پرسرار چیخیں


پرسرار چیخیں
عمران سیریز‎ ‎۔۔۔‎ ‎)ابن صفی(

موڈی ایک رومان زدہ نوجوان امریکن تھا۔ مشرق کو بیسویں صدی کے سائنسی دور میں بھی پراسرار سمجھتا تھا۔۔۔ اس نے بچپن سے اب تک خواب ہی دیکھے تھے۔۔۔ دھندلے اور پراسرار خواب۔ جن میں آدمی کا وجود بیک وقت متعدد ہستیاں رکھتا ہے۔۔۔!

بہرحال اس کی سریت پسندی ہی اسے مشرق میں لائی تھی۔۔۔ اس کا باپ امریکہ کا ایک مشہور کروڑ پتی تھا۔۔۔ موڈی بظاہر مشرق میں اسکی تجارت کا نگران بن کر آیا تھا۔۔۔ لیکن مقصد دراصل اپنی سریت پسندی کی تسکینی تھا۔۔۔!

وہ شراب کے نشے میں شہر کے گلی کوچوں میں اپنی کار دوڑاتا پھرتا۔۔۔ ایسے حصوں میں کم از کم ایک با رضرور گزرتا تھا جہاں قدیم اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ہوتی تھیں۔۔۔ شام کا وقت اس کے لئے بہت موزوں ہوتا تھا۔۔۔ سورج کی آخری شعاعیں صدہاسال پرانی عمارتوں کی شکستہ دیواروں پر پڑ کر عجیب سا ماحول پیدا کرتی تھیں۔۔ ۔ اور موڈی کو اپنی روح ان ہی سال خوردہ دیواروں کے گرد منڈلاتی ہوئی محسوس ہوتی۔۔۔

آج بھی وہ عالمگیری سرائے کے علاقے میں اپنی کار دوڑاتا پھررہا تھا۔۔۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔۔۔ دھندلکے کی چادر آہستہ آہستہ فضا پر مسلط ہوتی جا رہی تھی۔

موڈی کی کار ایک سنسان اور پتلی سی گلی سے گزر رہی تھی۔ رفتار اتنی دھیمی تھی کہ ایک بچہ بھی دروازہ کھول کر اندر آسکتا تھا۔

موڈی اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا ہولے ہولے کچھ گنگنا رہا تھا۔۔۔ اچانک کسی نے کار کا پچھلا دروازہ زور سے سو کیا۔۔۔ آواز کے ساتھ ہی موڈی چونک کر مڑا۔ لیکن اندھیرا ہونے کی بنا پر کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوسرے ہی لمحے میں موڈی نے اندر روشنی کردی اور پھر اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ کر رہ گئے۔

"بجھا دو!۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔ بجھا دو!" اس نے ایک کپکپاتی ہوئی آواز سنی۔

موڈی نے غیر ارادی طور پر سوئچ آف کردیا۔۔۔ اندر پھر اندھیرا تھا۔

"مجھے بچاؤ!" پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ لہجہ مشرقی مگر زبان انگریزی تھی۔

"اچھا۔۔۔ اچھا!" موڈی نے بوکھلا کر سرہلاتے ہوئے کہا اور کار فراٹے بھرنے لگی۔۔۔!

کافی دور نکل آنے کے بعد نشے کے باوجود بھی موڈی کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔۔۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ اسے کس طرح بچائے گا۔۔۔ کس چیز سے بچائے گا؟

"میں تمہیں کس طرح بچاؤں؟" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"مجھے کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیجئے۔۔۔ میں خطرے میں ہوں۔"

"کوتوالی۔۔۔!" موڈی نے پوچھا۔

"نہیں نہیں!" لڑکی کے لہجے میں خوف تھا۔

"کیوں! اگر تم خطرے میں ہو۔۔۔ تو اس سے بہتر جگہ اور کیا ہوسکتی ہے۔"

"آپ سمجھتے ہیں! اس میں عزت کا بھی تو سوال ہے!"

"میں تمہاری بات سمجھ ہی نہیں سکتا۔۔۔ بہرحال جہاں کہو اتار دوں!"

"میرے خدا۔۔۔ میں کیا کروں!" لڑکی نے شاید خود سے کہا۔ اس کی آواز میں بڑی کشش تھی۔ خوابناک سی آواز تھی۔ اتنی ہی دیر میں موڈی کو اس آواز میں قدیم اسرار کی جھلک محسوس ہونے لگی تھی۔

"کیا تمہارا اپنا گھر نہیں!" موڈی نے پوچھا۔

"ہے تو۔۔۔ لیکن اس وقت گھر کا رخ کرنا موت کو دعوت دینا ہوگا۔"

"تم بڑی عجیب باتیں کر رہی ہو!"

"مجھے بچائیے۔ میں آپ پر اعتماد کرسکتی ہوں کیونکہ آپ ایک غیر ملکی ہیں۔"

"بات کیا ہے۔۔۔!"

"ایسی نہیں جس پر آپ آسانی سے یقین کر لیں۔"

"پھر بتاؤ۔۔۔ میں کیا کروں۔" موڈی نے بے بسی سے کہا۔

"مجھے اپنے گھر لے چلئے۔۔۔ لیکن اگر وہاں کتے نہ ہوں۔ مجھے کتوں سے بڑا خوف معلوم ہوتا ہے۔"

"گھر لے چلوں!" موڈی تھوک نگل کر رہ گیا۔ اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے خوابوں میں سے ایک نے عملی جامہ پہن لیا ہو۔ وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ پھر بولا۔ "کتے ہیں تو مگر خطرناک نہیں۔" موڈی نے کار اپنے بنگلے کی طرف موڑدی۔

"لیکن خطرہ کس قسم کا ہے!" اس نے لڑکی سے پوچھا۔

"اطمینان سے بتانے کی بات ہے۔" لڑکی بولی۔ "اگر میں یہیں بتانا۔۔۔ شروع کردوں تو آپ ہنسی میں اڑا دیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ کار سے اتر جانے کو کہیں۔"

موڈی خاموش ہوگیا۔ اس نے اس لڑکی کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی اور سر سے پیر تک لرز کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس نے مشرق قدیم کے متعلق بہت کچھ پڑھا تھا۔۔۔ بچپن ہی سے پڑھتا آیا تھا۔۔۔ اس لٹریچر کی پراسرار مشرقی حسینائیں اس کے خوابوں میں بس گئی تھیں!۔۔۔ بار بار اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اندر روشنی کرکے اسے ایک بار پھر دیکھے۔۔۔ کتنا پراسرار چہرہ تھا کیسی خوابناک آنکھیں۔۔۔ اسے اس کے گرد روشنی کا ایک دائرہ سا نظر آیا تھا۔ پتہ نہیں یہ اس کا واہمہ تھا یا حقیقت تھی اس نے سوئچ آن کرنا چاہا لیکن ہمت نہ پڑی۔ لڑکی بھی خاموش ہو گئی تھی لیکن اس کی آواز اب بھی موڈی کے ذہن میں گونج رہی تھی۔

بنگلہ آگیا اور کار کمپاؤنڈ کے پھاٹک میں موڑ دی گئی۔۔۔ موڈی کار کو گیراج کی طرف لے جانے کی بجائے سیدھا پورچ کی طرف لیتا چلا گیا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے سامنے اس کے خوابوں کی تعبیر کھڑی تھی۔ ایک نوجوان مشرقی لڑکی جس کے خدوخال موڈی کو بڑے کلاسیکل قسم کے معلوم ہو رہے تھے۔۔۔ وہ مشرقی ہی لباس میں تھی لیکن لباس سے خوشحال نہیں معلوم ہوتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا چرمی سوٹ کیس تھا۔

"بب ۔۔۔ بیٹھو!" موڈی نے ہکلا کر صوفے کی طرف اشارہ کیا!

لڑکی بیٹھ گئی۔ موڈی اس انتظار میں تھا کہ لڑکی خود ہی گفتگو کرے گی لیکن وہ خاموش بیٹھی فرش کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ یہاں آنے کا مقصد ہی بھول گئی ہو۔۔۔ موڈی کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن جب اس کی خاموشی کا وقفہ بڑھتا ہی گیا تو اس نے کہا۔

"مجھے اب کیا کرنا چاہیئے۔" لڑکی چونک پری اور اس طرح چونکی جیسے اسے موڈی کی موجودگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔

"اوہ۔۔۔" اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کرکہا۔

"میری وجہ سے آپ کوبڑی تکلیف ہوئی۔"

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں!" موڈی بولا!"کچھ پئیں گیآپ؟"

"جی نہیں شکریہ!" لڑکی نے سوٹ کیس کو فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ پھر خاموش ہو گئی۔۔۔ اب موڈی کو الجھن ہونے لگی۔۔۔ آخر اس نے اسے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے کہا۔ "میں ہر طرح آپ کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں اور کس طرح گفتگو شروع کروں۔" لڑکی بولی!

"آپ کچھ کہئے بھی تو۔" موڈی نے جھنجھلا کر کہا۔ دراصل اس کا نشہ اکھڑ رہا تھا۔ ایسی حالت میں وہ ہمیشہ کچھ چڑ چڑا سا نظر آنے لگتا تھا۔

"ذرا۔۔۔ ایک منٹ ٹھہریئے۔" لڑکی سوٹ کیس کو فرش سے اٹھا کر صوفے پر رکھتی ہوئی بولی۔ "میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ مجھے یہاں تک لائے۔ اب میں آپ سے ایک درخواست اور کروں گی۔"

"کہیئے۔۔۔ کہیئے!" موڈی سیگرٹ سلگاتا ہوا بولا۔

"میں کچھ دنوں کے لئے اپنی ایک چیز آپ کے پاس امانتا رکھوانا چاہتی ہون۔" لڑکی نے کہا اور سوٹ کیس کھول کر اس میں سے آبنوس کی ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی۔۔۔ اور پھر جیسے ہی موڈی کی نظر اس صندوقچی پر پڑی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔ کیونکہ اس صندوقچی میں جواہرات جڑے ہوئے تھے!

"یہ ہمارے ملک کی ایک قدیم ملکہ کا سنگاردان ہے۔" لڑکی اسے موڈی کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھئے۔"

"کیوں۔۔۔ وجہ؟"

"بات یہ ہے کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں۔ کچھ لوگ اس کی تاک میں ہیں۔ آج بھی انہوں نے اسے اڑانا چاہا تھا۔۔۔ لیکن میں کسی طرح بچا لائی۔ گھر میں تنہا رہتی ہوں۔۔۔؟"

"مگر یہ آپ کو ملا کہاں سے؟"

"کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کہیں سے چرا لائی ہوں۔"

"اوہو! یہ مطلب نہیں!"موڈی جلدی سے بولا۔"بات یہ ہے کہ۔۔۔!"

"بب ۔۔۔ بیٹھو!" موڈی نے ہکلا کر صوفے کی طرف اشارہ کیا!

لڑکی بیٹھ گئی۔ موڈی اس انتظار میں تھا کہ لڑکی خود ہی گفتگو کرے گی لیکن وہ خاموش بیٹھی فرش کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ یہاں آنے کا مقصد ہی بھول گئی ہو۔۔۔ موڈی کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن جب اس کی خاموشی کا وقفہ بڑھتا ہی گیا تو اس نے کہا۔

"مجھے اب کیا کرنا چاہیئے۔" لڑکی چونک پری اور اس طرح چونکی جیسے اسے موڈی کی موجودگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔

"اوہ۔۔۔" اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کرکہا۔

"میری وجہ سے آپ کوبڑی تکلیف ہوئی۔"

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں!" موڈی بولا!"کچھ پئیں گیآپ؟"

"جی نہیں شکریہ!" لڑکی نے سوٹ کیس کو فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ پھر خاموش ہو گئی۔۔۔ اب موڈی کو الجھن ہونے لگی۔۔۔ آخر اس نے اسے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے کہا۔ "میں ہر طرح آپ کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں اور کس طرح گفتگو شروع کروں۔" لڑکی بولی!

"آپ کچھ کہئے بھی تو۔" موڈی نے جھنجھلا کر کہا۔ دراصل اس کا نشہ اکھڑ رہا تھا۔ ایسی حالت میں وہ ہمیشہ کچھ چڑ چڑا سا نظر آنے لگتا تھا۔

"ذرا۔۔۔ ایک منٹ ٹھہریئے۔" لڑکی سوٹ کیس کو فرش سے اٹھا کر صوفے پر رکھتی ہوئی بولی۔ "میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ مجھے یہاں تک لائے۔ اب میں آپ سے ایک درخواست اور کروں گی۔"

"کہیئے۔۔۔ کہیئے!" موڈی سیگرٹ سلگاتا ہوا بولا۔

"میں کچھ دنوں کے لئے اپنی ایک چیز آپ کے پاس امانتا رکھوانا چاہتی ہون۔" لڑکی نے کہا اور سوٹ کیس کھول کر اس میں سے آبنوس کی ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی۔۔۔ اور پھر جیسے ہی موڈی کی نظر اس صندوقچی پر پڑی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔ کیونکہ اس صندوقچی میں جواہرات جڑے ہوئے تھے!

"یہ ہمارے ملک کی ایک قدیم ملکہ کا سنگاردان ہے۔" لڑکی اسے موڈی کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھئے۔"

"کیوں۔۔۔ وجہ؟"

"بات یہ ہے کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں۔ کچھ لوگ اس کی تاک میں ہیں۔ آج بھی انہوں نے اسے اڑانا چاہا تھا۔۔۔ لیکن میں کسی طرح بچا لائی۔ گھر میں تنہا رہتی ہوں۔۔۔؟"

"مگر یہ آپ کو ملا کہاں سے؟"

"کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کہیں سے چرا لائی ہوں۔"

"اوہو! یہ مطلب نہیں!"موڈی جلدی سے بولا۔"بات یہ ہے کہ۔۔۔!"

میری ظاہری حالت ایسی ہے کہ میں اس کی مالک نہیں ہوسکتی۔" لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی۔

"آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔"

"دیکھئے میں آپ کو بتاتی ہوں۔" لڑکی نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔

"میں دراصل یہاں کے ایک قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں یہ سنگار دان مجھ تک وراثت میں پہنچا ہے۔۔۔ اب میں اس خاندان کی آخری فرد ہوں۔"

"سچ مچ!" موڈی بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید عنقریب اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی۔

"ہاں تو آپ یہ خیال دل سے نکال دیجئے کہ میں اسے کہیں سے چرا کر لائی ہوں۔"

"دیکھئے آپ زیادتی کر رہی ہیں!" موڈی نے ملتجانہ انداز میں کہا۔

"میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ میں اس کی حفاظت کروں گا۔ شہزادی صاحبہ!"

"بہت بہت شکریہ۔۔۔ لیکن اب میں آپ کو ایک خطرے سے آگاہ کردوں! ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اسے حاصل کرنے کے سلسلہ میں آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیں۔"

"ناممکن!" موڈی اکڑ کر بولا۔ "میں اڑتے پرندوں پر نشانہ لگا سکتا ہوں۔ یہاں کس کی مجال ہے کہ میری کمپاؤنڈ میں قدم رکھ سکے۔"

"ایک بار پھر سوچ لیجئے!" لڑکی نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ کر کہا۔

"میں نے سوچ لیا! میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابھی آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ تنہا رہتی ہیں!"

"جی ہاں۔۔۔"

"لیکن آپ اسے واپس کب لیں گی۔"

"جب بھی حالات سازگار ہوگئے۔ اسی لئے میں آپ سے کہہ رہی تھی کہ مدد کرنے سے پہلے حالات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے۔"

"پروا نہ کیجئے! میں اب کچھ نہ پوچھوں گا۔ جو آپ کا دل چاہے کیجئے۔"

"اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھ لیں۔"

"میں تیار ہوں۔ لیکن کیا آپ کبھی کبھی ملتی رہا کریں گی۔"

"یہ سب حالات پر منحصر ہے۔"

"لیکن اب آپ کی واپسی کس طرح ہوگی؟ کیا باہر وہ لوگ آپ کی تاک میں نہ ہوں گے۔"

"ہوا کریں لیکن اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!"

"کیوں۔ کیا ابھی کچھ دیر قبل آپ ان سے خائف نہیں تھیں؟"

"ضرور تھی لیکن اب وہ چیز میرے پاس نہیں ہوگی جس کی وجہ سے میں خائف رہتی تھی۔"

"ممکن ہے وہ آپ کو قابو میں کرنے کے بعد آپ پر جبر کریں۔"

"میرا دل کافی مضبوط ہے۔"

"آپ پولیس کو کیوں نہیں مطلع کرتیں۔"

"اوہ اس طرح بھی ایک خاندانی چیز کے ضائع ہوجانے کا امکان باقی رہ جاتا ہے۔ حکومت ایسی صورت میں یہ ضرور چاہے گی کہ اسے آثار قدیمہ کے کسی شعبے میں رکھ لیا جائے۔"

"ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔" موڈی نے سر ہلا کر کہا۔

"نہ میں پولیس کو اطلاع دے سکتی ہیں اور نہ فی الحال اپنے پاس رکھ سکتی ہوں۔۔۔ اف میرے خدا میں کیا کروں۔ یہ دونوں ہی صورتیں مجھے پولیس کی نظر میں مشتبہ بنا دیں گی۔ اس لئے خاموشی ہی بہتر پالیسی ہوگی۔"

"آپ ٹھیک کہتی ہیں شہزادی صاحبہ۔ میں اس کی پوری پوری حفاظت کروں گا۔"

"بہت بہت شکریہ!"

"کیا میں آپ کا نام اور پتہ پوچھنے کی جرات کرسکتا ہوں۔"

"نام۔۔۔ میرا نام دردانہ ہے۔۔۔ اور پتہ۔۔۔ نہیں پتہ نہ پوچھئے۔۔۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کن پریشانیوں میں مبتلا ہوں۔۔۔ میں آپ سے ملتی رہوں گی۔"

"بہت اچھا! میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔ کیا آپ رات کا کھانامیرے ساتھ پسند کریں گی۔"

"نہیں شکریہ!" لڑکی اٹھتی ہوئی بولی۔ "آپ ذرا تکلیف کرکے مجھے پھاٹک تک چھوڑ آئیے۔" موڈی چاہتا تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر اور رکے۔۔۔ لیکن دوبارہ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ لڑکی شہزادیوں کے سے انداز میں اس سے تحمکانہ لہجے میں گفتگو کرے اور وہ ایک غلام کی طرح سر جھکائے کھڑا سنتا رہے۔

وہ اس کے ساتھ پھاٹک تک آیا۔۔۔ اور اس وقت تک کھڑا سے جاتے دیکھتا رہا جب تک کہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ موڈی نے اسے کہا بھی تھا کہ وہ جہاں کہے اسے کار پر پہنچایا جائے لیکن لڑکی نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔

موڈی اس کے جانے کے بعد کافی دیر تک کھڑا اندھیرے میں گھورتا رہا پھر واپس چلا آیا۔ سب سے پہلے اس نے وہسکی کے دو تین پگ پئے اور پھر سنگار دان کو ڈرائنگ روم سے اٹھا کر اپنے سونے کے کمرے میں لایا۔ اس پر جڑے ہوئے جواہرات بجلی کی روشنی میں جگمگا رہے تھے۔۔۔ موڈی نے اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ وہ پھر اپنے پراسرار خوابوں میں کھو گیاتھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اب سے پانچ سو سال قبل کی دنیا میں سانس لے رہا ہو اور اس کی حیثیت کسی شہزادی کے باڈی گارڈ کی سی ہو! وہ اس کے دشمنوں سے جنگ لڑ رہا ہو۔۔۔ نشے میں تو تھا ہی اس نے سچ مچ خیالی شہزادی کے خیالی دشمنوں سے جنگ شروع کردی۔ اس کا پہلا گھونسہ دیوار پر پڑا، دوسرا میز پر اور تیسرا غالبا اس کے سر پر۔۔۔ وہ غل غپاڑہ مچا کہ سارے نوکر اکٹھا ہوگئے۔

عمران اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائیل کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ عمران اور آفس۔۔۔ بات حیرت انگیز ضرور ہے۔ مگر وہ بیچارہ زبردستی کی اس پکڑ دھکڑ کو کیا کرتا جو سرکاری طور پر اس کے لئے کی گئی تھی۔۔۔ لی یوکا کی گرفتاری کے بعد سے وہ کسی طرح بھی خود کو نہ چھپا سکا تھا۔ پھر ویران عمارت والا کیس بھی منظر عام پر آگیا تھا۔ یہ دونوں ہی کیس ایسے اہم تھے کہ انہیں نپٹانے والے کی شخصیت پردہ راز میں رہ ہی نہیں سکتی تھی! عمران کے والد جو محکمہ سراغرسانی کے ڈائریکٹر جنرل تھے خبط الحواس بیٹے کی ان صلاحیتوں پر بمشکل یقین کرسکے۔ وہ تو اسے گاؤدی، احمق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے تھے۔

آنریبل وزیر داخلہ نے عمران کو مدعو کرکے بہ نفس نفیس محکمہ سراغرسانی میں ایک اچھے عہدی کی پیش کش کی اور عمران سے انکار کرتے نہ بن پڑا۔۔۔ لیکن اس نے بھی اپنی شرائط پیش کیں، جو منظور کر لی گئیں۔۔۔ اس کی سب سے پہلی تجویز تو یہ تھی کہ وہ اپنے طور پر جرائم کی تفتیش کرے گا۔ اس کا ایک الگ سیکشن ہوگا اور اس کا تعلق براہ راست ڈائریکٹر جنرل سے ہوگا اور وہ ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوگا اور وہ اپنے سیکشن کے آدمیوں کا انتخاب خود کرے گا۔ ضرور نہیں کہ وہ اس کے لئے نئی بھرتیوں کی فرمائش کرے۔ جب بھی اسے محکمے ہی کا کوئی ایسا آدمی ملے گا، جو اس کے کام کا ہو وہ اسے اپنے سیکشن میں لینے کی سفارش ضرور کرے گا۔ اس کے سیکشن کے عملے کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوگی۔"

شرائط منظور ہوجانے کے بعد عمران نے اپنی خدمات پیش کردیں لیکن رحمان صاحب کو اس وقت بڑی شرمندگی ہوئی جب انہوں نے سنا کہ عمران اپنے عملے کے لئے انتہائی ناکارہ اور اونگھتے ہوئے سے آدمیوں کو منتخب کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ابھی تک چار آدمی منتخب کیے تھے اور یہ چاروں بالکل ہی ناکارہ تصور کیے جاتے تھے۔ کوئی بھی انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھنا پسند نہیں کرتا تھا، اور ان بیچاروں کی زندگی تبادلوں کی نذر ہو کر رہ گئی تھی! ان کی شخصیتیں صفر کے برابر تھیں! دبلے پتلے جھینگر جیسے؟ کاہل، نکمے اور کام چور۔۔۔انہیں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔۔۔ عمران جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آخر وہی ہوا جس کی توقع تھی۔۔۔ رحمان صاحب نے اسے آفس میں بلا کر اچھی طرح خبر لی۔

"میرا بس چلے تو میں تمہیں دھکے دلوا کر یہاں سے نکلوا دوں۔" انہوں نے کہا۔

"میں اس جملے کی سرکاری طور پر وضاحت چاہتا ہوں!" عمران نے نہایت ادب سے کہا۔ اس پر رحمان صاحب اور زیادہ جھلا گئے۔ لیکن پھر انہیں فورا خیال آگیا کہ وہ اس وقت اپنے بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے ایک ماتحت آفیسر سے مخاطب ہیں۔

"تم نے ایسے نکمے آدمیوں کا انتخاب کیوں کیا ہے؟" انہوں نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔

"محض اس لئے کہ میں اس محکمے میں کسی کو بھی نکما نہیں دیکھ سکتا۔" عمران کا جواب تھا۔ رحمان صاحب دانت پیس کر رہ گئے۔ لیکن کچھ بولے نہیں۔ عمران کا جواب ایسا نہیں تھا جس پر مزید کچھ کہا جاسکتا! بہرحال انہیں خاموش ہوجانا پڑا۔۔۔ کیونکہ عمران نے اپنے معاملات براہ راست وزارت داخلہ سے طے کئے تھے۔ کچھ لوگ عمران کی ان حرکتوں کو حیرت سے دیکھتے اور کچھ اس کا مضحکہ اڑاتے! لیکن عمران ان سب سے بے پروا اپنے طور پر اپنے سیکشن کے انتطامات مکمل کر رہا تھا۔

اس وقت بھی اس کے سامنے ایک فائیل رکھا ہوا تھا! اس میں چند ایسے کیسوں کے کاغذات تھے جن میں محکمے کو کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اس فائیل کو دیکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک بہت پرانے کیس میں دوبارہ جان پیدا ہو چلی تھی۔ یہ کیس دس سال پرانا اور نامکمل تھا۔ محکمہ سراغرسانی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ دس سال پہلے تو وہ اتنا عجیب واقعہ نہیں تھا۔ مگر اب۔۔۔ اب تو اس نے ایک حیرت انگیز شکل اختیار کر لی تھی کہ سارا شہر سناٹے میں آگیا تھا۔ کیس کی نوعیت عجیب تھی۔۔۔ اب سے دس سال پیشتر شہر کے مشہور رئیس نواب ہاشم کو کسی نے اس کی خوابگاہ میں قتل کردیا تھا۔۔۔ مگر پھر اچانک دس سال بعد نواب ہاشم دوبارہ گوشت پوست کی شکل میں دکھائی دیا۔۔۔ وہ کسی طویل سفر سے واپس آیا تھا۔

عمران نے فائیل بندکرکے میز کے ایک گوشے پر رکھ دیا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر اس کا کاغذ پھاڑنے لگا! اتنے میں سپرنٹنڈنٹ فیاض کے اردلی نے آکر کہا۔۔۔

"صاحب نے سلام بولا ہے۔"

"وعلیکم السلام" عمران نے کہا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بندکرلیں۔ اردلی بوکھلا کر رہ گیا۔۔۔ وہ انگریزوں کے وقت کا آدمی تھا۔۔۔ اور۔۔۔۔ "سلام" کا مقصد اس دور میں بلاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا جب کسی انگریز آفیسر کو اپنے ماتحت آفیسر کو بلوانا ہوتا تو وہ اپنے اردلیوں سے اسی طرح سلام بھجوایا کرتا تھا۔۔۔ لیکن آج فیاض کے اردلی کو عمران کے "وعلیکم السلام" نے بوکھلا دیا۔۔۔۔ وہ چند لمحے عمران کی میز کے قریب کھڑا بغلیں جھانکتا رہا۔ پھر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔۔۔ خود اس کی ہمت تو نہیں پڑی کہ وہ کیپٹن فیاض تک عمران کا "وعلیکم السلام" پہنچاتا۔ لیکن اس نے اس کا تذکرہ فیاض کے پرسنل اسسٹنٹ سے کردیا۔ یہ پرسنل اسسٹنٹ ایک لڑکی تھی۔ وہ کافی دیر تک ہنستی رہی پھر اس نے سلام کا جواب فیاض تک پہنچا دیا۔۔۔ فیاض بھنا گیا۔۔۔ وہ عمران کا دوست ضرور تھا۔ لیکن جب سے عمران اس محکمے میں آیا تھا اسے اپنا ماتحت سمجھنے لگا تھا۔ اس بار اس نے اردلی کو بلا کر کہا "جا کر کہو! صاحب بلا رہے ہیں۔"

اردلی چلا گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد عمران کمرے میں داخل ہوا۔

"بیٹھ جاؤ!" فیاض نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ عمران بیٹھ گیا۔ فیاض چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر بولا "دوستی اپنی جگہ۔۔۔ لیکن آفس میں تمہیں حفظ مراتب کا خیال رکھنا ہی پڑے گا۔"

"میں سمجھا نہیں! تم کیا کہہ رہے ہو۔"

"میں تمہارا آفیسر ہوں۔"

"اخاہ۔" عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔ یہ تم سے کس گدھے نے کہہ دیا ہے کہ تم میرے آفیسر ہو! دیکھو میاں فیاض! میرا اپنا الگ ڈیپارٹمنٹ ہے اور میں اس کا اکلوتا انچارج ہوں۔۔۔ اور میں براہ راست ڈائریکٹر جنرل صاحب کو جواب دہ ہوں! سمجھے!"

"سمجھا۔" فیاض طویل سانس لے کر بولا اور کچھ نرم پڑ گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس اپنی تقری کا "معجزہ" یاد آگیا ہو۔ وہ پہلے صرف انسپکٹر تھا۔ لیکن پانچ سال کے اندر حیرت انگیز طور پر سپرنٹنڈنٹ ہو گیا تھا۔۔۔ اس کا دل ہی جانتا تھا کہ اس ترقی کے لئے عمران نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔"

"دیکھو میرا مطلب یہ تھا کہ تم آفس میں بھی اپنے الو پن سے باز نہیں آتے۔"

"یہ کہاں لکھا ہے کہ اس آفس میں الوؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔!"

"او بابا ختم بھی کرو۔۔۔ میں تم سے ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا تھا!"

"میرا خیال ہے کہ میرا الو پن بھی نہایت اہم ہے۔۔۔ کیونکہ اسی الو پن کی وجہ سے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ ویسے میں جانتا ہوں کہ تم نواب ہاشم کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہو!"

"تم نے پورا کیس سمجھ لیا۔"

"سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر اسے قتل کیوں قرار دیا گیا۔ ہزار حالات ایسے تھے کہ اسے خودکشی بھی سمجھا جا سکتا تھا۔"

"مثلا۔۔۔!" فیاض نے اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ کرپوچھا۔

مثلا یہ کہ فائر اس کے چہرے پر کیا گیا تھا۔ بندوق بارہ بورکی تھی اور کارتوس ایس جی کے۔ چہرے کے پرخچے اڑ گئے تھے شکل اس طرح بگڑ گئی تھی کہ شناخت مشکل تھی۔۔۔ وہ صرف اپنے لباس اور چند دوسری نشانیوں کی بنا پر پہچانا گیا تھا! بندوق اس کے قریب ہی پڑی ہوئی ملی تھی اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ گولی بہت ہی قریب سے چلائی گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ بندوق کے دہانے کا فاصلہ چہرے سے ایک بالشت سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔۔۔"

"گولی مارو یار۔" فیاض میز پر ہاتھ مار کر بولا۔"وہ کم بخت تو زندہ بیٹھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر کسی کو کچھ بتائے بغیر گھر سے چلا گیا تھا۔ اتنے دنوں تک جنوبی براعظموں کی سیاحت کرتا رہا اور اب واپس آیاہے۔۔۔ اس کی خوابگاہ میں کس کی لاش پائی گئی۔۔۔؟ نواب ہاشم اس سے لاعلم ہے۔"

"ذرا ٹھہرو!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جس رات لاش پائی گئی تھی اس دن وہ اپنے گھر ہی میں رہا ہوگا۔"

"ظاہر ہے۔"

"تو پھر اسی رات کو۔۔۔ گھر سے روانہ ہوا۔۔۔ اور رات کو ایک ایسے آدمی کو اس کی خوابگاہ میں حادثہ پیش آیا جو اسی کے سلیپنگ سوت میں ملبوس تھا۔"

"بات تو یہی ہے۔" فیاض نے سیگرٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

عمران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ "اب وہ اس لاش کے متعلق کیا کہتا ہے۔"

"اس کا جواب صاف ہے۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں۔ گھر والوں کی غلطی ہے۔ انہوں نے لاش اچھی طرح شناخت نہیں کی تھی!"

"لیکن کسی کو کچھ بتائے بغیر اس طرح غائب ہوجانے کا کیا مقصد تھا۔"

"عشق!" فیاض ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔

"اوہ تب تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "مثل مشہور ہے کہ عشق کے آگے بھوت بھی بھاگتا ہے۔"

"سنجیدگی عمران سنجیدگی!"

"میں بالکل سنجیدہ ہوں! اگر وہ اس طرح گھر سے نہ بھاگتا تو اسے سچ مچ کسی سے عشق ہو جاتا۔"

"بکواس مت کرو۔۔۔ عشق میں ناکام رہنے پر وہ دل شکستہ ہو گیا تھا۔ اس لئے اسے یہاں سے چلا جانا پڑا۔۔۔"

"خدا سے ڈرو فیاض وہ جنگ کا زمانہ تھا اور اس زمانے کا رواج یہ تھا کہ لوگ عشق میں ناکام ہونے پر فوج میں بھرتی ہو جایا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ساحی کا دستور نہیں تھا۔"

"میرا دماغ خراب مت کرو!" فیاض جھنجھلا کر بولا۔ "جاؤ یہاں سے۔" عمران چپ چاپ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کے کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔

"ہیلو۔۔۔ ہاں عمران کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔۔۔ کون۔۔۔! موڈی کیا بات ہے آخر کچھ بتاؤ بھی تو۔۔۔ ارے بس یار کان نہ کھاؤ۔۔۔ اچھا میں ابھی آرہا ہوں۔"

ریسیور رکھ کر وہ دروازے کی طرف مڑا۔ جہاں اس کا ایک مریل سا ماتحت کھڑا اسے گھور رہا تھا۔۔۔ اس کے چہرے کی رنگت زرد تھی۔ گال پچکے ہوئے اور بال پریشان تھے۔

"ہوں۔۔۔ کیا خبر ہے۔" عمران نے اس سے پوچھا۔

"جناب! میں نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں۔"

"شاباش۔ دیکھا تم نے۔ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ معلومات تم سے دور بھاگتی ہیں مگر اب۔۔۔ اب تم اچھے خاصے جا رہے ہو۔ عنقریب سارجنٹ ہو جاؤ گے۔۔۔ لیکن میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ دوسروں کو الو بنانے کا سائنٹیفک طریقہ یہ ہے کہ خود الو بن جاؤ سمجھے!"

"جی جناب! میں بالکل سمجھ گیا۔۔۔ خیر رپورٹ سنئے! نواب ہاشم حویلی سے باہر نہیں نکلتا! آج ایک سرخ رنگ کی کار حویلی میں دو بار آئی تھی۔۔۔ حویلی کی کمپاؤنڈ میں ایک لڑکا تقریبا آدھے گھنٹے تک منہ سے طبلہ بجا بجا کر فلمی گیت گاتا رہا۔ پھر گیارہ بجے ایک نہایت شوخ اور الہڑ قسم کی مہترانی حویلی میں داخل ہوئی اور اس کے بائیں گال پر سیاہ رنگ کا ابھرا ہوا سا تل تھا۔۔۔ چہرہ بیضوی! آنکھیں شربتی قد ساڑھے چار اور پانچ کے درمیان میں۔۔۔"

"ہائیں۔۔۔ واقعی تم ترقی کر رہے ہو۔" عمران مسرت بھرے لہجے میں چیخا۔ "شاباش۔۔۔ ہر چیز کو بہت غور سے دیکھو۔۔۔ کار جو دوبار آئی تھی اس کا نمبر کیا تھا۔۔۔"

"اس پر تو میں نے دھیان نہیں دیا جناب۔"

"فکر نہ کرو۔۔۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اچھا اب جاؤ چار بجے شام پھر وہیں تمہاری ڈیوٹی ہے۔۔۔!"

عمران نے باہر آکر سائبان کے نیچے سے اپنی سیاہ ٹوسیٹر نکالی اور موڈی کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ موڈی اس کے گہرے دوستوں میں سے تھا، عمران جب وہاں پہنچا تو موڈی شراب پی رہا تھا۔۔۔ وہ تقریبا ہروقت نشے میں رہتا تھا۔ عمران کو دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھا اور لکھنوی انداز میں اسے سلام کرتا ہوا پیچھے کی طرف کھسکنے لگا! وہ مشرقی طرز معاشرت کا دلدادہ تھا اور مشرقیوں کے ساتھ عموما انہیں کا انداز اختیار کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا!

موڈی نے اپنی داستان شروع کردی تھی! عمران بغور سن رہا تھا۔

"تو وہ سنگار دان میرے پاس چھوڑ کر چلی گئی!" موڈی نے بیان جاری رکھا اور اسی رات کو کچھ نامعلوم افراد نے میرے بنگلے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

"کیا تم جاگ رہے تھے؟" عمران نے پوچھا۔

"میں رات بھر جاگتا رہا تھا۔ میں نے انہیں دیکھا، دو تین فائر کیے۔۔۔ اور وہ ڈر کر بھاگ گئے، لیکن دوسرے ہی دن سے یہاں اجنبیوں کا تار بندھ گیا ایسی ایسی شکلیں دکھائی دیں کہ میں حیران رہ گیا۔ ان میں سے کوئی نوکری کے لئے آیا تھا۔ کوئی امریکی طرز حیات کے متعلق معلومات چاہتا تھا کوئی محض اس لئے آیا تھا کہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا!۔۔۔ تقریبا دس پندرہ آدمی اسی طرح مجھ تک پہنچے۔ اس سے پہلے یہاں کوئی نہیں آتا تھا۔۔۔ پھر شام کو ایک عجیب و غریب آدمی آیا۔ اس کے چہرے پر سیاہ رنگ کی گھنی داڑھی تھی اور آنکھوں پر تاریک شیشے کی عینک۔۔۔ اس نے کہا کہ وہ میرے بنگلے کا مالک ہے۔ واضح رہے کہ میں نے یہ بنگلہ ایک ایجنسی کی معرفت کرایہ پر حاصل کیا ہے اور اس عجیب نووارد نے مجھ سے کہا کہ اسے ایجنسی والوں پر اعتماد نہیں ہے! میں ذرا بنگلے کی اندرونی حالت دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔! تم خود سوچو عمران ڈیئر، میں الو تو تھا نہیں کہ اسے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتا اور پھر ایسے حالات میں۔۔۔ لو میری جان! تم بھی پیو۔۔۔"

"نہیں شکریہ!۔۔۔ ہاں! پھرکیا ہوا؟"

"تم جانتے ہو کہ میں خود بڑا پراسرار آدمی ہوں۔" موڈی نے موڈ میں آکر کہا "مجھے کوئی کیا دھوکا دے گا۔۔۔ میں نے اسے ٹہلا دیا!" موڈی نے دوسرا گلاس لبریز کرکے ہونٹوں سے لگالیا!۔۔۔

"لڑکی پھر آئی تھی؟" عمران نے پوچھا۔

"ہائے یہی تو داستان کا بڑا پردرد حصہ ہے! میرے دوست!" موڈی ایک سانس میں گلاس خالی کرکے اسے میز پر پٹختا ہوا بولا۔ "وہ آئی تھی۔۔۔ آج سے دس دن پہلے کا واقعہ ہے۔ آئی اور کہنے لگی کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟ ایسی چیز کو اپنے پاس کیسے رکھوں، میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں، میری گردن ضرور کٹ جائے گی!۔۔۔ میں نے کہا کہ وہ اسے کسی معقول آدمی کے ہاتھ فروخت کیوں نہیں کردیتی! اس طرح اس کی مالی حالت بھی درست ہو جائے گی!۔۔۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد وہ راضی ہوگئی، میں نے اسے پچیس ہزار کا آفر دیا!۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی کہ نہیں یہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی دانست میں اس کی قیمت زیادہ نہیں تھی! میں نے سوچا کتنی بھولی ہے!۔۔۔ ہائے عمران پیارے وہ اب بھی! ہائے۔۔۔ میں نے اسے زبردستی پچیس ہزار کے نوٹ گن دیئے۔۔۔! اس دوران میں ہر رات مجھے ریوالور لے کر اس سنگار دان کی حفاظت کے لئے جانگا پڑتا تھا۔۔۔!

"ارے وہ ہے کہاں؟ میں بھی تو دیکھوں۔" عمران بولا۔

"ٹھہرو۔۔۔ دکھاتا ہوں۔۔۔" یک بیک موڈی کا موڈ بگڑ گیا۔۔۔ اس کا اوپری ہونٹ بھینچ گیا تھا اور آنکھوں سے خون سا ٹپکتا ہوا معلوم ہو رہا تھا!۔۔۔ عمران نے اس کے جذباتی تغیر کو حیرت سے دیکھا۔ لیکن بولا کچھ نہیں۔۔۔ موڈی جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا! عمران چپ چاپ بیٹھا رہا۔ دفعتا اس نے دوسرے کمرے میں شور و غل کی آوازیں سنیں اور ساتھ ہی نوکر بھاگتا ہوا کمرے میں آیا!۔۔۔

"صاحب" اس نے ہانپتے ہوئے عمران سے کہا۔ "موڈی صاحب کو بچائیے۔"

"کیا ہوا؟" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ نوکر نے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بھاگتا ہوا اسی کمرے میں چلا گیا! عمران جھپٹ کر کمرے میں پہنچا!۔۔۔ موڈی عجیب حال میں نظر آیا! دو تین نوکر اس کی کمر سے لپٹے ہوئے تھے اور وہ ایک سیاہ رنگ کے ڈبے سے سر پھوڑ رہا تھا!۔

"ہٹ جاؤ۔۔۔ ہٹ جاؤ!" وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا اور ساتھ ہی ڈبے سے اپنے سر پر ضربیں لگاتا جا رہا تھا!۔

عمران نے بدقت تمام وہ ڈبہ اس کے ہاتھ سے چھینا۔۔۔ اور نوکروں نے کسی نہ کسی طرح اسے دھکیل کر ایک صوفے میں ڈال دیا۔ عمران نے ڈبے کو ہاتھوں میں تول کر دیکھا اور پھر اس کی نظر ان چجواہرات پر جم گئی، جو ڈبے کے چاروں طرف جڑے ہوئے تھے!۔

"یہی ہے!" موڈی صوفے سے اٹھ کر دھاڑا۔۔۔"یہی ہے!"

"ہوش میں آجاؤ بیٹا۔ ورنہ ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں غوطہ دوں گا!" عمران بولا۔

"میں بالکل ہوش میں ہوں" موڈی نے حلق پھاڑ کر کہا۔ "جب سے میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔۔۔ چین سے رات بھر سوتا ہوں۔ سمجھے تم۔۔۔ یا ابھی اور حلق پھاڑوں؟"

"اب تم سوجاؤ!" عمران نے کہا۔ "پھر کبھی بات کریں گے۔۔۔!"

"کیا۔۔۔ ارے کیا! اب تم بھی کام نہ آؤ گے؟"

"تو پھر تم ہوش کی باتیں کرو!"

"ارے بابا۔" موڈی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ "اس کے خریدنے کے بعد سے اب تک ایک بھی پراسرار آدمی دکھائی نہیں دیا۔ کسی نے بھی اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔"

"ہام۔۔۔" عمران ایک طویل سانس لیتا ہوا بولا۔ " تو یہ کہو۔۔۔ میں سمجھ گیا۔

"سمجھ گئے نا!"

"ہاں۔۔۔ اور اگر تمہاری اسرار پرستی کا یہی عالم رہا تو تم یہاں سے کنگال ہو کر جاؤ گے۔۔۔ ارے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں تم کچھ دنوں بعد گنڈے اور تعویزوں کے چکر میں نہ پڑ جاؤ!"

"یہ کیا چیزیں ہیں؟"

"کچھ نہیں!۔۔۔ اس لڑکی کا پتہ معلوم ہے؟"

"وہ عالمگیری سرائے میں رہتی ہے۔"

"عالمگیری سرائے بہت بڑا علاقہ ہے۔۔۔!" عمران بولا۔

"لیکن یہ بتاؤ کہ اب میں کیا کروں؟۔۔۔ مجھے پچیس ہزار روپوں کی پروا نہیں ہے! میں تو ہائے۔۔۔ میں اسے دھوکے باز کس طرح سمجھوں! وہ تو مجھے ایک ایسی عورت معلوم ہوتی ہے، جو کہ ہزاروں سالوں سے زندہ ہو۔۔۔ تم نے رائیڈرز ہیگرڈ کا ناول "شی" پڑھا ہے؟"

"او موڈی کے بچے تیرا دماغ خراب ہو جائے گا۔" عمران اسے گھونسہ دکھا کر بولا۔۔۔!

"نہیں! میں تم سے زیادہ ہوشمند ہوں۔" موڈی ہاتھ جھٹک کر بولا!

"کیا تم نے اس کے جواہرات کہیں پرکھوائے ہیں؟"

"پرکھوائے ہیں!۔۔۔ مجھے اس کی پروا نہیں کہ مجھے دھوکا دیا گیا۔۔۔! ہائے مصیبت تو یہ ہے کہ میں اسے دھوکا باز کیسے سمجھوں؟۔۔۔ نہیں وہ شہزادی ہے۔"

"ابے چپ! ڈفر کہیں کے۔۔۔! کیا تم نے اس سے دوبارہ ملنے کی کوشش بھی کی؟"

"نہیں! میری ہمت نہیں پڑی!" عمران اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔

"ان پتھروں کا تخمینہ کیا ہے؟" اس نے موڈی سے پوچھا۔

پتھر نہیں بلکہ۔۔۔ پتھروں کی نقل کہو۔" موڈی بولا۔ "ان سب کا تخمینہ ڈیڑھ سو سے زائد نہیں ہے!"

"او موڈی خدا تم پر رحم کرے!" عمران نے کہا اور موڈی اپنے سر پر ہاتھوں سے صلیب کی شکل بنانے لگا! تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر عمران نے کہا "لڑکی کا مکمل پتہ ہے تمہارے پاس!"

"ہے۔۔۔ لیکن کیا کرو گے۔۔۔؟"

"کچھ بھی نہیں! طاہر ہے کہ وہ اب وہاں نہ ہوگی یا ممکن ہے پہلے بھی نہ رہی ہو۔"

"ہائے! تو تم بھی یہی ثابت کر رہے ہو کہ وہ دھوکے باز ہے!۔۔۔"

"اب تم بکواس نہ کرو! ورنہ گولی ماردوں گا!"

"گولی ماردو! مگر میں یہ یقین نہیں کروں گا کہ وہ دھوکہ باز ہے! وہ بہار کی ہواؤں کی طرح ہولے ہولے چلیتی ہے!۔۔ اس کے رخساروں سے صبح طلوع ہوتی ہے!۔۔۔ اس کے گیسوؤں میں شامیں انگڑائی لیتی ہیں!"

"اور میرا چانٹا تمہاری آنکھوں میں دنیا تاریک کردے گا۔ میں کہتا ہوں مجھے اس کا پتہ چاہئے اور کچھ نہیں۔۔۔!"

"سرائے عالمگیری کے علاقے میں۔۔۔ صرف اتنا ہی اور اس کے آگے میں کچھ نہیں جانتا!"

لیکن عمران موڈی کو گھور کر بولا! "تم نے مجھے کیوں بلایا تھا! جب کہ تمہیں ہاتھ سے گئی رقم کا افسوس بھی نہیں ہے!۔"

"پیارے عمران! میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ثابت کردو کہ وہ دھوکے باز نہیں ہے!۔۔۔ تم چونکہ سرکاری آدمی ہو! اس لئے میں تمہاری بات قطعی تسلیم کرلوں گا! ویسے اگر کوئی دوسرا کہے تو ممکن ہےمجھے یقین نہ آئے!"

"اچھا بیٹا!" عمران نے سر ہلا کر کہا۔ "میں کوشش کروں گا کہ محکمہ سراغرسانی میں شعبہ عشق و عاشقی بھی کھلوا دوں اور پھر تم یہ ساری باتیں فون پر بھی تو کہہ سکتے تھے۔"

"آہ! میں تمہیں کیسے سمجھاؤں! فون پر آپریٹر بھی سنتے ہیں! میں نہیں چاہتا کہ کوئی شہزادی دردانہ کو دھوکہ باز سمجھے۔۔۔ آہ۔۔۔ شہزادی۔۔۔!"

"شہزادی کے بھتیجے میں چلا۔۔۔ آئندہ اگر میرا وقت برباد کیا تو میں تمہیں برباد کردوں گا! اچھا۔۔۔ میں اس سنگار دان کو اپنے ساتھ لئے جا رہا ہوں!"

"ہرگز نہیں!" موڈی نے عمران کا ہاتھ پکڑ لیا، "میں مرتے دم تک اس کی حفاظت کروں گا! خواہ شہزادی کے دشمن کوہ قاف تک میرا پیچھا کریں!"

"تمہارا مرض لاعلاج ہے" عمران نے مایوسی سے سرہلا کر کہا اور سنگاردان کو میز پر رکھ کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔ موڈی حلق پھاڑ پھاڑ کر اسے پکار رہا تھا!۔۔۔

تھوڑی ہی دیر بعد عمران کی ٹو سیٹر ہاشم کی حویلی کے سامنے رکی!۔۔۔ عمارت قدیم وضع کی تھی۔ لیکن پائیں باغ جدید ترین طرز کا تھا اور اس کے گرد گھری ہوئی قد آدم دیوار بھی بعد کا اضافہ معلوم ہوتی تھی! عمران نے گاڑی باہر ہی چھوڑ دی اور خود پائیں باغ میں پھاٹک سے گزرتا ہوا داخل ہوا۔ پاٹھک سے ایک روش سیدھی حویلی کے برآمدے کی طرف چلی گئی تھی! جیسے ہی سرخ رنگ کی بجری جوتوں کے نیچے کڑکڑائی نہ جانے کدھر سے ایک بڑا سا کتا آکر عمران کے سامنے کھڑا ہوگیا!۔

"میں جانتا ہوں!" عمران آہستہ سے بڑبڑایا "بھلا اپ کے بغیر ریاست مکمل ہو سکتی ہے! براہ کرم راستے سے ہٹ جائیے!۔۔۔"

کتا بھی بڑا عجیب تھا! نہ تو اس نے اپنے منہ سے آواز نکالی اور نہ آگے ہی بڑھا۔ دوسرے ہی لمحے عمران نے کسی کی آواز سنی جو شاید اس کتے ہی کو ریگی۔۔۔ ریگی کہہ کر پکار رہا تھا۔ آواز نزدیک آتی گئی اور پھر مالتی کی جھاڑیوں سے ایک آدمی نکل کر عمران کی طرف بڑھا! یہ ادھیڑ عمر کا ایک مضبوط جسم والا آدمی تھا! آنکھوں سے عجیب قسم کی وحشت ظاہر ہوتی تھی۔ چہرہ گول اور ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز! سر کے بال کھچڑی تھے۔ ہونٹ کافی پتلے اور جبڑے بھاری تھے۔ اس نے شارک اسکن کی پتلون اور سفید سلک کی قمیض پہن رکھی تھی!"

"فرمائیے!" اس نے عمران کو گھور کر دیکھا۔

"میں نواب صاحب سے ملنا چاہتا ہوں!"

"کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"

"ان سے کھادوں کی مختلف اقسام کے متعلق تبادلہ خیال کروں گا۔"

"کھادوں کی اقسام!" اس نے حیرت سے دہرایا! پھر بولا۔ "آپ آخر ہیں کون؟"

"میں ایک پریس رپورٹر ہوں۔"

"پھر وہی پریس رپورٹر!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ پھر بلند آواز میں بولا۔ "دیکھئے مسٹر میرے پاس وقت نہیں ہے۔"

"مگر میرے پاس کافی وقت ہے! عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "میں دراصل آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دس سال قبل وہ لاش کس کی تھی؟ کیا آپ اس پر روشنی ڈال سکیں گے؟"

"بس خدا کے لئے جائیے!" وہ بیزار سے بولا۔ "میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا! اگر مجھے پہلے سے اس عجیب و غریب واقعہ کا علم ہوتا تو شاید میں یہاں آنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرتا!"

"مجھے سخت حیرت ہے!" عمران نے کہا "آخر آپ نے کس رفتار سے اپنی روانگی شروع کی تھی کہ آپ کو اپنے قتل کی اطلاع نہ مل سکی!۔۔۔"

"دیکھو! صاحبزادے میں بہت پریشان ہوں! تم کبھی فرصت کے وقت آنا!" نواب ہاشم نے کہا۔

"اچھا یہی بتا دیجئے کہ آپ ایسے حالات میں کیا محسوس کر رہے ہیں!"

"میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ پاگل ہو گیا ہوں!۔۔۔ پولیس میری زندگی میں بھی مجھے مردہ تصور کرتی ہے!۔۔۔ میرا بھتیجا میری املاک پر قابض ہے!۔۔۔ میں مہمان خانے میں مقیم ہوں!۔۔۔ میرا بھتیجا کہتاہے کہ آپ میرے چچا کے ہمشکل ضرور ہیں۔۔۔ لیکن چچا صاحب کا انتقال ہو چیکا ہے۔ عدالت نے اسے تسلیم کر لیا ہے لہٰذا آپ کسی قسم کا دھوکہ نہیں دے سکتے!"

"واقعی یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا!

"ہے نا!" نواب ہاشم بولا۔ "اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے نواب ہاشم تسلیم کرتے ہیں!"

"قطعی جناب! سو فیصدی! آج کل ہر بات ممکن ہے! میں اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ واقعی بعید از قیاس نہیں!"

"شکریہ! شکریہ! میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ سے گفتگو کروں گا!" نواب ہاشم ایک طرف بڑھتا ہوا بولا۔ عمران اس کے ساتھ ہو لیا۔۔۔ دونوں ایک کمرے میں آئے۔۔۔

"مگر حیرت ہے کہ آپ کے بھتیجے نے آپ کو یہاں کیوں قیام کرنے دیا؟" عمران بیٹھتا ہوا بولا "ایسی صورت میں تو اسے آپ سے دور ہی رہنا چاہیئے تھا!"

"میں خود بھی حیران ہوں!" نواب ہاشم نے کہا۔ "میرے ساتھ اس کا رویہ برا نہیں۔۔۔ وہ کہتا ہے چونکہ آپ میرے چچا سے بڑی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اس لئے مجھے آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو زندگی بھر میرے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ لیکن یہ کبھی نہ کہیئے گا کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں۔"

"بڑی عجیب بات ہے!" عمران سرہلا کر رہ گیا! کچھ دیر خاموشی رہی پھر نواب ہاشم نے کہا۔ "بھلا آپ کس طرح ثابت کیجئے گا کہ میں ہی نواب ہاشم ہوں؟"

"ہر طرح کوشش کروں گا جناب!" عمران نے کہا۔ چند لمحے خاموش رہا پھر رازدارانہ لہجے میں بولا۔ "یہاں اس شہر میں آپ کی دوچار پرانی محبوبائیں تو ہوں گی ہی!"

"کیوں! اس سے کیا غرض؟" نواب ہاشم اسے تیز نظروں سے گھورنے لگا!

"اوہو! بس آپ دیکھتے جائیے! ذرا مجھے ان کے پتے تو بتائیے گا! سب معاملہ آن واحد میں فٹ کرلوں گا۔ جی ہاں!"

"آخر مجھے بھی تو کچھ معلوم ہو!۔۔۔"

"ٹھہرئیے! ذرا ایک سوال کا جواب دیجئے۔ کیا آپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو نواب ہاشم ثابت کر دیا جائے؟"

"آپ میرا وقت برباد کر رہے ہیں!" دفعتا نواب ہاشم جھنجھلا گیا!

"میں یہ کہنا چاہتا ہوں نواب صاحب کہ اگر آپ کو نواب ہاشم ثابت کر دیاگیا تو پولیس بری طرح آپ کے پیچھے پڑ جائے گی۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ شاید آپ پولیس کے چکر میں پڑ ہی گئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ پولیس اس آدمی کے متعلق آپ کو ضرور پریشان کرے گی، جس کی لاش نے آپ کے نام سے شہرت پائی تھی!"

"میرے خدا! میں کیا کروں۔۔۔ کاش مجھے ان واقعات کا پہلے سے علم ہوتا۔۔۔ میں ہرگز واپس نہ آتا!"

"لیکن اب آپ کہیں جا بھی نہیں سکتے!"۔۔۔ عمران نے کہا!

"میں خود بھی یہی محسوس کرتا ہوں!" نواب ہاشم نے مضطربانہ انداز میں کہا۔

"آخر آپ اتنے پراسرار طریقے پر غائب کیوں ہو گئے تھے؟" عمران نے پوچھا!

"ختم کرو میاں، جو کچھ ہوگیا۔ دیکھ لیا جائیگا۔ میں پرانی باتیں کرید کر عوام کے لئے گفتگو کا موضوع بننا پسند نہیں کروں گا اور پھر میں تم سے ایسی باتیں کیا کروں صاحبزادے۔"

"نہ کیجئے! لیکن میں جانتا ہوں کہ عنقریب آپ کسی بڑی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے۔" عمران اٹھتا ہوا بولا۔

"ذرا ٹھہرئیے گا!" ۔۔۔ نواب ہاشم بھی اٹھتا ہوا بولا۔ "آپ میرے متعلق کیا لکھیں گے؟"

"یہ کہ آپ نواب ہاشم نہیں ہیں!" عمران نے رک کر کہا۔ لیکن مڑے بغیر جواب دیا!۔

"میں تمہارے اخبار پر مقدمہ چلا دوں گا!"

"ہاں یہ بھی اسی صورت میں ہوگا! جب آپ کو عدالت نواب ہاشم تسلیم کرلے!" عمران نے پرسکون لہجے میں کہا۔

"تم ایسا نہیں کرسکتے!" نواب ہاشم چیخ کر بولا!

"مجھے کوئی نہیں روک سکتا!" عمران بھی اسی انداز میں چیخا۔

"میں تمہیں گولی مار دوں گا!" نواب ہاشم کے چیخنے کا انداز بدستور باقی رہا۔

"دیکھوں تو کہاں ہے آپ کی بندوق؟" عمران پلٹ پڑا۔ "منہ پر گولی مارنے کے لئے!" عمران بھٹیارنیوں کے سے انداز میں ہاتھ ہلا کر نواب ہاشم سے لڑنے لگا! سب کچھ ہوگیا! بس ہاتھا پائی کی نوبت نہیں آئی! باہر کئی نوکر اکٹھے ہو گئے تھے! پھر ایک خوشرو اور قوی ہیکل آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ تیس سال رہی ہوگی! انداز سے کافی پھرتیلا آدمی معلوم ہوتا تھا!

"کیا بات ہے" اس نے گرجدار آواز میں پوچھا؟

"یہ۔۔۔ یہ" نواب ہاشم عمران کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ "کسی اخبار کا رپورٹر ہے۔"

"ہوگا! لیکن غل مچانے کی کیا ضرورت ہے!"

"یہ میرے خلاف اپنے اخبار میں مضمون لکھنے کی دھمکی دیتا ہے!"

"کیوں جناب! کیا معاملہ ہے؟"۔۔۔ وہ عمران کی طرف مڑا۔

"آپ شاید نواب ساجد ہیں!۔۔۔"

"جی ہاں! لیکن آپ خوامخواہ۔۔۔!"

"ذرا ٹھہریئے!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "میں دراصل آپ سے ملنا چاہتا تھا اور درمیان میں یہ حضرت آکودے۔ کہتے ہیں کہ میں نواب ہاشم ہوں!"

"کیوں جناب!" وہ نواب ہاشم کی طرف مڑا۔ "میں نے آپ کو منع کیا تھا نا کہ فضول باتیں نہ کیجئے گا!"

"ارے او ساجد! تجھ سے خدا سمجھے، میں تیرا چچا ہوں!"

"اگر آپ میرے چچا ہیں تو میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں سے چپ چاپ چلے جائیے! ورنہ پولیس آپ کو بہت پریشان کرے گی!" پھر اس نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔ "کیوں جناب؟"

"قطعی قطعی!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "بلکہ بالکل جناب!"

"اچھا جناب! آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے!"

"آہا۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ سے کتوں کے متعلق تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا!"

نواب ساجد عمران کو گھورنے لگا۔۔۔ وہ کتوں کا شوقین تھا اور شہر بھر میں اس سے زیادہ کتے اور کسی کے پاس نہیں تھے!۔۔۔
آپ کی صورت سے تو نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کو کتوں سے دلچسپی ہو" نواب ساجد تھوڑی دیر بعد بولا۔

"اس میں شبہ نہیں کہ ابھی میری صورت آدمیوں جیسی ہے۔۔۔ لیکن میں کتوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔۔۔!"

"کیا جانتے ہیں!"

"یہی کہ بعض اوقات کتے بلا وجہ بھی بھونکنے لگتے ہیں!۔۔۔"

"ہوں! تو آپ سی آئی ڈی کے آدمی ہیں۔" نواب ساجد عمران کو گھورنے لگا۔

"میں اے سے لے کر زیڈ تک کا آدمی ہوں۔ آپ اس کی پروا نہ کیجئے لیکن میں آپ سے کتوں کے متعلق تبادلہ خیال ضرور کروں گا!۔۔۔"

"کیجئے جناب!" نواب ساجد کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ "آپ یہی بتا دیجئے کہ شکاری کتے کتنی قسم کے ہوتے ہیں! اس سے میں آپ کے متعلق اندازہ لگا لوں گا۔"

"کتے کی ہرقسم میں شکار کی لت پائی جاتی ہے۔"

"شکاری سے میری مراد ہے اسپورٹنگ پریڈس!"

"تو یوں کہیئے نا!۔۔۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "اچھا گنئے انگلیوں پر!۔۔۔ ہیسنچی، بورزوتی، ڈیکشنڈ، گرے ہاؤنڈ، افغان ہاؤنڈ، آئرش الف ہاؤنڈ، ہیگل، فش ایئپٹر، ہیر بیئر۔۔۔ فوکس ہاؤنڈ، اوٹر ہاؤنڈ، بلڈ ہاؤنڈ، ڈئیر ہاؤنڈ، الک ہاؤنڈ، بیسٹ ہاؤنڈ، سلوکی اور خدا آپ کو جیتا رکھے۔۔۔ وہپسٹ۔۔۔ ہاں اب کہیے تو یہ بھی بتاؤں کہ کون کس قسم کا ہوتا ہے۔۔۔ ان کی عادات و خصائل سیاسی اور سماجی رحجانات پر بھی روشنی ڈال سکتا ہوں۔۔۔!"

"نہیں بس!۔۔۔ آپ کو یقینا کتوں سے دلچسپی ہے!۔۔۔ ہاں آپ کتوں سے متعلق کس موضوع پر گفتگو کریں گے؟"

"میں دراصل کتوں کی گمشدہ نسلوں کے متعلق ریسرچ کر رہا ہوں!" عمران بولا!

"گمشدہ نسلیں۔۔۔؟"

"جی ہاں! بھلا آپ اپنے یہاں کے کتوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟"

"دیسی کتے!" نواب ساجد نے نفرت سے منہ سکوڑ کر کہا!

"جی ہاں، دیسی کتے!۔۔۔ آج بھی ان پر ولایتی کتے مسلط ہیں! یہ بڑے شرم کی بات ہے!۔۔۔ آپ ولایتی کتوں کو سینے سے لگاتے ہیں اور دیسی کتے قعر مذلت میں پڑے ہوئے ہیں۔"

"اوہو!۔۔۔ کیا آپ دیسی نسل کے کتوں کے لیڈر ہیں؟" نواب ساجد ہنسنے لگا۔

"چلئے یہی سمجھ لیجئے! ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔"

"ٹھہریئے! میں دیسی کتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔" نواب ساجد اٹھتا ہوا بولا۔ "میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی کچھ نہ کچھ مصروفیت ضرور ہوگی۔" وہ عمران اور نواب ہاشم کو کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا۔

چند لمحے خاموشی رہی! نواب ہاشم عمران کو عجیب نظروں سے گھور رہاتھا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا "آخر تم ہو کیا بلا!"

"میں علی عمران! ایم۔ ایس سی۔ ڈی۔ ایس۔ سی ہوں!۔۔۔ آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی فرام سنٹرل انٹیلی جیجن بیورو۔ اب گفتگو کیجئے مجھ سے!"

"اوہ تب تو میرا بھتیجا بڑا چالاک معلوم ہوتا ہے!" نواب ہاشم ہنستا ہوا بولا۔ "ٹھہریئے! میں اسے بلاتا ہوں!۔۔۔"

"ٹھہریئے! مجھے جو کچھ معلوم کرنا تھا کرچکا!"

"یار تم اس قابل ہو کہ تمہیں مصاحب بنایا جائے!۔۔۔"

"اس سے زیادہ قابل ہوں نواب صاحب! میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں۔"

"پھر قلابازی کھائی"۔۔۔ نواب ہاشم نے قہقہہ لگایا۔۔۔ پھر سنجیدہ ہو کر بولا۔ "اب جاؤ! ورنہ میں پولیس کو فون کردوں گا!"

"مشورے کا شکریہ!" عمران چپ چاپ اٹھا اور باہر نکل گیا!۔۔۔ روش طے کرتے وقت اتفاقا اس کی نظر مالتی کی بے ترتیب جھاڑیوں کی طرف اٹھ گئی اور اس نے محسوس کیا کہ وہاں کوئی چھپا ہوا ہے!۔۔۔ دوسرے ہی لمحے اس نے اپنی رفتار تیز کردی! باہر نکل کر کار میں بیٹھا اور ایک طرف چل پڑا ڈیش بورڈ پر لگے ہوئے عقب نما آئینے میں ایک کار دکھائی دے رہی تھی جس کا رخ اسی کی طرف تھا!۔۔۔ اور کار حویلی ہی سے نکلی تھی۔"

عمران نے یونہی بلا وجہ اپنی کار ایک سڑک پر موڑ دی!۔۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد عقب نما آئینے کا زاویہ بدلنے پر معلوم ہوا کہ اب بھی وہی کار اس کی کار کا تعاقب کر رہی ہے۔۔۔ عمران تھوڑی دیر ادھر ادھر چکراتا رہا اور پھر اس نے کار شہر کی ایک بہت زیادہ بھری پری سڑک پر ڈال موڑ دی۔ دوسری کار اب بھی تعاقب کر رہی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ کار قریب آگئی۔ ساتھ ہی چوراہے کے سپاہی نے ٹریفک روکنے کا اشارہ کیا!۔۔۔ کاروں کی قطار رک گئی۔ تعاقب کرنے والی کار عمران کی کار کے پیچھے ہی تھی!۔۔۔ عمران نے مڑ کر دیکھا! دوسری کار میں اسٹیرنگ کےپیچھے نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد بیٹھا ہوا تھا۔!

عمران کے کار آگے بڑھائی۔۔۔ ایک چوراہے پر اسے پھر رکنا پڑا۔ پچھلی کار بدستور موجود تھی! اس بار عمران نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا ساجد نے ہاتھ ہلا کر اسے کچھ اشارہ کیا! سگنل ملتے ہی پھر عمران کی کار چل پڑی!۔۔۔ اس بار وہ زیادہ جلدی میں نہیں معلوم ہوا تھا۔۔۔!

تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے کار فٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کردی! سامنے ایک ریستوران تھا۔۔۔ عمران اس کے دروازے کے قریب کھڑا ہو کر نواب ساجد کو کار سے اترتے دیکھتا رہا! وہ تیر کی طرح عمران ہی کی طرف آیا!

" آپ سنتے ہی نہیں!" اس نے مسکرا کر کہا "چیختے چیختے حلق میں خراشیں پڑ گئیں!"

"معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دیسی کتوں کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور کیا ہے!"

"چلئے! اندر گفتگو کریں گے!"

"لیکن موضوع گفتگو صرف دیسی کتے ہوں گے"۔ عمران نے ریستوران میں داخل ہوتے ہوئے کہا!۔

وہ دونوں ایک خالی کیبن میں بیٹھ گئے! عمران نے بیرے کو بلا کر چائے کے لئے کہا۔

"میں نے چھپ کر آپ دونوں کی گفتگو سنی تھی!" ساجد بولا۔

"میں جانتا ہوں!" عمران نے خشک لہجے میں کہا!

"تو آپ واقعی سی آئی ڈی کے آدمی ہیں!"

عمران جیب سے ملاقاتی کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "اگر وہ واقعی نواب ہاشم ہیں تو آپ کو ایک بہت بڑی جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے!"

"کیا محض مشابہت کی بنا پر۔۔۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔" ساجد نے کہا۔

"دس برس پہلے جب نواب ہاشم کی لاش ملی تھی تو کوٹھی میں کون کون تھا؟"

"صرف مرحوم چند نوکروں کے ساتھ رہتے تھے۔"

"آپ کہاں تھے؟"

"میں اس وقت زیر تعلیم تھا اور قیام میسور کالج کے ایک ہوسٹل میں تھا۔"

"کفالت کون کرتا تھا آپ کی؟"

"چچا جان مرحوم! آہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی اور جب میں نے اس آدمی میں ان کی مشابہت پائی تو میرے دیدہ و دل فرش راہ ہو گئے۔۔۔ اگر وہ یہ کہنا چھوڑ دے کہ وہ نواب ہاشم ہے تو میں ساری زندگی اس کی کفالت کرتا رہوں گا!"

"کیا آپ بتا سکیں گے کہ نواب ہاشم کا قتل کیوں ہوا تھا؟"

"میں اسے قتل تسلیم کرنے کے لئے آج بھی تیار نہیں!" ساجد کچھ سوچتا ہوا بولا "دو سو فیصدی خود کشی تھی۔"

"آخر کیوں؟"

"حالات۔۔۔ مسٹر عمران۔۔۔ بندوق قریب ہی پائی گئی تھی اور چہرے پر باردو کی کھرنڈ ملی تھی! قتل کا معاملہ ہوتا تو باتیں نہ ہوتیں۔ قاتل ذرا فاصلے سے بھی نشانہ لے سکتا تھا! میرا خیال ہے کہ انہوں نے بندوق کا دہانہ چہرے کے قریب رکھ کر پیر کے انگوٹھے سے ٹریگر دبا دیا ہوگا۔"

"بہت بہت شکریہ!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "آپ نے معاملہ بالکل صاف کردیا!۔۔۔ لیکن اب خودکشی کے اسباب تلاش کرنے پڑیں گے؟" اتنے میں چائے آگئی اور عمران کو خاموش ہونا پڑا۔۔۔ جب ویٹر چلا گیا تو اس نے کہا۔

"کیا آپ خود کشی کے اسباب پر روشنی ڈال سکیں گے!"

"اوہ۔۔۔ وہ شاید کچھ عشق و عاشقی کا سلسلہ تھا!" نواب ساجد جھینپے ہوئے انداز سے بولا۔

"خوب" عمران کچھ سوچنے لگا! پھر کچھ دیر بعد بولا۔ "کیا ان کی محبوبہ کا پتہ مل سکے گا!"

"مجھے علم نہیں"

"جس رات یہ حادثہ ہوا تھا۔ آپ کہاں تھے؟"

"ہوسٹل میں!"

"اچھا! اب اگر یہ ثابت ہوگیا کہ نواب ہاشم یہی صاحب ہیں تو آپ کیا کریں گے۔۔۔؟"

"میں پاگل ہو جاؤں گا!" نواب ساجد جھلا کر بولا۔

"بہت مناسب ہے!" عمران نے سنجیدگی سے گردن ہلائی۔ "وہ اس وقت پرلے سرے کا احمق معلوم ہو رہا تھا۔"

جی!" ساجد اور زیادہ جھلا گیا!

"میں نے عرض کیا کہ اب آپ پاگل ہو کر پاگل خانے تشریف لے جائیے اور دس سال بعد پھر واپس آئیے۔ اس وقت تک نواب ہاشم کا انتقال ہو چکا ہوگا!"

"آپ میرا مضحکہ اڑا رہے ہیں!" نواب ساجد بھنا کر کھڑا ہو گیا۔

"جی نہیں! بلکہ آپ دونوں چچا بھتیجے قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں!"

"پھر آپ نے چچا کا حوالہ دیا۔"

"بیٹھئے جناب!" عمران نے آہستہ سے کہا "اب یہ بتائیے۔۔۔ کہ اصل واقعہ کیا ہے؟"

"میں آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا!"

"اچھا خیر! جانے دیجئے! اب ہم کتوں کے متعلق گفتگو کریں گے!"

ساجدبیٹھ گیا لیکن اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہے۔

"میں اس کتے ریگی کے متعلق پوچھنا چاہوں گا!"

"یہ اسی شخص کا ہے!" نواب ساجد نے کہا۔

"بھلا کس نسل کا ہوگا؟"

"دوغلا ہیگل ہے!۔۔۔"انتہائی کاہل اور کام چور کتا ہے! اگر یہ اصیل ہوتا تو کیا کہنا تھا! واہ واہ!"

"کیا پہلے بھی کبھی نواب ہاشم نے کتے پالے تھے؟"

"نہیں انہیں کتوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے!"

"آپ اسے حویلی سے نکال کیوں نہیں دیتے؟" ساجد کچھ نہ بولا۔ عمران اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا! کچھ دیر بعد اس نے کہا!"آپ جانتے ہیں! وہ کیا کر رہا ہے؟"

"میں کچھ نہیں جانتا! لیکن وہ مجھے بڑا پراسرار آدمی معلوم ہوتا ہے۔"

"وہ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میرے محکمے کے سپرنٹنڈنٹ سے ملا تھا اور اس نے اسے اپنے کاغذات دکھائے تھے!"

"کیسے کاغذات؟"

"دو سال تک وہ اتحادیوں کے ساتھ نازیوں سے لڑتا رہا تھا! وہ یعنی نواب ہاشم ولد نواب قاسم عہدہ میجر کا تھا!۔۔۔ بھلا ان کاغذات کو کون جھٹلا سکتا ہے!۔۔۔ آج وہ بین الاقوامی حیثیت رکھتے ہیں۔"

"میرے خدا۔۔۔" ساجد حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! چند لمحے خاموش رہا۔ پھر ہذیانی انداز میں جلدی جلدی بولنے لگا! "ناممکن۔۔۔ غلط ہے۔۔۔ بکواس ہے۔۔۔ وہ کوئی فراڈ ہے۔۔۔ میں اسے آج ہی دھکے دلوا کر حویلی سے نکلوا دوں گا!"

"مگر اس سے کیا ہوگا؟۔۔۔ اس کا دعوٰی بدستور باقی رہے گا؟"

"پھر بتایئے میں کیا کروں؟" ساجد بے بسی سے بولا۔ "میں نے اسے حویلی میں ٹھہرنے کی اجازت دے کر سخت غلطی کی۔"

"اگر یہ غلطی نہ کرتے تو اس سے کیا فرق پڑتا؟"

"پھر میں کیا کروں؟"

"پتہ لگائیے کہ نواب ہاشم کا قتل کن حالات میں ہوا تھا۔"

"میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ کسی عورت کا چکر تھا!۔۔۔"

"کون تھی۔۔۔ کہاں تھی۔۔۔؟"

"میں تفصیل نہیں جانتا۔ چچا جان نے شادی نہیں کی تھی۔۔۔ البتہ ان کی شناسا بہتیری عورتیں تھیں! اس زمانے میں کسی عورت کا بڑا شہرہ تھا، جو عالمگیری سرائے میں کہیں رہتی تھی! چچا جان اس سلسلے میں کسی کے ساتھ جھگڑا بھی کر بیٹھے تھے!۔۔۔ بہرحال یہ اڑتی اڑتی خبر تھی! میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حقیقت ہی تھی۔۔۔"

"عالمگیری سرائے!" عمران کچھ سوچتا ہوا بڑبڑایا "لیکن محض اتنی سی بات پر تو کوئی سراغ نہیں مل سکتا!"

"دیکھئے ایک بات اور ہے!" ساجد نے کہا!۔۔۔ "مگر آپ میرا مضحکہ اڑائیں گے۔"

"کیا یہ کوئی پردار چیز ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"کیا چیز؟" ساجد اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔

"یہی مضحکہ!"

"نہیں تو۔۔۔" ساجد کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا!

"بھلا پھر کیسے اڑے گا؟" عمران سر جھکا کر تشویش آمیز انداز میں بڑبڑایا! پھر سر اٹھا کر آہستہ سے بولا!۔

"آپ جو کہنا چاہتے ہیں بے تکلف ہو کر کہیئے۔ ہم لوگوں کو مضحکہ اڑانے کی تنخواہ نہیں ملتی۔"

"دیکھئے! بات ذرا بے تکی سی ہے! اس لئے۔۔۔ لیکن سوچتا ہوں کہ کہیں وہ حقیقت ہی نہ ہو!"

"اگر حقیقت نہ ہو۔ تب بھی سننے کے لئے تیار ہوں!" عمران اکتا کر بولا!

"میں عالمگیری سرائے کی ایک ایسی لڑکی کو جانتا ہوں، جو چچا مرحوم سے کافی مشابہت رکھتی ہے!"

"بھلا یہ کیا بات ہوئی!"

"ہوسکتا ہے کہ وہ چچا جان کی کوئی ناجائز اولاد ہو!"

"کیا عمر ہوگی۔۔۔!"

"بیس سے زیادہ نہیں۔"

"تو وہ اس زمانے میں دس سال کی رہی ہوگی! مگر کسی ایسی عورت کے لئے جو دس سال کی لڑکی بھی رکھتی ہو قتل وغیرہ نہیں ہوسکتے۔۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟"

"میں کب کہتا ہوں کہ اسی عورت کے لئے دو قتل ہو گئے ہوں گے!" ساجد نے کہا۔ "ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور عورت ہو۔۔۔ اور میں اس کے متعلق بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا!۔۔۔ دیکھئے یہ میرا ذاتی خیال تھا۔۔۔ ورنہ محض مشابہت اسے چچا جان کی اولاد نہیں ثابت کرسکتی!"

"تو آپ کو تو اس لڑکی سے خاص طور پر بڑی دلچسپی ہوگی!"

"بس اسی حد تک کہ اسے دیکھنے کو دل چاہتا ہے! لیکن نہ تو میں نے آج تک اس سے گفتگو کی اور نہ وہ مجھے جانتی ہے لیکن میں آپ کو اس کے گھر کا پتہ بتا سکتا ہوں!"

"بہرحال!" عمران مسکرا کر بولا! "آپ اس کا تعاقب کرتے رہتے ہیں"

"میں کیابتاؤں جناب! اسے دیکھ کر دل بے اختیار اس کی طرف کھینچتا ہے۔"

"اگر واقعی دل کھنچتا ہے تو مجھے اس کا پتہ ضرور بتایئے!۔۔۔"

"عالمگیری سرائے میں ادھورے مینار کے قریب زرد رنگ کا ایک چھوٹا سا مکان ہے۔۔۔!"

عمران نے چائے کی پیالی رکھ دی! اس کے چہرے پر تحیر کے آثار تھے! کیونکہ یہ وہی پتہ تھا جو اسے کچھ دیر قبل موڈی نے بتایا تھا!۔۔۔

"آپ کو یقین ہے کہ وہ لڑکی اسی مکان میں رہتی ہے!" اس نے ساجد سے پوچھا۔

"اوہ میں نے سینکڑوں بار اسے وہاں جاتے دیکھا ہے!" ساجد بولا۔

"اچھا مسٹر! میں کوشش کروں گا کہ۔۔۔" عمران جملہ ادھوراہی چھوڑ کر اٹھ گیا اس دوران میں اس نے چائے کا بل ادا کردیا تھا!

"اگر کبھی میں آپ سے ملنا چاہوں تو کہاں مل سکتا ہوں؟" ساجد نے پوچھا۔

"میرے کارڈ پر میرا پتہ اور ٹیلیفون نمبر موجود ہیں!" عمران نے کہا اور ریسٹوران سے باہر نکل گیا!۔۔۔ لیکن اب اس کا رخ اپنی کارکی بجائے ایک دوا فروش کی دکان کی طرف تھا۔ وہاں اس نے کالرا مکسچر کی ایک بوتل خریدی۔۔۔ دوا فروش شاید اس کا شناسا ہی نہیں بلکہ اسے اچھی طرح جانتا تھا! کیونکہ عمران نے اس سے انجکشن لگانے کی سرنج عاریتا مانگی تو اس نے انکار نہیں کیا!۔۔۔پھر اس نے کسی دوا کے دو ایمپل بھی خریدے!
تھوڑی دیر بعد عمران کی کار عالمگیری سرائے کی طرف جا رہی تھی۔ ادھورے مینار کے قریب پہنچ کر عمران رک گیا!۔۔۔ یہاں چاروں طرف زیادہ تر کھنڈر نظر آرہے تھے۔ لہٰذا ایک چھوٹے سے پیلے رنگ کے مکان کی تلاش میں دشواری نہیں ہوئی!۔۔۔ قرب و جوار میں قریب قریب سب ہی بہت پرانی عمارتیں تھیں!۔۔۔ جو ویران بھی تھیں اور آباد بھی تھیں! جو حصے منہدم ہو گئے تھے بیکار پڑے تھے اور جن کی چھتیں اور دیواریں قائم تھیں ان میں لوگ رہتے تھے!۔

عمران پیلے رنگ کی عمارت کے سامنے رک گیا! کار اس نے وہاں سے کافی فاصلے پر چھوڑ دی تھی! دروازے پر دستک دینے کے بعد اسے تھوڑی دیر تک انتظار کرنا پڑا۔۔۔ دروازہ کھلا اور اسے ایک حسین سا چہرہ دکھائی دیا۔ یہ ایک نوجوان لڑکی تھی جس کی آنکھوں سے نہ صرف خوف جھانک رہا تھا بلکہ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کچھ دیر قبل روتی رہی ہو۔!

"میں ڈاکٹر ہوں" عمران نے آہستہ سے کہا۔ "ہیضے کا ٹیکہ لگاؤں گا۔"

لڑکی پورا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

"آپ میونسپلٹی کے ڈاکٹر ہیں!" اس نے پوچھا لیکن عمران اس کے لہجے میں ہلکی سی لہر محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا!۔۔۔

"جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھیں!" عمران بولا۔۔۔ وہ کچھ دیر پہلے اس آدمی کو دیکھ چکا تھا جسے نواب ہاشم ہونے کا دعوٰی تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ حقیقتا دونوں میں تھوڑی بہت مشابہت ضرور ہے!

"میں نہیں سمجھ سکی!" لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ "میں بیس سال سے اس مکان میں ہوں! لیکن میں نے بچپن سے لے کر شاید ہی کسی سرکاری ڈاکٹر کی۔۔۔ آمد کے متعلق سنا ہو!"

"آنا تو چاہئے ڈاکٹروں کو۔۔۔"عمران مسکرا کر بولا۔۔۔ "اب اگر کوئی نہ آئے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ میں ابھی دراصل حال ہی میں یہاں آیا ہوں۔"

"کیا آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں گے؟" لڑکی بولی!

"کیوں؟"

"بات یہ ہے کہ میں اپنے عزیز کو بھی ٹیکہ لگوانا چاہتی ہوں!"

"اوہ! آپ فکر نہ کیجئے! میں ایک ہفتہ کے اندر اندر یہاں سب کے ٹیکہ لگا دوں گا!"

"نہیں اگر آج ہی لگا دیں تو بڑی عنایت ہوگی! وہ بڑے وہمی آدمی ہیں۔ آج کل ہیضے کی فصل بھی ہے، بہت پریشان رہتے ہیں!"

"تو آپ مجھے ان کا پتہ بتا دیجئے!"

"یہیں لاتی ہوں!" لڑکی نے کہا اور تیزی سے ایک گلی میں گھس گئی۔ عمران احمقوں کی طرح کھڑا رہ گیا! پانچ منٹ گزر گئے لیکن لڑکی نہ آئی عمران نے پھر دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی، اسے توقع تھی کہ گھر کے اندر لڑکی کے علاوہ بھی کوئی اور ہوگا۔ لیکن بار بار دستک دینے کے باوجود بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔۔۔ پانچ منٹ اور گزر گئے اور اب عمران کو یہ سوچنا پڑا کہ کہیں لڑکی جل دے کر تو نہیں نکل گئی! موڈی کے بتائے ہوئے حلیے پر وہ سو فیصدی پوری تھی!۔۔۔ عمران نے سوچا کہ اگر واقعی وہ جل دے گئی ہے تو اس سے زیادہ شاطر لڑکی شاید ہی کوئی ہو! اچانک اسے بھاری قدموں کی آوازیں سنائی دیں جو رفتہ رفتہ قریب آرہی تھیں! پھر ایک گلی سے تین باوردی پولیس والے برآمد ہوئے۔ جن میں ایک سب انسپکٹر تھا اور دو کانسٹیبل! لڑکی ان کے ساتھ تھی۔۔۔!

وہ قریب آگئے اور لڑکی نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا! "ذرا ان سے پوچھئے۔ یہ کہاں سے آئے ہیں؟"

سب انسپکٹر نے عمران کو تیز نظروں سے دیکھا! شاید اسے نہیں پہچانتا تھا!"

"آپ کہاں کے ڈاکٹر ہیں؟" اس نے عمران سے پوچھا!

"ڈاکٹر؟" عمران نے حیرت سے کہا۔ "کون کہتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں؟"

"دیکھا آپ نے!" لڑکی نے سب انسپکٹر کو مخاطب کیا! اس کے لہجے میں مسرت آمیز کپکپاہٹ تھی!

"تو آپ نے خود کو ڈاکٹر کیوں ظاہر کیا تھا؟" سب انسپکٹر گرم ہوگیا۔

"کبھی نہیں!" عمران لڑکی کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ "میں نے تو ان سے صدرالدین اللہ والے کا پتہ پوچھا تھا انہوں نے کہا کہ ٹھہریئے میں بلائے لاتی ہوں! مگر آپ میاں صدرالدین اللہ والے تو نہیں معلوم ہوتے!"

"یہ جھوٹ ہے سراسر جھوٹ ہے!" لڑکی جھلا کر چیخ اٹھی!

"ارے توبہ ہے!" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔"آپ مجھے جھوٹا کہتی ہیں!"

"نہیں مسٹر! اس سے کام نہیں چلے گا!" سب انسپکٹر بھنویں چڑھا کر بولا!

"تو پھر جس طرح آپ کہیے کام چلایا جائے!" عمران نے بے بسی کے اظہار کے لئے اپنے سر کو خفیف سی جنبشی دی!۔

"آپ کو میرے ساتھ تھانے تک چلنا پڑے گا!" سب انسپکٹر پوری طرح غصے میں بھر گیا تھا!

"ذرا ایک منٹ کے لئے ادھر آیئے!" عمران نے کہا۔ پھر وہ اسے گلی کے سرے تک لایا جہاں سے لڑکی اور کانسٹیبل کافی فاصلے پر تھے لیکن طرفین ایک دوسرے کو بآسانی دیکھ سکتے تھے۔ عمران نے جیب سے اپنا کارڈ نکال کر سب انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا۔ کارڈ پر نظر پڑتے ہی پہلے تو اس نے عمران کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ پھر یک بیک تین قدم پیچھے ہٹ کر اسے سلیوٹ کیا! لڑکی اور دونوں کانسٹیبلوں نے اس کی اس حرکت کو بڑی حیرت سے دیکھا! ادھر سب انسپکٹر ہکلا رہا تھا۔ "معاف۔۔۔ کیجئے گا! میں آپ کو پہچانتا نہیں تھا مگر حضور والا یہ لڑکی بہت پریشان ہے!"

"کیوں؟"

"کہتی ہے کہ کسی نے گھر سے اس کے پچیس ہزار روپے اڑا لئے ہیں اور یہ بھی کہتی ہے کہ کچھ نامعلوم آدمی عرصے سے اس کا تعاقب کرتے رہے ہیں!"

"ہوں!۔۔۔ گھر میں اور کون ہے؟"

"کوئی نہیں تنہا رہتی ہے! ایک ماہ گزرا اس کے باپ کا انتقال ہوگیا!"

"آپ نے پوچھا نہیں کہ روپے کہاں سے آئے تھے! بظاہر حالت ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ گھر میں نقد پچیس ہزار روپے رکھنےکی بساط ہو!"

"جی ہاں! میں سمجھتا ہوں! لیکن لڑکی شریف معلوم ہوتی ہے!"

"شریف معلوم ہوتی ہے!" عمران نے حیرت سے دہرایا۔ پھر ذرا تلخ لہجے میں بولا "براہ کرم! محکمے کو بنئے کی دکان نہ بنائیے۔۔۔ شرافت وغیرہ بھی وہاں دیکھی جاتی ہے جہاں ادھار کا لین دین ہوتا ہے! بس اب تشریف لےجائیے! مگر نہیں ٹھہرئیے!"

"کیا آپ نے باقاعدہ طور پر چوری کی رپورٹ درج کردی ہے؟"

سب انسپکٹر بغلیں جھانکنے لگا۔

"جی بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔!"

"لڑکی حسین بھی ہے۔۔۔ اور جوان بھی۔" عمران نے جملہ پورا کردیا!"جب رپورٹ نہیں درج کی ہے تو اس کے ساتھ بھاگے آنے کی کیا ضرورت تھی!"

"جی دراصل۔۔۔"

"چلے جاؤ!" عمران نے گرج کر کہا۔

سب انسپکٹر تھوک نگل کر رہ گیا۔ عمران کی گرج لڑکی اور کانسٹیبلوں نے بھی سنی تھی۔ سب انسپکٹر چپ چاپ گلی میں داخل ہوگیا! کانسٹیبلوں نے دیکھا تو وہ بھی کھسک گئے۔ لڑکی جہاں تھی وہیں کھڑی رہی! عمران اس کے قریب پہنچا۔!

"تمہارا نام دردانہ ہے؟"

"جی ہاں!"

"تم نے مسٹر والٹر موڈی کے ہاتھ کوئی سنگار دان فروخت کیا تھا؟"

"جی ہاں!" لڑکی نے کہا! اس کے انداز میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہیں تھی!

"وہ تمہارا ہی تھا؟"

"میں آخر یہ سب کیوں بتاؤں؟"

"اس لئے کہ محکمہ سراغرسانی کا ایک آفیسر تم سے سوالات کر رہا ہے۔"

لڑکی چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر بولی!"جی ہاں وہ میرا ہی تھا۔ والدہ کو ورثے میں ملا تھا۔ چند پراسرار آدمی اسے میرے پاس سے نکال لے جانا چاہتے تھے! اس لئے میں نے مسٹر موڈی کے ہاتھ فروخت کردیا!"

"پچیس ہزار میں؟"

"جی ہاں!۔۔۔ اور پھر میں نے وہ پچیس ہزار بھی کھو دیئے!" لڑکی کے لہجے میں بڑا درد تھا۔

"کس طرح۔"

"چور لے گئے! میرا خیال ہے کہ وہی لوگ ہوں گے جو عرصہ تک اس سنگار دان کے چکر میں رہے ہیں! انہوں نے مسٹر موڈی کا بھی پیچھا کیا تھا مگر وہاں دال نہیں گلی!"

"اب اچھی طرح گل گئی ہے!" عمران سر ہلا کر بولا!

"میں نہیں سمجھی!"

"حوالات ایسی جگہ ہے جہاں کھٹمل اور مچھر سب کچھ سمجھا دیتے ہیں!"

"لیکن حوالات سے مجھے کیا غرض؟"

"دیکھو لڑکی! بننے سے کام نہیں چلے گا۔ چپ چاپ اپنے ساتھیوں کے پتے بتادو! تمہیں تو خیر یہ کہہ کر بھی بچایا جا سکتا ہے کہ تم محض آلہ کار تھیں۔ معاملے کی اہمیت سے واقف نہیں تھیں!"

"میں کچھ نہیں سمجھی جناب!"

"تم نے جس سنگار دان کے پچیس ہزار وصول کئے ہیں! وہ ڈیڑھ سو میں بھی مہنگا ہے!"

"آپ کو دھوکہ ہوا ہوگا!" لڑکی نے مسکرا کر کہا! "اس میں ہزاروں روپے کے جواہرات جڑے ہوئے ہیں!"

"نقل۔۔۔ امیٹیشن!"

"ناممکن! میں نہیں مان سکتی۔"

عمران چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بولا!"نواب ہاشم کو جانتی ہو؟"

"میں نہیں جانتی!"

"نواب ساجد کو۔"

"آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ بھلا نوابوں کو کیوں جاننے لگی! کیا آپ مجھے آوارہ سمجھتے ہیں؟"

"نہیں کوئی بات نہیں!۔۔۔ ہاں ہم اس سنگار دان کے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔"

"آخر آپ کو یہ شبہ کیسے ہوا کہ وہ جواہرات نقلی ہیں؟"

"بیکار باتوں میں نہ الجھو! ساتھیوں کے نام بتادو!"

"میرے خدا!" لڑکی دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر دیوار کا سہارا لیتی ہوئی بولی۔

"کس مصیبت میں پھنس گئی!"

"میں سچ کہتا ہوں کہ وہ کم از کم تمہارے لئے مصیبت نہ ہوگی! ہاں شاباش بتا دو ساتھیوں کے نام!"

"خدا کی قسم میرا کوئی ساتھی نہیں! میں بالکل بے سہارا ہوں!"

"اچھا لڑکی!" عمران طویل سانس لے کر بولا!"تم کسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہو!"

"میں نہیں جانتی!۔۔۔ بہرحال مجھ سے یہی۔۔۔!"

"یہی کہا گیا تھا۔۔۔ ہے نا شاباش!" عمران جلدی سے بولا۔ "کس نے کہا تھا؟"

"میرے ایک ہمدرد نے!"

"آہا۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ میں اسی ہمدرد کا پتہ چاہتا ہوں۔"

"پتہ مجھے نہیں معلوم!"

"لڑکی میرا وقت برباد نہ کرو!"

"خدا کی قسم! میں ان کا پتہ نہیں جانتی! والد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے میری بہت مدد کی ہے! غالبا وہ والد صاحب کے گہرے دوستوں میں سے ہیں!"

"اور تم ان کا پتہ نہیں جانتیں! تعجب ہے!"

"نہیں تعجب نہ کیجئے! والد صاحب کے انتقال کے بعد مجھے علم ہوا کہ وہ ان کے دوست تھے!"

"والد کا انتقال کب ہوا!"

"ایک مہینہ پہلے کی بات ہے۔ میں یہاں موجود بھی نہیں تھی! ایک ضروری کام کے سلسلے میں باہر گئی ہوئی تھی۔ والد صاحب اسی دوران میں سخت بیمار پڑ گئے! ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خود ہی اپنے دوست کو تیمارداری کے لئے بلایا ہو! بہرحال جب میں واپس آئی تو وہ دو دن قبل ہی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور پھر میں نے ان کی قبر دیکھی۔۔۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ ان کی تجہیز و تکفین بڑی شان سے ہوئی تھی! سنگار دان کے وجود سے میں پہلے بھی واقف تھی اور اسے بہت زیادہ قیمتی سمجھتی تھی! کیونکہ والد صاحب کی زندگی میں ہی بعض پراسرار آدمیوں نے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی!۔۔۔"

"تمہارے والد کے دوست نے تمہیں کیا مشورہ دیا تھا!"

"یہی کہ میں اس سنگار دان کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دوں!" میں نے کہا کہ آپ ہی اپنے پاس رکھ لیجئے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں بھی خطرے میں پڑ جاؤں گا۔ ہاں اگر کوئی غیرملکی۔۔۔ یعنی انگریز یا امریکن تمہاری مدد کرسکے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔ انہوں نے مجھے موڈی صاحب کو دکھایا جو اکثر ادھر سے گزرتے رہتے ہیں!"

"موڈی ادھر سے گزرتا رہتا ہے!"

"جی ہاں! اکثر۔۔۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے! ہاں تو ایک شام والد صاحب کے دوست بھی یہاں موجود تھے! اتفاقا موڈی صاحب کی کار ادھر سے گزری اور انہوں نےمجھ سے کہا کہ میں سنگار دان کو ساتھ لے کر ان کی کار میں بیٹھ جاؤں۔ کار کی رفتار دھیمی تھی! میں بیٹھ گئی اور جو کچھ مجھے کرنا تھا وہ انہوں نے مجھے پہلے ہی سمجھا دیا تھا!"

"یہی کہ میں شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ سب کچھ جو آپ کو موڈی صاحب سے معلوم ہوا ہے، میں کہاں تک بتاؤں! میرا سر چکرا رہا ہے۔۔۔!"

"تو تم شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتیں!"

"مجھے علم نہیں ہے کہ میں کس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں! والد صاحب نے مجھے کبھی نہیں بتایا!۔۔۔ وہ ایک بہت بڑے عالم تھے۔ ہمارے یہاں کتابوں کے ڈھیر کے ڈھیر آپ کو ملیں گے۔"

"اچھا وہ کرتے کیا تھے؟"

"تصویروں کے بلاک بنایا کرتے تھے! اس سے خاصی آمدنی ہو جاتی تھی! لیکن پچھلے چھ سال سے جب وہ چار سال کی روپوشی کے بعد واپس آئے تو کچھ بھی نہیں کرتے تھے!"

"میں سمجھا نہیں!"

"آپ بڑی دیر سے کھڑے ہیں۔ اندر تشریف لے چلئے!" لڑکی نے کہا! "اگر واقعی سنگار دان کے جواہرات نقلی ہیں تب تو مجھے خودکشی ہی کرنی پڑے گے! کیونکہ موڈی صاحب کے روپے بھی چوری ہو گئے۔"

وہ دونوں اندر آئے جس کمرے میں لڑکی اسے لائی، اس میں چاروں طرف کتابوں سے بھری الماریاں رکھی ہوئی تھیں!

"یہ ایک بڑی لمبی داستان ہے جناب!"۔۔۔ لڑکی نے بات شروع ہی کی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازے پر دستک دی!

"ذرا ایک منٹ ٹھہریئے گا!" لڑکی نے کہا اور اٹھ کر چلی گئی! عمران گہری نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا!۔۔۔ اچانک اسے ایک آواز سنائی دی اور وہ بے اختیار چونک پڑا۔ کیونکہ وہ موڈی کی آواز تھی اور پھر دوسرے ہی لمحے میں وہ لڑکی موڈی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔

"عمران!" موڈی دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رہ گیا۔

"آؤ۔۔ آؤ۔۔۔" عمران مسکرا کرو بولا!

"یہ تم نے کیا کیا۔۔۔ تم نے شہزادی صاحبہ کو کچھ بتایا تو نہیں؟"

"شٹ اپ ادھر آؤ اور خاموش بیٹھو۔"

"نہیں! میں اسے پسند نہیں کرتا!۔۔۔ مجھے اپنے رپوں کی پروا نہیں۔۔۔ تم یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ شہزادی صاحبہ نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا! مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔"

"شہزادے کے بچے! اگر بکواس کرو گے تو تمہیں بھی بند کرادوں گا!" عمران نے کہا اور وہ یک بیک ناک سکوڑ کر رہ گیا۔۔۔

"کہیں کپڑے جل رہے ہیں کیا؟"۔۔۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر رکہا!

"میں بھی کچھ اسی قسم کی بو محسوس کر رہی ہوں۔"موڈی نے پھر بوکاس شروع کردی۔

عمران اس کی طرف دھیان دیئے بغیر کچھ سوچ رہا تھا۔۔۔ اچانک ہوا کے جھونکے کے ساتھ کثیف دھوئیں کا ایک بڑا سا مرغولہ کمرے میں گھس آیا۔۔۔ اور تینوں بوکھلا کراٹھ کھڑے ہوگئے! عمران کھڑکی کی طرف جھپٹا!۔۔۔ ایک کمرے میں دھوئیں کے بادل امنڈ رہے تھے۔

"آگ!" لڑکی بے تحاشا چیخی اور پھر باہر نکل کر اس کمرے کی طرف دوڑی! عمران اور موڈی۔۔۔ ہاں ہاں کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے! لیکن وہ کمرے میں پہنچ چکی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں بھی بے تحاشا اندر گھسے!۔۔۔ کمرے کے وسط میں کپڑوں اور کاغذات کا ایک بہت بڑا ڈھیر جل رہ اتھا! ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ساری چیزیں ایک جگہ اکٹھا کرکے ان میں دیدہ دانستہ آگ لگائی گئی ہو!

لڑکی اس طرح سینے پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑی تھی جیسے قدیم آتش کدوں کی کوئی پجارن ہو!۔۔۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں اور ہونٹ کپکپا رہے تھے! یکا یک وہ چکرا کر گری اور بیہوش ہوگئی۔



)۶(​

عمران کمرے میں ٹہل رہا تھا اور کیپٹن فیاض اسے اس طرح گھور رہا تھا جیسے کچا ہی چبا جائے گا۔

"دیکھو فیاض!" عمران ٹہلتے ٹہلتے رک کر بولا!"یہ کیس بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ نواب ہاشم کی موت خواہ قتل سے ہوئی ہو یا خودکشی دونوں ہی صورتیں مضحکہ خیز ہیں! آخر قاتل نے چہرے پر کیوں فائر کیا۔ اس کے لئے تو سینہ یا پیشانی ہی زیادہ مناسب ہوتی ہیں!موت قریب قریب فورا ہی واقع ہو جاتی ہے۔۔۔ میں نے فائل کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے! مقتول کے چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر خراش تک نہیں ملی تھی اور لاش کہاں تھی؟ بستر پر!۔۔۔ مرنے والا چت پڑا ہوا تھا۔۔۔ فیاض میں کہتا ہوں کہ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ بستر پر پھیلا ہوا خون مرنے والے کا ہی تھا!"

"میرے دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری بکواس سن سکوں! ابھی تم ایک ایسی لڑکی کی کہانی سنا رہے تھے جس نے موڈی کے ہاتھ سنگاردان فروخت کیا تھا!۔۔۔ اب نواب ہاشم کے قتل پر آکودے!"

"تم میری بات کا جواب دو!"

"بستر پر پھیلا ہوا خون مرنے والے کا نہیں تھا!" فیاض ہنس پڑا پھر اس نے سنجیدگی سے کہا!"اب تم ایک ذمہ دار آدمی ہو۔ لونڈا پن ترک کردو۔"

"فیاض صاحب! میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ موت اس کمرے میں واقع ہی نہیں ہوئی تھی! میرا خیال ہے کہ اسے کسی دوسری جگہ پر گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا۔ پھر چہرے پر فائر کرکے شکل بگاڑ دی گئی۔"

"مجرم چونکہ فائر ہی کو موت کی وجہ قرار دینا چاہتا تھا اس لئے اس نے لاش کو بستر پر دال دیا اور بستر کو کسی چیز کے خون سے ترکردینے کے بعد اپنی راہ لی۔۔۔ اگر یہ بات نہیں تو پھر تم ہی بتاؤ کہ کمرے میں کسی قسم کے جدوجہد کے آثار کیوں نہیں پائے گئے تھے!"

"جدوجہد! کمال کرتے ہو!۔۔۔ ارے برخوردار سوتے میں اس پر گولی چلائی گئی تھی!"

"تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج سے دس سال پہلے تمہارا محکمہ کسی یتیم خانےکا دفتر تھا!"

"کیوں؟"

"اس لئے کپتان صاحب! کہ فائل میں لگی ہوئی رپورٹ قطعی نامکمل ہے!"

"کیوں نامکمل ہے؟"

"یار تم بھی کسی یتیم خانے کے متولی یا مینیجر ہو!۔۔۔ میرا خیال ہے کہ تمہاری کرسی پر تمہارا چپراسی تم سے زیادہ اچھا معلوم ہو!"

"کچھ بکو گے بھی؟" فیاض جھلا گیا۔

"یہ تم بھی مانتے ہو کہ فائر ہت قریب سے کیا گیا تھا! یعنی بہت ممکن ہے کہ نال سے چہرے کا فاصلہ ایک بالشت سے بھی کم رہا ہو!"

"گھسی ہوئی بات ہے۔"

"اچھا تو فیاض صاحب بستر میں کوئی چھرہ وغیرہ کیوں نہیں پیوست ہوا تھا؟ یا بستر پر بھی بارود کے اثرات کیوں نہیں ملے؟"

"ضرور ملے ہوں گے۔"

"مگر میرے سرکار! رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں ہے!۔۔۔ یہ واقعہ صرف دس سال پہلے کا ہے۔ سو برس پہلے کا نہیں جسے تم آدمی کی کم علمی ثابت کرکے ٹال جاؤ۔۔۔ میرا دعوٰی ہے کہ تفتیش کرنے والے کو چہرے کے آس پاس بارود کے نشانات ملے ہی نہ ہوں گے ورنہ وہ ضرور تذکرہ کرتا۔۔۔ اور پھر لاؤ مجھے وہ فائیل دو جس میں خون کے کیمیائی تجزیے کی رپورٹ ہو!"

"اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی تھی کہ خون کی ٹائپ کا پتہ لگایا جاتا! وہ مرنے والے ہی کا خون تھا! ہم سب اس پر متفق ہو گئے تھے۔"

"جب لوگوں کی ہمت جواب دینے لگتی ہے تو وہ اسی طرح متفق ہو جاتے ہیں! تم لوگ ہمیشہ پیچدگیوں سے گھبراتے ہو! پیچیدہ معاملات کو بھی اس طرح کھینچ تان کر سیدھا کر لیتے ہو کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے! پوسٹ مارٹم کی رپورٹ صاف کہہ رہی ہے کہ موت اچانک قلب کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے اور تم لوگ فائر کی لکیر پیٹتے ہو۔۔۔"

"ہاں قطعی درست ہے!" فیاض سرہلا کر بولا۔"وہ سو رہا تھا کہ اچانک کان کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور اس کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے تڑپنے کی بھی مہلت نہیں ملی اس لئے بستر بھی شکن آلود نہیں تھا۔۔۔ وہ جیسے لیٹا ہوا تھا ویسے ہی ٹھنڈا ہوگیا!"

"میرا اعتراض اب بھی باقی ہے! آخر بستر پر چھرے کیوں نہیں لگے۔۔۔ کیا ہوگئے؟۔۔۔ کیا اس وقت بندوق کا بھی ہارٹ فیل ہو گیا تھا؟"

"جہنم میں جائے!" فیاض اکتائے ہوئے انداز میں بولا۔ "کیس تمہارے پاس ہے۔۔۔ جا کر جھک مارو!۔۔۔ مگر ہاں تم اس لڑکی کا تذکرہ کر رہے تھے، وہ کیس واقعی دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اچھا پھر جب وہ بیہوش ہو گئی تو تم نے کیا کیا؟"

"صبر کیااور کافی دیر تک سر پیٹتا رہا۔" عمران جیب میں ہاتھ ڈال کر چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا!

"آگ کیسے لگی تھی؟"

"یقینا دیا سلائی یا سگار لائیٹر سے ہی لگی ہوگی!"

"تم عجیب آدمی ہو!" فیاض نے جھلا کر کہا۔ عمران کچھ نہ بولا! چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا "لڑکی میرے لئے ایک نئی الجھن پیدا کر رہی ہے!"

"اوہ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ واقعی معصوم ہے؟"

"ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہا بھی پورے واقعات بھی نہیں معلوم ہو سکے اور لڑکی ہسپتال میں ہے۔۔۔ میں اسی وقت وہیں جا رہا ہوں!"



)۷(​

موڈی نے سنٹرل ہسپتال کے پرائیویٹ وارڈ میں ایک کمرہ حاصل کر لیا تھا!۔۔۔ لڑکی وہیں تھی اور پچھلی رات موڈی بھی وہیں رہا تھا اور اس کے خواب بدستور اس پر مسلط رہے تھے! لڑکی نے اسے یقین دلانا چاہا تھا کہ اس نے سنگار دان کے جواہرات کو اصلی ہی سمجھ کر اس کے ہاتھ فروخت کیا تھا! لیکن موڈی نے اسے یہ کہہ کر گفتگو کرنے سے روک دیا تھا کہ زیادہ بولنے سے اس کے اعصاب پر برا اثر پڑے گا!

اس وقت بھی وہ اس کے پلنگ کے قریب مؤدب بیٹھا فرش کی طرف دیکھ رہا تھا!

"موڈی صاحب! اب میں بالکل ٹھیک ہوں!" لڑکی نے کہا!۔

"میں آسمانوں کا مشکور ہوں! ان اونچے پہاڑوں۔۔۔ اور ہزار سال سے بہنے والے دریاؤں کا مشکور ہوں! جنہوں نے قدیم شہنشاہوں کی عظمت و شان دیکھی ہے! شہزادی صاحبہ! صحت مبارک ہو۔"

"میرا مضحکہ نہ اڑایئے! میں بہت شرمندہ ہوں۔ اگر وہ جواہرات نقلی ہیں تو جس طرح بھی ممکن ہوگا میں آپ کے روپے واپس کرنے کی کوشش کروں گی۔ میں والد صاحب کا کتب خانہ فروخت کردوں گی۔۔۔ وہ پچیس ہزار کی مالیت کا ضرور ہوگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ایک صاحب نے ایک قلمی نسخہ ڈھائی ہزار میں خریدنے کی پیش کش کی تھی لیکن والد صاحب نے انکار کر دیا تھا۔۔۔ اور آپ براہ کرم مجھے شہزادی صاحبہ نہ کہا کریں۔ میں شہزادی نہیں ہوں۔ آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نے ایک شخص کے کہنے پر خود کو شاہی خاندان سے ظاہر کیا تھا!"

"آپ شہزادی ہیں! میرے اعتماد کا خون نہ کیجئے۔۔۔ یہی کہتی رہیں کہ آپ شہزادی ہیں۔ مجھے حکم دیجئے کہ میں ایسے لاکھوں پچیس ہزار روپے آپ کے قدموں میں ڈال دوں! مجھے اپنے سینکڑوں سال پرانے اپنے آباؤ اجداد کے غلاموں ہی میں سمجھئے جنہوں نے ان کے لئے اپنا خون بہایا تھا۔"

لڑکی حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی! کیونکہ موڈی کے لہجے میں بڑا خلوص تھا!

"کیا عمران صاحب آپ کے دوست ہیں؟"

"جی ہاں!۔۔۔ وہ میرا دوست ہے۔ آپ بالکل فکر مت کریں! میں آپ کے گرد رپوں کی دیوار کھڑی کردوں گا اور پھر مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پولیس آپ کا کچھ نہ کرسکے گی!"

دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔۔۔ اور دوسرے ہی لمحے میں عمران کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اس وقت بھی حسب دستور اس کے چہرے پر حماقت برس رہی تھی اور انداز ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کسی غلط جگہ پر آگیا ہو اور معافی مانگ کر الٹے پاؤں واپس جائے گا!

"کیا آپ کی طبیعت اب ٹھیک ہے؟"

"جی ہاں! اب میں اچھی ہوں!"

"مگر تم کوئی الجھن پیدا کرنے والی بات نہیں کرو گے! سمجھے۔" موڈی نے عمران سے کہا۔

"سمجھ گیا!" عمران نے جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور لڑکی سے بولا! "ذرا اپنے والد کے دوست کا حلیہ تو بتایئے!"

"حلیہ! سوائے اس کے اور کچھ نہیں بتا سکتی کہ ان کے چہرے پر گھنی داڑھی ہے اور آنکھوں میں کسی قسم کی تکلیف کی وجہ سے سیاہ شیشوں کی عینک کا استعمال کرتے ہیں۔"

"ہام" عمران نے اپنے شانوں کو جنبش دی۔ لیکن اس کے انداز سے یہ معلوم کرنا دشوار تھا کہ لڑکی کے الفاظ سے اس پر کیا اثر پڑا ہے! اس نے دوسرے ہی لمحے میں پوچھا! "جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ کہاں تھیں۔۔۔؟"

"میں یہاں موجود نہیں تھی! واپسی پر مجھے یہ خبر ملی تو میں اپنے اوسان بجا نہ رکھ سکی! تجہیز و تکفین اسی آدمی نے کی تھی جو اب تک خود کو ان کا دوست ظاہر کرتا رہا ہے۔"

"ٹھیک ہے!۔۔۔ لیکن کیا آپ کے پڑوسیوں نے اس سلسلے میں آپ کو کوئی عجیب بات نہیں بتائی؟"

"عجیب بات! میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی!"

"غسل کہاں دیا گیا تھا میت کو؟"

"اوہ۔۔۔ ہاں!۔۔۔ والد صاحب کے چند احباب جنازہ گھر سے لے گئے تھے اور غالبا کسی دوست ہی کے یہاں غسل اور تکفین کا انتظام ہوا تھا!"

"بہرحال کوئی پڑوسی مرنے والے کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا تھا!"

"آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟" لڑکی سنبھل کر بیٹھ گئی۔ گفتگو اردو میں ہو رہی تھی!۔۔۔ موڈی نے کچھ بولنا چاہا۔ لیکن عمران نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

"اچھا ہاں!"۔۔۔ عمران نے لڑکی کے سوال کا جواب دیئے بغیر پوچھا۔

"آپ نے دس سال قبل کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا تھا!"

"کیا والد صاحب کی گمشدگی کا؟" لڑکی نے انگریزی میں کہا۔۔۔ شاید وہ موڈی کو بھی اپنے حالات سے آگاہ کردینا چاہتی تھی! عمران نے اثبات میں سرہلایا لڑکی چند لمحے خاموش رہ کر بولی!" ڈیڈی بڑے پراسرار آدمی تھے میں آج تک یہ نہ سمجھ سکی کہ وہ کون تھے اور کیا تھے؟ جب میں دس سال کی تھی تو وہ اچانک غائب ہوگئے۔۔۔ میں تنہا رہ گئی۔ والدہ اسی وقت انتقال کرگئی تھیں جب میں پیدا ہوئی تھی!۔۔۔ آپ خود سوچئے! میری کیا کیفیت ہوئی ہوگی۔۔۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ والد صاحب کا کوئی عزیز بھی ہے یا نہیں کہ میں اسی سے رجوع کرتی۔ انہوں نے کبھی اپنے کسی عزیز کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ بہرحال بڑی پریشانی تھی!۔۔۔ پڑوس میں عیسائیوں کا ایک غریب خاندان آباد تھا۔ اس نے میری بہت مدد کی! مجھے ایک مشن سکول میں داخل کرادیا اور ہر طرح میری دیکھ بھال کرتا رہا! میں مسز ہارڈی کو کبھی نہیں بھولوں گی! وہ عظیم عورت! جن نے میری خبرگیری ماؤں کی طرح کی۔ میرے اخراجات بھی اٹھائے اور مجھے کبھی اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ میں عیسائی مذہب اختیار کرلوں!"۔۔۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر بولی! "چار سال تک والد صاحب کی کوئی خبر نہ ملی۔ پھر اچانک ایک دن وہ آگئے۔ ہفتوں روتے رہے۔۔۔ لیکن مجھے کچھ نہیں بتایا کہ وہ اتنے دنوں تک کہاں رہے؟۔۔۔ لیکن اتنا ضرور کہا کہ اب وہ کہیں نہیں جائیں گے۔"

"وہ پھر کہیں نہیں گئے؟" عمران نے پوچھا!

"نہیں! پھر وہ گھر سے باہر بھی شاذونادر ہی نکلتے تھے۔ گمشدگی سے پہلے وہ تصویروں کے بلاک بنانے کا کام کرتے تھے۔ واپسی پر یہ کام بھی ترک کردیا تھا! لیکن مجھے آج تک نہ معلوم ہوسکا کہ بسر اوقات کا ذریعہ کیا تھا؟ بظاہر وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ لیکن کبھی تنگدستی نہیں ہوئی۔

"اور غالبا وہ سنگاردان بھی وہ اپنے ساتھ ہی لائے ہوں گے؟" عمران نے پوچھا۔

"نہیں! میں بچپن سے ہی اسے دیکھتی آئی ہوں!۔۔"

"اچھا! تو پھر وہ پراسرار آدمی اس کی تاک میں کب سے لگے تھے؟"

"والد صاحب کے انتقال کے بعد ہی سے! اس سے پہلے کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا تھا۔"

عمران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔ پھر پوچھا! "پچھلے چھ برس کے عرصے میں ان سے کون کون ملتا رہا ہے؟"

"کوئی نہیں! حتٰی کہ پاس پڑوس والے بھی ان سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔"

"آخر کیوں؟ کیا وہ بہت چڑچڑے تھے؟"

"ہرگز نہیں! بہت ہی بااخلاق اور ملنسار تھے۔ انہوں نے کبھی کسی سے تیز لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ لوگ انہیں محض اس لئے برا کہتے ہیں کہ وہ مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔"

"لیکن ان کے مرتے ہی اتنے بہت سے دوست کہاں سے پیدا ہو گئے۔" عمران نے پوچھا!۔

"مجھے خود بھی حیرت ہے! پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ وہ پانچ تھے! لیکن ان میں سے ایک ہی آدمی اب تک میرے سامنے آیا ہے۔۔۔ وہی جس نے سنگاردان کے متعلق مشورہ دیا تھا!"

"اور پھر اس کے بعد سے نہیں دکھائی دیا؟"

"نہیں وہ اس کے بعد بھی ملتا رہا ہے۔ اس وقت تک جب تک کہ میں نے سنگار دان فروخت نہیں کردیا!"

"تمہارے والد نے کبھی اپنے دوست کا تذکرہ بھی نہیں کیا؟"

"صرف ایک دوست کا!۔۔۔ وہی جس کے پاس میں ان کی موت سے چند روز قبل گئی تھی!"

"اس کا نام اور پتہ؟" عمران جیب سے ڈائری نکالتا ہوا بولا۔

"حکیم معین الدین۔۔۔ 48 فرید آباد۔۔۔ دلاور پور۔"

"آپ ان کے پاس کیوں گئی تھیں؟"

"والد صاحب نے بھیجا تھا!" لڑکی نے کہا۔ "والد صاحب عرصہ سے درد گردہ کے مریض تھے۔ اس دوران میں تکلیف کچھ زیادہ بڑھ گئی۔ علاج ہوتا رہا لیکن فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار انہوں نے مجھے معین الدین صاحب کا پتہ بتا کر کہا کہ میں ان کے پاس جاؤں۔۔۔ شاید ان کے پاس اس مرض کا کوئی مجرب نسخہ تھا! میں دلاور پور گئی! لیکن دوا تیار نہیں تھی! اس لئے وہاں مجھے چار دن تک قیام کرنا پڑا۔۔۔ میں نے والد صاحب کو بذریعہ تار مطلع کردیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے بھی بذریعہ تار ہی مجھے مطلع کیا کہ میں دوا لئے بغیر واپس نہ آؤں۔ خواہ دس دن لگ جائیں!"

"کیا وہ حکیم صاحب اب بھی وہاں مل سکیں گے؟" عمران نے پوچھا!

"کیوں نہیں! یقینا ملیں گے۔"

"لیکن اگر نہ ملے تب؟"

"بھلا میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتی ہوں!" لڑکی مضطربانہ انداز میں اپنی پیشانی رگڑتی ہوئی بولی۔ "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔"

"بس عمران ختم کرو!" موڈی ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "میں معاملات کی تہہ کو پہنچ گیا ہوں۔"

"کیا سمجھے ہیں آپ؟" لڑکی نے چونک کر پوچھا!

"آپ کے والد زندہ ہیں!" موڈی ٹھہرٹھہر کر بولا۔ "میں سمجھ گیا۔"

"شٹ اپ!" عمران اسے گھور کر بولا۔ "شاید تمہارا نشہ اکھڑ رہ اہے۔ جاؤ ایک آدھ پگ مار آؤ۔۔۔!"

"نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔"موڈی نے جمائی لے کر رکہا! عمران نے لڑکی سے کہا۔"کیا آپ مجھے اپنے والد کی کوئی تصویردے سکیں گی؟"

"افسوس! کہ نہیں! جن چیزوں میں پراسرار طریقے سے آگ لگ گئی تھی! ان میں غالبا ان کے البم بھی تھے۔ یا ممکن ہے البم نہ رہے ہوں! مجھے توکچھ ہوش نہیں!۔۔۔ ہو سکتا ہے تلاش کرنے پر کوئی تصویر ہی مل جائے!۔۔۔ مگر یہ تو بتایئے کہ مجھے یہاں کب تک رہنا ہوگا! میں اب بالکل اچھی طرح ہوں!۔۔۔"

"یہاں آپ زیادہ محفوظ ہیں!"عمران سرہلا کر بولا۔ "جب تک کہ میں نہ کہوں آپ یہاں سے نہیں جائیں گی۔۔۔ میں نے اس کا انتظام کرلیا ہے کہ آپ یہاں طویل مدت تک قیام کرسکیں!۔۔۔"

"آخر کیوں؟"

"ضرور نہیں کہ آپ کو بھی بتایا جائے!"

"عمران میں تمہاری گردن اڑادوں گا!"موڈی اسے گھونسہ دکھا کر بولا۔ "تم شہزادی صاحبہ کی توہین کر رہے ہو!"

"اور تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اٹھو! اور میرے ساتھ چلو!"

"میں یہیں رہوں گا۔"

"شٹ اپ۔۔۔ کھڑے ہو جاؤ!۔۔۔ اٹھو!"



)۸(​

عمران کے ساتھ موڈی اپنے بنگلے پر واپس آگیا اور آتے ہی اس بری طرح شراب پر گرا کہ خدا کی پناہ!۔۔۔ اس نے پچھلی رات سے ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔ دو تین پیکگ متواتر پی لینے کے بعد وہ عمران کی طرف مڑا!۔۔۔

"تم کیا سمجھتے ہو مجھے! میں جانتا ہوں۔۔۔ معاملات کی تہہ میں پہنچ چکا ہوں اس کا باپ زندہ ہے اور وہ انتہائی پراسرار آدمی معلوم ہوتا ہے!"

"بکواس بند کرو، جو میں کہہ رہا ہوں اسے سنو!"

"میں کچھ نہیں سنوں گا! میری ایک تھیوری ہے!" عمران خاموش ہوگیا! موڈی بڑبڑاتا رہا۔"میں شرلاک ہومز ہوں!۔۔۔"

"او۔۔۔ موڈی۔۔۔ شرلاک ہومز کے بچے!" عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔

"نہیں ڈاکٹر واٹسن تم ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے!" موڈی بڑبڑاتا ہوا اٹھ کر ٹہلنے لگا! اتنے میں نوکر پائپ لے آیا!۔۔۔ معران صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر سوچنے لگا تھا۔ موڈی پائپ سلگا کر اپنی گردن اکڑاتا ہوا اس کی طرف مڑا۔۔۔

"وہ کسی شاہی خزانے کے وجود سے واقف ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے پاس نقشہ بھی موجود ہے!"

عمران بدستور آنکھیں بند کئے پڑا رہا! موڈی چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا "آج سے دس سال قبل یقینا چند خطرناک آدمیوں نے اس کا پیچھا کیا ہوگا۔۔۔ بس وہ غائب ہو گیا!۔۔۔ چار سال بعد پھر واپس آیا! چھ سال تک سکون سے رہا اور اس کے بعد پھر! وہ یا کچھ دوسرے لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے!۔۔۔ اس بار اس نے اپنی موت کا ڈرامہ کھیلا!۔۔۔ کیا سمجھے!۔۔۔ ہاہا!۔۔۔ کچھ نہیں سمجھے!۔۔۔ تم لوگ دماغ کی بجائے معدہ استعمال کرتے ہو اور اب اس سنگاردان کی داستان سنو!۔۔۔ وہ غالبا اسی شاہی خزانے سے تعلق رکھتاہے، خود اس کے باپ نے دشمنوں پر یہ ظاہر کرنے کے لئے۔۔۔ اوہ کیا ظاہر کرنے کے لئے۔۔۔ ہائیں۔۔۔ کیا ظاہر کرنے کے لئے!"

موڈی نے اپنی پیشانی پر گھونسہ مار لیا۔۔۔ چند لمحے خاموش رہا۔۔۔ پھر عمران کو جھنجھوڑ کر بولا۔ "میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔" عمران نے چونک کر آنکھیں کھول دیں!۔۔۔"کیا ہے؟" اس نے جھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا!

"میں کیا کہہ رہا تھا؟" موڈی نے پھر اپنے سر پر دو چار گھونسے جمائے!

"تم!" عمران کھڑا ہو کر اسے چند لمحے گھورتا رہا پھر گریبان پکڑ کر ایک صوفے میں دھکیلتا ہوا بولا "جہنم میں جاؤ!" دوسرے ہی لمحے وہ باہرجاچکا تھا۔!



)۹(​

نواب ہاشم کو دوبارہ منظر عام پر آئے ہوئے تقریبا ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔۔۔ اور اس حیرت انگیز واپسی کی شہرت نہ صرف شہر بلکہ پورے ملک میں ہوچکی تھی!۔۔۔ وہ اپنی نوعیت کا ایک ہی ہنگامہ تھا!۔۔۔ محکمہ سراغرسانی والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کیا کریں! فی الحال ان کے سامنے صرف ایک ہی سوال تھا وہ یہ کہ اگر نواب ہاشم یہی شخص ہے تو پھر وہ آدمی کون تھا جس کی لاش دس سال قبل نواب ہاشم کی خواب گاہ سے برآمد ہوئی تھی! کیپٹن فیاض عمران کو آج کل بہت زیادہ مصروف دیکھ رہا تھا۔ لیکن عمران سے کسی بات کا اگلوا لینا آسان کام نہیں تھا۔ وہ ہر سوال کا جواب ضرور دیتا تھا۔ لیکن وہ جوابات کچھ اس قسم کے ہوتے تھے کہ سوال کرنے والا اپنا سرپیٹ لینے کا ارادہ توکرتا تھا۔ مگر اسے عملی جامہ پہنا کر مسخرہ نہیں کہلانا چاہتا تھا۔!

فیاض نے لاکھ کوشش کی لیکن عمران سے کچھ نہ معلوم کرسکا۔ البتہ اسے ایسے اشعار ضرور سننے پڑے جن کے پہلے مصرعے عموما مرزا غالب کے ہوتے تھے اور دوسرے ڈاکٹر اقبال رح کے! مثلا۔۔۔

"ہے دل شوریدہ غالب طلسم پیچ و تاب

وہ صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو!"

عمران اس طرح کے جوڑ پیوند لگانے کا ماہر تھا۔۔۔ بہرحال فیاض اس سے کچھ معلوم نہ کرسکا!۔۔۔ آج اس نے نواب ہاشم اور اس کے بھتیجے نواب ساجد کو اپنے آفس میں طلب کیا تھا!۔۔۔ دونوں آئے تھے! لیکن ان کے چہروں پر ایک دوسرے کے خلاف بیزاری کے آثآر تھے!۔

"دیکھئے جناب!"فیاض نے نواب ہاشم کو مخاطب کیا۔"اب ایک ہی صورت رہ گئی ہے!"

"وہ کیا؟۔۔۔ دیکھئے جناب! جو بھی صورت ہو! میں جلد سے جلد اس کا تصفیہ چاہتا ہوں!" نواب ہاشم نے کہا۔

"صورت یہ ہے کہ میں آپ کو جیل بھجوا دوں!۔۔۔"

"اچھا!"۔۔۔ نواب ہاشم کی بھنویں تن گئیں!۔۔۔ اتنے میں عمران کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اس کے بال پریشان تھے اور لباس ملگجا سا!۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کسی لمبے سفر کے بعد یہاں پہنچا ہو!۔۔۔

وہ ان دونوں چچا بھتیجے کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور فیاض کو آنکھ مار کر سرکھجانے لگا!۔۔۔

"مجھے جیل بھجوانا اتنا آسان کام نہ ہوگا مسٹر فیاض! آخر آپ مجھے کس بنا پر جیل بھجوائیں گے؟" نواب ہاشم نے کہا اور بدستور فیاض کی آنکھوں میں دیکھتا رہا!۔

"دو وجوہات ہیں! ان میں سے جو بھی آپ پسند کریں!" فیاض نے کہا!"اگر مرنے والا واقعی نواب ہاشم تھا تو آپ دھوکے باز ہیں اور اگر نواب ہاشم نہیں تو آپ اس کے قاتل ہیں!"

"کیوں؟ میں کیسے قاتل ہوں؟"

"جس رات آپ اپنی روانگی ظاہر کرتے ہیں اسی رات کی صبح کو آپ کی خوابگاہ سے ایک لاش برآمد ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں آپ چھپ کر کیوں گئے تھے؟"

"شاید مجھے اب وہ بات دہرانی پڑے گی!" نواب ہاشم نے جھینپے ہوئے انداز میں مسکرا کر رکہا۔

"دہرایئے جناب!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا "آپ کے معاملے نے تو میری عقل دوہری کر دی ہے!"

نواب ہاشم چونک کر مڑا۔۔۔ شاید اسے عمران کی موجودگی کا علم نہیں ہوا تھا!

"اوہ۔۔۔ آپ۔۔۔ تو کیا آپ یہیں سے تعلق رکھتے ہیں؟"

"آپ کچھ بتانے جا رہے تھے!" فیاض نے اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

"جی ہاں!۔۔۔ اب وہ بات بتانی ہی پڑے گی!۔۔۔ آج سوچتا ہوں کہ وہ واقعہ کتنا معمولی تھا! لیکن اس وقت گویا مجھ پر جنون سوار تھا! اگر میں نے وہ چوٹ سہہ لی ہوتی اور لوگوں کے ہنسنے کی پروا نہ کی ہوتی تو آج اس حالت کو نہ پہنچتا! خیر سنیئے جناب!۔۔۔ مگر نہیں پہلے میرے ایک سوال کا جواب دیجئے!"

"دیکھئے بات کو خوامخواہ طوالت مت دیجئے! ہم لوگ بیکار آدمی نہیں!" فیاض نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا!

"نہیں میں اختصار سے کام لوں گا! اچھا صاف صاف سنیئے! مجھے ایک عورت سے عشق تھا۔ بظاہر وہ بھی مجھے چاہتی تھی! اسی شہر کا ایک دوسرا رئیس بھی اس کے چکر میں تھا! لہٰذا ہم دونوں کی کشمکش نے اس واقعے کو پورے شہر میں مشہور کردیا۔ عورت بظاہر میری ہی طرف زیادہ جھک رہی تھی! یہ بات بھی عام طور پر لوگوں کو معلوم تھی! لیکن اسی دوران میں نہ جانے کیا ہوا کہ وہ کم بخت ایک تانگے والے کے ساتھ فرار ہو گئی۔ ذرا سوچئے! اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کی احساسات کیا ہوتے! کیا آپ یہ نہ چاہتے کہ اب شناساوں سے نظریں چار نہ ہوں تو اچھا ہے! شرمندگی سے بچنے کے لئے میں نے کسی کو کچھ بتائے بغیر یہاں سے چلا جاؤں۔ جس رات میں نے یہاں سے چلے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسی شام کو باہر سے میرا دوست آگیا!۔۔۔ وہ میرا جگری دوست تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن اس کی آمد بھی بہت گراں گزری!" نواب ہاشم نے رک کر سگریٹ سلگائی اور دو تین کش لے کر بولا۔ "اسے واقعات کا علم نہیں تھا!۔۔۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ قبل اس کے کہ اسے کچھ معلوم ہو! میں یہاں سے چلا جاؤں! چنانچہ میں نے یہی کیا! اسے سوتا چھوڑ کر میں یہاں سے چلا گیا!"

"تو پھر وہ آپ کے دوست کی لاش تھی؟" فیاض نے آگے کی طرف جھک کر پوچھا!۔

"یقینا اس کی رہی ہوگی!۔۔۔ اب دیکھئے میں آپ کو بتاؤں! ابھی میں نے اپنے جس حریف یا رقیب کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ حرکت اس کی بھی ہوسکتی ہے! ظاہر ہے کہ اسے اس واقعہ کے سلسلے میں کافی خفت اٹھانی پڑی ہوگی اور اس نے یہی سوچا ہوگا کہ میں نے اسے زک دینے کے لئے عورت کو تانگے والے کےساتھ نکلوا دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے مجھ سے انتقام کی ٹھانی ہو اور میرے دھوکے میں میرے دوست سجاد کو قتل کردیا ہو! مگر پھر سوچتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا!"

"آخر آپ کا حریف تھا کون؟ اس کا نام بتایئے؟" فیاض نے کہا!

"مرزا نصیر"

"اوہ وہ پہلی کوٹھی والے؟" عمران نے کہا!۔

"جی ہاں وہی!" نواب ہاشم بولا۔

"بڑا افسوس ہوا سن کر!" عمران نے مغموم آواز میں کہا "وہ تو پچھلے سال مر گئے! اب میں کس کے ہتھکڑیاں لگاؤں۔۔۔ کیا ان کے لڑکے سے کام چل جائے گا؟"

فیاض نے عمران کو گھور کر دیکھا! لیکن عمران نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور سرہلاتا ہوا فرش کی طرف دیکھنے لگا!

"مگر مجھے یقین نہیں کہ مرزانصیر نے ایسا کیا ہو!" نواب ہاشم بولا۔ "اگر وہ ایسا کرتا تو بھلا لاش کو ناقابل شناخت بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر فرض کیجئے اس نے دھوکے میں بھی مارا ہوتا تو شکل کبھی نہ بگاڑتا! اب آپ خود سوچئے! کہ وہ کون ہو سکتا ہے؟"

"بھتیجے کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے چچا!" عمران بڑبڑایا۔

"کیا مطلب؟" ساجد اچھل کر کھڑا ہوگیا!۔

"واقعی آپ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے!" نواب ہاشم نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا!۔

"پہنچ گیا نا!۔۔۔ ہاہا!" عمران نے احمقانہ انداز میں قہقہہ لگایا!۔

"بہت ہوچکا!" ساجد نواب ہاشم کو گھونسہ دکھا کر بولا "تمہاری چار سو بیسی ہرگز نہیں چلے گی!"

"گرم نہ ہو بیٹے!" نواب ہاشم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ "دولت بیٹے کے ہاتھوں باپ کو قتل کرا سکتی ہے تم تو بھتیجے ہو اور پھر تمہارے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ تمہارے باپ نے اپنی جائیداد پہلے ہی بیچ کھائی تھی! میں کنوارا تھا۔ ظاہر ہے کہ میرے وارث تم ہی قرار پاتے۔۔۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!"

"بکواس ہے۔۔۔ سو فیصدی بکواس تم نواب ہاشم نہیں ہو! تمہارے کاغذات جعلی ہیں!"

"اور میری شکل بھی شاید جعلی ہے! اتنی جعلی ہے کہ تم نے مجھے حویلی میں قیام کرنے کی اجازت دے دی!"

"تم مجھ پر کسی کا قتل نہیں ثابت کرسکتے!" ساجد نے میز پر گھونسہ مار کر کہا!

"دیکھئے مسٹر!" فیاض نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔ "یہ آپ کی حویلی نہیں میرا دفتر ہے ذرا ہاتھ پ

یر قابو میں رکھئے۔!"

"اوہ۔۔ معاف کیجئے گا!" ساجد نے کہا۔ پھر نواب ہاشم سے بولا!"میں عدالت میں دیکھوں گا تمہاری چرب زبانی!"

"ہاں تو کپتان صاحب میں یہ کہہ رہا تھا!" نواب ہاشم نے لاپروائی سے کہنا شروع کیا۔ "میرے بھتیجے نے دیکھا۔ موقع اچھا ہے! اگر ہاشم آج کل ہی میں قتل کر دیا جائے تو آئی گئی مرزا نصیر کے سر جائے گی!۔۔۔ یہ اسی رات کو حویلی میں چوروں کی طرح داخل ہوا اور میرے دھوکے میں سجاد کو قتل کردیا! اب مجھے یقین ہے کہ اسے اپنی غلطی کا احساس فورا ہی ہو گیا ہوگا اسی لئے تو اس نے لاش کو ناقابل شناخت بنا دیا تھا!۔۔۔ پہلے اس نے مجھے تلاش کیا ہوگا۔ جب میں نہ ملا ہوں گا تو اس نے مقتول کا چہرہ بگاڑ دیا ہوگا!۔۔۔ اور پھر جناب یہ توبتایئے کہ لاش کی شناخت کس نے کی تھی؟۔۔۔"

"انہی حضرت نے!" فیاض نے ساجد کی طرف دیکھ کر کہا!۔۔۔

"اب آپ خود سوچئے! یہ میرا بھتیجا ہے! لاش کا چہرہ بگڑ چکا تھا!۔ آخر اس نے کس بنا پر اسے میری لاش قرار دیا تھا؟ کیا اس لئے کہ مقتول کے جسم پر میرا لباس تھا۔۔۔؟"

فیاض کچھ نہ بولا۔ اس کی نظریں ساجد۔۔۔ کے چہرے پر جمی ہوئی تھی! لیکن اس کے برخلاف عمران نواب ہاشم کو گھور رہا تھا!۔۔۔

"جواب دیجئے کپتان صاحب!" نواب ہاشم نے پھر فیاض کو مخاطب کیا۔

"کیوں جناب! آپ نے کس بنا پر اسے نواب ہاشم کی لاش قرار دیا تھا؟" فیاض نے ساجد سے پوچھا۔

"ہاتھوں اور پیروں کی بنا پر!" ساجد اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتا ہوا بولا۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے!

"ہاں ہاں! کیوں نہیں! چہرہ تو پہلے ہی بگاڑ دیا تھا!۔۔۔ اور اسی لئے بگاڑا تھا کہ تمہاری شناخت پولیس کے لئے حرف آخر ہو!۔۔۔ظاہر ہے کہ اس کچی شناخت کے معاملے میں پولیس صرف تمہارے ہی بیان سے مطمئن ہو سکتی تھی۔ کیونکہ تم میرے ہی گھر کے ہی ایک فرد تھے!" ساجد کچھ نہ بولا۔ وہ اس اندازمیں نواب ہاشم کو گھور رہا تھا جیسے موقع ملتے ہی اس کا گلا دبوچ لے گا!

"ہاں مسٹر ساجد! آپ اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں؟" فیاض نے سخت لہجے میں کہا۔

"اب میں ہر بات کا جواب اپنے وکیل کی موجودگی ہی میں دے سکوں گا۔" ساجد بولا۔

"یہی چاہئے برخوردار!" نواب ہاشم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"میں تم سے گفتگو نہیں کر رہا اور ہاں اب تم میری حویلی میں نہیں آؤ گے! سمجھے! اگر تم نے ادھر کا رخ بھی کیا تو نتیجے کے ذمہ دار تم خود ہوگے!"

"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا!" عمران بول پڑا۔۔۔ "آپ دونوں سمجھوتہ کیوں نہیں کر لیتے! چین سے مل جل کر اسی کوٹھی میں رہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ نہ میرے کوئی بھتیجا ہے اور نہ چچا۔۔۔ ورنہ میں دنیا کو دکھا دیتا کہ چچا اور بھتیجا کس طرح ایک جان دو قابل۔۔۔ نہیں باقل۔۔۔ ہائیں۔۔۔ بک رہا ہوں میں سوپر فیاض۔۔۔ کیا محاورہ ہے وہ۔۔۔ ایک جان۔۔۔ دو قابل۔۔۔ چہ چہ چہ۔۔۔ آہاں۔۔۔ قالب قالب ایک جان دو قالب۔۔۔ واہ بھئی۔۔۔ ہینھ!"

"بھلا ان کے آپس کے سمجھوتے سے کیا بنے گا!۔۔۔ وہ لاش تو بہرحال درمیان میں حائل رہے گی!" فیاض بولا!۔

"ارے یار چھوڑو بھی!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک مردہ آدمی کے لئے چچا بھتیجوں میں ناچاقی ہو جائے! بھلا وہ لاش ان کے کس کام آئے گی؟"

"اچھا آپ یہاں سے تشریف لے جایئے!" فیاض نے منہ بگاڑ کر انتہائی خشک لہجے میں کہا! لیکن عمران پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے مسکرا کر رکہا۔۔

"میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ اس قتل کا تعلق مرزا نصیر سے تھا!۔۔۔ کیوں فیاض صاحب! جو بات نواب ہاشم اپنے بھتیجے کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ کیا وہی مرزا نصیر کے ذہن میں نہ آئی ہوگی؟"

"کون سی بات؟"

"یہی کہ لاش کا چہرہ بگاڑ دینے سے خیال ساجد کی طرف جائے گا!"

"یہ بات کہی ہے آپ نے!" ساجد اچھل پڑا اور پھر فیاض سے بولا۔"اب اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟"

"اوہ! ختم بھی کیجئے!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "بس جایئے! لیکن آپ دونوں حویلی میں ہی رہیں گے! مقصد اور کچھ نہیں!۔۔۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ میرے آدمیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو!"

"میں سمجھا نہیں!" نواب ہاشم نے کہا۔

"میرے آدمی آپ دونوں کی نگرانی کرتے ہیں! اگر آپ میں سے کوئی کسی دوسری جگہ چلا گیا تو مجھے نگرانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑے گا۔"

فیاض نے عمران کو گھور کر دیکھوا! غالبا وہ سوچ رہا تھا کہ عمران کو نگرانی کے متعلق کچھ نہ کہنا چاہیئے تھا!۔۔۔ ساجد اور نواب ہاشم حیرت سے منہ کھولے ہوئے عمران کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"بس اب آپ لوگ تشریف لے جایئے!" عمران نے ان سے کہا۔"جس نے بھی حویلی کی سکونت ترک کی اس کے ہتھکڑیاں لگ جائیں گی!"

"آپ نہ جانے کیسی باتیں کر رہے ہیں؟" ساجد بولا۔

"چپڑاسی!" عمران نے میز پر رکھی ہوئی گھنٹی پر ہاتھ مارتے ہوئے صدا لگائی!۔۔۔ انداز بالکل بھیک مانگنے کا سا تھا۔۔۔!

"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھی بات ہے!" نواب ہاشم اٹھتا ہوا بولا!"میں حویلی سے نہیں ہٹوں گا۔ لیکن میری زندگی کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر ہوگی!"

"فکر نہ کیجئے! قبر تک کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہوں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا! وہ دونوں چلے گئے اور فیاض عمران کو گھورتا رہا۔۔۔

"تم بالکل گدھے ہو!" اس نے کہا!

"نہیں! میں دوسری برانچ کا آدمی ہوں!۔۔۔ میرے یہاں سپرنٹنڈنٹ نہیں ہوتے!"

"تم نے انہیں نگرانی کے متعلق کیوں بتایا! اب وہ ہوشیار ہو جائیں گے۔ احمق بننے کے چکر میں بعض اوقات سچ مچ حماقت کربیٹھتے ہو!"

"آہ کپتان فیاض! اسی لئے جوانی دوانی مشہور ہے!" عمران نے کہا!۔۔۔ اور داہنی ایڑی پر گھوم کر کمرے سے نکل گیا!۔۔۔ رات تاریک تھی!۔۔۔ عمران عالمگیری سرائے کے علاقے میں چوروں کی طرح چل رہا تھا۔ اس کے ایک ماتحت نے جس کو لڑکی کے مکان کی نگرانی کے لئے مقرر کیاگیا تھا۔ اطلاع دی تھی کہ آج دن میں کچھ مشتبہ آدمی مکان کے آس پاس دکھائی دیئے تھے!۔۔۔ عمران نے اپنی کار سڑک پر ہی چھوڑ دی تھی اور پیدل ہی پیلے مکان کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ گلی کے موڑ پر اسے ایک تاریک سا انسانی سایہ دکھائی دیا!

عمران رک گیا! اس نے محسوس کیا کہ وہ سایہ چھپنے کی کوشش کر رہا تھا!۔

"ہدہد!" ۔۔۔ عمران نے آہستہ سے کہا!۔۔۔

"جج جناب والا!" دوسری طرف سے آواز آئی!۔۔۔ عمران نے اپنے اس ماتحت کا نام ہدہد رکھا تھا!۔۔۔ یہ گفتگو کرتے وقت تھوڑا سا ہکلاتا تھا اور اس کی شکل دیکھتے ہی نہ جانے کیوں لفظ "ہدہد" کا تصور ذہن میں پیدا ہوتا تھا۔ پہلے پہل جب عمران نے اسے ہدہد کہا۔ تو اس کے چہرے پر ناخوشگوار قسم کے آثار پیدا ہوئے تھے اور اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ ایک نجیب الطرفین قسم کا خاندانی آدمی ہے۔۔۔ اور اپنی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ اس پر عمران نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس محکمہ میں حقیقتا اسی قسم کے نام ہونے چاہئیں۔ بہرحال وہ بڑی مشکل سے اس بات پر راضی ہوا تھا کہ اسے ہدہد پکارا جائے۔۔۔ اس میں ایک خاص بات اور بھی تھی! جو اس کے حلئے کے اعتبار سے ضرورت سے زیادہ مضحکہ خیز تھی۔ بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ دوران گفتگو بہت ہی ادق قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس پر سے ہکلاہٹ کی مصیبت! بس ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے اس پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا ہو۔

"کیا خبر ہے؟" عمران نے اس سے پوچھا! وہ اس کے قریب آگیا تھا!۔

"ابھی تک تو کچھ بھی ظہور میں نہیں آیا۔"۔۔۔ ہدہد بولا۔

"مگر میں نے ظہور کو کب بلایا تھا؟" عمران نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا! پتہ نہیں اس کے سننے میں فرق آیا تھا یا وہ جان بوجھ کر گھس رہا تھا!

"جج۔۔۔ جناب والا۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔ جج۔۔۔ جج۔۔۔ حالات میں ککوئی تغیر واقعی نہیں ہوا۔۔۔ یا یوں سمجھئے کہ۔۔۔ تب تا این دددم۔۔۔ جج جوں کا تت توں۔۔۔!"

"میرے ساتھ آؤ"

"بب بسرو چچ چشم!" دونوں آگے بڑھ گئے!۔۔۔ بستی پر سناٹا طاری تھا۔ کبھی کبھی آس پاس کے گھروں سے بچوں کے رونے آوازیں آتیں اور پھر فضا پر سکوت مسلط ہو جاتا! اس بستی کے کتے بھی

شائد افیونی تھے۔ عمران کو اس بات پر بڑی حیرت تھی کہ ابھی تک کسی طرف سے بھی کتوں کی آوازیں نہیں آئی تھیں۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ اس وقت کتوں کی وجہ سے بستی میں قدم رکھنا بھی دشوار ہو جائے گا! وہ تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ اچانک عمران کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بچا اور وہ چیز یقینا ایسی تھی جو دباؤ پڑنے پر دب بھی سکتی تھی عمران نے بڑی پھرتی سے زمین پر بیٹھ کر اسے ٹٹولا۔۔۔ وہ کسی کتے کی لاش تھی۔

"کک۔۔۔ کیا۔۔۔ ظہور پذیر ہوا۔ جناب؟" ہدہد نے پوچھا!

"ظہور نہیں پذیر ہوا ہے آگے بڑھو!" مکان کے قریب پہنچ کر وہ دونوں ایک دیوار سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ گہری تاریکی ہونے کی بنا پر انہیں قریب سے بھی دیکھ لئے جانے کا امکان نہیں تھا!۔

"سس، سس!" ہدہد آہستہ سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عمران نے اس کا شانہ دبا دیا!۔۔۔ اسے تھوڑے ہی فاصلے پرکوئی متحرک شئے دکھائی دی تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی چوپایہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسی طرف آرہا ہو۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے۔۔۔ ان چوپایوں میں اضافہ ہوگیا!۔۔۔ ایک دو تین۔۔۔ چار۔۔۔ پانچ۔۔۔!" عمران کا داہنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا۔۔۔ اور مٹھی میں ریوالور کا دستہ جکڑا ہوا تھا!۔۔۔ دیوار کے قریب پہنچتے ہی چوپائے سیدھے کھڑے ہوگئے!۔۔۔ عمران پہلے ہی سمجھ گیا تھا! وہ پانچ آدمی تھے لیکن تاریکی کی وجہ سے پہنچانے نہیں جاسکتے تھے! عمران نے اس خیال سے ہدہد کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا کہ کہیں وہ بوکھلا کر کوئی حماقت نہ کر بیٹھے۔

"ارر۔۔۔ ہش!" ہدہد اس کا ہاتھ جھٹک کر اچھل پڑا پانچواں آدمی بھی بالکل اسی کے انداز میں اچھل کر بھاگا! عمران نے ان پر جست لگائی اور ایک کو جا لیا!

"خبردار! ٹھہرو۔ ورنہ گولی مار دوں گا!" اس نے دوسروں کو للکارا۔ لیکن اس للکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔ وہ تاریکی میں گم ہو چکے تھے۔ عمران کی گرفت میں آیا ہوا آدمی بھی نکل بھاگنے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا!

"او ہدہد کے بچے!" عمران نے ہانک لگائی۔

"دد۔۔۔ دیکھئے جناب!" ہدہد نے کہا، جو قریب ہی کھڑا کانپ رہا تھا۔

"مم۔۔۔ میں۔۔ خخ۔۔۔ خاندانی آدمی ہوں۔۔۔ پہلے ہدہد پھر ہدہد کا بچہ۔۔۔ واہ۔۔۔ جناب۔۔۔ مم ۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔ ٹارچ جلاؤ۔"

"وہ تو۔۔۔ کک۔۔۔ کہیں۔۔۔ گر گئی!" اس دوران میں عمران نے اپنے شکار کے چہرے پر دو چار گھونسے رسید کئے اور وہ سیدھا ہو گیا!۔۔۔

"چلو!۔۔۔ ادھر۔۔۔!" اس نے پھر ہدہد کو مخاطب کیا!"اس کے گلے سے ٹائی کھول لو۔۔۔!"

ہدہد بوکھلاہٹ میں عمران کی گردن ٹٹولنے لگا۔۔۔

"ابے۔۔۔ یہ میں ہوں!"

"جی۔۔۔! کیا۔ ابے۔۔۔! ببعید از شرافت۔۔۔ میں کوئی کنجڑا قصائی نہیں ہوں!۔۔۔ مم۔۔۔ ممجھے۔۔۔ اسی وقت۔۔۔ مم۔۔۔ ملازمت سے سبکدوش کرادیجئے۔۔۔ جج۔۔۔ جی ہاں!"

"چلو! ورنہ گردن مروڑ دوں گا!"

"حد ہو گئی جناب!۔۔۔"

اتنے میں عمران نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ پیر سست پڑ گئے ہیں! اس پر سچ مچ غشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی! عمران نے اس کے گلے سے ٹائی کھول کر اس کے ہاتھ باندھ دیئے! پھر اٹھ کر ہدہد کی گردن دبوچتا ہوا بولا!

"ملازمت سے سبکدوش ہونا چاہتے ہو۔"

"جج جی۔۔۔ ہاں!" ہدہد کے لہجے میں جھلاہٹ تھی لیکن اس نے اپنی گردن چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔

"ٹارچ تلاش کرو!" عمران اسے دھکا دیتے ہوئے بولا اور ٹارچ جلد ہی مل گئی۔ وہ وہیں پڑی ہوئی تھی، جہاں ہدہد اچھلا تھا!۔۔۔

عمران نے بیہوش آدمی کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ یہ ایک نوجوان اور توانا آدمی تھا! لیکن چہرے کی بناوٹ کے اعتبار سے اچھے اطوار کا نہیں معلوم ہوتا تھا! اس کے جسم پر سیاہ سوٹ تھا!



)۱۰(​

تقریبا ایک گھنٹے بعد عمران کوتوالی میں اسی آدمی سے پوچھ گچھ کر رہا تھا!

"تم وہاں کس لئے آئے تھے؟"

"مجھے اس کا علم نہیں!"

"تم نہیں بتاؤ گے؟"

"دیکھئے جناب! میں کچھ نہیں چھپا رہا ہوں! خدا کی قسم مجھے علم نہیں! اور پھر ہم چاروں کو تو باہر کھڑا رہنا تھا!۔۔۔ اکیلا وہی اندر آجاتا!"

"کون"

"صفدر خان"

"یہ کون ہے؟"

"آپ یقین نہ کریں گے کہ ہم اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ویسے وہ خود کو ایک علاقے کا جاگیردار بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم لوگوں کی مدد سے اپنے ایک حریف کے خلاف مقدمہ بنا رہا ہے۔۔۔ آج سے کچھ عرصہ پیشتر ہم اس مکان سے ایک جنازہ لائے تھے اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ چادر کے نیچے لاش کی بجائے تین بالٹیاں اور ایک دیگچی تھی!۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ مصنوعی جنازہ۔۔۔!"

"واہ!" عمران بے اختیار ہنس پڑا!

"میں کچھ نہیں چھپاؤں گا جناب!۔۔۔ اس نے ان کاموں کے لئے ہمیں چار ہزار روپے دیئے تھے۔۔۔ اور ہاں یہ تو بھول ہی گیا!۔۔۔ وہ ہمیں ایک امریکن کے بنگلے پر بھیجا کرتا تھا!۔۔۔ وہ بات بھی عجیب تھی!۔۔۔۔ ہمارا کام صرف یہ تھا کہ ہم وہاں تھوڑی سی اچھل کود مچا کر واپس آ جایا کریں! لیکن اس نے آج تک اس کا مقصد نہیں بتایا!۔۔۔"

"صفدر خان کا حلیہ کیا ہے؟۔۔۔"

"چہرے پر گھنی داڑھی!۔۔۔ شلوار قمیض پہنتا ہے! ناک چپٹی سی!۔۔۔ آنکھوں میں کیچڑ"

"سیاہ چشمہ نہیں لگاتا؟" عمران نے پوچھا!۔۔۔

"جی نہیں!۔۔۔ چشمہ لگائے ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔"

"اچھا اپنے بقیہ تین ساتھیوں کے نام اور پتے بتاؤ!"

"میں کسی کے نام اور پتے سے واقف نہیں ہوں! جب وہ ہمیں ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے تب ہی ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں! ورنہ پھر آپس میں کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوتا!"

"ہوں! وہ تمہیں کس طرح بلاتا ہے؟۔۔۔"

"فون پر!۔۔۔ شاید ہم چاروں کو ہی یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتا ہے!"

"تمہیں ان تینوں آدمیوں کے فون نمبر معلوم ہیں؟"

"جی نہیں!۔۔۔ ہم میں کبھی گفتگو نہیں ہوئی!۔۔۔ ہم چاروں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں! ویسے صورت آشنا ضرور ہیں!" عمران نے لکھتے لکھتے نوٹ بک بند کر دی!۔۔۔ ملزم حوالات میں بھیج دیا گیا!۔۔۔

شام ہی سے آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا!۔۔۔ اس لئے سورج کے غروب ہوتے ہی تاریکی پھیل گئی۔۔۔ اور گیارہ بجے تک یہ عالم ہو گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ بادل جم کر رہ گئے تھے! حبس کی وجہ سے لوگوں کا دم نکل رہا تھا! لیکن بارش۔۔۔ بارش کے امکانات نہیں تھے۔

نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد مضطربانہ انداز میں ٹہل رہا تھا۔ ابھی ابھی کچھ پولیس والے یہاں سے اٹھ

کر گئے تھے۔ ان میں ایک آدمی محکمہ سراغرسانی کا بھی تھا۔ ساجد کو حیرت تھی کہ آخر ابھی تک اس شخص کو حراست میں کیوں نہیں لیا گیا جو نواب ہاشم ہونے کا دعوٰی کرتا ہے!۔۔۔ اگر وہ سچ مچ نواب ہاشم ہی ہے تو پولیس کو اسے حراست میں لے کر اس لاش کے متعلق استفسار کرنا چاہیے تھا، جو دس سال قبل حویلی میں پائی گئی تھی!۔۔۔

وہ ٹہلتا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا! لیکن اب خود اس کی شخصیت بھی پولیس کے شبے سے بالاتر نہیں تھی۔ نواب ہاشم نے کیپٹن فیاض کے آفس میں بیٹھ کر کھلم کھلا اسے مجرم گردانا تھا۔ کہا تھا ممکن ہے ساجد ہی نے میرے دوست سجاد کو میرے دھوکے میں قتل کر دیا ہو۔

ساجد نے ختم ہوتے ہوئے سگریٹ سے دوسرا سلگایا اور ٹہلتا رہا! دو، دو بجلی کے پنکھے چل رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا پھر کیا ہوگا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اگر جرم اس کے خلاف ثابت ہو گیا تو کیا ہوگا اس نے اس شخص کو کوٹھی میں جگہ دے کر سخت غلطی کی ہے۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں محکمہ سراغرسانی والے اس بات پر مصر ہیں کہ اسے کوٹھی میں ٹھہرنے دیا جائے؟ کیا وہ خود کہیں چلا جائے۔۔۔ مگر اس سے کیا ہوگا۔۔۔ اس طرح اس کی گردن اور زیادہ پھنس جائے گی!"

ساجد تھک کر بیٹھ گیا!۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے بعض اوقات تو اس کا دل چاہتا تھا کہ سچ مچ ایک قتل کا الزام اپنے سر پر لے لے! اس پراسرار آدمی کا گلا گھونٹ دے، جو اس کی جان و مال کا خواہاں ہے۔۔۔ سگرٹ پھینک کر وہ جوتوں سمیت صوفے پر دراز ہو گیا۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں!۔۔۔ یونہی۔۔۔! نیند ایسے میں کہاں؟ آنکھیں بند کرکے وہ اپنے تھکے ہوئے ذہن کو تھوڑا سا سکون دینا چاہتا تھا!۔ اچانک اس نے ایک عجیب قسم کا شور سنا!۔۔۔ اور بوکھلا کر برآمدے میں نکل آیا۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں پھر پہلے ہی کی طرح سناٹا چھا چکا تھا!۔۔۔ البتہ اس کے دو تین کتے ضرور بہت ہی ڈھیلی ڈھالی آوازوں میں بھونک رہے تھے! ساجد سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ کس قسم کا شور تھا!۔

ساجد کا دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا! وہ چند لمحے برآمدے میں بے حس و حرکت کھڑا اندھیرے میں آنکھیں پھاڑتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ اس کا واہمہ نہ رہا ہو! پریشان دماغ اکثر غنودگی کے عالم میں اس طرح کے دھوکے دیتا ہے! پھر وہ واپسی کے لئے مڑ رہی رہا تھا کہ سارا پائیں باغ اسی قسم کے شور سے گونج اٹھا۔ بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے بیک وقت ہزاروں آدمی چیخ کر خاموش ہو گئے ہوں! کتوں نے پھر بھونکنا شروع کردیا! اور اب ساجد کئی بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں بھی سن رہا تھا۔

دو نوکر بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئے وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔

"حضور!۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟" ایک نے ہانپتے ہوئے پوچھا!۔۔۔

"میں کیا بتاؤں؟۔۔۔ اندر سے ٹارچیں لاؤ۔ تینوں رائفلیں نکال لاؤ۔۔۔ جلدی کرو!۔۔۔ سارے نوکروں کو اکٹھا کرو۔۔۔ جاؤ!"

اتنے میں ساجد کو نواب ہاشم دکھائی دیا جو سب خوابی کے لبادے میں ملبوس اور ہاتھ میں رائفل لئے برآمدے میں داخل ہو رہا تھا!

"ساجد!" اس نے کہا "کیا تم اب میرے خلاف کوئی نئی حرکت کرنیوالے ہو؟"

"یہی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں! دوست!" ساجد بھنویں تان کر آنکھیں سکوڑتا ہوا بولا۔ "تم اگر میرے چچا بھی ہو تو اس قسم کی حرکتیں کرکے مجھے سے کوٹھی خالی نہیں کراسکتے!۔۔۔

میں بزدل نہیں ہوں جب تک میرے اسٹاک میں میگزین باقی رہے گا کوئی مجھے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔۔۔ سمجھے!"

"میں سب سمجھتا ہوں!" نواب ہاشم نے کہا "اگر تم ہزاروں آدمی بھی بلالو تب بھی میں حویلی سے نہ نکلوں گا! محکمہ سراغرسانی والے ہر وقت حویلی کی نگرانی کرتے ہیں۔ اگر میرا بال بھی بیکا ہوا تو تم جہنم میں پہنچ جاؤ گے۔"

"چوری اور سینہ زوری!" ساجد تلخ انداز میں مسکرایا۔

اتنے میں سارے نوکر اکٹھے ہوگئے! یہ تعداد میں آٹھ تھے۔ ان میں تین ایسے تھے! جو ساجد کو شکار پر لے جانے کے لئے رکھے گئے تھے اور خود بھی اچھے نشانہ باز تھے۔

"میں تمہیں حکم دیتا ہوں!" ساجد نے انہیں مخاطب کرکے کہا!"جہاں بھی کوئی اجنبی آدمی نظر آئے بیدریغ گولی مار دینا! پھر میں سمجھ لوں گا!"

شکاری ٹارچیں اور رائفلیں لے کر پائیں باغ میں اتر گئے۔

"دو ایک کتے بھی ساتھ لے لو! میں اس وقت تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ میرا یہاں موجود رہنا ضروری ہے۔"اور پھر وہ نواب ہاشم کو گھورنے لگا!۔۔۔

"تم اس طرح مجھے مطمئن نہیں کرسکے!" نواب ہاشم بولا۔

"اوہ۔ تم جہنم میں جاؤ۔" ساجد دانت پیستے ہوئے بولا۔ "مجھے تم کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر پولیس والے تمہیں یہاں نہ رکھنا چاہتے تو میرے نوکروں کے ہاتھ تمہاری گردن میں ہوتے اور تم پھاٹک کے باہر نظر آتے!"

"اوہ! ساجد! کیا تمہارا خون سفید ہو گیا ہے؟" نواب ہاشم کا لہجہ دردناک تھا!

اچانک وہ شور پھر سنائی دیا۔ لیکن ایک لمحے سے زیادہ جاری نہ رہا!۔۔۔ کتے پھر بھونکنے لگے! اور پھر وہی بھاگتے قدموں کی آوازیں!

ساجد کے سارے نوکر بے تحاشہ بھاگتے ہوئے اوپر چڑھ آئے دو ایک تو سیڑھیوں پر ہی ڈھیر ہو گئے۔

"حضور! کوئی۔۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں! صرف آوازیں۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ آوازیں آسمان سے آتی ہیں! چاروں طرف سے!"

"یہ کیا بکواس ہے؟" ساجد جھلا کر چیخا! "چلو میں چلتا ہوں! ڈرپوک کہیں کے۔۔۔ لیکن اگر پیچھے سے میری کھوپڑی پر گولی پڑے تو میری موت کا ذمہ دار یہ شخص ہوگا!" ساجد نے نواب ہاشم کی طرف ہاتھ جھٹک کر کہا۔ "یہ شخص ہوگا میری موت کا ذمہ دار۔ تم لوگ اسے یاد رکھنا۔ اب آؤ میرے ساتھ!۔۔۔ میں دیکھوں گا۔"



)۱۲(​

عمران اپنے آفس میں کاہلوں کی طرح بیٹھا دونوں ٹانگیں ہلا رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں اور دانتوں کے نیچے چونگم تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کئے ہوئے ہدہد کو آواز دی۔

"جج۔۔۔ جناب والا!" ہدہد نے اس کے قریب پہنچ کر کہا!

"بیٹھ جاؤ!" عمران بولا۔

ہدہد میز سے کافی فاصلے پر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

"پچھلی رات کی رپورٹ سناؤ؟"

"رر۔۔۔ رات بھر ہنگامہ آرائی رہی۔۔ قدرے۔۔۔ قق۔۔۔ قلیل وقفے سے وہ لوگ آسمان بالائے سر اٹھاتے رہے۔۔۔ اور سگان رو سیاہ کی بف بف سے۔۔۔ مم میرا دد۔۔۔ دماغ۔۔۔ پراگندگی اور انتشار کی آماجگاہ بنا رہا۔!"

"ہدہد۔۔۔ مائی ڈیئر! آدمیوں کی زبان بولا کرو۔"

"میں ہمیشہ۔۔۔ شش۔۔۔ شرفا کی زبان بولتا ہوں!"

"مجھے شرفا کی نہیں آدمیوں کی زبان چاہیے۔"

"یہ بات! میرے۔۔۔ فف۔۔۔ فہم و ادراک سے۔۔۔ بب۔۔۔ بالاتر ہے!"

"اچھا تم دفع ہو جاؤ اور شمشاد کو بھیج دو۔"

لفظ "دفع" پر ہدہد کا چہرہ بگڑ گیا۔ مگر وہ کچھ نہ بولا۔ چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد شمشاد داخل ہوا۔۔۔

"بیٹھ جاؤ!" عمران نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔

شمشاد بیٹھ گیا! یہ بھی صورت سے احمق ہی معلوم ہوتا تھا!۔۔۔

"چلو! مجھے کل رات کی رپورٹ چاہئے!"

"کل رات!" شمشاد ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "انہوں نے بہت شور مچایا! اس طرح چیختے تھے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی! اور حضور تقریبا چھ بجے نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی!۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ نائکہ نہیں تھی!۔۔۔ اس کا قد پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔ دھانی ساڑھی میں تھی! پیروں میں یونانی طرز کے سینڈل تھے۔۔۔ آنکھیں کافی بڑی۔۔۔ چہرہ بیضوی! کھڑا کھڑا ناک نقشہ!۔۔۔"

"اور اوندھی اوندھی تمہاری کھوپڑی!" عمران جھلا کر بولا۔ "یہ بتاؤ رات کوئی پھاٹک کے باہر بھی آیا یا نہیں!" "جی نہیں! رنڈی کی واپسی کے بعد کوئی بھی باہر نہیں نکلا!"

"پھر وہی رنڈی! گٹ آؤٹ!" عمران میز پر گھونسہ مار کر گرجا!

شمشاد چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا!

عمران نے فون کا ریسیور اٹھایا۔

"ہیلو سوپر فیاض! میں عمران ہوں!"

"اوہ۔۔۔ عمران۔۔۔ آؤ میرے یار۔۔۔ ایک نیا لطیفہ! ان کم بختوں نے سچ مچ ہی ناک میں دم کر دیا ہے! سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں!"

"میں ابھی آیا!" عمران اٹھتا ہوا بولا۔!

فیاض اپنے کمرے میں تنہا تھا۔ لیکن انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے!۔۔۔

"کیوں؟ کیا تمہارے آدمیوں نے کوئی خاص اطلاع نہیں دی؟" فیاض نے پوچھا۔

"دے رہا تھا کم بخت، لیکن میں نے بیچ ہی میں روک دیا!"

"یعنی؟"

"نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی! قد پانچ فٹ لمبا۔ ناک نقشہ دھانی ساڑھی وغیرہ!"

"تم ان کم بختوں کی بھی مٹی پلید کر رہے ہو!"

"خیر ٹالو۔۔۔!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "تمہارا لطیفہ کیا ہے؟"

"ابھی وہ دونوں آئے تھے! انہوں نے ایک نئی کہانی سنائی! اور دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے تھے!۔۔۔ کسی قسم کی پراسرار آوازیں قریب قریب رات بھر حویلی کے کمپاؤنڈ میں سنی گئیں! ان کا کہنا ہے کہ وہ آوازیں آسمان سے آتی معلوم ہو رہی تھیں! ہزاروں آدمیوں کے بیک وقت چیخنے کی آوازیں!"

"ہاں! میرے آدمیوں نے اس کی اطلاع دی ہے!" عمران سرہلا کر بولا۔

"اب وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں!۔۔۔ آخر وہ آوازیں کیسی ہوسکتی ہیں؟"

"پتہ نہیں یار! اس قسم کی آوازیں تو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں! وہ خوفناک عمارت والا کیس تو تمہیں یاد ہوگا؟"

"اچھی طرح یاد ہے!" فیاض سر ہلا کر بولا "مگر وہ تو ایک آدمی ہی کا کارنامہ ثابت ہوا تھا!"

"اور تم اسے کسی آدمی کی حرکت نہیں سمھتے؟" عمران نے پوچھا!

"آوازیں آسمان سے آتی ہیں برخوردار!"

"تو پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو الزام کس بات کا دیتے ہیں؟"

"ان کا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اس کا ذمہ دار ہے!"

"اور تم ہو کہ اسے انسانی کارنامہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہو!"

"تم میرا مطلب نہیں سمجھے! آخر ان میں سے کس کی حرکت ہوسکتی ہے!"

"اب تم نے دوسری سمت چھلانگ لگائی! یار فیاض یہ محکمہ تہمارے لئے قطعی مناسب نہیں تھا!"

"بکواس مت کرو! آج کل تم بہت مغرور ہو گئے ہو!" فیاض نے تلخی سے کہا! "دیکھوں گا اس کیس میں!"

"ضرور دیکھنا!" عمران نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔



)۱۳(​

نواب ساجد بوکھلا کر پھر برآمدے میں نکل آیا اس نے موجودہ الجھنوں سے نجات پانے کے لئے دو تین پیگ وہسکی کے پی لئے تھے اور اب اس کا دماغ چوتھے آسمان پر تھا۔ اس نے پائیں باغ میں پھیلے ہوئے اندھیرے میں نظریں گاڑ دیں!

"یہ تو یقینا واہمہ ہی تھا!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا!

لیکن دوسرے ہی لمحے اسے ایک تیز قسم کی سرگوشی سنائی دی۔۔۔ دلاور علی۔۔ دلاور علی۔۔۔

بالکل ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے باہر پھیلی ہوئی تاریکی بول پڑی ہو! ایسی تیز قسم کی سرگوشی تھی کہ اسے دو ایک فرلانگ کی دوری سے بھی سنا جاسکتا تھا!

ساجد کا نشہ ہرن ہو گیا! سرگوشیاں آہستہ آہستہ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوتی جا رہی تھیں!

"دلاور علی۔۔۔ دلاور علی!"

اور پھر وہ سرگوشیاں ہلکی سی بھرائی ہوئی آواز میں تبدیل ہو گئیں!

"دلاور علی۔۔۔ دلاور علی۔۔۔!" آواز کسی ایسے آدمی کی محسوس ہو رہی تھی جو روتا رہا ہو! آواز بتدریج بڑھتے بڑھتے انتہا کو پہنچ گئی، یعنی دلاور علی کو پکارنے والا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔ رونے کی آواز برابر جاری رہی اور پھر اچانک ساجد نے فائروں کی آوازیں سنیں! پے در پے فائر۔۔۔!

رونے کی آواز بند ہوگئی۔

"ایک ایک کو چن چن کر ماروں گا!" نواب ہاشم باغ کے کسی تاریک گوشے میں چیخ رہا تھا۔ "مجھے کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا۔۔۔!"

دو فائر پھر ہوئے۔۔۔!

"دلاور علی!" پھر وہی پراسرار سرگوشی سنائی دی!

"دلاور علی کے بچے سامنے آؤ!" یہ نواب ہاشم کی چنگھاڑ تھی!

تین چار فائر پھر ہوئے۔!

اتنے میں کوئی باہر سے پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ فائر بھی بند ہوگئے اور وہ پراسرار سرگوشی بھی پھر سنائی نہیں دی!۔۔۔ پھاٹک بڑی شدت سے ہلایا جا رہا تھا!

"پھاٹک کھولو!۔۔۔ پولیس!" باہر سے آواز آئی!"یہاں کیا ہو رہا ہے؟"



)۱۴(​

کیپٹن فیاض کے آفس میں نواب ہاشم ہاشم اور نواب ساجد بیٹھے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ عمران ٹہل رہا تھا اور کیپٹن فیاض کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا تھا! ساجد اور نواب ہاشم کے انداز سے ایسا ظاہر ہو رہا تھا جیسے کچھ دیر قبل دونوں میں جھڑپ ہوچکی ہو!

"سوال تو یہ ہے نواب ہاشم صاحب!" عمران ٹہلتے ٹہلتے رک کر بولا!

"آخر آپ نے میونسپل حدود کے اندر فائر کیوں کئے؟"

"میں اپنے ہوش میں نہیں تھا!"

"کیا میں بیہوشی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟"

"میرے خدا۔۔۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں عمران صاحب! اگر آپ میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے؟"

"ڈر کے مارے کہیں دبک رہتا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

"خیر میں اتنا بزدل نہیں ہوں!"

"لیکن آپ ہوا سے لڑ رہے تھے نواب صاحب!"

"ایک منٹ" دفعتا نواب ساجد ہاتھ اٹھا کر بولا! "کیا اپ نے اس بے ایمان کو نواب ہاشم تسلیم کرلیا ہے؟"

"چچ چچ۔۔۔ ساجد صاحب! اپنے چچا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کیجئے!" عمران نے کہا!

"سازش! خدا کی قسم سازش!" نواب ساجد مضطربانہ انداز میں بڑبڑا کر رہ گیا!

"لیکن آج میں نے سازش کا خاتمہ کردینے کا تہیہ کر لیا ہے!" عمران مسکرا کر بولا! نواب ہاشم اور ساجد دونوں عمران کو گھورنے لگے۔

"ذرا ایک بار پھر اپنے فرار کا وقوعہ دہرائیے!" عمران نے ہاشم سے کہا۔

"کہاں تک دہراؤں۔" نواب ہاشم بیزاری سے بولا "خیر۔۔۔ کہاں سے شروع کروں؟"

"جہاں سے آپ کا دوست سجاد اس واقعہ میں شریک ہوتا ہے۔"

"ہاں سجاد!" نواب ہاشم نے دردناک آواز میں کہا اور ایک ٹھنڈی سانس لیکر رہ گیا۔

"میں آپ کے بیان کا منتظر ہوں۔" عمران نے اسے خاموش دیکھ کر ٹوکا۔۔۔!

نواب ہاشم کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بھولی بسری بات یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو!

"ہاں ٹھیک ہے!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ "سجاد اسی شام کو آیا تھا!" پھر اس نے عمران کو مخاطب کرکے بلند آواز میں بولنا شروع کیا!"جس رات مجھے فرار ہونا تھا! اسی رات کو سجاد وارد ہوا۔ اسے واقعات کا علم نہیں تھا۔ میں نے اس پر اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا اور پھر رات کو اسے سوتا چھوڑ کر چپ چاپ گھر سے نکل گیا!"

"لیکن اگر مقتول سجاد ہی تھا تو اس کے جسم پر آپ کا سلیپنگ سوٹ کس طرح ملا تھا۔" عمران نے پوچھا۔

"اوہو! عمران صاحب! سیدھی سی بات ہے! قاتل نے اپنی غلطی معلوم کرلینے کے بعد اسے نواب ہاشم بنا دیا!"

"لیکن آپ کے رقیب کو کیا پڑی تھی کہ غلطی معلوم ہو جانے پر وہ سجاد کو نواب ہاشم بنانے کی کوشش کرتا!"

"کچھ نہیں۔" نواب ہاشم جلدی سے بولا۔ "اس کے متعلق سوچنا ہی فضول ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ اسے میری لاش ثابت ہونے پر کسی قسم کا فائدہ تو نہیں پہنچتا!"

"اوہ! تو تم مجھے قاتل ثابت کرنا چاہتے ہو!" ساجد نے میز پر گھونسہ مار کر کہا!

"ٹھہریئے جناب! آپ دخل اندازی نہیں کریں گے!" عمران ساجد کو گھور کر بولا۔ ساجد ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتا ہوا خاموش ہوگیا۔

"ہاں نواب صاحب!" عمران نے نواب ہاشم سے کہا۔ "یہ سجاد کس قسم کا آدمی تھا کہاں رہتا تھا؟"

"ایک سیلانی او رشاعر قسم کا آدمی تھا! مستقل کوئی ٹھکانہ نہ رکھتا تھا۔۔۔ آج یہاں کل وہاں۔۔۔ آدمی پڑھا لکھا اور بذلہ سنج تھا۔ اس لئے روسا کے درمیان اس کی خاصی آؤ بھگت ہوتی تھی۔"

"اس کے پسماندگان کے متعلق بھی کچھ بتا سکیں گے؟"

"مشکل ہے کیونکہ اس نے کبھی اپنے کسی عزیز کا تذکرہ نہیں کیا۔"

"مگر جناب! کیا محض ساجد کی شناخت کی بنا پر وہ آپ کی لاش قرار دی گئی ہوگی؟"

"نوکروں نے بھی اسے شناخت کیا تھا۔" ساجد بول پڑا۔ "وہ نوکر جنہوں نے سالہا سال سے چچا مرحوم کے ساتھ رہ کر انہیں دیکھا تھا۔"

"کہاں ہیں وہ نوکر؟" نواب ہاشم گرجنے لگا!"کیا ان میں سے ایک کو بھی تم نے برقرار رکھا ہے؟"

پھر اس نے عمران سے کہا۔ "جب میرے بھتیجے نے ہی اسے میری لاش قرار دیا تو نوکروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ اس کے خلاف کہہ کر خود کو پولیس کا تختہ مشق بناتے اور پھر اگر تم سچے تھے تو تم نے ان نوکروں کو کیوں الگ کردیا!ان میں سے کم از کم ایک یا دو کو تو اس وقت تک رہنا ہی چاہیے تھا! ایک ہی گھر میں نوکروں کی عمریں گذر جاتی ہیں؟"

"بات تو پکی ہے!"عمران سر ہلا کر بولا۔

"تو تم نہ صرف یہ کہ میری جائیداد ہتھیانا چاہتے ہو۔ بلکہ مجھے پھانسی بھی دلواؤ گے!" ساجد نے زہر خند کے ساتھ کہا۔

"کیا یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں ساجد صاحب؟" عمران نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا!۔

"آپ کی تو کوئی بات ہی میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ساجد بولا۔ "کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ مجھے بچا رہے ہیں۔ کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں اور پھانسی کے تختے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے!"

قبل اس کے کہ عمران جواب دیتا! نواب ہاشم بول پڑا!۔ "سنو ساجد! یہاں رشوت نہیں چل سکتی! یہاں سب بڑے لوگ ہیں! یہاں انصاف ہوتا ہے!"

"آپ غلط کہہ رہے ہیں نواب صاحب!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!" یہاں اناف نہیں ہوتا! انصاف عدالت میں ہوتا ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم کسی ایک کی گردن پھانسی کے لئے پیش کردیں اور اس کا فیصلہ میں ابھی کئے دیتا ہوں کہ کس کی گردن پھانسی کے لئے زیادہ مناسب رہے گی۔"

فیاض خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے اس دوران ایک بار بھی بولنے کی کوشش نہیں کی تھی! ویسے اسے یقین تھا کہ فیصلہ کن لمحات جلد ہی آنے والے ہیں۔

عمران نے آگے بڑھ کر میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی اور دوسرے ہی لمحے اردلی چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔۔۔!

"اسے یہاں لاؤ! سمجھے" عمران نے اردلی سے کہا۔

"جی حضور!" اردلی نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔

نہ جانے کیوں کمرے کی فضا پر قبرستان کی سی خاموشی مسلط ہوگئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہاں کوئی جنازہ رکھا ہوا ہو۔

نواب ہاشم اور ساجد دونوں کے چہرے اترے ہوئے تھے! عمران سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اس طرح کھڑا فرش کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے قالین پر بنی ہوئی تصویریں اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد کرنے والی ہیں!

دفعتا برآمدے میں قدموں کی آہٹ ہوئی اور دوسرے ہی لمحہ میں دروازہ کھول کر دردانہ اندر داخل ہوئی۔ اردلی اس کے پیچھے چق اٹھائے کھڑا تھا۔

ساجد کا منہ حیرت سے کھلا اور پھر بند ہوگیا! لیکن نواب ہاشم کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے لڑکی پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر عمران کی طرف دیکھنے لگا۔

دردانہ دروازے ہی میں ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔ اسکی نظر نواب ہاشم کے چہرے پر تھی اور آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس پر بالکل سکتے کی سی کیفیت طاری تھی!

"ابا جان!" اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اگر عمران آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا تو اس کا گرجانا یقینی تھا! اس پر غشی طاری ہو گئی تھی!

عمران نے اسے ایک کرسی پر ڈال دیا!

"میں اس کا مطلب نہیں سمجھا۔" نواب ہاشم عمران کو خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔

"اس نے مجھے ابا جان نہیں کہا تھا؟" عمران نے لاپروائی سے کہا!

"بہت خوب! میں سمجھ گیا، اب مجھے کسی نئے جال میں پھانسنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ ساجد میں تم سے سمجھ لوں گا!" نواب ہاشم ساجد کو گھونسہ دکھا کر بولا۔

"خاموش رہو۔" فیاض بگڑ گیا!"تم میرے آفس میں کسی کو دھمکی نہیں دے سکتے۔"

"ہاں! اور آپ کی آنکھوں کے سامنے مجھے جال میں پھانسا جا رہا ہے! مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔۔۔ خیر مجھے پروا نہیں دیکھتا ہوں، مجھے کون پھانستا ہے! دنیا جانتی ہے کہ میں نے شادی نہیں کی تھی اور نہ دس سال میں کوئی لڑکی اس عمر کو پہنچ سکتی ہے!۔۔۔ ایک نہیں ہزار ایسی لڑکیاں لاؤ، جو مجھے ابا جان کہہ کر مخاطب کریں۔۔۔ ہونہہ!"

"مگر کپتان صاحب!" ساجد نے فیاض کو مخاطب کیا۔"ذرا دیکھئے دونوں میں کتنی مشابہت ہے؟"

سچ مچ فیاض کبھی بیہوش لڑکی کی طرف دیکھتا اور کبھی نواب ہاشم کو، دردانہ کو اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔

"او۔۔۔ساجد تجھ سے خدا سمجھے!" نواب ہاشم دانت پیس کر بولا۔

"تو کیا اس لڑکی کو ساجد نے پیدا کیا ہے؟" ساجد نے مسکرا کر کہا۔

"نواب ہاشم!" عمران بھاری بھرکم آواز میں بولا۔ "میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم نواب ہاشم ہو اور تمہاری زندگی میں ساجد تمہاری جائیداد کے مالک نہیں ہوسکتے!"

"لڑکے تم مجھے پاگل بنا دو گے۔" نواب ہاشم بے ساختہ ہنس پڑا۔

"آپ شاید نشے میں ہیں؟" ساجد بھنا کر بولا۔

"نہیں ساجد صاحب! میں نشے میں نہیں ہوں! بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں! نواب ہاشم کے پھانسی پا جانے کے بعد ہی آپ ان کے حقیقی وارث ہوسکیں گے!"

"کپتان صاحب!" نواب ہاشم بگڑ کر کھڑا ہوتا ہوا بولا۔ "یہ آپکا دفتر ہے یا بھنگڑ خانہ۔۔۔!"

"اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو تم مجھے گولی مار دیتے!" عمران نے مسکرا کر فیاض سے کہا!

"آخر تم کرنا کیا چاہتے ہو؟" فیاض ہتھے سے اکھڑ گیا۔

"نواب صاحب! تشریف رکھیئے! ابھی تک میں مذاق کر رہا تھا یہ حقیقت ہے کہ آپ بہت ستم رسیدہ ہیں! لیکن اس کا کیا جائے نواب صاحب کہ حکیم معین الدین آپ کے حملے کے باوجود بھی ابھی تک زندہ ہے! اخبارات میں اس کی موت کی خبر میں نے ہی شائع کرائی تھی!"

"کیا بکواس ہے!" نواب ہاشم حلق پھاڑ کر چیخا! "میں جا رہا ہوں!"

"نہیں سرکار!" عرمان جیب سے ریوالور نکال کر اس کا رخ نواب ہاشم کی طرف کرتا ہوا بولا۔ "آپ جائیں گے نہیں بلکہ لیجائے جائیں گے تشریف رکھیئے! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات دلاور علی کا نام سن کر آپ پاگلوں کی طرح فائر کیوں کر رہے تھے؟"

"ہٹ جاؤ سامنے سے!" نواب ہاشم نے پاگلوں کی طرح کہا اور دروازے کی طرف جھپٹا! لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کی لات چل گئی۔۔۔ نواب ہاشم منہ کے بل فرش پر گر پڑا اور عمران نے بڑی بیدردی سے اس کی پشت پر اپنا داہنا پیر رکھ دیا!۔

دردانہ جو ہوش میں آچکی تھی، چیختی ہوئی عمران کی طرف دوڑی!

"یہ آپ کیا کر رہے ہیں! میرا دل گواہی دیتا تھا کہ ابا جان زندہ ہیں!"

"یہ تمہارے ابا جان نہیں ہیں!" عمران نے کہا جو نواب ہاشم کو پیر کے نیچے دبائے رکھنے کے لئے پوری قوت صرف کر رہا تھا!

"ابا جان ہیں، انہوں نے صرف اپنی داڑھی صاف کردی ہے۔ خدا کے لئے ہٹ جایئے!"

"نہیں بھولی لڑکی! میں ابھی بتاتا ہوں۔"

نواب ہاشم نے پلٹ کر عمران کی ٹانگ پکڑ لی!۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کا گھنٹا اس کی گردن سے جا لگا۔۔۔ نواب ہاشم کے حلق سے آوازیں نکلنے لگیں۔

"فیاض! ہتھکڑیاں!" عمران بولا۔

فیاض میز سے اٹھا تو لیکن اس کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی! اس نے اردلی کو ْآواز دی! اتنے میں نواب ہاشم عمران کی گرفت سے نکل گیا! عمران دوسری طرف لڑھک گیا۔ لیکن اس نے نواب ہاشم کی ٹانگ کسی طور بھی نہ چھوڑی!۔۔۔

اتنے میں نواب ہاشم کو اردلیوں نے قابو کرکے ہتھکڑیاں لگادیں!

"بھگتنا پڑے گا تم لوگوں کو!" نواب ہاشم کھڑا ہو کر ہانپتا ہوا بولا۔

"بیٹھ جاؤ!" عمران نے اسے ایک رسی میں دکھا دے دیا! پھر وہ لڑکی کی طرف متوجہ ہوا! جو قریب ہی کھڑی بری طرح کانپ رہی تھی۔!

"تمہارے باپ کا کیا نام تھا؟" عمران نے لڑکی سے پوچھا!۔

"دلاور علی!" لڑکی پھنسی ہوئی آواز میں بولی۔

"مگر یہ نواب ہاشم ہے!"

دردانہ کچھ نہ بولی! عمران نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا!

وہ اسی طرح کانپتی ہوئی بیٹھ گئی!

"نواب ہاشم!" عمران بولا "میں تم پر فریب دہی، قتل اور ایک شخص پر قاتلانہ حملے کے الزامات عائد کرتا ہوں۔"

"کرتے جاؤ! عدالت میں نپٹ لوں گا!" نواب ہاشم ڈھٹائی سے بولا۔

"تم اس لڑکی کے باپ دلاور علی کے قاتل ہو! جو تمہارا ہم شکل تھا۔۔۔ آج سے دس سال قبل تم نے اسے قتل کیا تھا! لوگوں نے اس کی لاش کو تمہاری لاش سمجھنے میں غلطی کی تھی اور یہ غلطی مشابہت کی بنا پر ہوئی تھی! تم چار سال کے لئے غائب ہو گئے چار سال بعد واپس آئے اور دلاور علی کے مکان میں مقیم ہو گئے، لڑکی مشابہت کی بنا پر دھوکہ کھا گئی۔"

"الف لیلٰی کی داستان!" نواب ہاشم نے ایک ہذیانی سا قہقہہ لگایا۔۔!

"اچھا تو اب پوری داستان سنو!۔۔۔ دلاور علی تمہارے باپ کی ناجائز اولاد تھا اور تمہارا ہم شکل! اس کی ماں بچپن میں مر گئی تھی! تمہارے والد صاحب اسے بہت چاہتے تھے! لیکن تمہاری ماں کے برے برتاؤ سے بچانے کے لئے انہوں نے اسے شہر ہی سے ہٹا دیا!۔۔۔ وہ دلاور پور کے ایک بورڈنگ میں پرورش پاتا رہا!۔۔۔ وہیں پلا پڑھا اور تعلیم حاصل کی! وہ فطرتا بہت ہی نیک اور علم و فن کا دلدادہ تھا! برے ہو کر جب اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس شہر کا کبھی رخ ہی نہیں کریگا! تمہارے باپ برابر اس کی مدد کرتے رہے۔ انہوں نے اسے کچھ خاندانی نوادرات بھی دئیے تھے! اور وہ سنگار دان ان میں سے ایک تھا! جس کی نقل تم نے تیار کرا کے موڈی کے گلے لگائی اور اس سے پچیس ہزار روپے اینٹھ لئے۔۔۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟۔ نواب ہاشم تم اسے غلط نہیں کہہ سکتے! میں نے تمہارے خلاف درجنوں شہادتیں مہیا کر رکھی ہیں!۔"

"بکے جاؤ!۔۔۔ " نواب ہاشم برا سا منہ بنا کر بولا۔ "اس بکواس پر کون یقین کرے گا؟"

"ہاں تو فیاض صاحب!" عمران نے فیاض کو مخاطب کیا۔ "اب میں داستان کے اس حصے کی طرف آ رہا ہوں! جہاں نواب ہاشم اور دلاور علی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ ایک عورت کی وجہ سے ہوا جو نواب ہاشم کی محبوبہ تھی اور یہ حقیقت ہے کہ پہلے اس کی ملاقات نواب ہاشم ہی سے ہوئی! پھر شاید وہ عورت کسی طرح دلاور پور پہنچ گئی! وہاں اس کی ملاقات دلاور علی سے ہوئی۔ جس کی صورت ہو بہو نواب ہاشم کی سی تھی! پہلے وہ اسے نواب ہاشم ہی سمجھی لہٰذا بہت بے تکلفی سے پیش آئی اور پھر کافی عرصے بعد اس کی غلط فہمی رفع ہوئی اور وہ بھی اس طرح کہ ایک موقع پر نواب ہاشم اور دلاور علی اکٹھا ہو گئے! دونوں ہم عمر تھے۔ نواب ہاشم کو دلاور علی کے متعلق علم تھا لیکن دونوں پہلی بار ملے تھے اور یہ ملاقات ہی بنائے فساد ثابت ہوئی وہ عورت دلاور علی کو بیحد پسند کرنے لگی تھی! اس کے عادات و اطوار شریفوں کے سے تھے اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ نواب ہاشم سے بہت اونچا تھا! عورت نے ایک فیصلہ کیا اور اسے عملی جامہ پہنایا! یعنی دلاور علی سے شادی کر لی!

نواب ہاشم کے سینے پرسانپ لوٹ گیا!۔۔۔ لیکن اس وقت وہ خاموش رہا۔ البتہ انتقام کی آگ اس کے سینے میں سلگتی رہی۔ ایک سال زندہ رہ کر عورت بھی چل بسی، لیکن وہ اپنی ایک نشانی چھوڑ گئی تھی!" عمران دردانہ کی طرف اشارہ کرکے خاموش ہوگیا! نواب ہاشم اس طرح مسکرا رہا تھا جیسے کوئی نادان بچہ اس کے سامنے بکواس کر رہا ہو!۔

"اب سے دس سال پہلے جب دردانہ دس برس کی ہو چکی تھی، نواب ہاشم نے ایک پلاٹ مرتب کیا! وہ ہرحال میں دلاور علی سے انتقام لینا چاہتا تھا اس نے سب سے پہلے اپنی ایک آشنا کو ایک تانگے والے کے ساتھ بھگا دیا! پھر دلاور علی کو قتل کرکے اپنی جگہ ڈالا اور خود روپوش ہوگیا۔ جنگ کا زمانہ تھا اسے فوج میں ملازمت مل گئی اور وہ سمندر پار بھیج دیا گیا! چار سال بعد اسکی واپسی ہوئی اور چونکہ وہ دلاور علی کا ہمشکل تھا اس لئے دلاور علی کا رول ادا کرنے میں اسے کوئی دشواری نہ آئی۔ لیکن کب تک ایک دن اسے عشرت کی زندگی کو خیر آباد کہہ کر اپنی حویلی میں واپس آنا ہی تھا! لیکن حویلی میں واپسی آسان نہ تھی۔ ساجد جائیداد پر قابض تھا اس کا قبضہ ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا۔ کافی رقم کی ضرورت پیش آتی۔ اس لئے نواب ہاشم نے اصلی سنگار دان کی نقل تیار کروائی اور دردانہ کو دلاور پور بھیج دیا! جب وہ وہاں سے واپس آئی تو نواب ہاشم اپنی حیثیت تبدیل کر چکا تھا اس نے لڑکی کو اس کے باپ کی موت کی اطلاع دی اور خود کو دلاور علی کا دوست ظاہر کیا! لڑکی دھوکے میں آگئی! پھر لڑکی ہی کے ذریعے موڈی کو پھانسا۔ اس نے پچیس ہزار میں نقلی سنگاردان خرید لیا۔۔۔ لڑکی رقم گھر لائی اور نواب ہاشم نے اسے اڑا لیا! اصلی سنگار دان اور وہ رقم آج بھی اس کے قبضے میں ہے!"

"ایک منٹ" فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تمہیں ان سب باتوں کا علم کیسے ہوا؟"

"حکیم معین الدین سے جو دلاور پور کا باشندہ تھا اور اس لڑکی کا باپ اسکے گہرے دوستوں میں سے ہے! وہ دلاور علی اور اس کی زندگی کے حالات سے واقف ہے۔ میں جب دردانہ کی نشاندہی پر اس تک پہنچا تو وہ زخم کھائے ہوئے بیہوش پڑا تھا۔ اس پر کسی نے چاقو سے حملہ کیا تھا اور اپنی دانست میں مردہ تصور کرکے چھوڑ گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زخم مہلک نہیں تھا! اس کی جان بچ گئی! لیکن میں نے احتیاطا اس کے قتل کی خبر دلاور پور کے اخبارات میں شائع کرادی تھی۔ اس سے یہ ساری حقیقت معلوم ہوئی۔۔۔!"

"میں کسی حکیم معین الدین کو نہیں جانتا۔"نواب ہاشم نے کہا! "یہ سب بکواس اور ساجد کی سازش ہے! روپے میں بڑی قوت ہوتی ہے! دنیا کے سارے آدمیوں کو پاگل نہیں بنایا جاسکتا۔ اتنی مشابہت تو ایک ماں کے پیٹ میں پیر پھیلانے والے بھائیوں میں بھی نہیں ہوتی کہ ایک بیٹی دوسرے کو اپنا باپ سمجھ لے۔۔۔ ساجد یہ اوچھے ہتھیار عدالت میں کام نہیں آئیں گے!"

"دلاور پور کے بورڈنگ سے جہاں دلاور علی نے پرورش پائی اس کی تصویریں دستیاب ہو سکتی ہیں!" عمران نے کہا۔۔۔

"وہ میری تصویریں ہوں گی!" نواب ہاشم نے کہا۔ " جو بآسانی ساجد کے ہاتھ لگی ہوں گی اور اب انہیں اس سازش میں استعمال کر رہا ہے۔!.

"ٹھہرو! عمران!" فیاض نے کہا۔ "اگر دلاور علی کو قتل ہی کرنا مقصود تھا تو اتنا پیچیدہ راستہ کیوں اختیار کیا۔ اس سے فائدہ کیا ہوا اور اسے نہ اختیار کر کے کیا نقصان اٹھانا پڑتا؟"

"ذرا دیکھئے!" نواب ہاشم نے تمسخر آمیز لہجے میں کہا اور ہنسنے لگا!

"وہ قتل کیا جاتا!" عمران بولا۔ "اس کی تصاویر شائع ہوتیں اور شہر کے ایک بڑے آدمی سے اس کی مشابہت کی بنا پر پولیس یقینا چونکتی اور پھر جو کچھ بھی ہوتا ظاہر ہے۔"

"پھر وہی مشابہت!" نواب ہاشم برا سا منہ بنا کر بولا۔ " آخر اس مشابہت پر کون یقین کرے گا؟۔۔۔ سازش ہے تو بہت گہری لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی اور میں یہ جتا دینا چاہتا ہوں کہ اس فرضی دلاور علی کی جو بھی تصویر پیش کی جائے گی وہ میری ہوگی اور سو فیصدی میری ہوگی۔ ابھی اس لڑکی نے داڑھی کا حوالہ دیا تھا۔ لہٰذا میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک زمانے میں میں نے یونہی داڑھی بھی رکھ لی تھی اور داڑھی میں اپنے کئی فوٹو بھی بنوائے تھے۔"

"تو تم مجھے شکست دینے پر تل گئے ہو! نواب ہاشم!" عمران مسکرا کر بولا۔ "میں تمہیں بتاؤں۔۔۔ اس دن دلاور علی کے مکان میں تم نے چھپ کر کاغذات کا ایک ڈھیر جلایا تھا! لیکن جس چیز کے لئے تم نے اس ڈھیر میں آگ لگائی تھی! وہ اس میں موجود نہیں تھی! تمہیں بھی یقین نہیں تھا کہ وہ چیز جل ہی گئی ہوگی! اس لئے تم اس کی تلاش میں اپنے چار آدمیوں کے ساتھ پیلے مکان میں گھسنے کی کوشش کرتے رہے ہو! لیکن وہ چیز تمہارے ہاتھ نہ لگ سکی! وہ میرے قبضے میں ہے!"

"کیا؟" نواب ہاشم مضطربانہ انداز میں بولا۔ پھر فورا ہی سنبھل کر ہنسنے لگا! ہنسنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ عمران کا مضحکہ اڑا رہا تھا۔

"تمہاری اطلاع کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دلاور علی ایک بہت ہی مشاق قسم کا بلاک میکر تھا!" عمران نے کہا اور دفعتا نواب ہاشم کا چہرہ تاریک ہو گیا وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا!

"کیپٹن فیاض! عمران مسکرا کر بولا "یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے!۔۔۔ دلاور علی نے وائسرائے کے ایک فرمان کا بلاک بنایا تھا جو جنگ کا پراپیگنڈہ کرنیوالے ایک سرکاری ماہنامے میں شائع کیا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی اس ماہنامہ کیلئے کام کرنیوالوں کے فوٹو بھی شائع ہوئے تھے۔ تمہیں اسی ماہنامے میں دلاور بلاک میکر کی تصویر بھی مل جائیگی! نواب ہاشم کو اس کی تلاش تھی! لیکن وہ میرے ہاتھ لگ گئی۔"

نواب ہاشم نے ہاتھ پیر ڈال دیئے! وہ خوفزدہ نظروں سے عمران کی طرف دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب جو کچھ کہنا چاہتا ہو اس کے لئے اسے الفاظ نہ مل رہے ہوں!

"اور نواب ہاشم!" عمران شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا!"پچھلی رات تم نے دلاور علی کے نام پر اندھا دھند فائر کیوں کئے تھے؟"

"وہ آخر تھی کیا بلا؟" ساجد نے پوچھا۔

"وہ بلا عمران تھی" عمران نے سنجیدگی سے کہا!"میں نے تمہارے پائیں باغ میں درختوں پر مائیکرو فون کے چھوٹے چھوٹے ہارن فٹ کر رکھے تھے اور باغ کے باہر سے بھوتوں کا پروگرام نشر کر رہا تھا۔"



)۱۵(​

اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد نواب ساجد اور دردانہ حویلی کے پائیں باغ کی ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔

"میں پھر آپ سے کہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے شادی کرکے غلطی کی ہے" دردانہ بولی۔

"نہیں ڈیئر! میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک عقل مندی کا کام کیا ہے!" ساجد نے مسکرا کر کہا!

"آپ ایک دن سوچیں گے! سوچنا ہی پڑے گا۔۔۔ کاش میری بیوی بھی نجیب الطرفین ہوتی!"

"میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم ایک شریف اور ایماندار آدمی کی بیٹی ہو! میرے نجیب الطرفین چچا کا حال تو تم نے دیکھ ہی لیا! وہ مجھے بھی ناکردہ گناہ کی سزا میں پھانسی دلوانا چاہتا تھا۔ محض اپنی گردن بچانے کے لئے! تمہارے والد اس سے یقیناً بہتر تھے!"

"وہ تو ٹھیک ہے! لیکن نہ جانے کیوں میرا دل نواب صاحب کے لئے کڑھ رہا ہے۔"

"اوہو!" نواب ساجد نے قہقہہ لگایا۔ "تم بھی اپنے باپ ہی کی طرح سے بہت زیادہ نیک معلوم ہوتی ہو۔۔۔ مگر چچا صاحب پھانسی سے کسی طرح نہیں بچ سکتے! عمران نے انہیں چاروں طرف سے پھانس لیا ہے۔۔۔ بھئی غضب کا آدمی ہے یہ عمران بھی! ایسا الو بناتا ہے باتوں ہی باتوں میں کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیے! آخیر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ نزلہ کس پر گے گا!۔۔۔ آہا۔۔۔ بیچارے موڈی کو تو ہم بھول ہی گئے۔۔۔ میں ایک بات سوچ رہا ہوں ڈیئر! اب تمہارے مشورے کی ضرورت ہے!"

"کہیئے! کیا بات ہے؟"

"موڈی کے روپے تو ہم واپس کر چکے ہیں! پھر کیوں نہ اصلی سنگار دان بھی اسے پریذنٹ کردیں! دیکھو اس کی شرافت! اگر وہ ذرا بھی سخت ہو جاتا تو تم جیل پہنچ جاتیں۔"

"آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی! میں بھی یہی سوچ رہی تھی!"

"اچھا! تو کل ہم اسے مدعو کریں گے!"

"عمران صاحب کو بھی بلائیے گا!"

"نہیں۔۔۔ وہ تو اب مجھے پہچاننے سے ہی انکار کرتا ہے۔ کل کلب میں بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں بہت لہک کر اس سے ملا۔ لیکن اس نے نہایت خشک لہجے میں کہا۔ معاف کیجئے گا! میں نے آپ کو پہچانا نہیں!"

دردانہ ہنسنے لگی

ختم شد​

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔