جمعہ، 17 اپریل، 2015

الرحیق المختوم پانچواں حصہ

0 comments
ــ
1 ابن ہشام ۱/۳۶۲ 2 الدر المنثور ۶/۶۹۲
3 تفسیر ابن جریر طبری
زندگی میں اور دوہری سزا مرنے کے بعد چکھاتے۔ پھر آپ کو ہمارے مقابل کوئی مدد گار نہ ملتا۔ ''
مشرکین کی حیرت ،سنجیدہ غور وفکر اور یہود سے رابطہ:
مذکورہ بات چیت ، ترغیبات ، سودے بازیوں اوردست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے۔ وہ حیران تھے کہ اب کیاکریں۔ چنانچہ ان کے ایک شیطان نضر بن حارث نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا : قریش کے لوگو !و اللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے۔محمد تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے۔ اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں ) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں نہیں ، واللہ !وہ جادوگر نہیں۔ ہم نے جادوگر دیکھے ہیں۔ ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں۔ نہیں واللہ! وہ کاہن بھی نہیں ، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں ، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں۔ نہیں ، واللہ !وہ شاعر بھی نہیں۔ ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف ، ہجز ، رجز وغیرہ سنے ہیں۔ تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں۔ نہیں واللہ !وہ پاگل بھی نہیں ، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے۔ ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں ، اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو ! سوچو ، واللہ ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔
ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبیﷺ ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے ساری ترغیبات پر لات مار دیا ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ سچائی ، پاکدامنی ، اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں۔ تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے۔ چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے، اور ان سے آپ کے معاملے کی تحقیق کر ے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو۔ اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے ورنہ سخن ساز۔ اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں ان کا کیا واقعہ ہے ؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق ومغرب کے چکر لگائے اس کی کیا خبر ہے ؟ اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے ؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تواس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی۔ چنانچہ قریش نے آپ سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا۔ چند دن بعد سورہ ٔ کہف نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا۔ روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا۔ اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ سچے اور برحق پیغمبر ہیں لیکن ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔ 1
مشرکین نے رسول اللہﷺ کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے۔ وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے۔ سختی سے نرمی کی طرف اور نر می سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف ، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف ، کبھی بھڑکتے ، کبھی نرم پڑ جاتے ، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے۔ کبھی مرنے مارنے پر اترآتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے۔ نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا۔ نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے ، لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارہ ٔ کا ر رہ گیا اور یہ تھا تلوار ، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کر یں۔
ابو طالب اور ان کے خاندان کا موقف:
لیکن جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو جب ان کے سامنے قریش کا یہ مطالبہ آیا کہ وہ نبیﷺ کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے کردیں اور ان کی حرکات وسکنات میں ایسی علامت دیکھیں جس سے یہ اندیشہ پختہ ہوتا تھا کہ وہ ابو طالب کے عہد وحفاظت کی پروا کیے بغیر نبیﷺ کو قتل کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ مثلا: عقبہ بن ابی معیط ، ابو جہل بن ہشام اور عمربن خطاب کے اقدامات ...تو انہوں نے اپنے جد اعلیٰ مناف کے دوصاحبزادوں ہاشم اور مطلب سے وجود میں آنے والے خاندانوں کو جمع کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ سب مل کر نبیﷺ کی حفاظت کا کام انجام دیں۔ ابوطالب کی یہ بات عربی حمیت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے قبول کی اور اس پر خانۂ کعبہ کے پاس عہد وپیمان کیا۔ البتہ صرف ابوطالب کا بھائی ابو لہب ایک فرد تھا جس نے یہ بات منظور نہ کی اور سارے خاندان سے الگ ہوکر مشرکین قریش کے ساتھ رہا۔ 2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۲۹۹ ، ۳۰۰ ، ۳۰۱
2 ابن ہشام ۱/۲۶۹
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد

رسول اللہﷺ نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبیﷺ سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔
ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور عمر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمدﷺ کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ﷺ ) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ﷺ ) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔
بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔
انہوں نے کہا:
اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپﷺ کو بلوایا اور آپﷺ تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔
جواب میں رسول اللہﷺ نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔ آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے...ابن اسحاق کی ایک روایت یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور عجم آپ کے زیر ِ نگیں آجائے گا۔
بہر حال جب یہ بات آپﷺ نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟ آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ﷺ ) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔
پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں :
ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ﴿١﴾ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ ﴿٢﴾ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ ﴿٣﴾ وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿٤﴾ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴿٦﴾ مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴿٧﴾ (۳۸: ۱تا۷)
''ص ، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔ بلکہ جنہوں نے کفر کیا ہی کڑ ی اور ضد میں ہیں۔ ہم نے کتنی ہی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر دیں اور وہ چیخے چلائے۔ (لیکن اس وقت ) جبکہ بچنے کا وقت نہ تھا۔ انہیں تعجب ہے کہ ان کے پاس خود انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا۔ کافر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے، بڑا جھوٹا ہے۔ کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور ان کے بڑے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ ہم نے کسی اور ملت میں یہ بات نہیں سنی ، یہ محض گھڑنت ہے۔'' 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر
غم کا سال

ابو طالب کی وفات:
ابو طالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شعب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب ۱۰ نبوی میں ہوئی۔ 1ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت خدیجہ ؓکی وفات سے صرف تین دن پہلے ماہ رمضان میں وفات پائی۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیبؒ سے مروی ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبیﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، وہاں ابو جہل بھی موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: چچا جان ! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا : ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رخ پھیر لو گے؟ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابو طالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ''عبد المطلب کی ملت پر۔'' نبیﷺ نے فرمایا: میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفر ت کرتا رہوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾ (۹: ۱۱۳)
''نبی (ﷺ ) اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قربت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔''
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ (۲۸: ۵۶)
''آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔''2
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابو طالب نے نبیﷺ کی کس قدر حمایت وحفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے لیکن وہ بذاتِ خود اپنے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت کے مآخذ میں بڑا اختلاف ہے کہ ابو طالب کی وفات کس مہینے میں ہوئی؟ ہم نے رجب کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ بیشتر مآخذ کا اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعب ابی طالب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ہوئی اور محصوری کا آغاز محرم ۷ نبوی کی چاند رات سے ہوا تھا۔ اس حساب سے ان کی موت کا زمانہ رجب ۱۰ نبوی ہی ہوتا ہے۔
2 صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸
بزرگ آباء و اجداد کی ملت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پاسکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے دریافت کیا کہ آپ اپنے چچا کے کیا کام آسکے ؟ کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر ) بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے ) تھے۔ آپ نے فرمایا : وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔ 1
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبیﷺ کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا : ممکن ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انہیں جہنم کی ایک اوتھلی جگہ میں رکھ دیا جائے ، جو صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ سکے۔ 2
حضرت خدیجہ ؓ جوارِ رحمت میں:
جناب ابوطالب کی وفات کے دوماہ بعد یا صرف تین دن بعد ...علی اختلاف الاقوال... حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ بھی رحلت فرماگئیں۔ ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت وہ ۶۵ برس کی تھیں اور رسول اللہﷺ اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔3
حضرت خدیجہؓ رسول اللہﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپﷺ کی رفاقت میں رہیں اور اس دوران رنج وقلق کا وقت آتا تو آپ کے لیے تڑپ اٹھتیں۔ سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپﷺ کو قوت پہنچاتیں۔ تبلیغ ِ رسالت میں آپﷺ کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ کی شریک کار رہتیں اور اپنی جان ومال سے آپﷺ کی خیر خواہی وغمگساری کرتیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انہوں نے میری تصدیق کی۔ جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انہوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاددی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔ 4
صحیح بخاری میں سیّدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبیﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول ! یہ خدیجہ ؓ تشریف لا رہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آپہنچیں تو آپ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی وتکان۔ 5
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1، 2 صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸
3 رمضان میں وفات کی صراحت ابن جوزی نے تلقیح الفہوم ص ۷ میں اور علامہ منصور پوری نے رحمۃ للعالمین ۲/۱۶۴ میں کی ہے۔
4 مسند احمد ۶/۱۱۸
5 صحیح بخاری باب تزویج النبی ﷺ خدیجہ وفضلہا ۱/۵۳۹
غم ہی غم:
یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبیﷺ کے دل میں غم والم کے احساسات موجزن ہوگئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپﷺ کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپﷺ کے غم والم میں اور اضافہ کر دیا۔ آپﷺ نے ان سے مایوس ہوکر طائف کی راہ لی کہ ممکن ہے وہاں لوگ آپﷺ کی دعوت قبول کرلیں۔ آپﷺ کو پناہ دے دیں۔ اور آپﷺ کی قوم کے خلاف آپﷺ کی مدد کریں لیکن وہاں نہ کوئی پناہ دہندہ ملا نہ مدد گار بلکہ الٹے انہوں نے سخت اذیت پہنچائی اور ایسی بدسلوکی کہ خود آپﷺ کی قوم نے ویسی بد سلوکی نہ کی تھی۔(تفصیل آگے آرہی ہے)
یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہوگا کہ اہل مکہ نے جس طرح نبیﷺ کے خلاف ظلم وجورکا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح وہ آپﷺ کے رفقاء کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپﷺ کے ہمدم وہمراز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے ، لیکن برکِ غَماَد پہنچے تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوگئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ کو مکہ واپس لے آیا۔ 1
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول اللہﷺ کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ابوطالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزوبھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آکر آپﷺ کے سر پر مٹی ڈال دی۔ آپﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپﷺ کے سر پر پڑی ہوئی تھی آپﷺ کی ایک صاحبزادی نے اٹھ کر مٹی دھلی، وہ دھلتے ہوئے روتی جارہی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جارہے تھے۔ بیٹی ! روؤ مت، اللہ تمہارے ابا کی حفاظت کرے گا۔ اس دوران آپ یہ بھی فرماتے جارہے تھے کہ قریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بد سلوکی نہ کی جو مجھے ناگوار گزری ہو یہاں تک کہ ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ 2
اسی طرح کے پے در پے آلام ومصائب کی بنا پر اس سال کا نام ''عام الحزن'' یعنی غم کا سال پڑگیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہوگیا۔
حضرت سَودَہ ؓسے شادی:
اسی سال - شوال ۱۰ نبوت - میں رسول اللہﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ سے شادی کی۔ یہ ابتدائی دور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1اکبر شاہ نجیب آباد ی نے صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا تھا۔ دیکھئے: تاریخ اسلام ۱/۱۲۰ ، اصل واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ ابن ِ ہشام ۱/۳۷۲ تا ۳۷۴ اور صحیح بخاری ۱/۵۵۲ ، ۵۵۳ میں مذکور ہے ۔
2 ابن ہشام ۱/۴۱۶
میں مسلمان ہوگئی تھیں اور دوسری ہجرت حبشہ کے موقع پر ہجرت بھی کی تھی۔ ان کے شوہر کا نام سکران بن عمرو تھا۔ وہ بھی قدیم الاسلام تھے اور حضرت سودہ نے انہیں کی رفاقت میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی لیکن وہ حبشہ ہی میں ... اور کہا جاتا ہے کہ مکہ واپس آکر... انتقال کر گئے ، اس کے بعد جب حضرت سودہؓ کی عدت ختم ہوگئی تو نبیﷺ نے ان کو شادی کا پیغام دیا اور پھر شادی ہوگئی۔یہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد پہلی بیوی ہیں جن سے رسول اللہﷺ نے شادی کی۔ چند برس بعد انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی۔ 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1رحمۃ للعالمین ۲/۱۶۵،تلقیح الفہوم ص ۶

ابتدائی مسلمانوں کا صبر وثبات اور اس کے اسباب وعوامل

یہاں پہنچ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل ودماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب وعوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر انتہائی اور معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟ آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ باربار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب وعوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کردیا جائے۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے۔ کیونکہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانشیں ہوجاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقین کامل سے بہرہ ور ہو وہ دنیا کی مشکلات کو ...خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم ، خطرناک اور سخت ہوں...اپنے ایمان کے بالمقابل اس کا ئی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت ، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتا کہ :
فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْ‌ضِ (۱۳: ۱۷)
''جو جھاگ ہے وہ تو بیکار ہوکر اڑ جاتا ہے اور جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں برقرار رہتی ہے۔''
پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اس صبر وثبات قدمی کو قوت بخشتے ہیں۔ مثلاً:
پر کشش قیادت:... معلوم ہے کہ نبیﷺ جو امت ِ اسلامیہ بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد ورہنماتھے۔ ایسے جسمانی جمال ، نفسانی کمال ، کریمانہ اخلاق ، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات واطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپﷺ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور طبیعتیں خودبخود آپﷺ پر نچھاور ہوتی تھیں کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپﷺ کو اتنا بھر پور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔ آپﷺ شرف دعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت ، صدق وصفا اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ امتیاز ی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپﷺ کے دشمنوں کو بھی آپﷺ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپﷺ کی زبان سے جو بات نکل گئی ، دشمنوں کو بھی یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہوکر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا تھا۔ انہی تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (ﷺ ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبد مناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء ومساکین کو ) کھلا یا تو ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے داد ودہش میں سواریاں عطاکیں تو ہم نے بھی عطا کیں۔ انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دومقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنوعبد مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (ﷺ ) ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتایئے ہم اسے کب پاسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے ، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔ 1چنانچہ ابوجہل کہا کرتا تھا : اے محمد (ﷺ ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔'' 2
اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبیﷺ کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت !میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کرگئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پاسکتا تھا اس کے ذریعہ آپﷺ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ اسی طرح اس کی بھی تفصیل گزر چکی ہے کہ جب حالت سجدہ میں آپﷺ پر اوجھڑی ڈالی گئی ، اور آپﷺ نے سر اٹھا نے کے بعد اس حرکت کے کرنے والوں پر بددعا کی تو ان کی ہنسی ہوا ہوگئی اور ان کے اندر غم وقلق کی لہر دوڑ گئی، انہیں یقین ہوگیا کہ اب ہم بچ نہیں سکتے۔
یہ واقعہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ آپﷺ نے ابو لہب کے بیٹے عتیبہ پر بددعا کی تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ آپﷺ کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس نے ملک شام کے سفر میں شیر کو دیکھتے ہی کہا : واللہ! محمد(ﷺ ) نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے قتل کر دیا۔
ابی بن خلف کا واقعہ ہے کہ وہ بار بار آپﷺ کو قتل کہ دھمکیا ں دیا کرتا تھا۔ ایک بار آپﷺ نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۳۱۶ 2 ترمذی : تفسیر سورۃ الانعام ۲/۱۳۲
جواباً فرمایا کہ (تم نہیں ) بلکہ میں تمہیں قتل کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ اس کے بعد جب آپﷺ نے جنگ احد کے روز ابی کی گردن پر نیزہ مارا تو اگر چہ اس سے معمولی خراش آئی تھی لیکن ابی برابر یہی کہے جارہا تھا کہ محمدﷺ نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا، اس لیے اگر وہ مجھ پر تھوک ہی دیتا تو بھی میری جان نکل جاتی۔1 (تفصیل آگے آرہی ہے )
اسی طرح ایک بار حضرت سعد بن معاذؓ نے مکے میں امیہ بن خلف سے کہہ دیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان تمہیں قتل کریں گے تو اس سے امیہ پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی ، جو مسلسل قائم رہی، چنانچہ اس نے عہد کرلیا کہ وہ مکے سے باہر نہ نکلے گا اور جب جنگ ِ بدر کے موقع پر ابو جہل کے اصرار سے مجبور ہوکر نکلنا پڑا تو اس نے مکے کا سب سے تیزرو اونٹ خریدا تاکہ خطرے کی علامات ظاہر ہوتے ہی چَمپت ہوجائے۔ ادھر جنگ میں جانے پر آمادہ دیکھ کر اس کی بیوی نے بھی ٹوکا کہ ابو صفوان ! آپ کے یثربی بھائی نے جو کچھ کہا تھا اسے آپ بھول گئے ؟ ابوصفوان نے جواب میں کہاکہ نہیں ، بلکہ میں...اللہ کی قسم!... ان کے ساتھ تھوڑی ہی دور جاؤں گا۔2
یہ تو آپﷺ کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپﷺ کے صحابہ ؓ اور رفقاء تو آپﷺ تو ان کے لیے دیدہ ودل اور جان وروح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپﷺ کے لیے حبِّ صادق کے جذبات اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان ودل اس طرح آپﷺ کی طرف کھنچتے تھے جیسے لو ہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے :



فصورتہ ھیولی کل جسم​
ومغناطیس أفئدۃ الرجال​



آپ کی صورت ہر جسم کا ہیولیٰ تھی​
اور آپ کا وجود ہر دل کے لیے مقناطیس​
اس محبت وفداکاری اور جاں نثاری وجاںسپاری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کو یہ گوارانہ تھا کہ آپﷺ کے ناخن میں خراش آجائے یا آپﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کوٹ دی جائیں۔
ایک روز ابوبکر صدیقؓ کو بری طرح کچل دیا گیا اور انہیں سخت مار ماری گئی، عتبہ بن ربیعہ ان کے قریب آکر انھیں دوپیوند لگے جوتوں سے مارنے لگا، چہرے کو خصوصیت سے نشانہ بنایا، پھر پیٹ پر چڑ ھ گیا۔ کیفیت یہ تھی کہ چہرے اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا، پھر ان کے قبیلہ بنو تیم کے لوگ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۸۴ 2 صحیح بخاری ۲/۵۶۳
گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب یہ زندہ نہ بچیں گے لیکن دن کے خاتمے کے قریب ان کی زبان کھل گئی۔ (اور زبان کھلی تو یہ ) بولے کہ رسول اللہﷺ کیا ہوئے ؟ اس پر بنو تیم نے انہیں سخت سست کہا۔ ملامت کی اور ان کی ماں ام الخیر سے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ انہیں کچھ کھلا پلا دینا۔ جب وہ تنہا رہ گئیں تو انہوں نے ابوبکر ؓ سے کھانے پینے کے لیے اصرار کیا لیکن ابوبکرؓ یہی کہتے رہے کہ رسول اللہﷺ کا کیا ہوا ؟ آخر ام الخیر نے کہا :مجھے تمہارے ساتھی کا حال معلوم نہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا : ام جمیل بنت خطاب کے پاس جاؤ اور اس سے دریافت کرو۔ وہ ام جمیل کے پاس گئیں اور بولیں: ابو بکر ؓ تم سے محمد بن عبد اللہ (ﷺ ) کے بارے میں دریافت کررہے ہیں۔ ام جمیل نے کہا:میں نہ ابوبکر کو جانتی ہوں نہ محمد بن عبد اللہﷺ کو، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے صاحبزادے کے پاس چل سکتی ہوں۔ ام الخیر نے کہا : بہتر ہے۔ اس کے بعد ام جمیل ان کے ہمراہ آئیں دیکھا تو ابوبکر ؓ انتہائی خستہ حال پڑے تھے۔ پھر قریب ہوئیں تو چیخ پڑیں اور کہنے لگیں: جس قوم نے آپ کی یہ درگت بنائی ہے وہ یقینا بد قماش اور کافر قوم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ آپ کا بدلہ ان سے لے کر رہے گا۔ ابوبکر ؓ نے پوچھا : رسول اللہﷺ کیا ہوئے ؟ انہوں نے کہا :یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں۔ کہا:کوئی بات نہیں۔ بولیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سالم ہیں۔ پوچھا: کہاں ہیں ؟کہا : ابن ارقم کے گھر میں ہیں۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا: اچھا تو پھر اللہ کے لیے مجھ پر عہد ہے کہ میں نہ کوئی کھانا کھاؤں گا نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ اس کے بعد ام الخیر اور ام جمیل رکی رہیں، جب آمد ورفت بند ہوگئی اور سیاپا پڑ گیا تو دونوں ابوبکر ؓ کو لے کر نکلیں وہ ان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس طرح انہوں نے ابوبکر ؓ کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچادیا۔ 1
محبت و جاں سپاری کے کچھ اور بھی نادر واقعات ہم اپنی اس کتاب میں موقع بہ موقع نقل کریں گے۔ خصوصاً جنگ احد کے واقعات اور حضرت خبیب ؓ کے حالات کے ضمن میں۔
احساسِ ذمہ داری: ...صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ یہ مشتِ خاک جسے انسان کہا جاتا ہے اس پر کتنی بھاری بھرکم اور زبردست ذمہ داریاں ہیں اور یہ کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج ہوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس کے گریز بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میںپیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
آخرت پر ایمان: ...جو مذکورہ احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا باعث تھا۔ صحابہ کرامؓ اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 البدایہ والنہایہ ۳/۳۰
عذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ رَ‌اجِعُونَ ﴿٦٠﴾ (۲۳: ۶۰)
''وہ جو کچھ کرتے ہیں دل کے اس خوف کے ساتھ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے۔''
انہیں اس کا بھی یقین تھا کہ دنیا اپنی ساری نعمتوں اور مصیبتوں سمیت آخرت کے مقابل مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں اور یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری مشکلات ، مشقتیں اور تلخیاں ہیچ تھیں ، اس لیے وہ ان مشکلات اور تلخیوں کوکوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔
4 انہی پر خطر مشکل ترین اور تیرہ وتار حالات میں ایسی سورتیں اور آیتیں بھی نازل ہورہی تھیں جن میں بڑے ٹھوس اور پر کشش انداز سے اسلام کے بنیادی اصولوں پر دلائل وبراہین قائم کیے گئے تھے اور اس وقت اسلام کی دعوت انہی اصولوں کے گردش کر رہی تھی۔ ان آیتوں میں اہل اسلام کو ایسے بنیادی امور بتلائے جارہے تھے ، جن پر اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کے سب سے باعظمت اور پر رونق معاشرے، یعنی اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل مقدر کر رکھی تھی۔ نیز ان آیات میں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو پامردی وثبات قدمی پر ابھارا جارہا تھا۔ اس کے لیے مثالیں دی جارہی تھیں اور اس کی حکمتیں بیان کی جاتی تھیں :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّ‌اءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ‌ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ ﴿٢١٤﴾ (۲:۲۱۴)
''تم سمجھتے ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بد حالیوں سے دوچار ہوئے اور انہیں جھنجوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ رسول اور جولوگ ان پر ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو ! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔''
الم ﴿١﴾ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَ‌كُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾ (۲۹: ۱،۲،۳)
''الٓمٓ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے ، اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، حالانکہ ان سے پہلے جولوگ تھے ہم نے ان کی آزمائش کی۔ لہٰذا (ان کے بارے میں بھی ) اللہ یہ ضرور معلوم کرے گا کہ کن لوگوں نے سچ کہا اور یہ بھی ضرور معلوم کرے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔''
اور انہی کے پہلو بہ پہلو ایسی آیات کا نزول بھی ہورہا تھا جن میں کفار ومعاندین کے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے گئے تھے، ان کے لیے کوئی حیلہ باقی نہیں چھوڑا تھا اور انہیں بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتلادیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی گمراہی اورعناد پر مصررہے توا س کے نتائج کس قدر سنگین ہوں گے۔ اس کی دلیل میں گزشتہ قوموں کے ایسے واقعات اور تاریخی شواہد پیش کیے گئے تھے جن سے واضح ہوتا تھا کہ اللہ کی سنت اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں کیا ہے۔ پھر اس ڈراوے کے پہلو بہ پہلو لطف وکرم کی باتیں بھی کہی جارہی تھیں اور افہام وتفہیم اور ارشاد ورہنمائی کا حق بھی ادا کیا جارہا تھا تاکہ باز آنے والے اپنی کھلی گمراہی سے باز آسکیں۔
درحقیقت قرآن مسلمانوں کو ایک دوسری ہی دنیا کی سیر کراتا تھا اور انہیں کائنات کے مشاہد ، ربوبیت کے جمال ، الوہیت کے کمال ، رحمت ورافت کے آثار اور لطف ورضا کے ایسے ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کے جذب وکشش کے آگے کوئی رکاوٹ برقرار ہی نہ رہ سکتی تھی۔
پھر انہیں آیات کی تہہ میں مسلمانوں سے ایسے ایسے خطاب بھی ہوتے تھے جن میں پروردگار کی طرف سے رحمت ورضوان اور دائمی نعمتوں سے بھری ہوئی جنت کی بشارت ہوتی تھی اور ظالم وسرکش دشمنوں اور کافروں کے ان حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی کہ وہ رب العالمین کی عدالت میں فیصلے کے لیے کھڑے کیے جائیں گے۔ ان کی بھلائیاں اورنیکیاں ضبط کر لی جائیں گی اور انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کر یہ کہتے ہوئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا کہ لو جہنم کا لطف اٹھاؤ۔
کامیابی کی بشارتیں:...ان ساری باتوں کے علاوہ مسلمانوں کو اپنی مظلومیت کے پہلے ہی دن سے ... بلکہ اس کے بھی پہلے سے... معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دائمی مصائب اور ہلاکت خیز یاں مول لے لی گئیں، بلکہ اسلامی دعوت روزِ اول سے جاہلیت جہلاء اور اس کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے عزائم رکھتی ہے اور اس دعوت کا ایک اہم نشانہ یہ بھی ہے کہ وہ روئے زمین پر اپنا اثر ونفوذ پھیلائے اور دنیا کے سیاسی موقف پر اس طرح غالب آجائے کہ انسانی جمعیت اور اقوامِ عالم کو اللہ کی مرضی کی طرف لے جاسکے اور انہیں بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرسکے۔
قرآن مجید میں یہ بشارتیں ...کبھی اشارتاً اور کبھی صراحتاً...نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک طرف حالات یہ تھے کہ مسلمانوں پر پوری روئے زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ بنی ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب وہ پنپ نہ سکیں گے بلکہ ان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا مگر دوسری طرف ان ہی حوصلہ شکن حالات میں ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہتا تھا جن میں پچھلے انبیاء کے واقعات اور ان کی قوم کی تکذیب وکفر کی تفصیلات مذکور ہوتی تھیں اور ان آیات میں ان کا جو نقشہ کھینچا جاتا تھا وہ بعینہٖ وہی ہوتا تھا جو مکے کے مسلمانوں اور کافروں کے مابین درپیش تھا۔اس کے بعد یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ ان حالات کے نتیجے میں کس طرح کافروں اور ظالموں کو ہلاک کیا گیا اور اللہ کے نیک بندوں کو روئے زمین کا وارث بنایا گیا۔ اس طرح ان آیات میں واضح اشارہ ہوتا تھا کہ آگے چل کر اہل مکہ ناکام ونامراد رہیں گے اور مسلمان اور ان کی اسلامی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوگی، پھر انہی حالات وایام میں بعض ایسی بھی آیتیں نازل ہوجاتی تھیں جن میں صراحت کے ساتھ اہل ایمان کے غلبے کی بشارت موجود ہوتی تھی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُ‌ونَ ﴿١٧٢﴾ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴿١٧٣﴾ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿١٧٤﴾ وَأَبْصِرْ‌هُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٧٥﴾ أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ﴿١٧٦﴾ فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنذَرِ‌ينَ ﴿١٧٧﴾ (۳۷: ۱۷۱ - ۱۷۷ )
''اپنے فرستادہ بندوں کے لیے ہمارا پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان کی ضرور مدد کی جائے گی اور یقینا ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ پس (اے نبیﷺ ) ایک وقت تک کے لیے تم ان سے رخ پھیر لو اور انہیں دیکھتے رہو عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں تو جب وہ ان کے صحن میں اتر پڑے گا تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوجائے گی۔''
نیز ارشاد ہے :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب اس جمعیت کو شکست دے دی جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔''
جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ ﴿١١﴾ (۳۸: ۱۱ )
''یہ جتھوں میں سے ایک معمولی سا جتھہ ہے جسے یہیں شکست دی جائے گی۔''
مہاجرین حبشہ کے بارے میں ارشاد ہوا :
وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ أَكْبَرُ‌ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾ (۱۶: ۴۱)
''جن لوگوں نے مظلومیت کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہم انہیں یقینا دنیا میں بہترین ٹھکانہ عطا کریں گے اور آخرت کا اجر بہت ہی بڑا ہے اگر لوگ جانیں۔''
اسی طرح کفار نے رسول اللہﷺ سے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھا تو جواب میں ضمناً یہ آیت بھی نازل ہوئی:
لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ ﴿٧﴾ (۱۲: ۷)
''یوسف اور ان کے بھائیوں (کے واقعے ) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔''
یعنی اہل مکہ جو آج حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھ رہے ہیں یہ خود بھی اسی طرح ناکام ہوں گے جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائی ناکام ہوئے تھے اور ان کی سپر اندازی کا وہی حال ہوگا جوا ن کے بھائیوں کا ہوا تھا۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعے سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ ظالم کا حشر کیا ہوتا ہے۔ ایک جگہ پیغمبروں کا تذکرہ کر تے ہوئے ارشاد ہوا :
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِرُ‌سُلِهِمْ لَنُخْرِ‌جَنَّكُم مِّنْ أَرْ‌ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ‌بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ‌ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾ (۱۴: ۱۳،۱۴)
''کفار نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ۔ اس پر ان کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو یقینا ہلاک کردیں گے اور تم کو ان کے بعد زمین میں ٹھہرائیں گے۔یہ (وعدہ) ہے اس شخص کے لیے جومیرے پاس کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔''
اسی طرح جس وقت فارس وروم میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور کفار چاہتے تھے کہ فارسی غالب آجائیں کیونکہ فارسی مشرک تھے اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی غالب آجائیں۔ کیونکہ رومی بہر حال اللہ پر ، پیغمبروں پر ، وحی پر ، آسمانی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کے دعویدار تھے لیکن غلبہ فارسیوں کو حاصل ہوتا جارہا تھا تو اس وقت اللہ نے یہ خوشخبری نازل فرمائی کہ چند بر س بعد رومی غالب آجائیں گے، لیکن اسی ایک بشارت پر اکتفاء نہ کی بلکہ اس ضمن میں یہ بشارت بھی نازل فرمائی کہ رومیوں کے غلبے کے وقت اللہ تعالیٰ مومنین کی بھی خاص مدد فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾ بِنَصْرِ‌ اللَّـهِ (۳۰: ۴،۵)
''یعنی اس دن اہل ایمان بھی اللہ کی (ایک خاص ) مدد سے خوش ہوجائیں گے۔''
(اور آگے چل کر اللہ کی یہ مدد جنگ بدر کے اندر حاصل ہونے والی عظیم کامیابی اور فتح کی شکل میں نازل ہوئی )
قرآن کے علاوہ خود رسول اللہﷺ بھی مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً اس طرح کی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ موسم حج میں آپ عکاظ ، مجنہ اور ذو المجاز کے بازاروں میں لوگوں کے اندر تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے توصرف جنت ہی کی بشارت نہیں دیتے تھے، بلکہ دوٹوک لفظوں میں اس کا بھی اعلان فرماتے تھے :
(( یا أیہا الناس قولو لا الہ الا اللہ تفلحوا وتملکوا بہا العرب وتدین لکم بہا العجم فاذا متم کنتم ملوکاً فی الجنۃ۔)) 1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن سعد ۱/۲۱۶
''لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہو گے اور اس کی بدولت عرب کے بادشاہ بن جاؤ گے اور اس کی وجہ سے عجم بھی تمہارے زیر نگیں آجائے گا۔ پھر جب تم وفات پاؤ گے تو جنت کے اندر بادشاہ رہوگے۔''
یہ واقعہ پچھلے صفحات میں گزرچکا ہے کہ جب عتبہ بن ربیعہ نے آپﷺ کو متاعِ دنیا کی پیشکش کر کے سودے بازی کرنی چاہی اور آپﷺ نے جواب میں حمٓ تنزیل السجدہ کی آیات پڑھ کر سنائیں تو عتبہ کو یہ توقع بندھ گئی کہ انجام کار آپ غالب رہیں گے۔
اسی طرح ابوطالب کے پاس آنے والے قریش کے آخری وفد سے آپﷺ کی جو گفتگو ہوئی تھی اس کی بھی تفصیلات گزرچکی ہیں۔ اس موقعے پر بھی آپﷺ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا تھا کہ آپﷺ ان سے صرف ایک بات چاہتے ہیں جسے وہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے گا ، اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہوجائے۔
حضرت خباب بن ارتؓ کا ارشاد ہے کہ ایک بار میں خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا، آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے تشریف فرما تھے۔ اس وقت ہم مشرکین کے ہاتھوں سختی سے دوچار تھے۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں۔ یہ سن کر آپﷺ اٹھ بیٹھے، آپﷺ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپﷺ نے فرمایا :جولوگ تم سے پہلے تھے، ان کی ہڈیوں تک گوشت اور اعصاب میں لوہے کی کنگھیاں کردی جاتی تھی لیکن یہ سختی بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اللہ اس امر کو، یعنی دین کو مکمل کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ بکری پر بھیڑ یے کا خوف ہوگا۔1ایک روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ 2یاد رہے کہ یہ بشارتیںکچھ ڈھکی چھپی نہ تھیں، بلکہ معروف ومشہور تھیں اور مسلمانوں ہی کی طرح کفار بھی ان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب اسود بن مطلب اور اس کے رفقاء صحابہ کرامؓ کو دیکھتے تو طعنہ زنی کرتیہوئے آپس میں کہتے کہ لیجئے !آپ کے پاس روئے زمین کے بادشاہ آگئے ہیں۔ یہ جلد ہی شاہانِ قیصر وکسریٰ کو مغلوب کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے۔3
بہر حال صحابہ کرامؓ کے خلاف اس وقت ظلم وستم اور مصائب وآلام کا جو ہمہ گیر طوفان بر پاتھا اس کی حیثیت حصولِ جنت کی ان یقینی امیدوں اور تابناک وپر وقار مستقبل کی ان بشارتوں کے مقابل اس بادل سے زیادہ نہ تھی جو ہوا کے جھٹکے سے بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں رسول اللہﷺ اہل ایمان کوایمانی مرغوبات کے ذریعے مسلسل روحانی غذا فراہم کررہے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۴۳ 2 صحیح بخاری ۱/۵۱۰
3 ا لسیرہ الحلبیہ ۱/۵۱۱، ۵۱۲
تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمارہے تھے۔ نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ، شہوات کی مقاومت اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی حدی خوانی فرمارہے تھے۔ آپﷺ ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور زار ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور شریفانہ درگزر اور قہرِ نفس کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی فزوں تر ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاںسپاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا نادرہ ٔ روز گار نمونہ بن گئے۔
تیسرا مرحلہ :
بیرون مکہ دعوتِ اسلام


(رسول اللہﷺ طائف میں )
شوال ۱۰ نبوت (اواخر مئی یا اوائل جون ۶۱۹ ء ) میں نبیﷺ طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکہ سے ایک سو تیس کلو میٹر سے زیادہ دور ہے۔ آپﷺ نے یہ مسافت آتے جاتے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپﷺ کے ہمراہ آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے۔ عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ، ان تینوں کے والد کا نام عمرو بن عُمیر ثَقَفی تھا۔آپﷺ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ 1دوسرے نے کہا : کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔ اگرتم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطر ناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہ جواب سن کر آپﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ، اور صرف اتنا فرمایا : تم لوگوں نے جوکچھ کیا کیا ، بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا۔
رسول اللہﷺ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔اس دوران آپﷺ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے ، اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی چلنے لگے۔ جس سے آپﷺ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہوگئے۔ ادھر حضرت زیدؓ بن حارثہ ڈھال بن کرچلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپ کو عتبہ اور شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ یہ باغ طائف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ اُردو کے اس محاوے سے ملتا جلتا ہوا ہے کہ ''اگر تم پیغمبر ہو تو اللہ مجھے غارت کرے۔'' مقصود اس یقین کا اظہار ہے کہ تمہارا پیغمبر ہونا ناممکن ہے جیسے کعبے کے پردے پر دست درازی کرنا ناممکن ہے۔
سے تین میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب آپﷺ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی اور آپﷺ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کے بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپﷺ کس قدر دل فگا رتھے اور آپﷺ کے احساسات پر حزن والم اور غم وافسوس کا کس قدر غلبہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :
(( اللّٰہم إلیک أشکو ضعف قوتی وقلۃ حیلتی وہوانی علی الناس یا أرحم الراحمین أنت رب المستضعفین وأنت ربی ٗ إلی من تکلنی؟ إلی بعید یتجہمني ؟ أم إلی عدو ملکتہ أمری۔ إن لم یکن بک علی غضب فلا أبالی ٗ ولکن عافیتک ہی أوسع لی ٗ أعوذبنور وجہک الذی أشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ أمر الدنیا والآخرۃ من ان تنزل بی غضبک أو یحل علی سخطک ٗ لک العتبی حتی ترضی ٗ ولا حول ولا قوۃ إلا بک ۔))
''بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین۔ تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے جومیرے ساتھ تندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیر ے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پردنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔''
ادھر آپﷺ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالتِ زار میں دیکھا تو ان کے جذبۂ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا بلا کر کہا کہ اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آؤ۔ جب اس نے انگور آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپﷺ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔
عداس نے کہا: یہ جملہ توا س علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا :میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا ! تم مرد صالح یونس بن متیٰ کی بستی کے رہنے والے ہو۔ اس نے کہا: آپ (ﷺ ) یونس بن متٰی کو کیسے جانتے ہیں ؟رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ میرے بھائی تھے، وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس رسول اللہﷺ پر جھک پڑا اور آپﷺ کے سر اور ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا۔
یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا: لو ! اس شخص نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا۔ اس کے بعد عداس واپس گیا تودونوں نے اس سے کہا: ا جی ! یہ کیا معاملہ تھا ؟ اس نے کہا: میرے آقا ! روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان دونوں نے کہا : دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دے، کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔ 1
قدرے ٹھہر کر رسول اللہﷺ باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پر چل پڑے۔ غم والم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ وہ آپﷺ سے یہ گزارش کر نے آیا تھا کہ آپﷺ حکم دیں تو وہ اہل مکہ کو دوپہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے۔
اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں !تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا ، جب میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل بن عبد ِ کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا، مگر اس نے میری بات منظور نہ کی تو میں غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے پکارکر کہا : آپ(ﷺ )کی قوم نے آپ سے جو بات کہی اللہ نے اسے سن لیا ہے۔ اب اس نے آپﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپﷺ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلا م کر نے کے بعد کہا : اے محمد (ﷺ ) ! بات یہی ہے۔ آپ (ﷺ ) جو چاہیں ...اگر چاہیں کہ میں انہیں دوپہاڑوں2 کے درمیان کچل دوں... تو ایسا ہی ہوگا... نبیﷺ نے فرمایا : (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کر ے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔ 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ملخص ازابن ہشام ۱/۴۱۹ -۴۲۱
2 اس موقع پر صحیح بخاری میں لفظ اخشبین استعمال کیا گیا ہے۔ جو مکہ کے دومشہور پہاڑوں ابو قبیس اور قعیقعان پر بولا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہاڑ علی الترتیب حرم کے جنوب وشمال میں آمنے سامنے واقع ہیں۔ اس وقت مکے کی عام آبادی انھی دوپہاڑوں کے نیچ میں تھی۔
3 صحیح بخاری کتاب بدء الخلق ۱/۴۵۸ مسلم باب مالقی النبیﷺمن اذی المشرکین والمنافقین۲/۱۰۹
رسول اللہﷺ کے اس جواب میں آپ کی یگانۂ روز گا ر شخصیت اور ناقابلِ ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہر حال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپﷺ کا دل مطمئن ہوگیا اور غم والم کے بادل چھٹ گئے۔ چنانچہ آپﷺ نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی ٔ نخلہ میں جافروکش ہوئے۔ یہاں دوجگہیں قیام کے لائق ہیں ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ۔ کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے ، لیکن کسی ماخذ سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آپﷺ نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا تھا۔ وادیٔ نخلہمیں آپﷺ کا قیام چند دن رہا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی1جس کا ذکر قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں ، دوسرے سورہ ٔ جن میں ، سورۃ الاحقاف کی آیات یہ ہیں :
وَإِذْ صَرَ‌فْنَا إِلَيْكَ نَفَرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْ‌آنَ فَلَمَّا حَضَرُ‌وهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْ‌كُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣١﴾ (۴۶: ۲۹ - ۳۱ )
'' اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیر اکہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ( تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے توانہوں نے آپس میں کہا: چپ ہوجاؤ۔ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تووہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔''
سورۂ جن کی یہ آیات ہیں :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِ‌كَ بِرَ‌بِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ (۷۲: ۱، ۲)
''آپ کہہ دیں : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔'' (پندرہویں آیت تک )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب الجہر بقراء صلاۃ الفجر ۱/۱۹۵
یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ان کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع دی گئی تب آپ واقف ہوسکے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان کی آمد ورفت ہوتی رہی۔
جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی۔ جو اس نے اپنے غیب ِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبیﷺ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۴۶: ۳۲)
''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کرسکتا ، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کار ساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔''
وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّـهَ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَ‌بًا ﴿١٢﴾ (۷۲:۱۲)
''ہماری سمجھ میں آگیا ہے کہ ہم اللہ کو زمین میں بے بس نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کرہی اسے (پکڑنے سے) عاجز کرسکتے ہیں۔''
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن ومایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپﷺ پر چھائے تھے۔ آپﷺ نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغ ِ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے۔ یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں، یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے ؟ اور جواب میں آپﷺ نے فرمایا : اے زید ! تم جو حالت دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا۔ اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کر ے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔
آخر رسول اللہﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کر کوہِ حَرا کے دامن میں ٹھہر گئے، پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپﷺ کو پناہ دے دے۔ مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے بعد آپﷺ نے سہل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا، مگر اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنوکعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آپﷺ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا۔ مطعم نے کہا :ہاں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجا ؤ۔ کیونکہ میں نے محمد (ﷺ ) کو پناہ دے دی ہے، اس کے بعدمطعم نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر آجاؤ۔ آپﷺ پیغام پانے کے بعد حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے ، اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد (ﷺ ) کو پناہ دے دی ہے۔ اب اسے کوئی نہ چھیڑے۔ ادھر رسول اللہﷺ سیدھے حجرِ اسود کے پاس پہنچے اسے چوما، پھر دورکعت نماز پڑھی ، اور اپنے گھر کو پلٹ آئے ، اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپﷺ کے ارد گرد حلقہ باندھے رکھاتا آنکہ آپﷺ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابو جہل نے مطعم سے پوچھا تھا کہ تم نے پناہ دی ہے یاپیروکار ... مسلمان ... بن گئے ہو؟ اور مطعم نے جواب دیا تھا کہ پناہ دی ہے اور اس جواب کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ 1
رسول اللہﷺ نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعمؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا :
((لوکان المطعم بن عدي حیاً ثم کلمني فی ھؤلاء النتنی لترکتھم لہ۔))2
''اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ، پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔''
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۳۸۱ مختصراً ، زاد المعاد ۲/۴۶ ، ۴۷
2 صحیح بخاری ۲/۵۷۳
قبائل اور افراد کو اسلام کی دعوت

ذی قعدہ ۱۰ نبوت ( اواخرجون یا اوائل جولائی ۶۱۹ ء ) میں رسول اللہﷺ طائف سے مکہ تشریف لائے ، اور یہاں افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینی شروع کی۔ چونکہ موسم حج قریب تھا اس لیے فریضۂ حج کی ادائیگی ، اپنے منافع اور اللہ کی یاد کے لیے دور ونزدیک ہر جگہ سے پیدل اور سواروں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ رسول اللہﷺ نے اس موقعے کو غنیمت سمجھا اور ایک ایک قبیلے کے پاس جاکر اسے اسلام کی دعوت دی، جیسا کہ نبوت کے چوتھے سال سے آپﷺ کا معمول تھا۔ البتہ اس دسویں سال سے آپ نے یہ بھی چاہا کہ وہ آپ کو ٹھکانا فراہم کریں۔ آپ کی مدد کریں اور آپ کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اللہ کی دی ہوئی بات کی آپ تبلیغ کرسکیں۔
وہ قبائل جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی:
امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ جن قبائل کے پاس رسول اللہﷺ تشریف لے گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے اپنے آپ کو ان پر پیش کیا ان میں حسب ذیل قبیلوں کے نام ہمیں بتائے گئے ہیں:
بنو عامر بن صعصعہ، محارب بن خصفہ، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ ، سلیم ، عبس ، بنو نضر ، بنوالبکاء ، کندہ ، کلب ، حارث بن کعب ، عذرہ ، حضارمہ ...لیکن ان میں سے کسی نے بھی اسلام قبول نہ کیا۔ 1
واضح رہے کہ امام زہری کے ذکر کردہ ان سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران پیش کیا گیا تھا اور کسی معین سال میں کسی معین قبیلے پر اسلام کی پیشی کی تعیین نہیں ہوسکتی، البتہ بیشتر قبائل کے پاس آپ دسویں سال تشریف لے گئے۔
ابن اسحاق نے بعض قبائل پر اسلا م کی پیشی اور ان کے جواب کی کیفیت بھی ذکر کی ہے۔ ذیل میں مختصرا ان کا بیان نقل کیا جارہا ہے۔
بنو کلب:... نبیﷺ اس قبیلے کی ایک شاخ بنو عبد اللہ کے پاس تشریف لے گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا ، اور اپنے آپ کو ان پر پیش کیا۔ باتوں باتوں میں یہ بھی فرمایاکہ اے بنو عبد اللہ ! اللہ نے تمہارے جد اعلیٰ کا نام بہت اچھا رکھا تھا لیکن اس قبیلے نے آپ کی دعوت قبول نہ کی۔
بنو حنیفہ:... آپﷺ ان کے ڈیرے پر تشریف لے گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور اپنے آپ کو ان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن سعد ۲/۲۱۶
پر پیش کیا لیکن ان کے جیسا برا جواب اہلِ عرب میں سے کسی نے بھی نہ دیا۔
عامر بن صعصعہ :... انہیں بھی آپﷺ نے اللہ کی طرف دعوت دی ، اور اپنے آپ کو ان پر پیش کیا۔ جواب میں ان کے ایک آدمی بحیرہ بن فراس نے کہا : اللہ کی قسم! اگر میں قریش کے اس جوان کو لے لوں تو اس کے ذریعے پورے عرب کو کھا جاؤں گا۔ پھر اس نے دریافت کیا کہ اچھا یہ بتایئے اگر ہم آپ (ﷺ ) سے آپ کے اس دین پر بیعت کرلیں، پھر اللہ آپ کو مخالفین غلبہ عطا فرمائے تو کیا آپ کے بعد زمام کار ہمارے ہاتھ میں ہوگی ؟ آپﷺ نے فرمایا : زمام کار تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جہاں چاہے گا رکھے گا۔ اس پر اس شخص نے کہا : خوب ! آپ (ﷺ ) کی حفاظت میں ہمارا سینہ اہل عرب کے نشانے پر رہے ، لیکن جب اللہ آپ(ﷺ )کو غلبہ عطا فرمائے تو زمام کار کسی اور کے ہاتھ میں ہو؟ ہمیں آپ(ﷺ ) کے دین کی ضرورت نہیں۔ غرض انہوں نے انکار کر دیا۔
اس کے بعد جب قبیلہ بنو عامر اپنے علاقے میں واپس گیا تو اپنے ایک بوڑھے آدمی کو...جو کبر سنی کے باعث حج میں شریک نہ ہوسکا تھا...سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ ہمارے پاس قبیلۂ قریش کے خاندان بنوعبد المطلب کا ایک جوان آیا تھا جس کا خیال تھا کہ وہ نبی ہے۔ اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حفاظت کریں، اس کا ساتھ دیں اور اپنے علاقے میں لے آئیں۔ یہ سن کر اس بڈھے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا اور بولا : اے بنو عامر ! کیا اب اس کی تلافی کی کوئی سبیل ہے ؟ اور کیا اس ازدست رفتہ کو ڈھونڈھا جاسکتا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے! کسی اسماعیلی نے کبھی اس (نبوت ) کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا ،یہ یقینا حق ہے، آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی ؟1
ایمان کی شعاعیں مکہ سے باہر:
جس طرح رسول اللہﷺ نے قبائل اور وفود پر اسلام پیش کیا ، اسی طرح افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی، اور بعض نے اچھا جواب بھی دیا۔ پھر اس موسم حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا۔ ذیل میں ان کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے :
سوید بن صامت :... یہ شاعر تھے۔ گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے ، ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ کہنے لگے : غالباً آپ(ﷺ ) کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا : حکمتِ لقمان۔ آپﷺ نے فرمایا :پیش کرو۔ انہوں نے پیش کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۲۴، ۴۲۵
کلا م یقینا اچھا ہے ، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے۔ وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔ وہ ہدایت اور نور ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بولے : یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے۔1 اغلب یہ ہے کہ انہوں نے ۱۱ نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔
ایاس بن معاذ : ...یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان ۱۱ نبوت میں جنگ بُعاث سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا۔ آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑ ک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔ رسول اللہﷺ کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپﷺ ان کے پا س تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا : آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپﷺ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
ایاس بن معاذ بولے : اے قوم یہ اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہﷺ بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔
مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔2
ابوذر غفاری :... یہ یثرب کے اطراف میں سکونت پذیر تھے۔ جب سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذرؓ کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 الاستیعاب ۲/۶۷۷ ، اسد الغابہ ۲/۳۳۷
2 ابن ہشام ۱/۴۲۷ ، ۴۲۸ ، مسند احمد ۵/۴۲۷
ان کے اسلا م لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے۔ سیّدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ ابوذرؓ نے فرمایا : میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا : تم اس آدمی کے پاس جاؤ، اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ۔ وہ گیا ، ملاقات کی ، اور واپس آیا۔ میں نے پوچھا : کیا خبر لائے ہو ؟ بو لا : اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے ، اور برائی سے روکتا ہے۔ میں نے کہا :تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی۔ آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھا یا اور مکہ کے لیے چل پڑا۔ (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپﷺ کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ آپ کے متعلق کسی سے پوچھوں۔چنانچہ میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد حرام میں پڑا رہتا۔ آخر میرے پاس سے علیؓ کا گزر ہوا۔ کہنے لگے: آدمی اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا : جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اچھا توگھر چلو۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتاہی رہا تھا۔
صبح ہوئی تومیں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپﷺ کے متعلق دریافت کروں ، لیکن کوئی نہ تھا جو مجھے آپﷺ کے متعلق کچھ بتا تا۔ آخر میرے پاس پھر حضرت علیؓ گزرے (دیکھ کر) بولے: اس آدمی کوابھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہوسکا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا :اچھا تو میرے ساتھ چلو۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اچھا تمہارا معاملہ کیا ہے ؟ اور تم کیوں اس شہر میں آئے ہو ؟ میں نے کہا: آپ راز داری سے کام لیں تو بتاؤں۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ میں نے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے ، جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کر کے آئے مگراس نے پلٹ کر کوئی تشفی بخش بات نہ بتلائی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کر لوں۔ حضرت علیؓ نے کہا : بھئ تم صحیح جگہ پہنچے، دیکھو میرا رخ انھی کی طرف ہے۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس جانا اور ہاں ! اگر میں کسی ایسے شخص کو دیکھوں گا جو تمہارے لیے خطرہ ہے تو دیوار کی طرف اس طرح جا رہوں گا گویا اپنا جوتا ٹھیک کررہا ہوں ، لیکن تم راستہ چلتے رہنا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور میں بھی ساتھ ساتھ چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے، اور میں بھی ان کے ساتھ نبیﷺ کے پاس جا داخل ہوا اور عرض پر داز ہوا کہ آپ(ﷺ )مجھ پر اسلام پیش کریں۔ آپﷺ نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوذر ! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ۔ جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا۔ اس کے بعد میں مسجد الحرام آیا۔ قریش موجود تھے۔ میں نے کہا : قریش کے لوگو! أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ''میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''
لوگوں نے کہا : اٹھو۔ اس بے دین کی خبر لو ، لوگ اٹھ پڑے۔ مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں لیکن حضرت عباسؓ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے : تمہاری بربادی ہو۔ تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو ؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے۔ اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جوکچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا: اٹھو !اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباسؓ ہی نے مجھے آبچایا، وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔1
طفیل بن عمر و دوسی:... یہ شریف انسان شاعر ، سوجھ بوجھ کے مالک اور قبیلہ ٔ دوس کے سردار تھے۔ ان کے قبیلے کو بعض نواحی یمن میں امارت یا تقریبا ًامارت حاصل تھی۔ وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے۔ پھر ان سے عرض پرداز ہوئے کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے۔ ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ اس کی بات جادو کاسا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان اور آدمی اس کے بھائی کے درمیا ن اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں ڈرلگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے۔ لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔
حضرت طفیل ؓ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میں تہیہ نے کرلیاکہ نہ آپ کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپﷺ سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپﷺ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے ، لیکن اللہ کومنظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے۔ چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں ، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا ، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپﷺ اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت ، پھر کان میں روئی ٹھونسنے ، اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں۔ پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے۔ آپﷺ نے مجھ پر اسلام پیش کیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری : باب قصۃ زمزم ۱ؔ/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، باب اسلام أبی ذر ۱/۵۴۴، ۵۴۵
اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی۔ چنانچہ میںنے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ اس کے بعد آپﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے میں ان کے پاس پلٹ کرجاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا۔ لہٰذا آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپﷺ نے دعا فرمائی۔
حضرت طفیل کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی۔ انہوں نے کہا : یا اللہ ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے، چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی۔ پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوںمسلمان ہوگئے لیکن قوم نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی مگر حضرت طفیل ؓ بھی مسلسل کوشاں رہے حتیٰ کہ غزوۂ خندق کے بعد1جب انہوں نے ہجرت فرمائی توا ن کے ساتھ ان کی قوم کے ستر یا اسی خاندان تھے۔ حضرت طفیل ؓ نے اسلام میں بڑے اہم کارنامے انجام دے کر یمامہ کی جنگ میں جام شہادت نوش فرمائی۔2
ضماد ازدی :...یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمدﷺ پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے۔ چنانچہ آپﷺ سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (ﷺ ) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ(ﷺ ) کو بھی اس کی ضرورت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :
(( إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، أما بعد۔))
''یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد ! ''
ضماد نے کہا: ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے۔ آپﷺ نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد نے کہا : میں کاہنوں ، جادوگروں اور شاعر وں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ (ﷺ ) کے ان جیسے کلمات کہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد۔ کیونکہ جب وہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ دیکھئے ابن ہشام ۱/۳۸۵
2 ابن ہشام ۱/۱۸۲ ، ۱۸۵
نہیں سنے۔ یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ (ﷺ ) سے اسلام پر بیعت کروں اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔1
یثرب کی چھ سعادت مند روحیں:
گیارہویں سن نبوت کے موسم حج (جولائی ۶۲۰ء ) میں اسلامی دعوت کو چند کارآمد بیج دستیاب ہوئے۔ جو دیکھتے دیکھتے سروقامت درختوں میں تبدیل ہوگئے اور ان کی لطیف اور گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر مسلمانوں نے برسوں ظلم وستم کی تپش سے راحت ونجات پائی۔ یہاں تک کہ واقعات کا رخ بد ل گیا اور خط تاریخ مڑ گیا۔
اہل مکہ نے رسول اللہﷺ کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبیﷺ کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے۔ تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے۔ بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی۔ انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا ، لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ اور بنو ذُہل کے ایک آدمی کے درمیان سلسلہ نسب کے متعلق بڑا دلچسپ سوال وجواب بھی ہوا۔ دونوں ہی ماہر انساب تھے۔ 2
اس کے بعد رسول اللہﷺ منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔ آپﷺ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جاپہنچے، یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ نام یہ ہیں :
اسعد بن زُرَارَہ (قبیلۂ بنی النَّجار )
عوف بن حارث بن رفاعہ (ابن عَفْراء )
رافع بن مالک بن عجلان (قبیلۂ بنی زُریق )
قطبہ بن عامر بن حدیدہ (قبیلۂ بنی سلمہ )
عقبہ بن عامر نابی (قبیلہ بنی حرام بن کعب )
حارث بن عبد اللہ بن رِئاب (قبیلۂ بنی عبید بن غنم )
یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح باب علامات النبوۃ ۲/۵۲۵
2 دیکھئے : مختصرالسیرہ للشیخ عبد اللہ ص ۱۵۰تا ۱۵۲
جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا۔ ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں عادِ ارَم کی طرح قتل کر ڈالیں گے۔ 1
رسول اللہﷺ نے ان کے پاس پہنچ کر دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا :ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : یعنی یہود کے حلیف ؟ بولے: ہاں۔ فرمایا : پھر کیوں نہ آپ حضرات بیٹھیں،کچھ بات چیت کی جائے، وہ لوگ بیٹھ گئے۔ آپﷺ نے ان کے سامنے اسلا م کی حقیقت بیان فرمائی۔ انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : بھئی دیکھو ! یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کا حوالہ دے کر یہود تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود تم پر سبقت نہ کرنے پائیں، اس کے بعد انہوں نے فوراًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرلی اور مسلمان ہوگئے۔
یہ یثرب کے عقلاء الرجال تھے۔ حال ہی میں جنگ گزرچکی تھی ، اور جس کے دھویں اب تک فضا کو تاریک کیے ہوئے تھے ، اس جنگ نے انہیں چور چور کردیا تھا۔ اس لیے انہوں نے بجا طور پر یہ توقع قائم کی کہ آپﷺ کی دعوت ، جنگ کے خاتمے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے کہا : ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت ودشمنی نہیں پائی جاتی۔ امید ہے کہ اللہ آپﷺ کے ذریعے انہیں یکجا کردے گا۔ ہم وہاں جاکر لوگوں کو آپﷺ کے مقصد کی طرف بلائیں گے اور یہ دین جو ہم نے خود قبول کر لیا ہے ان پر بھی پیش کریں گے۔ اگر اللہ نے آپﷺ پر ان کو یکجا کردیا تو پھر آپ سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہ ہوگا۔
اس کے بعد جب یہ لوگ مدینہ واپس ہوئے تو اپنے ساتھ اسلام کا پیغام بھی لے گئے، چنانچہ وہاں گھر گھر رسول اللہﷺ کا چرچا پھیل گیا۔2
حضرت عائشہ ؓ سے نکاح:
اسی سال شوال ۱۱ نبوت میں رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چھ بر س تھی، پھر ہجرت کے پہلے سال شوال ہی کے مہینہ میں مدینہ کے اندر ان کی رخصتی ہوئی اور اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔3
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۰ ،ابن ہشام ۱/۴۲۹ ، ۵۴۱
2 ابن ہشام ۱/۴۲۸ ، ۴۳۰
3 تلقیح الفہوم ص ۱۰ ، صحیح البخاری ۱/۵۵۰
چاند دوٹکڑے

اسلامی دعوت مشرکین کے ساتھ اسی کشمکش کے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ اس کائنات کا نہایت عظیم الشان اور عجیب وغریب معجزہ رونما ہوا۔ نبیﷺ کے ساتھ مشرکین کے مجادلات کے جو بعض نمونے گزر چکے ہیں ان میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت پر ایمان لانے کے لیے خرق عادت نشانیوں کا مطالبہ بھی کیا تھا اور قرآن کے بیان کے مطابق انہوں نے پورا زور دے کر قسم کھائی تھی کہ اگر آپﷺ نے ان کی طلب کردہ نشانیاں پیش کردیں تو وہ ضرور ایمان لائیں گے مگر اس کے باوجود ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اور ان کی طلب کرد ہ کوئی نشانی پیش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے پیغمبر سے کوئی خاص نشانی طلب کر ے ، اور دکھلائے جانے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی قوم کی مہلت ختم ہوجاتی ہے اور اسے عذاب عام سے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اسے معلوم تھا کہ اگر قریش کو ان کی طلب کردہ کوئی نشانی دکھلا بھی دی جائے تو وہ فی الحال ایمان نہیں لائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے :
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ يَجْهَلُونَ (۶: ۱۱۱)
''یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیں ، اور مردے ان سے باتیں کریں اور ہر چیز ان کے سامنے لا کر اکٹھا کردیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ اللہ چاہ جائے۔ مگر ان میں سے اکثر نادانی میں ہیں۔''
اور اللہ کویہ بھی معلوم تھا کہ اگر کوئی نشانی نہ بھی دکھلائی جائے لیکن مزید مہلت دے دی جائے تو آگے چل کر یہی لوگ کوئی نشانی دیکھے بغیر ایمان لائیں گے۔ اس لیے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طلب کردہ کوئی نشانی نہیں دکھلائی ، اور خود نبیﷺ کو بھی اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کی طلب کردہ نشانی ان کو دکھلادی جائے لیکن پھرایمان نہ لانے پر انہیں ساری دنیا سے سخت تر عذاب دیا جائے گا اور چاہیں تو نشانی نہ دکھلائی جائے اور توبہ و رحمت کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا جائے۔ اس پر نبیﷺ نے بھی یہی آخری صور ت اختیار فرمائی کہ ان کے لیے توبہ ورحمت کا دروازہ کھول دیا جائے۔1
تو یہ تھی مشرکین کو ان کی طلب کردہ نشانی نہ دکھلانے کی اصل وجہ لیکن چونکہ مشرکین کو اس نکتے سے کوئی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند احمد ۱/۳۴۲، ۳۴۵
سروکار نہ تھا، اس لیے انہوں نے سوچا کہ نشانی طلب کرنا آپ کو خاموش اور بے بس کرنے کا بہتر ین ذریعہ ہے۔ اس سے عام لوگوں کو مطمئن بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپﷺ پیغمبر نہیں بلکہ سخن ساز ہیں۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ چلو اگر یہ نامزد نشانی نہیں دکھلاتے تو کسی تعیین کے بغیر کوئی بھی نشانی طلب کی جائے۔ چنانچہ انہوںنے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی نشانی ایسی ہے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ؟اس پر آپﷺ نے اپنے پروردگار سے سوال کیا کہ انہیں کوئی نشانی دکھلا دے۔ جواب میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ، اور فرمایا کہ انہیں بتلا دو آج رات نشانی دکھلائی جائے گی۔ 1اور رات ہوئی تو اللہ نے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھلادیا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ آپ انہیں کوئی نشانی دکھلائیں۔ آپ نے انہیں دکھلادیا کہ چاند دوٹکڑے ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں حراء پہاڑ کو دیکھا۔ 2
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ چاند دوٹکڑے ہوا، اس وقت ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ منی ٰ میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: گواہ رہو اور چاند کا ایک ٹکڑا پھٹ کر پہاڑ ( یعنی جبل ابو قبیس ) کی طرف جارہا۔ 3
چاند کے دوٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا۔ قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کرکے دیکھا اور ششدر رہ گئے لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ اس پر بحث ومباحثہ بھی کیا۔ کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے۔ باہر والوں کو آنے دو ،دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسا ہو ا باہر سے جو کوئی بھی آیا اس نے اس واقعے کی تصدیق کی، لیکن پھر بھی ظالم ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
یہ واقعہ کب پیش آیا۔ علامہ ابن حجرؒ نے اس کا وقت ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے لکھا ہے۔ 4یعنی ۸ نبوت ، علامہ منصور پوری نے۹ نبوت لکھا ہے5مگر یہ دونوں بیانات محل نظر ہیں۔ کیونکہ ۸ اور ۹ نبوت میں قریش کی طرف سے آپﷺ اور بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا مکمل طور پر بائیکاٹ چل رہا تھا، بات چیت تک بند تھی اور معلوم ہے کہ یہ واقعہ اس قسم کے حالات میں پیش نہیں آیا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے اس کی ایک آیت ذکر کرکے اس سورۃ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ جب نازل ہوئی تو میں مکہ میں ایک کھیلتی ہوئی بچی تھی۔6 یعنی یہ عمر کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 الدر المنثور بحوالہ ابو النعیم فی الدلائل ۶/۱۷۷
2 صحیح بخاری مع فتح الباری ۷/۲۲۱ح ۳۸۶۸ 3 ایضاً ایضا ًح ۳۸۶۹
4 فتح الباری ۶/۶۳۸ 5 رحمۃ للعالمین ۳/۱۵۹
6 صحیح بخاری تفسیر سورۂ قمر
وہ مرحلہ تھا جس میں اس قسم کی باتیں یاد بھی ہوجاتی ہیں اور بچپن کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یعنی ۵، ۶ ، برس کی عمر ، لہٰذا واقعہ شق قمر کے لیے ۱۰ یا ۱۱ نبوت زیادہ قرین قیاس ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے اس بیان سے کہ اس وقت ہم منیٰ میں تھے۔ یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حج کا زمانہ تھا یعنی قمری سال اپنے خاتمے پر تھا۔
شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کرسکیں۔ واللہ اعلم
****​
اِسراء اور معراج

نبیﷺ کی دعوت وتبلیغ ابھی کا میابی اور ظلم وستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کب واقع ہوئی ؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں جو یہ ہیں :
1جس سال آپﷺ کو نبوت دی گئی اسی سال معراج بھی واقع ہوئی۔ (یہ طبری کا قول ہے )
2 نبوت کے پانچ سال بعد معراج ہوئی۔ (اسے امام نووی اور امام قرطبی نے راجح قرار دیا ہے )
3 نبوت کے دسویں سال ۲۷ ؍ رجب کوہوئی۔ (اسے علامہ منصور پور ی نے اختیار کیا ہے )
4 ہجرت سے سولہ مہینے پہلے، یعنی نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں ہوئی۔
5 ہجرت سے ایک سال دوماہ پہلے یعنی نبوت کے تیرہویں سال محرم میں ہوئی۔
6 ہجرت سے ایک سال پہلے، یعنی نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔
ان میں سے پہلے تین اقوال اس لیے صحیح نہیں مانے جاسکتے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات نماز پنج گانہ فرض ہونے سے پہلے ہوئی تھی اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نماز پنج گانہ کی فرضیت معراج کی رات ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات معراج سے پہلے ہوئی تھی اور معلوم ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی تھی۔ لہٰذا معراج کا زمانہ اس کے بعد کا ہوگا، اس سے پہلے کا نہیں۔ باقی رہے اخیر کے تین اقوال تو ان میں کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل نہ مل سکی۔ البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے۔ 1
ائمہ حدیث نے اس واقعے کی جو تفصیلات روایت کی ہیں ہم اگلی سطور میں ان کا حاصل پیش کر رہے ہیں۔
ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اللہﷺ کو آپ کے جسم مبارک سمیت بُراق پر سوار کر کے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، پھر آپﷺ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیاء علیہم السلام کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور بُراق کومسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔
اس کے بعد اسی رات آپﷺ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دورازہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ان اقوال کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: زادا لمعاد ۲/۴۹ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، رحمۃ للعالمین۱/۷۶
کھلوایا۔ آپﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا۔ آپﷺ نے وہا ں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپﷺ کو مرحبا کہا۔ سلام کا جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اللہ نے آپﷺ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا۔ آپﷺ نے وہاں حضر ت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپﷺ نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ مرحبا کہا ، اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک بادد ی اوراقرار نبوت کیا۔
پھر آپﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا: مرحبا کہا ، اور اقرار نبوت کیا۔ البتہ جب آپﷺ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا: آپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے رورہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگو ں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔
اس کے بعد آپﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاںآپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باد دی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر (پھل) ہجر کے ٹھلیوں جیسے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے ، روشنی اور مختلف رنگ چھا گئے اور وہ سدرہ اس طرح بدل گیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے تھے۔ جن کے دوبارہ پلٹنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اس کے بعد آپ کو جنت میں داخل کیا گیا، اس میں موتی کے گنبد تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔ اس کے بعد آپﷺ کو مزید اوپر لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ ایک ایسی برابر جگہ نمودار ہوئے جہاں قلموں کے چرچراہٹ سنی جارہی تھی۔
پھر اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپﷺ واپس ہوئے یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپﷺ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: پچاس نمازوں کا ، انہوں نے کہا :آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے ، اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کو جبار تبار ک و تعالیٰ کے حضور لے گئے ، اور وہ اپنی جگہ تھا ...بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے ...اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپﷺ نیچے لائے گئے۔ جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی۔ انہوں نے کہا: آپﷺ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپﷺ کی آمد ورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپﷺ کوواپسی اور طلب تخفیف کا مشور ہ دیا۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پھرجب آپﷺ مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ 1
اس کے بعد ابن قیمؒ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟پھر امام ابن تیمیہؒ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دوقول منقول ہیں۔ ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں اس کے بعد امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ سور ہ ٔ نجم میں اللہ تعالیٰ کا جویہ ارشاد ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ (۵۳: ۸)
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا ''
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورۂ نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت وتَدَلّی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف حدیث معراج میں جس قربت وتدلّی کا ذکر ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔