جمعرات، 16 اپریل، 2015

غزوہ خیبر اور عصر حاضر کے عمل تقاضے

0 comments
مسلمان نوجوانوں کو حضرت علّامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کی آواز کہ ”لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی اِمامت کا“ کے تحت اپنے اندر اوصافِ زورِ حیدریؓ اور اوصافِ فقرِ حیدریؓ پیدا کرنے ہوں گے - جب ہم بحیثیّتِ فاتحِ خیبر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کردار کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو نمونہ¿ عمل کیلئے ہمیں 14 اوصاف نظر آتے ہیں جو کہ مسلمان نوجوانوں میں قیادت کے لئے ہونے چاہئیں -وہ اوصاف مُفتی منظور حُسین صاحب کے شُمارہ ہٰذا میں شامل مضمون ”غزوہ¿ خیبر“ کی ترتیب کے مطابق یوں ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ :-(۱) اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو محبوب رکھتے تھے (۲) اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اُنہیں محبوب رکھتے تھے (۳) اُن کا سر آغوشِ مُصطفےٰ میں تھا (۴) آقا پاک شہہِ لولاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا لعابِ دہن اُن کی آنکھوں کا سُرمہ تھا (۵) وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی زِرَہ زیبِ تن کئے ہوئے تھے (۶ ) اُن کی نیام میں ذولفقار تھی (۷) نا اُمیدی و حسرت کی بجائے یقین و ایمانِ کامل کے ساتھ میدان میں اُترے (۸) اُن کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول تھا نہ کہ فقط قتال (۹) غلبہ¿ اِسلام کا جذبہ موجزن تھا کہ تب ہاتھ رُکیں گے جب وہ ہم جیسے یعنی مسلمان ہو جائیں گے (۰۱) اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی طاقت یا طاقتور کا خوف نہ تھا (۱۱) مرحبِ وقت کو للکارنے کی جرا¿ت تھی (۲۱) گریبانِ خیبر (یعنی دروازہ ) پکڑا تو پورا قلعہ ہیبتِ حیدریؓ سے لرز اُٹھا (۳۱) لڑنے کیلئے انحصار قُوّتِ جسمانیّہ و غذائیّہ کے ہوتے ہوئے بھی قُوّتِ ملکُوتیّہ پر تھا (۴۱) طبیعت میں عدل و انصافِ دائمی رواں دواں تھا - آج کے مُسلمان نوجوان بالترتیب انہی 14 اوصاف سے مزیّن ہوں :- (۱) اللہ اور اُس کے رسولِ برحق صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے شدید محبت رکھتے ہوں -کیونکہ رسولِ پاک شہہِ لولاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ کل جھنڈا اُسے تھمایاجائے گا جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے محبت رکھتا ہو گا آج بھی ”دینِ حق کی شرطِ اوّل“ یہی ہے کہ آج کے نوجوان توحیدِ باری تعالیٰ پر قوی یقین رکھتے ہوں اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے خاتم النبیّین ہونے پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور انہی دو نظریات یعنی توحید و رسالت سے شدید محبت رکھتے ہوں - اقبال یہی درس دیتے ہیں :- 
مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بند و راہِ مُصطفےٰ رو
(۱)
ترجمہ : (اے نوجوان !) اگر اِس دُنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام پانا چاہتا ہے تو اپنا دِل حق تعالیٰ سے لگا اور وہ راستہ اختیار کر جو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا راستہ ہے - (۲) اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اُس سے محبت رکھتے ہوں - ہر صاحبِ ایمان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ میں ایسا بن جاو¿ں کہ اپنے خالق کی بارگاہ میں پسند آجاو¿ں تو یہ کیسے ممکن ہے آدمی سے اللہ تعالیٰ محبت فرمائیں ؟ تو اِس کا طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا جیسا کہ قرآن پاک میں فرمان ہے :-﴾قُل± اِن± کُن±تُم± تُحِبُّو±نَ اﷲَ فَاتَّبِعُو±نِی± یُح±بِب±کُمُ اﷲُ وَیَغ±فِر±لَکُم± ذُنُو±بَکُم±ط ﴿(۲)ترجمہ: اے حبیبِ مکرم ! فرما دیجئے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے تو پس میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا - (۳) سُنّتِ حیدری کے مطابق معرکہ پہ روانہ ہونے سے قبل اُس کا سَر آغوشِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں ہو - یہاں یہ سوال بجا طور پہ ہمارے ذہن میں جنم لے سکتا ہے کہ آج یہ کیسے ممکن ہے ؟ اگر نوجوان تاریخ کو ماضی کا ایک واقعہ سمجھنے کی بجائے اُس کی حقیقت میں جھانکیں تو یہ سارا کچھ آج بھی اُسی طرح ہے یعنی ہم نے تاریخ کو ماضی سے نکال کر حال میں لانا ہے جیسے اقبال نے کہا تھا کہ

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
(۳)
آج بھی آغوشِ مُصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تعلیماتِ قُرآنی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ جب جی چاہے ہم تعلیماتِ قرآنی سے وابستہ ہوکر اپنا سر بارگاہِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں پیش کردیں - حضرت علّامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے نزدیک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ قرآنِ حکیم کی بدولت ہی ”خیبر کُشا“ کے مرتبہ¿ منفرد پہ فائز ہوئے -
در حضورِِ آں مسلمانِ کریم
ہدیہ آوُر±دَم± ز قُرآنِِ عظیم
گفتم ایں سرمایہ¿ اہلِِ حق است
در ضمیرِِ اُو حیاتِ مُطلق است
اندرُو ہر ابتدا را انتہااست
حیدرؓ از نیروئے اُو خیبر کُشا است

(۴)
ترجمہ: میں نے اُس رحم دل مسلمان (نادر شاہ افغان ) کی خدمت میں قُرآنِ پاک کا تحفہ پیش کیا - میں نے کہا کہ ”(یہ کتاب ) اہلِ حق کا سرمایہ ہے ، اِس کتاب کا ضمیر حیاتِ مطلق کے اسرار و رموز سے بھرا ہوا ہے - اِس کتاب کے اندر ہر ابتدا کی انتہا موجود ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اِسی کتابِ عظیم کی قُوّت سے فاتحِ خیبر ہوئے - (۴) نوجوانوں کی آنکھوں کا سُرمہ رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا لعابِ دہن ہو کیونکہ اُس لعابِ پاک کی نسبت کے بغیر چشمِ دِل کبھی کھل ہی نہیں سکتی - جس طرح سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ¾ کے محبوب خلیفہ حضرت سیّد سُلطان محمد بہادر علی شاہ المشہدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :- سُرمہ پیر دے پَی±راں دی خاک پائی مصحف خاص مزار دا مَس کیتابہادر شاہ جد اَکھ تیز ہوئی دیدار خُدا دا بس کیتا (۵)یعنی جب مرشدِ اعظم نبی¿ معظم ، رسولِ مکرم حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے قدموں کی خاک سُرمہ¿ معرفت کے طور پر اپنی آنکھوں پر لگائی تو آنکھوں کو روحانی بینائی اور بصیرت نصیب ہوئی جس سے رموزِ حیات تک رسائی ملی اور ہم اپنے گوہرِ مقصود تک جا پہنچے - اِسی طرح حضرت علّامہ اقبال فرماتے ہیں :-

خِیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ¿ دانشِ فرنگ

سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
(۶)

(۵) جب رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم حضرت علی المرتضیٰ کو روانہ فرمانے لگے تو اپنی خاص زِرَہ اُنہیں عطا¿ فرمائی جسے زیبِ تن فرما کر شیرِ خُدا فاتحِ خیبر ہوئے - آج بھی زرہ¿ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نوجوانوں کو لباس کی طرح پہننی ہو گی رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے غنائیت و وُسعتِ قلبی کو اپنا لباس بنایا غنائیت یا غنی ہونا یہ ہے کہ آدمی اِس قدر غنی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو یعنی ماسویٰ اللہ سے لایحتاج ہو جائے یہی رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی زرہ¿ خاص ہے اور اُس زرہ کی وضاحت حضرت علامہ اقبال نے کی :-
خُدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غُلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا¿
(۷)
اغیار کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے ، اعدائے حق تعالیٰ سے لڑنے کیلئے طریقِ قرآن و سنت کو اپنائے ، اُس فقرِ کامل کی جستجو کرے اور اُسے حاصل کرے جسے ﴾ فقرِ لایحتاج ﴿ کہا گیا ہے ، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کسی عالمی مالیاتی ادارے یا بینک کا دستِ نگر نہ ہو ، نام نہاد عالمی اقتصادی پابندیاں اُسے ایمان فروشی یا جبر سے مفاہمت پر مجبور نہ کرسکیں ، خود انحصاری و خود داری اُس کا شِعار ہو اور غیر اللہ سے کچھ مانگنے یا طلب کرنے کی ناپاک عادت اُس کے ہاتھوں کو اور ضمیر کو نہ پڑی ہو - اقبال ایسے ہی زرہ پوش نوجوان کو تلاش کرتے ہوئے آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے ملتمس ہیں:-
بدِہ اُو را جوانے پاک بازے
سرُورَش از شرابِ خانہ سازے
قوی بازوئے اُو مانندِ حیدر
دلِ اُو از دو گیتی بے نیازے
(۸)
ترجمہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک واٰلک وسلّم ! اِسلام کو ایسے پاکباز نوجوان عطا فرمائیں جن کا سرور (شرابِ تہذیبِ مغرب کی بجائے) اپنے گھر (یعنی اسلام) کی شرابِ توحید سے ہو - اُس کے بازو حیدرِ کرّار رضی اللہ عنہ کے بازو¿ں کی طرح مضبوط و قوی ہوں اور اُس کا دِل (معبودِ حقیقی کے علاوہ) دوعالم سے بے نیاز ہو - یہ ہے آج کے نوجوان کیلئے زرہ¿ مُصطفےٰ - جو فاتحِ خیبر کے نمونہ¿ عمل (Role Model) سے ہمیں ملتی ہے - (۶) مرتضیٰ شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کے دستِ ید اللّٰہی میں ذولفقار تھی جسے اَسلاف نے ”لا اِلٰہ الّااللّٰہ “ کی دو دھاری تلوار کہا جس کی دھار کی چمک مومن کا وہ شُعلہ¿ توانا ہے جو خاشاکِ غیر اللہ کو پھونک ڈالتا ہے - اِس تلوار کی دونوں دھاریں مِل کر مومنانہ ہتھیار کی تکمیل کرتی ہیں ایک دھار مومن کی قُوّتِ جسمانیّہ و قُوّتِ غذائیّہ کی علامت ہے اور دوسری دھار مومن کی قُوّتِ ملکوتیّہ کی علامت ہے یعنی ایک وہ جو طاقت اُس نے حفاظتِ دین کیلئے مسبب السباب کے عطا کئے ہوئے اسباب سے پیدا کی ہے اور دوسری طاقت مسبب الاسباب سے براہِ راست تعلقِ قرب ہے جسے اَسلاف نے معرفت کہا ہے ایک دھار مومن کی طاقتِ ظاہری کا بیانِ شُجاعت و ہمّت ہے اور دوسری دھار مومن کی طاقتِ باطنی کا مژدہ¿ فتح و نصرت ہے - ایک دھار مومن کی صفتِ جلال کا ظہور ہے اور دوسری دھار مومن کی صفتِ جمال کا ظہور ہے ایک دینِ غالب ہے اور دوسری دھار دینِ رحمت ہے یعنی ایک دھار ﴾یا ایھا النبی حرض المو¿منین علی القتال﴿ کی عملی تصویر اور دوسری دھار ﴾وما ارسلنٰک الا رحمة للعالمین﴿ کا حقیقی نمونہ ہے - جب مومن اپنے دستِ عدل نفاذ میں ذولفقار تھام لیتا ہے تو :-

قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن
یا خالدِ جانباز ہے یا حیدرِ کرّار
(۹)
حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہ¾ بھی اِسی تلوار کو فاتحِ عالَم قرار دیتے ہیں :-
چوں تیغِ لا بدست آری بیا تنہا چہ غم داری
مجو از غیرِ حق یاری کہ لا فتّاح اِلّا ھُو
(۰۱)
ترجمہ: جب شمشیرِ ﴾لا الٰہ الا اللّٰہ﴿ تمہیں نصیب ہو جائے تو پھر تنِ تنہا ہی کیوں نہ نکلنا پڑے تو میدان میں آجا ! اور حق کے علاوہ کسی کا ساتھ نہ دینا کیونکہ فاتحِ عالم یہی شمشیرِ ھُو ہی تو ہے - ہمارے سلف صالحین نے ہمیں اوّلاً یہی ترغیب دلائی کہ ترجیح یہ ہے مومن اپنی یہ میراث یعنی شمشیرِ ذولفقار بہر صورت حاصل کرے لیکن اگر کسی طور یہ ممکن نہ ہو تو بھی اذنِ ساحل نہیں ہے بلکہ اچھل کر بحرِ بیکراں ہونا ہے کیونکہ عشق پر بجلی تو حلال ہے جبکہ حاصل حرام ہے ، شورشِ طوفان تو حلال ہے جبکہ لذّتِ ساحل حرام ہے ، اِس لئے مومن کسی بھی وجہ سے خاموش اور پُر سکون نہیں رِہ سکتا اِس لئے اگر ذوالفقار نہیں پا سکتا تو اُسے چاہئے کہ شمشیر کا متبادل والی¿ کون و مکان سے طلب کرے - جیسے اقبال نے طلب کیا :- 
اگر شایاں نَیَم± تیغِ علی را
نگاہے دِہ چوں شمشیرِ علیؓ تیز

(۱۱)
ترجمہ : اگر میں حضرت علیؓ کی تلوار کے قابل نہیں ہوں تو مجھے ایسی نگاہ عطا فرمادیں جو شمشیرِ علیؓ کی طرح تیز ہو - 
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے

اُسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر
(۲۱)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شخصیّت کے چونکہ دو پہلو ہیں ایک اُن کا ﴾بابِ مدینة العلم﴿ ہونا ہے اور دوسرا فاتحِ خیبر ہونا ہے اور یہی دو پہلو ذولفقار کی دو دھاریں ہیں یعنی علم و حکمت اور شجاعت و ہمّت - غزوہ¿ خیبر سے نوجوانانِ اِسلام کیلئے یہ سبق بھی ہے کہ اپنے ہاتھوں میں ذوالفقار تھامیں اور بیک وقت علم و حکمت اور شجاعت و ہمّت کے پیکر بنیں - (۷) حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ناسازی¿ طبیعت ، بظاہر اسباب کی کمی ، حالات کی عدمِ موافقت اور اِس طرح کی دیگر چیزوں سے نا اُمیدی اور یاس و قنوطیّت کا شکار نہیں ہوئے چونکہ اُنہیں اپنے اللہ کے قادرِ مطلق اور اپنے نبی کے رسولِ برحق ہونے کا کامل یقین تھا اِس لئے ، یقین ، تیقّن اور ایقان کے ساتھ میدان میں اُترے جیسے اقبال نے ”یقینِ مردِ مومن “ کو ”خُدائے تعالیٰ کا رازدان“ کہا ہے - اقبال کے فلسفے کے مطابق یہ دُنیا نااُمیدی و مایوسی کے بیابان کی شبِ تاریک بن جائے اگر اِس کے صحرا میں مردِ مومن کی قندیلِ یقین روشن نہ ہو اِسی لئے سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدّس اللہ سرّہ¾ انسانیّت کو ”وستِ کھڑاتی“ یعنی انسانیت کا کھویا ہوا مقام تلاشنے اور کھوجنے کیلئے شوق اور یقین کا دیا روشن کرنے کا سبق دیتے ہیں - اِسلام دم توڑتی انسانیت اور تباہ ہوتی آدمیت کیلئے یقین و اُمید کا پیغام تھا اور ہے اِس لئے اگر اِس کے سالار اور قائد خود ہی یاس و نا امیدی کا شکار ہو جائیں تو انسانیت کے دکھوں کا مداوا اور آدمیّت کی اشک شوئی کون کرتا اور آج کون کرے گا - اِس لئے غزوہ¿ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے حضرت علی کو فرمایاتھا :- ”جاﺅ التفات نہ کرنا جب تک کہ حق تعالیٰ تمھارے ہاتھ پر قلعہ فتح نہ فرمائے“ -مسلمانوں کی آج کی نوجوان قیادت جنہوں نے مستقبل میں ”دُنیا کی امامت “ کرنی ہے کی ضروریات میں سے اوّلین ضرورت یقین اور اُمید ہے - اِسی لئے اِس اُمّت کے حکیم نے نوجوانوں کو ”تلخی ئِ دوران کا گلہ مند “ ہونے کی بجائے اور اس سے نا امید اور بے یقین ہونے کی بجائے ”سختی ئِ منزل کو سامانِ سفر سمجھنے“ کی تلقین کی ہے حضرت علّامہ اقبال ”یقینِ محکم“ کو ”جہادِ زندگانی“ کی اوّلین شمشیر سمجھتے ہیں - حضرت سیّد سُلطان محمد بہادر علی شاہ المشہدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :- ٭ بہادر شاہ یقین ہے دین بھائی رب بخشے ایہہ سامان میاں٭ بہادر شاہ یقین بصارت ہے نابینا بے ادراک بھائی(۳۱)جس قیادت نے اکیسویں صدی کے معرکہ¿ خیبر میں حیدری و کرّاری کی رسم کو زندہ کرنا ہے اُس قیادت کیلئے لازم ہے کہ یقین ، اُمید ، ایقان ، ایمان ، بشارت اور خوشخبری کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترے اقبال کے مطابق ”اے بندہ¿ مومن تو بشیری تو نذیری“- (۸) شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رحمة اللہ علیہ کی مدارج النبوّة کے حوالے سے درج بالا فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں جہاں یقین و اُمید کا پیغام پوشیدہ ہے وہیں اِس سے یہ سبق بھی بڑا نُمایاں ہوتا ہے کہ التفات تب کرنا جب حق کی خاطر حق تعالیٰ فتح عطا فرمادیں تو پھر ہماری اُن سے کوئی جنگ نہیں یعنی اگر جنگ ہے تو تب تک جب تک کہ حق کی رضا ہے جب تک کہ رضائے حق کو اہلِ خیبر تسلیم نہ کرلیں - گویا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا میدانِ کارزار میں اُترنے کا مقصد فقط اور فقط رضائے الٰہی تھا - بقولِ اقبال :- 
تھا شجاعت میں وہ اِک ہستی¿ فوق الادراک

عدل اُس کا تھا قوی‘ لوثِ مُراعات سے پاک
خود گدازی نَمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی از خویش شُدن صُورتِ مینایش بُود

(۴۱)
آج بھی ہمیں ذاتی و خاندانی مفادات سے بالا تر ہو کر رضائے الٰہی کو مدِّ نظر رکھ کر میدانِ عمل میں اُترنا ہے تسلیم و رضا کا یہی جذبہ ہے جو فقرِ حیدریؓ کی علامت ہے فقرِ حیدریؓ امانتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ہے اور اقبال کے نزدیک اِس کے خواص میں بُنیادی چیزیں ذوق و شوق اور تسلیم و رضا ہیں :-
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفےٰ ست

(۵۱)
(۹) معرکہ¿ خیبر نہ تو کسی سے کسی انتقام کے باعث تھا اور نہ ہی اپنی شان و شوکت منوانے کیلئے تھا بلکہ خالصتاً ترویجِ اِسلام اور غلبہ¿ اِسلام کیلئے تھا اِسی لئے رسولِ پاک شہہِ لولاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا کہ تب تک لڑنا جب تک کہ وہ ہم جیسے یعنی مسلمان نہ ہو جائیں - گویا ہماری کسی سے دوستی ہے تو حفاظتِ دین کیلئے اگر جنگ ہے تو غلبہ¿ دین کیلئے - جو دوستی حفاظتِ دین میں حائل ہوجائے وہ فاتحِ خیبر کے عمل کے منافی سمجھیں اور جو جنگ غلبہ¿ دین کی بجائے ذاتی یا ذاتیات کی خاطر ہو وہ جنگ بھی فاتحِ خیبر کے نمونہ¿ عمل کے مطابق نہیں چونکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صرف و صرف اِسلام کے غلبہ کیلئے برسرِ پیکار تھے اِس لئے نوجوانانِ اِسلام کو بھی اپنی ہر سرگرمی (Movement and activity) کا حاصل حصول صرف و صرف غلبہ¿ اِسلام کو بنانا چاہیئے - جس طرح حضرت علّامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اسرار و رموز میں فرماتے ہیں :- 
صلح ، شر گردد چو مقصود است غیر
گر خُدا باشَد غرض، جنگ است خیر

گر نہ گردد حق ز تیغِ ما بُلند
جنگ باشَد قوم را نا ارجمند
ہر کہ خنجر بہرِ غیر اللّٰہ کشید
تیغِ اُو در سینہ¿ اُو آرمید
ترجمہ : تمہاری صُلح کا مقصود اگر دین کے علاوہ کچھ اور ہے تو وہ صلح در اصل ایک شر ہے لیکن اگر تمہارا مقصُود دینِ حق تعالیٰ ہے تو تمہاری جنگ بھی خیر ہے - اگر تیغ زنی کا مقصد دین کی سر بُلندی نہیں ہے تو ایسی جنگ ہماری قوم کو ارجمند نہیں کرسکتی - جو کوئی بھی غیر اللہ کے مقاصد کیلئے اپنا خنجر نکالتا ہے اُس کا وہی خنجر اُس کے اپنے سینے میں آ گھستا ہے - معرکہ¿ خیبر ہم سب کیلئے اِس وجہ سے مشعلِ راہ ہے کہ وہ (۱) خالصتاً رضائے الٰہی کیلئے تھا - (۲) اُس جنگ کا مقصُود دینِ حق کی سر بُلندی تھا - (۰۱) مرحب اپنے عہد میں اور خاص کر اہلِ خیبر میں قُوّت و طاقت کی علامت تھا عرب کے بڑے بڑے پہلوان اور جرّی جوان اُس کے سامنے جانے سے گھبراتے تھے جب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی قیادت میں لشکرِ اسلام وہاں پہنچا تو اہلِ خیبر اتنا تو جان چکے تھے کہ یہ اُن کے دفاع کا آخری معرکہ ہے اِسی لئے مرحب بھی اپنی پوری جنگی تیّاری اور ساز و سامان سے لیس ہو کر نِکلا وہ ذہن کے مطابق یہ سوچتا آرہا تھا کہ کون ہے ایسا جو آج میرا رُعب و جلال برداشت کرسکے ؟ کون ہے جو آج میرے غیض و غضب کا سامنا کر سکے ؟ کون ہے جو آج میری طاقت کو للکار سکے؟ کون ہے جو آج مجھ سے پنجہ فگن ہو سکے ؟ کس کی ہمت ، کس کی تاب اور کس کی جرا¿ت ہے جو مجھے زیر کرسکے ؟ اِس کٹھن اور اقبال کے بقول ”مرد آزما“ مقام پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے ”فیضانِ نظر“ سے اپنی ولایت کی شانِ بے خوفی کا اظہار فرماتے ہیں کہ اُنہیں اپنے مالکِ حقیقی کے علاوہ کسی مرحب یا کسی قُوّتِ وقت کا کوئی خوف نہیں تھا وہ ﴾اَ لَآ اِنَّ اَو±لِیَآئَ اﷲِ لَا خَو±فµ عَلَی±ہِم± وَلَا ہُم± یَح±زَنُو±نَo﴿ کی عملی تشریح تھے اور فاتحِ خیبر کے نمونہ¿ عمل سے ایک بُنیادی سبق یہ ملتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سو اکسی دوسرے کو سپر طاقت تسلیم نہیں کرتے تھے اور اُن کے قلبِ سلیم میں اللہ تعالیٰ کے خوف کے علاوہ کسی دوسرے کا خوف نہ تھا بے خوفی کا یہ عالم تو صرف ظاہر کی تصویر ہے اقبال نے اِن نفُوسِ قُدسیّہ کی غیر اللہ سے اِس بے خوفی کے سبب اِن کے باطنی جلال و ہیبت کی تصویر بھی بیان کی کہ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کی” ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے “ اور ”منہ کے بل گر کے ھُو اللہ احد کہتے تھے “ - جب تک مسلمان نوجوان اِس بے خوفی کو نہیں اپنا لیتا تب تک اُس میں فاتحِ خیبر کے اوصافِ قیادت کی تکمیل و تشکیل نہیں ہو سکتی - (۱۱) فاتحِ خیبر کے اوصافِ قیادت میں یہ بھی تھا کہ جب مرحب اپنے طاقت کے نشے میں چُور بلکہ چُور چُور ہو کر نکلا تو اُس نے شیرِ خُدا کو رجز پڑھ کر ہیبت زدہ کرنے کی کوشش کی تو فاتحِ خیبر نے اُس بدمست طاقتور کو زورِ حیدری سے للکارا اور فرمایا : - 
انا الذی سمتنی امی حیدرہ
اکیلکم بالسیف کیل السندرہ
ترجمہ:-مَیں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے-مَیں تلوار سے تمہاری اس طرح قطع برید کروں گا جس طرح درخت کاٹا جاتا ہے-مَیں نہایت تند خو، بہادر شیرِ نیستاں ہوں-اِسلام کی نشاةِ ثانیّہ کیلئے کوشاں نوجوانانِ اِسلام کو حضرت علی المرتضیٰ کے اسمائے گرامی کے اسرار و رموز کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا تاکہ وہ اُن کے اسرار سے قُوّت حاصل کریں جس سے مرحبِ وقت کو للکار سکیں اور اُس کی للکار کا جواب دے سکیں اقبال نے یوں تو مثنوی اسرارِ خُودی میں ”در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰ ؓ “ کے عُنوان سے ایک مکمل اور مستقل نظم لکھی ہے جس میں ”ابو تراب“ کے لقب کی نہایت ہی حکیمانہ تشریح بیان کی ہے - جبکہ ”مثنوی مُسافر“ میں اقبال حضرت احمد شاہ ابدالی رحمة اللہ علیہ کے باطنی فرمان پر بادشاہِ افغانستان ظاہر شاہ کو نصیحت کرتے ہوئے ایک نظم لکھتے ہیں جس میں وہ ظاہر شاہ سے فرماتے ہیں : - 
ہمچوں آں خُلد آشیاں بیدار زی
سخت کوش و پُر دَم و کرّار زی
می شناسی معنی¿ کرّار چیست
ایں مقامے از مقاماتِ علی ست
اُمتاں را در جہانِ بے ثبات
نیست ممکن جز بہ کرّاری حیات
سرگزشتِ آلِ عثمانے نگر
از فریبِ غربیاں خونیں جگر
تا زِ کرّاری نصیبے داشتند
در جہاں دیگر عَلَم± افراشتند
ترجمہ : (اے ظاہر شاہ !) اپنے مرحوم باپ کی طرح بیدار زندگی بسر کر اور سخت کوش ہوجا ، (شاہین کی طرح )پُر دَم رہ اور صفتِ کرّار سے مُتّصِف ہوجا- (اے ظاہر شاہ!) کیا تو جانتا ہے کہ ”کرّار“ (پے بہ پے ضرب لگانے والا) کے کیا معنی ہیں ؟ یہ حضرت علی المرتضیٰ کے مقامات میں سے ایک مقام ہے - اِس جہانِ بے ثبات میں زندہ اقوام کیلئے کرّاری یعنی پے بہ پے ضرب لگائے بغیر زندگی مُمکن ہی نہیں رہتی - تُرک عثمانیوں کے ساتھ ہونے والے حشر کو دیکھو ! اہلِ مغرب کے مکر و فریب نے (قُبائے خلافت چاک کر کے) اُن کا جگر زخمی کر دیا ہے - جب تک تُرکی اپنا نصیبہ کرّاری سے حاصل کرتے رہے دُنیا پر ان کا جھنڈا لہراتا رہا - 
مُسلمِ ہندی چرا میداں گزاشت
ہمّتِ اُو بُوئے کرّاری نداشت
مُشتِ خاکش آں چناں گردیدہ سرد
گرمی¿ آوازِ من کارے نکرد
ترجمہ : (ظاہر شاہ دیکھو !) برِّصغیر کے مُسلمان کیوں میدان میں پیچھے رِہ گئے ؟ کیونکہ اُن کی ہمّت میں بوئے کرّاری نہ رہی - (بُوئے کرّاری نکل جانے کی وجہ سے ) برِّ صغیر کے مسلمانوں کا لہو اِس طرح سرد ہو گیا ہے کہ میری آواز کی گرمی نے بھی اُن پر خاطر خواہ اثر نہیں کیا - نوجوانانِ مِلّت جب تک ضربتِ پیہم ، جُہدِ مُسلسل ، سخت کوشی اور مُشقّتِ مومنانہ جسے اقبال ”کرّاری“ کہتے ہیں نہیں اختیار کرتے تب تک مرحبِ وقت کی للکار کا جواب دینا ممکن نہیں کیونکہ ”حاکمیّت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو“ صرف ”ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش“ یعنی کرّاری سے ہی ٹوٹتا ہے اِس لئے نوجوان نسل کو اپنے اندر مرحبِ وقت کو للکارنے کی جرا¿ت پیدا کرنا ہوگی کیونکہ اِس میدانِ کارزار میں آج بھی حق و باطل کا معرکہ جاری ہے اور یہ ازل سے جاری ہے جو ابد تک جاری ہے - اقبال یہ جستجو کرتے ہیں کہ آج کا مغربی نظریّہ¿ وطنیّت پرستی معرکہ¿ خیبر ہے تو اِس کی سرکوبی کیلئے اِس اُمّت میں رسمِ حیدریؓ و کرّاریؓ کون ادا کرے گا ؟ اور ہمیں یہ بتاتے ہیں :- 
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسد اللہی وہی مرحبی وہی عنتری
(۶۱)

(۲۱) جب حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ نے گریبانِ خیبر (یعنی دروازہ ) پکڑا تو روایات کے مطابق پورا قلعہ ہیبتِ حیدریؓ سے لرز اُٹھا - مردِ مومن جب رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اُس کے دین کے نفاذ کی جِدّ و جُہد کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کے وجود میں ایک خاص تاثیر جاری فرما دیتے ہیں یہ کرامت تو ہر اُس مجاہد کو عطا ہوتی ہے جو اپنی جان راہِ خُدا میں نذرانہ کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے اور یہاں تو اِسلام کے وہ مُجاہدِ اوّل کھڑے تھے جو حق و باطل کے پہلے معرکہ یعنی غزوہ¿ بدر میں باطل کے مقابلے میں اُترنے والے پہلے تین مجاہدین میں شامل تھے ، ولایت کے تاجدار تھے ، رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی چادرِ تطہیر میں آنے والے پانچ تنوں میں شامل تھے ، فقرِ محمدی کے وارث تھے ، حوضِ کوثر پہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی رفاقت کی خوشخبری سُن چکے تھے - جیسا کہ اقبال نے بھی کہا:- 
زیرِ پائیش ایں جا شکوہِ خیبر است
دستِ اُو آں جا قسیمِ کوثر است
(۷۱)
ترجمہ: اِس جہان میں خیبر اُن کے قدموں میں تسخیر ہوا - آخرت میں وہ حوضِ کوثر پہ جام تقسیم کرنے والے ہوں گے - اِس مقامِ رُوحانیّت پہ فائز شیرِ خُدا اسداللہ الغالب رضی اللہ عنہ کے دستِ یداللّٰہی کے جلال سے قلعہ¿ خیبر کانپ جانا کوئی بڑی یا مُحیّر العقُول بات نہیں تھی- جیسا کہ کسی نے کیا خُوب کہا :- 
کبھی دیوار ہِلتی ہے ، کبھی دَر کانپ جاتا ہے
علیؓ کا نام سُن کر اب بھی خیبر کانپ جاتا ہے
نوجوانانِ مِلّت کو اپنے کردار یعنی قُربِ خداوندی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں اپنے آپ کو اتنا پُختہ کرنا چاہیئے کہ حدیثِ قُدسی کے اَلفاظ کے مُطابق بندے کو یہ مقام نصیب ہو جائے جس کے متعلق رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں بندے کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سُنتا ہے ، اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اُس کے پاو¿ں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے - 
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ¿ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کُشا و کار ساز

(۸۱)
جب بندے کے ”اعمالِ صالحہ“ بلکہ صُوفیہ کے مطابق ”عملِ احسن“ سے اُس کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ اپنی قُدرتِ خاص سے اپنی قُوّت شامل فرمادیں تو اُس میں یہ تاثیر آجاتی ہے کہ اُس کی پکڑ اُس کے خالق کی عطا کی ہوئی طاقت سے مضبوط ہوتی ہے اور وہ خیبرِ وقت کو اپنے دستِ یداللّٰہی سے لرزہ بر اندام کر سکتا ہے - اکابرین کے فرامین بکثرت ملتے ہیں کہ جب مُجاہد اللہ کیلئے میدانِ جہاد میں ہوتا ہے تو ملائکہ اُس کی مدد و نُصرت کیلئے ساتھ ہوتے ہیں وہ ملائکہ اِسی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں کہ مومن کا جلال اور اُس کی ہیبت کُفّار کے دلوں پہ طاری کر دی جائے - جبکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عام ملائکہ ہی نہیں اللہ تعالیٰ کے بہت ہی مقرب ملائکہ مقرر ہوتے تھے - جیسا کہ ”المصنف للاِبن ابی شیبہ“ میں حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا قولِ بلیغ نقل ہے :- ﴾کان النبی صلی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلم اذا بعثہ فی سریةٍ کان جبریل عن یمینہ و میکائیل عن یسارہ فلا یرجع حتی یفتح اللّٰہ تعالیٰ علیہ﴿ترجمہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی جہاد کی مہم کیلئے جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرماتے تو آپ کی دائیں طرف حضرت جبرائیل علیہ السلام اور بائیں طرف حضرت میکائیل علیہ السلام رہا کرتے تھے - اور آپ کبھی بھی فتح حاصل کئے بغیر نہیں لوٹتے تھے - جب آدمی اپنی چاہت اللہ کی چاہت کے سپرد کردیتا ہے تو اُس کے تمام امور اللہ تعالیٰ اپنی مددِ غیبی سے حل فرماتے ہیں اور یہی تو مومن کی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انصاف کا مظہر اپنے کامل بندوں کو بنایا ، اپنی رحمت کا مظہر اپنے نیک بندوں کو بنایا اور اپنی قُوّت کا مظہر اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو بنایا جن کے قدم اللہ کی عطا کی گئی طاقت سے بڑھتے ہیں جن کے ہاتھ اللہ کی عطا کی گئی طاقت سے اُٹھتے ہیں یہی کچھ تو تھی فضائے بدر کہ جہاں مومنین کی ایک قلیل جماعت کفر کی اندھی طاقت کے سامنے سینہ سپر تھی تبھی تو ملائکہ نصرتِ غیبی کو اُترے :- 
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نُصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

(۳۱) نوجوان نسل کے پیشِ نظر یہ لازماً رہے کہ قلعہ¿ خیبر فتح کرنے کیلئے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی قُوّتِ ظاہری کے ساتھ ساتھ اپنی قُوّتِ باطنی بھی استعمال فرمائی - اِسے اقبال کے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے ”سلطنتِ جَم“ کو تصرفِ اِسلامی میں لانے کیلئے ”نشّہ¿ درویشی“ کی قُوّت و پختگی کو بھی بروئے کار لایا - جیسا کہ علّامہ اسماعیل حقی رحمة اللہ علیہ نے ”رُوح البیان“ میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یہ قول مبارک نقل کیا ہے :- ﴾ما قلعت خیبر بقوة جسمانیتہ ولا بحرکة غذائیة لکنی ایدت بقوة ملکوتیة﴿ترجمہ:-میں نے خیبر کا قلعہ نہ تو قوتِ جسمانیّہ سے فتح کیا اور نہ ہی حرکتِ غذائیہ سے ، بلکہ میں نے یہ قلعہ ملکوتی قُوَّت سے فتح کیا-ہمیں یہ کہا جاتا ہے یہ مقام صرف خواص کیلئے ہے عام لوگ اِس کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتے - اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض خاصیّتیں خواص کو ہی عطا کرتا ہے مگر یہ روحانیّت ایسی منزل ہے جہاں انسان اگر اپنے اندر طلبِ صادق اور جذبِ کامل پیدا کرلے تو وہ اِن مقامات کو حاصل کر سکتا ہے اِس کی شہادت اور اس کے دلائل پہ اَسلاف کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ جس نے بھی جذبہ¿ صادق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کو طلب کیا ہے اُسے ایسی رہنمائی میسّر کی گئی جس سے وہ اپنے گوہرِ مُراد کو پا گیا - یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ :- ﴾ اَتَص±بِرُو±نَج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِی±رًاo﴿ (۹۱)ترجمہ : اے بندے تو ہی صبر کئے بیٹھا ہے تیرا رب تو تیرا منتظر ہے (کہ کب تو اُس کی طرف رجوع کرتا ہے ) - اِس آیت مبارکہ کا ترجمہ اقبال نے ”جوابِ شکوہ“ میں اِن الفاظ کے ساتھ کیا :- 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے ؟ راہ روِ منزل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دُنیا ہی نئی دیتے ہیں
(۰۲)

حضرت علامہ اقبال فاتحِ خیبر کی قُوّتِ ملکوتیّہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اِس قوت کے حصول کا مقصد حرکی پاسبانی ہے اور وحدتِ اُمّت کی حفاظت ہے اور اِس قُوّت کا دینِ حق کے غلبہ کیلئے استعمال کرنا لازم ہے اقبال کے نزدیک اگر قُوّتِ ملکوتی حاصل ہو جائے مگر اُس سے حرم کی پاسبانی نہ کی جائے اور سالک کسی خانقاہ کے کونے یا گوشے میں دبک کے بیٹھ رہے تو اِس کا کیا فائدہ ؟ اِس کا فائدہ تو تب ہے جب مِلّتِ اِسلامیّہ کی بقا اور آج کے عہد میں اِسلام کی نشاہِ ثانیّہ کیلئے اِس کو بروئے کار لایا جائے :-
یہ ذکرِ نیم شبی ، یہ مُراقبے یہ سُرور
تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ حکمتِ ملکوتی یہ علمِ لاہُوتی 
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(۱۲)
اگر فاتحِ خیبر کی قُوّتِ ملکوتی کو رول ماڈل یا نمونہ¿ عمل کے طور پر ہماری تاریخ نے ہمارے سامنے رکھّا ہے تو یقیناً ہم پختگی ئِ کردار اور طلبِ صادق سے اِس گوہرِ مُراد کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے پا سکتے ہیں - نوجوانوں کو چاہیئے کہ اِس میں پیچھے نہ ہٹیں اور نہ ہی اِسے مشکل یا اجنبی چیز سمجھیں یہی حکمت و قُوّتِ ملکوتی ہی تو اسلاف کی اصل میراث ہے جو ہم نے گنوا دی ہے یہی تو وہ سرمایہ ہے جو سرمایہ ہائے عالم سے زیادہ قیمتی اور بیش بہا ہے یہی تو وہ ہتھیار ہے جسے حاصل کرلینے کے بعد مردِ مومن ”بے تیغ و تفنگ“ یعنی بے اسلحہ و جنگ ”ہفت کشور تسخیر“ کر لیتا ہے -

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تُو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے!
(۲۲)
آگے بڑھیں ! طلبِ صادق پیدا کریں ! ﴾ایاک نعبد و ایاک نستعین﴿ کے تحت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مدد چاہیں ! یقیناً یہ منزل ہماری منتظر ہے اور یقیناً یہ مقام ہمارے لئے ہی یعنی غُلامانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کیلئے ہی بنایا گیا ہے - حضرت سُلطان باھُو قُدّس اللہ سرّہ¾ نے تو یہ اعلان فرما رکھّا ہے کہ جسے کسی بھی زمانے میں کوئی ایسا رہنما میسّر نہیں آتا جو طالبِ حق کی رہنمائی کر کے اُسے حق تک رسائی دے دے تو آپ فرماتے ہیں کہ ایسے طالب کو چاہیئے کہ وہ ”فقیرِ باھُو“ کے پاس آجائے :- 
ہر کہ طالبِ حق بود من حاضرم
ازابتدا تا انتہا یک دم برم
طالب بیا ! طالب بیا ! طالب بیا!
تا رسانم روزِ اوّل با خُدا
ترجمہ : جو کوئی بھی طالبِ حق ہو اُس کی راہنمائی کیلئے میں حاضر ہوں میں ایسے طالب کو ابتدا سے انتہا تک ایک ہی دَم میں پہنچا دوں گا - اے طالبِ حق میرے پاس آجا ! اے طالبِ حق میرے پاس آجا ! اے طالبِ حق میرے پاس آجا ! میں تجھے پہلے ہی روز واصل بحق کردوں گا - (۴۱) جیسا کہ مفتی منظور حسین صاحب کے مضمون کے آخر میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ارشادات نقل کئے گئے ہیں کہ جس میں یہودِ خیبر بھی یہ کہنے پر مجبور تھے کہ آسمان و زمین جس انصاف کی بدولت قائم ہیں اُس انصاف کا مظہر رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے فیضانِ نظر سے تربیَّت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں - آج مسلمانوں کی بہت بڑی ضرورت عدل و انصافِ دائمی ہے کیونکہ جب انسان کا وجود انصاف سے خالی ہوجائے تو وہ انفرادی و اجتماعی انصاف کی صلاحیّت سے محروم ہو جاتا ہے - جیسا کہ حاکمِ بغداد ایک بار حضور غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمتِ عالیّہ میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کی کہ میرا کام چونکہ لوگوں کا محاسبہ اور احتساب کرنا ہے اِس لئے کوئی ایسی نصیحت فرمائیں جس سے میں یہ کام بہتر طریقے سے کر سکوں تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے نفس یعنی اپنے آپ کا محاسبہ اور احتساب نہیں کر سکتا وہ لوگوں کا محاسبہ و احتساب کیسے صحیح کر سکتا ہے - اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنی خِلافت بھی اجتماعی عدل و انصاف کے قیّام کیلئے عطا فرمائی ہے جیسا کہ اپنے پیارے پیغمبر حضرت داو¿د علیہ السلام سے فرمایا : - ﴾یٰ©دَاو¾دُ اِنَّا جَعَل±نٰ©کَ خَلِی±فَةً فِی ال±اَر±ضِ فَاح±کُم± بَی±نَ النَّاسِ﴿ (۳۲)ترجمہ : اے داو¿د علیہ السلام ! ہم نے آپ کو زمین میں اِس لئے خلافت عطا فرمائی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان انصاف کا حکم فرمائیں - اقبال کے اَلفاظ میں :- 
سروری در دینِ ما خِدمت گری ست
عدلِ فاروقیؓ و فقرِ حیدریؓ ست
(۴۲)
ترجمہ: دینِ مصطفوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں بادشاہی در اصل عامة النّاس کی خدمت گری ، عدلِ فاروقی کا نفاذ ، اور فقرِ حیدریؓ کے طریق کو اپنانے کا نام ہے - اگر ہم نوجوانانِ اسلام فکرِ اقبال کے تناظُر میں غزوہ¿ خیبر سے حاصل ہونے والے مندرجہ بالا 14 اَسباق سے کما حقّہ¾ روشنی¿ فکر و عمل حاصل کریں تو یقینِ کامل سے کہا جا سکتا ہے کہ اِسلام کی نشاةِ ثانیّہ کا دور آئندہ نہیں بلکہ ہماری نسل دیکھے گی - ﴾وما توفیقی الا بااللّٰہ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔