بدھ، 22 اپریل، 2015

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

0 comments
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمش تبریزی نہ شد مولانا روم ہرگز ہرگز مولوی نہیں بن سکا جب تک وه حضرت شاه شمش تبریزی کا مرید نہ ہوا تھا۔ مولانا روم کی‎ ‎اس بات سے اندازه لگایا جا سکتاہے کہ مسلمان کیلئے مرشد کامل کی ذات مبارک کتنی‎ ‎ضروری ہے کہ بنا مرشد کوئی مولوی مولوی کہلانے کا حق دار ہی نہیں کہلا سکتا ہے۔ مولوی کا مطلب‎ ‎مولا کی باتیں بتانے والاھوتا ہے اور مولا کی بات وہی‎ ‎بتا سکتا ہے جس نے مولا کو دیکھا ہے اس کو اپنے کانوں سے سنا ہو۔ اور الله والے تو وه ہیں جو الله سے ملادیتے ہیں اور جب کوئی الله سے مل لیتا ہے تو وه اس کا‎ ‎عاشق بن جاتا ہے اور جب وه الله کا عاشق بنتا ہے تو اسےدنیا کی ہر اک چیز سے نفرت ھو جاتی ہے اور بنده خود کو اپنے معشوق‎ ‎الله رب الغزت‎ ‎کی ‎یاد میں غرق کر دیتا ہے نہ اسے دنیا کو ھوش رہتا‎ ‎ہے اور نہ آخرت کا۔ نہ جہنم کا خوف نہ جنت کا‎ ‎لالچ۔ بنده اپنے یار کو خوش کرنے کیلئۓ اپنی ذات کو مٹا دیتا ہے بقول اقبال مٹا دے اپنی ہستی کو اقبال‎ ‎اگر کچھ مرتبہ چاہئۓ تو اور ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ اس رستے میں نہ کوئی ڈر ہے نہ کوئی خوف اگر ھم اولیا کا رستہ چھوڑ کر ملاؤں کے رستے‎ ‎پر چلیں گے تو ھم‎ ‎دنیا کے رہیں گے اور نا آخرت کے مسلمانوں کے موجوده‎ ‎حالات سب کے سامنے ہیں عالم اسلام کا اتحاد انہی ملاؤں کی وجہ سے پاره پاره ھوا ہے‎ ‎ان لوگوں نے شریعت کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے کسی پر بلا تحقیق کفر و شرک کا فتوی لگا دینا تو یہ کوئی عام بات سمجھتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو ھمیں انسانیت کا درس دیا‎ ‎انسانیت کی قدر کرنا سیکھائی اور اس پر عمل کر بھی دیکھایا‎ ‎مگر ان ملاؤں نے کیا کیا۔ انسان تو دور کی بات مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ اختلافات تو صحابہ اکرام میں بھی تھے مگر‎ ‎ان میں ایک چیز مشترکہ تھی کہ وه انسانیت کی قدر کیا کرتے‎ ‎تھے خود بھوکے ره کر دوسروں کو کھلاتے تھے‎ ‎مگر ان ملاؤں کی طرح نہیں کرتے تھے یہ لوگ دوسرے فرقے کو لوگوں سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ ان کے ہاں سے پانی پینا بھی غلیظ‎ ‎سمجھتے ہیں‎ ‎یہ کیسی نفرت ھے ایسی نفرت تو رسول الله کے صحابہ اکرام میں نہیں تھی اور نہ ہی الله کے ولیوں میں ایسی نفرت کا نام و نشان ملتا ہے۔ کس منہ سے یہ ملاں حضرات صحابہ اکرام کا نعره بلند کرتے ہیں ان ملاؤں نے اسلام کا جو نقش دنیا کو متعارف کروایا ہے وه اسلام رسول الله اور آپ کے صحابہ کا اسلام نہیں۔ جس شریعت‎ ‎کو ڈھال بنا کر یہ ملاں حضرات ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں وه شریعت انہی کی ایجاد کرده ہے صحابہ اکرام نے کبھی کسی پر کفر و شرک کا فتوه نہیں لگایا تھا‎ ‎جیسا کہ آج کے ملا حضرات لگاتے ہیں۔ اسلام ھر لحاظ سے ایک مکمل مذہب ہے دنیاوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی۔ اسلام روحانیت اور دنیاوی لحاظ سے ایک مساوی مذہب‎ ‎ہے۔ اہل اسلام کو اگر اسلام کا وجود اس رہتی دنیا میں بچانا ہے تو ان ملاؤں کی منافقت نفرت اور فرقہ واریت سے نکل کرایک دوسرے کو قتل کرنے کی بجاۓ انسانیت کی قدر کرنا‎ ‎ھو گی۔ ان ملاؤں کی اس لگائی ھوئی آگ کا اثر ان ملاؤں کو تو نہیں مگر گنبد خضرا کو ضرور پہنچ رھا ھے۔ کیونکہ تکلیف اسی کو ھوتی ہے جس کو محبت ھو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنی امت سے اپنی اولاد سے زیاده محبت ہے رسول الله‎ ‎صلی الله علیہ وسلم‎ ‎یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے نام کو اور انہی کے اسلام کو ڈھال بنا انہی کی امت کا قتل عام شروع کر دیا جاۓ۔ جتنی محبت میرے نبی کو اپنی امت سے ہے اتنی کسی نبی کو اپنی امت سے نہیں ھوگئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم‎ ‎تو منافقوں کے حق میں بھی داعاۓ خیر کیا کرتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم‎ ‎اپنی امت کا آپس میں قتل‎ ‎و غارت کیسے برداشت کرتے ہوں گے آپ کو کتنا دکھ ھوتا ہو گا ھمارے ملاؤں کے کرتوت اور ان کی لگائی ھوئی آگ دیکھ دیکھ کر۔ آج اگر اسلام زوال کا شکار ھو رھا ھے تو اس کی وجہ یہی ملاں حضرات ہیں ھمیں ان ملاؤں کی باتوں سے ھٹ کر ان کی لگائی ھوئی فرقہ واریت کی آگ سے نکلنا ھو گا یہ لوگ ھمیں اسلام کا درس نہیں فرقہ واریت کا درس دیتے ہیں۔ ھمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم‎ ‎اور آپ کے اصحابہ اکرام کے رستے پر چلنا ھو گا اور یہ رستہ ھمیں ملاؤں سے نہیں اولیاء سے ملے گا۔ یہ اولیاء ہی تھے جن کی وجہ سے اسلام ہند کے کونے کونے تک پہنچا اگر آج ھم سب مسلمان ھیں تو ان اولیاء کی بدولت ہیں‎ ‎ورنہ آج ھم میں سے کوئی ہندو ھوتا تو کوئی سکھ کوئی مجوسی ھوتا تو کوئی‎ ‎بدھ مت کا پیروکار۔ اب یہ ھماری‎ ‎سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ ہمیں کونسا رستہ اختیار کرنا ہے اولیاء کا یا ملاؤں کا۔ تحریر‎ ‎‎~‎ بقلم خود ایکسٹو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔