حیاتِ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ




قومی اِتّحاد کی علامت
کچھ کے غریب نواز

حیاتِ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ


جناب ماسٹر حمیرانی


شہنشاہِ کچھ حاجی پیر بابا (رحمۃ اللہ علیہ ) کے مختصر حالات



متعدد عظیم ہستیوں کے حالاتِ زندگی تحریر کیے جاتے ہیں ۔ اُن عظیم ہستیوں کے حالاتِ زِندگی قلم بند کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کو اُن کی حیات و خدمات کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوں نیز لوگوں کو ان عظیم ہستیوں کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی زندگی سنوارنے کی توفیقِ رفیق حاصل ہو۔

اِسلام ، امن و سلامتی کا دین ہے کیونکہ اِس کے معنیٰ ہی اَمن و سلامتی کے ہوتے ہیں ۔ اِسلام پوری دُنیا کا سب سے بہترین دینِ خدمت ہے۔ اِس نے تمام عالمِ اِنسانی کی خدمت کی ہے۔ اِسی عظیم ، سچے، دین خدمت کے ایک عظیم سپوت نے نہ صرف یہ کہ اپنے دین کی عظیم خدمت اَنجام دی ہے بلکہ اَدیانِ عالم کی تفریق کو بھلا کر تمام عالم کی نوعِ اِنسانیت کی خدمت میں اپنے وجودِ خاکی کو قُربان کر کے اللہ عزّ و جلّ کے پیارے بندوں کی فہرست میں اَپنا نام درج کروا چکا ہے۔یہ مختصر کتابچہ دین خدمت کے اُسی عظیم سپوت کے حالاتِ زِندگی کا آئینہ دار ہے۔

ہمارے اِس کتابچہ کے مرکزی کردار اللہ کے ولی حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، وہ پابندِ شریعت، مبلغِ اِسلام، صوفی ِ با صفا تھے۔ یہ اُن کی دینی خدمت ہی تو تھی کہ ایک غیر مسلم بڑھیا کی فریاد رسی کی اور اِنسانی سماج کو پریشان کرنے والے لٹیروں کا دِلیری سے سامنا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اُن کی شہادت اُن کی دِینی اور سماجی خدمت کی عمدہ مِثال ہے۔ دِین اِسلام کے مطابق ہر شہید جنتی ہے، لیکن اُس میں بھی دِینی اَحکامات کی پابندی کا عنصر شامل ہے۔  سماج سیوا کے مدعی اور ظاہری دِکھاوا کرنے والا سماج اور اُس کے لیڈران بھی جب اس عظیم ولی اللہ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں گے اور کون کون سے کام کرنے سے اور کیسی زندگی جینے سے سماج کی خدمت ہو سکتی ہے اس بات کو سمجھیں گے تو یہ عوام الناس کی فلاح و بہبود ہی کا کام ہو گا۔

آج کے اِس دور میں مبینہ طور پر سدھرے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ خدمت ہی سچا مذہب ہے۔ جس مذہب میں خدمت کا جذبہ نہیں ہے ، وہ مذہب ہی نہیں ہے۔ لیکن دین ِ اِسلام کی مقدس اور عظیم ہستیوں نے (یعنی بزرگانِ دین، اَولیائے کرام ، صوفیائے کرام اور فقیروں نے یہ سمجھایا ہے کہ دراصل دین اِسلام کے اَحکامات کی پابندی ہی خدمت ہے۔کیونکہ اِسلامی شریعت نے حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی اُتنا ہی زور دیا ہے جتنا حقوق اللہ کی ادائیگی پر۔اِسی لیے سچے مسلمان تو اَولیاء اللہ ہی ہیں ۔ جنہوں نے دِین ِ اِسلام کی روٗح کو نہ صرف یہ کہ سمجھا بلکہ اس کی صحیح تعلیمات کا لوگوں کو درس بھی دیا۔جن لوگوں نے دین اِسلام کی تعلیمات کا دَرس لیا اور اُس پر عمل کیا وہی سچے مسلمان ہیں ۔اَیسے فقیروں نے صحیح معنوں میں اِسلامی زندگی پیش کی۔اور دُنیا دار لوگوں نے اُن کی زندگی میں سے دَرس حاصل کر کے اِسلام کے اَمن و سلامتی کے پیغام کو قبول کیا۔اس کے باوجود اسلام تلوار سے پھیلا ہے ، کہنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟  ہندوستا ن کے گاؤں گاؤں میں اسلام کے عظیم اولیائے کرام کے مزارات مرجع خلائق ہیں ۔ ان مزارات میں دین ِ اسلام کی تاریخ کے روشن اوراق دفن ہیں ۔ تاریخ کے ان اوراق پر تبلیغ دین، خدمتِ خلق کے لباس میں ملبوس دین اسلام کی صحیح تصویر سنہرے حروف سے لکھی ہوئی نظر آتی ہے۔اولیائے کرام کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت سے فلاں قوم مسلمان ہوئی۔ یا پھر دین و مذہب سے ناواقف ہزاروں لوگ دین و مذہب کی نعمتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے۔ یا پھر کسی بزرگ یا پیر نے خدمتِ خلق کے جذبے سے بڑے بڑے بہادروں اور سورماؤں جیسے عظیم کارنامے انجام دیے۔ اور ان کے اخلاقِ حسنہ سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہوئے۔ سبھی بزرگوں کے حالات  زندگی میں عموماً یہی بات نظر آتی ہے۔ وہ لوگ سچے مسلمان تھے ، اسی لیے اللہ کے ولی کا درجہ پایا۔



حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کا شجرۂ نسب


حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے لوگوں سے جو معلومات ہمیں حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق ان کے آباء و اجداد مکہ مکرمہ میں آباد تھے۔جن میں (۱) حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ (۲)حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ(۳) حضرت قاسم  رحمۃ اللہ علیہ(۴) حضرت شیخ رضی الدین  رحمۃ اللہ علیہ(۵)حضرت شیخ مسعود رحمۃ اللہ علیہ(۶)حضرت شیخ وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ(۷)حضرت شیخ سراج الدین  رحمۃ اللہ علیہ(۸)حضرت شیخ وجیہ الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ(۹)حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ(۱۰)حضرت شیخ شہا ء الدین رحمۃ اللہ علیہ(۱۱)حضرت شیخ عبداللہ المعروف بہ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ(۱۲)حضرت شیخ ابراہیم المعروف بہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ

بارہویں نسل کے حضرت شیخ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ مکۃ المکرمہ سے ملتا ن تشریف لائے اور کوٹ کروڑ نامی محلے میں آباد ہوئے۔ (۱۳) حضرت شیخ وجیہ الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ(۱۴)حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ(۱۵)حضرت  شیخ صدرالدین رحمۃ اللہ علیہ(۱۶)حضرت  شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ(۱۷)حضرت  شیخ احدالدین رحمۃ اللہ علیہ(۱۸)حضرت  عبد الغفار عرف شاہ کالا( اُن کی شادی تارخانی نسل کے جناب امیر سرخ رو خان کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی تھی۔)وہ پنجاب سے سندھ کے ایک شہر میں آ کر آباد ہوئے۔ اس کے بعد کی کچھ نسلوں کی معلومات دستیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ کچھ خاندان سید پور آئے اور وہاں سے کوریجا گوڈا میں آباد ہوئے۔ اُن کی نسل میں شاہ کالا قریشی کے بعد (۱۹) حضرت شاہ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ (۲۰) حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ الرحمۃ (۲۱)حضرت  شیخ عبدل رحمۃ اللہ علیہ (۲۲) حضرت شیخ عمادالدین رحمۃ اللہ علیہ(۲۳)حضرت شیخ عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ(۲۴)حضرت شیخ محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ(۲۵)حضرت ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ(۲۶)حضرت محسن شاہ رحمۃ اللہ علیہ، اُن کے تین اولادیں تھیں (۱) بی بی فاطمہ (۲) شہاب الدین عرف شادی شاہ رحمۃ اللہ علیہ (جن کا مزار شریف میر پور بھٹھورا تعلقہ کے گوڑدھالا گاؤں میں واقع ہے۔) اور (۳) حضرت سید علی اکبر زکریا المعروف بہ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ

چودہویں نسل کے حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت با سعادت   ۶۱۱  ؁ھ میں ہوئی تھی۔ ان کے علا وہ دوسرے کسی بھی بزرگ کی وِلادت یا وفات کی تاریخیں معلوم نہیں ہو سکیں ۔ چودہویں نسل کے بزرگ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کا وصال  ۱۲۸۰  ؁ ء میں ہوا تھا۔ ان کے بعد کی جو تیرہ نسلیں ہوئیں ان کا عرصۂ حیات اندازاً تین سو سال شمار کریں ۔اور اٹھارہویں نسل کے جو نام دستیاب نہیں ہو سکے ان کا عرصۂ حیات اندازاً ایک سو سال شمار کریں تو یوں کل چار سو سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد سے شمار کرنے سے  ۱۶۸۰؁ء یعنی ۱۷۰۰  سال بعد آپ کی آمد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوں  غالب گمان ہے کہ آپ کو ۳۲۵  سال کا عرصہ ہوا ہو گا۔

حاجی پیر کی وِلادتِ با سعادت

حضرت سید علی اکبر زکریا المعروف بہ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت ملتان میں ہوئی تھی۔ آپ کے ایک بہن اور ایک بڑے بھائی تھے۔ بہن کا نام فاطمہ تھا۔اور بڑے بھائی کا نام شہاب الدین عرف شادی شاہ رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کا نام موسن شاہ تھا اور آپ کے چچا کا نام ایران شاہ تھا۔

حاجی پیر کا بچپن

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ اپنے بھائی اور بہن کے مقابلہ انتہائی ذہین و فطین تھے۔ کم عمری ہی سے آپ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔ آپ کو اپنے آباء و اجداد کے وسیلے سے اخلاق حسنہ اور خصائل ِ حمیدہ تو گویا موروثی طور پر ملے تھے۔ جس کے سبب آپ ہمیشہ خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔

آپ نرا گاؤں کے ٹھا کر صاحب کی بھینسیں چرانے کا کام کرتے تھے۔ آپ صبح سے شام تک بھینسوں کو چرانے کے لیے گاؤں سے باہر لے جاتے تھے ۔ اُدھر بھینسیں چرتی رہتی تھیں اور اِدھر آپ ذِکرِ خدا اور یادِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔

حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کی دِلی مراد تو یہ تھی کہ دین اسلام کو خوب فروغ حاصل ہو۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اِسلام قبول کریں اور اللہ کے احکامات کی پابندی کریں ۔ دین کی تبلیغ کی غرض سے آپ اکثر و بیشتر لوگوں کو ہدایت سے فیض یاب فرماتے۔ نیز قرآن کی سیدھی راہ لوگوں کو دکھاتے۔ آپ کو قرآنِ پاک، حدیث شریف اور تصوف سے خاصا شغف تھا۔

حاجی پیر کا حُلیہ

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کا جسم مضبوط تھا۔ بانکی مونچھیں ، آپ کے چہرے کا وقار اور بڑھاتی تھیں ۔ آپ کی کنجی آنکھیں سے اللہ کا نور برستا تھا۔ اور آپ کے بازوؤں میں بے پناہ قوت تھی۔جنگ میں دشمنوں کے سر پلک جھپکتے ہی دھڑ سے علاحدہ کر دینے کی غضب کی قوت و صالحیت سے اللہ نے آپ کو نوازا تھا۔ اپنی بے پناہ جسمانی طاقت و قوت اور جنگی صلاحیتوں ہی کی بنا پر آپ کو شہاب الدین کی فوج میں نمایاں درجہ حاصل ہوا تھا۔

حاجی پیر کی عظمت

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ پالتو بھینسوں کو چرانے کا کام سنبھالتے تھے۔آپ کی مستقل نگرانی اور عمدہ دیکھ بھال سے بھینسیں بھی خوب تندرست اور مست ہو چکی تھیں ۔اور اُن کے تھنوں میں دودھ کی مقدار بھی خوب بڑھ چکی تھی۔ ایسی ہتھنی جیسی بھینسوں کو دیکھ لوگ باگ تعجب کرنے لگتے۔ انوکھے ڈھنگ سے مویشیوں کو پالنے والے اس مال دھاری سے نرا گاؤں سے ٹھاکر صاحب بھی ملنے کے لیے آئے تھے۔ اور آ کر حاجی پیر سے کہا،’’جائیے! جس کسی بھینس میں ذائقہ دار گاڑھا دودھ ہو اسے دوہ کر دودھ لے آئیے مہمانوں کو پلائیے۔حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ نے ہچکچاہٹ کی بنا پر کچھ دیر توقف کیا اور کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ آپ کے چہرے پر فکر مندی کے آثار صاف نمایاں تھے ۔ آپ کو دیکھ کر ٹھا کر نے دریافت کیا،’’ کیا ہوا؟ جلدی کیجیے۔‘‘

’’ باپو! آپ جس بھینس سے دودھ لانے کا حکم فرمائیں اسی میں سے دودھ دوہ لاؤں ، کس بھینس کا دودھ اچھا ہے ؟یہ تو مجھے نہیں معلوم ۔‘‘

’’ کیا کہہ رہے ہیں ۔ اِتنے سالوں سے بھینسوں کو چرا رہے ہیں ، ان کی نگرانی ، دیکھ بھال کر رہے ہیں اور آپ کو اتنا بھی پتا نہیں کہ کس بھینس کا دودھ اچھا ہے؟یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے۔‘‘

’’جی ہاں ! باپو! میں بھینسوں کا محافظ ہوں ، مالک نہیں ۔اِن بھینسوں کے دودھ پر تو صرف آپ کا حق ہے۔ آپ کی اجازت کے بغیر میں کسی بھینس کا دودھ کس طرح پی سکتا ہوں ۔

حاجی پیر کی آمد کے وقت ہندوستان کے حالات

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کے آباء و اجداد ملکِ عرب سے ایران، افغانستان ہوتے ہوئے پنجاب کے ملتان شہر آ پہنچے اور یہیں آباد ہو گئے۔

۷۱۲ ؁ء میں لنکا کے حکمراں نے بغداد کے خلیفہ عبد الملک کو  سمندری جہازسے نہایت قیمتی ہیرے -  جواہرات بھیجے تھے ۔ لیکن اُس جہاز کو سندھ کی دیبل بندرگاہ کے قریب سمندری لٹیروں نے لوٹ لیا گیا۔ لہٰذا اس واردات کی اِطلاع عراق کے صوبے دار کو کی گئی۔ اُس نے اپنے سترہ سالہ داماد محمد بن قاسم کو چھ ہزار گھوڑے سواروں کے ساتھ سند ھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔اور اسی لشکر کے ساتھ حاجی پیر کے بزرگ آئے تھے۔ اور پھر پنجاب کے ملتان شہر میں ہی قیام پذیر ہو گئے۔

ان بزرگوں میں حاجی پیر کے بڑے دادا حضرت شہاب الدین زکریا بھی تھے۔ جو ملتان میں اللہ کے ولی کے طور پر معروف تھے۔ان ہی کے یہاں سے ضیاء الدین سندھ کے شہر ٹھٹھہ آ کر آباد ہوئے تھے۔اور وہاں سے بمقام شاہ پور مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کی دِلی مُراد تو یہ تھی کہ دینِ اِسلام کو خوب فروغ حاصل ہو۔اور پوری دُنیا میں اِسلام کا ڈنکا بجنے لگے۔

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ جب ہندوستان تشریف لائے تب چاروں طرف افراتفری کا علم تھا۔ہندوستانی حکمرانوں نے  معمولی معمولی باتوں میں آپس کے باہمی تعلقات  بگاڑ کر چاروں طرف دشمن پیدا کر لیے تھے۔ہندوستان بھر میں باہمی نزاع کا زہر پھیلا ہوا تھا۔ اِسی سبب سے ہندوستان پر حملہ آور ہونے کے لیے شہاب الدین غوری موقعہ کی تلاش میں تھا۔ اس کی دِلی مراد تھی کہ ہندوستان میں اِسلامی حکومت قائم ہو۔ ہندوستان کی بے پناہ دولت دیکھ کر اُس کے دل میں یہ حرص پیدا ہوا تھا۔

شہاب الدین غوری ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور ۱۱۷۵ ؁ء میں ملتان پر اپنی فتح کے نشہ میں چور ہو کراُس نے ۱۱۷۸ ؁ء میں گجرات پر بھی چڑھائی کی۔لیکن گجرات کے حکمراں بھیم دیو نے اُسے شکست دی۔بھیم دیو سے شکست کھا کر واپس لوٹتے وقت شہاب الدین غوری پشاور اور سندھ پر قابض ہو گیا۔ اس وقت لاہور میں محمود غزنوی کی اولاد میں سے خسرو ملک حکومت کرتا تھا۔ اُس کے ساتھ صلح کر کے وہ غزنی واپس لوٹا۔

اُس کے غزنی پہنچتے ہی خسرو ملک نے شہاب الدین غوری کے تعمیر کروائے ہوئے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ بایں سبب شہاب الدین طیش میں آ کر ہندوستان آ پہنچا ۔ خسرو ملک کو گرفتار کرو اکے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد  ۱۱۸۶  ؁ء  میں پنجاب، سندھ، اور ملتان شہاب الدین غوری کے قبضے میں آ گئے۔ اور اُس نے اپنی فوجوں کو اُن کی حفاظت میں لگا دِیا۔

 فوج میں شمولیت

سلطان شہاب الدین غوری ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لانا چاہتا تھا۔ اسی لیے حاجی پیر اپنی دیرینہ تمناؤں کی تکمیل کی غرض سے جوانی کی عمر میں شہاب الدین غوری کی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ کیونکہ آپ کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اسلام کی نشر و اِشاعت کا کام قدرے آسان ہو جائے گا۔اسی جذبہ کے ساتھ حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ  ۱۱۸۷  ؁ء میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔

۱۱۹۱  ؁ ء میں شہاب الدین غوری دہلی پر حملہ آور ہوا۔ اس وقت دہلی میں بہادُری اور جنگی صلاحیتوں کی بنا پر پرتھوی راج چوہان کا شہرہ تھا۔ پرتھوی راج چوہان نے غیرملکی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سبھی راجپوت راجاؤں کو جمع کیا۔ کچھ کا راجا مرتو رائے گھن اپنی فوج کے ساتھ پرتھوی راج چوہان کی مدد کے لیے آیا۔ قنوج کے راجا جے چند کے سوا سبھی راجپوت راجا پرتھوی راج چوہان کے پرچم تلے جمع ہوئے۔

راجپوتوں کی فوج میں دو لاکھ گھوڑے سوار، اور تین ہزار ہاتھی تھے۔ اتنی بڑی فوج کے ساتھ کرنال اور تھانیشور کے بیچ دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔

شہاب الدین کی فوج چاروں طرف سے محصور ہو گئی۔ پرتھوی راج چوہان کی فوجوں نے اتنی تیز رفتاری کے ساتھ حملہ کیا کہ سورج غروب ہونے تک تو شہاب الدین کا لشکر منتشر ہو گیا۔ اور شہاب الدین خود بھی نیزے سے زخمی ہو کر زمیں پر گر پڑا۔ حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ خون سے لت پتھ زخمی شہاب الدین کو میدانِ جنگ سے نکال کر دور لے گئے اُس کے زخموں کو دھو کر صاف کیا۔مرہم پٹی کر کے اُس کی خدمت کی۔ صحت مند ہونے کے بعد  شہاب الدین اپنے باقی ماندہ لشکر کے ساتھ غزنی واپس لوٹا۔

ہار ا ہو ا جواری دوہری رقم داؤ پر لگاتا ہے۔ٹھیک اُسی طرح  جنگ میں شکست خوردہ شہاب الدین باوجود شکستِ فاش کے ذرا بھی نا اُمید نہیں ہوا اور دوسرے ہی سال مکمل لشکری تیاری کے ساتھ ہندوستا ن پر دوبارہ حملہ آور ہوا اور تھانیشور کے قریب پرتھوی راج چوہان کے لشکر سے مقابلہ کیا۔دونوں فوجوں کے بہادروں ایک دوسرے کے سامنے تلوار کے جوہر دِکھائے۔تاہم اس جنگ میں پرتھوی راج چوہان فتح یاب نہ ہو سکا۔ اور لڑائی میں مارا گیا۔

فتح یاب ہوتے ہی شہاب الدین غوری کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔اُس نے دہلی کی سمت کوچ کیا اور وہاں لوٹ مچائی۔ہزاروں بے گناہوں کی قتل عام کی۔ مندروں کی مورتیوں کو توڑ ڈالا۔ اُس نے معصوموں اور بے گناہوں کو جس بے دردی سے قتل کیا اُس سے حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کو شدید صدمہ پہنچا کیونکہ آپ کو یہ سب پسند نہیں تھا۔ فتح کے نشے میں لشکر پاگل ہو چکا تھا۔ وہ کتنا بڑا گنا ہ کر رہے ہیں اس کا انہیں احساس تک نہ تھا۔ لہٰذا  حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ کا من اُچاٹ ہو گیا۔اُن کی فقیرانہ طبیعت انہیں فوج میں رہنے سے منع کر رہی تھی ، بایں سبب انہیں خود اپنی ذات سے نفرت سی ہو گئی۔


سپہ گیری چھوڑ کر فقیر ی لے لی

حضرت حاجی پیر رحمۃ اللہ علیہ شہاب الدین غوری کے دربار میں سے اپنی مرضی سے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ آپ اپنے دل میں متعدد آرزوؤں اور اُمیدوں کے ساتھ فوج میں شامل ہوئے تھے۔
٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔