ہفتہ، 25 اپریل، 2015

شاه منصور اور عشق

0 comments
شاه منصور اور عشق ایکسٹو حضرت شاه منصور رحمة الله علیہ عاشق رسول صلی الله علیہ‎ ‎وسلم تھے اور دین اسلام کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔ آپ رحمة الله علیہ علی الصبح فجر کی نماز کے بعد گھر سے نکل پڑتے اور شام مغرب کی نماز کے بعد گھر لوٹتے تھے۔ شاه منصور کی ایک بہن تھی جس کا‎ ‎نام عین تھا اور وه نہایت حسین و جمیل تھی بستی کے ایک لڑکے نے شاه منصور کی بہن کی ایک جھلک دیکھ‎ ‎لی اور وه اس کے عشق میں دیوانہ ہو گیا۔ اس لڑکے نے دن رات شاه منصور کے گھر گزارنے شروع کر دیۓ تاکہ کسی طرح پھر عین کا دیدار ہو سکے۔ ایک رات وه لڑکا گھر کے باہر موجود تھا اس نے دیکھا کہ عین رات کے بچھلے پہر گھر سے نکلی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر کے عقب میں واقع ایک ویران جنگل میں چلی‎ ‎گئی۔ اس لڑکے نے عین کا پیچھا کرنا شروع کیا لیکن وه اسے جنگل میں داخل ہونے کے بعد کہیں نظر نہ آئی۔ وه لڑکا ناکام واپس لوٹ گیا۔ دوسری رات وه لڑکا اپنے ساتھ ایک دوست کو بھی لے گیا۔ رات کے پچھلے پہر عین ایک مرتبہ پھر گھر سے نکلی اور جنگل کی جانب چل دی۔ دونوں دوست اس کے پیچھے جنگل میں داخل ہوۓ لیکن عین ان کو کہیں‎ ‎نظر نہ آئی۔ دونوں لڑکے صبح تک جنگل میں عین کو تلاش کرتے رہے لیکن عین انہیں جنگل میں کہیں نہ ملی۔ اگلے روز دونوں لڑکوں نے صلاح مشورے کے بعد ایک اور لڑکے کو اپنے ساتھ ملا لیا اور گھر کی نگرانی شروع کردی۔ رات کے پچھلے پہر ایک مرتبہ پھر عین گھر سے نکلی اس مرتبہ اس نے سیاه رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اور سیاه رنگ کی چادر سے خود کو ڈھانپ رکھا تھا۔ عین کے ہاتھ پاؤں جو کہ عریاں تھے وہاں سے نور کی شعائیں نکل رہی تھیں۔ ان تینوں نے ایک مرتبہ پھر جنگل میں اسے تلاش کیا لیکن پانے میں ناکام رہے۔ تینوں دوستوں میں یہ بات طے پائی کہ وه اس کا ذکر شاه منصور سے کریں گے۔ اگلے روز شاه منصور روز مره کی طرح تبلیغ کے سلسلہ میں بازار پہنچے تو اس لڑکے نے جو عین کے عشق میں جل رہاتھا اس نے آپ کو اپنی دوکان میں بلا لیا اور سارا ماجرا گوش گزار کیا۔ نیز کہا کہ میں اکیلا نہیں یہ دونوں دوست بھی اس بات کے گواه ہیں۔ آپ لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں اور آپ کے گھر والے دین پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ شاه منصور نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اراده کیا کہ وه ایک مرتبہ اپنی بہن کو ضرور دیکھیں گے کہ وه کیا کرتی ہے۔ آپ نے اپنی سستی بھگانے کیلۓ اپنی ہتھیلی زخمی کی اور اس پر نمک ڈال کر بستر پر لیٹ گۓ۔ زخم پر نمک ڈالنے کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی۔ آپ نے دیکھا کہ رات کے پچھلے پہر عین بستر سے اٹھی اور سیاه رنگ کی چادر سے خود کو اچھی طرح اوڑھ کر گھر سے باہر نکلی اور جنگل کی جانب چل دی۔ شاه منصور اٹھے اور مناسب فاصلہ سے اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔ عین دھیرے دھیرے جنگل میں داخل ہوئی شاه منصور بھی عین کے پیچھے جنگل میں داخل ہو گۓ اس وقت موسم نہایت سہانا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور جنگل کے پھولوں کی خوشبو چکر رہی تھی جس سے شاه منصور مہک اٹھے آپ بہن کے تعاقب میں بڑھتے چلے گۓ یہاں تک کہ ایک صاف ستھرے میدان میں پہنچ گۓ۔عین میدان کے درمیان میں جا کر رک گئی اور آپ جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بیٹھ گۓ۔ فضا اس وقت پھولوں کی خوشبو سے معطرتھی۔ دفعتا شاه منصور کو خیال آیا کہ یہ کوئی عام جگہ نہیں ہے ابھی یہ خیال دل میں گزر ہی رہاتھا کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دیں ابھی گھوڑے نزدیک نہ پہنچے تھے کہ ایک جن نمودار ہوا جس نے میدان میں ہیرے جواہرات سے مزین سونے کی بہت سے کرسیاں میدان میں لگا دیں۔ جب وه کرسیاں لگا چکا تو نہایت ادب کے ساتھ ہاتھ باندھ کر عین کے ساتھ‎ ‎قافلے کے استقبال کےلیۓ کھڑا ہوگیا۔ اسی دوران شاه منصور کے کانوں میں آواز سنائی دی کہ اے غافل! ‎ہوشیار ہو جا حضور نبی‎ ‎کریم صلی الله علیہ وسلم کی سواری آ رہی ہے، درودشریف کی کثرت شروع کردے۔ شاه منصور نے جب یہ آواز سنی تو بے اختیار دونوں ہاتھ باندھ‎ ‎کر مؤدب ہوگۓ اور درود شریف کی کثرت شروع کردی۔ اس دوران قافلہ اس جگہ آن پہنچا قافلے میں حضور نبی‎ ‎کریم صلی الله علیہ وسلم کے ہمراه خلفاۓ راشدین اور ديگر صحابہ کرام تھے۔ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کا گھوڑا میدان کے درمیان میں آ کر بیٹھ گیا اور خلفاۓ راشدین نے آپ صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کو گھوڑے سے اتارا اور سب سے بڑی منقش کرسی پر جا کر بٹھادیا۔ جیسے ہی خلفاۓ راشدین اور دیگر صحابہ کرام کرسیوں پر تشریف فرما ہوۓ تو عین نے سب کی خدمت میں شربت کے گلاس پیش کرنے شروع کر دیۓ۔ جب عین سب کو شربت دے چکی تو حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎نے فرمایا کہ عین‎ ‎ایک گلاس تم پی لو اور ایک جھاڑیوں میں بیٹھے ھمارے مہمان کو دے آؤ۔ عین نے حضورنبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کے فرمان کے مطابق اپنے حصے کا‎ ‎گلاس پی لیا اور دوسرا گلاس لے کر جھاڑیوں کے پاس ثہنچی جب اپنے بھائی کو دیکھا تو اچانک عین کے منہ سے نکلا کہ لو سولی جوگے تم بھی شربت کا گلاس پی لو۔ شاه منصور نے عین کے حق سے شربت کا گلاس لے کر پیا تو ان کی عقل جاتی رہی۔ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کا قافلہ میدان سے جا چکا تھا۔ عین گھر لوٹ چکی تھی۔ حضور نبی‎ ‎کریم صلی الله علیہ وسلم‎ ‎اور صحابہ کرام کا دیدار اور ساتھ شربت کا گلاس شاه منصور کے ہوش و حواس کھو چکے تھے۔ شاه منصور نے عین الحق کا نعره لگا شروع کر دیا یعنی عین سچی ہے۔ اپنے کپڑے پھاڑ لیۓ اور جنگلوں بیابانوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ شاه منصور کو بیابانوں جنگلوں میں پھرتے مہینے گزر گۓ جسم پر کپڑوں کے نام پر چند چیتھڑے موجود تھے۔ بال بے تحاشہ بڑھ کر شانوں سے لٹک رہے تھے، غسل نہ کرنے کی وجہ سے جسم مٹی اور گندگی کی وجہ سے سیاه پڑ چکا تھا۔ آپ‎ ‎عین الحق کا نعره لگاتے رہتے‎ ‎تھے نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ہوش۔ ایک روز ایک مولوی صاحب نے دیکھا کہ شاه منصور عین الحق کا نعره لگاتا ہوا جا رہا ہے تو انہوں نے آپ کو پکڑ کر ساتھ لے گۓ اور نہلانے کے بعد صاف ستھرا لباس پہنایا اور اپنی امامت میں نماز پڑھوائی۔ بعد نماز شاه منصور نے ان مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب کیا آپ کو کلمہ آتا ہے۔ مولوی نے مسکراتے ہوے کلمہ سنایا۔ شاه منصور بولے کہ نہیں اسے کلمہ نہیں کہتے۔ پھر دو کچی کٹھالیاں منگوائیں اور کٹھالی پر کھڑے ہو کر دوسری کٹھالی سر پر رکھ دی اور "لاالہ" پڑھا۔ "لاالہ" کہنے کی دیر تھی کہ دنوں کھٹالیاں آپس میں مل گئیں۔اور شاه منصور ان کٹھالیوں میں پیوست ہو گۓ۔ مولوی صاحب نے کٹھالیاں اٹھا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ اسی دوران آواز سنائی دی کہ ،الاالله‎ ‎محمد‎ ‎رسول الله۔ جیسے ہی یہ الفاظ سنائی دیۓ شاه منصور دوباره ان کٹھالیوں میں نظر آنے لگے۔ مولوی صاحب نے جب یہ معاملہ دیکھا تو شاه منصور سے کہنے لگے کہ تم خود‎ ‎ہی خدا بن گۓ یہ شرک ہے۔ مجھے تمہارے بارے میں علم ہے تم اپنی بہن پر عاشق ہو لہذا میں تمہیں اپنے قاضی کے اختیارات استعمال کرتے ہوۓ تختہ دار پر لٹکانے کا‎ ‎حکم دیتا ہوں تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ مولوی صاحب کے حکم پر سپاہی شاه منصور کو پکڑ کر لے گۓ۔ شبلی ، شاه منصور کا بہت اچھا دوست تھا اور اس کے تمام رازوں سے واقف تھا۔ اسے جب معلوم ھوا کہ شاه منصور کو تختہ دار پر چڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے تو اس نے سپاہیوں سے کہا کہ یہ الله کا ولی اور رسول‎ ‎الله صلی الله علیہ وسلم‎ ‎کا سچا عاشق ہے لیکن کسی نے اس‎ ‎کی آواز پر توجہ نہ دی۔ اگلے روز شاه منصور رحمة الله علیہ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ جس وقت شاه منصور رحمة الله علیہ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو اس وقت لوگوں نے اسے پتھر مارنا شروع کردیۓ یہاں تک کہ شاه منصور رحمةالله علیہ نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ ***

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔