ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر 2

0 comments
لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کررہا تھا ۔ پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا ۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارتے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی ۔ وہ جہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی ۔
گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے ۔ کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ ایک عورت لپکتی ہوئی انکی طرف آئی ۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مصنوعی مسکراہت سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا ۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر
امامہ آپا ۔ آپ لاہور کب جائیں گی ؟
وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا ۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کئے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا ۔
کل ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ۔ وہ بولا
کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ امامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
کیونکہ آپ مجھے بہت اچھی لتی ہیں اور آپ میرے لئے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں ۔ اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لئے۔ اس نے تفصیلی جواب دیا ۔
آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں ؟ امامہ اندازہ نہیں کرسکی یہ تجویز تھی یا سوال
میں کیسے لے جاسکتی ہوں ۔۔۔۔۔ میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں ، تم کیسے رہو گئے وہاں ؟ امامہ نے کہا
سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا ۔ تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریں
اچھا ۔۔۔۔۔ جلدی آیا کروں گی ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ تم ایسا کیا کرو مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو۔ میں فون کیا کروں گی تمہیں
ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ سعد کو اسکی تجویز پسند آئی ۔ سائیکل کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا ۔ امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی
وہ اسکا بھائی نہیں تھا ۔ دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا ، کہاں سے آیا تھا اس بارے میں وہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اسے اس بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا ۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی ۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا ۔ امامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا ۔ امامہ کو اکثر اس پر ترس آتا ۔ ترس کی وجہ اسکا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا۔ اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لئے ہوئے بچے پل رہے تھے ۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی ۔
فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ ، انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ انکی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی انکی اپر کلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں پر ان سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز مین شامل تھی۔
چاروں لڑکے ریڈ لائٹ ایریا کی ٹوٹی ہوئی گلیوں سے گزرتے جارہے تھے ۔ تین لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے جبکہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اور ان تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اسکی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا ۔
گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں میں بناؤ سنگھار کئے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھی ۔ سفید ۔۔۔۔۔ سانولی ۔۔۔۔۔ سیاہ ۔۔۔۔۔ گندمی ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ درمیانی۔۔۔۔۔۔ اور معمولی شکل و صورت والی ۔
گلی میں سے ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا ۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کر رہا تھا ۔ تم یہاں کتنی بار آئے ہو ۔ چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے ساتھ والے لڑکے سے پوچھا
وہ لڑکا جوابا" ہنسا کتنی بار ۔۔۔۔۔؟ یہ تو پتا نہیں ۔۔۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں ۔ اکثر آٹا ہوں یہاں پر ۔ اس لڑکے نے قدرے فخریہ انداز میں کہا
ان عورتوں میں مجھے تو کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہورہی
ان میں تو کچھ بھی خاص نہیں ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کم ماحول تو اچھا ہو ۔ یہ تو بہت گندی جگہ ہے اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہا
پھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس نے اس بار اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا
اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے ۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھو گے ۔ تیسرا لڑکا ہنسا۔ اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس ہم تمہیں دکھانے لے جارہے ہیں وہ تو بس ۔۔۔۔۔۔
دوسرے لڑکے کی بات کو پہلے لڑکے نے کاٹ دیا ۔ اس کا ڈآنس تو تم پہلے مجھے دکھا چکے ہو ۔
ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیاتھا ۔۔۔۔۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ وہ ایکٹرس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے ۔ پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھا
یہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا، دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا لڑکا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا
ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا ۔ عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لیے ۔ ایک ہار دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کی کلائی میں بھی  بے تحاشا میک اپ تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے ، شیلون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی ۔ جس کا بلاؤزر اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہورہا تھا مگر وہ جسم کو چھپانے کے لئے پہنا بھی نہیں گیا تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھادیا ۔
پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس اگلدان میں تھوک دیا جو انکے قریب موجود تھا ۔ کیونکہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ پان کا ذائقہ بھی اس کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھے مدہم آوازمیں باتیں کرنے لگے جب کہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے ۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ چینز اور اسی رنگ کی آدھے باروؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔ انکی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہی کی طرح جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے تھوڑی دیر میں ایک اور عورت وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی ۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے ۔ وہ غزلیں سنانے اور اپنے اوپر اچھالے ہوئے نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی ۔ اور اس کے جانے کے فورا" بعد ہی فلم انڈسٹری ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی ۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا ۔
سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑآ تھا ۔ کیسٹ پلیئر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کیا تھا ۔ اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یک دم ختم ہوگئی تھی چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو دادو تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے ۔
ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہورہا تھا
تقریبا دو گھنٹے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد انٹا غفیل ہوچکے تھے واپس گھر جانا ان کے لئے زیادہ مسئلہ اس لیے نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ وہ سب ہی وہاں رات گزارنے آئے تھے ۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری ۔
اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جمائی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا جو اس وقت لاپرواہی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
کیسا رہا یہ تجربہ ؟
اچھا تھا ۔۔۔۔ پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
بس اچھا تھا ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ تم بھی بس ۔۔۔۔ اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی
کبھی کبھار جانے کے لئے اچھی جگہ ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ مگر بہت خاص والی کوئی بات نہیں ہے ۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے ۔ اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائنگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی ۔ کھانا کھانے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے ۔ موضوع گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد میں موجود تھی ۔
بابا ۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بدن سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں ۔۔ یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کررہا ہوں ۔ ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکتھے ہوئے کہا ۔
امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا ۔
کیوں امامہ ۔ کوئی مسئلہ ہے ؟
بابا یہ بڑی فضول باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اس کی باتوں میں آرہے ہیں ۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں ۔ اب ہر کوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا ۔ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا
بابا ۔ آپ اندازہ کریں میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹڑ بن جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا ۔ وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکراتے ہوئے ۔
ڈآئنگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ ان دونوں کے درمیان یہ نوک جھوک ہمیشہ ہی رہتی تھی ۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اور انکے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو ۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی وسیم کے ساتھ ہی تھی ۔ اس کی وجہ شاید انکی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی ۔
اور آپ تصور کریں کہ ۔۔۔۔ اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی ۔ اس نے اس کے کندھے پر پوری طاقت سے مکا مارا ۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا ۔
ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اور کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹڑز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی شرح اموات کی ایک وجہ ۔۔۔۔۔۔
بابا اس کو منع کریں ۔ امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا ۔
وسیم ۔۔۔۔۔ ہاشم نے اپنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا ۔ وہ بڑی سعادت مندی سے فورا" خاموش ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پورے لفافے کو گرائنڈر میں خالی کردیا اور پھر اسے بند کرکے چلایا۔ خانساماں اسی وقت اندر آیا ۔
چھوٹے صاحب لائیں میں آپکی مدد کردوں ۔ وہ اسکی طرف بڑھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ۔ نہیں نہیں میں خود کرلیتا ہوں ۔ تم مجھے دودھ کا ایک گلاس دے دو ۔ اس نے گرائنڈر آف کرتے ہوئے کہا ۔ خانساماں ایک گلاس میں دودھ لے کر اس کے پاس چلا آیا ۔ دودھ کے آدھے گلاس میں اس نے گرائینڈ میں موجود تمام پاؤڈر ڈال دیا اور ایک چمچہ سے اچھی طرح ہلانے لگا پھر ایک ہی سانس میں وہ دودھ پی گیا۔
کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے ۔ اس نے خانساماں سے پوچھا
خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں ۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری
میں کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ سونے جارہا ہوں ۔ مجھے ڈسٹرب مت کرنا ۔ اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا ۔
پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریبا" گھسیٹ رہا تھا ۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا گانا بلند آواز میں بجنے لگا ۔ وہ ریموٹ لیکر اپنے بیڈ پر آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤن بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے ۔
کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی ۔ کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا ۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آرہا تھا ۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لی ہوئی تھیں ۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے ۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی وڈ کی ایکٹریسز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔ باتھ روم کے دروازے اور کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں کو پلے بوائے میگزین سے کاٹی گئی کچھ ماڈلز کی تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں پہلی بار داخل ہونے ولا دروازہ کھولتے ہی بہت بری طرح چونکتا کیونکہ بالکل سامنے کھڑکیوں کے شیشوں پر موجود چند لمحوں کے لئے دیکھنے والوں کو تصویریں نہیں بلکہ اصل لڑکیاں نظر آتی تھیں ۔ میوزک سسٹم جس دیوار میں موجود تھا اسی دیوار کے ایک کونے میں دیوار پر ایک الیکٹرک گٹار لٹکایا گیا تھا اور اسی کونے میں اسٹینڈ پر ایک کی بورڈ رکھا ہوا تھا ۔ بیڈ کے سامنے والی دیوار میں بنی کیبنٹ میں ٹی وی موجود تھا ۔ اور اسی کیبنٹ کے مختلف خانوں میں مختلف شیلڈز اور ٹرافیز پڑی ہوئی تھیں۔
کمرے کا چوتھا کونا بھی خالی نہیں تھا وہاں دیوار پر مختلف ریکٹس لٹکے ہوئے تھے ان میں سے ایک ٹینس کا تھا اور دو اسکواش کے ۔ ان ریکٹس کو دیوار پر لٹکانے سے پہلے نیچے پوسٹر لگائے گئے تھے اور پھر ریکٹس اس طرح لٹکائے گئے تھے کہ یوں لگتا تھا وہ ریکٹس ان کھلاڑیوں نے پکڑے ہوں ٹینس کے ریکٹ کے نیچے گبریلا سباٹینی کا پوسٹر تھا جبکہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیرخان کا پوسٹر تھا اور دوسرے کے نیچے روڈنی مارٹن کا ۔
کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا ۔ جس پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند غیر ملکی میگزین پڑے ہوئے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا ۔ بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں ۔ یقینا" کچھ دیرپہلے وہ ان میگزینز سے تصاویر کاٹ رہا تھا ۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا ہوا تھا ۔ جبکہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشانات تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ گری ہو ۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اوراس کے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی ۔ ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل فون پڑا تھا جس پر یک دم کوئی کال آنے لگی تھی ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیونکہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر ادھر سے ادھر پھیرا مگر موبائل اسکی رسائی سے بہت دور تھا ۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی ۔ کچھ دیر اسی طرح ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسکا ہاتھ ساکت ہوگیا ۔ شاید وہ اب سو چکا تھا ۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی ۔ پھر یک دم کسی نے دروازے پر دستک دی اور پھر دستک کی آواز بڑھتی گئی ۔ موبائل پر کال ختم ہوچکی تھی لیکن دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی لی ۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا ۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں۔ اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اتار کر نہر میں پھینک دی ۔ چند لمحوں میں اسکی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی ۔ ڈارک بلوکلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوبصورت جسم بہت نمایاں تھا ۔
اس وقت اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا ۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی ، مگر اس کے قدوقامت اور حلیے نے اسکی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا ۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی ۔ جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لیپٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردی اور اس وقت تک لگاتا رہا جب تک کوائل ختم نہیں ہوگیا ۔ پھر پانی میں پڑا سرا واپس کچھنچ کر اس نے اندازے سے تین فٹ کے قریب رسی چھوڑی اور اپنے دونوں پیر ساتھ جوڑتے ہوئے اس نے اپنے پیروں کے گرد رسی کو بہت مضبوطی سے دوتین بل دیئے اور گرہ لگا دی ۔ اب اس تین فٹ کے ٹکڑے کے سرے پر بڑی مہارت سے اس نے دو پھندے بنائے پھر اچک کر پل کی منڈیر پر بیٹھ گیا ۔ اپنا دایاں ہاتھ کمرکے پیچھے لے جاتے ہوئے پھندے میں سے گزارا اور پھر بائیں ہاتھ سے کھینچ کر کس دیا ۔ پھر یہ کچھ اس نے بائیں ہاتھ کے ساتھ کیا ۔
اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پشت کے بل خود کو پل کی منڈیر سے نیچے گرا دیا ۔ ایک جھٹکے سے اس کا سر پانی سے ٹکرایا اور کمر تک کا حصہ پانی میں ڈوب گیا ۔ پھر رسی ختم ہوگئی ۔ اب وہ اس طرح لٹکا ہوا تھا کہ اس کے بازو پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کمر تک کا دھڑ پانی کے اندر تھا ۔ بوری کا وزن یقینا" اس کے وزن سے زیادہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ بوری اس کے ساتھ نیچے نہیں آئی اور وہ اس طرح لٹک گیا ۔ اس نے اپنا سانس روکا ہوا تھا ۔ پانی کے اندر اپنا سر جاتے ہی اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔ اس کے پھیپھڑے اب جیسے پھٹنے لگے تھے ۔ اس نے یک دم سانس لینے کی کوشش کی اور پانی منہ اور ناک سے اس کے جسم کے اندر داخل ہونے لگا ۔ وہ اب بری طرح پھڑپھڑا راہا تھا مگر نہ وہ اپنے بازوؤں کو استعمال کرکے خود کو سطح پر لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو اٹھا سکتا تھا ۔ اس کے جسم کی پھڑپھڑاہٹ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی ۔
چند لوگوں نے اسے پل سے نیچے گرتے دیکھا اور چیختے ہوئے اس طرف بھاگے ۔ رسی ابھی تک ہل رہی تھی ۔ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ۔ پانی کے نیچے ہونے والی حرکت اب دم توڑ گئی تھی ۔ اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں ۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے ۔ پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا ۔ نیچے پانی میں موجود وجود ابھی بھی ساکت تھا ۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا ۔ کسی پینڈولم کی طرح ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ ! جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔ رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ کس لئے تیار ہوجاؤں ؟
بھئی شاپنگ کے لئے جارہے ہیں ، ساتھ چلو ۔ رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔
کیا مطلب ہے ۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔ تم سے پوچھ کون رہا ہے ۔۔۔۔۔ تمہیں بتا رہے ہیں ۔ رابعہ نے اسی لہجے میں کہا ۔
اور میں نے بتا دیا ہے ، میں کہیں نہیں جا رہی ۔ اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا ۔
زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ ، پورا گروپ جارہا ہے ، فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر ۔ رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے ایک لحظہ کے لئے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا ۔ زینب بھی جارہی ہے ۔
ہاں ، زینب کوہم راستے سے پک کریں گے ۔ امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی ۔
تم بہت ڈل ہوتی جارہی ہو امامہ ۔ رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا ۔ ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے ، آخر ہوتا کیا جا رہا ہے تمہیں ۔
کچھ نہیں ، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں ، اس لئے سونا چاہ رہی ہوں ۔ امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لئے مجبور کرتی رہی ، مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی ۔ نہیں مجھے سونا ہے ، میں بہت تھک گئی ہوں ۔ وہ مجبورا" اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں ۔
رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے ۔ وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی ۔
واپس ہاسٹل چلتے ہیں ، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے ، جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں ۔ مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا
یہ امامہ کہاں ہے ۔ رابعہ نے حیرانی سے کہا ۔
پتا نہیں ۔ کمرہ لاک کرکے اس طرح کہاں جاسکتی ہے ۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے ۔ جویریہ نے کہا ۔
ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئی ۔ رابعہ نے خیال ظاہر کیا ۔ وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں ، جن سے انکی ہیلو ہائے تھی مگر امامہ کا کہیں پتا نہیں تھا ۔
کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی ۔ رابعہ کو اچانک خیال آیا ۔
آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں ۔ جویریہ نے کہا ۔ وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں ۔
ہاں ، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے ۔ وارڈن نے انکی انکوائری پر بتایا ۔ جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں ۔
وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی ۔ وارڈن نے انہیں مزید بتایا ۔ وہ دونوں وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں ۔ یہ گئی کہاں ہے ؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کردیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہے اور اسکی طبعیت خراب ہے ۔ اب وہ اس طرح غائب ہوگئی ہے ۔ رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
رات کو وہ قدرے لیٹ واپس آئیں اور جس وقت وہ واپس آئیں امامہ کمرے میں موجود تھی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا ۔
لگتا ہے ۔۔۔۔۔ خاصی شاپنگ ہوئی ہے آج ۔ اس نے ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ان دونوں نے اسکی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ بس شاپرز رکھ کر اسے دیکھنے لگیں ۔
تم کہاں گئی ہوئی تھی ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا ۔ امامہ کو جیسے جٹھکا لگا ۔
میں اپنا والٹ لینے واپس آئی تھی تو تم یہاں نہیں تھیں ، کمرہ لاکڈ تھا ۔ جویریہ نے اسی انداز میں کہا
میں تم لوگوں کے پچھے گئی تھی
کیا مطلب ؟ جویریہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
تمہارے نکلنے کے بعد میرا ارادہ بدل گیا ۔ میں یہاں سے زینب کی طرف گئی کیونکہ تم لوگوں کو اسے پک کرنا تھا ۔ مگر اس کے چوکیدار نے بتایا کہ تم لوگ پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہو ۔ پھر میں وہاں سے واپس آگئی، بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے ۔ امامہ نے کہا
دیکھا ۔ تم سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فورا" انکار کردیا ، بعد میں بےوقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں ۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں ۔ رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے کوئی جواب نہیں دیا ، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا نام کیا ہے ؟
پتا نہیں
ماں باپ نے کیا رکھا تھا ؟
یہ ماں باپ سے پوچھیں ۔ ۔۔۔۔ خاموشی
لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں ؟
لڑکے یا لڑکیاں ؟
لڑکے
بہت سارے نام لیتے ہیں
زیادہ تر کون سا نام پکارتے ہیں
Daredevil
اور لڑکیاں
وہ بھی بہت سے نام لیتی ہیں
زیادہ تر کس نام سے پکارتی ہیں ؟
یہ میں نہیں بتاسکتا ۔ یہ بالکل ذاتی ہے
گہری خاموشی ۔۔۔۔ طویل سانس ۔۔۔۔ پھر خاموشی ۔
میں آپکو ایک مشورہ دوں ؟
کیا ؟
آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں ۔
آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے بارے میں ساری تفصیل موجود ہے پھر آپ وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں
سائیکوانالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکلوانالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کار سمجھ رہا تھا ۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک ، خاموشی اور نیم تاریکی نے اسکے اعصاب کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا تھا ۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتا" فوقتا" کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا ۔ سائیکو انالسٹ کے لئے سامنے لیٹا ہوا نوجوان عجیب کیس تھا ۔ وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا ۔ اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا ۔ وہ تھرو آوٹ ، آوٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا ۔ وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا ۔ اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ تیسری بار خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا ۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے اور وہ بے حد پریشان تھے ۔
وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی ۔ چار بھائیوں اور ایک بہن کے بعد وہ چوتھے نمبر پر تھا ۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے ۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا ۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خودکشی کی کوشش کی ۔ پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لیے ۔ اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹیبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گر گیا ۔۔ اس کے بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے ، تب اس کے والدین کانسٹیبل کے اصرار کے باوجود بھی اسے ایک حادثہ ہی سمجھے ، کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا
دوسری بار اس نے پورے ایک سال بعد لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈبونے کی کوشش کی ۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا ۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا ۔ سالار کا بیان یہ تھا کہ کچھ لڑکوں نے اسکی گاڑی کو پل کے پاس روکا اور پھر اسے باندھ کر پانی میں پھینک دیا ۔ جس طرح وہ بندھا ہوا تھا اس سے یوں ہی لگتا تھا کہ واقعی اسے باندھ کر گرایا گیا تھا ۔ پولیس اگلے کئی ہفتے اس کے بتائے ہوئے حلیے کے لڑکوں کو پورے شہر میں تلاش کرتی رہی ۔ سکندر عثمان نے خاص طور پر ایک گارڈ اس کے ساتھ تعینات کردیا تھا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا ۔
مگر وہ تیسری بار اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا تھا ۔ خواب آور گولیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیس کر اس نے دودھ میں ڈال کر پی لیا تھا ۔ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ معدہ واش کرنے کے باوجود اگلے کئی دن وہ بیمار رہا تھا ۔ اس بار کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ۔ اس نے خانساماں کے سامنے وہ گولیاں دودھ میں ڈال کر پی تھیں ۔
سکندر عثمان اور طیبہ شاکڈ رہ گئے تھے ۔ پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اور وہ پچھتانے لگے کہ انہوں نے پہلے اسکی بات پر اعتبار کیوں کیا ۔ پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا ۔ اس کے بارے میں اسکول ، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں ۔ وہ اس بار اس بار سے انکار نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے خود کشی کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ بھائی ، بہن ، ماں یا باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا ۔
سکندر اے لیولز کے بعد اس کے بڑے دو بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوانا چاہتے تھے ، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے ایڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالرشپ بھی ، لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کرکے اڑ گئے تھے ۔
اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا ، جس کے پاس سکندر کے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھیجا تھا ۔
ٹھیک ہے سالار ۔ بالکل ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں ۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم ؟
سالار نے کندھے اچکائے ۔ آپ سے کس نے کہا میں مرنا چاہتا ہوں
خودکشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم
کوشش کرنے اور مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے
تینوں دفعہ تم اتفاقا" بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
دیکھیں ۔ جس کو آپ خودکشی کی کوشش کہہ رہے ہیں ، میں اسے خودکشی کی کوشش نہیں سمجھا ، میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے ۔
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا ۔
اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتےتھے ۔
بس ایسے ہی تجسس سمجھ لیں ۔
سائیکوانالسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 150 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا جو اب چھت کو گھور رہا تھا ۔
تو ایک بار خود کشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا ۔
اور تب ۔۔۔۔۔ تب میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا ۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار بھی اسیا ہی ہوا ۔ وہ مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔
اور اب تم چوتھی بار کوشش کرو گے ؟
یقینا" میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے ۔
کیا مطلب ؟
جیسے خوشی کی انتہا سرور ہوتا ہے ۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے ۔ اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگئی ۔ جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے ، جیسے سرور میں آپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
میں نہیں سمجھ سکا ۔
فرض کریں آپ ایک بار میں ہیں ۔ بہت تیز میوزک بج رہا ہے ، آپ ڈرنک کررہے ہیں ، آپ نے کچھ ڈرگزبھی لی ہوئی ہیں ، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ۔ آپ سرور میں ہیں ، کہاں ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ کیا کررہے ہیں ؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے ۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں ۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میں مدہوش نہیں ہوتا ۔ میں نے کبھی خوشی محسوس نہیں کی ۔ مجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اور یہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔ وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا
تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو ۔ اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا ۔
سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے جواب دیا ۔ پلیز پلیز اب میری ذہانت کے راگ الاپنا شروع مت کیجئے گا ۔۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں ۔۔۔۔ تنگ آگیا ہوں میں اپنی تعریفیں سنتے سنتے ، اس کے لہجے میں تلخی تھی ، سائیکوانالسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا ۔
اپنے لئے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم ؟
میں نے کیا ہے ؟
کیا
مجھے خودکشی کے ایک اور کوشش کرنی ہے ۔ مکمل اطمینان تھا ۔
کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے ؟
ناٹ ایٹ آل ۔
تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو ؟ ایک گہرا سانس
کیا آپ کو ایک بار پھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں کچھ اور کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ وہ اکتایا۔
بات گھوم پھر کرپھر وہیں آگئی تھی ۔ سائیکلوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا ۔
کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کررہے ہیں ؟
سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ لڑکی کی وجہ سے ؟
ہاں ۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو ۔ اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی گیا ۔
مائی گاڈ ۔ آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خودکشی ۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کر ہنسنے لگا ۔ لڑکی کی محبت ۔۔۔۔۔ اور خود کشی ۔ ۔۔۔۔ کیا مذاق ہے ۔
وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا ۔
سائیکوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیشنز اس کے ساتھ کئے تھے اور ہر بار نتیجہ وہی ڈھاک کے وہی تین پات رہا ۔
آپ اسکو تعلیم کے لئے بیروں ملک بجھوانے کی بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔ ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتا ہو ۔
اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بجھوانے کے بجائے اسلام آباد کے ایک ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیا گیا ۔ سکندر کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے ۔ سالار نے ان کے فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لئے بجھوایا جائے گا ۔
سائیکوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی ۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے ۔ انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے ۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو وہ اس کے لئے محسوس کرتے تھے ۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا ۔ گفتگو کے آخر میں سکندر نے تقریبا" تنگ آکر اس سے کہا ۔
تمہیں کس چیز کی کمی ہے ۔ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے ۔ مجھے بتاؤ سالار سوچ میں پڑگیا
اسپورٹس کار ۔ اگلے لمحے اس نے کہا
ٹھیک ہے میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوادیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے ۔ اوکے ۔ سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا ۔
سالار نے سر ہلا دیا ۔ طیبہ نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرنے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا ۔
وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا
طیبہ ! تمہیں اس پر بہت توجہ دینی پڑے گی ۔ اپنی ایکٹیوٹیز کچھ کم کرو اور کوشش کرو کہ اس کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزار سکو ۔ طیبہ نے سر ہلادیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وسیم نے امامہ کو دور سے ہی لان میں بیٹھے دیکھ لیا۔ وہ کانوں پر ہیڈ فون لگائے واک مین پر کچھ سن رہی تھی۔ وسیم دبے قدموں اس کی پشت کی جانب سے اس کے عقب میں گیا اور اس کے پاس جاکر اس نے یکدم امامہ کے کانوں سے ہیڈفون کے تار کھینچ لیے۔ امامہ نے برق رفتاری سے واک مین کا اسٹاپ کا بٹن دبایا تھا۔
"کیا سنا جارہا ہے یہاں اکیلے بیٹھے؟" وسیم نے بلند آواز میں کہتے ہوئے ہیڈ فون کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیا مگر تب تک امامہ کیسٹ بند کرچکی تھی۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اس نے ہیڈ فون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے وسیم سے کہا۔
"بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے وسیم! بی ہیو یور سلیف۔" اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ وسیم نے ہیڈفون کے سروں کو نہیں چھوڑا، امامہ کے غصے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
"میں سننا چاہتا ہوں، تم کیا سن رہی تھیں۔ اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے، کیسٹ کو آن کرو۔"
امامہ نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے ہیڈفون کو واک مین سے الگ کردیا۔ "میں تمہارے سننے کے لئے واک مین لے کر یہاں نہیں بیٹھی، دفع ہوجاؤ یہ ہیڈ فون لے کر۔"
وہ ایک بار پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے واک مین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔
وسیم کو لگا جیسے وہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے مگر وہ گھبرائے گی کیوں؟ وسیم نے سوچا اور اس خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سامنے والی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ ہیڈفون کو اس نے میز پر رکھ دیا۔
"یہ لو، اپنا غصہ ختم کرو۔ واپس کررہا ہوں میں، تم سنو، جو بھی سن رہی ہو۔" اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
"نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈفون رکھو اپنے پاس۔" امامہ نے ہیڈفون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔
"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟"
"کیا سنا جاسکتا ہے؟" امامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔
"غزلیں سن رہی ہوگی؟" وسیم نے خیال ظاہر کیا۔
"تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟"
"مثلاً۔"
"مثلاً بال کی کھال اتارنا۔"
"اور۔"
"اور دوسری کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔"
"اور تمہیں پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خودغرض ہوتی جارہی ہو۔" وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ تمہیں پتا چل گیا کہ میں خودغرض ہوں۔" اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"حالانکہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلو گے۔"
"تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کررہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔" وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
"پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔"
"آج تمہاری زبان کچھ زیادہ نہیں چل رہی؟" وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہوسکتا ہے۔"
"ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔" امامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔
"کون سا چپ شاہ کا روزہ؟"
"تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔"
"مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔"
"سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کوا تنا سر پر سوار نہیں کرتا۔" وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
"چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کررہے ہو؟"
"عیش۔" وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔
"یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔"
"آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جارہی ہو تم۔" وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔
"میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کار سوال کیا۔" امامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
"تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں، اس لئے اب اپنی ملامتی تقریر ختم کردو۔" وسیم نے اسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
"یہ ساتھ والوں کے لڑکے سے تعلقات کا کیا حال ہے؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"چُو چُو سے؟ بس کچھ عجیب سے ہی تعلقات ہیں۔" وسیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ "بڑا عجیب سا بندہ ہے، موڈ اچھا ہے تو دوسرے کو ساتویں آسمان پر بٹھا دے گا، موڈ خراب ہے تو سیدھا گٹر میں پہنچا دے گا۔"
"تمہارے زیادہ تر دوست اسی طرح کے ہیں" امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔"
"نہیں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ کم از کم میری عادتیں اور حرکتیں چُوچُو جیسی تو نہیں ہیں۔"
"وہ تو باہر جانے والا تھا نا؟" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"ہاں جانا تو تھا مگر پتا نہیں میرا خیال ہے اس کے پیرنٹس نہیں بھجوا رہے۔"
"حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔"
"تم نے دیکھا ہے اسے؟"
"کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔"
"لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟ وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔"
"مشروم کٹ بالوں والی۔۔۔۔۔فئیر سی؟"
"ارسہ۔"" وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ "اس کی گرل فرینڈ ہے۔"
"پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔" امامہ نے اسے گھورا۔
"پچھلی دفعہ کب؟" وسیم سوچ میں پڑ گیا۔
"سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔"
"ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔"
"اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنے موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔" امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوئے ہنسی۔
"تمہیں یاد ہے؟" وسیم بھی ہنسا۔
"میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہونا ہی تھا۔" امامہ پھر ہنسی
"میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔" وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"کونسے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔" امامہ نے وسیم کا مذاق اڑآیا۔
"میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔"
"بابا سے جوتے کھانے کے لئے تیار رہنا۔ اگر تم نے موبائل کے نمبر کو گاڑی کے شیشے پر لکھوایا سب سے پہلا فون ان کا ہی آئے گا۔"
"بس اس لئے ہر بار میں رک جاتا ہوں۔" وسیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
"یہ تمہارے لئے اچھا ہی ہے۔ بابا سے ہڈیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے جذبات پر کچھ قابو رکھے اور تمہارے لئے تو خطرات ویسے بھی زیادہ ہیں۔ سمیعہ کو پتا چلا نا اگر اس قسم کے کسی موبائل فون کا تو۔۔۔۔۔" وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تو کیا کرے گی وہ، میں اس سے ڈرتا نہیں ہوں۔"
"میں جانتی ہوں تم اسے سے ڈرتے نہیں ہو، مگر چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سے منگنی کرنے سے پہلے تمہیں تمام نفع نقصان پر غور کرلینا چاہیے تھا جن کا سامنا تمہیں کسی ایسی ویسی حرکت کے بعد ہوسکتا ہے۔" امامہ نے ایک بار پھر اسکی منگیتر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔
"اب کیا کیا جاسکتا ہے، بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔" وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیونکہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔" وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔
"دیر سے ہی سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔" امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈفون اٹھاتے ہوئے کہا۔
"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟" وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔
"ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔" امامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"آپ لاہور جارہے ہیں تو واپسی پر امامہ کے ہاسٹل چلے جائیں، یہ کچھ کپڑے ہیں اس کے، درزی سے لے کر آئی ہوں، آپ اسے دے آئیں۔" سلمیٰ نے ہاشم سے کہا۔
"بھئی۔ میں بڑا مصروف رہوں گا لاہور میں، کہاں آتا جاتا پھروں گا اس کے ہاسٹل۔" ہاشم کو قدرے تامل ہوا۔
"آپ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جارہے ہیں، خود نہیں جاسکتے تو اسے بھیج دیجئے گا، وہ دے آئے گا یہ پیکٹ۔ سیزن ختم ہورہا ہے پھر یہ کپڑے اسی طرح پڑے رہیں گے۔ اس کا تو پتا نہیں اب کب آئے۔" سلمیٰ نے لمبی چوڑی وضاحت کی۔
"اچھا ٹھیک ہے، میں لے جاتا ہوں۔ فرصت ملی تو خود دے آؤں گا ورنہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔" ہاشم رضامند ہوگئے۔
لاہور میں انہوں نے خاصا مصروف دن گزارا۔ شام پانچ بجے کے قریب انہیں کچھ فرصت ملی اور تب انہیں اس پیکٹ کا بھی خیال آگیا۔ ڈرائیور کو پیکٹ لے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود امامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لئے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ۔۔۔۔۔ وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔
"السلام علیکم انکل!۔" جویریہ نے پاس آکر کہا۔
"وعلیکم السلام! بیٹا کیسی ہو تم۔"
"میں ٹھیک ہوں۔"
"میں یہ امامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے بلایا نہیں۔" ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔
"انکل! امامہ ماکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔"
"ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔" ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔
ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔
"بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟" وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
"جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ انکل لاہور آرہے تھے تو امامہ نے کہا کہ وہ لے جائیں۔ انکل نے غلطی سے یہاں آکر میرا نام لینے کے بجائے امامہ کا نام لے دیا۔" جویریہ نے ایک ہی سانس میں کئی جھوٹ روانی سے بولے۔
وارڈن نے سکون کا سانس لیا۔ "خدا کا شکر ہے ورنہ میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ مجھے تو وہ ویک اینڈ پر گھر جانے کا کہہ کر گئی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔"
وارڈن نے مڑتے ہوئے کہا۔ جویریہ پیکٹ پکڑے اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ رابعہ اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آئی۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں ہی ہے وہ؟"
"نہیں۔" جویریہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔
"مائی گاڈ۔" رابعہ نے بے یقینی سے اپنے دونوں ہاتھ کراس کرکے سینے پر رکھے۔ "تو پھر کہاں گئی ہے وہ؟"
"مجھے کیا پتا مجھ سے تو اس نے یہی کہا تھا کہ گھر جارہی ہے، مگر وہ گھر نہیں گئی، آخر گئی کہاں ہے؟ امامہ ایسی تو نہیں ہے۔" جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔
"وارڈن سے کیا کہا تم نے؟" رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
"کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں ابھی ہنگامہ شروع ہوجاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔" جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔
"اور انکل کو۔۔۔۔۔ ان کو کیا بتایا ہے؟" رابعہ نے پوچھا۔
"ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔"
"مگر اب ہوگا کیا؟" رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
"مجھے تو یہ فکر ہورہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لئے میں نے وارڈن اور اس کے گھروالوں سے سب کچھ چھپایا۔" جویریہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔
"کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟ ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح۔۔۔۔۔" رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔
"مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔" جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔
"زینب سے بات کریں۔" رابعہ نے کہا۔
"فار گاڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لے لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔" جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔
"تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے۔" رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیرئیر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور انکی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی، وہ اندازہ کرسکتی تھیں اور اسی لئے باربار ان کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے انکے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔
"اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لئے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی وہ یقیناً وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔" رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔
"مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔" جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہورہا تھا۔
"ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزور ہونا چاہیے۔" رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔
"رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے۔" جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اور وہ اپنے گھر سے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جارہی ہے۔" رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔
"ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اسی لئے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔"
"وہ ہر بار یہاں سے فون کرکے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو ا پنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینا ن سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہوسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔" رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جارہی تھی اور اس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔" جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔
"اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کوراپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے، یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔" رابعہ مسلسل بڑبڑارہی تھی۔
"خیر اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگر وہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتا دیں گے۔" جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔
وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزار لی۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نوبجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر وہ اس دن نہیں آئی۔ ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لئے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کررہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔
وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اور فولڈر ہاتھوں میں، وہ یقیناً سیدھی کالج سے آرہی تھی۔
جویریہ اور رابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یکدم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈلائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یکدم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے اور اشتعال نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔
وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوشگوار سی مسکراہٹ تھی۔
"تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟" سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔
"تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔" رابعہ نے تندوتیز لہجے میں اس سے کہا۔
امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
"کیا ہوا رابعہ! اس طرح غصے میں کیوں ہو؟" امامہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔
"تم ذرا اندر کمرے میں آؤ پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ میں غصے میں کیوں ہوں۔" رابعہ نے اسے بازو سے پکڑ لیا اور تقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی۔ جویریہ کچھ کہے بغیر ان دونوں کے پیچھے آگئی۔ امامہ ہکا بکا تھی اور رابعہ اور جویریہ کے رویے کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی رابعہ نے دروازہ بند کرلیا۔
"کہاں سے آرہی ہو تم؟" رابعہ نے مڑ کر انتہائی تلخ اور درشت لہجے میں اس سے پوچھا۔
"اسلام آباد سے اور کہاں سے۔" امامہ نے اپنا بیگ نیچے زمین پر رکھ دیا اسکے جواب نے رابعہ کو کچھ اور مشتعل کیا۔
"شرم کرو امامہ۔۔۔۔۔! اس طرح ہمیں دھوکا دے کر، ہماری آنکھوں دھول جھونک کر آخر تم ثابت کرنا کیا چاہتی ہو۔ یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں۔۔۔۔۔ نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکا نہ کھایا ہوتا۔" رابعہ نے کہا۔
"مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کونسا دھوکا۔۔۔۔۔ کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔" امامہ نے بے چارگی سے کہا۔
"تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟" جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
"تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے۔۔۔۔۔" رابعہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
"بکواس بند کرو۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔"
"یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟" اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔
"کیونکہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل۔" امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
"اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو اسلام آباد سے آرہی ہو۔" رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"بابا یہاں۔ آئے تھے؟" امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"ہاں آئے تھے، تمہارے کچھ کپڑے دینے کے لئے۔" جویریہ نے کہا۔
"انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔"
"میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام سے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔" جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
"یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟" اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔
"نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔۔۔ تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہوجانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں۔ مزید اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔" رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کون سی حرکتوں کے بارے میں۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔"
"کیا کیا ہے؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لئے گھر کا کہہ کر غائب ہوجانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔"
امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔
"مجھےو ارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔"
رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ "وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔"
"مگر اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو۔۔۔۔۔ مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔" رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"میں تم دونوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔ اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اور ہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔" امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
"پھر تم کہاں گئی تھیں؟" اس بار جویریہ نے پوچھا۔
"اپنی ایک دوست کے ہاں۔"
"کونسی دوست؟"
"ہے ایک۔"
"اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟"
"میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتے۔"
"کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لئے؟" جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
"میں نے کہا نا، میں بتا دوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔" امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
"کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں۔۔۔۔۔ تمہیں وقت دیں تاکہ تم ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس ہی نہ آؤ۔" رابعہ نے اس بار بھی ناراضی سے کہا مگر پہلے کی نسبت اس بار اس کا لہجہ دھیماتھا۔
"تمہیں تو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ تم نے ہماری پوزیشن کتنی آکورڈ بنا دی تھی، اگر تمہارے اس طرح غائب ہونے کا پتہ چل جاتا تو ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ اس کا احساس تھا تمہیں؟" رابعہ نے اسی انداز میں کہا۔
"مجھے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ بابا اس طرح اچانک یہاں آجائیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم لوگوں کو کسی نازک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ورنہ میں اس طرح کبھی نہ کرتی۔" امامہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"تم کم ازکم ہم پر اعتبار کرکے، ہمیں بتا کر جاسکتی تھی۔" جویریہ نے کہا۔
"میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔" امامہ نے کہا۔
"کم از کم میں تمہارے کسی وعدے، کسی بات پر اعتبار نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
"مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنے دو رابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔" امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔
"تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیرئیر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟"
"ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔" امامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
"جب تک تم یہ نہیں بتاؤ گی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔" جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"کون۔۔۔۔۔؟" ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔
"تم لوگ جانتی ہو اسے۔" امامہ نے کہا۔
"وہ فورتھ ائیر کی صبیحہ؟" جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔
امامہ نے سرہلایا۔ "مگر اس کے گھر کس لئے گئی تھیں تم؟"
"دوستی ہے اس سے میری۔" امامہ نے کہا۔
"دوستی۔۔۔۔۔؟ کیسی دوستی۔۔۔۔۔؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لئے کیوں چل پڑیں؟" جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
"وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔۔۔ کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لئے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔" رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔
"تم اسے کال کرکے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں۔۔۔۔۔" امامہ نے کہا۔
"چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں؟" جویریہ نے پوچھا۔
امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔"
ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ "کس سلسلے میں؟"
امامہ نے سر اٹھایا اور پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ جویریہ نے کچھ بے چینی محسوس کی۔ "کس سلسلے میں؟"
"تم اچھی طرح جانتی ہو۔" امامہ نے قدرے مدھم انداز میں کہا۔
"میں۔۔۔۔۔؟" جویریہ نے کچھ گڑبڑا کر رابعہ کو دیکھا جو اب بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"ہاں، تم تو اچھی طرح جانتی ہو۔"
"تم پہیلیاں مت بجھواؤ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔" جویریہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ امامہ سر اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر بعد شکست خوردہ انداز میں اس نے سر جھکا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"بتاؤ نا۔ آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" اس دن کالج میں امامہ نے جویریہ سے اصرار کیا۔
جویریہ کچھ دیر ا سکا چہرہ دیکھتی رہی۔ "میری خواہش ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔"
امامہ کو جیسے ایک کرنٹ سا لگا۔ اس نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں جویریہ کو دیکھا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی جارہی تھی۔
"تم میری اتنی اچھی اور گہری دوست ہو کہ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ تم گمراہی کے راستے پر چل رہی ہو اور تمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف تم بلکہ تمہاری پوری فیملی۔۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ نیک اعمال پر اگر اللہ مجھے جنت میں بھیجے تو تم میرے ساتھ ہو لیکن اس کے لئے مسلمان ہونا تو ضروری ہے۔"
امامہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوسکی۔
"میں توقع نہیں کرسکتی تھی جویریہ کہ تم مجھ سے تحریم جیسی باتیں کرو گی۔ تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی۔۔۔۔۔" جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔" امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
"اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
"تم میرا بازو چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔" امامہ نے بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"امامہ! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ "تم نے کتنا ہرٹ کیا ہے مجھے۔ جویریہ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔"
"میں تمہیں ہرٹ نہیں کررہی ہوں۔ حقیقت بتا رہی ہوں۔ رونے یا جذبات میں آنے کے بجائے تم ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سوچو۔۔۔۔۔ میں آخر تم کو بے کار کسی بات پر ہرٹ کیوں کروں گی۔" جویریہ نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔
"یہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا کہ تم مجھے ہرٹ کیوں کررہی ہو، مگر مجھے آج یہ اندازہ ضرور ہو گیا ہے کہ تم میں اور تحریم میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تم نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس سے میری دوستی اتنی پرانی نہیں تھی جتنی تمہارے ساتھ ہے۔" امامہ کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھےا ور وہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔
"یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لئے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اور میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔" جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
"مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کرو گی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔" امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔
"اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔" جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔
"اس سے کیا ہوگا۔ مجھے یہ تو پتا چل گیا ہے کہ تم درحقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔۔۔۔ ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔ آج تک میں نے کبھی تم پر اس طرح تنقید نہیں کی مگر تم مجھے اسلام کا ایک فرقہ سمجھنے کے بجائے غیر مسلم بنا رہی ہو۔" امامہ نے کہا۔
"میں اگر ایسا کررہی ہوں تو غلط نہیں کررہی۔ اسلام کے تمام فرقے کم از کم یہ ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآل وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔" اس بار جویریہ کو بھی غصہ آگیا۔
"مائنڈ یور لینگویج۔" امامہ بھی بھڑک اٹھی۔
"میں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں امامہ ۔۔۔۔۔ اور میں ہی نہیں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ تمہاری فیملی نے روپے کے حصول کے لئے مذہب بدلا ہے۔"
"امامہ! میری باتوں پر اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے۔۔۔۔۔"
امامہ نے جویریہ کی بات کاٹ دی۔" مجھے ضرورت نہیں ہے تمہاری کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل و دعاغ سے غور کرنے کی ۔میں جانتی ہوں حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔"
"تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔" جویریہ نے کہا امامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑالیا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔
اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ امامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کررہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ امامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ انکی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سالگرہ پر انہیں انوائیٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتیں، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لئے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔
"تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔"
ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔" امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔
"اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔" اس کی امی نے کہا۔
"کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔" امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔
"ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔" اسکی امی نے کہا۔
"کیوں؟"
"اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ اب یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتا چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔۔۔"
"مگر امی مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا۔۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔" امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
"یہ بات انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں، حالانکہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں۔۔۔۔۔ بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں، انہیں ہمارے بارے میں اور ہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کریں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ بھی ہماری طرح راہ راست پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔"
"مگر امی! انکی غلط فہمیاں تو دور ہونا چاہیں میرے بارے میں۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔
"یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔"
"نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔" امامہ نے کہا اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔
"آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟"
"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو۔۔۔۔۔ مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لئے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو کہ وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھروالوں سے نہ کریں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔" امامہ نے انکی بات پر سرہلادیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس کے چند دنوں بعد امامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔ بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو امامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔
"میں تمہارے اور جویریہ کے لئے کچھ لے کر آئی ہوں۔
"کیا لائی ہو دکھاؤ!۔" امامہ نے شاپر سے وہ کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یکدم کچھ اکھڑ گئی۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے سردمہری سے پوچھا۔
"یہ کتابیں میں تمہارے لئے لائی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"کیوں؟"
"تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔"
"کس طرح کی غلط فہمیاں؟"
"وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے مذہب کے بارے میں ہیں۔" امامہ نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمہارے مذہب یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟" تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمد ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد ہمارا بھی ایک نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمد ﷺ۔" امامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ "ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لئے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے بڑے روکھے لہجے میں امامہ سے کہا۔ "اور جہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اور جویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعوؤں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔" تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ جویریہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی امامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ امامہ کا چہرہ خفت اور شرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔
"اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور اس نبی میں جو خودبخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اور نبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"
"تحریم! تم میری اور میرے فرقہ کی بے عزتی کررہی ہو۔" امامہ نے انکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔
"میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہی۔ میں صرف حقیقت بیان کررہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔" تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"روزہ رکھنے اور بھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لئے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں اور تم لوگ اگر حضور ﷺ کو پیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤ گے تو اور کیا جھٹلاؤ گے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا۔ جس میں حضور ﷺ کی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گاجس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمد ﷺ کو آخری نبی قرار دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمد ﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہاتھا۔ اس لئے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے جس پر تم چل رہی ہو اور نہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کررہی ہو۔"
تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"اور میں ایک چیز بتادوں تمہیں۔۔۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے ختم ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
"مگر ہم محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔" امامہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر ہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں؟ اور ہم تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟" تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا۔ "لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیونکہ ہم محمد ﷺ کے پیروکار ہیں اور ہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا، بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیونکہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کررہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو۔۔۔۔۔ جبکہ تمہارے نبی اور اس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کرچکے ہو۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا ہے؟" امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تو پھر تم اپنے والد سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں خاصی اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے اس بارے میں۔۔۔۔۔ تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہنما ہیں وہ۔۔۔۔۔" تحریم نے کہا۔ "اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کررہی ہو۔۔۔۔۔ انہیں خود پڑھا ہے تم نے۔۔۔۔۔ نہیں پڑھا ہوگا۔۔۔۔۔ ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں۔"
جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔ "اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد ﷺ اس کے آخری نبی ہیں اور میرے پیغمبر ﷺ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اور شخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ سمجھیں۔"
تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا ہمارے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دوستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔۔۔"
"جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طور پر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا۔۔۔۔۔ کچھ مختلف چیز ہے۔۔۔۔۔ انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہولیکن تمہارے گھر جانے پر ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیونکہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اور اچھے مستقبل کے لئے یہ نیا مذہب اختیار کرکے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کررہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔"
امامہ نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ "کس پیسے کی بات کررہی ہو تم؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو۔۔۔۔۔ ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔ ہمیں کونسا روپیہ مل رہا ہے اس مذہب پر رہنے کے لئے۔"
"ہاں تم لوگ اب بڑے خوشحال ہو، مگر شروع سے تو ایسے نہیں تھے۔ تمہارے دادا مسلمان تھے مگر غریب آدمی تھے۔ وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے اور ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ربوہ سے کچھ فاصلے پر ان کی تھوڑی بہت زمین تھی پھر تمہارے تایا نے اپنے کسی دوست کے توسط سے وہاں جانا شروع کردیا اور یہ مذہب اختیار کرلیا اور بے تحاشا امیر ہوگئے کیونکہ انہیں وہاں سے بہت زیادہ پیسہ ملا پھر آہستہ آہستہ تمہارے والد اور تمہارے چچا نے بھی اپنا مذہب بدل لیا پھر تم لوگوں کا خاندان اس ملک کے متمول ترین خاندانوں میں شمار ہونے لگا اور یہ کام کرنے والے تم لوگ واحد نہیں ہو زیادہ تر اسی طریقے سے لوگوں کو اس مذہب کا پیروکار بنایا جارہا ہے۔"
امامہ نے کچھ بھڑکتے ہوئے اس کی بات کو کاٹا "تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
"تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس۔۔۔۔۔ اور ابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنز اور این جی اوز سے۔۔۔۔۔" تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔" امامہ نے بے اختیار کہا۔ "میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لئے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔"
"دوسرے فرقوں کو یورپی مشنز سے روپیہ نہیں ملتا۔"
"میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
امامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔
"کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟"
"تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔" جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔ بریک ختم ہونے والی ہے۔" جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس دن وہ گھر واپس آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اور مایوس کیا تھا۔
ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے ۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے وہ اس کا حال احوال پوچھنےا س کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔
"کیا بات ہے امامہ؟" انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کی بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ امامہ؟"
"تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بدتمیز کی ہے۔" اس نے روتے ہوئے کہا۔
ہاشم مبین نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی۔ "پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟"
"بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟" امامہ نے باپ کو مطمئن ہوتے دیکھ کر کہا۔
"بابا! اس نے۔۔۔۔۔" وہ باپ کو تحریم کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو بتاتی گئی۔ ہاشم مبین کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
"تم سے کس نے کہاتھا۔ تم اسکول کتابیں لے کر جاؤ، انہیں پڑھانے کے لئے؟" انہوں نے امامہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
"میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی۔" امامہ نے قدرے کمزور لہجے میں کہا۔
"تمہیں ضرورت ہی کیا تھی کسی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتیں تو نہ آئیں۔ ہمیں برا سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"مگر اب تمہاری اس حرکت سے پتا نہیں وہ کیا سمجھے گی۔ کس کس کو بتائے گی کہ تم نے اسے وہ کتابیں دینے کی کوشش کی۔ خود اس کے گھر والے بھی ناراض ہوں گے۔ امامہ! ہر ایک کو یہ بتاتے نہیں پھرتے کہ تم کیا ہو۔ نہ ہی اپنے فرقہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ورنہ لوگ خوامخواہ فضول طرح کی باتیں کرتے ہیں اور فضول طرح کے شبہات میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔" انہوں نے سمجھایا۔
"مگر بابا! آپ بھی تو بہت سارے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں؟" امامہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ "پھر مجھے کیوں منع کررہے ہیں؟"
"میری بات اور ہے میں صرف ان ہی لوگوں سے مذہب کی بات کرتا ہوں جن سے میری بہت بے تکلفی ہوچکی ہوتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے یہ محسوس ہو کہ ان پر میری ترغیب اور تبلیغ کا اثر ہوسکتا ہے۔ میں دوچار دن کی ملاقات میں کسی کو کتابیں بانٹنا شروع نہیں ہوجاتا۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"بابا ان سے میری دوستی دوچار دن کی نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے دوست ہیں۔" امامہ نے اعتراض کیا۔
"ہاں مگر وہ دونوں سید ہیں اور دونوں کے گھرانے بہت مذہبی ہیں۔ تمہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔"
"میں نے تو صرف انہیں اپنے فرقے کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تھی تاکہ ہمیں وہ غیر مسلم تو نہ سمجھیں۔" امامہ نے کہا۔
"اگر وہ ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود غیر مسلم ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی عقیدت سے کہا۔ "وہ تو خود گمراہی کے راستے پر ہیں۔"
"بابا وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کو غیر ملکی مشنز سے روپیہ ملتا ہے۔ این جی اوز سے روپیہ ملتا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے فرقہ کا پیروکار بنائیں۔"
ہاشم مبین نے تنفر سے گردن کو جھٹکا۔ "مجھے صرف اپنی جماعت سے روپیہ ملتا ہے اور وہ بھی وہ روپیہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی کمیونٹی اندرون ملک اور بیرون ملک سے اکٹھا کرتی ہے۔ ہمارے پاس اپنے روپے کی کیا کمی ہے۔ ہماری اپنی فیکٹریز نہیں ہیں کیا اور اگر مجھے غیر ملکی منشز اور این جی اوز سے روپیہ ملے بھی تو میں بڑی خوشی سے لوں گا، آخر اس میں برائی کیا ہے۔ دین کی خدمت کررہا ہوں اور جہاں تک اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی بات ہے تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اگر اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ ہوسکتی ہے تو ہمارے فرقے کی کیوں نہیں۔ ہم تو ویسے بھی اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔ لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا۔
"مگر تم لوگوں سے اس معاملے پر بات مت کیا کرو۔ اس بحث مباحثے کا کوئی فائدہ ہنیں ہوتا۔ ابھی ہم لوگ اقلیت میں ہیں جب اکثریت میں ہوجائیں گے تو پھر اس طرح کے لوگ اتنی بے خوفی کے ساتھ اس طرح بڑھ بڑھ کر بات نہیں کرسکیں گے پھر وہ اس طرح ہماری تذلیل کرتے ہوئے ڈریں گے مگر فی الحال ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔"
"بابا! آئین میں ہمیں اقلیت اور غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ جب ہم اسلام کا ایک فرقہ ہیں تو پھر انہوں نے ہمیں غیر مسلم کیوں ٹھہرایا ہے؟" امامہ کو تحریم کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
"یہ سب مولویوں کی کارستانی تھی۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سب ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی تو ہم پھر اپنی مرضی کے قوانین بنوائیں گے اور اس طرح کی تمام ترمیمات کو آئین میں سے ہٹا دیں گے۔" ہاشم مبین نے پرجوش انداز میں کہا۔ "اور تمہیں اس طرح بے وقوفوں کی طرح کمرے میں بند ہوکر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ہاشم مبین نے اس کے پاس اٹھتے ہوئے کہا، امامہ انہیں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
تحریم کے ساتھ وہ اس کی دوستی کا آخری دن تھا اور اس میں تحریم سے زیادہ خود اس کا رویہ وجہ تھا۔ وہ تحریم کی باتوں سے اس حد تک دل برداشتہ ہوئی تھی کہ اب تحریم کیساتھ د وبارہ پہلے جیسے تعلقات قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔
ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی، اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلےاس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز یا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیار نہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھےاپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیار کرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لئے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اور اس پیسے سے انہوں نے سرمایا کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لئے میسر ہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔ اس مذہب کی خواتین میں تعلیم کا تناسب پاکستان میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ان لوگوں نے اعلی تعلیم بھی معروف اداروں سے حاصل کی۔
امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ً ان لوگوں میں سے تھی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کو بھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے یہ مذہب اختیار کیا۔ غیر ملکی مشنز اور بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام ایسا تھا جو وہ "اسلام" کی تبلیغ و ترویج کے لئے کررہے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اور سرکردہ رہنماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اور دیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے اس نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے لئے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ۔۔۔۔۔ اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صرف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔
اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلاوجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974ء میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی داؤ میں آ کر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونےو الے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ ان کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک بار پھر ان الجھنوں اور اضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اسکی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اسکے باوجود امامہ اور اسجد کی پسند اس رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لئے امامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔
اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا اور اسے اس کے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کی پہنچ اتنی ہے کہ اگر وہ میرٹ پر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ اسے میڈیکل کالج میں داخل کروا سکتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بھی وہ بیرون ملک جاکر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔