گدھے کا بچہ


گدھے کا بچہ
تحریر مدثرحسین
میں ایک گدھے کا بچہ ہوں جی ہاں اب گدھے کا بچہ گدھا ہی کہلاۓ کا کبوتر کا بچہ یہ بھینس کا انڈه کہلانے سے تو رہا۔ میرا جنم دینو نائی کے گھر ہوا تھا میری پیدا ہوتے ہی دینونائی کی بیوی پھتاں مائی نے پورے محلے میں ہلڑ مچا دیا اور پورا محلہ مجھے دیکھنے کو امڈ آیا۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا میں دل ہی دل میں خود کولمبس کا شہزاده تصور کرنے لگا تھا اور سوچ رہا تھا کہ قدرت نے مجھے کس قدر حسین بنایا ہے کہ پورا محلہ ہی میرے درشن کو حاضر ہو گیا ہے میری گردن فخر سے تن گئی ایک دو مسٹنڈو نے تو میری تصاویر بھی اتار لیں اوردو تین لڑکوں نے خود کو فیس بک پر نمایاں کرنے کیلۓ میرے ساتھ تصاویریں بھی بنائی تاکہ وه فیس بک پر سب سے ڈیفرینٹ لگیں اور ان کی  تصویروں پر لڑکیوں کے کمنٹس زیاده آئیں کیونکہ لڑکیاں ہمیشہ کیوٹ چیزیں پسند کرتیں ہیں خیر میں بھی کافی کیوٹ اور ہینڈسم تھا مگر مجھے فیس بک یوز کرنا نہیں آتی تھی ورنہ اپنی ہی دو تین پکچرز اپلوڈ کرکے لڑکیوں سے داد وصول کرتا اور خوب مزے لیتا مگر میرے ایسے نصیب کہاں۔۔۔؟
خیر سب اس وقت میرے ہی متعلق باتیں کر رہے تھے اچانک محلے کی ماسی نازو کے بیٹے چندا نے سوال اٹھایا ۔ چاچی پھتاں اس کا باپ کون ہے ۔۔؟
یہ سن کر چاچی پھتاں کے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی اور میں بھی چونک کر اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگا جو چاپ دوسری طرف منہ کیۓ کھڑی تھی۔ بیٹا کبھی گدھوں کے بھی باپ ہوۓ۔ ماسی نازو نے چندا کو سمجھایا
اماں میرا پاپا تو ہیں پھر اس گدھے کے بچے کے کیوں نہیں۔
وه اس لیۓ کہ تم انسان کے بچے ہو اور یہ گدھے کا بچہ انسان کے بچہ کا باپ ہوتا ہے جبکہ کے گدھوں کے بچوں کا کوئی باپ نہیں ھوتا۔ ماسی نازو نے اسے سمجھایا
ماسی نازو پھر یہ گدھے کا بچہ کہاں سے پیدا ہو گیا پاس کھڑی ایک باره سالہ بچی نے سوال داغا اور ماسی نازو ہکلا کر ره گئیں۔
بھئی مجھے نہیں پتا چاچی پھتاںکا گدھا ہے اسی سے پوچھوں میں تو چلی چندا کے ابا کے آنے کا وقت ہو رہا ہے ان کے لیۓ کھانا بھی بنانا ہے یہ کہتی ہوئیں وه وہاں سے چل دیں۔ میں نے اماں حضور سے پوچھا کہ میرے ابا حضور کہاں تومیری اماں حضورچپ رہیں جیسے وه بھی ابا حضور کے وجود سے نابلد ہوں ماسی نازو تو وہاں سے چل دی تھی مگر وہاں پر کھڑے لڑکے اب بھی میرے باپ کے متعلق چہ مگائیاں کر رہے تھے اور کھی کھی کرکے دانت نکال رہے تھے۔ اور مجھے خود پر بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا کہ مجھے اپنے ابا حضور کا نام بھی نہیں معلوم اگر مجھے میرے ابا حضور کا نام معلوم ہوتا تو ان ہنسنے والے ناہنجاروں کے منہ پر مارتا کہ لو میرا ابا حضور کا نام۔ اور ساتھ ہی میں سوچنے لگا ان کو میرے ابا حضور کی اتنی فکر ہے تو یہ لوگ ان بچوں کے متعلق کتنی لمبی چوڑی بحث کرتے ہوں گے اور ان کی معاشرے میں کیا عزت ہوتی ہو گی اور نجانے یہ ظالم سماج ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہو گا۔جن کے باپ کا پتا سواۓ ان کی ماں کے کسی کو نہیں ہوتا اور زمانہ ایسے بچوں کو حرامی کہتا ہے۔ جو اس کی ماں اور باپ کی ناجائزغلط کارئیوں کا نتیجہ ہوتے ہیںاور ان کی مائیں ان کے باپ کا نام چاه کر بھی انہیں نہیں بتا سکتیں۔ ایسے بچے زمانے میں کیسے سر اٹھا کر جیتے ہوں گے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔