لاالہ



تحریر مدثرحسین
لا سے مراد غیر الله کی نفی اور الا سے مراد الله تعالی کے سامنے جھک جانا ہے اگر کلمہ طیبہ کے پہلے دو لفظوں کا بغور مطالعہ کیا جاۓ تو صرف ان دو لفظ میں پوری کائنات سمائی نظر آتی ہے ۔ ان دونوں الفاظ سے اس جہان کن کی تقدیر بنتی ہے لا سے حرکت میں اضافہ ہوتا ہے اور الا سے سکون میں۔ لا اور الا کائنات کا احتساب ہے لا اور الا سے برکتوں کا دروازه کھلتا ہے
اسی جملے کو نفی اثبات بھی کہا جاتا ہے یعنی لا کا مطلب ہے کوئی نہیں حقیقتا ظہور کائنات سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی مگر اس وقت کیا تھا "الہ" مگر الله
جب کوئی چیز نہیں تھی تو صرف الله تھا آج بھی کوئی چیز نہیں مگر صرف الله ہے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ الله کے سوا کوئی چیز موجود ہے یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے مگر کیا ہے صرف "الہ"
جب کوئی مسلمان اس کلمہ کے اقرار کرتا ہے تو اس کے دل میں دنیا کی تمام چیزیں نکل جاتیں ہیں اس کے دل میں رہتا ہے تو صرف "الہ" یہی وجہ تھی جب مسلمان قیصر کسری سے ٹکراۓ تو قیصرو کسری ٹھرٹھرا اٹھے ۔ لا کی تیز دھار تلوار سے لرزنے لگا اور جب ان پر الہ کی چوٹ لگی تو قیصر وکسری فلک بوس ہو گۓ۔ درحقیقت کلمہ طیبہ کے ان پہلے دو حروفوں میں اتنی پاور اور طاقت ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان کے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔
لا انقلاب تخریبی کا پہلو ہے اور الا تعمیری۔ لاالہ کے سپاہیوں نے جب قیصر کسری کو لا کیا پیغام دیا تو انہوں نے قیصر کسری میں ایک انقلاب برپا کر دیا جب الا سے چوٹ لگائی تو وه چوٹ تعمیری تھی لا سے قیصروکسری ختم ہو چکا تھا اور الہ سے وہاں صرف الله کی داغ و بیل ڈال دی گئی "لا" سے جلال ظاہر ہوتا ہے یعنی کوئی نہیں کچھ بھی نہیں اور "الہ" سے جمال مگر الله
لا کا مقام تعمیری ہے اور تعمیرکے بعد سکون الا کہنے سے حاصل ہوتا ہے۔
اگر آپ اپنے رہنے کے کوئی مکان بنانے کا اراده رکھتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی تعمیر کرتے ہیں اور تعمیر کے بعد ہی آپ سکون کیلۓ وہاں ره سکتے ہیں۔ باطل کے سامنے "لا" کہنا ضروری ہے۔ یعنی کہیں ظلم ستم ہو رہا ہو تو مسلمانوں کا شیوه نہیں کہ وه اس ظلم و ستم کو نہ روکیں بلکہ مسلمانوں نے ہر دور میں ظلم کی سامنے لا کا نعره بلند کیا طبقاتی کشمکش کو یہی "لا" انقلابی حرکت عطا کرتا ہے
غیرالله کے سامنے ما کہنا زندگی ہے اسی کے ہنگامہ سے کائنات میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور کفر و شرک کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بقول اقبال
تو غلام کو آقا سے لڑانا چاہتا ہے تو مشت خاک میں لا کا بیج بو دے۔
اس وقت مسلم امہ کو لا کے طاقت چاہیۓ وه کفر کے ایوانوں کو قیصر و کسری کی طرح خاک نشین کر دے مگر امت مسلمہ اس وقت ایٹمی ہتھیاروں کے چکر میں ڈوبی ہوئی ہے خیال ہے کہ عالم کا کفر کا خاتمہ ایٹم بم سے ہو گا ایک ایک بالکل لغواور بے معنی خیال ہے اگر ایسی بات ہوتی تو آج دنیا میں اسلام کا وجود نہ ہوتا اسلام کفر سے ہمیشہ لا کی طاقت سے ٹکرایا ہے۔ اسلام کی تاریخی کا اگر مطالعہ کیا جاۓ تو ہر دور میں مسلمانوں کے پاس ہتھیار براۓ نام ہوتے مگر غالب پھر بھی وہی آتے تھے کیونکہ ان کے پاس لا کی طاقت تھی لا کا ایسا جلال تھے جس نے ہر میدان میں کفر کے ایوانوں کو جلا کر بھسم کر دیا اور آج ھم لا کے جلال کو چھوڑ کر ایٹم بم پر ترجیح دے رہے ہیں یہ کتنی بے عقلی اور بیوقوفی کی بات ہے کہ آج ھمیں اس جدیدیت کی دنیا میں لا کے جلال پر یقین نہیں رہا حالانکہ یہی لا ہر میدان میں ہماری وجہ فتح بنا۔
ارے بھائیو کیا ہو گیا ہے تمہاری عقلوں کو کس سمت چل پڑے ہو تم لوگ۔ تم نے لا کو چھوڑ کر اپنی طاقت جنگی ہتھیاروں کو بنا لیا کیا تمہارے دلوں سے لا کا یقین اٹھ گیا ہے کیا تمہیں اس بات پر یقین نہیں رہا کہ تم لا کا نعره بلند کرو تو الہ تمہارے ساتھ ہو گا۔ آج کے مسلمانوں کی ذلت و پستی کی وجہ ہی یہی ہے کہ مسلمانوں نے لا کے جلال کو بھلا دیا اور کفر کے سامنے سر خم کر دیا اس لیۓ ان کے دلوں سے الہ کا سکون اٹھا لیا گیا۔ اقبال نے اپنی ساری زندگی صرف ہمیں لا الہ کا درس دیا جس کو ھم نے اپنی نصاب کی کتابوں سے نکال باھر پھینکا یہ صرف اس لیے کیا کہ ہمیں لا کی بجاۓ اپنے ایٹم بم پر یقین ہونے لگا ہے اور اس یقین نے ھمیں الہ میں غرق ہونے کی بجاۓ جنگی ہتھیاروں کی تیاری میں غرق کر دیا مجھے یہ تو بتاؤ کہ لا کے سامنے یہ جنگی ہتھیار کیا ہیں۔ جبکہ لا میں اس کی نفی کی جا رہی ہے کچھ بھی نہیں ہے کوئی شے نہیں ہے مگر "الہ" ہے اس کے باوجود ھم جنگی ہتھیاروں پر زور دیں تو ھم سے بڑا بیوقوف کوئی اور نہیں ہو گا۔
اقبال اپنے ایک فارسی کلام میں امت مسلمہ کو لاالہ کا درس دیتے ہوۓ فرماتے ہیں
لاالہ کہتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن میں سے بھی روح کی خوشبو آۓ۔ لاالہ دو حروف محض گفتار نہیں بلکہ تیغ بے زنہار ہیں، لاالہ کے ساتھ جینا قہاری ہے لاالہ محض ضرب نہیں، بلکہ ضرب کاری ہے، ملت مسلمہ بدن ہے اور توحید اس کی جان ہے لاالہ ھمارے ساز کے سارے نغموں میں ھم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ جب آپ نے لا کی تلوار میان سے باہر نکالی تو اہل باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا انہوں نے صحرا کی سرزمین پر الا الله کا نقش رقم کیا اور انکی لکھی ہوئی یہ سطر ہماری نجات کا عنوان بنی۔ ھم نے قرآن پاک کے رموز سیدنا حسین رضی الله عنہ سے سیکھے ہیں۔ ان کی روشنکی ہوئی آگ سے ھم نے آزادی کے شعلے اکٹھے کیۓ ہیں۔
)جاوید نامہ۔۔۔۔ سخنے بہ نژاد نو(
اے پاکستان کے اور ملت اسلامیہ کے نوجوان تو لاالہ کا ورد تو روزانہ کرتے ایک بار اپنے دل سے لاالہ کا ورد تو کرو ایک بار اپنے دل کو لاالہ کے مطلب سے ھم آھنگ توکرکے تو دیکھو۔ دنیا کے حرس و ہوس میں کیوں کر مبتلا ہے اگر سکون چاہتے ہو لاالہ میں ڈوب جاؤ۔
لا پوری کائنات کو ایک چیلنج ہے کوئی نہیں ہے نہ سکون ہے نہ عزت نہ شاہی ہے نہ دولت مگر کیا ہے صرف الہ سکون بھی الہ عزت بھی الہ شاہی بھی الہ دولت بھی الہ۔ اگر ملت اسلامیہ آج پوری دنیا کی نفی کرکے صرف الہ کو اپنا لے تو اسے ہر وه چیز مل جاۓ گی جس کا اس سے وعده کیا گیا ہے۔ الہ کے سامنے امریکہ اور اس ایٹم بم کچھ بھی نہیں بس الہ پر یقین ہونا لازمی امر ہے۔
میری دعا ہے کہ الله پاک امت مسلمہ کو "لاالہ" میں غرق کردے۔اور انہیں لاالہ کے مفہوم کو سمجھنے کی طاقت اور صلاحیت عطا فرماۓ۔ آمین

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔