ہفتہ، 2 مئی، 2015

داستان مجاہد پہلی قسط

0 comments

داستان مجاہد


نسیم حجازی
کا اسلامی تاریخی ناول

پیش لفظ




’’داستان مجاہد ‘‘ کی ابتدا ایک افسانے سے ہوئی۔ 1938ء میں  ’’مجاہد‘‘   کے عنوان سے ایک افسانے کا پس منظر تلاش کرنے کی غرض سے میں نے تاریخ اسلام اٹھائی۔ مجھے داستان ماضی کا ہر صفحہ ایک دل کش افسانہ نظر آیا۔ اس رنگین داستان کی جاذبیت نے افسانہ لکھنے کے ارادے کو تاریخ اسلام کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے شوق میں تبدیل کر دیا۔
ایک مدت تک میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ تاریخ اسلام کے کس واقعے کو اپنے افسانے کی زینت بناؤں۔ میں کسی ایک پھول کی تلاش میں ایک ایسی سرسبز و شاداب وادی میں پہنچ چکا تھا جس کی آغوش میں رنگا رنگ کے پھول مہک رہے تھے۔ دیر تک میری نگاہیں اس دلفریب وادی میں بھٹکتی رہیں اور میرے ہاتھ ایک پھول کے بعد دوسرے پھول کی طرف بڑھتے رہے۔ میں نے رنگا رنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا۔ آج میں ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور اپنے خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سرسبز و شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا۔
ادب برائے ادب کا نعرہ بلند کرنے والے حضرات شاید میری اس کاوش پر برہم ہوں لیکن میں ادب کو محض تضیع اوقات اور ذہنی انتشار کا ذریعہ بنانے کا قائل نہیں۔نظام کائنات میں ایک غایت درجہ کا توازن ہماری زندگی کے کسی فعل کو بے مقصد ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
ہر قوم کی تعمیر نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی ماضی اور حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے۔ ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اور ماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہو جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیا کی تمام قوموں کی تاریخ سے زیادہ روشن ہے۔ اگر ہمارے نوجوان غفلت اور جہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی جھلک بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لیے انہیں ایک ایسی شاہراہ عمل نظر آئے گی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں ہے۔
موجودہ دور کے فنون لطیفہ نے کسی ٹھوس مضمون کا مطالعہ کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ میرے نزدیک موجودہ ادب میں ناول اور افسانے کی مدد سے زندگی کے اہم اور ٹھوس مسائل کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
’’داستان مجاہد‘‘ ایک ناول ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا پہلا ناول فنی اعتبار سے کس حد تک کامیاب ہے لیکن جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے، میں اپنی ادبی صلاحیتوں سے زیادہ تاریخ اسلام کی رنگینی کو اس کا ضامن سمجھتا ہوں۔‘‘

کوئٹہ 10 دسمبر 1943

(نسیم حجازی)


صابرہ


سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چمکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہو گئے۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں فطرت کے مختلف عناصر ہمیشہ بر سر پیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے۔ تہذیب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں قومیں قعر مذلت سے اٹھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں۔ لیکن قانون فطرت میں کمال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کو بھی ثبات نہیں۔ وہ قومیں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی اٹھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گزرے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جس نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینانِ عرب کی ترقی اور تنزلی کی طویل داستان میں جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہو گی۔ اگرچہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں، لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اور ان کی خارا شگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آ چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکستان، اندلس اور ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔
بصرہ سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر سر سبز و شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے صحن میں صابرہ، ایک ادھیڑ عمر کی عورت عصر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ دوسرے تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکی نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کی حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا:
’’دیکھو نعیم! میری تلوار!‘‘
چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا:
’’ میرے پاس بھی تلوار ہے۔ آؤ ہم جنگ کریں۔‘‘
’’تم رو پڑو گے!‘‘ چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔
’’تو پھر آؤ!‘‘ بڑے نے تن کر کہا۔
معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑکی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔‘‘
چھوٹے لڑکے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں رپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کار زار میں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبد اللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی۔ عبد اللہ نے قدرے غصے سےا کر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی۔ عبد اللہ نے کہا۔ ’’دیکھو اب رونا مت۔‘‘
’’میں نہیں، تم رو پڑو گے!‘‘ نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا۔ اس کے بعد اس نے اپنی چھڑی اٹھا لی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ عبد اللہ بھی سر سہلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن اتنی دیر میں نعیم صابرہ کی گود میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’امی! بھائی مارتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
ماں نے پوچھا۔ ’’عبد اللہ! کیا بات ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’امی! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔‘‘
’’تم لڑے کیوں تھے بیٹا؟‘‘ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے۔ اس نے میرا ہاتھ توڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لے لیا۔‘‘
’’تلواروں سے ؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟‘‘
’’یہ دیکھو امی! ‘‘ نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لوہے کی تلوار چاہیے۔ لے دو نا۔ میں جہاد پر جاؤں گا!‘‘
کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کا لفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھیں :
’’اے رب کعبہ! میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگائے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے۔‘‘
نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس کے رگ و ریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصور میں اپنے بیٹوں کو نوجوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدان جنگ میں دیکھ رہی تھی۔
....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جا رہے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی بار اٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و اناا لیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی
’’اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔‘‘
دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگا لیا۔
انسانی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لا محدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
ہم دنیا کے ہر واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ہم دوسروں کے احساسات و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ہمارے لیے ایک معمہ بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولیٰ کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دعائیں کس قدر عجیب معلوم ہوں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اور خون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کس قدر بھیانک نظر آتی ہو گی۔ اپنے بچوں کوبلی کا خوف دلا کر سلانے والی مائیں ان کے شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے خواب کب دیکھتی ہوں گی۔
ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پہلے ہوئے نوجوانوں کا علم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرز جانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیروں اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے ارد گرد چکر لگانے والی چڑیاں عقاب کے انداز پرواز سے کس طرح واقف ہو سکتی ہے؟
)۲)
صابرہ کا بچپن اور جوانی زندگی کے نا ہموار ترین راستوں سے گزر چکے تھے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہسواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا۔ وہ بچپن ہی سے غازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ اپنی توتلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہلا فقرہ ’’آبا غازی ‘‘ اور چند دنوں کے بعد کا سبق ’’ آبا شہید‘‘ تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جا سکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہے۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کر تی تھی۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی عبد الرحمن کے ساتھ ہوئی۔ نوجوان شوہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چاردیواری میں بند کر دینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے ابھارتی رہی۔
عبد الرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبد اللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی۔ عبد الرحمن نے عبد اللہ کو اٹھا کر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیار کیا۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی۔ رفیق حیات کو میدان جنگ کی طرف رخصت ہو تا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا امڈ آیا لیکن اس نے اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔
عبد الرحمن نے کہا ’’صابرہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر میں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلواروں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں گے!‘‘
’’آپ تسلی رکھیں۔‘‘ صابرہ نے جواب دیا۔ ’’میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔‘‘ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی۔
’’اے زمین و آسمان کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا!‘‘
جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں گی تو محبت کے جذبات کا کمال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا۔ اور رخصت ہونے کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسی حد تک عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے ؟ وہ کون سا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں کھڑا کیا تھا؟ وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجاہدوں کو دریاؤں اور سمندروں میں کودنے، تپتے ہوئے وسیع صحراؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطا کی تھی؟
ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتا ہے۔
عبد الرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کے ہمراہ گئے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا۔
صابرہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی۔ نووارد آگے بڑھا اور چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔
صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا:
’’وہ نہیں آئے!‘‘
’’وہ شہید ہو گئے‘‘
’’شہید!‘‘ ضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔نووارد نے کہا۔ ’’اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے۔ انہوں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کر دیا تھا۔‘‘
’’صابرہ! میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہا ہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہا ہے۔ میری روح جسم کی قید سے آزاد ہو کراس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لئے پھڑپھڑا رہی ہے۔ میں زخموں سے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت سی محسوس کرتا ہوں۔ میری روح ایک ابدی سرور کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جس کا ہر ذرہ اس دنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔
میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پا چکا ہوں۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دور جا رہا ہوں۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکٹھے ہوں گے جو دائمی سرور کا مرکز ہے۔ جہاں کی صبح شام سے اور بہار خزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگرچہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جہت میں پہنچ سکتا ہے۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد رہنے کے لئے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہا ہوں۔ بچوں کی قدر و قیمت بتانا۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں میرے بچوں کے لئے ایک فرض شناس ماں بننا۔ مامتا کو اپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت او ر ہیچ ہے۔‘‘


)تمہارا شوہر )


عذرا


 عبد الرحمن کو شہید ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ ایک دن صابرہ اپنے مکان کے صحن میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی عبداللہ کو سبق پڑھا رہی تھی۔ نعیم ایک ڈنڈے کا گھوڑا بنا کر اسے چھڑی سے ہانکتا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھرتا تھا۔ کسی نے باہر کے دروازے پر دستک دی۔ عبد اللہ نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ماموں جان ماموں جان کہتا ہو نووارد سے لپٹ گیا۔
’’کون، سعید!‘‘ صابرہ نے اندر سے آواز دی۔
سعید ایک کم سن لڑکی کو انگلی سے لگائے صحن میں داخل ہوا۔ صابرہ نے اٹھ کر چھوٹے بھائی کا خیر مقدم کیا اور لڑکی کو پیار کرتے ہوئے پوچھا:
’’یہ عذرا تو نہیں ؟ اس کی شکل و صورت بالکل یاسمین جیسی ہے!‘‘
’’ہاں بہن یہ عذرا ہے۔ میں اسے آپ کے پاس چھوڑنے آیا ہوں۔ مجھے فارس جانے کا حکم ملا ہے۔ وہاں خارجی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں بہت جلد وہاں پہنچ جا نا چاہتا ہوں۔ پہلے سوچا تھا کہ عذرا کو کس کے ساتھ آپ کے پاس بھیج دوں گا مگر یہی مناسب سمجھا کہ خود ہی یہاں سے ہوتا جاؤں۔‘‘
’’یہاں سے کب روانہ ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ صابر ہ نے پوچھا۔
’’آج ہی چلاؤں تو بہتر ہے۔ آج ہماری فوج بصرہ میں قیام کرے گی۔ کل صبح ہم وہاں سے فارس کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔‘‘
عبد اللہ والدہ کے پاس کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا۔ نعیم جو کچھ دیر پہلے ایک لکڑی کی چھوڑی کو گھوڑا سمجھ کر دل بہلا رہا تھا، عبداللہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ سعید نے نعیم کو اٹھا کر گلے لگایا، پیار کیا اور پھر ہمشیرہ سے باتیں کرنے لگا۔ نعیم پھر کھیل کود میں مصروف ہو گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر عبد اللہ کے پاس گیا اور عذرا کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حیا کی وجہ سے خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جرات سے کام لیا اور عذرا سے مخاطب ہو کر پوچھا:
’’تم بھی گھوڑا لو گی؟‘‘
عذرا شرما کر سعید کے پیچھے چھپ گئی۔
’’جاؤ بیٹا! ‘‘ سعید نے عذرا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا‘‘ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلو!‘‘
عذرا شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے نعیم کے ہاتھ سے چھڑی پکڑ لی۔دونوں صحن کے دوسری طرف جا کر اپنے اپنے لکڑی کے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے۔
عبد اللہ نعیم کی حرکات سے نا خوش تھا اور اسکی طرف گھُور گھُور کر دیکھ رہا تھا۔ لیکن نعیم تھوڑے ہی عرصے میں اپنے نئے ساتھی سے کچھ اس درجے مانوس ہو گیا تھا کہ عبداللہ اسکی طرف دیکھتا بھی تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ جب عبد اللہ نے اس کو منہ چڑانا شروع کیا تو وہ ضبط نہ کر سکا:
دیکھو امی جان! عبداللہ منہ چڑاتا ہے!‘‘
ماں نے کہا۔ ’’نہ عبد اللہ اسے کھیلنے دو!‘‘
عبد اللہ سنجیدہ ہوا تو نعیم نے منہ چڑانا شروع کیا۔ عبداللہ نے تنگ آ  کر اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
عذرا کی کہانی صابرہ سے مختلف نہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو ہوش سنبھالنے سے پہلے والدین کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
عذرا کا باپ ظہیر فسطاط کے سرکردہ لوگوں میں سے تھا۔ اسنے بیس سال کی عمر میں ایرانی نسل کی ایک حسین لڑکی یاسمین سے شادی کی تھی۔
یاسمین کے سہاگ کی پہلی شب تھی۔ وہ اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں امنگوں کی ایک نئی دنیا بیدار کر رہی تھی۔ کمرے میں چند شمعیں جل رہی تھیں۔ یاسمین اور ظہیر کی آنکھوں میں ایک خمار تھا لیکن وہ خمار نیند کے خمار سے بہت مختلف تھا۔
ظہیر پوچھ رہا تھا۔ ’’یاسمین! سچ سچ بتاؤ تم خوش ہونا !‘‘
دلہن نے انتہائی مسرت کی حالت میں بولنے کی بجائے نیم باز آنکھیں اوپر اٹھائیں اور پھر جھکا لیں۔
ظہیر نے پھر وہی سوال کیا۔ یاسمین نے شوہر کی طرف دیکھا، حیا اور مسرت کی گہرائیوں میں کھوئے ہوئے ایک دلفریب تبسم کے ساتھ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ بھولا بھالا سا جواب کس قدر معنی خیز تھا۔ اس وقت جب کہ رحمت کے فرشتے مسرت کا گیت گا رہے تھے اور یاسمین کا دھڑکتا ہوا دل ظہیر کے دل کی دھڑکن کا جواب دے رہا تھا۔ الفاظ کس قدر بے حقیقت معلوم ہو تے تھے۔ ظہیر نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’اپنے دل سے پوچھو۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔
ظہیر نے کہا ’’میرے دل میں تو آج خوشی کا طوفان امڈ رہا ہے۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آج کائنات کی ہر چیز مسرت کے نغموں سے لبریز ہے۔ کاش! یہ نغمے ہمیشہ ایسے ہی رہیں ‘‘۔
’’کاش!‘‘ یاسمین کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جو ایک لمحہ پیشتر مسرتوں کا گہوارہ بنی ہوئی تھیں۔ مستقبل کا خیال آتے ہی پرنم ہو گئیں۔ ظہیر محبوب بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے اختیار ہو گیا۔
’’یاسمین! یاسمین! تم رو پڑیں۔ کیوں ؟‘‘
’’نہیں ‘‘۔ یاسمین نے مسکرا نے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ آنسوؤں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ اس کے حسن کو دوبارہ کر رہی تھی۔
’’نہیں۔ کیوں ؟ تم سچ مچ رو رہی ہو۔ یاسمین تمہیں کیا خیال آیا۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھنا میری قوت سے باہر ہے۔‘‘
’’مجھے ایک خیال آیا تھا۔ یاسمین نے چہرے کو ذرا شگفتہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیسا خیال؟ ظہیر نے سوال کیا۔
’’کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے حلیمہ کا خیال آیا تھا۔ بے چاری کی شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا شوہر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔‘‘
ظہیر نے کہا ’’میں ایسی موت سے بہت گھبراتا ہوں۔ بے چارے نے بیماری کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی۔ ایک مجاہد کی موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس وہ اس سعادت سے محروم رہا۔ اس بیچارے کا اپنا قصور بھی تو نہ تھا۔ وہ بچپن سے مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار رہا۔ جب اس کی موت سے چند دن پہلے مزاج پرسی کے لیے گیا تو اس کی عجیب حالت تھی، اس نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا:
’’تم بہت خوش ہو۔ تمہارے بازو لوہے کی طرح مضبوط ہیں۔ تم گھوڑے پر چڑھ کر میدان جنگ میں دشمنوں کے تیروں اور نیزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہو گے لیکن میں یہاں پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہوں۔ دنیا میں میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ میں بچپن میں مجاہد بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن اب جوانی کا وقت آیا ہے تو میرے لیے بستر سے اٹھ کر چند قدم چلنا بھی دشوار ہے۔‘‘
جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ وہ جہاد پر جانے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے گیا لیکن اس کے پہلو میں ایک مجاہد کا دل تھا۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن ایسی موت اسے پسند نہ تھی۔
ظہیر نے بات ختم کی اور دونوں ایک گہری سوچ میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور مؤذن دنیا والوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے نماز میں شریک ہونے کا خدائی حکم سنا رہا تھا۔ یہ دونوں اس حکم کو بجا لانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ظہیر نے دروازہ کھولا تو سامنے سعید سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈھکا ہوا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ سعید گھوڑے سے اترا اور ظہیر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
سعید اور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی سگے بھائیوں کی محبت سے بھی زیادہ بے لوث تھی۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی تھی۔ ایک ہی جگہ فنون سپہ گری سیکھے تھے اور کئی میدانوں میں دوش بدوش لڑ کر اپنے بازوؤں کی طاقت اور تلواروں کی تیزی کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ظہیر نے سعید کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔
’’مجھے والی قیرون نے آپ کی طرف بھیجا ہے!‘‘
’’خیر تو ہے؟‘‘
’’نہیں ‘‘۔ سعید نے جواب دیا ’’افریقہ میں بغاوت نہایت سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اہل روم جاہل بربریوں کو اکسا کر ہمارے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ اس آگ کو فرو کرنے کے لیے تازہ دم فوجوں کی ضرورت ہے۔ گورنر نے دربار خلافت سے چلا چلا کر مدد مانگی ہے لیکن وہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ نصرانی ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس وسیع خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھیں گے۔ گورنر نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کے نام یہ خط دیا ہے۔‘‘
ظہیر نے خط کھول کر پڑھا، خط کا مضمون یہ تھا:
’’سعید تمہیں افریقہ کے حالات بتا دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے کہ جس قدر سپاہی فراہم کر سکوں ان کو لے کر فوراً پہنچ جاؤ۔ میں نے ایک خط دربار خلافت میں بھی بھیجا ہے لیکن موجودہ حالات میں جبکہ اہل عرب طرح طرح کی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہیں، مجھے وہاں سے کسی مدد کی امید نہیں۔ تم اپنی طرف سے کوشش کرو۔‘‘
ظہیر نے ایک نوکر کو بلا کر سعید کا گھوڑا اس کے حوالے کیا اور اسے اپنے ساتھ مکان کے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں سے شب عروسی کا خمار اتر چکا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا، یاسمین بارگاہ الٰہی میں سر بسجود تھی۔ دل کو گونہ مسرت ہوئی۔ واپس سعید کے پاسا کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:
’’سعید میری شادی ہو چکی ہے!‘‘
’’مبارک ہو۔ کب ؟‘‘
’’کل‘‘
’’مبارک ہو!‘‘ سعید مسکرا رہا تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اچانک پژمردگی میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ دیرینہ دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہیں سوال کر رہی تھیں کہ شادی کی خوشی نے تمہیں جذبہ جہاد سے تو عاری نہیں کر دیا؟ ظہیر کی آنکھیں اس سوال کا جواب نفی میں دے رہی تھیں۔
دنیا میں کم و بیش ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے کسی بلندی تک پہنچنے یا بڑا کام کرنے موقع ملتا ہے لیکن ہم اکثر نفع نقصان کی سوچ میں ایسے موقع کو کھو دیتے ہیں۔
سعید نے پوچھا ’’آپ نے خط کے متعلق کیا سوچا؟‘‘
ظہیر نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سعید کے کندھوں پر رکھ دیا اور کہا:
’’اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔چلو!‘‘۔ ’’چلو‘‘ بظاہر ایک سادہ سا لفظ تھا لیکن ظہیر کے منہ سے سعید کو یہ لفظ سن کر جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ وہ بے اختیار اپنے دوست سے لپٹ گیا۔ ظہیر نے کوئی اور بات نہ کی۔ سعید کو اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف ہو لیا۔
صبح کی نماز ختم ہوئی اور ظہیر تقریر کے لیے اٹھا۔ ایک مجاہد کو اپنی زبان میں اثر پیدا کرنے کے لئے اچھے اچھے الفاظ اور لمبی لمبی تاویلوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے سیدھے سادے مگر جذبے سے بھرے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اس نے تقریر کے دوران میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا:
’’مسلمانوں ! ہماری خود غرضیاں اور خانہ جنگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ اہل روم جن کی سلطنت کو ہم کئی بار پاؤں تلے روند چکے ہیں ایک بار پھر ہمارے مقابلے کی جرات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یرموک اور اجنادین کی شکستیں بھول چکے ہیں۔ آؤ انہیں ایک بار پھر بتائیں کہ مسلمان اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے اب بھی اپنے خون کو اتنا ہی ازاں سمجھتا ہے جتنا کہ پہلے سمجھتا تھا۔ انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے افریقہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ یہ خیالات کرتے ہیں کہ ہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے، ان لوگوں کو ہم سے ڈر کر رہنا چاہیے۔
مسلمانو! آؤ ایک بار پھر انہیں یہ بتا دیں کہ ہمارے سینوں میں وہی تڑپ ہے، ہمارے بازوؤں میں وہی طاقت اور ہماری تلواروں میں وہی کاٹ ہے جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی۔‘‘
ظہیر کی تقریر کے بعد اڑھائی سو نوجوان اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو گئے۔

)۳)

یاسمین اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کے مرکز کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ کی طرف رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی۔ دل کا بخار آنکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن یاسمین کے نسوانی غرور نے شوہر کے سامنے اپنے آپ کو بزدل ظاہر کرنے کے اجازت نہ دی۔ آنکھوں کے آنسو آنکھوں میں ہی دبے رہے۔
ظہیر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ حزن و ملا کی تصور بنی سامنے کھڑی تھی۔ دل نے سفارش کی کہ ایک لمحہ اور ٹھہر جاؤ۔ چند باتیں کرو۔ لیکن اسی دل کی دوسری آرزو تھی کہ ایک اور امتحان سے بچو!
’’اچھا یاسمین! خدا حافظ‘‘۔ کہہ کر ظہیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ ایک ایسا خیال جسے اس نے ابھی تک اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ برق کی سی تیز رفتاری کے ساتھ س اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ دل کے لطیفے حصے نے اپنی کمزور آواز میں فقط اتنا کہا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو لیکن ایک لمحے کے اندر اندر اس خیال نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔ وہ رکا اور مڑ کر یاسمین کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ آگے بڑھی۔ ظہیر نے آنکھیں بند کر کے بانہیں پھیلا دیں اور وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔
’’یاسمین!‘‘
’’آقا!‘‘
وہ آنسو جنہیں یاسمین اپنے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ رکھنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی، بے اختیار بہہ نکلے۔ دونوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ لیکن دلوں کی یہ دھڑکن اس وقت بہت مدھم تھی اور بدستور کم ہو رہی تھی۔ کائنات اسی پر کیف نغمے سے لبریز تھی لیکن اس نغمے کی تانیں پہلے کی نسبت بہت گہری تھیں۔ مجاہد کے امتحان کا وقت تھا۔ احساس محبت اور احساس فرض کا مقابلہ....! ظہیر کے سامنے یاسمین تھی۔ فقط یاسمین۔ حسن و لطافت کا ایک پیکر۔ رنگ و بو کی دنیا۔ پھر اچانک اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہو گئی اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا:
’’یاسمین یہ فرض ہے۔‘‘
’’آقا مجھے معلوم ہے۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔
’’میرے آنے تک حنیفہ تمہارا خیال رکھے گی۔ تم گھبرا تو نہ جاؤ گی؟‘‘
’’نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔‘‘
’’یاسمین مجھے مسکرا کر دکھاؤ۔ بہادر عورتیں ایسے موقع پر آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو!‘‘
شوہر کے حکم کی تعمیل میں یاسمین مسکرا دی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔
’’آقا مجھے معاف کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ کاش میں نے بھی ایک عرب ماں کی گود میں پرورش پائی ہوتی۔‘‘ یہ فقرہ ختم کرتے ہوئے انتہائی کرب کی حالت میں اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے بازو ایک بار پھر ظہیر کی طرف پھیلا دیے لیکن آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا کہ محبوب شوہر جا چکا ہے۔

)۴)

جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے ۔ یاسمین نے ایک ایرانی ماں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے اس کے وجود میں نسوانیت کا لطیف اور نازک حصہ عرب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ ظہیر کے رخصت ہوتے ہی اس کی بے قراری کی حد نہ رہی۔ دنیا بدلی ہوئی نظر آنے لگی۔ حنیفہ اس کی پرانی خامہ ہر ممکن کوشش سے اس کا دل بہلاتی۔ چند مہینوں کے بعد یاسمین کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پہلو میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اس دوران میں شوہر کی طرف سے چند خطوط بھی ملے۔
حنیفہ نے اپنی طرف سے ظہیر کو لکھ بھیجا کہ تمہارے گھر ایک کمسن مہمان تشریف لانے والا ہے۔ واپس آنے پر گھر کی رونق میں اضافہ محسوس کرو گے۔ ہاں تمہاری بیوی سخت غمگین ہے اگر رخصت مل جائے تو چند دنوں کے لیے آ کر تسلی دے جاؤ!‘‘
آٹھ ماہ ظہیر نے لکھا کہ دو مہینوں تک گھرا جائے گا۔ اس خط کے بعد یاسمین کو انتظار کی گھڑیاں پہلے کی نسبت دشوار نظر آنے لگیں۔ اس کے لیے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو گئی اور صحت بگڑنے لگی۔
ظہیر کے انتظار کے ساتھ ننھے مہمان کا انتظار بھی بڑھنے لگا۔بالآخر ایک انتظار کی مدت ختم ہوئی اور ظہیر کے گھر کی خاموش فضا میں ایک بچے کے بلکنے نے کچھ رونق پیدا کر دی۔ یہ بچہ عذرا تھی۔
عذرا کی پیدائش کے بعد جب یاسمین نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں تو اس کا پہلا سوال یہ تھا۔‘‘ وہ نہیں آئے؟‘‘
’’وہ بھیا جائیں گے۔‘‘ حنیفہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اتنی دیر ہو گئی۔ خدا جانے کب آئیں گے ۔‘‘

)۵)

عذرا کو پیدا ہوئے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ یاسمین کی صحت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ رات کو سوتے میں اکثر ظہیر ظہیر! پکارتی اٹھ بیٹھتی اور بعض اوقات خواب کی حالت میں چلنے لگتی اور دیواروں سے ٹکرا کر گر پڑتی۔
حنیفہ سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسے تسلی دیتی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت یاسمین اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ حنیفہ اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی عذرا کو پیار کر رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
’’کوئی بلا رہا ہے۔‘‘ یاسمین نے نہایت کمزور آواز میں کہا۔
حنیفہ عذرا کو یاسمین کے پاس لٹا کر اٹھی اور باہر جا کر دروازہ کھولا۔ سامنے سعید کھڑا تھا۔
حنیفہ نے اضطراب اور پریشانی کی حالت میں کہا۔ ’’سعید تم آ  گئے۔ ظہیر کہاں ہے۔ وہ نہیں آیا؟‘‘
یاسمین کا کمرہ اگرچہ باہر کے دروازے سے کافی دور تھا لیکن حنیفہ کے الفاظ یاسمین کے کانوں تک پہنچ چکے تھے۔ سعید کا نام سنتے ہی اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور ایک لمحے کے اندر اندر ہزاروں توہمات پیدا ہو گئے۔وہ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کو ہاتھوں سے دبائے بستر سے اٹھی۔ کانپتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور حنیفہ سے دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ حنیفہ دروازے میں کھڑی ابھی تک سعید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس لیے یاسمین کی آمد سے بے خبر تھی اور سعید چونکہ دروازہ سے باہر کھڑا تھا۔ اس لیے وہ یاسمین کو نہ دیکھ سکا۔
حنیفہ نے پھر اپنا سوال دہرایا لیکن سعید خاموش رہا۔
’’سعید!‘‘ حنیفہ نے کہا۔ ’’ جواب کیوں نہیں دیتے کیا وہ....؟‘‘
سعید نے گردن اٹھا کر حنیفہ کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان کے قابو میں نہ تھی۔ اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور اس کا حسین چہرہ غیر معمولی حزن و ملال کا اظہار کر رہا تھا۔
’’سعید....کہو! ‘‘ حنیفہ نے پھر سوال کیا۔
’’وہ شہید ہو چکا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں زندہ واپس آیا ہوں۔‘‘
سعید نے کہا اور چھلکتے ہوئے آنسو اس کی آنکھوں سے گر پڑے۔
سعید نے اپنا فقرہ ابھی پورا ہی کیا تھا کہ حنیفہ کے پیچھے سے ایک چیخ سنائی دی اور کسی چیز کے دھڑام سے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ حنیفہ گھبرا کر پیچھے مڑی۔ سعید بھی حیران ہو کر مکان کے صحن میں آگیا۔ یاسمین منہ کے بل پڑی تھی۔
سعید نے جلدی سے اٹھایا اور کمرے کے اندر لا کر اس کے بستر پر لٹا دیا اور ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ جب مایوسی ہوئی تو طبیب کو بلانے کے لئے بھاگا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب طبیب کو لے کر واپس آیا تو دیکھا کہ گھر میں محلے کی بہت سی عورتیں جمع ہیں۔ کسی نے طبیب کو دیکھ کر کہا۔’’اب آپ کی ضرورت نہیں، وہ جا چکی ہے۔‘‘
یام کے قریب شہر کے عامل نے یاسمین کا جنازہ پڑھایا۔ ظہیر کی شہادت کا واقعہ بھی مشہور ہو گیا تھا۔ اس لیے اس کے لیے بھی دعائے مغفرت کی گئی۔ اس کے بعد ظہیر اور یاسمین کم سن یادگار عذرا کے حق میں درازی عمر کی دعا مانگی گئی۔

(۶)

سعید نے اسی دن عذرا کو ایک دایہ کے سپرد کیا اور حنیفہ سے کہا کہ اگر تم ظہیر کے مکان میں رہنا چاہو تب تک میں تمہارے اخراجات برداشت کروں گا اور اگر میرے گھر رہنا پسند کرو تو بھی میں تمہاری خدمت کروں گا لیکن حنیفہ نے کہا:
’’میں حلب میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔ وہاں میرا یک بھائی رہتا ہے۔ اگر میرا وہاں دل زیادہ دیر نہ لگا تو میں آپ کے پاس واپس آ جاؤں گی۔‘‘
سعید نے حنیفہ کے سفر کا انتظام کیا اور پانچ سو دینار دے کر رخصت کیا۔
دو سال کے بعد سعید عذرا کو اپنے گھر لے آیا اور خود اس کی پرورش کرنے لگا۔ جب اسے فارس کی طرف خارجیوں کے خلاف مہم پر جانا پڑا تو وہ عذرا کو صابرہ کے پاس چھوڑ گیا۔



بچپن


بستی کے نخلستانوں میں سے ایک ندی گزرتی تھی۔ بستی والوں نے مویشیوں کے لیے اس ندی کے کنارے ایک تالاب کھود رکھا تھا۔ جو ندی کے پانی سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ تالاب کے ارد گرد کھجوروں کے درخت ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ بستی کے بچے اکثر اوقات اس جگہ آ کر کھیلا کرتے تھے۔
ایک دن عبد اللہ۔ نعیم اور عذرا بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس جگہ کھیل رہے تھے۔ عبد اللہ نے اپنے عم عمر لڑکوں کے ساتھ تالاب میں نہانا شروع کیا۔ نعیم اور عذرا تالاب کے کنارے کھڑے بڑے لڑکوں کو پانی میں تیرتے، اچھلتے اور کودتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ نعیم کو کسی بات میں بھی اپنے بھائی سے پیچھے رہنا گوارا نہ تھا۔ ابھی اس نے تیرنا نہیں سیکھا تھا لیکن عبد اللہ کو تیرتے ہوئے دیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’آؤ عذرا، ہم بھی نہائیں !‘‘
عذرا نہیں جواب دیا۔’’امی جان خفا ہو گی۔‘‘
’’عبد اللہ سے کیوں خفا نہیں ہو گی۔ ہم سے کیوں ہو گی۔‘‘
’’وہ بڑا ہے۔ اسے تیرنا آتا ہے۔ اس لیے امی جان خفا نہیں ہوتیں۔‘‘
’’ہم گہرے پانی میں نہیں جائیں گے۔چلو!‘‘
’’اوں ہوں۔‘‘ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تم ڈرتی ہو؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
جس طرح نعیم ہر بات میں عبد اللہ کی تقلید کرنے بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسی طرح عذرا بھی نعیم کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا گوارا نہ کرتی۔ نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور عذرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی میں کود گئی۔ کنارے پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عبد اللہ اور دوسرے بچے مقابل کے کنارے کھجور کے ایک خمدار درخت پر چڑھ کر باری باری پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ عبد اللہ کی نظر نعیم اور عذرا پر اس وقت پڑی جب پانی ان کے گردنوں کے برابر آیا ہوا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بدستور پکڑا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے گھبرا کر چلانا شروع کیا لیکن اس کی آواز پہنچنے سے پہلے عذرا اور نعیم گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ عبد اللہ تیزی سے تیرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے نعیم کا پاؤں زمین پر لگ چکا تھا لیکن عذرا ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ عبداللہ نعیم کو محفوظ دیکھ کر عذرا کی طرف بڑھا۔
عذرا بھی تک ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ وہ عبد اللہ کے قریب آتے ہی اس کے گلے میں بازو ڈال کر لپٹ گئی۔ عبد اللہ میں اس کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ تھی۔ عذرا اس کے ساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی اور اس کے بازو پوری طرح حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دو تین بار پانی میں ڈوب ڈوب کر ابھرا۔ اتنی دیر میں نعیم کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر چیخ پکار شروع کر دی۔ ایک چرواہا اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کی طرفا رہا تھا، لڑکوں کی چیخ و پکار سن کر بھاگا اور تالاب کے کنارے پر سے یہ منظر دیکھتے ہی کپڑوں سمیت پانی میں کود پڑا۔ اتنی دیر میں عذرا بے ہوش کر عبد اللہ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر چکی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے عذرا کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چرواہے نے تیزی کے ساتھ جھپٹ کر عذرا کو اوپر اٹھا لیا۔ عبد اللہ عذرا سے نجات پا کر آہستہ آہستہ تیرتا ہوا کنارے کی طرف بڑھا۔ چرواہا عذرا کو لے کر پانی سے باہر نکلا اور تیزی سے صابرہ کے مکان کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ کے تالاب سے نکلتے ہی نعیم جھٹ دوسرے کنارے پر گیا اور عبد اللہ کے کپڑے اٹھا لایا۔ عبد اللہ نے کپڑے پہنتے ہوئے نعیم پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔ نعیم پہلے ہی آبلہ بن رہا تھا، بھائی کے غضب کی تاب نہ لا سکا اور سسکیاں لینے گا۔ عبداللہ نے نعیم کو روتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ اس موقع پر نعیم کے آنسو اس کا دل موم کرنے کے لیے کافی تھے، اس نے کہا ’’بہت گدھے ہو تم۔ گھر چلو!‘‘
نعیم نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’امی جان ماریں گی۔ میں نہیں جاؤ گا۔‘‘
’’نہیں ماریں گی۔‘‘ عبد اللہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
عبد اللہ کے تسلی آمیز الفاظ سنتے ہی نعیم کے آنسو خشک ہو گئے اور وہ بھائی کے پیچھے ہو لیا۔ چرواہا عذرا کو اٹھائے ہوئے صابرہ کے گھر پہنچا تو صابرہ کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ پڑوس کی چند اور عورتیں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ بہت کوشش کے بعد عذرا کو ہوش میں لایا گیا۔ صابرہ نے چرواہے کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
’’یہ نعیم کی شرارت ہو گی۔ میں اسے عذرا کے ساتھ باہر بھیجتے ہوئے ہمیشہ ڈرا کرتی تھی، پرسوں ایک لڑکے کا سر پھوڑ دیا۔ اچھا، آج وہ گھر آئے سہی!‘‘
چرواہے نے کہا، اس میں نعیم کا تو کوئی قصور نہیں۔ وہ بے چارا تو کنارے پر کھڑا چیخ پکار کر رہا تھا۔ میں اس کی آواز سن کر بھاگتا ہوا تالاب پر پہنچا تو آپ کے بڑے لڑکے نے عذرا کو بالوں پکڑا ہوا تھا اور وہ غوطے کھا رہی تھی۔
’’عبد اللہ۔‘‘ صابرہ نے حیران ہو کر کہا۔ ’’وہ تو ایسا نہیں !‘‘
چرواہے نے کہا ’’ آج تو میں بھی اس کی حرکت دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔ اگر میں موقع پر نہ پہنچتا تو اس نے معصوم لڑکی کو ڈبو دیا تھا۔‘‘
اتنے میں عبد اللہ گھر پہنچا۔ نعیم اس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے آ رہا تھا۔ جب عبد اللہ صابرہ کے رو برو ہوا تو نعیم اس کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔
صابرہ غضبناک ہو کر بولی ’’عبد اللہ! جاؤ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ میرا خیال تھا کہ تم میں کچھ شعور ہے۔ مگر آج تم نعیم سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے۔ عذرا کو ڈبونے کے لیے ساتھ لے گئے تھے؟‘‘
عبد اللہ جو سارا راستہ نعیم کو بچانے کی تجاویز سوچتا آیا تھا۔ اس غیر متوقع استقبال پر حیران ہوا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ قصور نعیم کی بجائے اس کے پر تھونپا جا رہا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ننھے بھائی کی نگاہیں التجا کر رہی تھیں کہ مجھے بچاؤ۔ عبد اللہ کو اس کے بچانے کی یہی صورت نظر آئی کہ وہ نا کردہ گناہ اپنے سر لے، یہ سوچ کر وہ خاموش کھڑا رہا اور ماں کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔
رات کے وقت عذرا کو زکام کا ساتھ بخار کی شکایت ہو گئی۔ صابرہ عذرا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ نعیم بھی غمگین صورت بنائے پاس بیٹھا تھا۔ عبد اللہ اندر داخل ہوا اور چپکے سے صابرہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ صابرہ اس کی آمد سے بے خبر عذرا کا سر دباتی رہی۔ نعیم نے ہاتھ سے عبد اللہ کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور اپنا مکا دکھا کر اسے اشاروں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چلے جاؤ ورنہ خیر نہیں۔ عبد اللہ نے اس کے اشاروں سے متاثر ہونے کی بجائے نفی میں سر ہلا دیا۔
نعیم کو اشارہ کرتے دیکھ کر صابرہ نے عبد اللہ کی طرف نگاہ اٹھائی۔ عبد اللہ ماں کی غضب آلود نظروں سے گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ ’’ اب عذرا کیسی ہے؟‘‘
صابرہ پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔ اب ضبط نہ کر سکی۔ ’’ٹھہرو میں تمہیں بتاتی ہوں !‘‘ یہ کہہ کر اٹھی اور عبد اللہ کو کان سے پکڑ کر باہر لے آئی۔ صحن کی ایک طرف اصطبل تھا۔ صابرہ نے عبد اللہ کو دروازے پر لے جا کر کہا۔’’عذرا کو اس لیے دیکھنے گئے تھے کہ وہ ابھی تک مری کیوں نہیں، تم رات یہیں بسر کرو!‘‘ عبد اللہ کو یہ حکم دے کر صابرہ پھر عذرا کے سرہانےا بیٹھی۔
جب نعیم کھانا کھانے بیٹھا تو اسے بھائی کا خیال آیا اور لقمہ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اس نے صابرہ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
’’امی جان! بھائی کہا ہے؟‘‘
’’وہ آج اصطبل میں رہے گا۔‘‘
’’امی اسے کھانا دے آؤں ؟‘‘
’’نہیں، خبردار اس کے پاس گئے تو!‘‘
نعیم نے چند بار لقمہ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ منہ تک پہنچ کر رک گیا۔
’’کھاتے نہیں ؟‘‘ صابرہ نے پوچھا۔
’’کھا رہا ہوں امی!‘‘ نعیم نے ایک لقمہ جلدی سے منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
صابرہ عشا کی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھی اور جب وضو کر کے واپس آئی تو نعیم کو اسی حالت میں بیٹھے دیکھ کر بولی:
’’نعیم تم نے آج بہت دیر لگائی۔ ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟‘‘
نعیم نے جواب دیا۔ ’’کھا چکا ہوں امی!‘‘
صابرہ نے برتن جن میں کھانا ابھی تک ویسے ہی تھا، اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیے اور نعیم کوسو جانے کے لیے کہا۔ نعیم اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ جب صابرہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تو وہ چپکے سے اٹھا اور دبے پاؤں دوسرے کمرے سے کھانا اٹھا کر اصطبل کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ چرنی پر بیٹھا ایک گھوڑے کے منہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ چاند کی روشنی دروازے کے راستے عبداللہ کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ نعیم نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا۔ ’’امی جان نماز پڑھ رہی ہیں۔ جلدی سے کھا لو!
عبد اللہ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ’’لے جاؤ میں نہیں کھاؤں گا۔‘‘
’’کیوں مجھ سے ناراض ہونا ؟‘‘ اس نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔
’’نہیں نعیم، امی جان کا حکم ہے تم جاؤ!‘‘
میں نہیں جاؤں گا، میں بھی یہیں رہوں گا۔‘‘
’’جاؤ نعیم، تمہیں امی جان ماریں گی!‘‘
’’نہیں میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ نعیم نے عبد اللہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔
نعیم کے اصرار پر عبد اللہ خاموش ہو گیا۔
ادھر صابرہ نے نماز ختم کی۔ مامتا زیادہ ضبط کی طاقت نہ رکھتی تھی۔ ’’اف! میں کتنی ظالم ہوں۔‘‘ اسے خیال آیا اور نماز ختم کرتے ہی اصطبل کی طرف چل دی۔ نعیم نے ماں کو آتے دیکھا تو چھپنے کی بجائے بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور چلایا:
’’امی! بھائی کا کوئی قصور نہیں۔ میں عذرا کو گہرے پانی میں لے گیا تھا۔ بھائی تو اسے بچا رہا تھا۔‘‘ صابرہ کچھ دیر پریشانی کی حالت میں کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’میرا بھی یہی خیال تھا۔ عبد اللہ ادھر آؤ!‘‘ عبد اللہ اٹھ کر آگے بڑھا۔ صابرہ نے پیار سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کا سر سینے سے لگا لیا۔
عبد اللہ نے کہا۔ ’’امی آپ نعیم کو معاف کر دیں !‘‘
صابرہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور کہا :
’’بیٹا تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیوں نہ کیا؟‘‘
نعیم نے جواب دیا ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ بھائی کو سزا دیں گی۔‘‘
’’اچھا تم کھا اٹھا لو۔‘‘
نعیم نے کھانا اٹھا لیا اور تینوں مکان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عذرا سو رہی تھی۔ ان تینوں میں سے کسی نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ تمام ایک جگہ بیٹھ کر کھانے لگے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔