ہفتہ، 25 اپریل، 2015

حجاز کی آندھی پہلی قسط

0 comments


مدینہ سے تیس پینتیس میل دور شمال مشرق میں ایک ہرا بھرا نخلستان تھا۔ چھوٹی سی ایک جھیل، جھیل کے کنارے کھجور کے پیڑوں کے جھنڈ اور صحرائی پودے لق و دق تپتے ہوئے اس صحرا میں جنت کا سماں پیدا کیے ہوئے تھے۔ یہ نخلستان ایک ریگزار میں یوں لگتا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں میں ایک پھول کھلا ہو۔ اس کے اردگرد صحرا ایسا بھیانک تھا کہ مسافر اُدھر سے گزرتے گھبراتے تھے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر اُدھر جا بھی نکلتا تو دور سے نخلستان کو دیکھ کر یقین نہیں کرتا تھا کہ یہ نخلستان ہے۔ بلکہ وہ اسے سراب سمجھتا تھا۔ نظر کا دھوکا! 
نخلستان تو اس ریگزار میں بہت تھے لیکن اس جیسا کوئی نہ تھا۔ اس کے اس طرف بھی خاصی اونچی پہاڑی تھی۔ جدھر سے سورج طلوع ہوتا تھا اور ایک پہاڑی اُدھر بھی تھی جدھر سورج غروب ہوتا تھا۔ ان پہاڑیوں کی وجہ سے یہ نخلستان دن کا خاصہ حصہ سورج کی جلا دینے والی گرمی سے محفوظ رہتا تھا۔کھجور کے درختوں کے علاوہ جھکے جھکے درختوں کی دوچار قسمیں اور بھی تھیں۔
جونہی سورج غروب ہونے سے پہلے مغرب والی پہاڑی کے پیچھے چلا جاتا۔ اس نخلستان کی محدود سی دنیا ٹھنڈی ہونے لگتی تھی، اور غروبِ آفتاب کے بعد ایسی خنکی کہ آسمان تلے بیٹھنے والا ٹھٹھرنے لگتا تھا۔
اس دلفریب نخلستان میں پانچ چھ خیمے نصب تھے جن میں ایک چوکور اور بڑا تھا ۔اس کے دو طرف دروازے اور دروازوں کے آگے ریشمی پردے لٹکے ہوئے تھے ۔خیمے کے اندر کسی شاہی محل کے کمرے کا گمان ہوتا تھا۔ فرش پر خیمے کی لمبائی اور چوڑائی جتنا ایرانی قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف گدے پڑے تھے جن پر ریشمی چادریں بچھی ہوئی تھیں اور گاؤ تکیے پڑے ہوئے تھے ، اوپر رنگارنگ فانوس لٹکے ہوئے تھے ۔ خیمے کے اندر جو کپڑا لگا ہوا تھا وہ بھی ریشمی تھا اور اس کے کئی رنگ تھے۔ اندر کی فضا طلسماتی تھی۔
رات کا پہلا پہر تھا، گدوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے تین آدمی کچھ بیٹھے کچھ نیم دراز سے تھے۔ ان کے سامنے مختلف النوع کھانے رکھے تھے ۔ ایک شیشے کی صراحی تھی اور ساتھ کچھ جام بھی تھے۔ ان تین آدمیوں کے ساتھ جو گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، دو آدمی دائیں اور دو بائیں بیٹھے تھے۔ شراب کے جام صرف ان کے ہاتھوں میں تھے ۔باقی تین آدمی شراب نہیں پیتے تھے۔
ان سب آدمیوں کے لباس بتاتے تھے کہ یہ عربی ہیں اور مالدار عربی ہیں۔ وہ الف لیلیٰ کی داستانوں کے کردار لگتے تھے……شاہی خاندان کے افراد……ان کے سامنے ایک نیم عریاں رقاصہ رقص کی اداؤں سے ان سات آدمیوں کو مسحور کر رہی تھی۔اس کی کمر سے ریشم کے دھاگوں کی بنی ہوئی رنگ برنگی رسیاں لٹک رہی تھیں جو اتنی گھنی اور گنجان تھیں کہ دور سے کپڑا لگتی تھیں ۔ان میں رقاصہ عریاں نہیں لگتی تھی لیکن رقص کرتے اس کی ٹانگیں پاؤں سے کولہوں تک رسیوں سے باہر آجاتی تھیں۔ رقاصہ کے کھلے ہوئے بال بھی جیسے ریشم کے انتہائی باریک تار تھے جو اس کے مرمریں شانوں پر جھول رہے تھے۔
خیمے کے ایک کونے میں سازندے بیٹھے تھے اور ان کے پاس رقاصہ کی عمر کی دو لڑکیاں بیٹھی گا رہی تھیں۔ ایک ادھیڑ عمر عورت دف کی تھاپ پر تالی بجا رہی تھی۔ رقص اچھل کود نہیں تھا نہ دف اور سازوں نے واویلا بپا کر رکھا تھا۔ موسیقی مدھم اور خوابناک سی تھی اور رقص ایسا جیسے رقاصہ پھن دار ناگن کی مانند جھول رہی ہو۔ اس کا تبسم سحر انگیز تھا۔ گیت رومانی تھا۔ اس کے الفاظ اور سرتال ایسی جیسے خیموں سے کچھ دور بیٹھے ہوئے اونٹوں اور بندھے ہوئے گھوڑوں پر بھی وجد طاری ہو ا جا رہا ہو۔
رقص جاری رہا‘ شر اب چلتی رہی۔ خیمے میں بیٹھے یہ سات آدمی جھومتے اور خاموش اشاروں سے داد دیتے رہے اور جب رقاصہ نے جھک کر ہاتھ ماتھے پر رکھا تو گاؤ تکیے کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رقص کی محفل برخاست ہوتی ہے۔
رقاصہ یوں خیمے سے جھکی جھکی باہر نکلی کہ اس نے پیٹھ ان آدمیوں کی طرف نہ کی۔ گانے والیوں کا اور سازندوں کا انداز بھی یہی تھا۔
٭
’’اب کام کی کچھ باتیں ہو جائیں۔ ‘‘گاؤ تکیے کے ساتھ لگے درمیان والے آدمی نے گاؤ تکیے سے آگے ہو کر کہا۔ ’’دن کو ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے ، ہم خوش تھے کہ محمد(محمدﷺ)کے اس دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد مسلمان پھر قبیلوں میں بٹ کر بکھر جائیں گے اور ہم اُنہیں ایک بار پھر ایک دوسرے کا دشمن بنا کر جاہلیت کے اسی دور میں پہنچا دیں گے جہاں سے اُنہیں ان کے رسول(ﷺ) نے نکالا تھا۔پھر ان کے خلاف ہر طرف بغاوت شروع ہو گئی تھی‘ جسے یہ لوگ ارتداد کہتے ہیں۔ ہم اس وقت اور زیادہ خوش ہوئے کہ اب اسلام ان باغیوں کے ہاتھ ہمیشہ کیلئے عرب کی ریت میں دفن ہو جائے گا، لیکن اس بوڑھے ابو بکر نے ایسا طوفان کھڑا کیا کہ مسیلمہ اور مالک بن نویرہ جیسے طاقتور باغی ان چند ایک مسلمانوں سے شکست کھا گئے۔
’’ابو سلمیٰ!‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔’’ اسلام کے یہ باغی اگر بغاوت سے پہلے متحد ہو جاتے تو کبھی شکست نہ کھاتے۔‘‘
’’نہیں ابنِ داؤد!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔ ’’وہ متحد ہوتے ‘تو بھی شکست کھا جاتے۔ یہ کہو کہ مسلمانوں کے پاس خالد بن ولید اور ابو عبیدہ نہ ہوتے تو یہ باغی شاید کامیاب ہو جاتے……خدائے یہودہ کی قسم! اگر ہمارا منصوبہ ان لوگوں نے قبول کرلیا اور ہماری باتیں مان لیں تو اسلام کا نام و نشان نہیں رہے گا۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں ابو سلمیٰ! ‘‘ایک اور آدمی بولا۔’’ تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ تم یہودی ہو اور تمہاری تاریخ میں صرف منصوبے ملتے ہیں ……سازشوں کے منصوبے ، قتل کرانے اور بھاگ نکلنے کے منصوبے…… تمہیں میری بات سے رنج نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں نصرانی ہوں اس لئے یہودیوں کے خلاف بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’تم کھل کر بات کرو اسحاق!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ ہم اس صورت میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کریں ۔ یہاں سوال میری ذات یا بنی اسرائیل کی توہین کا نہیں ، ہمیں اسلام کا خاتمہ کرنا ہے۔ جس کیلئے بہترین وقت یہی ہے ……تم چاروں نصرانی ہو اور ہم تین یہودی ہیں ۔ میں اس وقت کو تصور میں لا رہا ہوں جب نصرانیوں اور یہودیوں میں اتحاد ہو گا ۔ اب بات کرو۔‘‘
’’میرا مقصد کسی کی توہیں نہیں۔ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بنی اسرائیل جنگ سے گریز کرتے ہیں اور میدانِ جنگ سے دور رہتے ہیں۔ اگر ہم نصرانیوں کی طرح تم لوگ بھی جنگجو ہو جاؤ اور یہودی اور نصرانی متحد ہو جائیں تو یہی ایک ذریعہ ہے اسلام کے خاتمے کا۔‘‘
’’بہت وقت چاہیے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ کئی سال لگ جائیں گے دونوں قوموں کو قریب لاتے۔ ہمارے دانشمند بزرگ کہہ گئے ہیں کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار بنا دو اور جو کردار سے دستبردار نہیں ہوتا اسے ایسے خفیہ طریقے سے قتل کردو کہ قاتل کا سراغ نہ ملے۔‘‘
’’کس کس کو قتل کرو گے؟‘‘ ایک اور نصرانی بولا۔’’ ابو بکر کو میں نے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا ہے‘ وہ اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ دنیا سے جلد ہی اُٹھ جائے گا۔ اسے قتل کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اگر اس کے بعد ابن الخطاب آگیا تو مسلمانوں کا محاذ او ر مضبوط ہو جائے گااور اسلام شام کی سرحدوں سے بھی آگے نکل جائے گا۔ میں نے جو جاسوسی کرائی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا پہلا خلیفہ ابو بکر خالد بن ولید کو دمشق کی طرف روانہ کر رہا ہے۔‘‘
’’خالد بن ولید کی بات کرتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ دعا کرو کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب کو مل جائے۔ ان کے آپس میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ خالد بن ولید، ابن خطاب کے ہاتھوں گمنامی میں چلا جائے گا۔‘‘
’’میں نہیں مانتا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’میں اس وقت مدینہ میں تھا جب عمر کے اُکسانے پر ابو بکر نے خالد بن ولید کو بطاح سے بلایا تھا کیونکہ اس نے ارتداد کے ایک قائد مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی انتہائی خوبصورت بیوی کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ خالد بن ولید جب مدینہ پہنچا تو سیدھا مسجد میں گیا۔عمر وہیں تھا۔ ابن الولید کو دیکھتے ہی عمر اس پر برس پڑا اور اس قدر لعن طعن کی کہ جو بیٹا باپ کی بھی برداشت نہ کر سکے۔ لیکن خالد نے برداشت سے کام لیا کیونکہ عمر اُس سے بڑا تھا اور ابن الولید اسلام کی تعلیمات کا پابند تھا۔ اُس نے اپنی بے عزتی برداشت کر لی لیکن عمر کی عزت رکھ لی۔ اس قوم میں یہ جو خوبی پیدا ہو گئی ہے اسے ختم کرنا محال نظر آتا ہے۔‘‘
’’کیا تم کوئی آسان کام کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اسی محال کو ہم نے آسان کرنا ہے ، باتیں بہت ہو چکی ہیں۔ بہت دنوں سے ہم باتیں ہی کیے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اپنے سینے پر لکھ لو کہ اسلام کی بیخ کنی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کام ہم میدانِ جنگ میں نہیں کر سکتے نہ فوجیں اسلام کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں…… میں کہہ رہا تھا کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار اور بد دیانت بنا دو۔‘‘
’’لیکن کیسے؟ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میرا نظریہ بھی یہی ہے کہ ان باتوں کی بجائے کوئی عمل کیا جائے۔‘‘
’’کردار میں بدی خوبصورت عورت سے پیدا ہوتی ہے یا شراب سے۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ مسلمان شراب نہیں پیتے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا تھا کہ ایک روز ان کے رسول(ﷺ) نے اعلان کیا کہ آج سے شراب حرام ہے تو پانی کی طرح شراب پینے والے اہل ِاسلام نے اسی وقت شراب کے مٹکے اور شراب کی صراحیاں باہر گلیوں میں انڈیل دی تھیں۔وہ پیالے توڑ دیئے تھے جس میں وہ شراب پیتے تھے…… ہم تو یہودی ہیں ،شراب نہیں پیتے۔ ان نصرانی بھائیوں سے پوچھو جو شراب کے رسیا ہیں ۔انہیں کہو کہ شراب کی یہ صراحی اور اپنے سامنے رکھے ہوئے جام اٹھاکر باہر پھینک دیں تو یہ ہنس کر ٹال دیں گے۔ یا یہ کہہ دیں گے کہ ایک دو دنوں بعد ہم شراب سے توبہ کرلیں گے۔ یہ توبہ نہیں کریں گے ۔لیکن مسلمانوں نے آنِ واحد میں توبہ کر کے دکھا دی اور شراب کو اُمّ الخبائث قرار دے دیا۔‘‘
ابو سلمیٰ اس طرح ہنسا جیسے اس کے سامنے بیٹھے ہوئے یہ آدمی کم عقل اور طفلانِ مکتب ہوں۔
’’مسلمانوں نے شراب چھوڑ دی ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ عورت کا نشہ برقرار رکھا ہے۔ ایک ایک آدمی خصوصاً سرداروں نے کئی کئی بیویاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ خوبصورت اور جوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ نہ بھولو کہ خوبصورت اور جوان لڑکی ایک ایسی طاقت ہے جس نے بڑے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہوں کے تاج اپنے قدموں میں رکھ لئے ہیں۔ ہم مرد کی اس کمزوری کو استعمال کریں گے…… اور یہ بھی دماغ میں بٹھا لو کہ جولذت بدی میں ہوتی ہے وہ نیکی میں نہیں ہوتی۔ مسلمان اپنے رسول (ﷺ)کے اس وعدے پر نیک اور پاک ہو گئے ہیں کہ اگلے جہان انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جہاں حسن و جمال والی حوریں ملیں گی اور شہد سے میٹھی شراب ملے گی۔ ہم ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دیں گے۔‘‘
’’بات آپ کی ہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ایک اور نصرانی نے کہا۔’’ لیکن مسلمانوں پر جنگ و جدل کا جنون طاری ہو چکا ہے ۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ جیسے ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہ ہو۔ کرنا ہے تو یوں کریں کہ یہودیوں اور نصرانیوں کو تیار کریں کہ وہ ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے ان کی فوج میں شامل ہو جائیں اور میدانِ جنگ میں اُنہیں دھوکا دیں اور ان کی شکست کا باعث بنیں ۔لیکن مجھے یہ کام کچھ آسان نظر نہیں آتا کیونکہ ان مسلمانوں میں صرف جوشِ جہاد اور شوق ِشہادت ہی نہیں بلکہ ان پر جہاد کا جنون طاری ہے۔ میدان ِجنگ میں اگر ان کا آدھے سے زیادہ لشکر مارا جائے تو باقی لشکر بھاگتا نہیں بلکہ پہلے سے دگنی طاقت استعمال کر کے اپنے مرے ہوئے آدھے لشکر کی کمی پوری کر دیتا ہے۔‘‘
’’یہ کام بھی وقت طلب ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ یہ بھی آگے چل کر کریں گے ۔یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے کئی آدمی مسلمانوں میں نظریاتی تخریب کاری میں مصروف ہیں ۔ مسلمان اپنے رسول(ﷺ) کی احادیث کے شیدائی ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ اُنہیں کہیں سے پتا چلتا ہے کہ محمد(ﷺ) نے یہ بات کہی تھی تو لوگ فوراً لکھ لیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے یہ آدمی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ مسلمانوں میں من گھڑت احادیث مشہور کر رہے ہیں اور لوگوں نے اُنہیں صحیح احادیث میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے بنی اسرائیل کے کچھ پڑھے لکھے آدمیوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ قرآن کا مطالعہ کریں اور دور دراز کے مقامات پر جا کر مسجدوں کے امام بن جائیں اور مسلمانوں کے ذہنوں میں قرآن کی غلط تفسیریں ڈالیں۔ ہم یہ محاذ کبھی کا کھول چکے ہیں۔ اب ہم عورت کو استعمال کریں گے ۔تم جانتے ہو کہ ساتھ والے خیمے میں جو تین لڑکیاں ہیں ہم انہیں تیار کر چکے ہیں ۔ میں آج تمہیں یہی بتانا چاہتا تھا کہ یہ مہم فوراً شروع کرنی ہے ۔اس لڑکی کو ابنِ داؤد مسلمان کے روپ میں اپنے ساتھ لے جائے گا…… ذرا ٹھہرو‘ میں اس لڑکی کو یہیں بلاتا ہوں ۔ تم سب اس کے ساتھ باتیں کرکے مجھے یہ بتانا کہ یہ لڑکی یہ کام کر سکے گی یا نہیں اور ہم نے اسے جو تربیت دی ہے وہ اس نے ذہن نشین کر لی ہے یا نہیں۔‘‘
فوراً بعد ایک لمبوترے قد اوربڑے ہی دلکش جسم والی لڑکی خیمے میں داخل ہوئی۔ اس کے نقش و نگار میں مسحور کن جاذبیت تھی اور اس کے چلنے کے انداز میں بھی جادو کا سا اثر تھا۔
’’بنتِ یامین! ‘‘ابو سلمیٰ نے اس لڑکی سے کہا۔’’اس وقت سے تم مسلمان ہو اور تمہارا نام یہی ہو گا۔ تم ایک مسلمان کی بیوی بننے جا رہی ہو۔‘‘
بنتِ یامین نے فوراً وہ چادر جو اس نے کندھوں پر پھیلا رکھی تھی ‘دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اس سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور پھر یہ چادر اس طرح لپیٹ لی کہ اس کا سینہ اور اوپر ناک تک کا جسم ڈھانپا گیا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ پیشانی پر بھی اس نے چادر لے لی تھی اور پھر اس نے سر جھکا لیا۔‘‘
خیمے میں بیٹھے ہوئے ہر آدمی نے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بات کی۔ لڑکی نے ہر سوال اور ہر بات کا موزوں جواب دیا اور جواب دینے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ شرم و حیا سے مری جا رہی ہو۔ پھر اس سے سوال پوچھا گیا کہ ایک مسلمان کی بیوی بن کر وہ کیا کرے گی؟ اس نے جو تربیت حاصل کی تھی اس کے مطابق تفصیلی جواب دیا۔
’’میرے ساتھ زیادہ باتیں نہ کریں۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔’’ آپ کے تمام سوالوں کے جواب میرے عمل سے ملیں گے ‘جس کیلئے میں بالکل تیار ہوں۔‘‘
ابو سلمیٰ نے اسے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائے۔ اس نے فوراً سر سے چادر اتاری اور پہلے کی طرح کندھوں پر پھیلا دی اور وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔
’’کیا خیال ہے؟ ‘‘ابو سلمیٰ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔
’’باتوں کی حد تک لڑکی ہوشیار معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اسحاق نے کہا۔ ’’اس خیمے میں تو ہمیں اس نے ہمیں مطمئن کر دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کے خیمے میں جا کر یہ کیا کرے گی یا کیا کر سکے گی۔‘‘
’’اتنی حسین لڑکی کسی بھی مسلمان پر جادو کی طرح چھا سکتی ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’ہمیں تمہاری ہر بات سے اتفاق ہے ابو سلمیٰ!‘‘ ایک نصرانی نے کہا۔’’ ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں ہو نا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پچھلے ناکام تجربوں کو سامنے رکھیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہماری ہر سازش ناکام ہوئی ہے، مجھے خیبر کا معرکہ یاد ہے ۔ مسلمانوں کی قیادت ان کے اپنے ر سول(ﷺ) کے ہاتھ تھی اور مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی ۔ بنی اسرائیل کی ایک عورت زینب بنت الحارث نے جو سلام بن شکم کی بیوی تھی، محمد(ﷺ) کو قتل کر نے کا کتنا اچھا طریقہ آزمایا تھا۔‘‘
اس نصرانی نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد کا واقعہ سنایا۔ اس یہودن نے رسول کریمﷺ کے پاس جا کر عقیدت مندی کا اظہار والہانہ طریقے سے کیا اور عرض کی کہ وہ رسولﷺ کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہتی ہے۔ حضور ﷺنے اس یہودن کی جذباتیت سے متاثر ہو کر دعوت قبول کر لی تھی اور اسی شام اس یہودن کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ بشر ؓبن الباء تھے۔
زینب بنت الحارث نے سالم دنبہ بھونا تھا ۔جو اس نے حضورﷺ کے آگے رکھ کر پوچھا کہ آپﷺکو دنبے کا کون سا حصہ پسند ہے۔ آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ زینب نے دستی کا ٹ کر آپﷺ کے آگے رکھ دی۔ بشر ؓبن الباء نے ایک بوٹی کا ٹ کر منہ میں ڈال لی اور چبانے لگے۔ رسول کریمﷺ نے ایک بوٹی کاٹی اور منہ میں ڈالتے ہی اگل ڈالی ۔فرمایا’’ ابن الباراء! اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘
بشرؓ بن الباراء بوٹی چبا رہے تھے جو انہوں نے اُگل تو دی لیکن زہرلعابِ دہن کے ساتھ حلق میں اتر چکا تھا۔
’’اے یہودن!‘‘ حضورﷺ نے بنتِ الحارث سے فرمایا۔’’ خدا کی قسم! تو نے اس گوشت میں زہر ملایا ہوا ہے۔‘‘
آپﷺ غصے سے اٹھے تو یہودن نے فوراً تسلیم کر لیا کہ اس نے گوشت میں سریع الاثر زہر ملا رکھا ہے۔
’’اے محمد!‘‘ زینب بنت الحارث نے بڑی دلیری سے کہا۔’’ خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔ آج میں ناکام ہوگئی تو کل کوئی اور کامیاب ہو جائے گا۔‘‘
بشرؓ بن الباراء اپنے حلق پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔
رسولﷺ نے زینب بنت الحارث اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم دیا اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا وہ منسوخ فرمایا اور حکم دیا کہ یہودیوں پر اعتماد نہ کیا جائے اور ان کے ہر قول و فعل پر نظر رکھی جائے۔
مؤرخ ابن اسحاق لکھتے ہیں مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ۔ آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ بشر الباراء سے جب وہ آپﷺ کے پاس بیٹھی تھیں فرمایا تھا۔ ’’اُمّ بشر !میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا ۔میں نے گوشت چبایا نہیں اُگل دیا تھا مگر زہر کا ثر آج تک موجود ہے۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ رسولﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔
نصرانی نے یہ واقعہ ابو سلمیٰ ، ابنِ داؤد اور سب کو سنایا۔
’’مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ مجھے اپنے تمام تجربات یاد ہیں جن میں ہم ناکام رہے تھے ۔ مدینہ پر قریش کا حملہ کوئی پرانی بات تو نہیں، مسلمانوں نے مدینہ کے اردگرد خندق کھود ڈالی تھی ۔ بنی اسرائیل مدینہ میں تھے ۔انہوں نے محمدﷺ کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رکھاتھا اور مسلمان ان پر اعتماد کرتے تھے ۔ہم نے اس اعتماد سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی……
مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو اور بچوں کو ایک قلعہ نما مکان میں اکٹھا کر لیا تھا۔ ہمارا ایک آدمی محمد(ﷺ) کے قتل کیلئے رات کے وقت جا رہا تھا ، وہ اس مکان کے قریب رُک گیا تو اسے حسان نے دیکھ لیا اور محمد(ﷺ) کی پھوپھی صفیہ کو بتایا کہ ایک یہودی مشکوک انداز سے کھڑا ہے ۔ وہ بنو قریظہ کا آدمی تھا ، اس کے پاس برچھی تھی……
صفیہ ایک ڈنڈا لے کر باہر نکلیں اور عقب سے اس آدمی کے قریب جا کر للکارا۔ ہمارے آدمی نے گھوم کر دیکھا اور صفیہ پر وار کرنے کیلئے برچھی تانی مگر صفیہ نے فوراً اس کے سر پر ڈنڈا مارا‘ وہ تیورا کر گرا۔ صفیہ نے ڈنڈے کی ضربوں سے اس کی کھوپڑی کچل ڈالی……
ہم نے تو اُن مسلمانوں پر جو مدینہ میں خندق کے اندر کی طرف رات کو سوئے یا بیٹھے ہوئے تھے ، حملہ کرنے کی بھی سوچی تھی لیکن اس آدمی کے قتل سے یہ راز کھل گیا کہ ہماری نیت ٹھیک نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد (ﷺ)کے حکم سے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔‘‘
’’وہ وقت ہمارے لیے زیادہ موزوں تھا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس وقت خالد نے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ عکرمہ اور ابو سفیان بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ یہ تینوں بڑے دلیر اور اثرورسوخ والے آدمی تھے اور خندق کے معرکے میں مدینے کے محاصرے میں شریک تھے۔ لیکن محمد(ﷺ) کی پھوپھی صفیہ نے بنو قریظہ کے اس آدمی کو قتل کیا تو ہمارا منصوبہ بے نقاب ہو گیا……میرے رفیقو! یہ مت سوچو کہ پہلی ہی کوشش کامیاب ہوا کرتی ہے۔ ناکامیاں مل کر کامیابی کی صورت اختیار کیا کرتی ہیں۔ اب ہم نئے منصوبے پر عمل کریں گے۔ بنت ِیامین کو کل بھیج دیں گے۔ میں یہ تمہیں بھی بتا دوں کہ ہم نے ایک مسلمان کو منتخب کر لیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ بنتِ یامین کے ساتھ شادی کر لے گا۔‘‘
جن مسلمان کا یہ یہودی ذکر کر رہا تھا وہ حبیب ابنِ کعب تھا۔ وہ مدینہ میں تجارت کے سلسلے میں جاتا رہتا تھا اور اکابر مسلمانوں کے مقربین میں سے تھا۔ ان دنوں وہ کچھ عرصے کے لئے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا ۔اس کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کسی لاعلاج مرض میں مبتلا تھی۔ اسی کے علاج معالجے کیلئے گاؤں آیا تھا۔اس کا گاؤں مدینہ سے بیس میل کے لگ بھگ دور تھا۔
یہودیوں نے سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا ۔ بنو قریظہ کا ایک یہودی اس گاؤں میں آیا، وہ تجارت کی غرض سے آیا تھا ۔تجارت ہی یہودیوں کا پیشہ تھا ۔ اسے متا چلا کہ مدینہ کا ایک اہم آدمی آج کل اپنے گاؤں آیا ہوا ہے تو اس یہودی نے اس کے ساتھ دوستی پیدا کرلی اور سوچنے لگا کہ اس شخص کو مسلمانوں کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے۔ اس کی ملاقات ابو سلمیٰ سے ہوئی ‘تو ابو سلمیٰ نے یہ منصوبہ بنایا جس پر اب عمل ہو رہا تھا ۔ اس یہودی نے جس نے حبیب ابنِ کعب کے ساتھ دوستی پیدا کی تھی ، حبیب کو ایک شادی کا مشورہ دیا اور اسے یہ بھی کہا کہ وہ اسے ایک بڑی خوبصورت مسلمان لڑکی لا دے گا۔
حبیب شادی کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عرب جسمانی آسودگی اور تعیش کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے ، یہ صحیح نہیں۔ عرب دراصل زیادہ سے زیادہ نرینہ اولاد پیدا کرنے کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ اس وقت طاقتور اسی کو سمجھا جاتا تھا جس کے بھائی اور بیٹے زیادہ ہوتے تھے۔ حبیب بھی انہی عربوں میں سے تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ جن میں سے ایک کسی لا علاج مرض سے قریب المرگ تھی ۔وہ دوسری شادی کا حاجت مند تھا۔
حبیب کا یہ یہودی دوست اپنا تجارتی مال بیچ کے چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک آدمی چادر میں لپٹی ہوئی ایک جوان لڑکی کو ساتھ لئے اس کے گھر آیا۔ اس نے اپنا نام ابنِ داؤد ہی بتایا۔ اس زمانے میں عرب کے نصرانیوں ،یہودیوں اور مسلمانوں کے نام ایک جیسے ہی ہوا کرتے تھے۔ ابنِ داؤد نے کچھ یہودی تاجروں کا حوالہ دیا۔
’’میں بہت ہی غریب اور لٹا پٹا آدمی ہوں۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میرے قبیلے نے اسلام قبول کرنے پر مجھے مارا پیٹا اور لوٹ بھی لیا ہے اور قبیلے سے نکال بھی دیا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنی اس بیٹی کو وہاں سے چھپا کر لایا ہوں۔ تمہارا دوست میرا بھی دوست ہے۔ میں تو اس کے ہاں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ایک بیوی کی ضرورت ہے ۔ میں اپنی بیٹی کو تمہارے پاس لایا ہوں۔ میں نو مسلم ہوں ۔مجھ پر ایک کرم تو یہ کرو کہ میری بیٹی کو اپنے عقد میں لے لو اور مجھے مدینہ میں کہیں نوکری دلوا دو ۔خواہ یہ کسی سردار کی غلامی میں ہو ۔اگر اپنے لشکر میں بھرتی کرا دو تو ساری عمر دعائیں دوں گا۔‘‘
حبیب نے شادی تو کرنی ہی تھی لیکن جب اس نے ابن ِداؤد کی بپتا سنی تو وہ بغیر سوچے سمجھے شادی کیلئے تیار ہو گیا اور جب اس نے لڑکی کو دیکھا تو اس نے اسی شام نکاح کا فیصلہ کرلیا۔
اگلے روز نکاح خواں کو بلا کر حبیب نے بنت ِیامین کو اپنے عقد میں لے لیا۔
’’ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ تم نے میرے سر سے اتنا بڑا بوجھ اتار پھینکا ہے جس کے نیچے میں اور میری بیٹی کی عصمت کچلی جا رہی تھی۔ میں کچھ دنوں کیلئے جا رہا ہوں۔ اگر تم میرے لیے کوئی ذریعہ معاش پیدا کر سکتے ہو تو مجھے بتاؤ کہ میں واپس یہیں آکر تم سے ملوں یا تمہارے پاس مدینہ آجاؤں۔‘‘
’’اگر تمہارا کوئی اور ٹھکانہ نہیں تو تم میرے پاس رہ سکتے ہو۔ دس بارہ دنوں کے بعد میں مدینہ واپس جا رہاہوں۔ میرے ساتھ چلے چلنا۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں تم پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ میں اب اپنا ٹھکانہ مدینہ میں ہی بناؤں گا۔ جہاں مجھے مسلمانوں کا تحفظ حاصل ہو گا۔‘‘
’’پھر تم دس بارہ دنوں کے بعد مدینہ میرے پاس آجانا۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔
ابنِ داؤد بنتِ یامین کے سر پر باپوں کی طرح پیار کر کے چلا گیا۔
٭
کچھ دنوں بعد وہی نخلستان تھا، اس میں وہی خیمہ تھا ۔ اندر سے اس کی سج دھج وہی تھی اور محفل بھی وہی تھی۔ وہی رقاصہ سازوں اور دف کی سر تال پر تھرک رہی تھی اور صحرا کی ایک اور رات گزرتی جا رہی تھی۔
ابو سلمیٰ کے اشارے پر ساز خاموش ہو گئے ۔ رقاصہ کا تھرکتا جسم ساکت ہو گیا۔ ابو سلمیٰ نے سر کو ہلکی سی جنبش دی تو رقاصہ اور سازندے خیمے سے نکل گئے۔
’’ابنِ داؤد کو آجانا چاہیے تھا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’آتا ہی ہوگا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’ وہ کوئی بچہ تو نہیں، آجائے گا…… اور مجھے امید ہے کہ کچھ کر کے ہی آئے گا…… ہو سکتا ہے صبح آجائے۔‘‘
یہ یہودی اور نصرانی پھر اسلام کی بیخ کنی کی باتیں کرنے لگے۔ ابو سلمیٰ پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ محفل برخاست ہونے ہی لگی تھی کہ گھنٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی جو قریب آتی جا رہی تھی ۔ ابو سلمیٰ چونک اٹھا باقی سب کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔
’’وہ آرہا ہے۔‘‘ بیک وقت دو تین آدمیوں نے کہا۔
ایک نصرانی دوڑتا ہو اباہر نکلا ۔ صحرا کی شفاف چاندنی میں کچھ دور ایک اونٹ چلا آرہا تھا۔ جس پر ایک آدمی سوار تھا ۔ اونٹ کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں جلترنگ کی طرح بج رہی تھیں۔ چھوٹے خیموں میں سے دو تین ملازم بھی باہر نکل آئے تھے۔ نصرانی جو باہر نکلا تھا وہ اونٹ کی طرف دوڑ پڑا۔
’’تم ابنِ داؤد ہی ہو سکتے ہو۔‘‘ نصرانی نے بلند آواز سے کہا۔
’’تو اور کون ہو سکتا ہے۔ ‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔
قریب آکر شتر سوار جو ابنِ داؤد ہی تھا، چلتے اونٹ پر سے کود کر اُترا اور نصرانی سے بغلگیر ہو گیا ۔ ایک ملازم نے آگے ہو کر اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اُسے اُدھر لے گیا جہاں دوسرے اونٹ بندھے ہوئے تھے ۔
’’میں جانتا تھا تم آج رات آجاؤ گے۔‘‘ ابنِ داؤد کے خیمے میں داخل ہوتے ہی ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ آؤ بیٹھو ، کچھ کھا پی لو اور بتاؤ کیا کر آئے ہو۔‘‘
’’کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان ہے جو اتنے خوبصورت اور قیمتی نگینے کو بلا قیمت قبول نہ کرے؟‘‘ ابنِ داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’وہ شخص جس کا نام حبیب ابنِ کعب ہے ، کچھ میری باتوں سے اور کچھ زیادہ تر بنتِ یامین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا تھا۔‘‘
’’آدمی کیسا ہے؟‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’ہمارے کام آجائے گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے جواب دیا۔’’ میں نے ایک غریب اور مظلوم نو مسلم بن کر اس کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ وہ میرے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا ۔میں نے جب اسے کہا کہ میں ذریعہ معاش کی تلاش میں ہوں تو اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مدینہ کے بڑے سے بڑے آدمی سے بھی میں اپنی بات منوا سکتا ہوں…… مختصر بات یہ ہے کہ ابو سلمیٰ!جیسا مجھے بتایا گیا تھا ، وہ ویسا ہی اثر و رسوخ رکھنے والا آدمی ہے اور قبیلوں کے سرداروں تک اسے رسائی حاصل ہے۔‘‘
’’ہم نے بنت ِیامین کے ذریعے اس سے جو کام کرانا ہے ،وہ امید ہے کہ ہو جائے گا۔‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’میں تین چار دنوں کے بعد مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس نے مجھے کہا ہے کہ اس کے پاس پہنچ جاؤں …… کیا اب ہمیں سو نہیں جانا چاہیے۔ بہت تھک گیا ہوں۔‘‘
’’سو ہی جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
اور اس طرح محفل برخاست ہو گئی۔
اگلے روز سورج سر پر آرہا تھا۔ کھجور اور دیگر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا جس نے چھاتے جیسا سایہ کر رکھاتھا۔ جدھر سے ہوا آرہی تھی اُدھر ایک قنات درختوں کے تنوں سے بندھی تنی ہوئی تھی۔ اس نے صحرا کی گرم ہوا اور اس کے ساتھ اڑتی ریت کو روکا ہوا تھا۔ اس جھنڈ کے نیچے قالین بچھا ہو اتھا اور ابو سلمیٰ ، ابن داؤد ، اسحاق اور ان کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ نوکر ان کے آگے کھانا چن رہے تھے۔
ایک شتر بان جو اونٹوں کو ذرا پرے لے گیا تھا ، دوڑتا آیا۔
’’آقا!‘‘شتربان نے ابو سلمیٰ کو اطلاع دی۔’’دور ایک گھوڑ سوار نظر آرہا ہے ۔ کوئی عام سا مسافر نہیں لگتا ۔ گھوڑے کی رفتار خاصی تیز ہے اور اس کا رُخ اِدھر ہی ہے۔‘‘
یہ سب اٹھے اور قنات کے اوپر سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ گھوڑا اور سوار صاف نظر نہیں آرہے تھے، تپتی ہوئی ریت سے ایک غیر مرئی سی بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس میں گھوڑے اور سوار کے خدوخال یوں نظر آرہے تھے جیسے جھیل کے ہلتے پانی میں کنارے کے عکس نظر آتے ہیں۔ یہ صرف صحرائی لوگ ہی پہچان سکتے تھے کہ آنے والا گھوڑ سوار ہے یا شتر سوار۔
’’کوئی اپنا ہی ہو گا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اس طرف سے گزرتا ہی کون ہے۔‘‘
وہ دیکھتے رہے، انہیں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ وہ داکو نہیں تھے نا ان کے پاس ڈکیتی کا مال تھا ۔ وہ گھومنے پھرنے والے تاجر تھے جنہیں لٹنے کا ڈر ہو سکتا تھا لیکن ان پر یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی رہزنوں کا خطرناک گروہ ہے۔
جوں جوں گھوڑا قریب آتا گیا اس کے خدوخال واضح ہوتے چلے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑا شفاف پانی میں ڈوبا ہوا اندر ہی اندر چلا آرہا ہو، تقریباً سو گز فاصلہ رہ گیا تو صاف پتا چلنے لگا کہ یہ گھوڑا ہے اور اس کی پیٹھ پر اس کا سوار ہے ۔ سوار نے بازو اوپر کر کے دائیں بائیں ہلایا جو کہ اشارہ تھا کہ میں تمہارا اپنا آدمی ہوں اور میں خوش ہوں کہ میں نے تمہیں پا لیا ہے۔
ابو سلمیٰ اور اس کے تمام ساتھی قنات کے ایک طرف سے گزر کر گھوڑ سوار کے استقبال کیلئے آگے چلے گئے۔ فاصلہ تھورا رہ گیا تو ابنِ داؤد نے اس کا نام لے کر پکارا۔ اس کا نام موسیٰ تھا، اس نے ایڑ لگا کر گھوڑا دوڑادیا ۔ اور ان لوگوں کے قریب آکر یکلخت روکا تو یوں لگا جیسے گھوڑا گر پڑے گا۔ موسیٰ گھوڑے سے کود کر اترا۔
’’زبردست خبر لایا ہوں۔‘‘ موسیٰ نے کہا۔ ’’ابو بکر مر گیا ہے…… مسلمانوں کا پہلا خلیفہ۔‘‘
قریب آکر موسیٰ نے سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور یہ لوگ اسے قنات کے اندر لے آئے جہاں کھانا رکھا جا چکا تھا۔
’’اگلا خلیفہ عمر ابن الخطاب تو نہیں بن گیا؟ ‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’تو اور کون بنتا؟ ‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ابو بکر نے وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جانشین عمر ابن الخطاب ہو گا۔‘‘
’’یہ بہت برا ہوا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’بڑا ہی ظالم انسان ہے۔ بنی اسرائیل کا تو نام ہی نہیں سننا چاہتا……ابو بکر کب فوت ہوا؟‘‘
’’پرسوں شام غروبِ آفتاب کے وقت ۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں کل ہی آجاتا مگر یہ دیکھنے کیلئے رُک گیا تھا کہ اگلا خلیفہ کون ہو گااور کتنے لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور کون بیعت کرنے سے گریز کرے گا۔‘‘
٭
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات مسلمانوں کیلئے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ ان کی وفات ۲۳جمادی الآخر ۱۳ ھ بمطابق ۲۲ اگست ۶۳۴ ء غروبِ آفتاب کے وقت ہوئی تھی۔مدینے کہ لوگ یہ خبر سنتے ہی گھروں سے نکل آئے۔ عورتیں بھی خلیفہ اولؓ کے گھر کی طرف دوڑ پڑیں۔ ان کی سسکیاں اورہچکیاں نکل رہی تھیں۔ ہر عورت اس طرح غمگین اور ماتم کناں تھی جیسے اس کا باپ فوت ہو گیا ہو۔
ابو بکرصدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہی عمرؓالخطاب کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ عمرفاروقؓ نے اس نامزدگی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا لیکن ابو بکرصدیقؓنے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ عمرؓ کے بغیر ان حالات پر جن میں سلطنت اسلامیہ گھری ہوئی ہے ‘قابو پانے کی صلاحیت اور کسی میں نہیں۔
اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ عمرؓ بڑی ہی روح کش ذہنی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ایک تو ابو بکرصدیقؓ جیسا بزرگ اور مدبر ساتھی رخصت ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ کہ ان کا یہ ساتھی اپنی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے سر پر ڈال گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓنے ابو بکرصدیقؓ کے جنازے کے پاس کھڑے ہو کر یہ کلمات ادا کیے:
’’ اے خلیفہ رسول اﷲ! آپ نے قوم کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے؟ آپ اسے بہت بڑی مصیبت میں چھوڑ کر چلے ہیں ۔ آہ! آپ جدا ہوگئے ۔اب کیسے ملنا ہو گا؟‘‘
ابو بکر صدیقؓنے خلافت کیلئے عمرفاروقؓ کی نامزدگی اپنے طور پر ہی نہیں کر ڈالی تھی ، ذاتی طور پر رسولﷺ نے بھی کبھی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ جس طرح حضورﷺ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرتے تھے اسی طرح ابو بکرصدیقؓ نے بھی وصیت لکھواتے وقت مشورے لیے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے پوچھا تھا کہ عمرؓ کے متعلق ان کی رائے کیا ہے؟
’’خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا تھا۔’’ عمر کے متعلق آپ کی جو رائے ہے ‘وہ اس سے بھی بہتر ہے ، لیکن ان کے مزاج میں سختی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا تھا۔’’ اس کے مزاج میں سختی اس لئے ہے کہ میرا مزاج بہت نرم تھا۔ جب عمر پر ذمہ داری آپڑے گی تو وہ اپنے مزاج میں اس کے مطابق خود ہی تبدیلیاں کر لے گا…… اور ابو محمد! میں نے عمر کو بہت قریب سے جانچا اور پرکھا ہے ۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب میں غصے میں ہوتا تو وہ میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا اور جب میں کسی معاملے میں نرمی برتنے لگتا تو عمر مجھے سختی کا مشورہ دیتا تھا۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے عثمان ؓغنی کو بلایا اور ان سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھا۔
’’ہم سب سے بہتر جاننے والا اﷲ ہے۔‘‘ عثمانؓ غنی نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی۔ ’’میری رائے ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے سعید ؓبن زید ، اسیدؓ بن حضیراور کئی مہاجرین و انصار سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھااور انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ عمرفاروقؓ کو اپنا جانشین نامزد کر رہے ہیں۔
’’میرا فیصلہ کس حد تک صحیح ہے؟‘‘انہوں نے اِن لوگوں سے پوچھا۔
ان سب نے فرداً فرداً جو آراء دیں ‘وہ تقریباً ایک جیسی ہی تھیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ عمرؓ کا مزاج اتنا سخت اور درشت ہے کہ وہ خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ تاریخ کے مطابق طلحہؓ ان سب کی نمائندگی میں ابو بکرصدیقؓ کے پاس گئے تھے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ طلحہ ؓنے ابو بکرصدیقؓ سے کہا۔’’ جب اﷲ آپ سے یہ پوچھے گا کہ رعیت کو کس حال میں کس کے حوالے کر آئے ہو تو آپ کیا جواب دیں گے؟ عمر کو آپ اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے ؟ سوچ لیں۔ جب قوم کو عمر کے ساتھ براہِ راست واسطہ پڑے گا تو اﷲ آپ سے جواب مانگے گا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی عمر باسٹھ برس سے اوپر ہو گئی تھی اور وہ علیل تھے ، قریب المرگ تھے۔ ان کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ اپنی طاقت سے اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ طلحہ ؓکی رائے سن کر غصے سے کانپنے لگے حالانکہ ان کے مزاج میں غصہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اتنا شدید غصہ آجانا ثبوت تھا کہ وہ عمرؓ کو ہی مدبر اور دانشمند سمجھتے ہیں۔
’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے غصے میں کہا۔
ان کے ایک عزیز نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا۔
’’کیا تم مجھے اﷲ سے ڈراتے ہو؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں نامراد ہو کر مروں اگر میں تم پر ایک ظالم کو مسلط کر کے جاؤں اور یہی میرا توشہ آخرت ہو……میں اﷲ سے کہوں گا اے اﷲ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں جو تیرے رسول (ﷺ)کی امت میں سب سے بہتر تھا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی آواز نقاہت کی وجہ سے بہت نحیف تھی جو صرف قریب بیٹھے ہوئے ایک دو آدمی ہی سن سکتے تھے۔
’’اور میری بات سنو طلحہ! ‘‘ابو بکرصدیقؓ نے طلحہ ؓکو اپنے قریب کرکے کہا۔ ’’جو بات میں نے کہی ہے وہ بات اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی سنا دو۔‘‘
طلحہ ؓنے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور ابو بکرصدیقؓ پھر لیٹ گئے۔
٭
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ ابو بکرصدیقؓ اس رات سو نہ سکے۔ یہ صورتِ حال انہیں پریشان کر رہی تھی کہ امت رسولﷺ میں عمرؓ کی خلافت پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ علی الصبح عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی عیادت کو آئے تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ ابو بکر صدیقؓنے رات آنکھوں میں کاٹ دی ہے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے پوچھا۔ ’’رات سو نہ سکنے کا باعث کیا تھا؟‘‘
’’طلحہ اور دوسرے لوگوں کی باتوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے کہا۔’’ میں نے اپنی عقل و دانش کے مطابق خلافت کی ذمہ داری اس شخص کو سونپنی چاہی تھی جو تم میں ہر لحاظ سے سب سے بہتر ہے اور تم لوگ میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر رہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ یہ نازک ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دوں؟یہ جانتے ہوئے کہ اس سے بہتر آدمی موجود نہیں۔‘‘
’’اﷲ آپ پر رحم کرے خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ اپنے دل پراس طرح بوجھ نہ ڈالیں، اس سے تو آپ کی بیماری اور بڑھے گی۔ میں جانتا ہوں کہ رائے دینے والے لوگ دو فریقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو آپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرتا ہے اور وہ آپ کا ہی ساتھ دے گا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس دوسرے فریق کی قیادت وہ شخص کر رہا ہے جو آپ کا مشیر ہے اور آپ کا دوست بھی ہے۔ ہم سب کو پورا پورا اعتماد ہے کہ آپ کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہے اور آپ کا مقصور امت کی فلاح و بہبود اور اصلاح و ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کیلئے ایک عجیب صورت ِحال پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنا فیصلہ ٹھونس بھی سکتے تھے ، لیکن ان کی نظر اس وقت پر تھی جس کا آغاز ان کی وفات کے بعد ہونا تھا ۔ انہوں نے عام لوگوں سے مشورہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا مکان مسجد سے ملحق تھا ۔ اتنی نقاہت کے باوجود بالا خانے پر گئے جس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ مسجد میں نمازی ظہر کی نماز کے بعد موجود رہے۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ خلیفہ ؓان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔ نماز کے بعد ابو بکرصدیقؓ کھڑکی کے سامنے آئے۔ لوگوں نے اوپر دیکھا۔
’’کیا تم اس شخص کو پسند کرو گے جس کو میں جانشین مقرر کروں گا؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے پوچھا۔
’’ہم وہ پسند کریں گے جو آپ کریں گے۔‘‘نمازیوں میں سے کئی ایک کی آوازیں سنائی دیں۔
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا۔’’میں نے بہت ہی غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ میرے بعد خلافت کی ذمہ داری عمر بن الخطاب سنبھالے گا۔ میں نے یہ عظیم منصب اپنی کسی قریبی رشتے دار کو نہیں دیا……میں جو کہہ رہا ہوں وہ غور سے سنو اور اس فیصلے کو قبول کرو کہ میرا جانشین عمر بن الخطاب ہو گا۔‘‘
مدینہ سے تیس پینتیس میل دور شمال مشرق میں ایک ہرا بھرا نخلستان تھا۔ چھوٹی سی ایک جھیل، جھیل کے کنارے کھجور کے پیڑوں کے جھنڈ اور صحرائی پودے لق و دق تپتے ہوئے اس صحرا میں جنت کا سماں پیدا کیے ہوئے تھے۔ یہ نخلستان ایک ریگزار میں یوں لگتا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں میں ایک پھول کھلا ہو۔ اس کے اردگرد صحرا ایسا بھیانک تھا کہ مسافر اُدھر سے گزرتے گھبراتے تھے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر اُدھر جا بھی نکلتا تو دور سے نخلستان کو دیکھ کر یقین نہیں کرتا تھا کہ یہ نخلستان ہے۔ بلکہ وہ اسے سراب سمجھتا تھا۔ نظر کا دھوکا!
نخلستان تو اس ریگزار میں بہت تھے لیکن اس جیسا کوئی نہ تھا۔ اس کے اس طرف بھی خاصی اونچی پہاڑی تھی۔ جدھر سے سورج طلوع ہوتا تھا اور ایک پہاڑی اُدھر بھی تھی جدھر سورج غروب ہوتا تھا۔ ان پہاڑیوں کی وجہ سے یہ نخلستان دن کا خاصہ حصہ سورج کی جلا دینے والی گرمی سے محفوظ رہتا تھا۔کھجور کے درختوں کے علاوہ جھکے جھکے درختوں کی دوچار قسمیں اور بھی تھیں۔
جونہی سورج غروب ہونے سے پہلے مغرب والی پہاڑی کے پیچھے چلا جاتا۔ اس نخلستان کی محدود سی دنیا ٹھنڈی ہونے لگتی تھی، اور غروبِ آفتاب کے بعد ایسی خنکی کہ آسمان تلے بیٹھنے والا ٹھٹھرنے لگتا تھا۔
اس دلفریب نخلستان میں پانچ چھ خیمے نصب تھے جن میں ایک چوکور اور بڑا تھا ۔اس کے دو طرف دروازے اور دروازوں کے آگے ریشمی پردے لٹکے ہوئے تھے ۔خیمے کے اندر کسی شاہی محل کے کمرے کا گمان ہوتا تھا۔ فرش پر خیمے کی لمبائی اور چوڑائی جتنا ایرانی قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف گدے پڑے تھے جن پر ریشمی چادریں بچھی ہوئی تھیں اور گاؤ تکیے پڑے ہوئے تھے ، اوپر رنگارنگ فانوس لٹکے ہوئے تھے ۔ خیمے کے اندر جو کپڑا لگا ہوا تھا وہ بھی ریشمی تھا اور اس کے کئی رنگ تھے۔ اندر کی فضا طلسماتی تھی۔
رات کا پہلا پہر تھا، گدوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے تین آدمی کچھ بیٹھے کچھ نیم دراز سے تھے۔ ان کے سامنے مختلف النوع کھانے رکھے تھے ۔ ایک شیشے کی صراحی تھی اور ساتھ کچھ جام بھی تھے۔ ان تین آدمیوں کے ساتھ جو گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، دو آدمی دائیں اور دو بائیں بیٹھے تھے۔ شراب کے جام صرف ان کے ہاتھوں میں تھے ۔باقی تین آدمی شراب نہیں پیتے تھے۔
ان سب آدمیوں کے لباس بتاتے تھے کہ یہ عربی ہیں اور مالدار عربی ہیں۔ وہ الف لیلیٰ کی داستانوں کے کردار لگتے تھے……شاہی خاندان کے افراد……ان کے سامنے ایک نیم عریاں رقاصہ رقص کی اداؤں سے ان سات آدمیوں کو مسحور کر رہی تھی۔اس کی کمر سے ریشم کے دھاگوں کی بنی ہوئی رنگ برنگی رسیاں لٹک رہی تھیں جو اتنی گھنی اور گنجان تھیں کہ دور سے کپڑا لگتی تھیں ۔ان میں رقاصہ عریاں نہیں لگتی تھی لیکن رقص کرتے اس کی ٹانگیں پاؤں سے کولہوں تک رسیوں سے باہر آجاتی تھیں۔ رقاصہ کے کھلے ہوئے بال بھی جیسے ریشم کے انتہائی باریک تار تھے جو اس کے مرمریں شانوں پر جھول رہے تھے۔
خیمے کے ایک کونے میں سازندے بیٹھے تھے اور ان کے پاس رقاصہ کی عمر کی دو لڑکیاں بیٹھی گا رہی تھیں۔ ایک ادھیڑ عمر عورت دف کی تھاپ پر تالی بجا رہی تھی۔ رقص اچھل کود نہیں تھا نہ دف اور سازوں نے واویلا بپا کر رکھا تھا۔ موسیقی مدھم اور خوابناک سی تھی اور رقص ایسا جیسے رقاصہ پھن دار ناگن کی مانند جھول رہی ہو۔ اس کا تبسم سحر انگیز تھا۔ گیت رومانی تھا۔ اس کے الفاظ اور سرتال ایسی جیسے خیموں سے کچھ دور بیٹھے ہوئے اونٹوں اور بندھے ہوئے گھوڑوں پر بھی وجد طاری ہو ا جا رہا ہو۔
رقص جاری رہا‘ شر اب چلتی رہی۔ خیمے میں بیٹھے یہ سات آدمی جھومتے اور خاموش اشاروں سے داد دیتے رہے اور جب رقاصہ نے جھک کر ہاتھ ماتھے پر رکھا تو گاؤ تکیے کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رقص کی محفل برخاست ہوتی ہے۔
رقاصہ یوں خیمے سے جھکی جھکی باہر نکلی کہ اس نے پیٹھ ان آدمیوں کی طرف نہ کی۔ گانے والیوں کا اور سازندوں کا انداز بھی یہی تھا۔
٭
’’اب کام کی کچھ باتیں ہو جائیں۔ ‘‘گاؤ تکیے کے ساتھ لگے درمیان والے آدمی نے گاؤ تکیے سے آگے ہو کر کہا۔ ’’دن کو ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے ، ہم خوش تھے کہ محمد(محمدﷺ)کے اس دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد مسلمان پھر قبیلوں میں بٹ کر بکھر جائیں گے اور ہم اُنہیں ایک بار پھر ایک دوسرے کا دشمن بنا کر جاہلیت کے اسی دور میں پہنچا دیں گے جہاں سے اُنہیں ان کے رسول(ﷺ) نے نکالا تھا۔پھر ان کے خلاف ہر طرف بغاوت شروع ہو گئی تھی‘ جسے یہ لوگ ارتداد کہتے ہیں۔ ہم اس وقت اور زیادہ خوش ہوئے کہ اب اسلام ان باغیوں کے ہاتھ ہمیشہ کیلئے عرب کی ریت میں دفن ہو جائے گا، لیکن اس بوڑھے ابو بکر نے ایسا طوفان کھڑا کیا کہ مسیلمہ اور مالک بن نویرہ جیسے طاقتور باغی ان چند ایک مسلمانوں سے شکست کھا گئے۔
’’ابو سلمیٰ!‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔’’ اسلام کے یہ باغی اگر بغاوت سے پہلے متحد ہو جاتے تو کبھی شکست نہ کھاتے۔‘‘
’’نہیں ابنِ داؤد!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔ ’’وہ متحد ہوتے ‘تو بھی شکست کھا جاتے۔ یہ کہو کہ مسلمانوں کے پاس خالد بن ولید اور ابو عبیدہ نہ ہوتے تو یہ باغی شاید کامیاب ہو جاتے……خدائے یہودہ کی قسم! اگر ہمارا منصوبہ ان لوگوں نے قبول کرلیا اور ہماری باتیں مان لیں تو اسلام کا نام و نشان نہیں رہے گا۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں ابو سلمیٰ! ‘‘ایک اور آدمی بولا۔’’ تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ تم یہودی ہو اور تمہاری تاریخ میں صرف منصوبے ملتے ہیں ……سازشوں کے منصوبے ، قتل کرانے اور بھاگ نکلنے کے منصوبے…… تمہیں میری بات سے رنج نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں نصرانی ہوں اس لئے یہودیوں کے خلاف بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’تم کھل کر بات کرو اسحاق!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ ہم اس صورت میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کریں ۔ یہاں سوال میری ذات یا بنی اسرائیل کی توہین کا نہیں ، ہمیں اسلام کا خاتمہ کرنا ہے۔ جس کیلئے بہترین وقت یہی ہے ……تم چاروں نصرانی ہو اور ہم تین یہودی ہیں ۔ میں اس وقت کو تصور میں لا رہا ہوں جب نصرانیوں اور یہودیوں میں اتحاد ہو گا ۔ اب بات کرو۔‘‘
’’میرا مقصد کسی کی توہیں نہیں۔ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بنی اسرائیل جنگ سے گریز کرتے ہیں اور میدانِ جنگ سے دور رہتے ہیں۔ اگر ہم نصرانیوں کی طرح تم لوگ بھی جنگجو ہو جاؤ اور یہودی اور نصرانی متحد ہو جائیں تو یہی ایک ذریعہ ہے اسلام کے خاتمے کا۔‘‘
’’بہت وقت چاہیے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ کئی سال لگ جائیں گے دونوں قوموں کو قریب لاتے۔ ہمارے دانشمند بزرگ کہہ گئے ہیں کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار بنا دو اور جو کردار سے دستبردار نہیں ہوتا اسے ایسے خفیہ طریقے سے قتل کردو کہ قاتل کا سراغ نہ ملے۔‘‘
’’کس کس کو قتل کرو گے؟‘‘ ایک اور نصرانی بولا۔’’ ابو بکر کو میں نے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا ہے‘ وہ اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ دنیا سے جلد ہی اُٹھ جائے گا۔ اسے قتل کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اگر اس کے بعد ابن الخطاب آگیا تو مسلمانوں کا محاذ او ر مضبوط ہو جائے گااور اسلام شام کی سرحدوں سے بھی آگے نکل جائے گا۔ میں نے جو جاسوسی کرائی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا پہلا خلیفہ ابو بکر خالد بن ولید کو دمشق کی طرف روانہ کر رہا ہے۔‘‘
’’خالد بن ولید کی بات کرتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ دعا کرو کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب کو مل جائے۔ ان کے آپس میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ خالد بن ولید، ابن خطاب کے ہاتھوں گمنامی میں چلا جائے گا۔‘‘
’’میں نہیں مانتا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’میں اس وقت مدینہ میں تھا جب عمر کے اُکسانے پر ابو بکر نے خالد بن ولید کو بطاح سے بلایا تھا کیونکہ اس نے ارتداد کے ایک قائد مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی انتہائی خوبصورت بیوی کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ خالد بن ولید جب مدینہ پہنچا تو سیدھا مسجد میں گیا۔عمر وہیں تھا۔ ابن الولید کو دیکھتے ہی عمر اس پر برس پڑا اور اس قدر لعن طعن کی کہ جو بیٹا باپ کی بھی برداشت نہ کر سکے۔ لیکن خالد نے برداشت سے کام لیا کیونکہ عمر اُس سے بڑا تھا اور ابن الولید اسلام کی تعلیمات کا پابند تھا۔ اُس نے اپنی بے عزتی برداشت کر لی لیکن عمر کی عزت رکھ لی۔ اس قوم میں یہ جو خوبی پیدا ہو گئی ہے اسے ختم کرنا محال نظر آتا ہے۔‘‘
’’کیا تم کوئی آسان کام کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اسی محال کو ہم نے آسان کرنا ہے ، باتیں بہت ہو چکی ہیں۔ بہت دنوں سے ہم باتیں ہی کیے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اپنے سینے پر لکھ لو کہ اسلام کی بیخ کنی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کام ہم میدانِ جنگ میں نہیں کر سکتے نہ فوجیں اسلام کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں…… میں کہہ رہا تھا کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار اور بد دیانت بنا دو۔‘‘
’’لیکن کیسے؟ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میرا نظریہ بھی یہی ہے کہ ان باتوں کی بجائے کوئی عمل کیا جائے۔‘‘
’’کردار میں بدی خوبصورت عورت سے پیدا ہوتی ہے یا شراب سے۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ مسلمان شراب نہیں پیتے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا تھا کہ ایک روز ان کے رسول(ﷺ) نے اعلان کیا کہ آج سے شراب حرام ہے تو پانی کی طرح شراب پینے والے اہل ِاسلام نے اسی وقت شراب کے مٹکے اور شراب کی صراحیاں باہر گلیوں میں انڈیل دی تھیں۔وہ پیالے توڑ دیئے تھے جس میں وہ شراب پیتے تھے…… ہم تو یہودی ہیں ،شراب نہیں پیتے۔ ان نصرانی بھائیوں سے پوچھو جو شراب کے رسیا ہیں ۔انہیں کہو کہ شراب کی یہ صراحی اور اپنے سامنے رکھے ہوئے جام اٹھاکر باہر پھینک دیں تو یہ ہنس کر ٹال دیں گے۔ یا یہ کہہ دیں گے کہ ایک دو دنوں بعد ہم شراب سے توبہ کرلیں گے۔ یہ توبہ نہیں کریں گے ۔لیکن مسلمانوں نے آنِ واحد میں توبہ کر کے دکھا دی اور شراب کو اُمّ الخبائث قرار دے دیا۔‘‘
ابو سلمیٰ اس طرح ہنسا جیسے اس کے سامنے بیٹھے ہوئے یہ آدمی کم عقل اور طفلانِ مکتب ہوں۔
’’مسلمانوں نے شراب چھوڑ دی ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ عورت کا نشہ برقرار رکھا ہے۔ ایک ایک آدمی خصوصاً سرداروں نے کئی کئی بیویاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ خوبصورت اور جوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ نہ بھولو کہ خوبصورت اور جوان لڑکی ایک ایسی طاقت ہے جس نے بڑے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہوں کے تاج اپنے قدموں میں رکھ لئے ہیں۔ ہم مرد کی اس کمزوری کو استعمال کریں گے…… اور یہ بھی دماغ میں بٹھا لو کہ جولذت بدی میں ہوتی ہے وہ نیکی میں نہیں ہوتی۔ مسلمان اپنے رسول (ﷺ)کے اس وعدے پر نیک اور پاک ہو گئے ہیں کہ اگلے جہان انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جہاں حسن و جمال والی حوریں ملیں گی اور شہد سے میٹھی شراب ملے گی۔ ہم ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دیں گے۔‘‘
’’بات آپ کی ہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ایک اور نصرانی نے کہا۔’’ لیکن مسلمانوں پر جنگ و جدل کا جنون طاری ہو چکا ہے ۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ جیسے ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہ ہو۔ کرنا ہے تو یوں کریں کہ یہودیوں اور نصرانیوں کو تیار کریں کہ وہ ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے ان کی فوج میں شامل ہو جائیں اور میدانِ جنگ میں اُنہیں دھوکا دیں اور ان کی شکست کا باعث بنیں ۔لیکن مجھے یہ کام کچھ آسان نظر نہیں آتا کیونکہ ان مسلمانوں میں صرف جوشِ جہاد اور شوق ِشہادت ہی نہیں بلکہ ان پر جہاد کا جنون طاری ہے۔ میدان ِجنگ میں اگر ان کا آدھے سے زیادہ لشکر مارا جائے تو باقی لشکر بھاگتا نہیں بلکہ پہلے سے دگنی طاقت استعمال کر کے اپنے مرے ہوئے آدھے لشکر کی کمی پوری کر دیتا ہے۔‘‘
’’یہ کام بھی وقت طلب ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ یہ بھی آگے چل کر کریں گے ۔یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے کئی آدمی مسلمانوں میں نظریاتی تخریب کاری میں مصروف ہیں ۔ مسلمان اپنے رسول(ﷺ) کی احادیث کے شیدائی ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ اُنہیں کہیں سے پتا چلتا ہے کہ محمد(ﷺ) نے یہ بات کہی تھی تو لوگ فوراً لکھ لیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے یہ آدمی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ مسلمانوں میں من گھڑت احادیث مشہور کر رہے ہیں اور لوگوں نے اُنہیں صحیح احادیث میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے بنی اسرائیل کے کچھ پڑھے لکھے آدمیوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ قرآن کا مطالعہ کریں اور دور دراز کے مقامات پر جا کر مسجدوں کے امام بن جائیں اور مسلمانوں کے ذہنوں میں قرآن کی غلط تفسیریں ڈالیں۔ ہم یہ محاذ کبھی کا کھول چکے ہیں۔ اب ہم عورت کو استعمال کریں گے ۔تم جانتے ہو کہ ساتھ والے خیمے میں جو تین لڑکیاں ہیں ہم انہیں تیار کر چکے ہیں ۔ میں آج تمہیں یہی بتانا چاہتا تھا کہ یہ مہم فوراً شروع کرنی ہے ۔اس لڑکی کو ابنِ داؤد مسلمان کے روپ میں اپنے ساتھ لے جائے گا…… ذرا ٹھہرو‘ میں اس لڑکی کو یہیں بلاتا ہوں ۔ تم سب اس کے ساتھ باتیں کرکے مجھے یہ بتانا کہ یہ لڑکی یہ کام کر سکے گی یا نہیں اور ہم نے اسے جو تربیت دی ہے وہ اس نے ذہن نشین کر لی ہے یا نہیں۔‘‘
فوراً بعد ایک لمبوترے قد اوربڑے ہی دلکش جسم والی لڑکی خیمے میں داخل ہوئی۔ اس کے نقش و نگار میں مسحور کن جاذبیت تھی اور اس کے چلنے کے انداز میں بھی جادو کا سا اثر تھا۔
’’بنتِ یامین! ‘‘ابو سلمیٰ نے اس لڑکی سے کہا۔’’اس وقت سے تم مسلمان ہو اور تمہارا نام یہی ہو گا۔ تم ایک مسلمان کی بیوی بننے جا رہی ہو۔‘‘
بنتِ یامین نے فوراً وہ چادر جو اس نے کندھوں پر پھیلا رکھی تھی ‘دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اس سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور پھر یہ چادر اس طرح لپیٹ لی کہ اس کا سینہ اور اوپر ناک تک کا جسم ڈھانپا گیا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ پیشانی پر بھی اس نے چادر لے لی تھی اور پھر اس نے سر جھکا لیا۔‘‘
خیمے میں بیٹھے ہوئے ہر آدمی نے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بات کی۔ لڑکی نے ہر سوال اور ہر بات کا موزوں جواب دیا اور جواب دینے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ شرم و حیا سے مری جا رہی ہو۔ پھر اس سے سوال پوچھا گیا کہ ایک مسلمان کی بیوی بن کر وہ کیا کرے گی؟ اس نے جو تربیت حاصل کی تھی اس کے مطابق تفصیلی جواب دیا۔
’’میرے ساتھ زیادہ باتیں نہ کریں۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔’’ آپ کے تمام سوالوں کے جواب میرے عمل سے ملیں گے ‘جس کیلئے میں بالکل تیار ہوں۔‘‘
ابو سلمیٰ نے اسے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائے۔ اس نے فوراً سر سے چادر اتاری اور پہلے کی طرح کندھوں پر پھیلا دی اور وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔
’’کیا خیال ہے؟ ‘‘ابو سلمیٰ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔
’’باتوں کی حد تک لڑکی ہوشیار معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اسحاق نے کہا۔ ’’اس خیمے میں تو ہمیں اس نے ہمیں مطمئن کر دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کے خیمے میں جا کر یہ کیا کرے گی یا کیا کر سکے گی۔‘‘
’’اتنی حسین لڑکی کسی بھی مسلمان پر جادو کی طرح چھا سکتی ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’ہمیں تمہاری ہر بات سے اتفاق ہے ابو سلمیٰ!‘‘ ایک نصرانی نے کہا۔’’ ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں ہو نا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پچھلے ناکام تجربوں کو سامنے رکھیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہماری ہر سازش ناکام ہوئی ہے، مجھے خیبر کا معرکہ یاد ہے ۔ مسلمانوں کی قیادت ان کے اپنے ر سول(ﷺ) کے ہاتھ تھی اور مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی ۔ بنی اسرائیل کی ایک عورت زینب بنت الحارث نے جو سلام بن شکم کی بیوی تھی، محمد(ﷺ) کو قتل کر نے کا کتنا اچھا طریقہ آزمایا تھا۔‘‘
اس نصرانی نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد کا واقعہ سنایا۔ اس یہودن نے رسول کریمﷺ کے پاس جا کر عقیدت مندی کا اظہار والہانہ طریقے سے کیا اور عرض کی کہ وہ رسولﷺ کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہتی ہے۔ حضور ﷺنے اس یہودن کی جذباتیت سے متاثر ہو کر دعوت قبول کر لی تھی اور اسی شام اس یہودن کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ بشر ؓبن الباء تھے۔
زینب بنت الحارث نے سالم دنبہ بھونا تھا ۔جو اس نے حضورﷺ کے آگے رکھ کر پوچھا کہ آپﷺکو دنبے کا کون سا حصہ پسند ہے۔ آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ زینب نے دستی کا ٹ کر آپﷺ کے آگے رکھ دی۔ بشر ؓبن الباء نے ایک بوٹی کا ٹ کر منہ میں ڈال لی اور چبانے لگے۔ رسول کریمﷺ نے ایک بوٹی کاٹی اور منہ میں ڈالتے ہی اگل ڈالی ۔فرمایا’’ ابن الباراء! اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘
بشرؓ بن الباراء بوٹی چبا رہے تھے جو انہوں نے اُگل تو دی لیکن زہرلعابِ دہن کے ساتھ حلق میں اتر چکا تھا۔
’’اے یہودن!‘‘ حضورﷺ نے بنتِ الحارث سے فرمایا۔’’ خدا کی قسم! تو نے اس گوشت میں زہر ملایا ہوا ہے۔‘‘
آپﷺ غصے سے اٹھے تو یہودن نے فوراً تسلیم کر لیا کہ اس نے گوشت میں سریع الاثر زہر ملا رکھا ہے۔
’’اے محمد!‘‘ زینب بنت الحارث نے بڑی دلیری سے کہا۔’’ خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔ آج میں ناکام ہوگئی تو کل کوئی اور کامیاب ہو جائے گا۔‘‘
بشرؓ بن الباراء اپنے حلق پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔
رسولﷺ نے زینب بنت الحارث اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم دیا اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا وہ منسوخ فرمایا اور حکم دیا کہ یہودیوں پر اعتماد نہ کیا جائے اور ان کے ہر قول و فعل پر نظر رکھی جائے۔
مؤرخ ابن اسحاق لکھتے ہیں مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ۔ آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ بشر الباراء سے جب وہ آپﷺ کے پاس بیٹھی تھیں فرمایا تھا۔ ’’اُمّ بشر !میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا ۔میں نے گوشت چبایا نہیں اُگل دیا تھا مگر زہر کا ثر آج تک موجود ہے۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ رسولﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔
نصرانی نے یہ واقعہ ابو سلمیٰ ، ابنِ داؤد اور سب کو سنایا۔
’’مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ مجھے اپنے تمام تجربات یاد ہیں جن میں ہم ناکام رہے تھے ۔ مدینہ پر قریش کا حملہ کوئی پرانی بات تو نہیں، مسلمانوں نے مدینہ کے اردگرد خندق کھود ڈالی تھی ۔ بنی اسرائیل مدینہ میں تھے ۔انہوں نے محمدﷺ کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رکھاتھا اور مسلمان ان پر اعتماد کرتے تھے ۔ہم نے اس اعتماد سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی……
مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو اور بچوں کو ایک قلعہ نما مکان میں اکٹھا کر لیا تھا۔ ہمارا ایک آدمی محمد(ﷺ) کے قتل کیلئے رات کے وقت جا رہا تھا ، وہ اس مکان کے قریب رُک گیا تو اسے حسان نے دیکھ لیا اور محمد(ﷺ) کی پھوپھی صفیہ کو بتایا کہ ایک یہودی مشکوک انداز سے کھڑا ہے ۔ وہ بنو قریظہ کا آدمی تھا ، اس کے پاس برچھی تھی……
صفیہ ایک ڈنڈا لے کر باہر نکلیں اور عقب سے اس آدمی کے قریب جا کر للکارا۔ ہمارے آدمی نے گھوم کر دیکھا اور صفیہ پر وار کرنے کیلئے برچھی تانی مگر صفیہ نے فوراً اس کے سر پر ڈنڈا مارا‘ وہ تیورا کر گرا۔ صفیہ نے ڈنڈے کی ضربوں سے اس کی کھوپڑی کچل ڈالی……
ہم نے تو اُن مسلمانوں پر جو مدینہ میں خندق کے اندر کی طرف رات کو سوئے یا بیٹھے ہوئے تھے ، حملہ کرنے کی بھی سوچی تھی لیکن اس آدمی کے قتل سے یہ راز کھل گیا کہ ہماری نیت ٹھیک نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد (ﷺ)کے حکم سے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔‘‘
’’وہ وقت ہمارے لیے زیادہ موزوں تھا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس وقت خالد نے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ عکرمہ اور ابو سفیان بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ یہ تینوں بڑے دلیر اور اثرورسوخ والے آدمی تھے اور خندق کے معرکے میں مدینے کے محاصرے میں شریک تھے۔ لیکن محمد(ﷺ) کی پھوپھی صفیہ نے بنو قریظہ کے اس آدمی کو قتل کیا تو ہمارا منصوبہ بے نقاب ہو گیا……میرے رفیقو! یہ مت سوچو کہ پہلی ہی کوشش کامیاب ہوا کرتی ہے۔ ناکامیاں مل کر کامیابی کی صورت اختیار کیا کرتی ہیں۔ اب ہم نئے منصوبے پر عمل کریں گے۔ بنت ِیامین کو کل بھیج دیں گے۔ میں یہ تمہیں بھی بتا دوں کہ ہم نے ایک مسلمان کو منتخب کر لیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ بنتِ یامین کے ساتھ شادی کر لے گا۔‘‘
جن مسلمان کا یہ یہودی ذکر کر رہا تھا وہ حبیب ابنِ کعب تھا۔ وہ مدینہ میں تجارت کے سلسلے میں جاتا رہتا تھا اور اکابر مسلمانوں کے مقربین میں سے تھا۔ ان دنوں وہ کچھ عرصے کے لئے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا ۔اس کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کسی لاعلاج مرض میں مبتلا تھی۔ اسی کے علاج معالجے کیلئے گاؤں آیا تھا۔اس کا گاؤں مدینہ سے بیس میل کے لگ بھگ دور تھا۔
یہودیوں نے سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا ۔ بنو قریظہ کا ایک یہودی اس گاؤں میں آیا، وہ تجارت کی غرض سے آیا تھا ۔تجارت ہی یہودیوں کا پیشہ تھا ۔ اسے متا چلا کہ مدینہ کا ایک اہم آدمی آج کل اپنے گاؤں آیا ہوا ہے تو اس یہودی نے اس کے ساتھ دوستی پیدا کرلی اور سوچنے لگا کہ اس شخص کو مسلمانوں کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے۔ اس کی ملاقات ابو سلمیٰ سے ہوئی ‘تو ابو سلمیٰ نے یہ منصوبہ بنایا جس پر اب عمل ہو رہا تھا ۔ اس یہودی نے جس نے حبیب ابنِ کعب کے ساتھ دوستی پیدا کی تھی ، حبیب کو ایک شادی کا مشورہ دیا اور اسے یہ بھی کہا کہ وہ اسے ایک بڑی خوبصورت مسلمان لڑکی لا دے گا۔
حبیب شادی کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عرب جسمانی آسودگی اور تعیش کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے ، یہ صحیح نہیں۔ عرب دراصل زیادہ سے زیادہ نرینہ اولاد پیدا کرنے کیلئے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ اس وقت طاقتور اسی کو سمجھا جاتا تھا جس کے بھائی اور بیٹے زیادہ ہوتے تھے۔ حبیب بھی انہی عربوں میں سے تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ جن میں سے ایک کسی لا علاج مرض سے قریب المرگ تھی ۔وہ دوسری شادی کا حاجت مند تھا۔
حبیب کا یہ یہودی دوست اپنا تجارتی مال بیچ کے چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک آدمی چادر میں لپٹی ہوئی ایک جوان لڑکی کو ساتھ لئے اس کے گھر آیا۔ اس نے اپنا نام ابنِ داؤد ہی بتایا۔ اس زمانے میں عرب کے نصرانیوں ،یہودیوں اور مسلمانوں کے نام ایک جیسے ہی ہوا کرتے تھے۔ ابنِ داؤد نے کچھ یہودی تاجروں کا حوالہ دیا۔
’’میں بہت ہی غریب اور لٹا پٹا آدمی ہوں۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میرے قبیلے نے اسلام قبول کرنے پر مجھے مارا پیٹا اور لوٹ بھی لیا ہے اور قبیلے سے نکال بھی دیا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنی اس بیٹی کو وہاں سے چھپا کر لایا ہوں۔ تمہارا دوست میرا بھی دوست ہے۔ میں تو اس کے ہاں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ایک بیوی کی ضرورت ہے ۔ میں اپنی بیٹی کو تمہارے پاس لایا ہوں۔ میں نو مسلم ہوں ۔مجھ پر ایک کرم تو یہ کرو کہ میری بیٹی کو اپنے عقد میں لے لو اور مجھے مدینہ میں کہیں نوکری دلوا دو ۔خواہ یہ کسی سردار کی غلامی میں ہو ۔اگر اپنے لشکر میں بھرتی کرا دو تو ساری عمر دعائیں دوں گا۔‘‘
حبیب نے شادی تو کرنی ہی تھی لیکن جب اس نے ابن ِداؤد کی بپتا سنی تو وہ بغیر سوچے سمجھے شادی کیلئے تیار ہو گیا اور جب اس نے لڑکی کو دیکھا تو اس نے اسی شام نکاح کا فیصلہ کرلیا۔
اگلے روز نکاح خواں کو بلا کر حبیب نے بنت ِیامین کو اپنے عقد میں لے لیا۔
’’ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ تم نے میرے سر سے اتنا بڑا بوجھ اتار پھینکا ہے جس کے نیچے میں اور میری بیٹی کی عصمت کچلی جا رہی تھی۔ میں کچھ دنوں کیلئے جا رہا ہوں۔ اگر تم میرے لیے کوئی ذریعہ معاش پیدا کر سکتے ہو تو مجھے بتاؤ کہ میں واپس یہیں آکر تم سے ملوں یا تمہارے پاس مدینہ آجاؤں۔‘‘
’’اگر تمہارا کوئی اور ٹھکانہ نہیں تو تم میرے پاس رہ سکتے ہو۔ دس بارہ دنوں کے بعد میں مدینہ واپس جا رہاہوں۔ میرے ساتھ چلے چلنا۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں تم پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ میں اب اپنا ٹھکانہ مدینہ میں ہی بناؤں گا۔ جہاں مجھے مسلمانوں کا تحفظ حاصل ہو گا۔‘‘
’’پھر تم دس بارہ دنوں کے بعد مدینہ میرے پاس آجانا۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔
ابنِ داؤد بنتِ یامین کے سر پر باپوں کی طرح پیار کر کے چلا گیا۔
٭
کچھ دنوں بعد وہی نخلستان تھا، اس میں وہی خیمہ تھا ۔ اندر سے اس کی سج دھج وہی تھی اور محفل بھی وہی تھی۔ وہی رقاصہ سازوں اور دف کی سر تال پر تھرک رہی تھی اور صحرا کی ایک اور رات گزرتی جا رہی تھی۔
ابو سلمیٰ کے اشارے پر ساز خاموش ہو گئے ۔ رقاصہ کا تھرکتا جسم ساکت ہو گیا۔ ابو سلمیٰ نے سر کو ہلکی سی جنبش دی تو رقاصہ اور سازندے خیمے سے نکل گئے۔
’’ابنِ داؤد کو آجانا چاہیے تھا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’آتا ہی ہوگا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’ وہ کوئی بچہ تو نہیں، آجائے گا…… اور مجھے امید ہے کہ کچھ کر کے ہی آئے گا…… ہو سکتا ہے صبح آجائے۔‘‘
یہ یہودی اور نصرانی پھر اسلام کی بیخ کنی کی باتیں کرنے لگے۔ ابو سلمیٰ پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ محفل برخاست ہونے ہی لگی تھی کہ گھنٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی جو قریب آتی جا رہی تھی ۔ ابو سلمیٰ چونک اٹھا باقی سب کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔
’’وہ آرہا ہے۔‘‘ بیک وقت دو تین آدمیوں نے کہا۔
ایک نصرانی دوڑتا ہو اباہر نکلا ۔ صحرا کی شفاف چاندنی میں کچھ دور ایک اونٹ چلا آرہا تھا۔ جس پر ایک آدمی سوار تھا ۔ اونٹ کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں جلترنگ کی طرح بج رہی تھیں۔ چھوٹے خیموں میں سے دو تین ملازم بھی باہر نکل آئے تھے۔ نصرانی جو باہر نکلا تھا وہ اونٹ کی طرف دوڑ پڑا۔
’’تم ابنِ داؤد ہی ہو سکتے ہو۔‘‘ نصرانی نے بلند آواز سے کہا۔
’’تو اور کون ہو سکتا ہے۔ ‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔
قریب آکر شتر سوار جو ابنِ داؤد ہی تھا، چلتے اونٹ پر سے کود کر اُترا اور نصرانی سے بغلگیر ہو گیا ۔ ایک ملازم نے آگے ہو کر اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اُسے اُدھر لے گیا جہاں دوسرے اونٹ بندھے ہوئے تھے ۔
’’میں جانتا تھا تم آج رات آجاؤ گے۔‘‘ ابنِ داؤد کے خیمے میں داخل ہوتے ہی ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ آؤ بیٹھو ، کچھ کھا پی لو اور بتاؤ کیا کر آئے ہو۔‘‘
’’کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان ہے جو اتنے خوبصورت اور قیمتی نگینے کو بلا قیمت قبول نہ کرے؟‘‘ ابنِ داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’وہ شخص جس کا نام حبیب ابنِ کعب ہے ، کچھ میری باتوں سے اور کچھ زیادہ تر بنتِ یامین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا تھا۔‘‘
’’آدمی کیسا ہے؟‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’ہمارے کام آجائے گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے جواب دیا۔’’ میں نے ایک غریب اور مظلوم نو مسلم بن کر اس کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ وہ میرے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا ۔میں نے جب اسے کہا کہ میں ذریعہ معاش کی تلاش میں ہوں تو اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مدینہ کے بڑے سے بڑے آدمی سے بھی میں اپنی بات منوا سکتا ہوں…… مختصر بات یہ ہے کہ ابو سلمیٰ!جیسا مجھے بتایا گیا تھا ، وہ ویسا ہی اثر و رسوخ رکھنے والا آدمی ہے اور قبیلوں کے سرداروں تک اسے رسائی حاصل ہے۔‘‘
’’ہم نے بنت ِیامین کے ذریعے اس سے جو کام کرانا ہے ،وہ امید ہے کہ ہو جائے گا۔‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’میں تین چار دنوں کے بعد مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اس نے مجھے کہا ہے کہ اس کے پاس پہنچ جاؤں …… کیا اب ہمیں سو نہیں جانا چاہیے۔ بہت تھک گیا ہوں۔‘‘
’’سو ہی جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔
اور اس طرح محفل برخاست ہو گئی۔
٭
اگلے روز سورج سر پر آرہا تھا۔ کھجور اور دیگر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا جس نے چھاتے جیسا سایہ کر رکھاتھا۔ جدھر سے ہوا آرہی تھی اُدھر ایک قنات درختوں کے تنوں سے بندھی تنی ہوئی تھی۔ اس نے صحرا کی گرم ہوا اور اس کے ساتھ اڑتی ریت کو روکا ہوا تھا۔ اس جھنڈ کے نیچے قالین بچھا ہو اتھا اور ابو سلمیٰ ، ابن داؤد ، اسحاق اور ان کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ نوکر ان کے آگے کھانا چن رہے تھے۔
ایک شتر بان جو اونٹوں کو ذرا پرے لے گیا تھا ، دوڑتا آیا۔
’’آقا!‘‘شتربان نے ابو سلمیٰ کو اطلاع دی۔’’دور ایک گھوڑ سوار نظر آرہا ہے ۔ کوئی عام سا مسافر نہیں لگتا ۔ گھوڑے کی رفتار خاصی تیز ہے اور اس کا رُخ اِدھر ہی ہے۔‘‘
یہ سب اٹھے اور قنات کے اوپر سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ گھوڑا اور سوار صاف نظر نہیں آرہے تھے، تپتی ہوئی ریت سے ایک غیر مرئی سی بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس میں گھوڑے اور سوار کے خدوخال یوں نظر آرہے تھے جیسے جھیل کے ہلتے پانی میں کنارے کے عکس نظر آتے ہیں۔ یہ صرف صحرائی لوگ ہی پہچان سکتے تھے کہ آنے والا گھوڑ سوار ہے یا شتر سوار۔
’’کوئی اپنا ہی ہو گا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اس طرف سے گزرتا ہی کون ہے۔‘‘
وہ دیکھتے رہے، انہیں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ وہ داکو نہیں تھے نا ان کے پاس ڈکیتی کا مال تھا ۔ وہ گھومنے پھرنے والے تاجر تھے جنہیں لٹنے کا ڈر ہو سکتا تھا لیکن ان پر یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی رہزنوں کا خطرناک گروہ ہے۔
 جوں جوں گھوڑا قریب آتا گیا اس کے خدوخال واضح ہوتے چلے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑا شفاف پانی میں ڈوبا ہوا اندر ہی اندر چلا آرہا ہو، تقریباً سو گز فاصلہ رہ گیا تو صاف پتا چلنے لگا کہ یہ گھوڑا ہے اور اس کی پیٹھ پر اس کا سوار ہے ۔ سوار نے بازو اوپر کر کے دائیں بائیں ہلایا جو کہ اشارہ تھا کہ میں تمہارا اپنا آدمی ہوں اور میں خوش ہوں کہ میں نے تمہیں پا لیا ہے۔
ابو سلمیٰ اور اس کے تمام ساتھی قنات کے ایک طرف سے گزر کر گھوڑ سوار کے استقبال کیلئے آگے چلے گئے۔ فاصلہ تھورا رہ گیا تو ابنِ داؤد نے اس کا نام لے کر پکارا۔ اس کا نام موسیٰ تھا، اس نے ایڑ لگا کر گھوڑا دوڑادیا ۔ اور ان لوگوں کے قریب آکر یکلخت روکا تو یوں لگا جیسے گھوڑا گر پڑے گا۔ موسیٰ گھوڑے سے کود کر اترا۔
’’زبردست خبر لایا ہوں۔‘‘ موسیٰ نے کہا۔ ’’ابو بکر مر گیا ہے…… مسلمانوں کا پہلا خلیفہ۔‘‘
قریب آکر موسیٰ نے سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور یہ لوگ اسے قنات کے اندر لے آئے جہاں کھانا رکھا جا چکا تھا۔
’’اگلا خلیفہ عمر ابن الخطاب تو نہیں بن گیا؟ ‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’تو اور کون بنتا؟ ‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ابو بکر نے وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جانشین عمر ابن الخطاب ہو گا۔‘‘
’’یہ بہت برا ہوا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’بڑا ہی ظالم انسان ہے۔ بنی اسرائیل کا تو نام ہی نہیں سننا چاہتا……ابو بکر کب فوت ہوا؟‘‘
’’پرسوں شام غروبِ آفتاب کے وقت ۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں کل ہی آجاتا مگر یہ دیکھنے کیلئے رُک گیا تھا کہ اگلا خلیفہ کون ہو گااور کتنے لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور کون بیعت کرنے سے گریز کرے گا۔‘‘
٭
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات مسلمانوں کیلئے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ ان کی وفات ۲۳جمادی الآخر ۱۳ ھ بمطابق ۲۲ اگست ۶۳۴ ء غروبِ آفتاب کے وقت ہوئی تھی۔مدینے کہ لوگ یہ خبر سنتے ہی گھروں سے نکل آئے۔ عورتیں بھی خلیفہ اولؓ کے گھر کی طرف دوڑ پڑیں۔ ان کی سسکیاں اورہچکیاں نکل رہی تھیں۔ ہر عورت اس طرح غمگین اور ماتم کناں تھی جیسے اس کا باپ فوت ہو گیا ہو۔
ابو بکرصدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہی عمرؓالخطاب کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ عمرفاروقؓ نے اس نامزدگی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا لیکن ابو بکرصدیقؓنے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ عمرؓ کے بغیر ان حالات پر جن میں سلطنت اسلامیہ گھری ہوئی ہے ‘قابو پانے کی صلاحیت اور کسی میں نہیں۔
اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ عمرؓ بڑی ہی روح کش ذہنی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ایک تو ابو بکرصدیقؓ جیسا بزرگ اور مدبر ساتھی رخصت ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ کہ ان کا یہ ساتھی اپنی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے سر پر ڈال گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓنے ابو بکرصدیقؓ کے جنازے کے پاس کھڑے ہو کر یہ کلمات ادا کیے:
’’ اے خلیفہ رسول اﷲ! آپ نے قوم کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے؟ آپ اسے بہت بڑی مصیبت میں چھوڑ کر چلے ہیں ۔ آہ! آپ جدا ہوگئے ۔اب کیسے ملنا ہو گا؟‘‘
ابو بکر صدیقؓنے خلافت کیلئے عمرفاروقؓ کی نامزدگی اپنے طور پر ہی نہیں کر ڈالی تھی ، ذاتی طور پر رسولﷺ نے بھی کبھی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ جس طرح حضورﷺ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرتے تھے اسی طرح ابو بکرصدیقؓ نے بھی وصیت لکھواتے وقت مشورے لیے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے پوچھا تھا کہ عمرؓ کے متعلق ان کی رائے کیا ہے؟
’’خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا تھا۔’’ عمر کے متعلق آپ کی جو رائے ہے ‘وہ اس سے بھی بہتر ہے ، لیکن ان کے مزاج میں سختی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا تھا۔’’ اس کے مزاج میں سختی اس لئے ہے کہ میرا مزاج بہت نرم تھا۔ جب عمر پر ذمہ داری آپڑے گی تو وہ اپنے مزاج میں اس کے مطابق خود ہی تبدیلیاں کر لے گا…… اور ابو محمد! میں نے عمر کو بہت قریب سے جانچا اور پرکھا ہے ۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب میں غصے میں ہوتا تو وہ میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا اور جب میں کسی معاملے میں نرمی برتنے لگتا تو عمر مجھے سختی کا مشورہ دیتا تھا۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے عثمان ؓغنی کو بلایا اور ان سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھا۔
’’ہم سب سے بہتر جاننے والا اﷲ ہے۔‘‘ عثمانؓ غنی نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی۔ ’’میری رائے ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے سعید ؓبن زید ، اسیدؓ بن حضیراور کئی مہاجرین و انصار سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھااور انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ عمرفاروقؓ کو اپنا جانشین نامزد کر رہے ہیں۔
’’میرا فیصلہ کس حد تک صحیح ہے؟‘‘انہوں نے اِن لوگوں سے پوچھا۔
ان سب نے فرداً فرداً جو آراء دیں ‘وہ تقریباً ایک جیسی ہی تھیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ عمرؓ کا مزاج اتنا سخت اور درشت ہے کہ وہ خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ تاریخ کے مطابق طلحہؓ ان سب کی نمائندگی میں ابو بکرصدیقؓ کے پاس گئے تھے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ طلحہ ؓنے ابو بکرصدیقؓ سے کہا۔’’ جب اﷲ آپ سے یہ پوچھے گا کہ رعیت کو کس حال میں کس کے حوالے کر آئے ہو تو آپ کیا جواب دیں گے؟ عمر کو آپ اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے ؟ سوچ لیں۔ جب قوم کو عمر کے ساتھ براہِ راست واسطہ پڑے گا تو اﷲ آپ سے جواب مانگے گا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی عمر باسٹھ برس سے اوپر ہو گئی تھی اور وہ علیل تھے ، قریب المرگ تھے۔ ان کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ اپنی طاقت سے اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ طلحہ ؓکی رائے سن کر غصے سے کانپنے لگے حالانکہ ان کے مزاج میں غصہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اتنا شدید غصہ آجانا ثبوت تھا کہ وہ عمرؓ کو ہی مدبر اور دانشمند سمجھتے ہیں۔
’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے غصے میں کہا۔
ان کے ایک عزیز نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا۔
’’کیا تم مجھے اﷲ سے ڈراتے ہو؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں نامراد ہو کر مروں اگر میں تم پر ایک ظالم کو مسلط کر کے جاؤں اور یہی میرا توشہ آخرت ہو……میں اﷲ سے کہوں گا اے اﷲ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں جو تیرے رسول (ﷺ)کی امت میں سب سے بہتر تھا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی آواز نقاہت کی وجہ سے بہت نحیف تھی جو صرف قریب بیٹھے ہوئے ایک دو آدمی ہی سن سکتے تھے۔
’’اور میری بات سنو طلحہ! ‘‘ابو بکرصدیقؓ نے طلحہ ؓکو اپنے قریب کرکے کہا۔ ’’جو بات میں نے کہی ہے وہ بات اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی سنا دو۔‘‘
طلحہ ؓنے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور ابو بکرصدیقؓ پھر لیٹ گئے۔
٭
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ ابو بکرصدیقؓ اس رات سو نہ سکے۔ یہ صورتِ حال انہیں پریشان کر رہی تھی کہ امت رسولﷺ میں عمرؓ کی خلافت پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ علی الصبح عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی عیادت کو آئے تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ ابو بکر صدیقؓنے رات آنکھوں میں کاٹ دی ہے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے پوچھا۔ ’’رات سو نہ سکنے کا باعث کیا تھا؟‘‘
’’طلحہ اور دوسرے لوگوں کی باتوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے کہا۔’’ میں نے اپنی عقل و دانش کے مطابق خلافت کی ذمہ داری اس شخص کو سونپنی چاہی تھی جو تم میں ہر لحاظ سے سب سے بہتر ہے اور تم لوگ میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر رہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ یہ نازک ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دوں؟یہ جانتے ہوئے کہ اس سے بہتر آدمی موجود نہیں۔‘‘
’’اﷲ آپ پر رحم کرے خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ اپنے دل پراس طرح بوجھ نہ ڈالیں، اس سے تو آپ کی بیماری اور بڑھے گی۔ میں جانتا ہوں کہ رائے دینے والے لوگ دو فریقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو آپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرتا ہے اور وہ آپ کا ہی ساتھ دے گا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس دوسرے فریق کی قیادت وہ شخص کر رہا ہے جو آپ کا مشیر ہے اور آپ کا دوست بھی ہے۔ ہم سب کو پورا پورا اعتماد ہے کہ آپ کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہے اور آپ کا مقصور امت کی فلاح و بہبود اور اصلاح و ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کیلئے ایک عجیب صورت ِحال پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنا فیصلہ ٹھونس بھی سکتے تھے ، لیکن ان کی نظر اس وقت پر تھی جس کا آغاز ان کی وفات کے بعد ہونا تھا ۔ انہوں نے عام لوگوں سے مشورہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا مکان مسجد سے ملحق تھا ۔ اتنی نقاہت کے باوجود بالا خانے پر گئے جس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ مسجد میں نمازی ظہر کی نماز کے بعد موجود رہے۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ خلیفہ ؓان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔ نماز کے بعد ابو بکرصدیقؓ کھڑکی کے سامنے آئے۔ لوگوں نے اوپر دیکھا۔
’’کیا تم اس شخص کو پسند کرو گے جس کو میں جانشین مقرر کروں گا؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے پوچھا۔
’’ہم وہ پسند کریں گے جو آپ کریں گے۔‘‘نمازیوں میں سے کئی ایک کی آوازیں سنائی دیں۔
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا۔’’میں نے بہت ہی غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ میرے بعد خلافت کی ذمہ داری عمر بن الخطاب سنبھالے گا۔ میں نے یہ عظیم منصب اپنی کسی قریبی رشتے دار کو نہیں دیا……میں جو کہہ رہا ہوں وہ غور سے سنو اور اس فیصلے کو قبول کرو کہ میرا جانشین عمر بن الخطاب ہو گا۔‘‘
تقریباً تمام آدمیوں کی آواز سنائی دی۔’’ ہم نے خلیفۃ الرسول(ﷺ) کا کہنا سن لیا اور مان لیا ہے۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے۔
’’اے اﷲ! ‘‘ابو بکر صدیقؓنے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔’’ میں نے عمر کا انتخاب تیرے رسول (ﷺ)کی امت کی بہتری کیلئے کیا ہے اور اس اندیشے سے کہ ان میں اختلاف کے باعث فساد نہ ہو جائے میں نے تیری ذات پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور اے اﷲ! دلوں کا حال تو ہی بہتر جانتا ہے ۔ میں نے ایک طاقتور شخص کو جانشین مقرر کیا ہے اور جو سخت مزاج اس لئے ہے کہ وہ صداقت پسند اور راست رو ہے اور مسلمانوں کی راست روی کا خواہش مند ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ کی یہ دعا سن کر مسجد میں جو لوگ دل میں اختلاف لئے چپ بیٹھے تھے وہ بھی پکار اٹھے کہ ہمیں عمر فاروقؓکی خلافت قبول ہے۔
کھڑکی میں کھڑے ابو بکر صدیقؓکا جسم ڈول رہاتھا۔ اُنہیں سہارا دے کر نیچے لے گئے ۔ ان میں تو اب بولنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی۔ لیکن بستر پر جاتے ہی انہوں نے کہا کہ عمرؓ کو بلاؤ۔
عمرؓ آگئے۔
’’عمر!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’ کیا تم نے میری وصیت سن لی ہے؟‘‘

اگلے روز سورج سر پر آرہا تھا۔ کھجور اور دیگر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا جس نے چھاتے جیسا سایہ کر رکھاتھا۔ جدھر سے ہوا آرہی تھی اُدھر ایک قنات درختوں کے تنوں سے بندھی تنی ہوئی تھی۔ اس نے صحرا کی گرم ہوا اور اس کے ساتھ اڑتی ریت کو روکا ہوا تھا۔ اس جھنڈ کے نیچے قالین بچھا ہو اتھا اور ابو سلمیٰ ، ابن داؤد ، اسحاق اور ان کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ نوکر ان کے آگے کھانا چن رہے تھے۔
ایک شتر بان جو اونٹوں کو ذرا پرے لے گیا تھا ، دوڑتا آیا۔
’’آقا!‘‘شتربان نے ابو سلمیٰ کو اطلاع دی۔’’دور ایک گھوڑ سوار نظر آرہا ہے ۔ کوئی عام سا مسافر نہیں لگتا ۔ گھوڑے کی رفتار خاصی تیز ہے اور اس کا رُخ اِدھر ہی ہے۔‘‘
یہ سب اٹھے اور قنات کے اوپر سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ گھوڑا اور سوار صاف نظر نہیں آرہے تھے، تپتی ہوئی ریت سے ایک غیر مرئی سی بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس میں گھوڑے اور سوار کے خدوخال یوں نظر آرہے تھے جیسے جھیل کے ہلتے پانی میں کنارے کے عکس نظر آتے ہیں۔ یہ صرف صحرائی لوگ ہی پہچان سکتے تھے کہ آنے والا گھوڑ سوار ہے یا شتر سوار۔
’’کوئی اپنا ہی ہو گا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اس طرف سے گزرتا ہی کون ہے۔‘‘
وہ دیکھتے رہے، انہیں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ وہ داکو نہیں تھے نا ان کے پاس ڈکیتی کا مال تھا ۔ وہ گھومنے پھرنے والے تاجر تھے جنہیں لٹنے کا ڈر ہو سکتا تھا لیکن ان پر یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی رہزنوں کا خطرناک گروہ ہے۔
جوں جوں گھوڑا قریب آتا گیا اس کے خدوخال واضح ہوتے چلے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑا شفاف پانی میں ڈوبا ہوا اندر ہی اندر چلا آرہا ہو، تقریباً سو گز فاصلہ رہ گیا تو صاف پتا چلنے لگا کہ یہ گھوڑا ہے اور اس کی پیٹھ پر اس کا سوار ہے ۔ سوار نے بازو اوپر کر کے دائیں بائیں ہلایا جو کہ اشارہ تھا کہ میں تمہارا اپنا آدمی ہوں اور میں خوش ہوں کہ میں نے تمہیں پا لیا ہے۔
ابو سلمیٰ اور اس کے تمام ساتھی قنات کے ایک طرف سے گزر کر گھوڑ سوار کے استقبال کیلئے آگے چلے گئے۔ فاصلہ تھورا رہ گیا تو ابنِ داؤد نے اس کا نام لے کر پکارا۔ اس کا نام موسیٰ تھا، اس نے ایڑ لگا کر گھوڑا دوڑادیا ۔ اور ان لوگوں کے قریب آکر یکلخت روکا تو یوں لگا جیسے گھوڑا گر پڑے گا۔ موسیٰ گھوڑے سے کود کر اترا۔
’’زبردست خبر لایا ہوں۔‘‘ موسیٰ نے کہا۔ ’’ابو بکر مر گیا ہے…… مسلمانوں کا پہلا خلیفہ۔‘‘
قریب آکر موسیٰ نے سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور یہ لوگ اسے قنات کے اندر لے آئے جہاں کھانا رکھا جا چکا تھا۔
’’اگلا خلیفہ عمر ابن الخطاب تو نہیں بن گیا؟ ‘‘اسحاق نے پوچھا۔
’’تو اور کون بنتا؟ ‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ابو بکر نے وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جانشین عمر ابن الخطاب ہو گا۔‘‘
’’یہ بہت برا ہوا۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’بڑا ہی ظالم انسان ہے۔ بنی اسرائیل کا تو نام ہی نہیں سننا چاہتا……ابو بکر کب فوت ہوا؟‘‘
’’پرسوں شام غروبِ آفتاب کے وقت ۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں کل ہی آجاتا مگر یہ دیکھنے کیلئے رُک گیا تھا کہ اگلا خلیفہ کون ہو گااور کتنے لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور کون بیعت کرنے سے گریز کرے گا۔‘‘
٭
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات مسلمانوں کیلئے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ ان کی وفات ۲۳جمادی الآخر ۱۳ ھ بمطابق ۲۲ اگست ۶۳۴ ء غروبِ آفتاب کے وقت ہوئی تھی۔مدینے کہ لوگ یہ خبر سنتے ہی گھروں سے نکل آئے۔ عورتیں بھی خلیفہ اولؓ کے گھر کی طرف دوڑ پڑیں۔ ان کی سسکیاں اورہچکیاں نکل رہی تھیں۔ ہر عورت اس طرح غمگین اور ماتم کناں تھی جیسے اس کا باپ فوت ہو گیا ہو۔
ابو بکرصدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہی عمرؓالخطاب کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ عمرفاروقؓ نے اس نامزدگی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا لیکن ابو بکرصدیقؓنے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ عمرؓ کے بغیر ان حالات پر جن میں سلطنت اسلامیہ گھری ہوئی ہے ‘قابو پانے کی صلاحیت اور کسی میں نہیں۔
اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ عمرؓ بڑی ہی روح کش ذہنی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ایک تو ابو بکرصدیقؓ جیسا بزرگ اور مدبر ساتھی رخصت ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ کہ ان کا یہ ساتھی اپنی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے سر پر ڈال گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓنے ابو بکرصدیقؓ کے جنازے کے پاس کھڑے ہو کر یہ کلمات ادا کیے:
’’ اے خلیفہ رسول اﷲ! آپ نے قوم کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے؟ آپ اسے بہت بڑی مصیبت میں چھوڑ کر چلے ہیں ۔ آہ! آپ جدا ہوگئے ۔اب کیسے ملنا ہو گا؟‘‘
ابو بکر صدیقؓنے خلافت کیلئے عمرفاروقؓ کی نامزدگی اپنے طور پر ہی نہیں کر ڈالی تھی ، ذاتی طور پر رسولﷺ نے بھی کبھی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ جس طرح حضورﷺ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرتے تھے اسی طرح ابو بکرصدیقؓ نے بھی وصیت لکھواتے وقت مشورے لیے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے پوچھا تھا کہ عمرؓ کے متعلق ان کی رائے کیا ہے؟
’’خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا تھا۔’’ عمر کے متعلق آپ کی جو رائے ہے ‘وہ اس سے بھی بہتر ہے ، لیکن ان کے مزاج میں سختی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا تھا۔’’ اس کے مزاج میں سختی اس لئے ہے کہ میرا مزاج بہت نرم تھا۔ جب عمر پر ذمہ داری آپڑے گی تو وہ اپنے مزاج میں اس کے مطابق خود ہی تبدیلیاں کر لے گا…… اور ابو محمد! میں نے عمر کو بہت قریب سے جانچا اور پرکھا ہے ۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب میں غصے میں ہوتا تو وہ میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا اور جب میں کسی معاملے میں نرمی برتنے لگتا تو عمر مجھے سختی کا مشورہ دیتا تھا۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے عثمان ؓغنی کو بلایا اور ان سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھا۔
’’ہم سب سے بہتر جاننے والا اﷲ ہے۔‘‘ عثمانؓ غنی نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی۔ ’’میری رائے ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرصدیقؓ نے سعید ؓبن زید ، اسیدؓ بن حضیراور کئی مہاجرین و انصار سے عمرفاروقؓ کے متعلق پوچھااور انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ عمرفاروقؓ کو اپنا جانشین نامزد کر رہے ہیں۔
’’میرا فیصلہ کس حد تک صحیح ہے؟‘‘انہوں نے اِن لوگوں سے پوچھا۔
ان سب نے فرداً فرداً جو آراء دیں ‘وہ تقریباً ایک جیسی ہی تھیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ عمرؓ کا مزاج اتنا سخت اور درشت ہے کہ وہ خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ تاریخ کے مطابق طلحہؓ ان سب کی نمائندگی میں ابو بکرصدیقؓ کے پاس گئے تھے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ طلحہ ؓنے ابو بکرصدیقؓ سے کہا۔’’ جب اﷲ آپ سے یہ پوچھے گا کہ رعیت کو کس حال میں کس کے حوالے کر آئے ہو تو آپ کیا جواب دیں گے؟ عمر کو آپ اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے ؟ سوچ لیں۔ جب قوم کو عمر کے ساتھ براہِ راست واسطہ پڑے گا تو اﷲ آپ سے جواب مانگے گا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی عمر باسٹھ برس سے اوپر ہو گئی تھی اور وہ علیل تھے ، قریب المرگ تھے۔ ان کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ اپنی طاقت سے اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ طلحہ ؓکی رائے سن کر غصے سے کانپنے لگے حالانکہ ان کے مزاج میں غصہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اتنا شدید غصہ آجانا ثبوت تھا کہ وہ عمرؓ کو ہی مدبر اور دانشمند سمجھتے ہیں۔
’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے غصے میں کہا۔
ان کے ایک عزیز نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا۔
’’کیا تم مجھے اﷲ سے ڈراتے ہو؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں نامراد ہو کر مروں اگر میں تم پر ایک ظالم کو مسلط کر کے جاؤں اور یہی میرا توشہ آخرت ہو……میں اﷲ سے کہوں گا اے اﷲ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں جو تیرے رسول (ﷺ)کی امت میں سب سے بہتر تھا۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کی آواز نقاہت کی وجہ سے بہت نحیف تھی جو صرف قریب بیٹھے ہوئے ایک دو آدمی ہی سن سکتے تھے۔
’’اور میری بات سنو طلحہ! ‘‘ابو بکرصدیقؓ نے طلحہ ؓکو اپنے قریب کرکے کہا۔ ’’جو بات میں نے کہی ہے وہ بات اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی سنا دو۔‘‘
طلحہ ؓنے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور ابو بکرصدیقؓ پھر لیٹ گئے۔
٭
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ ابو بکرصدیقؓ اس رات سو نہ سکے۔ یہ صورتِ حال انہیں پریشان کر رہی تھی کہ امت رسولﷺ میں عمرؓ کی خلافت پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ علی الصبح عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی عیادت کو آئے تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ ابو بکر صدیقؓنے رات آنکھوں میں کاٹ دی ہے۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے پوچھا۔ ’’رات سو نہ سکنے کا باعث کیا تھا؟‘‘
’’طلحہ اور دوسرے لوگوں کی باتوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے ۔‘‘ ابو بکر صدیقؓنے کہا۔’’ میں نے اپنی عقل و دانش کے مطابق خلافت کی ذمہ داری اس شخص کو سونپنی چاہی تھی جو تم میں ہر لحاظ سے سب سے بہتر ہے اور تم لوگ میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر رہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ یہ نازک ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دوں؟یہ جانتے ہوئے کہ اس سے بہتر آدمی موجود نہیں۔‘‘
’’اﷲ آپ پر رحم کرے خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ اپنے دل پراس طرح بوجھ نہ ڈالیں، اس سے تو آپ کی بیماری اور بڑھے گی۔ میں جانتا ہوں کہ رائے دینے والے لوگ دو فریقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو آپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرتا ہے اور وہ آپ کا ہی ساتھ دے گا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس دوسرے فریق کی قیادت وہ شخص کر رہا ہے جو آپ کا مشیر ہے اور آپ کا دوست بھی ہے۔ ہم سب کو پورا پورا اعتماد ہے کہ آپ کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہے اور آپ کا مقصور امت کی فلاح و بہبود اور اصلاح و ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ابو بکرصدیقؓ کیلئے ایک عجیب صورت ِحال پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنا فیصلہ ٹھونس بھی سکتے تھے ، لیکن ان کی نظر اس وقت پر تھی جس کا آغاز ان کی وفات کے بعد ہونا تھا ۔ انہوں نے عام لوگوں سے مشورہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا مکان مسجد سے ملحق تھا ۔ اتنی نقاہت کے باوجود بالا خانے پر گئے جس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ مسجد میں نمازی ظہر کی نماز کے بعد موجود رہے۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ خلیفہ ؓان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔ نماز کے بعد ابو بکرصدیقؓ کھڑکی کے سامنے آئے۔ لوگوں نے اوپر دیکھا۔
’’کیا تم اس شخص کو پسند کرو گے جس کو میں جانشین مقرر کروں گا؟‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے پوچھا۔
’’ہم وہ پسند کریں گے جو آپ کریں گے۔‘‘نمازیوں میں سے کئی ایک کی آوازیں سنائی دیں۔
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو بکرصدیقؓ نے کہا۔’’میں نے بہت ہی غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ میرے بعد خلافت کی ذمہ داری عمر بن الخطاب سنبھالے گا۔ میں نے یہ عظیم منصب اپنی کسی قریبی رشتے دار کو نہیں دیا……میں جو کہہ رہا ہوں وہ غور سے سنو اور اس فیصلے کو قبول کرو کہ میرا جانشین عمر بن الخطاب ہو گا۔‘‘
تقریباً تمام آدمیوں کی آواز سنائی دی۔’’ ہم نے خلیفۃ الرسول(ﷺ) کا کہنا سن لیا اور مان لیا ہے۔‘‘ 
ابو بکرصدیقؓ کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے۔
’’اے اﷲ! ‘‘ابو بکر صدیقؓ نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔’’ میں نے عمر کا انتخاب تیرے رسول (ﷺ)کی امت کی بہتری کیلئے کیا ہے اور اس اندیشے سے کہ ان میں اختلاف کے باعث فساد نہ ہو جائے میں نے تیری ذات پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور اے اﷲ! دلوں کا حال تو ہی بہتر جانتا ہے ۔ میں نے ایک طاقتور شخص کو جانشین مقرر کیا ہے اور جو سخت مزاج اس لئے ہے کہ وہ صداقت پسند اور راست رو ہے اور مسلمانوں کی راست روی کا خواہش مند ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو بکرصدیقؓ کی یہ دعا سن کر مسجد میں جو لوگ دل میں اختلاف لئے چپ بیٹھے تھے وہ بھی پکار اٹھے کہ ہمیں عمر فاروقؓکی خلافت قبول ہے۔
کھڑکی میں کھڑے ابو بکر صدیقؓکا جسم ڈول رہاتھا۔ اُنہیں سہارا دے کر نیچے لے گئے ۔ ان میں تو اب بولنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی۔ لیکن بستر پر جاتے ہی انہوں نے کہا کہ عمرؓ کو بلاؤ۔
عمرؓ آگئے۔
’’عمر!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’ کیا تم نے میری وصیت سن لی ہے؟‘‘
’’سن لی ہے خلیفۃ الرسول(ﷺ)! ‘‘عمر ؓنے کہا۔’’ میں اس قابل تو نہ تھا……‘‘
’’لیکن یہ میرا انتخاب اور میرا فیصلہ ہے عمر!‘‘ ابو بکرؓ نے جھنجھلا کر کہا۔’’ لوگ تمہارے حق میں بھی ہیں اور خلاف بھی ہیں۔ لیکن میں نے اﷲ کی رہنمائی حاصل کر کے یہ ذمہ داری تمہارے کندھوں پر رکھی ہے ۔ اب میں اس کے خلاف کوئی اور بات سننے کیلئے تیار نہیں۔‘‘
’’مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے۔‘‘ عمرؓ نے کہا۔
اُمت پر یہ دن بڑی مشکل کے دن تھے۔ اُدھر عراق اور شام میں رومیوں کے خلاف جنگ جاری تھی جس میں مسلمانوں کی پوزیشن کچھ کمزور ہو گئی تھی۔ صورتِ حال پسپائی والی نظر آرہی تھی ۔ ابو بکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو عراق کے محاذ سے ہٹا کر شام کے محاذ پر بھیج دیا تھا۔ پھر بھی کوئی اچھی خبر سننے میں نہیں آرہی تھی۔ خالدؓ بن ولید کے چلے جانے سے عراق کا محاذ کمزور پڑ گیا تھا ۔خلیفۃ الرسول(ﷺ) سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان محاذوں سے اپنے لشکر واپس بلا لئے جائیں یا ذرا پیچھے ہٹا لیے جائیں۔
’’عمر!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’ لگتا ہے جیسے میں آج ہی دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔میں جو کہتا ہوں اسے غور سے سنو اور میرے بعد اس پر عمل کرنا۔ اگر میں آج ہی مر جاؤں تو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مثنیٰ بن حارثہ کو کچھ لشکر دے کر عراق اورشام کے محاذ پر بھجوا دینا اور اگر رات ہو جائے تو صبح پہلا کام یہی کرنا کہ مثنیٰ کو روانہ کر دینا اور اگر شام کے محاذ پر خالدکو فتح حاصل ہوجائے تو اسے واپس عراق کے محاذ پر بھیج دینا۔‘‘
ابو بکرؓ نے عمرؓ کو اور بھی بہت سی ہدایات دیں جو عمرؓ خاموشی سے سنتے رہے۔ عمرؓ کے ذہن پر دراصل بوجھ یہ تھا کہ خلافت کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری تھی اور انہوں نے خود کبھی بھی اس کی خواہش نہیں کی تھی۔
اسی شام خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ رحلت فرما گئے۔
رات کی تاریکی گہری ہو چکی تھی جب میت کو آخری غسل دیا گیا۔ جس تختے پر رسول اﷲﷺ کا جسدِ مبارک مسجد نبویﷺ میں لے جایا گیا تھا اسی تختے پر ابو بکرؓ کی میت مسجد نبویﷺ میں لے جائی گئی اور انہیں رسول اکرمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
٭
تاریخوں کے مطابق عمر ؓنے ساری رات سوچوں اور خیالوں سے الجھتے گزار دی۔ ایک اضطراب تو یہ تھا کہ صبح لوگ بیعت کیلئے آئیں گے تو کیا تمام لوگ بیعت کر لیں گے؟
صبح عمرؓ مسجد نبویﷺ میں گئے ۔یہ دیکھ کر کہ لوگ بیعت کرنے کیلئے ہجوم کر کے آگئے ہیں، ان کا گزشتہ والا اضطراب ختم ہو گیا۔ بیعت میں ممکنہ اختلافات کا خطرہ عمرؓ یہ محسوس نہیں ک رہے تھے کہ وہ خلیفہ بنیں گے یا نہیں بلکہ اصل اندیشہ جو انہیں پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اگر اختلاف پھیل گیا تو امت میں انتشار اور افتراق پیدا ہو جائے گا ۔جو اسلام کے نا صرف فروغ کیلئے نقصان دہ ہو گا بلکہ اسلام کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
لوگ جوق در جوق آگے بڑھے اور عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے ۔ ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ظہر کی اذان ہوئی۔ عمرؓ نے امامت کے فرائض ادا کیے۔ نماز کے بعد عمرؓ منبر پر کھڑے ہوئے ۔وہ منبر کی اس سیڑھی پر کھڑے تھے جس پر کھڑے ہو کر ابو بکرؓ خطبہ دیا کرتے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ عمر ؓاس سیڑھی سے ایک سیڑھی نیچے آگئے ۔اس پر کھڑے ہو کر پہلے اﷲ کی حمد و ثناء میں چند کلمات کہے پھر رسولﷺ پردرود بھیجا۔ پھر ابو بکرؓ مرحوم کی خوبیاں اور ان کے کارنامے بیان کئے اور اس کے بعد خطبہ شروع کیا۔ یہ خطبہ آج تک تاریخ کے دامن میں لفظ بلفظ محفوظ ہے:
’’اے لوگو! میں تم ہی میں سے ہوں۔ تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ اگر مجھ میں خلیفۃ الرسول(ﷺ) کی حکم عدولی کی جرأت ہوتی تو میں یہ ذمہ داری کبھی قبول نہ کرتا۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ میرے مزاج کی سختی سے ڈرتے ہیں اور میری درشتی کی وجہ سے مجھے پسند نہیں کرتے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمر اس وقت بھی ہم پر سختی کرتارہا ہے جب ہمارے سروں پر رسول اﷲ(ﷺ) کا سایہ موجود تھا اور پھر وہ اس وقت بھی سختی کرتا رہا جب ہمارے اور اس کے درمیان ابو بکر حائل تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہو گا جب ہمارے معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں…… جو کوئی بھی یہ کہتا ہے وہ ٹھیک ہی کہتا ہے۔ مجھے رسول(ﷺ) کی مصا حبت کا شرف حاصل ہے۔ میں رسول(ﷺ) کا غلام اور ایک ادنیٰ نوکر تھا۔ آپ(ﷺ) کی رحمدلی میں آپ(ﷺ) کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ(ﷺ) اﷲ کے فرمان کے مطابق مومنین کیلئے راحت اور رحمت کا سر چشمہ تھے۔ بارگاہ رسالت میں میری حیثیت ایک برہنہ شمشیر کی سی تھی۔ جب رسول اﷲ(ﷺ) چاہتے ‘مجھے نیام میں ڈال لیتے اور جب چاہتے مجھے بے نیام کر دیتے۔ میں رسول اﷲ(ﷺ) کی بارگاہ میں اسی حیثیت میں رہا۔ اس دن تک جس دن اﷲ نے آپ (ﷺ)کو یاد فرمایا اور اپنے ہاں بلالیا……آنحضور(ﷺ) آخر وقت تک مجھ سے خوش اور مطمئن رہے۔ میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں کہ حضور(ﷺ) مجھ سے خوش رہے اور یہ ایسی سعادت ہے جس پر میں ساری عمر فخر کرتا رہوں گا……
حضور(ﷺ) کے وصال کے بعد آپ (ﷺ)کی خلافت ابو بکر صدیق کے سپرد ہوئی۔ کیا کوئی ابو بکر کے تحمل ، نرمی اور کرم نوازی سے انکار کر سکتا ہے؟میں ابوبکر کا بھی خادم اور معاون رہا۔ میں اپنی سختی کو ابو بکر کی نرم مزاجی میں جذب کردیا کرتا تھا۔ میں ایک برہنہ تلوار تھا جسے ابو بکر نیام میں ڈال لیتے تھے یا کسی بہت ہی ضروری کا م کیلئے مجھے نیام سے نکال کر استعمال کرتے تھے ۔ میں اسی حیثیت میں پوری فرمانبرداری سے ان کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ وہ بھی ہم سے جداہو گئے، اور میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ابو بکر آخر وقت تک مجھ سے خوش او ر مطمئن رہے‘اور اس سعادت پر بھی میں فخر کرتا ہوں……
اور اب اے لوگو! تمہارے معاملات اور دیگر تمام احوال کی ذمہ داری میرے کندھوں پر رکھ دی گئی ہے۔ میں تمہیں یہ باور کرانا چاہوں گا کہ میرے مزاج کی وہ سختی جس سے تم نالاں تھے اب نرمی میں بدل گئی ہے۔ لیکن یہ بھی سن لو کہ ان لوگوں کیلئے میرے مزاج کی سختی قائم رہے گی جو مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو امن و امان سے رہتے اور جرأتِ ایمانی رکھتے ہیں ان کیلئے میں بہت زیادہ نرم ہوں گا اور اگر کوئی کسی پر ظلم کرے گا تو میں اس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا ایک رخسار زمین پر نہ ٹکا دوں اور دوسرے رخسار پر اپناپاؤں نہ رکھ دوں۔ تا آنکہ وہ حق کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ لیکن اس قدر سختی کے باوجود اہل ِعفاف اور اہلِ کفاف کیلئے میں اپنا رخسار میں خود زمین پر رکھ دوں گا……
اے لوگو! مجھ پر جو تمہارے حقوق ہیں وہ مجھ سے لو، میں یہ حقوق بیان کر دیتا ہوں۔
مجھ پر تمہارا ایک حق یہ ہے کہ تمہارے خراج اور اس غنیمت میں سے جو اﷲ تمہیں عطا کرے، میں کوئی چیز نا حق نہ لوں۔ مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ جب تم میں سے کوئی میرے پاس آئے تو مجھ سے اپنا حق وصول کر کے لے جائے۔ مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہارے عطیات اور وظائف میں اضافہ کروں اور تمہاری سرحدوں کو اتنا مستحکم کروں کہ دین کے دشمن اِدھر کا رخ نہ کر سکیں‘ اور مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں اور محاذ سے تمہیں گھر واپس آنے سے نہ روکے رکھوں اور جب تم کسی محاذ پر لڑنے جاؤ تو ایک باپ کی طرح تمہارے اہل و عیال کی دیکھ بھال کروں……
اے اﷲ کے بندو! اﷲ سے ڈرو۔ میرے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اختیار کرو اور میرے ساتھ تعاون کرو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں میری مدد کرو اور تمہاری جو خدمات اﷲ نے میرے سپرد کی ہیں، ان کے متعلق مجھے نصیحت کرو۔ میں تم سے یہ بات کہہ رہا ہوں اور اپنے اور تمہارے لئے اﷲ سے مغفرت طلب کر رہا ہوں۔‘‘
ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرؓ نے یہ خطبہ نماز سے پہلے دیا تھا اور اس کے بعد نماز پڑھائی تھی۔ بہر حال لوگوں کے دلوں میں عمرؓ کی مزاجی سختی اور درشتی کا جو خوف سا بیٹھا ہو اتھا وہ بالکل اتر گیا۔ مستند مؤرخ لکھتے ہیں کہ عمر ؓتو خطبے کے بعد مسجد سے چلے گئے لیکن لوگ مسجد میں بیٹھے یا باہر کھڑے ان کے خطبے پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ زیادہ تر یہ بات سنائی دی کہ عمر ؓکا ظاہر و باطن ایک ہے اور عمرؓ سختی اور درشتی کے باوجود ایک انصاف پسند انسان ہے۔
نخلستان میں موسیٰ اپنے گروہ کے سردار ابو سلمیٰ اور دیگر ساتھیوں کو ابو بکرؓ کی وفات اور عمرؓ کی خلافت کی تفصیل سنا رہا تھا۔ پھر سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔
’’اب یہ بتاؤ موسیٰ! ‘‘ابو سلمیٰ نے کھانے کے بعد موسیٰ سے پوچھا۔’’ تم دو دن وہاں گزار کر آئے ہو، وہاں تم نے لوگوں کا رد عمل اور رویہ دیکھا ہو گا۔‘‘
’’ہاں ابو سلمیٰ!‘‘موسیٰ نے کہا۔’’ میں نے یہ تفصیل سنانی ہی تھی، اس میں سب سے زیادہ ضروری عمر کا خطبہ ہے جو اس نے مسجد میں دیا تھا۔ میں خود مسجد میں موجود تھا۔‘‘
موسیٰ نے عمرؓ کا خطبہ لفظ بلفظ سنایا۔
’’اور اس کے مخالفین نے بعد میں کچھ کہا تھا؟‘‘ ابو سلمیٰ نے پوچھا۔ ’’کچھ کیا تھا؟‘‘
’’میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جو عمر کی خلافت کے حق میں نہیں تھے ، وہ بھی اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے جواب دیا۔’’ میں تمہیں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمر کی شخصیت میں ایسارعب اور جلال ہے کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اس کے دشمن کے دل میں بھی اتر جاتا ہے اور وہ اس کی بات کو قبول کر لیتا ہے۔ …… میں رات تک لوگوں میں گھومتا پھرتا رہا اور اپنی رائے اس طرح لوگوں پر ظاہر کرتا رہا کہ کسی کے ساتھ مخالفانہ بات کی اور کسی کے ساتھ عمر کے حق میں ، میں نے دیکھا کہ جو اس کے مخالف تھے وہ اگر اب بھی مخالف ہیں تو بھی انہوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، اور دل کی گہرائیوں سے اسے خلیفہ مان لیا ہے …… ایک صورتِ حال ایسی ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ عراق اورشام کے محاذوں پر مسلمانوں کے لشکر کچھ کمزور پڑ گئے ہیں اور مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو فارسیوں کی جنگی قوت سے خائف ہیں۔‘‘
’’ہاں ۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’ محاذوں کی اس صورتِ حال سے ہم یہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ مدینہ اور گردونواح کے لوگوں میں فارسیوں کا خوف پیدا کریں۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ لوگ محاذ پر جانے سے ہچکچائیں گے ۔ یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی کوئی باقائدہ فوج نہیں نہ ان کے پاس تنخواہ دار سپاہی ہیں ۔ یہ تو جہاد کا اعلان کرتے ہیں اور مسلمان جوق در جوق جہاد کو فرض سمجھتے ہوئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آگے ان سالاروں کی عسکری فہم و فراست ہے کہ وہ ان لوگوں کو فوراً ایک باقاعدہ فوج کی صورت میں منظم کرلیتے ہیں اور ایسے طریقے سے لڑاتے ہیں کہ فتح ان کے قدموں میں آگرتی ہے ۔ ہم لوگوں کو جہاد سے ہٹا سکتے ہیں۔
’’ناممکن۔‘‘ ایک نصرانی بولا۔’’ جہاد کو یہ لوگ مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں ناممکن کو ممکن کر دکھا نا ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور بار بار کہہ چکا ہوں کہ کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا ۔ اسے آسان بنایا جاتا ہے ۔ہم نے مسلمانوں کے خلاف لڑائی نہیں کرنی۔ ہم نے ایک ایسی تلوار سے ان کے عقیدے کوکاٹنا ہے جو نظر نہیں آتی۔‘‘ ابوسلمیٰ نے ابو داؤد سے پوچھا۔’’ حبیب بنت ِیامین کو مدینہ کب لے کر جا رہا ہے؟‘‘
’’کل یا پرسوں۔‘‘
’’تم کل صبح روانہ ہو جاؤ۔‘‘ ابو سلمیٰ نے ابو داؤد سے کہا۔’’ مدینہ پہنچو اور ان دونوں کا انتظار کرو۔ وہ پہنچ جائیں تو ان کے ساتھ رہو، حبیب بھی عمر کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تم بھی اس کے ساتھ رہنا۔ آگے تمہیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے ۔ہمارا تمہارے ساتھ رابطہ رہے گا۔‘‘
٭
حبیب ابنِ کعب اپنی نئی بیوی بنتِ یامین کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا۔ وہاں اس کا اپنا مکان تھا۔ اس مکان سے پتا چلتا تھا کہ وہ صاحبِ حیثیت ہے ۔وہ وہاں پہنچا ہی تھا کہ ابنِ داؤدبھی آگیا۔
’’میں تمہارے پاس زیادہ دن نہیں ٹھہروں گا ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے حبیب سے کہا۔’’ میں اپنی بیٹی کو دیکھنے آیا ہوں۔ تم نے مجھ غریب پر جو کرم کیاہے وہ میں ساری عمر نہیں بھول سکوں گا اور میں اس کا صلہ دینے کے بھی قابل نہیں۔‘‘
’’اور میں نے اگر کرم کیا ہے تو صلہ کی توقع پر نہیں کیا۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’تم مجھے صلہ دے چکے ہو ۔ بنت ِیامین سے قیمتی صلہ اور کیاہو گا …… اور میں امید رکھوں گا کہ یہ میرے ساتھ وفاداری کرے گی۔‘‘
’’میرے باپ نے اپنی بیٹی آپ کے حوالے کی ہے۔‘‘ پاس بیٹھی ہوئی بنت ِیامین نے حبیب سے کہا۔’’ اور میں اپنے جسم کے ساتھ اپنی روح بھی آپ کے حوالے کر چکی ہوں۔ میری وفا کو آپ گھرکی چار دیواری میں نہیں آزما سکیں گے ۔ اگر آپ کبھی جہاد پر گئے تو میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔ میری وفا میدانِ جنگ میں دیکھنا۔‘‘
حبیب ابنِ کعب ہنس پڑا۔ اس ہنسی میں پیار موجزن تھا۔
’’اس کی یہ بات ہنسی میں نہ ٹالو ابنِ کعب!‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ اسے جہاد میں شریک ہونے کابہت ہی شوق ہے۔ میں نے محمد(ﷺ) کے وصال سے چار پانچ چاند پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور میرا سارا قبیلہ میرا دشمن ہو گیا تھا ۔ میں نے تمہیں یہ بات پوری نہیں سنائی تھی ، صرف میری اس بیٹی نے میراساتھ دیا، اور اسلام قبول کر لیاتھا۔ میرے بیٹے بھی میرے دشمن ہو گئے اور میری بیوی بھی مجھ سے الگ ہو گئی ۔ قبیلے والوں نے مجھے بہت مارا پیٹا ۔ میں اپنی اس بیٹی کو ساتھ لے کر اپنے اس دوست کے پاس چلا گیا ۔جس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا تھا ۔وہ یہودی ہے لیکن اس نے میرے ساتھ دوستی نبھائی ۔ اس نے کہا کہ مذہب اپنا اپنا لیکن مذہب دوستی اور محبت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا……
میری یہ بیٹی بنتِ یامین تو دل سے مجھ سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی ۔ اسے محمدﷺ کو دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔میں اسے تین بار حضور (ﷺ)کی زیارت کیلئے مدینہ لایا تھا۔ یہ کہتی تھی کہ مجھے رسول(ﷺ) کی خدمت کیلئے یہیں رہنے دو۔ تم جانتے ہو ابن ِکعب! ہمارے رسول(ﷺ) میری بیٹی کی یہ خواہش کبھی قبول نہ کرتے ۔ آپ(ﷺ) کسی کی خدمت کو قبول نہیں کیا کرتے تھے ۔میں نے اسے کہا کہ اﷲ کے رسول(ﷺ) کی بہترین خدمت یہ ہے کہ آپ(ﷺ) کے بتائے ہوئے راستے پر چلو……
آہ ابنِ کعب! میں اپنی اس بیٹی کی کون کون سی خوبی بیان کروں۔ میں نے اسے کہا کہ اپنے رسول(ﷺ) کے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو اس نے کہا کہ مجھے شہسوار بنا دو۔ مجھے برچھی بازی، نیزہ بازی ، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھاؤ۔ اﷲ کے رسول (ﷺ)کا بتایاہو ابہترین راستہ جہاد ہے۔ میں کفر کے خاتمے کیلئے لڑوں گی اور میں شادی کرنے کے بجائے اپنی زندگی جہاد کیلئے وقف کر دوں گی ، میں اپنے دوست کے گھر میں پناہ لیے ہوئے تھا ۔میں اسے شہسواری کیسے سکھاتا۔‘‘
’’وہ میں سکھا دوں گا۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’ اور ابنِ داؤد! اپنے آپ کو تنہا مجبور اور دوسروں کا محتاج سمجھنا چھوڑ دو۔ میں تمہارے روزگار کا بندوبست کردوں گا۔‘‘
’’خدا کی قسم ! تم اﷲ کے نیک بندوں میں سے ہو ابنِ کعب!‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ لیکن میرے یہودی دوست نے میرے ذریعۂ معاش کا بندوبست کر دیا ہے۔ اب میں نہ اس پر بوجھ بنوں گا نہ تم پر ۔ میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل کرلوں گا۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں گا ابن ِداؤد!‘‘ حبیب نے کہا۔’’اگر تم ایک یہودی کا احسان نہ لیتے تو اچھا تھا۔ کوئی بھی یہودی بہت اچھا آدمی ہو سکتاہے لیکن وہ مسلمان کیلئے اچھا دوست نہیں ہو سکتا۔ یہودی مسلمان کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’ایسی بات نہ کہو ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں نے اسلام کی خاطر اپنا قبیلہ، اپنا گھر، اپنی بیوی اور اپنے چار بیٹے قربان کر دیئے ہیں ۔وہ ایک یہودی کی دوستی تو آسانی سے قربان کر سکتا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں یہودی کی ذہنیت سے واقف نہیں ؟ میں جہاں دیکھوں گا کہ یہودیوں کے ہاتھوں اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اپنے یہودی دوست کے سب احسان بھول کر اسلام کو نقصان سے بچاؤں گا۔‘‘
’’تم شاید یہ نہیں جانتے ابن ِداؤد!‘‘حبیب نے کہا۔’’ یہودیوں نے رسول اﷲ(ﷺ) کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اس صورت ِحال میں کہ رسول اﷲ(ﷺ) نے یہودیوں کے ساتھ معاہدے کر کے انہیں اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تم نے اسلام قبول کیاہے تو میں چاہتاہوں کہ تمہیں یہودیوں کے متعلق بتادوں کہ وہ اسلام کے کتنے خطرناک دشمن ہیں ۔‘‘
’’یہ تومیں ضرور سننا چاہوں گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا ۔’’ میں مدینہ سے بہت دور کا رہنے والا ہوں۔ بہت سی باتوں سے بے خبر ہوں۔‘‘
’’مدینہ میں یہودیوں کے کچھ قبیلے آباد تھے۔‘‘ حبیب ابن ِکعب نے کہا۔’’رسول(ﷺ) نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہودی ایک فتنہ پرداز قوم ہے اور یہ قوم مسلمانوں کی بد ترین دشمن ہے، یہودیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور انہیں دوستوں کی طرح اپنے ساتھ رکھا ۔لیکن انہوں نے غزوۂ بدر کے بعد معاہدے کی خلاف ورزی کی ۔ اس وقت مدینہ کے اندر اور خصوصاً مضافات میں یہودیوں کی اجارہ داری تھی اور ان کی آبادی بھی زیادہ تھی۔ رسول(ﷺ) نے ان کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ مدینہ پر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو یہ یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے اور دشمن کی مدد نہیں کریں گے ۔ اس کے عوض مسلمان یہودیوں کا ہر طرح سے خیال رکھیں گے اور ان کے ساتھ تعاون کریں گے……
پھر جانتے ہو کیا ہوا ابنِ داؤد؟ یہودیوں نے درپردہ قریش مکہ سے رابطہ قائم کر لیا۔یہودیوں کے یہ الفاظ رسول اﷲ(ﷺ) کے کانوں میں پڑے ’قبیلہ لڑنا جانتا ہی نہیں، مسلمان ہم سے لڑتے تو ہم انہیں دکھاتے کہ لڑائی کس طرح لڑی جاتی ہے‘اس کے ساتھ ہی یہودیوں نے اسلام کے خلاف محاذ بنا لیا ۔ ماہ شوال ۲ ہجری میں رسول اﷲ(ﷺ) نے دیکھا کہ یہودیوں نے صلح کا معاہدہ توڑ ڈالا ہے تو آپ(ﷺ) نے یہودیوں کے خلاف جنگی کارروائی کر کے انہیں مدینہ سے نکال دیا، یہودیوں کا یہ قبیلہ بنو قینقاع تھا……
یہودیوں کا دوسرا قبیلہ بنو نضیر تھا۔ چونکہ اس قبیلہ نے معاہدے کا کچھ پاس کیا تھا اس لیے اسے مدینہ میں ہی رہنے دیا گیا۔ دو سال بعد ۴ ہجری میں اس قبیلے کی ذہنیت بھی بے نقاب ہو گئی۔ کوئی ایسا معاملہ یا مسئلہ پیش آگیا جس کے متعلق گفت و شنید کی ضرورت پیش آئی۔ رسول اﷲ(ﷺ) حضرت ابو بکر و عمر کو ساتھ لے کر یہودیوں کے سربراہ کے ہاں گئے ۔ آپ (ﷺ)اس یہودی سربراہ کے ٹھکانے پر پہنچے ہی تھے کہ کسی نے آپ (ﷺ)کو روک لیا اور ایک مکان کی چھت کی جانب اشارہ کیا……
وہ ایک یہودی کا مکان تھا۔ اس کی چھت پر ایک یہودی جس کا نام عمرو بن حجاش تھا، چھپا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک وزنی سل پڑی ہوئی تھی۔ اسے یہودیوں نے یہ کام سونپا تھا کہ جب محمد(ﷺ) اس مکان کے قریب سے گزریں تو آپ (ﷺ)کے سر پر سِل گرا دے ۔ رسول اﷲ(ﷺ) کو اس سازش کی اطلاع ملی تو آپ (ﷺ)وہیں سے واپس آگئے اور یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں۔ بنو نضیر نے نکلنے کی بجائے لڑنے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ حضور(ﷺ) کے حکم سے بنو نضیر کو تیاریوں کی حالت میں پکڑا گیا اور یہودی مدینہ سے نکالے گئے……
ان میں کچھ تو شام چلے گئے اور زیادہ تر خیبر میں جا آباد ہوئے۔ تم نے شاید ان کے سرداروں کے نام سنے ہوں گے ۔سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیّی بن اخطب مشہور یہودی سربراہ تھے، یہ خیبر میں آباد ہوئے اور رسول(ﷺ) سے انتقام لینے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ یہودی سازش کے ماہر ہیں۔ انہوں نے مکہ جا کر قریش مکہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور وہ دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور لوگوں کو مسلمانوں سے یوں خوفزدہ کیا کہ مسلمانوں کو مدینہ میں ہی ختم نہ کیا گیا تو یہ سب کو ختم کر دیں گے……
تم شاید نہیں جانتے ابنِ داؤد! یہودی کا دماغ سازش کے سوا اور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ یہ ایسے پر اثر الفاظ اور انداز سے لوگوں کو اکساتے اور مشتعل کرتے ہیں کہ ہر کوئی یہودی کی بات کو اپنے دل کی آواز سمجھنے لگتا ہے۔ انہوں نے قبیلہ قریش اور دوسرے قبائل کے سامنے اپنی مثال پیش کی کہ یہودی پشت در پشت مدینہ میں رہتے چلے آرہے تھے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ انہوں نے یہودیوں کو گھر سے بے گھر اور وطن سے جلا وطن کر دیا ہے اور مدینہ میں وہی چند ایک یہودی رہ گئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی غلامی قبول کر لی ہے۔‘‘
’’ہاں ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے معصومیت کے لہجے میں کہا۔’’ میں یہودیوں کی ذہنیت اور اسلام دشمنی کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن اتنا نہیں جانتا جتنا کہ تم جانتے ہو۔ یہ باتیں مجھے سناؤ۔ میرا اُٹھنا بیٹھنا یہودیوں کے ساتھ رہتا ہے۔ میں ان کی ہر بات کو سچ مان لیا کرتا ہوں۔‘‘
’’کیا تم ساری باتیں سننا پسند کرو گے؟‘‘ حبیب نے پوچھا۔ ’’اُکتا تو نہیں جاؤ گے۔‘‘
’’نہیں ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں یہ باتیں سننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ان سے زیادہ تو مجھے یہ باتیں سننے کا شوق ہے۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔’’ میں جب اسلام کے کسی دشمن کی بات سنتی ہوں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔میں کہتی ہوں اسے ابھی قتل کر دوں۔ یہودیوں سے مجھے اسی لیے نفرت ہے۔‘‘
’’تم دونوں سننا چاہو یا نہ چاہو۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’میرا دل آج ایسا بھر آیا ہے کہ یہی باتیں کرتے رہنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ باتیں کوئی پرانی باتیں تو نہیں، رسول اﷲ(ﷺ) کے وصال کو ابھی دو سال اور کچھ مہینے ہی گزرے ہیں لیکن حضور (ﷺ)مجھے اپنے سامنے گھومتے پھرتے ، میدانِ جنگ میں گرجتے برستے، مجاہدین کی قیادت کرتے، سالاروں کو ہدایات دیتے نظر آرہے ہیں۔میں نبی(ﷺ) کی قیادت میں جنگ ِخندق میں شامل ہوا تھا۔ تم مدینہ سے دور کے رہنے والے ہو۔ تم نے شاید سنا ہو گا کہ اہل قریش نے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرکے مدینہ پر چڑھائی کر دی تھی۔یہ پانچویں ہجری کا واقعہ ہے ۔ کل کی ہی تو بات ہے۔ ابھی چھ سات سال گزرے ہیں۔‘‘
’’مجھے یاد ہے۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ یہ خبر کچھ عرصے بعد میرے گاؤں تک پہنچی تھی۔ اہلِ قریش ناکام لوٹ گئے تھے۔‘‘
’’ناکام اس لئے لوٹ گئے تھے کہ رسول اﷲ(ﷺ) کے حکم سے مدینہ کے اردگرد خندق کھود دی گئی تھی ۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’یہ ماہ شوال ۵ ہجری (۶۲۷ء) کا واقعہ ہے……میں تمہیں سنا رہا تھاکہ یہودی مدینہ سے نکالے گئے تو انہوں نے قبیلہ قریش کو اور دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ ابو سفیان دس ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑا۔خندق نے انہیں آگے نہ بڑھنے دیا……
اہلِ قریش اور ان کے ساتھ آئے ہوئے دوسرے قبیلے کے لوگوں نے مدینہ کو پورے ایک ماہ محاصرے میں لئے رکھا۔ انہوں نے خندق عبور کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ کر سکے۔ رسول(ﷺ) نے حکم دیا کہ رات کو خندق کے ساتھ ساتھ پہرہ دیا جائے۔ صرف ایک طرف تھوڑے سے حصے میں خندق نہیں تھی ۔ میں اسی طرف تھا۔ دشمن نے اُدھر سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی اور لڑائی بھی ہوئی تھی۔ میں اس لڑائی میں شامل تھا ۔تم نے عرب کے ایک مشہور بہادر آدمی عمرو بن عبدود کا نام سنا ہو گا۔‘‘
’’وہ عمرو بن عبدود جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کی طاقت پانچ سو گھوڑ سواروں کے برابر ہے؟‘‘
’’ہاں ابنِ دااؤد!‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’وہ واقعی بہت بہادر تھا۔ وہ اس معرکے میں حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام کو مدینہ کے اندر ہی ختم کر دے گا لیکن خود ختم ہو گیا…… جی میں آتی ہے کہ اس وقت کی ایک ایک بات سناؤں۔ لیکن میں تمہیں یہودیوں کی فریب کاریاں سنانا چاہتا ہوں……
میں بتا رہا تھا کہ ایک طرف خندق نہیں تھی۔ اس لئے اس طرف سے ہی حملے کا خطرہ تھا۔ہم اس طرف تیار موجود رہتے تھے۔ مدینہ میں ایک کشادہ مکان تھا۔ رسول اﷲ(ﷺ) کے حکم سے ہم نے عورتوں اور بچوں کو اس مکان میں منتقل کر دیا تھا ۔ یہ ان کی حفاظت کا انتظام تھا ۔ ایک رات ایک آدمی کو اس مکان کے ساتھ مشکوک حالت میں آہستہ آہستہ چلتے دیکھا گیا۔اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔ رسول اﷲ(ﷺ) کی پھوپھی صفیہ کو خبر ہوئی تو وہ ایک موٹا ڈنڈا لے کر باہر نکلیں ۔اس آدمی پر انہوں نے عقب سے حملہ کیا اور سر پر ڈنڈے مار مار کر اسے ختم کر دیا۔‘‘
’’کون تھا وہ؟‘‘ بنتِ یامین نے پوچھا۔
’’وہ یہودی تھا۔‘‘ حبیب نے جوا ب دیا۔’’ بنو قریظہ کا آدمی تھا……عام خیال تو یہ تھا کہ وہ رسول(ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا تھا ۔لیکن کچھ دنوں بعد ایک یہودی نے یہ راز کی بات بتائی تھی کہ یہ آدمی بے حد خطرناک سازش کے تحت آیا تھا ۔ وہ ان یہودیوں میں سے تھا جنہیں مدینہ سے نہیں نکالا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے غلامانہ انداز اختیار کر لیا تھا اور مسلمانوں کو اُن پر اعتبار آگیا تھا……
سازش یہ تھی کہ یہودی اس مکان میں چلا جائے گا ۔جس میں ہماری عورتیں اور بچے تھے اور یہ ان پر برچھیوں سے حملہ کر دے گا۔ عورتوں اور بچوں نے شوروغل مچانا تھا اور ان میں بھگدڑ بھی بپا ہونی تھی۔ ظاہر ہے ہم سب نے اُدھر دوڑے جانا تھا ۔اس صورتِ حال میں قبیلہ قریش اور دیگر قبیلوں نے راستہ صاف دیکھ کر حملہ کرنا تھا۔ لیکن یہ یہودی پہلے ہی مارا گیا اور دشمنوں کی سازش ناکام ہو گئی۔ تمام حملہ آور قبیلے مایوسی کے عالم میں واپس چلے گئے……
قبیلہ قریش اور ان کے حامی قبیلے تو ہار مان گئے لیکن یہودی شیطانیت کی علمبردار قوم ہے اور ہار نہ ماننا شیطان کی خصلت ہے۔ وہ بدی کو دل سے نکلنے نہیں دیتا۔ یہودیوں کے تین سربراہ سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیّی بن اخطب مدینہ سے خیبر چلے گئے۔ جہاں مدینہ کے یہودی جاکر آباد ہوئے تھے۔ ان تین یہودیوں نے ایک عرب قبیلے بنو سعد کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ انہوں نے ایسے ایسے انداز اختیار کیے کہ بنو سعد ان کے جھانسے میں آگئے اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے……
یہ خندق کے معرکے کے ایک سال بعد کا واقعہ ہے۔ خیبر کی طرف سے آنے والے ایک تاجر نے مدینہ میں آکر کسی سے ذکر کیا کہ خیبر میں بنو سعد مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ یہ خبر رسول(ﷺ) تک پہنچ گئی۔ حضور(ﷺ) کا یہ اصول تھا کہ دشمن تمہارے خلاف تیاری کر رہا ہو تو اسے تیاری کی حالت میں اس کے گھر جا پکڑو۔ اپنے گھر بیٹھے اس کا انتظار نہ کرتے رہو۔ چنانچہ آپ (ﷺ)نے حضرت علی کو بنو سعد پر حملے کیلئے بھیجا۔ بنو سعد کو اس حملے کی توقع نہیں تھی۔ حضرت علی کے ساتھ کوئی زیادہ لشکر نہیں تھا۔ لیکن بنو سعد پر حملہ ایسا اچانک تھا کہ وہ بھاگ نکلنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔ حضرت علی مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مدینہ واپس آئے تو ان کے ساتھ بنو سعد کے پانچ سو اونٹ تھے۔
’’کیا تم بھی حضرت علی کے ساتھ گئے تھے؟ ‘‘ابن ِداؤد نے کہا۔
’’نہیں!‘‘ ابنِ کعب نے کہا۔’’ میں دوسرے لشکر کے ساتھ گیا تھا اور یہی خیبر کی اصل لڑائی تھی ۔ میں اس لڑائی کی ساری باتیں نہیں سناؤں گا۔ میں تمہیں یہودی کی اسلام دشمن ذہنیت سے خبردار کر رہا ہوں…… بنت ِیامین !کیا تم ناگن پر اعتبارکر لو گی کہ تمہیں نہیں ڈسے گی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تم ناگن پر اعتبار کر سکتی ہو۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’تم ایک طرف ہو جاؤ گی تو وہ تمہارے قریب سے گز رجائے گی ۔لیکن کسی یہودن پر کبھی اعتبار نہ کرنا۔ اسے جونہی پتا چلے گا کہ تم مسلمان ہو تو وہ تمہیں ڈس لے گی…… بنو سعد کو ان یہودیوں نے بھڑکا کر مسلمانوں سے مروایا تو انہوں نے ایک اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا ۔ یہ تھا قبیلہ بنو غطفان جو بنو سعد سے زیادہ طاقتور تھا ۔ اس قبیلے نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں اور اس کی بھی خبر مدینہ پہنچ گئی……
اب رسول اﷲ(ﷺ) خود خیبر کو روانہ ہوئے ۔ ہجرت کا ساتواں سال شروع ہو چکا تھا۔ میں ان چودہ سو پیادوں کے ساتھ تھا جو خیبر پر حملہ کرنے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ صرف دوسو گھوڑ سوار تھے ۔ یہودیوں نے تھوڑے سے عرصے میں قلعے بنا لیے تھے۔ مجھے ان کے نام یاد ہیں۔ ناعم، قموص، صعب، وطیح، اور سلالم……ان میں وطیح اور سلالم بہت ہی مضبوط قلعے تھے۔ باقی سب قلعے فتح ہو گئے ،لیکن ان دو قلعوں کو فتح کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ تم نے شاید ایک آدمی کا نام نہیں سنا ہو گا۔ یہ عمرو بن عبدود جیسا بہادر آدمی تھا۔ اس کا نام مرحب تھا اور یہ دونوں قلعے اسی کے تھے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ ابنِ داؤد نے جواب دیا۔’’ میں نے اس کا نام کبھی نہیں سنا۔ تم اس کی بہادری کی باتیں سناؤ، مجھے تمہاری باتیں اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘
’’میں تو کہتا ہوں۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’دن ہو یارات ، یہی باتیں سناتا رہوں۔ ہوا یوں کہ رسول اﷲ(ﷺ) نے ابو بکر کو سپہ سالار مقرر کرکے ان دو قلعوں کو فتح کرنے کیلئے بھیجا۔ میں بھی اس لشکر کے ساتھ تھا۔ لشکر کیا تھا چودہ سو پیادے اور دو سو گھوڑ سوار۔ ان میں کچھ زخمی ہو کر بیکار ہو چکے تھے اور چند ایک شہید بھی ہو گئے تھے۔ غطفان کے آدمیوں نے باہر آکر اتنا سخت مقابلہ کیا کہ ہم ہار گئے۔ ہمارے سالار ابو بکر لشکر کو پیچھے لے آئے……
رسول اﷲ(ﷺ) نے حضرت عمر کو سالار مقرر کر کے عَلَم ان کے سپرد کیا۔ حضرت عمر بن الخطاب نے ہمیں دو دن لڑایا مگر میں غطفان والوں کی بہادری کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے قدم نہ جمنے دیئے۔ عمر بھی ناکام لوٹ آئے۔‘‘
’’وہ تو بہت ہی بہادر تھے۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ جنہوں نے مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔وہ یقینا دلیر اور نڈر تھے۔‘‘
’’کچھ وہ دلیر اور نڈر تھے اور کچھ ہم تعداد میں تھوڑے تھے۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔’’ اور ہم پہلی لڑائیوں کے تھکے ہوئے بھی تھے۔ ان کی اصل طاقت مرحب تھا۔ وہ ان کی جرأت اور جاں نثاری کی علامت بنا ہوا تھا۔ ہمارے سالار کہتے تھے کہ مرحب کو مار لیا جائے تو یہ دونوں قلعے لیے جا سکتے ہیں……
ابو بکر اور عمر بن الخطاب جیسے جری اور نامور سالار ناکام ہو گئے تو باقی تمام صحابہ کرام ہتھیاروں کو چمکا کر اور سج دھج کر رسول(ﷺ) کے حضور پیش ہوئے۔ ہر ایک عَلَم اور سپہ سالاری کی التجا کرنے لگا۔ مجھے وہ مسکراہٹ تا قیامت یاد رہے گی جو رسول اﷲ(ﷺ) کے مبارک لبوں پر تھی۔ ان صحابہ کرام میں حضرت علی بھی تھے۔ رسول اکرم(ﷺ) نے علم اٹھایا اور حضرت علی کے ہاتھ میں دے دیا……
عمر نے اس موقع پر کہا کہ میں نے علم اور سالاری کی کبھی خواہش نہیں کی تھی۔ اﷲ نے یہ فخر علی کی قسمت میں لکھ رکھا تھا……علی گئے اور مرحب کو للکارا۔ مرحب اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی وہ مسلمانوں کو پسپا کر دے گا۔ وہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ۔اس کا عَلَم گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی اہلِ غطفان میں بھگدڑ بپا ہو گئی۔ اس طرح وطیح اور سلالم بھی فتح ہو گئے……
یہاں یہودیوں نے ایک اوچھا وار کیا۔ ایک یہودن زینب بنت الحارث نے رسول اﷲ(ﷺ) کو گوشت میں زہر ملا کر پیش کیا۔ حضور(ﷺ) نے پہلی بوٹی منہ میں ڈالتے ہی اُگل دی مگر آپ(ﷺ) کے ساتھ ایک ساتھی صحابی بشر بن الباراء تھے۔ انہوں نے ایک بوٹی کھالی اور وہیں وفات پا گئے……
باتیں بہت ہیں ابنِ داؤد! مگر ہیں بہت لمبی۔ کب تک سنو گے۔ میں تمہیں اور بنت ِیامین کویہودیوں سے خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ یہودی جب تمہیں دھوکا دینے آئے گا تو وہ تم پر ظاہر نہیں ہونے دے گا کہ وہ یہودی ہے۔ وہ زاہد اور پارسا مسلمان کے روپ میں مظلوم بن کر یا تمہارا مونس و غمخوار بن کر آئے گا اور تم اس کے جال میں آجاؤ گے…… کیا اب ہمیں سو نہیں جانا چاہیے؟‘‘
صبح سویرے حبیب اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق نکل گیا۔ وہ کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد مدینہ واپس آیا تھا۔ اس لیے بنتِ یامین اور ابو داؤد سے کہہ گیا تھا کہ وہ شام تک ہی واپس آسکے گا۔
’’ابن داؤد! ‘‘حبیب کے جانے کے بعد بنت ِیامین نے کہا۔’’ کیسا پتھر میرے حوالے کردیا ہے۔ کیا میں اس پتھر کو موم کر سکوں گی؟نہیں……نہیں!‘‘
’’کیوں نہیں؟ ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ پتھروں کو ہی موم کرنا ہے بنتِ یامین! اس شخص کو قتل کرنا ہوتا تو یہ بہت ہی آسان کام تھا۔تم جانتی ہو کہ اس کے ہاتھ سے قتل کروانے ہیں۔‘‘
’’سب سے پہلے ہم دونوں اس کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔ ’’اسے جوں ہی پتا چلا کہ ہم دونوں یہودی ہیں تو یہ مجھے طلاق دے کر گھر سے نہیں نکال دے گا بلکہ مجھے قتل کرکے میری لاش باہر پھینک دے گا۔ پھر تمہیں تلاش کر کے تمہیں قتل کرے گا ۔ کیاتم نے دیکھا نہیں کہ اس کے دل میں یہودیوں کے خلاف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ اس کی اتنی لمبی بات کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہودی اسلام کا بد ترین دشمن ہے اور یہودی کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔‘‘
’’کیا تم سارے سبق بھول گئی ہو؟‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ کیا تم اپنی اصلیت کو چھپا نہیں سکو گی؟کیا تم اسے یقین نہیں دلا سکو گی کہ تم رسول(ﷺ) کی عاشق اور اسلام کی قندیل پر جل کر راکھ ہونے والا پروانہ ہو؟‘‘
’’یہ یقین دلانا تو میں نے شروع کر دیاہے۔‘‘ بنت ِیامین نے کہا۔’’ کیا میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ مجھے جہاد پر جانے کا بے حد شوق ہے؟‘‘
’’تم عقل اور ہوش ٹھکانے رکھ کر اس کے گھر میں رہو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ جتنے دن اس کے پاس اکیلی ہو ‘اسے شیشے میں اتارنے کی کوشش کرو۔ خد ا نے تمہیں حسن دیا ہے۔ ہم نے تمہیں حسن کے استعمال کے طریقے سکھائے ہیں۔ اس کی دو بیویاں ہیں۔ ایک بیوی گاؤں میں بیمار پڑی ہے اور دوسری کو یہ اس کی تیمارداری کیلئے چھوڑ آیا ہے۔ اس تنہائی سے فائدہ اٹھاؤ اور اس پر جادو کی طرح غالب آجاؤ۔‘‘
’’اور تم کیا کرو گے؟ ‘‘بنت ِیامین نے پوچھا۔
’’ضروری نہیں کہ میں تمہیں تفصیل سے بتاؤں کہ میں کیا کروں گا۔‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میرا کام مجھ تک رہنے دو، تم ہر وقت یہ اصول سامنے رکھو کہ ہم یہودی ہیں اور ہمارا ہر قول اور ہر فعل یہودیوں کیلئے وقف ہے…… ایک بات تمہیں بتا دوں۔ یہ تمہیں پہلے بتائی جا چکی ہے‘ وہ یہ کہ نیا خلیفہ عمر فارس کے خلاف لشکر بھیجنا چاہتا ہے لیکن یہاں کے مسلمان فارسیوں سے خائف ہیں اور آگے نہیں آرہے ۔‘‘
’’خائف کیوں ہیں؟ ‘‘بنت ِیامین نے پوچھا۔
’’مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات پیدا کر رکھی ہیں۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ جنگی امور اور مسائل کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ ہم عراق اور شام کے محاذ پر لڑ رہے ہیں اور وہاں رومی اتنا سخت مقابلہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ یہ مسلمان ہیں اور پسپائی کو انتہائی ذلت سمجھتے ہیں۔ ان کی جگہ کسی اور قوم کی فوج ہوتی تو وہ کچھ عرصہ پہلے ہی پسپا ہو چکی ہوتی۔ دانشمند مسلمان کہتے ہیں کہ ان حالات میں ایک اور محاذ نہیں کھولنا چاہیے۔ فارسی رومیوں جیسی بڑی جنگی طاقت ہیں……
یہ تو دانشمندوں کی رائے ہے‘ جو بالکل صحیح ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کو یہ بتایا گیاہے کہ فارسی رومیوں سے زیادہ طاقتور اور خوفناک ہیں ۔ مسلمانوں نے فارسیوں سے لڑائیاں لڑی ہیں اور ہر لڑائی میں فتح حاصل کی ہے ۔لیکن ان کا جانی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ جو زخمی ان لڑائیوں میں سے آئے ہیں وہ بڑی خوفناک باتیں سناتے ہیں ۔ ہم نے یہ کام کرنا ہے کہ مدینہ کے اندراور مضافاتی علاقوں میں مسلمانوں میں مسلمان بن کر فارسیوں کی طاقت اور خونخواری کی ایسی باتیں مشہور کرنی ہیں کہ کوئی مسلمان اس محاذ پر جانے کیلئے تیار ہی نہ ہو۔‘‘
’’اگر انہیں جبراً بھرتی کر لیا گیا تو……‘‘
’’نہیں بیوقوف!‘‘ابن ِداؤد نے بنتِ یامین کو اس سے آگے بولنے نہ دیا اور کہا۔’’ مسلمانوں کی کوئی فوج نہیں ۔ یہ باتیں تمہیں بتائی جا چکی ہیں اور تم بھولتی جا رہی ہو۔ یہ لوگ لشکر اس طرح بناتے ہیں کہ خلیفہ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ فلاں محاذ پر اتنے ہزار آدمیوں کی ضرورت ہے ۔ لوگ فوراً اکٹھے ہو جاتے اور منظم لشکر کی صورت اختیارکر لیتے ہیں۔ ان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ یہ تنخواہ دار ہیں اس لیے محاذ پر نہ جانے یا محاذ سے بھاگ آنے پر انہیں سزا ملے گی۔‘‘
’’میں یہاں عورتوں کو خائف کروں گی۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔
’’تمہارے ساتھ میرا رابطہ رہے گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ دو تین دن تو میں اسی گھر میں رہوں گا ۔ یہاں اپنے دو تین آدمیوں سے ملنا ہے ۔ یہ تو تم جانتی ہو کہ اس مہم میں ہم دونوں ہی نہیں اور بھی آدمی یہی کام کر رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو تربیت دی جا رہی ہے‘ انہیں سر کردہ مسلمانوں کی بیویاں بنایا جائے گا۔‘‘
اسی مدینہ میں جہاں بنی اسرائیل اسلام کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے تھے۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ ذہن اور اعصاب پر ایسابوجھ اٹھائے ہوئے تھے جسے وہی برداشت کر سکتے تھے ۔یہ ان مسائل کا بوجھ تھا جو اُمت ِرسول(ﷺ) کے اتحاد کو پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ عمرؓ کی خلافت کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔اگر کرتے ہیں تو کیا سچے دل سے کرتے ہیں یا رسمی طور پر۔
اس سوال کا جواب عمرؓ کو مل چکا تھا۔ ان کے مخالفین کی کمی نہیں تھی ۔لیکن ان کے پہلے خطبے نے مخالفین پر اچھا اثر کیا تھا۔ ان کے دلوں سے مخالفت نکل گئی تھی۔ایک تو یہ خطبہ تھا جو سب نے سنا اور ذہنوں سے وسوسے نکل گئے لیکن خطبے کے بعد آگے بیٹھے ہوئے لوگوں نے عمرؓ کی زبان سے کچھ اور الفاظ بھی سنے تھے۔
’’خدا کی قسم! ‘‘مسجد سے باہر آکر لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے۔’’ میں نے خلیفہ کو دیکھا ہے‘ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘‘
’’خلیفہ نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔‘‘
’’اور ان کی نظریں آسمان کی طرف تھیں۔‘‘
عمر ؓکی یہ دعا جن لوگوں نے سنی ‘وہ باہر آکر سب کو سنا دی ۔ خطبے کے بعد عمر ؓہاتھ اٹھائے نظریں آسمان کی طرف کیے ہوئے کہہ رہے تھے:
’’یا اﷲ! میں سخت ہوں ‘مجھے نرم کر دے۔ میں کمزور ہوں مجھے قوت عطا کر۔ یا اﷲ میں بخیل ہوں مجھے سخی بنا۔‘‘
پھر آگے بیٹھے ہوئے لوگوں نے جو عمر ؓکی آواز سن سکتے تھے ، باہر آکر سب کو سنایا کہ خلیفہؓ خاموش ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سر جھکا لیا۔ بیٹھے بیٹھے لوگوں کی طرف مڑے ۔ خطبہ ختم ہو چکاتھا جو حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر دیا تھا۔ وہ بیٹھ گئے تو مسجد میں موجود تمام آدمیوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس وقت عمرؓ نے یہ بھی کہا تھا:
’’اﷲ نے میرے دو عظیم رفیقو ں کے بعد مجھے یہ ذمہ داری سونپ کر میرے ساتھ تم سب کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ خدا کی قسم !تمہارا مسئلہ اور جومعاملہ میرے سامنے آئے گا اسے میں ہی سلجھاؤں گا اور جو لوگ اوران کے مسئلے مجھ سے دور ہوں گے‘ ان کی بھی کفایت اور امانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا اور مسئلے مجھ سے کتنی ہی دور ہوئے‘ میں ان تک پہنچوں گا ۔اگر لوگوں نے میرے ساتھ بھلائی کا رویہ رکھا تو میں یقینا ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور جو لوگ برائی سے باز نہیں آئیں گے میں انہیں عبرتناک سزا دوں گا۔
یہ تو ایک مسئلہ تھاجو ایک حد تک حل ہو گیا تھا۔ لوگوں نے مسجد سے باہر آکر خلیفہ عمر ؓکی باتیں سنیں جو وہ ان کی زبان سے نہیں سن سکے تھے‘ تو جن کے دلوں میں کچھ مخالفت باقی رہ گئی تھی انہوں نے بھی دل صاف کر لیے اور عمرؓ کی خلافت کو دل و جان سے تسلیم کر لیا۔
دوسرا مسئلہ جو پہلے بیان ہو چکا ہے وہ محازوں کا تھا۔ شام کے محاذ پر رومیوں نے قدم جما لیے تھے اور مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی۔ سب سے بڑی دشواری یہ پیش آرہی تھی کہ رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی تھی ۔ رومیوں کے ایک نامور جرنیل ہرقل نے بے انداز لشکر اکٹھا کر لیا تھا۔ ادھر تاریخ کے نامور سپہ سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح، عمر ؓبن العاص، یزیدؓ بن ابی سفیان، مثنیٰ بن حارثہ اور خالدؓ بن ولید موجود تھے۔ جنہوں نے کئی معرکوں میں رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے تھے۔ لیکن نفری کی کمی پریشان کرنے لگی تھی۔ خلیفہ اول ابو بکرؓ ابھی زندہ تھے تو محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے اور خلیفہ ؓکو محاذ کی صورتِ حال سے آگاہ کرکے درخواست کی کہ کمک کی ضرورت اتنی شدید ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر فتح ممکن نہیں رہی۔ مثنیٰ اس وقت ابو بکرؓ کے ہاں پہنچے تھے جب وہ بسترِ مرگ پر تھے ۔ انہوںؓ نے اسی وقت حضرت عمرؓ کو بلایا۔
’’ابن ِخطاب! ‘‘ابو بکرؓ نے نحیف سی آواز میں کہا۔’’ ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔ یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر بھیج دے……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو یہ میری وصیت ہے کہ محاذ کو کمک بھیجنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘‘
اسی شام یا ایک دو روز بعد ابو بکر ؓفوت ہو گئے ۔ ان کی وصیت عمرؓ کے سینے پرلکھی ہوئی تھی۔ خلافت کے پہلے خطبے کے بعد عمر ؓنے مسلمانوں سے کہا کہ عراق اور شام کے محاذوں پر مدد کی شدید ضرورت ہے۔ اس لیے لوگ ایک لشکر کی صورت میں منظم ہو کر مثنیٰ کے ساتھ محاذ پر جائیں۔ عمرؓ کو یہ دیکھ کر مایوسی ہو رہی تھی کہ لوگوں میں محاذ پر جانے کیلئے ہچکچاہٹ سی نظر آرہی تھی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں میں کچھ اس قسم کا تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ رومی اور فارسی دو بہت بڑی جنگی طاقتیں ہیں ۔ ان کے ہتھیار بھی بہتر قسم کے ہیں اور ان کی نفری بھی بہت زیادہ ہے۔
مدینے اور گردونواح کے لوگ اس لئے بھی محاذ پر جانے میں پس و پیش کر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی نظر رومیوں کے بجائے فارسیوں پر زیادہ تھی ۔ عمرؓ فارس پر فوج کشی میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور خلیفہ بننے سے پہلے وہ اپنے اس ارادے کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔اس کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ عمرؓ رسول اﷲﷺ کا ایک فرمان پورا کرنے کیلئے بیتاب تھے۔ رسول اﷲﷺ نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو مراسلے روانہ کیے تھے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔اس دعوت نامے کے جواب میں بیشتر بادشاہ خاموش رہے تھے یا کسی ایک آدھ نے طنزیہ سا جواب دے دیا تھا ۔لیکن فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کا جواب سخت توہین آمیز تھا۔ اس کے دربار میں جب رسول کریمﷺ کا قاصد پیغام لے کر گیا تو خسروپرویز نے قاصد کے ہاتھ سے پیغام لے کر پڑھا اور آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے قاصد کی بے عزتی کی اور پیغام پھاڑ کر اس طرح ہوا میں اُچھال دیا کہ اس کے ٹکڑے اس کے دربار میں بکھر گئے۔
قاصد نے واپس آکر رسول کریم ﷺکر بتایا کہ خسرو پرویز نے پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے تھے۔
’’اس کی سلطنت سی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا اور خاموش ہو گئے۔
اب حضرت عمر ؓخلیفہ تھے اور لوگوں کو وہ وقت یاد آرہا تھا جب رسول کریمﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔عمر ؓاس وقت وہاں موجود تھے۔ فارس کے بادشاہ کی اس حرکت پر عمرؓ کو جو غصہ آیاتھا وہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ اب فارس کا بادشاہ خسرو پرویز تو نہیں تھا لیکن عمر ؓفارس کی طاقتور سلطنت کے ٹکڑے کر کے بکھیر دینے کا عزم لیے ہوئے تھے۔
مسلمانوں پر فارسیوں کی کچھ زیادہ ہی دہشت طاری تھی۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ فارسیوں کے پاس ہاتھی تھے جنہیں جنگ کی خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ یہ ہاتھی سندھ سے بھیجے گئے تھے اور ہاتھی بھیجنے والا سندھ کے راجہ داہر کے خاندان کا تھا۔ فارس کی فوج کے ساتھ مسلمانوں کی مختلف محاذوں پر ٹکر ہو ئی تھی۔ مجاہدین نے ہر معرکے میں فارسیوں کو شکست دی تھی ۔لیکن انہیں بہت زیادہ دشواریاں پیش آئی تھیں۔
محاذوں سے جو شدید زخمی واپس آتے تھے خصوصاً وہ جن کے اعضاء کٹ جاتے تھے اُنہیں دیکھ کر لوگ ڈرتے تھے ۔ یہ ڈر اس نوعیت کا نہیں تھا جو بزدلی کی پیداوار ہوتا ہے ، نہ ہی زخمی مجاہدین لوگوں کو آکر ڈراتے تھے۔ وہ ایسے ڈرپوک ہوتے تو محاذوں پر جاتے ہی نہ۔ وہ دراصل شاکی تھے۔ شکوہ یہ تھاکہ اپنی نفری بہت کم تھی اور بیک وقت دو بہت ہی طاقتور بادشاہیوں سے جنگ شروع کر دی گئی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے ایک کو ختم کرکے پھر دوسرے کے ساتھ نبردآزمائی کی جاتی۔
مؤرخ جن میں مصر کے محمد حسنین ہیکل خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓظہر کی نماز کے بعد باہر نکلے تو لوگوں کا ہجوم تھا ۔ عمرؓ نے ایک بار پھر کہا کہ رفیقِ رسول(ﷺ) اور خلیفہ او ل کی وصیت کا احترام کریں اور مثنیٰ بن حارثہ کو مایوس واپس نہ جانے دیں۔ محاذوں کے حالات تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور لوگ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ لوگوں نے کھسر پھسر شروع کر دی اور کچھ ایسی آوازیں بھی سنائی دیں۔’’ جس مصیبت میں ہمارے بھائی گرفتار ہیں ‘کیایہ ضروری ہے کہ ہم بھی اسی مصیبت میں جا پھنسیں؟‘‘
روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو وہ وقت یاد آیا جب حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کو شام پر لشکر کشی کی دعوت دی تھی تو قبیلوں کے سربراہوں پرایسی خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
’’اے مسلمانو!‘‘ حضرت عمر ؓنے اُنہیں یوں خاموش دیکھا تو گرج کر بولے۔’’ ہو کیا گیا ہے تمہیں؟ خلیفۃ الرسول اﷲ(ﷺ) کو تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ تمہیں اس جہاد کی طرف بلا رہے ہیں جو مسلمان کی زندگی ہے اور جس میں موت ابدی زندگی ہے۔‘‘
تب مسلمان آگے بڑھے اور دعوت ِجہاد پر لبیک کہا تھا۔
اب وہی صورت ِحال عمرؓ کی خلافت کے آغاز میں ہی پیدا ہو گئی تھی۔ عمرؓ پریشانی کے عالم میں اپنے گھر چلے گئے۔
حضرت عمرؓ نے وہ رات بھی جاگتے گزاردی ۔وہ اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہے اور اس پریشانی سے نجات حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہے۔اُنہیں پریشانی یہ دیکھ کر ہو رہی تھی کہ سر کردہ افراد جو قائدین کا درجہ رکھتے تھے ‘وہ گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ظاہر ہے کہ قبیلوں کے قائد کسی کام میں پس و پیش کرنے لگیں تو عوام آگے آنے کے بجائے دس قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
صبح عمر ؓنماز کیلئے مسجد میں گئے۔ امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو بیعت کیلئے اُمڈ آیا تھا ۔ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا تھا۔ عمرؓ نے مسجد میں کھانا کھایا اور ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔
حضرت عمرؓ نے امامت کرائی اور نماز سے فارغ ہوتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے ۔
’’اے لوگو !‘‘ حضرت عمرؓ نے بلند آواز میں کہا۔’’ اﷲ تم پر کرم کرے۔ میں خلیفہ کی حیثیت سے پہلا حکم یہ جاری کرتا ہوں کہ جن مرتدین کو تم نے غلام اور لونڈیاں بنا کہ رکھا ہوا ہے‘ انہیں آزاد کر کے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کردو۔ میں اسے بہت برا سمجھوں گا کہ مسلمانوں میں غلامی کی رسم جڑ پکڑ لے۔ اﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘
یہ حکم لوگوں کیلئے غیر متوقع تھا ، اور غیر معمولی طور پر جرأت مندانہ۔ لوگوں نے مرتدین کو اپنی مرضی سے غلام بنا کر نہیں رکھا تھا بلکہ یہ خلیفہ اولؓ کا حکم تھا جو انہوں نے ارتداد کے خلاف جہاد کے آغاز میں ہی دے دیاتھا۔ حکم یہ تھاکہ مرتدین اگر سچے دل سے اسلام قبول کرتے ہیں تو انہیں بخش دیا جائے اور جو کوئی انکار کرے اسے پکڑ لیا جائے اور جو لڑے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس کے گھر کو آگ لگا دی جائے اور اس کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔
یہ حکم بہت ہی سخت اور ظالمانہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں ایسے حکم کم ہی ملتے ہیں لیکن مرتدین کا جرم ایسا گھناؤنا تھا کہ وہ اسی سزا کے حقدار تھے ۔یہ بہت سے قبیلے تھے کہ جنہوں نے رسولﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور انہیں وہ تمام مراعات حاصل ہو گئی تھیں جو مسلمانوں کے حقوق میں شامل تھیں۔ اُنہیں سب سے بڑا اعزاز تو یہ ملا کہ اﷲ کے رسولﷺ کا اعتماد حاصل ہو گیا تھا۔
رسولﷺ رحلت فرما گئے تو اس کے ساتھ ہی بہت سے قبیلوں کے سردار اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ اسلام کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ زکوٰۃ دینے سے صاف انکارکر دیا۔یہی نہیں بلکہ ان میں سے رسالت اور نبوت کے دعویدار بھی اٹھنے لگے۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ زکوٰۃ کے معاملے میں بہت ہی سخت تھے۔ ان کے یہ الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں:
’’اگر یہ لوگ رسول اﷲ(ﷺ) کی خدمت میں اونٹ باندھنے والی صرف ایک رسّی بطور زکوٰۃ دیاکرتے تھے اور اب اس سے انکار کرتے ہیں تو خدا کی قسم !میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
ان لوگوں کا دوسرا جرم تو اور زیادہ سنگین تھا۔انہوں نے خاتم النبینﷺ کے بعد رسول کھڑے کر دیئے تھے ۔ ان کامقصد یہ تھا کہ اسلام کا چہرہ مسخ کرکے اس مذہب کو ختم کر دیا جائے۔ وہ مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے مسلمان ہوئے تھے۔ تخریب کاری کے آغاز کیلئے انہوں نے نہایت موزوں وقت دیکھا‘ یعنی رسول اﷲﷺ کی رحلت کا وقت۔ مرتدین نے سوچا تھا کہ مدینہ ماتم کدہ بنا ہو اہو گا اور مسلمانوں کا حوصلہ اور جذبہ ختم نہ ہو اتو اتنا کمزور ضرور ہو گیا ہو گا کہ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
ابو بکرؓ یہ جرائم معاف کرنے والے نہیں تھے۔انہوں نے خالدؓ بن ولید اور عمروؓ بن العاص جیسے نامور اور تاریخ ساز سالاروں کو مرتدین کی سرکوبی کیلئے بھیجا ۔ ان سالاروں کو خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں بنو اسد، قضاعہ، اور بنو تمیم جیسے طاقتور اور سرکش قبیلوں کو تہ تیغ کر لیا۔
حضرت ابو بکرؓ نے مرتدین کی بیخ کنی کیلئے بڑے ہی سخت احکام جاری کیے تھے ۔ان کے آدمیوں ،عورتوں اور بچوں کو غلام تک بنا لیا تھا ۔لیکن عمر ؓنے حکم جاری کر دیا کہ ان غلاموں کو آزاد کرکے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا جائے۔
مدینہ کے لوگوں کو یہ حکم پسند نہ آیا ۔ مجمع میں مختلف آوازیں ا’ٹھیں ، کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے خلیفہ اولؓ کے حکم سے غلامی میں رکھاتھا ، کسی نے کہا خلیفہ اول ؓکے حکم کی خلاف ورزی ان کی وفات کے بعد اچھا اقدام نہیں۔
مؤرخوں نے مختلف حوالوں سے رائے دی ہے کہ مرتدین نے اپنے عزائم اور مقاصد میں شکست کھائی تو ان میں بہت سے تائب ہو کر سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے ۔جن کو غلام بنا لیا گیا تھا وہ مسلمانوں کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر ان کے وفادار ہو گئے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ لوگ مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ محاذوں پر جانے کیلئے تیار نہیں ہو رہے تو انہوں نے اس توقع پر مرتدین کے غلام آزاد کرانے کا حکم دیا تھا کہ وہ خوش ہو جائیں گے اور ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ دعوت ِجہاد قبول کرکے عراق اور شام کے محاذوں پر چلے جائیں گے۔
بعض مبصروں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓنے کہا تھا کہ مسلمانوں میں غلام رکھنے کی رسم نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اﷲ نے انسان کو آزاد پیداکیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے صرف اس لئے ان غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا تھا کہ مسلمانوں میں غلامی کا رواج پکا نہ ہوجائے، اور دوسرے اس لیے کہ انسان انسان کا غلام نہ رہے۔
لوگ اس حکم پر اعتراض کر رہے تھے ۔ عمرؓ کی جو درشتی مشہور تھی وہ عود کر آئی۔ انہوں نے کہا:
’’عرب کی مثال ایک اونٹ کی سی ہے جسے نکیل پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے ساربان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ یہ دیکھنا ساربان کا فرض ہے کہ وہ اونٹ کو کس طرف لے جاتا ہے۔ رب کعبہ کی قسم !میں عربوں کو راہِ راست پر لا کے چھوڑوں گا۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ نے کسی طرح محسوس کر لیا کہ لوگ فارس کی جنگی طاقت سے خائف ہیں ۔ کسی قبیلے کے سردار نے اس خوف کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
’’ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ ہم فارس پر حملہ کریں۔‘‘ اس سردار نے کہا۔’’ فارس کی جنگی طاقت کو کبھی میدانِ جنگ میں دیکھیں پھر بات کریں۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ سے رہا نہ گیا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ خلیفہ ؓلوگوں سے مخاطب ہیں:
’’اے لوگو!‘‘ مثنیٰ نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔’’ وہ کون سا فارس ہے جس کا خوف تمہارے دلوں میں بیٹھ گیا ہے؟کیا تم نہیں جانتے کہ ہم فارس کی جنگی طاقت سے ٹکر لے چکے ہیں؟ہم نے فارس کے باہر اس کی سلطنت کے ایک بہترین حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم فارسیوں کو کئی لڑائیوں میں شکست دے چکے ہیں۔ ہم نے بابل کے کھنڈرات میں فارسیوں کو شکست دی ہے۔ لیکن یہ مشکل پیش آگئی ہے کہ فارس کے بادشاہ نے اپنی ہاری ہوئی فوج کے لیے کمک بھیج دی ہے۔ مگر ہم کمک سے محروم ہیں۔ کیا تم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ جو مجاہدین شہید ہو گئے ہیں ان کی کمی پوری کر دو؟ تمہارے دل اتنے پتھر کیوں ہو گئے ہیں کہ جو اﷲ کی راہ میں کفر کے خاتمے کیلئے لڑتے ہوئے زخمی چھلنی ہو کر بیکار ہو گئے ہیں۔ ان کی خالی جگہ پُر نہیں کرتے؟ خدا کی قسم‘ مسلما ن کبھی کسی سے نہیں ڈرے…… میں محاذ سے آیا ہوں۔ نفری کی کمی کی وجہ سے ہم قلعہ بند ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے دفاع میں لڑ سکتے ہیں۔ قلعے سے نکل کر پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ کیا تم اس دن کے انتظار میں ہو جس دن تمہارے بھائی اور تمہارے بیٹے محاذ سے بھاگ کر آئیں گے اور تمہیں آکر بتائیں گے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور تڑپتے کراہتے ہوئے زخمی میدان میں چھوڑ آئے ہیں اور وہ فارسیوں کے گھوڑوں تلے روندے جا رہے ہیں۔‘‘
مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ حضرت عمرؓ لوگوں کے چہروں سے ان کے تاثرات اور رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مثنیٰ بولتا جا رہا تھا اور لوگوں کے چہروں کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے ۔ پھر لوگوں میں بے چینی دیکھنے میں آئی۔ عمرؓ نے بھانپ لیا کہ لوگوں میں جذبہ بیدار ہو رہا ہے ۔انہوں نے مثنیٰ کا اثر قبول کر لیا ہے۔حضرت عمر ؓاُٹھ کھڑے ہوئے ۔مثنیٰ بیٹھ گیا۔
’’اے ایمان والو!‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔’’کیا تم حجاز میں ہی قید ہو کر بیٹھ جانا چاہتے ہو؟کیا وہ لوگ تم میں سے نہیں ہیں جو اپنے گھر بار چھوڑ کرکہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں؟وہ اس سر زمین میں پھیل جانے کو چلے ہیں جس کا وعدہ اﷲ نے اپنی کتا ب میں کیا ہے کہ وہ تمہیں اس کا وارث بنائے گا۔ اﷲ تمہارے دین کو دبے دین لوگوں کے دلوں پر غالب کرے گا۔ اﷲ اپنے دین کے پیروکاروں کو دوسری قوموں کی میراث عطا کرنے والا ہے۔خدا کی قسم!تم اﷲ کے وعدوں سے بھاگ رہے ہو۔ فارسیوں کی ہیبت تم پر طاری ہو گئی ہے۔ کیا تم میں اﷲ کے معبود ہونے کی شہادت دینے والا کوئی نہیں رہا؟ کیا تم باطل سے ڈرتے ہو‘ اس لیے حق کی تلوا ر کو بے نیام نہیں کرتے؟‘‘
لوگوں میں کھسر پھسر سنائی دینے لگی جو بلند ہوتے ہوتے اونچی آوازوں کی صورت اختیار کر گئی۔ پھر یہ آوازیں ایک آواز میں سمٹ گئیں۔
’’خدا کی قسم! ہم نے رسول (ﷺ)کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر اﷲ کے دین کو سر بلند کیا اور اسے عرب کی سرحدوں سے باہر لے جا کر پھیلایا۔ وہ کون سی قوم تھی جس نے ہمیں للکارا اور ہم نے اسے نیچا نہیں دکھایا؟ رسول(ﷺ) ہم سے جدا ہو گئے تو ہم نے خلیفہ ابو بکر کی قیادت قبول کی اور ہر حال میں ان کے ساتھ رہے ۔اﷲ نے ہماری مدد کی۔ ہم میں کسی پر کبھی بھی یہ کیفیت طاری نہیں ہوئی تھی جو آج ہو گئی ہے۔ ہمیں کیا ہو گیا کہ اپنے خلیفہ عمر کی دعوت جہاد پر خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘
یہ آواز ابو عبید بن مسعود بن عمرو الثقفی کی تھی۔
’’میں مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ جاؤں گا۔‘‘ ابو عبید بن مسعود نے کہا۔
’’اور میں بھی!‘‘ ایک صحابی سلیطؓ بن قیس نے اٹھ کر کہا۔
اور اس کے بعد لبیک لبیک کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔محاذ پر جانے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ حضرت عمرؓ کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ جہاد پر جانے والے یہ تمام رضا کار مدینہ کے رہنے والے تھے ۔ایک عجیب سوال پیدا ہو گیا۔
’’خلیفۃ الرسول(ﷺ)!‘‘ ایک سرکردہ مدنی نے اُٹھ کر کہا۔’’ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ محاذ پر جانے والوں میں اکثریت مدینہ کے انصار اور مہاجرین کی ہے؟‘‘
’’میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ اور تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟‘‘
’’اس لیے کہی ہے کہ اس لشکر کا سالار کوئی مدنی ہی ہونا چاہیے۔ مدنی نے جواب دیا۔’’ کسی ایسے مہاجر یا انصاری کو اس کمک کی سالاری دیں جس نے پہلے کبھی میدانِ جنگ میں شجاعت دکھائی ہواور وہ صحابہ کرام میں سے ہو۔‘‘
’’نہیں!‘‘ حضرت عمر ؓنے کہا۔ ’’واﷲ میں کسی مدنی یا کسی صحابی کو سالار نہیں بناؤں گا۔ اﷲ نے تمہیں سر بلندی اس لئے عطا فرمائی تھی کہ تم نے دین کے دشمنوں کے سر کچلنے کیلئے ہمت اور شجاعت کے جوہر دکھائے تھے ، مگر میں تین دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے چہروں پر بزدلی لکھی ہوئی تھی۔تم دشمن کے سامنے جانے سے ڈر رہے تھے۔ تو کیا سالاری اور امارت کیلئے اس شخص نے برتری حاصل نہیں کر لی جو اپنے دین کی حفاظت اور فروغ کیلئے سب سے پہلے آگے آیا؟خد اکی قسم! اس لشکر کا امیر یہی شخص ہو گا۔ ابو عبید اٹھو ‘میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا جو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ جا رہا ہے۔‘‘
پھر حضرت عمرؓ نے سعدؓ بن عبید اور سلیطؓ بن قیس کو پکارا۔ وہ دونوں اٹھے۔
’’تم ابو عبید کے بعد بولے تھے کہ تم محاذ پر جاؤ گے۔‘‘ عمرؓ نے کہا۔’’ ابو عبید سے پہلے اٹھتے تو لشکر کے امیر تم ہوتے۔‘‘
’’ابنِ خطاب! ‘‘سلیطؓ بن قیس نے کہا۔’’ بیشک دلوں میں جو کچھ ہے وہ اﷲ جانتا ہے۔ میں جہاد پر امارت کیلئے نہیں‘ اﷲ کی خوشنودی کیلئے جا رہا ہوں۔‘‘
اس کمک کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے مثنیٰ کا مدینہ میں رُکے رہنا مناسب نہ سمجھا۔ محاذوں کی صورتِ حال تشویشناک تھی۔
’’ابنِ حارثہ!‘‘ عمرؓ نے کہا۔’’تم ابھی عراق کو روانہ ہو جاؤ، اور محاذ کو سنبھالو۔ کمک ایک دو دنوں میں جنگ کی تیاری مکمل کرکے روانہ ہوگی۔ ایک ایک ساعت ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہاں انتظار نہ کرو……اور ضروری احتیاط یہ ہے کہ جب تک یہ کمک نہ پہنچ جائے، لڑائی سے گریز کرنا ، کسی بھی طرف پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لینا۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ مسرور اور مطمئن محاذ کو روانہ ہو گیا۔
٭
دو دنوں بعد کمک بھی روانگی کیلئے تیار ہو گئی۔ کسی بھی تاریخ میں اس کی تعداد نہیں لکھی۔یہ تعداد یقینا دو ہزار کے قریب تھی۔
’’ابو عبید!‘‘ حضرت عمرؓ نے بوقت رخصت ابو عبید کو آخری ہدایت دی ۔’’ تمہیں محاذ پر رسول(ﷺ) کے کئی صحابہ کرام ملیں گے ۔وہ جو کہیں گے اس پر عمل کرنا ۔ تم کمک کے اس لشکر کے امیرہو اور محاذ پر جا کر تم اس کے سالار ہو گے۔ کوئی کارروائی اور کوئی فیصلہ صحابہ کرام کے مشورے کے بغیر نہ کرنا۔ جلد بازی سے کام نہ لینا۔ تم بہت بڑی بادشاہی کے خلاف لڑنے جا رہے ہو ۔جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہر صورتِ حال کوٹھنڈے دل سے سوچنے کی اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے……الوداع ابو عبید! اﷲ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ کچھ دور تک اس لشکر کے ساتھ گئے ۔ دور جا کر ابو عبید نے پیچھے دیکھا ۔ مدینے کے باہر اور مکانوں کی چھتوں پر مردوں اور عورتوں کے ہاتھ بلند ہو کر ہل رہے تھے۔
کمک کا مسئلہ حل ہو گیا تو حضرت عمر ؓنے اپنے اس حکم پر توجہ مرکوز کر لی کہ ارتداد کے خلاف جہاد کے دوران جن مرتدین کو غلام بنایا گیا تھا اُنہیں آزاد کر دیا جائے۔ ان غلاموں کے آقا اس حکم پر خوش نہیں تھے۔ لیکن عمرؓ اپنے احکام منوانا جانتے تھے ۔انہوں نے اپنے انتظام کے تحت گھر گھر اپنا یہ حکم پہنچایا کہ غلاموں کو آزاد کر دیا جائے۔
لوگ غلاموں کو آزاد کرنے لگے۔
مدینہ کی ایک چھوٹی سی ایک مضافاتی بستی میں اونٹوں اور گھوڑوں کا ایک تاجر رہتا تھا جس کا نام ابو زبیر تھا۔ دولت مند آدمی تھا۔ وہ تھا تو گھوڑوں کا سوداگر ‘اِدھر اُدھر سے گھوڑے لا کر بیچتا تھا ۔لیکن وہ گھوڑوں کے دوسرے سوداگروں سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ گھوڑوں کو جنگی تربیت بھی دیتا تھا۔ اس کے سدھائے ہوئے گھوڑے میدانِ جنگ کیلئے کارآمد اور قابلِ اعتماد ثابت ہوتے تھے۔
ابو زبیر جو اپنے قبیلے کا ایک سرکردہ فرد تھا۔ میدانِ جنگ کا شہسوار تھا اور تیغ زنی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ رسولﷺ کے وصال کے بعد ارتداد کا فتنہ اٹھا تو خلیفہ اول ابو بکرؓ نے مرتدین کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ ابو زبیر بھی اس جہاد میں شریک ہوا۔ اس وقت اس کی عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی ۔ مجاہدین کے لشکر میں اُسے کوئی عہدہ حاصل نہ تھا ۔اس کی حیثیت ایک سپاہی کی تھی۔
اس نے دو معرکے لڑے تھے ۔وہ ارتداد کے خاتمے تک کا عزم لے کر گیا تھا ۔لیکن اس کے گھوڑے کی آنکھ میں تیر اُتر گیا۔ گھوڑا اتنی زور سے اچھل کر بھاگا کہ ابو زبیر گھوڑے سے گر پڑا ۔ یہ گھمسان کا معرکہ تھا، کسی اور کے گھوڑے کا پاؤں اس کے کولہے پر پڑا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹتا معرکے سے نکل گیا ۔ اس کی مرہم پٹی تو ہو گئی لیکن ٹانگ کے جوڑ میں ایسا نقص پیدا ہو گیا کہ وہ صرف چلنے کے قابل رہ گیا اور وہ بھی آہستہ آہستہ۔
وہ مدینے کے قریب اپنے گاؤں واپس آگیا ۔ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آیا تھا ۔ اس کے ساتھ مرتدین کی ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس عورت کی بیٹی تھی۔ جس کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ اس کے قبیلے کے چند ایک آدمی اس کے ساتھ جہاد میں شریک تھے ۔ابو زبیر زخمی ہو گیا اور مدینہ کو واپس جانے لگا تو اس کے قبیلے کا ایک آدمی اس ادھیڑ عمر عورت اور اس کی نوجوان بیٹی کو ساتھ لیے اس کے پاس آیا ۔
’’یہ مالِ غنیمت ہے ابو زبیر!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ اس کے اہل تم ہی ہو۔ یہ ماں بیٹی لونڈیاں ہیں۔ ہم انہیں کیا کریں گے۔ یہ تم جیسے خوشحال سوداگر کے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں۔‘‘
ابو زبیر کا زخم ٹھیک ہو گیا اور وہ کام کاج کے قابل ہو گیا ۔لیکن میدانِ جنگ کے قابل نہ ہو سکا ۔اب وہ آہستہ آہستہ چلتا تھا ۔اس کی تین بیویاں تھیں جن سے اس کے سات بیٹے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر تیس سال کے قریب تھی۔ باقی بیٹے جوان اور نو جوان تھے ۔اس نے سب بیٹوں کو اپنے پاس بلایا۔
’’میرے بیٹو!‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں مرتدین کے خلاف لڑنے گیا تھا کہ یہ میرا فرض تھا اور میں یہ لونڈیاں اپنے ساتھ لایا ہوں کہ یہ میرا حق ہے۔ لیکن ان پر میرا اور تمہارا ایسا کوئی حق نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی انہیں بغیر نکاح کے بیویاں بنا لے اور میں تم میں سے کسی کو اس نوجوان لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ یہ گھر کا کام کاج کریں گی لیکن ان سے اتنا ہی کام لیا جائے گا جتنا یہ کر سکتی ہیں۔‘‘
ابو زبیر نے لونڈی سے صرف ایک بار کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسلام قبول کرلے تو ماں کی شادی اس کی عمر کے کسی مسلمان سے کر دی جائے گی اور اس کی بیٹی کو وہ اپنی بہو بنا لے گا۔ ابو زبیر اس لڑکی کی شادی اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔
’’ابو زبیر!‘‘ اس عورت نے بڑے ہی پختہ لہجے میں جواب دیا تھا۔’’ میرا جواب ایک ہی بار سن لے۔ میں اسلام قبول نہیں کروں گی۔ تو نے سوچا ہو گا کہ میں تیرے ہاتھوں مجبور اور محتاج ہوں اور تیری ہر بات مان لوں گی۔ نہیں ابو زبیر! تو جانتا ہے کہ میں کسی غریب باپ کی بیٹی نہیں‘ نہ میرا خاوند غریب آدمی تھا۔ وہ قبیلے کے اہم آدمیوں میں سے تھا۔‘‘
’’میں تجھے حکم نہیں دے رہا عاصمہ! ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ جبر نہیں کر رہا، تیرے بھلے کی بات کی ہے۔‘‘
’’حکم دے کے دیکھ لے۔‘‘ عاصمہ نے کہا’’ جبر کرکے دیکھ لے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں میرا خاوند قتل ہوا‘ میرے دو بھائی قتل ہوئے ہیں‘میرا گھر جلا دیا گیا ہے ‘تو بھی اس لڑائی میں شامل تھا ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے خاوند اور بھائیوں کا قاتل تو ہی ہو؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ تو کیا ایسانہیں ہو اکہ تیرے خاوند اور بھائیوں کے ہاتھوں میرے کتنے ہی ساتھی زخمی اور قتل ہوئے ہوں۔ یہ لڑائی تھی عاصمہ! دونوں طرف کے آدمیوں کوزخمی اور قتل ہونا ہی تھا۔ اگر تیرا خاوند قبیلے کے سردار وغیرہ دھوکا نہ دیتے تو تو آج میرے گھر میں لونڈی نہ ہوتی۔‘‘
’’جسے تم لوگ دھوکا کہتے ہو وہ ہمارے بزرگوں کی ایک چال تھی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ ہم اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن دو بدو جنگ کیلئے ہمارے پاس طاقت نہیں تھی۔ ہمارے سرداروں نے یہ چال چلی کہ مسلمان ہو گئے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ تم لوگ ہمیں اپنا سمجھنے لگے اور ہم لوگ در پردہ تمہارے خلاف جنگ کی تیاریاں کرنے لگے ۔ ہمارے بزرگ موزوں موقع ڈھونڈنے لگے۔‘‘
’’اور تم لوگوں کے بزرگوں کو وہ موقع مل گیا۔‘‘ ابو زبیر نے عاصمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ ہمارے رسول(ﷺ) انتقال فرما گئے ۔تمہارے بزرگ اور سردار خوش ہوئے کہ اب مسلمان……‘‘
’’ہاں ابو زبیر!‘‘ عاصمہ درمیان میں بول پڑی۔’’ تو ٹھیک کہتا ہے……تم لوگ جیت گئے ۔لیکن میں اسلام قبول نہیں کروں گی۔ میں اپنے دشمنوں کا مذہب قبول نہیں کروں گی۔ میں تیری لونڈی ہوں۔ میری بیٹی تیری لونڈی ہے۔ ہم دونوں سے تجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ تیری کسی بیوی کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔‘‘
’’اور تجھے اس گھر کے کسی فرد سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’ میرا کوئی بیٹا تیری اتنی خوبصورت بیٹی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا ۔ تیری شادی نہیں ہوئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ تیری بیٹی کی شادی ہو جانی چاہیے ۔‘‘
’’شادی کیلئے میں اسے مسلمان نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میں لڑکی کے باپ کے قاتلوں کو لڑکی نہیں دوں گی۔‘‘
ابو زبیر دیندار مسلمان تھا۔ وہ اس ماں بیٹی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق سلوک کررہا تھا۔ اس نے عاصمہ کی طنزیہ اور جلی کٹی باتوں پر کسی الٹے پلٹے رد عمل کا اظہار نہ کیا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عاصمہ اور اس کی بیٹی کو یہاں آئے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے ، اس کے بعد ابو زبیر نے اسے اسلام قبول کرنے کیلئے کبھی نہیں کہا۔
٭
عاصمہ کو ابو زبیر کے گھر آئے ہوئے دو تین مہینے گزر گئے تھے ۔ وہ ایک روز کسی کام سے اصطبل میں گئی تو ابو زبیر ایک آدمی کو گھوڑے دکھا رہا تھا۔ اس آدمی کی عاصمہ کی طرف پیٹھ تھی۔ یہ شخص گھوڑا خریدنے آیا تھا ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو عاصمہ کو اس کا چہرہ نظر آیا۔ وہ چونک پڑی۔اس شخص کا رد عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔اس کے چہرے پر حیرت کا گہرا تاثر آگیا
 
جاری ہے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔