منگل، 28 اپریل، 2015

معراج‎ ‎کی رات

0 comments
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اَقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات )Cosmos(ج کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ )ذات( پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی )خانہٴ کعبہ( سے مسجد اقصیٰ )یعنی بیت المقدس( تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی )قدرت کی( نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا )اور( دیکھنے والا ہے۔سورۃ بنی اسرائیل آیت ۱ رجب‎ ‎کی ستائیسویں شب کو اللہ‎ ‎کے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آ یا۔ منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اوروہاں آرام فرمانے لگے۔ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبریلپچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براقلے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کیں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ، آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چناں چہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والاتھانبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور سوار ہونا تھا،مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامتمیری امت کا کیا ہو گا؟میری امت پل صراط سے کیسے گزرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی : اے محبوب،آپ امت کی فکر نہ کیجیے،ہم آپ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ اسے خبربھی نہیں ہو گی۔ اس واضح بشارت کے بعد سر کار دو عالم براق پر سوار ہوگئے۔جبرئیل امین نے رکاب تھامی، میکائیلنے لگام پکڑی،اسرافیل نے زین سنبھالی جس کے ساتھ ہی پچاس ہزار فرشتوں کے سلام کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔ حدیث میں آیا ہے۔ براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر کی حد تھی،وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔ براق کا سفر اس قدرتیز ی کے ساتھ ہوا کہ جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔چاروں طرف نور ہی نور پھلتا چلا گیا۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہسے مسجد اقصیٰگئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔ ]1[۔ سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ انبیاء صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔ جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدسپہنچا تو بابِ محمد، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھلا تھا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔ ۔ ۔ جبرئیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔ ۔ ۔ جواب دیا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا فانطلق بی، حتی أتی السماء الدنيا فاستفتح، قيل : من هذا؟ قال : جبرئيل، و من معک؟ قال : محمد، قيل : قد أرسل إليه؟ قال : نعم، قيل : مرحبا به فنعم المجيئ جاء. )تفسير البغوی، 3 : 93( پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟ جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔ پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلامسے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلاماور یحییٰ علیہ السلامسے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلامسے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلامسے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے چھٹے آسمان پر پہنچے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلامسے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسوچھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلامسے ہوئی۔ کفار کا رد عمل اور رسولﷺ کا جواب معراج کا واقعہ جس رات پیش آیا اس رات رسول ﷺ اپنے چچازاد بہن ام ہانی کے گھر مقیم تھے۔آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی تو سب نے اس ہلکہ لیا اور مشرکین طعنہ دینے لگے کہ رسول اللہ راتوں رات آسمان گئے ہیں۔ سب نے تردید کی پر جب لوگوں نے حضرت ابوبکر کو اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا تو ابوبکر نے فقرا تصدیق کرتے ہوا کہا کہ کیا یہ بات رسول اللہ نے بتائی ہے۔لوگوں نے کہا ہاں بالکل۔ابوبکر نے کہا رسول اللہ نے بتائی ہے پھر تو سچ ہے۔حضرت ابوبکر کے اس بات نے رسول اللہ کو بہت متاثر کیا اور آپﷺ نے حضرت ابوبکر کو صدیق کا لقب دیا۔ مکہ کا ایک شخص جو شام اور فلسطین زیادہ سفر کیا کرتا تھا آیا اور بولو اگر آپ واقعی راتوں رات مسجد اقصیٰ اور پھر آسمانوں میں گئے ہیں تو مجھے مسجد اقصیٰ کا پتہ ہے میں آپ سے سولات پوچھتا ہوں آپ جواب دیں۔پھر اس شخص نے رسول اللہ سے مسجد اقصیٰ اور اس کے خد و حال کے متعلق بے شمار سوالات کیے اور رسول اللہ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دئے۔اس شخص نے رسول اللہ کے تمام جوابات کو درست قرار دیا۔ وه شب معراج راج وه صف محشر کا تاج کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود ایکسٹو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔