ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پکھی واس‎ )جھگی والے(

0 comments
پکھی واس‎ )جھگی والے( تحریر۔:‎ ‎مدثرحسین‎ ‎بقلم خود اگر صبر و قناعت اور انسانیت کا درس سیکھنا ہے تو ان پکھی واسوں سے سیکھو جو الله کی زمین پر جہاں مرضی جا کر خیمے گھاڑ کر رہنے لگتے ہیں نہ تو انہوں نے کبھی اونچے اونچے اور عالیشان بنگلوں کی خواہش کی اور نہ کبھی بنک بیلنس اور گاڑیوں کی‎۔‏ نہ‎ ‎تو انہوں نے کھبی راشن کا ذخیره کیا اور نہ ہی دھن دولت کی ہوس۔ پرندوں کی طرح یہ لوگ‎ ‎علی الصبح گھروں سے نکلتے ہیں اور جہاں بھی ان کو رزق ملے چپ چاپ لوگوں کی جھڑکیں‎ ‎سہنے کے باوجود‎ ‎روکھی سوکھی کھا کر اپنے رب کا‎ ‎شکر ادا کرتے ہیں اور شام کو گھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ لوگ جیسے بھی ہیں مگر ہر لحاظ سے ھم جیسے مہذب اور تعلیم یافتہ منافقوں سے بہتر ہیں الله کی ایک صفت رب ہے جس کا مطلب ہے پالنے والا ان لوگوں نے الله تعالی کی اس صفت ربوبیت‎ ‎کو اس طرح اپنے اوپر اس طرح فٹ کر رکھا ہے کہ نہ تو ان‎ ‎کو کسی لائٹ و بجلی کی ضرورت ہوئی اور نہ ہی ان لوگوں نے کبھی اپنی حالت زار کے شکوه رب کے علاوه کسی اور کے آگے کیا۔‎ ‎نہ تو ان کو گرمی لگتی ہے اور ہی سردی کیونکہ ان کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ پالنے والا صرف اور صرف رب ہے۔ یہ لوگ‎ ‎ھم جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ پالنے والا بنا کسی دنیاوی آرام و آسائش سے پال سکتا ہے اور بیشک پال رہا ہے۔ وه بنا گاڑی بنگلوں اور کوٹھیوں کے بھی پال رہا ہے بلا لائٹ و بجلی کے بھی پال رہا ہے بنا پیسوں اور بنک بیلنس کے بھی پال رہا ہے۔ مگر آفریں ہیں ان لوگوں پر کہ آج تک ان کے منہ سے حکومت اور بےدرد زمانے کے خلاف کوئی گلہ وشکوه نہیں نکلا۔‎ ‎مگر پھر بھی ھمارا‎ ‎مہذب اور پڑھا لکھا منافق طبقہ ان سے نفرت کرتا ہے اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے‎ ‎ان کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔‎ ‎کوئی صاحب ان کو جرائم پیشہ بول رہے ہیں تو کوئی ان کو زانی شرابی چرسی نشئی کہہ رہا ہے کیا آج تک کسی اخبار نے یہ خبر چھاپی کہ ان جھگی والوں نے کسی کے ہاں ڈاکہ ڈالا ہے چوری کی ہو یا پھر کسی کا قتل کیا ہواور نہ کوئی اخبار یہ ثابت کر سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی بجلی پانی یا دیگر کسی وسائل کی فراہمی پر احتجاج کیا ہو کیونکہ ان کو الله تبارک تعالی کی صفت ربوبیت پر پکا یقین ہے کہ پالنےصرف اورصرف رب ہے اور کوئی نہیں جبکہ الله‎ ‎تعالی کی ساری نعمتیں میسرہونے کے باوجود ھمارا پڑھا لکھا اور خود کو مہذب کہنے والا‎ ‎طبقہ بجاۓ خدا کا شکر بجا لانے کے کہ الله نے ہمیں گھر دیا گاڑی دی کاروبار دیا خوبصورت بیوی دی دنیا میں عزت دی نام دیا‎ ‎لائٹ دی بجلی دی پینے کا صاف پانی فرام کیا غرض ایسی کون سے وه نعمت ہے جو خدا نے ہمیں عطا نہیں کی مگر اس کے باوجود ھم خدا کی ناشکری کرتے ہیں اس سے گلہ کرتے ہیں اس کے بندوں سے گلہ کرتے ہیں ایک دن لائٹ یا پانی کی فراہمی نہ ملنے پر سڑکیں بلاک کر دیتے ٹائروں کو آگ لا دیتے ہیں عمارتوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں‎ ‎اور ہمیشہ اس بات کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ ہاۓ ہاۓ مہنگائی ہاۓ مہنگائی‎خواه وه امیر ہو یا غریب سب کے سب مہنگائی کا رونا روتے دیکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کسی نے کسی جگھی والے کو‎ ‎مہنگائی کا رونا روتے دیکھا کیا وه ھم ان سے زیاده غریب ہیں یا پھر وه پاکستان کے شہری‎ہی ‎نہیں‎ ‎یا کیا وه آسمان سے اترے ہیں کہ انہیں مہنگائی سے کبھی کوئی غرض نہیں رھی۔۔؟؟ ایسا صرف اور صرف اس وجہ سے‎ہے کہ ہمیں الله کے رب ہونے پر کامل یقین نہیں ھم منہ سے تو لاکھوں بار رب رب کرتے ہیں مگر کبھی ایک بار بھی اپنے دل سے الله کے رب ہونے کا اقرار نہیں کیا مجھے اس بات پر علامہ اقبال ایک شعر شدت سے یاد آ رہا ہے‎ ‎کہ تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں تو جھکتا کہیں اور سوچتا کہیں اور ہے اور ساتھ ہی ایک مولوی صاحب کا واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک مولوی صاحب وعظ فرما رہے کہ اگر کوئی صدق دل سے الله کا نام لے کر دریا میں چھلانگ لگا دے تو دریا بھی اس رستہ دے جب مولوی صاحب یہ بات فرما رہے تھے تو ایک چرواہے‎ ‎وہاں موجود تھا جب اس نے مولوی صاحب کی یہ بات سنی تو اس کو اس بات کا پختا یقین ہو گیا کہ واقعی ایسا ہو سکتا ہے۔ ایک دن وه بکریاں چرانے کیلۓ دریا کے پاس گیا تو اس نے الله کا نام لے کر اپنی بکریاں دریا میں ڈال دیں اور اطمینان سے دریا عبور کر گیا پھر تو اس کا معمول بن گیا وه روزانہ بکریاں لے دریا پار کر جاتا ایک دن یہ منظر اسی مولوی صاحب نے دیکھا تو اس نے بطور امتحان الله کے نام لے‎ ‎چھلانگ لگا دی مگر دریا اسے پٹخنیاں دیتا ہوا دور لے گیا اور مولوی صاحب ہمیشہ کیلۓ دریا میں غرق ہو گۓ۔ الله صرف‎ ‎کامل یقین رکھنے والوں کا ساتھ دیتا‎ہے کیونکہ وه عین حق ‏ذات ہے ‏صرف ‏اس کے کن فرمانے کی دیر ہے ‏کہ ناممکن کام بھی ‏ممکن ہو جاتے ہیں۔ ‏ مگر ھمیں اس ذات پر کامل یقین ہی نہیں ھم نام تو اس کا ‏لیتے ہیں مگر ‏دل سے ‏اس ذات باری پر یقین نہیں رکھتے ہیں ہم دعائیں زبان سے تو مانگتے ہیں مگر کبھی ھم نے ‏صدق دل سے دعا مانگنے کی ضرورت ‏ہی محسوس نہیں کی۔ حقیقت میں ھمیں الله ‎پر یقین ہی نہیں الله بس دلوں کو دیکھتے ہیں ھماری زبان اور شکلوں کی اس کے سامنے کوئی اوقات نہیں کوئی صدق دل سے الله سے مانگ کر تو دیکھے تو دینے کو تیار بیٹھا ہے مگر کوئی مانگنے والا تو بنے۔ اگر ھم کو الله پر صدق دل سے کامل یقین ہوتا تو ھم‎ ‎ان پکھی واسوں کی طرح زندگی بسر کرتے ھمارے نفس عالیشان بنگلوں کوٹھیوں کاروں اور بنک بیلنس کی خواہش نہ کرتے کیا مجھے کوئی تعلیم یافتہ شخص بتا سکتا ہے کہ اس تعلیم نے اسے کیا دیا جو اس نے تمام عمر پڑھی اور اپنے بچوں کو پڑھائی یہ تعلیم تو انسان کو انسانیت کا درس بھی نہ دے سکی یہ تعلیم تو انسان کو خدا سے بھی نہ ملا سکی بلکہ اس تعلیم نے ھمیں دولت کا پجاری بنا ڈالا ھمیں دنیا داری میں پھنسا کر رحمان سے بیگانہ کر دیا‎ ‎اس نے ہمیں حرس و ہوس میں مبتلا کرکے دنیا کا غلام بنا کر رکھ دیا‎ ‎سگے بھائی کو سگے بھائی کا دشمن بنا دیا انسانیت کے رشتے سے بہت دور بہت دور لا کر پٹخ دیا اس جگہ لے جا کر پٹخا جہاں سے ھمارے آقا کریم صلی الله علیہ وسلم ھمیں نکال کر لاۓ تھے اور ھمیں انسانیت کا درس دیا تھا انسانیت کی تعلیم دی تھی‎ ‎انسانیت کی قدر سیکھائی تھی۔ یاد رہے ھماری موجوده تعلیم انگریز کی تعلیم ہے اس تعلیمات کا اس تعلیم سے کوئی تعلق نہیں جس کے متعلق قرآن کی پہلی وحی اتری تھی‎ ‎یہ تعلیم ھم پر انگریز کی نافض کرده تعلیم ہے نہ کہ ھمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نافض کرده تعلیم‎ ‎ھمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم والی تعلیمات کو تو ھم خیرباد کہہ چکے ہیں کیونکہ بقول ھمارے وه تعلیم‎ ‎ھمیں صرف آخرت میں فائده دے سکتی ہے دنیا میں نہیں‎ ‎جبکہ قرآن کہتا ہے یہ کتاب ھماری دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ انگریز‎ ‎کی عطا کرده یہ تعلیم‎ ‎ھمیں صرف اور صرف حرس و ہوس میں مبتلا کرسکتی ہے دولت کا پجاری بنا سکتی ہے دولت کیلۓ ھر رشتہ بھولا دینے کا سبق دے سکتی ہے دولت کی‎ ‎خاطر خود کو انسانیت کے نظروں گرا دینے گر سیکھا سکتی ہے اور بس اس کے علاوه اس تعلیم کا‎ ‎مصرف بیکار ہے۔اگر ھمیں ایک مہذب انسان بننا ہے تو ان جگھی والوں جیسا بننا ہو گا نہ تو یہ لوگ کسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور نہ ہی ان کو اہل دنیا سے کوئی گلہ شکوه ہوتا ہے۔ قتل و غارت گری دنگا فساد ھم جیسے مہذب کرتے ہیں جھگیوں والے نہیں۔ حکومت پر نقطہ چینیاں ھم لوگ کرتے ہیں یہ لوگ نہیں اپنے رب سے گلہ شکوه ھم لوگ کرتے ہیں یہ لوگ نہیں۔ گاڑی بنگلوں اور بنک بیلنس اور بڑے بڑے کاروبار اور خوبصورت عورتوں کی خواہش ھم لوگوں کو ھوتی ہے جھگی والوں کو نہیں۔ یہ تحریر نہیں یہ وه الفاظ تھے جو ان جگھی والوں کے پاس سے گزرتے ہوۓ میرے ذہن میں آۓ اور میں نے ان کو زبان دے کر آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔‎ ‎میرے یہ الفاظ پڑھ کر‏ ذرا اپنا اور ان جھگی والوں کا محاسبہ ضرور کیجۓ گا کہ انسانیت اور صبر و قناعت کا درس ان لوگوں کے رہن سہن‎ ‎سے ملتا ہے یہ ھم جیسے تعلیم یافتہ نام نہاد‎ ‎لوگوں سے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔