منگل، 28 اپریل، 2015

روح کی غذا‎ ‎موسیقی یا‎ ‎ذکر الہی

0 comments
تحریر مدثرحسین صدیوں سے کہا جاتا ہے کہ موسیقی روح کی تقویت اور شادمانی کا سبب بنتی ہے۔ اس مناسبت سے طبی محققین سماجی شعبے کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تحقیقی عمل میں مصروف ہیں اور ان کے بقول موسیقی واقعی ذہن کی طمانیت کا سبب بنتی ہے۔ دنیا بھر میں موسیقی کے سروں کے زیر اثر لطف لینے کو ایک فطری عمل خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے جذب کی حالت میں آ جانا بھی ایک فطری عمل ہے گردانا جاتا ہے۔ قوالی کے دوران وجد کو بھی ذہن کا انتہائی بلند احساس شادمانی قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ موسیقی دماغی خلیوں میں ایک کیمیاوی مواد ڈوپامائن میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس مادے کی خون میں آمیزش سے انسان مسرت کی کیفیت کی جانب بڑھتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ ویسی ہی کیفیت ہے، جو ایک انسان عمدہ خوراک، نفسیاتی ادویات یا سرمائے کے حصول کے بعد محسوس کرتا ہے۔ جبکہ قرآن پاک میں الله تعالی یہ واضح طور پر ارشاد فرما رہے ہیں کہ "خبردار‎!!! دلوں کا سکون خدا کے ذکر )اسم الله ذات( میں ہے" ” حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جہاں کہیں الله کے بندے الله کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں او ران کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہٰی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور الله تعالیٰ اپنے معتبر ملائکہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔“ دل کا سکون کون نہیں چاہتا؟ ہر دور میں ہر انسان کی یہ چاہت رہی ہے کہ مجھے دل کا چین اور اطمینان مل جائے۔ اس اطمینان کو انسان نے جگہ جگہ تلاش کیا۔ کسی نے مختلف رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے میں سکون پایا، کسی نے سیر وتفریح کے مقامات میں جاکر اطمینان پایا، کسی نے باغات میں جاکر درختوں اور پودوں کے درمیان گھوم پھر کر او رپھولوں کے رنگ وبو میں سکون تلاش کیا، کسی نے کھیل کود اور جدید تفریحی آلات کے ذریعہ سکون واطمینان پانے کی کوشش کی۔ لیکن انسان نے خود سے جتنے راستے سکون حاصل کرنے کے لیے تلاش کیے، ان میں کسی طریقے میں وقت برباد ہوا، کہیں پیسہ ضائع ہوا، کہیں ایمان واخلاق کی خرابی آگئی اور کبھی صحت کو بھی کھو دیا۔ یہ درست ہے کہ ان چیزوں میں بھی وقتی طور پر سکون، ملتا ہے۔ لیکن خالق کائنات، جس نے ہمارے جسم کی مشین کو بنایا، اس ذات حکیم وخبیر نے ہمیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی بہترین تعلیم عطا فرمائی: سورہٴ رعد کی 28 ویں آیت میں فرمایا:﴿ الا بذکر الله تطمئن القلوب﴾․ ”آگاہ رہو الله کی یاد سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔“ اطمینان قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے، اسے دولت سے نہیں خریدا جاسکتا۔ مادیت پرستی کی دوڑ میں انسان سکون کے لیے بے قرار ہے ۔ اس نعمت کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ الله سے تعلق قائم کرنا او راس کی یاد دل میں بسا لینا ہے۔ چناں چہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو جب کبھی پریشانی آتی تو آپ نماز میں مشغول ہو جاتے۔ تیز آندھی آتی تو آپ نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ بارش نہ آتی ، خشک سالی ہو جاتی تو صلوٰة الاستسقاء ) بارش کے وقت کی نماز( ادا فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو نماز کسوف اور نماز خسوف ادا فرماتے۔ جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی اور پریشانی آتی، دل بے سکون ہوتا تو آپ ان کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے: ترجمہ: ” آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیے اور اس کی پابندی فرماتے رہیے، ہم آپ سے رزق کا مطالبہ کرنا نہیں چاہتے۔“ یعنی رزق دینے والا الله ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعہ یہ تعلیم دی کہ انسان الله سے غافل ہو کر دنیا کی دولت میں کبھی اطمینان وسکون نہیں پاسکتا۔ فرمایا:” لو کان لابن ادم وادیان من مال لابتغی ثالثا، ولا یملأ جوف ابن ادم الا التراب، ویتوب الله علی من تاب“․ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال کی بھری ہوئی ہوں تو وہ چاہے گا کہ میرے پاس تیسری وادی بھی مال سے بھری ہوئی ہو اور ابن آدم کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے اور پھر فرمایا کہ جو لوگ اپنا رخ الله کی طرف کر لیں تو ان پر الله کی خاص عنایت ہوتی ہے اور اوران کو الله اس دنیا میں اطمینان قلب عطا فرما دیتا ہے، پھر اس دنیا میں ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اپنی سیرت مبارک سے بہت واضح طور پر یہ سمجھایا کہ دل کا چین اور اطمینان قناعت سے حاصل ہوتا ہے ۔ حرص اور لالچ سے کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ رحمت للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے زندگی کے ہر مرحلہ میں یہ تعلیم دی کہ دنیا کے ساز وسامان اور اس کی دولت میں سکون تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔ حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ترجمہ: ” جس کی نیت اورمقصد اپنی تمام تر کوشش سے طلب آخرت ہو تو الله تعالیٰ اس کو دل کی بے نیازی یعنی مخلوق کا محتاج نہ ہونا اور دل کا اطمینان نصیب فرما دیتے ہیں۔“ جن چیزوں سے دل کا سکون رخصت ہو جاتا ہے ان میں ایک اہم چیز حسد ہے۔ یعنی دوسرے کے پاس نعمت دیکھ کر دل میں جلن محسوس کرنا، دوسرے کی خوش حالی دیکھ کر دل میں کڑھنا اور یہ چاہنا کہ دوسرے انسان کو یہ چیز کیوں ملی۔ معاشرہ میں رہتے ہوئے آپس میں حسد کرنے سے ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سیرت پاک کے ذریعہ امت کو تعلیم دی کہ اگر دل کا سکون اور اطمینان چاہیے تو مثبت خیالات او رپاکیزہ سوچ کو اپنائیں۔ آپ نے ایسا معاشرہ ترتیب دیا جس میں خود کھا کر اتنا اطمینان نہیں ملتا جتنا دوسرے کو کھلا کر سکون نصیب ہوتا ہے۔ اپنی مرضی، اپنی چاہت پوری کرنے کے بجائے ایثار کی تعلیم دی اور یہ سکھایا کہ نفسا نفسی کے عالم میں سکون نصیب نہیں ہوتا، بلکہ احسان کرکے ، خدمت کرکے ، آپس کی ہم دردی اور غم خواری کے ذریعہ دل کا سکون نصیب ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سیرت طیبہ کے ذریعہ اس بات کی بھی تعلیم دی کہ دوسروں کے حقوق کو پورا کرکے سکون ملتاہے ۔ اپنے فرائض کو اچھے طریقے سے ادا کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن رکھا جائے تو یہی سکون کا ذریعہ ہے۔ الله رب العزت ہمیں سیرت نبی صلی الله علیہ وسلم پر عمل کرکے زندگی کے ہر مرحلے میں سکون واطمینان نصیب فرمائے۔ آمین!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔