جمعرات، 7 مئی، 2015

حجاز کی اندھی - آخری حصہ

0 comments
’’تم چپ رہو ماں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ اپنے جرنیلوں اور اپنی فوج کی بزدلی دیکھ کر مجھے یہ جھک بھی مارنی پڑی کہ میں نے اپنی آدھی سلطنت عربوں کو پیش کی اور ساتھ ہی یہ درخواست کی کہ وہ دجلہ کے اس کنارے تک رہیں آگے نہ بڑھیں ۔تم سب جانتے ہو کہ ان عربوں نے جنہیں ہم حقیر سمجھتے تھے ہماری اتنی بڑی پیش کش کو رعونت سے ٹھکرا دیا……ہم مدائن کونہیں بچاسکتے۔اب ہم صرفد اپنی جانیں بچا سکتے ہیں،اور ہم اپنی عزتیں بچا سکتے ہیں……میرا فیصلہ یہ ہے کہ شاہی محل کے تمام افراد یہاں سے فوراً نکلیں اور حلوان پہنچ جائیں۔‘‘

’’ہم اپنی فوج کے ساتھ یہیں رہیں گے۔ ‘‘مہران نے کہا۔

’’یہاں کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ مدائن خالی کر دیا جائے۔ بُہر شیر والے کنارے پر کوئی یک ٹوٹی پھوٹی کشتی بھی نہ رہنے دی جائے۔ پُل کو آگ لگا دی جائے۔ کوئی ایک بھی کنیز ہمارے ساتھ نہیں جائے گی۔ تمام تر شاہانہ جاہ و جلال اور عیش و عشرت مدائن میں ہی رہے گی۔ فوج مدائن میں نہیں رہے گی۔‘‘

’’نہیں شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ فوج کو مدائن میں رہنا چاہیے ۔مسلمان دجلہ سے آگے نہیں آسکتے۔‘‘

’’مسلمان دجلہ سے آگے آسکتے ہیں۔ ‘‘یزدگرد نے پُر زور لہجے میں کہا۔’’ اور وہ آئیں گے، میری کوئی حس بتا رہی ہے کہ عرب کے یہ مسلمان جو یہاں تک پہنچ گئے ہیں دجلہ پار کرلیں گے۔ اگر ان میں اتنی ہمت نہ ہوتی تو میری آدھی سلطنت کی پیش کش کو فوراً قبول کر لیتے۔‘‘

٭

کسی بھی مبصر یا مؤرخ نے نہیں لکھا ہے کہ مدائن کیوں خالی کر دیا گیا تھا۔ اس سے آگے جو واقعات اور معرکے سامنے آئے ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یزدگرد آگے جا کر پوری تیاری کے بعد مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہتا تھا۔ بحیثیت مسلمان ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ نے جو کرنا تھا ا س کیلئے حالات خود ہی پیدا ہوتے چلے جا رہے تھے ۔یہاں ہم پھر یاد دلاتے ہیں کہ مدائن کا یہ محل وہ محل تھا جس میں خسرو پرویز نے رسولِ کریمﷺ کا پیغام ِ حق اور اسلام قبول کرنے کا دعوت نامہ بڑی رعونت سے پھاڑ کر پرزے پرزے کیا، انہیں ہتھیلی پررکھ کر زورسے پھونک ماری اور پرزے اڑا دیئے۔ رسولِ کریمﷺ کو اطلاع ملی تو آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ سلطنتِ فارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔

اﷲ نے اپنے رسول ﷺکا یہ فرمان پورا کرنا تھا، اور رسول اﷲ ﷺ کے دو صحابہ سعد ؓبن ابی وقاص اور سلمان فارسی ؓکا یقینِ محکم سے کہنا کہ اﷲ ہمیں فتح و نصرت سے نوازے گا ،رائیگاں جانے والا نہیں تھا۔

یزدگرد کا مدائن کو خالی کر جانا اور اپنی تمام تر دولت وہیں چھوڑ جانا ایک ثبوت ہے کہ اس کی ہمت تو جواب دے ہی گئی تھی اس کی عقل پر بھی پردہ پڑ گیا تھا۔

شاہی خاندان کا وہاں سے نکلنااور وہ بھی ضرورت کی چند ایک اشیاء ساتھ لے کر نکلنا اس خاندان کیلئے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔پوران پر ایسی خاموشی طاری تھی جیسے اس کی زبان بولنے سے معذور ہو گئی ہو اور دماغ سوچنے کے قابل نہ رہا ہو ۔نورین کا چہرہ بے تاثر تھا ۔اس کے سامنے ایک تو سلطنتِ فارس تھی جس کی وہ ملکہ تھی اور دوسرا اس کا اکلوتا بیٹا تھا جسے وہ سلطنتِ فارس کی قیمت دے کر بھی زندہ و سلامت دیکھنا چاہتی تھی۔

پھر بہت سی نوجوان اور ایک سے بڑھ کر ایک کنیزیں تھیں انہیں پیچھے چھوڑا جا رہا تھا ۔جب شاہی خاندان کے تمام افراد محل سے نکلے تو یہ کنیزیں راستے میں کھڑی آنسو بہا رہی تھیں۔

شاہی خاندان کا ہر ایک فرد مدائن سے نکل گیا ۔صرف یزدگرد پیچھے رہ گیا اور اس کے ساتھ اس کی ماں رہ گئی۔ یزدگرد نے جب مسلمانوں کو دجلہ پار کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ مدائن سے نکل گیا۔

اس کے بعد جس طرح مسلمانوں نے دجلہ پار کیا وہ بیان ہو چکاہے۔

٭

سعدؓ بن ابی وقاص اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدائن کے محل کی طرف چلے تو اس وقت)مؤرخوں کے مطابق(ان کے چہرے پرایساتاثر تھا جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ اس قدر خوبصورت اور اتنا قیمتی شہر مسلمانوں کے قدموں میں پڑاہے۔ عرب کے صحرا میں پَل کر جوان ہونے والے ان مجاہدین نے کبھی خواب میں بھی ایساجنت نظیر شہر نہیں دیکھا تھا ۔عمارتیں ایسی جیسے دنیا بھر کی دولت ان کی تعمیر پر صرف کر دی گئی ہو۔ باغ ایسے جو بہشت کا منظر پیش کر رہے تھے۔

سعدؓ اپنے اتھیوں کے ساتھ محل کے علاقے میں داخل ہوئے۔ محل کے اردگرد دو ر دور تک رنگا رنگ پھولوں اور سر سبز درختوں اور عجیب و غریب پودوں کے باغ تھے۔ پھولوں کی ایک مہک خمار سا طاری کر رہی تھی۔ بعض درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ یہ باغ آتش پرستوں کے ذوق کی نزاکت کا پتہ دیتے تھے۔

اور جب سعد ؓبن ابی وقاص اپنے ساتھیوں کے ساتھ محل میں داخل ہوئے تو ان کے قدم رک گئے۔ دیواروں پر ایسے نقش و نگار بنائے گئے تھے کہ یہ مصنوعی نہیں بلکہ قدرتی معلوم ہوتے تھے۔ محل کے ہر کمرے میں جو فرنیچر آرائش و زیبائش کا جو سامان تھا اس کے دیزائن اور اِس کی خوبصورتی حیرتناک تھی، اور دیکھنے والوں پر طلسماتی سا تاثر پیدا کرتی تھی ۔دروازوں اور کھڑکیوں پر فارس کے ریشم کے پردے لٹک رہے تھے ۔سونے کے کمرے کچھ اس طرح سجائے گئے تھے کہ ایسے کمرے میں داخل ہوتے ہی غنودگی طاری ہونے لگتی تھی۔

سعدؓ بن ابی وقاص جب محل کے ایوان میں پہنچے جہاں شہنشاہ کا دربار سجا کرتا تھا تو رُک گئے۔ ان پر ایسی خاموشی طاری تھی جیسے بہت ہی مرعوب ہو گئے ہوں اور جیسے انہیں یقین ہی نہ آتا ہو کہ عرب کے بوریا نشینوں کی قسمت میں یہ شاہی محل اور بے بہادولت بھی لکھی ہو۔

’’وضو کرو۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔’’سب سے پہلے اﷲ کے حضور شکرانے کے نفل پڑھو۔‘‘

کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ شکرانے کے نفل با جماعت پڑھے گئے یا ہر ایک نے الگ الگ پڑھے۔ بہر حال تمام مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ سعدؓ نے شکرانے کے آٹھ نفل پڑھے۔ اﷲ کے حضور رکوع و سجود کے دوران سعدؓ بن ابی وقاص کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔

اس کے بعد سعدؓ بن ابی وقاص نے جو پہلا حکم دیا وہ یہ تھا کہ وہ تمام عرب خواہ وہ مسلمان ہیں یا عیسائی ‘جن کے بیوی بچے ساتھ ہیں ،انہیں مدائن لے آئیں اور اپنی اپنی پسند کے مکان میں آباد ہو جائیں۔

جس شہر سے بادشاہ اپنے پورے خاندان اور پوری فوج کے ساتھ بھاگ جائے اس شہر میں رعایا کے لوگ کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔شہر کے لوگوں پر مسلمانوں کی دہشت تو ویسے ہی طاری ہو چکی تھی اور جب مسلمان دریا گھوڑوں کی پیٹھوں پر پار کر رہے تھے تو شہر کے لوگ شہرِ پناہ پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے جرنیل خرزاد نے مسلمانوں کو روکنے کیلئے اپنے گھوڑ سوار دریا میں اتار دیئے تھے اور ان سواروں کو مسلمان سواروں نے تیروں سے گھائل کر کے دریا برد کر دیا تھا۔ پھر ان لوگوں نے مسلمانوں کو مدائن والے کنارے تک پہنچتے دیکھا اوراپنی فوج کایہ واویلا بھی سنا ۔دیواں آمدند دیواں آمدند، اور پھر انہوں نے اپنی فوج کو دہشت زدگی کے عالم میں بھاگتے دیکھا تھا ۔شہر کے اندر جنگل کی آگ کی طرح گھر گھر تک یہ آواز پہنچ رہی تھی کہ یہ عربی انسان نہیں جنات ہیں۔

لوگ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اور اپنا مال و اسباب پیچھے پھینک کر شہر سے نکل گئے تھے۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے لشکر کے ہر اُس مجاہد کو ایک ایک مکان دے دیا جن کے بیوی بچے ان کے ساتھ تھے، زیادہ تر کنبے حیرہ میں تھے ۔کچھ لشکر کے ساتھ پیچھے کسی مقام پر تھے اور بعض اُن شہروں اور قصبوں میں تھے جن پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔

سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنے لشکر کے کچھ حصے کو فارس کی فوج کے بھاگتے ہوئے دستوں کے تعاقب میں بھیج دیا ۔نہیں غالباً توقع تھی کہ وہ یزدگرد کو پکڑ لیں گے۔ جاسوسوں نے سعدؓ کو بتایا کہ یزدگرد بہت پہلے چلا گیا تھا اور وہ اب حلوان میں ہے۔

جو مجاہدین تعاقب میں گئے تھے ان کے گھوڑے دجلہ جیسا سیلابی دریا تَیر کر پار کرکے بری طرح تھکے ہوئے تھے۔ جسم پر یخ پانی کے اثرات بھی تھے۔ پھر بھی مجاہدین انہیں فارسیوں کے تعاقب میں دوڑاتے گئے۔ مدائن کے فوجی بِکھر کر بھاگے جا رہے تھے ۔ان میں شہر کے لوگ بھی تھے۔ کچھ لوگ بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں پر جا رہے تھے۔

کوئی فوجی ہوتا یا شہری، وہ مجاہدین کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر چھپنے یا بھاگنے کی کوشش کر تا تھا لیکن مجاہدین کی اس دھمکی پرکہ چھپنے والے کو قتل کر دیا جائے گا، ہر کوئی رُک جاتا تھا۔ مجاہدین ہر کسی کی خصوصاً بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں میں جانے والوں کی تلاشی لیتے اور قیمتی اشیاء ،سونا، چاندی، ہیرے جواہرات اور نقد رقمیں لے لیتے تھے۔

٭

مسلمانوں کی اس معجزہ نما فتح اور فارسیوں کی شرمناک پسپائی کی تاریخ میں مؤرخوں نے مالِ غنیمت کا تفصیلی اور خصوصی ذکر کیا ہے ۔جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس قدر بیش قیمت مالِ غنیمت عرب کے مسلمانوں کے تصور میں کبھی نہیں آیا تھا ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مالِ غنیمت کے معاملے میں مجاہدین نے جس دیانتداری کے مظاہرے کیے ان پر آج کے تاریخ نویس بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

؂ہم سب سے پہلے اس مالِ غنیمت کا ذکر کریں گے جو مدائن سے بھاگتے ہوئے فوجیوں اورشہریوں سے مجاہدین نے حاصل کیا۔ مدائن دولت مند تاجروں اور جاگیرداروں کا شہر تھا۔ وہاں کے معمولی سے گھروں میں بھی سونا اور نقدی موجود تھی۔ تعاقب کے دوران ان لوگوں سے زروجواہرات بیش قیمت ہیروں اور رقموں کی صورت میں بے بہا خزانہ ملا۔

چند ایک گھوڑا گاڑیاں بڑی تیز رفتار ی سے دوڑ پڑیں۔ ایک کے تعاقب میں قعقاع بن عمرو نے گھوڑا دوڑا دیا۔ گاڑی میں صرف گاڑی بان تھا۔ جب قعقاع کا گھوڑا گاڑی کے ایک طرف گاڑی بان کے قریب پہنچا تو گاڑی بان نے تلوار نکال لی اور قعقاع پر وار کیا۔ قعقاع نے وار بچا لیا اور تلوار نکالی۔

گاڑی کے آگے دو گھوڑے تھے جو پوری رفتار سے دوڑ رہے تھے۔ قعقاع نے آگے بڑھ کر ایک گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اس گھوڑے کو روکنے سے دوسرا گھوڑا بھی رُک گیا۔ گاڑی بان کود کر اترا اور قعقاع پر حملہ کیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ مقابلہ کس کے ساتھ ہے۔ قعقاع گھوڑے پر تھے۔ انہوں نے گھوڑا گاڑی بان پر چڑھا دیا لیکن یہ شخص اصل میں گاڑی بان نہیں بلکہ تجربہ کار شمشیرزن تھا ۔وہ گھوڑے سے بچ کر نکل آیا۔ قعقاع نے اسے مار تو لیا لیکن کئی پینترے بدلنے کے بعد۔

گاڑی والے کو قتل کرکے قعقاع نے گاڑی کے اندر دیکھا ۔لمبے لمبے تھیلوں میں کچھ چیزیں بند تھیں ۔تھیلے کھولے تو ان میں بڑی ہی قیمتی تلواریں اور زرہیں برآمد ہوئیں۔ یہ بادشاہوں کی معلوم ہوتی تھیں۔ نیاموں پر بھی ہیرے اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ تلواروں کے دستوں کی قیمت کئی کئی ہزار دینار تھی۔

بعد میں شاہی محل میں کام کرنے والے لوگوں نے بتایا کہ ایک زرہ خسرو پرویز اور دوسری روم کے بادشاہ ہرقل کی ہے۔ ہرقل نے آتش پرستوں سے شکست کھائی تھی ۔تلواروں میں کچھ تو فارس کے بادشاہوں کی تھیں اور کچھ دوسرے ملکوں کے ان بادشاہوں کی تھیں جن کی آتش پرستوں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں اور انہوں نے آتش پرستوں سے شکست کھائی تھی۔

گھوڑا گاڑیوں میں زِرہوں اور تلواروں کے علاوہ ڈھالیں بھی تھیں۔ بعض ڈھالوں کے کچھ حصے خالص سونے کے تھے ۔چونکہ یہ بادشاہوں کی تھیں اس لیے ان میں ہیرے جواہرات بڑی ہی کاریگری اور نفاست سے جڑے ہوئے تھے۔

یہ تو ایک خزانہ تھا جو اس گھوڑا گاڑی میں جا رہا تھا۔ قعقاع نے دو گھوڑ سوار مجاہدین کو بلا کر کہا کہ اس گاڑی کے گھوڑوں کی باگیں پکڑیں اور مدائن کے محل میں سپہ سالار سعدؓبن ابی وقاص کے حوالے کر دیں۔

تاریخ میں ایک اور مجاہد کا ذکر آتا ہے جس کا نام عصمت بن خالدضبّی تھا۔ اس نے ایک گھوڑا گاڑی کو پکڑا۔اس میں شاہی محافظ دستے کے تین محافظ سوار تھے ۔انہوں نے بغیر مزاحمت کے گاڑی میں رکھا ہوا سامان عصمت بن خالد ضبّی کے حوالے کر دیا۔ یہ دو بہت برے بڑے بکس نم پٹا رے تھے۔ انہیں ان محافظوں سے ہی کھلوایا گیا ۔ان میں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں انہیں دیکھ کر عرب کے یہ مسلمان ایسے حیرت ذدہ ہوئے کہ آنکھیں جھپکنا بھول گئے اور ان کے منہ کھلے رہ گئے۔

ایک پٹارے سے ایک گھوڑا نکلا جو سونے سے بنا ہوا تھا ۔اس پر چاندی کی بنی ہوئی زین تھی اور ساز اور رکابیں بھی چاندی کی تھیں۔ اس پر جو سوار بیٹھا ہوا تھا وہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا جو ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تھا بلکہ تاج تھا ہی ہیرے جواہرات اور بہت ہی قیمتی پتھروں کا جو روشنی میں چمکتے تھے تو ان میں سے رنگا رنگ شعاعیں نکلتی تھیں ۔اس گھوڑے کا سائز گھوڑے کے قدرتی قد کاٹھ سے آدھا تھا۔ اگر آج کے حساب سے اس گھوڑے اور سوار کی قیمت لگائی جائے تو کم از کم ایک ارب روپیہ بنتی ہے۔

دوسرے پٹارے میں سے ایک اونٹنی نکلی۔ یہ چاندی کی بنی ہوئی تھی۔ اس کی مہار اور تنگ وغیرہ سونے کے تھے ۔ان میں یا قوت پروئے ہوئے تھے۔ اس پرایک سوار بیٹھا ہوا تھا جو سونے کا تھا اور سر سے پاؤں تک جواہرات سے مرصّع تھا۔

یہ گھوڑا اور اونٹنی بھی سعدؓ ابن ابی وقاص کو بھیج دی گئیں۔

کسی بھی تاریخ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ شاہی خاندان پہلے ہی مدائن سے نکل گیا تھا تو یہ اتنی قیمتی اور نادر اشیاء شاہی خاندان کے ساتھ کیوں نہ گئیں۔ اب یہ جو آدمی لے جا رہے تھے انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ چیزیں اسی طرح بند دی گئی تھیں اور ایک جرنیل نے حکم دیا تھا کہ انہیں حلوان پہنچانا اور شاہی خاندان کے حوالے کر دینا ہے۔ اس حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ چیزیں راستے میں ہی ضائع ہو گئیں تو ان کے محافظوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی محافظ دستے کے ان آدمیوں نے عصمت بن خالد صبّی سے کہا تھا کہ انہیں جنگی قیدی بنا لیا جائے۔

ان اشیاء کے علاوہ بھی بہت سی قیمتی اشیاء تھیں جو بھاگنے والوں سے ملیں۔

٭

مدائن کے تمام مکان خالی تھے۔ کئی مکانوں سے سونے اور چاندی کے برتن ملے۔

ایسے ریشمی ملبوسات تو بیشمار ملے جن پر سونے کے تاروں سے کڑھائی کی ہوئی تھی۔ دوپٹوں چادروں اور سرپر لینے والے بڑے سائز کے رومالوں کے کنارے تاروں کے بنے ہوئے تھے ۔اس کے علاوہ دیگر قیمتی سامان کے انبار ملے۔

سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنی رہائش محل میں ہی رکھی۔ ان کی بیوی سلمیٰ ان کے پاس آگئی۔ سعدؓ نے حکم دیا کہ محل کا تمام قیمتی سامان اورنادر اشیاء ایک جگہ اکٹھی کی جائیں۔

مؤرخ علامہ طبری نے جو اپنے وقت کے بہت بڑے محدّث بھی تھے، مالِ غنیمت کی تفصیلات لکھی ہیں ۔اُس وقت سے صدیوں پہلے یہ علاقہ فرعونوں کے زیرِ نگیں بھی آیا تھا۔ مدائن کے محل میں فرعونوں کے وقت کے نوادرات بھی موجود تھے۔ کیانی خاندان کی بادشاہی سے لے کر خسرو پرویزتک کے زمانے کے تاج ،تلواریں، ملبوسات ،فرغل اور عجیب و غریب بے حد قیمتی اشیاء برآمد ہوئیں۔

شاہی محل کے دو اعلیٰ رتبے کے کارندوں کو پکڑا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ کون سی چیز کیا ہے اور کس کی ہے ۔ان میں دسرے ملکوں کے بادشاہوں کے تحفے بھی تھے۔ مثلاً خاقانِ چین، ہند کے راجہ داہر ، قیصرِ روم، نعمان بن منظر سیاغش اور بہرام چوبین کے تحفے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں زرہیں اور ڈھالیں بھی تھیں ۔ان اشیاء میں سونا زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ راجہ داہر کے باپ دادا کی آتش پرستوں کے بادشاہوں کے ساتھ گہری دوستی تھی ۔انہیں ہاتھی داہر کے باپ داد ا نے دیئے تھے اور اپنے مہاوت اور ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والے اپنے آدمی ساتھ بھیجے تھے۔ مسلمانوں نے ان تمام ہاتھیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ مدائن کے محل کی کوئی معمولی سی چیز دیکھتے تھے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ مقدا رمیں سونا یا چاندی ضرور ملی ہوئی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے سلطنتِ فارس میں سونے کی کان تھی۔ لیکن وہاں سونے کی کوئی کان نہیں تھی۔ یہ اس سلطنت کے بادشاہوں کا خزانہ تھا۔ اس خزانے میں رعایا کا خون پسینہ بھی شامل تھا جو محصولات کے ذریعے ان کی ہڈیوں سے نچوڑا جاتا تھا اور ا س میں کمزور ملکوں پر فوج کشی کر کے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ رومیوں کے ساتھ جنگوں میں فارس کے بادشاہوں نے بے بہا خزانہ اکٹھا کیا تھا ۔اس خزانے نے ان بادشاہوں کو فرعون بنایا تھا اور اب وہ فرعونوں کے انجام کو پہنچ گئے تھے اور اب ان کی یہ دولت اور منوں سونا اور اربوں درہم و دینار مالیت کے ہیرے جواہرات اور نادر پتھر اس قوم کے ہاتھ آگئے تھے جس کا دنیاکے خزانوں کے متعلق نظریہ یہ تھا کہ یہ سب اﷲ کا مال ہے اور اس پر اﷲ کے ہر کلمہ گو بندے کا مساوی حق ہے۔ جتنا حصہ خلیفہ کا ہے اتنا ہی ایک عام آدمی کا ہے۔ اسلام کے اس نظریہ کی ایک نمایاں مثال ایک قالین کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ قالین محل سے ملا۔ اس کا نام ’’بہار ‘‘تھا۔ یہ ساٹھ مربع گز تھا۔ اسے بہار کا نام اس لیے دیا گیا تھاکہ اسے خزاں کے موسم میں استعمال کیا جاتا تھا ۔استعمال یہ تھا کہ بادشاہ اس پر بیٹھ کر شراب پیا کرتے تھے ۔چنی ہوئی حسین اور نوجوان کنیزیں شراب پلاتی تھیں۔ اس قالین کی بناوٹ میں بہار کے تمام مناظر بنائے گئے تھے ۔درمیان میں سبزے کا چمن تھا۔ چاروں طرف جدولیں تھیں ۔ہر قسم کے درخت اور درختوں میں کونپلیں، شگوفے اور پھل تھے،اور یہ سب کچھ زروجواہرات کا تھا۔ زمین سو نے کے تاروں سے بُنی گئی تھی۔ سبزہ زمرد کا، جدولیں پکھراج کی ،درخت سونے چاندی کے، پتے ہریر کے اور پھل پھول جواہرات کے تھے ۔

محمد حسنین ہیکل نے اس قالین کی ساخت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔’’یہ فرش)قالین(ساٹھ مربع گز تھا اور شاہانِ آلِ ساسان اسے موسمِ بہار گزر جانے کے بعد شدتِ سرما میں استعمال کیا کرتے تھے ۔اس پر سلطنت کا نقشہ بناہوا تھا۔ اس کی زمین سونے کی تھی جس پر موتیوں کی نہریں بنی ہوئی تھیں ۔کناروں پر چمن تھے اور جن میں سبز رنگ کے درخت بنائے گئے تھے ۔ان درختوں کے تنے سونے کے، پتے ریشم کے اور پھل جواہرات کے تھے۔

٭

اسلام کے نظریئے کو ہم اس قالین کی مثال سے پیش کر رہے تھے ۔اس لیے س قالین کی کہانی پہلے ہی سنا دینا بہتر ہے ۔اتنا زیادہ اور اس قدر قیمتی مالِ غنیمت ایک جگہ اکٹھا کیا گیا تو سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا کہ خمس یعنی خلیفۃ المسلمین کو بھیجنے والا حصہ پہلے ہی الگ کر لیا جائے۔

’’میرے رفیقو! ‘‘سعد ؓنے سالاروں اور قبیلوں کے سالاروں سے کہا ۔’’کیوں نہ ہم مدینہ والوں کیلئے ایسی چیزیں بھیجیں کہ وہ حیرت ذدہ ہو جائیں ۔‘‘

’’بیشک ،بیشک!‘‘سعدؓ کی تائید میں آواز اٹھی۔ ’’سب سے زیادہ قیمتی اور حیرت ناک اشیاء امیر المومنین کو بھیجی جائیں۔‘‘

’’اور یہ قالین!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ یہ میرے لیے ایک مسئلہ ہے ۔اس پر ہر ایک کا حق ہے ۔لیکن ہر ایک کو اس کا حق کس طرح دیا جائے؟ کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس میں سے ہیرے جواہرات اور پتھر وغیرہ نکال کر تقسیم کر دیئے جائیں ؟کیایہ بہتر نہیں ہو گا کہ اتنی خوبصورت چیز کو ضائع کرنے کے بجائے اسے خمس کا حصہ قرار دے کر مدینہ بھیج دیا جائے؟‘‘

’’ہاں سپہ سالار!‘‘ہاشم بن عتبہ نے کہا ۔’’اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا، قالین ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور مدینہ والوں کیلئے یہ ایک نادر تحفہ ہو گا۔‘‘

اتفاقِ رائے سے فیصلہ ہوا کہ یہ قالین خمس میں شامل کر کے مدینہ بھیج دیا جائے گا۔

مالِ غنیمت مدینہ پہنچا اور امیر المومنین ؓنے تقسیم کیا۔لیکن یہ قالین وہاں بھی ایک مسئلہ بن گیا۔یہ فیصلہ کرنا نا ممکن تھا کہ اسے کس طرح تقسیم کیا جائے۔

’’مجھے رائے دو!‘‘حضرت عمر ؓنے کہا۔’’ میں اس قالین کو کس طرح تقسیم کروں۔‘‘

’’فاتح سپہ سالار نے یہ آپ کو دیا ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔’’ مجاہدین کی طرف سے یہ آپ کیلئے تحفہ آیا ہے۔‘‘

’’ہاں امیر المومنین!‘‘کسی اور نے کہا۔’’ یہ صرف آپ کیلئے ہے ۔اس میں کسی اور کا حصہ نہیں۔‘‘

اس رائے کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں۔

’’نہیں!‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ خدا کی قسم‘ میں وہ چیز ہر گز نہ لوں گا جس کے حصے دار اور بھی ہوں اور میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ اس قالین کو کس طرح تقسیم کروں؟ کیا تو کوئی رائے نہیں دے گا علی؟‘‘

’’ابن الخطاب! ‘‘حضرت علیؓ نے کہا۔’’ اﷲ نے تجھے علم دیا ہے ،یہ علم ہے جہل نہیں۔ اﷲ نے تجھے یقین کی طاقت دی ہے ،یہ یقین ہے شک نہیں۔ اور اپنے علم سے سوچ اور اپنے علم پر شک نہ کر۔ دنیا میں وہی چیز تیری ہے جو تو اپنی مرضی سے کسی کو دے دے ،یا پہن کر پرانا کر دے، یا کھا کر ختم کر دے۔ یہ قالین وہ چیز ہے جو تو کسی کو نہیں دے سکتا۔ جو پہن کر پھاڑ نہیں سکتا اور جو کھا کر ختم نہیں کر سکتا۔ ایک روز تو دنیا میں نہیں رہے گا۔ یہ قالین رہ جائے گا اور یہ اس کی ملکیت میں جا سکتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ہو گا۔ چیز اتنی قیمتی ہے کہ اس کی ملکیت کے کئی دعوے دار ہوں گے اور پھر یہ قالین فتنہ و فساد کا باعث بن جائے گا۔ آج تو دیانت اور ایمان والا ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ تیرے بعد آنے والے بھی تجھ جیسے دیانت دار ہوں گے یا نہیں۔ زرو جواہرات بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتے ہیں ۔اس قالین کو تقسیم کر دے، اے خطاب کے بیٹے!‘‘

’’خدا کی قسم‘بنِ ابی طالب!‘‘حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے کہا۔’’تو نے سچ کہا ہے۔ یہ قالین تقسیم ہو گا۔‘‘

حضرت عمرؓ کے حکم سے اسی وقت قالین سے سونے اور چاندی کے تار، ہیرے، قیمتی پتھر اور موتی نوچ لیے گئے۔ پیچھے تھوڑا سا جو کپڑا رہ گیاتھا اس کے بھی کئی ٹکڑے کئے گئے۔ پھر یہ تمام اشیاء تقسیم کر دی گئیں۔

یورپی مؤرخوں نے حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کا مذاق اڑا یا اور لکھا ہے کہ عرب اتنی خوبصورت اور نادر چیز کی قدر نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عرب کے مسلمانوں کا ذوق بہت ہی پست تھا۔ یورپ کے یہ مؤرخ سمجھ نہیں سکے اور وہ سمجھنا چاہتے بھی نہیں تھے کہ مسلمان دنیاوی لالچ سے آشنا نہیں تھے ۔وہ اﷲ کی خوشنودی اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ ا

٭

اب ہم مدائن چلتے ہیں جہاں مجاہدین مالِ غنیمت لالا کر سعد ؓبن ابی وقاص کے آگے ڈھیر کرتے جا رہے ہیں۔

بات ہو رہی تھی کہ مدائن کی فتح کے حالات بیان کرتے ہوئے مؤرخین نے مالِ غنیمت کے معاملے میں مجاہدین کی دیانتداری کا خصوصی تذکرہ کیا ہے ۔امیر المومنین ؓکا کردار بیان ہو چکا ہے۔ اتنا زیادہ قیمتی قالین جس میں آج کے حساب سے اربوں روپے کے ہیرے جواہرات اور سونے کے تار لگے ہوئے تھے، انہیں پیش کیا گیا ۔ان کے ساتھیوں مشیروں اور صحابہ کرام ؓنے بھی کہا کہ امیر المومنین ؓیہ تحفہ صرف آپ کیلئے ہے ۔اس میں کسی اور کا حصہ نہیں ،لیکن حضرت عمر ؓنے انکار کر دیا۔

ادھر محاذ پر قعقاع بن عمرو اور عصمت بن خالد ضبّی کے ہاتھ جو خزانہ لگا تھا ،اس میں سے وہ کچھ نہ کچھ رکھ سکتے تھے۔ شہر سے دور ویرانے میں دیکھنے و الا کون تھا۔ لیکن انہیں جو ملا وہ انہوں نے سپہ سالار کے آگے لا کر رکھ دیا ۔ قعقاع نے مختلف بادشاہوں کی تلواریں زرہیں اور ڈھالیں پیش کی تھیں۔

’’ابنِ عمرو!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے قعقاع سے کہا۔’’ ان چیزوں میں سے تمہیں جو پسند ہیں تم وہ لے لو۔‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ قعقاع نے بجائے اس کے کہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز لیتے جس میں سونے اور ہیروں کی بہتات ہوتی ، انہیں روم کے بادشاہ ہرقل کی تلوار اچھی لگی، اور انہوں نے وہ لے لی۔

مشہور مؤرخوں طبری، ابنِ اثیر، ابنِ خلدون اور ابنِ کثیر نے ایک نہایت معمولی سے مجاہد کا واقعہ لکھاہے ۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کا نام نہیں لکھا۔ یہ گمنا م مجاہد ایک ڈبہ لایا جو جواہرات سے بھرا ہو اتھا۔ ڈبے میں بڑے قیمتی ہیرے بھی تھے۔ اس وقت تک ایک خزانچی مقرر کر دیا گیاتھا جو مالِ غنیمت وصول کرتا تھا۔ اس کی مدد کیلئے چار پانچ مجاہدین اس کے ساتھ رہتے تھے۔

گمنام مجاہد نے یہ ڈبہ خزانچی کو دیا۔ خزانچی نے ڈبہ کھولا تو اس نے یوں بدک کر سر پیچھے کر لیا جیسے ڈبے میں سانپ ہو۔ اس کے ساتھیوں کا ردِ عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

’’کیا تجھے معلوم ہے اس ڈبے میں کتنی مالیت کا خزانہ ہے؟‘‘ خزانچی نے گمنام مجاہد سے پوچھا۔

’’میں صحیح مالیت نہیں بتا سکتا۔ ‘‘مجاہد نے کہا۔’’ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے۔‘‘

’’میں تجھے بتاتا ہوں ۔‘‘خزانچی نے کہا۔’’ اس وقت تک ہمارے پاس جتنے بھی ہیرے جواہرات آئے ہیں ،ان میں ایک بھی اس قابل نہیں جو تو لایا ہے۔‘‘

’’اس میں سے تو نے کچھ لیا تو نہیں؟‘‘ خزانچی کے ایک معاون نے پوچھا۔

’’اﷲ گواہ ہے۔‘‘ مجاہد نے انگلی آسمان کی طرف کر کے کہا۔’’ اگر ایک بات نہ ہوتی تو میں ڈبہ یہاں لاتا ہی نہ……میں نے اس میں سے کچھ نہیں لیا۔‘‘

’’وہ بات کیاہے؟‘‘ مجاہد سے پوچھا گیا۔

’’یہ نہیں بتاؤں گا۔‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔ ’’یہ بات تم سب تک پہنچ گئی تو تم سب میری تعریف کرو گے لیکن تعریف صرف اﷲ کیلئے ہے۔ میں اﷲ کی ہی تعریف کرتا ہوں اور وہ جو اجر اور صلہ مجھے دیتا ہے میں اس سے مطمئن اور خوش ہوں۔‘‘

اس مجاہد کو رخصت کرکے خزانچی یہ ڈبہ سعدؓ ب ابی وقاص کے پاس لے گیا ۔سعد ؓنے ڈبہ کھولا تو ان کے چہرے پر بھی حیرت زدگی کے آثار نظر آنے لگے ۔ڈبہ لانے والے مجاہد کے ساتھ خزانچی نے جو باتیں کی تھیں وہ بھی اس نے سعد ؓکو بتائیں ۔اس وقت تک کئی مجاہدین بڑا قیمتی مالِ غنیمت لائے تھے اور پوری دیانتداری سے اور ذمہ داری سے خزانچی کے حوالے کر دیا تھا۔

’’خدا کی قسم!پورا لشکر امین ہے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ اگر اصحابِ بدر کو ایک خاص قدرومنزلت حاصل نہ ہوتی تومیں کہتا کہ میرے لشکرکے مجاہدین اصحابِ بدر کے ہم رتبہ ہیں۔‘‘

’’خدا کی قسم! ‘‘ایک نامور صحابی اور مجاہدین کے سردار جابرؓ بن عبداﷲ نے اس موقع پرکہا۔’’ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ قادسیہ کے مجاہدین میں ہمیں ایک بھی مجاہد ایسا نہیں ملا جس نے آخرت کے بجائے دنیا طلب کی ہو۔ ہم نے تین آدمیوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ دنیا کے طلب گار ہیں ۔یہ ہیں طلیحہ، عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکثوح۔ لیکن ان کے زہد، امانت اور دیانت کی بھی مثال نہیں ملتی۔

ان تینوں کا پہلے ذکر آچکا ہے ۔یہاں چونکہ بات الزام کی ہوئی ہے ،اس لئے مزید وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ جابرؓ بن عبداﷲ کا اشارہ اس دَور کی طرف تھا جب یہ تینوں شخصیتیں مرتدین کی قیادت کر رہی تھیں۔ طلیحہ نے تو نبوت کا دعویٰ بھی کیا تھا ۔اس کی تفصیلات ہم اپنی کتاب شمشیرِ بے نیام میں پیش کر چکے ہیں۔ وہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دورِ خلافت تھا جب فتنۂ ارتداد ایک تیز و تند طوفان کی طرح اٹھا تھا اور جس طرح اس فتنے کو دبایا گیاتھا اس کی تفصیلات بھی ہم اپنی مذکورہ کتاب میں پیش کر چکے ہیں۔

جب خونریز لڑائیوں کایہ سلسلہ ختم ہوا تو ارتداد کے کچھ لیڈر مارے جا چکے تھے اور جو زندہ تھے انہوں نے ارتداد سے توبہ کر لی تھی اور دل کی گہرائیوں سے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے جہاد کے مختلف میدانوں میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ سنائے جا چکے ہیں۔ ان میں طلیحہ، عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکثوح بھی تھے۔ انہو ں نے اسلام کی آغوش میں آکر اپنے دامن سے وہ سارے داغ دھو ڈالے تھے جو انہوں نے خود ہی لگائے تھے۔ اﷲ کی راہ میں یہ جس طرح لڑے اور دنیاوی لالچ کو انہوں نے جس طرح ٹھکرایا اور جس طرح انہو ں نے میدانِ جنگ میں شجاعت کے ناقابلِ یقین مظاہرے کیے، ان سے انہوں نے اﷲ کا قرب حاصل کر لیا اور عربوں میں انہیں بڑا ہی بلند اور قابلِ احترام مقام حاصل ہوا۔

مالِ غنیمت اکٹھا کرنے کے سلسلے میں یہ تینوں پیش پیش تھے۔ انہیں جو بھی ملا وہ سعدؓ بن ابی وقاص کے سامنے رکھ دیا۔

٭

مختلف مؤرخوں میں تعداد کا تھوڑا تھوڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد حسنین ہیکل نے جن مؤرخوں کے حوالے دیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی تعداد اس وقت ساٹھ ہزار تھی۔ یہ تعداد اس وجہ سے صحیح تسلیم کی جا سکتی ہے کہ مدینہ سے وقتاً فوقتاً کمک جاتی رہتی تھی۔

یہاں تعداد کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ مالِ غنیمت تقسیم کیا گیا تھا اورہر مؤرخ نے تعداد لکھی ہے کہ یہ مالِ غنیمت کتنے ہزار مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ ہم زیادہ تر مؤرخوں کی تعداد کو ہی مستند سمجھتے ہیں جو ساٹھ ہزار ہے۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے اس لشکر میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ مالیت کے لحاظ سے ہر مجاہد کے حصے میں بارہ بارہ ہزار دینار مالیت کا مالِ غنیمت آیا۔

ابھی خاصا مالِ غنیمت بچا ہوا تھا ۔کچھ مجاہدین ایسی شجاعت اور دلیری سے لڑے تھے تھے جو غیر معمولی ہی نہیں بلکہ نا وقابلِ یقین تھی۔ انہیں انعام کے طور پر کچھ فالتو حصہ دیا گیا۔ ایہ امیر المومنین ؓکا حکم تھا کہ مالِ غنیمت بچ جائے تو وہ اُن مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے جو سب سے زیادہ شجاعت سے لڑے ہوں ۔شجاعت کے ان کارناموں میں یہ کارنامہ خاص طورپر شامل تھا کہ بعض مجاہدین نے فارسی جرنیلوں کا حفاظتی حصار توڑکر انہیں قتل کیا تھا۔ مدینہ کو بھیجنے کیلئے خمس الگ کر دیا گیا تھا ۔یہ ایک قبیلے کے سردار بشیر بن خصاصیہ لے کر مدینہ کو روانہ ہوئے ۔یہ خاصا بڑا قافلہ تھا، جس کے ساتھ باڈی گارڈز کے طور پر مجاہدین کی چھوٹی سی ایک جماعت بھی بھیجی گئی تھی۔

تاریخ کے مطابق سعد ؓبن ابی وقاص نے حضرت عمرؓ کو مدائن کی فتح اور مالِ غنیمت کی تفصیلات لکھ کر بھیج دی تھیں اور یہ خاص طور پر لکھا تھا کہ مجاہدین نے مالِ غنیمت اکٹھا کرکے خزانچی کے حوالے کرنے میں خصوصی دیانتداری کی ہے۔

مالِ غنیمت کا قافلہ مدینہ سے کچھ دور ہی تھا کہ مدینہ والوں کو اطلا ع مل گئی۔ مدینہ کی ساری آبادی امڈ کر اس راستے پر دوڑ پڑی جس راستے سے قافلہ آرہا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں مالِ غنیمت کا لالچ نہیں تھا۔ وہ فاتح مجاہدین کے استقبال کیلئے گئے تھے۔ قافلہ جب مدینہ میں داخل ہوا تو فتح و نصرت کے نعروں سے زمین و آسمان ہل رہے تھے۔ مالِ غنیمت امیر المومنین ؓتک پہنچ گیا اور کھولا گیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے حضرت عمر ؓکو تفصیل سے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت حیرت انگیز ہے ۔پھر بھی حضرت عمر ؓنے یہ مال و دولت دیکھی تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور کچھ دیر ان کا بھی منہ کھلا رہا۔ یہ حیرت زدگی کا تاثر تھا۔ وہاں جتنے لوگ بھی موجود تھے ان سب پر سناٹا طاری ہو گیا تھا۔

’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمرؓ نے یکلخت سناٹا توڑا۔’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ انتہا درجے کے امانت دار اور دیانتدار ہیں جنہوں نے یہ چیزیں نہ جانے کہاں کہاں سے لیں اور اپنے سپہ سالار کے حوالے کردیں!‘‘

’’حیران مت ہو ابنِ الخطاب!‘‘حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا۔’’ تیرا دامن پاک ہے۔ اس لئے تیری رعایا کا دامن بھی پاک ہے۔اگر تیری نیّت ٹھیک نہ ہوتی تو ہمارے لوگوں کی نیّتوں میں بھی فتور آجاتا۔‘‘

’’میں کسریٰ کی یہ پوشاکیں ، تلواریں اور یہ زرہیں سب کو دکھاؤں گا۔‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔

٭

حضرت عمرؓ کے حکم سے ایک میدان میں لکڑیاں گاڑی گئیں ۔ان پر فارس کے بادشاہوں کی پوشاکیں ،تلواریں، زرہیں اور ڈھالیں لٹکا دی گئیں۔ مدینہ کے اردگرد دیہات میں بھی منادی کرائی گئی کہ مدینہ آکر یہ چیزیں دیکھیں ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ مدینہ میں میلہ لگ گیا۔ لوگ فارس کے بادشاہوں کی پوشاکیں دیکھ دیکھ کر حیران ہو تے تھے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو یہ پوشاکیں پہنتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے ایک دلچسپ کام کیا۔ انہوں نے مدینہ کے ایک جسیم آدمی سراقہ بن حعبثم کو بلایا اور کسریٰ پرویز کا لباس اسے پہنایا۔ اس کے ہتھیار بھی اس کی کمر سے باندھے اور سر پر کسریٰ کا تاج رکھا۔

’’پیچھے ہٹو۔‘‘ حضرت عمر ؓنے سراقہ سے کہا۔

سراقہ دو چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔

’’آگے آؤ۔‘‘ حضرت عمر ؓنے کہا۔

سراقہ آگے بڑھا۔

’’اﷲ ،اﷲ!‘‘حضرت عمرؓ نے کچھ جذباتی سے لہجے میں کہا۔ ’’بنو مدلج کا ایک عربی اور اس کے جسم پر کسریٰ کا لباس……اے سراقہ!ایسے دن بھی آنے تھے کہ تیرا جسم کسریٰ کے شاہانہ لباس میں ملبوس ہو۔ یہ تیرے لیے اور تیری قوم کیلئے باعثِ شرف اور باعثِ فخر ہے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے دو تین اور جسیم آدمیوں کو مختلف بادشاہوں کے شاہانہ لباس پہنائے اور انہیں بڑی ہی غور سے دیکھا۔ لوگوں پر تو جیسے سحر طاری ہو گیاتھا۔ حضرت عمرؓ کے سامنے صرف یہ شاہانہ ملبوسات اور تاج ہی نہیں تھے بلکہ ان کے سامنے وہ تمام مالِ غنیمت تھا جو مدائن سے آیا تھا۔

’’یا اﷲ!‘‘حضرت عمرؓ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے بولے۔’’ تو نے اتنا مال و دولت اپنے رسولﷺ کو نہیں دیا حالانکہ وہ تجھے مجھ سے زیادہ عزیز تھے، اور تیرے محبوب تھے۔ تو نے اپنے محبوب کے پہلے خلیفہ ابو بکر کو بھی یہ مال و دولت نہیں دیا ۔وہ بھی تجھے مجھ سے زیادہ عزیز تھے۔ تو نے مجھے اس اتنے بڑے انعام سے کیوں نوازا ہے ؟میں اس قابل تونہ تھا……میرے اﷲ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ تیری ذاتِ باری نے مجھے اتنے سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ مجھے اتنی کٹھن آزمائش میں نہ ڈال میرے اﷲ!‘‘

طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ پہلے تو حضرت عمرؓ کی آنکھیں نمناک ہوئیں ۔پھر آنسو بہہ نکلے اور پھر وہ ایسا روئے کہ ان کی ہچکی بندھ گئی۔ لوگوں کو اُن پر رحم آگیا۔ تین چار آدمی آگے بڑھے اور انہیں اپنے اپنے الفاظ اور انداز میں سمبھالا دیا۔ کچھ دیر بعد حضرت عمر ؓاپنے آپ پر قابو پا سکے۔

غور فرمائیے، یہ وہ عمرؓ بن الخطاب تھے جن کے سامنے جلیل القدر صحابہ ؓبھی بات کرتے تو سوچ کرکرتے تھے ۔ان کی شخصیت سے ہر کوئی مرعوب تھا۔ اس رعب میں تقدس بھی تھا۔وہ حضرت عمرؓ بچوں کی طرح روئے تھے۔

’’اﷲ کی پناہ مانگو لوگو!‘‘حضرت عمرؓ نے حاضرین سے کہا۔’’ اتنی زیادہ دولت ،اتنی زیادہ نعمتیں اور اتنی زیادہ آسودگی ایک طلسم ہے۔ ایسا طلسم جس میں ابلیس کا فتنہ ہے اور یہ ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسکے جال میں آنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ دانشمند ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ان میں جو عقل و دانش تھی وہ بھی نہیں رہی اور ان کی روحانی قوتیں او ر صلاحیتیں بیکار ہو گئی ہیں……اے عرب کے لوگو!دولت اور یہ زروجواہرات انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتے ہیں۔ اپنے پاس اتنا ہی رکھو جس سے تمہاری ہر ضرورت پوری ہو جائے اور تم کسی کے محتاج نہ رہو۔ اصل دولت اﷲ کی خوشنودی ہے ……یہ بھی سوچو کہ اﷲ تعالیٰ نے آلِ ساسان کی یہ دولت تمہیں آزمائش کیلئے ہی عطا نہ کی ہو۔‘‘

’’آلِ ساسان کی دولت سے اتنا بھی مرعوب نہ ہو ابن الخطاب!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت عمرؓ سے کہا۔’’ یہ فاتح مجاہدین کا جائز حق ہے۔‘‘

’’خداکی قسم!‘‘حضرت عمر ؓنے کہا۔’’ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے یہ مال و دولت تقسیم کر دوں گا۔اسے میں اپنی نظروں کے سامنے زیادہ وقت رکھوں گا ہی نہیں۔‘‘

حضرت عمر ؓنے وہی کیاجو کہا تھا ۔کچھ اپنی مرضی سے اور کچھ مشیروں اور صحابہ کرامؓ کے مشوروں سے، سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تمام مالِ غنیمت تقسیم کر دیا۔ جن شہیدوں کے نام ان تک پہنچے تھے، ان کے پسماندگان کو کچھ حصہ فالتو دیا۔ پیچھے وہ قالین رہ گیا جسے فارسی بہار کہتے تھے ۔اس کی جس طرح سے تقسیم ہوئی وہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔

٭

سعدؓ بن ابی وقاص نے مدائن کے محل سے بادشاہوں کا تخت اٹھوا کر منبر رکھوا دیااور کسریٰ کے اس دربار کو مسجد بنا لیا۔ سعدؓ نے اس ایوانِ شاہی میں جو پہلی نماز پڑھی وہ نمازِ جمعہ تھی۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور نمازِ جمعہ کا وقت تھا۔ جب سعد ؓاس محل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہاں ہرنماز با جماعت پڑھی جاتی تھی۔

ایک روایت ہے کہ جب مجاہدین مدائن کے محل میں جا رہے تھے تو محل کے دروازے پر لکھا تھا ’’آتش کدہ نو بہار۔‘‘ اس کے نیچے فارسی زبان میں لکھا تھا ۔’’بادشاہ کے دربار میں وہ حاضری دے جس کے پاس علم حوصلہ اور دولت ہو۔‘‘

ایک مجاہد نے ایک فارسی سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہے؟ فارسی نے اس تحریر کا ترجمہ کر کے سنایا ۔مجاہد نے اس تحریر کے نیچے عربی زبان میں لکھ دیا:

’’جس کے پاس علم، حوصلہ یا دولت یا ان میں سے ایک بھی چیز ہو گی اسے شاہی دربار میں حاضری دینے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘

جس وقت کسریٰ کے محل میں نمازیں پڑھی جا رہی تھیں اس وقت یزدگردحلوان میں اس حالت میں تھا کہ کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کرتا تھا اور زیادہ تر تنہا رہتا تھا ۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ شہنشاہیت سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے ہی بیزار ہو گیا ہو۔ اس کے کمرے میں اس کی ماں جاتی تھی یا پوران ۔ کبھی کبھی وہ انہیں بھی کہہ دیا کرتا تھا کہ وہ اسے تنہا چھوڑ دیں۔

اس کی ماں نورین اسے اس کیفیت میں دیکھتی تو بہت روتی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ اس کے نوجوان بیٹے کو کون سا غم کھائے جا رہا ہے۔

وہ صرف ایک امید دل میں لیے ہوئے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شکست کو فتح میں بدلنا تو ممکن نہیں رہا لیکن جنگ اور مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنا ایک وفد مدائن میں اس پیش کش کے ساتھ بھیجا کہ دجلہ کو عرب اور عجم کے درمیان حدِ فاضل بنا دیا جائے اور جنگ بند کر دی جائے۔

’’کیا تمہارے بادشاہ یزدگرد کا دماغ ٹھیک نہیں رہا؟ ‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے یزدگرد کے ایلچی سے کہا ۔’’کیا وہ بھول گیا ہے کہ وہ پہلے بھی یہ پیش کش کر چکا ہے اور میں اس کی آدھی سلطنت کی پیش کش کو ٹھکرا چکا ہوں۔ اب جب کہ ہم نے مدائن بزورِ بازو قبضہ کر لیا ہے اور مالِ غنیمت کی تقسیم بھی ہو رہی ہے تو میں ایسا احمق کیوں بن جاؤں کہ اتنی جدوجہد اور قربانی سے جو چیز حاصل کی ہے وہ میں تمہیں دے دوں ……اور اپنے شہنشاہ سے کہنا کے اس کے باپ نے ہمارے رسولﷺ کے پیغالِ حق کی توہین ایسی کی تھی کہ جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

یزدگرد کا وفد مایوس و نامراد واپس چل گیا۔

٭

اور یہ مایوسی حلوان پر سیاہ گھٹا بن کر چھا گئی ۔اس جیسے بادشاہ جب غمگین ہوتے تو حسین و جمیل کنیزوں سے رقص و سرور اور شراب سے دل بہلایا کرتے تھے۔ لیکن یزدگرد تمام کنیزوں اور حرم کی تمام عورتوں کو مدائن میں ہی چھوڑ آیاتھا، ان میں سے چند ایک نوجوان لڑکیاں بھاگ گئی تھیں اور جو محل میں ہی رہ گئی تھیں انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا اور سعدؓ بن ابی وقاص نے انہیں مدینہ بھیج دیا تھا۔ انہیں یقین دلا دیاگیا تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہو گا جو اس محل میں ہوتا رہا ہے۔ بلکہ انہیں باقاعدہ بیویاں بنایا جائے گا اور معاشرے میں انہیں با عزت مقام حاصل ہو گا۔

یزدگر نے شراب بھی چھوڑ دی تھی۔

’’یزدی!‘‘ایک روز پوران اس کے پاس جا بیٹھی اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ پھر اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر کہا۔’’ میں جانتی ہوں تمہارے سینے میں کیسے کیسے زہریلے سانپ بل کھا رہے ہیں، لیکن جوان مرد اپنی یہ حالت نہیں بنا لیا کرتے۔ میں بھی وہی محسوس کر رہی ہوں جو تم کر رہے ہو۔‘‘

یزدگرد آخر نوجوان تھا۔ اسے ماں نے اپنے سینے سے لگا کر اور شہر سے دور گمنام سے ایک گاؤں میں چھپا کر پالا تھا۔ اسے عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔فنِ حرب و ضرب سے وہ بے بہرہ تھا ۔اس کے پاس جوش و خروش تھا اور اس کے دل میں سلطنتِ فارس کی محبت تھی۔ پوران نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو وہ بچوں کی طرح رو پڑا اور روتا ہی گیا۔

’’دنیا مدائن پر نہیں ختم ہوجاتی یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ اور سلطنتِ فارس بھی مدائن پر ختم نہیں ہو گئی۔ اگر تم نے اس طرح حوصلہ ہار دیاتو عرب پورے عجم پر غالب آجائیں گے ۔‘‘

’’اپنی بد نصیبی پر رونا آتا ہے پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ وہ وقت یاد آتا ہے جب لوگ مجھے میری ماں کی مرضی کے خلاف مدائن لائے تھے اور تم میرے حق میں تخت وتاج سے دستبردار ہوئی تھیں۔ لوگوں نے یہ توقع مجھ سے وابستہ کر لی تھی کہ میں عربوں کو تباہ و برباد کر کے فارس کا وقار اور رعب بحال کر دوں گا مگر میں ناکام رہا۔ مجھے اپنی عظیم سلطنت کی تاریخ یاد آتی ہے ۔ہمارے آباؤ اجداد نے عراق پر یلغار کر کے یہ اتنا وسیع و عریض اور اتنا سر سبز اور زرخیز علاقہ سلطنتِ فارس میں شامل کر لیا تھا۔ ہم جو بنی ساسان تھے ہم نے ساری دنیا پر اپنی جنگی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ رومی ساسانیوں کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ یونانی نہ ٹھہر سکے۔ مگر آج معمولی سی ایک قوم نے جس کا کوئی ماضی نہیں، سلطنتِ فارس کی عظمت کو پامال کر دیا ہے۔ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ اس شکست کا قصور وار یزدگرد تھا۔‘‘

’’ہم مر تو نہیں گئے یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ہمارے پاس فوج ہیں ،وسائل ہیں۔‘‘

’’مجھے رستم کی پیش گوئی یاد آتی ہے۔‘‘ یزدگرد نے شکست خوردہ لہجے میں کہا ۔’’وہ کہتا تھا کہ سلطنتِ فارس کا انجام بہت برا ہو گا۔ وہ شاید ٹھیک کہتا تھا۔‘‘

’’رستم مر گیا ہے۔‘‘ پوران نے جھنجھلا کر کہا ۔’’اس کی پیش گوئیاں مر گئی ہیں۔ یہ اس نے اپنے متعلق کہا تھا کہ اس کا انجام بہت برا ہو گا۔ وہ بہت ہی برے انجام کو پہنچا ۔تم اس انجام سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘

’’لیکن کیسے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’ فوج کہاں ہے ؟ہمارے بزدل جرنیل کہاں ہیں؟ کچھ تو مارے گئے ہیں باقی چھپتے پھر رہے ہیں۔‘‘

’’فوج بھی ہے ،جرنیل بھی ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ سب جلولامیں ہیں ۔مہران، فیروزان، خرزاد ۔یہ تینوں جرنیل وہاں موجود ہیں۔ وہ فوج کو اکٹھا کر کے منظم کر رہے ہیں۔‘‘

’’نہیں پوران!‘‘یزدگرد نے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ ان پر عربوں کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہ سب میدان کے بھگوڑے ہیں۔ ان پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔میں ایک اور شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گا ۔‘‘

’’کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ عرب کے یہ مسلمان مدائن میں ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ پوران نے قدرے غصے سے کہا۔’’ وہ وہاں تک پہنچیں گے جہاں تم ہو گے۔ کیاتم ان کے آگے بھاگے بھاگے پھرو گے؟ بھاگو گے تو کہاں تک جاؤ گے؟ ہمارے جرنیل اتنے بزدل نہیں جتنے تم ہو گئے ہو؟ تم ڈر پو ک ہو یزدی!پوری سلطنت عربوں کو دے کر دم لو گے۔‘‘

’’تم مجھے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟‘‘ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔

’’تم تنہا رہو۔‘‘ پوران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں لڑوں گی۔ میں نے تینوں جرنیلوں سے بات کر لی ہے۔ جلولا کو ہم بڑا مضبوط مرکز بنا رہے ہیں اور جرنیلوں نے جلولا کے دفاع کا انتظا م ایسا کیا ہے کہ مسلمان وہاں سر ٹکرا تے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔‘‘

پوران غصے کے عالم میں باہر کو چل پڑی۔

’ٹھہر جاؤ پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔

پوران رک گئی اور پیچھے کو مُڑی۔

’’مجھے جلولا لے چلو۔‘‘یزدگر دنے کہا۔

پورا ن اسی وقت اسے جلولا لے گئی۔

٭

’’لیکن کیسے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’ فوج کہاں ہے ؟ہمارے بزدل جرنیل کہاں ہیں؟ کچھ تو مارے گئے ہیں باقی چھپتے پھر رہے ہیں۔‘‘

’’فوج بھی ہے ،جرنیل بھی ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ سب جلولامیں ہیں ۔مہران، فیروزان، خرزاد ۔یہ تینوں جرنیل وہاں موجود ہیں۔ وہ فوج کو اکٹھا کر کے منظم کر رہے ہیں۔‘‘

’’نہیں پوران!‘‘یزدگرد نے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ ان پر عربوں کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہ سب میدان کے بھگوڑے ہیں۔ ان پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔میں ایک اور شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گا ۔‘‘

’’کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ عرب کے یہ مسلمان مدائن میں ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ پوران نے قدرے غصے سے کہا۔’’ وہ وہاں تک پہنچیں گے جہاں تم ہو گے۔ کیاتم ان کے آگے بھاگے بھاگے پھرو گے؟ بھاگو گے تو کہاں تک جاؤ گے؟ ہمارے جرنیل اتنے بزدل نہیں جتنے تم ہو گئے ہو؟ تم ڈر پو ک ہو یزدی!پوری سلطنت عربوں کو دے کر دم لو گے۔‘‘

’’تم مجھے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟‘‘ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔

’’تم تنہا رہو۔‘‘ پوران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں لڑوں گی۔ میں نے تینوں جرنیلوں سے بات کر لی ہے۔ جلولا کو ہم بڑا مضبوط مرکز بنا رہے ہیں اور جرنیلوں نے جلولا کے دفاع کا انتظا م ایسا کیا ہے کہ مسلمان وہاں سر ٹکرا تے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔‘‘

پوران غصے کے عالم میں باہر کو چل پڑی۔

’ٹھہر جاؤ پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔

پوران رک گئی اور پیچھے کو مُڑی۔

’’مجھے جلولا لے چلو۔‘‘یزدگر دنے کہا۔

پورا ن اسی وقت اسے جلولا لے گئی۔

٭

جلولا مدائن سے تقریباً چالیس میل دور ایک شہر تھا۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے مدائن میں اپنے لشکر کے ساتھ قیام کر رکھا تھا اور انہوں نے اپنے جاسوس حلوان اور جلولا تک بھیجے ہوئے تھے ۔ان جاسوسوں میں مقامی آدمی تھے۔ جن میں وہ عربی تھے جو بڑی لمبی مدت سے عراق میں آباد تھے ۔ایک روز دو جاسوس آئے۔

’’جلولا میں فارسیوں نے بہت بڑی فوج جمع کر لی ہے۔‘‘ ان جاسوسوں نے سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا۔’’ خر زاد نے جو رستم کا بھائی ہے، ایسی جنگی تدبیر پر عمل کیا ہے جو مجاہدین کے لشکر کیلئے بہت ہی زیادہ مشکلات پیدا کر دے گی۔ شہر کے اردگرد گہری اور اتنی چوڑی خندق کھود دی گئی ہے، جسے کوئی طاقتور گھوڑا بھی نہیں پھلانگ سکتا ۔شہر کے باہر آنے جانے کیلئے کچھ جگہیں چھوڑی گئی ہیں ،جہاں خندق نہیں ہے۔خندق کے اردگرد لوہے کے نوکیلے تار بچھا دیئے گئے ہیں۔ انہی تاروں سے شہرمیں آنے جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔‘‘

’’شہر کے اندر کیا کیفیت ہے؟‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے پوچھا۔’’ لوگوں کے ،فوج کے اور جرنیلوں کے ارادے اور خیالات کیسے ہیں ؟ کیا ان سب پر ہمارا رعب پہلے جیسا طاری ہے یا نہیں؟‘‘

’’یزدگرد اور پوران وہاں پہنچ چکے ہیں ۔‘‘ایک جاسوس نے کہا ۔’’انہوں نے اپنی فوج کو ایساگرمایا اور بھڑکایا ہے کہ شہری بھی فوج میں شامل ہو گئے ہیں ۔وہ بھگوڑے جو قادسیہ اور مدائن سے بھاگے تھے ،وہ سب جلولا میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہم نے ان کے جرنیلوں کی تقریریں سنی ہیں۔ انہوں نے اپنی فوج سے اور دوسرے لوگوں سے کہا ہے کہ ہم یہاں مقابلے میں جم گئے تو مسلمان محاصرے میں بیٹھے بیٹھے ہی کمزور ہو جائیں گے، اور اگر ہم یہاں بھی پیٹھ دکھا گئے تو پھر ہمیں اور ہماری نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ جرنیلوں نے فوج سے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں عربوں سے ہم بڑا ہی زبردست مقابلہ کریں گے۔ اگر ہم نے انہیں شکست دیدی تو سلطنت کے وہ تمام علاقے جو مسلمانوں کے قبضے میں چلے گئے ہیں واپس آجائیں گے، اور یہاں کے لوگ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے ۔اگر فتح مسلمانوں کی ہوئی تو فارس کے لوگ ہم پر یہ الزام نہیں لگائیں گے کہ ہم لڑے نہیں تھے۔‘‘

’’یزدگرد جلولا میں ہی ہو گا۔‘‘

’’نہیں امیرِ لشکر!‘‘دوسرے جاسوس نے جواب دیا۔’’وہ پوران کے ساتھ جلولا آیا تھا۔ پوران بہت ہی جوشیلی عورت ہے۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جا کر عورتوں اور کم سن لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی جنگ کیلئے تیار کر رہی ہے۔ اس کے بولنے کا انداز ایسا پُر اثر ہے کہ جو اسے سنتا ہے وہ آگ بگولا بن جاتا ہے۔ یزدگرد واپس حلوان چلا گیا ہے۔ جلولا میں اس قدر اناج پانی اور روز مرہ ضرورت کی تمام اشیاء جمع کر لی گئی ہیں جو فوج کیلئے بھی اور شہریوں کیلئے بھی ایک سال سے زیادہ عرصے کیلئے کافی ہوں گی۔‘‘

’’اور امیرِ لشکر!‘‘اس جاسوس کے ساتھی نے کہا۔’’ جرنیلوں نے اور ہر ایک فوجی نے حلف اٹھا کر عہد کیا ہے کہ عربوں کو جلولا کی دیوارکے باہر ختم کر کے ان کی لاشیں خندق میں پھینک کر مٹی ڈال دیں گے۔ ‘‘

’’کیا بھگوڑے فوجی ابھی تک آرہے ہیں؟‘‘

’’ہاں امیرِ لشکر!‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’ وہ خود بھی آرہے ہیں اور انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی لایا جا رہا ہے۔ جلولا کے لوگ ہر آنے والے فوجی کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور پھر اس سے وہی حلف لیا جاتا ہے جو دوسروں سے لیا گیا ہے ۔مدائن سے بھاگے ہوئے شہری جلولا میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔ وہ سب لڑنے کیلئے تیار ہیں۔تیغ زنی اور تیر اندازی کی مشق کرتے رہتے ہیں ۔‘‘

بعض مؤرخوں نے جلولا کے دفاعی انتظامات اور شہر میں جو فوج تھی اس کی تفصیلات لکھی ہیں ۔اتنی زیادہ فوج کے مارے جانے کے باوجود جلولا میں مقیم فوج مسلمانوں کی نسبت کم و بیش تین گنا زیادہ تھی۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ سعدؓ بن ابی وقاص کسی بہروپ میں جلولا گئے اور کچھ دور سے خندق اور خار دار تار دیکھی۔

٭

سعد ؓبن ابی وقاص نے امیر المومنینؓ کو آتش پرستوں کی ان تیاریوں کی تفصیل لکھی اور یہ بھی لکھا کہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ فارسیوں کا آخری مضبوط مورچہ ہے اور وہ وہاں آخری معرکہ لڑنا چاہتے ہیں۔

امیر المومنین ؓنے فارسیوں کے دفاعی انتظامات اور تیاریوں کی تفصیلات پڑھ کر لکھا کہ ہاشم بن عتبہ کو بارہ ہزار مجاہدین دے کر جلولا بھیجا جائے۔ ہراول میں قعقاع بن عمرو ہوں گے۔ دائیں پہلو پر مشعر بن مالک بائیں پہلو پر عمرو بن مالک اور پیچھے والے حصے کے کماندار عمرو بن مرّہ ہوں گے۔

حضرت عمرؓ نے اور بھی کچھ ہدایات دی تھیں۔ انہوں نے زور دے کر لکھا کہ ایک ہی بار سارا لشکر جلولا کی لڑائی میں نہ جھونک دینا۔ مدائن کا دفاع مضبوط رکھنا۔ جلولا سے اپنی پسپائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مدائن کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اس مشکل کا حل پہلے ہی تیار رکھنا۔

امیر المومنینؓ کا حکم ملتے ہی سعد ؓبن ابی وقاص نے بارہ ہزار کا لشکر تیار کیا، اور اسے چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کے سالار مقر ر کیے اور انہیں بتایا کہ جلولا میں انہیں کیسا دفاع ملے گا۔

’’اور یاد رکھ میرے بھائی کے بیٹے!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ سے کہا۔’’ تو بڑی سخت آزمائش میں جا رہا ہے۔ ہمارا خاندان ناکامی اور شکست کے صرف نام سے واقف ہے، کبھی شکست کھائی نہیں۔ ہم کبھی ناکا م نہیں ہوئے۔ اگر تو ناکام رہا تو زندہ واپس نہ آنا۔ تیری لاش آئی تو میں اسے نہیں دیکھوں گا۔‘‘

’’کیا مجھے کمک کی امید رکھنی چاہیے؟ ‘‘ہاشم نے پوچھا۔

’’میں تیری پیٹھ پیچھے رہوں گا۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ میں خود محسوس کر لوں گا کہ تجھے کمک کی ضرور ت ہے اور وقت سے پہلے تجھے کمک مل جائے گی۔ قعقاع بن عمرو تیرے ساتھ ہے اور تیرے ماتحت دوسرے جو سالار جا رہے ہیں، وہ امیر المومنین کے منتخب کیے ہوئے ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی تجھے دھوکا نہیں دے گا ۔ایسا نہ ہو کہ تو ہی انہیں دھوکا دے جائے۔ یہ بھی سن لے ۔آگ کے پجاریو نے قسم کھائی ہے کہ وہ ہمیں خندق کے باہر ہی تباہ کر کے لاشیں خندق میں پھینک دیں گے۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے ہاشم بن عتبہ کو بتایا کہ فارس کی فوج کا محصور ہو کر لڑنے کاانداز یہ ہے کہ اس کے دو چار دستے باہر آکر زور دار حملہ کرتے اور قلعے میں واپس چلے جاتے ہیں۔

’’میں فارسیوں سے ہی لڑتا آرہا ہوں۔‘‘ ہاشم نے کہا۔’’ اگر میں قادسیہ اور بُہرشیر کی لڑائی میں بزدل نہیں رہا تو اب بھی بزدل نہیں بنوں گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ میں جلولا کی طرف چل پڑوں؟‘‘

’’ہاں میرے بھائی کے بیٹے!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ اﷲ حافظ۔ تو ہر جگہ اﷲ کو اپنے ساتھ پائے گا۔‘‘

٭

ہاشم بن عتبہ کا لشکر فجر کی نماز پڑھ کر چلا اور سورج غروب ہونے سے پہلے جلولا پہنچ گیا۔ ہاشم اور اس کے سالاروں کو بتا دیا گیا تھا کہ جلولا کے دفاعی انتظامات کیا ہیں۔ لیکن انہوں نے وہاں جاکر یہ انتظامات دیکھے تو پریشان ہوگئے۔ وہاں تو محاصرے میں بیٹھنے والی بات تھی۔ دیوار تک پہنچنا ہی ناممکن تھا ۔اتنی چوڑی خندق اور جہاں تین چار جگہوں پر خندق نہیں راستے تھے ،وہاں لوہے کے نوکیلے تاروں کے گچھے تھے۔

شہر کی دیوار پر شہری اور فوجی کھڑے قہقہے لگا رہے تھے اور آوازے کَس رہے تھے۔

دو دروازے کھلے اور بہت سے لوگ خندق کے دو راستوں تک دوڑے آئے۔ انہوں نے بہت تیزی سے ان راستوں سے تار ہٹا دیئے۔ فوراً ہی شہر کے کھلے ہوئے دروازوں سے گھوڑ سواروں کا سیلاب نکلا اور ان دونونں راستوں سے ہی باہر آکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ مسلمان ابھی ایسی ناگہانی آفت کیلئے تیار نہیں تھے۔ پھر بھی انہوں نے ان سواروں کا مقابلہ کیا۔

’’ان کی واپسی کے راستے ر وک لو۔‘‘ یہ قعقاع بن عمرو کی گرجدار آواز تھی، جو بار بار گرجتی تھی۔

مجاہدین نے بھی ’’ان کے راستے روک لو ‘‘کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ فارسی سواروں نے ضرب لگاؤ اور بھاگو کے اصول پر حملہ کرنا، زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور واپس چلے جانا تھا۔ ان کے کانوں میں جب یہ للکار پڑی کہ ان کے واپسی کے راستے بند کر دو تو ان کا دھیان آگے کے بجائے پیچھے کو ہو گیا۔ وہ زندہ سلامت واپس جانے کی کوشش کرنے لگے۔

مسلمان راستے تو بند نہ کر سکے لیکن تیر انداز مجاہدین نے انہیں بہت نقصان پہنچایا ۔راستے تنگ تھے اور ہر سوار دوسروں سے پہلے واپس چکے جانے کی کوشش میں تھا۔ اسلئے سوار ان تنگ راستوں میں پھنس گئے۔ مجاہدین نے تلواروں اور برچھیوں سے بھی انہیں بہت نقصان پہنچایا ۔مجاہدین کا نقصان معمولی تھا ۔

راستے پھر نوکیلی تاروں سے بند کر دیئے گئے۔ مجاہدین نے مرے ہوئے فارسیوں کو خندق میں پھینکنا شروع کر دیا۔ زخمی گھوڑوں کو بھی خندق میں دھکیل دیا۔

تصور میں لائیں کہ مجاہدین کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی اور جلولا ایک بڑا شہر تھا۔ اس کے محاصر ے میں بارہ ہزار مجاہدین بالکل نا کافی تھے۔ اندر سے حملہ آنے کی صورت میں مجاہدین کو اکٹھا ہونا پڑتا تھا ،جس سے محاصرہ ٹوٹ جاتا تھا ۔شہر کے ایک طرف محاصرہ ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس طرف پہاڑی تھی اور اس میں سے ایک راستہ شہر میں آتا تھا۔ یہ راستہ حلوان اور جلولا کو ملاتا تھا۔ اس سے فارسیوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ کمک اور رسد آسانی سے بھیج سکتے تھے ۔پہلے حملے میں جلولا کے جتنے فوجی مارے گئے حلوان سے اس سے زیادہ فوجی جلولا بھیج دیئے گئے ۔

٭

یہی معمول بن گیا ۔دو دن گزرتے تھے تو جلولا سے سوار نکلتے اور اسی طر ح حملہ کرتے جس طرح انہوں نے پہلا حملہ کیاتھا ۔ہر حملے میں بہت سے فارسی گھوڑ سوار اور پیادے ہلاک یا زخمی ہو کر پیچھے رہ جاتے اور باقی واپس چلے جاتے۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے زخمیوں کو مدائن لے جانے اور ان کی جگہ تازہ دم مجاہدین کو جلولا بھیجنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ مدائن سے انہیں گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں مل گئی تھیں۔

دو مہینے گزر گئے۔ پہلے دن سے ہی پوران نے اپنا یہ معمول بنا لیا تھا کہ جلولا کے اندر فوجیوں کو اکٹھا کر کے بڑی ہی جذباتی اور جوشیلی تقریر کرتی ،جس سے فوجیوں کے حوصلوں میں نئی جان پیدا ہو جاتی اور ان کے جذبے بیدار ہو جاتے ۔وہ شہریوں کو بھی اسی طرح تقریریں کرکے مشتعل کرتی رہتی تھی۔

دو مہینوں میں جلولا والوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان ہو چکا تھا ،جو شہریوں کیلئے نا قابلِ برداشت تھا۔ فوجیوں کے ساتھ شہر کے لوگ بھی باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور مارے جاتے یا زخمی ہو تے تھے۔ زخمیوں کو پیچھے ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ انہیں مسلمان مدائن بھیج دیتے تھے ۔یہ جنگی قیدی تھے جنہیں مدینے جا کر غلاموں کی طرح فروخت ہونا تھا۔

ایک روز پوران حسبِ معمول شہر کے گشت کیلئے نکلی تو ایک جگہ بہت سی عورتوں نے اسے گھیر لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پوران کو بولنے کا موقع نہ ملا۔ عورتوں نے اسے دیکھتے ہی ہنگامہ بپا کر دیا۔ جوں جوں عورتوں کا شوروغل بڑھتا جا رہا تھا۔ عورتوں کے ہجوم میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ عورتیں بھول گئی تھیں کہ پوران ملکہ تھی یا شہنشاہِ فارس کی سوتیلی بہن ہونے کی وجہ سے اب بھی اس کا درجہ ملکہ جیسا ہے اور یہ وہ شاہی خاندان ہے، جو قتل کو یوں سمجھتا ہے جیسے دو چار مکھیاں مار ڈالی ہوں۔

’’پوران تو ماں ہوتی تو تجھے ان ماؤں کے دلوں کی حالت معلوم ہوتی ،جن کے جوان بیٹے تو نے باہر بھیج کر مروا دیئے ہیں ۔‘‘

’’تو نے شادی نہیں کی تو بیوہ ہوتی تو ……‘‘

’’تیرا کوئی بھائی نہیں مرا پوران‘‘

’’تو ملکہ‘ تجھے کیا غم‘‘

’’ہماری دولت یہی لڑکے تھے جنہیں تو نے مروا دیا ہے۔‘‘

عورتیں واویلا بپا کیے جا رہی تھیں ۔ان کے بیٹے بعض کے بھائی باپ اور خاوند پوران کی للکار پر جوش میں آکر فوج میں شامل ہو گئے تھے اور گذشتہ دو مہینوں میں فوج سے مل کر شہر سے باہر مسلمانوں پرحملے میں شامل ہو تے رہے اور مارے جاتے رہے تھے۔

’’کیا تم اپنے ملک کیلئے کوئی قربانی دینا نہیں چاہتیں؟‘‘ پوران کو بڑی مشکل سے یہ کہنے کا موقع ملا۔’’ کیا تم نہیں جانتیں کہ اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو تمام جوان لڑکیوں کو یہ وحشی عرب اپنی لونڈیاں اور کنیزیں بنا لیں گے۔‘‘

’’تم اپنے بھائی کوباہر کیوں نہیں نکالتیں؟ ‘‘ایک عورت نے کہا۔’’ یہ ملک ہمارا نہیں یہ یزدگرد اور اس کے خاندان کا ملک ہے۔ یہ بزدل اور عیاش فوج کا ملک ہے ۔بیٹے ہمارے مرواتی ہو ،عیش و عشرت تمہارا خاندان کرتا ہے۔‘‘

وہاں تو بغاوت جیسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔ ان حالات میں کہ شہر محاصرے میں تھا اور فوج کی خاصی نفری ماری گئی تھی، ان لوگوں کو جبر و تشدد سے دبانا خطرناک تھا ۔پوران دیکھ رہی تھی کہ پہلے صرف عورتیں پھر مرد بھی جمع ہونے لگے تھے۔ ان میں سے بعض نے مدائن کے طعنے بھی دیئے۔

پوران تو دب کے رہ گئی۔ اس نے عورتوں کو تسلی دلاسا دیا ۔اپنے مخصوص اور پر اثر انداز میں بول کر اس نے مردوں کو بھی ٹھنڈا کردیا ،مگر خود اتنی مضطرب اور پریشان ہو گئی کہ گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے چلی تو اس کا سر اوپر نہیں اٹھ رہا تھا ۔

اس نے ایک جگہ جرنیلوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ سب حلوان پہنچیں ۔وہ خود بھی حلوان پہنچ گئی۔

٭

مہران، فیروزان اور خرزاد اس کے پیچھے پیچھے حلوان پہنچے ۔پوران انہیں یزدگرد کے پاس لے گئی۔

’’معلوم ہوتا ہے جلولا کی شکست بھی ہماری قسمت میں لکھ دی گئی ہے ۔‘‘پوران نے کہا۔’’ آج جلولا کی عورتوں نے مجھے جو طعنے دیئے ہیں ،وہ تم سنتے تو دجلہ میں ڈوب مرنے کیلئے چل پڑتے ۔لیکن تم دجلہ میں ڈوب مرنے کے حق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہو۔د جلہ اب تمہارا نہیں رہا۔‘‘

’’کیا تم تینوں جرنیل بتا سکتے ہو کہ ہماری فوج میں کس چیز کی کمی ہے؟‘‘ یزدگرد نے اپنے جرنیلوں سے پوچھا۔

’’حوصلے کی۔‘‘ مہران نے جواب دیا۔’’ عربوں کی تعداد دس سے بارہ ہزار تک ہے لیکن ان کا حوصلہ مضبوط ہے۔ وہ شکست کھانے کے بجائے مر جانے کو بہتر سمجھتے ہیں۔پے بہ پے فتوحات نے بھی ان کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں ۔ہماری فوج پر ان کا خوف غالب آگیا ہے۔ جب سے انہوں نے گھوڑوں کی پیٹھ پر دجلہ پار کیا ہے ہماری فوج میں یہ بات پورے یقین سے تسلیم کر لی گئی ہے کہ مسلمان جن بھوت ہیں یا ان کے پاس کوئی جادو ہے۔ ہم نے انہیں بہت سمجھایا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت نہیں لیکن ہمارے سپاہی جب ان کے سامنے جاتے ہیں تو بھاگنے کا راستہ پہلے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔ ’’مسلمان اپنے عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘

’’ان باتوں کا ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں نے تمہیں یہ رائے دینے کیلئے نہیں بلایا کہ عقیدہ کس کا پکا اور کس کا سچا ہے۔ میں تم سب کو یہ بتا رہی ہوں کہ ہم نے جلولا کا محاصرہ توڑ کر عربوں کو پسپانہ کیا تو جلولا کے شہری ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔وہ باغی ہو جائیں گے تو اپنی فوج کیلئے ایک مصیبت بن جائیں گے ۔وہ دروازے کھول کر باہر نکل جائیں گے اور خندق کے رستوں سے تار ہٹا دیں گے ۔تم بھی غور کرو یزدی!ہمیں کچھ کرنا چاہیے اور بہت جلدی کرنا چاہیے۔‘‘

’’یہ میں پہلے ہی سوچ چکا ہوں۔‘‘ مہران نے کہا ۔’’ ہمیں اپنی پوری فوج سے عربوں پر حملہ کرنا چاہیے۔ محاصرے کو پچھتر دن گزر گئے ہیں۔ ہم بہت جانی نقصان اٹھا چکے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے کہ میں ایک بھی عربی کو زندہ واپس نہیں جانے دوں گا۔ میں پوری فوج سے حملہ نہیں کروں گا۔ حملہ آدھی فوج سے ہوگا۔ یہ دستے تھکنے لگیں گے تو آہستہ آہستہ پیچھے آنا شروع کر دیں گے اور باقی آدھی فوج جو شہرمیں تیار ہو گی، وہ باہر آجائے گی اور لڑائی جاری رہے گی ۔عرب اتنی کم تعداد میں ہیں کہ لڑائی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘

’’یہ حملہ کب ہو سکے گا؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’تین چار دنوں بعد۔‘‘ مہران نے جواب دیا ۔’’میں اور فیروزان فوج کے ساتھ باہر جائیں گے ۔ہم ساتھ ہوں گے تو فوج جم کر لڑے گی۔‘‘

’’جاؤ! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ ابھی تیاری شروع کر دو۔‘‘

٭

اور تین دنوں میں تیاریاں مکمل ہو گئیں۔

جلولا میں دوسری جگہوں سے نقل مکانی کر کے پہنچنے والے شہریوں اور بھگوڑے فوجیوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیاتھا۔ یزدگرد ،نورین اور پوران نے ان تین دنوں میں یہ معمول بنائے رکھاتھا کہ ان میں سے کوئی فوج کو اور کوئی شہریوں کو اکٹھا کرکے بڑے ہی جذباتی اور جوشیلے انداز اور الفاظ میں گرماتا اور اس طرح لڑائی کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔

’’اب بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟‘‘ یہ الفاظ ان تینوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے ۔’’تمہیں فارس کی دوسری سرحد کے قریب پہنچا دیا گیا ہے۔ آگے رومیوں کا علاقہ ہے۔ تم عربوں کے نرغے میں آگئے ہو۔ اب عورتوں اور بچوں کو بھی لڑنا پڑے گا ۔اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو پھر عربوں کے غلام اور لونڈیاں بننے کیلئے تیار ہو جاؤ۔‘‘

مدائن کے دولت مند تاجر اور جاگیر دار بھی مدائن سے بھاگ کر جلولا چلے گئے تھے ۔ان کے خزانے مدائن میں ہی رہ گئے تھے۔ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی وہ وسیع و عریض اراضی جو سونا اور چاندی اگلتی تھی وہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئی تھی ۔وہ تو کنگال ہو گئے تھے۔

ان میں سے ایک نے اعلان کر دیا کہ جو فوجی یا شہری بے مثال بہادری سے لڑے گا اسے سونے اور چاندی کی صورت میں وہ جھولی بھر کے انعام دے گا۔

فوراً ہی ایک اور جاگیردار نے اعلان کر دیا کہ بہاردری سے لڑنے والے کو وہ اپنی جاگیر میں سے حصہ دے گا۔

ایک ہی دن میں تقریباً تمام تاجروں اور جاگیرداروں نے بہادر ی سے لڑنے والوں کیلئے انعامات کا اعلان کر دیا۔

یزدگرد، نورین اور پوران کے اشتعال انگیز الفاظ کے ساتھ اتنے زیادہ انعامات کے اعلان نے فوج اور شہریوں میں نئی روح پھونک دی۔ کم سن لڑکے بھی مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ عورتوں نے اعلان کر دیا کہ عربی اگر شہرمیں داخل ہو گئے تو وہ شہر کی گلیوں اور گھروں میں لڑیں گی۔ کسی عربی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گی یا خود زندہ نہیں رہیں گی۔

ایک طوفان تھا یا آتش فشاں میں ابلتا ہوا لاوا تھا ،جو جلولا کو محاصرے میں لیے ہوئے بارہ ہزار مجاہدین کو خس و خاشاک کی طرح اڑا اور بہا لے جانے کیلئے تیار تھا۔

مجاہدین کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ پہلے معرکوں کے زخمیوں اور شہیدوں کو مدائن بھیج دیا گیا تھا۔ان کی جگہ تازہ دم مجاہدین آگئے تھے ۔اس طرح جلولا کے مجاہدین کی نفری پوری بارہ ہزار ہی رکھی گئی تھی۔ تیروں اوربرچھیوں کے تو انبار تھے جو مجاہدین کیلئے بھیجے گئے تھے ۔مجاہدن کے دلوں میں کوئی دنیاوی لالچ نہیں تھا۔ ان کے دلوں میں اﷲ اور رسولﷺ کی محبت تھی۔

جلولا کے اندر لڑنے کیلئے جو نفری تیار ہوئی تھی وہ ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

٭

تاریخوں کے مطابق محاصرے کے اسّی دن پورے ہوئے تو شہر کے دروازے کھلے۔ کچھ آدمیوں نے آگے آکر خندق پر بنائے ہوئے راستوں سے خاردار تار ہٹا دیئے۔ بڑا ہی زبردست سیلاب تھا جو بند توڑ کر مجاہدین کی طرف آیا۔ یہ گھوڑوں اور انسانوں کا تیز و تند سیلاب تھا جس کے آگے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بارہ ہزار مجاہدین زندہ کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مجاہدین کیلئے یہ حملہ غیر متوقع اور ناگہانی تھا ۔

’’انہیں خندق کی طرف دبائے رکھو ۔‘‘یہ مجاہدین کے سالار ہاشم بن عتبہ کی آواز تھی جو بلند آواز مجاہدین نے محاصرے کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا دی۔

فارسی لشکر میں نیا ہی جوش و خروش نظر آرہا تھا لیکن وہ زیادہ آگے آنے سے بھی گریز کر رہے تھے کیونکہ انہیں واپس بھی جانا تھا۔ واپسی کے راستے تین چار ہی تھے۔

علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ فارسیوں نے باہر آکر حملہ کیا تو بڑی تیز آندھی آگئی۔ مجاہدین نے اس آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے شدید حملے کیے کہ فارسی خندق میں گرنے لگے اور ان کا آدھا لشکر تباہ ہو گیا۔

کسی اور مؤرخ نے آندھی کا ذکر نہیں کیا۔ سب لکھتے ہیں کہ یہ لڑائی غیر معموی طور پر خونریز تھی۔ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ ایسی گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ برچھیاں ٹوٹ گئیں ،تیر ختم ہو گئے، تلواریں نکلیں اور کلہاڑے نکلے ۔ فارسی اتنے زیادہ تھے کہ مجاہدین ان میں نظر نہیں آتے تھے ۔مجاہدین نے وہی طریقہ اختیار کیا کہ فارسیوں کو خندق کی طرف دباتے تھے اور فارسی پیچھے ہٹتے ہٹتے خندق میں گرتے تھے۔ بعض اپنے گھوڑوں کے نیچے آتے اور مرتے تھے ۔

مؤرخوں نے اس معرکے کو بیان کرتے ہوئے بار بار قعقاع کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے سالاروں کی شجاعت بھی کچھ کم نہ تھی لیکن قعقاع نے تو معجزہ کر دکھایا تھا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ خندق کے راستے بند کر دیئے جائیں تاکہ فارسی واپس نہ جا سکیں۔ لیکن قعقاع اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔

مؤرخوں نے اس معرکے کو عراق کی جنگ کا سب سے زیادہ خونریز اور انتہائی گھمسان کا معرکہ کہا ہے۔ فارسیوں کی ایک کمزوری یہ تھی کہ وہ ہجوم کی صورت میں آئے تھے اور ہجوم کی صورت میں ہی لڑ رہے تھے۔ مجاہدین انہیں بکھرنے نہیں دے رہے تھے۔ اس سے فارسیوں کیلئے یہ دشواری پیدا ہو گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے میں پھنس گئے تھے ۔انہیں گھوم پھر کر لڑنے کا موقع نہیں ملتا تھا ۔دوسری کمزوری یہ کہ انہیں واپس بھی جانا تھا اور واپسی کے راستے تھوڑے بھی تھے اور تنگ بھی۔

ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ بہادری سے لڑنے اور مرنے کا حلف اٹھانے کے باوجود ان پرمسلمانوں کی دہشت طاری تھی۔ یزدگرد، نورین اور پوران کی جوشیلی تقریریں بھی انہیں اس دہشت سے نجات نہیں دلا سکی تھیں۔

پھر فارسیوں کی ایک کمزوری اور بھی تھی ۔وہ یہ کہ مسلمان پہلے سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے اور مسلمان نعرے لگاتے تھے کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ بارہ ہزار مجاہدین دشمن کو شکست دیں ۔

ظہر کے وقت فارسی واپس جانے لگے ۔ مجاہدین نے بہت کوشش کی کہ واپسی پر انہیں مزید نقصان پہنچائیں ۔اس کوشش میں وہ خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

جب آخری فارسی بھی خندق کی دوسری طرف چلا گیا تو کسی مجاہد نے اذان دی۔ سالار ہاشم بن عتبہ نے اعلان کرایا کہ نمازِ خوف ادا کی جائے گی۔

بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاہدین نے ظہرکی نماز اشاروں میں ادا کی ۔دراصل یہ نمازِ خوف تھی جس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے ۔دشمن کی طرف سے اتنی مہلت مل گئی تھی کہ مجاہدین نے ٹولیوں میں تقسیم ہو کر نمازِ خوف ادا کر لی۔

٭

’’اﷲ کے مجاہدو!‘‘قعقاع نے اپنے دستوں سے کہا۔’’ کیا تم ڈر تو نہیں گئے؟‘‘

’’ڈرے ہوئے نہیں ،ہم تھکے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک مجاہد نے کہا۔’’ اگر ایسا اور حملہ ہوا تو وہ تازہ دم فوج سے ہوگا۔‘‘

’’ہاں! ‘‘قعقاع نے کہا۔’’ ایسا حملہ ہوا تو اب ہم ذرا پیچھے ہٹ کر ان پرحملہ کریں گے اور انہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک اﷲ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کر دیتا۔ قعقاع کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اس نے کہا۔’’ اب وہ آئے تو انہیں روکنے کے بجائے ان کے اندر گھس کر پیچھے چلے جانا۔‘‘

قعقاع کی یہ بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ شہر کے دو دروازے ایک بار پھر کھلے اور فارسیوں کے حملے کی دوسری طوفانی لہر آئی جو پہلے حملے جیسی ہی طوفانی اور تیزوتند تھی۔ یہ فارس کی فوج کے تازہ دم دستے تھے۔

ایک بار پھر گھمسان کا رن پڑا۔

’’مجاہدو!‘‘بڑی ہی بلند آوازیں سنائی دینے لگیں ۔’’مسلمانو! ……تمہارے سردار خندق کے حصار کے اندر چلے گئے ہیں۔ آگے بڑھو ‘راستہ صاف ہے۔‘‘

یہ قعقاع کی بہادری کا غیر معمولی کمال تھا کہ چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر دشمن کے پیچھے چلے گئے اور خندق کے دونوں راستوں پر قبضہ کرلیاتھا۔

یہاں کچھ مؤرخوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ آندھی کا ذکر نہیں آیا۔ یوں لکھا ہے کہ گردوغبار سے فضا تاریک ہو گئی ۔کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس تاریکی سے فائدہ اٹھا کر قعقاع نے خندق کے دو راستے بند کر دیئے۔

جب قعقاع نے یہ اعلان کروا دیا کہ وہ خندق کے اندر چلے گئے ہیں اور راستہ صاف ہے ۔تو فارسی پریشان ہو گئے۔ وہ پیچھے کو بھاگنے لگے لیکن راستے بند پائے ۔دوسرے ایک دو راستے دوسرے سالاروں نے بند کر دیئے۔ فارسی سوار افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں گھوڑوں سمیت خندق میں گرنے لگے ۔

مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارس کے گھوڑ سواروں پر خوف زدگی کی جو کیفیت طاری ہوئی اس کے زیرِ اثر وہ خندق کے باہر کی طرف خندق کے ساتھ ساتھ گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے ۔آندھی کی تاریکی مجاہدین کیلئے بھی یکساں تھی لیکن انہوں نے آنکھیں کھلی اور حوصلہ قائم رکھا۔

ان حالات میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں فارسیوں کا قتلِ عام تھا۔ بعض فارسی سواروں نے گھبراہٹ میں خندق کو پھلانگنے کیلئے گھوڑوں کو ایڑیں لگائیں لیکن خندق اتنی چوڑی تھی کہ گھوڑے خندق میں گرے۔ خندق کے اندر یہ حال تھا کہ سینکڑوں گھوڑے اس کے اندر سواروں کے بغیر بدکے ہوئے دوڑے پھر رہے تھے اور زخمی سوار اور پیادے گھوڑوں تلے کچلے جا رہے تھے۔

تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ فارسی مارے گئے۔ ا س سے پتہ چلتا ہے کہ فارسیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فارسی فوج کے جن پہلے دستوں نے باہر آکر حملہ کیا تھا ‘وہ دوسرے مرحلے میں بھی شامل تھے۔

فارس کے بچے کھچے فوجی شہرمیں نہ جا سکے ۔وہ باہر سے ہی حلوا ن کی طرف بھاگ گئے ۔

جلولا کا ایک جرنیل مہران قعقاع کو نظر آگیا۔ وہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک سواروں کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ قعقاع نے اس کا تعاقب کیا اور ایک مقام خانقین میں اسے جا لیا۔ اس کے محافظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔قعقاع نے اپنے ہاتھ سے مہران کو قتل کیا۔ مہران نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن اس کے مقابل قعقاع تھا جو قتل ہونا نہیں قتل کرنا زیادہ بہتر جانتا تھا۔

دوسرا فارسی جرنیل فیروزان تھا۔ وہ جلولا سے فرار ہو کر حلوان پہنچ گیا تھا۔ تیسرے جرنیل خرزاد کے انجام کے متعلق تاریخ خاموش ہے ۔

مجاہدین جلولا میں داخل ہو گئے ۔اس وقت قعقاع اور ان کے مجاہدین حلوان پہنچ گئے تھے۔

٭

اُس گھوڑ سوار کی رفتار بڑی ہی تیز تھی ۔اتنی تیز کہ یوں لگتا تھا جیسے گھوڑا بدک کر بے لگام ہو گیا ہو اور سوار کے قابو میں نہ آرہا ہو ۔ مدائن کی دیوار پر کھڑے ایک مجاہد نے دیکھا۔

’’جلولا سے ایک سوار آرہاہے۔‘‘ مجاہد نے چلّا کر کہا۔’’ گھوڑا بے لگام لگتا ہے۔‘‘

’’جلولا سے ایک سوار آرہا ہے ۔‘‘نیچے کھڑے ایک مجاہد نے بلند آواز سے اعلان کیا ۔’’سپہ سالار کو اطلا ع کر دو۔‘‘

سپہ سالار سعد ؓبن ابی وقاص مدائن میں کسریٰ کے محل میں قیام پزیر تھے۔ اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ کی زیرِ کمان بارہ ہزار مجاہدین کا لشکر جلولا بھیج کر سعد ؓبن ابی وقاص کی بیتابی کا یہ عالم تھا کہ فجر کی نماز کے بعد شہر کی جلولا کی طرف والی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور قاصد کی راہ دیکھنے لگتے تھے۔ انہوں نے بارہا افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خود جلولا نہ جا سکے۔ ہر بار ان کے اظہارِ افسوس کی تان ان الفاظ پر ٹوٹتی تھی ’’……لیکن امیر المومنین مجھ سے زیادہ بہتر سوچا کرتے ہیں۔‘‘

کمک اور رسد ہر وقت تیار رہتی تھی۔ جوں ہی جلولا سے زخمی اور شہیدوں کی لاشیں آتی تھیں، اسی وقت اتنی ہی تعداد میں مجاہدین جلولا کو روانہ ہو جاتے تھے۔ اُدھر سے رسد کی جو بیل گاڑیاں او ر گھوڑا گاڑیاں خالی واپس آتی تھیں ،اتنی ہی گاڑیاں رسد سے بھر کر روانہ کر دی جاتی تھیں۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے اسّی دن اور راتیں قاصدوں کے انتظار میں اور قاصدوں سے جلولا کے محاصرے کی خبریں سنتے ، انہیں ہدایات دیتے اور احکام دے کر رخصت کرتے ،زخمیوں کی عیادت کرتے اور ذہن میں کشمکش اور اعصاب پر سخت دباؤ لیے گزارے تھے۔ وہ اکیاسیواں دن تھا جب ان کے کانوں میں آوازپڑی کہ جلولا سے ایک سوار آرہا ہے۔

سعد ؓکا گھوڑا ہر وقت تیار رہتا تھا۔ یہ اعلان سنتے ہی سعدؓ دوڑتے باہر نکلے۔ رکاب میں پاؤں رکھ کر سوار ہونے کے بجائے اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے اور باگ کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ جلولا کی طرف والے دروازے سے نکلے۔ گھوڑ سوار ابھی کچھ دور تھا۔ سعدؓ نے اس کی طرف گھوڑا سر پٹ دوڑا دیا۔

’’دور سے بولو۔‘‘ سعدؓ نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’ کوئی خبر لائے ہو؟‘‘

’’فتح مبارک ہو سپہ سالار!‘‘گھوڑ سوار نے جواب دیا ۔’’ہم جلولا میں داخل ہو گئے ہیں۔‘‘

سوارسعدؓ بن ابی وقاص کے قریب آگیا ۔سعدؓ نے اپنا گھوڑا موڑا اور دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو مدائن کی طرف دوڑنے لگے۔

’’رکنا نہیں۔‘‘ سعدؓ نے سوار سے کہا ۔’’وہ دیکھو۔ مدائن کی دیوار پر کتنا ہجوم تمہارے انتظار میں کھڑا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘شہر کے قریب جا کر سعدؓ بن ابی وقاص نے دیوار پر کھڑے ہجوم سے کہا۔’’ میرے بھتیجے نے اپنا عہد پورا کر دیا ہے۔‘‘

جلولا کی فتح کی خبر نے مدائن میں خوشیوں کا ہنگامہ بپا کر دیا۔ مجاہدین کی بیویاں اور بچے مدائن میں آگئے تھے ۔عورتیں بھی باہر نکل آئیں اور مسرت و شادمانی اور فتح و نصرت کے جنگی ترانے گانے لگیں۔

سعدؓ بن ابی وقاص قاصد کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس سے آخری لڑائی کی تفصیلات سنیں۔

’’آپ کا جلولا پہنچنا بہت ضروری ہے۔‘‘ قاصد نے سعدؓ سے کہا۔’’آتش پرست تو حلوان بھاگ گئے ہیں ۔ایساکوئی خطرہ نظر نہیں آتا کہ وہ جوابی حملہ کریں گے یا جلولا کو محاصرے میں لے لیں گے ۔ سردار قعقاع بن عمرو حلوان تک پہنچ گئے ہیں۔ آپ کا وہاں فوراً پہنچنا اس لئے ضروری ہے کہ جلولا میں مدائن کی طرح بہت ہی قیمتی اور خاصا زیادہ مالِ غنیمت ہے۔‘‘

سعدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کے نام جلولا کی فتح کا پیغام لکھوایا ۔قاصد سے جو تفصیلات معلوم ہوئی تھیں وہ لکھوائیں اور اس کے بعد لکھا کہ فارسی بھاگ رہے ہیں۔ ان کے قدم کہیں بھی جم نہیں رہے اور ان کے لڑنے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے۔ اجازت دی جائے کہ ان کا تعاقب جاری رکھا جائے ا ور انہیں اتنی مہلت نہ دی جائے کہ کچھ دنوں کیلئے سستا سکیں۔ انہیں اتنی مہلت مل گئی تو وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو یکجا کر لیں گے اور شہریوں کی بھی فوج بنا لیں گے۔ وہ اب حلوان میں ہیں ۔ہمیں فوراً حلوان کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔

یہ پیغام مدینہ کو بھجوا کر سعدؓ ابن وقاص اپنے محافظ دستے کے ساتھ جلولا کو روانہ ہو گئے۔

٭

جلولا مدائن جیسی اہمیت کا شہر نہ تھا، لیکن وہاں سے مدائن جیسا ہی قیمتی اور بے انداز غنیمت کا مال ملا ۔جلولا میں شاہی خاندان کے دو چار ملازم وہیں رہ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ مال ہے جو شاہی محل کے کارندے مدائن سے لائے تھے اور بڑے بڑے جاگیردار اور تاجر بھی مدائن سے اپنے ساتھ بہت سا سونا، چاندی اور نقدی لائے تھے۔ جلولا کے اسّی دنوں کے محاصرے کے دوران شہریوں کو یزدگرد اور جرنیل خوشخبری سناتے رہے کہ انہوں نے محاصرہ توڑ دیا ہے اور عربوں کواتنا زیادہ نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بھاگ جائیں گے۔

شہر کی دیوار پر کسی شہری کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے لوگوں کو محاصرے کی صحیح صورتِ حال کا پتہ ہی نہیں چل سکتا تھا۔ انہیں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ انہیں جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ وہ اطمینان سے شہر میں بیٹھے رہے اور قیمتی مال و متاع اپنے اپنے طور پر چھپا دیا مگر ایک روز اچانک انہیں پتہ چلا کہ مسلمان خندق کے اندرونی طرف آگئے ہیں اور ان کی اپنی فوج خندق کے باہر چلی گئی ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بری طرح کٹ رہی ہے۔

پھر اچانک مسلمان شہر میں داخل ہونے لگے اور فارس کی فوج کی جو نفری شہر کے اندر تھی وہ بھاگنے لگی۔ دیوار پر جو تیر انداز اور برچھی باز تھے وہ دیوار سے غائب ہونے لگے ۔شہر میں افراتفری بپا ہو گئی اور یہ خبر بھی شہر میں پھیل گئی کہ شہنشاہِ فارس یزدگرد اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رات کو ہی بھاگ کر حلوان پہنچ گیا ہے۔

’’کہاں ہے شہنشاہ جو ہمیں کہتا تھا کہ فارس کی آن پر مر مٹو۔‘‘

’’پوران کہاں گئی جو کہتی تھی کہ سلطنتِ فارس پر اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دے گی۔‘‘

ؔؔ’’شہنشاہ کی ماں کو بلاؤ جو اپنے بیٹے کو بچاکر لے گئی ہے۔‘‘

’’بھاگو لوگو بھاگو‘ ہمیں اپنے جرنیلوں نے دھوکا دیا ہے۔‘‘

جلولا کے اندر میدانِ حشر کا منظر بپا تھا۔ جاگیرداروں، تاجروں اور امرأ کو اپنی جانوں کا، اپنی نوجوان بیٹیوں اور جوان عورتوں کا اور اپنے بچوں کا غم اور فکر لگ گیا۔ عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ بھاگنے والی فوج کے گھوڑوں کے ٹاپوں کا شور تھا۔ بعض فارسی سواروں نے بچوں کو روند ڈالا۔ اُدھر مسلمان شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ لوگ بلند آواز میں اپنے شہنشاہ، اس کے خاندان اور جرنیلوں کو کوس رہے تھے۔ وہاں صورتِ حال کچھ اور تھی ورنہ یہی لوگ اپنے شہنشاہ کے خلاف بغاوت کر دیتے ۔اب تو ان کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔

قیامت کی اس صورتِ حال میں لوگ اپنے اہل و عیال کو بچا کر بھاگ جا نے کے سوا کچھ بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔جن کے گھروں میں زرو جواہرات اور دولت تھی، وہ سب کچھ بھول گئے اور اپنی جانیں لے کر شہر سے نکل گئے۔ شہر کے باہر انہو ں نے جو منظر دیکھا اس سے ان کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ انہیں اپنی فوج نظر آرہی تھی، جس کے سوار اور پیادے وسیع علاقے میں بکھرے ہوئے مُڑ کے پیچھے دیکھے بغیر سر پٹ بھاگے جا رہے تھے۔

مجاہدین ابھی اپنی پوری تعداد میں شہر میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ شہر خالی ہو گیا۔ پھر بھی کچھ لوگ پیچھے رہ گئے ۔ان میں بوڑھے تھے ،بچے تھے،مریض تھے اور خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو محنت مزدوری یا امرأ کے گھروں میں نوکری کر کے روز مرہ کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ ان میں ان کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھی تھیں۔

مکانوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ مکان خالی تھے۔ بعض مکانوں میں سے بے انداز دولت، ہیرے جواہرات ملے اور کچھ مکانوں میں چھپی ہوئی عورتیں بھی ملیں۔ انہیں گھر والے بھاگتے وقت بھول گئے تھے۔ ان عورتوں نے چھپ جانا ہی بہتر سمجھا ۔مجاہدین جب مکانوں کی تلاشی لے رہے تھے، تب یہ عورتیں اپنے آپ ہی سامنے آگئیں۔

ان میں بہت کم ایسی عورتیں تھیں جنہوں نے رو رو کر مجاہدین سے التجا کی ہو کہ ان کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر عورتیں خود ہی مجاہدین کے سانے آگئیں ۔وہ اپنی فوج کو اپنے مردوں کو بزدل اور دھوکے باز کہہ رہی تھیں۔ ان میں بعض نے خوشی کا اظہار کیا کہ ان کے بزدل مرد بھاگ گئے۔ دو تین مؤرخوں نے ان کے متعلق ذرا تفصیل سے لکھا ہے ۔سعدؓبن ابی وقاص جلولا میں آئے تو ان تمام عورتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے سعدؓ کو بتایا گیا ۔سعدؓ وہاں آئے۔

’’میں تمہارے چہروں پر خوف دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے ترجمان کی وساطت سے عورتوں سے کہا۔’’ اور میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ رہاہوں۔ خدا کی قسم!تم اس قوم کے ہاتھوں میں ہو جو عورت کا احترام اور مریض کی تیمارداری کرتی ہے ۔تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔‘‘

’’اے عربی سپہ سالار!‘‘ایک جواں سال فارسی عورت بلند آواز سے بولی۔’’ ہم بزدلوں کی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں ۔اس سے زیادہ بزدلی اور کیا ہو گی کہ وہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ تمہیں پورا حق حاصل ہے کہ تم ہمارے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کرو اور ہمارے مردوں کو اس کا پتہ چلے کہ ان کی عزت کے ساتھ عربی کھیل رہے ہیں ۔ہمارے جسموں کو مٹی کے کھلونے سمجھ کر توڑ پھوڑ دو۔ تم فاتح ہو ،تم بہادر ہو۔‘‘

’’خدا کی قسم!اے عجم کی بیٹی ‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ تیری شادی تجھ جیسے بہادر عربی سے کراؤں گا۔ تم میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں ہو گا جو فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ہم جسموں پر نہیں بلکہ جسموں کے اندر دھڑکتے ہوئے دلوں پر قبضہ کیا کرتے ہیں ۔یہ ہمارا ایمان ہے اور یہ ہمارا دین ہے اور یہ ایک آسمانی تحفہ ہے جو ہم تمہارے لیے لائے ہیں۔‘‘

’’پھر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ ‘‘ایک نوجوان لڑکی نے پوچھا۔

’’تم سب کو ہم اپنی عورتوں کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے جواب دیا۔’’ پھر تمہیں عرب کے شہر مدینہ بھیجا جائے گا ۔تمہیں ہمارے امیر المومنین دیکھیں گے اور پھر باقاعدہ شادیاں کرادی جائیں گی۔ تم میں کسی کو بھی داشتہ یعنی بے نکاحی بیوی بنا کر نہیں رکھا جائے گا……کیا تم پسند کرو گی کہ تمہیں تمہارے اُن ہی مردوں کے حوالے کر دیا جائے جو تمہیں پیچھے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ؟ کیا ایسانہیں ہو سکتا کہ آج وہ تمہیں ہمارے حوالے کر گئے ہیں اور کل وہ تمہیں رومیوں کے آگے پھینک کر بھاگ جائیں؟‘‘

’’نہیں، نہیں!‘‘بہت سی عورتوں نے انکار کر نا شروع کر دیا اور ان کی اس قسم کی آوازیں سنائی دیں ۔’’ہم اب اپنے مردوں کے پاس نہیں جائیں گی……خدائے آفتاب کا قہر نازل ہو اُن بے غیرت اور بزدل مردوں پر ……اگر تم ہمیں دھوکا نہیں دے رہے تو ہم تمہارے پاس رہیں گی……تمہارا دین سچا ہے تو ہم پر اس کی صداقت ثابت کرو۔‘‘

’’ہم نے عراق کے کتنے ہی شہر فتح کیے ہیں۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ اُن شہروں کے لوگ دوسرے شہروں میں جاتے رہے ہیں۔ کیا تم نے کبھی کسی سے سنا ہے کہ عربوں نے کسی عجمی عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے؟‘‘

’’نہیں!‘‘بہت سی عورتوں نے جواب دیا ۔’’ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے حکم دیا کہ ان عورتوں کو اپنی عورتوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مالِ غنیمت کے ساتھ انہیں مدینہ بھیجا جائے گا۔

٭

سعدؓ بن ابی وقاص جلولا کے محل میں گئے ،جہاں مالِ غنیمت اکٹھا کیا جارہا تھا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جلولا مدائن جیسا بڑا شہر نہ تھا لیکن وہاں سے جو مالِ غنیمت ملا وہ مدائن والے مالِ غنیمت سے اگر زیادہ اور قیمتی نہ تھا تو اس سے کم بھی نہ تھا۔ تاریخوں کے مطابق جلولا سے باربرداری کے جانور یعنی اونٹ ،گھوڑے اور بَیل اتنے زیادہ ملے کہ ہر سوار کے حصے میں نو نو گھوڑے آئے ۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے مالِ غنیمت اپنے تمام لشکر میں تقسیم کیا۔ جن مجاہدین نے اسّی روز لڑ کر جلولا فتح کیا تھا انہیں انعام کے طور پر خاصا زیادہ حصہ دیا گیا۔ شہیدوں کی بیوگان کو ان سے بھی زیادہ حصہ دیا گیا ۔یہ تقسیم اس حکم کے مطابق تھی جوحضرت عمرؓ نے شروع سے ہی دے رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا کہ خمس یعنی خلافت کا حصہ کم آیا ہے یا زیادہ ۔وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ گھروں سے دور صحراؤں دریاؤں اور سنگلاخ چٹانوں میں لڑنے اور جانیں قربان کرنے والوں کو اتنا حصہ ملے کہ ان کے بچے جوان ہونے تک کسی کے محتاج اور دستِ نگر نہ رہیں۔

مالِ غنیمت کا خُمس زیاد بن ابی سفیان کی نگرانی میں مدینہ بھیجا گیا ۔جلولا شہر کے جن آدمیوں اور عورتوں کو پکڑا گیا تھا انہیں بھی اس قافلے کے ساتھ مدینہ بھیج دیا گیا۔

بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مالِ غنیمت کا جو حصہ مدینہ جا رہا تھا، اس کی بات پہلے کرلی جائے۔

زیاد بن ابی سفیان کے قافلے نے ایک ایسی جگہ پڑاؤ کیاجو صحرا تھا۔ اردگرد صحرائی چٹانیں تھیں ۔دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قافلے کے پاس پانی کی کوئی کمی نہیں تھی ورنہ وہاں دور دور تک پانی نہیں مل سکتا تھا۔ رات کھانے کے بعد زیاد بن سفیان اپنے ساتھیو ں کے ساتھ بیٹھا اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا۔

’’میرے رفیقو!‘‘زیاد نے کہا۔ ’’یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے تاجروں کا کوئی خوش قسمت قافلہ ہی خیریت سے گزر جایا کرتا تھا۔ ڈاکو ان قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔اب کتنی ہی بار مالِ غنیمت کے قافلے یہاں سے لُٹے بغیر گزر گئے ہیں۔ اگر ڈاکو آجائیں تو ہم سے انہیں اتنا زیادہ مال و دولت ملے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔‘‘

’’ہاں زیاد!‘‘زیاد کے ایک ساتھی نے کہا۔ ’’وہ آئیں تو ہمیں لوٹ سکتے ہیں ۔وہ تو پوری فوج کی صورت میں آتے ہیں ۔ہم ان کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت کم تعداد میں ہیں۔‘‘

’’اب وہ نہیں آئیں گے ۔‘‘ایک ادھیڑ عمر مجاہد نے کہا۔’’ جانتے ہو کیوں؟ ……پہلے عرب کے یہ لوگ بڑی سخت محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے ،پھر بھی ان کے پیٹ پوری طرح نہیں بھرتے تھے۔ انہوں نے یمن شام اور عر ب کے تاجروں کے قافلوں کو لوٹناشروع کر دیا۔ ایک قافلے کو لوٹ کر وہ بہت دن محنت و مشقت کے بغیر اپنے بچوں کے پیٹ بھر لیتے تھے ۔جب سے شام اور عراق سے مالِ غنیمت آنے لگا ہے قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملے کم ہو گئے ہیں۔ تم شاید نہیں جانتے کہ بہت سے ڈاکو مجاہدین کے لشکر میں شامل ہو کر شام اور عراق کے محاذوں پر لڑنے کیلئے چلے گئے تھے۔وہ بہادری اور دیانت داری سے لڑے اور ان کے حصے میں جو مالِ غنیمت آتا رہا وہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔‘‘

’’تمہاری یہ بات میرے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ‘‘ایک اور مجاہد بولا۔’’ جو ایک بار ڈاکو بن جائے وہ سار ی عمر یہی کام کرتا ہے ۔جہاد میں شامل ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘

’’نہیں میرے دوست! ‘‘ادھیڑ عمر مجاہد نے کہا۔’’ ڈاکو مجاہد بن سکتا ہے۔ میں ہوں ایک مجاہد جو پہلے ایک ڈاکو ہوا کرتا تھا۔ میرے قبیلے نے تو ڈاکہ زنی اور رہزنی کو اپنا باقاعدہ پیشہ بنا لیا تھا ۔اب میرے قبیلے میں ایک بھی آدمی ڈاکو نہیں۔ سب محاذ پر لڑ رہے ہیں……جب سے عمر الخطاب خلیفہ بنے ہیں ،ڈاکہ زنی کی وارداتیں تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ اس خلیفہ نے تمام عرب میں ایسے سخت حکم بھیجے ہیں کہ لوگ ہاتھ پاؤں کٹنے کے ڈر سے ڈاکہ زنی اور رہزنی چھوڑ گئے ہیں ۔ہم لوگوں نے دیکھا کہ مالِ غنیمت میں سے سالار کو بھی اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا مجھ جیسے گناہگار کو تو پھر کمزوروں کے قافلوں کو لوٹنے کی کیا ضرورت ہے ؟آدمی کو اس کا پورا حق اور انصاف مل جائے تو وہ ڈاکو اور راہزن کیوں بنے۔‘‘

مشہور تاریخ دان محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں اور مبصروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ صحرا کے وہ تمام علاقے جن میں ڈاکوؤں کی حکمرانی تھی جہاد کی وجہ سے محفوظ ہو گئے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسا ن کو کوئی بلند اور مقدس نصب العین دے دیا جائے تو وہ از خود ہی جرم اور گناہ کا راستہ چھوڑ کر صراطِ مستقیم پر آجاتا ہے ۔اگر لوگوں کو حکم ران اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگیں اور انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازیں تو وہ لوگ کیوں دین اور ایمان کی پابندیوں کو قبول کریں گے۔ حکمران قیادت میں مخلص ہوں اور لوگوں کو ایک عظیم نصب العین دیں تو وہاں وعظ اور خطبے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لوگ خود ہی ایک قوم بن جاتے ہیں اور پھر ان کا قدم راہِ راست پر آگے ہی اٹھتا ہے،پیچھے نہیں آتا نہ ان کے قدم لڑکھڑاتے ہیں۔

٭

مشہور تاریخ دان محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں اور مبصروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ صحرا کے وہ تمام علاقے جن میں ڈاکوؤں کی حکمرانی تھی جہاد کی وجہ سے محفوظ ہو گئے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسا ن کو کوئی بلند اور مقدس نصب العین دے دیا جائے تو وہ از خود ہی جرم اور گناہ کا راستہ چھوڑ کر صراطِ مستقیم پر آجاتا ہے ۔اگر لوگوں کو حکم ران اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگیں اور انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازیں تو وہ لوگ کیوں دین اور ایمان کی پابندیوں کو قبول کریں گے۔ حکمران قیادت میں مخلص ہوں اور لوگوں کو ایک عظیم نصب العین دیں تو وہاں وعظ اور خطبے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لوگ خود ہی ایک قوم بن جاتے ہیں اور پھر ان کا قدم راہِ راست پر آگے ہی اٹھتا ہے،پیچھے نہیں آتا نہ ان کے قدم لڑکھڑاتے ہیں۔

٭

٭

مالِ غنیمت کا قافلہ مدینہ پہنچا ۔وہاں بھی جلولا جیسا مسرت و شادمانی اور فتح و نصرت کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے خود آگے بڑھ کر زیاد بن ابی سفیان کا استقبال کیا اور قافلے کا رُخ مسجدِ نبویﷺ کی طرف کر دیا اور وہاں پہنچ کر تمام مال مسجد کے صحن میں رکھوا دیا۔

مدائن کا مالِ غنیمت آیا تھا تو حضرت عمرؓ سمیت ہر وہ شخص حیران و ششدرہ رہ گیاتھا جس نے یہ مال دیکھا تھا۔ سب یہ سوچ کر حیران ہوئے تھے کیا انسان اپنی آسائش اور عیش و عشرت کیلئے اتنے خزانے اور ایسی عجیب و غریب اشیاء اپنی ملکیت میں رکھتا ہے؟اب جلولا کا مالِ غنیمت آیاتو ایک بار پھر عربوں کی آنکھیں اور منہ حیرت سے کھل گئے۔ انہو ں نے جب ان فارسی عورتوں کو دیکھا جو جلولا سے لائی گئی تھیں تو وہ زیادہ حیران ہوئے ۔وہ سب فارس کے حسن کے چلتے پھرتے دل کش مجسمے تھے۔ ان میں شاہی خاندان کی کنیزیں بھی تھیں ،جن کا حسن بے مثال تھا۔

حضرت عمرؓ نے ان تمام عورتوں کو وہاں بھیج دیا، جہاں ان کی نگرانی عورتوں نے ہی کرنی تھی۔

عشاء کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ اذان ہوئی اور امیر المومنین ؓنے نماز کی امامت کی ۔ نماز سے فارغ ہو کر مالِ غنیمت کھولا گیا ،چراغوں اور مشعلوں کی روشنی میں ہیرے اور نایاب پتھر چمکنے لگے ۔ان میں سے رنگا رنگ شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ سونے اور چاندی کی اشیاء کی چمک الگ تھی۔ نظریں خیرہ ہو رہی تھیں۔ چمکتی ہوئی یہ بیش قیمت اشیاکچھ کم نہ تھیں بلکہ یہ ایک انبار تھا ۔ان کے علاوہ اور بھی بے شمار چیزیں تھیں۔ جن کی قیمت کا اندازہ لگانا محال تھا۔ مال بھی اتنا زیادہ جو کم از کم عربوں کے تصور میں نہیں سما سکتاتھا۔

حضرت عمر ؓکا جو ردِ عمل تھا وہ تاریخ کے دامن میں آج تک محفوظ ہے۔ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے آنسو بہہ نکلے اور حضرت عمر ؓکی سسکیاں نکل گئیں۔

’’امیر المومنین! ‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ خدا کی قسم!یہ تو شکر اور شادمانی کا موقع ہے اور آپ رو رہے ہیں؟‘‘

’’تو نے ٹھیک کہا ابنِ عوف! ‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’میں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں اس شادمانی پر۔ یہ بے بہا دولت دیکھ کر مجھے رونا نہیں آیا نہ میں اس لیے رویا ہوں کہ یہ تقسیم ہو جائے گی۔ میرے آنسو یہ سوچ کر نکلے ہیں کہ جس قوم کو اﷲ اتنے بے بہا خزانے دے دیتا ہے وہ قوم اپنے دل میں کینہ اور حسد بھی پیدا کر لیتی ہے۔ یاد رکھ ابنِ عوف!جس انسان اور جس قوم میں کینہ اور حسد پیدا ہوا وہ وقار سے بھی محروم ہو گئی۔ دولت انسان کو عیش و آرام میں ڈال دیتی ہے۔ عمل اور جہاد کی قوتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اخوت باہمی تعاون اور ہمدردی کا جذبہ مرجاتا ہے ۔سکون اور فراغت سے کمزوری اور کینہ پروری جنم لیتی ہے۔ بندہ بندے کا دشمن ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ اورمیرے پاس کم ہے……خدا کی قسم!میں صبح کا اجالا سفید ہونے سے پہلے یہ مال و دولت نظروں سے اوجھل کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’یہ بیت المال میں رکھ دیا جائے امیر المومنین!‘‘کسی نے مشورہ دیا۔

اس کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں۔

’’نہیں۔ ‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ بیت المال کی چھت کے نیچے رکھنے سے پہلے میں اس مال کو تقسیم کردوں گا۔‘‘

وہاں جو صحابہ کرامؓ موجود تھے وہ غالباً نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم اتنی عجلت میں کی جائے۔ خدشہ تھا کہ جلد بازی میں کسی کا حق مارا جائے گا۔ انہوں نے حضرت عمر ؓکو قائل کر لیا کہ تقسیم صبح کی جائے گی۔

’’ہاں امیر المومنین! ‘‘ایک صحابیؓ نے کہا۔’’ تقسیم کا یہ وقت موزوں نہیں۔ ہم نے ابھی محاذ کی رُوداد تو سنی ہی نہیں۔ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اس وقت ہم سنیں کہ ہمارے مجاہدین نے اتنے طاقتور دشمن سے اتنے بڑے دو شہر یکے بعد دیگرے کس طرح لے لیے ہیں؟‘‘

تاریخوں کے مطابق حضرت عمرؓ زیاد بن ابی سفیان سے سن چکے تھے کہ جلولا کس طرح لیا گیا ہے۔ یہ ساری بات حضرت عمرؓ سب کو خود سناسکتے تھے لیکن انہوں نے زیاد بن ابی سفیان سے کہا کہ وہ محاذ کے پورے حالات سب کو سنائے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ زیاد بن ابی سفیان حضرت عمرؓ کی موجودگی میں بولنے سے گھبرا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسے ایک بار پھر کہا۔ دراصل محاذ کی لمحہ بہ لمحہ دستان زیاد بن ابی سفیان ہی سنا سکتا تھا کیونکہ وہ خود لڑا تھا۔ حضرت عمر ؓکی حوصلہ افزائی سے وہ بولنے پر آمادہ ہوگیا۔

’’امیر المومنین! ‘‘زیاد بن ابی سفیان نے کہا۔’’ میں اگر کسی سے مرعوب ہوں تو وہ صرف آپ ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ کے مقد س رعب اور احترام سے میری زبان رُک نہ جائے۔ پھر سوچتا ہوں کہ آپ کو سنادیا ہے تو سب کو بھی سنا سکوں گا۔‘‘

زیاد بن ابی سفیان کی یہ جھجک بے معنی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ بھی بھلا کوئی بات تھی کہ جو لڑائی زیاد خود لڑا تھا اس کا پورا حال وہ سنا نہ سکتا۔ اصل بات یہ تھی کہ عرب شاعرانہ انداز میں بات کرتے تھے۔ تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال بھی خوب کرتے تھے ۔اس فن کی مہارت ہر کسی کو حاصل نہیں تھی ۔ان کی باتیں اور واقعات منظومنثر جیسے ہوتے تھے ۔سیدھے سادے انداز میں بات کی جاتی تو وہ اسے روکھی پھیکی بات سمجھتے تھے۔

زیاد اپنے آپ میں یہی جھجک محسوس کررہا تھا۔ کیونکہ اس محفل میں صحابہ کرامؓ بھی تھے جن کا اندازِ تکلم پر اثر اور دلکش تھا۔ حضرت عمرؓ تو اس فن کی خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔بہرحال زیاد بن ابی سفیان نے جلولا کے محاصرے کا اور لڑائیوں کی رُوداد سنانی شروع کر دی۔ اس کے اندازِ تکلم میں فصاحت و بلاغت اور چاشنی ایسی تھی کہ حضرت عمرؓ بیساختہ بول اٹھے:

’’خداکی قسم!یہ ہے خطیب اور یہ زبان کا ماہر خطیب ہے۔‘‘

’’امیر المومنین!‘‘زید حضرت عمرؓ جیسے عظیم خطیب سے دادو تحسین پاکر حوصلہ مند ہو گیا اور بولا۔’’ ہمارے مجاہدین نے میدانِ جنگ میں جو کارنامے کر دکھائے ہیں۔ انہو ں نے ہماری زبانیں کھول دی ہیں۔‘‘

زیاد نے تمام واقعات سنا دیئے ۔یہ بھی سنایا کہ قعقاع بن عمرو فارسیوں کے تعاقب میں حلوان تک جا پہنچے ہیں۔

اس کے بعد محفل برخاست ہوئی۔ مالِ غنیمت پر دو صحابہ کرام ؓعبدالرحمٰن بن عوفؓ اور عبداﷲؓ بن ارقم نے پہرہ دیا۔ فجر کی نماز کے بعد حضرت عمرؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کر دیا۔

٭

اب ہم جلولا کے اس دن کی طرف لوٹتے ہیں جس دن سعدؓ بن ابی وقاص جلولا پہنچے اور حضرت عمر ؓکے نام پیغام لکھ کر بھجوایا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ فتح کا یہ پیغام زیاد بن ابی سفیان کے ہاتھ بھیجا گیا تھا ۔یعنی یہ پیغام مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ گیا تھا اور اس کا جواب زیاد ہی جلولا لے کر گئے تھے۔

پیغام کے جانے اور امیر المومنین ؓکا جواب آنے کیلئے کم و بیش ایک مہینے کا عرصہ درکار تھا۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے جلولا سے آگے پیش قدمی اور حلوان کے محاصرے کی اجازت مانگی تھی۔ حضرت عمرؓ کی اجازت کے بغیر سعدؓ ایک قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ لیکن وہاں صورتِ حال ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ حضرت عمرؓ کے احکام آنے تک مجاہدین نقصان سے دوچارہو سکتے تھے۔

یہ صورتِ حال قعقاع اور اس کے قبیلے نے پیدا کی تھی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ قعقاع جلولا سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں حلوان پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے فارسیوں کے ایک نامور جرنیل مہران کو تھوڑے سے مقابلے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ قبیلے کی مختصر سی نفری سے حلوان کو محاصرے میں نہیں لیا جا سکتا تھا۔ لیکن قعقاع واپس بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ انہوں نے حلوان سے تین میل دور قصرِ شیریں کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔

سعدؓ بن ابی وقاص کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے قعقاع کو واپس بلانا مناسب نہ سمجھا۔ ایک اس لئے کہ قعقاع اور اس کے قبیلے کا دل ٹوٹ جائے گا اور دوسرے یہ کہ انہیں واپس بلایا تو فارسی اسے پسپائی سمجھیں گے اور یہ بھی کہ مسلمان نفری کی قلت کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں، یہ سوچ کر وہ جلولا پر جوابی حملہ بھی کر سکتے تھے۔

اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کر کے سعد ؓبن ابی وقاص نے قعقاع بن عمرو کو کمک بھیج دی۔

٭

اس وقت یزدگرد حلوان میں تھا۔ اسے ابھی کچھ خبر نہیں تھی کہ جلولا کاانجام کیاہوا ہے ۔وہ آخری دن کی لڑائی شروع ہونے سے کچھ دن بعد جلولا سے نکل گیاتھا ۔اسے اپنے فوج کے حالات مخدوش نظر آرہے تھے۔ پھر بھی اسکے دل میں یہ امید زندہ تھی کہ اس کی فوج مسلمانوں کو پسپا کر دے گی۔

مؤر خ لکھتے ہیں کہ یزدگرد کی ذہنی حالت بگڑ گئی تھی ۔کبھی تو وہ غصے سے پھٹنے لگتا اور کبھی بولنا شروع کرتا اور بولتا ہی چلا جاتا ۔چونکہ وہ شہنشاہ تھا اس لیے سننے والے اپنا فرض سمجھتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی بول رہا ہے وہ سنتے رہیں ۔پھر ایسے بھی ہوتا کہ اس پرخاموشی طاری ہو جاتی اور وہ بیٹھا خلا میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا۔ وہ جب تخت نشین ہوا تھا اس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی۔ اب وہ تقریباً انیس سال کا نوجوا ن آدمی تھا۔ چنانچہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کم سن اور نا تجربہ کار ہے۔

حلوان کے محل میں وہ کچھ ایسی ہی کیفیت میں بیٹھاتھا۔ اس کے سامنے شراب کی صراحی رکھی تھی جس سے وہ خاصی شراب پی چکا تھا ۔اس کے پینے کا انداز بتاتا تھا کہ وہ اب بیدار نہیں رہنا چاہتا اور اپنی زندگی کے اتنے بڑے حادثے کو شراب میں ڈبو دینا چاہتا ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرا رہا تھا ۔اس کی ماں اور پوران ا س کے سامنے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ کہنے اور سننے کیلئے ا ن کے پاس اب کوئی بات نہیں رہ گئی تھی۔ ماں اب صرف یہ چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا زندہ رہے ۔مدائن کے بعد جلولا ان کا آخری اور مضبوط مورچہ تھا ۔وہ بھی ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا ۔

باہر سے کوئی آہٹ سنائی دیتی تو یزدگرد چونک کر اس طرف دیکھتا ۔اسے جلولا کی خبر کا انتظار تھا۔ اس نے ایک بار پھر صراحی اٹھائی اور پیالے میں شراب انڈیلنے لگا تو پوران نے لپک کر اس کے ہاتھ سے صراحی چھین لی۔

’’اور نہیں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ یہ وقت مدہوش ہونے کا نہیں ،بیدار رہنے کا ہے میرے بھائی!‘‘

یزدگرد نے پوران کی طرف دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں مایوسی اور بے بسی تھی ۔پوران نے صراحی الگ رکھ دی۔

’’مجھے جھوٹی امیدوں کے سہارے کب تک ہوش میں رکھو گی پوران!‘‘یزد گرد نے شکست خوردہ لہجے میں کہا،۔’’اگر تم یہ آس لگائے بیٹھی ہو کہ جلولا سے فتح کی خبر آئے گی تو یہ تمہاری خوش فہمی ہو گی۔‘‘

دربان اندر آیا۔ یزدگرد نے اسے دیکھا جیسے موت کا فرشتہ آیا ہو۔

’’جرنیل فیروزان آئے ہیں۔‘‘ دربان نے کہا۔

’’فوراً اندر آجائے۔‘‘ یزدگرد نے مخمور آواز میں کہا۔

دربان اُلٹے قدموں باہر نکل گیا۔

٭

فیروزان اندر آیا ۔ آداب بجا لانے کیلئے اس نے گھٹنے فرش پر ٹیک دیئے اور سجدے میں جانے کے انداز سے جھکنے لگا۔

’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘یزدگرد نے گرج کر کہا۔’’ کیا خبر ہے؟……تمہارا چہرہ بتارہا ہے خبر اچھی نہیں۔‘‘

فیروزان جو خبر زبان پر لانے سے گھبرا رہا تھا وہ آنکھوں نے آنسوؤں کی زبان میں کہہ دی۔

’’مہران کہاں ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’خانقین کے قریب مارا گیا ہے ۔‘‘فیروزان نے دبی دبی آواز میں جواب دیا ۔’’عربی سوار ہمارے پیچھے آرہے تھے۔‘‘

’’اور تم جان بچا کر بھاگ آئے!‘‘یزدگرد نے مدہوش سے لہجے میں طنزیہ کہا۔

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے بیدار ہوتے ہوئے جاندار لہجے میں کہا ۔’’اگر آپ ایک بھی ایسی مثال دے دیں کہ اکیلے ایک یا دو جرنیلوں نے فوج کے بغیر جنگ جیتی ہو تو میں اپنا سر پیش کرتا ہوں۔ اپنی تلوار سے میرا جسم الگ کر دیں۔ میں آج ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جو شاہی دربار میں اس لئے نہیں کہی جاتی کہ شہنشاہ کا عتاب نازل ہو گا۔‘‘

’’اور اسی لیے ہم پسپا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میں نے تم سب کو اجازت دے رکھی تھی کہ جو کہنا ہے کہو ۔میں ہر وقت اور ہر حالت میں سچ سننے کیلئے تیار رہتا تھا۔ یہ تم لوگوں کی بزدلی ہے اور بد دیانتی بھی کہ تم نے اپنا انداز خوشامدانہ رکھا اور مجھے حقیقتِ حال نہ بتائی……کہو، بات کتنی ہی کڑوی اور مایوس کن کیوں نہ ہو ، میں سنوں گا اور برداشت بھی کروں گا ، فوراً کہو۔‘‘

’’شہنشاہِ معظم!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ سب سے پہلی اور بہت بری خبر یہ ہے کہ ہم جلولا ہار بیٹھے ہیں ۔ہماری ایک لاکھ سے کچھ زیادہ فوج ماری گئی ہے۔‘‘

’’کیا عربوں کو زیادہ کمک مل گئی تھی؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’’ کیا عربوں نے منجیقوں سے شہر پر سنگ باری کی تھی؟‘‘

’’نہیں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے جواب دیا۔’’ عرب اتنے ہی تھے جتنے پہلے روز تھے ۔میرا اندازہ دس بارہ ہزار ہے۔ انہو ں نے منجیقیں استعمال ہی نہیں کیں۔‘‘

’’پھر ہوا کیا؟‘‘

’’شہنشاہ!‘‘فیروزان نے جواب دیا۔’’ ہم نے آخری حملہ اپنی پوری تعدادسے کیا۔ہم عربوں سے تعدادمیں دس گنا تھے۔ ہمارے دس آدمیوں کے حصے میں صرف ایک عربی آتا تھا ۔لیکن ہوا یہ کہ ہماری فوج خندق کے راستوں سے باہر نکلی تو عربوں نے خندق کے راستوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی عربوں کی طرف سے اعلان ہونے لگے کہ خندق ان کے قبضے میں آگئی ہے ۔یہ سنناتھا کہ ہماری فوج نے آگے بڑھ کر عربوں کو کاٹ دینے کے بجائے خندق کے اندر آنے کے جتن شروع کر دیئے۔‘‘

’’میں سمجھ گیا ۔‘‘یزدگرد نے آہ لے کر کہا۔’’ ان بد بختوں کے دلوں پر عربی سواروں کا جو خوف طاری تھا وہ ہم نہیں اتار سکے۔‘‘

’’پھر جو ہوا وہ ہماری فوج کا قتلِ عام تھا۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ ہماری فوج اندھا دھند پیچھے ہٹ رہی تھی۔ بے شمار سوارگھوڑوں سمیت خندق میں گرے اور اپنے ہی گھوڑوں تلے کچلے گئے ۔اس صورتِ حال سے عربوں کا حوصلہ بلند ہو نا ہی تھا۔ وہ ایک ہڑبونگ تھی اورا فراتفری نفسانفسی کا عالم تھا، جس میں ہماری للکار اور چیخ و پکار رائیگاں جا رہی تھی ۔ہماری فوج نے جب دیکھا کہ خندق کے اندرونی علاقے میں جانا ممکن نہیں تو فوج تتّر بتّر ہو کر بھاگنے لگی۔ عربوں نے تعاقب کیا اور ہمیں مزید نقصان پہنچایا۔‘‘

’’کیاتم کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہو؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’ہاں شہنشاہ! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ کہنے والی بات یہ ہے کہ جلولا کے لوگ باغی ہوتے جا رہے ہیں۔ جلولا بالکل خالی ہو گیا ہے۔ انہوں نے جو لعن طعن مجھے کی ہے وہ میں آپ تک نہیں پہنچا سکتا ۔مختصر بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں جانیں قربان کرنے کے سبق دینے والے بادشاہ خود بھاگ گئے ہیں۔ شہنشاہِ فارس!اب ان لوگوں سے کسی تعاون کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘

فیروزان نڈر ہو کر یزدگرد کو جلولا کے لوگوں رد عمل پوری تفصیل سے بتاتا رہا اور یہ رائے بھی دی کہ لوگ فوج سے متنفّر ہو گئے ہیں۔ یزدگرد خاموشی سے سنتا رہا۔

’’کیا ہمارے پاس کوئی عربی جنگی قیدی ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’میرا خیال ہے تین ہیں۔‘‘ فیروزان نے جواب دیا۔’’ شہنشاہ!فاتح فو ج کا کوئی قیدی مشکل سے ہی ہاتھ آیا کرتا ہے ۔عرب کے یہ مسلمان قید ہو جانے کے بجائے مرجانا بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ تین قیدی اس طرح ہاتھ آئے کہ زخمی پڑے تھے چلنے سے معذور تھے۔ ہمارے کسی فوجی افسر نے حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے لیکن دو تاجروں نے انہیں بچا لیا اور کہاکہ وہ انہیں ٹھیک کر کے اپنے ہاں غلام بنا کر رکھیں گے۔ اس طرح دو کو ایک تا جر اور ایک کو دوسرا لے گیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم مدائن سے نکلے تھے۔میرا خیال ہے کہ تینوں اب تک ٹھیک ہو چکے ہوں گے۔‘‘

’’کیا وہ مل سکتے ہیں؟‘‘ یزدگر دنے پوچھا۔’’ میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’ہاں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اگر وہ حلوان میں ہوئے تو مل جائیں گے۔‘‘

یزدگرد نے فیروزان کو یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ وہ ذرا سستا لے اور پھر اس نے حکم دیا کہ جن تاجروں کے پاس تین غلام ہیں انہیں دربار میں پیش کیا جائے۔

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے جانے سے پہلے کہا۔’’ عربوں کا ایک دستہ قصرِ شیریں کے قریب پہنچا ہوا ہے۔ ایسالگتا ہے جیسے یہ دستہ واپس نہیں جائے گا۔‘‘

’’اس کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔

٭

اُسی رات کا واقعہ ہے۔ یزدگرد کھانے سے فارغ ہو کر شراب سے دل بہلا رہا تھا۔ اس کی ماں اور پوران اس کے پاس بیٹھی تھیں ۔شہنشاہ کے ساتھ بڑی ہی دلکش کنیزوں کی موجود گی لازمی سمجھی جاتی تھی لیکن یزدگرد اتنا دلبرداشتہ ہو گیا تھا کہ اس نے اپنی تمام کنیزوں اور حرم کی عورتوں کو مدائن میں ہی چھوڑ دیا تھا اور اب وہ مسلمانوں کے پاس تھیں۔ یزدگرد کے ساتھ اب دو ہی عورتیں رہتی تھیں۔ ایک اس کی ماں تھی اور دوسری اس کی سوتیلی بہن پوران ۔وہ دیکھ رہی تھیں کہ یزدگرد کا ذہنی توازن بگڑتا جا رہا ہے، اس لیے اسے تنہا نہیں چھوڑتی تھیں۔

کچھ دیر پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ تینوں عرب غلام مل گئے ہیں اور وہ لائے جا رہے ہیں۔یزدگرد کی ماں نورین اور پوران نے اس سے پوچھا کہ وہ ان قیدیوں کو کیوں بلا رہا ہے؟ توقع تھی کہ وہ ان تینوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے دل کی بھڑاس نکالے گا۔

’’میں ان سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ یزدگرد نے اپنی ماں اور پوران کو بتایا۔’’ میرا خیال تھا کہ جادو اور سحر صرف یہودیوں کے پاس ہے ۔وہ میں نے آزما لیا ہے ۔اُس یہودی ربی نے دریا کے کنارے اپنا عمل شروع کیا تھا اور خود ہی اپنے ساتھی سمیت مگر مچھوں کا نوالہ بن گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان عربوں کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جو یہودیوں کے جادو سے زیادہ تیز ہے۔ میں ان تین عربوں سے اس جادو کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘

نورین اور پوران پریشانی اور غم کی حالت میں یزدگرد کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ یقین کی حد تک محسوس کر رہی تھیں کہ یزدگرد کا دماغی توازن بہت ہی بگڑ گیا ہے۔ کبھی تو وہ خود بھی حیران ہو جاتی تھیں کہ چند ہزار مسلمان ایک لاکھ سے زیادہ فوج کو کس طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک آدمی کس طرح دس آدمیوں کا خون بہا دیتا ہے۔ لیکن جب یزدگرد نے اسے جادو کا کرشمہ سمجھا تو یہ دونوں عورتیں پریشان ہو گئیں کہ ان کے لڑکے کے دماغ پر پے بہ پے شکستوں کا بہت برا اثر ہو اہے۔

انسان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ جن بادشاہوں نے اپنے ذہن میں کوئی وہم پیدا کر لیا، وہ اپنی سلطنت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دراصل انسان کی نفسیات ہے کہ اسے جب ناکامیوں سے پالا پڑتا ہے تو وہ اصل وجہ معلوم کرنے کے بجائے کسی نہ کسی وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ان آتش پرست بادشاہوں میں وہم کا مرض عام تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رستم اپنے آپ کو علمِ نجوم کا ماہر سمجھتا تھا ۔اس کی پیش گوئی یہ تھی کہ سلطنتِ فارس کا انجام بہت برا ہو گا ۔اس کی اپنی پیش گوئی نے اسے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ وہ قادسیہ کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے گھبرا رہا تھا ۔آخر اسی میدان میں مارا گیا۔

یزدگرد بھی مؤرخوں کے مطابق کچھ کم توہم پرست نہ تھا ۔آتش پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے زائچے بنواتے تھے ،یہ تو باعثِ حیرت تھا ہی کہ مٹھی بھر مسلمان آتش پرستوں کے اتنے بڑے لشکر کو کاٹتے اور بھگاتے چلے جا رہے ہیں ۔یزدگرد کو بجا طور پر یہ وہم ہو گیا کہ ان عربوں کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔

یزدگرد کی ماں اور پوران بھی جادو اور زائچوں کی قائل تھیں لیکن یزدگر دکو دیکھ کر انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ وہ حقیقت کو دیکھنے کے بجائے کس چکرمیں پڑ گیا ہے ۔ وہ اسے روکتی بھی نہیں تھیں کیونکہ یزدگرد کو غصہ آجاتا تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ وہ تینوں غلام آگئے ہیں ۔یزدگرد نے تینوں کو اندر بلا لیا۔ وہ تینوں اندر آئے تو ان میں سے کوئی بھی شہنشاہِ فارس کی تعظیم کیلئے ذرا سا بھی نہ جھکا۔

’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم شہنشاہِ فارس کے دربار میں آئے ہو؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’ہمیں معلوم ہے۔ ‘‘اسے جواب ملا۔

ؔؔ’’کیا تم یہ نہیں جانتے کہ بادشاہوں کے دربار میں آکر جھکا کرتے ہیں؟‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ تم شاید بھول گئے ہو کہ تم یہاں غلام ہو۔‘‘

’’ہم صرف اﷲ کے دربار میں جھکا کرتے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’اور ہمارے یہاں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا۔‘‘

’’ہمیں یہاں زبردستی قید میں رکھا گیا ہے ۔‘‘دوسرے قیدی نے کہا۔’’ ہم کسی کے غلام نہیں ۔اگر ہیں تو ہم صرف اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے غلام ہیں۔‘‘

’’تم صحرائی بدو ہو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ تم کیا جانو کہ بادشاہی کیا چیز ہوتی ہے۔‘‘

’’یزدی!‘‘نورین نے کہا۔’’ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو ۔ان سے جو پوچھنا چاہتے ہو وہ پوچھو۔‘‘

یزدگرد نے تینوں کو اپنے سامنے فرش پر بٹھا دیا۔

’تم بھول جاؤ کہ میں بادشاہ اور تم غلام ہو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میں تم سے ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تم نے صحیح بات بتا دی تو میں تم تینوں کو آزاد کر دوں گا اور تم اپنے لشکر میں واپس چلے جانا۔‘‘

’’ہم سے جھوٹ کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ ایک قیدی نے کہا۔’’ ہماری سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے۔‘‘

’’کیا تم میں کوئی خاص پراسرار طاقت ہے؟‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میرا مطلب یہ ہے کہ تمہارے سالاروں کے پاس کوئی جادو ہے کہ تم اتنی تھوڑی تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ لشکر پر غالب آجاتے ہو۔‘‘

تینوں مسلمان قیدیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

’’ہاں شہنشاہ!‘‘ایک قیدی نے کہا ۔’’ہم اپنی ایک طاقت آپ کوبتا چکے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم سچ بولا کرتے ہیں۔‘‘

’’ہمارا دین سچا ہے۔‘‘دوسرے قیدی نے کہا۔’’ یہ سچا دین آپ کیلئے لائے ہیں ،لیکن آپ سچائی سے بھاگتے ہیں۔ آپ ہمارا مذہب قبول کر لیں تو آپ میں بھی یہ طاقت آجائے گی۔‘‘

’’تمہاری یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ تم مجھے صحیح بات نہیں بتا رہے ۔میں تم سے سیدھی سی بات پوچھا رہا ہوں ۔یہ بتاؤ تم اتنی بڑی فوج پر کس طرح غالب آجاتے ہو؟‘‘

’’آپ کی بدقسمتی یہ ہے کہ آپ حقیقت کی بات کو تسلیم نہیں کر رہے ۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی فوج بزدل ہے اور بزدل اس لیے ہے کہ یہ فوج آپ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم اﷲ کے سامنے جواب دہ ہیں ۔‘‘

’’نہیں!‘‘یزدگرد نے کہا۔ ’’تم اصل بات چھپا رہے ہو ۔تم آسمانوں سے اترے ہوئے فرشتے نہیں ہو ۔میں کہتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کوئی جادو گر ہیں۔‘‘

’’اے فارس کے شہنشاہ! ‘‘ایک قیدی نے کہا ۔’اگر آپ جادو کی بات کرتے ہیں تو ہم سب جادو گر ہیں۔ اگر آپ ہماری بات سمجھ جائیں تو یہ جادو آپ کو بھی مل سکتا ہے لیکن آپ اس اﷲ کو نہیں مانتے جو اپنے سچے بندوں کو یہ جادو عطا کرتا ہے۔آپ اس کے بجائے سورج اور آگ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم معمولی سے اور جاہل سے آدمی ہو کر بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ مگر آپ اتنی بڑی سلطنت کے بادشاہ ہو کر بھی نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سورج اﷲ کے حکم کا پابند ہے اور آگ بھی اﷲ کے حکم سے جلتی ہے۔ آپ یہ نہیں سوچتے کہ سورج کو گرہن لگ جاتا ہے اور کچھ دیر کیلئے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔لیکن اﷲ پلک جھپکنے کے وقت کیلئے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ بے شک اﷲ نظر نہیں آتا لیکن ہماری آنکھوں میں اور ہمارے دلوں میں اﷲ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔آپ کی فوج آپ کو خوش کرنے کیلئے لڑتی ہے کیونکہ آپ اس فوج کو تنخواہ اور انعام دیتے ہیں ۔ہم اﷲ کو خوش کرنے کیلئے لڑتے ہیں ۔اس کی ہمیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی۔ ہمیں روحانی سکون ملتا ہے۔ آپ کے سپاہی تنخوا ہ اور انعام لینے کیلئے زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اﷲ کی راہ میں لڑتے اور اس لیے اپنی جان قربان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اﷲ کے حضور جلدی پہنچیں ۔‘‘

’’اصل بات ایک اور ہے شہنشاہ!‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’ ہم سینوں میں انتقام لے کر لڑتے ہیں۔‘‘

’’کیسا انتقام؟ ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جس کا تم انتقام لینے آئے ہو۔‘‘

’’ہم اپنے رسول ﷺکی توہین کا انتقام لے رہے ہیں ۔‘‘قیدی نے جواب دیا۔’’ مدائن کے محل میں ہمارے رسولﷺ کے پیغامِ حق کو کسریٰ پرویز نے پھاڑ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو اپنے دربار میں بکھیر دیا تھا ۔اﷲ کے رسول ﷺکو جب بتایا گیا تو آپ ﷺ نے کہا تھا کہ سلطنتِ فارس کے ٹکڑے اسی طرح بکھر جائیں گے اور یہ سلطنت بہت برے انجام کو پہنچے گی۔ ہم اس پیش گوئی کو پورا کرنے کا سبب ہیں۔ چونکہ اﷲ نے اس پیش گوئی کو عملی طور پر پورا کرنا ہے۔ اس لیے اﷲ نے ہمیں کوئی ایسی طاقت عطا کر دی ہے کہ ہم میں سے ایک ایک آدمی آپ کے دس سے بیس آدمیوں تک کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘

’’اور شہنشاہ!‘‘ایک اور قیدی بولا۔’’ اﷲ نے ہمارے رسولﷺ پر ایک کتاب اتاری ہے جسے ہم قرآن کہتے ہیں۔ اس میں اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ ایک سو کفار کے مقابلے میں صرف دس ایمان والے ہوئے تو وہ ایک سو پر غالب آئیں گے اور اگر بیس ایمان والے ہوئے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے……ہم سب ایمان والے ہیں۔ہمارا تعلق براہِ راست اﷲ کے ساتھ ہے۔ یہی ہماری طاقت ہے اور یہی ہمارا جادو ہے۔‘‘

یزدگرد خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر تینوں قیدیوں کو دیکھتا رہا۔ پھر کسی گہری سوچ میں کھوگیا۔ سر جھکا کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ پھر رک گیا اور تالی بجائی۔ دربان دوڑا آیا۔ یزدگرد نے اسے کہا کہ ان غلاموں کے مالکوں کو اندر بھیجو۔

دونوں تاجر اندر آئے۔

’’ان تینوں کو آزاد کر دو۔‘‘ یزدگرد نے تاجروں سے کہا۔

تاجر کچھ بھی نہ بولے۔ وہ شہنشاہ کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور تھے۔ تینوں قیدی آزاد ہو گئے اور رات کو ہی حلوان سے نکل گئے۔

٭

اﷲ جب کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تواس کے رہنماؤں حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کو گمراہی کے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی ۔رہنما اور پیشوا اپنے آپ کو بے مثال ،دیدہ ور اور لا زوال دانشور سمجھنے لگتے ہیں ۔مگر ان کے کردار اور گفتار سے حماقت اور جہالت ٹپکتی ہے ۔حکمران اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتے ہیں مگر حقائق سے دور ہی دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور تباہی کی کھائی میں جا گرتے ہیں۔

آتش پرست فارسی اس مقام تک پہنچ گئے تھے اور ان کا شہنشاہ تین مجاہدین سے پوچھ رہا تھا کہ ان کے پاس کون سا جادو ہے۔ وہ وثوق سے کہہ رہا تھاکہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ جادوگر ہیں اور وہ تین مجاہدین اسے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ جادو کیا ہے۔ یہ تینوں مجاہدین عالم نہیں تھے ۔سالار نہیں تھے۔ اپنے اپنے قبیلے کے سردار نہیں تھے۔ وہ عام قسم کے مجاہدین تھے۔ لشکری تھے۔ چونکہ وہ ایمان والے تھے اور ایک سچے عقیدے کی خاطر لڑ رہے تھے اس لیے ان کے ذہنوں میں کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔‘‘

یزدگرد کا ذہن ایسا الجھا تھا کہ وہ ذہنی مریض بن گیا۔ اگر پوران اور نورین اس کے ساتھ نہیں ہوتیں تو وہ پاگل ہو چکا ہوتا۔ یہ دونوں عورتیں اسے جذباتی سہارا دیتی رہتی تھیں۔

’’یزدی!‘‘دوسری صبح نورین نے یزدگرد سے کہا ۔’’کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اس حقیقت کو قبول کر لیں کہ عراق سلطنتِ فارس سے نکل گیا ہے؟‘‘

یزدگرد نے کوئی جواب دینے کے بجائے ماں کے چہرے پرنظریں گاڑھ دیں۔

’’ہاں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ ہمارے پاس اب کچھ نہیں رہ گیا۔ ذرا دیکھو ہمارے پاس فوج کتنی رہ گئی ہے۔ جرنیل کتنے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اب عراق کی سرحد سے نکل جانا چاہیے۔‘‘

یزدگرد کے چہرے پر ایساتاثر آگیا جیسے یہ مشورہ اسے اچھا لگا ہو۔ وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ باہر شور اٹھنے لگا اور یہ شور بڑھتا ہی گیا۔

’’شہنشاہِ فارس!‘‘اسے بڑی بلند آواز سنائی دی۔’’ ہمیں بتاؤ ہم کہاں جائیں۔‘‘

’’باہر آؤ۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔

شور اور زیادہ بلند ہو گیا۔ یہ ایک ہجوم کا شور تھا۔

پھر ایسی آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے شاہی محافظ دستہ ہجوم کو زبردستی منتشر کر رہا ہو ……یزدگرد دوڑتا ہوا باہر نکلا۔ باہر مدائن جلولا اور حلوان کے شہریوں کا ہجوم تھا۔ لوگ اپنے جرنیلوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ یزدگرد کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے اور محافظ دستے کے سپاہی ہجوم کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔

’’تم لوگ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ محافظ دستے کے کمانڈر نے ہجوم کو خبردار کیا۔’’ نہ گئے تو تم پر گھوڑے دوڑا دیئے جائیں گے۔‘‘

’’دشمن کے آگے بھاگے والوں کے گھوڑے اپنی رعایا پرہی دوڑائے جاتے ہیں۔‘‘ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔

’’یہ دھمکی باہر جا کر عربی مسلمانوں کو کیوں نہیں دیتے؟‘‘ایک اور نے کہا۔

’’مسلمانوں کے سامنے جانے کی ان میں جرأت ہی کہاں ہے؟‘‘ طنز کاایک اور تیر چلا۔

’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ ‘‘یزدگرد نے آگے ہو کر پوچھا۔

’’اپنی حفاظت ۔‘‘اسے جواب ملا۔

’’اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں دھوکے میں نہ رکھا جائے۔‘‘ ایک اور آواز۔

یہ اس ہجوم کی آوازیں تھیں اور آوازے بھی تھے ۔یزدگرد یوں بے حال ہو تا جا رہا تھا جیسے اس کے جسم میں تیر اترتے جا رہے ہوں۔ اس کے آگے سجدے کرنے والے لوگ اسے اپنے آگے جھکنے پر مجبور کر رہے تھے اور وہ جھکتا چلا جا رہا تھا۔ وہ ذہنی طور پر بیدار ہو گیا تھا۔ اس نے حقیقت کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس کی شاہانہ زندگی میں بلکہ کسریٰ کی شہنشاہی کی تاریخ میں یہ حقیقت پہلی بار ایک بادشاہ کے سامنے آئی تھی کہ لوگ اپنے آپ کو رعایا کے بجائے قوم سمجھ لیں اور متحد ہو کر اپنے بادشاہ کے غلاف باغی اور سرکش ہوجائیں تو دنیا کا سب سے زیادہ جابر اور ظالم بادشاہ بھی قوم کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

یزدگرد کے پاس دو جرنیل کھڑے تھے۔ ایک فیروزان تھا اور ایک جواں سال جرنیل خسروشنوم تھا۔

’’دیکھ رہے ہو تم دونوں؟‘‘یزدگرد نے دونوں جرنیلوں سے کہا۔’’لعنتیں جو تم جرنیلوں پر پڑنی چاہئیں وہ میرے منہ پر ملی جا رہی ہیں۔تم ہی کچھ بتاؤ کہ میں ان لوگوں کو کس طرح مطمئن کروں۔ کیا ان کے آگے سجدے کروں؟ یا میں خود فوج کی کمان لے کر ان عربی مسلمانوں پر حملہ کروں جو خانقین کے پاس آچکے ہیں؟کیا ہم ہمت کریں تو یہیں سے جوابی حملہ نہیں ہو سکتا؟‘‘

ہجوم میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور باغیانہ اور احتجاجی شوروغل بڑھتا جا رہا تھا ۔اس جگر پاش شوروغل میں، نعروں میں یزدگرد بڑی اونچی آواز میں اپنے جرنیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کر رہا تھا۔ اس کے جرنیل یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ جوابی حملہ نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اسی وقت حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔فیروزان نے یہ بھی کہا کہ حملہ فوراً ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے۔

’’یہ حملہ تم کرو گے۔‘‘ یزدگرد نے فیروزان سے کہا۔’’ جتنی فوج کی تمہیں ضرورت ہے وہ فوراً تیار کرو اور جس قدر جلدی ہو سکے حملہ کردو۔ میں اتنی دیر میں ان لوگوں کے ساتھ باتیں کر کے انہیں مطمئن کرتا ہوں،اور میں کوشش کروں گا کہ ان میں سے کچھ لوگ لڑائی کیلئے تیار ہو جائیں۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اب یہ لوگ لڑائی میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں نے ہمیں ہر لڑائی اور ہر محاصرے میں ہمیں اپنے جوان بیٹے دیئے ہیں۔ میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپوں کو میدانِ جنگ میں دیکھا ہے۔ انہیں ہم نے تنخواہ کے بغیر جذبات میں الجھا کر لڑایا ہے یا ہم نے انہیں انعام کے لالچ دیئے تھے ۔پھر ہوا کیاشہنشاہ!ہمارے فوجی جو تنخواہ بھی ہم سے لیتے تھے اور روٹی بھی ہم سے کھاتے تھے اور شراب بھی مفت پیتے تھے بھاگ گئے اور مرے تو ان شہریوں کے بیٹے مرے یا چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ مرے……ہم نے کسے انعام دیا ہے؟……اب یہ لوگ بپھر گئے ہیں۔ ہمارا ساتھ یہ صرف اس صورت میں دیں گے کہ ہم انہیں کچھ کر کے دکھائیں۔‘‘

’’پھر کچھ کر کے دکھاؤ۔‘‘ یزدگرد نے کہا ۔’’خانقین میں ابھی مسلمانوں کی تعداد خاصی کم ہے ۔ہوسکتا ہے وہ اپنے باقی لشکر کا انتظار کر رہے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ واپس چلے جائیں یا ان کا باقی لشکر آجائے۔ انہیں یہیں ختم کردو۔‘‘

فیروزان اپنے ماتحت جرنیل خسرو شنوم کو ساتھ لے کر چلا گیا اور یزدگرد لوگوں کے ہجوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

٭

فیروزان جب وہاں سے چلا تو کچھ آگے جا کر ایک شاہی ملازم نے اسے کان میں کہا کہ اسے ملکہ عالیہ نورین بلا رہی ہیں۔ فیروزان نے خسرو شنوم سے کہا کہ وہ چند ایک سوار دستے حملے کیلئے تیار رکھے۔ وہ خود نورین کے پاس چلا گیا ۔نورین کو پتا چل چکا تھا کہ یزدگر دنے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو الگ کمرے میں لے جا کر کہا۔’ ’ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میں ماں ہوں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ مجھے کس طرح مجبور کیاگیا تھا کہ اپنے بیٹے کو مدائن لاکر تخت پر بٹھاؤں ۔یہ امراء اور عوام کا مطالبہ تھا جو میں نے پورا کیا۔ لیکن میں اپنے بیٹے کو اس حال میں نہیں مروانا چاہتی کہ شکست بھی ہو سلطنتِ فارس سے عراق جیسا زرخیز اور بڑا خطہ نکل جائے اور میرا بیٹا مارا بھی جائے ۔اب تک یزدگرد بچتا چلا آرہا ہے۔ اسے سب سے پہلا اور بہت بڑا دھوکا رستم نے دیا تھا۔ اگر رستم قادسیہ پہنچنے میں اتنا زیادہ وقت ضائع نہ کرتا تو شاید اس کے بعد ہمیں اتنا زیادہ پسپا نہ ہونا پڑتا کہ مدائن اور جلولا بھی ہاتھ سے نکل جاتا۔۔‘‘

’’ملکہ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔ ’’وقت بہت تھوڑا ہے۔ آپ کی بات لمبی معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ بات کو ذرا مختصر کر دیں۔ آپ جو کہنا چاہتی ہیں ۔وہ چند لفظوں میں کہہ دیں ۔میں اسے راز رکھوں گا۔‘‘

’’کہنا یہ ہے فیروزان!‘‘نورین نے کہا۔’’ عراق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ میرے بیٹے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ مجھے خطرہ نظر آنے لگا ہے کہ یزدگرد جوش میں آکر لڑائی میں جا شامل ہو گا اور مارا جائے گا یا وہ دماغی خرابی کی وجہ سے اپنے آپ کو خود ہی مار لے گا۔ اگر میرا یزدی پاگل ہو گیا تو مجھے یہ اطمینان تو ہو گا کہ پاگل ہی صحیح، زندہ تو ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ تم یزدگرد کو قائل کرو کہ وہ حلوان سے نکل جائے۔ آگے ہمارا بڑا شہر رے ہے۔ میں اسے وہیں لے جاؤں گی۔‘‘

’’ہاں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ شہنشاہ کو یہاں سے نکالنے کیلئے میرے پاس ایک جواز ہے۔ میں انہیں کہوں گا کہ اپنی فوج کی کیفیت بہت ہی مخدوش ہو گئی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قابل اور نامور جرنیل مارے گئے ہیں۔ جرنیل تو لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں لیکن شہنشاہ مارا جائے یا دشمن کی قید میں چلا جائے تو پھر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اتنی زیادہ بے عزتی پوری سلطنت کو اور ساری قوم کو لے ڈوبتی ہے۔ میں شہنشاہ سے کہوں گا کہ وہ سلطنت کے وقار کا خیال کریں اور یہاں سے نکل جائیں۔‘‘

’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اسے اپنے ساتھ لگا کر بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔’’ یہ کام کر دو اور پھر بولو کہ تمہیں کیسا اور کتنا انعام چاہیے ۔‘‘

’’پہلے میں یہ کام کر لوں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شہنشاہ کو یہاں سے نکال دوں گا۔‘‘

فیروزان وہاں سے چلاگیا۔

٭

’ہاں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ شہنشاہ کو یہاں سے نکالنے کیلئے میرے پاس ایک جواز ہے۔ میں انہیں کہوں گا کہ اپنی فوج کی کیفیت بہت ہی مخدوش ہو گئی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قابل اور نامور جرنیل مارے گئے ہیں۔ جرنیل تو لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں لیکن شہنشاہ مارا جائے یا دشمن کی قید میں چلا جائے تو پھر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اتنی زیادہ بے عزتی پوری سلطنت کو اور ساری قوم کو لے ڈوبتی ہے۔ میں شہنشاہ سے کہوں گا کہ وہ سلطنت کے وقار کا خیال کریں اور یہاں سے نکل جائیں۔‘‘

’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اسے اپنے ساتھ لگا کر بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔’’ یہ کام کر دو اور پھر بولو کہ تمہیں کیسا اور کتنا انعام چاہیے ۔‘‘

’’پہلے میں یہ کام کر لوں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شہنشاہ کو یہاں سے نکال دوں گا۔‘‘

فیروزان وہاں سے چلاگیا۔

٭

٭

اُدھر یزدگرد نے لوگوں کے ہجوم کے ساتھ جھوٹے سچے وعدے کر کے اور شکستوں کی ذمہ داری جرنیلوں پر ڈال کر اور جذباتی باتیں کرکے انہیں ٹھنڈا کر لیا تھا۔ لوگ بڑے آرام سے وہاں سے چلے گئے۔ یزدگرد اپنے اس چھوٹے سے محل میں چلا گیا جو شہنشاہوں کیلئے حلوان میں تعمیر کیاگیا تھا۔ اس نے لوگوں کو تو ٹھنڈا کر دیا تھا لیکن اس کے اپنے سینے میں آگ بھڑک رہی تھی۔

وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ فیروزان آگیا۔

’’کیا فوج تیار ہو گئی ہے؟‘‘ یزدگر دنے پوچھا ۔’’تم کس وقت نکل رہے ہو؟‘‘

’’ہاں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ میں نکل ہی جاتا لیکن ایک بہت ہی ضروری بات کرنے رک گیا ہوں۔‘‘

’’اب باتوں میں وقت ضائع نہ کرو فیروزان!‘‘یزدگرد نے کہا ۔’’باتیں بہت ہو چکیں۔ اب یہ مت بھولنا کہ فارس کے امراء وزراء ہماری رعایا کی اس خواہش پر مجھے مدائن لائے تھے کہ اس تخت و تاج پر کسریٰ کے خاندان میں ایک دوسرے کا خون بہا دیا تھا۔ اس خونی سلسلے کو روکنے کیلئے مجھے لایا گیا تھا اور اس لئے بھی کہ تخت پر کسریٰ کے خاندان کا کوئی مرد ہو نا چاہیے ۔جو فارس کو عربوں سے اس طرح بچا لے کہ عربوں کو یہیں تباہ و برباد کر کے عرب پر حملہ کیا جائے۔ لیکن فیروزان جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے ۔وہی لوگ جنہوں نے مجھے ایک فرشتہ سمجھ کر بلایا تھا۔ آج مجھ سے باغی ہو کر میرے منہ پر شکست کی سیاہی مل رہے ہیں۔ ‘‘

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ فتح و شکست ایک الگ بات ہے لیکن اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ آپ کی ذات سلطنتِ فارس کی آبرو کی علامت ہے۔ اب ہم زندگی کی آخری بازی لگا کر لڑیں گے لیکن آپ کو حلوان سے نکل جانا چاہیے۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’’ کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اپنی فوج اور اپنی رعایا کے ساتھ رہوں؟‘‘

’’نہیں شہنشاہ!‘‘فیروزا ن نے جواب دیا۔’’ لڑنا ہم نے ہے ۔ہو سکتا ہے ہم حلوان چھوڑ دیں اور باہر مسلمانوں کو نرغے میں لاکر ختم کر دیں ۔ہو سکتا ہے میں حلوان کو مسلمانوں کے لئے ایساپھندہ بنا دوں کہ ان کی لاشیں ہی یہاں سے نکلیں گی ۔یہ ایسی صورتِ حال ہو گی کہ اس میں اگر آپ موجود رہے تو ہمیں آپ کی اور شاہی خاندانوں کی حفاظت بھی کرنی پڑے گی۔ آپ ہم پر کرم کریں اور اس ذمہ داری سے ہمیں فارغ کر دیں ۔اگر آپ یہاں رہے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عرب آپ تک پہنچ جائیں اور آپ کو قتل کردیں یا اپنے ساتھ ہی زندہ لے جائیں۔ اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تو پھر فارس کی تمام سلطنت میں بد دلی اور خوف پھیل جائے گا، اور عربوں کی دھاک بیٹھ جائے گی ۔آپ یہاں سے نکل جائیں اور رے پہنچ جائیں ۔‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ یزدگرد اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رات کے وقت چپکے سے حلوان سے نکل گیا اور رے جا پہنچا۔

یزدگرد کو رخصت کر کے فیروزان نے فوج کے کچھ دستے تیار کر لئے اور خسروشنوم کو خانقین کے قریب مسلمانوں پر تیز اور شدیدحملہ کرنے کی ہدایات دینے لگا۔ سب جانتے تھے کہ اس حملے کی قیادت فیروزان کرے گا ۔لیکن وہ خسروشنوم کو کمان دے کر بھیج رہا تھا۔ اس کے ایک ماتحت افسر نے اس سے پوچھا کہ وہ خود کیوں نہیں جا رہا؟ یہ افسر اس کا معتمد اور راز دار معلوم ہوتا تھا۔

’’ملکہ عالیہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ اس کے کہنے پر میں نے شہنشاہ کو یہاں سے نکال دیا ہے۔ اگر شاہی خاندان موت سے ڈرتا ہے تو میں موت کے منہ میں کیوں جاؤں؟ خسروشنوم میرا ماتحت ہے۔ میں اسے جہاں چاہوں بھیج سکتا ہوں اور اسے بھیج رہا ہوں ۔‘‘

ایک روایت یہ بھی ہے کہ خسروشنوم کو اپنے کسی مخبر یا جاسوس کے ذریعے پتا چل گیا تھا کہ فیروزان لڑائی سے بچنے کیلئے لڑنے کیلئے بھیج رہا ہے۔ لیکن خسروشنوم اس کے ماتحت تھا ۔اس لئے نہ وہ بحث کر سکتا تھا نہ حکم عدولی ۔ وہ سوار دستے لے کر نکل گیا ۔

٭

خانقین سے کچھ آگے قصرِ شیریں تھا۔ جو حلوان سے صرف تین میل دور تھا۔ قعقاع بن عمرو مجاہدین کی قلیل سی تعداد کے ساتھ قصرِ شیریں کے قریب کمک کے انتظار میں رکے ہوئے تھے ۔انہوں نے جلولا اپنے ایک مجاہد کو بھیجا تھا کہ سپہ سالار سعدؓ بن ابی وقاص سے کہے کہ پیچھے آنے کے بجائے آگے بڑھ کر حلوان کو محاصرے میں لینا چاہتے ہیں تاکہ فارسیوں کو سنبھلنے اور سستانے کی مہلت نہ ملے اور وہ حلوان سے بھی نکل جائیں۔

’’اور امیرِ لشکر سے کہنا۔‘‘ قعقاع نے اپنے قاصد سے کہا تھا ۔’’کہ حلوان کے ساتھ ہی عراق کی سرحد ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نے حلوان لے لیا تو پورا عراق لے لیا ۔فارسی اپنے فارس میں چلے جائیں اور شام کی طرف سے ابو عبیدہ اور خالد بن ولید ہم سے آملیں گے اور یہ بھی کہنا کہ فارس کا بادشاہ یزدگرد بھی حلوان میں ہے۔ میں اسے گرفتار یا ہلاک کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ اس طرح ہم پورے فارس کی کمر توڑ سکتے ہیں۔‘‘

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سعد ؓبن ابی وقاص ایک شہر فتح کر کے قاصد کو مدینہ بھیج کر حضرت عمر ؓسے حکم لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس لئے وہ دونوں طرف کی فوجوں کی کیفیت، جنگی صورتِ حال اور دیگر احوال و کوائف پر غور کر کے حکم بھیجا کرتے تھے۔

جلولا فتح کر کے بھی سعدؓ بن ابی وقاص نے قاصد مدینہ بھیج دیا تھا ۔ادھر سے قعقاع بن عمرو نے کمک مانگ لی ۔ سعدؓ نے اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کرنے میں خاصا وقت لے لیا۔ آخر ان سب نے فیصلہ کیا کہ مدینے سے امیر المومنین کا حکم بہت دنوں بعد آئے گا۔ قعقاع کے ارادے اور دلائل کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا تھا ۔اس کی اس تجویز اورعزم کو نظر انداز کرنا نقصان کا باعث بن سکتا تھا ۔زیادہ انتظار میں فارسیوں کو سستانے کا اور بکھری ہوئی فوج کو یکجا ہو جانے کا موقع مل جانے کا خطرہ تھا۔

حلوان میں قعقاع کی مختصر کی جماعت پر حملہ کرنے کا حکم مل چکا تھا۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر دیا کہ قعقاع کو کمک بھیج دی جائے۔

حلوان سے خسرو شنوم کی قیادت میں سوار دستے نکل آئے ۔

جلولا سے کمک چل پڑی ۔

حلوان سے قصرِ شیریں تک کا فاصلہ صرف تین میل تھا لیکن جلولا سے قصرِ شیریں زیادہ دور تھا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے خسرو شنوم نے ایک جست میں قصرِ شیریں میں پہنچ جانا تھا اور مجاہدین کی کمک کو خاصا فاصلہ طے کرنا تھا۔

٭

قعقاع بن عمرو کی پوزیشن ایسی تھی جیسے دشمن کے پیٹ میں بیٹھے ہوئے ہوں ۔اس لئے وہ دن رات اس طرح چوکنے رہتے تھے کہ انہوں نے دیکھ بھال کیلئے اپنے تین چار مجاہدین حلوان بھیج رکھے تھے۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ حلوان یا کسی بھی طرف سے فارسیوں کی فوج آئے تو فوراًپیچھے اطلاع دیں ۔آخر یہ اطلاع آگئی۔ آگے گئے ہوئے ایک مجاہد نے پیچھے آکر قعقاع کو بتایا کہ حلوان سے سوار دستے قصرِ شیریں کی طرف آرہے ہیں ۔ان کی اندازاً تعداد بھی بتائی ۔

٭

قعقاع نے یہ اطلاع ملتے ہی اپنے مجاہدین کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ تھوڑی سی تعداد کو سامنے رکھا اور باقی سب کو مکانوں اور دیگر تعمیرات کی اوٹوں میں چھپا دیا۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ کل مجاہدین یہی ہیں جو سامنے ہیں۔

قعقاع نے ایک چال یہ چلی کہ ان مجاہدین کو جنہیں انہوں نے سامنے رکھا تھا۔ اس طرح اِدھر اُدھر کرنے لگے جیسے وہ بھاگ نکلنے کے راستے دیکھ رہے ہوں۔ فارسی سوار اکٹھے ہی ان کی طرف آئے۔ قعقاع اپنے مجاہدین کے ساتھ بھاگنے کے اندا زسے پیچھے ہٹنے لگا اور ہٹتے ہٹتے مکانوں کے قریب چلا گیا۔ لڑائی کی وجہ سے مکان خالی تھے۔

خسرو شنوم للکارتا آرہا تھا۔’’ انہیں جانے نہ دینا ۔گھوڑوں تلے کچل دو۔ ایک ایک کو کاٹ دو۔‘‘

فارسی جب مکانوں کے قریب آئے تو چھتوں سے ان پر تیر برسنے لگے۔ تیر انداز مجاہدین کی تعداد کم تھی۔ اس کمی کو مجاہدین بہت ہی تیز تیر اندازی سے پورا کر رہے تھے۔ نشانہ لینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ فارسی سوار ہجوم کی صورت آرہے تھے ۔کوئی تیرضائع نہیں ہوتا تھا۔

اس اچانک اور غیر متوقع تیر اندازی سے فارسی بوکھلا اٹھے ۔اگلے سواروں نے یکلخت گھوڑے روک لیے تو پیچھے آنے والے ان سے ٹکرا کر رکے۔ جن گھوڑوں کو تیر لگتے تھے وہ بے لگام ہو کر اپنی ہی فوج کیلئے قیامت بپا کر دیتے تھے ۔ فارسیوں پریقینا یہ خوف طاری ہو گیا ہو گا کہ مسلمانوں کی تعداد ان کے اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔

جب فارسیوں کے گھوڑے آپس میں پھنس گئے اور زخمی گھوڑے بے قابو ہو کر اچھے بھلے گھوڑوں کو ڈراے لگے تو قعقاع نے ان پر حملہ کردیا ۔خسرو شنوم چلّا رہا تھا کہ اس کے سوار کھُل جائیں ۔وہ دائیں بائیں پھیلنے لگے تاکہ لڑنے اور پینترے بدلنے کیلئے جگہ نکل آئے لیکن دائیں اور بائیں سے ان پر مجاہدین نے حملہ کر دیا جنہیں قعقاع نے دور دور مکانوں کی اوٹ میں چھپایا تھا۔

ان مجاہدین کی تعداد اتنی کم تھی کہ و ہ اتنے زیادہ سواروں پر غالب نہیں ا ٓسکتے تھے۔ یہ قعقاع کی غیر معمولی دلیری تھی کہ اس نے اتنے کثیر دشمن سے ٹکر لے لی تھی۔ وہ اس جنگی دانش اور ہنر مندی سے لڑ رہاتھا۔ جو اس کی فطرت کا لازمی حصہ تھا ۔اس کی یہ چال خاصی کامیاب تھی کہ اس نے تیر اندازوں کو مکانوں کی چھتوں پر اور دوسرے مجاہدوں کو مکانوں کے پیچھے چھپا دیا تھا ۔پھر بھی فارسیوں کا دباؤ کم نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ پہلے ہلّے میں ان کا خاصا نقصان ہوا تھا۔

قعقاع ہمت ہارنے والے سردار نہیں تھے۔ ان کی للکار میں جوش بڑھتا جا رہا تھا لیکن کامیابی مخدوش نظر آرہی تھی۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارسیوں کا جرنیل خسروشنوم پہلے اپنے سواروں کے آگے تھا پھر وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے اپنے سواروں میں کہیں غائب ہو گیا۔ قعقاع اسے ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ انہیں کہیں نظر نہیں آتا تھا۔

معرکہ گھمسان کا تھا ۔خونریز بھی تھا۔ اچانک فارسی سواروں میں ایسی ہڑبونگ مچ گئی، جسے کچھ دیر کیلئے قعقاع بھی نہ سمجھ سکا پتہ اس وقت چلا جب فارسیوں کا کشت و خون اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ یہ جلولا کی کمک تھی جو بر وقت پہنچ گئی تھی ۔تعداد اس کی بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ لیکن ان مجاہدین نے دیکھا کہ معرکہ لڑا جا رہا ہے تو انہوں نے فارسیوں پرعقب اور ایک پہلو سے حملہ کر دیا۔

خسرو شنوم پہلے ہی بد دل ہوا جا رہا تھا۔ اسے فیروزان کا یہ حکم اچھا نہیں لگا تھا کہ وہ خود باہر نہیں آیا اور اسے آگے بھیج دیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سوار گھِر گئے ہیں اور گھوڑے اندر ہی اندر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو دبا رہے ہیں اور زخمی گھوڑے اپنی اچھل کود کر رہے ہیں ۔اس پوزیشن میں آکر سوار لڑ نہیں سکتے تھے ۔یہ دیکھ کر خسرو شنوم وہاں سے کھسک گیا ۔وہ کوئی چال نہیں چل سکتا تھا ۔مجاہدین تعداد میں بہت تھوڑے تھے لیکن قعقاع کی عقل اور مجاہدین کے جذبے نے فارسیوں کو بے بس اور مجبور کر دیا تھا۔

فارسی سوار ایک ایک دو دو کر کے معرکے سے نکل کر بھاگنے لگے اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میدان میں فارسیوں کی لاشیں ان کے زخمی اور ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر بھاگتے دوڑتے رہ گئے ۔مجاہدین نے گھوڑوں کو پکڑنا اور مرے ہوؤں اور زخمیوں کے ہتھیار اکٹھے کرنے شروع کر دیئے۔

حلوان دور نہیں تھا۔ فیروزان شہر کی دیوار پر کھڑا تھا۔ اسے یقینا یہ توقع تھی کہ اتنی قلیل تعداد مسلمانوں کو اس کے سوار کچل کر واپس آرہے ہوں گے۔ لیکن اسے اِکّے دُکّے گھوڑے دور دور بھاگتے دوڑتے نظر آنے لگے۔ سب سے پہلے خسرو شنوم حلوان میں داخل ہوا۔ فیروزان نے اس سے لڑائی کے متعلق پوچھا تو خسرو شنوم کی زبان کانپ رہی تھی۔

پھر میدان سے بھاگے ہوئے سوار شہر میں داخل ہونے لگے ۔ان میں بہت سے زخمی تھے۔ ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔ ایسے بھی تھے جن کے جسموں میں تیراترے ہوئے تھے۔ ایک تو ان کی یہ حالت تھی جو شہر کے لوگوں کو ڈرا رہی تھی دورے ان کی باتیں تھیں جو وہ خوفزدگی کے عالم میں شہریوں کو سنا رہے تھے۔

قعقاع ان کے تعاقب میں گئے۔مجاہدین گھوڑے سر پٹ دوڑاتے گئے ۔شہر سے لوگ بھاگنے لگے۔وہاں جو فوج تھی وہ بغیر لڑے بھاگ اٹھی ۔یہ سب مدائن اور جلولا کے بھاگے ہوئے فوجی تھے۔

حلوان بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ قعقاع نے فوری طور پر دو کام کیے۔ ایک یہ کہ سعدؓ بن ابی وقاص کو پیغام بھیجا کہ حلوان پر بھی قبضہ ہو گیاہے اور دوسراکام یہ کہ شہر کے چند آدمیوں سے کہا کہ وہ شہر میں اور اردگرد کی آبادیوں میں منادی کرا دیں کہ جو لوگ اسلام قبول کر لیں یاجزیہ ادا کر دیں گے انہیں امن و امان اور تحفظ میں رکھا جائے گا۔ ان کے مال و اموال اور جائیدادوں پر کسی اور کا ناجائز قبضہ نہیں ہو گا۔

مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ اس علاقے کے لوگوں نے دیکھ لیا تھا کہ عرب کے ان مسلمانوں نے جن علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے وہاں کے لوگ نہ صرف یہ کہ امن و امان میں رہتے ہیں بلکہ اب وہ آزادی سے رہتے ہیں اور وہ اس خوف سے آزاد ہو گئے ہیں کہ شاہی کارندے اچانک آدھمکیں گے اور ان کے کھیتوں کی کمائی کا بیشتر حصہ بلا قیمت اٹھا لے جائیں گے۔ کسی کی خوبصورت لڑکی دیکھیں گے تو اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے ۔جسے چاہیں گے بیگار میں پکڑ لیں گے۔ فوج میں جبراً بھرتی کرلیں گے۔

ان آتش پرستوں کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے جس حسنِ سلوک کو وہ اپنے اوپر احسان سمجھ رہے تھے وہ اﷲ کا حکم تھا۔ آتش پرست تکریمِ انسانیت سے نا واقف تھے ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ تکریم اور تعظیم انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔

بادشاہوں کی سابق رعایاکو انسانیت کے حقوق مل گئے تو کوئی جزیہ لے کے آگیااور کسی نے اسلام قبول کر لیا ۔کسی پر اسلام زبردستی نہ ٹھونسا گیا ۔لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔

٭

سعد ؓبن ابی وقا ص نے مجاہدین کی خاصی نفری حلوان بھیج دی۔ انہوں نے حلوان کی فتح کا تفصیلی پیغام امیر المومنین حضرت عمرؓ کے نام لکھوا کر بھیج دیا۔

مدینہ سے سعدؓ بن ابی وقاص کے پہلے پیغام کا جواب آگیا ۔اس پیغام میں سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو جلولاکی فتح کی تفصیلات لکھی تھیں اور پیش قدمی کی اجازت مانگی تھی۔ انہوں نے لکھاتھا کہ فارسی بری حالت میں پسپا ہو رہے ہیں ۔ان کی جنگی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کی اپنی رعایا ان کے خلاف ہو گئی ہے ۔ان حالات میں فارسیوں کا تعاقب جاری رکھا جائے تو پورے فارس کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کیاجاسکتاہے۔

سعدؓ بن ابی وقاص کو توقع تھی کہ حضرت عمرؓ حکم بھیجیں گے کہ فارسیوں کا تعاقب جاری رکھو اور انہیں کہیں دم نہ لینے دو۔ لیکن حضرت عمرؓ کی دور بین نگاہوں عقل و دانش اور تدبر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا ۔کوئی سپہ سالار حضرت عمر ؓکی دور اندیشی تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔

حضرت عمرؓ نے سعد ؓبن ابی وقاص کو جلولاسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ان کے اس طویل پیغام کے الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں:

’’میں چاہتا ہوں کہ سواد اور پہاڑ کے درمیان ایک دفاعی دیوار کھڑی ہوجائے ۔نہ فارسی ہماری طرف آسکیں نہ ہم ان کی طرف جا سکیں ۔ہمارے لیے سواد کا علاقہ ہی کافی ہے۔ مجھے مالِ غنیمت اور مزید زمین کے بجائے مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘

سواد دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا علاقہ تھا۔ اس کے جنوب میں ڈیلٹا کا علاقہ بھی مسلمانوں نے لے لیا تھا اور شمال میں فارس)ایران(اور شام کی سرحدوں کا درمیانی علاقہ بھی مسلمانوں کا مفتوحہ تھا۔ یہ دراصل آج کا عراق ہے ۔اس دور میں بھی اس خطے کا نام عراق تھا لیکن عربوں نے اسے سواد اور بین النہرین یعنی دو دریاؤں کا درمیانی علاقہ کہنا شروع کر دیا تھا۔ سعد ؓبن ابی وقاص جہاں پہنچ گئے تھے وہاں عراق کی سرحد ختم ہو جاتی تھی۔

حضرت عمرؓ نے سعد ؓبن ابی وقاص کو بڑی واضح اور تفصیلی ہدایات بھیجیں انہوں نے لکھا کہ فارسی پسپا ہو کر اپنے ملک میں پہنچ گئے ہیں اور انہیں پہاڑیوں کی حفاظت مل گئی ہے ۔اگر مجاہدین فارسیوں کے تعاقب میں چلے گئے تو نقصان اٹھائیں گے ۔بہتر یہ ہے کہ ان پہاڑیوں کو فارس اور عراق کے درمیان حدِ فاضل بنا لیا جائے۔

’’……اگر تم ان پہاڑیوں میں پھنس گئے تو عراق کے لوگ بغاوت پر اتر آئیں گے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے لکھا ۔’’اس سے پہلے بھی عراق کے وہ امراء اور جاگیر دار جن کے علاقے فتح کر لیے گئے تھے اور جو ہمارے وفادار ہو گئے تھے، وہ سب اس وقت باغی ہو گئے تھے جب مجاہدین کا لشکر آگے نکل گیا تھا ۔انہوں نے ہمارے ان عمّال کو بھی قتل کر دیا تھا جنہیں ان کے شہروں میں مقرر کیا گیا……

االحمد ﷲ، سلطنتِ اسلامیہ کی وسعت دجلہ اور فرات سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ شام بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا گیا ہے ۔یہ علاقے تو ہمارے زیرِ اقتدار آگئے ہیں لیکن اصل کام یہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کو مدینہ کے زیرِ اقتدار لانا ہے۔ علاقے فتح کیے جا سکتے ہیں لیکن ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا بہت مشکل کام ہے ۔علاقے تیر و تلوار سے فتح ہوتے ہیں لیکن دلوں کی فتح نہ تیر سے ممکن ہوتی ہے نہ تلوار سے۔ لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی مہیا کرو ۔انہیں انسانیت کے درجے پر لاؤاور انہیں ان کے پورے حقوق دو……

انکے مذہب میں دخل نہ دو، جبر نہ کرو اور اس کے ساتھ ہی انہیں دینِ الٰہی کی طرف مائل کرو لیکن بحث اور حجت نہ کرو۔ پندونصیحت کا انداز اختیار کرو اپنے کردار کو اپنے پندونصیحت میں ڈھالواور دلوں پر اثر کرنے والا نمونہ پیش کرو۔ پھر تم دیکھو گے کہ اﷲ اپنے دین کو خود ہی تمام مذاہب پر غالب کر دے گا۔ ان کے مذہبی پیشوا کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں وہ اسلام کے غلبے اور مقبولیت کو نہیں روک سکیں گے……

مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق بحال کرو اور اسے رواں کر کے ایسی شکل دو کہ لوگ خود محسوس کریں کہ اس سے پہلے ان کی حق تلفی ہو تی رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں پر اور ان کے سرداروں پر نظر رکھو کہ کہیں سے بغاوت نہ اٹھنے پائے۔‘‘

مؤرخوں نے حضرت عمرؓ کے ان احکام کو بہت اہمیت دی ہے۔ بعض غیر مسلم تاریخ نویسوں اور مبصروں نے حضرت عمرؓ کے اس تدبر اور پالیسی کوبہت سراہا ہے۔ اگر حضرت عمر ؓکی دلچسپی صرف علاقے فتح کرنے میں ہوتی تو وہ سعدؓ بن ابی وقاص کو پہاڑی علاقوں میں پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیتے اور یہ نہ سوچتے کہ صحرا اور میدانوں میں لڑنے والے پہاڑیوں کے اندر نہیں لڑ سکیں گے۔

سعد ؓبن ابی وقاص نے امیر المومنینؓ کا یہ پیغام اپنے تمام سالاروں کو پڑھ کر سنایا۔

٭

دریائے دجلہ کے کنارے عراق کے شمال میں تکریت نام کا ایک شہر تھا۔ یہ رومیوں کا علاقہ تھا ۔ وہاں عراق اور شام کی سرحد ملتی تھی ۔خالدؓ بن ولید اور ابو عبیدہؓ بن الجراح نے رومیوں کو بہت بری شکستیں دے کر شام سے بے دخل کر دیا تھا۔ رومی اب شمال میں محدود سے علاقے میں جوابی کارروائی کیلئے اکٹھے ہو رہے تھے۔

پہلے کسی باب میں ذکر ہوچکا ہے کہ مجاہدین کے لشکر میں بنو تغلب اور بنو نمر کے عیسائی بھی تھے ۔ایک عیسائی نے ایک فارسی جرنیل کو میدانِ جنگ میں اتنی دلیری سے قتل کیا تھا کہ خود بھی قتل ہو گیا تھا ۔اب مسلمانوں نے پورا عراق فتح کر لیا اور حضرت عمر ؓنے سعد ؓبن ابی وقاص کو حکم بھیج دیا کہ آگے نہ بڑھیں اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کو بہتر بنائیں۔ ایک روزز بنو تغلب کا ایک عیسائی مجاہد سعد ؓبن ابی وقاص کے پاس آیا۔

’’سپہ سالار!‘‘ا س نے کہا۔’’ میں بنو تغلب کا عیسائی ہوں۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘سعد ؓنے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں کوئی امتیاز نہیں، تو ہمارے ساتھ ہے تو ہمارا بھائی ہے۔ تو عربی ہے اور ہم سب عربی ہیں۔ جو عجمیوں کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ مذہب الگ ہونے سے جذبے الگ نہیں ہو جایا کرتے۔ کہہ کیا کہنے آیا ہے تو ؟‘‘

’’اے سپہ سالار!‘‘عیسائی نے کہا۔’’ خدا کی قسم، ہم تیرے ساتھ ہیں تو پوری وفا کریں گے۔ ایک خطرہ آرہا ہے۔ اسے تو خود ہی دیکھ لے۔ تکریت ایک شہر ہے شاید موصل سے کچھ دور ہے۔‘‘

’’ہاں!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ تکریت رومیوں کا شہر ہے۔ کیا ہے اس شہرمیں؟‘‘

’’وہاں ہم پر حملے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔‘‘ عیسائی مجاہد نے کہا۔’’ میرے قبیلے تغلب کے لوگ بنو نمر اور بنو عیاد کے لوگ وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور وہ رومیوں کو اکسا رہے ہیں کہ ہم پر حملہ کریں۔ رومی شاید کہیں سے پسپا ہو کر تکریت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘‘

’’میں جانتا ہوں۔‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ موصل پر ابو عبیدہ اور خالد بن ولید نے قبضہ کر لیا ہے، تکریت میں اگر رومی اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ سب پسپا ہو کر آئے ہیں۔‘‘

تکریت شام اور عراق کی سرحد پر ایک بڑا قصبہ تھا ۔ادھر فارسی شکست کھا کر بھاگے تھے ادھر رومی مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر بھاگے ،تو ان میں سے کچھ تکریت میں اکٹھے ہو گئے۔ تاریخ کے مطابق عرب کے کچھ عیسائی قبائل مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے رومیوں کے پاس پہنچ گئے۔ یہ عیسائی جو سعدؓ بن ابی وقاص کو یہ اطلاع دے رہا تھا، اس لیے وسوخ سے بات کر رہا تھا کیونکہ اس کے قبیلے کا ایک عیسائی سردار تکریت سے کسی بہروپ میں یا کسی دھوکے سے جلولا آیا۔ وہ عیسائیوں کے قبیلے بنو تغلب کا سردار تھا۔ جلولا میں وہ اپنے قبیلے کے ان عیسائیوں سے ملا جو مسلمانوں کے ساتھ فارسیوں کے خلاف لڑنے آئے تھے۔ حضرت عمرؓ اور مثنیٰ بن حارثہ نے دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور انہیں مالِ غنیمت میں سے برابر کا حصہ دیتے رہے تھے اور ان میں جو خصوصی بہادری سے لڑے تھے ،انہیں الگ انعام بھی دیا تھا۔

یہ عیسائی سردار جلولا میں ان عیسائی مجاہدین سے ملا اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ آجائیں ۔یہ سردار انہیں تکریت لے جانا چاہتا تھا تاکہ وہ رومیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں۔ عیسائیوں کی اس سازش میں یہودیوں کا ہاتھ بھی تھا۔ ان عیسائی قبائل کو عرب سے یہودی ہی لائے اور انہیں تکریت پہنچایا تھا۔

یہ سعدؓ بن ابی وقاص اور ان کے لشکر کیلئے بڑی ہی خطرناک سازش تھی۔ یہودیوں نے سعدؓ بن ابی وقاص کے لشکر کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا کہ یہ لشکر مسلسل لڑتا چلا آرہاتھا ۔ایک تو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے اس کی تعداد کم ہو گئی تھی اور باقی لشکر جو بظاہر صحیح سلامت تھا، تھک کر شل ہو چکا تھا۔ یہ تو ان کے جذبوں کا معجزہ تھا، جو وہ فتح حاصل کرتے چلے جا رہے تھے۔ جہاں تک جسموں کا تعلق تھا جسم لڑنا تو دور کی بات ہے تھوڑا سا سفر کرنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ یہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے اس لشکر کو حلوان سے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ دوسری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لشکر اب کچھ عرصے کیلئے لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔

بنو تغلب کے اس عیسائی نے تکریت سے آئے ہوئے سردار کو مایوس نہ کیا۔ دوسرے عیسائیوں نے بھی اسے کہا کہ وہ اُدھر سے بھاگ کر تکریت پہنچ جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی جانے کیلئے تیار نہ تھا۔ سردار کے جانے کے بعد ان سب نے اس عیسائی کو جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا ،کہا کہ وہ سپہ سالار کو خبردار کر دے کہ تکریت میں ہم پر حملہ کرنے کیلئے ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو پیغام دے کر مدینہ بھیجا ۔انہوں نے پیغام یہ لکھوایا کہ انہیں اجازت دی جائے کہ پیشتر اس کے کہ رومی عرب ان عیسائی قبائل سے مل کر حملہ کر دیں ،ادھر سے ان پر حملہ کر دیا جائے۔

قاصد کو بھیج کر سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے ان دو تین جاسوسوں کو بلایا جو دراصل عربی تھے لیکن کچھ عرصے سے عراق میں آباد تھے انہیں کچھ ہدایات دے کر تکریت بھیج دیا ۔یہ آدمی جاسوسی اور مخبری کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ وہ اسی وقت مختلف بھیس بدل کر روانہ ہو گئے۔

٭

یہ مخبر چند دنوں بعد واپس آئے تو انہوں نے تصدیق کر دی کہ تکریت میں سعد ؓبن ابی وقاص کے لشکر پر حملے کی تیاریاں جوش و خروش سے ہورہی ہیں اور دو چار دنوں میں وہاں سے کوچ کر آئے گا۔

’’خدا کی قسم!‘‘سعدؓ ابن وقاص نے بڑی جوش سے کہا ۔’’ہم انہیں تکریت سے باہر نہیں آنے دیں گے۔ میرے لشکر کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں لیکن اﷲ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے جذبے تروتازہ ہیں۔‘‘

سعدؓ نے اپنے سالاروں کو اور لشکر کو بھی خبردار کر کے تیارکر لیا۔ کچھ دن گزرے تو مدینہ سے حضرت عمرؓ کا جواب آگیا۔

حضرت عمرؓ نے لکھا کہ رومیوں نے ابو عبیدہؓ سے شکست کھاکر سوچا ہو گا، جتنا علاقہ وہ مسلمانوں کو دے آئے ہیں۔ اتناوہ عراق میں مسلمانوں سے لے لیں گے۔ حضرت عمرؓ نے لکھاکہ انہیں تکریت سے نکلنے کی مہلت نہ دی جائے۔ عبداﷲ بن معتم کو پانچ ہزار سوار دے کر فوراً تکریت بھیج دیا جائے۔

سعد ؓبن ابی وقاص نے لشکر کو پہلے ہی تیار رکھا ہوا تھا۔نہیں توقع تھی کہ امیر المومنینؓ حملے کا حکم ضرور دیں گے۔ حضرت عمر ؓکو معلوم تھا کہ تکریت کے اردگرد دور تک کا علاقہ عیسائی قبائل کا علاقہ تھا۔ دجلہ کے ایک طرف بنو ایاد اور دوسری طرف بنو تغلب آباد تھے۔ یہ قبیلے صحرائے عرب میں بھی رہتے تھے۔

حملے کا حکم ملتے ہی سعد ؓبن ابی وقاص نے عبداﷲ بن معتم کوپانچ ہزار منتخب سوار دے کر تکریت کی سمت روانہ کر دیا۔ بوقتِ رخصت سعد ؓبن ابی وقاص نے عبداﷲ بن معتم کو صرف یہ الفاظ کہے کہ’’ ابنِ معتم!میں شکست کی خبر برداشت نہیں کر سکوں گا۔‘‘

دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عبداﷲ بن معتم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے ہونٹوں پرکچھ اور ہی قسم کا تبسم آگیا اور وہ خدا حافظ کہہ کر چل پڑا۔

کچھ دنوں بعد یہ لشکر تکریت پہنچا جوکہ یہ گھوڑ سواروں کا لشکر تھا ،ا سلئے اس کے کوچ کی رفتار خاصی تیز تھی ۔رفتار کو معمول کی رفتار سے زیادہ تیز اس لئے رکھا گیا کہ تکریت کے لشکر کو وہاں سے حملے کیلئے نکلنے کی مہلت نہیں دینی تھی۔ عبداﷲ بن معتم نے بھی اپنی یہ خواہش پوری کر لی۔ تکریت سے ابھی رومیوں اور عیسائیوں کا لشکر نہیں نکلا تھا کہ عبداﷲ بن معتم نے تکریت کو محاصرے میں لے لیا۔

٭

مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ محاصرہ چالیس دن تک رہا۔ شہر کے اندر جو رومی تھے وہ خالدؓ بن ولید اور بعض نے ابو عبیدہ ؓبن الجراح سے بری طرح پٹ کر بھاگے اور یہاں پہنچے تھے ۔ان پر مسلمانوں کی دہشت کاطاری ہونا قدرتی امر تھا۔ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ یہ شہرمحاصرے میں آجائے گا۔ انہیں یہ بھی توقع نہیں تھی کہ مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام اتنا تیز اور ہوشیار ہے کہ انہیں ان کے ارادوں کا قبل از وقت علم ہو جائے گا۔ وہ خوش فہمی میں اطلاع رہے اور اس وجہ سے انہوں نے شہرمیں نہ خوراک کا ذخیرہ کیا اور نہ پانی کا،نہ انہوں نے وہ انتظامات کیے جو محصور ہو کر ضروری سمجھے جاتے ہیں۔

مسلمانوں نے ان چالیس دنوں میں دروازے توڑنے اور رات کو کمندیں پھینک کر دیوار پر چڑھنے کی لگاتارکوششیں کیں۔ مسلمان اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن ان کوششوں کا شہر کے اندر ایک نفسیاتی اثر پڑا ۔ شہر کے لوگوں میں بد دلی پیدا ہونے لگی ۔لوگوں پوخوف طاری ہو نا ہی تھا کیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ شام سے رومیوں اور عراق سے فارسیوں کی پسپائی کی خبریں پہنچتی رہتی تھیں بلکہ شام سے بھاگے ہوئے رومی بھی ان کے درمیان موجود تھے۔

رومیوں نے کچھ اپنے آپ کو حوصلہ دینے کیلئے اور کچھ لوگوں کا حوصلہ مضبوط کرنے کیلئے دو تین مرتبہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا۔ لیکن ہر بار انہیں کئی لاشیں اور زخمی پیچھے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

عبداﷲ بن معتم اور اس کے دو عیسائی جاسوسوں نے ایک معجزہ نما کارنامہ کر دکھایا۔ وہ اس طرح تھا کہ عبداﷲ بن معتم نے دو بڑے ہوشیار قسم کے عیسائیوں کو تیار کیا کہ اب اگر رومی باہر آکر حملہ کریں تو یہ دونوں عیسائی آگے بڑھ کر اس طرح ان سے جا ملیں جیسے وہ ادھر سے بھاگ کر ان کے پاس چلے گئے ہوں۔ یہ تو یورپی مؤرخوں اور مبصروں نے بھی لکھا ہے کہ اس دور کے عربوں میں خصوصی ذہانت تھی جو کسی اور قوم میں کم ہی پائی جاتی تھی۔ عبداﷲ بن معتم نے اسی ذہانت کو بروئے کار لاکر یہ اسکیم تیار کی تھی ۔اس نے ان دونوں عیسائیوں کو یہ بتایا تھا کہ وہ شہر کے اندر جاکر ظاہر یہ کریں کہ وہ اپنے عیسائی بھائیوں کے پاس آگئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔ لیکن انہیں اندر جا کر عیسائی قبائل کے سرداروں سے ملنا اور انہیں اپنے سالار عبداﷲ بن معتم کا یہ پیغام دینا تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کریں اور رومیوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے خلاف ہو جائیں تو انہیں مالِ غنیمت میں سے وہی حصہ دیا جائے گا جو مسلمانوں کو دیا جاتاہے اور اس کے علاوہ شہر سے جتنے رومی قیدی ملیں گے اور ان کی جتنی عورتوں کو لونڈیوں اور کنیزوں کے طور پر پکڑا جائے گا وہ سب عیسائیوں کو دے دی جائیں گی۔

عبداﷲ بن معتم نے ان دونوں عیسائی جاسوسوں کو جو پیغام دیا تھا اس میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم یہ شہر آخر کار لے ہی لیں گے ۔ اگر ہماری یہ پیش کش قبول نہ کی گئی تو کسی ایک بھی عیسائی سے کوئی مروت نہیں کی جائے گی اور سب کو غلام بنا کرمدینہ بھیج دیاجائے گا۔

٭

اﷲ کی مدد شاملِ حال ہو تو حالات خود ہی سازگار ہو جاتے ہیں ۔تین چار دنوں بعد رومیوں نے ایک بار پھر باہر آکر حملہ کیا ۔مجاہدین نے حملہ آوروں کو گھیرے میں لینے اور عقب میں جاکر دروازے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن رومی اتنے محتاط تھے کہ زیادہ آگے آتے ہی نہیں تھے۔

مجاہدین نے ان رومیوں کی حالت خاصی بگاڑ دی تھی اور رومی بہت سی لاشیں اور زخمی باہر چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔دونوں عیسائی جاسوس بھی ان کے ساتھ شہر میں داخل ہو گئے۔

ان دونوں نے بنو تغلب ،بنو ایاد اور بنو نمر کے سرداروں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انہیں عبداﷲ بن معتم کا پیغام دیا۔ یہ بڑے ہوشیار جاسوس تھے ۔دوسروں کو اپنے زیرِ اثر کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سرداروں کو بتایا کہ مسلمانوں کے لشکر میں فارسیوں کے خلاف لڑ کر انہیں مسلمانوں نے اتنی دولت دی ہے جو ان کی آنے والی نسلوں کیلئے بھی کافی ہو گی، ایسی بہت سی باتیں کر کے اور کچھ سبز باغ دکھا کر ان سرداروں کو رام کر لیا۔

ایک تو ان جاسوسوں کا کمال تھا کہ سرداروں نے عبداﷲ بن معتم کی پیش کش قبول کر لی، دوسرے وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ رومی حوصلہ ہار بیٹھے ہیں اور نقصان ہی اٹھا رہے ہیں اور پھر شہر کے لوگ تھے جو اس قدر تنگ آگئے تھے کہ انہو ں نے رومیوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ محاصرے کا چالیسواں دن تھا۔

ایک رات کسی عیسائی نے دیکھا کہ رومیوں نے دجلہ میں کشتیاں اکٹھی کر لی ہیں اور ان میں سامان لاد رہے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی بٹھا رہے ہیں۔ صاف پتہ چل گیا کہ وہ کشتیوں سے دریا پار کریں گے، اور اس طرح وہ چوری چھپے بھاگیں گے۔

دونوں عیسائی جاسوسوں کو پتہ چلا تو دریا کی طرف کھلنے والے درواز ے سے وہ دونوں نکل آئے ۔ان کیلئے نکل آنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ انہوں نے نکلنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اندر سے کچھ سامان اٹھایا جو باہر جاکر ایک کشتی میں رکھا ۔وہ تو ایک ہجوم تھا جو کشتیوں میں سامان لاد رہا تھا ۔ان دونوں جاسوسوں نے کشتیوں میں سامان رکھا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکل آئے اور اپنے سالار عبداﷲ بن معتم کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔

’’تم دونوں ایک بار پھر اندر چلے جاؤ۔‘‘ عبداﷲ بن معتم نے ان جاسوسوں سے کہا۔’’ اپنے عیسائی سرداروں سے کہو کہ وہ دروازوں پر قبضہ کرلیں اور دو دروازے کھول دیں۔‘‘

دونوں جاسوس پھر دریاکے کنارے چلے گئے ۔وہاں سے اندر جانا کوئی مشکل نہ تھا۔ عیسائی سردار خود بھی مسلمانوں کی مدد کرنے پر اتر آئے تھے، اور انہوں نے اپنے قبیلوں کو بھی تیار کر لیا تھا۔

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اندر کے عیسائیوں نے دو دروازے کھول دیئے۔ عبداﷲ بن معتم نے یوں کیا کہ اپنا آدھا لشکر ان دروازوں سے شہرمیں داخل کیا اور آدھے لشکر کو دریا کی طرف بھیج دیا۔ شہر میں ہڑبونگ اور افراتفری بپا ہو گئی۔ رومیوں کو پسائی کا حکم مل چکا تھا۔ اس لئے وہ دریا کی طرف کھلنے والے دروازے سے بھاگنے لگے۔ وہ مطمئن تھے کہ کشتیاں تیار ہیں جو انہیں دجلہ کے پار لے جائیں گی۔

وہ جب اس دروازے سے نکل رہے تھے تو انہیں معلوم نہ تھا کہ وہ بڑی تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ آگے مجاہدین تلواریں اور برچھیاں لیے ان کے انتظار میں تیار کھڑے تھے ۔انہوں نے باہر نکلنے والے رومیوں کو کاٹنا اور برچھیوں سے چھلنی کرنا شروع کر دیا۔ پیچھے سے ان عیسائیوں نے جو ان کے اپنے ساتھی تھے، انہیں کاٹنا شروع کر دیا۔ رات بھر مسلمان اور عیسائی رومیوں کا قتلِ عام کرتے رہے ۔صبح ہوئی تو شہر کے اندر اور باہر رومیوں کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ عیسائی سردار عبداﷲ بن معتم سے ملے۔

’’خد اکی قسم!‘‘عبداﷲ بن معتم نے ان سرداروں سے کہا۔’’ میں تمہیں اس سے زیادہ دوں گا جو میں نے وعدہ کیا تھا ۔ان کشتیوں میں جتنا مال و اسباب ہے وہ اٹھا لو اورا اپنے قبیلوں میں تقسیم کر دو۔ یہ خیال رکھنا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ شہرمیں جتنی عورتیں اور بچے رہ گئے ہیں وہ سب تمہارے ہیں ،لیکن میں تم سے اسلامی اصول کی پابندی کرواؤں گا۔ وہ یہ ہے کہ کسی عورت کے ساتھ زیادتی نہ ہواور کوئی بچہ لا وارث اور محتاج نہ رہ جائے ۔ان عورتوں کے ساتھ شادیاں کرو اور ان کے بچوں کے زندہ رہنے کا پورا حق دو۔‘‘

تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جب عبداﷲ بن معتم کے جاسوسوں نے عیسائی سرداروں سے بات کی تھی تو ان تمام عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کسی اور مستند مؤرخ نے یہ بات نہیں لکھی، یہ قابلِ یقین بھی نہیں لگتا کہ عیسائیوں نے اتنی جلدی اسلام قبول کر لیا تھا۔ عیسائیت ایک ٹھوس مذہب کی حیثیت رکھتا تھا ۔اس کے پیروکاروں کا اجتماعی طور پراسلام قبول کرنا قابلِ یقین نہیں رکھتا۔ بہرحال ایک خطرہ جو اس طرف سے تیار ہو رہا تھا ،وہ وہیں ختم ہو گیا۔

٭

’خد اکی قسم!‘‘عبداﷲ بن معتم نے ان سرداروں سے کہا۔’’ میں تمہیں اس سے زیادہ دوں گا جو میں نے وعدہ کیا تھا ۔ان کشتیوں میں جتنا مال و اسباب ہے وہ اٹھا لو اورا اپنے قبیلوں میں تقسیم کر دو۔ یہ خیال رکھنا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ شہرمیں جتنی عورتیں اور بچے رہ گئے ہیں وہ سب تمہارے ہیں ،لیکن میں تم سے اسلامی اصول کی پابندی کرواؤں گا۔ وہ یہ ہے کہ کسی عورت کے ساتھ زیادتی نہ ہواور کوئی بچہ لا وارث اور محتاج نہ رہ جائے ۔ان عورتوں کے ساتھ شادیاں کرو اور ان کے بچوں کے زندہ رہنے کا پورا حق دو۔‘‘

تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جب عبداﷲ بن معتم کے جاسوسوں نے عیسائی سرداروں سے بات کی تھی تو ان تمام عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کسی اور مستند مؤرخ نے یہ بات نہیں لکھی، یہ قابلِ یقین بھی نہیں لگتا کہ عیسائیوں نے اتنی جلدی اسلام قبول کر لیا تھا۔ عیسائیت ایک ٹھوس مذہب کی حیثیت رکھتا تھا ۔اس کے پیروکاروں کا اجتماعی طور پراسلام قبول کرنا قابلِ یقین نہیں رکھتا۔ بہرحال ایک خطرہ جو اس طرف سے تیار ہو رہا تھا ،وہ وہیں ختم ہو گیا۔

٭

حضرت عمرؓ کے اس حکم کے پیچھے کہ فارسیوں کے تعاقب میں آگے نہ بڑھا جائے ،ایک ایسی دانشمندی تھی جس کا سب کو بعد میں احساس ہوا۔ اگر سعدؓ بن ابی وقاص فارسیوں کے تعاقب میں پہاڑیوں میں چلے جاتے تو تکریت کے رومیوں نے جس طرح عیسائی قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اسی طرح عراق کے مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر بغاوت پھیلا سکتے تھے اور پھر انہوں نے پہاڑی علاقے میں پھنسے ہوئے سعدؓ بن ابی وقاص کے لشکر پر عقب سے حملہ کر دیا تھا۔

اس کے فوراً بعد ایک اور طرف سے خطرہ آگیا۔ یہ خطرہ قرقیسیا سے سر اٹھا رہا تھا۔ یہ شہر عراق اور شام کی سرحد پر دریائے فرات اور چھوٹے سے ایک دریا خابور کے سنگم پر واقع تھا ۔اس کی اطلاع بھی سعدؓ بن ابی وقاص کو قبل از وقت مل گئی تھی۔ انہوں نے اسی وقت تیز رفتار قاصد کو مدینہ بھیج کر امیر المومنین ؓکا حکم لیا کہ قرقیسیا پر حملہ کر دیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے حکم بھیجا کہ عمرو بن مالک کی قیادت میں پانچ ہزار کا لشکر قرقیسیا بھیجا جائے ۔

عمرو بن مالک نے وہاں جا کر قرقیسیا تھوڑی سے مزاحمت کے بعد فتح کر لیا اور اس کے ساتھ ہی حارث بن یزید کو دو اڑھائی ہزار سوار دے کر ایک اور چھوٹے سے شہر کی طرف بھیج دیا کیونکہ وہاں سے بھی اطلاع آئی تھی کہ دشمن حملے کی تیاری کر رہا ہے۔

پھر اطلا ع ملی کہ فارس کی فوجیں ایک اور شہر ماسبدان اکٹھی ہو رہی ہیں۔ وہاں ضرار بن خطاب کو بھیجا گیا۔ فارس کی فوج شہر سے باہر آگئی اور کھلے میدان میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی لیکن زیادہ تر خونریزی فارسیوں کی ہوئی۔ فارسیوں کا جرنیل بھی مارا گیا۔ وہ ضرار بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیاتھا۔

عراق کی فتح کی تاریخ ایسی مختصر نہیں کہ اسے ایک ہی کتاب میں سمیٹا جا سکے ۔یہ داستان جو پیش کی گئی ہے صرف ان سالاروں سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے عراق کے شمالی مغربی اور مشرقی حصے فتح کیے تھے ۔جنوبی علاقوں میں حضرت عمرؓ نے عتبہ بن غزوان کو بھیجا تھا۔ ان کے ساتھ ایک اور سالار عرفہ بن حرثمہ بارتی تھے ۔یہ ابلہ کو روانہ ہوئے۔ ابلہ ایک بڑی اور مصروف بندرگاہ تھی۔ خلیج فارس کے راستے وہاں چین اور ہندوستان کے تجارتی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ شہر میں ہندوستانی تاجروں کی تعداد خاصی زیادہ تھی ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آج کل بصرہ آباد ہے ۔

تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسیوں نے یہاں فوج کچھ کم ہی رکھی تھی۔ وہ زیادہ تر فوج کو قادسیہ کے علاقوں میں استعمال کر رہے تھے۔ عتبہ اور عرفہ نے ابلہ پر چڑھائی کی تو فارسی دفاع میں ڈٹ کر لڑے۔لیکن وہاں چین اور ہندوستان کے تاجروں کی خاصی تعداد تھی۔ انہو ں نے شہر سے نکل جانے میں عافیت سمجھی ۔وہ ہلکا پھلکا سامان لے کر شہر سے نکلے۔ دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ مسلمان لشکر شہر میں داخل ہو گیا۔

٭

محمد حسنین ہیکل نے متعدد مؤرخوں کے حوالے دے کر لکھا ہے کہ عراق کے جنوبی حصے میں جو فتح حاصل کی وہ ایسی دشوار نہ تھی جیسی قادسیہ اور مدائن کے علاقوں میں مثنی بن حارثہ ،سعدؓ بن ابی وقاص اور دیگر سالاروں نے حاصل کی تھیں۔ وہ تو فتوحات کا ایک سلسلہ تھا جس میں مجاہدین نے بے دریغ قربانیاں دیں۔ یہ تفصیلات بیان ہو چکی ہیں۔

عتبہ بن غزوان نے ابلہ کا مشہور ،بڑا اور امیر شہرلے لیا تو اس نے بھاگتی ہوئی فارسی فوج کا تعاقب کیا۔ فارس کی فوج نے دریا پار کر لیا۔ مجاہدین نے فارسیوں کو پل تباہ کرنے کی مہلت نہ دی اور ا ن کے تعاقب میں دریا پار کیا او ر ان سے ایک بڑا قصبہ دست میسان لے لیا ۔اس قصبے میں ایک فارسی سردار تھا ۔اس کی ایک نوجوان بیٹی بہت ہی خوبصورت تھی ۔عتبہ نے اس لڑکی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ یہ خبر سن کرپریشان ہو گئے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مدائن اور جلولا سے مالِ غنیمت آیا تھا تو حضرت عمرؓ رو پڑے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ اتنی زیادہ دولت دے کر اﷲ نے ہمیں بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دولت کے طلسم میں گرفتار ہو کر صراطِ مستقیم سے بھٹک جائیں ۔

اب انہیں ایسی ہی رپورٹ ملی جس سے وہ ڈرتے تھے ۔ انہوں نے اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ عتبہ کو فوراً مدینہ بھیجو ۔

عتبہ بن غزوان کو جونہی حکم ملا وہ مدینہ کو روانہ ہو گیا۔ کئی دنوں کی مسافت طے کر کے و ہ مدینہ پہنچا اورسیدھا امیر المومنین ؓکی خدمت میں حاضر ہوا۔

’’ابنِ غزوان!‘‘حضرت عمر ؓنے عتبہ سے پہلی بات یہ پوچھی ۔’’اپنا قائم مقام کسے مقرر کرکے آئے ہو؟‘‘

’’لشکر کے لئے مجاشع بن مسعود کو قائم مقام سالار مقرر کیاہے۔‘‘ عتبہ نے جواب دیا۔’’ اور نماز پڑھانے کیلئے مغیرہ بن شعبہ کو مقرر کیا ہے۔‘‘

’’خد اکی قسم ‘ابنِ غزوان!‘‘حضرت عمرؓ نے سخت غصیلی آواز میں کہا۔’’ میں نے جو سنا وہ سچ سنا کہ فارسیوں کی چھوڑی ہوئی نعمتوں نے تمہارا دماغ تمہارے قبضے سے نکال دیا ہے۔ کیا مجاشع بدو نہیں ہے؟ کیا کسی بدو میں اتنی عقل ہے کہ وہ مجاہدین کے لشکر کا امیر اور مفتوحہ شہروں کے شہریوں کا حاکم بن سکے ۔مغیرہ نے مرغاب میں فارسیوں کو شکست دی تھی۔‘‘

’’لیکن امیر المومنین!‘‘عتبہ نے کہا۔ ’’مجاشع کو میں فاتح فرات سمجھتا ہوں۔ اس کے قبیلے نے فرات کے کنارے فارسیوں کو شکست دی ہے۔‘‘

’’کیا تم نہیں سمجھ سکے ۔‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’ کوئی بدوی رسول)ﷺ(کے کسی صحابی پر امیر مقرر نہیں ہو سکتا اور کسی بدوی میں اتنی دانشمندی اور اتنا تدبر ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ابلہ جیسے بڑے شہر کا امیر مقر کردیا جائے۔ ‘‘

مغیرہؓ نے مرغاب کے میدان میں فارسیوں کو جو شکست دی تھی وہ کوئی معمولی سی لڑائی نہیں تھی۔ بڑا ہی خونریز معرکہ تھا ۔فارسیوں نے تو جیسے قسم کھالی تھی کہ وہ یہ جنگ جیت کر ہی رہیں گے ۔مغیرہؓ اور ان کے مجاہدین کو بڑی سخت مشکل کا سامنا تھا۔

قریب تھا کہ مجاہدین کے پاؤں اکھڑ جاتے۔ معرکہ ایسا گھمسان کا تھا کہ مجاہدین کی ترتیب بکھر گئی تھی۔ اچانک اﷲ کی مدد آگئی۔ یہ مدد اس طرح آئی کہ پہلو کی طرف سے ایک لشکر گھوڑے سر پٹ دوڑاتا آرہا تھا ان میں پیادے بھی تھے اور اس لشکر نے پرچم زیادہ تعداد میں اٹھا رکھے تھے ۔ان میں زیادہ تر پرچم سبز رنگ کے تھے۔ اس لشکر کو دیکھ کر فارسی اس خطرے کے پیشِ نظر معرکے سے نکلنے لگے کہ مسلمانوں کی کمک آرہی ہے۔ فارسیوں نے سنبھلنے کی کوشش کی تو مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے انداز سے ان پر غالب آنا شروع کر دیا۔ کمک جو آئی تھی اس نے مجاہدین کا کام آسان کر دیا۔ فارسی بری طرح پسپا ہونے لگے اور آخر مرغاب کے میدان میں بے انداز لاشیں اور زخمی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

یہ کمک کوئی باقاعدہ مجاہدین کا لشکر نہ تھا بلکہ یہ مجاہدین کی بیویاں ،جوان بیٹیاں، بہنیں وغیرہ تھیں جو اس زمانے کے دستور کے مطابق لشکر کے ساتھ جایا کرتی تھیں۔ اسلام کی بیٹیوں نے دیکھا کہ ان کے مردوں کے قدم اکھڑ رہے ہیں اور فارسی غالب آتے جا رہے ہیں تو ان خواتین نے اپنے آنچلوں کے پرچم بنا لیے۔ ان کے پاس ہتھیار موجود تھے ۔فارسیوں کے گھوڑے بھی موجود تھے ۔سالار کا حکم لیے بغیر ان خواتیں نے پہلو سے حملہ کر دیا۔

مغیرہؓ کی یہ فتح کوئی معمولی فتح نہ تھی۔ کچھ اس فتح کی وجہ سے اور زیادہ تر اس لئے کہ مغیرہؓ صحابی تھے، حضرت عمرؓ نے انہیں ہی امیرِ لشکر مقرر کردیا۔

عتبہ بن غزوان کو مدینہ میں کئی دن گزر گئے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ وہ اپنے محاذ پر واپس چلا جائے ۔عتبہ نے کچھ عذر اور کچھ بہانے پیش کر کے محاذ پر جانے سے معذوری کا اظہار کردیا۔حضرت عمرؓ سمجھ گئے کہ یہ کیوں واپس نہیں جانا چاہتا۔

’’امیرِ لشکر مغیرہ ہی رہے گا۔‘‘ حضرت عمر ؓنے اپنے مخصوص انداز میں عتبہ کو حکم دیا ۔’’تم آج ہی محاذ کو روانہ ہوجاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ تم امیر المومنین کی حکم عدولی نہیں کرو گے۔‘‘

عتبہ نے حکم عدولی کی جرأت نہ کی اور اسی روز روانہ ہو گیا۔ لیکن عراق کے محاذ تک نہ پہنچ سکا کیونکہ بطن نخلہ کے مقام پر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا کہ جانبر نہ ہو سکا۔

٭

یہاں ہم کچھ اور اہم اور دلچسپ باتیں سنانا ضروری سمجھتے ہیں۔

مجاہدین کوعراق میں مہینے نہیں بلکہ کچھ سال گزر گئے تھے ۔ایک روز جلولا ،حلوان ،تکریت اور موصل سے تین چار مجاہدین مدینہ آئے اور حضرت عمرؓ سے ملے ۔

’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمر ؓنے انہیں دیکھ کر کہا۔’ تمہاری صورتیں بدلی بدلی سی لگتی ہیں۔ قادسیہ اور مدائن سے کچھ لوگ آئے تھے، میں نے ان کے چہروں میں بھی یہی تبدیلی دیکھی ہے۔کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘

’’یہ وہاں کی آب و ہوا کا اثر ہے امیر المومنین!‘‘حضرت عمرؓ کو جواب ملا۔

’’ہاں مجھے یاد آیا ۔‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔ ’’حذیفہ بن یمان نے مجھے ایک بار مدائن سے لکھا تھا کہ یہاں عربوں کے پیٹ پچک گئے ہیں اور جسم سوکھتے جا رہے ہیں اور چہروں کی رنگتیں بھی پھیکی پڑ گئی ہیں۔ میں نے ایک بار سعد بن ابی وقاص سے پوچھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ حذیفہ بن یمان نے سعد کے کہنے پر ہی مجھے خط لکھا تھا ۔میں اس کا کچھ انتظام کرتا ہوں ۔‘‘

عراق دریاؤں ندیوں اور ہرے بھرے جنگلات اور سبز پوش پہاڑیوں کا خوبصورت خطہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس خطے میں نمی زیادہ تھی جو عربوں کو راس نہیں آسکتی تھی، کیونکہ عرب کے لوگ صحرا کی خشک فضاؤں میں رہنے واے تھے۔ حضرت عمرؓ نے مجاہدین کی صحت کے متعلق خاصی تشویش کا اظہار کیا اور سعدؓ بن ابی وقاص کو ایک طویل خط لکھا اس کے کچھ الفاظ یہ تھے:

’’عربوں کو وہی آب و ہوا راس آئے گی جو ان کے اونٹوں کو راس آتی ہے ۔کوئی ایسا خطہ تلاش کرو جس میں خشکی اور تری ایک جیسی ہو ۔یہ بھی خیال رکھو کہ میرے اور اس خطے کے درمیان کوئی دریااور کوئی پل حائل نہ ہو۔‘‘

حضرت عمرؓ نے اس پیغام میں پوری وضاحت کی تھی کہ ایسی جگہ تلاش کرو جو صحرا کی طرح خشک ہو لیکن اس میں صاف ستھرے پانی کی نہریں اور چشمے بھی ہوں۔ حضرت عمرؓ کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ جو خطہ تلاش کیا جائے ا سکے راستے میں سمندر یا دریا حائل نہ ہو ۔ تاکہ کوئی مدد یا کمک بھیجنے کی ضرورت پڑے تو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے موصل سے عبداﷲ بن معتم اور جلولا سے قعقاع بن عمروکو بلا کر حضرت عمر ؓکا پیغام سنایا اور انہیں کہا کہ وہ کوئی مقام تلاش کریں ۔ان دونوں سالاروں نے اسی وقت فیصلہ دے دیا کہ کوفہ ایک ایسا مقام ہے جو فرات کے قریب ہونے کی وجہ سے سرسبز اور شاداب بھی ہے اور صحرا بھی اتنا قریب ہے جو اس علاقے کی نمی کو زیادہ بڑھنے نہیں دے گا کہ عربوں کی صحت پر برا اثر پڑے۔

دوسرے سالارو ں نے بھی اس تجویز کی تائید کر دی اور سعدؓ بن ابی وقاص اسی وقت کوفہ کو روانہ ہو گئے۔

وہاں انہوں نے ایک بلند جگہ منتخب کی اور حکم دیا کہ یہاں مسجد کی تعمیر شروع کر دی جائے۔ عربوں کا اپنا ہی ایک انداز ہوا کرتا تھا۔ ایک تیر انداز کو مسجد کی جگہ کھڑا کر کے کہا گیا کہ وہ چاروں طرف ایک ایک تیر پھینکے۔ تیر انداز نے کمان میں تیر ڈال کر چاروں طرف ایک ایک تیر چھوڑا ۔سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا کہ جہاں جہاں تک تیر پہنچے ہیں اس تمام جگہ کا بازار اور آبادی بنا دی جائے۔

٭

مسجد تعمیر ہوئی ۔اس کی چھت کے نیچے جو ستون رکھے گئے وہ کسریٰ کے محل سے لائے گئے تھے اور مسجد کی تعمیر ایک فارسی معمار نے کی تھی ۔یہ معمار اس خاندن سے تعلق رکھتا تھا جس خاندان نے کسریٰ کے محل تعمیر کیے تھے۔ اس معمار نے مسجد کے قریب ایک بڑا ہی خوبصورت مکان تعمیر کیا جس میں بیت المال کی تعمیر بھی شامل تھی۔ اس عمارت کا نام’’ قصرِ سعد‘‘ رکھا گیا۔

مجاہدین کے لشکر کو اجازت دی گئی کہ وہ اس علاقے میں اپنے اپنے مکان تعمیر کر لیں ۔لیکن اس سے پہلے سعدؓ بن ابی وقاص نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ انہوں نے حیرہ اور فرات کے درمیان کوفہ کو منتخب کرلیا ہے۔جہاں خشکی اور نمی برابر ہیں اور مجاہدین سے کہا گیا ہے کہ وہ یہاں آکر آباد ہو جائیں ۔اس پیغام میں سعدؓ نے یہ بھی لکھا کہ مجاہدین نے آکر اپنے اپنے خیمے نصب کر لیے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے اس پیغام کا جواب یہ دیا کہ لشکر کا مرکز اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ لشکر کی حفاظت کر سکے ۔اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ خیموں کے بجائے بانسوں کے مکان بنائے جائیں۔ حضرت عمرؓ کا مقصد دراصل یہ تھا کہ عرب کے لوگ بلند و بالا اور خوبصورت مکانوں میں رہنے لگے تو ان کے دماغ اسی طرح خراب ہو جائیں گے جس طرح دولت خراب کیا کرتی ہے۔

وقت گزرتا چلا گیا ۔اس علاقے میں بانس کی کمی نہیں تھی ۔مجاہدین نے اس علاقے کے کاریگروں کی خدمات حاصل کر کے بانسوں کے مکان بنا لیے ۔یہ سب مکان ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے ۔کسی بھی تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ وجہ کیا ہوئی یا عربی لوگ اس قسم کے مکانوں میں رہنے کے عادی نہیں تھے اور کسی سے کوئی بے احتیاطی ہو گئی، ہوا یہ کہ اچانک ایک مکان میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بانسوں کی یہ بستی جل کر راکھ ہوگئی۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے حضرت عمر ؓکو پیغام بھیجا اوریہ اجازت مانگی کہ لوگ اینٹوں اور پتھروں کے مکان بنا لیں۔

’’ہاں اینٹوں اور پتھروں کے مکان بنانے کی اجازت دے دو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے پیغام کا جواب دیا۔’’ لیکن سختی سے حکم جاری کر دو کہ کوئی شخص تین کمروں سے زیادہ کا مکان نہ بنائے اور دیواریں اونچی نہ ہوں۔ تم سنت کے پیچھے چلو ۔دولت تمہارے پیچھے چلے گی۔‘‘

مجاہدین نے اینٹوں اور پتھروں کے مکان تعمیر کروانے شروع کر دیئے۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ چند ہی برسوں میں یہ بستی اتنی خوبصورت بلکہ عظیم الشان ہو گئی کہ حیرہ جو عظمت و شوکت میں یکتا تھا اس مقابلے میں بجھ کر رہ گیا۔ پھر کوفہ کو ہی اسلامی سلطنت کا دار الخلافہ بنا دیا گیا ۔سعد ؓبن ابی وقاص مدائن سے کوفہ منتقل ہو گئے اور نئے مکان میں رہنے لگے ۔ انہوں نے خود ہی اس جگہ کے اردگر دبازار بنوائے تھے جہاں تاجروں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ شوروغل اتنا ہوتاتھا کہ سعد ؓپریشان ہو گئے۔ انہوں نے معمار کو بلا کر کہا کہ مجھے اس شوروغل اور ہنگانے سے نجات دلواؤ۔ میں اس شوروغل کو بند نہیں کر سکتا ۔اس شوروغل کیلئے میرے گھر کے درواززے بند کر دو۔

معمار نے اس مکان میں کچھ ایسے اضافے کیے کہ یہ چھوٹا سا ایک محل بن گیا ۔اس کے آگے معمار نے ایک مضبوط اور نہایت خوبصورت دروازہ لگا دیا جو بند ہوتا تھا تو ذرا سا بھی شوروغل اس کے اندر نہیں آتا تھا۔

ایک بار وہاں سے کوئی شخص مدینہ آیا اور امیر المومنین ؓسے ملا۔ کوفہ سے متعلق بات چلی تو اس شخص نے حضرت عمر ؓکو بتایا کہ امیرِ لشکر سعدؓ نے محل جیسا مکان تعمیر کروایا ہے اور اب اس کے سامنے ایک محل جیسا دروازہ لگوایا ہے۔

حضرت عمرؓ نے یہ بات سنی تو ایک صحابی محمد ؓبن مسلمہ کو بلایا۔

’’ابنِ مسلمہ!‘‘حضرت عمرؓ نے انہیں کہا۔’’ ابھی کوفہ روانہ ہو جاؤ۔ سعد کے مکان کے دروازے کو بغیر پوچھے آگ لگا دینا اور پھر یہ خط انہیں دے دینا اور وہیں سے واپس آجانا۔‘‘

محمدؓ بن مسلمہ اسی وقت روانہ ہو گئے۔ لمبی مسافت کے بعد کوفہ پہنچے ۔سعدؓ بن ابی وقاص کو اطلاع ملی تو انہوں نے انہیں بلایا ۔وہ سعدؓ کے گھر گئے لیکن اس کے اندر جانے سے انکار کر دیا۔ سعدؓ باہر آئے اور انہیں کہا کہ وہ اندر چل کے پہلے کھانا کھا لیں ۔محمدؓ بن مسلمہ نے انکار کر دیا اور دروازے پر تیل پھینک کر آگ لگا دی۔

سعدؓ بن ابی وقاص اس خیال سے چپ رہے کہ یہ کوئی حکم ہے جس کی تعمیل ہو رہی ہے۔ ابنِ مسلمہؓ نے حضرت عمرؓ کا خط حضرت سعدؓ کو دیا ۔انہوں نے خط پڑھا ۔حضرت عمرؓ نے لکھا تھا:

’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اپنے لیے محل تعمیر کرایا ہے اور اسے ایک خوبصورت قلعے کی شکل دی ہے اور تم نے اس کا نام قصرِ سعد رکھا ہے ۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمہارے دروازے پر ان لوگوں کیلئے رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے جو تم تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔یہ تمہارا محل نہیں یہ تمہاری اور امت کی ہلاکت کا محل ہے ۔اس میں تم نے بیت المال تعمیر کروا کے اسے اپنے محل کاایک حصہ بنا ڈالا ہے۔ بیت المال پر باقاعدہ پہرہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس پہرے کی وجہ سے تمہارے محل میں بھی کوئی داخل نہیں ہو سکتا ۔ بیت المال کو فوراً وہاں سے ہٹادو تاکہ جو کوئی تم تک پہنچنا چاہے اس کو پہرے کی وجہ سے روک ٹوک نہ ہو۔ اپنے اور لوگوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ رکھو۔‘‘

دروازہ جل رہا تھا ۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے حضرت عمر ؓکا حکم م نامہ پڑھ کر محمدؓ بن مسلمہ کو بتایاکہ انہوں نے یہ دروازہ کیوں لگوایا تھا۔ انہو ں نے کہا کہ۔’’ میں اس ملک کا امیر ہوں اور امیرِ لشکر بھی ہوں۔ مجھے اطمینان اور سکون چاہیے کہ میں صحیح فیصلے کر سکوں ، اور لوگوں کی بھلائی کیلئے سوچ سکوں۔‘‘

محمدؓ بن مسلمہ مدینہ واپس آئے اور حضرت عمرؓ کو بتایا کہ وہ حکم کی تعمیل کر آئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت عمر ؓکو بتایا کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے کیا عذر پیش کیاہے ، اور اس قسم کا دروازہ لگوانے کی وجہ کیاتھی۔

حضرت عمر؟ؓ کی عظمت ملاحظہ ہو کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ انہو ں نے جو حکم دیا تھا وہ بالکل صحیح تھا ۔انہوں نے محمدؓ بن مسلمہ سے کہا کہ انہیں یہ عذر قبول کر لینا چاہیے تھا۔ اندھا دھند حاکم کے حکم کی تعمیل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ اگر تم نے اپنی آنکھوں سے کوئی اورصورتِ حال دیکھی تھی اور اس کی صحیح وجہ تمہیں معلوم ہو گئی تھی تو تم میں اتنی سوجھ اور اتنی جرأت ہونی چاہیے تھی کہ میرے حکم کی تعمیل نہ کرتے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے اسی وقت سعدؓ بن ابی وقاص کو پیغام بھیجا کہ انہوں نے جو عذر اور جو وجہ بتائی ہے وہ قبول کی جاتی ہے اور وہ اپنا مکان پہلے کی طرح رہنے دیں۔

یہ تھا مسلمانوں کا کردار جس میں انہیں عراق سے اور شام سے رومیوں اور فارسیوں کا صفایا کرنے کی طاقت دی اور انہوں نے وہاں ایسی حکومت قائم کی کہ وہاں کے لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرتے گئے۔

)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(‎ ‎

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔