پیر، 11 مئی، 2015

اقبال کا نظریٗہ حریت

0 comments
بسم اللہ الرّحمٰن الرحیم
صاحبزادہ سُلطان محمد علی
سرپرستِ اعلیٰ : اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین
بانی : مسلم انسٹیٹیوٹ
دربارِ عالیّہ حضرت سخی سُلطان باھُوؒ
تاثرات برائے :اختتامی سیشن
دوروزہ کانفرنس
”اکیسویں صدی میں افکارِ اقبال کی مو¿ثریت “
6-7 نومبر 2012 ءبروز منگل ، بدھاسلام آباد ہوٹل ، میلوڈی G-6 مرکز اسلام آباد
زیرِ اہتمام :
MUSLIM InstituteMission of Unity Stability & Leadership in Muslims
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمد ہ¾ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
رندی سے بھی آگاہ ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوُّف کی تو مَنصُور کا ثانی
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اِس سے قصورِ ھمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جُدائی میں بہت اَشک فشانی
معزز خواتین و حضرات ، مہمانِ خصوصی ، سیّد یوسف رضا گیلانی ، صاحبزادہ سُلطان احمد علی چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
السلام علیکم!حضرت علامہ اقبال کے عہد کے لوگوں کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اقبال کو اُن کے لئے بھیجا تھا اور آج ہم بھی اپنے گرد و پیش کے حالات کا جب جائزہ لیتے ہیں اور پھر اقبال کی فکر میں جھانکتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ اقبال ہمارے عہد کو رہنمائی دینے کے لئے آیا تھا ، ہماری اگلی نسل بھی اقبال کے بارے میں یہی رائے رکھے گی گویا اقبال کسی مخصوص عہد کا اقبال نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ قومِ رسولِ ہاشمی کو رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتا رہے گا ۔ میں حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر خود اُنہی کے لئے کہنا چاہوں گا
 ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
حضرت علامہ کی فکر کے جو چند نمایاں پہلو ہیں اُن میں ایک حضرت علامہ کا نظریہ¿ آزادی ہے جسے نظریہ¿ حریت بھی کہا گیا ہے اور یہ وہی نظریہ ہے جس کی تپش اور حرارت سے تحریکِ پاکستان نے روح پکڑی اور خود پاکستان کا وجود بھی حضرت علامہ کے اُسی نظریہ¿ حریت کا مرہونِ منت ہے ۔ آج کی اس تقریب میں میرے وہ بزرگ جنہوں نے پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا یا وہ لوگ جنہوں نے اس کا مطالعہ کیا ہے وہ ایک بڑی عمومی سی بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ حضرت قائدِ اعظم رحمة اللہ علیہ کے کئی جلسوں اور اجتماعات میں حضرت علامہ کا یہ شعر لکھا ہوتا تھا
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
ظلم کے خلاف اور حُریّت سے متعلقہ کسی بھی قوم کی جد و جہدحضرت علّامہ اقبالؒ کو خاص قسم کی تسکین بخشتی تھی کیونکہ اقبال جس عہد میں ہوئے اُس میں ” در پردہ “ پوری دُنیا پہ سامراجی ہتھکنڈوں کا تسلُّط تھا اِنسانیّت کو اُن سے چھٹکارے کیلئے ایک صَبر آزما جُہد و کاوِش کی ضرورَت تھی بالخصوص مسلم اُمّہ کو ! اِس بات کے تناظُر میں دیکھا جائے تو موجودہ عِہد ، عہدِ اقبال سے سخت تر ہے ۔ اقبال کے کلام سے رہنمائی لینے والے کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ جذبہ¿ حُریّت سے سرشار ہوتا ہے کیونکہ اقبال بھی حُریَّت کے حامی تھے اقبال نے ہر اُس شخص کی مثال پیش کی جس نے حریّت کی بات کی اور ہر اُس شئے کا استعارہ لیا جو حریت سے متعلّقہ تھی ۔ حریت وہ جذبہ ہے جو اقوام کو ظلم سے اور جہان کو ظُلمت سے آزادی دِلاتا ہے ۔اور محکومی کو زائل کرتا ہے ۔ حریت وہ فکر ہے جس سے افکارِ افراد کا رابطہ مِلَّت سے اُستوار رہتا ہے ۔ جذبہ¿ حریت کے بغیر ہر قوم محکوم اور ہر فرد مجبور ہوجاتا ہے ۔ وجُودِ مُردہ اِستعارہ ہے محکوم اور بے حریت کے لئے ۔ اِسی لئے سُنتے ہیں کہ دریا ، مُردہ جسم کو اپنے بطن میں برداشت نہیں کرتا جیسے دریا مُردہ مچھلی کا جسم اپنے سے باہر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے بالکل اِسی طرح جب جذبہ¿ حریت سے محروم فرد کی میَّت زمین میں دفن کی جاتی ہے تو زمین پہ اضطرابی کیفیَّت طارِی ہوجاتی ہے ۔ ایک تخیّلاتی واقعہ حضرت علّامہ نے ارمغانِ حجاز (اُردو ) میں رقم کیا ہے کہ ایک مُردہ جو آزادی سے اِس قدر مُجتنب تھا کہ قیامت سے اِس لئے خائف تھا کہ کہیں رُوح دوبارہ سوارِ بدَن نہ ہوجائے ۔ جب اُس نے زمین پر یہ کہہ کر اپنی محکومی کا اِظہار کیا کہ
 ہر چند کہ ہوں مُردہ¿ صَد سالہ و لیکن
ظُلمت کدہ¿ خاک سے بیزار نہیں میں
اُس کی اِس محکومی کا جَب زمین کو پتہ چلا تو اِس کا بس نہ چلتا تھا کہ کس طرح اُس کو اپنی آغوش سے باہر پھینک دے۔ رُوحِ زمین بُلبلا اُٹھّی اور مُردے سے یوں مخاطِب ہوئی ۔
آہ ظالِم ! تو جہاں میں بندہ¿ محکوم تھا ؟
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک
 تیری میَّت سے میری تاریکیاں تاریک تر
تیری میَّت سے زمیں کا پردہ¿ نامُوس چاک
اَلحَذَر± محکوم کی میَّت سے سَو بار اَلحَذَر±
اے سرافیل ! اے خُدائے کائنات ! اے جانِ پاک
!یہ اضطراب اور بے چینی روحِ زمین کو ، پریشان ،کئے جارہی تھی ۔ صدائے غیب نے مزید رہنمائی دی کہ محکوم اقوام کے اَفراد سے فکرِ آزادی کے فقدان کا گلہ مت کر کیونکہ آزادانسان ہی قُدرَت کی عطا¿ کردَہ طاقتوں اور اختیارات کا مظہر ہوتا ہے ۔
مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مَردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی رُوح کی منزِل ہے آغوشِ لحَد 
ایک اور مقام پر حضرت علامہ فرماتے ہیں ۔
ترا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا ؟ آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خُدائے زِندہ ، زندوں کا خُدا ہے
مُغَل فرمانروا شاہجہان کے بعد جب اورنگزیب عالمگیر تخت ہِند پہ بیٹھا تو اُس کی سخت گیری کی وجہ سے شُمال مغربی ہِند کے قبائل نے اُس سے بغاوَت کردی اور بہت خونریزی ہوئی قبائل میں ایک شخصیَّت خوشحال خان خٹک اپنی بے باکی اور شاعری کی وجہ سے ایک مقبُول رہنما¿ بنے اورقبائل کی مُغلوں سے آزادی میں پیش پیش رہے ۔ اُن کی ایک بات کو علّامہ نے وصیَّت بطور بالِ جبریل میں رَقَم کیا ۔ اُن کی وصیَّت پڑھنے سے قبل اِس بات کو ذِہن نشین رکھنا نہایت ضروری ہے کہ علّامہ اقبال اورنگزیب مُخالِف تحریک کے مخالف تھے جس کی وضاحت علامہ نے اپنے مشہور خُطبہ ”مِلَّتِ بی±ضا پہ اِک عِم±رانی نَظَر “ میں بھی کی اور رمُوزِ بیخُودی میں تو اورنگزیب کو اِسلام کی تَرکش کا آخری تیر قرار دیا :
دَر±میانِ کارزارِ کُف±ر و دِیں
ترکشِ مارا خَدَ نگِ آخریں
 اَب یہ اَندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اورَنگزیب کے حریف کو اِقبال کا خراجِ تحسین صِرف اور صِرف ” حُریَّت “ کی بُنیاد پہ نصیب ہوا ۔ غیُّور خٹک حُریّت میں اِتنا حسّاس تھا کہ اُسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مُغل شِہسواروں کے گھوڑوں کی گَرد بھی اُس کی قبر کے قریب سے گُزرے ۔ اقبال خوشحال خان خٹک کی وصیّت کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہوئے کہتے ہیں :
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مُغل سے کسی طرح کمتر نہیں
قہستاں کا یہ بچہ¿ ارجمند
کہوں تُجھ سے اے ہمنشیں دِل کی بات
وہ مَد±فَن ہے خُوشحال خاں کو پسَن±د
اُڑَا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ
مُغَل شِہہ سواروں کی گردِ سمَن±د
جِن اَقوام کو آزادی یا جذبہ¿ آزادی نصیب ہو وہی اَقوام تقدیرِ جہان کی راقِم اور تسخیرِ جہان پہ قادِر ہوتی ہیں کیونکہ آزادی صِرف خِطّہ¿ زمین یا اِلحادی اَفکار کے دَشت و صِحرامیں آوارہ گھومنے کا نام نہیں بلکہ آزادی عبارَت ہے رُہبانیَّت کی زنجیریں کٹنے اور مادیَّت کے سلاسل ٹوٹنے سے ۔ آزادی نام ہے ضمیر کی آواز پہ لبّیک کہنے کا کیونکہ بے ضمیر کی اَپنی آواز نہیں ہوتی اگر ہو بھی تو طاقَتوَر کے سامنے دَب جاتی ہے :
آرزُو اوَّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مَر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
ضمیر ہی وُہ جوہَر ہے جو حُریَّت اور ایسے دیگر جذبوں کی پَروَرِش کرتا ہے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ہر قو±م کی تقدیر اُس کے ضمیر کی جُرا¿ت سے جُڑی ہے جِس قوم کا ضمیر جتنا سستا ہوگا اُس کا خُون بھی اُسی قدر سستا ہوگا اور جِس قوم کا ضمیر جتنا مہنگا ہوگا اُس کا خُون بھی اُسی طرح مہنگا ہوگا ۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ آپ اِس کا عملہ مظاہرہ اپنے گرد و پیش کے حالات سے لگا سکتے ہیں ۔ اقبال نے آزادی کے دو پہلو¿ں کو برابر میں لازم رکھ کر تیسرے پہلو کے امکانات کی بات کی ۔ جسے ایک فارمولے کے تحت یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ
فکری آزادی + معاشی آزادی = سیاسی آزادی
کہ جب تک ، فکر ، استعماری غُلامی سے آزاد نہیں اور جب تک معیشت استعماری غُلامی سے آزاد نہیں تب تک سیاسی غُلامی سے بھی نجات ممکن نہیں ۔ آج کے پاکستان کو اگر اقبال کا پاکستان بنانا ہے یعنی سیاسی غلامی سے آزاد پاکستان تو لازم ہے کہ ہمارے اکابرینِ فکر آزاد ماحول میں اپنی قوم کے مخصوص اجزائے ترکیبی کو نظر میں رکھ کر سوچیں اور ہماری معیشت غیروں کی امداد کی دستِ نِگر ہونے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑی ہو ۔ جب ہماری سوچ مغرب زدگی سے آزاد اور جب ہماری معیشت امداد کی منتظر نہ ہو گی تبھی ممکن ہوگا کہ پاکستان کے فیصلے کہیں اور ہونے کی بجائے اسلام آباد میں ہوں تو ، وہ ہوگا اقبال کا پاکستان کہ جب یہ قوم اپنے فیصلے دُنیا کے ہر دباو¿ سے بے نیاز ہو کر اور پوری خود مختاری سے کرے گی ۔
کانفرنس کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ انتھک محنت ، مسلسل کوشش اور یقینِ کامل کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اُس پیشین گوئی کے پورا ہونے کے قریب ہورہے ہیں جس میں اقبال کہتا ہے کہ :
خضرِ وقت از خَلوتِ دشتِ حجاز آید بروں
کارواں زیں وادی¿ دور و دراز آید بروں
کہ زمانے کا خضر دشتِ حجاز کی خلوت سے ظہور فرمانے والا ہے ۔ اُس کا کاروان اُس دور دراز وادی سے برآمد ہونے کو ہے ۔
من بہ سیمائے غُلاماں فرِّ سُلطاں دیدہ اَم
شُعلہ¿ محمود از خاکِ ایاز آید بروں
میں نے غُلاموں کی پیشانی میں بادشاہوں کی شوکت دیکھی ہے کہ اب محمود یعنی آزادی کا شُعلہ ایاز یعنی غُلاموں کی خاک سے پھوٹ رہا ہے ۔  حضرت علامہ اقبال کے اِن اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا :
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصہ¿ محشر میں ہےپ
یش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شُجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔