استاد گرامی حضرت علامہ مولاناسید علی جینکی رحمۃ اللہ علیہ سے میزان الصرف کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مولانا نے فرمائش کی کہ مجھے چاندی کے سکے اور گائے کا دوٗدھ عنایت فر مائیں ۔ آپ نے فوراً دونوں آستینیں اُستاد کے آگے بڑھا کر ایک آستین سے تازہ بہ تازہ دودھ کی دھار سے گلاس بھر کر استاد کی خدمت میں پیش کیا اور دوسری آستین سے کھنکھناتے ہوئے چاندی کے سکے استاد گرامی کے آگے گرا دیے۔ مولانا کو آپ کی اس کرامت پر بڑی حیرت ہوئی۔ (صد حکایت فارسی ص۱۸)

(۸)  بچپن کی دُعاِ  کی تاثیر :
حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ عقل سلیم ذہنِ رسا رکھتے تھے اور مستجاب الدعوات بھی تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے جو بھی نکلتا قدرت فوراً ویسا ہی کرتی۔
 آپ کے بچپن کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت برہان الدین قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ پنے مرید شیخ عبد الملک باری وال رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر بہ سلسلہ دعوت رونق افروز ہوئے۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دوسرے فرزند بھی حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ موجود تھے۔ اس کے علاوہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ پنے ساتھ تین ہم عمر لڑکوں کو بھی لے گئے تھے۔ (غالباً دوست ہوں گے یا کسی عزیز کے بچے ہوں گے)عبد الملک باری وال رحمۃ اللہ علیہ نے خوش ہو کر کہا آج ہمارے پیر و مرشد اپنے لشکر کے ساتھ رونق افروز ہوئے ہیں ۔ اِن شاء اللہ مجھے دُنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو گی۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے بر جستہ ارشاد فر مایا :حق تعالی تجھے بھی لشکر عطا فر مائے گا۔ آپ کے ایسا ارشاد فرمانے کی برکت سے اللہ تعالی نے ان کو دس سال کی مدت میں دس بچے عطا کیے حالانکہ اس سے پہلے وہ دونوں میاں بیوی لا ولد تھے۔

(۹)  اجر و ثواب کا مشاہدہ  :
روایت ہے کہ جب حضرت برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ شہر پٹن میں رونق افروز تھے۔ آپ کے ایک مرید نے سورۂ  انعام کا ختم رکھا اور اس میں حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ ور آپ کی اولاد کو بھی مدعو کیا۔  لہٰذا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ بھی ساتھ تھے۔ سورۂ  انعام کے جدا جدا پارے لائے گئے تھے اور پڑھنے والوں کو دِیے گئے تھے۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے اس موقع پر کرامت حیدری کا ظہور ہوا۔ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی ایک کرامت یہ تھی کہ جب پائے مبارک رکاب میں رکھتے تو قرآن کریم شروع فرماتے دوسری رکاب میں پاؤں پہنچتے پہنچتے قرآنِ کریم ختم فرما دیتے)کا ظہور ہوا۔ آپ نے سورۂ  پاک کے پارے کو دستِ مبارک میں لیا اور بوسہ دے کر رکھ دِیا اور فرمایا تمہارا یہ ختم مقبول ہے۔ لاؤ کھانا لاؤ ہمیں بھوک بھی لگی ہے۔ صاحبِ خانہ متحیر ہوا کہ انہوں نے کچھ پڑھا تو ہے نہیں ۔ ویسے ہی فرما رہے ہیں تمہارا ختم مقبول ہے۔ بغیر پڑھے ہوئے بے مطلب فاتحہ کے لیے کیوں کھانا طلب فرما رہے ہیں ۔ دِل میں یہ خدشہ گذرنا تھا کہ شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو یہ خطرۂ  قلبی کشف کے ذریعہ معلوم ہو گیا۔ آپ نے فوراً اپنا دستِ مبارک صاحبِ خانہ کی آنکھوں پر رکھ دیا اور فر ما یا اگر یقین نہیں تو دیکھ لو۔ صاحبِ خانہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ملائکہ پڑھی ہوئی سورۂ  انعام لے کر آسمان کی طرف جا رہے ہیں ۔ اور دوسرے ملائکہ عالم بالا سے اجر و ثواب و برکات لے کر نازل ہو رہے ہیں ۔ صاحبِ خانہ نے جب مشاہدہ کر لیا کہ جس مقصد کے لیے ختم شریف کیا تھا وہ حاصل ہو گیا ہے تو بصد ہزار عقیدت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں طعام لے کر حاضر ہوا۔ (صد حکایت فارسی ص۳۹)

(۱۰) عمر کا ساتواں سال اور قطب عالم کی علالت  :
حضرت قاضی کبیرالدین (جمیل الملک)تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر کا ساتواں سال تھا۔ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ شہر پٹن میں مقیم تھے اور کثرتِ ریاضت اور مجاہدہ کی وجہ سے آپ نہایت کمزور اور ناتواں ہو گئے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ نہایت سخت بیمار ہو گئے۔ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب آپ صحت یاب نہ ہو سکیں گے۔ اس وجہ سے تمام فرزند اور خلفاء آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ لیکن حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ پنے والدِ محترم کی خدمت میں حاضر نہ تھے۔ لوگوں نے تعجب کیاکہ ایسی حالت میں جبکہ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ چند روز کے مہمان ہیں حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ حاضر نہیں ہیں ۔ جب یہ آواز حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ کے کانوں میں پہنچی تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور فر مایا کہ اِلٰہی کمزور ی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور وہ(حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ)میرے کام میں مشغول ہیں ۔ بات یہ تھی کہ آپ کے عام فر زند اور خلفاء آپ کا آخری وقت جان کر فیض حاصل کرنے اور دیدار کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں جمع ہو گئے تھے۔ لیکن حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ تنہائی میں بارگاہِ اِلٰہی میں سجدہ ریز ہو کر مناجات فرما رہے تھے کہ یا رب میرے پیٖر و مرشد کو شِفا عطا فرما دے۔ اگر آپ کی عمر شریف اتنی ہی ہے تو میں اپنی عمر انہیں پیش کرتا ہوں ۔ ابھی حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ ِس دُعاء میں مشغول ہی تھے کہ عالم غیب سے پانچ عدد ٹوپیاں اور دو ۲؎ دو پٹّے ظاہر ہوئے۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نہیں لیکر فوراً والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کہ مجھے تکیہ لگا کر بٹھا دو۔ اس کے بعد آپ نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے فر مایا کہ جو کچھ بارگاہ اِلٰہی سے عطا ہوا ہے وہ مجھے پہنا دو۔ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت ادب سے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ٹوپیاں سر پر اوڑھا دیں ۔ اور دو پٹّے آپ کے زانوئے مبارک پر ڈال دِیے۔ قدم بوسی کا شرف حاصل کیا اور مؤدبانہ التماس کی کہ مجھے خداوند قدوس کی طرف سے اشارہ ہوا ہے کہ جب تک میرے پانچ بھائی اور دو بہنیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں وہ پیدا نہ ہو جائیں تب تک آپ وصال نہیں فرما سکتے۔ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے اس قدرتی عطیہ اور اپنی خوبیِ قسمت پر شکر اِلٰہی ادا فر مایا۔ وہ پانچ ٹوپیاں گویا پانچ فرزند اور دو دو پٹّے گویا دو لڑکیاں جس کی بشارت دی گئی تھی پیشین گوئی کے مطابق بعد میں ۵  لڑکے اور ۲  لڑکیاں پیدا ہوئیں ۔ اس واقعہ کے بعد ۳۳  سال تک حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ حیات رہے اور ان پانچ لڑکے اور دو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ارادت اپنی موجودگی میں حضرت شاہ عالم   رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد  فرمائی۔     (صد حکایت فارسی ص۱۷۱۔ ۱۷۰)

(۱۱)  گیارہ سال کی عمر میں ایک تمنا  :
۸۲۸ ھ کا واقعہ ہے جب کہ حضرت خواجہ سید محمد سراج الدین شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف کا گیارہواں سال تھا۔ آپ کے دِل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش آپ کے جد امجد حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت آپ کو بہ نفس نفیس عالم واقعہ میں دیدار دکھائیں ۔ اور یا ولدی! یعنی اَے میرے بیٹے کہ کر خطاب فرمائیں ۔ جیسا کہ حضورِ اکرم ﷺ نے مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے صحتِ نسب کی دلیل کے سلسلے میں یا ولدی! فرمایا تھا۔ اِسی طرح حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آپ کو دیدار دے کر یا ولدی! کہہ کر پکاریں تو آپ ﷺ کی مطابقت کے ساتھ ساتھ صحتِ نسبت کا ثبوت بھی مل جائے۔ بالآخر ایک دِن وہ خوش نصیب گھڑی آئی۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے عالم واقعہ میں اپنے جمالِ پر نور کے دیدار سے مشرف فرمایا۔ آپ کی پیشانی پر بوسہ دیکر اوچ شریف کی زبان میں ’اے پتر!‘کہ کر خطاب فرمایا۔                         (صد حکایت فارسی ص ۲۱۔ ۲۰)

(۱۲)  والدِ گرامی سے عقیدت و محبت :
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والد محترم سے بے حد عقیدت و محبت تھی۔ آپ ہمیشہ والدِ محترم کی اِطاعت و فرمانبرداری میں پیش پیش رہتے تھے۔ اور اپنے والد محترم کی رضاء و خوشنودی پر اپنا سب کچھ قربان کرنا اپنی سعادت مندی سمجھتے تھے۔ حضرت قطب الدین شاہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس دن حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے رسول آباد کا سنگ بنیاد رکھا اس دن حسن اتفاق سے اچانک حضرت قطبِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف لائے۔ آپ کو اس خوشی کے موقع پر اپنے والد مرشد گرامی کی تشریف آوری پر اتنی خوشی ہوئی کہ جہاں آپ کھڑے تھے وہاں ایک گوندنی کا درخت تھا۔ فوراً آپ کے دِل میں خیال آیا کہ اگر اس وقت یہ درخت سونے کا ہو جائے تو اپنے والد پر نثار کر دوں ۔ آپ کے دِل میں یہ خیال آنا تھا کہ گوندنی کا درخت فوراً سونے کا ہو گیا۔ جب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ منظر دیکھا تو فوراً فرمایا کہ بیٹا اس درخت سے کہو کہ اپنی اصلی حالت پر آ جائے۔ آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ درخت اصلی حالت پر آ گیا۔
(صد حکایت فارسی ص ۱۷۰)

(۱۳)  ولادت کے مکان کا درخت  ہرا بھرا ہونا:
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت جس مکان میں ہوئی تھی وہ ابھی تک اُوچ شریف میں موجود ہے۔  اور وہ شیشم کا درخت آج تک سر سبز و شاداب ہے جس میں آپ کا مبارک جھولا لٹکایا جاتا تھا۔          (اولیائے اُوچ شریف ، صفحہ :  ۲۵)

(۱۴)  قطب عدن کی بارگاہ میں   :
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ حرمین شریفین سے عدن کے قطب حضرت شیخ  بُسّال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ  اقدس میں حاضر ہو کر دیدار سے سرفراز ہوئے۔  اس وقت قطبِ عدن رحمۃ اللہ علیہ بستر علالت پر لیٹے تھے۔  اس وقت آپ نے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کو ہدایت فرمائی کہ آپ حرمین شریفین ہی میں قیام کریں ۔ اس کے چند روز بعد قطبِ عدن رحمۃ اللہ علیہ کا اِنتقال ہو گیا۔ آپ کی وفات کے تین دن بعد رات میں آپ کو حضرت خواجہ رکن الدین رکنِ عالم ابوالفلاح سہروردی ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کی خواب میں زیارت ہوئی۔  آپ نے حضرت مخدوم  رحمۃ اللہ علیہ کو خرقہ عطا فرمایا اور فرمایا کہ خرقہ قطبِ عدن رحمۃ اللہ علیہ حضرت  بسّال کے چھوٹے لڑکے کی امانت ہے۔  آپ ان کو پہنچا دیں ۔ اسی رات آپ کو حضرت رکنِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ کا لقب عطا کیا گیا۔ صبح کو جب حضرت مخدوم  رحمۃ اللہ علیہ بیدار ہوئے تو خرقہ آپ کے سرہانے موجود تھا۔  آپ نے وہ خرقہ قطب عدن  رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند کو بیعت فرمانے کے بعد عطا کیا۔  (الدُّرالمنظومہ ، صفحہ : ۲۵۵)
(۱۵) ا  مدادِ  غوثیت    :
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ پنی خانقاہ میں تشریف رکھتے تھے۔ یکایک گھاس کی کوٹھری میں آگ لگ گئی اور اس کے شعلے بھڑکنے لگے۔ حضرت مخدوم نے ایک چٹکی خاک لے کر ‘‘ یَا شَیْخ عَبْدُ الْقَادِرْ جِیْلَانِی  شَیْئًا لِلّٰہ ’’ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے خاک آگ کی طرف پھینک دی۔  آگ فوراً بجھ گئی۔  (انوار کاظمیہ،صفحہ : ۱۶۰)

(۱۶)  انوکھی  عیدی   :
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ عید کے دن اپنے جدِّ طریقت حضرت خواجہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئے۔ سلام و قدم بوسی اور فاتحہ خوانی کے بعد مزار شریف کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا آج عید کا دن ہے۔  بزرگوں کی بارگاہ سے چھوٹوں کو عیدی عطا کی جاتی ہے۔ لہٰذا ناچیز کو بھی عیدی عطا کی جائے۔ مزار شریف سے آواز آئی کہ آپ کو’’ مخدوم جہانیاں ‘‘ کہا جاتا ہے۔  یہ تمہاری عیدی ہے۔                                                         (اخبار الاخیار)

(۱۷)قطبِ بنگال  رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ اور مخدوم رحمۃ اللہ علیہ   :
قطبِ بنگال حضرت خواجہ علاء الحق چشتی پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کا وقت جب قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ خبردار ! میری وفات کے بعد میرے جنازے کی نماز حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ پڑھائے۔  یہ سن کر تمام مریدین کو بڑا تعجب ہوا کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ تو اُوچ شریف میں ہیں ۔  اور اُوچ شریف تو پنڈوہ شریف سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہے۔ وہ حضرت قطب بنگال  رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کی نماز کیسے پڑھائیں گے۔ مختصر یہ کہ جب قطب بنگال رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا اور غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر جنازہ تیار ہو رہا تھا کہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ سامنے سے تشریف لا رہے ہیں ۔ تمام لوگ سراپا حیرت بنے ہوئے تھے۔  آپ نے تشریف لا کر اِرشاد فرمایا کہ میں فقط اِسی کام کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ قطب بنگال حضرت خواجہ علاء الحق چشتی پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کی نماز پڑھاؤں ۔ اس کے بعد آپ نے جنازہ پڑھا کر قطب بنگال رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت پوری کر دی۔                                                  (انوار الاصفیاء :۔ صفحہ : ۴۱۱)

(۱۸)مچھلی جہاز میں آ گئی   :
مولانا شمس الدین اُوچی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے حرمین شریفین کے آخری سفر میں حضرت کے ساتھ تھا۔ جہاز میں آپ کے ساتھیوں کے دل میں خیال آیا کہ اس وقت اگر کچھ مچھلیاں ہاتھ آ جائیں تو ہم ان کے کباب بنا کر کھاتے۔  یہ بات نورِ باطن سے آپ کو فوراً معلوم ہو گئی۔ آپ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ، انشاء اللہ تعالیٰ، تمہیں مچھلیاں ضرور ملیں گی۔ یہ کہتے ہی ایک بڑی مچھلی اچھل کر جہاز میں آ پڑی۔  جس کے کباب تل کر سب نے کھائے۔                   (اَولیائے اُوچ شریف : صفحہ :  ۳۱)

(۱۹)  شیخ بدر الدین یمنی  رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ   :
ایک مرتبہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ جدّہ شریف کی ایک مسجد میں رونق افروز تھے۔  مسجد میں ایک جنازہ لایا گیا۔  آپ کے قلبِ مبارک پر منکشف ہوا کہ جنازہ حضرت شیخ بدر الدین یمنی  رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو حال ہی میں جدّہ آئے تھے۔ حضرت نے کچھ دیر سوچ کر فرمایا کہ ابھی یہ جنازہ دفن نہ کیا جائے۔ شاید یہ زندہ ہوں ۔ چنانچہ جنازہ واپس لے جا کر مسجد میں رکھا گیا۔ آپ نے سب کو مسجد سے باہر نکال کر پہلے دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد تلاوت قرآن میں مشغول ہو گئے۔ جس وقت آپ اس آیتِ مبارکہ :
’’   یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ‘‘
(ترجمہ: زندہ کو مردے سے نکالنے اور مردے کو زندہ سے نکالنے والا)(پارہ۔ ۷۔ سورۃ الانعام،آیت :  ۹۵از :-کنز الایمان۔ اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ) پر پہنچے تو شیخ بدرالدین رحمۃ اللہ علیہ یکبارگی  ‘‘اشھد ان لالٰہٰ الا اللّٰہ و اشھد ان محمد رسول اللّٰہ’’ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے قدم چومے۔ اس کے بعد حضرت مخدوم  رحمۃ اللہ علیہ نے دروازہ کھول دیا۔  اور جنازے کی نماز حضرت شیخ بدر الدین  رحمۃ اللہ علیہ ی نے پڑھائی۔ جدّہ کے تمام لوگ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر آپ کے مرید ہو گئے۔ حج کر کے آپ روضۂ  نبوی پر پہنچے اور سلام عرض کیا جس کا جواب صاف سنائی دیا۔        (اولیائے اُوچ شریف ، صفحہ :  ۳۰)

(۲۰)  دعوت  بھی  عبادت بھی   :
  حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ جب دہلی تشریف لائے تو آپ بیک وقت سلطان کی دعوت میں بھی موجود ہوتے اور اپنے گھر پر مصروفِ عبادت بھی پائے جاتے تھے۔  آپ کی یہ کرامت دیکھ کر اس عہد میں سارے دہلی والے آپ کے معتقد ہو گئے اور روزانہ ہزاروں شخص مرید ہوتے تھے۔  آپ کی اَولاد اور آپ کے تمام خلفاء بھی علوم ظاہری و باطنی میں بے مثال تھے۔

(۲۱)  کونین کا قطب   :
منقول ہے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ تکمیلِ کمالات اور تحصیل کے بعد مکان پر پہنچے تو آپ کے والد سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے۔ آپ کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ایک دن آپ نے اپنے والد بزرگوار سے عرض کیا کہ آپ اپنا نکاح فرما لیں ۔  والدِ محترم نے جواب دیا کہ میں تو اب قبر کے کنارے پہنچ چکا ہوں ۔ اب میرے لیے نکاح مناسب نہیں ہے۔  مخدوم نے جواب دیا کہ آپ کی نسل میں ایک قطب ہے۔ اس لیے آپ کو نکاح کرنا ضروری ہے۔  حضرت سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اس کمزوری اور بڑھاپے میں مجھے کون قبول کرے گا ؟ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ میں اس کام میں واسطہ بنوں گا۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کی نانی حیات تھیں اور ایک لڑکی رکھتی تھیں جو حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی خالہ تھیں ۔ آپ ان کی خدمت میں گئے اور فرمایا کہ امّاں ! میری خالہ کو میرے والد کی زوجیت میں دے دیجیے۔ اُنہوں نے کہا کہ تمہارے والد ضعیف ہیں اور تمہاری خالہ کم سن اور نوجوان ہیں اس لیے کیسے نکاح میں دے دوں ؟ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں ۔  میرے کہنے سے دے دیجیے۔  انہوں نے پھر کہا کہ اگر ان کے بچہ پیدا ہو اور تمہاری طرح قطب ہو تو میں اُن کے نکاح میں ضرور دے دوں گی۔ حضرت مخدوم نے کہا،’’ خدا کی قسم!خدا کی قسم! اُن کے ایسا بچہ پیدا ہو گا جو کونین کا قطب ہے۔ اس کا دُنیا میں آنا ضروری ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس قول و قرار پر نکاح ہو گیا۔ تھوڑی ہی مدت میں حضرت مخدوم کی خالہ کو حمل رہ گیا اور حضرت سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہو گئی۔
ایام حمل گزر جانے کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کے اس کا نام سید محمد ہے اور عرف سید راجو قتال ہے۔  ان کی پوری حفاظت کے ساتھ پرورش کرو۔  لوگوں نے کہا کہ وہ والدہ کا دودھ نہیں پیتے۔  فرمایا کہ وہ قطب ہے تنہا دودھ نہیں پیے گا۔ ایک دوسرا دوٗدھ پیتا بچہ ماں کی دوسری جانب کر دو۔  اسی وقت سید راجو قتال دوسری جانب سے دودھ چوسیں گے۔  چنانچہ دودھ پینے کی تمام مدّت میں سید راجو رحمۃ اللہ علیہ نے تنہا دودھ نہ پیا۔  ایک روز لوگ یہ خبر لائے کہ ایک بچے کو دودھ چوسنے کے لیے ایک طرف لگا دیا گیا ہے۔  مگر سید راجو دودھ نہیں پی رہے ہیں ۔  مخدوم جہانیاں نے فرمایا کہ وہ قطب ہے اسے رمضان کی عظمت کا خیال ہے۔  اس لیے  دن میں  دودھ نہ پیے گا۔

(۲۲)  حضرت  مخدوم رحمۃ  اللہ علیہ کا  تدبّر  :
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے وقت کے بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ی دینا سعادت مندی خیال کیا کرتے تھے۔ آپ بھی بادشاہوں سے بڑی مہربانی اور تلطُّف سے پیش آتے تھے۔  ان کو بہترین مشورے دیا کرتے تھے۔  ۷۶۴    ھ میں سلطان فیروز شاہ تغلق نے دوسری مرتبہ ٹھٹھ پر حملہ کرنے کی تیاری کی۔  اور پُل توڑ کر اپنی فوجوں سمیت سندھ میں داخل ہو گیا۔ اور ٹھٹھ کے حکمران جام بابینا اور اس کے لشکر کو قلعے میں بند کر دیا۔  یہ غالباً  فصلوں کی کٹائی کا زمانہ تھا۔  کیوں کہ فصلیں پک کر تیار ہو گئیں تھیں ۔ فیروز شاہ نے دریا کے کنارے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔  اور وہیں پر مورچہ بندی بھی کر رکھی تھی۔  سندھی فوجیں قلعے سے نکل کر بڑی بہادری سے لڑیں ۔  جس پر فیروز شاہ تغلق کو یقین ہو گیا کہ فتح ممکن نہیں ۔  اس نے دہلی سے اپنے وزیر خان کو حکم دیا کہ مزید فوجیں اور کمک سندھ روانہ کرے۔
جب دہلی کا لشکر سندھ پہنچا تو بساط ہی اُلٹ چکی تھی۔ فیروز شاہی فوجوں نے گیہوں کے کھیتوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اناج نہ ملنے کے سبب سندھ میں قحط جیسی حالت ہو گئی۔ سندھ کے لوگ بڑی پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کو جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر سندھ کے حکمران جام بابینا نے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں مدد کے لیے ایک قاصد روانہ کیا۔ آپ اس وقت اُوچ شریف میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فوراً ٹھٹھ جانے کی تیاری کی۔ جب آپ ٹھٹھ کے قریب پہنچے تو فیروز شاہ اپنی فوجوں سمیت آپ کی پذیرائی کو آیا اور دُعاِ  کے لیے عرض کی۔  حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا،’’ فیروز شاہ! اب تمھیں چند دنوں میں فتح ہو جائے گی۔ کیونکہ ٹھٹھ میں ایک بڑی خدا رسیدہ عورت رہتی تھی۔  اور اس کی برکت سے ٹھٹھ فتح نہ ہوتا تھا۔ اب کچھ روز ہوئے وہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ اب ٹھٹھ ضرور فتح ہو جائے گا۔
جب جام بابینا اور اس کی فوجوں کو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی خبر ہوئی تو انہوں نے آپ سے ٹھٹھ آنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی اپنی مشکلوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے جام جابینا کو تسلی دی کہ تمہیں اور تمہاری  فوجوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔  جب فیروز شاہ تغلق کو فتح ہو گئی تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حکم دیا کہ تم ٹھٹھ سے اپنی فوجیں ہٹا لو  اور جام بابینا کے حوالے کر دو۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا یہ اعجاز تھا کہ دونوں حکمرانوں کو مایوسی بھی نہ ہوئی اور دونوں فوجیں نا قابل تلافی جانی اور مالی نقصانات سے بھی بچ گئیں ۔  تمام بادشاہانِ وقت حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اور آپ سے دُعاء کروانے بادشاہ بنفس نفیس حاضر ہوا کرتے تھے۔                                           (تذکرہ۔ حضرت جہانیاں جہاں گشت)

(۲۳)  عقیدت  مندی کا  صلہ   :
  سلطان محمد تغلق کو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ ے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ اس نے آپ کو شیخِ اِسلام کا خطاب دیا اور چالیس خانقاہیں آپ کے تصرف میں  دے دیں ۔  حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس روز مجھے چالیس خانقاہیں بادشاہ نے عطا کیں اس روز ہی میں نے رات میں خواب میں اپنے مرشدِ عالی شیخ رکن الدین  رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے حکم دیا کہ خانقاہوں کو چھوڑ کر فوراً حج کے لیے روانہ ہو جاؤ۔ ورنہ تمہاری ساری عبادتا ور ریاضت اکارت ہو جائے گی۔
چنانچہ: میں جب بیدار ہوا تو میں نے فوراً حج کا اِرادہ کر لیا۔  اس مقصد کے لیے میں اپنے والدِ بزرگوار سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے جانے کی اجازت طلب کی۔  جب اجازت مل گئی تو میں حج کے لیے روانہ ہوا۔  میرے پاس زادِ راہ (راستے کے خرچ)کے لیے ایک پائی تک نہ تھی۔ اور سواری کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔  میں پیدل ہی حج کے لیے روانہ ہو گیا۔ راستے میں میری ایک شخص سے ملاقات ہو گئی جو حج پر جا رہا تھا۔  مگر کسی مجبوری کے تحت اس کو اپنا حج کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ اس نے اپنے حج کے سارے اسباب مع رقم مجھے دے دِیے اور ایک گھوڑا بھی دیا۔  میرے ہمراہ مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے،وہ بیمار تھے۔ میں نے گھوڑا اُن کو دیدیا اور خود پیدل چل کر مکہ شریف پہنچا۔ اس روز اگر میں حج پر نہ جاتا اور خانقاہیں قبول کر لیتا تو مجھ پر غرور سوار ہو جاتا اور میں کیچڑ میں گر جاتا اور کبھی نہ نکل پاتا۔  مگر میرے مرشد نے میری رہنمائی کی اور مجھے صراط مستقیم پر گامزن کیا۔         (تذکرۂ  اَولیائے پاکستان)

(۲۴)  اِتباعِ  سنت کی تلقین  :
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ مَردوں کے ریشمی لباس کے اِستعمال کرنے کے سخت خلاف تھے۔ ایک مرتبہ فیروز شاہ تغلق نے حضرت کی خدمت میں ۳۴   جوڑے کپڑوں کے بھیجے۔  آپ نے ان کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لباس شریعت کے مطابق ہوئے تو پہنوں گا ورنہ نہیں ۔ فرمایا کے ریشمی لباس اور سونا آنحضرت  ﷺ کی امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں پر حلال کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے تو آنحضرت  ﷺ نے فرمایا جس کا کپڑا باریک ہوا اس کا گویا دین باریک ہوا۔ گریبان دار کرتا پہننا آپ بدعت سمجھتے تھے اور بغیر گریبان کا کرتا پہن کر سنت کی پیروی کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ کے ایک مرید نے آپ کو نعلین کا جوڑا پیش کیا۔ آپ نے خوش ہو کر قبول کیا کہ نعلین پہننا سنت ہے۔ مدینہ شریف میں جب آپ تشریف فرما تھے تو آپ کو ایک مرتبہ آنحضرت  ﷺ کی نعلین مبارک دیکھنے کا موقع ملا تو آپ نے بے اختیار ان کو چوم لیا  اور آنکھوں سے لگایا۔ آپ کو آنحضرت  ﷺ کی سنت سے اس قدر عقیدت تھی کہ آپ پیرویِ سنت میں ایندھن بھی خود چُن کر لایا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی تحفہ لائے تو اُسے قبول کر لیا جائے۔ لیکن حتی المقدوٗر اس تحفے کے جواب میں بھی کچھ دیا جائے اور اگر کچھ جواباً دینے کی قدرت نہ ہو تو دُعائے خیر ہی دے دینی چاہیے۔ آپ جب بھی کسی سے کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول فرماتے تو اس کو جواباً کچھ نہ کچھ ضرور عنایت فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی تحفہ شریعت کے خلاف ہوتا تو معذرت کے ساتھ واپس کر دیا کرتے تھے۔  (تذکرہ۔  حضرت جہانیاں جہاں گشت)

(۲۵)  شیطان کے دھوکے سے بچنے کا طریقہ  :
ایک مرتبہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے اِرشاد فرمایا کہ میں مکہ معظمہ سے بھکّر واپس آیا تو وہاں کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ الور کے پاس ایک پہاڑ کے غار میں ایک درویش رہتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے اس کی نماز معاف کر دی۔  یہ سن کر میں اس کے پاس گیا۔ امیروں اور دوسرے بڑے لوگوں کا ہجوم تھا۔  میں اس کے قریب پہنچا۔ میں نے اسے سلام نہیں کیا بلکہ اس کے نزدیک جا کر بیٹھ گیا۔   پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ حالانکہ حضورِ اکرم  ﷺ کا اِرشاد ہے کہ مومن اور کافر کے درمیان نماز سے فرق ہوتا ہے۔  اس درویش نے جواب دیا کہ میرے پاس جبرائیل  ؓں آتے ہیں ۔ اور جنت سے کھانے لاتے ہیں ۔ خدا کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارے لیے نماز معاف کر دی گئی اور تم خدا کے خاص مقرب ہو۔ میں نے اس درویش سے کہا۔ ’’ کیا بیہودہ بکواس کرتے ہو ؟محمد رسول اللہ  ﷺ  کے لیے تو نماز معاف نہیں ہوئی۔  تجھ جیسے جاہل کے لیے کیسے معاف ہو سکتی ہے ؟ وہ جبرائیلؑ نہیں شیطان ہے جو تیرے پاس آتا ہے اور تجھے دھوکہ دیتا ہے۔  جبرائیلؑ تو وحی لانے والے فرشتے ہیں جو سوائے پیغمبروں کے کسی کے پاس نہیں آتے۔  رہا وہ کھانا جو تمہارے پاس آتا ہے وہ بھی سرا سر غلیظ (گندہ) ہے۔ ‘‘ اُس درویش نے کہا،’’وہ کھانا تو بہت مزیدار ہوتا ہے اور میں اس میں لذت محسوس کرتا ہوں ۔ ‘‘
میں نے کہا،’’ اب اگر وہ  فرشتہ تمہارے پاس آئے تو تم۔ ’’ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ ‘‘ پڑھنا۔ ‘‘میں دوسرے دن پھر اس درویش کے پاس گیا۔  وہ مجھے دیکھ کر میرے قدموں پر گر پڑا۔  اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کے کہنے پر عمل کیا۔  جب وہ فرشتہ آیا تو میں نے ’’ لاحول‘‘ پڑھی۔ وہ فوراً میرے سامنے سے غائب ہو گیا اور وہ کھانا جو اس نے مجھے دیا تھا وہ غلیظ ہو کر میرے ہاتھوں سے گر گیا۔  یہاں تک کہ میرے سارے کپڑے ناپاک ہو گئے۔  اس کے بعد میں نے اس بے نمازی درویش کو توبہ کروائی اور اس کی جس قدر نمازیں فوت ہوئیں تھیں  ان کی قضا پڑھوائی۔        (تذکرۂ  اولیائے پاکستان)

(۲۶)  سفارش  کا  عجیب  انداز  :
فیروز شاہ تغلق کا ایک وزیر خان جہان شروع شروع میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے سخت نفرت کرتا تھا۔  اور حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک غریب آدمی کے بیٹے کو کسی وجہ سے قید میں ڈال دیا    اس کا باپ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بیٹے کی بے گناہی ظاہر کر کے سفارش کا طالب ہوا۔  حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ خان جہان کے پاس گئے اور اس کو سفارش کی مگر اس نے آپ کی بات پر توجہ نہ دی اور کہا کہ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں ۔  میں آپ کی کوئی بات نہ مانوں گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اَے مخدوم ! آپ آئندہ میرے دروازے پر نہ آئیں ۔  لیکن اس کے باوجود حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ تقریباً انیس مرتبہ خان جہان کے پاس گئے۔ آخری مرتبہ اس نے کہا کہ اے مخدوم ! آپ ہیں تو سید مگر غیرت آپ میں نام کو نہیں ۔ میں آپ سے کتنی بار کہ چکا ہوں کہ میرے گھر تشریف مت لایا کیجیے  مگر ایک آپ ہیں کہ آنا جانا ترک ہی نہیں کرتے۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ َاے خانِ جہان ! میرے عزیز!میں تمہارے در پر جتنی مرتبہ بھی آتا ہوں ایک مظلوم کی داد رسی کے لیے آتا ہوں  اور مجھے اس کا ثواب مل رہا ہے۔ لہٰذا تم میری غیرت اور بار بار آنے کی پرواہ نہ کرو۔ بات تو اس مظلوم کی ہے۔ جس کی فریاد ابھی تک نہیں سنی جا رہی۔  اور میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تو اس مظلوم کو اپنی قید سے نجات دے دے۔ تاکہ تو بھی ثواب حاصل کرے۔ یہ سن کر خان جہان بڑا شرمندہ ہوا۔  اسی وقت اپنے محل سے باہر نکلا اور آپ کے قدموں میں گر گیا۔  آپ نے اس کو اُٹھایا اور کہا، ’’ تو کوئی شرمندگی محسوس نہ کر۔  تجھے مظلوم کی بے گناہی کا احساس ہو گیا ہے۔ اور قدرت نے تجھے ظلم سے باز رکھا۔  یہی بات کم نہیں ہے۔ ‘‘ خان جہان پر آپ کی باتوں سے رقت طاری ہو گئی۔  اور وہ اسی روز آپ کا مرید ہو گیا اور اس کے بعد اس نے کسی پر ظلم نہیں کیا۔  اور ہمیشہ آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا رہا۔      (مرآۃ الاسرار : صفحہ :  ۴۱۴)

(۲۷)  قرض  لے کر  سخاوت  :
ایک مرتبہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سید شمس الدین عراقی مسعودی کسی حاجت کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ نے خادم سے پوچھا،’’ اس وقت کوئی فتوح آئی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا،’’ اِس وقت کوئی چیز نہیں ۔ ‘‘ فرمایا،’’جاؤ اور کسی بنئے سے قرض لے آؤ۔  مسعود عراقی کی ضرورت پوری کرو۔  یہ سن کر مسعود عراقی بولے،     ’’ حضرت !کافر سے قرض لینا تو مکروہ ہے۔ ‘‘ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قرض ضرورت کے لیے لیا جاتا ہے۔  اور ضرورت کافر اور مسلمان دونوں سے قرض لے کر پوری کی جا سکتی ہے۔ آپ نے بنئے سے قرض لے کر مسعود عراقی کی ضرورت پوری کر دی۔  اور پھر جوں ہی فتوح آ گئی تو فوراً بنئے کا قرض چکا دیا۔  آپ کے دروازے سے کوئی سائل خالی واپس نہیں جاتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے کہ جب تک میرے گھر پر سیکڑوں لوگ کھانا نہ کھائیں میرا دل خوش نہیں ہوتا۔ اور یہ آپ کی فیاضی ہی تھی جس نے آپ کو غریب نواز بنائے رکھا۔          (تذکرہ۔  جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت خواجہ سید ناصر الدین محمُود نوشہ رحمۃ اللہ علیہ

حضرت خواجہ سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ حضر ت سید برہان الدین قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی اور حضرت سید محمد سراج الدین (حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ) کے دادا ہیں ۔  آپ کی ولادت با سعادت ۲ ذی الحجہ  ۷۴۰ ھ مطابق  ۱۳۴۱ِ  کو ہوئی۔ اس وقت تخت دہلی پر سلطان محمد شاہ تغلق حکمران تھا۔ آپ کے والد گرامی حضرت سید جلال الدین حسین یعنی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔  آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مخدومہ بی بی فردوس بنت سید صدر الدین ہیں ۔ (خزینۃ لاصفیاء۔ تذکرۂ  سادات ص۸۲)

(۱)حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی چھڑی اور ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پیٹھ:
  ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ پنی خانقاہ شریف میں اپنے حاضرین مجلس سے حقائق و معارف ربانی بیان فرما رہے تھے۔ اتفاق سے اسی مجلس میں حضرت سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے اپنے ہم سبق طلباء کے درمیان علمی مباحثہ کر تے ہوئے کوئی سخت کلمہ نکل گیا۔ یہ منظر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کو سخت نا گوار معلوم ہوا۔ آپ نے اپنی چھڑی اٹھائی اور حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مارنا چاہا۔ یہ دیکھ کر حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پیٹھ کھول کر آپ کے سامنے کر دی اور زمین پر لیٹ گئے۔ جیسے ہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی نظر مبارک آپ کی پشت پر پڑی،عصاء اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اور آپ نے بار بار السلام علیکم کہا اور کافی دیر تک با اد ب کھڑے رہے۔ اور پھر فرمایا : اللہ اکبر !  ایسا قطب پیدا ہوا ہے کہ تنہا خود ہی قطب نہیں بلکہ اس کی پشت قطبوں کی کان ہے۔ اس کے بعد آپ نے اپنا دست مبارک حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پشت (پیٹھ)پر ملا اور پھر اپنے چہرے پر پھیرا۔ (مناقب برہانی ص۷۰۶)





حضرت  سید ا بو محمد  برہان الدین  قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات طیبہ

آں شمعِ خاندانِ نبوت و وِلایت،
آں معدنِ انوارِ صداقت و ہدایت،
آں مستغرقِ تجلیاتِ ذاتی
قطبِ عالم میر سید برہان الدین گجراتی
(قد س  سرہا لعز یز)
آپ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں ۔ آپ کے دادا کے دادا حضرت شیخ جلال الدین سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔  وہ سادات حسینی سے تھے اور بخارا کے ایک معزز اور ذی علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید ناصر الدین محمود ہے۔ بعض نے انہیں نصیر الدین محمد بھی لکھا ہے۔  آ پ کی والدہ ماجدہ کا نام حاجرہ بی بی ہے۔ وہ حضرت سید قاسم حسینی کی صاحبزادی تھیں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ آپ کو سعادت خاتون کہا کرتے تھے۔ آپ کا مزار پٹن میں ہے۔

(۱)  وِلادت سے پہلے ہی عبد اللہ کہلائے:
ایک مرتبہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ عبادت کے وقت جو چادر اوڑھتے تھے اسے اپنی بہو سعادت خاتون کو دی۔ اس کے بعد اپنے فرزند نصیر الدین محمود سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد سعادت خاتون کے شکم سے ایک بیٹا پیدا ہو گا۔  یہ چادر اسے دے دینا۔ وہ’’ قطب الاقطاب‘‘ اور ’’مقامِ عبدیت ‘‘ تک پہنچے گا۔  مقامِ عبدیت    ’’ اولیاء  اللہ‘‘ میں سلوک کی سب سے اونچی منزل شمار کی جاتی ہے۔  اس لیے انہیں ’’ عبد اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔  صوفیائے کرام کے نزدیک اس سے بلند اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس خوش قسمت بچّے کو پہنانے کے لیے سب سے پہلے اسی چادر میں سے پوشاک بنوانا۔  چادر کا باقی حصّہ محفوظ رکھنا اور انہیں پُہنچانا۔  اللہ تعالیٰ نے جس وقت مجھے شبِ قدر کی دولت سے مالامال کیا اس وقت یہ چادر میرے جسم پر تھی وہ بچّہ میرے خاندان کی عزت بڑھانے والا اور تمام رموزِ حقائق کا سمندر ہو گا۔

(۲)  گانے بجانے والی دایہ کا دوٗدھ نہ پیا:
نقل ہے کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی پیدائش کے تیسرے دن آپ کو دوٗدھ پلانے والی کی غرض سے بازار سے ایک دایہ خرید کر لائی گئی۔  خود اس دایہ نے اور دوسرے کئی لوگوں نے آپ کو اس دایہ سے دودھ پلوانے کی ہر چند کوشش کی مگر آپ نے اس دایہ کے پستانوں سے اپنے معصوم لبوں کو مس تک نہ کیا۔ اور اس کا دودھ ہر گز نہ پیا۔ اور صرف اپنی والدۂ   محترمہ کا ہی دودھ پیا۔
با لآخر تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ وہ دایہ گانے بجانے والوں میں سے تھی۔ قرآنِ پاک کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے تقویٰ ہی کو اپنی دوستی اور ولایت کی شرط قرار دیا ہے۔  چنانچہ : اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنْ اَوْلِیَاء ُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ
(ترجمہ: اس کے اولیاء تو پرہیز گار ہی ہیں ۔     (پارہ :۹، سورۃا لانفال، آیت :۳۴ از :-کنزالایمان اعلیٰ حضرت)
اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شیر خوارگی کے دور ہی میں اپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کا اظہار کر کے گویا اپنے مادر زاد ولی ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔

(۳)  شیر خوارگی کے دور میں پالنے میں سے کلام کیا :
نقل ہے کہ ابھی آپ صرف تیرہ دن ہی کے ہوئے تھے کہ رجب المرجب کی ستائیسویں (۲۷) رات آ پہنچی۔  جو کہ سلطان الانبیاء  ﷺ کی معراج کی رات تھی۔ اس مبارک رات کی صبح مثلِ نورِ سعادت طلوع ہوئی۔  اور جب اس نورانی صبح کی نورانی شعاعیں حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خواب گاہ میں آپ کے مبارک پالنے پر جلوہ افروز ہوئیں تب آپ نے پالنے ہی میں سے بہ زبانِ فصیح یوں کلام فرمایا:
سُبْحٰنَ اللّٰہِ ! ضِیَائِیْ
 ھٰذِ ہِ الْمِصْبَاحِیْ
اَنْوارٌمِنْ ضَوْء الصَّبَاحِیْ
(ترجمہ : پاک ہے اللہ کی ذات۔ اس چراغ کی روشنی صبح کی روشنی کے انوار میں سے)
اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شیرخوارگی کے دور میں حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا علیہ لصلو ۃو التسلیم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پالنے میں سے کلام کر کے اپنی قطبیت اور ولایت کا ثبوت پیش کیا۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ۱۴  رجب  ۷۹۰ ھ مطابق ۱۳۸۸ ِ  اُوچ میں پیدا ہوئے آپ کے والدِ ماجد نے آپ کے کان میں اذان دی۔ آپ کے دادا کی اسی چادر سے آپ کے کپڑے بنوائے گئے جو انہوں نے اپنی بہو ’’ سعادت خاتون ‘‘ کو دی تھی۔ آپ کا اسم گرامی عبد اللہ اور کنّیت ابو محمد ہے۔ آپ کا لقب برہان الدین ہے۔ اور آپ کا خطاب قطب عالم ہے۔ آپ اپنے والدِ ماجد حضرت سید ناصر الدین محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ ہیں ۔

(۴)  آپ  رحمۃ اللہ علیہ  کے مبارک مکان پر نور کا اترنا :
شیرخوارگی کے دِنوں میں ایک رات حضرت قطبِ عالم  علیہ الرحمہ  اپنی والدہ محترمہ کے پاس تھے کہ اچانک آسمان سے ایک نور حضرت کے مبارک مکان پر اُترا۔ جس کی رَوشنی سے شہر کے اکثر و بیشتر مکانات بھی روشن ہو گئے۔  جسے دیکھ کر اہلِ شہر حیرت میں پڑ گئے۔  دوسری صبح تحقیق کرنے پر لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ مکان حضرت سید ناصر الدین محمود یعنی حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کے والدِ محترم کا ہے۔
آپ نے اپنے والدِ ماجد کے چچا اور حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی اور خلیفہ حضرت سید صدر الدین المعروف بہ راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روحانی فیض پایا۔ ایک دن آپ کے والد کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے کہا کہ رنج و فکر کی کوئی بات نہیں ۔ جو روٗحانی فیض مجھے اور تمہیں ملے ہیں وہ ہم دونوں قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کو دیدیں اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھایا اور  حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر لے گئے۔ انہوں نے اپنے فیض آپ کو دے دِیے۔  اور آپ سے کہا کہ یہی تین نعمتیں جو مجھے پیر و مرشد سے ملیں ہیں وہ بھی تم کو دیتا ہوں ۔ وہ تین نعمتیں یہ ہیں ۔   (۱) مرشد کا خرقہ مبارک(۲)مال و دولت کی دیگ اور(۳) تلوار جس کی دو دھاریں ہیں ۔  آپ نے شیخ احمد کھٹّو   رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روحانی فیض اور خلافت پائی۔
آپ کی عمر دس سال کی تھی کہ آپ کے والدِ ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو تاکید فرمائی کہ تم گجرات میں سکونت اِختیار کرنا۔ وہیں رہ کر زندگی بسر کرنا اور رشد و ہدایت کرنا۔ گجرات کی سرزمین تمہارے سپرد ہے اور گجرات کے لوگوں تک پیغامِ حقّ پہنچانا اور ان کو تاریکی سے روشنی میں لا نا تمہارا ذمّہ ہے۔ ان فرائض کو بخیر خوبی انجام دینا۔

(۵)گجرات میں آمد:
اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ اُوچ سے ۸۰۲ھ  مطابق ۱۳۹۰ء  میں گجرات پہنچے۔ اس وقت گجرات کی راجدھانی پٹن میں تھی۔ یہاں آپ حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان ہوئے۔ جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے۔ حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی بہت خاطر مدارات کی۔ حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کو جو بھروٗچ میں رہتے تھے۔  جب آپ کے پٹن کے قیام کے بارے میں پتا چلا تو پٹن آ کر انہوں نے آپ سے ملاقات کی۔ سلطان مظفر شاہ جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا معتقد اور مرید تھا اس نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور نذرا نۂ عقیدت پیش کیا۔
آپ جب گجرات میں بس گئے تب آپ کو دُنیاوی علم حاصل کرنے کا شوق ہوا۔ آپ ایک مدرسہ میں داخل ہو گئے۔ اس مدرسہ میں حضرت مولانا علی شیر رحمۃ اللہ علیہ  درس دیا کرتے تھے۔ آپ نے ان کی خاص توجہ سے دُنیاوی علم حاصل کیا اور علوم ظاہری اور باطنی میں درجہ کمال کو پہنچے۔  اس وقت آپ کی عمر گیارہ سال سے کچھ اوپر تھی۔
آپ جب چودہ سال کے تھے تب اسی زمانے میں حضرت سید گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ دکن سے گجرات تشریف لے آئے۔ پٹن پہنچ کر انہوں نے حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ حضرت گیسو دراز بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو قطبیت کے آ ثار آپ میں دیکھ کر خوش ہوئے اور آپ سے کہا کہ۔
‘‘  میرے بزرگوں سے جو فیض مجھے ملا ہے  وہ میں آپ کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں  ‘‘

حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ   کی ازواج  و  اولاد۔

حضرت سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کثیر الاولاد تھے۔ آپ کے بارہ  ۱۲   لڑکے اور سترہ  ۱۷   لڑکیاں تھیں ۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے یکے بعد دیگرے چار نکاح فرمائے۔  اس کے علاوہ  دولت خانے میں چند لونڈیاں بھی تھیں ۔
 ازواج کے نام حسبِ ذیل ہیں :
(۱)  حضرت بی بی آمنہ۔ سلطانہ خاتون  بنتِ کریم الدین  خان بن عماد الدین۔ خداوند خان صدیقی:
(۲)حضرت سیدہ بی بی صفیہ بنتِ سید عبد الوہاب بن حضرت سید صدر الدین راجو قتال :
(۳)حضرت بی بی زینب  بنتِ سید عبد الرحیم ساکن  پٹّن۔  گجرات:
(۴)حضرت بی بی عائشہ بنتِ سلطان مظفر شاہ  والئی گجرات :
حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ  کے صاحبزادے:
(۱)حضرت سید ناصر الدین  ابو الحسن  معروف  بہ  دریا نوش  رحمۃ اللہ علیہ
(۲)حضرت سید  محمد سراج الدین معروف بہ شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ
(۳)حضرت سید محمد   رحمۃ اللہ علیہ   معروف بہ شاہ پیر:
(۴)حضرت سید حامد  رحمۃ اللہ علیہ
(۵)حضرت سید شاہ امین رحمۃ اللہ علیہ
(۶)حضرت سید محمد زاہد  رحمۃ اللہ علیہ
(۷)حضرت سید محمد اصغر عرف  شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ
(۸)حضرت سید محمد صادق  رحمۃ اللہ علیہ
(۹)حضرت سید محمد ضیاء الدین  راجو رحمۃ اللہ علیہ
(۱۰)حضرت سید محمد صالح رحمۃ اللہ علیہ
(۱۱)حضرت سید شاہ محمد سالِم  رحمۃ اللہ علیہ
(۱۲)حضرت سید محمد علیم الدین (علم الدین) رحمۃ اللہ علیہ
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ   کی صاحبزادیاں :
افسوس کے آپ کی تمام لڑکیوں کے نام معلوم نہ ہو سکے۔  جن کے نام معلوم ہو سکے وہ حسب ذیل ہیں :
(۱)حضرت سیدہ  بی بی شریفہ  رحمۃ اللہ علیہ ۔ عرف  امّاں بواء   بی بی :
(۲)حضرت سیدہ  خدیجہ بی بی رحمۃ اللہ علیہ سات سال کی عمر میں فوت ہوئیں :
(۳)حضرت سیدہ  زلیخا بی بی رحمۃ اللہ علیہ مّاں بواثانی :
(۴)حضرت سیدہ  بی بی کریم النسا رحمۃ اللہ علیہ دونوں  لا ولد (بے اولاد) فوت ہوئیں :
(۵)حضرت سیدہ  بی بی صالحہ رحمۃ اللہ علیہ
(۶)حضرت سیدہ  بی بی فردوس رحمۃ اللہ علیہ معروف بہ شاہ فردوس:
(۷)حضرت سیدہ  بی بی مریم رحمۃ اللہ علیہ

آپ کی ازواج اور اولاد:
آپ جب سن بلوغ کو پہنچے تو حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی شادی کے لیے بادشاہ کے وزیر امین الدین خداوند خان کو ایک خط لکھا کہ اگر بادشاہ کی لڑکی کی شادی حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ امین الدین خداوند خاں آپ کے نکاح میں اپنی لڑکی دینا چاہتے تھے۔ لیکن آپ کی شادی بادشاہ کی لڑکی سے ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد امین الدین خداوند خان آرزو بھی پوری  ہوئی اور اس کی لڑکی سلطانہ  خاتون (بی بی آمنہ) حضرت کے عقدِ نکاح میں آئیں ۔
آپ کی چوتھی بیوی بی بی جام زادی کے شکم سے بی بی فردوس، اور بی بی مریم پیدا ہوئیں ۔
آ پ کی وِلایت،قطبیت،اور غیب دانی کے دو واقعات پیش ہیں ۔  پہلا واقعہ اس طرح ہے کہ جب آپ پٹن میں وارِد ہوئے تھے اور مظفر شاہ آپ کے اِستقبال کے لیے اور آپ کو نذرانۂ  عقیدت پیش کرنے آیا تھا تب راستے میں اُسے یہ خیال گزرا کہ آپ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ  کے پوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب میں آپ کے دربار میں حاضری دوں تو اس وقت آپ ٹھیک اسی طرح برتاؤ کریں جیسا کہ میں سوچ رہا ہوں ۔  تبھی  آپ کی روٗحانیت کا حقیقی ثبوت ہو گا۔ اس نے جو بات سوچی تھی وہ یہ تھی۔
(۱) جہاں ان کا قیام ہو گا مجھے وہیں طلب فرمائیں گے۔ خود میرے استقبال کو نہیں آئیں گے۔
(۲) گھر میں اُس وقت کھانے کو جو مقرر ہو گا وہی مجھے دیں گے۔ میرے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کریں گے۔
(۳) رخصت ہوتے وقت مجھے اپنی پگڑی عطا فرمائیں گے۔
جب سلطان آپ کے دربار میں حاضر ہوا تب بعض لوگوں نے چاہا کہ اس کے شایان شانِ اِستقبال ہو۔ لیکن آپ جہاں بیٹھے تھے اسی جگہ پر اس کو قدم بوس ہونے کا موقع عطا فر مایا۔ کچھ دیر بعد آپ نے حکم دیا کہ گھر میں جو کھانا موجود ہے اسے دستر خوان پر چنوا یا جائے۔ آپ نے سلطان کے ساتھ وہیں کھانا تناول فر مایا جب سلطان نے آپ سے رخصت کی اِجازت چاہی تو آپ نے اُسے رخصت کر تے ہوئے فر ما یا کہ ’فقیروں کی پگڑی آپ کے لیے نہیں ہے۔
سلطان مظفر شاہ نہایت خوش و خرم واپس لوٹ گیا۔ اس نے حضرت کو حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ  کا حقیقی وارِث پایا۔ اور وہ حضرت کا دل و جان سے معتقد ہو گیا۔ وقت آخر تک اس کے اعتقاد میں کبھی کمی نہیں ہوئی۔
دوسرا واقعہ یوں ہے :
سلطان احمد شاہ بھی آپ کا بہت زیادہ معتقد تھا۔ اس نے احمد آبا د بسایا تب آپ سے دست بستہ عرض کی کہ آپ اس نئے شہر میں سکونت فر ما کراس (احمد آباد)کو زینت بخشیں ۔ سلطان احمد شاہ نے حضرت کی شان میں ایک قصیدہ لکھا اور حضرت کے سامنے کھڑے ہو کر نہایت ادب سے اس کو پڑھا۔ قصیدہ کی شروعات اس شعر سے کی تھی
قطبِ زمانۂ  مابر ہان بس است مارا
برہانا وٗ ہمیشہ  چوں نامش آشکارا
ترجمہ: ’’ ہمارے زمانے کے قطب حضرت سید برہان الدین قطب عا لم رحمۃ اللہ علیہ ہمارے لیے کافی ہیں ، چونکہ ان کے نامِ نامی اِسمِ گرامی سے ہی ان کا ہمارے لیے دلیل ہونا ظاہر ہے ’’۔
قصیدہ پڑھنے کے بعد سلطان احمد شاہ نے حضرت قطب عا لم رحمۃ اللہ علیہ سے انعام و صلہ مانگا۔ حضرت نے فر مایاکہ ’میرے دادا نے تم کو پہلے ہی نعمت عطا کی ہے او ردُعاِ  بھی کی ہے۔ اِس پر سلطان احمد شاہ نے عرض کیا کہ یہ دُرُست ہے کہ ہم نے جو کچھ پایا آپ کے اجداد سے ہی پایا ہے۔ لیکن آپ کے جد امجد نے جو دُعاء کی تھی وہ میری سلطنت اور میرے خاندان کے لیے تھی۔ میں حضرت سے اِلتجا کرتا ہوں کہ حضرت اس نئے شہر (احمد آباد)‘کے لیے دُعاء فرمائیں کہ یہ شہر تا ابد قائم اور آباد رہے۔ اور روز روز اس کی زینت میں اِضافہ ہو۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ اچھا میں دعا کرتا ہوں ۔  خداوند تعالیٰ کے کرم سے یہ شہر تا ابد قائم رہے گا۔ حضرت کا کرم سلطان احمد شاہ کے شامل حال رہا۔ اسے اپنی طاقت بڑھانے اور اپنا اقتدار قائم کرنے میں کافی سہولت میسر آئی۔
حضرت کی خانقاہ گجرات کے اونچے اور متوسط طبقے کا مرکز بن گئی۔ جس میں امیر،وزیر اور افسران شامل تھے۔ حضرت نے کچھ دن اساول میں قیام فر مایا اور پھر بٹوہ تشریف لے گئے۔ اور وہیں رہنے لگے۔ سلطان نے حضرت کو بٹوہ کا گاؤں نذرانے میں پیش کیا۔
سلطان احمد شاہ کا پوتا سلطان جلال خاں جو قطب الدین کے لقب سے مشہور ہے وہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مرید اور معتقد تھا۔ جب وہ تخت نشیں ہوا تب اسے بہت سی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سلطان محمود خلجی نے گجرات پر چڑھائی کر دی وہ آپ کے پاس آیا اور مدد کی درخواست کی۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو قطب الدین کے لشکر کے ساتھ کر دیا۔ اور ایک تیر عنایت فر مایا جس کی نوک حضرت نے توڑ دی۔ اور تاکید فرمائی کہ یہ تیر دشمن کے لشکر پر پھینک دینا۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تیر پھینکا تو وہ سلطان محمود خلجی کی آنکھ میں جا لگا۔ سلطان قطب الدین کا میاب و کامران لڑائی کے میدان سے واپس آیا۔

حُلیۂ   مبارکہ :
آپ کا چہرہ نورانی تھا۔ پیشانی چوڑی تھی،آنکھیں پُر خمار تھیں ۔ آپ کا قد میانہ اور ناک اوٗنچی تھی۔ آپ کی گردن باریک تھی۔ داڑھی گھنی تھی۔ فراخ دست اور شیریں سخن تھے۔

سیرتِ مبارک:
  حضرت ترک و تجرید میں یگانۂ  روزگار تھے۔ آپ توکل اور قناعت کی دَولت سے مالامال تھے۔ عشقِ اِلٰہی میں سرشار تھے۔ عبادت،ریاضت،اور مجاہدات میں زیاہ وقت گزارتے  تھے۔  لوگوں کی حاجت روائی کو ایک فریضہ سمجھتے تھے۔ آپ کا لنگر وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ آپ کی خانقاہ کے زیرِ دستور،مظلوموں ، غریبوں اور کمزوروں کے لیے جائے پنا ہ تھی۔
آپ قرآن شریف کی بے حد تعظیم و تکریم کر تے تھے۔ جہاں کلام  مجید رکھا ہوتا وہاں پاسِ ادب کی وجہ سے بیٹھتے نہ تھے۔ سخاوت اور دریا دِلی کے لیے مشہور تھے۔ علومِ ظاہری اور علومِ باطنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ہر ایک کی عزت کرتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی کی دِل آزاری پسند نہ کرتے تھے۔ اکثر فرماتے تھے انسان کی جگہ،مرتبہ اور حقیقت اس کی تعظیم کرنے کو مجبور کرتی ہے ‘۔ میں تعظیم میں مسلمان اور کافر اور امیر اور غریب کا فرق رکھانا پسند نہیں کرتا‘۔ اپنا راز چھپاتے تھے،شریعت،طریقت اور حقیقت میں کامل تھے۔

 حضرت  مخدوٗم  مشہدی  رحمۃ اللہ علیہ   سے  ملاقات :
            حضرت مخدوم مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کا نام سید حسن عرف شرف الدین اور والد محترم کا نام رُکن الدین تھا۔ آپ سید جلالُ الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور داماد تھے۔ مشہد (ایران) سے علم حاصل کرنے کے بعد مرشدِ کامل کی تلاش میں ہندوستان آئے۔ اُوچ  (موجودہ پاکستان کے ضلع بہاولپور میں)  پیرو مر شد حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر ظاہری اور باطنی عرفانی کمالات حاصل کیے۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے متعلق فرمایا تھا کہ شرف الدین تو ہمارے دین کی آبرو ہیں ۔ حضرت شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیرو مرشد حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ سے سیرو سفر کے لیے اِجازت طلب کی تو حضرت مخدوم  رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ایک مسواک اور خرنی کا بیج دے کر فرمایا آپ جہاں کہیں بھی رات گزارنے کے لیے قیام کریں وہاں یہ مسواک اور خرنی کا بیج زمین میں گاڑ دیں ۔  اور جب وہ درخت یا پودے کی شکل میں اُگ نکلے تو اسی جگہ پر قیام کرنا۔ لہٰذا حضرت شرف الد ین چلتے چلتے گجرات کے ضلع بھروچ میں دریائے نربدا کے کنارے پہنچے۔ اسی مقام پر آپ نے مسواک اور خرنی کا بیج زمین میں رات کو بو دیا۔ دوسرے دن ہرے بھرے درخت زمین سے ظاہر ہو گئے۔ چنانچہ ہدایت کے مطابق آپ نے اسی جگہ پر قیام فرمایا۔ اور اپنے طالبِ علموں کو درس دینا شروع کیا۔
          جس وقت حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ گجرات میں تشریف لائے تو آپ کی تعظیم کے لیے جانے کا حکم ہوا۔ لہٰذا آپ بھروچ سے پٹّن جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں احمد آباد میں رُکے اور حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹّو سے ملنے کے لیے سرخیز پہنچے۔ تمام رات دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی تجلّیات و انوار کا دیدار کرایا۔ صبح کی نماز کے بعد دونوں پٹّن جانے کے لیے روانہ ہوئے۔
        مخدوم شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دو بیٹے سید قطب الدین اور سعادت اﷲ کو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کے لیے کہا۔ لیکن دونوں بھائی حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے انہیں یہ ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن والدِ محترم کے سمجھانے پر انہوں نے بیعت کر لی۔ پیرو مرشد کی بیٹی ملک جہاں کے انتقال کے بعد حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی بی بی سارا مخدومہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نکاح کیا۔ (سفینتہ السادات)
       حضرت مخدوم مشہدی  رحمۃ اللہ علیہ   سماع کا بہت شوق فرماتے تھے۔ آپ کی وفات بھی بمقام کھنبایت محفل سماع ہی میں ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان ۱۸، رجب المرجب  ۸۰۸  ھ کو ہو ئی۔ وہاں سے بذریعہ جہاز آپ کے جسدِ مبارک کو بھروچ لا کر آپ کی خانقاہ کے قریب دفن کیا گیا۔

حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ   کی وفات:
  ۶۷  سال۴  ماہ اور ۲۰  دن کی عمر میں آپ بستر مرگ پر تھے۔  حضرت کو بخار آتا تھا مگر اس حالت میں بھی حضرت نے نماز،نوافل اور اد و وظائف جاری رکھے۔ وفات سے قبل حضرت نے شیخ مبارک سے خوش ہو کر کہا کہ ’اب ہم ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس دُنیا سے جا رہے ہیں ۔ ‘حضرت نے تین مرتبہ  یَا حَیُّ۔ یَا قَیُّوْمُ۔ یَا کَرِیْم۔ کہا۔ اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے۷  ذی الحجّہ ۸۵۷ھ  مطابق۔ ۱۰ دسمبر۱۴۵۳ِ  کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس وقت دہلی میں لودھی خاندان کا بادشاہ بہلول لودھی حکمران  تھا۔ آپ کا مزارِ پر انوار بٹوہ میں (احمد آبا د کے قریب)فیوض و برکات کا سر چشمہ اور مرجعِ خاص و عام ہے۔ سلطان محمود بیگڑا نے آپ کے مزار اقدس پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔
آپ کے ہزاروں مرید پورے گجرات میں بلکہ پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت بڑی تھی اس میں سے چند کے نام یہاں پیش ہیں : حضرت مخدوٗم،شیخ محمود دریانوش رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سید احمد شاہ پیر رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سید محمد اصغر  عرف شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ صادق، حضرت شاہ سالِم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ راجو رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مخدوم شیخ صالح رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شیخ عبد اللطیف رحمۃ اللہ علیہ ،حضر ت سید عثمان برہانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ وغیرہم۔
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ   فرما تے ہیں ’پانچ بزرگوں کو خداوند تعالیٰ نے ایسا بلند مرتبہ عطا فر مایا ہے کہ حیاتِ ظاہری میں وہ قطب تھے اور وِصال کے بعد بھی وہ قطب رہے۔ ان کی قطبیت ان سے لی نہیں گئی۔ ان پانچ بزرگوں کے نام یہ ہیں :
(۱)  میرے والد یعنی حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ
 (۲)  حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ
 (۳)  حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ
 (۴)  حضرت معروف کرخی  رحمۃ اللہ علیہ
(۵)  حضرت خواجہ با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت فرماتے تھے کہ ’نبی کریم  ﷺ کے مبارک نام کا  وِرد کرنا بہتر ہے۔  اگر محمد کہتے ہوئے مر جائیں تو بیڑا پار ہے۔ حضرت نے اپنے صاحبزادے حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘یَا لَطِیْفُ‘‘ پڑھنے کی تلقین فرمائی۔  حضرت اکثر عشاء کی نما ز کے بعد‘‘یَا حَیُّ یَا قَیُّوْم‘‘ کا وِرد فرماتے تھے اور  ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘کا ذِکر فرما تے تھے۔



حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ   کا  مسلک و مشرب

دین اِسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت ہی عظیم الشان نعمت، بیش بہا خزانۂ  اِلٰہی،دُنیا و آخرت میں کامرانی و کامیابی کا بہترین ضامن، پیدائش سے موت تک کا ضابطۂ ِ حیات، امیری غریبی،حکومت و سلطنت کے قانون،خرید و فروخت،نکاح و طلاق کے تمام احکام، عذابِ دوزخ سے نجات، جنت میں داخل ہو نے کا عمدہ ذریعہ،قربِ خداوندی کا عمدہ وسیلہ ہے،اسی دینِ اِسلام پر چل کر بندہ خدا کا خاص بندہ ولی و دوست ہو جاتا ہے،انہیں اولیاء کرام نے دین اِسلام کو اپنے اخلاق و کردار سے دُنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا آج بھی یہ اولیائے کرام اپنے روحانی فیوض سے لوگوں کو فیضیاب فرما رہے ہیں ۔  لیکن دین اِسلام کے ماننے والے اور سینے سے لگائے رکھنے والوں میں بہت سی جماعتیںا ور متعدد فرقے ہیں ۔ ان میں سنی،شیعہ جیسی بہت سی جماعتیں ہیں ،لیکن بفضلہ تعالیٰ دُنیا میں سب سے زیادہ تعداد اہل سنت والجماعت ہی کی ہے۔ اِسلام میں جو بھی فرقے اب تک بنے ہیں ، وہ اہل سنت والجماعت ہی سے الگ ہو کر بنے ہیں ، قطب الاقطاب حضرت برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ کے عقائد و اعمال کیا تھے ؟۔ اور وہ کون سی جماعت سے منسلک تھے؟ اُن کے آباء و اجداد کس مذہب و مسلک پر قائم تھے ؟اور انہیں کون کون سے سلسلے کے بزرگوں سے بیعت و اِرادت اور خلافت کے خرقے حاصل تھے؟۔ ان سب کا ذکر یہاں ہم مشہور و معروف بزرگوں کے اقوال اور تاریخی کتابوں کے حوالے سے پیش کریں گے۔ خلد آشیانی بزرگوں میں سے کسی کے بھی حالات و واقعات معلوم کرنے کا یہی طریقہ ہے : اولیائے کرام کے عقیدت مندوں ،اور ان کی اَولا د اَور نسلوں کو اپنے آباء و اجداد و بزرگوں کے احوال و عقائد اِسی طرح  معلوم ہوتے ہیں ۔
تو آئیے اس باب کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ  سنی  کسے کہتے ہیں اور  شیعہ کسے کہتے ہیں ؟
اہل سنت و جماعت اس کو کہتے ہیں جو حضو ر اکرم  ﷺ کی سنت مبارکہ،صحابۂ  کرام کے طریقہ کی اِتبا ع اور پیروی کرے۔ تمام صحابۂ  کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ م اجمعین کا احترام کرے۔ ان سے عقیدت رکھے،چاروں خلفاء حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین کو برحق خلیفہ مانے۔ حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انبیاء کے بعد تمام صحابہ سے افضل و اعلیٰ جانے،نبیوں کے علاوہ کسی صحابی وا مام کو گناہ سے معصوم نہ مانے۔ (شرح عقائد نسفی)
سنت سے متعلق ایک حدیثِ پا ک پیش ہے جس سے نبی کریم ﷺا ور صحا بۂ  کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ م کی سنت کا مطلب زیادہ واضح ہو جائے گا۔  حضرت ارباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم  ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی اور ہم سب کی طرف متوجہ ہوئے اور دل میں اثر کرنے والا وعظ فرمایا۔ جس سے صحابہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور دل لرز اُٹّھے، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ  ﷺ !  یہ وعظ تو وداع (رخصت)ہونے والا وعظ ہے۔ اس لیے آپ ہمیں وصیت فرمائیں :اس پر رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تم لوگوں کو اللہ تعا لیٰ سے ڈرنے،اس کا حکم ماننے اور اس کی فرماں برداری کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ اگرچہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ ،کیونکہ تم میں جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اِختلاف دیکھے گا۔ تو تم ایسے وقت میں میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا، اسے مضبوطی سے تھا مے رہنا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کو پکڑے رہنا اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے دوٗر رہنا کیونکہ دین میں نئی بات پیدا کرنا بدعت ہے۔ ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان)
یہاں خلفائے راشدین سے مراد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ م اجمعین ہیں ۔  ان کی سنت پر عمل کرنا ہے کیونکہ  ان حضرات نے اپنی پوری زندگی رسول اکرم  ﷺ کی ہی ہدایت و سنت ہی پر گزاری تھی۔
حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فر مایا کہ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرو اُن کو میرے بعد(طعن و اِعتراض کا) نشانہ نہ بنا لینا۔ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ناراض کیا۔ جس نے اللہ کو ناراض کیا اسے اللہ تعالیٰ پکڑے گا۔ (ترمذی ابواب المناقب)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب تم لو گوں کو دیکھو جو میرے صحابی کو برا کہتے ہیں تو کہو تم پر تمہارے اس برا کہنے کی وجہ سے اللہ کی لعنت ہو۔  (ترمذی ابواب المناقب)
  برہان الحق والدین حضرت برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ علم و عمل، ولایت و بزرگی،تقویٰ پرہیزگاری اور آپ کے آباء و اجداد کے حالات و واقعات کے مطالعہ سے خوب واضح اور ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ نے دین اِسلام کی تبلیغ،سنت نبوی  ﷺ کی اشاعت اور سلسلۂ  سہروریہ کو پوری قوت و توانائی ذوق و جذبے کے ساتھ فروغ دیا۔ اور شہر شہر گاؤں گاؤں امیر و غریب بادشاہوں کے درباروں تک سنیت اور سلسلۂ  سہر وردیہ کا پرچم لہرا دیا،لوگوں کو بد عقیدگی سے بچا کر دین اِسلام اور سنت پر قائم رکھا۔
نواب صدیق حسن خاں کنّوجی کی سوانح عمری’’ معاصر صدیقی ‘‘مصنف نواب علی حسن خاں حضر ت قطب عالم علیہ الرحمہ کے جدِّ اعلیٰ حضرت مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت کے رحمۃ اللہ علیہ بارے میں لکھتے ہیں :
‘‘آپ علومِ کتاب و سنت کے جوہرِ فرد اور کمالاتِ باطنی کے دَوران تہذیب و اخلاق اور ملکاتِ روحانی کے سہیلِ یمن تھے۔ ’’ (معاصر صدیقی صفحہ : ۳۷) صاحب نزہت الخواطر لکھتے ہیں :
’’وہ ذہین عالم نیکیوں اور عبادت میں کوشش کرنے والے عبادت گذار مرتاض،۔ ممتاز محدّث،اصول و فروع میں مسلک حنفی کے ماننے والے تھے۔ امام ابو حنیفہ کے مذہب پر فتویٰ دیتے تھے۔ وہ عزیمت پر بہت عمل کرتے تھے اور رخصت کو نظر انداز کر دیتے تھے۔
حضرت مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کو چشتیہ سلسلے میں خرقۂ  خلافت حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل تھا۔ جواہرِ جلیل کے مرتب لکھتے ہیں :
حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے خرقۂ  تبرّک شیخ الاسلام نصیر الحق والدّین محمود اودھی رحمۃ اللہ علیہ سے پہنا۔ ‘‘
قاضی علاء الدین صدرِ جہاں حضرت مخدوم کی خدمت میں اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کہا کہ ختم تراویح کی رات میں امام کو چاہیے کہ چند آیتوں کے بعد سورۂ  اخلاص پڑھے تاکہ نماز کا جواز متّفق علیہ ہو جائے اس لیے کہ امام مالک کے نزدیک سورۂ  اخلاص کا پڑھنا مع سورۂ  فاتحہ کے فرض ہے۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت اِمام مالک کے نزدیک ایسا فرض نماز میں ہے۔ نفل میں نہیں ہے۔ میں نے ممالکِ عرب میں مالکیوں کو دیکھا ہے کہ تراویح ختم کرتے ہیں اور آخر میں کوئی سورت نہیں پڑھتے اَور صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
(بحوالہ الد رالمنظوم:مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ،حیات و تعلیمات از،ڈاکٹر محمد ایوب قادری صفحہ : ۱۶۲)
 اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اہلِ سنت والجماعت کے مسلک پر قائم تھے۔
 حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ  کا سلسلۂ  بیعت و اِرشادات بہت وسیع تھا۔ صاحب مر اۃ القدّوس لکھتے ہیں :
ان کے ایک لاکھ ستر ہزار دو سو چھیاسی(۲۸۶،۷۰،۱)مرید تھے۔ وہ حنفی مذہب رکھتے تھے۔ اور ان کے تمام مرید بھی اسی  مذہب کے پیرو (ماننے والے)تھے۔
(بحوالہ : مراۃ القدّوس (کلیمی)ورق نمبر ۲۸۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ حیات و تعلیمات۔ از ڈاکٹر محمد ایوب قادری۔  صفحہ : ۲۳۵)
خزانۂ  جلیلی(قلمی) کے مصنف لکھتے ہیں :
حضرت مخدوم فقہ میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ائمۂ اربعہ (چاروں اماموں)کے مذاہب پر ان کی پوری نگاہ تھی۔ درس کے دَوران مختلف مذاہب کا فرق بیان فرماتے اور فقہ حنفی کی جامعیت کو ذہن نشین کراتے۔ ایک مرتبہ ایک مرید پیتل کا پیالہ لایا۔ انہوں نے اس پیالے کو قبول کر لیا اور پھر فرمایا کہ اِمام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی رو ٗسے پیتل کے پیالے میں کھانا پینا دُرُست ہے۔ ‘‘ مدرسۂ  جلالیہ میں ہدایہ کا بالالتزام درس ہوتا تھا۔ ان کے پوتے حامد بن محمود نے ہدایہ (کتاب الحج کے آگے کا حصہ)خود حضرت مخدوم سے پڑھا۔ ‘‘
  مذکورہ بالا حوالوں اور عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے جدِّ اعلیٰ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ اہلِ سنت والجماعت کے علم بردار اور مذہبِ حنفی کے پیروکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پُر انوار کے بلند ترین گنبد پر اہلسنّت والجماعت کا سبز پرچم (ہرا جھنڈا) لہرا رہا ہے۔ درگاہ حضرت قطب عالم کے سلسلہ وار سجادہ نشین اور موجودہ سجادہ نشین عالی جناب عزت مآب سید شمیم حیدر صاحب قبلہ مدظلہ الاقدس بھی مسلک اہل سنت و جماعت پر قائم و دائم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی علم و عمل میں روزبروز ترقی عطا فرمائے اور درگاہِ قطبِ عالم کی شاہی مسجد میں سنی حنفی مسلک ہی کے اِمام برسہا برس سے اِمامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
اہلسنت کے طور و طریقہ کے مطابق اوراد و وظائف،ذکر و اذکار،فاتحہ و نیاز، دروٗد  و سلام صندل شریف اور عرس کی رسوم (رسمیں)اور ایصالِ ثواب ہو رہا ہے۔ روزانہ عقیدت مندوں کی حاضری ہو رہی ہے اور محبت و عقیدت کے پھوٗل پیش کیے جا رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ سالوں نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ تا قیامت جاری رہے گا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے اب تک تمام بزرگان دین، بادشاہوں نیز امیروں نے آپ کی سنیت و بزرگی کی وجہ سے آپ کا ادب و احترام کر کے فیوض و برکات حاصل کیے۔
’’جامع الطرق‘‘  ایک عربی قلمی نسخہ جو حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کی عظیم ترین تصنیف ہے اس میں بیعت و ارادت کے سلسلوں اور خرقوں سے متعلق ذِکر ہے۔ اس کتاب سے بھی حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کا سنی مسلک ہونا خوب واضح ہو جاتا ہے یہ کتاب آندھرا  پردیش گورنمنٹ اوری اینٹل مینیو اسکرپٹس لائبریری اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، عثمانیہ یونیور سٹی کیمپس، حیدر آباد۔ ۹  میں موجود ہے۔ اس لائبریری کے قانون کے مطابق اس کا عکس حاصل کیا گیا پھر حیدر آباد کے علمائے کرام سے اس کا عربی سے اردو میں ترجمہ بھی کروایا گیا یہ کتاب راقم کو بھی دیکھنے کے لیے عنایت فرمائی گئی میں نے اس کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔ صدیوں پرانی اس کتاب کے اوراق بوسیدہ اور اس کی کتابت پارینہ ہو جانے کی وجہ سے شروع کے اوراق کے کچھ حروف پڑھنے میں دشواری ہوئی پوری کتاب ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے بعض اوراق میں حاشیے میں اور بین السطور(سطروں کے بیچ کی)تحریر کر کے تشریح اور وضاحت بھی کی گئی ہے۔ حضرت قطب عالم برہان الدین۔ ناصر الدین۔ جلال الدین جہانیاں جہاں گشت سے لے کر آخر تک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم  ﷺ تک نام درج ہیں ۔ شجرۂ  احمدیہ،قادریہ،مغربیہ،سہروردیہ وغیرہ کے بزرگوں کے اسمائے گرامی(مبارک نام)اس میں درج ہیں ۔  اجازت لے کر میں نے جدید طور پر کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعہ اس کا مبیضہ تیار کیا چنانچہ’’جامع الطرق‘‘ اب ہمارے کمپیوٹر میں موجود ہے نمونے کے طور پر شجرۂ  حسینیہ،قادریہ،نظامیہ،مغربیہ، سہروردیہ، کے بزرگوں کے اسمائے گرامی قارئین  (پڑھنے والوں)کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں ۔
ان سلسلوں کے تمام اولیائے کرام مشائخ عظام مسلکِ اہلسنت والجماعت سے منسلک ہیں انہیں بزرگوں سے حضرت قطب عالم، حضرت شاہ عالم علیہ الرحمۃ کو بیعت و ارادت،خرقہ و خلافت کی عظیم روحانی نعمتیں حاصل ہیں ۔ اس سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت قطب عالم، حضرت شاہ عالم علیہ لرحمۃ، سلسلۂ سہروردیہ کے علاوہ سلسلۂ قادریہ، مغربیہ کے بھی علمبردار تھے۔ جنہوں نے گجرات کے علاوہ پورے ہندوستان میں ان بزرگوں کے اسمائے گرامی (مبارک ناموں) اور بزرگی سے لوگوں کو واقف فرمایا۔
شیخ طریقت و معرفت حضرت شیخ احمد کھٹّو علیہ الرحمۃ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں آپ بابا اسحاق مغربی کے مرید اور خلیفہ تھے احمد شاہ بادشاہ کے دور حکومت میں حضرت شیخ احمد کھٹّو علیہ الرحمۃ سرخیز،احمد آباد تشریف لائے وہیں قیام پذیر ہو کر دین اِسلام کی تبلیغ فرماتے رہے۔ شیخ المشائخ حضرت سید جلال الدین جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا یہی زمانہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا تھا شیخ احمد کھٹّو علیہ الرحمۃ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بہت شفقت و محبت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ بھی اکثر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر فیوض و برکات حاصل کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ شیخ احمد کھٹّو کی ملاقات کے لیے سرخیز تشریف لائے تو حضرت شیخ احمد کھٹّو علیہ الرحمۃ نے سلسلۂ  مغربیہ کی خلافت سے سرفراز فرمایا، ایک مصلّٰی،ایک تشت (تھال)اور ایک لوٹا،جس سے آپ وضو بنایا کرتے تھے عنایت فرمایا، (اجداد حضرت شاہ عالم)اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح  حضرت شیخ احمد کھٹّو علیہ الرحمہ سنیت کو فروغ دیتے رہے اسی طرح حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کو خلافت سے نواز کر سنیت کی اشاعت فرمائی،اور حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ نے بھی مسلک اہلسنت کو گجرات اور بیرونِ گجرات میں خوب پھیلایا آج پورے ہندوستان میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں ۔
جب حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ پٹن میں قیام پذیر تھے احمد شاہ بادشاہ نے آپ کو  ۸۱۴ ھ میں شہر احمد آباد کی بنیاد رکھنے کے لیے دعوت پیش کی۔ واضح ہوکہ سلطان احمد شاہ بادشاہ شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ جب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری ہوئی تو احمد شاہ بادشاہ نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔
اور آپ کے خدمت میں حاضر ہو کر بڑے ادب و احترام کے ساتھ قصیدہ پڑھا اور دُعا کی درخواست پیش کی حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ نے ان کے لیے دُعا فرمائی۔ (اجداد  شاہ عالم)
  سلطان احمد شاہ بادشاہ سنی حنفی مسلک پر قائم تھے اسی مسلک پر اس دُنیا سے رخصت ہوئے۔ اب بھی ہر سال محلہ حجیرہ متصل جامع مسجد احمد آباد میں آپ کا عرس منایا جاتا ہے اہل سنت والجماعت کے لوگ اس میں شریک ہو کر ایصال ثواب کیا کرتے ہیں ۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ بخاری اور سہروردی کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پر داداسید جلال الدین سرخ پوش علیہ لرحمۃبخارا کے رہنے والے تھے۔  اسی نسبت سے بخاری کہلاتے ہیں ۔ سہروردی اس لیے کہلاتے کہ آپ کے پر دادا جلال الدین سرخ علیہ الرحمہ نے حضرت خواجہ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و ارادت حاصل کی تھی۔ اور حضرت خواجہ بہاء الدین زکریا ملتانی حضرت شیخ الشیوخ خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت خواجہ شہاب الدین سہر وردی رحمۃ اللہ علیہ غوثِ اعظم حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی دُعا سے پیدا ہوئے۔ تو آپ نے فرمایا یہ بچہ اولیائے کرام میں بلند مقام پر فائز ہو گا ان کا علم وسیع اور عمردرازہو گی۔ اور حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شیخ الاِسلام والمسلمین حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کے پوتے شیخ الطریقت والمعرفت حضرت رکن الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و اِرادات حاصل کی تھی۔ اور حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والد نا صر الحق والدین حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و خلافت ملی تھی۔ اسی نسبت سے آپ سہروردی کہلاتے ہیں ۔                        (تاریخ اولیاء گجرات۔ اجداد حضرت شاہ عالم)
تاریخ اولیاء گجرات میں ہے کہ : حضرت خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت خواجہ رکن الدین کان شکر چشتی علیہ الرحمہ پٹن گجرات میں حق و صداقت کے طالبان کو روٗحانی فیوض و برکات سے مستفیض فرما رہے تھے۔ دوٗر دراز سے تشنگانِ طریقت و معرفت بارگاہ چشتیہ میں حاضرہو کر معرفت کے جام سے سیراب ہو رہے تھے۔ اسی خوشگوار پر بہار ماحول میں حضرت قطب زماں برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ سرزمینِ پٹن میں تشریف لائے حضرت مخدوم بخاری جہا نیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ کے چھوٹے بھائی حضرت قطب عالم کے چچا حضرت علا مہ فیض العارفین سید صدرالدین راجو قتال علیہ الرحمۃ کی ہدایت کے مطابق حضرت قطب عالم شیخ طریقت و معرفت حضرت رکن الدین کان شکر علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر روٗحانی و عرفانی علوم ظاہری و باطنی سے اپنے قلب کو نور و انوار سے لبریز کر لیا۔
اس بصیرت افروز واقعہ پر یہ غور کرنا ہے کہ حضرت شیخ طریقت حضر ت خواجہ رکن الدین علیہ الرحمہ جو حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر علیہ لرحمۃ کے پوتے اور حضرت خواجہ فرید الدین علیہ الرحمہ کے مرشد برحق حضرت خوجہ قطب الدین بختیار کاکی  علیہ الرحمہ ہیں ۔ اور ان کے پیرو مرشد خواجۂ  خواجگاں عطاء رسول ہند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری غریب نواز  علیہ الرحمہ ہیں ۔ خواجہ غریب نواز کا فیض روحانی حضرت خواجہ رکن الدین  علیہ الرحمہ کے واسطے اور حضرت مخدوم بخاری جہا نیاں جہاں گشت  علیہ الرحمہ کے فیوض و برکات و تبرکات حضرت راجو قتال کے ذریعہ حضرت قطب عالم تک پہنچے۔ جس سے آپ نے گجرات کو علم و فیض سے سر سبز و شاداب فرما دیا۔ ان بزرگان عظام کا حضرت قطب عالم  علیہ الرحمہ پر اتنی شفقت و نظر و عنایت کے بعد کوئی شک وشبہ کی کو ئی گنجائش نہیں رہتی، بلا شک و شبہ یقینًا حضرت قطب الاقطاب برہان الدین قطب عالم  علیہ الرحمہ اہل سنت والجماعت کے مبلغ اور سلسلۂ  سہروردیہ کے علم بردار تھے۔ اور تمام اہل سنت کے سلاسل قادری چشتی وغیرہ کے  حامیا ور عقیدت مند تھے۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی  علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ اور حضرت چراغ دہلوی  علیہ الرحمہ کی وِلایت و عظمت کا یہ عالم تھا کہ جب مخدوم بخاری جہا نیاں جہاں گشت  علیہ الرحمہ مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ایک رات طواف کے لیے حرم پاک میں آئے تو دیکھا کہ کعبۂ  معظمہ اپنی جگہ موجود نہیں ہے۔ ابھی آپ حیرت میں غرق ہی تھے کہ آواز آئی کعبہ اس وقت نصیر الدین چراغ  علیہ الرحمہ کے طواف کے لیے دہلی گیا ہوا ہے۔ حضرت مخدوم بخاری علیہ الرحمہ کے دل میں حضرت چراغ دہلوی  علیہ الرحمہ کی ملاقات کا اِشتیاق پیدا ہوا آپ ہندوستان آ کر حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی  علیہ الرحمہ کی بارگاہِ عالیہ میں بڑی عقیدت و اُ لفت کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے اورآپ نے جو کچھ سوچا تھا وہ سب پا یا۔ اور گوہرِ مراد سے اپنا دامن بھر لیا۔ حضرت خواجہ نصیر الدین  علیہ الرحمہ نے خلافت و خرقہ سے سرفراز فرمایا۔ (اخبارالا اخیار)ایسے عظیم مرشدِ برحق کے خاص مرید فیض العارفین عظیم البرکت حضرت سید محمد بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کا (نہایت وسیع شاندار مزار شر یف گلبرگہ کرناٹک میں ہے، راقم الحروف کو زیارت کا شرف حا صل ہوا ہے) آپ نے جب پٹن گجرات میں قدم رنجہ فرمایا اور پٹن کی جامع مسجد میں حضرت قطب عالم  علیہ الرحمہ پر نظر پڑی تو نظرِ ولایت سے پہچان لیا کہ قطبِ زماں کے تاج سے سرفراز ہونے والا ہے۔ آپ نے اپنے خادم سے دعوت دے کر فرمایا کچھ دن ہمارے نورانی محفل میں قیام پذیر رہیں ۔ تاکہ اپنے سلسلے کے بیش بہا نعمتوں سے شاداب کر دوں ۔ چنانچہ حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے اپنے فیوض و برکات سے باغ و بہار فرما دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے از خود دعوت دے کر حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کو اپنے فیوض روٗحانی سے مزین و آراستہ فرمایا۔ ایسی عظمت اور نعمت و برکت انہیں کو ملتی ہے جو دین  و ایمان میں کامل سچے،سنت نبوی اور تمام صحابۂ  کرام بالخصوص خلفائے راشدین کے طریقہ پر چلنے والے اور عقیدت مند ہوتے ہیں کسی بد عقیدہ یا صحابہ کے گستاخ کو یہ شرف وبزرگی ہرگز حا صل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالی برہان الحق والدین حضرت برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزا رِ پر انوار پر رحمت و نور کی بارشیں نازِل فرمائے اُن کے فیوض و برکات سے عقیدت مندوں کو مالامال فر مائے۔ آمین۔    بِجاہِ سید المرسلین علیہ لصلو ۃ والسلام



حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات

ملفوظات  و اقوال
(۱) حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ اکثر اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے۔ اَے نفس! اَے شیطان کے اُستاد ! مجھے تیری باتیں کبھی بھی منظور نہیں ۔  خدائے پاک کی پاک ذات تو اِنسان کے اَوصاف سے زیادہ پاک و صاف ہے۔  اللہ تعالیٰ کی ذات کبھی فنا ہونے والی نہیں ۔  وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں فنا ہونے والی ہیں ۔  اَے نفس مجھ سے دھوکہ بازی نہ کر۔ شیطان مختلف قسم کی چالیں چل کر مجھے میرے مقام و مرتبے سے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔  اگر تیری  دلیل سچ ہو تو میں ابھی تجھے آزماتا ہوں ۔  قلعے کی دیوار سے میں تجھے نیچے پٹکتا ہوں ۔  اس کے با وجود اگر کچھ ایذا نہیں پہنچی تو میں سمجھوں گا کہ تو دھوکہ نہیں دیتا۔
(۲) حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے  ایک حدیث پاک نقل کرتے ہوئے فرمایا :
’’الصِّدق ُ ینجی اساڈ ی مایا پونجی ’’
نبیِ کریم  ﷺ کا یہ اِرشاد گرامی ہے اپنی ہماری متاع تو صدق اور سچائی ہے۔ راست بازی اور سچائی مومن کی متاع اور نجات کا سبب ہے۔
(۳)حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا : نبیِ کریم ﷺ کے مبارک ناموں کا وِرد کیا کرو۔ اس سے حضور کے ساتھ ایک مخصوص قسم کا تعلق پیدا ہو گا۔  اگر ایسی حالت میں موت واقع ہوئی تو مرنے والا صاحبِ ذوق اور ہدایت یافتہ ہو کر مرے گا۔
(۴)ایک مرتبہ سکرات کے وقت تلقین کرنے کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ جب کوئی نزع کی حالت میں ہو تو اسے کلمۂ  طیبہ (لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہ)  پڑھوانے میں یہ خطرہ ہے کہ اگر وہ صرف آدھا کلمہ ہی پڑھے اور اِسی حالت میں موت آ جائے تو کفر کی حالت میں موت واقع ہو گی۔  (اپنا کوئی اللہ اور معبود نہیں ہے)کہتے ہوئے دُنیا سے جائے گا۔  اِس لیے اَفضل یہ ہے کہ اُسے مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنے کی تاکید کی جائے۔  اس طرح کفر کا خطرہ کبھی نہ رہے گا۔  مرنے والے کے دَرجات بلند ہوں گے۔



حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے اوصافِ حمیدہ،  اَخلاق کریمانہ، اِنسان دوستی، بھائی چارہ

تَخَلُّّقُوْ بِِاَخْلَا قِِ اللّٰہ اللہ تعالیٰ کے اَوصاف اپنے اندر پیدا کیجیے۔  اِس حدیثِ پاک کے مطابق حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے اَوصاف بہت ہی عمدہ و اَعلیٰ تھے۔  آپ اپنے نوکر چاکر کو بھی سخت،غلط، طعنہ و طنز بھرے الفاظ سے نہ پکارتے تھے۔  آپ نہایت حلم اور خاکساری سے پیش آتے۔  آپ کے پاس جو بھی تحفہ و نذرانہ آتا اسے غریبوں اور  محتاجوں میں تقسیم کروا دیتے۔  آپ اس قدر نرم طبیعت تھے کہ بھنگیوں ہریجنوں ، اور ملازموں کا بھی احترام کرتے۔ آپ فرماتے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں ۔  زندگی بھر یہ لوگ جس قسم کی خدمت کرتے ہیں ویسی خدمت کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ان کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
ذیل میں حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے اَوصاف، بلند اخلاق،انسانی دوستی، بھائی چارہ، اور احترامِ آدمیت سے متعلق چند واقعات درج کیے جاتے ہیں :

(۱)   میرے پیر نہ چومو :
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی آپ کے ہاتھ پیر کو بوسہ دے۔ آپ اس بات کی بہت احتیاط کرتے تھے کہ تعظیم کی غرض سے بھی کوئی آپ کے ہاتھ یا پیر نہ چومے۔  اس فعل سے روکنے کے لیے آپ نے ایک شخص کو مقرر کر رکھا تھا۔  آپ سلام کر کے مصافحہ کرنے کی تعلیم ہی سب کو دیتے تھے۔  ایک مرتبہ ایک مرید نے چاہا کہ اپنے ہاتھ سے حضرت کے پیروں کو چھوئے۔ اس نے سوچا کہ آپ کے پیچھے چپکے سے جا کر آپ کے قدموں میں گر جائے۔ چنانچہ اس نے ایک مرتبہ اس طرح آپ کی قدم بوسی کا اِرادہ کیا۔  حضرت اس کا اِرادہ سمجھ گئے لہٰذا وہ پیچھے سے آیا حضرت نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ مجھے معاف کرو میرے پیر نہ چومو۔

(۲)   وہ پاگل ہے لیکن میں تو ہوشیار ہوں :
ایک مرتبہ ایک مجنوں شخص نے آپ کو سات مرتبہ سلام کیا۔ اس وقت آپ گھوڑے پر سوار تھے۔ آپ نے ہر مرتبہ گھوڑے سے نیچے اتر کر اس کے سلام کا جواب دیا۔  ایک خادم نے عرض کیا کہ حضور یہ شخص تو پاگل ہے۔  پھر حضور نے اس کی اس قدر تعظیم و تکریم اور احترام کیوں کیا کہ ہر مرتبہ اس کے سلام کا جواب آپ نے سواری سے اُتر کر دینے کی زحمت فرمائی۔ حضرت نے فرمایا :’’وہ شخص بھلے پاگل ہے لیکن میں تو ہوش مند ہوں ‘‘ اس کے بعد  آپ نے فرمایا،’’ میں کیا کروں انسان کا اِحترام، مرتبہ،اور اس کی حقیقت مجھے اس کی تعظیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔  اور اسی لیے میں تعظیم کرنے میں مسلمان اور کافر اور امیر و غریب کا فرق کرنا پسند نہیں کرتا۔  میرے نزدیک سارے انسان بھائی بھائی ہیں اور ہر اِنسان کی عزت اور ادب کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ ‘‘

(۳)   ہندو جلاہن کا واقعہ:
ایک ہندو جلاہن حضرت کے دولت کدے میں جھاڑوٗ پونچھے کا کام کرتی تھی :ایک مرتبہ اس کے پیرکی چپّل گندگی میں گر گئی۔ اس نے گھر کے کام کاج کی مصروفیت کی وجہ سے چپّل وہیں چھوڑ دی۔  اور سوچا کہ بعد میں اُٹھا لوں گی۔ اِتفاقاً حضرت کی نظر گندگی میں پڑی ہوئی اسی چپّل پر پڑی تو آپ نے نجاست سے نکال کر اسے اپنے دست مبارک سے دھویا اور کسی دوسری جگہ خشک ہونے کے لیے رکھ دیا۔  جلاہن کو اپنی چپّل یاد آئی اور اس جگہ جا کر دیکھا تو چپّل وہاں نہ تھی۔ بڑی حیرانی ہوئی اور چپّل نہ پا کر زار و قطار رونے لگی۔  حضرت کی نظر اس پر پڑی تو رونے کا سبب پوچھا۔ اس نے اپنی چپّل غائب ہونے کے متعلق عرض کیا۔ آپ نے بڑی شفقت  و محبت سے فرمایا کہ روتی کیوں ہے۔  میں نے تیری چپّل دھو کر فلاں جگہ رکھ دی ہے۔  جلاہن آپ کا یہ حسن سلوک اور روا داری دیکھ کر کانپ گئی۔  وہ شرم کے مارے آپ کے سامنے سے ہٹ گئی۔ حضرت نے بڑھ کر اسے اس کی چپّل دے دی۔ اور بڑی نرمی سے فرمایا، ’’ مادرِ شفیقہ(مہر بان ماں)ایسا کیوں کرتی ہے، لے اپنی چپّل لے جا اور شرم کیوں کر رہی ہے،کیا تو ہم سے ناراض ہے ؟ بچپن میں تو ماں اپنے بچوں کو پاک صاف کرتی ہے، اُن کی گندگی اٹھاتی ہے، لیکن اَے بہن !تو تو زندگی بھر ہماری گندگی اُٹھا کر ہماری چیزوں کو پاک صاف رکھتی ہے۔  لوگوں کی جو خدمت ہم نہیں کر سکتے وہ خدمت تو کرتی ہے۔  پھر بھی ہم سے شرم کرتی ہے۔ ‘‘  حضرت کے یہ محبت بھرے الفاظ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے سوچا کہ میرے مذہب کے لوگ مجھے نیچ قوم کا سمجھتے ہیں ۔  اور ہمیں نفرت سے دھتکارتے ہیں ۔ آج اِن بزرگ نے نہ مجھے دُھتکارا نہ نفرت کی اور دوسرے خادموں کے برابر مجھ سے نیک سلوک کیا۔  لاکھوں لوگ ان بزرگ کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور ایسے بڑے بزرگ نے میری گندی چپّل صاف کر کے رکھی اور مجھے عزت کی نظر سے دیکھا اور ماں بہن کہ کر پکارتے ہیں ۔  وہ آپ کا حسن سلوک دیکھ کر آپ کے قدموں میں گر پڑی، اور اُسی وقت مشرف بہ  اِسلام ہو گئی۔  (یعنی ایمان لے آئی۔ )

(۴)   ہندو حجّام داخلِ  اِسلام ہوا :
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ بڑودہ سے احمد آباد تشریف لا رہے تھے۔  راستے میں ایک عمر رسیدہ ہندو حجّام نے کئی بار آپ کو سلام کیا تو آپ نے گھوڑے سے اُتر کر اُس کو سلام،سلام، سات مرتبہ جواب دیا۔ حجّام نے آپ کے اس حسنِ  اخلاق سے اِسلام قبول کر لیا۔
آپ کے مقرّبین (مریدوں) میں سے حضرت بابا شاہ  فرُّخ نے گھوڑے سے اُتر کر خوش خلقی سے سلام کا جواب دینے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا کروں ۔  حقیقتِ اِنسانی نے مجھے اس کی تعظیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور پھر یہ شعر ارشاد فرمایا،
نظر پاک این  چُنیں بلند
نازنین جملہ نازنیں بینند
(۵)   مخدوم نگر کا نام ‘‘ وٹوا ’’ رکھوایا :
ایک مرتبہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ گھومتے گھومتے وٹوا پہنچے۔ آپ کو وہاں کی زمین بہت پسند آئی۔ آپ نے فرمایا۔ مجھے اِس زمین سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔  آپ اس زمین کے مالک’ وٹوا‘ نامی ایک کسان کے پاس گئے اس نے اپنی زمین آپ کو تحفے میں  دینے کا اِرادہ ظاہر کیا۔ لیکن آپ نے خرید کر اور قیمت دے کر زمین لینے کے لیے کہا۔  وٹوا  نہیں مانا لیکن آپ نے قیمت دے کر ہی زمین خریدی۔ اور اپنے صاحبزادوں سے کہا کہ مجھے یہیں دفن کرنا۔ آپ کے اِنتقال کے بعد آپ کے خلیفہ وغیرہ نے اس جگہ کا نام’ مخدوم نگر‘ رکھا  کچھ دِنوں کے بعد آپ کے صاحبزادوں اور خلفاء کو خواب میں آ کر آپ نے بتایا کہ اس جگہ کا نام آپ لوگوں نے ’مخدوم نگر ‘کیوں رکھا۔  اِس کا نام اِس جگہ کے مالک ’وٹوا‘ کے نام پر رکھو۔ جس نے مجھے یہ زمین دی ہے۔  اِس طرح اس علاقے کا نام ’’وٹوا‘‘ رکھا گیا۔  اس واقعہ سے آپ کی رواداری اور انسانی دوستی کا پتا چلتا ہے۔



حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے معمولاتِ یومیہ (اوراد  و  وظائف)

حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہ کے بلند مرتبے پر فائز تھے۔ آپ توکل اور راضی بہ رضائے اِلٰہی اور صبر استقلال کے مالک تھے۔ آپ ہمیشہ عشق اِلٰہی میں ڈوبے رہتے تھے۔  آپ عبادتِ اِلٰہی میں سخت مجاہدہ اور نفس کشی میں زیادہ سے زیادہ وقت گذارتے تھے، حاجتمندوں کی ضروریات پوری کرنا آپ اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔ آپ کا  لنگر خانہ غریبوں مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا تھا، اس طرح آپ کی خانقاہ یتیموں ، مظلوموں ، غریبوں اور کمزوروں کے لیے سہارا تھی۔
آپ قرآن کریم کی بہت زیادہ عزت اور تکریم کرتے تھے۔ جس جگہ پر قرآن شریف رکھا ہوا ہوتا وہاں آپ ادب و احترام کے لحاظ سے بیٹھتے بھی نہ تھے۔ آپ بہت زیادہ فیاض نرم دل اور سخی تھے۔ علمِ ظاہری اور باطنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ چھوٹے بڑے امیرو غریب ہندو مسلم ہر ایک کی عزّت اور تعظیم کرتے تھے۔ اور ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ کسی کا دل دکھانے کو آپ بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ اپنے راز کسی پر ظاہر نہ فرماتے تھے۔ طریقت، شریعت،اور حقیقت،کے علوم کا آپ دریا تھے۔

حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے اَوراد و وظائف

(۱)  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اَپنے صاحبزادے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ’ یَا لَطِیْفُ ‘  پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ (۲) حضرت کا یہ معمول تھا کہ عشا کی نماز کے بعد آپ’’ یَا حَیُّ یا قَیُّوْمُ ‘‘ کا وِرد اَور‘‘  لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ کا ذکر کیا کرتے تھے۔

کشف و کرامات قطب عالم

اَولیاء را ہست قدرت از اِلٰہ
تیٖرِ جستہ  باز  آرند ش  زِ راہ
کام یہ کرتے نہ تھے کوئی شریعت کے خلاف
یہ ہے  ایک  زندہ  کرامت   اَولیاء اللہ  کی
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَا اِ نَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭اَلَّذِیْنَ آمَنُوْ  وَکَانُوْ یَتَّقُوْنَO لَھُمُ الْبُشْرَ یٰ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآْ خِرَۃِO    
ترجمہ: سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے رہے اُنہیں خوشخبری ہے دُنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ۔   (سورۂ  یونس،کنزالایمان)
اولیاء جمع ہے وَلی کی۔ وَلی کی اَصل وِلاء ہے۔ جو قرب و نصرت کے معنی میں ہے۔ وَلی کا ترجمہ کسی ایک لفظ سے مشکل ہے۔ رفیق، دوست، پشت پناہ، سرپرست، قریب،والی اور مددگار سب کے مفہوم اِس میں شامل ہیں ۔ بگڑے کام بنانے والا،آڑے وقت میں کام آنے والا،سب اِس کے معنیٰ میں داخل ہیں اور اِصطلاحی معنیٰ میں وِلایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عز وجلّ اپنے برگزیدہ  بندوں کو محضا پنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔
قرب سے مراد نزدیکی۔ یہ دوٗری کی ضد ہے۔ قرب کی دو قسمیں ہیں ۔
(۱) قربِ عام اور (۲)   قربِ خاص۔
(۱)قربِ عام۔   وہ قربِ جو ہر صاحب ایمان مسلمان کو اپنے خالق سے ہے۔
کُلُّ مُؤْ مِنٌ وَلِیُّ اللّٰہ۔ ۔ ۔ ترجمہ: ’’تمام مومنین اللہ کے دوست ہیں ‘‘ میں اِسی طرف اِشارہ ہے۔
(۲)قرب خاص۔  قرب خاص کو قربِ محبت بھی کہتے ہیں ۔ یہ صرف خاص بندوں کو حاصل ہے۔  قربِ محبت کے بہت سے مراتب ہیں ۔  ایمان کی دولت سے مشرف ہونے کے بعد عزم و ہمت سے آگے بڑھنے والے قرب کے درجات کو طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں ۔ جس کی فضیلت حدیث شریف میں وارِد ہے۔

اللہ کے ولی کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے اِرشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی سے دُشمنی رکھتا ہے میں اُس سے لڑائی کا اِعلان کرتا ہوں اور میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کرتا کسی چیز کے ذریعے جو میرے نزدیک ان چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں ۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے۔  یہاں تک کہ میں اُسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں ۔  اور جب میں اُسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو میں اُس کی سماعت (کان) بن جاتا ہوں ۔ وہ اُسی کے ذریعے سنتا ہے۔ میں اُس کی بینائی (آنکھ) بن جاتا ہوں وہ اسی کے ذریعے دیکھتا ہے۔ میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ اُسی کے ذریعے پکڑتا ہے۔  میں اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں وہ اُسی کے ذریعے چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اُسے دیتا ہوں ۔  اور وہ برائیوں سے اور مکروہات سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اُسے پناہ دیتا ہوں ۔ جس کام کو میں کرتا ہوں اس میں اَیسا تردُّد اور توقف نہیں کرتا جیسا مؤمن بندے کی جان قبض کرنے میں تردُّد کرتا ہوں ۔  کیوں کہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ اس کی ناپسندیدگی کو میں ناپسند کرتا ہوں ۔ اور موت سے کسی حال میں فرار نہیں ۔   (بخاری شریف)
سبحان اللہ!  اللہ کے ولی کی کیا شان ہے :!
چونکہ اللہ تعالیٰ کے ولیوں اور اُن کی کرامتوں دونوں کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔  لہٰذا ان دونوں پر ایمان لانا شرط ہے۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کا اِنکار قرآن پاک کا اِنکار ہو گا۔ اور قرآن پاک کا اِنکار کفر ہے۔ لہٰذا آئیے اِسے بھی ذرا تفصیل سے سمجھ لیں
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ کوئی ولی نبی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ نبوت کا مقام وِلایت سے اوٗنچا ہے۔  ہر نبی ولی ہوتا ہے۔  لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ولی نبی ہو کیونکہ ولی نبی کی اِتباع سے بنتا ہے۔ معلوم ہوا کہ نبی اصل اور ولی فرع ہے۔ اور اصل فرع سے افضل ہوتا ہے۔ نبوت وہبی اور اللہ کی جانب سے اِجتباء یعنی انتخاب ہے۔ اور وِلایت کسبی ہے۔ بندے کے اللہ کی طرف اِنابت یعنی رجوع کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اور اِجتباء اِ نابت سے اَفضل ہے۔ نبی معصوم ہوتا ہے۔ نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی۔ ولی نہ وِلایت سے پہلے معصوم ہوتا ہے نہ وِلایت کے بعد بلکہ غیر معصوم ہوتا ہے۔  اور معصوم غیر معصوم سے اَفضل ہوتا ہے۔ تمام صحابہ مقدس ہیں ۔  درجہ بہ درجہ قرآن و حدیث نے ان کی شہادت دی ہے اور وہ نبی کی صحبت کی وجہ سے اِن صفات سے متصف ہیں ۔  جن سے ولی متصف نہیں ۔ اِس کے باوجود صحابہ کا مقام نبوت سے بڑھ کر نہیں ۔  کیونکہ ان میں یہ شانِ  تقدیس علوم نبوت سے پیدا ہوتی ہے۔ تو وَلی کو یہ مقام کیسے حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وِلایت تمام متقین بلکہ تمام مؤ منین میں مشترک ہے۔ اِنْ اَوْلِیَاءُ ہٗٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْن۔ اِس لیے عام چیز خاص چیز پر فوقیت حاصل کر سکتی ہے۔ ان مختلف وجوہ ترجیح کی وجہ سے وِلایت کا مقام نبوت سے نہیں بڑھ سکتا۔ پس کچھ اغراض کے بندوں اور مطلب پرستوں کا یہ کہنا کہ مقام وِلایت نبوت سے اَعلیٰ و افضل ہے، غلط ہے اور صریح نصوص کے خلاف ہے۔
(الدرس الحاوی  شرح  اردو  عقیدۃ الطحاوی  :صفحہ:  ۱۳۰)
آج کل عوام کے دلوں میں بہت سی غلط باتیں گھر کر چکی ہیں ۔ مثلاً : بعض لوگ بعض ولیوں خصوصاً اپنے پیر و مرشد کو شریعت کے حکموں کی پابندی سے آزاد سمجھتے ہیں ۔ یا ہر ولی کے لیے کرامت کا ہونا لازم سمجھتے ہیں ۔ معجزہ، ارہاص، کرامت،  معوٗنت،اِستدراج، اہانت، شعبدہ، اور جادوٗ جیسی اِصطلاحات کے معنی کے فرق اور ان کی باریکیوں سے نا واقفیت کی بناء پر بسا اَوقات اُن کو باہم خلط ملط کر دیتے ہیں یا پھر اِن سب کو ایک ہی سمجھ  بیٹھنے کی فاش غلطی کر بیٹھتے ہیں اِس لیے آیئے سب سے پہلے ان اِصطلاحات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور چونکہ معجزہ،اِرہاص ،کرامت،معونت،اِستدراج،اہانت،شعبدہ اور جادو جیسی اِصطلاحات کی فہمائش میں خرقِ عادت کا لفظ بار بار دُہرایا جاتا ہے۔  لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے خرق عادت ہی کو سمجھ لیا جائے۔

خَرْقِ عَادَت:

خَرْقِ عَادَت،  اَیسی بات کو کہتے ہیں جو اِنسان کے روز مرہ کے معمولات اور روز بروز کی عادتوں کے خلاف ظاہر ہو۔ مثلاً: اِنسان کی عادت یہ کہ وہ کسی سیڑھی یا زینے کے ذریعہ اوپری منزل پر پہنچے۔ لیکن خدا کا کوئی بندہ اس عالم اَسباب (دُنیا)میں کسی ظاہری سبب کے بغیر ہی اوپر پہنچ جائے تو اُسے ’خرق عادت‘ کہا جائے گا۔
 (شریعت و طریقت مصنفہ حضرت شاہ ابو الحسین احمد نوری مترجمہ: مفتی محمد خلیل خاں برکاتی۔ صفحہ:  ۶۳)

معجزہ:
لغت میں عاجز کر دینے اور تھکا دینے والی چیز کو ’معجزہ‘ کہتے ہیں ۔ اور اِسلامی اصطلاح میں معجزہ ایسے واقعے کے ظاہر ہونے کا نام ہے جو عام متعارف و معلوم (جانے پہچانے)سلسلۂ  اسباب کے بغیر عالم وجود میں آ جائے۔ اس کو عام بول چال میں ۔ خرق عادت(یعنی خلافِ عادت بات) بھی کہتے ہیں ۔
اہل سنت کے نزدیک معجزہ ایسی بات ہے جو نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ہاتھ پر عادت کے خلاف ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے نبی کی قوم سے مقابلہ مقصود ہوتا ہے۔ اور اس کے جیسا معجزہ لانے سے اس کی قوم عاجز ہوتی ہے۔ اس کا ظہور زمانۂ  تکلیف میں ایسے سبب کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے سچّے ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی اس کے سچے ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔           (اعلم السنّہ المنصورہ صفحہ: ۱۲۶۔ تہذیب شرح الطحاویہ۔ صفحہ:۳۸۷)
آقائے دو جہاں سرکار مدینہ حضرت محمد مصطفٰے  ﷺ کے معجزات میں سے معجزۂ  شق القمر۔ آپ ﷺ کے ہاتھوں میں کنکریوں کا اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔ تھوڑے کھانے سے آپ  ﷺ کا بہت سے لوگوں کا سیر کرنا یہ اور اس جیسے آپ ﷺ کے معجزات بکثرت ہیں ۔ نظام اور اس کے قدری متبعین نے ان کی مخالفت کی ہے۔
(اعتقاد اہل السنّہ امام اللال قائی  صفحہ :۳۸۷)
  اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ نبی کے لیے ایک معجزہ لانا ضروری ہے۔  جو اس کے نبوت کے دعوے کی سچائی کی دلیل ہو۔  سو جب ایک ایسا معجزہ ظاہر ہو جائے جو نبی کی سچائی کی دلیل ہو اور لوگ ایسا معجزہ لانے سے عاجز ہوں ۔  لوگوں پر اس نبی کی تصدیق کی حجت واجب ہو جائے گی۔ اور اس کی اِطاعت اُن پر لازم ٹھہرے گی۔ اگر اس کے بعد بھی اس معجزے کے علاوہ لوگ کسی اور معجزے کا مطالبہ کریں تو یہ بات اللہ عز و جل پر منحصر ہے کہ اگر اس کی مشیت (مرضی) ہوئی تو اس جیسے کسی دوسرے معجزے سے نبی کو قوی دست کرے گا۔ (یعنی نبی کے ہاتھ مضبوط کرے گا)اور اگر اُس کا اِرادہ اِس کے بر خلاف ہوا تو اس دوسرے معجزے کی طلب (مانگ)کرنے والوں کی گرفت (پکڑ)کرے گا۔ اور انہیں اس جرم کی سزا دے گا کہ اس نبی کی سچائی کی جو دلیل ظاہر ہو گئی ہے اس پر وہ ایمان لائے۔ یہ عقیدہ قدریّہ فرقے کے اس مزعومہ (گمان)کے خلاف ہے کہ نبی علیہ لصلوٰۃوالسلام کو اپنی شریعت کی اِستقامت و تنظیم سے زیادہ کسی معجزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ عقیدہ سمّامہ  (القدری المعتزلی)کا ہے۔            (اعلم السنّہ المنصورہ صفحہ: ۳۰۱)

کرامت:
’’ خلافِ عادت بات (خرقِ عادت) نبیوں سے ظاہر ہو تو معجزہ ہے اور اَولیائے کاملین سے ظاہر ہو تو کرامت ہے۔ (العقیدۃ الحسنہ المعروف بہ عقائد اِسلام۔ صفحہ: ۳۱۵)المختصر ’کرامت‘ ایک اَیسی خلافِ عادت (خارِق عادت) چیز ہے جو کسی اور نیک بندے کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے جو نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا۔            (اِسلام کی بنیادیں ۔ صفحہ: ۲۳۰)

اللہ کے ولیوں سے کرامت ظاہر ہوناجائزہے :
اہل سنت کے نزدیک اللہ کے ولیوں سے کرامتوں کا ظاہر ہونا جائز ہے۔ یہ کرامتیں ان کے احوال کی سچائی کی دلیل ہو تی ہیں ۔ یہ ایساہی ہے جیسے کہ نبیوں کے معجزے نبوت کے دعوے کی سچائی کی دلیل ہوتے ہیں (ویسے ہی اللہ کے ولیوں کی کرامتوں سے بھی ان کے احوال کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ )             (الفرق بین الفرق۔ صفحہ:۳۰۳)
مخدوم جہاں شیخ اشرفا لحق والدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ سی موضوع پر اپنے ایک مکتوب (خط) میں لکھتے ہیں
اہل سنت والجماعت کے فقہائے امت اور اہل معرفت کا اجماع ہے کہ اللہ کے ولیوں سے کرامت کا صُدوٗر یعنی،کرامت کا ظاہر ہونا جائز ہے۔ اگر چہ وہ حد معجزات تک کیوں نہ پہنچ جائے۔ اس مسئلے میں معتزلہ کو اختلاف ہے،وہ کرامت کے قائل نہیں ۔ (ترجمہ:مکتوبات صدی۔ صفحہ:۱۰۸)اسی لیے ہمارا عقیدہ  یہ ہے کہ کراماتِ اولیاء حق ہیں ۔ ان کا منکر گمراہ ہے۔ (العقیدۃ الحسنہ المعروف بہ عقائد اِسلام۔ صفحہ: ۳۱۵)اور ہم ولیوں سے ظاہر ہونے والی کرامتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان سے مروی ثقہ روایتوں کو صحیح مانتے ہیں ۔
  (الدرس الحاوی، شرح اُرد وٗ عقیدۃ الطحاوی  :صفحہ:  ۹۹)
ولیوں کی کرامتوں کا ثبوت کتاب و سنت (یعنی قرآن و حدیث)سے ثابت ہے۔  اسی لیے محدثین نے اپنی کتابوں میں باب الکرامات کا عنوان قائم کیا ہے۔ اور صحابہ اور ان کے بعد اَولیاء کی کرامات نقل کی ہیں :۔
(۱)حضرت مریم کی کرامت کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ (۲)حضرت  عمرؓ کے خط سے دریائے نیل (نائیل ندی) جو سوکھ چکا تھا بہنے لگا۔ (۳) نہاوند میں آپ کا لشکر جنگ میں مصروف ہے آپ نے مدینے میں خطبے کے دَوران کہا کہ ’’ یَا سَارِیَۃُ اُلْجَبَل۔ ‘‘  تو لشکر کے لوگوں نے اس کو سنا۔ (۴) نہایت اندھیری رات میں حضرت سید بن عزیرؓ اور عبّاد بن بشیرؓ حضور کے پاس جا رہے تھے تو ان کی لاٹھی روشن ہو گئی جس سے انہیں روشنی مل گئی۔ (۵)حضرت ابو بکرؓ کے پاس کچھ مہمان کھانا کھا رہے تھے جتنا کھانا وہ کھاتے تھے اس سے زیادہ وہ کھانا بڑھتا جاتا۔ (۶)سعید بن مصیّب تابعی حرّہ کے دنوں میں جب مسجد نبوی میں تین دِن اذان نہیں ہوئی۔ نبی کریم  ﷺ کی قبر مبارک سے ہلکی سی آواز سنی اور اس سے نماز کا وقت پہچانا۔ (۷)مولائے رسول حضرت سفینہؓ  ایک سفر میں قافلے سے کسی وجہ سے الگ ہو گئے اور راستہ بھول گئے تو راستے میں ایک شیر ملا  اور اس سے کہا اے ابو حارث!(شیر کی کنیت)میں غلام رسول ہوں ۔ راستہ بھول گیا ہوں مجھے بتاؤ۔ تو شیر ان کے ساتھ چلا اور راستہ بتایا۔ اس طرح کی بے شمار کرامات ہیں جن کو یہاں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ان سب کرامتوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔  اور ان کی تصدیق کرتے ہیں ۔

ولیوں کی کرامت در اصل نبوّت کے معجزے کی تصدیق ہے:
ولی کی کرامت نبی کے معجزے کے خلاف نہیں بلکہ نبی کے معجزے کی تصدیق ہے جو مومن مطیع و فرماں بردار کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا: اللہ کے ولیوں کی کرامات در اصل پیغمبر علیہ السلام کے معجزات کا پرتو (عکس)ہیں ۔ چونکہ اِسلام قیامت تک باقی رہے گا اس لیے اِسلام کی حجت (کرامت)بھی قیامت تک جاری رہے گی۔ چنانچہ اولیائے کرام کا وجود پیغمبر علیہ لصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا گواہ ہے۔ لہٰذا کرامت کا ظہور غیر ولی کے ہاتھ پر نہیں ہو سکتا۔  (شرح کشف المحجوب تحقیق و ترجمہ : مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیّال چشتی صابری۔ صفحہ:۶۰۸)

معجزہ اور کرامت کا فرق :
معجزہ نبی کے دعوۂ  نبوت میں سچے ہونے کی دلیل ہے۔  اور کرامت اولیاء بر حق کی تکریم۔ اولیاء کرام کی کرامتیں انبیاء علیہ م السلام کے معجزوں کا پرتو (عکس)ہیں فرق اِتنا ہے کہ نبی پر اپنے دعوۂ  نبوت کا اِظہار فرض اور ولی پر اپنے حال کا اِخفا(چھپانا) لازم ہے۔ ہاں اگر کسی مجبوری سے اِظہار کرنا پڑے یا خود بخود اُس کا اظہار ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ یوں ہی ولی کو اپنی کرامت کا اِظہار حتی الامکان منع ہے۔ اور ولیوں کا کسی شرعی ضرورت کے بنا اپنی کرامتوں کا ظاہر کرنا غیر پسندیدہ فعل ہے۔ ضرورتاً یا بدرجۂ  مجبوری اظہار ہو جائے تو کوئی مواخذہ(پکڑ) نہیں ۔ ابو امر دمشقی کا قول ہے کہ انبیاء کرام پر اپنی نبوت کے دعوے کی تائید میں معجزات کا اِظہار فرض ہے۔ جب کہ اللہ کے ولیوں پر اپنی کرامتوں کو چھپا کر رکھنا لازم تر ہے۔
مخدوم جہاں شیخ شرف الحق والدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ  اسی موضوع پر اپنے ایک مکتوب(خط)میں لکھتے ہیں :
’’اور اگر تم یہ سوال کرتے ہو کہ کرامت اور معجزے میں کیا فرق ہے تو سنو معجزے کے لیے(ظاہر) اِظہار کرنا شرط اور کرامت کے لیے استتار کرنا (چھپانا)شرط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبیوں کو معلوم ہے کہ یہ معجزہ مجھ کو ملا ہے۔ اور اسے ظاہر کرنے سے پہلے فرما دیتے ہیں ۔ جبکہ اولیائے کرام کرامت سرزد ہونے کی پہلے سے خبر نہیں دیتے۔
(مکتوبات صدی۔ صفحہ:۱۱۰)
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ معجزہ والے(چاہے وہ نبی ہو یا رسول)معجزے کو ظاہر کرنا اور اسے مخالفوں سے معارِضہ کرنا (مقابلہ)اور تحدّی(برابری)کرنا ہے۔ جبکہ کرامت والا ولی اپنی کرامت سے کسی کی تحدّی (برابری)نہیں کرتا۔ بلکہ اکثر اسے لوگوں سے چھپا کر رکھتا ہے۔ اسی طرح معجزہ والے کا انجام اور اس کی عاقبت مامون اور محفوظ ہو تی ہے۔ (اس کا انجام حسنِ اختتام اور اس کی عاقبت بخیر ہوتی ہے)لیکن کرامت والا ولی اپنے انجام کے بدل جانے سے مامون اور محفوظ نہیں ہوتا۔  مثلاً :بلعم بن باعورہ سے کرامت ظاہر ہونے کے بعد اس کے حالات بدل گئے تھے۔

مَعونت:
ایک ایسی خلاف (خرق) عادت چیز ہے جو عوام میں سے کسی کے ہاتھ پر شدّت  اور سختی سے نجات  دِلانے کے لیے ظاہر ہوتی ہے۔

اِہانت:
جو کسی نبوت کے (جھوٹے) دعوے دار کے ہاتھوں اس کے مطلوب کے خلاف ظاہر ہوں جیسے مُسیلمہ کذّاب کے ساتھ ہوا۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ نبوت کے دعوے میں جو سچا ہوتا ہے اس کی تصدیق (سچائی کا ثبوت کرنے)کے لیے معجزۂ تصدیق کا ظہور ہوتا ہے۔ لیکن نبوت کے (جھوٹے) دعوے دار سے معجزۂ تصدیق ظاہر نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جھوٹے نبی پر کوئی ایسی خلاف (خرقِ) عادت بات ظاہر ہو جس سے اس کے جھوٹ پر دلیل قائم ہو یا اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے۔ مثلاً: کوئی درخت یا اس کے جسم کا کوئی عضو(جسم کا حصہ) زبان حال سے اس کی تکذیب کرے یعنی اسے جھوٹا ثابت کرے۔ چنانچہ: مسیلمہ کذّاب ملعون جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ معجزہ ہے کہ آپ اپنا دست مبارک جس بچے کے سر پر پھیر دیتے ہیں اس کے سر سے مشک کی خوشبو آتی ہے۔ اس نا مراد نے بھی ایک بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ گنجا ہو گیا۔ یوں ہی اس ملعون سے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنا لعاب دہن کھاری کوئیں میں ڈال دیتے ہیں تو پورا کنواں میٹھا ہو جاتا ہے۔ پھر اس جھوٹے نے ایک میٹھے پانی کے کنویں میں تھوک دیا تو سارا کا سارا پانی کھاری ہو گیا۔ اس ملعون نے سنا کہ حضور اقدس  ﷺ نے اپنا دستِ مبارک ایک نابینا کی آنکھوں پر پھیرا تو اس کی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔ اس نامراد نے بھی کسی ایک آنکھ والے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا  تو اس کی آنکھ بھی چوپٹ ہو گئی۔
اس باب میں چونکہ ہم حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے کشف کا بھی تذکرہ کرنے والے ہیں لہٰذا آئیے اس لفظ ’’ کشف ‘‘ کو بھی سمجھ لیں ۔  لغت میں کشف کے معنی ہیں :پردہ اُٹھانا، کسی راز کو ظاہر کرنا یا کھولنا،راز کا افشاں کرنا (فرہنگ عامرہ۔ صفحہ:۴۹۴)عام انسانی عقل کی پہنچ سے دوٗر کے رازوں پر سے پردہ اُٹھانے کو اِس اِصطلاح میں کشف کہا جاتا ہے۔ مثلاً:عام انسانی عقل کی رسائی قبر کے اندروٗنی حالات تک نہیں ہوتی۔ لہٰذا قبر کے اندرونی رازوں پر سے پردہ اُٹھانے کو کشفِ قبور کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ کا گذر دو قبروں پر ہوا  تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا جس کا معاملہ سخت ہو (یعنی انتہائی مشکل ہو)اور ان میں سے ایک کا گناہ یہ تھا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ کی یا پاک وصاف رہنے کی کوشش و فکر نہیں کرتا تھا۔               (بخاری جلد :  ۱۔ صفحہ:۳۴)
کشف کے بارے میں یوں تو بہت تفصیل ہے،لیکن انفاس العارفین میں  مختصراً اسے یوں سمجھایا گیا ہے کہ انسانی روٗح میں ایک طاقت چُھپی ہوئی ہے۔ جسے لوح  غیب کہتے ہیں ۔ جب نبی اس سے علم حاصل کرتے ہیں تو ایسے میں انہیں وحی کے فرشتے کی ضرورت نہیں آتی۔ بعض متکلمین نے بھی اس کی یہی تشریح کی ہے۔  جب ولی اس مقام پر پہنچتا ہے تو اسے بھی الہام کے فرشتے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور کبھی تو انسانی روٗح نیند کی حالت میں اس مقام تک پہنچ کر کسی چیز سے با خبر ہو جاتی ہے۔  اب اگر وہ اس معنی کے خیال کو مناسب شکل نہ دے۔ جیسا کہ اس نے دیکھا تو اسے کشفِ مجرد کہتے ہیں ۔ اور اگر کوئی مناسب صورت اس خیال کو مل جائے جیسے اس کا خیال علم میں مشغول ہوا تو یہی خیال کوئی شربت پینے کی صورت میں آیا یا اس کی روٗح رمضان کے مہینے میں فجر کی اذان کے خیال میں مشغول ہو گئی تو اس کی صورت اس کے سامنے یوں آئی جیسے تمام لوگوں کے کھانے پینے اور خواہشات کی طاقتوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ تو یہ کشف تعبیر و تاویل کا محتاج ہے۔  اور اسے کشف مُخَیّل کہتے ہیں ۔  (انفاس العارفین۔ مصنفہٗ: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ۔  صفحہ : ۲۳۵)
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ  وَالرَّ سُوْل فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِِّیْنَ
 وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئَ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقاً O
ذَالِکَا لْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِا للّٰہِ عَلِیْماًO(سُوْرَۃاُلنِّسَاء)
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور رسول ﷺ کی اِطاعت کریں گے وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اِنعام فرمایا ہے۔ یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور نیکوں کے ساتھ۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق (ساتھی)جو کسی کو میسر آئیں ۔  یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ کا علم کافی ہے۔
قُلُوْبُ  الْعَاشِقِیْنَ  لَہَا عُیُوْنَ تَرَا  مَا  لَا  یَرَا ہَنْ   نَّاظِرُوْنَ
ترجمہ:  عاشقوں کے دِلوں کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں جیسے باتوں کا مشاہدہ کرتی رہتی ہیں جن کو عام دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے۔      (رازوں کے راز۔ ترجمہ سِر الاسرار۔ صفحہ :۷۳)

(۱)   اس مٹّی سے تو ہماری ہڈیوں کی خوشبو آتی ہے :
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت سے پہلے کا ایک واقعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کے دادا حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ قرآنِ کریم کی آیت      سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِناَفِی الْاٰفَاق
 ترجمہ:’’ہم زمین کے الگ الگ حصّوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ ‘‘
(پارہ :۲۵، سورۂ   شوریٰ، آیت :۳۵،از :کنزالایمان)
 کے مطابق گجرات کے سفر میں تھے۔ اس وقت تک ابھی احمد آباد شہر کا وجود نہ تھا۔  غزنوی مسجد کہ جسے آج کل لوگ نال بند کی مسجد کے نام سے جانتے ہیں ۔  خاص بازار میں الف کی مسجد کے سامنے اور حضرت بابا احمد ہنکوری (نال بند رحمۃ اللہ علیہ) کے مزار شریف کے قریب یہ مسجد واقع ہے۔  یہاں شہر کے لوگ اپنی مرادیں پوری ہونے کی غرض سے چراغ جلاتے ہیں ۔  پھول چڑھاتے ہیں ۔ کسی دوکاندار اور گاہک کے درمیان جھگڑا ہو تو وہ اس مسجد میں آ کر اپنی سچائی کی قسمیں کھاتے ہیں اور اس طرح جھگڑا ختم کیا جاتا ہے۔  حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے اِس مسجد میں ایک رات قیام فرمایا تھا۔ اس کے بعد آج کے وٹوا مقام پر تشریف لے گئے تھے۔ آج جس جگہ پر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مزار شریف ہے، وہاں نمازِ عشاء کے بعد آپ نے قیام کیا۔ آپ نے فجر اور عشاء کی نمازیں بھی اُسی جگہ پر ادا کیں ۔  صبح روانگی کے وقت آپ نے اس جگہ کی تھوڑی سی مٹّی ہاتھ میں لی اور اُسے سونگھ کر فرمایا۔ (ایشوں اساڑے ہاڈ گندھ آسین) یعنی، اس پاک زمین میں سے تو ہماری ہڈیوں کی خوشبو آ رہی ہے۔  اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اس مٹّی کی زیارت کرو۔  میں اس زمین میں حق تعالیٰ کی تجلیات دیکھ رہا ہوں ۔  یہ مقام قطبوں کی کان اور قطبیت کا خزانہ ثابت ہو گا۔ گویا حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین سے برسوں پہلے ہی آپ کے مزارِ مبارک کی زمین سے قطبیت کی خوشبو آ رہی تھی۔

(۲)   بچپن میں نبی کریم  ﷺ کی زیارت  :
  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی میری عمر نو (۹) سال کی تھی کہ مجھے یہ خیال آیا کہ کاش ! اگر نبی کریم ﷺ کا زمانہ مجھے نصیب ہوتا تو میں آپ ﷺ کے نعلین شریف چومنے کی اِجازت مانگتا اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا۔  اس کے بعد مجھے آپ  ﷺ کی زِیارت نصیب ہوئی۔  میں نے دیکھا کہ شہنشاہِ رِسالت محسنِ اِنسانیت تشریف لائے ہیں اور میرے سامنے کھڑے ہیں ۔  آپ ﷺ کے عشق میں بیتاب ہو کر میں نے اپنا سر فوراً آپ ﷺ کی نعلین مبارک پر رکھ دیا۔ آپ ﷺ کے نعلین مبارک نہایت ہی خوبصورت تھے۔  وہ اِتنے ہلکے تھے کہ اُن کا وزن ۱۶  دِرہم سے زیادہ نہ تھا۔ نعلین مبارک سے مشک اور عنبر کی خوشبو آ رہی تھی۔ آپ  ﷺ اِس طرح کھڑے تھے کہ میری صرف ناک رکھی جا سکے اتنی ہی جگہ آپ  ﷺ کے دونوں پیروں کے درمیان تھی۔ میں اپنی پیشانی، چہرہ اور آنکھیں  آپ  ﷺ کے دونوں پیر مبارک کے درمیان رکھ کر بہت دیر تک روتا رہا۔ میرے آنسوؤں سے آپ ﷺ کے نعلین مبارک گیلے ہو گئے۔  میں بہت دیر تک روتا رہا اور خوشبوؤں کو محسوس کرتا رہا۔

(۳)    ہماری ٹوپی ان کے سروں پر کیسے آ سکتی ہے :  
  حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ یک مشہور بزرگ تھے گجرات کے بھروٗچ اور آس پاس کے علاقے میں آپ کا بڑا نام تھا۔  انہوں نے اپنے دو صاحبزادوں (۱) سید قطب الدین اور (۲) سید سعدُ اللہ سے کہ جو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے عمر میں بڑے تھے۔  انہیں حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مرید بننے کے لیے کہا۔  انہوں نے کہا کہ  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ٹوپی ہمارے سروں پر نہیں بیٹھے گی۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں بیعت کریں گے۔ حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں سے کہا کہ اچھا چلو اُن سے صرف ملاقات ہی کر لیں ۔  اس وقت حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کھمبات تشریف فرما تھے۔  جب سب لوگ کھمبات پہنچے تو حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ وضو فرما رہے تھے۔  آپ نے جیسے ہی انہیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا میری ٹوپی ان کے سروں پر کیسے آسکتی ہے اَور انہیں کیسے دی جائے۔  آپ کی یہ بات سن کر حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں صاحبزادے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے بہت عقیدت مند ہو گئے۔  (دونوں بھائیوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور انہیں آپ کا مقام اور مرتبہ معلوم ہوا) اور آپ کے مرید بھی ہوئے۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دو ٹوپیاں ان دونوں بھائیوں کو دیں اور ان کے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ وہ دونوں کے کان تک پہنچے اتنی بڑی تھی۔

(۴)    ہوا کی رفتار سے سفر:
حضرت امیر کبیر سید السادات حضرت سید عثمان (شمع برہانی) رحمۃ اللہ علیہ کا مزارِ مبارک احمد آباد کے عثمان پورہ علاقے میں ہے۔  یہ عثمان پورہ قصبہ حضرت شمعِ برہانی ہی نے آباد کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی کتاب،  مدارج المعارج،  میں ایک واقعہ لکھا ہے :
’’حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ ملک صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ذِکر میں مشغول تھے۔ وجد کی حالت میں آپ اُوچ شریف اپنے دا دا حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر پہنچ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں زیارت کر کے واپس آ گئے۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ آپ کے بھتیجے حضرت شیخ عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔

 (۵)   گھی تو کنویں میں ہے  :
ایک دن حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی کی ایک خادمہ آپ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ میری بچّی بھوکی ہے۔
وہ بغیر گھی کی روٹی نہیں کھاتی اور ضد کر رہی ہے۔  بھلا آپ پر وجدانی کیفیت طاری تھی۔ آپ نے حا  لتِ  وجد میں اِرشاد فرمایا :
’’جاؤ اور جا کر دیکھو، وہ کنویں میں گھی ہے۔  فقیروں کی اولاد وں اور خادموں کے لیے تو پانی بھی گھی ہے۔ ‘‘ اِتنا کہ کر آپ وہاں سے اُٹھ چلے۔  آپ کی یہ باتیں نوکرانی کو ناگوار معلوم ہوئیں ۔ وہ کہنے لگی، ’’ حضرت تو ہم غریب محتاجوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ۔  دُنیا  کے مال و دولت سے بے پرواہ ہو کر دُنیا سے گویا تعلق ہی توڑ لیا ہے۔ ہزاروں لوگ آپ کے در سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے ہیں ۔  میں نے تھوڑا سا گھی ہی تو مانگا تھا۔ اپنی بیٹی کی ضد کی بات کی تو حضرت نے مجھے یہ پانی کا کنواں بتا دیا۔
کچھ دیر گذری تھی کہ ایک شخص کنویں پر پانی لینے کے لیے آیا اُس نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالی تو ڈول پانی کے بجائے گھی سے بھر گئی۔  یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ آس پاس کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آ کر گھی لے جانے لگے۔  لوگ اپنے برتنوں اور مٹکوں تک میں گھی لے گئے۔  یہ سلسلہ تین دنوں تک چلتا رہا۔  اور کنویں سے پانی کے بجائے گھی نکلتا رہا۔  آپ کے ایک خادم نے اس واقعے سے آپ کو واقف کیا۔  آپ نے دُعا فرمائی اَے خدا ! اب بس کر اپنے برہان کو ذلیل اور رُسوا نہ کر۔  کرامت کے ذریعے لوگوں کی بھیڑ اِس کے دروازے نہ لگا۔ اَے خدا ! مجھے اپنے آپ سے دوٗر کر کے اس دُنیا کے لوگوں کی خواہشیں پوری کرنے کے کام میں مشغول نہ رکھ۔  میں تو ہر لمحہ صرف تیرے ساتھ ہی تعلق رکھنا چاہتا ہوں ۔  اس کے بعد کنویں کا پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔  آج  (۱۰۴۷) میں بھی وہ کنواں موجود ہے۔  آپ کی اَولاد میں سے کسی نے بتایا کہ اس کنویں کا پانی میں نے تبرک سمجھ کر پیا تو پانی کی لذّت گھی جیسی ہی تھی۔ اور ہر کسی کو گھی جیسی ہی لذّت محسوس ہوتی ہے۔

(۶)   پگڑی  اُٹھا جانے والا دُکھی ہوا :
ایک دن آپ سابرمتی ندی کے کنارے وُضو کر رہے تھے۔ آ پ نے اپنی پگڑی قریب ہی رکھی تھی۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور پگڑی اُٹھا کر بھاگا۔  آپ نے اُسے بھاگتے  دیکھ کر فرمایا :’’ونج ‘‘ یعنی ’’رُک جا ‘‘وہ بدنصیب آدمی شہر احمد آباد کے قریب ہی رہتا تھا۔  اس واقعے کے بعد وہ کسی جگہ بھی سکون سے نہ رہ سکا۔ جانوروں کی طرح لوگوں کو دیکھ کر ڈرتا پھرتا تھا۔  یہاں تک کہ وہ اپنے بال بچّوں اور ماں باپ کو بھی دیکھ کر ڈرتا تھا۔ اپنے ساتھ کچھ دنوں کا توشہ (کھانا) لے کر جنگلوں میں اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرتا تھا۔  آخری دم تک سکرات کے عالم میں اس کی حالت پانی کے بغیر تڑپتے ہوئے جانور کی سی تھی۔  اِسی حالت میں اس کا انتقال ہوا۔

(۷)   یکا یک ٹوٹ کر بارش ہونا  :
حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مخدوم سید یحیٰ بھروٗچی رحمۃ اللہ علیہ یک بڑے بزرگ تھے۔  آپ نے’’ مجا  لسِ برہانی ‘‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے۔  آپ فرماتے ہیں کہ بارش کا موسم نہ تھا۔  ایک دن حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نمازِ اِستسقاء کا ذِکر کر رہے تھے۔   آپ نماز کے متعلق ملک محمد اِختیار کو سمجھا رہے تھے۔  بارش کے کچھ آثار نہ تھے۔ اچانک بادل گرجنے لگے اور بجلی چمکنے لگی۔  موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔  ملک محمد اِختیار اور مجلس میں حاضر سبھی لوگ اِس واقعہ سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُن پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔  جب سب ہوش میں آئے تو ایک شخص نے کہا کہ حضرت ! یہ بے موسم کی بارش بند ہو جائے ایسی دُعا کیجئے۔  حضرت نے فرمایا کہ یہ تو رحمت کی بارش ہے۔ برسنے دو۔ !

(۸)   ایک ہی قطرے سے حالت بدل گئی۔
سید برخوردار ابنِ  سید ایک نیک اور پرہیز گار بزرگ تھے۔  آپ کو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے لیے پانی گرم کرنے کی خدمت سپرد کی گئی تھی۔ ایک دِن حضرت غسل فرما کر اُٹھے تو سید برخوردار آپ کی لنگی اور پانی کے برتن دھونے لگے۔  انہیں خیال آیا کہ حضرت نے دوٗسرے لوگوں کو تو اچھی اور اوٗنچی خدمت سپرد کی ہے۔ اور مجھ جیسے بد نصیب کو ایسا معمولی اور ہلکا کام سونپا ہے۔ اُن کے دِل میں یہ خیال آتے ہی حضرت نے کشف سے معلوم کر کے فرمایا : سید زادہ ! اِس کام کی قیمت آپ ابھی سمجھ نہیں سکے۔  اگر اس بھیگی ہوئی لنگی کا ایک ہی قطرہ چکھ لو تو اس درویش کے فیض سے کچھ ہی قطروں کے ذریعے جو فیض ہماری اولاد کو ملتا ہے اس کی حقیقت کا علم آپ کو ہو جائے۔  اِس کے بعد سید صاحب نے لنگی کو نچوڑ کر چند قطرے پی لیے (ا للہ ! اللہ ! بزرگوں کے قول پر کس قدر بھروسہ تھا) آپ پر باطنی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔ آپ کی ایسی حالت ہو گئی کہ جو کچھ بھی زبان سے نکلتا وہ فوراً قبول ہو جاتا۔
آپ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ ۱۲  سال کے بعد گھر واپس ہوئے۔ اپنے گھر کے سامنے آ کر کھڑے رہے اور پانی مانگا۔ آپ کو گھر والے پہچان نہ سکے۔ اس وجہ سے کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ آپ نے دوبارہ کہا کہ بیٹی فیروزہ سے کہو کہ اپنے والد کو پانی دے۔ جس وقت سید صاحب اپنے گھر سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے تھے اس وقت آپ کی اہلیہ (بیوی) حاملہ تھیں ۔  اس کے بعد ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام فیروزہ رکھا گیا تھا۔  ۱۲  سال کے بعد جب آپ گھر لوٹے تو اپنی غیر حاضری میں پیدا ہوئی لڑکی کو اس کے نام سے بلایا۔  یہ تھا حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا فیض اور ان کے خادموں کا مرتبہ۔

(۹)   اپنی  باطنی  صفائی  کا اثر  اپنے نطفے  پر بھی  ڈالتے :
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ ۱۵  سال کی عمر ہی سے پیدا ہونے والی اَولاد کہ جو ابھی نطفے کی حالت میں ہوتی اسے فیض پہنچانے کے کام میں لگ گئے تھے۔  آپ جو غذا کھاتے اس سے پیدا ہونے والی طاقت پر پوری توجہ دیتے تھے تاکہ باطنی صفا ئی اور دِل کی پاکیزگی کا اثر نطفے پر پڑے۔ آپ اپنے تمام فیض کو اپنی پیدا ہونے والی اَولاد کو پہنچاتے۔

(۱۰)   اس شہر کی اینٹ۔ اینٹ ٹوٹ کر رہے گی :
آپ رحمۃ اللہ علیہ سے بے ارادہ بھی کرامت ظاہر ہو جاتی تھی۔ آپ کچھ دِن شہر چھوڑ کر باہر کا منجھول جو آج تھلتیج کے نام سے مشہور ہے۔  وہاں جا کر تنہائی میں کچھ روز قیام کیا اور عبادت میں مشغول رہے۔ وہاں سے واپسی میں آج جہاں آپ کا مزار مبارک ہے  اس زمین پر کھڑے رہے۔ آپ نے اس جگہ کے مالک ایک ہندو کسان کو بلایا اور کہا کہ اس زمین کا صحیح مالک تو ہے۔  یہ تھوڑی زمین تو مجھے بیچ دے اُس کسان نے زمین کی قیمت لینے سے اِنکار کیا۔ لیکن آپ نہ مانے اور قیمت ادا کر کے مذکور زمین خرید لی۔  آپ کا مزار مبارک آج اسی جگہ پر ہے۔
اگر عالم  سراسر  باد گیرد
چراغِ مقبلاں ہرگز نہ  میرد
جب بادشاہ کو اس زمین کے سودے کی اطلاع ہوئی تو اُس زمین کے ساتھ ۱۴   گاؤں تحفے میں حضرت کو دے دِیے۔
اس کے بعد آپ نے اپنے صاحبزادوں کو وصیت کی کہ مجھے اِسی جگہ پر دفن کرنا۔ آپ کے صاحبزادوں نے شہر نہ چھوڑنے کا اِصرار کیا۔  آپ نے فرمایا کہ اساول آج کل ترقی پر ہے۔  اس کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اِس کی رونق اور خوبصورتی  نہ دیکھو۔ اس کی ایک ایک اینٹ ٹوٹ کر رہے گی۔  اِس کی جاہ و جلالی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اور واقعی ہوا بھی ایسا ہی۔

(۱۱)    اللہ ہی ہماری دولت ہے :
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی حضرت جلال خان کے صاحبزادے سید سکندر خان دکّن کی سلطنت میں ایک اعلیٰ عہدے پر تھے۔ وہ کثیر مال و دولت کے مالک تھے۔  وہ اپنی جوانمردی اور بہادری کی وجہ سے تمام دکّن میں عزّت اور شہرت کے مالک تھے۔
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ  نے دُنیا کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ آپ کسی کی طرف سے کوئی چیز قبول نہ فرماتے تھے۔  اور کبھی قبول بھی کر لیتے تو اسے فوراً حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے۔ سکندر خان نے سوچا کہ حضرت نے دُنیا ترک کر دی ہے۔  اِس لیے آپ کا اور آپ کے خادموں کو تنگ دستی ہو گی، لہٰذا کچھ مدد کروں ۔  اس خیال سے سکندر خان نے کچھ قیمتی کپڑے، پیٹی بھر کر اشرفی، زیورات وغیرہ بھر کر ایک شریعت کے پابند خادم کو دے کر حضرت کی خدمت میں روانہ کیا۔ ساتھ ہی ایک خط میں لکھا کہ، حضور !حالانکہ آج کل آپ کسی کی کوئی چیز قبول نہیں فرماتے۔  لیکن اس کے ساتھ بھیجا ہوا مال تو آپ ہی کا ہے اور ساری دولت بھی آپ ہی کی ہے۔ میں آپ کے خاندان کا ایک فرد ہوں ۔ اِس لیے مال و  دولت پرایا نہیں ۔ آپ یہ مال و دولت قبول فرما کر اپنے خادموں میں تقسیم کر دیں ۔
مذکور خادم سید حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔  اس وقت آپ سابرمتی ندی کے کنارے وضو فرما رہے تھے۔  خادم نے با ادب تمام چیزیں اور خط آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے فرمایا :’’ گندھک کے دھوئیں سے فقیروں کی اولاد کی  داڑھی کے بال خراب نہ کرنا چاہیے۔ ‘‘ خادم نے عرض کیا کہ حضرت یہ چیزیں قبول کر لیں اور انہیں غریبوں ،  محتاجوں میں تقسیم کر دیں ۔  آپ نے فرمایا،’’ اللہ ہی ہماری دولت اور پونجی ہے۔  تو پھر ہم تنگ دستی میں کیسے رہیں ۔ غریب محتاج ہمارے در سے خالی ہاتھ نہیں جاتے۔  ‘‘اُس کے بعد حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص سے فرمایا۔ سامنے جو پتھر پڑے ہیں ان میں سے جتنے اٹھا کر لا سکتے ہو لے آؤ۔ انہوں نے کچھ پتھر اٹھا کر حضرت کے ہاتھ میں رکھ دِیے۔ آپ کا ہاتھ ٹھیکروں کو لگتے ہی سب سونا بن گئے۔
اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ آپ جو سامان لائے ہو وہ سب سابرمتی میں ڈال دو،خادِم نے اَیسا ہی کیا، اس کے بعد حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی غیبی اور روٗحانی قوت اور اِنعام و اِکرام سے نوازا ہے جس کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ ہمیں دُنیاوی دَولت کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے ؟ اب آپ ہی بتائیں کہ ہم یہ مال و دولت کیسے قبول کریں ۔

(۱۲)   آپ کی ایک مشہور اور عجیب کرامت :
یوں تو حضرت سیدنا قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی  مجسمہ کرامتوں کا خزینہ تھی۔  لیکن ایک کرامت آپ سے ایسے صادر ہوئی جو تقریباً پونے چھے سو سال  گذرنے کے بعد آج بھی اسی شان سے آشکارا ہے۔
ایک مرتبہ آپ نماز تہجد کے لیے اٹھے۔ صحن میں ایک لکڑی پڑی تھی جس کی ٹھوکر آپ کے پاؤں مبارک میں لگی۔ پاؤں خون آلود ہو گیا۔ آپ کی زبانِ فیض سے فوراً نکلا : لوہا ہے۔ لکڑی ہے۔ ۔ کنکر ہے۔ پتھر ہے۔   خدا معلوم کیا ہے ؟۔ جب صبح ہوئی تو وہ لکڑی کا ٹکڑا ایک طرف سے لوہا۔  دوسری طرف سے لکڑی۔ تیسری طرف سے کنکر۔ چوتھی طرف سے پتھر ہو گیا۔ اور پانچویں طرف سے آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے ولی کی زبان کی تاثیر ہے کہ جو فرمایا وہی ہو گیا۔  اس ٹکڑے میں جو حصہ لوہا ہو گیا ہے اس میں موسمِ برسات میں زنگ لگتی ہے۔ جو حصہ لکڑی ہو گیا ہے اسے اگر ناخن سے کھرچو  تو خالص لکڑی کا برادہ نکلتا ہے۔ اور جو حصہ پتھر کا ہے وہ بالکل پتھر جیسا چکنا اور چمکدار معلوم ہوتا ہے۔  اور چوتھا کلمہ جو حضرت کی زبانِ مبارک سے نکلا تھا کہ خدا معلوم کیا ہے ؟  آج تک ہر دیکھنے والا اسے دیکھ کر کہتا ہے کہ خدا معلوم کیا ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اس پتھر کو ایک کونے میں دفن کر دو اور جو شخص اسے نکالے گا اسکی نسل آگے نہ چلے گی۔  لیکن آپ کی وفات پر آپ کا ایک مرید اسے منظر عام پر لے آیا۔ اور اپنی نسل کا خاتمہ فقط مرشد کے اظہارِ کرامت کے لیے منظور کر لیا۔ لوگ اس پتھر کی زیارت آج تک کرتے ہیں ۔  اس پتھر کا ایک ٹکڑا  اکبر بادشاہ کاٹ کر دھلی لے گیا۔  باقی وٹوا میں موجود ہے:
(۱۳)   آپ کی پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی:
فارسی کے قلمی مخطوطے  ‘ مناقب برہانی  ’ میں  ’’ ذکر مناقب بندگی حضرت سلطان شاہ عا لم رحمۃ اللہ علیہ  ‘‘ کے عنوان کے تحت نقل ہے کہ جام ٹھٹھّا کی دو شہزادیاں تھیں ، ایک بی بی مغلی اور دوسری بی بی مرکی۔ بی بی مغلی خوبصورتی اور دینداری میں بے مثال تھیں ۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فرزند ارجمند  حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ان سے نسبت مقرر کی۔ اسی دوران اپنی دوسری لڑکی بی بی مرکی کے ساتھ بانیِ۔ احمد آباد سلطان احمد شاہ نے اپنے فرزند سلطان محمد سے رشتہ طے کیا لیکن ہوا یوں کہ جو لوگ سلطان محمد کی طرف سے گئے تھے  وہ ان کا رشتہ بی بی مغلی کے ساتھ طے کر کے آ گئے۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ س حقیقت سے واقف ہوئے۔ حضرت شاہ عالم  رنجیدہ ہوئے۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا کہ رنجیدہ نہ ہو ں ۔ ہر دو شہزادیاں تمہارے نکاح میں آئیں گی۔
چنانچہ اس وقت تو بی بی مغلی کا نکاح سلطان محمد سے ہو گیا اس سے سلطان محمود بیگڑا پیدا ہوئے۔ بی بی مرکی سے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح ہوا کچھ عرصے کے بعد ہی سلطان محمد کا انتقال ہو گیا۔ سلطان محمد کا بڑا بیٹا سلطان قطب الدین باد شاہ بنا اور اپنے چھوٹے بھائی سلطان محمود کو گرفتار کرنے کے در پے ہوا  سلطان محمود کی والدہ بی بی مغلی بہت خوف زدہ ہوئیں ۔  رشتے کی قرابت (نزدیکی)کے سبب بی بی مغلی سلطان محمود کو لے کر اپنی بہن بی بی مرکی کے گھر حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی پناہ میں آئیں ۔
بقضائے اِلٰہی تھوڑے ہی عرصے میں بی بی مرکی کا انتقال ہو گیا۔   وفات کے تیسرے دن حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان محمود بیگڑا کی والدہ بی بی مغلی کو پیغام بھجوایا کہ آپ کی بہن وفات پا چکی ہیں ۔   آپ کا  اس ایک گھر میں رہنا بے پردگی کا سبب ہو گا۔ اس لیے یا تو آپ میرے نکاح میں آ جائیں  یا کہیں اور پناہ لیں ۔  بی بی مغلی نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے نکاح میں آنے کی بات کو اپنے لیے نیک سعادت سمجھا اور وہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے نکاح میں آ گئیں ۔ یوں حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ دونوں شہزادیاں تمہارے نکاح میں آئیں گی۔
ایک اور دلچسپ بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جب  حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے بی بی مغلی کی نسبت محمد شاہ سے کر دئے جانے پر رنجیدہ  ہو کر شکایت کی تو حضرت قطب  عالم رحمۃ اللہ علیہ نے پیشین گوئی کرتے ہوئے  فرمایا تھا کہ غم مت کرو، گائے بچھڑا لے کر آئے گی،  ویسا ہی ہوا۔ بی بی مغلی سلطان محمد شاہ کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے سلطان محمود بیگڑا کے ساتھ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ  کے گھر میں پناہ گزیں ہوئیں  اور آپ کے نکاح میں آئیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات ہی اپنے برگزیدہ اولیاء کو غیب سے آگاہ کرتی ہے۔  مستقبل کے حالات کا غیبی مشاہدہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔
مرآۃ سکندری میں لکھا ہے۔ کہ یہ واقعہ ایسا تھا کہ ملک سندھ کے بادشاہ جام جانوہ کی دو بیٹیاں تھیں بی بی مغلی اور بی بی مرکی۔  انہوں نے بی بی مرکی کی سلطان  محمد اور بی بی مغلی کی حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے خواستگاری کی تھی۔ جب سلطاں ن محمد نے بھی بی بی مغلی کی خوبصورتی  اور دینداری کی شہرت سنی تو جام کے پیشواؤں کو زیادہ سے زیادہ مال و زر کی رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ بی بی مغلی سلطان کو دیدی اور بی بی مرکی حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو۔ جب اس بات کی خبر  حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچی تو انہوں نے یہ حقیقت بے باکی سے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچا دی۔ آنحضرت نے فرمایا پتّر؟  تیرے نصیب میں دونوں ہیں اور ایک ایک بچہ یعنی فرزند  بھی دونوں سے تیرے نصیب میں ہیں اور ایسا ہی ہوا۔



حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے  مشائخ

حضرت سید عبد اللہ برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ابھی دس سال ہی کی عمر ہوئی تھی کہ آپ کے والدِ محترم سید ناصر الدین محمود  نوشہ  بن  مخدوم جہانیانِ جہاں گشت  وفات پا کر  اوچ  شریف میں  مدفون ہوئے۔   آپ کے جدِّ امجد حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت  آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وصال فرما گئے تھے،  لیکن اللہ رب العزت کا کرم دیکھئے کہ پیدائش سے پہلے ہی آپ نے اپنے دادا جان حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے قطبِ وقت ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ حاجرہ بی بی عرف سعادت خاتون صبح کے وقت حسبِ معمول حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کو سلام کرنے کی غرض سے حاضرِ خدمت ہوئیں  تو حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ن کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔  یہ بات آپ کے والد حضرت سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی  بیویوں کو ناگوار گزری۔ انہوں نے حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ  سے تعظیم کی وجہ پوچھی  تو آپ نے فرمایا کہ۔ حاجرہ  بی بی کے پیٹ سے ایک قطبِ وقت پیدا ہو نے والا ہے۔ اس لیے ان کے لیے کھڑے ہو کر تعظیم کی۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے  پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ آپ کے والدِ محترم حضرت سید ناصر الدین محمود حضرت رحمۃ اللہ علیہ زمین پر سو رہے تھے۔  ان کے پیٹ  پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔  حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ  کی نظر پڑی تو وہ کچھ دیر وہاں  با ادب کھڑے رہے۔ اور نہایت خوشی اور تعجب کے لہجے میں  فرمایا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر  !  ایک قطب پیدا ہو گا  جو صرف قطب ہی نہ ہو گا بلکہ قطب الاقطاب ہو گا ،  وہ فیض کا چشمہ ہو گا۔  اور وہ لوگوں کو راہِ حق دکھائے گا۔
ایک دن حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کو اپنی وہ چادر عطا کی  جسے آپ عبادت کے وقت اوڑھا کرتے تھے۔  پھر فرمایا کہ یہ میری امانت اس بچے کو دینا۔ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے لیے اسی چادر سے کپڑے بنائے جائیں ۔ اور چادر کے بچے ہوئے ٹکڑے  بھی بہت احتیاط کے ساتھ  رکھنے کی تاکید کی۔ فرمایا کہ یہ چادر بہت متبرک ہے۔   جب اللہ  رب العزت نے شب قدر کی  دولت سے مجھے نوازا تو یہ چادر مجھے پہنائی گئی۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے حضرت سید ناصر الدین محمود  رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ جو بچہ پیدا ہو گا وہ  قطب الاقطاب ہو گا۔  اسے مقام عبدیت حاصل ہو گا۔  اور جسے مقام عبدیت پر فائز کیا جاتا ہے  اسے عبد اللّٰہ کہا جاتا ہے۔ اور سلوک میں یہ سب سے اعلیٰ درجہ شمار کیا جاتا ہے۔
یوں حضرت شیخ المشائخ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے شیخ ہیں جن سے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ پنے والدِ ماجد حضرت سید ناصر الدین محمود  رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ ہیں ۔ آپ کو اپنے والدِ ماجد کی طرف سے بھی روحانی فیض حاصل ہوا۔  یوں تو روحانی فیض سلسلہ در سلسلہ حاصل ہوتا ہی ہے۔  آپ کی عمر ابھی دس سال ہی تھی کہ آپ کے والدِ ماجد  وفات پا گئے۔  لیکن اِس کم عمری میں ہی آپ نے آپ کے والد سے روحانی فیض و کمال حاصل کئے۔
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ سال کی تھی کہ ایک دن آپ اپنے والدِ محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔  آپ کے والدِ محترم اس وقت حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا خرقہ پہنے ہوئے بیٹھے تھے۔ آپ نے آ کر اپنے والدِ محترم سے دریافت کیا کہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا خرقہ کیا آپ کے پاس ہے؟ والدِ محترم نے ہاں کہ کر پہنا ہوا خرقہ اُتار کر آپ کو پہنا دیا اور فرمایا کہ خرقہ پہن کر حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے روضۂ  مبارک پر حاضر ہو جائیں ۔
یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دادا حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے اور اپنے والد محترم حضرت سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ سے روٗحانی فیض بچپن میں ہی حاصل کر لیا۔ آپ کے دادا حضرت سید جلال الدین حسین مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ بڑے عالم و فاضل تھے۔  آپ کو شیخا الاِسلام کا درجہ حاصل تھا۔  سلطان محمد تغلق آپ کا بڑا معتقد تھا۔ آپ کے فضل و کمال سے بہت متاثر تھا۔ آپ کی علمی قابلیت اور لیاقت سے متاثر ہو کر اس نے آپ کو شیخ الاِسلام کے مرتبے پر فائز کیا۔  چالیس خانقاہوں کی تولیت آپ کے سپرد تھی۔  تا ہم آپ نے دُنیوی شان و شوکت کو پسند نہ فرمایا۔ حضرت  سید جلال الدین حسین مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ امامِ اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کی پیروی فرماتے تھے اور اُنہیں کے مسلک پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔  آپ کے روٗحانی فیض نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو درجۂ  کمال تک پہنچا دیا۔
مناقبِ برہانی میں لکھا ہے کہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ  محترم حضرت سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی پیشوا تھے۔  بڑے مرتبے کے بزرگ ہیں ۔ انہوں نے اپنے والدِ محترم حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے کسبِ فیض کیا۔ اُنہوں نے اپنے زمانے کے جلیل القدر اور ماہرینِ علوم  سے جملہ علوم  و  فنون حا صل کیے۔
حضرت ناصر الدین رحمۃ اﷲ علیہ کو ہر علم و فن پر عبور حاصل تھا آپ کثیر الازواج اور کثیر العیال بھی تھے آپ با کرامت بزرگ تھے

حضرت میر سید صدرالدین راجو قتّال قدس سرہٗ

آں معدنِ عشق و انوار، آں مستِ شرابِ بے خُمار، آں ہمدمِ نسیمِ وِصال، قُطبِ وِلایت  میر سید صدر الدین راجو قتّال قدس سرّہ۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والدِ ماجد کے چچا اور حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی اور خلیفہ حضرت سید صدر الدین المعروف بہ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روحانی فیض حاصل کیا ہے۔
صاحبِ اَخبارالاخیار لکھتے ہیں کہ حضرت سید صدر الدین المعروف بہ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ پنے والد حضرت میر سید کبیر کے مرید و خلیفہ تھے۔ اور اپنے بڑے بھائی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری قدس سرہٗ سے بھی خلافت پائی تھی۔ آپ اُن کی وفات کے بعد اُن کی مسند پر متمکن ہوئے اور ایک جہان آپ سے فیض یاب ہوا۔ حضرت مخدوٗم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حق تعالیٰ نے مجھے خلقت کے ساتھ مشغول کی اور شیخ راجو کو اپنے ساتھ۔ آپ ہمیشہ عالمِ اِستغراق میں رہتے تھے اور خلقت سے میل ملاپ نہیں رکھتے تھے۔ آپ بڑے بلند مرتبہ اور مستجابُ الدعوات تھے۔ قہر یا لُطف میں سے جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا فوراً ہو جاتا تھا۔ تاریخِ محمدی میں لکھا ہے کہ حضرت مخدوٗم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کے اکثر لوگ شیخ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے۔ اور بعض آپ کے فرزند شیخ ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی وساطت سے۔  سیر العارفین میں لکھا ہے کہ جس وقت حضرت مخدوٗم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ مرض موت میں مبتلا تھے ایک ہندوٗ جس کا نام ’ناہوں ‘ تھا اور فارسی داں تھا سلطان فیروز شاہ کی طرف سے علاقہ اُوچ شریف کا حاکم مقرر تھا۔ وہ طبع پرسی کے لیے حاضر ہوا اور یوں عر ض گزار ہوا کہ حق تعالیٰ آپ کی ذاتِ با برکات کو صحت بخشے کیونکہ آپ کا وُجودِ مبارک اَولیاء اﷲ کے لیے اَیسے ہے جیسے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ  و سلم خاتمِ اَنبیاء تھے۔ یہ سُن کر حضرت شیخ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ ُس کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اِس سخن سے یہ آدمی بحکمِ شریعت مسلمان ہو گیا ہے۔ پس آپ اور وہاں بیٹھے ہوئے ایک دو مسلمان اس بات پر گواہ ہو گئے۔ جب ناہوں مذکور نے مجلس کا یہ رنگ دیکھا تو وہاں سے بھاگ کر دہلی چلا گیا اور سلطان فیروز شاہ سے واقعہ بیان کیا۔ چونکہ بادشاہ اُسے اچھا سمجھتا تھا۔  اُس نے ’ناہوں ‘ سے دریافت کیا کہ اگر یہ بات شریعتِ اِسلام کے مطابق تم پر ثابت ہو جائے تو کیا کرو گے۔ اُس نے کہا چاہے کچھ بھی ہو جائے مسلمان نہیں ہوں گا۔ اِس اَثناء میں مخدوٗم جہانیاں کا وِصال ہو گیا اور شیخ راجو گواہوں کو ساتھ لے کر بادشاہ کے پاس دہلی تشریف لے گئے۔ جب شہر کے قریب پہنچے بادشاہ سمجھ گیا کہ’ ناہوں ‘ کے سلسلے میں تشریف لا رہے ہیں ۔   چنانچہ بادشاہ نے دو تین بڑے عُلَماء کو بُلا کر مشورہ کیا۔ شیخ محمد بن قاضی عبد المقتدر بڑے دانش مند اَ ور تیز طبع تھے۔ اُنہوں نے کہا چونکہ آپ شیخ کے اِستقبال کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں پہلی ملاقات میں اُن سے دریافت کریں کہ حضرت اُس کافر کے سلسلہ میں تشریف لائے ہیں جب شیخ اِس بات کا اِقرار کریں کہ ہاں اُس کافر کے سلسلہ میں آیا ہوں تو میں بحث میں شامل ہو جاؤں گا۔ بادشاہ کو یہ بات پسند آئی اور شیخ محمد کو ساتھ لے کر شیخ کے اِستقبال کے لیے روانہ ہوئے۔  جب ملاقات ہوئی تو بادشاہ نے پوچھا کہ حضرت اُس کافر کے سلسلہ میں تشریف لائے ہیں ۔ آپ نے فرمایا،’’ہاں ! اُس مسلمان کے سلسلہ میں آیا ہوں ،یہ سُن کر شیخ محمد نے کہا کہ ابھی اُس کا اِسلام شریعت کی روٗ سے ثابت نہیں ہوا۔ شیخ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ کی غیرت جوش میں آئی۔ فرمایا،’’مخدوم زادے!تمہاری اِس بات سے دیانت کی بو نہیں آتی۔ جاؤ اپنے کفن کا بندوبست کرو۔ ‘‘  اِس کے فوراً بعد اُس کے پیٹ میں سخت درد پیدا ہوا، اور گھر چلا گیا۔ قاضی عبدالمقتدر نے حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری یہی ایک آنکھ(اِکلوتا بیٹا)ہے، اِسے مُعاف فرما دیں ۔  شیخ نے فرمایا، ’’اِس کا کام تمام ہو چکا ہے لیکن اِ س کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو اہلِ تقویٰ ہو گا۔ ‘‘ چنانچہ شیخ محمد فوت ہو گئے۔ اُن کی بیوی حاملہ تھیں ، اُن کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام ابوالفتح رکھا گیا،اُن کا مزار جون پور میں ہے۔ الغرض وہ ’ناہوں ‘ گواہوں کی شہادت کے با وجود اِسلام نہ لایا۔ اِس لیے اُسے قتل کر دیا گیا۔ (اِس لیے کہ شریعت کی روٗ سے مسلمان ہو کر مرتد ہو گیا اور مرتد کی سزا قتل ہے۔ ) اس کے بعد شیخ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ پنے وطن واپس تشریف لے گئے۔
ایک جنّ مخدوٗم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آ کر مسلمان ہو گیا اور مرید ہوا۔ آپ نے اُس کا نام عبداﷲ رکھا۔ تھوڑے عرصے میں اُس کی شہرت بڑھ گئی اور قومِ جنات میں اس کا بہت چرچا ہونے لگا۔ ایک دفعہ وہ جن حضرت راجو قتال کی خدمت میں جا کر شیخی کرنے لگا۔ اُسی وقت نیچے گر پڑا اور چلّانے لگا،’’میں جل گیا، میں جل گیا ‘‘لوگوں نے پانی کی مشکیں بھر کر اُس پر گرا ئیں ، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا،اور اُسی وقت مر گیا۔ اس قسم کی کرامات آپ سے بہت مشہور ہیں اور آپ کے کمالات اَظہر من الشمس ہیں ۔  آپ سلطان فیروز شاہ  کے عہد سے لے کر مبارک شاہ بن خضر خاں کے عہد تک مخدوم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ کی مسند پر متمکن رہے اور سجادگی کا حق ادا کرتے رہے۔ آپ کے اکثر مرید مرتبۂ  خلافت و اِرشاد کو پہنچے۔ آپ کا مزار بھی اُوچ شریف میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ آپ کا وِصال شب بتاریخ سہ شنبہ سولہ جمادی الآخر ۸۲۷ ھ ہوا۔ (رحمۃ اﷲعلیہ)
ایک دن کی بات ہے۔  حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ ماجد حضرت ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو رنجیدہ دیکھا۔ سمجھ گئے کہ کیا بات ہے۔  کہنے لگے رنج و غم کی کوئی بات نہیں ہے۔  آؤ جو روٗحانی فیوض مجھے اور تمہیں ملے ہیں وہ ہم دونوں  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو دیدیں ۔ حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر لے گئے۔  حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فیوض حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمائے۔  اور پھر آپ سے کہا کہ یہی نہیں بلکہ تین اور نعمتیں جو مجھے میرے پیر و مرشد سے ملی ہیں وہ بھی تم کو عنایت کرتا ہوں ۔ وہ تین نعمتیں یہ ہیں : (۱) میرے پیرو مرشد کا خرقۂ  مبارک (۲) دوسرے مال و دولت کی دیگ اور (۳) تیسرے وہ تلوار جس کو دو دھاریں ہیں ۔
 اس طرح حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فیوضِ روٗحانی سے آپ کو نواز دیا۔  حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی روٗحانی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔  اور آپ کو درجۂ  کمال پر بلکہ قطبیتِ کبریٰ کے درجے تک پہنچا دیا۔  حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کی تاکید سے ہی آپ نے گجرات میں سکونت اختیار کی۔  حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ گجرات کی سرزمین تمہارے سپرد ہے۔  اور گجرات کے لوگوں تک پیام حق پہنچانا اور اُن کو تاریکی سے روشنی میں لانا تمہارے ذمّے ہے۔ اور فرمایا کہ ان فرائض کو بخیرو خوبی انجام دینا۔  اور رُشد و ہدایت کرتے رہنا۔

حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا خط:
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف تقریباً ۲۵  سال رہی ہو گی کہ آپ پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری رہتی۔  کیف و مستی کا عالم نہایت ہی عجیب تھا۔ لیکن آپ  اپنے نفس سے بار بار یہی فرماتے تھے کہ اَے نفس! اَے شیطان کے اُستاد! سُن لے میں تیری بات کبھی نہ مانوں گا۔  بالآخر آپ نے اپنی کیفیت سے حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کوآگاہ کرتے ہوئے ایک خط لکھا’‘ خط کا مضمون یوں تھا۔
’’. . . . . . .حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت اور والدِ محترم اور آپ کی نور انی نظروں اور روٗحانی فیوض کی وجہ سے اس احقر کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ جو نہ بیان کر سکتا ہوں اور نہ دِکھا سکتا ہوں ۔  حالت یہ ہے کہ آج کل میرے جسم کی ہر نبض اور ہر رگ و تار سے ’’اَنا الْحَقْ ‘‘ کی آواز آیا کرتی ہے۔  آواز اِس قدر صاف اور زور سے آتی ہے کہ پاس بیٹھنے والوں کے کانوں میں سنائی دیتی ہے۔  اِس لیے میں نے یہ طریقہ اِختیار کیا ہے کہ الگ تھلگ ایک گوشے میں رہتا ہوں ۔  کئی بار میں نے اپنے آپ کو پتھروں کی چٹانوں پر پھینکا، آگ میں گرایا،۔ میں گہرے پانی میں کودا تاکہ موت آ جائے، لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔  میں تھک کر بیٹھ جاتا ہوں ۔  موت نہیں آتی۔
  میں دیکھ رہا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ میری سختیوں کے سامنے ہر چیز اپنی طاقت  اور قوت کھو بیٹھتی ہے۔  اب آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اگر اِجا زت ہو تو خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر اپنی حالت خود آپ کے گوشِ گزار کر دوں ۔  زیادہ حَدِّ اَدب. . . . .‘‘
  حضرت  راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی کرتے ہوئے خط کا جواب یوں اَرسال فرمایا۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
السلام علیکم . . . . . . .اہل اِسلام کے نزدیک یہ مسنون طریقہ ہے۔  میرے بیٹے ! سیدوں کے سردار! سوالوں کے سمندر !  طٰہٰ، یٰسین یعنی نبی رسول کریم  ﷺ کی اَولاد کی مانند اور نبی ﷺ کے نچوڑ اور پرہیزگاری کی کان کے موافق اور قطبیت کے آسمان اور سورج کے موافق دُعائیں شیخ برہان الدین ! اللہ کی رحمتیں اور سایہ آپ کے ساتھ ہے۔  یہ بات یاد رکھنا اور کبھی نہ بھولنا کہ میں خاص وقت میں فرزندِ عزیز کی اِستقامت کی مضبوطی اور ثابت قدمی کے لیے دُعاء کرتا رہوں گا۔ بعدہٗ جو کیفیت ظاہر ہو تی ہے اس کو قطبیتِ کبریٰ کے آثار کو مان کر اور سمجھ کر اور زیادہ بلند درجے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا۔
فقط   والسلام۔ . . . . . . .’’
حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کے اس خط نے آپ کی راہبری کی۔ خط سے یہ ثابِت ہوتا ہے کہ پیش آنے والے روٗحانی معاملات میں حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت  قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی کس قدر رہنمائی فرمائی۔
حضرت سید صدر الدِّین راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ بڑے جید عالِم و فاضل تھے اور روحانی اَسرار کے واقفِ کُل اور تصوف کے رہ نما تھے۔ اعلیٰ مرتبت ولیِ  کامل تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کی زیارت سے  سرفراز  فرمائے ۔  آمین۔   یَا اِلٰہ الْعَالَمِیْن۔
اِلٰہی بصدقۂ  حضرت سید راجو قتّال
عطا کر ہم گناہ گاروں کو نیک اَعمال
’’ تاریخِ اَولیائے گجرات‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے گجرات میں سہروردیہ سلسلے کو پھیلانے میں جو کارہائے نمایاں کیے ہیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں ۔ حضرت سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کی گجرات پر خاص توجہ رہی ہے۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ احمد کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روٗحانی فیض حا صل کیا ہے۔ اور اُن سے خِلافت و اِجازت بھی حاصل کی۔ فارسی قلمی نسخے ’’چہار گلشن ‘‘ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ۔
’’از شیخ احمد کھتّو نیز خلافت یافت۔ ‘‘
حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ اہلِ بصیرت کے مقتداِ  ہیں ۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے علمِ باطن حاصل کیا۔ آپ نے اُن سے تعلیم و تربیت پائی اور اُن کے روٗحانی فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ  فیوٗض و برکات حاصل کرنے کے بعد اپنے مقام پر چلے گئے۔  لیکن سال میں دو مرتبہ حضرت شیخ احمد کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لاتے۔ حضرت اُن کو ہر سال دو اشرفیاں دیتے۔
ایک مرتبہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کی جا نماز اور وضو کے برتن  جو حضرت وضو کے کام میں لاتے تھے،اُنہیں حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت شیخ احمد کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کی خواہش پوری کی۔ حضرت نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو مغربی سلسلے میں بیعت کرنے کی اِجازت بھی دی۔
’’یادِ ایّام ’’ کے مصنِّف نے بھی لکھا ہے کہ سید عبد اللہ محمود بخاری(یعنی حضرت قطب عالم) اور سید محمد بن عبد اللہ (یعنی حضرت شاہ عالم)نے اُن سے یعنی حضرت شیخ احمد کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ سے فیضِ صحبت حاصل کیا۔
حضرت شیخ احمد کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ  مغربیہ کے نامور سرِ حلقہ ہیں ۔  شہاب الدین آپ کا لقب تھا۔ اہلِ گجرات اُنہیں گنج بخش کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ آپ دہلی کے گنج آباد سے تعلق رکھتے تھے۔  بچپن میں ایک زور دار آندھی آئی اور ان کو اُڑا لے گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حضرت شیخ اِسحق مغربی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچا دِیا۔ وہ ان کو کھٹّو لے آئے۔  کھٹّو ناگور کے قریب ایک گاؤں ہے۔  شیخ  اِسحق مغربی رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کی ایسی تعلیم و تربیت فرمائی کہ وہ بلند درجات پر فائز ہو گئے۔ سفرِ حج سے واپسی میں مظفر شاہ کے اِصرار سے گجرات میں ٹھہر گئے۔  سلطان احمد شاہ اور محمد شاہ دونوں اُن کے عقیدت مند تھے۔  احمد آباد کا سنگِ بنیاد اُنہیں کے دستِ مبارک  سے رکھوایا گیا۔
آپ کے علمی تجربے کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ سفرِ حج سے واپس ہوتے ہوئے  سمر قند پہنچتے ہیں تو وہاں اُصوٗلِ فقہ کے ایک مسئلہ پر جس میں علماء گفتگو کر رہے ہیں اور حل نہیں ہوتا۔  آپ تقریر کرتے ہیں تو غُل مچ جاتا ہے۔  لوگ اُن کی طرف دوڑتے ہیں ۔ اور ان کو صدرِ مجلس کی جگہ دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یادِ ایّام)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندانی حالات سے پتا چلتا ہے کہ آپ حضرت دہلی کے تغلق شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والدِ ماجد کا نام مَلِک اِختیار الدین ہے۔  ۱۳۳۸  ِ  میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اِسم گرامی مَلِک نصیر الدین ہے۔
آپ کومَلِکُ المشائخ، سِراجُ الاولیاء، تاجُ الاصفیاء اور بُرہانُ الحق اور جمال الدین کے القاب سے نوازا گیا۔  گنج بخش آپ کا خطاب ہے۔  آپ نے حضرت بابا اِسحق مغربی علیہ الرحمہ سے خلافت حاصل کی۔
کہا جاتا ہے کہ حج سے فارِغ ہو کر آپ مدینہ منورہ پہنچے تو جب سرکارِ دو عالم  ﷺ کا روضۂ  انور دکھائی دیا تو آپ پر والہانہ کیفیت طاری ہوئی۔ آپ اوٗنٹ سے کود پڑے اَور تیزی سے چلتے ہوئے اور دروٗد شریف پڑھتے ہوئے اور سرکار دو عالم ﷺ کی شانِ اَقدس میں نعتیہ َاشعار پڑھتے ہوئے دربارِ رِسالت میں حاضر ہوئے۔  لوگوں نے آپ کو مہمان رکھنا چاہا لیکن آپ نے اِنکار کرد یا۔ اور فرمایا کہ
’’  آج میں سرورِ عالم کا مہمان ہوں ‘‘
روضۂ  منوّرہ میں جوں ہی حاضر ہوئے تو ایک شخص نے جو مجاوروں میں سب سے بڑا مانا جاتا تھا، آپ کو کھجوریں پیش کیں جو کپڑے میں لپٹی ہوئی تھیں اور کہا کہ یہ کھجوریں سرور عالم ﷺ کی طرف سے ہیں جن کے آپ مہمان ہیں ۔    (از تاریخِ صوفیائے گجرات)
حج کے مبارک فریضے کی بحسن و خوبی ادائیگی کے بعد واپسی پر آپ ٹھٹہ ہوتے ہوئے اُوچ تشریف لائے۔ اس متبرک مقام پر آپ نے حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔  فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے۔
  پھر کچھ دنوں کھٹّو میں قِیام کرنے کے بعد دہلی تشریف لائے۔ اور خان جہاں کی مسجد میں قیام فرمایا۔  مُراقبہ، ذِکر و فکر اور تحصیلِ علم میں مشغول ہو گئے۔  یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سید مخدوٗم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں تشریف فرما تھے۔  خبر ملنے پر حضرت مخدوٗم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ خان جہاں کی مسجد میں تشریف لائے اور آپ سے ملاقات فرمائی،بہت خوش ہوئے، بہت سی دُعائیں دیں ۔  صاحبِ دل بزرگ کا مرتبہ عطا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ حضرت مخدوٗم رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ تبرکات عطا کیے۔ حضرت مخدوٗم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی دُعاؤں کاہی نتیجہ تھا کہ آپ شیخ الاِسلام کے درجے پر فائز ہوئے۔  مشائخِ کبار میں آپ کا شمار ہوا۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹّو رحمۃ اللہ علیہ کا وصال گجرات کے بادشاہ سلطان محمد شاہ کے زمانے میں ہوا۔  آ پ رحمۃ اللہ علیہ ۱۴  شوّال ۸۴۹    ھ کو واصل بحق ہوئے،تاریخ یہ نکلی:
’’ شہ عالم  محمّد را  بقا  باد ‘‘ ۸۴۹ ھ
آپ کا مزارِ پُر اَنوار مقامِ  سرخیز، احمد آباد میں واقع ہے۔  مجمعِ خاص و عام کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب تو رَوضہ سے ملحقہ تالاب کے تینوں طرف ایک خوبصورت وسیع باغ بنایا گیا ہے۔  یہ باغ دیکھنے کے قابل ہے۔
٭سَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِ  اللّٰہِ الصَّا لِحِین٭
  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ بحکم حضرت سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ گجرات میں رونق افروز ہوئے۔ پٹن میں سکونت اِختیار کی۔  اُس وقت حضرت شیخ رُکن الدین کانِ شکر نبیرۂ  حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ بھی پٹن ہی میں مقیم تھے۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے بھی کسبِ فیض کیا۔ اُن کے مشوروں سے اُمورِ ظاہری و باطنی میں مشغول ہو گئے۔  حضرت شیخ رکن الدین کانِ شکر رحمۃ اللہ علیہ سلطان احمد شاہ کے زمانے میں پٹن میں شمع ہدایت تھے۔ تاریخ سلاطینِ گجرات میں آپ کے بارے میں یوں لکھا ہے :
’’ در پتّن حضرت رُکن الدین نبیرۂ  حضرت فرید الدین گنج شکر‘‘
  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ سے طالبِ  طریقت ہوئے۔ اُن سے اکتسابِ  فیض کر کے اپنی روٗحانی پیاس بجھائی۔  اَعلیٰ مراتب تک پہنچانے میں آپ کے مشورے   شامل رہے ہیں ۔
حضرت شیخ رکن الدین کانِ شکر رحمۃ اللہ علیہ کو قدوۃالمکاشفین اور شمس الواصلین کہا گیا ہے۔  آپ پٹن میں  ۷۰۷  ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد کا نام حضرت علم الدین محمّدہے۔ آپ زہد و تقویٰ میں بہت مشہور تھے۔  آپ کا نسب نامہ امیر   المؤ منین حضرت عمر بن خطاب ص سے ملتا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا چشتیہ سلسلے کے بزرگوں میں شمار ہو تا ہے۔ حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کس پائے کے بزرگ تھے۔ اس بات کا پتا اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ یک مرتبہ آپ سے ملنے آئے آپ سے خواجہ گیسو دراز  رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ سلطان العارفین حضرت بایزید  بستامی رحمۃ اللہ علیہ ور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے جیسا کسب و فتوحات آج کل کے درویشوں کو کیوں حاصل نہیں ہے۔ حضرت شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات سیدھی سادھی ہے۔ وہ نہ تو خود اور نہ ان کے زمانے میں درویش اپنی کمر سے حمیانی(روپیوں کی تھیلی) باندھتے تھے۔  ان کو کامل توکل حاصل تھا۔ یہ سن کر اسی وقت حضرت گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی حمیانی  (روپیوں کی تھیلی) اُتار کر پھینک دی۔
حضرت شیخ بڑے متحمل اور برد بار تھے۔ کسی نے یہ نہیں سنا کہ آپ نے کبھی کسی کو برا کہا ہو گا۔ آپ کسی بھی شخص کو برا نہیں کہتے۔ آپ کبھی غصہ نہ کرتے تھے۔ آپ کی یہ تعلیم تھی کہ پیرانِ عظام کی پیروی از بس ضروری ہے۔  پیر کی خدمت کیے بغیر مرید کو کچھ نہیں ملتا۔  پیر کی دُعاء مرید کے حق میں تریاق کا کام کرتی ہے۔  پیر و مرشد کی صورت دیکھنا مرید کے لیے عِبادت کی طرح ہے . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . (از تاریخِ اولیاء گجرات)
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ  نے پٹن کے ایک بزرگ عالم حضرت مولانا علی شیر سے درسیات کی تعلیم حاصل کی۔  اس وقت پٹن میں مولانا علی شیر صاحب کا مدرسہ کافی مشہور تھا۔  ان کے حلقۂ  درس میں طلبہ جوق در جوق آتے تھے۔ ان سے علم حاصل کرنا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ حضرت سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مولانا علی شیر سے ظاہری علوم میں اکتسابِ فیض کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ مولانا علی شیر کے مدرسے میں ظاہری علوم حاصل کر رہے تھے تو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے فرزندان بھی حصولِ تعلیم کے لیے جایا کرتے تھے۔  ایک دِن تمام صاحبزادے سواریوں پر بیٹھ کر مدرسے چلے گئے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ رہ گئے۔  اُن کے لیے کوئی سواری نہ تھی۔  کسی نے کہا کہ سواری نہیں ہے تو حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کس طرح مدرسے جائیں گے حضرت شاہ  عالم رحمۃ اللہ علیہ فوراً دیوار پر چڑھ گئے اور دیوار چلنے لگی۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ دیوار کے اوپر سے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بغلگیر ہوئے اور پکڑ لیا۔  فرمایا کہ’’ اِ مروز اِیں فرزند را مقام مخدومی کرامت شد۔  یعنی آج اس فرزندِ عزیز کو مقام مخدوٗمیت حاصل ہوا۔  (صد حکایت)
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ محی الدین بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روٗحانی فیض حاصل کیا ہے۔ دکن سے حضرت بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ گجرات تشریف لائے۔  پٹن میں تشریف آوری ہوئی۔  آپ نے حضرت شیخ رکن الدین کان شکر رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ اور ان سے درسِ عبرت حاصل کیا۔  جب بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ گجرات تشریف لائے تو حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف (۱۴) سال کی تھی۔  جب پٹن میں حضرت بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو قطبیت کے آثار آپ میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور آپ سے فرمایا کہ میرے بزرگوں سے جو فیض ملا ہے وہ میں آپ کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں ۔ اس طرح حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ،خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ سے مستفیض ہوئے اور بندہ نواز سے آپ کا ایک روٗحانی تعلق قائم ہوا۔
حضرت خواجہ محی الدین بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ  چشتیہ کے اکابر اولیاء میں سے ہیں ۔ آپ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں ۔  بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم و فاضل تھے۔ کم و بیش  پانچ سو (۵۰۰) کتابیں لکھی ہیں ۔
 ’’جوامع الکلم’’ آپ کی مشہور کتاب ہے۔  آپ کے مکتوبات بہت مشہور ہیں آپ نے ان مکتوبات کے ذریعے اپنے مریدوں کو جن میں اعلیٰ حکّام بھی تھے۔  بڑی پیاری نصیحتیں کی ہیں ۔  دینی مشاغل کی باتیں بتلائی ہیں ۔  تصوّف کے عقیدے بیان کیے ہیں ۔  خصوصاً’’ تصوّرِ شیخ‘‘ پر آپ نے بہت زور دیا ہے۔ نہایت اعلیٰ اخلاقی قصے بھی بیان کیے ہیں ۔ ان اخلاقی قصوں کو پڑھنے سے نفس کی اِصلاح ہوتی ہیں ۔  اور دِل پر نہایت اچھا اثر پڑتا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک گلبرگہ شریف (دکن) میں مرجعِ خلائق ہے۔  آپ کی تصنیفات مطالعہ کے قابل ہیں ۔  روضۂ  مبارک کے قریب کتابوں کی دُکان ہے جہاں آپ کی تخلیقات فروخت ہوتی ہیں ۔ علمی و روٗحانی پیاس بجھانے والوں کے لیے منبعِ آبِ روٗحانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار رحمتوں کی بارش ہو بندہ نواز پر اور برکتوں کے انوار اُتریں ،اُن کی قبرِ مبارک میں ۔
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ یعقوب رحمۃ اللہ علیہ بن مولانا خواجگی سے بھی اِستفادہ فرمایا ہے۔  شیخ یعقوب بن مولانا خواجگی بڑے عالم و فاضل تھے۔ روٗحانی پیشوا تھے۔
’’یادِ ایّام‘‘ کے مصنف سید عبدالحی صاحب نے لکھا ہے کہ شیخ یعقوب بن مولانا خواجگی (متوفیٰ۷۹۸   ھ)شیخ زین الدین دولت آبادی کے خلیفہ اور اپنے زمانے کے ممتاز مشائخ میں سے تھے۔  فصوص الحکم کا درس دینے میں ان کو کمال حاصل تھا۔  نہروالہ میں اُن کی خانقاہ تھی جو گمراہوں کو چراغِ ہدایت کا کام دیتی تھی۔  شیخ برہان الدین عبد اللہ البخاری نے بھی اُن سے اِستفادہ کیا ہے . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .(یاد ایّام  صفحہ :  44)
یاد ایّام میں لکھا ہے کہ سید برہان الدین عبد اللہ بن محمود البخاری ’۱۲’ بارہ سال کی عمر میں گجرات تشریف لائے۔ اُس زمانے میں جس قدر مشائخِ چشتیہ وقادریہ ونقشبندیہ  بقیدِ حیات تھے ہر ایک سے فائدہ اٹھایا۔  ان گوناگوں نعمتوں سے مالا مال ہونے کے بعد فیض رسانی کی طرف  متوجہ ہوئے۔ شاہانِ گجرات ان کی خاکِ قدم کو  کحل الجواہر  سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے ۸۵۷   ھ میں وفات پائی۔  . . . . . . . . . .(یاد ایّام  صفحہ :  46)
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اولیائے کرام اور علمائے کرام سے فیض حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ مرتبے پر قائم ہو کر اہلِ گجرات کی فیض رسانی کی۔  اُن کی اِصلاح کی طرف متوجہ ہوئے۔ مذہبِ اِسلام کی ایسی تبلیغ کی کہ مثال مشکل ہے۔ اُن کے خلفاء نے آپ کی تعلیمات کو پورے گجرات میں پھیلایا۔ گجرات آفتابِ اِسلام کی روشنی سے جگمگا  اُٹھا۔
لاکھوں سلام، لاکھوں رحمتیں اور برکتیں ہوں حضرت قطب الاقطاب
سید  برہان الدین  عبد اللہ  بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر




حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کے خلفاء صالحین


ابو محمد سید عبد اللہ برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ اپنی والدہ محترمہ بی بی ہاجرہ سعادت خاتون کے ہمراہ گجرات میں تشریف لائے۔ گجرات میں قیام کرنے کی ترغیب آپ کے حقیقی چچا سید راجو قتّال رحمۃاللہ علیہ نے یہ کہتے ہوئے دی کہ اہل گجرات کی ہدایت آپ کے ذمّے کی گئی ہے۔ آپ پہلے پٹّن تشریف لائے۔ گجرات کے سلطان مظفر شاہ نے آپ کا شاندار استقبال کیا جو آپ کے جدّ امجد حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہ کا مرید اور معتقد تھا۔ آپ نے پٹّن میں اِسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلائی۔ سلطان احمد شاہ کی درخواست پر آپ احمد آباد تشریف لائے۔ اور پہلے اَساول اور پھر بٹوا میں قیام فرمایا۔ گجرات میں سہروردی سلسلے کو فروغ دیا۔  حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ ور ان کے اہل خاندان نیز ان کے خلفاء صالحین نے گجرات کو اپنے مساعیِ جمیلہ کے ذریعے سلسلۂ تصوّف کا ایک عظیم الشان مرکز بنا دیا تھا۔ گجرات میں سہر وردیہ سلسلے کو سلسلۂ چشتیہ سے زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ سہر وردیہ مشائخین سے خاص و عام کی وابستگی تھی۔ شاہان گجرات، وزراء، امراء اور عوام الناس کو اس سلسلے کے بزرگوں سے بہت محبت تھی۔ گجرات ان کے انوار سے دمکنے لگا۔  خصوصاً احمد آباد میں قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے صاحبزادے اور جانشین حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ کی خانقاہ  مرجع خلائق تھی۔
قطب عالم علیہ الرحمہ کے خلفائے صالحین کی تعداد تقریباً۲۰۰  سے زائد ہے۔ خاص خلفاء کے نام حسب ذیل ہیں :
(۱)حضرت مخدوم شیخ محمود دریا نوش رحمۃاللہ علیہ
  (۲)حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ
(۳)حضرت سید احمد شاہ پیر رحمۃاللہ علیہ
(۴)حضرت  سید محمد اصغر عرف شیخ محمد رحمۃاللہ علیہ
(۵)حضرت شاہ صادق رحمۃاللہ علیہ
(۶)حضرت شاہ  سَا لِم رحمۃاللہ علیہ
(۷)حضرت شاہ راجو رحمۃاللہ علیہ
(۸)حضرت مخدوم شیخ صالح رحمۃاللہ علیہ
(۹)حضرت شاہ زاہد رحمۃاللہ علیہ
(۱۰)حضرت شیخ عبد الطیف رحمۃاللہ علیہ
(۱۱)حضرت سید عثمان (شمع برہانی) رحمۃاللہ علیہ
(۱۲)حضرت علی خطیب احمد آبادی رحمۃاللہ علیہ
(۱۳)حضرت شیخ نجم الدین رحمۃاللہ علیہ
(۱۴)حضرت شیخ سراج الدین رحمۃاللہ علیہ
(۱۵)حضرت شیخ قطب الدین رحمۃاللہ علیہ
(۱۶)حضرت شیخ فضل اللہ کا شانی رحمۃاللہ علیہ
(۱۷)حضرت قاضی محمود بیر پوری رحمۃاللہ علیہ
(۱۸)حضرت شیخ ابو القاسم رحمۃاللہ علیہ
(۱۹)حضرت شاہ خواجہ  رحمۃاللہ علیہ
(۲۰)حضرت شیخ کمال الدین کرمانی رحمۃاللہ علیہ
(۲۱)حضرت شیخ قاضی عصیب الوری رحمۃاللہ علیہ
(۲۲)حضرت شاہ عبد الرحمٰن رحمۃاللہ علیہ
اِن کے علاوہ اور بھی کئی خلفاء ہیں جن کے نام دستیاب نہیں ہو سکے ہیں ۔ مذکورہ بالا خلفاء قطبیہ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔  آپ حضرات کا مقصدِ حیات عبادتِ اِلٰہی، تبلیغ اِسلام، عوام الناس کی خدمت غرباء و مساکین اور مظلومین کی اِعانت کرنا تھا۔ یہاں حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے چند مشہور خلفاءِ صالحین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کے حالات نگاہِ دِل سے پڑھے جائیں گے تو یقینا دلوں کی کیفیت بدل جائے گی۔ اُن کے ذخائرِ نعمت میں سے اگر ایک مشت بھی مل جائے تو زہے قسمت۔

(۱)  حضرت سید احمد علیہ الرحمہ
حضرت سید احمد علیہ الرحمہ شاہ پیر کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔   ۸۱۹  ھ میں بمقام پٹّن آپ کی وِلادت ہوئی۔ آپ حضرت قطبِ عالم رحمۃاللہ علیہ کے فرزندِ رشید ہیں ۔    والدِ ماجد حضرت قطبِ عا لم رحمۃاللہ علیہ کی نگرانی میں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ آپ حضرت قطبِ عالم رحمۃاللہ علیہ کے مُرید اور خلیفہ ہیں ۔  یہ بڑے مراتب کی بات ہے۔ فرزندِ رشید بھی، مُرید بھی اَور خلیفہ بھی۔
آپ اپنے والدِ محترم کا بہت زیادہ ادب فرماتے تھے۔ آپ نے کبھی والدِ ماجد کے مزار کی طرف پشت(پیٹھ) نہیں کی۔ ایک مرتبہ حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ ور آپ  حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے مزار پر حاضر تھے۔ نمازِ مغرب کا وقت ہو گیا۔ حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ نے آپ کو اِمامت کے لیے آگے کیا۔  چادر بچھاتے وقت یہ خیال آیا کہ آپ نے کبھی حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے مزار کی طرف پیٹھ نہیں کی ہے۔ حضرت شاہ عالم کو یہ بات کشف سے معلوم ہوئی تو آپ نے اُن کو ہٹا دِیا اور خود آگے بڑھ گئے۔
حضرت سید احمد شاہ پیر رحمۃاللہ علیہ جماعت سمیت روضۂ  مبارک سے باہر نکل آئے۔ باہر آ کر جماعت کی اور خراسانی لہجے میں قرأت کی۔ اس وقت آپ کی ایک زبر دست کرامت کا ظہور ہوا۔ سب کو یہ اِحساس ہوا کہ سب کعبہ شریف میں نماز ادا کر کے روضۂ  مبارک میں لوٹ آئے ہیں اور اپنے اپنے جوتے جہاں رکھتے تھے وہاں آ کر حاضر ہو گئے ہیں ۔ شاہ پیر رحمۃاللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے روضۂ  مبارک کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ وہ سب ان کا تصرف تھا اور میں نے جو کچھ حاصل کیا ان ہی سے حاصل کیا ہے۔    
با ادب با نصیب۔ جو اپنے والد اور پیر کا ادب کرتا ہے وہ مقام بلند کو پہنچ جاتا ہے۔
حضرت شاہ پیر رحمۃاللہ علیہ ترکِ دُنیا میں یکتا تھے۔  آپ نے نہ صرف حضرت قطبِ عالم رحمۃاللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ میں آپ سے فیض حاصل کیا بلکہ ان کے وِصال کے بعد بھی ان کی روٗح پُر فتوح سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ بس ظاہر ہوا کہ اولیاء اللہ بعد وِصال کے بھی فیض سے سیراب کرتے رہتے ہیں ۔  ضرورت ہے دُرست عقیدے کی۔ جس نے اپنا عقیدہ درست رکھا  وہ یقین کی دولت سے مالامال ہوتا ہے۔
۶۳  سال کی عمر میں ۸۸۲  ھ میں آپ کا وِصال ہوا۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃاللہ علیہ کے مقبرۂ   خاص میں مشرق کی جانب آپ کا مزارِ مبارک ہے۔

(۲) حضرت شاہِ عالم رحمۃاللہ علیہ
حضرت شاہِ عالم محبوبِ باری رحمۃاللہ علیہ کی وِلادتِ با سعادت،۱۷ ذی القعدہ ۱۴۱۴ِ  پیر کی شب پٹّن میں ہوئی۔ ۸۱۷  ھ تاریخِ وِلادت وارِث علی سے نکلتی ہے (بشارتِ نبی)نبیِ  اکرم  ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کا نام محمد رکھا گیا۔ آپ مادر زاد ولی ہونے کے ساتھ ساتھ عالی تصرفات کے حامل تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک سے تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے پیدا ہوئے۔
نبیِ  کریم  ﷺ کے ساتھ آپ کا عجیب حسنِ اتّفاق ہے۔ نیز نہایت ہی حیرت کی بات ہے کہ آپ کا اسم گرامی محمد ہے۔ آپ کے والدِ محترم حضرت قطبِ عالم کا نام عبد اللہ اور آپ کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ اور آپ کی دایہ کا نام حلیمہ تھا۔ اور آپ ہم شکلِ مصطفیٰ تھے۔
حضرتِ شاہِ عالم رحمۃاللہ علیہ کی عمر شریف چار سال چار ماہ چار دِن کی ہوئی تو حضرت سید برہان الدین قطبِ عالم بخاری رحمۃاللہ علیہ نے آپ کی بِسْمِ اﷲ خوانی کی محفل منعقد فرمائی۔ چاند ی کی تختی پر بِسْمِ اﷲ شریف لکھ کر رسم ادا فرمائی۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خرما پر اپنا لعابِ دہن لگا کر حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا اور آپ نے اُسے تناول فرمایا۔ یہیں سے آپ کی تعلیم  و تربیت کی ابتداء ہوئی۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل اپنے والدِ محترم نیز پیر و مرشد حضرت قطب الا قطاب سید برہان الدین قطبِ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کی، نیز خلافتِ عظمٰی حاصل کی۔  عربی، فارسی زبان میں آپ نے درجۂ  کمال حاصل کیا۔ تفسیر، حدیث، منطق اور فقہ وغیرہ علوم بھی حاصل کیے۔  اس کے علاوہ آپ نے وا لدِ گرامی حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے اس زمانے کے مشہور و معروف علماء کرام اور مشائخِ عظام سے شرفِ  تلمذ حاصل کیا۔  ان کے اسماء گرامی یہ ہیں ۔ شیخ الاقطاب حضرت خواجہ شیخ رکن الدین کانِ شکر رحمۃ اللہ علیہ ۔ تاجا لاولیا حضرت مخدوم شیخ احمد گنج بخش کھٹّو مغربی سرخیز ی رحمۃ اللہ علیہ ۔ حضرت خواجہ شاہ بارک اللہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ ۔ حضرت خواجہ مولانا سید کمال الدین حنفی چشتی رحمۃ اللہ علیہ ریحا نۃالابرار کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیرمُدارک،مشارق الانوار اور ہدایہ کے اسباق آپ سے پڑھے ہیں ۔ اور حضرت علامہ علی جین کی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے قرأت اور صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی۔  حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف ۱۶  سال کی عمر میں آپ نے جملہ علوم حاصل کر لیے تھے۔ لیکن انوارِ  روٗحانیت کے انبار تو اپنے والدِ ماجد اور مرشدِ کامل حضرت قطب الا قطاب قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے۔  ایک دن حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ پنے حجرۂ مبارک میں گریہ و زاری میں مشغول تھے۔ یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک سے آنسو ٹپکنے لگے۔ اسی دوران حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شفقت و محبت سے فرمایا۔ با با میاں منجھلے جو مانگنا ہو مانگ لو۔ آپ نے عرض کیا۔ عشقِ ربّانی کے سمندر سے جو آپ کو عطاء ہوا ہے اس میں سے ایک بوند عنایت فرمائیں ۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دستِ مبارک سے شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو تھاما اور اپنی ریش مبارک سے آنسو کے چند قطرے حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے دہنِ مبارک۔
(منہ)میں نچوڑ دِیے۔  حضرت شاہِ عا لم رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ والدِ محترم کے ان آنسوؤں کی چند بوندیں میرے دِل میں روشن ستاروں کی طرح چمکنے لگیں ۔ دِل روشن ہو گیا اور میں ہمیشہ نور و سروٗر محسوس کرتا ہوں ۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ خود ارشاد فرما تے ہیں کہ میرے والدِ گرامی حضرت سید برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ میرے بچپن میں مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ تسبیح ہاتھ میں لے کر،یا مصطفٰے، یا مصطفٰے بکثرت پڑھا کرو۔ اس لیے کہ جو شخص کثرت سے یا مصطفٰے، یا مصطفٰے پڑھتا ہے اُس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت پختہ ہو جاتی ہے اور وہ جب مرتا ہے با ذوق مرتا ہے۔ . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . (ما خوذ  از:صد حکایت فارسی)
یہ وہ تعلیم تھی جس کی وجہ سے آپ کے دِل میں بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبتِ  کاملہ جا گزیں ہوئی،اور بچپن ہی میں اِتباعِ رسول ﷺ سے سرفراز ہوئے۔ صد حکایت کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ حضور ﷺ کی متابعت میں اپنی دایہ بی بی حلیمہ کے ایک ہی پستان سے دوٗدھ نوش فرماتے تھے اور دوٗسرے پستان کو چھو تے تک نہ تھے۔ اسے اپنے دودھ شریک بھائی کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔
صد حکایت کے حوالے سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بچپن کے زمانے میں آپ رسولِ اکرم ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ اور آپ ﷺ نے حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ایمانِ مفصّل کی تعلیم سے مشرف فرمایا۔
آپ بچپن کے زمانے میں ایسی عقلمندی و دانائی کی باتیں کیا کرتے تھے کہ بڑے بڑے علمائے کرام، شر فائے عظام سن کر حیران و ششدر رہ جاتے(حیاتِ شاہِ عالم)آپ کا علم کسبی نہیں وہبی تھا۔ بچپن ہی سے دُعاء میں تاثیر تھی اور کشف و کرامات کا سلسلہ جاری تھا۔ آپ اپنے والدِ محترم سے بے پایاں محبت فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے والدِ محترم سے جو فیض حاصل کیا اس کی کوئی اِنتہاء نہیں ہے۔
حضرت سیدنا شاہِ عالم محبوبِ باری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے عہد دولت تک عجیب خود رفتگی و دیوانگی کا عالم طاری تھا۔ اسی خود رفتگی کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے جو چاہتے فوراً ہو جاتا۔ اور ہر ایک آنے والے کا حال آپ پر آشکارا ہو جاتا اور آپ برجستہ فرما دیتے کہ اس شخص کی عمر اتنی ہے۔  یہ شخص بیٹا ہونے کی، وہ بیٹی ہونے کی تمنا رکھتا ہے۔ یہ، یہ چاہتا ہے۔ وہ،  و ہ چاہتا ہے۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے وِصال کے بعد خود رفتگی و دیوانگی کی حالت ختم ہو نے پر طبیعت کا میلان خود بخود فرض شناسی فرزانگی کی طرف ہوتا چلا گیا۔ یہ سب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان اور شفقت بے پایاں کے تحت ہوا۔ آپ فرماتے ہیں :     ’’ ایک رات والدِ گرامی علیہ الرحمۃ کے وِصال کے بعد دیدار سے مشرف ہوا۔ وقت گفتگو قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نصیحت آمیز انداز میں ان الفاظ سے مخاطب ہوئے۔ اَے خوبیوں والے !راہِ طریقت میں مردانِ اِلٰہی کے نزدیک اسے بے ادبی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اب اس خود رفتگی کو چھوڑو۔ اِس لیے اب تم سجّادۂ  مشخییت کی زینت ہو۔ ہم بھی تمہاری نگہ داشت کرتے رہیں گے۔ اس وقت جو عظیم کام کی ذمہ داری کا بوجھ تمہارے کاندھوں پر رکھا گیا ہے اس کو نہایت ہوشمندی سے ادا کرو۔ فلسفۂ  حیات و ممات پر غور کرو، نیز جادۂ عبدیت پر مستقیم ہو جاؤ۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان نصیحت کے جملوں نے میری چشمِ بصیرت کو کھول دیا۔ اب طبیعت کا زیادہ رُجحان نفل و فرائض کی ادائیگی اور خلوت گزینی کی طرف مائل ہو گیا۔ اب ساغرِ دل میں جو ہے وہ چھلکتا نہیں ۔ نگاہِ ولایتِ قطبیت نے الحمدللہ محفوظ کر دیا۔
(ریحانۃالابرار فارسی، صفحہ۶۴۔ مؤلفہ سید محمد ہاشم ابن سید محمد کمال الدین  مہر علی بخاری الشاہی از حیاتِ شاہِ عالم)
حضرت شاہِ عالم محبوبِ باری رحمۃ اللہ علیہ سماء اِلٰہی کی صفات کا مظہر تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ میدانِ چنڈولہ میں اسمِ باری تعالیٰ ’’یا محیط‘‘ کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ذکر ’’ یامحیط‘‘ بڑی وجدانی کیفیت کے ساتھ کیا۔ آپ کے ایک معتبر مرید کا کہنا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا  جسمِ مبارک بڑھنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ چنڈولہ کا پورا صحن آپ کے جسمِ مبارک سے بھر گیا۔ بلکہ چنڈولہ کے صحن کی وُسعت آپ کے جسمِ مبارک کے لیے ناکافی معلوم ہو نے لگی۔
ذکر سے فارغ ہوئے تو مرید نے سلام کیا۔ آپ نے مرید سے دریافت فرمایا:’’آپ نے کچھ دیکھا تو نہیں ’’ عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کاپورا جسم مبارک پورے چنڈولے کو گھیرے ہوئے ہے۔
آپ نے فرمایا کہ صرف اوقاتِ ذکر،یا محیط، کی برکت سے ارواحِ سالکین کو ایسی وُسعت عطاء ہوتی ہے کہ وہ  اَ لَا اِنَّہٗ بِکُلِّ   شَیٍْ  مُّحیْط(ترجمہ: سنو!وہ ہر چیز کو  محیط ہے۔ (پارہ ۲۵ سورۂ   شوریٰ  آیت۵۴)۔ کا مظہرِ جمیل ہو جاتی ہیں ۔
مندرجہ بالا واقعہ آستانۂ  عالیہ حضرت قطبِ عا لم رحمۃ اللہ علیہ کے سجّادہ نشین حضرت غوثِ ربّانی سید جلال الدین حسین المعروف سلطان شاہ شیخ جیو رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ اشک بار ہوتے تھے۔  مخدوم جہانیانِ ثانی آپ کا لقب ہے۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کثر با وضو رہتے تھے :
  ریحانۃ الابرار کے حوالے سے لکھا گیا ہے،’’حضرت میاں مخدوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’میں بارہ سال کی عمر میں حضرت مُرشدی مخدوم سیدنا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت سے مشرّف ہوا۔ اور بارہ سال اپنے مرشِد کی خانقاہ میں اکثر خلوت و جلوت میں آپ کے ساتھ رہا۔ میں نے کبھی آپ کو بے وضو نہیں دیکھا۔ ‘‘. . . .(حیاتِ شاہِ عالم)
لکّھا ہے کہ آپ فرائض ہمیشہ باجماعت ادا فرماتے تھے۔ امامت کرنے سے گریز کرتے۔ آپ کے چھوٹے بھائی امام الزاہدین حضرت سید محمد زاہد رحمۃ اللہ علیہ کو اُن کے زہد و تقویٰ کی وجہ سے حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسجد میں اِمام بنا دیا تھا۔
مرآتِ احمدی کے حوالے سے لکّھا گیا ہے کہ آپ دن رات میں ایک ہزار نوافل ادا فرماتے تھے۔ یہ آپ کی عادتِ کریمہ تھی۔ حضرت میاں مخدوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ ایک ہفتے میں دو قرآنِ کریم با لالتزام ختم کرتے تھے۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید ملک راجا سے یہ سنا گیا ہے کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ پنی جوانی کے زمانے میں تہبند باندھ کر تمام رات سابر متی کی ریت پر عبادت گذاری کرتے تھے۔ (ہماری قوم کے جوانوں کو سوچنے کا مقام ہے کہ وہ اپنی راتیں کس طرح گذارتے ہیں ۔ )
یہی عبادت گذاری اور زہد و تقویٰ محبتِ اِلٰہی اور عشقِ رسول ﷺ ۔ عنایتِ رسولِ اکرم  ﷺ اور بشارتِ حبیبِ خدا ﷺ کے سبب حضرت شاہِ عالم بخاری محبوبِ باری رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ  محبوبیت اور مقامِ محبوبیت عطاء ہوا۔ ’’ایں است عطائے باری تعالیٰ۔ ‘‘یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عطائ۔ آپ کی ولایت سے پہلے ہی حضور انور سرکارِ دو عالم  ﷺ نے آپ کے والدِ ماجد حضرت برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو اس بشارت سے مشرف و سرفراز فرمادیا تھا کہ ان کے ہونے والے فرزند کو ہم سے چار باتوں میں مشابہت اور مماثلت حاصل ہے:.1نام میں ۔ .2مقامِ میں محبوبیت میں ۔ .3صورت میں اور.4 عمر میں ۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق حیاتِ شاہِ عالم میں لکّھا ہے کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ خدا وندی میں ایسی محبوبیت عظمیٰ پر فائز تھے کہ آپ کے قلبِ  مبارک میں جو خواہش اور تمنّا پیدا ہوتی اللہ تعالیٰ فوراً اس خواہش اور تمنّا کو پورا فرما دیتا۔ ایک مرتبہ آپ کے قلبِ مبارک میں نشانِ نقشِ پائے سید نا آدم علیہا لسلام کے دیدار کی تمنا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سراندیپ پہنچا کر آپ کی تمنا  پوری کرا ئی۔
ریحا نۃ الابرار میں لکھا ہے کہ حضرت شاہِ عالم بخاری، محبوبِ باری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۱۲  ربیع الاول۶۳۴ ھ کی ایک دِل نواز مبارک شب کو حالتِ مراقبہ میں یکے بعد دیگرے پانچ بزرگانِ دین کی ارواحِ مقدسہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مرتبۂ  محبوبیت عطاء ہونے کی بشارت سے سرفراز فرمایا( انت محبوب اللّٰہ )تم اللہ کے محبوب ہو۔  کہ کر خطاب فرمایا۔
ان بزر گانِ دین کے اسمائے گرامی حسب، ذیل ہیں :
(۱)  پیرانِ پیر دستگیر حضرت سید عبد القادر غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ (بغداد)
(۲) سلطان الہند حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ (اجمیر شریف)
(۳) سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیاء محبوبِ اِلٰہی رحمۃ اللہ علیہ (دہلی)
(۴)   سلطان الواصلین حضرت خواجہ سید بدیع الدین قطبِ المدار رحمۃ اللہ علیہ (مکن پور)
(۵) سید الاقطاب حضرت خواجہ سید جلال الدین حسین  جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ۔
(بحوالہ  :  حیاتِ شاہِ عالم)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاقِ حمیدہ نہایت عمدہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق و عادات حضرت محمد مصطفٰے  ﷺ کے اخلاق و عادات کا جیتا جاگتا شاہکار تھے۔ آپ کو اپنے والدِ محترم و مکرم حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بے حد محبت تھی۔ نہایت فرماں بردار تھے۔ والدِ ماجد کی خوشنودی کو اپنی سعادت مندی سمجھتے اور ان کی رضا  جوئی میں رہتے تھے۔
اپنی اولاد سے بھی بڑی محبت رکھتے تھے، خصوصاً حضرت سیدنا صر الدین محمد راجو  جو آپ کے بڑے فرزند بھی تھے اور برادرِ طریقت بھی۔ بڑی الفت رکھتے تھے۔
عزیز داروں اور رشتے داروں کی دلداری فرماتے۔ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے۔ اُن کی تربیت فرماتے۔ بیٹیوں کی دلداری میں خاص لطف و کرم شاملِ حال تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایفائے عہد کے پابند تھے۔ نہایت شفیق اور بہت مہر بان تھے۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ کسی کی دِل آزاری نہ فرماتے۔ عدل و انصاف کو پسند فرماتے۔
غریبوں اور فقیروں نیز بے کسوں کے والی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بینا دل اور روشن ضمیر تھے۔ اپنے چاہنے والوں پر لطف و عنایت کی بارش کرتے۔ آپ اپنے ارشاد اور فرمودات کے ذریعے ہر خاص و عام کی اِصلاح فرماتے۔ حسب ذیل ارشاد ات و فرمودات حیاتِ شاہِ عالم سے پیش کیے جا رہے ہیں ۔

اوقات کی نگاہ داشت:
آپ نے فرمایا : اپنے اوقات کو نگاہ میں رکھو۔ اور اپنے اوقات کی تعمیر عبادت کے ذریعہ کرو۔ خبر دار! وقت کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے۔ اپنے اوقات کو خیرات و حسنات سے معمور رکھو۔  پھر یہ شعر اِرشاد فرمایا۔
الوقت  کا لنار  والاعماد  فیہ  عقبیٰ
فبادر و  النحر  ان السعیر یحرّق
ترجمہ:-وقت آگ کی مثل ہے اور عمریں اس میں لکڑی کے مثل ہیں پس خیر کی طرف دوڑو بے شک وہ آگ عمروں کو جلا ڈالے گی۔

کلمات کی حفاظت:
  ایک مرتبہ فرمایا:
جس نے اپنے کلمات کی حفاظت کی یعنی زبان کی حفاظت کی اور زندگانی اِطاعت و عبادت میں بسر کی اور گناہوں سے پرہیز کیا اُس نے مقصد کو پا لیا۔
ہر سانس بیش قیمت موتی ہے:
      نیز یہ بھی فرمایا :
تمہارا ہر سانس بیش قیمت موتی ہے جو تمہیں عطاء کیا گیا ہے۔ اپنی عمر کے اس خزانے کو برباد نہ کرو۔  اِرشاد باری تعالیٰ ہے
اِنِّ اللّٰہَ یَاْ مُرُ کُمْ اَنْ تُؤَدُُّوا لْاَمٰنٰتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا۔
(ترجمہ: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں اُنہیں سپرد کرو۔ (پارہ :۵، سورۂ  نساء :آیت۵۸)
 (از :-کنزالایمان : اَعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ)
یہاں امانت اہل کو سپرد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو صاف ستھری سانس تمہیں اپنے فضل و کرم سے عطاء فرمائی ہے۔ جسم میں داخل ہونے سے پہلے وہ جیسی صاف ستھری اور پاکیزہ تھی جب جسم سے خارج ہو (یعنی باہر نکلے)تب بھی ویسی ہی ہو، گناہوں سے آلودہ نہ ہو، بلکہ ذِکر باری تعالیٰ کی بدولت وہ اور بہتر ہو کر نکلے لہٰذا ہر دم ذکر اِلٰہی میں گذارنا چاہیے۔

دُنیا آخرت کی کھیتی  (اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃ):
پھر ارشاد فرمایا :اے برادر عزیز یہ دُنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ آرام کرنے کی جگہ ہے بلکہ آخرت کی کھتی ہے۔
ہر نفس  ز انفاس  عمرت  گو ہریست
گوہرِ اَنفاس   را    ضائع  مکن
ترجمہ:  تمہاری  زندگی کے سانسوں میں سے ہر ایک سانس بیش قیمتی موتی ہے۔ اپنی سانسوں کے ان بیش قیمت موتیوں کو برباد نہ کرو۔

عمر مولیٰ کی طلب میں بسر کرو:
آپ نے فرمایا :
اپنی عمر مولیٰ کی طلب میں اس طرح بسر کر کہ جب موت کا فرشتہ موت کا دعوت نامہ لے کر پہونچے تو تم اس سے ملاقات کر کے خوش ہو اور تم بے ساختہ کہ اٹھو۔ اَھْلاًوَّ سَھْلاً  مَرْ حَبَا۔ تمہارا آنا مبارک ہو۔  پھر یہ شعر اِرشاد فرمائے:
ایمن      بد نیا       اشتغل
قد غرّہٗ    طول      العمل
الموتُ   اعطی      بغتۃً
والقبر  صندوق العمل
اِصبِر    علیٰ      احوالھا
لقوَّتٌ     اِلَّا      بِالْاَ جل
ترجمہ: اے سالک راہ طریقت !  برکت والا ہو جا۔ تو دُنیا میں مشغول بحق ہو کہ تحقیق دُنیا کی آرزوؤں کا دائرہ طویل ہے۔
 موت تجھ کو اچانک آ دبوچے گی اور تیری  قبر تیرے اعمال کا صندوق ہے۔ دُنیا کے احوال یعنی سختیوں پر صبر کر۔ موت وقتِ مقررہ سے پہلے نہیں آ  سکتی۔
خدا کے فضل کے دروازے کی کنجی:
ایک مرتبہ فرمایا:
سلف صالحین کے طریقہ کی اتباع کرنے میں جدو جہد کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہی خدا کے فضل کے دروازے کی کنجی ہے اور حبیب کی طرف جانے والا راستہ معمور ہے۔ جس نے اس راستہ میں شجاعت و جواں مردی اختیار کی وہی ظفر یاب ہے۔
تصفیہِ   قلب حاصل کرو:
ایک مرتبہ فرمایا:
تصفیہ قلب حاصل کرو اور یہ بغیر تزکیہ نفس حاصل نہیں ہو سکتا، اور تزکیہ نفس موقوف ہے سچی توبہ پر اور توبہ اسی وقت ہے جب اس پر استقامت ہو۔ اور اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب تم اپنے اوقات کا محاسبہ کرو اور محاسبہ اس طرح ہونا چاہیے کہ اول روز سے تا دم قیل جو کچھ افعال و اقوال و حرکات و سکنات و خطرات تم سے صادِر ہوئے ہیں ، ہر ایک پر غور کرو کہ مرضیِ  مولیٰ کے موافق کیا کیا ہوا ہے اور مرضیِ  مولیٰ کے خلاف کیا کیا کر گذرے ہو۔ ان میں جو باتیں مرضیِ  مولیٰ کے مطابق ہوں اُن پر شکر خدا بجا لاؤ اور عرض کرو مولیٰ میں بھلا اس لائق کہاں تھا جو ایسا کر سکوں ۔ مولیٰ یہ جو کچھ بھی صادر ہوا تیری توفیق سے ہوا ہے۔ اے رب العالمین !یہ تیری بخشی ہوئی توفیق ہی تو تھی ورنہ میں تو وہی ایک مشت خاک ہوں ۔
اور اگر ان میں خدا نہ کرے مرضیِ  مولیٰ کے خلاف پائے تو صدق دِل سے تائب ہو کر توبہ و استغفار کرے پھر یہ بیت ارشاد فرمائی۔
ترا  در نفسِ خود یک عیب دیدن
بہ  از صد بار غیب  الغیب   دیدن
ترجمہ :تجھے اگر اپنے نفس کے ایک عیب کا سراغ مل جائے۔ غیب الغیب کی سو بار کھوج سے  بہتر ہے

تزکیۂ   نفس کا ایک اور طریقہ:
ایک مرتبہ فرمایا:
تزکیۂ   نفس کا ایک اور طریقہ ہے کہ کم کھائے،کم پیے اور مخلوق سے عزلت گزینی اِختیار کرے اور فضول باتوں میں عمر برباد نہ کرے اور بغیر ضرورت نہ سوئے،اس لیے کہ اہل دل کا  فرمان  ہے۔
  اِنَّ  مِنْ  اَعْظَمِ   الْمَصَائب
ِ مَضَیْ الْوَقْتِ   بِلَا   فَا ئِدَۃٍ
ترجمہ: سالک راہ طریقت کے لیے بے فائدہ وقت ضائع کر دینا مصائب میں سے بڑی مصیبت ہے۔
پھر یہ بیت ارشاد  فر مائی۔
نصیحت ہمین است جان برادر
کہ اوقات ضائع مکن تاتوانی
ترجمہ :-بھائی جان ! نصیحت یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اوقات ضائع نہ کرو۔

خواب غفلت  :
  ایک مرتبہ آپ نے فرمایا :
’’یہ بات ہمیں زیب نہیں دیتی کہ اپنی عمر کو گناہوں کی تاریکی میں گزار کر سرمایہ زندگی کو خواب غفلت میں  بِتا دیں ۔ ‘‘پھر بیت فرمائی۔
غفلتِ شام، خوابِ صبح  زندہ  دلانِ  شوق  را
دور کند  ز  قرب  حق  ہمچو  غلولہ  از  تفنگ
ترجمہ:-شامِ زندگی کو غفلت میں اور صبح زندگی کو سونے میں گزار دینا۔  زندہ دلان عشق (سالکان راہ طریقت) کو خدا کے قرب سے اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے چھوٹنے کے بعد گولا توپ کے منہ سے دور ہو جاتا ہے۔

مقصد زندگی  :
        ایک مرتبہ فرمایا:
بندگی زندگی کا مقصد ہے۔ بندگی سے غافل ہو کر عمر عزیز ضائع نہ کرو تاکہ قیامت میں رستگاری کا منہ دیکھنا نصیب ہو۔

غفلت کا انجام  :
اور ایک مرتبہ فرمایا:  ایسی حالت سے ڈرو جس کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ شعرِ ارشاد فرمایا:
و قد  منی  الایام ا لذنب  حاصلٌ
جاء رسول الموت والقلب غافلٌ
ترجمہ: -تحقیق وہ شخص (جو) گزار رہا ہے زندگی کے ایام کو اس حالت میں کہ ان کا حاصل صرف گناہ ہو جب موت کا فرشتہ آئے گا۔ اس کا دل غافل ہو گا۔

صفت رزّاقیت پر یقین  :
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
’’رِزق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رزّاقیت اور اس کے وعدوں پر یقینِ واثق رکھو۔ روزی کے بارے میں اپنے دل میں کسی قدر تردد نہ کرو۔ البتہ روزی کی تلاش میں سعی جمیل کرتے رہو۔ جہاں تک ہو سکے تحصیلِ رزق کے وقت یعنی کار و بار کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔  پھر یہ شعر  فرمایا:
کسی کو  غافل  از   حق  یک  زماں   است
دراں دم  کافرست امّا  نہاں است
ترجمہ :جو شخص کہ دُنیا میں ایک پل بھی ذکر اِلٰہی سے غافل ہے وہ اپنے اوقات  کفرانِ نعمت میں گزار رہا ہے لیکن وہ اپنے کفر سے بے خبر ہے۔ ‘‘پھر یہ شعر ارشاد فرمایا:
دگر  کس  غافل    پیوستہ    باشد
در اِسلام    بر   وے  بستہ   با شد
ترجمہ :-اگر کوئی شخص مسلسل غفلت شِعاری میں زندگی گزار رہا ہے تو  سمجھنا چاہیے(اِسلام کے فیضان)کا دروازہ(دل)پر بند کر دیا گیا ہے۔
اعلیٰ مقام کی تلاش کرو:
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
’’کرامتوں کے ظہور اور دعا کی مقبولیت پر پھولو مت  جب کہ یہ بزرگی نما چیزیں ظاہر ہوں تو بندے کو چاہیے کہ وہ جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے یعنی اِطاعت و عِبادت میں مشغول ہو جائے اور اعلیٰ مقام کی تلاش کرے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَا خَلَقْتُا لْجِنَّ  وَالْاِنْسَ  اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ}
ترجمہ :اور میں نے جِنّ اور آدمی اپنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں ۔  (پارہ :۲۷، سورۂ  الذٰر یات :آیت۵۶)

طہارت ظاہری و باطنی:
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
ہر ایک عبادت سے پہلے طہارت ضروری ہے۔ طہارت ظاہری پانی سے اور طہارت باطنی توبہ اور ذکر اِلٰہی سے کرنا چاہیے :
حضرت شاہ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو علمِ شریعت اور علمِ طریقت پر عبور حاصل تھا۔ قرآن حدیث کے جیّد عالم تھے۔ علم و فضل کا سہرا آپ کے سر باندھا گیا ہے۔ علم ظاہری اور باطنی پر مکمل عبور حاصل تھا۔ نبیِ  کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا تھے۔ آپ کے حافظہ کا عالم بڑا عجیب تھا۔
حضرت خواجہ صفی الدین جعفری بدر عالم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ سید محمد سراج الدین شاہ عالم محبوب باری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذہن عطا فرمایا تھا کہ فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ شریف کو اپنے اُستاد گرامی سے صرف چار دن میں پڑھ لیا تھا۔ جب کہ ہدایہ اوّلین اور ہدایہ آخرین میں فقہ حنفی کے مسائل تقریباً  ۲۰۰۰  صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ (بحوالہ : ریحانۃالابرار، فارسی، صفحہ۹۱۔ صد حکایت  فارسی،صفحہ ۸۵۔ حکایت چہل و سوم  ۴۳)
ایک معتزلی سے آپ کی گفتگو سے اس بات کا اندازہ آ جائے گا کہ آپ کس پائے کا علم رکھتے تھے۔
حیات شاہ عالم میں لکھا ہے
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ سید محمد سراج الدین شاہ عالم محبوب باری بخاری رحمۃ اللہ علیہ پنی والدہ ماجدہ کے مزار پاک پر فاتحہ خوانی کے لیے احمد آباد سے پیر پٹن گجرات تشریف لے جا رہے تھے۔ ایک معتزلی نے اعتراض کیا کہ مرنے کے بعد مردوں کو زندوں کی طرف سے ایصال ثواب کی شرعی اعتبار سے کچھ حقیقت ہے؟کیا آپ اپنے اس عمل کا مدلّل ثبوت پیش کر سکتے ہیں ؟مرنے والوں کے نامۂ اعمال جب کہ لپیٹے جا چکے ہیں تو زِندوں کی فاتحہ خوانی اور اُن کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا اُن کو مفید و کار آمد ہو سکے گا ؟حضرت سید نا شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ جواب دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا۔ ہاں !ہاں ! کیوں نہیں ان باتوں کا یعنی فاتحہ خوانی اور ایصال و ثواب کا مدلل ثبوت بھی ہے۔ اور ایسا کرنا  فوت شدہ حضرات کے حق میں مفید و کار آمد بھی اور ترقیِ درجات نیز نجات و مغفرت کا باعث بھی۔ دلیل چاہتے ہیں تو لیجئے سنئے صاحب ہدایہ شریف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
اِنَّ الْاِ نْسَا نَ لَہٗ اَنْ یَّجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِہٖ لِغَیْرِ ہٖ صَلٰو ۃً اَوْ صَوْ مًا اَوْ غَیْرَھَا عِنْدَ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَ الْجَمَا عَۃِ ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ انسان اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے شخص کو پہنچا سکتا ہے۔ خواہ نماز کا ہو یا روزہ کا یا صدقہ و خیرات وغیرہ کا ہو۔  یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔
معتزلی عالم صاحب نے کہا یہ تو آپ نے صاحب ہدایہ کا قول اہل سنت و الجماعت کا مذہب بیان فرما دیا۔ حدیث یا قرآن سے ثبوت پیش کیجیے۔ حضرت شاہ عالم محبوب باری رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:حدیث پاک اور قرآن عظیم دونوں سے ثبوت پیش کرتا ہوں ۔  سنئے، ابو داوٗد نے کتاب الاضاحی میں روایت بیان کی ہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور آقائے دو عالم  ﷺ نے ایک  مینڈھا ذبح کر کے فرمایا
اَلّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وًّ اٰلِ  مُّحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ ْ مُحَمَّدٍ  صَلَّی ا لَلّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ ۔
ترجمہ:اے اللہ میری اس قربانی کو میری طرف سے اور میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے شرفِ قبولیت عطا فرما۔
اس کے علاوہ اور ثبوت سن لیجیے۔ حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
اِن َّالْحَسَنَ وَالْحُسَیَْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا کَانَا یُعْتِقَانِ  عَنْ عَلِیٍ بَعْدَ مَوْتِہٖ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا امام حسن اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما اپنے والد گرامی حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی شہادت کے بعد ان کے ایصال ثواب کے لئے غلام آزاد کیا کرتے تھے۔
دار قطنی میں ہے کہ حضرت مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور انور  ﷺ  نے فرمایا:
مَنْ مَرَّ عَلیَ الْمَقَابِرَوَقَرَاءَمَرَّۃًقُلْ ھُوَاللّٰہُ اِحْدِیْ عَشَرَ مَرَّۃً ثُمَّ وَھَبَ اَجْرَ ہٗ لِلْاَمْوَاتِ اُعْطِیَ بِعَدَدِالْاَمْوَاتِ۔
ترجمہ: ’’جو قبروں پر گذرا اور سورۂ  اخلاص کو گیارہ مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخشا تو پڑھنے والے کو اس قبرستان کے مردوں کی تعداد کے برابر اجر و ثواب عطا کیا جائے گا ‘‘
پھر حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ نے فر مایا یہ ایصال ثواب زندوں کی جانب سے مردوں کے لیے دُعا ہے۔ حضرت امام ابو داوٗد سلیمان ابن اشعث سجستانی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ مایہ ناز حدیث کی کتاب ابو داوٗد شریف میں روایت بیان کی۔ حضرت اَنس ص فرماتے ہیں ۔ سرکار دو عالم  ﷺ نے فرمایا   اَلدُّعَآئُ  ھُوَالْعِبَادَۃ۔ یعنی دُعا عبادت ہے۔  نیز دوٗسری جگہ آیا  اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃُ۔ دُعا عبادت کا مغز ہے۔
احا دیث نبوی  ﷺ سے ثبوت سماعت فرما چکے ہیں اب قرآن عظیم سے بھی سماعت فرمالیں ۔  اللہ جل جلالہ ٗو عم نوالہ قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْ بَعْدِ ھِمْ یَقُوْ لُوْنَ رَبَّنَاا غْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَنِنِاا لَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِا لْاِ یْمَانِ
(ترجمہ :اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اَے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اَور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ (پارہ :۲۸، سورۂ  حشر :آیت۱۰)
معتزلی عالم صاحب حضرت خواجہ سید محمد سراج الدین شاہ عالم محبوب باری بخاری رحمۃاللہ علیہ کے ٹھوس ثبوت اور ایمانی تقریر سن کر مبہوت  و ساکت ہو کر رہ گئے۔
(ریحانۃ الابرار فارسی، صفحہ: ۹۵۔ موِ لفہ حضرت محمد ہاشم بن سید کمال الدین قادری متجلی)
چشمِ لطیف اَز فلک عِلم فیض بخش
بر خاص بر ہمہ آید چو مشتری
(ترجمہ:علم کے آسمان سے فیض پہنچانے والی آپ رحمۃاللہ علیہ کی چشم لطف و عطا ہر خاص و عام پر ایسی ضیاء باری کرتی ہے،جیسے مشتری ستارہ کرتا ہے۔ )
ابوالبرکات حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ کو رسول مقبول حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔ سرکار دوعالم  ﷺ کی شریعت کے پابند تھے۔ آپ کا چہرۂ  انور، رسولِ خدا نبیِ  مکرم  ﷺ کے چہرۂ  اَنوار سے مشابہ تھا۔ آپ کے عشقِ رسول کے دو واقعات ’’حیات شاہِ عالم‘‘ کے حوالے سے پیش کیے جا رہے ہیں ۔

جور سول کا نہیں وہ ہمارا نہیں :
حضرت خواجہ سید محمد سراج الدین شاہ عالم محبوب باری بخاری رحمۃاللہ علیہ ِرشاد   فر ماتے ہیں :
تحصیلِ سلوک کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں گو سائیں شالہ کی طرف نکل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سارے ہندوٗ سادھوٗ تپسیا یعنی معبود کی یاد میں مصروف ہیں یا معبود یا معبود کے ذکر میں مشغول ومصروٗف ہیں تھوڑی دیر میں وہاں رکا اُن کی حالت دیکھتا رہا اور اس بات کا منتظر رہا کہ اُن کے باطنی حالات مجھ پر منکشف ہوں یہاں تک کہ ان کے احوال مآل مجھ پر منکشف ہوئے۔ نیز میں نے بطور اِلہام ایک غیبی آواز سنی۔ منادی کی ندا تھی۔
 یَا عَبْدِیْ مَنْ اٰ مَنَ بِیْ وَلَمْ یُؤْ مِنْ  بِرَسُوْلِیْ فَلَیْس مِنِّیْ،
ترجمہ: اے میرے بندے !جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور میرے رسول حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺ  پر ایمان نہ لایا وہ میرا نہیں ۔
 پھر فضاؤں میں یہ شعر گونجا :
میاں بخدمت سر عشق بجان  و  دل  بر  بند
بدولتش  مگر  از  دو  زخت  نجات  بود
او  تاجدار  بہشت   و  شفیع   محشریست
بداں  کہ  ذات  نبی  فخر  کائنات  بود
میاں !جان و دل سے حضور ﷺ کی شریعت پاک کے خدمت گذار بن جاؤ اس کی بدولت دوزخ سے تمہیں نجات ہو گی۔ وہی تو بہشت کے تاجدار اور شفیع محشر ہیں ۔  بغور سمجھ لو۔  آپ کی ذات گرامی فخر کائنات ہے۔ (صد حکایت فارسی، صفحہ ۳۸، حکایت بست  و  چہارم  (مملوکہ سرخیز روضہ کمیٹی کتب خانہ احمد آباد)

عشق تاجدار مدینہ:
آپ ایسے غریق بحرِ عشق تاجدار مدینہ  ﷺ  تھے کہ ایک ذرہ برابر بھی ایسی بات سننا گوارہ نہ فرماتے تھے جس میں سرکار دو عالم  ﷺ کی شان میں بے ادبی کا پہلو ہو۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت خوجہ سید محمد سراج الدین شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ  کی خدمت میں ایک عالم آئے اور سورۂ  والضحیٰ میں :  وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَ غْنٰیکی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس آیت کا تر جمہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المو منین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مال سے غنی کر دیا۔ یہ سنتے ہی آ پ کا چہرۂ  مبارک غصے سے سرخ ہو گیا۔ اور آپ نے فرمایا مولانا خبردار ایسا نہ کہو۔ حضور اقدس سیّدِ عالم  ﷺ تو غنی باللہ ہیں ۔  حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  کے مال کی اس کے سامنے کیا حقیقت ہے۔
مولانا بھی ضدّی تھے۔ بولے،یہ تفسیر میں نے خود نہیں کی ہے بلکہ سلف سے منقول ہے آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں ۔ ہڈّی ہی تمہارا منہ بند کر دے گی۔
عالِم کا وہی حشر ہوا۔ کھانا کھانے کے درمیان ایک ہڈّی اُن کے گلے میں اَیسی اٹکی کہ سانس بند ہو گیا اور فوت ہو گئے:
توآں سراجِ دیں ، سراجِ ولایت اَست
مظہر بہ شکل پاکِ تو نور پیمبری
ترجمہ:آپ رحمۃ اللہ علیہ ، دین اور وِلایت کے ایسے سورج ہیں کہ
 آپ کے چہرۂ  مبارک سے رسالتِ محمدی کے انوار ظاہر ہو رہے ہیں ۔
حضرت شاہ عالم محبوب باری رحمۃ اللہ علیہ کی سیکڑوں کرامات ہیں ، صد حکایت فارسی آپ کی کرامت سے بھر پور ہے۔ کوڑھی کا اچھا ہو جانا۔  گیارہ عورتوں کو گیارہ بیٹے۔  جہاز کو غرق ہو نے سے بچانا۔ دھوبن کا بچہ کبھی لڑکی کبھی لڑکا ہونا۔ آپ کے خنجر شریف کی کرامت۔ مرنے کے بعد غلام بچے کا زندہ ہو جانا۔  نابینا کو بینائی مل جانا۔ غیبی صندوق کی تلوار۔ وزیر کی بے ادبی کا انجام۔ پوشیدہ حوض کا ظاہر ہو جانا۔ ایسی صدہا کرامات ہیں جو آپ کی حیات مبارکہ میں اور بعد وفات کے ظہور میں آئیں ۔
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی تین ازواج تھیں ۔  جن کے اَسماءِ گرامی حسب ذیل ہیں ۔
(۱) حضرت بی بی رابعہ خاتون بنت ملک اسحاق
  (۲) حضرت بی بی مِرگی بنت ملک جام جونا
(۳) حضرت بی بی مغلی بنت ملک جام جونا
  آپ کی ایک لونڈی بھی تھی اس کا نام سونکلی تھا۔ انہیں کے  بطن سے حضرت سلطان علیہ الرحمہ پیدا ہوئے۔
آپ کے پانچ فرزند ہیں ۔
(۱) حضرت سید ناصر الدین  محمد راجو  ستّارِ عالم رحمۃاللہ علیہ
  (۲) حضرت سید نصیر الدین محمد معروف بہ شیخ محمد رحمۃاللہ علیہ
  (۳) حضرت سید برہان الدین المعروف شا ہ بڈ ھن  رحمۃ اللہ علیہ
(۴) حضرت سید محمد بیگ المعروف  شاہ بھیکن رحمۃاللہ علیہ
(۵) حضرت سید سلطان معروف بہ سلطان مصری رحمۃاللہ علیہ
  اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار لڑکیاں بھی عطا کی تھیں ۔
ان کے اسماء گرامی یہ ہیں
(۱) حضرت بی بی  فاطمہ المعروف بی بی راجی
(۲) حضرت بی بی زینب المعروف بی بی اَمَۃُ اللہ
(۳) حضرت بی بی خدیجہ المعروف بی بی بوالماں
(۴) حضرت بی بی صغریٰ المعروف بی بی منجھلی
آپ کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں سبھی اہل اللہ میں سے ہیں ۔ آپ کی اَولاد جنوبی ہند میں خوب پھیلی ہیں اور ان میں بڑے بڑے عظیم المرتبت اولیائے کرام گزرے ہیں ۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃاللہ علیہ کے دور میں گجرات میں چار سلاطین گزرے ہیں
(۱) سلطان احمد شاہ۔
(۲) سلطان محمد شاہ۔
(۳) سلطان قطب الدین احمد شاہ۔
(۴) سلطان محمود بیگڑہ۔
آپ نے سلطان محمود شاہ کی پرورش فرمائی۔ تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔  سلطان محمود بیگڑہ آپ کی وفات کے بعد تقریباً ۳۷، سال تک گجرات کا سلطان رہا۔  اور نہایت شان سے حکومت کی۔
حضرت شاہ عالم رحمۃاللہ علیہ کا وصال زہر خورانی(زہر کھِلانے) کی وجہ سے ہوا۔ حاجی ابن کلو آپ سے بہت حسد رکھتا تھا۔ ایک دعوت میں حاجی بن کلو نے چولائی کے ساگ میں زہر شامل کر دیا۔ آپ مسکرائے اور دُعائے شِفاء پڑھ کر وہ ساگ کھا لیا۔ جسم میں حرارت بڑھ گئی۔ دِن گزرا اور رات آئی۔  آپ نے تہجد کی نماز ادا کی۔ صبح صادِق سے پہلے کلمۂ  طیبہ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے ۶۳  سال کی عمر شریف میں شنبہ کی رات۲۰  جمادی الآخر  ۸۸۰   ھ میں اس دُنیائے فانی کو الوداع کہ کر واصل حق ہوئے۔
آپ کا مادۂ  تاریخ وصال’’ آخر الاولیاء‘‘ سے نکلتا ہے۔
آپ کے صاحبزادے حضرت سید ناصر الدین محمد راجو ستارِ عالم رحمۃاللہ علیہ ور حضرت سید نصیر الدین محمد عرف شیخ محمد رحمۃاللہ علیہ ور آپ کے خلیفۂ  اعظم حضرت سید میاں احمد مخدوم علیہ الرحمہ نے آپ کو غسل دیا۔
آپ رحمۃاللہ علیہ کی نماز جنازہ آپ کے خلیفہ حضرت قاضی سید اسماعیل ابن برہان الدین اصفہانی رحمۃاللہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کو آپ کی خانقاہ شریف کے جنوب مشرقی گوشے میں سپرد خاک کیا گیا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آپ کا ذِکر خاص ’’یَا لَطِیْفُ‘‘ تھا۔
سُلطانِ    اَولیاء   و   شہنشاہِ   اصفیاء
کورَست  بر   ز میں  و  بر فلک  داوری
 ترجمہ :آپ سُلطانُ الاولیاء ہیں ۔  آپ شہنشاہِ  اَصفیاء ہیں ۔ آپ کی فرماں روائی زمین اور آسمانوں میں ہے۔

(۳) حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ سم بامسمّیٰ تھے۔ آپ بہت بڑے زاہد۔ عارف باللہ اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ آپ حضرت قطب عالم رحمۃاللہ علیہ کے فرزندِ عزیز اور خلیفہ تھے۔ ۹ رجب المرجّب  ۸۴۵  ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن ہی سے رسول مقبول نبیِ  اکرم  ﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔  ایک عجیب طرح کا لگاؤ تھا۔ بڑی گہری نسبت تھی۔ دیکھیے کیسی اچھی قسمت تھی کہ رسول اکرم ﷺ کے دیدار سے سرفراز ہوئے ہیں اور اپنے والدِ محترم حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ور اپنے بھائی حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان محبت اور شفقت کا وسیلہ بنتے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان خلجی کے لشکر کے مقابلے میں سلطان قطب الدین کی مدد فرمائی۔ بذات خود میدانِ جنگ میں حاضر ہوئے۔ آپ کی بدولت سلطان قطب الدین کو نصرت حاصل ہوئی۔ سلطان قطب الدین نے جنگ سے پہلے منّت مانی تھی کہ اگر جنگ میں اسے فتح حاصل ہوئی تو وہ ہر ایک پیغمبر علیہم السلام کے نام ایک ایک اشرفی خیرات کرے گا۔  سلطان نے فتح کے بعد اس رقم میں سے آدھی رقم محبوب باری حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ارسال کی۔  حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خود   دار  طبیعت نے گوارہ نہیں کیا کہ وہ رقم قبول کر لی جائے۔ آپ نے اِنکار فرمایا۔
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے جب وہ رقم قبول نہیں فرمائی تو سلطان قطب الدین نہایت رنجیدہ ہوا۔ وہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں صد رنج و الم حاضر ہوا۔ حضرت  کو اطلاع دی کہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی پیش کی ہو ئی رقم لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو بلوایا۔  آپ حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت نے دریافت فرمایا کہ سلطان تحفہ پیش کرتا ہے تو اس کے تحفے کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟ سلطان یہ تحفہ فتح کی خوشی میں پیش کر رہا ہے۔ پھر آپ نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے تاکیداً  فرمایا۔ اگر تم یہ تحفہ قبول نہ کرو گے تو یاد رکھو:خداوند تعالیٰ کے رحم و کرم اور نوازش نیز مہربانیوں کے دروازے جو کھلے ہیں وہ تم پر بند ہو جائیں گے۔
یہ سُن کر حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے عرض گزاری کی کہ یہ رقم نہ تحفہ ہے اور نہ بطور تحفہ پیش کی گئی ہے بلکہ دراصل یہ تو نذر ہے اور نذر کی رقم ہے۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر خاموش ہوئے۔ کچھ کہا نہیں لیکن دیکھیے کہ والدِ محترم کی ذرا سی نافرمانی کی وجہ سے حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی اندرونی کیفیت میں ایک زبردست تبدیلی نظر آئی۔ آپ نے محسوس کیا کہ آپ کی باطنی کیفیت وہ نہیں ہے جو پہلے تھی۔ اور اللہ رَبُّ العِزّت اور حضرت رسول اکرم محمد مصطفٰے  ﷺ  سے جو ان کو نسبت تھی اس میں کچھ کمی محسوس ہوئی۔ حضرت محبوب باری شاہ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس کیفیتِ  قلبی پر سخت صدمہ پہنچا۔ اپنے حجرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا اور زار و قطار رونے لگے۔ کھانا پینا، ہنسنا بولنا، ملنا جلنا، سب ترک کر دیا۔  تین دِن تک اِسی حالت میں رہے۔
اب دیکھیے کہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی اس حالت زار کو خوشگوار بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کیا رنگ دکھاتی ہے۔
پروردگار اپنے آپ کے لیے فرماتا ہے :
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ
(ترجمہ:اُسے ہر دِن ایک کام ہے۔ (پارہ : ۲۷،  سورۂ  رحمٰن،  آیت : ۲۹)
حضرت زاہد شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بشارت ہوتی ہے۔ سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفٰےﷺ خواب میں تشریف لاتے ہیں ۔ اور فرماتے ہیں کہ تم اپنے والدِ محترم حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ سے میری طرف سے جا کر کہو کہ شاہ عالم کو معاف کر دو۔ ان پر رحم کرو۔ اُنہیں ناراض نہ کرو۔  اور پہلی سی شفقت اور محبت سے پیش آؤ۔
دیکھیے تو سہی، کیا رُتبہ ہے عاشقِ رسول کا۔  اللہ کے رسول  ﷺ  سے دِلی محبت کا۔ روٗحانی عقیدت کا۔ اَیسا ہوہی نہیں سکتا کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ سے سچی محبت رکھیں اور آپ ﷺ آپ کو نہ چاہیں ! پیار کا بدلہ پیار ہی ہے۔ بڑا ہی اچھا صلہ ہے عشق رسول کا !
ہاں !  تو حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ خواب سے بیدار ہوئے۔  خوشی خوشی والدِ محترم حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے حجرۂ  مبارک پر پہنچے۔ حجرہ بند تھا۔  آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ذرا بلند آواز سے کہا کہ دروازہ کھولیے۔ مجھے اندر آنے دیجیے۔ سرکار دو عالم  ﷺ کا حکم سنانے آیا ہوں ۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے دروازہ کھولا۔  ساری بات غور سے سنی۔ فرمایا کہ جاؤ شاہِ عالم کوبلا لاؤ۔ تم اپنے بھائی کا وسیلہ بن کر آئے ہو۔ قیامت کے دن تمہارا بھائی تمہارا وسیلہ بنے گا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  ! کیا شان ہے ! حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کی اور کیا مرتبہ ہے حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کا   ! !!
حضرت شاہ زاہد  رحمۃ اللہ علیہ پھولے نہ سماتے تھے۔ خوشی خوشی تیز تیز اپنے برادر بزرگوار حضرت شاہ  عالم  رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ والد محترم کا پیغام پہنچایا۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ پشیمان پشیمان سے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے پیار سے  ان کو گلے لگایا۔  پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنا پیر ہن ان کو پہنایا۔ یوں فرمان رسول مقبول  ﷺ کو بصد عقیدت پورا فرمایا۔
حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے آپ سے محبت رکھتے تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت فرماتے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے محبت میں اور اضافہ ہوا۔ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ زاہد  رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پاس ہی رکھا۔ محبت کے ساتھ تعلیم وتربیت میں بھی اِضافہ ہوا۔ مرتبہ بھی بلند ہوا۔ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے اِمامت کا کام آپ کے سپرد فرمایا۔ آپ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ ور دیگر مقتدیوں کے اِمام بنے۔  پانچوں وقت نماز حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ ہی پڑھاتے تھے۔
حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ سے بہت خوش رہتے تھے۔  حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ زہد و تقویٰ اور عشق رسول میں مست رہتے تھے۔ شاید یہی ادا حضرت شاہِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کو بھا گئی تھی۔  محبوب باری۔ شاہ عالم بخاری بڑے فیاض تھے۔ کسی کا صلہ کبھی باقی نہیں رکھا۔  وِصال کے وقت حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پاس بلایا۔ اپنا پاؤں ہلایا تو کنڈی کی آواز سنائی دی۔ شاہ زاہد سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے تم نے جو آواز سنی ! جانتے ہو کس کی آواز ہے۔ یہ آواز کارخانۂ  قدرت کی چابیوں کی آواز ہے۔ لو اب میں یہ چابیوں کا گچھاّ تم کو دیتا ہوں ۔
وہ صدیق با صفا۔  حرص و ہوا سے بے نوا، مست، فقر و فاقہ۔ مشغول عشق مصطفٰے  حضرت شاہ زاہد بندۂ  خدا نے نہایت عجز و انکساری سے جواباً عرض کیا کہ برادر معظم حضرت شاہ عالم ! میں نے اس چابیوں کے گچھے کی لالچ میں خدمت نہیں کی ہے !  مجھے تو آپ درویشی کا پیرہن عنایت فرمائیے۔
حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ پنے دلعزیز بھائی کے اس جواب سے نہایت خوش ہوئے۔  اور درویشوں کو جو تحفہ زیب دیتا ہے وہ تحفہ اپنی ٹوپی اور پیرہن آپ کو دے کر سرفراز کیا۔ آخرت کا سرتاج کیا۔  بحکم اِلٰہی شفاعت کا اِختیار دیا ! !کہنے لگے شاہ زاہد تم  اسم بَا مُسَمّیٰ ہو۔ پھر اپنے پاس بلا کر سینے سے لگایا۔ اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کو تمام فیضان اِلٰہی سے نواز دیا۔ بے شک دُنیا کو ٹھکرانے کے بعد ہی آخرت کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اُن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عشقِ رسول ﷺ ۔ ماں باپ کی فرمانبرداری۔ پیر و مرشد کی خدمت اور چاہت، حرص و ہوا سے بے نیازی اور نماز کی پابندی ہی سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کے تبرّکات میں آپ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا قرآن پاک،آپ کی ٹوپی اور آپ کا جبّہ مبارک آج بھی وٹوا میں آپ کے سجّادہ نشین کے یہاں موجود ہیں ۔  آپ کے سالانہ عرس کی تقریب کے موقع پر ان تبرّکات کی زیارت کرائی جاتی ہے۔
سید محمد امین نامی ایک عالم کے فارسی قلمی نسخے:’’ ہدایت التابعین‘‘ میں حضرت شا ہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کرامت یوں پیش ہے۔  کہ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ (شاہ زاہد) ایک مقام سے گزر رہے تھے۔  آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک گائے کو رسّی سے اس کے پیر باندھ کر سلا دیا گیا ہے۔ پاس میں ایک چھرا بھی پڑا ہوا ہے۔ در اصل ایک قصائی نے گائے کو ذبح کرنے کے لیے یوں سلا رکھا تھا۔ لیکن اچانک کسی کام کی وجہ سے وہ گائے کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ کو گائے کی اس حالت پر رحم آیا۔ جذبۂ  فقیرانہ سے آپ نے اُس کے جسم پر اپنا دستِ مبارک رکھا اور کہنے لگے کہ اللہ کے حکم سے ہوشیار ہو جا۔  وہ گائے نہایت پھرتی کے ساتھ رسّی کو توڑ کر کھڑی ہو گئی۔ تیز و طرّار بن کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔ اس دوران قصائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ دھمکا۔ قصّابوں نے اسے پکڑ کر زیر کرنے کی بہت کوشش کی۔  لیکن اس نے قصّابوں پر جان لیوا حملہ کر دیا۔ دو ایک قصّابوں کو سینگ مارکر زخمی کر دیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر فوت ہو گئے۔ گائے جنگل کی طرف بھاگ نکلی۔ جنگل میں بادشاہ اپنے ساتھیوں اور سپاہیوں کے ساتھ شیر کے شکار میں مشغول تھا۔ اس وقت وہ پاگل بنی ہوئی گائے آ پہنچی۔ گائے اور شیر دونوں آمنے سامنے آ گئے۔ اپنا شکار سامنے آتا دیکھ شیر اسے پھاڑ کھانے کے لیے حملہ آور ہوا۔ گائے نے اس سے برابری کا مقابلہ کیا۔  شیر کو یہ شکار بڑا مہنگا پڑا۔ گائے نے موقع پا کر شیر کے جسم میں اپنے سینگ چبھو دئے۔  آخر کار شیر مرگیا ! بادشاہ اور اس کے ساتھی یہ واردات دیکھ کر تعجب میں پڑ گئے۔ جانچ پڑتال کرنے پر بادشاہ کو معلوم ہوا کہ گائے میں یہ حیرت انگیز قوّت حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت کی وجہ سے تھی۔ بادشاہ نے حضرت سے ملاقات کی۔  حضرت نے فرمایا۔  جو کچھ و ارِدات پیش آئی وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی۔  عظیم قوّت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے  !
عابد کامل۔ عاشق رسول اکمل  ﷺ ۔ حضرت شاہ زاہد رحمۃ اللہ علیہ  ۸۹۲    ھ   ۶  شعبان  وقت نصف شب۔ اللہ تعالیٰ کی جوار رحمت میں جا پہنچے
جان  دی ،  دی ہوئی  اسی کی تھی
حق تو  یہ ہے کہ  حق   ادا  نہ ہوا
لیکن اللہ تعالیٰ کے اس نیک بندے نے ولیِ کامل نے حق ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
وٹوا شریف میں آپ کا مزار مبارک ہے۔ آپ کے فرزند دلبند سید عرب شاہ آپ کے مزار کے سامنے مدفون ہیں ۔ رحمت اِلٰہی کی بارش ہو،بندگان خدا پر خداوند تعالیٰ کے کروڑ ہا رحمتیں ہوں ۔ اور برکتیں بھی۔
(۴)   حضرت مخدوم شیخ  محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ :
حضرت مخدوم شیخ دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت برہان ا لدین قطب عالم بخاری  رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ عزیز اور خلیفہ تھے۔  آ پ کی وِلادت  ۸۰۹  ھ میں پٹّن میں ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی شیخ محمود اور لقب دریا نوش ہے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والدِ ماجد حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کی زیرِ نگرانی ہوئی اور خلافت بھی پائی۔ دیگر علومِ ظاہری والدِ ماجد کے علاوہ دیگر علمائے عصر سے بھی حاصل کیے۔ آپ نے اپنے والد ماجد سے جو خرقۂ  خلافت پایا تھا وہ در اصل آپ کے جدِّ امجد حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا خرقہ تھا۔ یہ خرقہ آپ کے دادا حضرت شاہ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا تھا۔ یہ خرقہ خراسان کے ایک سودا گر سے حضرت نصیر الدین محمود نے (۸۰) اَسّی  ہزار اشرفیاں دے کر خریدا تھا۔ خوش نصیبی سے یہ مبارک خرقہ حضرت مخدوم شیخ محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آیا۔
آپ کا مرتبہ کتنا بلند تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے والد ماجد حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کو برادرِ محمود کہ کر پکارتے تھے۔ اور کبھی ’’وڈن‘‘  یعنی ’’بزرگ‘‘ کے لقب سے بھی پکارا کرتے تھے۔ آپ کی شان بزرگی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے عزیز بھائی حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ پر کیفیت طاری ہوئی تو حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دیکھ کر اُن سے کہا، ’’ عجیب بات ہے، تم ایک بوند بھی ہضم نہ کر سکے، بزرگ محمود کو دیکھو کہ جس کو ہم نے عشقِ اِلٰہی کی شراب کے جام کے جام پلا د ِیے اور اُنہوں نے اُف بھی نہ کی اور سب ہضم کر گئے۔ ‘‘ اور مزید درخواست کی اور تم ہو کہ ایک بوند پی کر از خود رفتہ ہو گئے۔ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
بہ جام ہر کس ہر گز شرابِ عشق کے گنجد
خوشارِندی کہ خوب خم نوشد و نازو نیزبوئے
آپ کی سیرت ہی اَیسی تھی کہ ہر خاص و عام آپ کی بزرگی کا اِعتراف کرتے تھے۔ صاحبِ اَولاد ہونے کے باوجود بھی تنہائی میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ اپنے والدِ ماجد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے خاص محبت تھی۔ اُنہیں کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ جو نعمتِ عظمٰی اپنے والدِ مکرم سے ملی تھی اِس پر فخر کرتے تھے۔ خدا وندِ کریم کا نہایت شکر بجالاتے۔  خداوندِ کریم کے اِنعامات کا اِعتراف فرماتے۔ بہت ہی سخی اور فیاض تھے۔ لنگر خانہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا تھا۔
حضرت قطب عالم علیہ الر حمہ نے اپنے دیگر خلفاء کو باطنی کمالات سے اَیسا نوازا ہے کہ آپ کی نوازِش پر حیرت ہوتی ہے۔ تو پھر اپنے فرزندِ اَرجُمند کو کیسے محروم رکھتے۔ معرفت کے اَسرار اور رموز سے آپ نے اپنے فرزند شیخ محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ کو آگاہ فرمایا۔  عشق اِلٰہی کے جام پر جام پلائے۔
ایک دِن کا واقعہ ہے۔ ذِکر کرتے کرتے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ پر ایک وِجدانی کیفیت طاری ہوئی۔ وَجد کی حالت میں آنسو بہنے لگے۔ اُنہوں نے حضرت شاہ محمود رحمۃ اللہ علیہ کو خبر دی کہ یہ قطرے معمولی نہیں ہیں ۔ یہ قطرے عشقِ اِلٰہی کے قطرے ہیں ، زمین پر نہ گرنے پائیں ۔  جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کی آنکھوں میں قطرے ڈال دو۔  چنانچہ: آپ نے وہ قطرے ہاتھ میں اُٹھا لیے اَور حکم کے مطابق حاضرین کی آنکھوں میں ڈال دِیے، حاضرین کی خوش نصیبی تو دیکھیے کہ حضرت کی آنکھوں کے آنسو اُن کی آنکھوں میں نورِ عشقِ اِلٰہی بن گئے۔
ایک مرتبہ اَیسا ہوا کہ حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے مزارِ اَقدس پر عوام و خواص کا بڑا مجمع تھا۔  بادشاہ مظفر بھی حاضر تھا اور وہاں حضرت محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔ سب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہاں ایک گاؤں بسایا جائے اور اُس گاؤں کا نام قطب آباد رکھا جائے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی روٗحِ پر فتوح سے اِس معاملے میں رجوع کرنا چاہیے۔  پھر جو حکم صادِر ہو گا اُس کے مطابق کیا جائے گا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض داشت پیش کی تو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حکم فرمایا کہ وہاں اُن کے آنے سے پہلے ایک گڈریا رہا کرتا تھا۔  اور وہ بکریوں کو چرایا کرتا تھا۔ اُس گڈریے کا نام  ’وٹوا‘  تھا۔ لہٰذا اُس جگہ کا نام قطب آباد نہ رکھا جائے بلکہ اُس گڈریے کا نام رکھنا مناسب ہو گا۔  چنانچہ : اس جگہ کا نام ’وٹوا‘(بٹوا) رکھا گیا۔
حضرت شاہ محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ مادرزاد ولی تھے۔ آپ کے بچپن کی ایک کرامت بہت مشہور ہے،آپ کے والدِ ماجد قطب الاقطاب حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ عِشاء کی نماز کے بعد ایک لکڑی کے تخت پر بیٹھ کر’’ یَاحَیُّ، یَا قَیُّوْمُ‘‘ کا ذِکر وِرد فرماتے تھے۔ اِس وِرد کے درمیان آپ اپنی قوتِ باطنی کے ذریعے کعبہ شریف کی زِیارت کر لیتے تھے۔ کعبہ شریف میں ایک فقیر رہتا تھا۔ اُس نے آپ سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ جو کچھ کھائیں مجھے بھی کھلائیں ۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے منظور فرمایا۔
خادِم نے آپ کے سامنے کھانا پیش کیا تو آپ ذرا سوچ میں پڑ گئے۔ آپ نے کھانا تناول نہ فرمایا۔  آپ کا خادم کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ باطنی کیفیت سے آگاہ ہو گیا۔  اُس سے رہا نہ گیا کہنے لگا کہ آپ کھانا شروع تو کر دیجیے اُس فقیر کو بھی پہونچ جائے گا۔  یہ کہ کر وہ دو روٹیاں لایا ایک حضرت کی خدمت میں پیش کی اور دوسری روٹی اپنی قوت باطنی سے اُس فقیر کومکۂ   مکرمہ پہونچا دی۔  جتنا کھانا وہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رکھتا اتنا ہی کھانا اس فقیر کو بھی پہونچاتا۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ جب پھراپنی قوّت باطنی سے خانۂ  کعبہ پہونچے تو اس فقیر نے اِطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کے خادم نے میری خواہش کے مطا بق مجھے کھانا پہنچا دیا تھا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوٗسرے دِن اُس خادِم سے دریافت کیا کہ تم نے اُس فقیر کو کھانا کس طرح پہونچایا۔
اُس خادم نے آپ سے عرض کیا کہ یہ سب آپ کی صحبتِ بابرکت کا فیضان ہے اور حضرت کی محبت کا نتیجہ ہے۔ حضرت کی خدمت سے یہ عظمت حاصل ہوئی اور وہ اس طرح کہ آپ حضرت کے صاحبزادے حضرت محمود ایک دن بچپن میں اپنی والدہ، ماجدہ کا دودھ پی رہے تھے۔ اتفاق سے دوٗدھ کی کچھ بوند یں چادر پر گر پڑیں تھیں ۔  میں نے وہ چادر دھوکر اُس کا  پانی پی لیا۔  جس کی وجہ سے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ دراصل بزرگوں سے عقیدت رکھنے کا نتیجہ تھا کہ ایک خادم کو اِتنا بڑا مرتبہ عطا ہوا۔
حضرت شاہ محمود دریا نوش رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ۸۸۴ ِ  میں ہوئی آپ کا مزار شریف وٹوا میں رَوضۂ  قطبِ عالم میں حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مقدس کی دائیں جانب یعنی قبلہ روٗ ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ التَّبَعَ الْھُدیٰ۔ ۔ ۔
 ترجمہ :اَور سلامتی اُسے جو ہدایت کی پیروی کرے۔  (پارہ : ۱۶ سورۂ  طٰہٰ، آیت : ۴۷)

  (۵)حضرت شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ حمد آبادی :
  حضرت شیخ علی خطیب،حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور خلیفہ ہیں بہت ہی عِبادت گُزار اور پر ہیز گار تھے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ۱۲  سال کی عمر سے ہی آپ عِبادتِ اِلٰہی میں مشغول تھے۔ عِبادت کی اس مشغولیت سے ہی پتا چلتا ہے کہ آپ کتنے با کمال بزرگ تھے۔ اللہ و الوں کی بات بڑی نِرالی ہوتی ہے۔ آپ کھیتی کے ذریعے حاصل ہونے والا اناج نہیں کھاتے تھے۔ البتہ سبزی ترکاری پھل اور خودرو  اناج کھا لیتے۔ بارہ سال تک یہی حالت رہی۔  نفس کشی کا یہ عالم بڑا عجیب اور سبق آموز ہے۔  یہ ایک ایسا مجاہدہ ہے کہ جو ہر کسی سے نہیں ہو سکتا۔ مجاہدے اور ریاضت کے سبب آپ کی صفائی قلب کی یہ کیفیت تھی کہ فرشتوں کی تسبیح اور ذِکر سماعت فرماتے۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ وِلایت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔
آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بڑا ہی عجیب و غریب اَور نہایت دلچسپ بھی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کئی مرتبہ دریا کے کنارے نماز ادا کرتے تھے۔ ایک مجذوٗب وہاں تشریف لاتے تھے۔ اور اُن سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ مسلمان ہو جا ! شیخ ان کی بات سمجھ نہ پاتے۔  لیکن اس بات کا یہ مطلب نکالتے کہ مجھے زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے۔ اِس لیے آپ زِیادہ سے زِیادہ عِبادت میں مشغول ہو جاتے۔ ایک مرتبہ وہ مجذوٗب غریبوں میں کھانا تقسیم کر رہے تھے۔ آپ کو دیکھ کروہ آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ آپ کو زمین پر پٹک دیا۔ تھوڑا کھانا آپ کے منہ میں ڈال کر کمر پر دو تین مکّے لگاتے ہوئے فرمایا کہ ابھی تک بھی مسلمان کیوں نہ ہوئے؟۔ حضرت شیخ بے ہوش ہو گئے تھے۔ ہوش میں آنے کے بعد یہ خیال آیا کہ مجھے مرید بن جانا چاہیے۔ خیال فرمایا کہ فی الحال احمد آباد میں دو بڑے بزرگ موجود ہیں ۔  ایک تو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ ور دوسرے حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ ۔  شیخ علی خطیب سماع پسند نہیں فرماتے تھے۔  دِل میں خیال کیا کہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سماع کی محفل ہوتی ہے۔ اِس لیے شیخ احمد کھٹو سے مرید ہونا بہتر ہے۔
دوسرے دِن بیل گاڑی میں بیٹھ کر سرخیز کی طرف روانہ ہوئے۔  بیل گاڑی دو را ہے پر پہونچی۔ ایک راستہ اَسا ول کی طرف جاتا تھا اور دوسرا راستہ سرخیز کی طرف جاتا تھا۔  اُس وقت حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ َاسا ول میں رہتے تھے۔ دورا ہے کے بیچ گایوں کا گلہّ(گایوں کا ریوڑ) تھا۔  گایوں کو ہٹائے بغیر بیل گاڑی آگے نہیں گزر سکتی تھی۔ بیل گاڑی ہانکنے والے نے گایوں کو ہٹا نے کی بہت کوشش کی لیکن ہٹنے کا نام نہ لیتی تھیں ۔  اچانک بیل گاڑی پر کسی کا غیبی ہاتھ پڑا۔ ایسا محسوس ہوا کہ پیرہن کا کالر کوئی کھینچ رہا ہے۔ شوربے سے تر بتر اُنگلیوں کے داغ آپ کے پیرہن پر دِکھائی دِیے۔ اُس وقت حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کھانا تناوُل فرما رہے تھے۔ اُسی وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ علی خطیب کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ شیخ نے بیل گاڑی والے سے کہا۔  میرا پیرہن کوئی کھینچ رہا ہے۔ تھوڑی دیر رک جائیں ۔  گائیں جس طرف مُڑ جائیں اُسی طرف بیل گاڑی کو بھی موڑ دو۔  تھوڑی دیر کے بعد گائیں اَسا ول کی طرف مڑ گئیں ۔  شیخ نے بھی بیل گاڑی کا رُخ اَسا ول کی طرف موڑ دیا۔
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کھانے میں سے تھوڑا کھانا شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے علاحدہ رکھ دیا۔  اُس وقت حضرت شہباز رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ ڈوسا رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شیخ سراج معروف بہ سراج العاشقین اور حضرت شیخ فرید رحمۃ اللہ علیہ بیعت ہونے کے لیے تشریف فرما تھے۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سب سے فرمایا تھوڑا اِنتظار کریں ۔ آپ سب حضرات کے شیخ یہاں تشریف لا رہے ہیں ۔ اسی درمیان شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں آ پہونچے۔ دوٗر سے حضرت کو دیکھ کر دِل میں خیال کیا کہ حضرت مجھے پہلے خلافت عطا کریں گے پھر مرید بنائیں گے۔ وہاں پہونچتے ہی حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ پہلے خلافت حاصل کرو پھر مرید بننا۔  اس بات سے شیخ علی پر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی بزرگی کا بہت اثر پڑا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ علی کو پہلے خلافت عطا کی پھر مرید بنایا۔ بچا کر رکھا ہو کھانا اُنہیں کھلایا۔ بارہ سال کے بعد شیخ علی نے یہاں آ کر گوشت اور پکا ہوا اناج کھایا۔ تھوڑا ہی کھانا کھانے کے بعد محبت کا ایسا غلبہ ہوا کہ آپ رونے لگے۔  پھر کھڑے ہو کر ناچنے لگے۔
اَیسا بھی کہا جاتا ہے کہ جب شیخ علی رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پہونچے تو وہاں سماع کی محفل جمی ہوئی تھی۔  شیخ پر سماع کا کافی اثر ہوا تب قوالوں کو حکم دیا کہ کچھ گائیں کیونکہ شیخ پر رقص کی کیفیت طاری تھی۔ نماز کا وقت ہو جانے پر سب نے نماز ادا کی۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ سے فرمایا کہ بیعت کے لیے آنے والوں کو مرید بنا لیں ۔  شیخ نے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں ہی سب کو مرید بنایا۔ اس کے بعد شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کی اِجازت لے کر مخلوق کی ہدایت کے لیے تشریف لے گئے۔ شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کی وجہ سے شاہ شہباز رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ ڈوسا رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ سراج رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ فرید رحمۃ اللہ علیہ َو  دوٗسرے کئی حضرات بلند درجے تک پہونچے اور مخلوق نے اُن سے اِستفادہ کیا۔
حضرت شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہمیشہ ہر حالت میں اپنے پیر و مُرشِد کے تصور میں رہتے تھے۔ دِل میں بڑا اِحترام تھا۔ بہت لحاظ و ادب فرماتے تھے۔ مُرید اور خلیفہ بنتے وقت جو ہاتھ پیٖر کے ہاتھ پر رکھا تھا اُس ہاتھ کو کبھی بھی اپنے ستر تک نہیں لے گئے۔  یہ اِنتہائے ادب ہے۔ ادب ہی سے درجے بلند ہوتے ہیں ۔
آپ اپنے پیرومُرشِد کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ذِکر و رِیاضت میں مشغول ہو کر نہایت بلند درجے پر پہونچے۔ رِیا ضت اور مجاہدے نیز قوتِ مشاہدہ کی وجہ سے آپ کی یہ روٗحانی حالت بن گئی تھی کہ جس چیز پر نظر ڈالتے اس چیز پر’’  علی حق ’’ لکھا ہوا دکھائی دیتا۔  اِس کیفیت کی وجہ سے آپ پریشان ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے۔ اس کیفیت کی وجہ سے آپ نے گوشۂ  تنہائی اِختیار کر لیا۔ اس عجیب و غریب کیفیت میں جب آپ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تب بھی قرآن کریم کے صفحات پر یہ کلمہ’’ علی حق۔ علی حق’’ کے الفاظ نظر آنے لگتے۔ آخر کار آپ اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے پیر و مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام کیفیت بیان کی۔ حضرت نے بڑے پیار سے اپنے قریب بٹھایا۔  شیخ سے فرمایا کہ وہ اپنے دِل کو آپ کی طرف مبذول کرے۔ اپنے دھیان کو مرکوز کریں ۔ حضرت نے اپنی روحانی قوّت سے شیخ کو ان کے مرتبے سے اور آگے بڑھا دیا۔ اُن کے درجات بلند فرمائے۔  اس سے شیخ کی حالت بدل گئی۔ شیخ نے اپنی بقیہ زِندگی اللہ کی مخلوق کی خدمت میں صرف کر دی۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ مرید کو اپنے پیر کا ساتھ نہ چھوڑنا چاہیے۔ اور اپنے مسئلے کو اپنے پیر تک ضرور پہونچانا چاہیے تاکہ شیطان دھوکے میں نہ ڈال دے۔
’’ گلزارِ اَبرا ر‘‘ کے مؤلف حضرت شیخ غوثی شطاری (مندوی) ’’ گلزارِ اَبرار‘‘ میں ر قم طراز ہیں کہ حضرت شیخ علی خطیب احمد آبادی کے خلیفہ مَلک شرف الدین معروٗف بہ شاہ باز بُرہان پوری نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ کوئی صاحبِ دل بزرگ مرشدِ کامل شیخ شاہ علی خطیب احمد آبادی کے مکان کے صحن میں کھڑے ہو کر بآواز بلند یہ آیت کریمہ تلاوت فرما رہے تھے:
یَآاَیُّھَا الَّذِ یِْْنَ اٰ مَنُوالتَّقُواﷲ وَابْتَغُوْاِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ
ترجمہ: اَے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اُس کی طرف وَسیٖلہ ڈھونڈو۔    (پارہ: ۵، سورۂ  النساء۔ آیت: ۳۵)
حضرت شہباز برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ نے پھر ایک اور رات کو خواب دیکھا کہ حضرت شاہ شیخ علی خطیب احمد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دستِ بیعت سے سرفراز فرمایا اور خرقۂ  خلافت پہنا کر اِرشاد فرمایا :
’’خِرقۂ  بے صُحبت دِرَخْتِ نا پائِدار اَست۔ ‘‘
 ’’خِرقہ،پیر و مرشد کی صحبت کے بغیر کمزور دَرَخت کی مانند ہے۔ ‘‘
حضرت شیخ علی خطیب رحمۃ اللہ علیہ حمد آبادی کا روضۂ  مبارک قدن پور میں واقع ہے۔ قدنپور اور قطب پور اُس وقت سے آج تک آپ کی اَولادوں کے قبضے میں چلے آتے ہیں ۔
(۶)  حضرت ابو الفضل سید ناصر الدین محمد راجو ستّارِ عالم۔ حضرت شاہ سید محمد راجو بن حضرت شاہیہ رحمۃ اللہ علیہ  :
حضرت شاہ محمد راجو  رحمۃ اللہ علیہ  کی وِلادت ۱۵ ربیع الاوّل ۸۳۵  ھ میں ہوئی۔ یہ تاریخِ وِلادت لفظ ’’ وارِث حسین ‘‘سے ظاہر ہو تی ہے آ پ مادر زاد ولی تھے۔ بچپن سے ہی  خر قِ عادت کا ظہور ہوتا رہا۔  کرامات صادِر ہوتی رہیں ۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کے والدِ محترم ہیں ۔ حضرت شاہ محمد راجو رحمۃ اللہ علیہ نے خرقۂ  ارادت براہِ راست اپنے دادا  حضرت قطب عالم  رحمۃ اللہ علیہ سے پایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کو برادرِ طریقت کہتے تھے۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی طرف سے بھی آپ کو خرقہ اور سجّادہ عنایت فرمایا تھا اور آپ کو مریدوں اور طلبہ کے علوم و اِرادت کی تکمیل کی اِجازت بھی دے رکھی تھی۔ (مِراءۃِ احمدی)
تذکرۂ  سادات (صفحہ: ۴۴) میں لکھا ہے کہ  حضورِ انور  ﷺ کے شرف تلمذ سے مشرف ہونے والے خوش نصیب طلبہ میں حضرت شاہ سید محمد راجو بھی شامل ہیں ۔  کہتے ہیں کہ آپ کی زبان میں لکنت تھی۔ روانگی سے پڑھ نہیں سکتے تھے۔ حضور اکرم  ﷺ نے آپ کو اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت ا بو الجود نصیر الدین محمد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پاس بلا کر اپنے دست مبارک کی انگشتِ  شہادت کو لعاب آلود کر کے دونوں بھائیوں کو چٹا دی۔ فیضانِ کرم سے دونوں بھائیوں کو قرآن کریم اور جملہ علوم ازبر ہو گئے۔ سید شاہ محمد راجو رحمۃ اللہ علیہ کی لکنت بھی جاتی رہی۔ تذکرۂ  سادات کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر مختلف علوم و فنون پر سوالات فرمائے تو دونوں نے بڑی روانگی کے ساتھ جواب دے دِیے۔ قرآنِ کریم بھی فرفر پڑھ کر سنایا حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ نے اِس نعمت عظمیٰ کے عطا ہونے پر سجدۂ  شکر ادا فرمایا۔
حضرت سید ناصر الدین شاہ محمد راجو ستار عالم علیہ الرحمہ محبوب باری حضرت شاہ عالم بخاری علیہ الرحمہ کے فرزند اکبر اور خانقاہ شاہ عالم کے پہلے سجّادہ نشین ہیں ۔ آپ کے والد گرامی حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ حضرت شاہ عالم علیہ الرحمہ اپنے طلباء اور مریدین کی اِجازت و خلافت کی تکمیل آپ ہی کے دستِ مبارک سے کراتے تھے۔ حضرت سید شاہ محمد راجو علیہ الرحمہ مادرزاد ولی تھے۔ بچپن ہی سے تصرفات و کمالات کا ظہور آپ کی ذات پاک سے ہونے لگا تھا۔       (حیات شاہ عالم)
آپ کے بچپن کی ایک کرامت بہت مشہور ہے۔ آپ کا ایک دوست تھا۔ اس کا نام عبد اللہ تھا۔  اس نے ایک بکری پال رکھی تھی۔ عبد اللہ کو اپنی بکری سے بڑی محبت تھی۔  ایک دِن اَیساہوا کہ وہ بکری مر گئی۔ عبد اللہ بہت بے چین ہو کر رونے لگا۔ مری ہوئی بکری کوڑا کرکٹ میں ڈال دی گئی۔ اس وقت سید محمد راجو رحمۃ اللہ علیہ چپکے چپکے وہاں آ نکلے۔ عبداللہ کو بہت غمگین پایا۔ سارا ماجرا معلوم کیا۔ عبد اللہ کو غمگین دیکھ کر آپ کو بڑا صدمہ ہوا۔ عبد اللہ کو اپنے ہمراہ لیکر اس جگہ پہنچے جہاں بکری کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے بکری سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ابھی سے کیوں مر گئی۔ دیکھتی نہیں کہ عبد اللہ تیری وجہ سے رو رہا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ مردہ بکری اپنے کان جھاڑتے ہوئے فوراً کھڑی ہوئی۔ عبد اللہ کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ وہ ہنسی خوشی اپنی بکری کو گھر لے آیا۔             (حیات حضرت شاہ عالم)
حضرت سید ناصر الدین شاہ محمد راجو ستارِ عالم علیہ الرحمہ صورتاً اور سیرتاً عکس شاہ عالم تھے۔ آپ بکثرت عبادت کرتے تھے۔ فرائض و سنن کے علاوہ روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔ آخر عمر میں جب ضعیف ہو گئے تو پانچ سو رکعت بیٹھ کر اور باقی کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی تواضع ا ور انکساری اور دِلی خواہش کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے بزرگوں کے روٗبروٗ شرمندہ ہوں کہ اُنہوں نے ایک ہزار رکعتیں ساری کی ساری کھڑے ہو کر پڑھیں ہیں ۔     (تاریخ اولیاء گجرات۔ مرآۃِ احمدی،)
آپ کی شادی ملک نعمون بن محمود خاں کی دُخترِ نیک اختر حضرت بی بی صبیحہ خاتون کے ساتھ ہوئی تھی۔ آپ کے بچپن ہی میں حضرت شاہ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ملک نعمون بن محمود خان سے حضرت بی بی صبیحہ خاتون کو آپ کے ساتھ عقد کے لیے مانگ لیا تھا۔  محبوبِ باری حضرت شاہِ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئی کے مطابق بی بی صبیحہ خاتون کے مبارک بطن سے پانچ فرزند پیدا ہوئے جو مادر زاد ولی تھے۔                      اُن  کے  اَسماء گرامی یہ ہیں
 (۱) حضرت سید کبیر الدین علی بزرگ پناہ عالم علیہ الرحمہ ۔
آپ کو سجادہ نشین ہونے کا شرف حا صل ہوا۔
(۲) حضرت سید عبدُ القادِر بخاری رحمۃ اللہ علیہ
(۳) حضرت سید موسیٰ کاظم بخاری رحمۃ اللہ علیہ
(۴)    حضرت سید علی رضا بخاری رحمۃ اللہ علیہ  
(۵)    حضرت سید  محمد بخاری  رحمۃ اللہ علیہ
تذکرۂ سادات میں ذِکر ہے کہ آپ ۴۵ سال کی عمر شریف میں سجّادہ نشین ہوئے۔ اور ۲۴  سال تک سجّادۂ  شاہیہ کے فرائض حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے کر ۷۳  سال کی عمر مبارک پا کر یکم محرم الحرام جمعہ کے دِن وصال فرما کر باری تعالیٰ سے جا ملے۔ آپ کا مزارِ  مبارک حضرت شاہ عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بائیں ایک علیٰحِدہ  خوشبوؤں سے معطر سنگین حجرے کے اندر چار مزاروں کی صف میں پہلا مزار ہے۔ انوار اِلٰہی کی  بارش ہو ان پر ہمیشہ  ہمیشہ۔

(۷)   حضرت شیخ عبد الطیف رحمۃ اللہ علیہ :
حضرت شیخ عبد الطیف رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کے خلیفہ تھے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کو ہمیشہ بارھواں لڑکا فرمایا کرتے تھے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ  ظاہری اور باطنی کمالات سے آراستہ تھے۔ پٹّن سے جب آپ کی تشریف آوری کی خبر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی شخص آ کر دیتا تو اُسے ایمان کی سلامتی کی بشارت دیتے۔ اور اگر خبر دینے والا کوئی غیر مسلم ہوتا تو سونے کی زبان کے برابر اس کو روپیہ عنایت فرماتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ عالم ربّا نی تھے۔ نیز دیگر علوم فنون سے بھی آپ بخوبی آگاہ تھے۔ آپ مختلف کتابوں کے  مصنّف بھی ہیں ۔ آپ کی بہت سی کتابیں اب بھی دستیاب ہیں ۔
آپ توکل کے ساتھ دُرویشانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ فقر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ دُنیاوی آسائشوں سے کوسوں دور تھے۔ کسی بھی جگہ سے آپ کے معاش کا سامان نہ تھا اکثر فاقہ کی نوبت آتی مگر کبھی پیشانی پر شکن نہ پڑتی۔ فاقہ کشی کی زندگی تھی اور خدا کی بندگی تھی۔ یہی اصلی کرامت ہے۔
ایک دِن اہل و عیال جمع ہو کر آپ کے پاس حاضر ہوئے۔  کہنے لگے کہ آپ شاہی اِنعامات رد فرما دیتے ہیں ۔ تو ہم لوگوں کا رِزق مصلّے کے نیچے سے نکلنا چاہیے۔  آپ نے فرمایا کہ آنحضرت  ﷺ نے فقر کو اچھی طرح سمجھا ہے اور اِسی لیے فرمایا ہے۔ ’’  الفقر فخری ’’  یعنی فقر میرے لئے فخر ہے۔ ہم لوگ اسی کاشانے کے جاروب کش ہیں ۔ ان کی پیروی کرنی چاہیے۔  حالانکہ ہمارے مرشد نے متعدد بار خزا  نۂ  اِلٰہی کے تصرف کا اِختیار دیا مگر ہم نے کبھی اس پر نگاہ نہ کی۔  (مجبور ہو کر فرمایا) ٹھہر جاؤ، حجرہ میں سے بقدر ضرورت لے لو۔  جب لوگ حجرے کے اندر گئے تو دیکھا کہ جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہو ہے۔ بلکہ مٹی کے تھال جو وہاں رکھے ہوئے تھے وہ سب سونے کے ہیں ۔  آپ کی اہلیہ نے ان تھالوں کو اٹھا لیا اور اپنے خرچ میں لاتی رہیں ۔  چنانچہ  ۱۰۴۱  ھ تک تھوڑا ٹکڑا اُس سونے کا اِس خاندان میں باقی تھا۔ (مرآۃ احمدی)(آپ رحمۃ اللہ علیہ کا عرس شریف ۴  رمضان المبارک کو ہوتا ہے)
آپ کی زِندگی کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک مرتبہ آپ احمد نگر جا رہے تھے۔ قافلے سے بچھڑ گئے شام ہوئی مغرب کا وقت آ گیا۔ اَذان دے کر مغرب کی نماز پڑھی۔ رات ہو گئی، خیال آیا کہ تنِ تنہا جنگل میں رات کیسے بسر کروں ۔  آپ نے مراقبہ کیا۔  پیر و مرشد کے تصوّر میں کھو گئے۔ تصوّرِ شیخ کی روٗحانی کیفیت سے آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ چہرے پر نقاب ڈالے تشریف لا رہے ہیں ۔  آپ قریب آئے۔ چہرے سے نقاب ہٹائی۔ اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مکان کے راستے پر پہنچا دیا۔ آپ کے پیر و مرشد نے یہ خوش خبری سنائی کہ۔
’’ بابا عبد اللطیف! گھبرانے کی کیا بات ہے۔  میں تمھارے ساتھ ہوں ۔ تم جہاں بھی ہو۔ یہ خیال مت کرو کہ تم اکیلے ہو۔ اِس دُنیا میں ہی نہیں جنّت میں بھی ہم تم ایک جگہ رہیں گے۔ جو شخص تجھے اور تیرے فرزندوں کو سات پشت تک دیکھے گا اُس پر دوزخ کی آگ حرام ہو گی۔ اگر مومن تیری صورت دیکھے گا وہ جنت کا حقدار ہو گا۔ اور اگر کافر تیری صورت دیکھے گا اُس پر دوزخ کا عذاب کم ہو گا۔ ‘‘
 (ماخوذ از تاریخِ صوفیاء گجرات۔ ڈاکٹر ظہورالحسن شارب)
آپ کی وفات۔  ۴  رمضان المبارک ۵۷۷ ھ میں ہوئی۔ آپ نے اپنی وفات سے پہلے یہ خبر دے دی تھی کہ میری عمر کے صرف تین دِن باقی ہیں ۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا لکھا ہوا ’’رسالہ مؤ دّبِ برہانی ‘‘ آپ کی قبر میں رکھا گیا۔  اور رسالہ جوں ہی قبر مبارک میں رکھا گیا قبرِ  مبارک نور سے روشن ہو گئی اور آپ کفن میں کلمۂ  طیبہ پڑھنے لگے۔ اور خرقۂ  خلافت آپ کے صاحبزادے حضرت صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو دیا گیا۔ وقتِ نماز عشاء آپ کا سر سجدے میں تھا۔ بلند آواز سے آپ نے  سُبُّوْحٌ۔ قُدُّوْسٌ۔  تین بار کہا  اور جاں بحق ہوئے۔ پٹّن میں آپ کا مزار مبارک واقع ہے۔
آپ بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ صاحبِ تصنیف بھی ہیں ۔ ’’  منشور الخلافت ‘‘آپ کی ایک مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب قلمی ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ سرکار دو عالم  ﷺ  فقر پر فخر کرتے تھے۔ ہم لوگ اسی کاشانے کے جاں بخش ہیں ۔  ہم درویش ہیں ۔  دُرویش کو چاہیے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی پیروی کرے۔  تصوّرِ شیخ سے متعلق آپ نے مریدوں کی تربیت کے لیے فرمایا۔ مریدوں کے لیے نہایت ضروری ہے کہ حاضر و غائب میں پیر و مرشد کے آداب کا لحاظ رکھیں ۔ پیر کا ادب کریں ۔ پیر و مرشد کی غیر حاضری میں پیر کی صورت دھیان میں رکھیں ۔  اور پیر کی صورت کا مشاہدہ کریں ۔  مرید کو چاہیے کہ ہر وقت اپنے پیر  و مرشد کو حاضر سمجھے۔  یہ نہ سمجھے کہ پیر دور ہے۔

(۸)   حضرت سید محمد خدا بخش رحمۃ اللہ علیہ :
سید محمد خدا بخش رحمۃ اللہ علیہ کا نام گرامی سید محمد بن سید حسین ہے۔ آپ حضرت سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ لیکن خلافت حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے عطا کی۔ آپ حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کے خلیفہ ہیں ۔  آپ کے پیر و مرشد سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ بی بی سعادت خاتون کے ہمراہ پٹّن شریف لے جانے کا حکم دیا۔  علومِ ظاہری اور باطنی اپنے والدِ ماجد سید حسین سے حاصل کیے۔ آپ کے پیر سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی تکمیل فرمائی۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے عطا کی گئی خلافت نے چار چاند لگائے۔ علوم باطنی میں اور اضافہ ہوا۔  فقہ اور حدیث پر بھی آپ کو عبور حاصل تھا۔  خانوادۂ چشتیہ سے آپ کو اِرادت حاصل تھی۔ بند گانِ خدا کو فیضان اِلٰہی سے سیراب کرتے ہوئے زندگی بسر کر کے  ۵ جمادی الثانی  ۸۱۷   ھ میں اِس دارِ فانی سے عالم جاوِدانی کی طرف کوچ فر مائی۔    اِنَّا لِلّٰہِ  وَ اِنِّا اِ لَیْہِ  رَاجِعُوْنَ ۔

(۹)   حضرت شیخ حسن  فقہیہ رحمۃ اللہ علیہ :
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے نامی گرامی خلفاء میں سے آپ ایک منفرد شخصیت کے مالک ہیں ۔ خلیفۂ  خاص کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اپنے وقت کے غوث الاعظم کہلاتے ہیں ۔ آپ کے والدِ محترم کا نام قاضی قطب الدین ہے۔ قاضی صاحب کو رسول اکرم  حضرت محمد مصطفٰے ﷺ سے خاص روحانی تعلق تھا۔  حضرت شیخ حسن رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش سے پہلے رسول اکرم  ﷺ نے قاضی صاحب کو بشارت دی تھی کہ حضرت شیخ حسن جوان ہوں گے تو والد کے ساتھ سرورِ عالم  ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوں گے۔ اسی قسم کی بشارت حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ہوئی تھی۔
شیخ حسن رحمۃ اللہ علیہ جب جوان ہوئے تو آپ کے والدِ محترم قاضی صاحب کو نبیِ  اکرم  ﷺ کی زِیارت نصیب ہوئی۔ حضورِ اکرم  ﷺ نے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اِشارہ کیا۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ نے شیخ حسن رحمۃ اللہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وقتِ صبح قاضی صاحب نے اپنے فرزندِ  رشید شیخ حسن رحمۃ اللہ سے اپنا خواب بیان کیا۔ حضرت شیخ حسن رحمۃ اللہ کو پہلے ہی سے غائبانہ عشق تھا۔ اب جو خواب کی کیفیت سامنے آئی تو بے تاب ہو اٹھے۔ اعتقاد اور بڑھ گیا۔ جب آپ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالی میں حاضر ہوئے تو عجیب و غریب والہانہ کیفیت طاری تھی۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃاللہ علیہ نہایت ہی محبت و شفقت سے پیش آئے۔ انھوں نے آپ کا  کاندھا اور ہاتھ اپنے دست مبارک میں اُسی طرح جس طرح خواب میں آپ کے والد نے دیکھا تھا، لیا۔ اس سے آپ کا اعتقاد اور بھی بڑھ گیا۔ آپ بہت متاثر ہوئے۔ آپ کے چہرے پر ایک عجیب تاثر تھا۔ اور دِل خوشی سے لبریز تھا۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو سینے سے لگایا اور تین مرتبہ فرمایا۔  اَحسن۔ اَحسن۔ اَحسن۔  یعنی۔  بہت خوبصورت حسن۔
پھر آپ نے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ کو بیعت سے مشرف فرمایا۔ آپ اپنے پیر و مرشد کا بہت احترام فرماتے تھے۔
 اِکرامِ    پیر    بر  احترامِ   پیر
پیر  کے ا حترام   ہی  سے   پیر  کا  کرم  حاصل  ہو تا ہے۔
احترامِ پیر کی یہ انتہا ہے کہ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے تیس سال کی مدت میں اپنے پیر و مرشد کا چہرہ بلا وضو نہیں دیکھا۔ حضرت حسن فقہیہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے متّقی، پاک  باز،نہایت ذہین،اور بڑے فقہیہ اور عالِم تھے۔ توکّل اور قناعت میں بے مثال تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسن فقہیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر و مرشد سے گذارش کی کہ اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو بچوں کو قرآن شریف کا درس دوں ۔  پیرو مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اِجازت مرحمت فرمائی۔ اپنے پیر و مرشد سے عقیدت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے پیرو مرشد کو دیکھنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے تھے۔ آپ نے جو مرتبہ حاصل کیا ہے وہ اپنے پیرو مرشد کی خدمت کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔
دستگیری  از  خدمتِ  پیر
  پیر کی مدد پیر کی خدمت سے حاصل ہو تی ہے

 (۱۰)  حضرت سید عثمان شمع  برہانی  :
(۱)حضرت سید عثمان شمع برہانی حضرت قطب عالم کے خاص خلیفہ ہیں آپ کا نام سید عثمان ہے۔ آپ کا خطاب شیخ الاقطاب ہے۔  مرآۃِ احمدی کے مصنف ’’جناب محمد علی خان نے آپ کا نامِ نامی بڑے احترام کے ساتھ امیر سید عثمان المخاطب من اللہ بہ شمع برہانی کہ کر لکھا ہے۔
آپ کا لقب شمع برہانی ہے۔  آپ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے متبنّیٰ ہیں ۔  اِس لیے بچپن ہی سے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی صحبت سے فیضیاب ہو تے رہے۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ آپ بچپن میں ہی حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کر چکے تھے۔  رِیاضت اور مجاہدوں کے ذریعے آپ نے اعلیٰ مقام حاصل کیے۔  یہ سارے فیوض و برکات حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اور تعلیمات کا ہی نتیجہ تھی۔
صحبتِ  صالح  تُرا  صالح کند
مطلب کہ نیک آدمی کی صحبت تجھے نیک بنا دیتی ہے۔
(۲) مدارجِ علوی حاصل کرنے کے بعد شمع برہانی رحمۃ اللہ علیہ کو رشدو ہدایت کا بڑا مرتبہ عطا ہوا۔  تبلیغِ دین کا مرتبہ ویسے ہی حاصل نہیں ہو جاتا۔  بڑے مجاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی فقرو توکل اور دُرویشانہ زندگی بھی لازمی ہے۔  یہ ساری صفات آپ میں پائی جاتی تھیں ۔ آپ نے اپنے پیرو مرشد کے سامنے ہی رشدو ہدایت کے ذریعے بندگانِ خدا کو خدا تک پہنچانے کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کر لیا تھا۔  لیکن پیرو مرشد کے ادب و احترام کی وجہ سے اس کام سے پر ہیز کرتے تھے۔ آپ کے پیرو مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کے تمام احوال سے با خبر تھے۔  اور آپ نے ہی انہیں فیوضِ باطنی سے آراستہ کیا تھا۔
ایک دِن حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عثمان شمع برہانی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ خوش خبری سنائی کہ تمھیں یہ خدمت عطا کی گئی ہے کہ ہزاروں مخلوق کی ہدایت تمہارے سپرد کی گئی ہے۔  اگر اس معاملے میں یہاں تم اپنے دل میں تنگی پاتے ہو تو جگہ تبدیل کر لو۔  اور ہدایتِ خلق میں مشغول ہو جاؤ(مرآۃِ احمدی)اس طرح انبیاء علیہ م السلام کی وراثت یعنی تبلیغِ دین کا بڑا مبارک کام آپ کو عطا ہوا۔  اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے آپ اپنے پیرو مرشد کے حکم کے مطابق احمد آباد آئے اور بہاؤالدین پورا میں قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے روٗحانی بیانات کے ذریعے مخلوقِ خدا کی تعلیم و تلقین فرمائی۔  آپ کے روحانی ہدایت سے بھر پور وعظ کو سننے کے لیے ہزاروں ہدایت کے پیاسے لوگ جمع ہوتے تھے۔  صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے امراء اور سلاطین بھی آپ سے ہدایت کی روشنی حاصل کرنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ آپ جب تقریر فرماتے تھے تو لوگوں کا اس قدر ہجوم ہونے لگتا تھا کہ آنے جانے کا راستہ بند ہو جاتا تھا۔ فقیروں ،درویشوں اور حاجتمندوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔  اس ہجوم کی وجہ سے ایک دن ایک بوڑھی عورت نے شکایتاً کہا کہ سید عثمان کے دروازے پر اِتنا ہجوم رہتا ہے کہ ہم جیسوں کے لیے اس راستے سے پانی لے کر گذرنا بھی دشوار ہے۔  یہ بات حضرت کے کانوں کو سنائی دی۔ آپ نے فوراً کوئی سامان لیے بغیر وہاں سے ہجرت کی اور اپنا پڑاؤ وہاں سے اُٹھا لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم مخلوقِ خدا کو تکلیف دینے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمارے سامان سے جس کو جو چاہیے اُٹھا لے۔ اس کے بعد آپ  سابرمتی ندی کے دوسرے کنارے پر جس کو آج کل عثمان پورا کہتے ہیں ، مقیم ہوئے اور اپنے گھر کے لیے ایک اوٗن کا خیمہ کھڑا کیا اور خود  وضو کرنے کے لیے دریا پر تشریف لے گئے اور وہاں یہی فکر کر رہے تھے کہ اگر کوئی برتن مل جاتا تو اپنی اہلیہ کے وضو کے لیے پانی لے جاتے اس دوران۔ کدابو نام کا ایک ہندو لڑکا تانبے کا برتن لیے ہوئے ندی پر پہنچا۔ آپ نے اس سے برتن مانگا اس لڑکے نے آپ کو برتن دیا۔ آپ نے اس برتن میں پانی بھر لیا اور اپنی اہلیہ کے لیے گھر لے گئے۔  تھوڑی دیر کے بعد آپ برتن لے کر واپس لوٹے۔ وہ لڑکا بڑے تعجب سے آپ سے کہنے لگا کہ آپ نے تو اس غیر آباد علاقے میں پڑاؤ ڈالا ہے۔  آپ نے اس لڑکے سے کہا کہ اس جگہ پر اللہ تعالیٰ ایک محلّہ آباد کرے گا تو بھی اس جگہ پر آباد ہو جا۔ لڑکے نے کہا کہ یہ تو دُنیا بنانے والے کے ہاتھ میں ہے میں تو غریب آدمی ہوں میرے پاس اتنا سامان کہاں ہے۔ حضرت نے فرمایا تیری بات صحیح ہے۔ برتن لے کر سابر متی میں جا اور پانی بھر کر لے آ۔ جب وہ پہنچا تو بہت حیرت میں پڑ گیا کیا دیکھتا ہے کہ ندی میں اشرفیاں بہ رہیں ہیں اس نے اشرفیوں سے اپنا برتن بھر لیا اور حضرت کے پاس لایا۔ آپ نے حکم دیا کہ اپنے باپ کے پاس لے جاؤ اور سامان خرید کر اس جگہ آباد ہو جاؤ  اس کے بعد تو ہر قسم کے لوگ یہاں آباد ہو گئے۔ آبادی میں بڑی رونق آئی۔ یہ محلّہ عثمان پورا  کے نام سے مشہور ہوا۔
آپ کے اخلاق بہت بلند تھے۔  عادتیں اچھی تھیں ۔  طبیعت بڑی غریب تھی۔ ہر آدمی سے اچھا سلوک کرتے تھے۔ بہت نرم مزاج تھے، فقیرانہ زندگی گذارتے تھے۔ اللہ کی ذات پر توکل تھا،قناعت پسند تھے،بہت صبر کرنے والے تھے۔  آپ میں اس قدر نرمی پائی جاتی تھی کہ اتنا اونچا مرتبہ رکھنے کے با وجود قابلیت کو چھپا کر رکھتے تھے۔  اپنے پیرو مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا بہت ادب اور لحاظ رکھتے تھے۔ درویشوں سے متعلق لکھی ہوئی غزل وجد کی حالت میں اکثر پڑھا کرتے تھے۔ تبرکاً دو اشعار پیش کرتا ہوں
عرش فرشست کہ در خِلوتِ دُرویشانست
رنج گنجینست کہ ہم صحبتِ  دُرویشانست
ترجمہ:درویشوں کی خِلوت میں عرش بھی فرش کی حیثیت رکھتا ہے۔
درویشوں کی صحبت کی وجہ سے رنج بھی ایک خزانہ ہے۔
خلعتِ  دولتِ   جاوید  اگر  می  خواہی
حر قہ بہ  عظمتِ کسوتِ  دُرویشانست
ترجمہ :اگر تو ہمیشہ رہنے والی خلعت (لباس) کی دولت چاہتا ہے۔
تو درویشوں کے لباس کی عظمت میں اپنے لباس کو جلا دے۔
آپ کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے پوتے سید عالم کی شادی حضرت خواجہ رکن الدین کانِ شکر کے صاحبزادے حضرت خواجہ شیخ داوٗد کی لڑکی سے قرار پائی۔  حضرت شیخ باطنی کمالات کے ساتھ دُنیا وی شان و شوکت رکھتے تھے۔ حضرت شمع برہانی رحمۃ اللہ علیہ کے خادم نے عرض کیا کہ حضور کے گھر میں درویشی درجۂ  کمال پر ہے۔  اور حضرت شیخ کے خاندان میں جو نسبت ہوتی ہے وہ  خاندان دُنیاوی جاہ و جلال بھی رکھتا ہے۔  آپ کی زندگی فقر و فاقہ میں گزر رہی ہے۔  حضرت شیخ داوٗد سے قریبی رشتہ ہونے کے بعد آپ کو اپنی زندگی بدلنی پڑے گی۔  وُہ بہت شان و شوکت رکھتے تھے۔ ان حالات میں ہم کاموں کو کس طرح انجام دیں گے۔ آپ نے اِرشاد فرمایا کہ میرے لیے میرے مرشد کا نام کافی ہے۔  اور پھر آپ اپنے پیر و مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوئے۔  تمام حال کہ سنایا۔  آپ کو الہام ہوا کہ اَے عزیز !کیوں گھبراتے ہو۔  نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ، خوش رہو۔  جس قدر فیوضِ باطنی ہم نے اپنے لڑکے میاں منجھلے (حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ) کو دِیے وہ تم کو بھی عِنایت کیے ہیں ۔  پھر فکر کی کیا بات ہے ؟ یہ معلوم کر کے حضرت شمع برہانی رحمۃ اللہ علیہ خوشی خوشی اپنے مکان پر تشریف لائے اور خادم سے کہا کہ تم دریائے سابرمتی پر جاؤ ا ور خرچ کے مطابق وہاں سے لے لیا کرو۔ خادم دریا پر گیا تو دیکھتا ہے بجائے پانی کے اشرفیاں بہ رہی ہیں ۔  وہ روز جاتا اور گن کر ضرورت کے مطابق لے آتا۔  کہتے ہیں کہ یہ برکت اُس خاندان میں عرصے تک جاری رہی۔
حضرت شمع برہانی رحمۃ اللہ علیہ روٗحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔  دُنیا کی دولت سے بے نیاز تھے۔  آپ پر حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی مہر بانی بہ درجۂ  اتم تھی۔ زندگی  باطنی کمالات سے آراستہ تھی۔ آپ کے باطنی کمالات اور کشف و کرامات سے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے۔ آپ نے ایک مرتبہ اپنی ایک لکڑی لوہار کے پاس ٹھیک کرانے بھیجی۔ لوہار وہ لکڑی ٹھیک کر رہا تھا کہ وہاں ایک جوگی آپہنچا۔ اس نے اپنا لوٹا ٹھیک کر نے کو کہا۔ لوہار نے اس سے کہا کہ وہ کچھ دیر آرام سے بیٹھ لے۔  لکڑی ٹھیک کرنے کے بعد وہ لوٹا ٹھیک کر دے گا۔  جوگی نے اِصرار کیا کہ پہلے میرا لوٹا ٹھیک کرو، پھر لکڑی ٹھیک کرنا۔ لوہار نے کہا کہ میں پہلے لکڑی ٹھیک کروں گا۔  اس پر بحث بڑھ گئی۔ جوگی نے لوہار کو  برا بھلا کہا۔  جھگڑا بڑھتا جاتا تھا۔  ادھر حضرت شمع برہانی کو کشف کے ذریعے تمام حالات معلوم ہوئے۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ لوہار کے پاس پہنچے۔  جوگی کو سمجھا کر خاموش کیا اور اپنے سامنے بٹھایا۔  تھوڑی دیر کے بعد جوگی نے حضرت سے پوچھا ’’ کیا آپ نے یہ بستی بسائی ہے ؟’’ حضرت، نے فرمایا’’ میرے پیر کے طفیل سے اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے یہ بستی آباد ہوئی ہے۔ ‘‘جوگی نے پوچھا کہ آپ کے مرشد نے آپ کو کیا عطا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا،’’کہ میرے پیر نے مجھے اپنا نام عطا کیا ہے۔  ’’ جوگی نے دریافت کیا، ’’نام سے کیا حاصل ہے۔ ؟ ‘‘ میرے ساتھ ہو جاؤ تو ایسی قوّت عطا کروں گا کہ خرچ کرنے کے بعد بھی کم نہ ہو گی۔ ’’ آپ نے جواب دیا۔ ’’ آپ کو اس کا کچھ فائدہ نہیں اور ہمارے یہاں اس کی کوئی کمی نہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔  اخراجات کے لیے اللہ کو بھول کر کسی اور چیز کی قبولیت کوئی مطلب نہیں رکھتی۔  یہ ہمارے پیر کا بتایا ہوا راستہ نہیں ہے۔  ہمارے پیر کا نام ایسا ہے کہ اس مبارک نام کی برکت سے اندھا آدمی دیکھنے لگے گا۔  لنگڑا آدمی چلنے لگے گا۔ اور بہرا آدمی سننے لگے۔ پھر حضرت نے جوگی سے پوچھا،’’  تم لوگ کیمیا کس طرح بناتے ہو۔ ؟’’  جوگی نے بڑا طویل طریقہ بتایا۔  پھر کہنے لگا کہ تانبے کو گرم کر کے اس پر اکسیر ڈالتے ہیں ۔  تھوڑی دیر کے بعد وہ سونا بن جاتا ہے۔ ’’ اکسیر نہ ہو توکیا کرتے ہو ؟‘‘   اُ س نے کہا، ’’ تھوڑے برتن ورتن لے کر دوائیاں ! جڑی بوٹیاں ملا کر اکسیر بنا لیتے ہیں ۔ ‘‘ حضرت نے فرمایا، ’’ہمیں یہ تمام جھنجھٹ نہیں کرنی پڑتی۔  ہمارے پاس ایمان کی ایسی قوّت ہے کہ اس کے زور سے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ میرے پیر کا نام لے کر مٹّی پر ہاتھ رکھ دوں تو اللہ کی مہربانی سے وہ سونا بن جائے۔  لوہار بھی ان باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا ’’۔ جوگی کہنے لگا، ’’ اگر آپ کے پاس واقعی ایسی قوّت ہے تو میں آپ کا مذہب اِختیار کر کے آپ کا خادم بن جاؤں گا ’’۔ حضرت نے لوہار سے کہا کہ وہ اپنے سب اوزار سامنے رکھ دے۔  لوہار نے تمام اوزار آپ کے سامنے رکھ دِیے حضرت نے تھوڑی مٹّی لے کر اوزار پر ڈال دی۔  سارے اوزار سونے کے بن گئے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ مدارج المعارج‘‘ نام کی ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس کتاب کا تصوف میں اپنا ایک مقام ہے۔    جمعاتِ شاہیہ۔
صدحکایات۔  مرآۃِ  احمدی۔ ظفر الوالہ۔ مرآۃِسکندری کے علاوہ سید حاتم بن قرار بخاری کی’’ صحیفۃ السادات ‘‘ میں اس کے حوالے پائے جاتے ہیں ۔ آپ کو شاعری کا بھی شوق تھا۔  مرآۃِ احمدی میں آپ کی ایک فارسی غزل پیش کی گئی ہے۔
۸۶۳   ھ کو آپ نے جہانِ فانی سے حیاتِ جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔ شہرِ احمد آباد میں عثمان پورہ علاقے میں آپ کا مزارِ اقدس مرجعِ خلائق ہے۔  حضرت شمع برہانی کا روضۂ  مبارک اور عالی شان مسجد سلطان محمود بیگڑا نے بنوائے ہیں ۔ سلطان محمد شاہ نے مدرسہ تعمیر کیا۔ یہاں حضرت کی خانقاہ اور ایک وسیع کتب خانہ بھی تھا۔  بادشاہ کی طرف سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بادشاہ کی جانب سے و ظیفے دِیے جاتے تھے۔ شاہی کتب خانے سے آپ کے کتب خانے کو کتابیں عطا کی جاتی تھیں ۔  فی الحال یہاں عثمان پورہ میں گجرات ودیا پیٹھ جیسی یونیور سٹی قائم کی گئی ہے۔ نیز بیرونِ شہر کے طلبہ کے لیے قمر بورڈنگ بھی  قائم کیا گیا ہے۔




 قطب الاقطاب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے معاصِر اولیائے کرام


یوں تو حضرت عبد اللہ برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے معاصر اولیاء کرام میں آپ کے اساتذۂ  کرام، آپ کے روحانی پیشوا اور خانوادے کے تمام بزرگ نیز آپ کے خلفاء کا شمار تو ہوتا ہی ہے۔ ان حضرات کا ذِکر خیر اس کتاب میں کیا جا چکا ہے۔ لیکن یہاں اُن معاصر اولیائے کرام کا ذکر خیر پیش کرنا ہے جو نہ تو آپ کے اساتذہ میں سے ہیں اور نہ ہی خانوادے میں اُن کا شمار ہوتا ہے اور نہ ہی وہ آپ کے خلفاء میں سے ہیں ۔
آپ کے معاصر اولیائے کرام میں کئی بزرگ ہیں ۔ یہاں چند بزرگوں کا ذِکر خیر کیا جا رہا ہے۔

حضر ت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ :
آپ کا اسم گرامی سید حسن اور لقب شرف الدین تھا۔ ایران کے ایک مشہور شہر مشہد میں ۷۲۴  ھ۔   ۱۳۲۵ ِ  ۔ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ محترم سید علاؤ الدین بڑے عالم و فاضل تھے۔ مشہد سے علم حاصل کرنے کے لیے اوچ میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔  سخت ریاضت و مجاہدے کر کے درجۂ  کمال کو پہونچے۔ علوم ظاہری و باطنی میں یَدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ شرف الدین تو اپنے دین کی آبرو ہیں ۔ حضرت شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ بھی تھے اور آپ کو ان سے رشتۂ  دامادی کا شرف حا صل تھا۔  حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صاحبزادی ملک جہاں کو آپ کے نکاح میں دیا تھا۔
  حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی اِجازت سے سیاحت فرمائی۔ نکلتے وقت حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مسواک دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جہاں منزل کرو اسے زمین میں لگادو۔  جس جگہ یہ سر سبز ہو جائے وہیں مقیم ہو جانا۔ آخر کار مقامِ بھروچ پر وہ مسواک سر سبز ہو گئی۔
 آپ رحمۃ اللہ علیہ مستقل طور پر وہاں مقیم ہو گئے۔ بھروچ کو یہ شرف حاصل ہو نا تھا۔ آپ نے بھروچ میں قیام کرنے کے بعد دین اِسلام کی تبلیغ و اِشاعت کا کام شروع کیا۔  لوگوں کو ہدایت فرمانے لگے۔ آپ کے پیغام حق کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا۔ لیکن مصائب تو اولیائے کرام کے نصیب کا حصہ ہیں ۔ یہاں کے راجا نے آپ کو پریشان کرنا شروع کیا۔  لیکن آپ کے اخلاق و کرامات نے سب کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ پٹن کے رجواڑوں اور ان کے خاندان کے لوگوں نے اِسلام قبول کیا۔ (ماخوذ، از  بزم بزرگان بھروچ)
سلسلۂ  سہروردیہ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کوشش سے بھروچ  میں بہت فروغ حاصل ہوا۔ جب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ گجرات تشریف لائے تو سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی تعظیم کے لیے پٹن جانے کا حکم ملا۔ آپ بھروچ سے پٹن کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت گنج بخش کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی خد مت میں حاضر ہوئے۔ رات بھر مجلس رہی۔ صبح کی نماز کے بعد دونوں حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،سید شرف الدین  اپنے دونوں لڑکوں سید قطب الدین اور سید سعد اللہ کو ساتھ لے کر آئے تھے۔
یہ دونوں صاحبزادے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے عمر میں بڑے تھے۔ سید شرف الدین نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی اور بہت تعظیم کی۔ انہوں نے اپنے لڑکوں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بن جانے کو کہا۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ان کی ٹوپی (حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی) ٹوپی ہمارے سر پر نہیں آسکتی۔ یعنی حضرت ان کے مرشد ہو نے کا مرتبہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔
َ شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ نے لڑکوں سے کہا کہ اچھا ان سے ملاقات تو کر لیں ۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ س وقت کھنبات میں تھے۔ جب سب وہاں پہونچے تو حضرت وضو کر رہے تھے۔ حضرت انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایاکہ میرے سرکی ٹوپی اِن کے سر پر کس طرح آئے گی ؟ اور ان کو وہ کس طرح دی جائے گی۔
یہ سن کر دونوں صاحبزادے حضرت کے معتقد ہو گئے۔ اور آپ کے دستِ مبارک پر بیعت ہو کر آپ کے مریدوں میں شامل ہو گئے۔ حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ فارسی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ علمِ کیمیا اور فلسفہ میں یکتا تھے۔ لیکن حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت فیض سے روحانی مدارج طے کر کے اہل اللہ میں شمار ہو گئے۔
آپ کو سماع کا بہت شوق تھا۔ آپ کی وفات بھی کھنبات میں محفل سماع میں ہوئی۔ بحری جہاز میں آپ کے جسدِ خاکی کو رکھ کر بھروچ لایا گیا۔ بروز اتوار۔ ۱۸  رجب  ۸۰۸  ھ۔ میں آ پ نے رحلت فرمائی۔ بھروچ مخدوم پور میں جہاں آپ کی خانقاہ تھی وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔  مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
حضرت سید شرف الدین مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کے ان حالات سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ دین کی راہ پر چلنے کے لیے علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
روحانی ترقی کے لیے کسی مرشد کامل کا ہاتھ تھامنا لازمی ہے۔  مصائب و آلام میں  صبر و تحمّل سے کام لینے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کے برگُزیدہ ولی چاہے ان کی عمر اپنے سے کم ہو ان کا احترام و اعزاز کرنا چاہیے۔

حضرت سید مخدوم جہاں شہ:
 اللہ کا ہر ولی سرور عالم  ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے برگُزیدہ ولی  ہو تے ہیں جن سے خود سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفٰے  ﷺ  محبت فرماتے ہیں ۔ سید مخدوم جہاں شہ ایسے ہی برگُزیدہ ولیوں میں سے تھے۔ گردیز آپ کا وطن تھا۔  سلسلۂ  نسب حضرت امام موسیٰ رضا رحمۃ اللہ علیہ تک پہونچتا ہے۔  ۷۸۹  ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ والدہ کی وفات کے بعد مانک پور جسے اب لکھنؤکہا جاتا ہے، سے اوچ (سندھ) تشریف لائے اور حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ سے مرید ہو گئے۔ روحانی اسرار حاصل کر کے اپنے مرشد کی اجازت سے مکۂ  مکرمہ کی زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ اوچ سے پٹن تشریف لائے۔ حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ایک کملی بطور امانت ان کے ساتھ کر دی۔ حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے یہ بھی فرمایا کہ یاد رکھو جو تبرکات تم کو ملنا ہیں وہ تبرکات تم کو وہاں سے یعنی حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے مل جائیں گے۔ پٹن پہونچ کر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو یہ امانت سپرد کی۔ مرآۃ احمدی کے مصنف کا یہ کہنا ہے کہ اس کملی کا ایک ٹکڑا  ۱۱۷۴  ھ تک مولانا نور الدین کے فرزندوں کے پاس موجود ہے۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ور حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ حضرت سید مخدوم جہاں شہ نے جب وہ کملی جو حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ نے دی تھی۔ جسے گلیم پنجتن پاک کہتے ہیں ۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو سپرد کی تو آپ نے اسے بصد احترام قبول فرمایا اور بطور تبرک اپنا وہ لباس جو اس وقت زیب تن کیا تھا وہ اتار کر حضرت مخدوم جہاں شہ کو پہنا یا۔ اس طرح حضرت راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ کا کہا پورا ہوا۔
حضرت شیخ الاِسلام شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کی بہت تعظیم و تکریم فرماتے تھے۔ ایک دن کسی شخص نے آپ سے دریافت فرمایا کہ آپ شیخ الاِسلام ہو کر سید احمد مخدوم کی اس قدر عزّت کیوں کرتے ہیں ۔  آپ نے جواب دیا۔ ’’ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ سید احمد مخدوم صاحب سرکار دو عالم  ﷺ  کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرما رہے ہیں ۔ سرکار دو عالم  ﷺ نے مخاطب ہو کے مجھے فرمایا کہ شیخ احمد ! میں احمد ہوں اور یہ میرا لڑکا احمد ہے۔
حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں اس دن سے ان کی عزت کرتا ہوں ۔ کیونکہ ان کو حضرت محمد  ﷺ سے بہت قربت حاصل ہے۔   (ماخوذ از مرا ٓۃِ احمدی)
حضرت سیدا حمد مخدوم جہاں شہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے بعد پٹن میں ہی اپنے چچا سید خدا بخش کے ہاں مقیم ہو گئے۔ اس زمانے کے ایک بزرگ  مخدوم عالم اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ نبیِ اکرم  ﷺ  فرما رہے ہیں کہ تو اپنی لڑکی کا نکاح میرے لڑکے سید احمد سے کر دے۔ یہ خوش خبری پا کر حضرت مخدوم عالم اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ خود ہی سید خدا بخش کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی لڑکی کا نکاح حضرت سید احمد مخدوم جہاں شہ سے کر دیا۔
حضرت مخدوم جہاں شہ رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً پانچ ماہ تک پٹن میں قیام کیا۔  اور پھر مکۂ  معظمہ تشریف لے گئے۔ ۱۲  سال تک دیارِ مکہ میں مقیم رہے۔ حجِّ  بیت اللہ اور زیارت مدینہ  منوّرہ سے فارغ ہو کر  بیت المقدس کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔
بیت المقدس کی سیاحت  و زیارت سے فارغ ہو نے کے بعد پھر نبیِ اکرم حضرت محمد مصطفٰے  ﷺ  کا خواب میں دیدار فرمایا۔ سرکار دو عالم  ﷺ نے حکم فرمایا کہ پٹن جاؤ اور وہاں لوگوں کی ہدایت کرو۔ اور یہ بشارتِ عظمیٰ دی کہ جو گناہگار تیری صورت دیکھے گا خدا اس کو بخش دے گا۔  اور جو شخص تیری قبر پر فاتحہ خوانی کرے گا  اس کی شفاعت مجھ پر واجب ہو گی۔ اور جو کوئی تیری زیارت کرے گا تو جنت اس پر عاشق ہو گی۔  اور وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت سید مخدوم جہاں شہ رحمۃ اللہ علیہ عاشق رسول کریم  ﷺ تھے اور حضور نبیِ کریم ﷺ بھی آپ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ آپ نے بشارتِ  رسول کریم ﷺ کے بعد پٹن کا رُخ کیا۔  یہاں لوگوں کو ہدایت دینے کے کارِ خیر میں مشغول ہوئے۔ لیکن آپ کی رشد و ہدایت کو چند نادیدہ اشخاص نا پسند کرتے تھے۔ نماز اشراق کے سجدے میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ نے (۱۱۰) سال کی عمر پائی۔  تاریخِ شہادت ’’ وارثِ امام علی ‘‘ سے بر آمد ہوتی ہے۔  بس ثابت ہوا کہ آپ امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی اولاد میں سے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو منور کرے اور انوار کی بارش ہو ان کے شہید ہونے والے جسم اطہر پر۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے  کلمۂ  طیب  لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  مُحَمَّدُ رَسُوْلُ اللّٰہْ  کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو صدق دل سے پڑھنے والے کے ایمان میں ترو تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ آخرت کا ایک اچھا سامان ہے۔  حالتِ نزع میں ایمان قائم رہے گا۔  شیطان کچھ نقصان نہ پہونچا سکے گا۔  فرشتے خوش خبری دیتے ہیں کہ قیامت کا خوف نکال دے ! مشکلات کا کوئی خوف نہ کر۔ اَے شخص تیرا مقام جنت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے روضۂ  مبارک کی زیارت سے سرفراز فرمائے  تاکہ ہمیں نبی اکرم  ﷺ کی شفاعت اور جنت نصیب ہو۔  آمین یا ربَُ العالمین۔

حضرت بابا شیخ کمال مالوی عرف پیر کمال:
قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے ایک اور ولی بابا شیخ کمال مالوی عرف پیر کمال احمد آباد کے مشہور و معروف ولی اللہ ہیں ۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ مالوہ کے رہنے والے تھے۔  بڑے اونچے پائے کے بزرگ تھے۔  بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ بار گاہِ خداوندی میں ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں ۔ مالوہ کا بادشاہ سلطان محمود خلجی ہم وطن ہونے کی وجہ سے آپ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا۔ دیگر درویشوں اور اَولیائے کرام سے بھی وہ خاص عقیدت رکھتا تھا۔ بزرگوں کی عزت کرتا تھا۔ اور اُن کی خدمت کرنا اُسے بہت پسند تھا۔  وہ ہمیشہ بزرگوں کی دُعاؤں کا طالب رہتا تھا۔ اُس کی دِلی خواہش تھی کہ گجرات کی حکومت پر اُس کا اِقتدار ہو جائے۔ وہ اکثر شیخ کمال کی خدمت میں نذرانے بھی بھیجا کرتا تھا۔ وہ اکثر آپ سے گذارش کیا کرتا تھا کہ گجرات پر اُس کو قبضہ حاصل ہو جائے۔ اس نے آپ سے ایک مرتبہ گذارش کی کہ اگر گجرات کا ملک میرے زیرِ اِقتدار آ جائے تو حضرت کی خانقاہ کے لیے اور خادموں کیلیے تین کروڑ ٹنکہ گجراتی مقرر کر دوں گا۔ اس نے بطور نذرانہ ۵۰۰  اشرفیاں آپ کی خدمت میں ارسال کیں ۔
اس زمانے میں گجرات میں سلطان محمد شاہ ثانی کی حکومت تھی۔ کسی نا معقول خود غرض خوشامدی نے سلطان محمد ثانی کے سامنے حضرت شیخ کمال رحمۃ اللہ علیہ پیر کمال کی غیبت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ کمال با وجود دُعاء و دُرویشی میں مشغول رہنے کے روپیہ اس قدر محبوب ہے کہ قرآن کے غلاف میں محفوظ رکھتے ہیں ۔ سلطان محمد ثانی نے تحقیقات کروائی تو بات صحیح ثابت ہوئی۔ سلطان نے وہ سب روپیہ لے کر خزانے میں داخل کروا دیا۔ شیخ کمال سخت ناراض ہوئے۔ اور بد دُعا دی کہ سلطان محمد ثانی تخت سے معزول ہو جائے۔ اور آپ نے سلطان محمود خلجی کو گجرات پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ وہ تو چاہتا ہی تھا۔  اسّی ہزار کا لشکر لے کر آ پہنچا۔  سلطان محمد ثانی مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا تو اُمراء نے اُسے معزول کر کے  اس کے لڑکے سلطان قطب الدین کو گجرات کا بادشاہ بنا دیا۔ لیکن سلطان قطب الدین میں اس کے حملے کی تاب لانے کی ہمت نہ تھی۔ نہ ہی اِتنا لشکر تھا۔ گھبرا کر اپنے پیر و مرشد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔ حالات سے واقف کرا کے دُعاء کی گذارش کی۔  اور ساتھ ہی ساتھ یہ عرض بھی گزاری کہ یہ سلطنت آپ کے بزرگوں کی ہی عطا کی ہوئی ہے۔ دُعا کیجئے کہ میری سلطنت باقی رہے۔ اور سلطان محمود خلجی کے شر سے مجھے نجات مل جائے۔  آپ نے فرمایا کہ یہ سب دُرویشوں کو تکلیف دینے کا نتیجہ ہے۔ اور تمھارے باپ کی نا اہلی کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے۔ پھر بھی تم اطمینان رکھو۔ اس کا تدارک کیا جائے گا۔  پھر آپ نے مجلس کی طرف رخ کر کے کہا کہ کوئی ہے جو پیر کمال کی طرف جائے اور میری طرف سے معافی مانگے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے سوا کوئی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ حضرت نے فرمایا۔  سچ ہے۔ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ  سے آپ نے مخاطب ہو کر کہا کہ بابا منجھلے! جاؤ! سلام کرنے کے بعد میری طرف سے معافی مانگ لو۔  اور کہو کہ باپ کا بدلہ بیٹے سے لینا جائز نہیں ۔ قرآن میں ہے۔  وَلَاتَذِِِرُ  وَازِ رَۃٌ وِّ زْرَ اُخْریٰ
(ترجمہ :اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ پارہ،۲۲،سورۂ  فاطر، آیت،۱۸)  پس آپ معاف کر دیں ۔ اور محمود خلجی کو لکھ دیں کہ صلح کر لے۔
حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پدرِ بزرگوار کا پیغام پہنچایا۔ وہ نہ مانے۔ واپس آ کر اپنے والدِ محترم سے عرض کیا۔  آپ کو پھر بھیجا گیا۔  آپ دوبارہ ناکام واپس آئے۔ پھر آپ کو لوٹایا گیا۔ ہر دفعہ آپ نے بڑے عجز و  اِنکساری سے اِستدعا کی۔ لیکن پیر کمال نے جلال میں آ کر کہا کہ سات سال سے خداوند کی درگاہ میں التجا کر رہا ہوں کہ گجرات کی سلطنت محمود کو ملے اب جب کہ اس کے باپ نے مجھ پر ظلم کیا ہے تو اُس کے لڑکے کو سلطنت کیسے مل سکتی ہے؟اور محمود خلجی تو دُرویشوں کا خدمت گزار اور مخلص ہے۔ وہ محروم ہو کر واپس جائے اَیسا نہیں ہو سکتا۔  جاؤ سیّد زادے۔ برہان الدین سے دُعاء کہو  اور اب یہ تیر کمان سے نکلا ہوا ہے۔ اس کا واپس آنا محال ہے۔ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ مسکرائے اور کہا۔
اَولیاء     است      قرب    از    اِلٰہ
تیٖرِ      رفتہ     با ز   گرداند    زِ  راہ  (مراۃِ احمدی)
(ولیوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس لا سکتے ہیں)
یہ سن کر بابا کمال جلال میں آ گئے کہنے لگے کہ یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ لوحِ محفوظ میں مقدر ہو چکا ہے کہ حکومت محمود خلجی کو ملے گی۔ اپنے پدرِ بزرگوار سے کہ دوکہ اس معاملے میں زیادہ اِصرار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ایک پلندہ حضرت شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو لوحِ محفوظ میں یہی لکھا ہے۔
اب حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی رگِ ہاشمی جوش میں آئی۔ پلندہ ہاتھ سے اُٹھا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اور فرمایا کہ یہ تحریر دیوانِ قضا و قدر میں بغیر دستخطِ قطب عالم کے جاری نہیں ہو سکتی۔  بابا کمال کی اب آنکھ کھلی ! تقدیر میں یہی لکھا تھا بابا۔ کہ کر بے ہوش ہو گئے کہ سید زادے نے زور کیا اور پھر بابا کمال کی وفات ہو گئی۔ یہ خبر جب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ میاں منجھن (شاہ عالم)نے جلدی کی۔ ذرا صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔ اور محمود خلجی کا انجام تاریخ میں درج ہے کہ کس طرح شکست کھا کر بھاگ گیا۔ بابا پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک خداوند خاں کی مسجد کے پیچھے علیم پورہ (موجودہ دانی لمڑا)میں واقع ہے۔ یہ حالات مرآۃِ احمدی کے مصنف نے  مرآۃِ سکندری  سے ماخوذ کر کے لکھّے ہیں ہم نے مرآۃِ احمدی سے اِستفادہ کیا ہے۔
قطب الاقطاب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سلاطین
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآ ءُ  وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآ ءُ وَ تُذِ ل مَنْ تَشَآءُ ط  بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ  قَدِیْرٌ
ترجمہ:   یوں عرض کر اَے اللہ ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اَور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذِلَّت دے۔ ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے، بے شک تو سب کچھ کر سکتا ہے۔
(پارہ، ۳، سورۂ  اٰل عمران، آیت ۲۶)
قطب الاقطاب حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے معاصر سلاطین کے حالات معلوم کرنے سے پیشتر یہ جان لینا ضروری ہے کہ گجرات میں مسلمان سلاطین کی اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوئی۔
۱۵     ھ میں یعنی جناب رسالت مآب حبیب خدا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و  اٰ لہٖ و سلم کی وِصال کے صرف پانچ سال کے بعد امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے صحابی رسول حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کو بحرین اور عمان کی حکو مت کے لیے نامزد فرمایا۔ انہوں نے اپنے بھائی حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو تبلیغِ دین اور جہاد اِسلام کے مقصد سے ہندوستان روانہ کیا۔  حضرت حکم رضی اللہ عنہ نے دریائی صعوبتوں کی سخت تکلیف اٹھا کر سواجلِ گجرات پر قدم رکھا۔ اور اس سرزمین کے دشت و جبل اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھے۔ سوا حلِ گجرات تھانہ  جسے عربی میں  تانہ  لکھتے ہیں ۔ اسی پر سب سے پہلے مسلمانوں کا حملہ ہوا تھا۔ یہیں سے صدائے اللہ اکبر کی گونج نے سارے ہندوستان کا محاصرہ کر لیا تھا۔ وہ انفاس قدسیہ وہ صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم کہ جنہوں نے رسول خدا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و اٰ لہٖ و سلم کے جمالِ جہاں آرا کو دیکھا تھا۔  اس جنگ میں شامل تھے۔ ان میں سے چند سعادت مندوں نے مرتبۂ  شہادت حاصل کیا۔ اور بھروچ کے گرد و نواح میں مدفون ہوئے۔ لیکن ان کی قبریں شاید پختہ نہ تھیں ۔  یہی وجہ ہے کہ کنز مخفی کی طرح پوشیدہ ہو گئیں ۔ فتوح البلدان کے مورخ بلاذری لکھتے ہیں کہ اس کے بعد دوسرا حملہ حضرت حکم بن عاص نے بھروچ پر کیا۔ بھروچ کو عربی کتابوں میں بروج یا بروس لکھا گیا ہے۔
ان دونوں حملوں میں حضرت حکم رضی اللہ عنہ کو بڑی کامرانی نصیب ہوئی۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دریائی سفر کے خلاف تھے۔  اس لیے مدّت تک مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ (بحوالہ۔ یادِ ایّام)
۱۰۷   ھ  میں خلیفۂ  دمشق ہشّام بن عبد الملک کے تفویض کردہ حاکم جنید بن عبد الرحمٰن نے سندھ کے اِنتظام کے بعد گجرات پر حملہ کیا۔  اس کی فوج نے گجرات کے  علاقے کَچھ پر جسے عربی میں قصّہ لکھتے ہیں ۔ قبضہ جما لیا۔ مالوہ بھی زیرِ اقتدار آیا۔
  ۱۵۹   ھ میں خلیفۂ  بغداد المہدی باللہ عباسی نے عبد املک بن ہشّام المسمعی کو جہاد کے لیے روانہ کیا۔  اس جنگ میں مشہور تابعی ابو بکر ربیع بن صبیح العدی البصری رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے حدیث شریف پر کتاب تصنیف کی تھی۔ ان سے متعلق فاضل چلپی نے’’ کشف الظنون‘‘ میں لکھا ہے۔
ھُوَ اَوَّل مَنْ صَنَّفَ فِی الْاسْلَامِ۔
(مسلمانوں میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب تصنیف کی)
عبد الملک نے   ۱۶۰  ِ    میں کھنبات کے قریب بار بد کا علاقہ فتح کیا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہوائی وباء پھیلی اور تابعی ربیع بن صبیح رحمۃاللہ علیہ نیز دیگر ایک ہزار آدمی اُس وباء کا شکار ہوئے۔ گجرات کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہوا کہ فن حدیث کا پہلا مصنِّف اِس کے دامن میں سو گیا۔
اس کے بعد   ۴۱۶  ھ مین سلطان محمود غزنوی نے گجرات پر حملہ کیا۔ (انہلواڑ جسے عربی میں نہروالہ کہتے ہیں) کو زیر و زبر کر کے دیلواڑہ کو فتح کر کے سومناتھ پر غالب ہوا۔ پھر ۵۷۴ ھ میں شہاب الدین غوری نے گجرات پر دھاوا بول دیا۔  ۵۹۱    ھ میں شہاب الدین غوری کی اِجازت سے قطب الدین ایبک نے گجرات پر دوبارہ حملہ کیا۔  اور  نہروالہ پر فتح یابی حاصل کر لی۔ ۵۹۷  ھ میں قطب الدین ایبک پھر گجرات کی مہم پر روانہ کیا گیا۔ اور گجرات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر انتظام درست کر دیا۔
 ۵۹۶   ھ میں علاء الدین خلجی کے حکم سے اُلغ خان نے گجرات کی تسخیر کی۔ اور نہروالہ کو مرکز حکومت قرار دے کر وہاں جامع مسجد تعمیر کرا دی۔ اُلغ خان نے بیس برس تک گجرات مین نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انتظامِ حکومت چلایا۔ دہلی سے گجرات کی حکومت کے لیے صوبے نامزد ہوتے رہے۔ بالآخر بادشاہ دہلی فیروز شاہ تغلق جو مسلمانوں کا ہمدرد تھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے محمد شاہ تغلق کے کمزور ہاتھوں میں انتظامِ سلطنت آیا۔ اس وقت دکن میں اور کشمیر و بنگالہ میں آزاد حکومتیں قائم ہو گئیں تھیں ۔ محمد شاہ تغلق نے  ۷۹۳   ھ میں ظفر خان کو گجرات کا صوبیدار بنا کر روانہ کیا۔  ظفر خان نے گجرات پہونچ کر سب سے پہلے بغاوت کو کچل دیا۔ اس کے حُسنِ انتظام سے گجرات میں سکون و اطمینان پیدا  ہوا۔  حدودِ حکومت کی توسیع ہوئی۔
ادھر دہلی کی سلطنت روز بروز تباہ ہو رہی تھی۔  نا اہل وزیر اقبال خاں کے ہاتھوں میں حکومت کے کُل اختیارات آ چکے تھے۔   ۸۰۱  ھ میں تیمور گورگاں نے دہلی تاراج کر دیا۔ فیروز شاہ تغلق کے خاندان کو تباہ و برباد کر دیا۔ اِن حالات میں جونپور اور مالوہ کے حکام خود مختار ہو گئے۔ مگر ظفر خان والیِ گجرات نے اس کی جسارت نہیں ۔  لیکن علماء اور مشائخ کی اِستدعا اور اپنے بڑے بیٹے تاتار خاں کے بہت زیادہ اصرار کرنے پر نیز گجرات کے ارکانِ  دولت کے متفق ہو کر یہ التجا کرنے پر کہ سلطنت دہلی کی بربادی کے بعد گجرات کی باری ہے۔ اگر آپ توجہ نہ فرمائیں گے تو یہ ملک بر باد ہو جائے گا۔ اراکین کے اس اصرار پر   ۸۱۰   ھ میں بمقام شیرپور تختِ حکومت پر جلوس فرما کر سلطان مظفر شاہ کا لقب اختیار کر کے انتظامِ سلطنت اپنے ہاتھوں میں لیا۔  مظفر شاہ کا تمام ملکی انتظام دین و شریعت کا پابند تھا۔
سلطان مظفر کے والد اِسلام قبول کرنے سے پہلے مذہباً ہندو تھے۔  ان کا نام  سہارن یا  سدھارن تھا۔ اِسلام قبول کرنے کے بعد وجیہ الملک خطاب عطا ہوا۔ سلطان مظفر شاہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ گجرات میں اِسلام کو فروغ حاصل ہو۔  دینِ مصطفٰے  ﷺ  خوب پھولے پھلے۔ یہ گجرات کی اِسلامی حکومت کا پہلا حکمراں تھا۔ اِس نیک دل باد شاہ نے رعایا پر وری کی وجہ سے بڑی نیک نامی حاصل کی۔ برباد شدہ دہلی کے برباد شدہ خاندان کو مظفر شاہ نے گجرات میں پناہ دی۔ اس زمانے میں علماء اور مشائخ  اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کر کے اپنے دینی فرائض ادا کرنے لگے۔
سلطان مظفر شاہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا معاصِر(یعنی انہیں کے زمانے کا) سلطان ہے۔ سلطان مظفر شاہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے جدِّ امجد حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا مرید تھا۔ بادشاہت حاصل ہونے سے پہلے اس نے ایک مرتبہ حضرت مخدوم کی خانقاہ کے لنگر کے لیے اور ان کے خلفاء اور مریدین کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا تھا۔  اس کے اس حسنِ سلوک سے خوش ہو کر حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے گجرات کی حکومت عطاء ہونے کی دُعاء فرمائی تھی۔ اسی دُعاء کے باعث مظفر خان سلطان مظفر شاہ بن سکا تھا۔ آپ نے اسے بلا کر فرمایا تھا۔
’’ اَے ظفر خان ! بغرض ایں طعام حکومت تمام ملکِ
 گجرات بنامِ شُما اِنعام فرمود یم مبارک باشد۔ ‘‘
  ترجمہ :  اَے ظفر خان !  اِس کھانے کے بدلے میں ملکِ گجرات کی تمام سلطنت ہم نے تم کو عطا کی۔ مبارک ہو۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سید راجو قتّال رحمۃ اللہ علیہ کے اِرشاد کے مطابق گجرات تشریف لائے اور حضرت شیخ رکن الدین نبیرۂ  حضرت شیخ فرید الدین کانِ شکر کے مشورے سے پٹن میں مقیم ہوئے۔  آپ کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی سلطان مظفر شاہ اِستقبال کے لیے حاضر ہوا اور کمالِ اِحترام کے ساتھ آپ کو پٹن میں لایا۔ (مرآۃِ احمدی)  ۸۰۲  ھ مطابق  ۱۳۹۹ِ  کا زمانہ تھا۔ جب آپ پٹن تشریف لائے۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ مظفر شاہ کو جب آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو حضرت کی خدمت میں بصد عقیدت حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوا،انسان کی سوچ ہی سوچ ہے۔  اس نے سوچا کہ اگر یہ درست ہے کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا پوتا ہونے کا شرف حاصل ہے۔  اور ان کی رگوں میں مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت کا خون ہے۔ تو یہ اس وقت سمجھوں گا جب کہ تین باتیں میرے سوچنے کے مطابق عمل میں آ جائیں ۔  ایک تو یہ کہ جہاں اُن کا قیام ہو گا وہیں مجھے طلب فرمائیں گے۔ اور آپ خود میرے اِستقبال کے لیے تشریف نہیں لائیں گے۔  دوسرے یہ کہ اس وقت آپ کے گھر میں جو کچھ کھانے کو ہو گا وہی مجھے دیں گے۔ میرے لیے کوئی خاص پکوان کا اِنتظام نہیں کریں گے۔ تیسرے یہ کہ رخصت ہوتے وقت اپنی پگڑی مجھے عنایت  فرمائیں گے۔
ایسا ہی ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جب سلطان مظفر شاہ آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوا  تو لوگوں کی خواہش تھی کہ اُس کی شان کے مطابق اُس کا اِستقبال کیا جائے۔  مگر آپ راضی نہ ہوئے۔  آپ جہاں تھے وہیں سلطان مظفر شاہ کو قدم بوس ہونے کا موقع عطا فرمایا۔  پھر آپ نے فرمایا کہ جو کھانا گھر میں موجود ہے وہ لایا جائے۔  اور دستر خوان بچھایا جائے۔ جب کھانا آ گیا تو آپ نے سلطان سے کہا کہ فقیروں کا کھانا حاضر ہے۔ بسم اللہ کیجیے۔ سلطان مظفر شاہ کے ساتھ آپ نے بھی کھانا تناول فرمایا۔
سلطان مظفر شاہ نے جب رُخصت ہونے کی اِجازت چاہی تو آپ نے اسے رخصت کرتے وقت فرمایا کہ فقیروں کی پگڑی آپ کے لیے نہیں ہے۔ ان واقعات کے بعد سلطان مظفر شاہ بہت خوش ہوا۔  اور حضرت کا دل و جان سے معتقد ہوا۔  آپ کا اِکرام اُس کے دل میں ہمیشہ کے لیے جاگزیں ہوا۔
سلطان مظفر شاہ نے گجرات پر بڑی شان سے حکومت کی۔ حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ ور دیگر مشائخ کی دُعاؤں سے اپنے فرائض سلطانی کو بہ احسن ادا کرتے ہوئے   ۸۱۴   ھ میں نہایت نیک نامی اور رعایا کی خوشنودی اور بزرگان دین کی محبت کے ساتھ آخرت کا سفر اِ ختیار کیا۔  پٹن میں سپرد خاک کیا گیا۔  مظفر شاہ نے تقریباً ۲۱  سال حکومت کی۔
سلطان مظفر شاہ کے بعد اُس کا پوتا سلطان احمد شاہ تخت نشین ہوا۔  اس نے گجرات پر   ۱۴۱۰  ِ   سے   ۱۴۴۱   ِ   تک نہایت شاندار اور عادِلانہ طریقے پر حکومت کی۔  یہ اپنے دادا سلطان مظفر شاہ کی طرح بہت دوٗر اندیش، بلند حوصلہ، عادل اور دین دار تھا۔  ملک کا انتظام و اِنصرام اور عدل و انصاف ایسا تھا کہ ۳۲  سال کے دَورِ حکومت میں خونِ نا حق کے صرف دو واقعات ظہور میں آئے۔ ان دونوں واقعات سے متعلق سلطان احمد شاہ نے ایسا اِنصاف کیا کہ وہ انصاف کے واقعات تاریخ  کے اوراق میں ہمیشہ جگمگا تے رہیں گے۔
سلطان احمد شاہ کے حُسنِ انتظام نے رِعایا کو اُس کا گرویدہ کر دیا۔ کیا ہندوٗ،کیا مسلمان سبھی اُس کے دلدادہ تھے۔  فتح مندی اس کے سر کا تاج تھی۔ اس نے شکست کا منہ کبھی نہ دیکھا۔ اساول، ایڈر، مالوہ، میواڑ،بوندی، کوٹہ اور بُرہان پور کے علاقے اس نے فتح کیے اور انہیں حسنِ انتظام سے آراستہ کیا۔
وہ بزر گان دین کی دِل سے عزت کرتا تھا۔ ان سے بے پناہ محبت رکھتا تھا۔ ان کی خدمت کر کے اُن کی دُعائیں لیتا تھا۔  وہ خود بڑا دیندار بادشاہ تھا۔ دین اِسلام کی تبلیغ و اِشاعت میں وہ پیش پیش تھا۔ قانونِ شریعت کا اِتنا پابند تھا کہ اپنے داماد کو جس پر قتل کا مقدمہ تھا۔ گناہ ثابت ہونے پر شریعت کے مطابق قتل کی سزا دی۔
سلطان احمد شاہ نے شیخ الاِسلام حضرت شیخ احمد گنج بخش سرخیزی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے سے بروز جمعرات ۳  ذی القعد ہ  ۸۱۳  ھ میں شہر احمد آباد کی بنیاد رکھی۔ سلطان نے اس عظیم الشان شہر کا سنگِ بنیاد ایسی مبارک ہستیوں سے رکھوایا جو نہایت متّقی اور پرہیز گار تھیں ۔  یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ چاروں کے اسمائے گرامی بھی احمد ہی تھے۔
(۱)  شیخ الاِسلام حضرت شیخ احمد گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
(۲)  غازیِ  ملت حضرت سلطان احمد شا ہ رحمۃ اللہ علیہ
(۳)سید الاولیاء حضرت قاضی احمد رحمۃ اللہ علیہ
(۴)  فیضان طریقت حضرت  مَلِک احمد رحمۃ اللہ علیہ
سلطان احمد شاہ، حضرت قطب الاقطاب سید برہان الدین قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا معاصر سلطان ہے۔ وہ آپ سے بے  حد عقیدت اور محبت رکھتا تھا۔ اس نے جب شہر احمد آباد کو آباد کیا تو حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ شہر احمد آباد کے لیے دُعاِ  فرمائیں ۔  بادشاہ کی درخواست پر آپ نے دعا فرمائی کہ۔
احمد آباد،زینت البلادابداُلآباد،
  اِن  شاءَ  اللّٰہ   الرؤفٌم  بالعباد
سلطان نے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ حضرت اس نئے  شہر میں سکونت اختیار فرما کر اس شہر کو زینت عطا کریں ۔  سلطان احمد شاہ نے حضرت کی شان میں ایک قصیدہ  لکھّا اور حضرت کے سامنے شاعروں کی طرح کھڑے ہو کر نہایت ہی ادب کے ساتھ آپ کے سامنے قصیدہ پیش کیا۔  قصیدہ کا مطلع یہ ہے:
   قطبِ زمانۂ   ما برہان  بس است  مارا
 برہان  او ہمیشہ  چوں  نامش  آشکارا
ترجمہ : ہمارے زمانے کے قطب حضرت سید برہان الدین ہمارے  لیے ایک واضح برہان اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔  اُن کا ہمیشہ برہان (دلیل) ہونا اُن کے نام ہی سے ہمیشہ ظاہر ہے۔
بادشاہ نے قصیدہ خوانی کے بعد عرض کیا کہ صِلہ اور دُعاِ  کا امید وار ہوں ۔  اِرشاد ہوا کہ تمہارے خاندان کے متعلق میرے دادا (حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ) نے دُعاء کی ہے۔  سلطان نے نہایت ہی ادب سے عرض کیا کہ حضرت ممدوح نے تو سلطان کی اولاد میں سلطنت کے لیے دُعاء فر مائی ہے۔ آپ برائے مہربانی اِس شہر احمد آباد کی آبادی اور مقبولیت کی دُعاء فرمائیں ۔  اِ رشاد ہوا کہ احمد آباد  اَبَدُ الآباد اِنْ شَاءَ اللّٰہ الرؤفٌم  بِا الْعِبَاد۔ ۔ عجیب اتفاق ہے کہ شہر پناہ کی تاریخ کا  مادہ  قرآنِ عظیم کی آیت  وَمَنْ دَ خَلَہٗ کَانَ اٰ مِنَا سے نکلتا ہے۔ ترجمہ :اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔ (پارہ :۴، سورۂ  اٰل عمران۔ آیت :۹۶)
با د شاہ کے زمانے میں حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتداء میں سابر متی کے کنارے قدیم اَسَاول میں سکونت اِختیار کی۔  کچھ دنوں کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ حمد آباد سے آٹھ دس میل دور بٹوہ میں آ کر مقیم ہوئے۔  سلطان احمد شاہ نے اسی موضع کی آمدنی آپ کے اخراجات کے لیے مقرر کر دی۔
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی مہربانی اور لطف و کرم، سلطان احمد شاہ کے شاملِ حال رہے۔ اُنہیں کی دُعاء سے سلطان کو اپنی قوت بڑھانے، اپنی حکومت کو مضبوط کرنے،  اور قائم رکھنے میں ، حُسنِ تدبیر اور حُسنِ اِنتظام حاصل ہوا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ ہر خاص و عام کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ فیض کے دریا سے ہر کوئی سیراب ہو سکتا تھا۔
نیک صفات سلطان احمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے شہر احمد آبا د میں اتنی خوب صورت جامع مسجد بنوائی ہے کہ وہ دین کی عظمت و جلال کا ایک عظیم اِظہار ہے۔  ۱۴۴۱ ِ   میں نیک دل بادشاہ سلطان احمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس دُنیائے فانی سے کوچ کی۔ عدل و انصاف اور سخاوت میں بے نظیر سلطان احمد شاہ کا مقبرہ مانک چوک، احمد آباد میں ۔ ’’ باد شاہ کا روضہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
سلطان احمد شاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا محمد شاہ جانشین ہوا۔  سلطان محمد شاہ بھی حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا معا صِر سلطان ہے۔ یہ بھی اپنے باپ کی طرح نیک دل، نیک سیرت،عافیت پسند اور بہت فیاض تھا۔ اس کی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے لوگ اسے زر بخش۔ اور لکھ بخش کہا کرتے تھے۔
انسان غلطیوں کا پلندہ ہے۔ ہر کسی سے کچھ نہ کچھ غلطی ہو جاتی ہے۔ اور کبھی ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے کہ وہ غلطی اس کی بربادی کا سب بن جاتی ہے۔ دل آزاری بہت بڑا گناہ ہے۔ اور پھر کسی سے اگر اللہ کے ولی کی دل آزاری ہو جائے تو اس کے برباد ہو نے میں کیا شک۔ بس ایسی ہی ایک غلطی سلطان محمد شاہ سے ہو گئی۔ اس نے وقت کے مشہور ولی اور صوفی بزرگ حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کی دل آزاری کی۔ انہوں نے ناراض ہو کر بد دُعاء فرمائی۔ انہی کی بد دُعاء کا نتیجہ تھا کہ مالوہ کے بادشاہ محمود شاہ خلجی نے گجرات پر چڑھائی کر دی۔  محمد شاہ کے وزیروں نے مدافعت کا حکم نامہ جاری کرنے کو کہا لیکن اس عافیت پسند بادشاہ نے مدافعت کا حکم نہیں دیا۔  وزیروں نے یہ محسوس کیا کہ بادشاہ بھاگ جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے زہر دے کر اسے مار ڈالا۔  محمد شاہ زر بخش نے تقریباً نو برس حکمرانی کر کے۔   ۸۵۵  ھ میں وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ دل آزاری کے گناہ سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین ! یا رب العالمین۔ !
سلطان محمد شاہ زر بخش کی وفات کے بعد اس کے وزیروں نے اس کے بیٹے قطب الدین احمد شاہ کو تخت نشین کیا۔  سلطان قطب الدین بہت بہادر تھا۔  بہت رحم دل اور سخی تھا۔  اس کے عہدِ حکومت میں حوضِ کانکریا تعمیر ہوا۔  اس نے قلعہ اور شاہی محلّات تعمیر کیے۔  اس نے باغِ فردوس کے نام سے ایک وسیع باغ بنوایا۔  مختلف قسم کے عجیب و غریب پیڑ اس میں لگوائے۔ صندل اور عود کے درخت اُگائے۔ وہ درختوں کی پرورش نہایت ہی ذوق و شوق سے کرتا تھا۔ بہت خوش قسمت بادشاہ تھا۔
سلطان قطب الدین (اصل نام جلال خان تھا)یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ وہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مرید تھا ۔  اس کے بارے میں لکھا ہے۔  ’’ مریدِ حضرت قطب العالمین بود۔  ’’ وہ قطب العالمین کا مرید تھا۔
اس کی تخت نشینی کا زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ سلطان محمود خلجی نے گجرات پر چڑھائی کی۔ سلطان قطب الدین نے حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مالوہ کا سلطان محمود خلجی اسّی ہزار کی فوج لے کر حملہ ور ہونا چاہتا ہے۔ میرے پاس نہ ہی اتنی بڑی فوج ہے اور نہ ہی سامانِ جنگ ہے۔ حضور دُعاء فرمائیں کہ میں دشمن کی فوج پر غالب آ جاؤں اور دشمن  ناکام ہو جائے۔
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے سبب جاننے کے لیے مراقبہ فرمایا۔ اور پھر سلطان سے فرمایا کہ یہ ساری مصیبت تمہارے والد سلطان محمد شاہ کی ایک غلطی کی وجہ سے آئی ہے۔ تمہارے والد نے حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کی دل آزاری کی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے مرید سلطان قطب الدین کی مدد فرمائی اور اپنے صاحبزادے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کے پاس روانہ کیا اور یہ کہلوایا کہ آپ درگذر سے کام لیں اور سلطان کو معاف فرمائیں ۔  باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لینا چاہئے۔ لیکن حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ راضی نہ ہوئے اور حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ میں نے گجرات کی سلطنت سلطان محمود خلجی کے نام کر دی ہے۔  حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے ساری کیفیت کہ سنائی۔  حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ خاموش رہے۔  حضرت پیر کمال رحمۃ اللہ علیہ کافی ضعیف تھے۔  تیسرے دن ہی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔
سلطان قطب الدین پھر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔  عرض کیا کہ دشمن بہت قریب آ گیا ہے۔  حضور اِجازت فرمائیں اور فتح و کامیابی کی دُعاِ  فرمائیں اور اپنے صاحبزادے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو میرے ساتھ کر دیں ۔  حضرت نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ایک تیر دیا جس کی نوک آپ نے توڑ دی تھی۔  اور ان کو سلطان قطب الدین کے لشکر کے ہمراہ کر دیا۔ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو تاکید فرمائی کہ یہ تیر دشمن پر پھینک دینا۔  بہت زوروں کی لڑائی ہو رہی تھی۔   حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تیر لشکر پر پھینکا تو وہ سلطان محمود خلجی کی آنکھ میں جا کر لگا۔ سلطان محمود خلجی کو شکست ہوئی۔ سلطان قطب الدین فتح و کامرانی کے ساتھ  شاداں و فرحاں واپس آیا۔ اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ اولیائے کرام کی مدد شامل حال ہونے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و کامیابی حاصل ہو تی ہے ۔
نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ  وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ
 ترجمہ : اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح۔
(پارہ :۲۸، سورۂ  الصف۔ آیت :۱۲-از :-کنزالایمان اعلیٰ حضرت)
حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں شاملِ حال تھیں ۔  قطب الدین احمد شاہ نے سلطان محمود خلجی کو شکست دینے کے بعد والیِ  میواڑ رانا کونبھا کو بھی ناگور کے میدان میں شکست دے کر اس کے حملے کو ناکام بنایا۔  رانا کونبھا بھاگ کر چتّوڑ گڑھ میں پناہ گزیں ہوا۔  سلطان قطب الدین احمد شاہ وہاں بھی بجلی کی طرح جا پہنچا اور آبو کا قلعہ فتح کر کے رانا سے پیش کش وصول کی۔ اور اس سے قرار نامہ لکھوایا کہ وہ آئندہ ناگور کی طرف رخ بھی نہیں کرے گا۔  اس بہادر بادشاہ نے آٹھ برس سے زیادہ عرصے تک گجرات پر نہایت مردانہ وار   شان دار حکومت کی۔  اور ۸۶۳   ھ میں اس نے وفات پائی۔
حضرت قطب عالم کے معاصر سلاطین کی حکومتیں نہایت کامیاب رہیں ۔  اُن کے حُسنِ اِنتظام نے رِعایا کا دِل موہ لیا۔  گجرات میں مذہبِ اِسلام کی پُر زور اِشاعت ہوئی۔  نہایت حسین و خوبصورت مسجدیں اور محلّات تعمیر ہوئے۔  زراعت کو بھی خوب ترقی ہوئی۔ دلفریب باغات لگائے گئے۔  خوشحالی کا دَور دَورہ تھا۔   شہر احمد آباد کا دُنیا کے ممتاز شہروں میں  شمار ہوتا تھا۔  یہ خوشحالی، یہ خوش نما دَور در اصل حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ور حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نیز دیگر بزرگانِ دین کی دُعاؤں کا نتیجہ تھا۔  شاہانِ گجرات نے اُن کی خد مات کے صلے میں یہ دعائیں حاصل کی تھیں ۔  تاریخی حالات پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اہلِ سلطنت،اہلِ  فقر  کے گدا گر تھے۔  اہل اللہ کی گداگری نے انہیں اہلِ سلطنت بنا دیا۔  سچ ہے۔
 فقیروں کی دُعاؤں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں



حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی جائے مدفن

 مِنْھَاخَلَقْنَاکُمْ وَفِیْھَانُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَانُخْرِجُکُمْ تَارَۃًاُخْریٰ۔
ترجمہ: ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اُسی میں لوٹائیں گے۔ اور اسی سے دوسری بار نکالیں گے۔ (پارہ۔ ۱۶۔ سورۂ  طٰہٰ۔ آیت۔ ۵۵)
آدمی کی تخلیق جس مٹی سے ہو ئی ہے، اُسی جگہ پر اس کا مد فن ہوتا ہے۔ مثل مشہور ہے۔ ملی خاک وہیں پر جہاں کی وہ بنی تھی۔ آدمی دُنیا کے کسی بھی خطے میں قیام پذیر ہو، لیکن جب وفات کا وقت آ جاتا ہے کسی نہ کسی بہانے سے اسی جگہ پر پہنچ ہی جاتا ہے جہاں کی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ اسی مٹی میں سپرد کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسی مٹی سے قیامت کے دِن اُٹھایا جائے گا۔ مثنوی شریف میں ہے کہ :
حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار گوہر بار پوری شان و شوکت کے ساتھ آراستہ تھا۔ انسان، جِن سبھی مجلس میں شریک تھے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام اسی مجلس میں ایک آدمی کا بار بار مشاہدہ فرما رہے تھے۔ وہ آدمی گھبراتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ حضور ہوا کو حکم فرمائیں کہ وہ مجھ کو اُڑا کر ملک ہندوستان چھوڑ دے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت فرمایا :بات کیا ہے ؟ اور تو وہاں کیوں جانا چاہتا ہے؟ وہ کہنے لگا ابھی ابھی میں نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہے وہ مجھے بار بار گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور مجھ کو اب بھی وہ دیکھ رہے ہیں اب میری خیر نہیں ۔  ضرور وہ میری روٗح قبض کرنے والے ہیں ۔ حضور آپ ہوا کو حکم فرمائیں تاکہ مجھ کو یہاں سے اُڑا کر ہندوستان چھوڑ دے اور میری جان بچ جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم فرمایا۔  فوراً ہوا نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُس کو ہندوستان میں چھوڑ دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد حضرت عزرائیل علیہ السلام حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ بیان کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ اس آدمی کی روح سر زمین ہندوستان میں قبض کروں لیکن میں ان کو یہاں دیکھ کر حیران تھا۔ اس نے خود ہندوستان جانے کی خواہش ظاہری کی اور ہوا نے اس کو ہندوستان چھوڑ دیا اور میں اس کے پیچھے پیچھے گیا۔  جس وقت وہ ہندوستان کی زمین پر اترا میں اس جگہ پر پہنچ چکا تھا اور اسی وقت میں نے وہیں پر اس کی روح قبض کر لی۔ ملی خاک وہیں پر جہاں کی وہ بنی تھی۔
 لائی  حیات  آئی  قضا  لے  چلی  چلے
 اپنی  خوشی  سے  آئے  نہ  اپنی  خوشی چلے
            برہان الملتہ والدین حضرت سید برہان الدین رحمۃ اﷲ علیہ کے آبا و اجداد سامرہ  بغداد، بخارا، اوچ شریف کے رہنے والے تھے۔ ان کی جسد خاکی ان مقامات پر سپرد خاک ہو گئے۔ لیکن حضرت سیدی قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے لیے سر زمین بٹوا بنی تھی۔ اوچ شریف سے طویل سفر کرتے ہوئے پٹن پھر ضلع اساول پھر وہاں سے وٹوا میں تشریف آوری ہوئی۔
           حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمۃ گجرات میں علم و عرفان، شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت کا چراغ روشن و منور فرماتے رہے۔ جب عالمِ فانی سے عالمِ جادِدانی سفر کا وقت قریب آ گیا اور اپنے جسد پاک کو کسی امانت دار زمین کی تلاش کا خیال آیا کہ یہ جسمِ پاک جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں لیل و نہار گزرے ہیں ۔  یہ مبارک سر و زبان جو خداوند قدوس کے ذکر و فکر میں مصروف رہے۔ یہ آنکھیں جو قرآن و حدیث، شریعت و طریقت پڑھنے میں رات و دن صرف کیے ہیں ۔  یہ مبارک دست و زبان جو غریبوں بے سہاروں کا سہارا بنے ہیں ۔  یہ قدم مبارک جو راہِ حق کی نصرت، دینِ متین کی خدمت کے لیے اٹھے ہیں ۔  قیامت کے دن یہی دونوں ہاتھ بات کریں گے اور پاؤں کیے ہوئے عمل کی گواہی دیں گے۔
   وَتُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَداُرْجُلُھُمْ
ترجمہ : اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے۔ اور ان کے پاؤں اُن کے کیے کی گوا ہی دیں گے۔
(پارہ ۲۳ سورۂ  یٰسٓ۔ آیت ۶۵)
یہ با برکت امانتیں کس کے حوالے کی جائیں ؟ وٹوا کی سر زمین اس کے لیے متحمل سمجھی گئی۔ اور وہیں یہ امانتیں سپرد کرنے کا ارادہ فرما لیا گیا۔ اس زمین کے مالک کسان سے خرید نے کی بات ہو ئی۔ کسان حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کی عظیم شخصیت و مرتبت کو دیکھ کر بلا قیمت زمین کو دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ لیکن غیرتِ سید نے یہ گوارہ نہیں فرمایا کہ ان عظیم امانتوں کی اِقامت گاہ ایک کسان کا قیامت تک اِحسان مند ہو کر رہے۔ اِسی لیے حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ نے بہت پہلے پوری قیمت ادا فرمانے کے بعد اُسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ آج وہی مبارک جگہ ہے جہاں حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے جسد پاک کی آرام گاہ،مزار مقدس ہے۔ اور ایصالِ ثواب و فاتحہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اور لوگ فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہیں گے۔
           انبیائے کرام علیہ الصلوات و التسلیمات کو یہ خصوصیت و امتیازی شان حاصل ہے کہ جس جگہ اِنتقال فرمائیں اُسی جگہ قیامت تک کے لیے اُن کی آخری آرام گاہ و روضہ ہوتا ہے۔ غیر نبی کسی ولی کے لیے جائز نہیں کہ جس جگہ پر وفات ہوئی اسی جگہ دفن کیا جائے۔ اور مزار بنایا جائے۔ حضرت سیدی قطبِ عالم علیہ الرحمہ نے انبیائے کرام کا ادب و احترام اور شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہوئے۔ اپنے ہی مکان میں آخری آرام گاہ بنانے کی وصیت نہیں فرمایا جس طرح تا قیامت شریعت کے عامل و پابند رہے۔ بعد وفات بھی شریعت کے پابند رہے۔ مُنَاقِبِ برہانی ص ۶۱ میں ہے کہ :
برسر زمین کر بالفعل روضہ منورہ در آنجا است کشت می  فر مود ند و مزارع قطعہ مذکورہ رامی فر مودند و تذکر حسب الشرع زمین از ان تست و پادشاہ صاحب خراج است تو ایں قطعہ رابدست من بفروش تا بخرم او ھر چند برای تعظیم ابامی کر دقبول نمی کر دند آخر بہ بیع شرعی خریدند در آنجا الحال روضۂ  منورہ و رعمارات آن روضہ باقی است بحکم آنکہ گفتہ اند، بیت۔
 اگر عالم سراسرباد گیرد
 چراغ مقبلاں ھرگز نمیرد
 انشاء اﷲ تعالیٰ۔ تا قیامِ قیامت  قائم خواہد ماند، چوں این معنی بسمع پادشاہ وقت رسید پروانہ
 چہاردہ دیہ درست کردہ مع آن قطعہ فرستاد قبول فرمودہ۔
ترجمہ :آج کل جس جگہ حضرت قطبِ عالم سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ کا روضۂ  منورہ ہے وہ کھیتی کی زمین تھی۔ حضرت قطبِ عالم سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ نے کسان سے فرمایا کہ حسبِ شریعت زمین تمہاری ہے اور بادشاہ خراج کا مالک ہے تو اس زمین کو ہمارے پاس فروخت کر دے۔ تاکہ میں اس کو خرید کر اپنے قبضہ میں لے لوں ۔  کسان نے حضرت قطبِ عالم سہروردی رحمتہ اﷲ علیہ کی تعظیم و تکریم اور عقیدت مندی کی وجہ سے قیمت لینے سے انکار کیا بلا قیمت دینے کی بار بار خواہش ظاہر کی،لیکن حضرت قطبِ عالم سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ نے قبول نہ فرمایا۔ اخیر بہ بیع شرعی خریدند آخر ش شرعی حکم کے مطابق قطعہ زمین کو خرید لیا۔ اسی جگہ پر روضہ اور اس کی عمارتیں قائم ہیں ۔
اگر   عالم   سراسر   باد   گیرد
چراغِ   مُقبلاں   حاضر   نمیرد
شعر کا ترجمہ: اگر دنیا میں چاروں طرف سے تیز ہوا چلے ؛ لیکن خدا کے مقبول  بندوں کا چراغ ہر گز نہ بجھے گا۔  اِن شاء اﷲ تا قِیام  قِیامت قائم رہے گا،  جب بادشاہ کو اس واقعہ کی خبر ہو ئی تو چودہ گاؤں اس قطعہ زمین کے ساتھ دستاویز کے ساتھ حضرت قطبِ عالم کی خدمت میں پیش کر دیے۔
           حضرت قطبِ عالم سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ سلطان احمد شاہ کی دعوت پر پٹن سے احمد آباد تشریف لائے۔ سلطان احمد شاہ نے آپ کی شان میں عظیم قصیدہ بزبان فارسی لکھا۔ اور آپ کی بارگاہ میں شاعروں کی طرح ادب و احترام کے ساتھ دستہ بستہ کھڑے ہو کر قصیدہ خوانی کی۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔
     قطبِ  زمانۂ    ما   برہان است   ما    را  
 برہان  او  ہمیشہ   چوں  نا مش  آشکارا
ترجمہ: ہمارے زمانے کے قطب حضرت سید برہان الدین علیہ الرحمۃ
ہمارے لیے ایک واضح برہان اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ان کا ہمیشہ برہان(دلیل)  ہونا ان کے نام ہی سے ہمیشہ ظاہر ہے۔
           حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ جب وٹوا شریف میں مقیم ہوئے۔ تو سلطان احمد شاہ نے اس موضع کی پوری آمدنی آپ کی ضروریات کے لیے مقرر کر دی۔  (تاریخ اولیائے  گجرات)۔ حضرت قطبِ  عالم علیہ الرحمہ کا احکام شرع کا پابند و عامل ہونا اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عقیدت مند بادشاہِ وقت با ادب کھڑے ہو کر قصیدہ خواں ہوا۔ وٹوا کا پورا علاقہ ملکیت میں پیش ہوا ہو ایسی حالت میں کسان سے زمین خرید نے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن آپ نے کسان کو زمین کی پوری قیمت ادا فرما کر زمین کو اپنے قبضے لیا۔ اپنے اختیارات کا استعمال نہیں فرمایا اور قیامت تک کے لیے اپنی آرام گاہ بنوا کر لوگوں کو اپنے فیض سے فیضیاب فرما رہے ہیں ۔
           حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کا سر زمین وٹوا کو اپنا مدفن و آخری آرام گاہ منتخب کرنے سے بہت پہلے یعنی آپ کی وِلادت سے قبل آپ کے دادا قطب الا قطاب حضرت سید جلال الدین مخدوٗم جہا نیاں جہاں گشت نے اس سر زمین کا اِنتخاب فرما کر وہاں نمازِ عشائ، فجرو اِشراق ادا فرمائی، اور آپ کو قطب الاقطاب اور مقامِ عبدیت پر فائز ہونے کی بشارت سے بھی نوازا تھا۔ مناقب برہانی ص ۷ میں منقول ہے کہ حضرت مخدوم الملت والدین سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت سید برہان الدین قطبِ عالم علیہ الرحمہ کی ولادت اور شہر احمد آباد کی بنیاد پڑنے سے بہت قبل سفر کرتے ہوئے گجرات سے گزرے اور قطب آباد وٹوا کے با برکت مقام پر تشریف فرما ہوئے۔ نماز عشاء ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر جہاں اس وقت حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے، مراقبہ فرما یا اور صبح نماز فجر و اشراق ادا کرنے کے بعد اس جگہ کی ایک مٹھی مٹی اُٹھا کر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے سونگھا اور اِرشاد فرمایا کہ (ازیں خاک پاک بوئے استخوانِ مامی آمد) یعنی اس خاک پاک سے مجھے میری ہڈّیوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ (بعدہ باصحابہ فرمودند کہ زیارت ایں خاک نمایند وتو سل بدرگاہ حضرت رب العزت کنید کہ دریں زمین تجلیات حضرت حق می یا بم وایں مکان قطب کہ کانِ اقطاب خواہد بود) یعنی حضر ت مخدوم جہانیاں جہان گشت علیہ الرحمہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اس زمینِ مبارک کی زیارت کر لو اور اس مقام کو بار گاہِ اِلٰہی میں وسیلہ بناؤ۔ کیونکہ اس خطۂ  زمین میں ،میں تجلیاتِ اِلٰہی پارہا ہوں ۔  یہ ایک قطب کا مدفن بننے والا ہے جو کہ اقطاب کی کان ہو گا۔
           حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے دادا حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  نے جس جگہ کا قبل ولادت مدفن و مزار کے لیے اِنتخاب فرمایا تھا۔ عرصۂ دراز کے بعد قطبِ عالم علیہ الرحمہ نے بالکل اُسی جگہ کو منتخب فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اولیائے کرام کی نگاہوں میں کس قدرو سعت عطا فر ما ئی ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ۔
لوحِ محفوظ   است  پیشِ   اولیاء
 یعنی:اولیاءِ کرام کے سامنے لوح محفوظ ہوتی ہے۔ اس میں جو لکھا ہوتا ہے سب دیکھ لیتے ہیں ۔
 نہ  پوچھ  اِن  خرقہ  پوشوں  کی،  اِرادت  ہو  تو  د یکھ  ان  کو
 یدِ  بیضا   لیے  بیٹھے  ہیں    اپنی    آستینوں  میں
(اقبالؔ)
جلال اعظم حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت علیہ الرحمہ کا قطبِ عالم کی چار سال چار مہینہ سات دن قبل ولادت کی بشارت اور جائے مدفن کی نشاندہی فرمانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ اس عظیم ترین خبر،تین صدی گزرنے سے پیشتر اپنی کشف و کرامت سے دے چکے ہیں ۔
گفتۂ   او  گفتۂ   اﷲ   بود
گرچہ  اَزحلقومِ  عبد اللہ بود
یعنی اولیاء اﷲ کا کہا ہوا اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہوتا ہے۔ اگر چہ یہ اﷲ کے بندے کے حلقوم سے نکلا ہوا ہوتا ہے۔
           ایک بار حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اپنے چند مریدوں کے ہمراہ سر ہند شریف (پنجاب)سے گزر رہے تھے۔ اچانک ایک جگہ ٹھہر گئے۔ اس وقت وہاں پر کوئی آبادی بھی نہیں تھی۔ اور مریدوں سے فرمایا تمہیں یہاں کی کوئی عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ عقیدت مندوں نے نفی میں جواب دیا۔ پھر دریافت فرمایا تم لوگ معطر ہواؤں کی خوشبو کو نہیں سونگھ رہے ہو۔ مرید اس بار بھی خاموش رہے۔ وہ مرشد برحق کی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے۔ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ افسوس تم بے خبر ہو۔ یہاں کی سر زمین مقدس ہے۔
یہاں کی ہوائیں جاں فزا ،پُر بہار ہیں ۔ ان میں خدا کے دوستوں کے لباسوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ آنے والے کے روشن چہرے کو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔  ان پر خدا کی رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ وہ بے شمار بندگانِ خدا کو ایک عظیم فتنہ سے نجات دلائیں گے، اس وقت کسی نے نہیں سمجھا کہ حضرت مخدوٗم رحمۃ اللہ علیہ کا اِشارہ کس طرف ہے۔ کئی صدیاں گزر گئیں ۔ آ خر تین صدی کے بعد سر ہند شریف میں شیخ احمد فاروقی مجدِّدِ الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے اور آپ نے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر، جس نے دین اِسلام کے خلاف ایک نیا دین، دینِ اِلٰہی بنایا تھا۔ ہندو مسلم سب پر پابندی لگا دی تھی کہ سب اسی دینِ اِلٰہی کی پیروی کریں ۔ حضرت مجدِّدِ الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس باطل دین اور عظیم فتنے کو بہ تائیدِ  اِلہٰی ہمیشہ کے لیے ختم فرما دیا اور لاکھوں مسلمانوں کو بے دینی و گمراہی سے بچا لیا۔ رب تعالیٰ ان کی قبر پر نور کی بارش برسائے۔ حضرت قطبِ عالم کے دادا حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی فرمائی ہوئی بات سچی ثابت ہوئی (حضراتُ القدس)
گفتۂ   او  گفتۂ   اﷲ   بود
گرچہ  اَزحلقومِ عبداللہ بود
           اس قسم کا ایک واقعہ مثنوی شریف میں مذکور ہے۔ کہ سلطان العارفین با یزید بسطامی علیہ الرحمۃ ایک دن خرقان نامی گاؤں سے گزر رہے تھے کہ اچانک سانس کو کھینچنے لگے۔ جیسے کسی خوشبودار چیز سونگھی جا رہی ہو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ کو اس گاؤں سے خدا کے ایک دوست کی خوشبو آ رہی ہے۔ کیونکہ اس گاؤں میں ایک ولی پیدا ہونے والا ہے۔ اور آپ نے اُن کا نام، پیدائش کی تاریخ، چہرے کا پورا حُلیہ بیان فرما دیا۔ چنانچہ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کی وفات کے اُنتالیس (۳۹) سال بعد حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔ جو بہت مشہور و معروف ولیِ کامل ہیں ۔  جیسا کی حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا بالکل ویسے ہی صادق پایا۔
خاصان  خدا،  خدا  نہ   باشد
 لیکن  زِ   خدا   جُدا   نہ  باشد
یعنی اﷲ کے خاص بندے یعنی اَولیاء خدا نہیں ہوتے،لیکن خدا کی خاص رحمت سے جدا بھی نہیں ہوتے۔ بعد وفات بھی قطب ہیں ۔
           مناقب برہانی ص (۶۳) منقول ہے کہ سراج الاولیاء حضرت سید سراج الدین شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اِرشاد فرمایا کہ پانچ ایسے اولیاء ہیں جن کی قطبیت بعد وفات بھی سلب نہیں ہوئی۔ وہ بعد وفات بھی منصب قطبیت پر فائز ہیں ۔ ان میں سے ایک میرے والدِ گرامی برہانُ الحق والدّین حضرت سید برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اﷲ علیہ ۔ دوسرے جلال اعظم سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہ ۔ تیسرے غوث الثقلین سلطانُ الاولیاء محی الحق والدّین حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ ۔  چوتھے معروف الحق والدّین حضرت معروٗف کرخی رحمۃ اﷲ علیہ ۔ پانچویں سلطان العارفین بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ ۔ اور حضرت قطبِ عالم کے وفات کے بعد بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں ۔

جائے مدفن میں نورانی شکل کا آدمی  :
حضرت قطبِ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کی جائے مدفن روضۂ  منورہ سے متعلق شیخ حسن مناقب برہانی ص نمبر ۶۳ میں نقل کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت سراج الدین شاہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ پنے والدِ گرامی حضرت سید برہانُ الدین قطبِ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے روضۂ  منورہ کی برکت حاصل کرنے کے لیے عصر مغرب کے درمیان حاضر ہوئے۔ حضرت شاہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ قطبِ عالم کی روحانیت کی طرف متوجہ تھے کہ اچانک نورانی شکل کا آدمی نمودار ہوا اور مزار پاک کا غلاف پکڑ کر کہنے لگا۔  ھٰذا قطب۔ یعنی یہ قطب ہیں ۔  حضرت شاہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے عربی زبان میں پوچھا،’’ اَلْیَوْمَ قُطُب؟ یعنی کیا یہ آج بھی درجۂ  قطبیت پر فائز ہیں ؟ نورانی شکل والے آدمی نے جواب میں کہا ’’ نعم! الیوم قطبَ‘‘ ’’۔ یعنی ’’ہاں !آج بھی یہ درجۂ  قطبیت پر فائز ہیں ۔  ‘‘پھر حضرت شاہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے فارسی زبان میں پوچھا،’’اِمرو ز قطب ؟یعنی کیا یہ آج بھی قطب ہیں ؟ گفت،’’ اِمروز قطب۔ ‘‘یعنی اس آدمی نے کہا ’’ہاں !یہ آج بھی قطب ہیں ۔ ‘‘ پھر حضرت شاہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے اردو زبان میں سوال کیا، ’’یہ آج بھی قطب ہیں ؟جواب دیا،’’ ہاں ! یہ آج بھی قطب ہیں ۔ ‘‘ تینوں زبانوں میں حضرت قطبِ عالم کو قطب کہ کر یاد کیا اور پھر غائب ہو گیا واﷲ اعلم۔ حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمۃ ان چار بزرگوں کی طرح درجۂ  ٍٍٍٍٍٍٍٍ قطبیت پر فائز ہیں ۔  اﷲ تعالیٰ آپ کے فیوض سے ہم سب کو مستفیض فرمائے۔ ۔ آمین۔

حضرت قطبِ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کا  سفرِ آخرت
           مومن بندہ کی عبادت و اِطاعت بندگی و فرمانبرداری ایسی نعمت ہے جس کی جزاءِ عظیم اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں مقرر کر رکھی ہے جس کی کوئی حدو اِنتہاء نہیں ہے۔ فرمانِ اِلٰہی  ہے:
’’ وَاِنْ تَعُد ُّوْا نِعْمَتَ اﷲ لَا تُحْصُوْہَا۔ ‘‘
ترجمہ : اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو  تو شمار نہ کر سکو گے۔
(پارہ۔ ۱۳۔  سورۂ  ابراھیم۔  آیت ۳۴۔ )
جن نعمتوں کی گنتی نہیں ہو سکتی ان کا  حصارا ور حد بندی بھی ممکن نہیں ۔  لیکن انسان کی زندگی محدود و متعین ہے۔ آج تک دنیا میں ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جو آج تک زندہ رہا ہو۔ بلکہ انسان عالمِ وجود میں آنے کے بعد کچھ محدود عرصہ تک زندہ رہتا ہے۔ نیکی یا بدی کر نے کے بعد عالمِ آخرت کا سفر کرتا ہے۔ اور اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا محکم و اٹل فیصلہ ہے:
 کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ۔
 ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
(پارہ۔ ۱۷۔ سورۂ  انبیاء۔ آیت ۳۴ ۳۵۔ )
    وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ  اَفَاْ ئِنْ مِّتَّ فَھُمْ خَالِدُوْنَ۔
(ترجمہ : اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے دُنیا میں ہمیشگی نہ بنائی)
معلوم ہوا ہر اِنسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔  دُنیا میں کسی کے لیے ہمیشگی نہیں ہے۔ آخرت کا سفر ہر اِنسان کے لیے لازِم ہے۔ انسانوں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ انبیاء و  مرسلین کرام کی جماعت کا ہے۔ اور اُن میں سب سے افضل ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد  ﷺ کی ذات با برکت ہے۔ وہی کائنات کے وجود کا اصلی سبب ہیں ۔  انہیں کی وجہ سے یہ دُنیا بنائی گئی۔ حدیثِ قدسی ہے : ’’لولاک لماخلقت الا فلاک۔ ‘‘
یعنی اگر آپ  ﷺ کو پیدا فرمانا منظور نہ ہوتا تو یہ کائنات کو پیدا نہیں فرماتا۔
وہ   جو   نہ   تھے   تو  کچھ  نہ  تھا
 وہ   جو  نہ  ہو ں  تو  کچھ  نہ   ہو
 جان   ہیں     وہ     جہان     کی
جان  ہے   جان  ہے  تو  جہان ہے
  لیکن ان سب فضل و کمال جو دونوال کے با وجود تمام انبیاء مرسلین عظام نے اس جہان فانی سے عالمِ آخرت کا سفر فرمایا ہے۔
ایک لمحے  کے لیے  آئی تھی  انھیں بھی  موت
پھر  ہمیشہ  کے  لیے  ان  کی  موت  مر گئی       (اجمل)
انبیائے کرام کے بعد اولیاء، شہداء، صالحین کرام کی مقدس جماعت ہیں ۔  ان حضرات نے بھی آخرت کا سفر بخوشی فرمایا ہے۔ عام انسان موت سے گھبراتا ہے، ڈرتا ہے اس دنیا سے جدا نہیں ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اﷲ کے نیک بندے موت سے خوش ہوتے ہیں ۔  یہی ان کی ولایت اور مومنِ کامل کی نشانی ہے۔
    نشانِ   مردِ   مومن    با  تو   گویم  
 چوں  مرگ آید  تبسم  برلبِ  اوست
یعنی مردِ مومن کی نشانی یہ ہے۔  جب موت آتی ہے تو ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔
آج یہ پھولے  نہ سمائیں گے  کفن میں عاصی
شب گور ہے  اس گل  کی  ملاقات کی  رات
آسی  شہیدِ  عشق  ہوں  مردہ  نہ  جانیو
مر کر  ملی  ہے  زندگیِ   جاوِداں  مجھے
ان اولیائے کاملین میں قدوۃ السالکین قطب الاقطاب برہانُ الحق والدین حضرت برہانُ الدین علیہ الرحمہ کی ذات اقدس ہے۔ جو پوری زندگی اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، عبادت و بندگی، رسولِ کریم  ﷺ کی سنت کی اطاعت و پیروی، سنت مطہرہ کی پابندی کرتے رہے۔ بادشاہ،حاکم اور لوگوں کو اپنے علم اور کامل حلم سے رشد و ہدایت فرماتے رہے اپنے حقیقی چچا راجو قتال کے حکم پر دین و اِسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے وطن عزیز اوچ شریف سے ہجرت کرتے ہوئے پٹن، اساول پھر قطب آباد وٹوا گجرات تشریف فرما ہوئے تا حیات دین و اِسلام کی روشن تعلیمات سے لوگوں کو آشنا کرتے اور سلسلہء سہروردیہ کو لوگوں میں پھیلا تے رہے۔ خاص طور سے اپنی اولاد کو شریعت و طریقت کے علوم سے واقف فرماتے رہے۔ جو اپنے وقت کے اولیاء کاملین ہوئے۔ لیکن جب یہ سرائے فانی سے عالم جاوِدانی کے سفر کا وقت قریب آ گیا تو نہ گھبرائے،نہ ڈرے، نہ دُنیا، نہ اہلِ دنیا سے جدائی کا غم کیا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
 اَلَا اِنَّ  اَوْلِیَآءَ  اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ   َولَا ھُمْ  یَحْزَنُوْنَ۔
ترجمہ:سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ غم۔
(پارہ۔ ۱۱۔ سورۂ  یونس۔ آیت۲۵)
بلکہ دیدارِ نبی  ﷺ کی مسرت و فرحت میں اپنی جانِ عزیز کو نثار کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے۔
جان  دی   دی  ہوئی  اسی  کی  تھی
 حق  تو  یہ  ہے  کہ  حق  ادا  نہ  ہوا

وِصال شریف
           برہانُ الحق والدین حضرت سید برہانُ الدین قطبِ عالم علیہ الرحمہ کی عمر شریف  کے(۶۸) اڑ سٹھ سال چار مہینہ چوبیس دن پورے ہوئے۔ یعنی آٹھ ذالحجہ  ۸۵۸ ھ کا مبارک دن طلوع ہوا جب کہ ساری دنیا کے صاحبِ استطاعت مسلمان اﷲ تعالیٰ کے پاک گھر مکہ مکرمہ سے سفید چادر اور لنگی با ندھے ہوئے میدانِ منٰی میں جمع ہو کر۔ اللھم لبیک اللھم لبیک۔ یعنی یا اﷲ میں حاضر ہوں کی پر خلوص صدائیں بلند کر رہے تھے، حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ بٹوا میں یہی صدا لگاتے ہوئے  بارگاہِ اِلٰہی میں حاضری کی تیاری کر رہے تھے۔ مناقب برہانی صفحہ: ۶۲ میں ہے، حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ دو  روز سے بخار میں مبتلا تھے لیکن اس حالت میں بھی فرض،واجب،نفل اوراد و وظائف کو اپنے معمول کے مطابق ادا کرتے رہے۔ روزِ  سوم آن  تپ نمازِ  صبح  با جماعت  ادا کر  دند  حجرہ   در  آمدند۔ یعنی تیسرے دن اس بخار کی حالت میں فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر نے کے بعد اپنے حجرہ شریف میں تشریف لے گئے جہاں اولاد اور خلفاء حضرات موجود تھے۔ حضرت نے سب کو ایک نظر مشاہدہ فرمایا اور خوشی کے ساتھ شیخ مبارک کو اپنے طرف مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اب ہم ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں ۔  اور ’’  یَا حَیُّ  یَا قَیُّوْم  یَا کَرِیْم  ’’پڑھتے ہوئے جوار رحمت میں داخل ہو گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔  اﷲ تبارک و تعالیٰ حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے مزار پر نور کی بارش عطاء فرمائے اور حضرت قطبِ عالم علیہ الرحمہ کے تمام زائرین کی دِلی و جائز مرادیں پوری فرمائے۔  آمین!  بجاہ سید المرسلین!  ﷺ ۔




حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا   عرس  اور  خانقاہ کے معمولات


برہان المِلّت والدّین حضرت سید برہان الدین قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں کو اِسلامی سال کے آخری مہینے ذی الحجہ کا بڑی شدّت سے اِنتظار رہتا ہے۔ چاند نظر آتے ہی ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کا پروگرام بڑے تزک و احتشام کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔  حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی اَولاد، سجادہ نشین اور دیگر عقیدت مندوں کے دلوں میں ایک نیا جوش و جذبہ نظر آنے لگتا ہے۔
بلند و بالا فلک بوس گنبد، خوبصورت، دیدہ زیب عظیم ترین درگاہ، نقش و نگار سے مزیّن تاریخی شاہی جامع مسجد کو بہترین رنگ و روغن، رنگ برنگ پرچم و جھنڈیوں اور روشنی کے مختلف قسم کے قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔  ہر طرف خیر خواہی اور عقیدت مندی کا ماحول اور ذوق و جذبہ رواں دکھائی دیتا ہے دُعاء و دُروٗد اور قرآن خوانی کی کثرت ہوتی ہے۔  عاشقانِ قطب عالم عقیدت و محبت سے سرشار ہو کر نیاز مندی کے پھول پیش کرتے ہیں ۔  اور عرس کے تمام پروگرام میں شریک ہو کر اپنے اپنے دامنوں کو گوہرِ مراد و مقصود سے بھر لیتے ہیں ۔   حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر حاضر ہو کر بڑا کیف و سروٗر اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔  اور حاضر ہونے والوں کے دلوں میں اِسلامی جوش و جذبہ بیدار ہوا کرتا ہے۔ اَولیائے کرام بفضلہٖ تعالیٰ وفات کے بعد بھی اپنے فیوض و برکات سے مالامال فرماتے رہتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے بزرگانِ دین سے سچی عقیدت و محبت عطا فرمائے۔

 برہان المِلّت وا لدّین حضرت قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سالانہ عرس کا پروگرام
  ۱ ذی ا لحجہ:چاند نظر آتے ہی مغرب کی نماز کے بعد سجادہ نشین عزت مآب عالی جناب حضرت سید شمیم حیدرقبلہ بخاری مد ظلہ العالی کی موجودگی اور عقیدت مندوں کی حاضری میں قرآن خوانی،شجرہ خوانی، اور ایصال ثواب کی مجلس،منعقد ہوتی ہے۔  اور فاتحہ خوانی کے بعد شیرینی (مٹھائی) تقسیم ہوتی ہے۔
   ۵ ذی الحجہ  : عشا کی نماز کے بعد قرآن خوانی اور نعت خوانی کی محفل منعقد ہوتی ہے۔  سجادہ نشین عزت مآب عالی جناب حضرت سید شمیم حیدر قبلہ بخاری مدظلہ العالی بڑے ادب و احترام کے ساتھ صندل شریف لے کر حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک میں حاضر ہو کر صندل شریف پیش کرتے ہیں ۔
    ۶ ذی الحجہ  :  عشاء کی نماز کے بعد قرآن خوانی ہوتی ہے۔  ایصال ثواب کے بعد سجادہ نشین عزت مآب عالی جناب حضرت سید شمیم حیدر قبلہ بخاری  مد ظلہ العالی کے دست مبارک سے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ صندل شریف پیش کیا جاتا ہے۔  عوام میں صندل شریف کی یہ رسم  (چھوٹا صندل)  کے نام سے جانی جاتی ہے۔
  ۷ ذی الحجہ  : عرس پاک کا آغاز ہوتا ہے۔  حضرت شاہ عالم  رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین عالی مرتبت جناب سید موسیٰ میاں امام بخش صاحب قبلہ چادرِ مبارک لے کر پہلے علامہ مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر وہاں سے چادر شریف سر پر رکھ کر با ادب پیدل چل کر حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پاک میں حاضر ہو کر چادر پیش کرتے ہیں ۔  اور ساتھ ہی ساتھ سجادہ نشین قطبِ عالم بھی چادر پیش کرتے ہیں ۔  اس کے بعد حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ ور حضرت شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ دونوں بزرگوں کے سجادہ نشینوں کی حاضری میں محفل سماع کا پروگرام ہوتا ہے۔
 ۸ ذی الحجہ  :
(۱)   صبح صادق کے وقت سجادہ نشین کی حاضری میں شجرہ خوانی ہوتی ہے اور فاتحہ خوانی کے بعد شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔  (۲)  عصر کی نماز کے بعد حضرت قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے وقت سے پتھر سے بنی تاریخی ٹنکی  (جسے گجرات کے لوگ کوٗنڈی کہتے ہیں)اس میں شربت بنا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ (۳)اسی روز رات میں بعد نمازِ عشاء رفاعی  سلسلے کی مشہور زمانہ رفاعی (دھمال)کا پروگرام ہوتا ہے جس میں حضرت سجادہ نشین قبلہ شرکت فرمایا کرتے ہیں .
۹ ذی الحجہ   :  ظہر کی نماز کے بعد دو رکعت نفل نماز ادا کی جاتی ہے۔  جس کی پہلی رکعت میں  سورۂ  ا نبیاء اور دوسری  رکعت میں  سورۂ  حج  پڑھی جاتی ہے۔  اس کے بعد ایک سلام سے چار رکعت نماز نفل پڑھی جاتی ہے جس میں سورۂ   فاتحہ کے بعد پچاس بار سورۂ  اخلاص(قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدْ)  پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بعد نہایت ہی عاجزی و انکساری  کے ساتھ مسلمانانِ عالم ملک و ملت کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔   ٭یہ نماز عوام میں حج کی نماز کے نام سے مشہور ہے ٭
۱۰ ذی الحجہ  :  بعد نماز مغرب حضرت سجادہ نشین کی حاضری میں حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کا شجرہ شریف پڑھاجاتا ہے اور بعد میں حضرت مخدوٗم جہا نیانِ جہاں گشت کی جنتی کشکول (پرات)میں ملیدہ بھر کر اسے حضرت سیدنا برہان الدین قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب سجادہ کے ہاتھوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
شجراتِ   طیِّبات  شجرۂ   عالیہ  حسینیہ  بخاریہ
   ۱۔   اِلٰہی بحرمت حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی  ﷺ
۲۔   اِلٰہی بحرمت حضر ت جبرائیل ناصر انبیاِ  اللہ
۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت میکائیل معین اہل طاعۃُ اللہ
۴۔  اِلٰہی بحر مت حضرت اسرافیل المنتظر لِامراللہ
۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت عزرائیل القوی عَلیٰ حکم اللہ
۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت امیر المومنین ابو بکر رضی اللہ عنہ
۷۔   اِلٰہی بحر مت حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ
۸۔   اِلٰہی بحر مت حضرت امیر المومنین عثمان ذِی النّورَین رضی اللہ عنہ
۹۔   اِلٰہی بحر مت حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
۱۰۔   اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید الحسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ
۱۱۔   اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید الحسین   رضی اللہ عنہ
۱۲  اِلٰہی بحر مت حضرت  الامام السید زین العابدین رضی اللہ عنہ
۱۳۔ اِلٰہی بحر مت حضرت امام السید محمد باقر  رضی اللہ عنہ
۱۴۔ اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید جعفر الصادق رضی اللہ عنہ
۱۵۔ اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید موسی الکاظم رضی اللہ عنہ
۱۶۔ اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید علی الرضا  رضی اللہ عنہ
۱۷۔ اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید محمد التقی رضی اللہ عنہ
۱۸۔ اِلٰہی بحر مت حضرت الامام السید محمد النقی رضی اللہ عنہ
۱۹۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدجعفر التواب الزکی رضی اللہ عنہ
۲۰۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدعلی الاشقر رضی اللہ عنہ
۲۱۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدابو احمد شہاب الدین غوری عبد اللہ رضی اللہ عنہ
 ۲۲۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدناصر الدین احمد رضی اللہ عنہ
۲۳۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدمحمود الغوّاص البخاری رضی اللہ عنہ
۲۴۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدمحمدالبخاری رضی اللہ عنہ
۲۵۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدجعفر الثالث رضی اللہ عنہ
۲۶۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدانیس الدین ابوالمویِد رضی اللہ عنہ
۲۷۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدجلال الدین حسین سرخ بخاری جلال اعظم رضی اللہ عنہ
۲۸۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیداحمد الکبیر رضی اللہ عنہ
۲۹۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدجلال الدین حسین مخدوٗم جہانیانِ جہاں گشت رضی اللہ عنہ
۳۰۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدناصر الدین محمود نوشہ البخاری رضی اللہ عنہ
۳۱۔ اِلٰہی بحر مت حضرت السیدبر ہان الدین قطب العالم البخاری رضی اللہ عنہ

شجرۂ  عالیہ قادریہ

۱۔  اِلٰہی بحرمت رحمت عالم حضرت احمد مجتبیٰ محمدمصطفے  ﷺ
۲۔  اِلٰہی بحرمت حضور سید الاولیاء اسد اللہ مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ
۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ
۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ حبیب عجمی رضی اللہ عنہ
۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ داوٗد طائی رضی اللہ عنہ
۶۔   اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ معروف کرخی رضی اللہ عنہ
۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سرّی السقطی رضی اللہ عنہ
۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ السید الطائفہ ابوالقاسم جنید البغدادی رضی اللہ عنہ
۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ عنہ
۱۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ عبدالواحد یمنی رضی اللہ عنہ
۱۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ ابوالحسن علی ہنکاری رضی اللہ عنہ
۱۲۔  اِلٰہی بحرمت حضر ت خواجہ شیخ ابو سعید مبارک علی بن حسین مخزومی رضی اللہ عنہ
۱۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ ابو محمد محی الدین سید عبد القادر غوث الاعظم جیلانی  رضی اللہ عنہ
۱۴۔ اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ علی  حدّ اد رضی اللہ عنہ
۱۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ افلح رضی اللہ عنہ
۱۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ قطب الیمین الی الغیب ابن جمیل رضی اللہ عنہ
۱۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ فاضل بن عیسیٰ رضی اللہ عنہ
۱۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ محمد عبید غوثی رضی اللہ عنہ
۱۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ جلال الدین حسین المشہور مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رضی اللہ عنہ
۲۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ صدر الدین راجو قتال رضی اللہ عنہ
۲۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت شیخ برہان الدین قطب عالم بخاری رضی اللہ عنہ

شجرۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ
۱۔  اِلٰہی بحرمت رحمت عالم حضرت سرورِ کائنات حضور احمد مجتبیٰ محمدمصطفے  ﷺ
۲۔  اِلٰہی بحرمت حضور سید الاولیاء  اسد اللہ مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ
۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناحسن بصری رضی اللہ عنہ
۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید رضی اللہ عنہ
۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ
۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سلطان ابراہیم ابن ادہم بلخی رضی اللہ عنہ
۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا معروف کرخی رضی اللہ عنہ
۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناسری سقطی رضی اللہ عنہ
۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابوالقاسم جنید بغدادی رضی اللہ عنہ
۱۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناممشاد علی دینوری رضی اللہ عنہ
۱۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناشیخ ابو عبد اللہ رضی اللہ عنہ
۱۲۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناشیخ وجہ الدین رضی اللہ عنہ
۱۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناضیاِ  الدین عبد القاہر ابو النجیب سہروردی رضی اللہ عنہ
۱۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناشیخ الشیوخ شہاب الدین محمد عمر سہروردی رضی اللہ عنہ
۱۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناشیخ بہاء اُلدین زکریا ملتانی سہروردی رضی اللہ عنہ
۱۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناجلال اُلدین حسین حیدر میر سرخ بخاری رضی اللہ عنہ
۱۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناسلطان احمد الکبیری بخاری سہروردی رضی اللہ عنہ
۱۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدناجلال الدین حسین مخدوٗم جہانیانِ جہاں گشت بخاری رضی اللہ عنہ
۱۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ناصراُلدین محمود نوشہ بخاری رضی اللہ عنہ
۲۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا بُرہانُ الدین عبداللہ قطب عالم بخاری رضی اللہ عنہ

شجرۂ  عالیہ احمدیہ مغربیہ
۱۔  اِلٰہی بحرمت سرور عالم نورِ مجسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۲۔  اِلٰہی بحرمت مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
۳۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا اِمام حسن بصری رضی اللہ عنہ
۴۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا حبیب عجمی رضی اللہ عنہ
۵۔  اِلٰہی بحرمت  سیدنا داوٗد طائی رضی اللہ عنہ
۶۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا معروٗف کرخی ضی اللہ عنہ
۷۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا ابو الحسن سرّی سقطی رضی اللہ عنہ
۸۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا ابوالقاسم جنید بغدادی رضی اللہ عنہ
۹۔  اِلٰہی بحرمت سیدنا ابی علی رود باری رضی اللہ عنہ
۱۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سعیداُلدین حذیفہ رضی اللہ عنہ
۱۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ امینُ الدین ہبیرۃ البصری رضی اللہ عنہ
۱۲۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ ابواِسحٰق شامی چشتی رضی اللہ عنہ
۱۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ ابواحمد چشتی رضی اللہ عنہ
۱۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ ابومحمد ابدال چشتی رضی اللہ عنہ
۱۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ ابو ناصرالدین ابو یوسف چشتی رضی اللہ عنہ
۱۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ قطب الدین مودوٗد  چشتی رضی اللہ عنہ
۱۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ حاجی شریف زِندانی رضی اللہ عنہ
۱۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سلطان الہند معین الدین حسن غریب نواز چشتی رضی اللہ عنہ
۱۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سید قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ
۲۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ شیخ الاِسلام بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ
۲۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سید نظام الدین اَولیاء محبوب اِلٰہی رضی اللہ عنہ
۲۲۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ مخدوٗم نصیر اُلدین روشن چراغ دہلوی چشتی رضی اللہ عنہ
۲۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سید جلال اُلدین حسین مخدوم جہانیانِ جہاں گشت رضی اللہ عنہ
۲۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سید ناصر الدین محمود نوشہ بخاری رضی اللہ عنہ
۲۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت خواجہ سید برہان اُلدین قطب عالم بخاری رضی اللہ عنہ

شجرۂ  عالیہ سہروردیہ

۱۔  اِلٰہی بحرمت رحمت عالم حضرت سرور کائنات حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفے  ﷺ
۲۔  اِلٰہی بحرمت حضور سید الاولیاء اسد اللہ مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ
۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ
۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا حبیب عجمی رضی اللہ عنہ
۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا داوٗد طائی رضی اللہ عنہ
۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابی عثمان مغربی طرابلسی رضی اللہ عنہ
۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابو القاسم گُرگانی رضی اللہ عنہ
۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابوبکر نسّا ج رضی اللہ عنہ
۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا اِمام اَحمد غزالی رضی اللہ عنہ
۱۰۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابوالفضل بغدادی رضی اللہ عنہ
۱۱۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا ابوالبرکات سمانی رضی اللہ عنہ
۱۲۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا علی مسعوداُندُلُسی رضی اللہ عنہ
۱۳۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا شیخ ابی مدائن شعیب رضی اللہ عنہ
۱۴۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا شیخ ابی محمد مغربی رضی اللہ عنہ
۱۵۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا شیخ ابوالعباس قریشی رضی اللہ عنہ
۱۶۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا محمد کیمی مغربی رضی اللہ عنہ
۱۷۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا شیخ بابا اِسحٰق کھٹو ی مغربی سہروردی رضی اللہ عنہ
۱۸۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سیدنا شیخ الاِسلام سراج الصدیقین مخدوم  شاہ احمد گنج بخش رضی اللہ عنہ  مغربی  سرخیزی
۱۹۔  اِلٰہی بحرمت حضرت سید برہان الدین عبد اللہ قطب عالم بخاری رضی اللہ عنہ




ایک مناجات جس سے حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا اِظہار ہوتا ہے


ایک بزرگ نے آپ کے مریدوں کا تذکرہ مناجات کی صورت میں کچھ اس طرح کیا ہے۔  جس سے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور ان کے مریدوں کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے  ۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے پندرہ ہزار مریدوں کے طفیل میں جو دانِش مند اور اہلِ فتویٰ ہیں ۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن بارہ ہزار سات سو پچپن مریدوں کے طفیل میں جو خلفاء ہیں ۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن دو ہزار پینتیس مریدوں کے طفیل میں جو غوث ہیں ۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور  اُن کے اُن ایک ہزار نو سو مریدوں کے طفیل میں جو اَبدال ہیں ۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن پندرہ ہزار دو سو پانچ مریدوں کے طفیل میں جو اَوتاد ہیں ۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن سات ہزار سات سو مریدوں کے طفیل میں جن کا مصلّیٰ ہوا میں ہے۔ اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن ایک لاکھ بارہ ہزار چھ سو ساٹھ مریدوں کے طفیل میں جو صوفی، ہیں اور اہل سنت والجماعت کے پابند ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی بندگی کے صدقے میں اور اُن کے اُن دس ہزار مریدوں کے طفیل میں جو وجدو احوال والے ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن دو ہزار پینتیس مریدوں کے طفیل میں جو اِسلام کے بھیدوں سے واقف ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن ایک ہزار سات سو اکتالیس مریدوں کے طفیل میں جن کے دل حق کے ساتھ مشغول ہیں اگر چہ زبانیں خلق کے ساتھ مصروف ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کا صدقہ اور ان کے ان نو سو ننانوے مریدوں کے طفیل میں جنہیں موجودات عالم میں سے کسی موجود کا ہوش نہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن دو سو پینتالیس مریدوں کے طفیل کہ اگر وہ کوئی بات کہیں تو دُنیا و الے انہیں پاگل کہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن بیس مریدوں کے طفیل میں جو اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور ان کے ان دو مریدوں کے طفیل میں جن کے چہرے کے سامنے آفتاب نہیں چمک سکتا۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور ان کے اس ایک مرید کے طفیل میں کہ جو پیدا کیا گیا ہے سب اس کی نظر میں موجود ہے۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن دو مریدوں کا صدقہ جو مخلوق سے بالکل اِلتفات نہیں برتتے۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن پانچ سو پچیس مریدوں کے طفیل میں جو عام بندوں میں خلط ملط ہیں ۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور  اُن کے اُن دو مریدوں کے طفیل میں جو قطب ہیں اور جب تک صور نہ پھونکا جائے وہ نہ اُٹھیں گے۔  اِلٰہی حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا صدقہ اور اُن کے اُن ایک لاکھ اٹھاسی ہزار سات سو پانچ مذکورہ بالا مریدوں کے طفیل میں اِس عاجز کو تمام دینی اور دُنیوی پریشانیوں سے نجات دے اور ہمیں بہتر بنا دے۔ (آمین)  ۔



مآخذ  و  مصادِر
(وہ قلمی  اور مطبوعہ کتابیں جن سے اس کتاب کی تیاری میں مدد لی گئی ہے)

-اَجدادِ شاہ عالم۔
-اخبار الاخیار۔
-اِسلام کی بنیادیں
-الدّرس الحاوی ترجمہ عقیدۃالطحاوی۔
- الدّرس المنظومہ۔
-  اعلم السنّہ المنصورہ۔
-اَلانتِباہ فی سلاسِلِ اولیاء
-اَلعقیدۃ الحسنہ المعروف بہ عقائدِ اِسلام۔
-  الفرق بینُ الفرق۔  
-المُنجد عربی - اُردو۔
-اَمداواد نا اَولیا(بزبانِ گجراتی)
- اَنسابِ ساداتِ(قلمی)۔
-  اَنفاس اُلعارفین۔
-  اَنوار الاصفیاء
-  اَنوارِ کاظمیہ
-اَولیائے اُچ شریف۔
 -  اَشرف جہانگیر۔
-  اِعتقادِ اہلُ السنّہ امام ال لال قائی۔
-  اَولیائے اُچ شریف۔
-  بخاری شریف
-  بزمِ بزرگانِ بھروچ
-  تاریخِ صوفیائے گجرات
-  تذکرہ اَولیائے پاکستان
-  تذکرہ حضرت جہانیاں جہاں گشت۔
-  تذکرۂ  سادات تاریخِ اَولیائے گجرات۔
-  تہذیب شرحُ الطّحاوی
-  ثمراۃُ القدس
-  جامع الطُرُق (قلمی)۔
-  چار گلشن۔
-  حدائقِ بخشش
-  حضراتُ القدس
-  حیاتِ شاہ عالم
-  خزینۃُ الاصفیائ۔
 -  رازوں کے راز  ترجمہ سرُّ الاسرار
۔  ریحانۃُ الابرار فارسی
- سِرّاُ  لاسرار
-  سفینۃُ السّادات
- سلوکِ صوفیاء
- سِیَرُ الاولیاء
-شرحِ کشف المحجوب
-  شریعت  و  طریقت
- صد  حکایات فارسی
-  فرہنگِ عامرہ
-  فیروز الغات
-کنز الایمان (ترجمۂ قرآن) اعلیٰ حضرت
- کائنا تِ تصوّف،ضیاِ  شاہبازی۔
-کتابُ العلماء
 -گجرات نا روٗحانی چراغ (بزبانِ گجراتی)
-  لطائفِ اشرفی
-  مرآۃِ احمدی
-  مرآۃِ سکندری
-مرآۃُ الاسرار
-معاصر صدیقی  
-مکتوباتِ اشرفی
-مکتوباتِ صدی
-مناقبِ برہانی
-  منّزہُ السّادات
۔  یادِ ایّام
٭٭٭
تشکر: عبد الرازق خلیل الرحمٰن جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

i ماوراء النہر سے مراد دریائے ( جیحون) آمو کے اس پار کا علاقہ جو قزاقستان، اور کرگستان،کی اِن چار ریاستوں پر مشتمل ہے۔ صُغد، فرغانہ، ختن اور شاش۔ جن کے یہ چار شہر بھی مشہور ہیں : سمرقند، بخارا، تاشقند اور تُرمُذ۔          (بحوالہ : معجم البلدان۔ جلد5:،صفحہ30:)
---------------

------------------------------------------------------------

---------------

------------------------------------------------------------

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔