ہفتہ، 25 اپریل، 2015

پیرکامل قسط نمبر 5

0 comments


وہ رات کو بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی مگر ملازم کے کھانا لانے پر اس نے کھانا کھا لیا تھا۔رات کو گیارہ بجے کے قریب اس نے جلال کو فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔شاید وہ امامہ کے فون کی توقع کر رہا تھا۔مختصر سی تمہید کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آ گیا۔
"امامہ ! میں نے ابو سے کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔"اس نے امامہ سے کہا۔
"پھر؟"وہ اس کے استفسار پر چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
"ابو ! اس شادی پر رضامند نہیں ہیں۔"
امامہ کا دل ڈوب گیا۔"مگر آپ تو کہہ رہے تھے انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔"
"ہاں ، میرا یہی خیال تھا مگر انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے۔وہ سمجھتے ہیں تمہارے اور ہمارے گھرانے کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔۔۔۔۔اور وہ تمہارے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور انہیں سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔انہیں یہ خوف ہے کہ اس صورت میں تمہارے گھر والے میرے گھر والوں کو تنگ کریں گے۔"
وہ ساکت بیٹھی موبائل کان سے لگائے اس کی آواز سنتی رہی۔"آپ نے انہیں رضامند کرنے کی کوشش نہیں کی۔"ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
"میں نے بہت کوشش کی۔انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر تمہارے گھر والے اس شادی پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بھی راضی ہو جائیں گے۔اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا خاندان کیا ہے لیکن تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر وہ میری اور تمہاری شادی کو تسلیم نہیں کریں گے۔"جلال نے اس سے کہا۔
"اور آپ۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟"
"امامہ ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"جلال نے کچھ بےبسی کے عالم میں کہا۔
"جلال ! میرے پیرنٹس کبھی آپ سے میری شادی پر تیار نہیں ہوں گے ، بصورتِ دیگر ہماری پوری کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کر دے گی اور وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور پھر آپ اسجد سے میری منگنی کو کیوں بھول رہے ہیں۔"
"امامہ ! تم پھر بھی اپنے والدین سے بات تو کرو ، ہو سکتا ہے کوئی راستہ نکل آئے۔"
"میں کل بابا سے تھپڑ کھا چکی ہوں۔صرف یہ بتا کر کہ میں کسی دوسرے میں انٹرسٹڈ ہوں۔"امامہ کی آواز بھرانے لگی۔"اگر انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں جسے پسند کرتی ہوں وہ ان کے مذہب کا نہیں ہے تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔پلیز آپ انکل سے بات کریں۔آپ انہیں میرا پرابلم بتائیں۔"اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
"میں ابو سے کل دوبارہ بات کروں گا اور امی سے بھی۔۔۔۔۔پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"جلال پریشان تھا۔
امامہ نے جس وقت اس سے بات کرنے کے بعد فون بند کیا وہ بےحد دل گرفتہ تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ جلال کے والدین کو اس شادی پر اعتراض ہو گا۔
موبائل ہاتھ میں لیے وہ بہت دیر تک خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تمہارے ابو مجھ سے پہلے ہی اس سلسلے میں بات کر چکے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔تم کو اس طرح کے خطروں میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال کی امی نے قطعی لہجے میں اس سے کہا۔وہ امامہ کے کہنے پر ان سے بات کر رہا تھا۔
"مگر امی ! اس میں خطرے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا ، آپ خوامخواہ خوفزدہ ہو رہی ہیں۔"جلال نے کچھ احتجاجی انداز میں کہا۔
"تم حماقت کی حد تک بےوقوف ہو۔"اس کی امی نے اس کی بات پر اسے جھڑکا۔"امامہ کے خاندان اور اس کے والد کو تمہارے ابو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ شادی ہونے کی صورت میں وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے یا ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔"
"امی ! ہم اس شادی کو خفیہ رکھیں گے ، کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔میں اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانے کے کچھ عرصہ بعد اسے بھی وہاں بلوا لوں گا۔سب کچھ خفیہ ہی رہے گا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔"
"ہم آخر ! امامہ کے لئے کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لیں اور تمہیں ویسے بھی یہ پتا ہونا چاہئیے کہ ہمارے یہاں اپنی فیملی میں ہی شادی ہوتی ہے۔ہمیں امامہ یا کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔"امی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ تم اس طرح اس لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کر دو گے تو میں اس سے پہلے ہی تمہاری کہیں نسبت طے کر دیتی۔"اس کی امی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"امی ! میں امامہ کو پسند کرتا ہوں۔"
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں ، میں اور تمہارے ابو کیا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو نہ تو وہ پسند ہے اور نہ ہی اس کا خاندان۔"امی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"امی ! وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، آپ اسے بہت اچھی طرح جانتی ہیں ، وہ یہاں آتی رہی ہے اور تب تو آپ اس کی بہت زیادہ تعریف کرتی تھیں۔"جلال نے انہیں یاد دلایا۔
"تعریف کرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اسے اپنی بہو بنا لوں۔"وہ خفگی سے بولیں۔
"امی ! کم از کم آپ تو ابو جیسی باتیں نا کریں۔تھوڑا سا ہمدردی سے سوچیں۔"اس بار جلال نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا۔
"جلال ! تمہیں احساس ہونا چاہئیے کہ تمہاری اس ضد اور فیصلے سے ہمارے پورے خاندان پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا بھی خواب ہے کہ ہم تمہاری شادی کسی اچھے اور اونچے خاندان میں کریں۔تمہارے ابو اگر تمہیں اس شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی میں کبھی نہیں دوں گی۔نہ ہی میں امامہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کروں گی۔"
" امی ! آپ اس کی صورتِ حال کو سمجھیں ، وہ کتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔اس وقت اسے مدد کی ضرورت ہے۔"
"اگر وہ اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو پھر اسے کم از کم دوسرے کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرنی چاہئیے۔میں اسے برا نہیں کہہ رہی۔وہ بہت اچھا فیصلہ کر رہی ہے مگر ہم لوگوں کو اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔تم کچھ عقل سے کام لو۔تمہیں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا ہے۔اپنا ہاسپٹل بنانا ہے۔"اس کی امی نے قدرے نرم لجے میں کہا۔"بیٹا ! اچھے خاندان میں شادی ہو تو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مواقع ملتے ہیں اور تمہارے لیے تو پہلے ہی بہت سے خاندانوں کی طرف سے پیغام آ رہے ہیں۔جب اسپیشلائزیشن کر لو گے تو کتنے اونچے خاندان میں تمہاری شادی ہو سکتی ہے۔تمہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔خود سوچو ، صرف امامہ سے شادی کر کے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔۔خاندان اس کا بائیکاٹ کر چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔معاشرے میں جو بدنامی ہو گی ، وہ الگ ہے۔۔۔۔۔اور تم سے شادی ہو بھی جائے تو کل کو تمہارے بچے تمہارے اور امامہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ساری عمر کی بات ہے۔"امی اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔جلال کسی اعتراض یا احتجاج کے بغیر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
اس کے چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ قائل ہوا ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ نے اگلی رات جلال کو پھر فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔
"امامہ ! میں نے امی سے بھی بات کی ہے۔وہ ابو سے زیادہ ناراض ہوئی ہیں میری بات پر۔"امامہ کا دل گویا مکمل ڈوب گیا۔
"وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے ایک فضول معاملے میں خود انوالو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔"میں نے انہیں تمہارے پرابلم کے بارے میں بھی بتایا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمہارا پرابلم ہے ، ہمارا نہیں۔"
امامہ کو اس کے لفظوں سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔
"میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رضامند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔"جلال کی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔
"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے جلال ! "اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ کسی موہوم سی اُمید پر کہا۔
"میں جانتا ہوں امامہ ! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا۔میرے والدین اس پرپوزل پر راضی نہیں ہیں۔"
"کیا تُم ان کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟"
"نہیں ، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔مجھے ان سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں ناراض کر کے تم سے شادی نہیں کر سکتا۔"
"پلیز جلال ! "وہ گڑگڑائی۔"تمہارے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
"میں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔"
"میں آپ کو نافرمانی کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔میں تو آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔"
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنے التجائیہ اور منت بھرے انداز میں بات کی ہو۔
"آپ مجھ سے صرف نکاح کر لیں ، اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہ بتائیں۔بےشک آپ بعد میں ان کی مرضی سے بھی شادی کر لیں ، میں اعتراض نہیں کروں گی۔"
"تم اب بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔خود سوچو اگر ایسے کسی نکاح کے بارے میں ابھی میرے والدین کو پتا چل جاتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔۔۔۔۔وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔۔اور پھر تم اور میں کیا کریں گے۔"
"ہم محنت کر لیں گے ، کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔"
"تمہارے اس کچھ نہ کچھ سے میں باہر پڑھنے جا سکوں گا؟"اس بار جلال کا لہجہ چبھتا ہوا تھا ، وہ بول نہیں سکی۔
"نہیں امامہ ! میرے اتنے خواب اور خواہشات ہیں کہ میں انہیں تمہارے لیے یا کسی کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔مجھے تم سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ تم کر رہی ہو۔تم دوبارہ مجھے فون مت کرنا کیونکہ میں اب اس سارے معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں ، مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر تم اپنے اس مسئلے کا حل خود نکالو ، میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ، خدا حافظ۔"
جلال نے فون بند کر دیا۔
رات دس بج کر پچاس منٹ پر اسے اپنے اردگرد کی پوری دنیا دھوئیں میں تحلیل ہوتی نظر آئی۔کسی چیز کے مٹھی میں ہونے اور پھر دور دور تک کہیں نہ ہونے کا فرق کوئی امامہ سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ماؤف ذہن اور شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ بہت دیر تک کسی بت کی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی رہی۔
مجھے بتا دینا چاہئیے اب بابا کو سب کچھ۔۔۔۔۔اس کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔شاید وہ خود ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیں۔۔۔۔۔کم از کم مجھے اس گھر سے تو رہائی مل جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"میں اسجد سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تو شاپنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"امامہ نے مستحکم لہجے میں امی سے کہا۔سلمیٰ اسے اگلے روز اپنے ساتھ مارکٹ جانے کا کہنے کے لیے آئی تھیں۔
"پہلے تمہیں شادی پر اعتراض تھا ، اب تمہیں اسجد سے شادی پر اعتراض ہے ، آخر تُم چاہتی کیا ہو۔"سلمیٰ اس کی بات پر مشتعل ہو گئیں۔
"صرف یہ کہ آپ اسجد سے میری شادی نہ کریں۔"
"تو پھر کس سے کرنا چاہتی ہو تم۔"ہاشم مبین اچانک کھلے دروازے سے اندر آ گئے تھے۔یقیناً انہوں نے باہر کوریڈور میں امامہ اور سلمیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی اور وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔امامہ یک دم چپ ہو گئی۔
"بولو ، کس سے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔اب منہ بند کیوں ہو گیا ہے ، آخر تم اسجد سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔کیا تکلیف ہے تمہیں۔"انہوں نے بلند آواز میں کہا۔
"بابا ! شادی ایک بار ہوتی ہے اور وہ میں اپنی پسند سے کروں گی۔"وہ ہمت کر کے بولی۔
"کل تک اسجد تمہاری پسند تھا۔"ہاشم مبین نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"کل تھا ، اب نہیں ہے۔"
"کیوں ، اب کیوں نہیں ہے؟"امامہ کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"بولو ، اب کیوں پسند نہیں ہے وہ تمہیں۔"ہاشم مبین نے بلند آواز میں پوچھا۔
"بابا ! میں کسی مسلمان سے شادی کروں گی۔"ہاشم مبین کو لگا آسمان ان کے سر پر گر پڑا تھا۔
"کیا۔۔۔۔۔کہا تم نے۔۔۔۔۔؟"انہوں نے بےیقینی سے کہا۔
"میں کسی غیر مسلم سے شادی نہیں کروں گی کیونکہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"
کمرے میں اگلے کئی منٹ تک مکمل خاموشی رہی۔سلمیٰ کو جیسے سکتہ ہو گیا تھا اور ہاشم مبین۔۔۔۔۔وہ ایک پتھر کے مجسمے کی طرح اسے دیکھ رہے تھے۔ان کا منہ کھلا ہوا تھا وہ جیسے سانس لینا بھول گئے تھے۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی انہیں زندگی میں اپنی اولاد اور وہ بھی اپنی سب سے لاڈلی بیٹی کے سامنے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کے چالیس سال مکمل طور پر بھنور کی زد میں آ گئے تھے۔
"تم کیا بکواس کر رہی ہو۔"ہاشم مبین کے اندر اشتعال کی ایک لہر اٹھی تھی۔
"بابا ! آپ جانتے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔"
"تم پاگل ہو گئی ہو۔"انہوں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا۔امامہ نے کچھ کہنے کی بجائے نفی میں گردن ہلائی۔وہ ہاشم مبین کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی تھی۔"اس لیے تمہیں پیدا کیا۔۔۔۔۔تمہاری پرورش کی کہ تم۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔"ہاشم مبین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہیں۔"صرف اسجد سے شادی نہ کرنے کے لیے تم یہ سب کر رہی ہو ، صرف اس لیے کہ تمہاری شادی اس آدمی سے کر دیں جس سے تم چاہتی ہو۔"
"نہیں ، ایسا نہیں ہے۔"
"ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔تم بےوقوف سمجھتی ہو مجھے۔"ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
"آپ میری شادی کسی بھی آدمی سے کریں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔بس وہ آپ کی کمیونٹی سے نہ ہو۔۔۔۔۔پھر آپ کم از کم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میں کسی خاص آدمی کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔"
ہاشم مبین اس کی بات پر دانت پیسنے لگے۔
"تم جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار۔۔۔۔۔۔تمہیں پتا کیا ہے۔۔۔۔۔"
"میں سب جانتی ہوں بابا ! میری عمر بیس سال ہے ، میں آپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والی بچی نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ کے اس مذہب کی وجہ سے ہمارے خاندان پر بڑی برکات نازل کی گئی ہیں۔"
وہ بڑے مستحکم اور ہموار انداز میں کہتی گئی۔"تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔بخشش نہیں ہو گی تمہاری۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
ہاشم مبین غصے کے عالم میں انگلی اٹھا کر بولنے لگے۔امامہ کو ان پر ترس آنے لگا۔اسے دوزخ میں کھڑے ہو کر دوزخ سے ڈرانے والے شخص پر ترس آیا ، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پھرنے والے شخص پر ترس آیا ، اسے مہر شدہ دل والے آدمی پر ترس آیا ، اسے نفس زدہ آدمی پر ترس آیا ، اسے گمراہی کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑے آدمی پر ترس آیا۔
"تم گمراہی کے رستے پر چل پڑی ہو۔۔۔۔۔چند کتابیں پڑھ کر تم ۔۔۔۔۔۔"امامہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
"آپ اس بارے میں مجھ سے بحث نہیں کر سکیں گے ، میں سب کچھ جانتی ہوں ، تحقیق کر چکی ہوں ، تصدیق کر چکی ہوں۔آپ مجھے کیا بتائیں گے ، کیا سمجھائیں گے۔آپ نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا ہے ، میں نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا۔آپ وہ کر رہے ہیں جو آپ صحیح سمجھتے ہیں ،میں وہ کر رہی ہوں جو میں صحیح سمجھتی ہوں۔"آپ کا عقیدہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔میرا عقیدہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔کیا اب یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ میرے اس فیصلے کو قبول کر لیں ، جذباتی حماقت کی بجائے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جانے والا قدم سمجھ کر۔"
اس نے بڑی رسانیت اور سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ہاشم مبین کی ناراضی میں اور اضافہ ہوا۔
"میں۔۔۔۔۔میں اپنی بیٹی کو مذہب بدلنے دوں تاکہ پوری کمیونٹی میرا بائیکاٹ کر دے۔۔۔۔۔میں فٹ پاتھ پر آ جاؤں۔۔۔۔۔نہیں امامہ ! یہ نہیں ہو سکتا۔تمہارا اگر دماغ بھی خراب ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا دماغ بھی خراب ہو جائے۔کوئی بھی مذہب اختیار کرو مگر تمہاری شادی میں اسجد سے ہی کروں گا ، تمہیں اسی کے گھر جانا ہو گا۔۔۔۔۔اس کے گھر چلی جاؤ اور پھر وہاں جا کر طے کرنا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ہو سکتا ہے تمہیں عقل آ جائے۔"
وہ غصے کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔
"مجھے پتا ہوتا کہ تمہاری وجہ سے ہمیں اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتی۔"ہاشم مبین کے جاتے ہی سلمیٰ نے کھڑے ہوتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔"تم نے ہماری عزت خاک میں ملانے کا تہیہ کر لیا ہے۔"
امامہ کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔وہ کچھ دیر اسی طرح بولتی رہیں پھر کمرے سے چلی گئیں۔
انہیں اس کے کمرے سے گئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دروازے پر دستک دے کر اسجد اندر داخل ہوا۔امامہ کو اس کے اس وقت وہاں آنے کی توقع نہیں تھی۔اسجد کے چہرے پر پریشانی بہت نمایاں تھی۔یقیناً اسے ہاشم مبین نے بلوایا تھا اور وہ اسے سب کچھ بتا چکے تھے۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے امامہ؟"اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھتے رہی۔
"تم کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ۔"
"اسجد ! تمہیں اگر یہ بتا دیا گیا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں تو پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہو گا کہ میں کیوں کر رہی ہوں۔"
"تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کیا کر رہی ہو۔"وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"مجھے اندازہ ہے۔"
"اس عمر میں انسان جذبات میں آ کر بہت سے غلط فیصلے کر لیتا ہے۔۔۔۔۔"
امامہ نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔"جذبات میں آ کر۔۔۔۔۔؟کوئی جذبات میں آ کر مذہب تبدیل کرتا ہے؟کبھی نہیں۔۔۔۔۔میں چار سال سے اسلام کے بارے میں پڑھ رہی ہوں ، چار سال کم نہیں ہوتے۔"
"تم لوگوں کی باتوں میں آ گئی ہو۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
"نہیں ، میں کسی کی باتوں میں نہیں آئی۔میں نے جس چیز کو غلط سمجھا اسے چھوڑ دیا اور بس۔"
وہ کچھ دیر بےچارگی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹکتےہوئے اس نے کہا۔
"ٹھیک ہے ان سب باتوں کو چھوڑو ، شادی پر کیوں اعتراض ہے تمہیں۔۔۔۔۔تمہارے عقائد میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ایک طرف۔کم از کم شادی تو ہونے دو۔"
"میری اور تمہاری شادی جائز نہیں۔"
وہ اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔"کیا میں غیر مسلم ہوں؟"
"ہاں ، تم ہو۔۔۔۔۔"
"انکل ٹھیک کہہ رہے تھے کسی نے واقعی تمہارا برین واش کر دیا ہے۔"اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"پھر تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو۔بہتر ہے تم کسی اور سے شادی کرو۔"اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"میں نہیں چاہتا کہ تم اپنی زندگی برباد کر لو۔"وہ اس کی بات پر عجیب سے انداز میں ہنسی۔
"زندگی برباد۔۔۔۔۔کون سی زندگی۔۔۔۔۔یہ زندگی جو میں تم جیسے لوگوں کے ساتھ گزار رہی ہوں۔جنہوں نے پیسے کے لیے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔۔۔۔۔"
"Behave yourself ۔۔۔۔۔تم بات کرنے کے تمام مینرز بھول گئی ہو۔کس کے بارے میں کیا کہنا چاہئیے اور کیا نہیں ، تم نے سرے سے ہی فراموش کر دیا ہے۔"اسجد اسے ڈانٹنے لگا۔
"میں ایسے کسی شخص کا احترام نہیں کر سکتی جو لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو۔"امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
"جس عمر میں تم ہو۔۔۔۔۔اس عمر میں ہر کوئی اسی طرح کنفیوز ہو جاتا ہے جس طرح تم کنفیوز ہو رہی ہو۔جب تم اس عمر سے نکلو گی تو تمہیں احساس ہو گا کہ ہم لوگ صحیح تھے یا غلط۔"۔اسجد نے ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اگر تم لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں غلط ہوں ، تب بھی تم لوگ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔اس طرح مجھے گھر میں قید کر کے کیوں رکھا ہوا ہے اگر تم لوگوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر اتنا یقین ہے تو مجھے اس گھر سے چلے جانے دو۔۔۔۔۔حقیقت کو جانچنے دو۔۔۔۔۔"
"اگر کوئی اپنا ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے پر تل جائے تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا اور وہ بھی ایک لڑکی کو۔۔۔۔۔امامہ ! تم اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھو ، اپنی فیملی کا خیال کرو ، تمہاری وجہ سے سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔"
"میری وجہ سے کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔اور اگر کچھ داؤ پر لگا بھی ہے تو میں اس کی پرواہ کیوں کروں۔میں تم لوگوں کے لئے دوزخ میں کیوں جاؤں ، صرف خاندان کے نام کی خاطر اپنا ایمان کیوں گنواؤں۔نہیں اسجد ! میں تم لوگوں کے ساتھ گمراہی کے اس راستے پر نہیں چل سکتی۔مجھے وہ کرنے دو جو میں کرنا چاہتی ہوں۔"اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
"مجھ سے اگر تم نے زبردستی شادی کر بھی لی تو بھی تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔میں تمہاری بیوی نہیں بنوں گی ، میں تم سے وفا نہیں کروں گی۔مجھے جب بھی موقع ملے گا ، میں بھاگ جاؤں گی۔تم آخر کتنے سال مجھے اس طرح قید کر کے رکھ سکو گے ، کتنے سال مجھ پر پہرے بٹھاؤ گے۔۔۔۔۔مجھے صرف چند لمحے چاہئیے ہوں گے تمہارے گھر ، تمہاری قید سے بھاگ جانے کے لیے ۔۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔۔میں تمہارے بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤں گی۔تم ساری عمر انہیں دوبارہ دیکھ نہیں سکو گے۔"
وہ اسے مستقبل کا نقشہ دکھا کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میں کبھی امامہ ہاشم جیسی لڑکی سے شادی نہ کروں۔۔۔۔۔یہ سراسر خسارے کا سودا ہو گا۔۔۔۔۔حماقت اور بےوقوفی کی انتہا ہو گی۔۔۔۔۔تم اب بھی سوچ لو۔۔۔۔۔اب بھی پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔تمہارے سامنے تمہاری ساری زندگی پڑی ہے۔۔۔۔۔تم کسی بھی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے پُر سکون زندگی گزار سکتے ہو۔۔۔۔۔کسی پریشانی۔۔۔۔۔کسی بےسکونی کے بغیر مگر میرے ساتھ نہیں۔میں تمہارے لیے بدترین بیوی ثابت ہوں گی ، تم اس سارے معاملے سے الگ ہو جاؤ ، شادی سے انکار کر دو ، انکل اعظم سے کہہ دو کہ تم مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے یا کچھ عرصے کے لیے گھر سے غائب ہو جاؤ۔جب تمام معاملہ ختم ہو جائے تو پھر آ جانا۔"
"تم مجھے اس طرح کے احمقانہ مشورے مت دو ، میں کسی بھی قیمت پر تم سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔کسی بھی قیمت پر۔نہ میں انکار کروں گا ، نہ اس معاملے سے الگ ہوں گا ، نہ ہی گھر سے کہیں جاؤں گا ۔۔۔۔۔میں تم سے ہی شادی کروں گا امامہ ! اب یہ ہمارے خاندان کی عزت اور ساکھ کا معاملہ ہے۔یہ شادی نہ ہونے اور تمہارے گھر سے چلے جانے سے ہمارے پورے خاندان کو جتنا نقصان اٹھانا پڑے گا اس کا تمہیں بالکل اندازہ نہیں ورنہ تم مجھے کبھی یہ مشورہ نہ دیتیں۔جہاں تک بُری بیوی ثابت ہونے یا گھر سے بھاگ جانے کا تعلق ہے۔۔۔۔۔تو یہ سب بعد کا مسئلہ ہے۔میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، تم اس طرح کے ٹمپرامنٹ کی مالک نہیں ہو کہ دوسروں کو بےجا پریشان کرتی رہو۔۔۔۔۔اور وہ بھی مجھے ، جس سے تمہیں محبت ہے۔"اسجد بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
"تمہیں غلط فہمی ہے ، مجھے کبھی بھی تم سے محبت نہیں رہی۔۔۔۔۔کبھی بھی۔۔۔۔۔میں ذہنی طور پر تمہارے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کو اس وقت سے ذہن سے نکال چکی ہوں جب میں نے اپنا مذہب چھوڑا تھا۔تم میری زندگی میں اب کہیں نہیں ہو ، کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔اگر میں اپنے گھر والوں کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہوں تو کل تمہارے لیے کتنے مسائل کھڑے کروں گی تمہیں اس کا احساس ہونا چاہئیے اور اس غلط فہمی سے باہر نکل آنا چاہئیے۔۔۔۔۔ہم دونوں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔میں تم لوگوں کے خاندان کا حصہ کبھی نہیں بنوں گی۔
نہیں اسجد ! تمہارے اور میرے درمیان بہت فاصلہ ہے ، اتنا فاصلہ کہ میں تمہیں دیکھ تک نہیں سکتی اور میں اس فاصلے کو کبھی ختم نہیں ہونے دوں گی۔میں کبھی بھی تم سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔"
اسجد بدلتی ہوئی رنگت کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"کیا تم میرا ایک کام کر سکتے ہو؟"
"تمہارا کیا خیال ہے اب تک میں اس کے علاوہ کیا کر رہا ہوں۔"سالار نے پوچھا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ، پھر اس نے کہا۔"کیا تم لاہور جا کر جلال سے مل سکتے ہو۔"سالار نے ایک لمحہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں۔
"کس لئے۔"اسے امامہ کی آواز بہت بھاری لگ رہی تھی۔یوں جیسے اسے فلو تھا پھر اچانک اس کو خیال آیا کہ وہ یقیناً روتی رہی ہو گی۔یہ اسی کا اثر تھا۔
"تم میری طرف سے اس سے ریکویسٹ کرو کہ وہ مجھ سے شادی کر لے۔۔۔۔۔ہمیشہ کے لیے نہیں تو کچھ دنوں کے لیے ہی۔۔۔۔۔میں اس گھر سے نکلنا چاہتی ہوں اور میں کسی کی مدد کے بغیر یہاں سے نہیں نکل سکتی۔۔۔۔۔بس وہ مجھ سے نکاح کر لے۔"
"تمہارا تو اس سے فون پر رابطہ ہے تو پھر تم یہ سب خود اس سے فون پر کیوں نہیں کہہ دیتیں۔"سالار نے چپس کھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے اسے مشورہ دیا۔
"میں کہہ چکی ہوں۔"اسے امامہ کی آواز پہلے سے زیادہ بھرائی ہوئی لگی۔
"پھر؟"
"اس نے انکار کر دیا ہے۔"
"ویری سیڈ۔"سالار نے افسوس کا اظہار کیا۔
"تو یہ ون سائیڈڈ لو افئیر تھا۔"اس نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔
"نہیں۔"
"تو پھر اس نے انکار کیوں کر دیا؟"
"تم یہ جان کر کیا کرو گے۔"وہ کچھ چڑ کر بولی۔سالار نے ایک اور چپس اپنے منہ میں ڈالا۔
"میرے وہاں جا کر اس سے بات کرنے سے کیا ہو گا ، بہتر ہے تم ہی دوبارہ اس سے بات کر لو۔"
"وہ مجھ سے بات نہیں کر رہا ، وہ فون نہیں اٹھاتا۔ہاسپٹل میں بھی کوئی اسے فون پر نہیں بلا رہا۔وہ جان بوجھ کر کترا رہا ہے۔"امامہ نے کہا۔
"تو پھر تم اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو ، جانے دو اسے۔وہ تم سے محبت نہیں کرتا۔"
"تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے ، تم صرف میری مدد کرو ، ایک بار جا کر اسے میری صورت حال کے بارے میں بتاؤ ، وہ مجھ سے اس طرح نہیں کر سکتا۔"
"اور اگر اس نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا تو۔"
"پھر بھی تم اس سے بات کرنا ، شاید۔۔۔۔۔شاید کوئی صورت نکل آئے ، میرا مسئلہ حل ہو جائے۔"
سالار کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اسے امامہ کے حال پر ہنسی آ رہی تھی۔
فون بند کرنے کے بعد چپس کھاتے ہوئے بھی وہ اس سارے معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اس سارے معاملے میں زیادہ سے زیادہ انوالو ہوتا جا رہا تھا۔یہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر محسوس ہو رہا تھا۔پہلے امامہ تک فون پہنچانا اور اب جلال سے رابطہ۔۔۔۔۔امامہ کا بوائے فرینڈ ۔۔۔۔۔اس نے چپس کھاتے ہوئے زیرِ لب دُہرایا۔امامہ نے اسے اس کے ہاسپٹل اور گھر کے تمام کوائف سے آگاہ کر دیا تھا اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ اسے جلال انصر سے مل کر کیا کہنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار نے اس شخص کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور وہ خاصا مایوس ہوا۔سامنے کھڑا لڑکا بڑی عام سی شکل و صورت کا تھا۔سالار کے لمبے قد اور خوبصورت جسم نے اسے صنفِ مخالف کے لئے کسی حد تک پرکشش بنا دیا تھا مگر سامنے کھڑا ہوا وہ شخص ان دونوں چیزوں سے محروم تھا۔وہ نارمل قد و قامت کا مالک تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی نہ ہوتی تو وہ پھر بھی قدرے بہتر نظر آتا۔سالار سکندر کو جلال انصر سے مل کر مایوسی ہوئی تھی۔امامہ اب اسے پہلے سے زیادہ بےوقوف لگی۔
"میں جلال انصر ہوں ، آپ ملنا چاہتے ہیں مجھ سے؟"
"میرا نام سالار سکندر ہے۔"سالار نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"معاف کیجئیے گا مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔"
"ظاہر ہے آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں۔میں پہلی بار آپ سے مل رہا ہوں۔"
سالار اس وقت جلال کے ہاسپٹل میں اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا۔چند لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کرنے پر وہ اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔اس وقت وہ ڈیوٹی روم کے باہر کھڑے تھے۔
"کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟"جلال اب کچھ حیران نظر آیا۔
"بیٹھ کر بات۔۔۔۔۔مگر کس سلسلے میں۔"
"امامہ کے سلسلے میں۔"
جلال کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔"آپ کون ہیں؟"
"میں اس کا دوست ہوں۔"جلال کے چہرے کا رنگ ایک بار پھر بدل گیا۔وہ چپ چاپ ایک طرف چلنے لگا۔سالار اس کے ساتھ تھا۔
"پارکنگ میں میری گاڑی کھڑی ہے ، وہاں چلتے ہیں۔"سالار نے کہا۔
گاڑی تک پہنچنے اور اس کے اندر بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔
"میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔"سالار نے کہنا شروع کیا۔
"امامہ چاہتی تھی کہ میں آپ سے بات کروں۔"
"امامہ نے کبھی مجھ سے آپ کا ذکر نہیں کیا۔"جلال نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا۔
"آپ امامہ کو کب سے جانتے ہیں؟"
"تقریباً بچپن سے۔۔۔۔۔ہم دونوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔بڑی گہری دوستی ہے ہماری۔"
سالار نہیں جانتا اس نے آخری جملہ کیوں کہا۔شاید یہ جلال کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ تھے جن سے وہ کچھ اور محفوظ ہونا چاہتا تھا۔وہ جلال کے چہرے پر نمودار ہونے والی ناپسندیدگی دیکھ چکا تھا۔
"امامہ سے میری بہت تفصیلی بات ہو چکی ہے ، اتنی تفصیلی بات کے بعد اور کیا بات ہو سکتی ہے۔"جلال نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"امامہ چاہتی ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔"سالار نے جیسے نیوز بلیٹن پڑھتے ہوئے کہا۔
"میں اپنا جواب اسے بتا چکا ہوں۔"
"وہ چاہتی ہے آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔"
"وہ اس گھر میں اپنے والدین اور گھر والوں کی قید میں ہے۔وہ چاہتی ہے آپ اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو وقتی طور پر اس سے نکاح کریں اور پھر بیلف کی مدد سے اسے چھڑا لیں۔"
"یہ ممکن ہی نہیں ہے ، وہ ان کی قید میں ہے تو نکاح ہو ہی کیسے سکتا ہے۔"
"فون پر۔"
"نہیں ، میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔میں ایسے معاملات میں انوالو ہونا ہی نہیں چاہتا۔"جلال نے کہا۔"میرے والدین مجھے اس شادی کی اجازت نہیں دیں گے اور پھر وہ امامہ کو قبول کرنے پر تیار بھی نہیں ہیں۔"
جلال کی نظریں اب سالار کے بالوں کی پونی پر جمی ہوئی تھیں ، یقیناً سالار کی طرح اس نے بھی اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہو گا۔
"اس نے کہا کہ آپ وقتی طور پر اس سے صرف نکاح کر لیں تاکہ وہ اپنے گھر سے نکل سکے ، بعد میں آپ چاہیں تو اسے طلاق دے دیں۔"
"میں نے کہا نا میں اس کی مدد نہیں کر سکتا اور پھر اس طرح کے معاملات ۔۔۔۔۔آپ خود اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔۔۔اگر وقتی شادی کی بات ہے تو آپ کر لیں۔آخر آپ اس کے دوست ہیں۔"
جلال نے کچھ چھبتے ہوئے انداز میں سالار سے کہا۔"آپ اسلام آباد سے لاہور اس کی مدد کے لیے آ سکتے ہیں تو پھر یہ کام بھی کر سکتے ہیں۔"
"اس نے مجھ سے شادی کا نہیں کہا ، اس لئے میں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔"سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے بےتاثر لہجے میں کہا۔"ویسے بھی وہ آپ سے محبت کرتی ہے ، مجھ سے نہیں۔"
"مگر عارضی شادی یا نکاح میں تو محبت کا ہونا ضروری نہیں۔بعد میں آپ بھی اسے طلاق دے دیں۔"جلال نے مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔
"آپ کا مشورہ میں اسے پہنچا دوں گا۔"سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
"اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر امامہ سے کہیں کہ وہ کوئی اور طریقہ اپنائے۔۔۔۔۔بلکہ آپ کسی نیوز پیپر کے آفس چلے جائیں اور انہیں امامہ کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے زبردستی قید کر رکھا ہے۔جب میڈیا اس معاملے کو ہائی لائٹ کرے گا تو خود ہی وہ امامہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر آپ پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دیں۔"
سالار کو حیرانی ہوئی۔جلال کی تجویز بری نہیں تھی۔واقعی امامہ اس بارے میں کیوں نہیں سوچ رہی تھی۔یہ راستہ زیادہ محفوظ تھا۔
"میں آپ کا یہ مشورہ بھی اسے پہنچا دوں گا۔"
"آپ دوبارہ میرے پاس نہ آئیں بلکہ امامہ سے بھی یہ کہہ دیں کہ وہ مجھ سے کسی بھی طریقے یا ذریعے سے دوبارہ رابطہ نہ کرے۔میرے والدین ویسے بھی میری منگنی کرنے والے ہیں۔"جلال نے جیسے انکشاف کیا۔
""ٹھیک ہے ، میں یہ ساری باتیں اس تک پہنچا دوں گا۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔جلال مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سے اُتر گیا۔
اگر امامہ کو یہ توقع تھی کہ سالار جلال کو اس سے شادی کرنے کے لیے قائل کرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔وہ امامہ سے کوئی ہمدردی رکھتا تھا نہ ہی کسی خوفِ خدا کے تحت اس سارے معاملے میں کودا تھا۔۔۔۔۔اس کے لئے یہ سب کچھ ایک ایڈونچر تھا اور ایڈونچر میں یقیناً جلال سے امامہ کی شادی شامل نہیں تھی۔اگر جلال سے اس کی شادی کے لئے دلائل دینے بھی پڑتے تو وہ کیا دیتا۔اس کے پاس صرف ایک دلیل کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں تھی کہ جلال اور امامہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور یہ وہ دلیل تھی جسے جلال پہلے ہی رد کر چکا تھا۔وہ مذہبی یا اخلاقی حوالوں سے قائل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ خود ان دونوں چیزوں سے نا بلد تھا۔مذہب اور اخلاقیات سے اس کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آخر وہ امامہ کے لیے ایک دوسرے آدمی سے اتنی لمبی بحث کرتا کیوں۔وہ بھی ایسا آدمی جسے دیکھتے ہی اس نے ناپسند کر دیا تھا۔
اور یہ تمام وہ باتیں تھیں جو وہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے سوچ رہا تھا۔وہ آیا اس لیے تھا کیونکہ وہ جلال سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ امامہ کے پیغام پر اس کا ردِ عمل کیا رہتا تھا۔اس نے امامہ کا پیغام اسی کے لفظوں میں کسی اضافے یا ترمیم کے بغیر پہنچا دیا تھا اور اب وہ جلال کا جواب لے کر واپس جا رہا تھا اور خاصا محفوظ ہو رہا تھا۔آخر اس پیغام کے جواب میں وہ کیا کرے گی ، کہے گی۔اسجد سے شادی تو وہ نہیں کرے گی ، جلال اس سے شادی کرنے پر تیار نہیں ، گھر سے وہ نکل نہیں سکتی ، کوئی اور ایسا آدمی نہیں جو اس کی مدد کے لیے آ سکے پھر آخر وہ آگے کیا کرے گی۔عام طور پر لڑکیاں ان حالات میں خودکشی کرتی ہیں۔اوہ یس۔۔۔۔۔وہ یقیناً اب مجھ سے زہر یا ریوالور پہنچانے کی خواہش کرے گی۔
سالار متوقع صورت حال کے بارے میں سوچ کر پُر جوش ہو رہا تھا۔"خودکشی۔۔۔۔۔ویری ایکسائیٹنگ۔
"آخر اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تم مجھ سے شادی کرو گے؟" سالار کو جیسے شاک لگا۔"فون پر نکاح؟" وہ کچھ دیر کے لئے بول نہیں سکا۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد اس نے امامہ کو جلال کا جواب بالکل اسی طرح سے پہنچا دیا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اب رونا دھونا شروع کرے گی اور پھر اس سے کسی ہتھیار کی فرمائش کرے گی، مگر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش رہی پھر اس نے سالار سے جو کہا تھا اس نے چند ثانیوں کے لئے سالار کے ہوش گم کر دئیے تھے۔
"مجھے صرف کچھ دیر کے لئے تمہارا ساتھ چاہئیے۔ تاکہ میرے والدین اسجد کے ساتھ میری شادی نہ کر سکیں اور پھر تم بیلف کے ذریعے مجھے یہاں سے نکال لو۔ اس کے بعد مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہے گی اور میں کبھی بھی اپنے والدین کو تمہارا نام نہیں بتاؤں گی۔" وہ اب کہہ رہی تھی۔
"اوکے کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر یہ بیلف والا کام تھوڑا مشکل ہے۔ اس میں بہت سی legalities انوالو ہو جاتی ہیں۔ وکیل کو ہائر کرنا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔"امامہ نے دوسری طرف سے اس کی بات کاٹ دی۔"تم اپنے فرینڈز سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہو۔ تمہارے فرینڈز تو اس طرح کے کاموں میں ماہر ہوں گے۔"
سالار کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے۔"کس طرح کے کاموں میں۔"
"اسی طرح کے کاموں میں۔"تم کیسے جانتی ہو۔"
"وسیم نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری کمپنی اچھی نہیں ہے۔"
امامہ کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔ یہ جملہ مناسب نہیں تھا۔
"میری کمپنی بہت اچھی ہے، کم از کم جلال انصر کی کمپنی سے بہتر ہے۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اس بار بھی خاموش رہی۔
"بہرحال میں دیکھتا ہوں، میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں۔"سالار کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد بولا۔" مگر تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ یہ کام بہت رسکی ہے۔"
"میں جانتی ہوں مگر ہو سکتا ہے میرے والدین صرف یہ پتا چلنے پر ہی مجھے گھر سے نکال دیں کہ میں شادی کر چکی ہوں اور مجھے بیلف کی مدد لینی نہ پڑے یا ہو سکتا ہے وہ میری شادی کو قبول کر لیں اور پھر میں تم سے طلاق لے کر جلال سے شادی کر سکوں۔"
سالار نے سر کو قدرے افسوس کے عالم میں جھٹکا۔ اس نے دنیا میں اس طرح کا احمق پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ احمقوں کی جنت کی ملکہ تھی یا شاید ہونے والی تھی۔
"چلو دیکھتا ہوں، کیا ہوتا ہے۔" سالار نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔" حسن نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر بےاختیار ہنسا۔
"یہ اس سال کا نیا ایڈونچر ہے یا آخری ایڈونچر؟"
"آخری ایڈونچر۔"سالار نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ تبصرہ کیا۔"یعنی تم شادی کر رہے ہو۔"
حسن نے برگر کھاتے ہوئے کہا۔
"شادی کا کون کہہ رہا ہے۔" سالار نے اسے دیکھا۔
"تو پھر؟"
"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے، میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔" حسن اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"آج تم مذاق کے موڈ میں ہو؟"
"نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میں نے تمہیں یہاں مذاق کرنے کے لئے تو نہیں بلایا۔"
"پھر کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔ نکاح۔۔۔۔۔ لڑکی کی مدد۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔" اس بار حسن نے قدرے ناگواری سے کہا۔" محبت ہو گئی ہے تمہیں اس سے؟"
"مائی فٹ۔۔۔۔۔ میرا دماغ خراب ہے کہ میں کسی سے محبت کروں گا اور وہ بھی اس عمر میں۔" سالار نے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہی تو۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ پھر تم کیا کر رہے ہو۔"
سالار نے اس بار اسے تفصیل سے امامہ اور اس کے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ اس نے احسن کو صرف یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ لڑکی وسیم کی بہن ہے کیونکہ حسن وسیم سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن اس سے تفصیلات سننے کے بعد حسن نے پہلا سوال ہی یہ کیا تھا۔
"وہ لڑکی کون ہے؟" سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
"وسیم کی بہن۔"
"واٹ۔" حسن بے اختیار اچھلا۔"وسیم کی بہن۔۔۔۔۔ وہ جو میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔"
"ہاں۔"
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ، تم کیوں خوامخواہ اس طرح کی حماقت کر رہے ہو۔وسیم کو بتا دو اس سارے معاملے کے بارے میں۔"
"میں تم سے مدد مانگنے آیا ہوں ، مشورہ مانگنے نہیں۔"سالار نے ناگواری سے کہا۔
"میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔"حسن نے کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"تم نکاح خواں اور کچھ گواہوں کا انتظام کرو ، تاکہ میں اس سے فون پر نکاح کر سکوں۔"سالار نے فوراً ہی کام کی بات کی۔
"مگر تمہیں یہ نکاح کر کے کیا فائدہ ہو گا۔"
"کچھ بھی نہیں ، مگر میں کسی فائدے کے بارے میں سوچ بھی کب رہا ہوں۔"
"دفع کرو سالار ! اس سب کو۔۔۔۔۔تم کیوں کسی دوسرے کے معاملے میں کود رہے ہو اور وہ بھی وسیم کی بہن کے معاملے میں۔۔۔۔۔بہتر۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار درشتی سے اس کی بات کاٹی۔"تم مجھے صرف یہ بتاؤ میری مدد کرو گے یا نہیں۔۔۔۔۔باقی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے ، میں تمہاری مدد کروں گا۔میں مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہوں ، مگر تم یہ سوچ لو کہ یہ سب بہت خطرناک ہے۔"حسن نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
"میں سوچ چکا ہوں ، تم مجھے تفصیلات بتاؤ۔"سالار نے اس بار فرنچ فرائز کھاتے ہوئے کچھ مطمئن انداز میں کہا۔
"بس ایک بات۔۔۔۔۔اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔"
"انہیں پتا نہیں چلے گا ، وہ یہاں نہیں ہیں ، کراچی گئے ہوئے ہیں اور ابھی کچھ دن وہاں رکیں گے۔وہ یہاں ہوتے پھر میرے لیے یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا۔"سالار نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔وہ اپنا برگر تقریباً ختم کر چکا تھا۔حسن اب اپنا برگر کھاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا نظر آ رہا تھا مگر سالار اس کے تاثرات کی طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ حسن اس وقت اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہے۔اسے حسن سے کسی قسم کا خوف یا خطرہ نہیں تھا۔وہ اس کا بہترین دوست تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسن نے نکاح کے انتظامات بہت آسانی سے کر لیے تھے۔سالار نے اسے کچھ رقم دی تھی جس سے اس نے تین گواہوں کا انتظام کر لیا تھا۔چوتھے گواہ کے طور پر وہ خود موجود تھا۔نکاح خواہ کو اندازہ تھا کہ اس نکاح میں کوئی غیر معمولی کہانی تھی۔مگر اسے بھاری رقم کے ساتھ اتنی دھمکیاں بھی دے دی گئی تھیں کہ وہ خاموش ہو گیا۔
حسن سہ پہر کے وقت اس نکاح خواں اور تینوں گواہوں کو لے آیا تھا۔وہ سب سالار کے کمرے میں چلے گئے تھے۔وہیں بیٹھ کر نکاح نامہ بھرا گیا تھا۔سالار امامہ کو اس بارے میں پہلے ہی انفارم کر چکا تھا۔مقررہ وقت پر فون پر نکاح خواں نے ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا تھا۔سالار نے ملازمہ کے ذریعے امامہ کو پیپرز بھجوا دیے تھے۔امامہ نے پیپرز لیتے ہی برق رفتاری سے ان پر سائن کر کے ملازمہ کو واپس دے دئیے تھے۔ملازمہ ان پیپرز کو واپس سالار کے پاس لے آئی تھی ، مگر وہ بری طرح تجسس کا شکار تھی۔
آخر وہ لوگ کون تھے جو سالار کے کمرے میں تھے اور یہ پیپرز کیسے تھے جن پر امامہ نے سائن کیا تھا۔اس کا ماتھا ٹھٹک رہا تھا اور اسے شبہ ہو رہا تھا کہ ہو نہ ہو وہ دونوں آپس میں شادی کر رہے تھے۔سالار کو پیپرز واپس دیتے ہوئے وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکی تھی۔
"یہ کس چیز کے کاغذ ہیں سالار صاحب؟"اس نے بظاہر سادگی اور معصومیت سے پوچھا۔
"تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔جیسے بھی پیپرز ہوں۔۔۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔"سالار نے درشتی سے اسے جھڑک دیا۔
"اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو ، اس سارے معاملے کے بارے میں اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا بلکہ بہت بہتر ہو گا۔۔۔۔۔"
"مجھے کیا ضرورت ہے جی کسی سے بھی اس بارے میں بات کرنے کی۔میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔آپ اطمینان رکھیں صاحب جی ! میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔"
ملازمہ فوراً گھبرا گئی تھی۔سالار ویسے بھی اتنا اکھڑ مزاج تھا کہ اسے اس سے بات کرتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔سالار نے کچھ نخوت بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا کہ ملازمہ یہ سب کسی کو بتا سکتی تھی۔اگر بتا بھی دیتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تم ایک بار پھر جلال سے ملو ، ایک بار پھر پلیز۔۔۔۔۔"وہ اس دن اس سے فون پر کہہ رہی تھی۔
سالار اس بات پر چڑ گیا۔"وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا امامہ ! وہ کتنی بار کہہ چکا ہے۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ دوبارہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس نے بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی کوئی منگنی وغیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔"
"وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"امامہ نے بےاختیار اس کی بات کاٹ دی۔"صرف اس لیے کہ میں اس سے دوبارہ کانٹیکٹ نہ کروں ، ورنہ اس کے پیرنٹس اتنی جلدی اس کی منگنی کر ہی نہیں سکتے۔"
"تو جب وہ نہیں چاہتا تم سے شادی کرنا اور کانٹیکٹ کرنا۔۔۔۔۔تو تم کیوں خوار ہو رہی ہو اس کے پیچھے۔"
"کیونکہ میری قسمت میں خواری ہے۔"اس نے دوسری طرف سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اس کا کیا مطلب ہوا؟"وہ اُلجھا۔
"کوئی مطلب نہیں ہے۔نہ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔۔۔تم بس اسے جا کر کہو کہ میری مدد کرے ، وہ حضرت محمد ﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔اس سے کہو کہ وہ آپ ﷺ کے لئے ہی مجھ سے شادی کر لے۔"وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یہ کیا بات ہوئی۔"وہ اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔"کیا یہ بات کہنے سے وہ تم سے شادی کر لے گا۔"
امامہ نے جواب نہیں دیا ، وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔وہ بیزار ہو گیا۔
"تم یا تو رو لو۔۔۔۔۔یا پھر مجھ سے بات کر لو۔"
دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔سالار نے فوراً کال کی۔کال ریسیو نہیں کی گئی۔
پندرہ بیس منٹ کے بعد امامہ نے اسے دوبارہ کال کی۔"اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو کہ تم روؤ گی نہیں تو مجھ سے بات کرو ، ورنہ فون بند کر دو۔"سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"پھر تم لاہور جا رہے ہو۔"اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے اس سے پوچھا۔سالار کو اس کی مستقل مزاجی پر حیرانی ہوئی۔وہ واقعی ڈھیٹ تھی۔وہ اب بھی اپنی ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔
"اچھا ، میں چلا جاؤں گا۔تم نے اپنے گھر والوں کو شادی کے بارے میں بتایا ہے۔"سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"نہیں ، ابھی نہیں بتایا۔"وہ اب خود پر قابو پا چکی تھی۔
"کب بتاؤ گی؟"سالار کو جیسے ڈرامے کے اگلے سین کا انتظار تھا۔
"پتا نہیں۔"وہ کچھ اُلجھی۔"تم کب لاہور جاؤ گے؟"
"بس جلد ہی چلا جاؤں گا۔ابھی یہاں مجھے کچھ کام ہے ورنہ فوراً ہی چلا جاتا۔"
اس بار سالار نے جھوٹ بولا تھا۔نہ تو اسے کوئی کام تھا اور نہ ہی وہ اس بار لاہور جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"جب تم بیلف کے ذریعے اپنے گھر سے نکل آؤ گی تو اس کے بعد تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔آئی مین ! کہاں جاؤ گی؟"سالار نے ایک بار پھر اسے اس موضوع سے ہٹاتے ہوئے کہا۔"اس صورت میں جب جلال بھی تمہاری مدد کرنے پر تیار نہ ہوا تو۔۔۔۔۔"
"میں ابھی ایسا کچھ فرض نہیں کر رہی ، وہ ضرور میری مدد کرے گا۔"امامہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پُر زور انداز میں کہا۔سالار نے کندھے اُچکائے۔
"تم کچھ بھی فرض کرنے کو تیار نہیں ہو ، ورنہ میں تم سے ضرور کہتا کہ شاید وہ نہ ہو جو تم چاہتی ہو پھر تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔تمہیں دوبارہ اپنے پیرنٹس کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔۔۔۔۔تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ تم ابھی یہاں سے نہ جانے کا سوچو۔۔۔۔۔نہ ہی بیلف اور کورٹ کی مدد لو۔بعد میں بھی تو تمہیں یہاں ہی آنا پڑے گا۔"
"میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی ، کسی صورت میں نہیں۔"
"یہ جذباتیت ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔
"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔"امامہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دُہرایا۔سالار کچھ جزبز ہوا۔
"اوکے۔۔۔۔۔کرو جو کرنا چاہتی ہو۔"اس نے لاپرواہی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"کل شام کو ہم لوگ اسجد کے ساتھ تمہارا نکاح کر رہے ہیں۔تمہاری رخصتی بھی ساتھ ہی کر دیں گے۔"
ہاشم مبین نے رات کو اس کے کمرے میں آ کر اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"بابا ! میں انکار کر دوں گی۔۔۔۔۔آپ کے لئے بہتر ہے آپ اس طرح زبردستی میری شادی نہ کریں۔"
"تم انکار کرو گی تو میں تمہیں اسی وقت شوٹ کر دوں گا ، یہ بات تم یاد رکھنا۔"وہ سر اٹھائے انہیں دیکھتی رہی۔
"بابا ! میں شادی کر چکی ہوں۔"ہاشم مبین کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔"میں اس لیے اس شادی سے انکار کر رہی تھی۔"
"تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
"نہیں ، میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔میں چھے ماہ پہلے شادی کر چکی ہوں۔"
"کس کے ساتھ۔"
"میں یہ آپ کو نہیں بتا سکتی۔"
ہاشم مبین کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس اولاد کے ہاتھوں ا تنا خوار ہوں گے۔آگ بگولہ ہو کر وہ امامہ پر لپکے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کر دئیے۔وہ چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ کرتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہی۔کمرے میں ہونے والا شور سن کر وسیم سب سے پہلے وہاں آیا تھا اور اسی نے ہاشم مبین کو پکڑ کر زبردستی امامہ سے دور کیا۔وہ دیوار کے ساتھ پشت ٹکائے روتی رہی۔
"بابا ! آپ کیا کر رہے ہیں ، سارا معاملہ آرام سے حل کیا جا سکتا ہے۔"وسیم کے پیچھے گھر کے باقی لوگ بھی اندر چلے آئے تھے۔
"اس نے۔۔۔۔۔اس نے شادی کر لی ہے کسی سے۔"ہاشم مبین نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
"بابا ! جھوٹ بول رہی ہے ، شادی کیسے کر سکتی ہے۔ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی۔"یہ وسیم تھا۔
"چھے ماہ پہلے شادی کر لی ہے اس نے۔"امامہ نے سر نہیں اٹھایا۔
"نہیں ، میں نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہو سکتا ، یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔"وسیم اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔امامہ نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔
"ایسا ہو چکا ہے۔"
"کیا ثبوت ہے۔۔۔۔۔نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟"وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
"یہاں نہیں ہے ، لاہور میں ہے ، میرے سامان میں۔"
"بابا ! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے آتا ہوں۔دیکھ لیتے ہیں۔"وسیم نے ہاشم مبین سے کہا۔امامہ بےاختیار پچھتائی۔سامان سے کیا مل سکتا تھا۔
"شادی کر بھی لی ہے تو کوئی بات نہیں ، طلاق دلوا کر تمہاری شادی اسجد سے کرواؤں گا اور اس آدمی نے طلاق نہ دی تو پھر اسے قتل کروا دوں گا۔"ہاشم مبین نے سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے جاتے ہوئے کہا۔کمرہ آہستہ آہستہ خالی ہو گیا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جال میں پھنسنے کے بعد کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔یہ ایک اتفاق تھا کہ نکاح نامے کی کاپی سالار نے اس کو نہیں بھجوائی تھی۔اگر اس کے پاس ہوتی بھی تو تب بھی وہ اسے ہاشم مبین کو نہیں دے سکتی تھی ورنہ سالار سکندر کا نام نکاح نامے پر دیکھنے کے بعد ان کے لئے اس تک پہنچنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا منٹوں کا کام تھا اور اس کے سامان سے نکاح نامہ نہیں ملے گا تو اس کے اس بیان پر کسی کو یقین نہ آ سکتا کہ وہ نکاح کر چکی تھی۔
اس نے کمرے کے دروازے کو لاک کر دیا اور موبائل پر سالار کو کال کرنے لگی۔اس نے اسے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
"تم ایک بار پھر لاہور جاؤ اور جلال کو میرے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔۔میں اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اس کے علاوہ میں کہیں نہیں جا سکتی۔تم میرے لئے ایک وکیل کو ہائر کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے پیرنٹس کو میرے شوہر کی طرف سے مجھے حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف ایک کورٹ نوٹس بھجوائے۔"
"تمہارے شوہر ، یعنی میری طرف سے۔"
"تم وکیل کو اپنا نام مت بتانا بلکہ یہ بہتر ہے کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے وکیل کو ہائر کرو اور میرے شوہر کا کوئی بھی فرضی نام دے سکتے ہو۔تمہارا نام وکیل کے ذریعے انہیں پتا چلے گا تو وہ تم تک پہنچ جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔"
امامہ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے کیا خدشہ ہے اور نہ ہی سالار نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
اس سے بات کرنے کے بعد امامہ نے فون بند کر دیا۔اگلے روز دس گیارہ بجے کے قریب کسی وکیل نے فون کر کے ہاشم مبین سے امامہ کے سلسلے میں بات کی اور انہیں امامہ کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے کئے جانے والے کیس کے بارے میں بتایا۔ہاشم مبین کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس کے کمرے میں گئے اور اسے بری طرح مارا۔
"تم دیکھنا امامہ ! تم کس طرح برباد ہو گی۔۔۔۔۔ایک ایک شے کے لیے ترسو گی تم۔۔۔۔۔جو لڑکیاں تمہاری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کو نیلام کرتی ہیں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔تم ہمیں کورٹ تک لے گئی ہو۔۔۔۔۔۔تم نے وہ سارے احسان فراموش کر دئیے ، جو ہم نے تم پر کئے۔تمہارے جیسی بیٹیوں کو واقعی پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا چاہئیے۔"
وہ بڑی خاموشی سے پٹتی رہی۔اپنے باپ کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی مگر وہ اپنی کیفیات اور اپنے احساسات انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔
"تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ، کسی کو نہیں۔ہمیں زندہ درگور کر دیا ہے تم نے۔"
سلمیٰ اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھیں مگر انہوں نے ہاشم مبین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔وہ خود بھی بری طرح مشتعل تھیں ، وہ جانتی تھیں کہ امامہ کا یہ قدم کس طرح ان کے پورے خاندان کو متاثر کرنے والا تھا اور خاص طور پر ان کے شوہر کو۔
"تم نے ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔کاش تم میری اولاد نہ ہوتیں۔کبھی میرے خاندان میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔پیدا ہو ہی گئی تھی تو تب ہی مر جاتی۔۔۔۔۔یا میں ہی تمہیں مار دیتا۔"امامہ آج ان کی باتوں اور پٹائی پر نہیں روئی تھی۔اس نے مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔وہ صرف خاموشی کے ساتھ پٹتی رہی پھر ہاشم مبین احمد جیسے تھک سے گئے اور اسے مارتے مارتے رک گئے۔ان کا سانس پھول گیا تھا۔وہ بالکل خاموشی سے ان کے سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔
"تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے ، سب کچھ چھوڑ دو۔اس لڑکے سے طلاق لے لو اور اسجد سے شادی کر لو۔ہم اس سب کو معاف کر دیں گے ، بھلا دیں گے۔"اس بار سلمیٰ نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔
"نہیں ، واپس آنے کے لئے اسلام قبول نہیں کیا ،مجھے واپس نہیں آنا۔"امامہ نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔"آپ مجھے اس گھر سے چلے جانے دیں ، مجھے آزاد کر دیں۔"
"اس گھر سے نکل جاؤ گی تو دنیا تمہیں بہت ٹھوکریں مارے گی۔۔۔۔۔تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیسے مگرمچھ تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔جس لڑکے سے شادی کر کے تم نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ تمہیں بہت خوار کرے گا۔ہمارے خاندان کو دیکھ کر اس نے تمہارے ساتھ اس طرح چوری چھپے رشتہ جوڑا ہے ، جب ہم تمہیں اپنے خاندان سے نکال دیں گے اور تم پائی پائی کی محتاج ہو جاؤ گی تو وہ بھی تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا ، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی ، کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔"سلمیٰ اب اسے ڈرا رہی تھیں۔"ابھی بھی وقت ہے امامہ ! تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔"
"نہیں امی ! میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے ، میں سب کچھ طے کر چکی ہوں۔میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکی ہوں۔مجھے یہ سب قبول نہیں۔آپ مجھے جانے دیں ، اپنے خاندان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔جائیداد سے محروم کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی مگر میں کروں گی وہی جو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔میں اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کر چکی ہوں۔آپ یا کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔"
"ایسی بات ہے تو تم اس گھر سے نکل کر دکھاؤ ، میں تمہیں جان سے مار دوں گا لیکن اس گھر سے تمہیں جانے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔اور اس وکیل کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا۔تمہیں اگر یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی کورٹ یا عدالت تمہیں میری تحویل سے نکال سکتی ہے تو یہ تمہاری بھول ہے ، میں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔میں بیلف کے آنے سے پہلے اس گھر سے کہیں اور منتقل کر دوں گا پھر میں دیکھوں گا کہ تم کس طرح اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں اور مجھے اگر وہ لڑکا نہ ملا جس سے تم نے شادی کی ہے تو پھر میں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اسجد سے تمہاری شادی کر دوں گا۔میں اس شادی کو سرے سے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔تمہاری شادی صرف وہ ہو گی جو میری مرضی سے ہو گی ، اس کے علاوہ نہیں۔"وہ مشتعل انداز میں کہتے ہوئے سلمیٰ کے ساتھ باہر نکل گئے۔وہ وہیں دیوار کے ساتھ کھڑی خوفزدہ اور پریشان نظروں سے دروازے کو دیکھتی رہی۔اس نے جس مقصد کے لیے شادی کی تھی اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ہاشم مبین احمد اپنی بات پر چٹان کی طرح اڑے ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"بےچاری امامہ بی بی ! " ناصرہ نے سالار کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اچانک بلند آواز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی ہوئی کتابوں کو سمیٹ رہا تھا۔ناصرہ اسے متوجہ دیکھ کر تیزی سے بولی۔
"بڑی مار پڑی ہے جی کل رات کو۔"
"کس کو مار پڑی ہے؟"سالار نے کتابیں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
"امامہ بی بی کو جی ! اور کسے۔"وہ کتابیں ایک طرف کرتے کرتے رک گیا اور ناصرہ کو دیکھا جو کمرے میں موجود ایک شیلف کی جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔
"ہاشم مبین نے کل بہت مارا ہے اسے۔"
سالار بےحد محفوظ ہوا۔"واقعی؟"
"ہاں جی ، بہت زیادہ پٹائی کی ہے ، میری بیٹی بتا رہی تھی۔"ناصرہ نے کہا۔
"ویری نائس۔"سالار نے بےاختیار تبصرہ کیا۔
"جی۔۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"ناصرہ نے اس سے پوچھا۔
اس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ ناصرہ کو بڑی عجب لگی۔اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس خبر پر مسکرائے گا۔اس کے ذاتی "قیافوں " اور "اندازوں" کے مطابق ان دونوں کے درمیان جیسے تعلقات تھے اس پر سالار کو بہت زیادہ افسردہ ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں صورت ِحال بالکل برعکس تھی۔
"بےچاری امامہ بی بی کو پتا چل جائے کہ سالار صاحب اس خبر پر مسکرا رہے تھے تو وہ تو صدمے سے ہی مر جائیں۔"ناصرہ نے دل میں سوچا۔
"کس بات پر مارنا ہے جی ! سنا ہے وہ اسجد صاحب سے شادی پر تیار نہیں ہیں کسی اور "لڑکے" سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔"ناصرہ نے لڑکے پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں سالار کو دیکھا۔
"بس اس بات پر۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے جی ، ان کے پورے گھر میں طوفان مچا ہوا ہے۔شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے ، کارڈ آ چکے ہیں اور اب امامہ بی بی بضد ہیں کہ وہ اسجد صاحب سے شادی نہیں کریں گی۔بس اسی بات پر ہاشم صاحب نے ان کی پٹائی کی۔"
"یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی کو مارا جائے۔"وہ اپنی کتابوں میں مصروف تھا۔
"یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا۔۔۔۔۔ان لوگوں کے لیے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔"ناصرہ نے اسی طرح صفائی کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔"میں تو بڑی دکھی ہوں ! امامہ بی بی کے لیے۔بڑی اچھی ہیں ، ادب لحاظ والی۔۔۔۔۔اور اب دیکھیں۔۔۔۔۔کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ان پر۔ہاشم صاحب نے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔میری بیٹی روز ان کا کمرہ صاف کرتی ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ بتاتی ہے کہ ان کا تو چہرہ ہی اُتر کر رہ گیا ہے۔"
ناصرہ اسی طرح بول رہی تھی۔شاید وہ شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی تھی کہ سالار اسے اپنا اور امامہ کا حمایتی اور طرف دار سمجھتے ہوئے کوئی راز کہہ دے مگر سالار احمق نہیں تھا اور اسے ناصرہ کی اس نام نہاد ہمدردی سے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔اگر امامہ کی پٹائی ہو رہی تھی اور اسے کچھ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اس سے اس کا کیا تعلق تھا ، مگر اسے اس صورت ِحال پر ہنسی ضرور آ رہی تھی۔کیا اس دور میں بھی کوئی اس عمر کی اولاد پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی ہاشم مبین احمد جیسے امیر طبقے کا آدمی ۔۔۔۔۔حیرانی کی بات تھی۔۔۔۔۔"
سوچ کی ایک ہی رُو میں بہت سے متضاد خیالات بہ رہے تھے۔
ناصرہ کچھ دیر اسی طرح بولتی اپنا کام کرتی رہی مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ سالار اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا اور اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ قدرے مایوس ہو کر خاموش ہو گئی۔"یہ پہلے محبت کرنے والے تھے ، جن کا رویہ بےحد عجیب تھا۔۔۔۔۔کوئی اضطراب۔۔۔۔۔ بےچینی اور پریشانی تو ان دونوں کے درمیان نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی تکلیف کا بھی سن کر ۔۔۔۔۔شاید امامہ بی بی بھی ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات سن کر اسی طرح مسکرائیں ، کون جانتا ہے۔"
ناصرہ نے شیلف پر پڑی ایک تصویر اٹھا کر صاف کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ فیصلوں میں سے ایک تھا مگر اس کے علاوہ اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ہاشم مبین احمد اسے کہاں لے جاتے اور پھر کس طرح اسے طلاق دلوا کر اس کی شادی اسجد سے کرتے ، وہ نہیں جانتی تھی۔واحد چیز جو وہ جانتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ ایک بار وہ اسے کہیں اور لے گئے تو پھر اس کے پاس رہائی اور فرار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے جان سے کبھی نہیں ماریں گے مگر زندہ رہ کر اس طرح کی زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جاتا ، جیسی زندگی کی وہ اس وقت توقع اور تصور کر رہی تھی۔
ہاشم مبین احمد کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک بیٹھ کر روتی رہی اور پھر اس نے پہلی بار اپنے حالات پر غور کرنا شروع کیا۔اسے گھر سے صبح ہونے سے پہلے پہلے نکلنا تھا اور نکل کر کسی محفوظ جگہ پر جا کر پہنچنا تھا۔محفوظ جگہ۔۔۔۔۔؟اس کے ذہن میں ایک بار پھر جلال انصر کا خیال آیا ، اس وقت صرف وہی شخص تھا جو اسے صحیح معنوں میں تحفظ دے سکتا تھا۔ہو سکتا ہے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا فیصلہ اور رویہ بدل جائے ، وہ اپنے فیصلے پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے ، ہو سکتا ہے وہ مجھے سہارا اور تحفظ دینے پر تیار ہو جائے ، اس کے والدین کو مجھ پر ترس آ جائے۔
ایک موہوم سی اُمید اس کے دل میں اُبھر رہی تھی۔وہ مدد نہیں بھی کرتے تب بھی کم از کم میں آزاد تو ہوں گی۔اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار تو سکوں گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں یہاں سے کیسے نکلوں گی اور جاؤں گی کہاں۔۔۔۔۔؟
وہ بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں بیٹھی رہی ، اسے ایک بار پھر سالار کا خیال آیا۔
"اگر میں کسی طرح اس کے گھر پہنچ جاؤں تو وہ میری مدد کر سکتا ہے۔"
اس نے سالار کے موبائل پر اس کا نمبر ملایا۔موبائل آف تھا ، کئی بار کال ملائی لیکن اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔امامہ نے موبائل بند کر دیا۔اس نے ایک بیگ میں اپنے چند جوڑے ، کپڑے اور دوسری چیزیں رکھ لیں۔اس کے پاس کچھ زیورات اور رقم بھی تھی ، اس نے انہیں بھی اپنے بیگ میں رکھ لیا پھر جتنی بھی قیمتی چیزیں اس کے پاس تھیں ، جنہیں وہ آسانی سے ساتھ لے جا سکتی تھی اور بعد میں بیچ کر پیسے حاصل کر سکتی تھی وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھتی گئی۔بیگ بند کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دو نفل ادا کیے۔
اس کا دل بےحد بوجھل ہو رہا تھا۔بےسکونی اور اضطراب نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔آنسو بہا کر بھی اس کے دل کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا۔نوافل ادا کرنے کے بعد جتنی آیات اور سورتیں اسے زبانی یاد تھیں اس نے وہ ساری پڑھ لیں۔
بیگ لے کر اپنے کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔لاؤنج کی ایک لائٹ کے علاوہ ساری لائٹیں آف تھیں۔وہاں زیادہ روشنی نہیں تھی۔وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آ گئی اور پھر کچن کی طرف چلی گئی۔کچن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ محتاط انداز میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے کچن کے اس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو باہر لان میں کھلتا تھا۔عقبی لان کے اس حصے میں کچھ سبزیاں لگائی گئی تھیں اور اس گھر میں کچن کا وہ دروازہ واحد دروازہ تھا جسے لاک نہیں کیا جاتا تھا ، صرف چٹخنی لگا دی جاتی تھی۔دروازہ اس رات بھی لاک نہیں تھا۔وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔کچھ فاصلے پر سرونٹ کوارٹرز تھے ، وہ بےحد محتاط انداز میں چلتے ہوئے لان عبور کر کے اپنے اور سالار کے گھر کی درمیانی دیوار تک پہنچ گئی۔دیوار بہت زیادہ بلند نہیں تھی ، اس نے آہستگی سے بیگ دوسری طرف پھینک دیا اور پھر کچھ جدوجہد کے بعد خود بھی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گہری نیند کے عالم میں سالار نے کھٹکے کی آواز سنی تھی پھر وہ آواز دستک کی آواز میں تبدیل ہو گئی تھی۔رُک رُک کر۔۔۔۔۔مگر مسلسل کی جانے والی دستک کی آواز ۔۔۔۔۔وہ اوندھے منہ پیٹ کے بل سو رہا تھا۔دستک کی اس آواز نے اس کی نیند توڑ دی تھی۔
وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے تاریکی میں اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی۔خوف کی ایک لہر اس کے اندر سرایت کر گئی۔وہ آواز کھڑکیوں کی طرف سے آ رہی تھی۔یوں جیسے کوئی ان کھڑکیوں کو بجا رہا تھا مگر بہت آہستہ آہستہ۔۔۔۔۔یا پھر شاید کوئی ان کھڑکیوں کو ٹٹولتے ہوئے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔سالار کے ذہن میں پہلا خیال کسی چور کا آیا تھا ، وہ سلائیڈنگ ونڈوز تھیں اور بدقسمتی سے وہاں کوئی گرل نہیں تھی۔اس کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ وہ امپورٹڈ گلاس کی بنی ہوئی تھیں جنھیں آسانی سے توڑا یا کاٹا نہیں جا سکتا تھا اور انہیں صرف اندر سے کھولا جا سکتا تھا۔گھر کے چاروں طرف موجود لان میں ویسے بھی رات کو کتے کھلے ہوتے تھے اور ان کے ساتھ تین گارڈز بھی ہوتے تھے۔۔۔۔۔مگر ان تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اس وقت اس کھڑکی کے دوسری طرف موجود چھوٹے سے برآمدے میں کوئی موجود تھا جو اس کھڑکی کو کھولنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
اپنے بیڈ سے دبے قدموں اٹھ کر وہ تاریکی میں ہی کھڑکی کی طرف آیا جس طرف سے آواز آ رہی تھی۔وہ اس کے بالکل مخالف سمت گیا اور بہت احتیاط کے ساتھ اس نے پردے کے ایک سرے کو تھوڑا سا اٹھاتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا۔لان میں لگی روشنیوں میں اس نے کھڑکی کے سامنے جسے کھڑا دیکھا تھا اس نے اسے ہکا بکا کر دیا تھا۔
"یہ پاگل ہے۔"بےاختیار اس کے منہ سے نکلا۔اس وقت اگر لان میں پھرتے چار غیر ملکی نسل کے کتے اسے دیکھ لیتے تو سالار یا کسی بھی دوسرے کے پہنچنے سے پہلے وہ اسے چیر پھاڑ چکے ہوتے اور اگر کہیں گارڈز میں سے کسی نے اسے وہاں دیکھا ہوتا تو بھی وہ تفتیش یا تحقیق پر وقت ضائع کرنے سے پہلے اسے شوٹ کر چکے ہوتے مگر وہ اس وقت بالکل محفوظ وہاں کھڑی تھی اور یقیناً اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر یہاں آئی تھی۔
ہونٹ بھینچے اس نے کمرے کی لائٹ آن کی۔لائٹ آن ہوتے ہی دستک کی آواز رُک گئی۔کتے کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔پردے کھینچتے ہی اس نے سلائیڈنگ ونڈو کو ہٹا دیا۔
"اندر آؤ جلدی۔"سالار نے تیزی سے امامہ سے کہا۔وہ کچھ نروس ہو کر کھڑکی سے اندر آ گئی۔اس کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا۔
پردے برابر کرتے ہی سالار نے مڑکر اس سے کہا۔
"فارگاڈسیک امامہ ! تم پاگل ہو۔"امامہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔وہ اپنا بیگ اپنے پیروں میں رکھ رہی تھی۔
"تم دیوار کراس کر کے آئی ہو؟"
"ہاں۔"
"تمہیں گارڈز یا کتوں میں سے کوئی دیکھ لیتا تو۔۔۔۔۔اس وقت باہر تمہاری لاش پڑی ہوتی۔"
"میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا ، تمہارا موبائل آف تھا ، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔"
سالار نے پہلی بار اس کا چہرہ غور سے دیکھا۔اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرہ ستا ہوا تھا۔وہ بڑی سی سفید چادر لپیٹے ہوئے تھے مگر اس چادر اور اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ مٹی کے داغ تھے۔
"تم مجھے لاہور چھوڑ کر آ سکتے ہو؟"وہ کمرے کے وسط میں کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
"اس وقت؟" اس نے حیرانی سے کہا۔
"ہاں ، ابھی اسی وقت۔میرے پاس وقت نہیں ہے۔"
سالار نے تعجب کے عالم میں وال کلاک پر ایک نظر ڈالی۔"وکیل نے تمہارے گھر فون کیا تھا ، تمہارا مسئلہ حل نہیں ہوا؟"
امامہ نے نفی میں سر ہلایا۔"نہیں ، وہ لوگ مجھے صبح کہیں بھجوا رہے ہیں۔میں تمہیں اسی لیے سارا دن فون کرتی رہی مگر تم نے موبائل آن نہیں کیا۔میں چاہتی تھی تم وکیل سے کہو کہ وہ بیلف کے ساتھ آ کر مجھے وہاں سے آزاد کرائے مگر تم سے کانٹیکٹ نہیں ہوا اور کل اگر تم سے کانٹیکٹ ہوتا بھی تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ لوگ اس سے پہلے ہی مجھے کہیں شفٹ کر دیتے اور یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے یہ پتا ہوتا کہ وہ مجھے کہاں شفٹ کر رہے ہیں۔"
سالار نے جماہی لی۔اسے نیند آ رہی تھی۔"تم بیٹھ جاؤ۔"اس نے امامہ سے کہا۔وہ ابھی تک کھڑی تھی۔
"تم اگر مجھے لاہور نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم بس اسٹینڈ تک پہنچا دو ، میں وہاں سے خود لاہور چلی جاؤں گی۔"اس نے سالار کو نیند میں دیکھ کر کہا۔"میرا اندازہ ہے کہ اس وقت تو کوئی گاڑی لاہور نہیں جا رہی ہو گی۔"
"میں تمہیں صبح۔۔۔۔۔"امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
"نہیں ، صبح نہیں۔میں صبح تک یہاں سے نکل جانا چاہتی ہوں۔اگر لاہور کی گاڑی نہیں ملی تو میں کسی اور شہر کی گاڑی میں بیٹھ جاؤں گی پھر وہاں سے لاہور چلی جاؤں گی۔"
"تم بیٹھو تو سہی۔"سالار نے اس سے ایک بار پھر کہا۔وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔سالار خود ہی اپنے بیڈ کی پائینتی پر بیٹھ گیا۔
"لاہور تم کہاں جاؤ گی؟"اس نے پوچھا۔
"جلال کے پاس۔"
"مگر وہ تو تم سے شادی سے انکار کر چکا ہے۔"
"میں پھر بھی اس کے پاس جاؤں گی ، اسے مجھ سے محبت ہے۔وہ مجھ کو اس طرح بےیارومددگار نہیں چھوڑ سکتا۔میں اس سے اور اس کے گھر والوں سے ریکویسٹ کروں گی۔میں جانتی ہوں وہ میری بات مان لیں گے ، وہ میری صورت ِحال کو سمجھ لیں گے۔"
"مگر تم تو مجھ سے شادی کر چکی ہو۔"امامہ چونک کر سالار کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"پیپر میرج ہے وہ۔۔۔۔۔میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں مجبوراً نکاح کر رہی ہوں ، شادی تو نہیں ہے یہ۔"
وہ اسے پلکیں جھپکائے بغیر گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔"تم جانتی ہو ، میں آج لاہور گیا تھا جلال کے پاس۔"
امامہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔"تم نے اسے میری پریشانی اور صورت ِحال کے بارے میں بتایا؟"
"نہیں۔"سالار نے نفی میں سر ہلایا۔
"کیوں؟"
"جلال نے شادی کر لی ہے۔"سالار نے لاپرواہی سے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔وہ سانس لینا بھول گئی۔پلکیں جھپکائے بغیر وہ کسی بت کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
"تین دن ہو گئے ہیں اس کی شادی کو ، کل پرسوں تک وہ سیر و تفریح کے لئے نادرن ایریاز کی طرف جا رہا ہے۔اس نے میری کوئی بات سننے سے پہلے ہی مجھے یہ سب کچھ بتانا شروع کر دیا تھا۔شاید وہ چاہتا تھا کہ میں اب تمہارے بارے میں بات نہ کروں۔ اس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے۔"سالار بات کرتے کرتے رُک گیا۔"میرا خیال ہے کہ اُس کے گھر والوں نے تمہارے مسئلے کی وجہ سے ہی اس کی اس طرح اچانک شادی کی ہے۔"وہ یکے بعد دیگرے جھوٹ پر جھوٹ بولتا جا رہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آ رہا۔"جیسے کسی خلا سے آواز آئی تھی۔
"ہاں ، مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا اور مجھے توقع تھی کہ تمہیں بھی یقین نہیں آئے گا مگر یہ سچ ہے۔تم فون کر کے اس سے بات کر سکتی ہو اس بارے میں۔"سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
امامہ کو لگا وہ پہلی بار صحیح معنوں میں گھپ اندھیرے میں آ کھڑی ہوئی ہے۔روشنی کی وہ کرن جس کے تعاقب میں وہ اتنا عرصہ چلتی آئی ہے ، ایک دم گل ہو گئی ہے۔راستہ تو ایک طرف ، وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔
"اب تم خود سوچ لو کہ لاہور جا کر تم کیا کرو گی۔وہ تو اب تم سے شادی کر سکتا ہے ، نہ اس کے گھر والے تمہیں پناہ دے سکتے ہیں۔بہتر ہے تم واپس چلی جاؤ ، ابھی تمہارے گھر والوں کو پتا نہیں چلا ہو گا۔"
امامہ نے کہیں بہت دور سے سالار کی آواز آتی سنی۔وہ کچھ نا سمجھنے والے انداز میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
"مجھے لاہور چھوڑ آؤ۔"وہ بڑبڑائی۔
"جلال کے پاس جاؤ گی؟"
"نہیں ، اس کے پاس نہیں جاؤں گی مگر میں اپنے گھر نہیں رہ سکتی۔"
وہ یک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔سالار نے ایک سانس لے کر اُلجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"یا پھر مجھے گیٹ تک چھوڑ آؤ ، میں خود چلی جاتی ہوں۔تم چوکیدار سے کہو وہ مجھے باہر جانے دے۔"اس نے بیگ اٹھا لیا۔
"تمہیں اندازہ ہے کہ یہاں سے بس اسٹینڈ کتنی دور ہے۔اتنی دھند اور سردی میں تم پیدل وہاں تک جا سکو گی۔"
"جب اور کچھ نہیں رہا میرے پاس تو دھند اور سردی سے مجھے کیا ہو گا۔"سالار نے اسے گیلی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں کو رگڑ رہی تھی۔سالار اس کے ساتھ کہیں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔لاہور تو بہت دور کی بات تھی ، اسے ابھی بھی نیند آ رہی تھی اور وہ سامنے کھڑی لڑکی کو ناپسند کرتا تھا۔
"ٹھہرو ، میں چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔"وہ نہیں جانتا اس کی زبان سے جملہ کیوں اور کیسے نکلا۔
امامہ نے اسے ڈریسنگ روم کی طرف جاتے دیکھا۔وہ کچھ دیر بعد باہر نکلا تو شب خوابی کے لباس کے بجائے ایک جینز اور سویٹر میں ملبوس تھا۔اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اس نے کی چین اور گھڑی کے ساتھ ساتھ اپنا والٹ بھی اٹھایا۔امامہ کے قریب آ کر اس نے بیگ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
"نہیں ، میں خود اٹھا لوں گی۔"
"اٹھا لیتا ہوں۔"اس نے بیگ لے کر کندھے پر ڈال دیا۔وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے پورچ میں آ گئے۔سالار نے اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا اور بیگ کو پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔
گاڑی گیٹ کی طرف آتے دیکھ کر چوکیدار نے خود ہی گیٹ کھول دیا تھا مگر اس کے قریب سے گزرتے ہوئے سالار نے اس کی آنکھوں میں اس حیرت کو دیکھ لیا تھا جو اس کی نظروں میں رات کے اس وقت فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھ کر آئی تھی۔یقیناً وہ حیران ہوا ہو گا کہ وہ لڑکی اس وقت اس گھر میں کہاں سے آئی تھی۔
"تم مجھے بس اسٹینڈ پر چھوڑو گے؟"مین روڈ پر آتے ہی امامہ نے اس سے پوچھا۔سالار نے ایک نظر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"نہیں ، میں تمہیں لاہور لے جا رہا ہوں۔"اس کی نظریں سڑک پر مرکوز تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاڑی اس بڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی جو تقریباً سنسان تھی۔ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔
اسٹئیرنگ پر دایاں ہاتھ رکھے اس نے بائیں ہاتھ کو منہ کے سامنے رکھ کر جماہی روکی اور نیند کے غلبے کو بھگانے کی کوشش کی۔اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی امامہ بےآواز رو رہی تھی اور سالار اس بات سے باخبر تھا۔وہ وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھتی اور اپنی ناک رگڑ لیتی۔۔۔۔۔اور پھر سامنے ونڈ اسکرین سے باہر سڑک پر نظریں جما کر رونا شروع کر دیتی۔
سالار وقفے وقفے سے اس پر اچٹتی نظر ڈالتا رہا۔اس نے امامہ کو کوئی تسلی دینے یا چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی۔اس کا خیال تھا کہ وہ خود ہی کچھ دیر آنسو بہا کر خاموش ہو جائے گی ، مگر جب آدھ گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اسی رفتار سے روتی رہی تو وہ کچھ اُکتانے لگا۔
"اگر تمہیں گھر سے اس طرح بھاگ آنے پر اتنا پچھتاوا ہونا تھا تو پھر تمہیں گھر سے بھاگنا ہی نہیں چاہئیے تھا۔"
سالار نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔امامہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
"ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ، ابھی تو شاید تمہارے گھر میں کسی کو تمہاری غیر موجودگی کا پتا بھی نہیں چلا ہو گا۔"اس نے کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کے بعد اسے مشورہ دیا۔
"مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔"اس بار اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد قدرے بھرائی ہوئی مگر مستحکم آواز میں کہا۔
""تو پھر تم رو کیوں رہی ہو؟"سالار نے فوراً پوچھا۔
"تمہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"وہ ایک بار پھر آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی۔سالار نے گردن موڑ کر اسے غور سے دیکھا اور پھر گردن سیدھی کر لی۔
"لاہور میں کس کے پاس جاؤ گی؟"
"پتا نہیں۔"امامہ کے جواب پر سالار نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیا مطلب۔۔۔۔۔تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کہاں جا رہی ہو؟"
"فی الحال تو نہیں۔"
"تو پھر آخر تم لاہور جا ہی کیوں رہی ہو؟"
"تو پھر اور کہاں جاؤں؟"
"تم اسلام آباد میں ہی رہ سکتی تھیں۔"
"کس کے پاس؟"
"لاہور میں بھی تو کوئی نہیں ہے جس کے پاس تم رہ سکو۔۔۔۔۔اور وہ بھی مستقل۔۔۔۔۔جلال کے علاوہ۔"سالار نے آخری تین لفظوں پر زور دیتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"اس کے پاس جا رہی ہو تم۔"کچھ دیر بعد اس نے قدرے چھبتے ہوئے انداز میں کہا۔
"نہیں ، جلال میری زندگی سے نکل چکا ہے"سالار اندازہ نہیں کر سکا کہ اس کی آواز میں مایوسی زیادہ تھی یا افسردگی۔"اس کے پاس کیسے جا سکتی ہوں میں۔"
"تو پھر اور کہاں جاؤ گی؟"سالار نے ایک بار پھر تجسس کے عالم میں پوچھا۔
"یہ تو میں لاہور جانے پر ہی طے کروں گی کہ مجھے کہاں جانا ہے ، کس کے پاس جانا ہے۔"امامہ نے کہا۔
سالار نے کچھ بےیقینی کے عالم میں اسے دیکھا۔کیا واقعی وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کہاں جانا تھا یا پھر وہ اسے بتانا نہیں چاہتی تھی۔گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
"تمہارا فیانسی۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔ہاں اسجد۔۔۔۔۔کافی اچھا ، ہینڈسم آدمی ہے۔"ایک بار پھر سالار نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔"اور یہ جو دوسرا آدمی تھا۔۔۔۔۔جلال۔۔۔۔۔اس کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔کچھ زیادتی نہیں کر دی تم نے اسجد کے ساتھ؟"
امامہ نے اس کے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔وہ صرف سامنے سڑک کو دیکھتی رہی۔سالار کچھ دیر گردن موڑ کر اس کے جواب کے انتظار میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا مگر پھر اسے احساس ہو گیا کہ وہ جواب دینا نہیں چاہتی۔
"میں تمہیں سمجھ نہیں پایا۔۔۔۔۔جو کچھ تم کر رہی ہو ، اسے بھی نہیں۔۔۔۔۔تمہاری حرکتیں بہت۔۔۔۔۔بہت عجیب ہیں۔۔۔۔۔اور تم اپنی حرکتوں سے زیادہ عجیب ہو۔"سالار نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
اس بار امامہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"کیا تمہاری حرکتوں سے زیادہ عجیب ہیں میری حرکتیں۔۔۔۔۔اور کیا میں تم سے زیادہ عجیب ہوں۔۔۔۔۔"بڑے دھیمے مگر مستحکم لہجے میں پوچھے گئے اس سوال نے چند لمحوں کے لیے سالار کو لاجواب کر دیا تھا۔
"میری کون سی حرکتیں عجیب ہیں۔۔۔۔۔اور میں کس طرح عجیب ہوں؟"چند لمحے خاموش رہنے کے بعد سالار نے کہا۔
"تم جانتے ہو ، تمہاری کون سی حرکتیں عجیب ہیں۔"امامہ نے واپس ونڈ اسکرین کی طرف گردن موڑتے ہوئے کہا۔
"یقیناً میری خود کشی کی ہی بات کر رہی ہو تم۔"سالار نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔"حالانکہ میں خود کشی نہیں کرنا چاہتا ، نہ ہی میں خود کشی کی کوشش کر رہا ہوں۔میں تو صرف ایک تجربہ کرنا چاہتا تھا۔"
"کیسا تجربہ۔"
"میں ہمیشہ لوگوں سے ایک سوال پوچھتا ہوں ، مگر کوئی بھی مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا ، اس لئے میں اس سوال کا جواب خود ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔"وہ بولتا رہا۔
"کیا پوچھتے ہو تم لوگوں سے؟"
"بہت آسان سا سوال ہے مگر ہر ایک کو مشکل لگتا ہے۔"What is next to ecstasy?" اس نے گردن موڑ کر امامہ سے پوچھا۔
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔"Pain"
“And what is next to pain?” سالار نے بلاتوقف ایک اور سوال کیا۔
“Nothingness”
“What is next to nothingness?” سالار نے اسی انداز میں ایک اور سوال کیا۔
“Hell” امامہ نے کہا۔
“And what is next to hell?” اس بار امامہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
“What is next to hell?” سالار نے پھر اپنا سوال دُہرایا۔
"تمہیں خوف نہیں آتا۔"سالار نے امامہ کو قدرے عجیب سے انداز میں پوچھتے سنا۔
"کس چیز سے۔"سالار حیران ہوا۔
"Hell سے۔۔۔۔۔اس جگہ سے جس کے آگے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔سب کچھ اس کے پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔معتوب اور مغضوب ہو جانے کے بعد باقی بچتا کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں تجسس ہے۔"امامہ نے قدرے افسوس سے کہا۔
"میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکا۔۔۔۔۔سب کچھ میرے سر کے اوپر سے گزرا ہے۔"سالار نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
"فکر مت کرو۔۔۔۔۔آ جائے گی۔۔۔۔۔ایک وقت آئے گا۔۔۔۔۔جب تمہیں ہر چیز کی سمجھ آ جائے گی پھر تمہاری ہنسی ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔تب تمہیں خوف آنے لگے گا۔۔۔۔۔موت سے بھی اور دوزخ سے بھی۔۔۔۔۔اللہ تمہیں سب کچھ دکھا اور بتا دے گا۔۔۔۔۔پھر تم کسی سے یہ کبھی نہیں پوچھا کرو گے۔۔۔۔۔”What is next to ecstasy?” امامہ نے بہت رسانیت سے کہا۔
"یہ تمہاری پیش گوئی ہے؟"سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ چھبتے ہوئے لہجے میں کہا۔
"نہیں۔"امامہ نے اسی انداز میں کہا۔
"تجربہ؟"سالار نے گردن سیدھی کر لی۔
"ہاں ، یہ تمہارا تجربہ ہی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔کی تو تم نے خود کشی ہی ہے۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔میں نے اپنے طریقے سے یہ کوشش کی تھی۔۔۔۔۔تم نے اپنے طریقے سے کی ہے۔"سالار نے سرد مہری سے کہا۔
امامہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آ گئے۔گردن موڑ کر اس نے سالار کو دیکھا۔
"میں نے کوئی خود کشی نہیں کی ہے۔"
"کسی لڑکے کے لئے گھر سے بھاگنا ایک لڑکی کے لیے خود کشی ہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔وہ بھی اس صورت میں جب وہ لڑکا شادی پر تیار ہی نہ ہو۔۔۔۔۔دیکھو ، میں خود ایک لڑکا ہوں۔۔۔۔۔بہت براڈ مائنڈڈ اور لبرل ہوں اور میں بالکل برا نہیں سمجھتا اگر ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر کسی لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج یا شادی کر لے۔۔۔۔۔مگر وہ لڑکا اس کا ساتھ تو دے ، ایک ایسے لڑکے کے لئے گھر سے بھاگ جانا جو شادی کر چکا ہو۔۔۔۔۔چچ چچ ۔۔۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا اور پھر تمہاری عمر میں بھاگنا ۔۔۔۔۔بالکل حماقت ہے۔"
"میں کسی لڑکے کے لیے نہیں بھاگی ہوں۔"
"جلال انصر ! " سالار نے اس کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا۔
"میں اس کے لیے نہیں بھاگی ہوں۔"وہ بےاختیار بلند آواز میں چلائی۔سالار کا پاؤں بےاختیار بریک پر جا پڑا۔اس نے حیرانی سے امامہ کو دیکھا۔
"تو مجھ پر کیوں چلا رہی ہو ، مجھ پر چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔"سالار نے ناراضی سے کہا۔وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"یہ جو تمہاری مذہب والی تھیوری یا فلاسفی یا پوائنٹ یا جو بھی ہے I don’t get it کیا فرق پڑتا ہے۔اگر کوئی کسی اور پیغمبر کو ماننا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔زندگی ان فضول بحثوں کے علاوہ بھی کچھ ہے۔۔۔۔۔مذہب ، عقیدے یا فرقے پر لڑنا۔۔۔۔۔What rubbish ۔ "
امامہ نے گردن موڑ کر ناراضی کے عالم میں اسے دیکھا۔"جو چیزیں تمہارے لیے فضول ہیں ، ضروری نہیں وہ ہر ایک کے لیے فضول ہوں۔میں اپنے مذہب پر قائم رہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس مذہب کے کسی شخص سےشادی کرنا چاہتی ہوں۔تو یہ میرا حق ہے کہ میں ایسا کروں ، میں تم سے ایسی چیزوں کے بارے میں بحث نہیں کرنا چاہتی جسے تم نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔اس لیے تم ان معاملات کے بارے میں اس طرح کے تبصرے مت کرو۔"
"مجھے حق ہے کہ میں جو چاہے کہوں Freedom of expression (اظہار کی آزادی) "سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔امامہ نے جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی۔وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔سالار بھی خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔
"یہ جلال انصر۔۔۔۔۔میں اس کی بات کر رہا تھا۔"وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر اپنے اسی موضوع کی طرف آ گیا۔
"اس میں کیا خاص بات ہے؟"اس نے گردن موڑ کر امامہ کو دیکھا۔وہ اب ونڈاسکرین سے باہر سڑک کو دیکھ رہی تھی۔
"جلال انصر اور تمہارا کوئی جوڑ نہیں ہے۔۔۔۔۔وہ بالکل بھی ہینڈسم نہیں ہے۔تم ایک خوبصورت لڑکی ہو ، میں حیران ہوں تم اس میں کیسے دلچسپی لینے لگیں۔۔۔۔۔کیا وہ بہت زیادہ۔۔۔۔۔intelligent ہے؟"اس نے امامہ سے پوچھا۔
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔"intelligent ۔۔۔۔۔کیا مطلب؟"
"دیکھو یا تو کسی کی شکل اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔میں نہیں سمجھتا تمہیں جلال کی شکل اچھی لگی ہو گی یا پھر کسی کا فیملی بیک گراؤنڈ ۔۔۔۔۔پیسہ وغیرہ کسی میں دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔۔۔۔۔اب جلال کا فیملی بیک گراؤنڈ یا مالی حالت کے بارے میں ، میں نہیں جانتا مگر خود تمہارا فیملی بیک گراؤنڈ جتنا ساؤنڈ ہے ، یہ بھی تمہارے لیے اس میں دلچسپی کا باعث نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔واحد بچ جانے والی وجہ کسی کی ذہانت ، قابلیت وغیرہ ہے۔۔۔۔۔اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ کیا وہ بہت intelligent ہے۔۔۔۔۔کیا بہت آؤٹ اسٹینڈنگ اور brilliant ہے؟"
"نہیں۔"امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
سالار کو مایوسی ہوئی۔"تو پھر۔۔۔۔۔تم اس کی طرف متوجہ کیسے ہوئیں۔"امامہ ونڈ اسکرین سے بار ہیڈ لائٹس کی روشنی میں نظر آنے والی سڑک دیکھتی رہی۔سالار نے اپنا سوال دُہرایا۔صرف کندھے اچکاتے ہوئے وہ دوبارہ ڈرائیونگ پر توجہ دینے لگا۔گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
"وہ نعت بہت اچھی پڑھتا ہے۔"تقریباً پانچ منٹ بعد خاموشی ٹوٹی تھی۔ونڈاسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں امامہ یوں بڑبڑائی تھی جیسے خود کلامی کر رہی ہو۔سالار نے اس کا جملہ سن لیا تھا مگر اسے وہ ناقابلِ یقین لگا۔
"کیا؟"اس نے جیسے تصدیق چاہی۔
"جلال نعت بہت اچھی پڑھتا ہے۔"اسی طرح ونڈ اسکرین سے باہر جھانکتے ہوئے کہا مگر اس بار اس کی آواز کچھ بلند تھی۔
"بس آواز کی وجہ سے۔۔۔۔۔سنگر ہے؟"سالار نے تبصرہ کیا۔
امامہ نے نفی میں سر ہلایا۔
"پھر؟"
"بس وہ نعت ہی پڑھتا ہے۔۔۔۔۔اور بہت خوبصورت پڑھتا ہے۔"
سالار ہنسا۔تم صرف اس کے نعت پڑھنے کی وجہ سے اس سے محبت میں گرفتار ہوئیں۔میں کم از کم اس پر یقین نہیں کر سکتا۔"
امامہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔"تو مت کرو۔۔۔۔۔تمہارے یقین کی کس کو ضرورت ہے۔"اس کی آواز میں سرد مہری تھی۔گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
"فرض کرو یہ مان لیا جائے کہ تم واقعی اس کے نعت پڑھنے سے کچھ متاثر ہو کر اتنا آگے بڑھ گئیں۔۔۔۔۔تو یہ تو کوئی زیادہ پریکٹیکل بات نہیں ہے۔۔۔۔۔باربرا کارٹ لینڈ کے ناول والا رومانس ہی ہو گیا یہ تو۔۔۔۔۔اور تم ایک میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہو کر اتنا اممیچیور ذہن رکھتی ہو۔"سالار نے بےرحمی سے تبصرہ کیا۔
امامہ نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔"میں بہت میچیور ہوں۔۔۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔۔پچھلے دو چار سالوں میں مجھ سے زیادہ پریکٹیکل ہو کر کسی نے چیزوں کو نہیں دیکھا ہو گا۔"
"میری رائے محفوظ ہے۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارا پریکٹیکل ہونا میرے پریکٹیکل ہونے سے مختلف ہو۔اینی وے میں جلال کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔وہ جو تم نعت وغیرہ کا ذکر کر رہی تھیں اس کی بات۔"
"بعض چیزوں پر اپنا اختیار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔میرا بھی نہیں ہے۔"اس بار امامہ کی آواز میں شکستگی تھی۔
"میں پھر تم سے اتفاق نہیں کرتا۔ہر چیز اپنے اختیار میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔کم از کم اپنی فیلنگز ، ایموشنز اور ایکشن پر انسان کو کنٹرول ہوتا ہے۔۔۔۔۔ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم کس شخص کے لیے کس طرح کی فیلنگز ڈویلپ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔کیوں کر رہے ہیں ، اس کا بھی پتا ہوتا ہے۔۔۔۔۔اور جب تک ہم باقاعدہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ان فیلنگز کو ڈویلپ نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔۔وہ نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔اس لئے یہ نہیں مان سکتا کہ ایسی چیزوں پر اپنا کنٹرول ہی نہ رہے۔"
اس نے بات کرتے ہوئے دوسری بار امامہ کو دیکھا اور اسے احساس ہوا کہ وہ اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔وہ پلکیں جھپکائے بغیر ونڈاسکرین کو دیکھ رہی تھی یا شاید ونڈاسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھیں متورم تھیں اور اس وقت بھی ان میں نمی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔وہ ذہنی طور پر کہیں اور موجود تھی۔۔۔۔۔کہاں یہ وہ نہیں جان سکتا تھا۔اسے وہ ایک بار پھر ابنارمل لگی۔
بہت دیر تک خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتے رہنے کے بعد سالار نے قدرے اکتا کر ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"نعت پڑھنے کے علاوہ اس میں اور کون سی کوالٹی ہے؟"اس کی آواز بلند تھی۔امامہ بےاختیار چونک گئی۔
"نعت پڑھنے کے علاوہ اس میں اور کیا کوالٹی ہے؟"سالار نے اپنا سوال دُہرایا۔
"ہر وہ کوالٹی جو ایک اچھے انسان۔۔۔۔۔اچھے مسلمان میں ہوتی ہے۔"امامہ نے کہا۔
"مثلاً ۔" سالار نے بھوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔
"اور اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی وہ شخص حضرے محمد ﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ میں اسے اسی ایک کوالٹی کی خاطر کسی بھی دوسرے شخص پر ترجیح دیتی۔"
سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔" what a logic ایسی باتوں کو میں واقعی ہی نہیں سمجھ سکتا۔"
اس نے گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
"تم اپنی پسند سے شادی کرو گے یا اپنے پیرنٹس کی پسند سے؟" امامہ نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ حیران ہوا۔
"آف کورس اپنی پسند سے۔۔۔۔۔ پیرنٹس کی پسند سے شادی والا زمانہ تو نہیں ہے یہ۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
"تم بھی تو کسی کوالٹی کی وجہ سے ہی کوئی لڑکی پسند کرو گے۔۔۔۔۔ شکل و صورت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ یا پھر جس سے تمہاری انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی اس سے۔۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا نا۔" وہ پوچھ رہی تھی۔
"یقیناً۔" سالار نے کہا۔
"میں بھی تو یہی کر رہی ہوں۔ اپنی اپنی ترجیحات کی بات ہوتی ہے۔ تم ان چیزوں کی بنا پر کسی سے شادی کرو گے، میں بھی ایسی ہی ایک وجہ کی بنا پر شادی کرنا چاہتی تھی جلال انصر سے۔۔۔۔۔" وہ رکی۔
"میری خواہش ہے، میری شادی اس سے ہو جو حضرت محمدﷺ سے مجھ سے زیادہ محبت رکھتا ہو۔ جلال انصر! آپ ﷺ سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا تھا۔۔۔۔۔ مجھے لگا، مجھے اسی شخص سے شادی کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔ میں نے تم سے کہا بعض چیزوں پر اختیار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ بعض خواہشات۔۔۔۔۔ بس ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہوتا۔" اس نے افسردگی سے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
"اور اب جب وہ شادی کر چکا ہے تو اب تم کیا کرو گی؟"
"پتا نہیں۔"
"تم ایسا کرو۔۔۔۔۔ کہ تم کسی اور نعت پڑھنے والے کو ڈھونڈ لو، تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔ وہ سفاکی کی حد تک بے حس تھا۔" اس طرح کیوں دیکھ رہی وہ تم۔۔۔۔۔ میں مذاق کر رہا ہوں۔" وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پا چکا تھا۔ امامہ نے کچھ کہنے کے بجائے گردن موڑ لی۔
"تمہیں تمہارے فادر نے مارا ہے۔" سالار نے پہلے کی طرح کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولنے کا معمول جاری رکھا۔
"تمہیں کس نے بتایا۔" امامہ نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
"ملازمہ نے۔" سالار نے اطمینان سے جواب دیا۔" بیچاری یہ سمجھ رہی کے کہ تم جو یہ شادی سے انکار کر رہی ہو وہ میری وجہ سے کر رہی ہو۔ اس لئے اس نے مجھ تک تمہاری "حالتِ زار" بڑے درد ناک انداز میں پہنچائی تھی۔۔۔۔۔ مارا ہے تمہارے فادر نے؟"
"ہاں۔" اس نے بے تاثر انداز میں کہا۔
"کیوں؟"
"میں نے پوچھا نہیں۔۔۔۔۔ شاید وہ ناراض تھے اس لئے۔"
"تم نے کیوں مارنے دیا۔"
امامہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔" وہ میرے بابا ہیں، انہیں حق ہے، وہ مار سکتے ہیں مجھے۔"
سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔" ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا، وہ اس صورتِ حال میں یہی کرتا۔۔۔۔۔ مجھے یہ قابلِ اعتراض نہیں لگا۔" وہ بڑے ہموار لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"اگر مارنے کا حق ہےا نہیں تو پھر تمہاری شادی کرنے کا بھی حق ہے۔۔۔۔۔ اس پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کر رہی ہو تم۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
"کسی مسلمان سے کرتے۔۔۔۔۔ اور چاہے جہاں مرضی کر دیتے۔۔۔۔۔ میں کروا لیتی۔"
"چاہے وہ جلال انصر نہ ہوتا۔" استہزائیہ انداز میں کہا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ اب بھی آخر کون سا ہو گئی ہے اس سے۔" اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی جھلملا رہی تھی۔
"تو تم ان سے یہ کہہ دیتیں۔"
"کہا تھا۔۔۔۔۔ تم سمجھتے ہو میں نے نہیں کہا ہو گا۔"
"مجھے ایک بات پر بہت حیرانی ہے۔" سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔"آخر تم نے مجھے سے مدد لینے کا فیصلہ کیوں کیا۔۔۔۔۔ بلکہ کیسے کر لیا۔ تم مجھے خاصا ناپسند کرتی تھیں۔" اس نے امامہ کی بات کا جواب دئیے بغیر بات جاری رکھی۔
"میرے پاس تمہارے علاوہ دوسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔" میری اپنی کوئی فرینڈ اس طرح میری مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی جس طرح کوئی لڑکا کر سکتا تھا۔ اسجد کے علاوہ میں صرف جلال اور تم سے واقف تھی۔۔۔۔۔ اور سب سے قریب ترین صرف تم تھے جس سے میں فوری رابطہ کر سکتی تھی، اس لئے میں نے تم سے رابطہ کیا۔" وہ مدھم آواز میں رک رک کر بولتی رہی۔
"تمہیں یقین تھا کہ میں تمہاری مدد کروں گا؟"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں نے صرف ایک رسک لیا تھا۔ یقین کیسے ہو سکتا تھا مجھے کہ تم میری مدد کرو گے۔ میں نے تمہیں بتایا نا! میرے پاس تمہارے علاوہ اور کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔"
"یعنی تم نے ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنا لیا ہے۔" اس کے بے حد عجیب لہجے میں کئے گئے تبصرے نے یک دم امامہ کو خاموش ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ وہ بات منہ پر مارنے میں ماہر تھا مگر اس نے غلط بھی نہیں کہا تھا۔
"ویری انٹرسٹنگ۔" اس نے امامہ کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا جیسے اپنے تبصرے پر خود ہی محظوظ ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"میں گاڑی کچھ دیر کے لئے یہا ں روکنا چاہ رہا ہوں۔" سالار نے سڑک کے کنارے بنے ہوئے ایک سستے قسم کے ہوٹل اور سروس اسٹیشن کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں ذرا ٹائر چیک کروانا چاہ رہا ہوں۔گاڑی میں دوسرا ٹائر نہیں ہے، رستے میں اگر کہیں ٹائر فلیٹ ہو گیا تو بہت مسئلہ ہو گا۔"
امامہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ وہ گاڑی موڑ کر اندر لے گیا۔ اس وقت دور کہیں فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ ہوٹل میں کام کرنے والے دو چار لوگوں کے علاوہ وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ اسے گاڑی اندر لاتے دیکھ کر ایک آدمی باہر نکل آیا۔ شاید وہ گاڑی کی آواز سن کر آیا تھا۔ سالار گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔
وہ کچھ دیر سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں بند کئے بیٹھی رہی۔ اذان کی آواز کچھ زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ کار کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکل آئی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔
"یہاں کتنی دیر رکنا ہے؟" وہ سالار سے پوچھ رہی تھی۔
"دس پندرہ منٹ۔۔۔۔۔ میں انجن بھی ایک دفعہ چیک کروانا چاہتا ہوں۔"
"میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں، مجھے وضو کرنا ہے۔" اس نے سالار سے کہا۔ اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا۔
اس آدمی نے بلند آواز میں اسے پکارتے ہوئے کہا۔
"باجی! وضو کرنا ہے تو اس ڈرم سے پانی لے لیں۔"
"اور وہ نماز کہاں پڑھے گی؟" سالار نے اس آدمی سے پوچھا۔
"یہ سامنے والے کمرے میں۔۔۔۔۔ میں جائے نماز دے دیتا ہوں۔" وہ اب پائپ اتار رہا تھا۔
"پہلے جائے نماز دے دوں پھر انجن آ کر چیک کرتا ہوں۔" اس آدمی نے اس کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
سالار نے دور سے امامہ کو اس ڈرم کے پاس کچھ تذبذب کی حالت میں کھڑے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر آگے چلا آیا۔ وہ تارکول کا ایک بہت بڑا خالی ڈرم تھا جسے ایک ڈھکن سے کور کیا گیا تھا۔
"اس میں سے پانی کیسے لوں؟" امامہ نے قدموں کی چاپ پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ سالار نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ کچھ فاصلے پر ایک بالٹی پڑی ہوئی تھی۔ وہ اس بالٹی کو اٹھا لایا۔
"میرا خیال ہے یہ ا سی بالٹی کو پانی نکالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔" اس نے امامہ سے کہتے ہوئے ڈرم کا ڈھکن اٹھایا اور اس میں سے پانی بالٹی میں بھر لیا۔
"میں کرا دیتا ہوں وضو۔" سالار کو اس کے چہرے پر تذبذب نظر آیا مگر پھر کچھ کہنے کے بجائے وہ اپنی آستین اوپر کرنے لگی۔ اپنی گھڑی اتار کر اس نے سالار کی طرف بڑھا دی اور پنجوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھوں پر کچھ پانی ڈالا۔ امامہ کو بے اختیار جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے یک دم اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے۔
"کیا ہوا؟" سالار نے کچھ حیرانی سے کہا۔
"کچھ نہیں، پانی بہت ٹھنڈا ہے۔۔۔۔۔ تم پانی ڈالو۔" وہ ایک بار پھر ہاتھ پھیلا رہی تھی۔
سالار نے پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ وضو کرنے لگی۔ پہلی بار سالار نے اس کے ہاتھوں کو کہنیوں تک دیکھا۔ کچھ دیر کے لئے وہ اس کی کلائیوں سے نظر نہیں ہٹا سکا، پھر اس کی نظر اس کی کلائیوں سے اس کے چہرے پر چلی گئی۔ وہ اپنی چادر کو ہٹائے بغیر بڑی احتیاط کے ساتھ سر، کانوں اور گردن کا مسح کر رہی تھی اور سالار کی نظریں اس کے ہاتھوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ اس کی گردن میں موجود سونے کی چین اور اس میں لٹکنے والے موتی کو بھی اس نے پہلی بار دریافت کیا تھا۔ سالار نے اسے جتنی بار دیکھا تھا اسی طرح کی چادر میں دیکھا تھا۔ چادر کا رنگ مختلف ہوتا مگر وہ ہمیشہ اسے ایک ہی انداز میں لپیٹے ہوتی۔ وہ کبھی اس کے خدوخال پر غور نہیں کر سکا۔
"پاؤں پر پانی میں خود ڈال لیتی ہوں۔" اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سالار کے ہاتھ سے اس بالٹی کو پکڑ لیا جو اب تقریباً خالی ہونے والی تھی۔ سالار چند قدم پیچھے ہٹ کر محویت سے دیکھنے لگا۔
وہ وضو کر چکی تو سالار کی محویت ختم ہوئی۔ اس نے گھڑی ا س کی طرف بڑھا دی۔
آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ اس کمرے تک آئے جہاں وہ آدمی گیا تھا۔ وہ آدمی جب تک کمرے میں ایک طرف مصلحٰے بچھا چکا تھا۔ امامہ خاموشی سے جائے نماز کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے کہا۔" اب تم مجھے کسی بھی اسٹاپ پر اتار دو۔۔۔۔۔ میں چلی جاؤں گی۔"
"تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی دھند میں کسی ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے تمہیں بہت وقت لگے گا۔" سڑکیں اس وقت تقریباً ویران تھیں، حالانکہ صبح ہو چکی تھی مگر دھند نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
"مجھے نہیں پتا، مجھے کہاں جانا ہے پھر تمہیں میں کس جگہ کا پتا بتاؤں ۔ ابھی تو شاید میں ہاسٹل جاؤں اور پھر وہاں۔۔۔۔۔" سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تو پھر میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔" کچھ فاصلہ اسی طرح خاموشی سے طے ہوا پھر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر امامہ نے اس سے کہا۔
"بس تم یہاں گاڑی روک دو، میں یہاں سے خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہاسٹل نہیں جانا چاہتی۔" سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔
"پچھلے کچھ ہفتوں میں تم نے میری بہت مدد کی ہے، میں اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کر نا چاہتی ہوں۔ تم میری مدد نہ کرتے تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "تمہارا موبائل ابھی میرے پاس ہے، مگر مجھے ابھی اس کی ضرورت ہے، میں کچھ عرصہ بعد اسے واپس بھجوا دوں گی۔"
"اس کی ضرورت نہیں، تم اسے رکھ سکتی ہو۔"
"میں کچھ دنوں بعد تم سے دوبارہ رابطہ کروں گی پھر تم مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دینا۔" وہ رکی۔
"میں امید کرتی ہوں کہ تم میرے پیرنٹس کو کچھ نہیں بتاؤ گے۔"
"یہ کہنے کی ضرورت تھی؟" سالار نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔" مجھے کچھ بتانا ہوتا تو میں بہت پہلے بتا چکا ہوتا۔" سالار نے قدرے سردمہری سے کہا۔" تم مجھے بہت برا لڑکا سمجھتی تھیں، کیا ابھی بھی تمہاری میرے بارے میں وہی رائے ہے یا تم نے اپنی رائے میں کچھ تبدیلی کی ہے۔" سالار نے اچانک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ میں دراصل بہت اچھا لڑکا ہوں۔"
"ہو سکتا ہے۔" امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار کو اس کی بات پر جیسے شاک لگا۔
"ہو سکتا ہے۔" وہ بے یقینی سے مسکرایا۔"ابھی بھی ہو سکتا ہے، تم بہت ناشکری ہو امامہ، میں نے تمہارے لئے اتنا کچھ کیا ہے جو اس زمانے میں کوئی لڑکا نہیں کرے گا اور تم پھر بھی مجھے اچھا ماننے پر تیار نہیں۔"
"میں ناشکری نہیں ہوں۔ مجھے اعتراف ہیں کہ تم نے مجھ پر بہت احسان کئے ہیں اور شاید تمہاری جگہ کوئی دوسرا کبھی نہ کرتا۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔" تو میں اچھا ہوا نا۔"
وہ کچھ نہیں بولی صرف اسے دیکھتی رہی۔
"نہیں، مجھے پتا ہے تم یہی کہنا چاہتی ہو، حالانکہ مشرقی لڑکی کی خاموشی اس کا اقرار ہوتی ہے مگر تمہاری خاموشی تمہارا انکار ہوتی ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا۔"
"ہم ایک فضول بحث کر رہے ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔" سالار نے کندھے اچکائے۔"مگر مجھے حیرانی ہے کہ تم۔۔۔۔۔"
اس بار امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" تم نے میرے لئے یقیناً بہت کچھ کیا ہے۔۔۔۔۔ اور اگر میں تمہیں جانتی نہ ہوتی تو یقیناً میں تمہیں ایک بہت اچھا انسان سمجھتی اور کہہ بھی دیتی۔۔۔۔۔ مگر میں تمہیں اتنی اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔۔۔۔۔"
وہ رکی۔ سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"جو آدمی خود کشی کی کوشش کرتا ہو، شراب پیتا ہو، جس نے اپنا کمرہ عورتوں کی برہنہ تصویروں سے بھر رکھا ہو۔۔۔۔۔ وہ اچھا آدمی تو نہیں ہو سکتا۔"امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"تم کسی ایسے آدمی کے پاس جاتیں جو یہ تینوں کام نہ کرتا مگر تمہاری مدد بھی نہ کرتا تو کیا تمہارے لئے وہ اچھا آدمی ہوتا؟" سالار نے تیز آواز میں کہا۔" جیسے جلال انصر؟"
امامہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔"ہاں، اس نے میری مدد نہیں کی، مجھ سے شادی نہیں کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ برا ہو گیا ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے۔۔۔۔۔ ابھی بھی میرے نزدیک اچھا آدمی ہے۔"
"اور میں نے تمہاری مدد کی۔۔۔۔۔ تم سے شادی کی مگر یقیناً اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں، میں برا آدمی ہوں۔" وہ عجیب سے انداز میں کہتے ہوئے مسکرایا۔"تمہارا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے امامہ۔۔۔۔۔ کیا تم اچھی لڑکی ہو؟"
اس نے اچانک چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگا۔
"میرے نزدیک تم بھی اچھی لڑکی نہیں ہو، تم بھی ایک لڑکے کے لئے اپنے گھر سے بھاگی ہو۔۔۔۔۔ اپنے منگیتر کو دھوکا دیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ اپنی فیملی کی عزت کو خراب کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔" سالار نے ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔
امامہ کی انکھو ں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔"تم ٹھیک کہتے ہو، میں واقعی اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ ابھی مجھے یہ جملہ بہت سے لوگوں سے سننا ہے۔"
"میں تمہیں بہت لمبی چوڑی وضاحت دے سکتی ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں، تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔"
"فرض کرو، میں تمہیں لاہور نہ لے کر آتا کہیں اور لے جاتا پھر۔۔۔۔۔ مگر میں تمہیں بحفاظت یہاں لے آیا۔۔۔۔۔ یہ میرا تم پر کتنا بڑا احسان ہے، تمہیں اندازہ ہے اس کا۔"
امامہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤ گے۔"
وہ اس کی بات پر ہنسا۔"مجھ پر یقین تھا ۔۔۔۔۔ کیوں؟ میں تو ایک برا لڑکا ہوں۔"
"مجھے تم پر یقین نہیں تھا۔۔۔۔۔ اللہ پر یقین تھا۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل پڑ گئے۔
"میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر ﷺ کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔"
"فرض کرو ایسا ہو جاتا۔" سالار مصر ہوا۔" میں ایسی بات کیوں فرض کروں جو نہیں ہوئی۔" وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
"یعنی تم مجھے کسی قسم کا کوئی کریڈٹ نہیں دو گی۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
"اچھا فرض کرو میں اب تمہیں جانے نہیں دیتا تو تم کیا کرو گی۔ گاڑی کا دروازہ جب تک میں نہیں کھولوں گا، نہیں کھلے گا۔۔۔۔۔ یہ تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کرو گی۔"
وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔" یا میں یہ کرتا ہوں۔"سالار نے ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور اس پر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔"کہ تمہارے گھر فون کر دیتا ہوں۔" اس نے موبائل کی سکرین کو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اس پر امامہ کے گھر کا نمبر تھا۔
"میں انہیں تمہارے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم کہاں ہو، کس کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔ پھر یہاں سے تمہیں سیدھا پولیس اسٹیشن لے جا کر ان کی تحویل میں دے دیتا ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر تمہارے اعتقاد اور اعتبار کا کیا ہوا۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں کہہ رہا تھا۔
امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ سالار کو بے حد خوشی محسوس ہوئی۔ سالار نے موبائل آف کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
"کتنا بڑا احسان کر رہا ہوں میں تم پر کہ ایسا نہیں کر رہا۔" اس نے موبائل کو دوبادہ ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔" حالانکہ تم بے بس ہو، کچھ بھی نہیں کر سکتیں، اسی طرح رات کو میں تمہیں کہیں اور لے جاتا تو تم کیا کر لیتیں۔"
"میں تمہیں شوٹ کر دیتی۔" سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر قہقہہ مار کر ہنسا۔
"کیا کر دیتیں۔ میں۔۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔۔۔ شوٹ۔۔۔۔۔ کر ۔۔۔۔۔ دیتی۔"
اس نے اسی انداز میں رک رک کر اسے کہا۔ وہ اسٹیرئنگ پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھلکھلا کر ہنسا۔
"کبھی زندگی میں پسٹل دیکھا بھی ہے تم نے۔" اس نے امامہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
سالار نے اسے جھکتے اور اپنے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھی ہوئی تو اس نے سالار سے کہا۔" شاید اسے کہتے ہیں۔"
سالار ہنسنا بھول گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں چھوٹے سائز کا ایک بہت خوبصورت اور قیمتی لیڈیز پستول تھا۔ سالار پستول پر اس کے ہاتھ کی گرفت دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اس نے بے یقینی سے امامہ کو دیکھا۔
"تم مجھے شوٹ کر سکتی تھیں؟"
"ہاں، میں تمہیں شوٹ کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تم نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا۔"
اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ اس نے پستول سالار کی طرف نہیں کیا تھا، صرف اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
"گاڑی کا لاک۔۔۔۔۔ " اس نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے سالار سے کہا۔ سالار نے غیر ارادی طور پر اپنی طرف موجود بٹن دبا کر لاک کھول دیا۔ امامہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اب پستول اپنی گود میں موجود بیگ میں رکھ رہی تھی۔ دونوں کے درمیان مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔ امامہ نے گاڑی سے باہر نکل کر اس کا دروازہ بند کر دیا۔ سالار نے اسے تیز قدموں کے ساتھ ایک قریب آتی ہوئی ویگن کی طرف جاتے اور پھر اس میں سوار ہوتے دیکھا۔
اس کی قوت مشاہدہ بہت تیز تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی بھی شخص کے چہرے کو پڑھ سکتا تھا۔۔۔۔۔ اور اسے اس چیز پر بڑا زعم تھا۔۔۔۔۔ مگر وہاں اس دھندآ لود سڑک پر گاڑی پر بیٹھے ہوئے اس نے اعتراف کیا۔ وہ امامہ ہاشم کو نہیں جان سکا تھا۔۔۔۔۔ وہ اگلے کئی منٹ اسٹیرئنگ پر دونوں ہاتھ رکھے بے یقینی کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا تھا۔ امامہ ہاشم کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔
وہ واپسی پر دھند کی پرواہ کئے بغیر پوری رفتار سے گاڑی چلا کر آیا تھا۔ پورا رستہ اس کا ذہن اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ اس نے پستول آخر کہاں سے نکالا تھا۔ وہ پورے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ جس وقت وہ وضو کے لئے پاؤں دھو رہی تھی اس وقت وہ پستول اس کی پنڈل کے ساتھ نہیں تھا ورنہ وہ ضرور اسے دیکھ لیتا۔ بعد میں نماز پڑھنے کے دوران بھی وہ بغور اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا تھا، پستول تب بھی اس کی پنڈل کے ساتھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ وہ برگر کھانے اور چائے پینے کے بعد گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور وہ کچھ دیر بعد گاڑی میں آیا تھا۔ وہ یقیناً گاڑی میں موجود اس کے بیگ میں ہی ہو گا۔ وہ اندازے لگاتا رہا۔
وہ جس وقت اپنے گھر پہنچا اس کا موڈ آف تھا۔ گیٹ سے گاڑی اندر لے جاتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی طرف بلایا۔"رات کو میں جس لڑکی کے ساتھ یہاں سے گیا تھا تم اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤ گے بلکہ میں رات کو کہیں نہیں گیا، سمجھ میں آیا۔" اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
"جی۔۔۔۔۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔" چوکیدار نے فرمانبرداری سے سر ہلایا۔ وہ احمق نہیں تھا کہ ایسی چیزوں کے بارے میں کسی کو بتاتا پھرتا۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ اطمینان کے ساتھ سو گیا۔ اس کا اس دن کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ اس وقت گہری نیند میں تھا، جب اس نے اچانک کسی کو اپنے کمرے کے دروازے کو زور زور سے بجاتے سنا۔ وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دروازہ واقعی بج رہا تھا۔ اس نے مندی ہوئی نظروں سے وال کلاک کو دیکھا جو چار بجا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے دروازہ بجانے والے پر شدید غصہ آ رہا تھا۔ اسی غصے کے عالم میں اس نے بڑبڑاتے ہوئے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ باہر ملازم کھڑا تھا۔
"کیا تکلیف ہے تمہیں۔۔۔۔۔ کیوں اس طرح دروازہ بجا رہے ہو؟ دروازہ توڑنا چاہتے ہو تم؟" وہ دروازہ کھولتے ہی ملازم پر چلایا۔
"سالارصاحب باہر پولیس کھڑی ہے۔" ملازم نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ سالار کا غصہ اور نیند ایک منٹ میں غائب ہو گئے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں وہ پولیس کے وہاں آ جانے کی وجہ جان گیا تھا اور اس ان کی اور امامہ کے گھر والوں کی اس مستعدی پر حیرت ہوئی۔ آخر چند گھنٹوں میں سیدھے اس تک کیسے پہنچ گئے تھے۔
"کس لئے آئی ہے پولیس؟" اس نے اپنی آواز کو پرسکون رکھتے ہوئے بے تاثر چہرے کے ساتھ پوچھا۔
"یہ تو جی پتا نہیں، وہ بس کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے،مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔ اس نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ گھر پر نہیں ہیں مگرا ن کے پاس آپ کے وارنٹ ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں اندر نہیں آنے دیا گیا تو وہ زبردستی اندر آ جائیں گے اور تمام لوگوں کو گرفتار کر کے لے جائیں گے۔"
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔ چوکیدار نے واقعی بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسے یقیناً یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ پولیس رات والی لڑکی کے معاملے میں ہی تفتیش کے لئے وہاں آئی تھی اس لئے اس نے نہ تو پولیس کو اندر آنے دیا نہ ہی انہیں یہ بتایا کہ سالار گھر پر موجود تھا۔
"تم فکر مت کرو۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔"سالار نے ملازم سے کہا اور واپس اپنے بیڈ روم میں آگیا، وہ کسی عام شہری کا گھر ہوتا تو پولیس شاید دیواریں پھلانگ کر بھی اندر موجود ہوتی مگر اس وقت وارنٹ ہونے کے باوجود اس گھر کا سائز اور جس علاقے میں وہ واقع تھا انہیں خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اگر امامہ کا خاندان بھی اثر ورسوخ والا نہیں ہوتا تو شاید اس وقت پولیس اس سیکٹر میں آنے اور خاص طور پر وارنٹ کے ساتھ آنے کی جرات ہی نہ کرتی مگر اس وقت پولیس کے سامنے آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورت تھی۔
سالار نے بیڈ روم کے اندر آتے ہی فون اٹھا کر کراچی سکندر عثمان کو فون کیا۔
"پاپا! ایک چھوٹا سا پرابلم ہو گیا ہے۔" اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
"یہاں ہمارے گھر کے باہر پولیس کھڑی ہے اور ان کے پاس میرے گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔"
سکندر عثمان کے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟"
"یہ تو نہیں پتا پاپا۔۔۔۔۔ میں سو رہا تھا، ملازم نے جگا کر مجھے بتایا، کیا میں جا کر پولیس والوں سے پوچھوں کہ وہ کس سلسلے میں مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟" سالارنے بڑی فرمانبرداری اور معصومیت کے ساتھ سکندر عثمان سے پوچھا۔
"نہیں، باہر نکلنے یا پولیس کو اندر بلوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے کمرے میں ہی رہو۔ میں تھوڑی دیر بعد تمہیں رنگ کرتا ہوں۔" سکندر عثمان نے عجلت کے عالم میں موبائل بند کر دیا۔ سالار نے مطمئن ہو کر فون رکھ دیا وہ جانتا تھا کہ اب کچھ دیر بعد پولیس وہاں نہیں ہو گی اور واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد ملازم نے آ کر اسے پولیس کے جانے کے بارے میں بتایا۔ ملازم ابھی اس سے بات کر ہی رہا تھا جب سکندر نے دوبارہ کال کی تھی۔
"پولیس چلی گئی ہے؟" سکندر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"ہاں چلی گئی ہے۔" سالار نے بڑے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
"اب تم میری بات ٹھیک طرح سنو۔ میں اور تمہاری ممی رات کو کراچی سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ تم تب تک گھر سے کہیں نہیں نکلو گے۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔" سالار کو ان کے بات کرنے کا انداز بہت عجیب سا لگا۔ انہوں نے بہت اکھڑ انداز اور سرد مہری سے اس سے بات کی تھی۔
"سن لیا۔۔۔۔۔" وہ دوسری طرف سے فون بند کر چکے تھے۔
سالار ابھی فون بند کر رہا تھا جب اس کی نظر اپنے کمرے کے کارپٹ پر پڑی۔ وہاں جوتے کے نشانات تھے اور اس نے دیکھا کہ ملازم بھی قدرے حیرانی کے عالم میں ان نشانات کو دیکھ رہا تھا جو کھڑکی سے قطار کی صورت میں بڑھ رہے تھے۔
"جوتے کے ان نشانات کو صاف کر دو۔" سالار نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
ملازم کمرے سے باہر چلا گیا۔ سالار اٹھ کر کھڑکی کی طرف آ گیا اور اس نے وہ سلائیڈنگ ونڈو پوری طرح کھول دی۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ جوتے کے وہ مٹی والے نشانات باہر برآمدے میں بھی موجود تھے۔ امامہ اپنی کیاریوں سے گزر کر دیوار پھلانگ کر ان کی کیاریوں میں کودی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے جوتے کے تلے مٹی سے بھر گئے تھے۔ اوس کی وجہ سے وہ مٹی کم اور کیچڑ زیادہ تھی اور اس کے برآمدے کے سفید ماربل پر وہ نشانات بالکل ایک قطار کی صورت میں آ رہے تھے۔ وہ ایک گہری سانس لیتا ہوا اندر آ گیا، ملازم کمرے میں ان نشانات کو صاف کرنے میں مصروف تھا۔
"باہر برآمدے میں بھی پیروں کے کچھ نشانات ہیں انہیں بھی صاف کر دینا۔" سالار نے اس سے کہا۔
"یہ کس کے نشان ہیں؟" ملازم زیادہ دیر اپنے تجسس پر قابو نہیں رکھ سکا۔
"میرے۔۔۔۔۔" سالار نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رات کو کھانا کھانے میں مصروف تھا جب سکندر عثمان اور طیبہ آ گئے تھے۔ ان دونوں کے چہرے ستے ہوئے تھے۔ سالار اطمینان سے کھانا کھاتا رہا۔ وہ دونوں اسے مخاطب کئے بغیر اس کے پاس سے گزر کر چلے گئے تھے۔
"کھانا ختم کر کے میرے کمرے میں آؤ۔" سکندر عثمان نے جاتے جاتے اس سے کہا تھا۔ سالار نے جواب دینے کے بجائے فروٹ ٹرائفل اپنی پلیٹ میں نکال لی۔
پندرہ منٹ بعد وہ جب ان کے کمرے میں گیا تو اس نے سکندر کو کمرے میں ٹہلتے ہوئے پایا جب کہ طیبہ فکرمندی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
"پاپا! آپ نے بلوایا تھا؟" سالار نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"بیٹھو پھر تمہیں بتاتا ہوں کیوں بلایا ہے۔" سکندر عثمان نے اسے دیکھتے ہی ٹہلنا بند کر دیا۔ وہ بڑے اطمینان سے طیبہ کے برابر بیٹھ گیا۔
"امامہ کہاں ہے؟" سکندر نے لمحہ ضائع کئے بغیر پوچھا۔
"کون امامہ؟" اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے چہرے پر تھوڑی بہت گھبراہٹ ضرور ہوتی، مگر وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
سکندر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔"تمہاری بہن۔۔۔۔۔" وہ غّرائے۔
"میری بہن کا نام انیتا ہے پاپا۔" سالار کے اطمینان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"تم مجھے صرف ایک بات بتاؤ۔ آخر تم مجھے اور کتنی بار اور کتنے طریقوں سے ذلیل کراؤ گے۔" اس بار سکندر عثمان دوسرے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں پاپا! میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔" سالار نے حیرانی سے کہا۔" حالانکہ تمہاری سمجھ میں اب سب کچھ آ رہا ہے۔" انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔"دیکھو، مجھے آرام سے بتا دو کہ امامہ کہاں ہے۔ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔"
"پاپا! آپ کس امامہ کی بات کر رہے ہیں۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔"
"میں وسیم کی بہن کی بات کر رہا ہوں۔" سکندر عثمان اس بار غّرائے۔
"وسیم کی بہن؟" وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا۔"اچھا۔۔۔۔۔ یاد آیا۔۔۔۔۔ وہ جس نے مجھے ٹریٹمنٹ دیا تھا لاسٹ ائیر۔"
"ہاں وہی۔۔۔۔۔ اب چونکہ تمہاری یاداشت واپس آ گئی ہے اس لئے مجھے یہ بھی بتا دو کہ وہ کہاں ہے۔"
"پاپا! وہ اپنے گھر میں ہو گی یا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں۔ میرا اس سے کیا تعلق؟"اس نے حیرانی سے سکندر سے کہا۔"اس کے باپ نے تمہارے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس کروا دیا ہے۔"
"میرے خلاف۔۔۔۔۔I don’t believe it میراا مامہ سے کیا تعلق ہے۔" اس نے پرسکون لہجے اور بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔
"یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟"
"پاپا! میں اس کو جانتا تک نہیں ہوں۔ ایک دو بار کے علاوہ میں اس سےملا تک نہیں۔ پھر اس کے اغوا سے میرا کیا تعلق اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ وہ اغوا ہو گئی ہے۔"
"سالار! اب یہ ایکٹنگ بند کرو۔ مجھے بتا دو کہ وہ بچی کہاں ہے۔ میں نے ہاشم مبین سے وعدہ کیا ہے کہ میں ان کی بیٹی کو ان تک پہنچاؤں گا۔"
"تو آپ اپنا وعدہ پورا کریں اگر ان کی بیٹی کو ان تک پہنچا سکتے ہیں تو ضرور پہنچائیے، مگر مجھے کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں۔" اس بار سالار نے ناگواری سے کہا۔
"دیکھو سالار! تمہاری اور امامہ کے درمیان اگر کسی بھی قسم کی انڈرسٹینڈنگ ہے تو ہم اس معاملے کو حل کر لیں گے۔ میں خود اس کے ساتھ تمہاری شادی کروا دو ں گا۔ تم فی الحال یہ بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔" سکندر عثمان نے اس بار اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا۔
"فارگاڈسیک پاپا۔۔۔۔۔ اسٹاپ اٹ۔۔۔۔۔ کون سی انڈرسٹینڈنگ، کیسی شادی۔۔۔۔۔ میری کسی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہوتی تو میں اسے اغوا کروں گا اور میں انڈرسٹینڈنگ ڈویلپ کروں گا امامہ جیسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔وہ میری ٹائپ ہے؟" اس بار سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"تو پھر وہ تم پر اس کے اغوا کا الزام کیوں لگا رہے ہیں؟"
"یہ آپ ان سے پوچھیں ، مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟" اس نے اسی ناگواری سے جواب دیا۔
"آج ہاشم مبین کہہ رہے ہیں کل کو کوئی اور آ کر کہے گا اور آپ پھر مجھ پر چلانا شروع کر دیں گے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے میں سو رہا تھا جب پولیس آ کر باہر کھڑی ہو گئی اور اب آپ آ گئے ہیں اور آتے ہی مجھ پر۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ وسیم کی بہن اغوا ہوئی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ آخر وہ لوگ مجھ پر الزام کیوں لگا رہے ہیں۔ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ میں نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اور بالفرض میں نے اغوا کیا بھی ہے تو کیا میں یہاں اپنے گھر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے اس وقت اس لڑکی کے ساتھ ہونا چاہئیے۔" سالار تلخی سے بولتا رہا۔
"مجھے ایس پی سے تمہارے کیس کی تفصیلات کا پتا چلا ہے، پھر میں نے کراچی سے ہاشم مبین کو فون کیا، وہ مجھ سے بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ مجھے اس سے بات کرنے کے لئے منتیں کرنی پڑیں۔ اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا ہے۔۔۔۔۔ اس کی بیٹی رات کو غائب ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اور تم بھی رات کو گئے ہو اور صبح آئے ہو۔"
"تو پاپا! اس میں اغوا کہاں سے آ گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں رات کو کہیں نہیں گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ اغوا کرنے کے لئے کسی کے گھر جا کر لڑکی کو زبردستی لے جانا ضروری ہے اور میں کسی کے گھر نہیں گیا۔"
"ہاشم مبین کے چوکیدار نے رات کو تمہیں جاتے اور اور صبح آتے دیکھا ہے۔"
"اس کا چوکیدار جھوٹا ہے۔" سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"میرے چوکیدار نے تمہیں رات کو ایک لڑکی کو کار میں لے جاتے دیکھا ہے۔" سکندر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ سالار چند لمحے کچھ بول نہ سکا۔ سکندر یقیناً گھر آتے ہی چوکیدار سے بات کر چکے تھے۔
"وہ میری ایک فرینڈ تھی جسے میں گھر چھوڑنے گیا تھا۔" اس نے طیبہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کون ہے وہ فرینڈ؟ اس کا نام اور پتہ بتاؤ۔"
"سوری پاپا میں نہیں بتا سکتا۔It’s personal۔"
"یہاں اسلام آباد چھوڑنے گئے تھے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"تم اسے لاہور چھوڑ کر آئے ہو۔ ایس پی نے مجھے خود بتایا ہے۔ تم چار ناکوں سے گزرے ہو۔ چاروں پر تمہارا نمبر نوٹ کیا گیا ہے۔ راستے میں تم نے ایک سروس اسٹیشن پر رک کر گاڑی چیک کروائی ہے۔۔۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ وہاں کھانا کھایا ہے۔" سکندر نے اس سروس اسٹیشن اور ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے کہا۔ سالار کچھ دیر سکندر کو دیکھتا رہا مگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔" ایس پی نے مجھے یہ سب کچھ خود بتایا ہے۔ اس نے ابھی ہاشم مبین کو یہ سب کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور خاموشی کے ساتھ لڑکی کو واپس پہنچا دوں یا اس کے گھر والوں کو اس لڑکی کا پتا بتا دوں تاکہ یہ معاملہ خاموشی سے کسی مسئلے کے بغیر ختم ہو جائے مگر وہ کب تک ہاشم مبین کو نہیں بتائے گا۔ وہ دوستی کا لحاظ کر کے سب کچھ چھپا بھی گیا تب بھی ہاشم مبین کے اور بہت سے ذرائع ہیں۔ اسے وہاں سے پتا چل جائے گا اور پھر تمہاری پوری زندگی جیل میں گزرے گی۔"
سکندر نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔ وہ متاثر ہوئے بغیر انہیں دیکھتا رہا۔
"اب جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور مجھے بتا دو کہ وہ لڑکی کہاں ہے۔"
"وہ لڑکی ریڈ لائٹ ایریا میں ہے۔" سکندر کو اس کی بات پر کرنٹ لگا۔
"واٹ۔۔۔۔۔؟"
"میں اسے وہاں سے لایا تھا، وہیں چھوڑ آیا ہوں۔"
وہ سفید چہرے کے ساتھ سالار کو دیکھتے رہے۔
"مگر وہ امامہ نہیں تھی، میں پرسوں لاہور گیا ہوا تھا وہاں سے میں رات گزارنے کے لئے اس لڑکی کو لایا تھا، آج میں اسے وہاں چھوڑ آیا۔ میرے پاس اس کا کوئی کانٹیکٹ نمبر تو نہیں ہے، مگر آپ میرے ساتھ لاہور چلیں تو میں آپ کو اس لڑکی کے پاس لے جاتا ہوں یا پتا بتا دیتا ہوں آپ خود یا پولیس کو کہیں کہ وہ اس لڑکی سے تصدیق کر لیں۔"
کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی۔ طیبہ اور سکندر بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہے تھے جب کہ وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آتا کہ تم۔۔۔۔۔ تم اس طرح کی حرکت کر سکتے ہو۔ تم ایسی جگہ جا سکتے ہو؟" ایک لمبی خاموشی کے بعد سکندر نے کہا۔
"آئی ایم سوری پاپا! مگر میں جاتا ہوں۔۔۔۔۔ اور اس بات کا امامہ کے بھائی وسیم کو بھی پتا ہے۔ میں کئی بار ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں جاتا رہا ہوں اور وسیم یہ بات جانتا ہے، آپ اس سے پوچھ لیں۔"
"ایڈریس دو اس لڑکی کا۔" وہ کچھ دیر بعد غّرائے۔
"میں اپنے کمرے سے لے کر آتا ہوں۔" اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے موبائل اٹھایا اور لاہور میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو فون کرنے لگا۔ اسے ساری صورت ِحال بتانے کے بعد اس نے کہا۔
"اکمل! میں اپنے پاپا کو ریڈ لائٹ ایریا کے اس گھر کا پتا دے رہا ہوں جہاں ہم جاتے رہتے ہیں۔ تم وہاں کسی بھی ایسی لڑکی کو جو مجھے جانتی ہے اس کو اس بارے میں بتا دو، میں ابھی کچھ دیر تک تمہیں دوبارہ فون کرتا ہوں۔"
وہ کہتے ہوئے تیزی سے ایک چٹ پر ایک ایڈریس لکھنے لگا اور پھر اسے لے کر سکندر کے کمرے میں آ گیا۔ اس نے چٹ سکندر کے سامنے کر دی، جسے انہوں نے تقریباً چھین لیا۔ ایک نظر اس چٹ پر ڈال کر انہوں نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
"دفع ہو جاؤ یہاں سے۔" وہ اطمینان سے انداز میں وہاں سے آ گیا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے اکمل کو دوبارہ فون کیا۔
"میں تمہیں وہاں پہنچ کر فون کرتا ہوں۔" اکمل نے اس سے کہا وہ بیڈ پر لیٹ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ منٹ کے بعد اکمل نے اسے فون کیا۔
"سالار! میں نے سنعیہ کو تیار کیا ہے۔ اسے میں نے سارا معاملہ سمجھا دیا ہے۔" اکمل نے اسے بتایا وہ سنعیہ کو جانتا تھا۔
"اکمل! اب تم ایک کاغذا ور پینسل لو اور میں کچھ چیزیں لکھوا رہا ہوں اسے لکھو۔" اس نے اکمل سے کہا اور پھر اسےا پنے گھر کے بیرونی منظر اور لوکیشن کی تفصیلات لکھوانے لگا۔
"یہ کیا، میں نے دیکھا ہوا ہے تمہارا گھر۔۔۔۔۔" اکمل نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا۔
"تم نے دیکھا نے سنعیہ نے تو نہیں دیکھا۔ یہ ساری تفصیلات میں سنعیہ کے لئے لکھوا رہا ہوں اگر پولیس اس کے پاس آئی تو وہ یہ ساری چیزیں اس سے پوچھے گی صرف یہ تصدیق کرنے کے لئے کہ کیا وہ واقعی میرے ساتھ یہاں اسلام آباد میں تھی۔ وہ گاڑی میں چھپ کر آئی تھی۔ اور رات کے وقت آئی تھی اس لئے اسے زیادہ تفصیل کا نہیں پتا، مگر گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے دائیں اور بائیں دونوں طرف لان ہے۔ میری گاڑی کا رنگ سرخ تھا۔ اسپورٹس کار اور نمبر۔۔۔۔۔" وہ اسے لکھواتا گیا۔
"ہم پولیس کے چار ناکوں سے گزرے تھے۔ اس نے سفید شلوار قمیص، سفید چادر اور سیاہ سویٹر پہنا ہوا تھا، رستے میں ہم اس نام کے سروس اسٹیشن پر بھی رکے تھے۔"سالار نے نام بتایا، سروس اسٹیشن اور ہوٹل، وہ دھند کی وجہ سے صحیح طرح نہیں دیکھ سکی۔" سالار یکے بعد دیگرے ہر چیز کی تفصیل لکھواتا گیا۔ سروس اسٹیشن پر گاڑی ٹھیک کرنے والے آدمی سے لے کر چائے بنانے والے لڑکے کے حلیے اور اس کمرے کی تفصیلات۔۔۔۔۔ انہوں نے کیا کھایا تھا، سالار اور لڑکے کے درمیان کیا گفتگو ہوئی تھی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی تفصیلات اسے لکھوائی تھیں۔ اس نے اپنے گھر کے پورچ سے لے کر اپنے کمرے تک کے راستے اور اپنے کمرے کا تمام حلیہ بھی اسے نوٹ کروا دیا تھا۔
"سنعیہ سے کہو یہ سب کچھ رٹ لے۔" اس نے اکمل کو آخری ہدایت دی اور فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ بیڈ پر بیٹھا ابھی کچھ سوچ رہا تھا جب سکندر عثمان اچانک دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں آئے۔
"اس لڑکی کا کیا نام ہے؟"
"سنعیہ!" سالار نے بے اختیار کہا۔ سکندر عثمان مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔