جمعرات، 7 مئی، 2015

حجاز کی آندھی - پارٹ 10

0 comments
 10

’’اگر وہ یہ بات مجھ سے کرتا تو میں اسے سمجھاتا۔ ‘‘راہب نے کہا۔’’ وہ خداکا حکم تھاکہ موسیٰ نکل آئے اور فرعون کا لشکر ڈوب جائے……یہاں کون موسیٰ ہے؟ فرعون کون ہے؟ ہم اگر مسلمانوں کے دشمن ہیں تو مسلمان فرعون تو نہیں ہو جاتے۔ فرعونوں والے اوصاف تو ان آتش پرستوں کے ہیں۔ ان کے بادشاہوں کا حکم ہے کہ جو کوئی دربار میں آئے ،پہلے سجدہ کرے۔ مسلمان خدا کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ نہیں کرتے نہ ہی یہ بادشاہت کو مانتے ہیں……ہم مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے چاہنے سے وہ قوت کمزور تو نہیں ہو جاتی جو مسلمانوں کوفتح پر فتح دیتی چلی آرہی ہے۔‘‘ تفصیل سے  پڑھئے

’’یہ قوت کیا ہے؟‘‘ ایک یہودی نے پوچھا۔’’ معلوم ہو جائے تو ہم اسے کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘

’’یہ عقیدے کی قوت ہے ۔‘‘معمر ربی نے کہا۔’’ اور یہ یقین کی قوت ہے……خدا پر یقین، اپنی ذات پر یقین……اپنی ذات پر صرف اس شخص کو یقین ہوتا ہے جس کا کردار سحر کے ستارے کی طرح روشن اور شفاف ہوتا ہے۔ اس یقین کو اور اس کردار کو مسلمان ایمان کہتے ہیں۔ ہمارے پاس جوان لڑکیاں ہیں۔ ان کے حسن میں ان کے انداز میں طلسماتی اثر ہے ۔ہماری ہر لڑکی بادشاہی کا تخت الٹ سکتی ہے مگر یہی لڑکی معمولی سے ایک مسلمان کا دل نہیں موہ سکتی کیونکہ مسلمانوں پر کوئی اور ہی طلسم طاری ہے۔‘‘

’’کیا بات ہے ربی!‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’ کیا آپ مسلمانوں کی حمایت میں نہیں بول رہے؟‘‘

’’مسلمانوں کے حق میں نہیں! ‘‘ربی نے کہا۔’’ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں……اور میرے دوستو!اور میں کچھ اور بھی محسوس کر رہا ہوں……مسلمان جسمانی طاقت کے زور پر یہاں تک نہیں پہنچے۔ سوچو، غور کرو۔ ہم اسلام کو نہیں مانتے، پھر ہمیں ماننا پڑے گاکہ مسلمانوں کے پاس بھی جادو ہے اور وہ ہمارے جادو سے زیادہ طاقتور اور تیز ہے۔ ہم نے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔مسلمانوں کی پیش قدمی کو ہم نہیں روک سکے۔ شاید روک بھی نہیں سکیں گے ۔ربی شمعون نے میری بات نہیں مانی ۔ مجھے خطرہ نظرآرہا ہے۔‘‘

’’کیا آپ یزدگرد اور ا س کی فوج سے مایوس ہو چکے ہیں؟‘‘

’’کیا تم دیکھ نہیں رہے؟‘‘ راہب نے کہا۔’’ ہمیں یزدگرد کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارا مقصد مسلمانو ں کو شکست دلانا ہے۔ میں کہہ رہاہوں کہ شمعون نے بڑا ہی خطرناک راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘

’’کیا آپ انہیں روک نہیں سکتے؟‘‘

’’روک سکتا ہوں۔‘‘ بوڑھے راہب نے جواب دیا۔’’ لیکن وہ اپنا عمل مکمل کرنے پرمجبور ہو گیا ہے۔ اس نے شاہِ فارس کو یقین دلایا ہے کہ وہ جو جادو تیار کر رہا ہے یہ مسلمانوں کو تباہ کر دے گا۔ یزدگرد بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ اگر جادو نے کام نہ کیا تو یزدگرد شمعون کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘

اچانک سب یک زبان ہو گئے اور اس بوڑھے راہب سے کہا کہ ربی شمعون کو ئی اناڑی نہیں اور اس نے خطرہ مول لیا ہے تو سوچ سمجھ کر لیا ہے۔

٭

ان یہودیوں کی محفل ابھی برخاست نہیں ہوئی تھی کہ دجلہ کے کنارے دلدلی علاقے میں شمعون جبریل اور اس کا ساتھی ابو ازمیر مگر مچھوں کے پیٹ میں جا چکے تھے ۔اس نے جو خطرہ سوچ سمجھ کر مول لیا تھا وہ اپنا کا م کر گیا تھا۔

دوسرے دن ان یہودیوں کے دروازوں پر بیک وقت دستک ہوئی ۔ دروازے کھلے تو شاہی محافظ اندر چلے گئے ۔انہوں نے ہر گھر کے ہر فرد کر پکڑ لیا اور باہر لے آئے ۔ان میں بڑی عمر کی عورتیں صرف دو ہی تھیں اور دو جواں سال لڑکیاں تھیں جن کا حسن بے مثال تھا ۔وہ ان تمام یہودیوں کو قید خانے کی طرف لے گئے۔

’’ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘ راستے میں یہودی محافظوں سے پوچھتے تھے۔

اس سوال کے جواب میں انہیں دھکیلتے ہوئے لے جایا جا رہا تھا۔

’’ٹھہر جاؤ۔‘‘ محافظوں کے کمانڈر نے رکتے ہوئے کہا۔’’ ہم لوگ شہنشاہِ فارس کے کام کی چیزیں بھی قید خانے میں لے جا رہے ہیں……ان دونوں لڑکیوں کو محل میں بھیج دو۔ اگر شہنشاہ حکم دیں کہ انہیں قید خانے میں ڈال دو تو پھر انہیں اِدھر لے آنا۔‘‘

کمانڈر نے دو محافظوں سے کہا کہ وہ دونوں لڑکیوں کوو محل میں لے جائیں اور شہنشاہ سے پوچھیں کہ ان کے متعلق کیا حکم ہے؟

محافظوں نے لڑکیوں کو الگ کیا تو انہوں نے کوئی نمایاں طور پر مزاحمت نہ کی البتہ اپنی زبان میں اپنے آدمیوں کے ساتھ کوئی بات کی۔ ان آدمیوں میں جو سب سے زیادہ بوڑھا تھا اس نے لڑکیوں سے کچھ کہا۔ کمانڈر نے انہیں ڈانٹ کر کہا کہ وہ ان آدمیوں سے الگ ہو جائیں۔

یزدگرد بڑی ہی بے چینی اور اضطراب میں اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اس کی ماں اور پوران اس کمرے موجود تھیں۔

’’ان یہودیوں کو قید خانے میں بند کر دو گے تو کیا حاصل ہو گا؟‘‘ پوران نے کہا۔

’’یہ یہودی فریب کا ر اور عیار ہیں۔‘‘ یزد گرد نے رُک کر اور فرش پر زور سے پاؤں مار کر کہا۔’’ اس بوڑھے نے ہمیں دھوکا دیا ہے ۔میں انہیں قید خانے میں بھوکا اور پیاسا رکھ کر ماروں گا۔‘‘

’’ایک بات کہوں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ یہ دھوکہ اس بوڑھے یہودی نے ہمیں نہیں دیا، یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم اپنے آپ کو خود ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔ تم اپنے آپ کو دھوکہ دے کر مطمئن کر سکتے ہو لیکن یزدی!حقیقت کو تم اپنی خواہشات اور اپنے خیالوں کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے……ہوش میں آؤ یزدی!حقیقت کا سامنا کرو۔ مسلمان بُہر شیر تک پہنچ چکے ہیں اورانہوں نے اس شہر کا محاصرہ کرلیا ہے ۔اگر ہم یہ شہر دے بیٹھے تو سمجھو مدائن بھی گیا اور پھر سب کچھ گیا۔‘‘

’’اب میری بات سن یزدی بیٹا!‘‘یزدگرد کی ماں نورین نے کہا۔’’ میں اب تک ایک ماں بنی رہی ہوں اور مجھے یہی غم کھاتا رہا کہ میرا بیٹا میری آغوش سے چھن کر موت کی آغوش میں نہ چلا جائے۔ لیکن اب جب کہ مسلمان مدائن کے دروازے تک آپہنچے ہیں، مجھ میں یہ جذبہ بیدار ہو گیا ہے کہ تجھ جیسے ایک سَو بیٹے ہوتے تو میں ان سب کو فارس کی عظمت پر قربان کردیتی……دل کو مضبوط کر میرے بیٹے!یہ تیرے باپ کی سلطنت ہے اور تو ہی اس کا رکھوالا ہے ۔یہ میرے خاوند کی سلطنت ہے ۔اس کی آن پر میں بھی لڑوں گی……اور اس جادو کے دھوکے سے نکل۔‘‘

’’یہ ایک انسانی کمزوری ہے یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ حالات بعض اوقات ایسی کروٹ بدل لیتے ہیں کہ انسان بے بس ہو جاتا ہے اور وہ گھبرا کر جادو اور اس قسم کے ٹوٹکوں کا سہارا لینے لگتا ہے۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ ہم لوگ علمِ نجوم اور جوتش وغیرہ کے زیادہ ہی قائل ہیں۔ رستم نے ہمارے اس عقیدے کو کچھ زیادہ ہی پختہ کر دیا تھا۔ وہ خود زائچے بنا تا رہتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے کہا تھا کہ ستاروں کی گردش سلطنتِ فارس کے خلاف جا رہی ہے اور ستارے سلطنتِ فارس کے زوال کی خبر دیتے ہیں۔ اس نے یہ حماقت کی کہ اس کی یہ پیشگوئی ساری فوج میں پھیل گئی ،جس سے فوج میں بددلی پیدا ہوئی۔ اب تم نے پھر یہودیوں کے جادو کا سہارا لیا اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ اس جادو نے جادوگر کی ہی جان لے لی۔‘‘

’’مجھے کچھ بتاؤ۔‘‘ یزدگرد نے ہارے ہوئے سے لہجے میں کہا۔’’ کچھ سمجھاؤ ۔میں کیا کروں ؟فوج بکھر گئی ہے۔‘‘

’’بُہر شیر کو مضبوط کرو۔‘‘ یزدگرد کی ماں نے کہا۔’’ وہ تو ہم پہلے ہی کر رہے ہیں ۔میرا مطلب یہ ہے کہ اس شہر کو اتنا زیادہ مضبوط کرو کہ مسلمان اس کو محاصرے میں لیے بیٹھے ہی رہیں اور پھر تنگ آکر چلے جائیں۔‘‘

’’ان پر عقب سے حملہ کروایا جا سکتا ہے۔ ‘‘پوران نے کہا۔

’’حملہ کون کرے گا؟‘‘یزدگرد نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا۔’’ باہر ہماری فوج موجود ہے۔ لیکن وہ فوج نہیں وہ بکھرے ہوئے ڈرے ہوئے اور پناہیں ڈھونڈرتے ہوئے فوجی ہیں ۔ان کے ساتھ کوئی جرنیل نہیں۔‘‘

’’کیا ہم لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکتے؟‘‘ یزدگرد کی ماں نے پوچھا۔

’’نہیں ماں نہیں!‘‘یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’مجھے جاسوس باہر کے حالات بتا گئے ہیں ۔مسلمانوں نے اس علاقے کے تمام لوگوں کو پکڑ کر اپنی حراست میں رکھ لیا تھا۔ ہمارے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ یہی ہوا کہ اس علاقے کے تمام امیر اور جاگیردار مسلمانوں سے مل گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں کی حراست سے رہا کرالیا ہے اور نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے بلکہ انہیں ہر طرح کی مدد اور امداد دے رہے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ان اُمراء نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو اس طرح آسان بنا دیا ہے کہ اُن کے راستوں میں جو کھڈ اور ندی نالے آتے تھے اُن پر پُل بنا دیئے ہیں۔ ان لوگوں کو جاگیریں میرے آباواجداد نے دی تھیں۔ آج انہی جاگیروں سے مسلمانوں کے ہاتھ مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ اگر شہرزاد اور بسطام میرے ہاتھ چڑھ گئے تو میں انہیں زمین میں آدھا گاڑھ کر ان پر خونخوار کتے چھوڑ دو ں گا۔

’’وہ بہت بعد کی بات ہے بیٹا!‘‘نورین نے کہا۔’’ اس وقت مدائن کو بچانے کی بات کرو۔‘‘

’’حقیقت کی بات کرو یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ حالات کو دیکھو……یہ تم نے اچھا کیا ہے کہ بُہرشیر کے ساحل سے تمام کشتیاں مدائن کے ساحل پر لے آنے کا حکم دے دیا تھا۔ صرف ایک پُل ہے۔ یہ پُل مسلمانوں کے کام نہیں آسکتا کیونکہ یہ مدائن کے وسط سے بُہر شیر کے وسط تک جاتا ہے ۔اس پُل سے مسلمان صرف اسی صورت میں گزر سکتے ہیں کہ وہ بُہرشیر پر قبضہ کرلیں ۔بُہرشیر میں مزیدفوج بھیج دیتے ہیں۔‘‘

’’تیر اور پھینکنے والی برچھیاں زیادہ بھیجو۔‘‘ نورین نے کہا ۔’’اتنی زیادہ کہ مسلمان شہرکی دیوار کے قریب آئیں تو ان پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برس پڑے۔‘‘

’’میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس منجیقیں بھی ہیں۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ یہ ایساہتھیار ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے ۔نہ اس کا ہمارے پاس کوئی توڑ ہے۔‘‘

’’ایک بات کہوں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ مسلمانوں کے پاس ایک اور ہتھیار بھی ہے جو ہمارے پاس نہیں۔‘‘

’’وہ کون سا؟‘‘

’’جذبہ!‘‘پوران نے کہا۔’’ ہم مسلمانوں کو ڈاکو، قزاق، راہزن اور جانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن ان میں لڑنے کا جذبہ اور فتح حاصل کرنے کا جو عزم ہے وہ اتنا مضبوط ہے کہ اسے ہمارے ہاتھی بھی نہیں توڑ سکے۔ ہماری فوج اس جذبے اور اس عزم سے محروم ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان اس لڑائی کو عبادت سمجھتے ہیں ……لیکن اب وقت نہیں کہ ہم اپنی فوج میں یہ جذبہ پیدا کریں۔‘‘

’’آہ!‘‘یزدگرد نے منہ چھت کی طرف کر کے آہ بھری اور کہا۔’’ میں آج اپنے آباؤاجداد کو کوستا ہوں جنہوں نے فوج میں جذبہ پیدا کرنے کے بجائے لالچ پیدا کیا۔ وفاداریوں کی قیمت ادا کی ۔جاگیریں تقسیم کیں ۔پھر فوج میں یہ صورتِ حال پیدا کر دی کہ جو بہادری سے لڑے گا اسے انعام ملے گا۔ ہمارے آباؤاجداد نے درباری اور خووشامدی پیدا کیے اور درہم و دینار کی اور زروجواہرات کی تھیلیاں تقسیم کیں ۔اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ چند ہزار مسلمانوں نے ہماری ایک لاکھ بیس ہزار نفری کی فوج کو اس طرح خون میں نہلا دیا اور اس طرح بکھیر دیا جس طرح آندھی خس و خاشاک کو اُڑا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے ۔ہمارے اپنے درباری اور خوشامدی جرنیلوں اور اُمراء نے جاگیرداروں نے دیکھا کہ عجم کا پرچم گر ہا ہے تو وہ سب عرب کے پرچم تلے جمع ہو گئے ہیں اور ان کے سپہ سالار وں کے آگے سجدے کر رہے ہیں ……میں تنہا رہ گیا ہوں۔ بے بس اور مجبور ہو گیاہوں ۔سوچتا ہوں کہ میں اس طوفان کو روک سکوں گا بھی یا نہیں۔‘‘

’’ہاں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ ہم اس طوفان کو روک لیں گے۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھو۔ بُہر شیر کو مضبوط کرو۔‘‘

دربان نے اندر آکر اطلاع دی کہ باہر ایک محافظ دو لڑکیوں کو اپنے ساتھ لایا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ یہودیوں کی لڑکیاں ہیں۔

’’اُدھر بٹھاؤ ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میں آتا ہوں۔‘‘

٭

وہ یزدگر دکا خاص کمرہ تھا۔ یہودیوں کی دونوں لڑکیاں اس کمرے میں بیٹھی ہوئی آپس میں باتیں کر رہی تھیں ۔انہیں یہ تو معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ انہوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ یزدگرد کے ساتھ کیا باتیں کریں گی۔

’’ہم نے بادشاہ سے انتقام لینا ہے۔‘ ‘ایک لڑکی نے دوسری سے کہا۔’’ اس نے ہمارے مذہبی پیشواؤں کی توہین کی ہے اور ہمارے بزرگوں کو اور سب لوگوں کو قید میں ڈال دیا ہے۔‘‘

’’لیکن کس جرم میں!‘‘دوسری لڑکی نے کہا۔’’ ربی شمعون اور ابو ازمیر تو ان کیلئے کوئی عمل کر رہے تھے۔‘‘

’’معلوم ہو جائے گا۔‘‘ پہلی لڑکی نے کہا۔

’’اتنے میں یزدگرد کمرے میں داخل ہوا ۔دونوں لڑکیاں اٹھیں اور فرش پر گھٹنے ٹیک کر جھک گئیں۔

’’اٹھو!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ اوپر ہو کر بیٹھ جاؤ……تم دونوں یہودی نسل کے ہیرے ہو۔ میں تمہارے حسن کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن تمہارے مذہبی پیشواؤں نے مجھے جو دھوکہ دیا ہے اس نے میرے دل میں یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔‘‘

’’ہم خوش نصیب ہیں کہ آپ کے دربار تک ہمیں رسائی ملی ہے ۔‘‘ایک لڑکی نے زیرِ لب تبسم سے کہا ۔’’ہم نہیں جانتیں کہ ہمارے مذہبی پیشواؤں نے آپ کو کیا دھوکہ دیا ہے ۔ہم مجبور لڑکیاں ہیں۔ ہم آپ کو کیا دھوکہ دے سکتی ہیں۔‘‘

’’ہمیں دھوکہ دینے والوں نے سزا پالی ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ تمہارے سب سے بڑے راہب شمعون اور اس کے ساتھی کو مگر مچھوں نے کھا لیا ہے۔ شمعون نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ ایساجادو تیار کرے گا جو مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دے گا اور فارس کے جو علاقے انہوں ے فتح کر لیے ہیں وہ ہمیں واپس مل جائیں گے۔ لیکن ہمیں پتا چلا کہ وہ ایک نوجوان لڑکی کو ساتھ رکھ کر بدکاری کرتے رہے اور کوئی جادو وغیرہ تیار نہیں کیا۔ مسلمانوں کو تباہ کرنے والے خود مگر مچھوں کی خوراک بن گئے اور وہ لڑکی ایک ماہ کے نوزائیدہ بچے کو اٹھائے ہمارے پاس آگئی۔ اس نے بتایا کہ شمعون ا س کے ساتھ کیسا سلوک کرتا رہا تھا۔‘‘

’’لیکن شہنشاہ! ‘‘لڑکی نے کہا۔’’ آپ نے اس کی سزا ان سب کو کیوں دی ہے جو ربی شمعون کو روکتے تھے کہ وہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالے کیونکہ سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔

’’تو اس کا مطلب یہ ہوا ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ کہ تم جانتی ہو کہ شمعون جادو کر رہا تھا۔‘‘

’’ہاں شہنشاہ! ‘‘دوسری لڑکی بولی۔’’ ہم سب کچھ جانتی ہیں لیکن ہم بات کرنے سے ڈرتی ہیں۔ آپ ناراض ہو جائیں گے۔‘‘

’’ہم سننا چاہتے ہیں ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔

’’پھر یہ بات ہم سے سنیں ۔‘‘ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا۔’’ آپ کے حکم سے جن یہودیوں کو قید خانے میں بند کر دیا گیا ہے ان میں سے تین چار ہی ہیں جنہیں معلوم تھا کہ ربی شمعون مسلمانوں کی تباہی کا کوئی بندوبست کر رہا ہے ۔ہمارے دو راہب اسے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ جادو اتنا خطرناک ہے کہ یہ صحیح ہدف پر نہ گرا تو جادو کرنے والے کو ہی تباہ کر دے گا۔ لیکن ربی شمعون پورے وثوق سے کہتا تھا کہ اس کا جادو ناکام نہیں ہو گا۔ اب آپ سے پتا چلا ہے کہ ربی شمعون اور اس کے ساتھی ابو ازمیر کو مگر مچھوں نے کھا لیا ہے اور جس لڑکی کو جادومیں استعمال کیاجا رہا تھا وہ آپ کے پاس پہنچ گئی ہے تو ہمارے دوسرے بزرگوں کا یہ کہنا ٹھیک ثابت ہوا کہ یہ جادو چلانے والوں کو ہی ختم کر سکتا ہے۔‘‘

’’اب ہمیں ایک اور خطرہ نظر آرہا ہے۔‘‘ دوسری لڑکی بولی۔’’ وہ یہ کہ اس جادو کا اثر آپ کی سلطنت پر بھی بہت برا ہو گا۔ ہم نے اپنے راہب سے جو باتیں سنی ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مدائن اور بُہر شیر میں بہت قتل و غارت گری ہو گی اور اس کے بعد یہ دونوں شہر آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔‘‘

ان دونوں لڑکیوں کے بولنے کا انداز اس قدر پُر اثر تھا کہ یزدگرد پر گھبراہٹ سی طاری ہو گئی اور وہ خوفزدگی کے عالم میں ان لڑکیوں کو دیکھنے کے سوا اور کچھ بھی نہ بولا ۔لڑکیاں یہی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

’’آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘‘ ایک لڑکی نے کہا۔’’ شہر کو بچانے کی کوشش کریں لیکن جوں ہی دیکھیں کہ یہ ممکن نہیں تو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لے کر مدائن سے نکل جائیں اورکہیں پناہ لے کر اپنی فوج تیار کریں۔ پھر جوابی حملہ کریں۔ پھر آپ کو فتح حاصل ہو گی۔‘‘

’’آپ ان بے گناہوں کو چھوڑ دیں شہنشاہ!‘‘دوسری لڑکی نے کہا۔’’ کہیں ایسانہ ہو کہ ان کی بد دعائیں آپ کو وہ نقصان پہنچا دیں جس سے آپ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

یزدگرد نوجوان تھا اور شہنشاہ بھی تھا اور وہ پریشان حال بھی تھا ۔اس کے اعصاب پر اتنا زیادہ بوجھ تھا کہ اسے کسی پَل چَین نہ آتا تھا۔ ان لڑکیوں کے حسن اور ناز و اندز نے اُس پر ایسا نشہ طاری کر دیا کہ اس کا ذہن فرار کے راستے پر آگیا۔ رات بھر دونوں لڑکیاں اس کے ساتھ رہیں ۔صبح ہوئی تو اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ تمام یہودیوں کو رہا کر کے ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے۔

ان لڑکیوں نے اس پر دوسرا اثر یہ چھوڑا کہ اس نے اپنی ماں اور پوران کو یہ فیصلہ سنایا کہ وہ بُہر شیر کو بچانے کی کوشش تو کرے گا اور یہ ممکن نہ ہو سکا تو وہ مدائن سے اپنے تمام خاندان کو ساتھ لے کر نکل جائے گا۔ مدائن کے آگے سلطنتِ فارس کے کچھ اور شہر اور قصبے ابھی فارس کی سلطنت میں ہی تھے ۔یزدگرد ان میں سے کسی ایک میں جا سکتا تھا۔

٭

ان دونوں لڑکیوں کے بولنے کا انداز اس قدر پُر اثر تھا کہ یزدگرد پر گھبراہٹ سی طاری ہو گئی اور وہ خوفزدگی کے عالم میں ان لڑکیوں کو دیکھنے کے سوا اور کچھ بھی نہ بولا ۔لڑکیاں یہی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

’’آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘‘ ایک لڑکی نے کہا۔’’ شہر کو بچانے کی کوشش کریں لیکن جوں ہی دیکھیں کہ یہ ممکن نہیں تو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لے کر مدائن سے نکل جائیں اورکہیں پناہ لے کر اپنی فوج تیار کریں۔ پھر جوابی حملہ کریں۔ پھر آپ کو فتح حاصل ہو گی۔‘‘

’’آپ ان بے گناہوں کو چھوڑ دیں شہنشاہ!‘‘دوسری لڑکی نے کہا۔’’ کہیں ایسانہ ہو کہ ان کی بد دعائیں آپ کو وہ نقصان پہنچا دیں جس سے آپ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

یزدگرد نوجوان تھا اور شہنشاہ بھی تھا اور وہ پریشان حال بھی تھا ۔اس کے اعصاب پر اتنا زیادہ بوجھ تھا کہ اسے کسی پَل چَین نہ آتا تھا۔ ان لڑکیوں کے حسن اور ناز و اندز نے اُس پر ایسا نشہ طاری کر دیا کہ اس کا ذہن فرار کے راستے پر آگیا۔ رات بھر دونوں لڑکیاں اس کے ساتھ رہیں ۔صبح ہوئی تو اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ تمام یہودیوں کو رہا کر کے ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے۔

ان لڑکیوں نے اس پر دوسرا اثر یہ چھوڑا کہ اس نے اپنی ماں اور پوران کو یہ فیصلہ سنایا کہ وہ بُہر شیر کو بچانے کی کوشش تو کرے گا اور یہ ممکن نہ ہو سکا تو وہ مدائن سے اپنے تمام خاندان کو ساتھ لے کر نکل جائے گا۔ مدائن کے آگے سلطنتِ فارس کے کچھ اور شہر اور قصبے ابھی فارس کی سلطنت میں ہی تھے ۔یزدگرد ان میں سے کسی ایک میں جا سکتا تھا۔

٭

٭

سعدؓبن ابی وقاص بُہر شیر کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ یہ محاصرہ مکمل نہیں تھا کیونکہ ایک طرف دجلہ بہہ رہا تھا اور اُس طرف شہر کی چوڑائی خاصی زیادہ تھی۔ شہر کی دیوار پر تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے اس طرح کھڑے تھے جیسے دیوار کے اوپر ایک انسانی دیوار کھڑی ہو ۔مسلمان قریب جانے کی جرأت نہیں کرتے تھے ۔سعدؓ امیر المومنین حضرت عمر ؓکو روز بروز محاذ کی خبریں پہنچا رہے تھے۔ انہوں نے بُہر شیر کو جب محاصرے میں لے لیا تھا تو اُسی روز امیر المومنین ؓکو پیغام بھیجا تھا۔جس وقت مدائن میں جادو کے ذریعے مسلمانوں کی تباہی کی کوششیں ہو رہی تھیں ، اُس وقت مدینہ سے امیرالمومنین کا پیغام آیا تھا جس میں لکھا تھا:

’’……اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ اﷲ کی راہ میں خون کے نذرانے دینے والوں کو اﷲ مایو س نہیں کرتا۔ مدینہ میں اور عرب میں وہ کون سا مسلمان ہو گا جو تمہاری فتح و کامرانی کیلئے دعا نہیں کرتا ہو گا۔ تمہارا اتنی خطرناک بیماری سے اٹھنا اور اٹھ کر لڑنا اور اتنی دور تک پہنچ جانا اس حقیقت کی دلیل ہے کہ جو اﷲ کے ساتھ اپنا وعدہ نبھاتا ہے اس کیلئے اﷲ بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ تمہارے اور باقی سب مجاہدین کے جسموں کا کیا حال ہو چکا ہو گا۔ لیکن روح کی طاقت اتنی بڑی طاقت ہے کہ وہ مُردہ جسم کو بھی اٹھا دیا کرتی ہے ……تم فارس کے دروازے پر پہنچ گئے ہو۔ آتش پرست تمہیں آسانی سے اس دروازے میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔اب تمہیں عقل سے زیادہ کام لینا ہو گا۔تم اس مقام پر پہنچ گئے ہو جہاں اپنی قوت کا آخری ذرہ بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس جنگ میں تمہارا یہ پہلا محاصرہ ہے۔ اب تم منجیقیں استعمال کرو۔ شہر پر اتنے پتھر برساؤ کہ شہر پتھروں میں دب جائے ۔ہو سکتا ہے کہ دشمن باہر آکر تم پر حملہ کرے ۔ اس صورت میں اپنے عقب کا خیال رکھنا ۔جن لوگوں کو تم نے رہا کیا تھا وہ تمہارے لیے خطرہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی تمہیں دھوکہ دے تو اسے جینے کے حق سے محروم کر دینا……تم نے عورتوں اور بچوں کو بہت دور پیچھے چھوڑ دیا ہے، انہیں اتنی دور نہ رکھو۔انہیں اپنے قریب لے جاؤ۔‘‘

محاصرے میں ڈیڑھ دو مہینے گزر چکے تھے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شہر کا دفاع بہت مضبوط تھا اور دیوار میں شگاف ڈالنے کیلئے دیوار کے قریب جانا خودکشی کے برابر تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سعدؓ بن ابی وقاص اتنا وقت حاصل کرنا چاہتے تھے کہ زخمی مجاہدین صحت یاب ہو جائیں ۔ان ڈیڑھ دو مہینوں میں بیشتر زخمی لڑنے کے قابل ہو گئے تھے ۔امیر المومنین ؓکا پیغام ملتے ہی سعدؓبن ابی وقاص نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ منجیقوں کیلئے پتھر اکٹھے کر لیے جائیں۔ تقریباً آدھا لشکر محاصرے میں رہا اور باقی آدھا پتھر اکٹھے کرنے کیلئے بکھر گیا۔

قریبی بستیوں میں رہنے والے لوگوں نے جب دیکھا کہ مجاہدین پتھر اکٹھے کر رہے ہیں، تو وہ سب باہر آگئے اور پتھر اکٹھے کرنے کیلئے اِدھر اُدھر بکھرگئے ۔وہ بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں بھی لے آئے تھے۔ ایک ہی دن میں انہوں نے پتھروں کے انبار اکٹھے کر لئے۔

اُدھر مدائن سے بُہر شیرکو ہر طرح کی مدد مل رہی تھی۔ پوران بُہر شیر جا کر وہاں کے لوگوں کو جوشیلی تقریروں سے بھڑکاتی اور اکساتی رہتی تھی۔

٭

شہر کے لوگوں نے جب دیکھا کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور فوج کا جذبہ بھی عروج پر ہے اور مدائن سے ضرورت کی ہر چیز آرہی ہے تو لوگوں کاجذبہ بھی بڑھ گیااور جوش و خروش سے اپنی فوج کے دوش بدوش شہر کے دفاع میں سینہ سپر ہو گئے۔

ایک دو دنوں بعد اچانک شہر پر پتھر گرنے لگے۔ چونکہ دیوار پر تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے کھڑے تھے اور انہیں توقع نہیں تھی کہ پتھر آئیں گے ۔اس لئے پہلے پتھر ان فوجیوں میں سے کئی ایک کو لگے ۔ان میں سے بعض صرف زخمی ہوئے اور بعض مارے گئے ۔انہیں حکم دیا گیا کہ وہ دیوار پر کھڑے نہ ہوں بلکہ باہر بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔ منجیقیں ان کیلئے عجیب اور انوکھا ہتھیار تھا ۔جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

یزدگرد کو اطلاع ملی تو وہ اپنے محافظ دستے کے ساتھ دوڑا آیا اور پل سے بُہر شیر پہنچا۔ یہ منجیقیں چھوٹی تھیں اس لئے ان سے چھوٹے سائز کے پتھر پھینکے جاتے تھے۔ یزدگرد نے شہر پر پتھر گرتے دیکھے تو اس نے حکم دیا کہ لوگ گھروں کے اندر رہیں۔ یزدگرد نے دیوار پر جا کر منجیقیں دیکھیں۔ ان کا اس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ اس نے شہر کے جرنیل اور دیگر حاکموں کو بلایا۔ مسئلہ یہ زیرِ بحث آیا کہ منجیقوں کو کس طرح بیکار کیا جائے؟

’’اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘ شہر کے جرنیل نے کہا۔’’ کچھ نفری باہر بھیجی جائے جو مسلمانوں پر اس جگہ شدید حملہ کرے جس جگہ کوئی ایک منجیق ہو ۔شدید حملے سے مسلمان منجیق کو گھسیٹ کر نہیں لے جا سکیں گے۔ اسے ہمارے آدمی گھسیٹ کر شہر میں لے آئیں گے ۔اسے دیکھ کر ہم اسی طرح کی منجیقیں بنا لیں گے۔‘‘

یزدگرد کو یہ تجویز بڑی اچھی لگی۔ اس نے حکم دیا کہ اس کے سامنے کچھ نفری کو باہر نکال کر حملہ کیا جائے ۔فوری طور پر نفری تیار کر لی گئی۔ انہیں ضروری ہدایات دی گئیں۔ یزدگرد نے ان کا حوصلہ مضبوط کرنے کیلئے اُن کے جذبات کو بڑی جوشیلی تقریر سے اُبھارا۔

شہر کی ایک طرف دیوار میں دو دروازے تھے۔ بیک وقت دونوں دروازے کھلے اور ان میں سے گھوڑ سوار تلواریں اور برچھیاں تانے اس طرح نکلے جیسے سیلابی دریا کا بند ٹوٹ جاتا ہے ۔مسلمانوں کو اس حملے کی توقع نہیں تھی ۔ان گھوڑ سواروں کا رُخ اس طرف تھا جہاں دو منجیقیں قریب قریب لگی ہوئی تھیں۔

مسلمان چونکہ محاصرہ کیے ہوئے تھے، اس لیے گھوڑ سوار تیار نہیں تھے۔ ان کے گھوڑے الگ کھڑے تھے جن پر زینیں نہیں تھیں ۔پیادے ہر طرح تیار تھے ۔ان کے ساتھ قعقاع، عاصم ، طلیحہ اور ہاشم بن عتبہ جیسے جانباز بھی موجود تھے ۔انہو ں نے گھوڑوں کی پرواہ نہ کی اور پیادوں کو ساتھ لے کر سواروں کا مقابلہ کرنے لگے۔

مجاہدین نے شہر کے گھوڑ سواروں کوگھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن گھیرا مکمل نہ ہو سکا ۔کیونکہ جو مجاہدین گھیرا مکمل کرنے کیلئے دیوار کے قریب چلے گئے تھے ،ان پر اوپر سے برچھیاں اور تیر آنے لگے ۔بعض مجاہدین زخمی ہو گئے۔ اس وجہ سے گھیرا توڑنا پڑا۔

آتش پرستوں کے گھوڑ سوار وں کو یہ بھی دیکھنا تھا کہ انہیں واپس بھی جانا ہے ۔شہر کے یہ دونوں دروازے بند کر دیئے گئے تھے ۔پیادہ مجاہدین نے گھوڑ سواروں کا مقابلہ اس خوبی سے کیا کہ کئی ایک کو گرا لیا اور اس کوشش میں لگے رہے کہ کوئی بھی سووار واپس نہ جا سکے۔ کچھ دیر میدان گرم رہا۔ دوسری طرف سے بھی مجاہدین ادھر آنے لگے لیکن سعد ؓبن ابی وقاص نے اس خیال سے انہیں روک دیا کہ اندر سے مزید گھوڑ سوار آگئے تو صورتِ حال بگڑ جائے گی۔

مجاہدین اتنے لمبے محاصرے کی وجہ سے تازہ دم تھے۔ انہوں نے یہ عرصہ آرام میں گزارا تھا۔ اس لیے گھوڑ سواروں پر وہ ایسے برسے کہ تقریباً نصف کو وہیں رکھا اور باقی شہر کی طرف بھاگ نکلے ۔پیچھے سے تیر اندازوں نے اس طرح تیر چلائے کہ ان میں سے کئی تیروں کا نشانہ بن گئے۔

اس کے بعد مسلمانوں نے پھر منجیقوں سے سنگباری شروع کر دی۔ شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا جو مسلسل سنگباری سے بڑھتا گیا۔

اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ ہر تیسرے چوتھے روز شہر کے دروازے کھلتے اور گھوڑ سواروں کے ایک دو دستے باہر آتے ، گھمسان کا معرکہ لڑا جاتا اور جو سوار بچے رہتے وہ واپس چلے جاتے ۔ان حملوں میں زیادہ تر نقصان فارس کے گھوڑ سواروں کا ہوتا تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو محاصرے سے پسپا کرنے کا یہ طریقہ ان کیلئے بڑا نقصان دہ ثابت ہو رہا تھا۔ لیکن یزدگرد کا حکم تھا کہ یہ حملے جاری رکھے جائیں۔ یہ دراصل یزدگرد کا آخری اقدام تھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ اس کا اُسے کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اتنے زیادہ نقصان سے اس کی فوج کا حوصلہ ٹوٹ رہا ہے۔

بعض تاریخوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ یزدگرد نے خواب میں اپنے باپ خسرو پرویز کو دیکھا اور خسرو پرویز نے اسے کہا کہ اپنی فوج میں ایسے بہادر افسر، عہدیدار اور سپاہی منتخب کرو جو اپنے وطن پر جانیں قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ انہیں باہر نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرواؤ اور یہ جانباز عہد کرکے باہر نکلیں کہ مسلمانوں کو کاٹ کر واپس آنا ہے یا واپس آنا ہی نہیں۔

ایک روایت یہ ہے کہ علمِ نجوم و جوتش کے ایک ماہر نے زائچہ تیار کر کے یزدگرد کو ایک خاص دن اور وقت بتایا تھا کہ اس دن مسلمانوں پر حملہ کیا جائے تو کامیابی ہو گی اور بُہر شیر بھی بچ جائے گا اور مدائن بھی۔ اس نجومی نے یزدگرد سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ بدی ترک کردے اور کسی غیر عورت کے قریب بھی نہ جائے۔

یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ آتش پرستوں کا شاہی خاندان علمِ نجوم اور فالناموں میں یقین رکھتا تھا ۔رستم جو بہادری ،جارحیت اور جنرل شپ کی بے مثال علامت سمجھا جاتا تھا خود علمِ نجوم پڑھا ہوا تھا اور اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے زائچوں نے اسے بزدل بنا دیاتھا۔ اس کی پیش گوئی یہ تھی کہ سلطنتِ فارس ختم ہو جائے گی۔

ایک مؤرخ نے ذرا مختلف روایت لکھی ہے وہ یہ کہ پوران نے یزدگرد سے کہا تھا کہ مسلمانوں پر ایک ایسا ہلّہ بولا جائے کہ ان کے پاؤں اکھڑ جائیں اور اس سے اپنی فوج کا خون گرمایا جائے اور ان میں غیرت بیدار کی جائے ، اور پھر ان سے کہا جائے کہ جو سب سے زیادہ غیرت مند ہیں اور اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہیں وہ حملے کیلئے تیار ہو جائیں۔

’’……اور یزدی!‘‘اس مؤرخ کے مطابق پوران نے یزدگرد سے کہا۔’’ مت بھولو کہ یہاں کے امرا ء اور نمائندے تمہیں اس لئے لائے تھے کہ تم سلطنتِ فارس کو عربوں سے بچاؤ گے۔ میں تمہاری خاطر تخت سے دستبردار ہو گئی تھی۔ خون کا آخری قطرہ بھی بہا دو۔ فوج کا آخری سپاہی بھی مروادو۔ دجلہ کے کنارے عربوں کے لاشوں کے ڈھیر لگادو……ابھی بُہرشیر چلو۔‘‘

ان میں کوئی بھی روایت سچی ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یزدگرد نے دونوں یہودی لڑکیوں کو آزاد کر دیا اور اس حرم کو ذہن سے اتار دیا تھا جس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود تھی۔ شاہانہ عیش و عشرت کو اس نے ترک کر دیا اور اپنی ماں نورین اور پوران کو لے کر بُہر شیر چلا گیا۔

اس کے ساتھ ماں اور پوران کے علاوہ مدائن کی فوج کے دو جرنیل اورچند ایک کم درجہ فوجی افسر بھی تھے۔ کسی بھی تاریخ میں ان دو جرنیلوں کے نام نہیں ملتے ۔بُہر شیر پہنچتے ہی یزدگرد نے وہاں کی تمام فوج کو اکٹھا کیا ۔وہ گھوڑے پر سوار تھا ۔نورین او رپوران بھی گھوڑوں پر سوار تھیں۔

’’سورج کے پجاریو!‘‘اس نے فوج سے خطاب کیا۔ ’’تم اس سورج کی کرنیں ہو جو ہمارا معبود ہے ۔تم وہ کرنیں ہو جو دشمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں ۔لیکن کیا ہو گیا ہے تمہاری غیرت کو……تم سے تو دنیا ڈرتی تھی آج تم خود ڈرے ہوئے مویشیوں کی طرح اس قلعے میں بند ہو گئے ہو۔ کیا تم اتنے بزدل ہو گئے ہو کہ تمہیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ تم اپنی کنواری بیٹیوں بہنوں کو مسلمانوں کے حوالے کر آئے ہو ۔مسلمانوں نے تمہاری عورتوں کو لونڈیاں اور کنیزیں بنا لیا ہے……اور اپنے کسانوں کا حال دیکھو جن کی کھیتیاں سونا اگلتی ہیں مگر آج ہمارے کسانوں کی کمائی کے مالک مسلمان ہیں……‘‘

یزدگرد ابھی بول ہی رہا تھا کہ پوران اپنا گھوڑا یزدگرد کے پہلو میں لے گئی اور بازو لہرا کر بولی:

’’اگر تمہاری غیرت مر گئی ہے تو میں تمہاری بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی خاطر لڑوں گی۔ شہنشاہِ فارس کی ماں لڑے گی۔ ہم دونوں،عورتوں کو اکٹھا کرکے فوج بنا لیں گی اور تم دیکھو گے کہ مسلمانوں کی لاشیں کس طرح تمہاری آنکھوں کے سامنے تڑپتی ہیں۔‘‘

فوج پر سناٹا طاری تھا۔ پوران کی بات سن کر فوج میں کچھ بے چینی سی پیدا ہو گئی۔

’’کیا تمہاری غیرت گوارا کرلے گی کہ شہنشاہ کی ماں اور بہن میدان میں اُتریں؟ ‘‘پورا ن نے اور زیادہ جوشیلی آواز میں کہا۔’’ یہ سوچ لو کہ مدائن بھی ہاتھ سے نکل گیا تو کہاں جاؤ گے؟یہ سورج عتاب میں آگیا تو جل کر راکھ ہو جاؤ گے۔ مرو گے بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہو گے۔ کوڑھیوں کی طرح اس زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے اور بھیک مانگتے پھرو گے، تم جانتے ہو کہ کوڑھیوں کو کوئی بھیک تک نہیں دیتا……‘‘

پوران نے اپنی جوشیلی تقریر ابھی ختم نہیں کی تھی کہ یزدگرد کی ماں نورین اپنا گھوڑ اآگے لے آئی۔

’’میں اپنے اس اکلوتے بیٹے کو سلطنتِ فارس کی آن پر قربان کر رہی ہوں۔‘‘ نورین نے بڑے ہی جوشیلے انداز میں کہا۔’’ تم عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار کر کے گھروں میں بیٹھ جاؤ ۔میں اور پوران عورتوں کی فوج بنا کر لڑیں گی اور تم شہر کی دیوار پر کھڑے ہو کر دیکھنا……‘‘

’’نہیں!‘‘اچانک فوج میں سے ایک آواز بلند ہوئی۔’’نہیں……ہم اتنے بے غیرت نہیں ہوئے ۔لڑنا ہمار کام ہے۔‘‘

’’جو ہو گیا سو ہو گیا ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔’’ اب یہاں سے مسلمان ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔‘‘

ان دو آوازوں کے ساتھ ہی ساری فوج میں ہڑبونگ بپاہو گئی۔ جوشیلے نعروں سے زمین و آسمان لرزنے لگے ۔فوج زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئی۔ نعروں جیسا شوروغل بہت ہی بلند تھا۔اتنا بلند کہ گھوڑے بھی ہنہنانے لگے۔

٭

اس وقت سعد ؓبن ابی وقاص اپنے دو تین سالاروں کے ساتھ شہرکی دیوار سے کچھ دور دور گھوڑوں پر آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے۔ شہر سے اٹھنے والا شوروغل اتنا بلند تھا کہ باہر بھی سنائی دے رہا تھا۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے گھوڑا روک لیا۔ سالار بھی رک گئے۔

’’یہ شور سن رہے ہو؟‘‘ سعدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ یہ نعرے، ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘

’’ان کے جرنیل اپنی فوج کو جوش دلا رہے ہوں گے۔‘‘ ایک سالار نے کہا۔

’’جوش تو وہ دلاتے ہی رہتے ہوں گے ۔‘‘سعد ؓنے کہا۔’’ لیکن آج کا اتنا زیادہ ہنگامہ بتا رہا ہے کہ ان کا شہنشاہ آیا ہو گا……اور مجھے صاف پتا چل رہا ہے کہ یہ لوگ باہر آکر ایک اور حملہ کریں گے اور یہ حملہ بہت ہی زور دار ہو گا۔ ہمیں اس کیلئے تیار ہو جانا چاہیے۔‘‘

’’آنے دو۔‘‘ ایک سالار نے کہا۔’’ اب ہم منجیقیں ان پر استعمال کریں گے۔‘‘

شہر کے اندر کا شوروغل جس طرح اچانک سے اٹھا تھا ،اسی طرح اچانک خاموش ہو گیا۔ اب صرف یزدگرد بول رہا تھا۔

’’مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔‘‘ یزدگرد کہہ رہا تھا۔’’ طریقہ یہ ہے کہ باہر نکل کر ان پر اس قدر سخت حملہ کیا جائے جو ابھی تک نہیں کیا گیا ۔ اس حملے کیلئے ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنی جان کی پرواہ نہ ہو اور جن کے دلوں میں سلطنتِ فارس کی محبت ہو ۔میں کسی کو حکم نہیں دوں گا۔ مجھے رضا کار جانبازوں کی ضرورت ہے اور مجھے زیادہ سے زیادہ افسروں کی ضرورت ہے جو افسر سپاہی حملے میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ آگے آجائیں۔‘‘

فوج میں اس قدر جوش و خروش پید اہو چکا تھا کہ ساری فوج آگے آ گئی۔ اس فوج میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو دیوار کے اوپر موجود رہتے تھے۔ انہیں بھی یزدگرد کے حکم سے نیچے بلا لیا گیا تھا۔

مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ساری کی ساری فوج سے حملہ نہیں کروانا تھا۔ طے یہ پایا گیا تھا کہ منتخب جانبازوں سے حملہ کروایا جائے گا۔ جرنیلوں سے کہا گیا کہ وہ وطن کی آن پر مر مٹنے والے جنونی سی قسم کے افسروں اور سپاہیوں کو منتخب کریں ۔چنانچہ ایک فوج تیار کر لی گئی جس میں ایسے کمانڈر شامل کیے گئے جو شجاعت اور جنگی مہارت میں شہرت یافتہ تھے۔ چونکہ رات ہو گئی تھی اس لیے حملہ اگلی صبح کو کرنا تھا۔

٭

اگلی صبح سورج ابھی نکلا ہی تھا کہ شہر کے تمام دروازے بیک وقت کھلے اور اندر سے گھوڑ سوار فوج اور پیادے بھی رُکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلنے لگے ۔سعدؓ بن ابی وقاص نے گذشتہ روز اندر کا شور وغل سن کر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ اگلے حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ انہیں ایک سالار نے مشورہ دیا تھا کہ منجیقوں کو حملہ آوروں پر استعمال کیا جائے گا۔ سعد ؓنے یہ مشورہ قبول کر لیاتھا ۔رات ہی کو منجیقیں اس طرح رکھ دی گئی تھیں کہ ہر دروازے کے سامنے ایک ایک منجیق آگئی تھی ۔باقی منجیقوں کا رُخ بھی اوپر کے بجائے کچھ نیچے کر دیا گیا تھا۔

جوں ہی شہر سے فوج نکلنے لگی اس پر سنگباری شروع ہو گئی۔ چونکہ منجیقیں چھوٹی تھیں اس لئے ان میں پتھر بھی چھوٹے استعمال ہوئے تھے۔ لیکن اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ کچھ نقصان ہی نہ کریں۔ کم و بیش دس کلو وزنی پتھر پھینکا جاتا تھا ۔بعض منجیقیں اس سے زیادہ وزنی پتھر بھی پھینک سکتی تھیں ۔اتنا وزنی پتھر جس آدمی کو بھی لگتا تھا وہ وہیں ڈھیرہو جاتا تھا ۔گھوڑے بھی اتنے وزنی پتھر کی ضرب کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ منجیق سے نکلا ہوا پتھر توپ سے نکلے ہوئے گولے کی طرح جاتا تھا۔

جب فوج پر پتھر برسنے لگے تو پتھروں سے گرنے والے سواروں نے دروازوں کا راستہ بند کر دیا۔ بعض گھوڑے بھی گر پڑتے تھے اور بعض بِدک کر پیچھے کو دوڑتے تھے ۔اس طرح فوج کے باہر آنے میں اچھی خاصی رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ دروازوں میں گرے ہوئے آدمیوں اور گھوڑوں کے اوپر سے گزر کر باہر نکلیں۔ اس حکم کی تعمیل میں فوجی اپنے گرے ہوئے ساتھیوں کو کچلتے مسلتے ہوئے باہر نکلے۔

پتھر پھینکنے کی رفتار تیز نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ منجیق میں پتھر رکھنے اور پیچھے کھینچنے اور چھوڑنے میں کچھ وقت لگ جاتا تھا ۔پھر بھی یہ خاطر خواہ نقصان کر رہی تھیں۔ شہر کی فوج کے یہ سوار اور پیادے بلا شک و شبہ جانباز اور نڈر تھے ۔وہ باہر چلے آرہے تھے ۔لیکن ان کے حملے میں جو جان ہونی چاہیے تھی وہ نہیں تھی۔ ایسی شدت پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

یزدگرد ،اس کی ماں اور پوران دیوار پر کھڑے نظر آئے ۔فارس کا پرچم ان کے ساتھ تھا ۔سعدؓ بن ابی وقاص نے بھی شہنشاہِ فارس اور اس کے پرچم کو دیکھا۔

’’خدا کی قسم!‘‘سعدؓ نے کہا۔’’ اس جھنڈے کو دیوار کے باہر گرنا چاہیے ۔‘‘ انہوں نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’ کیاکوئی تیر انداز وہاں تک تیر پہنچا سکتا ہے؟‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے گھوڑ ے کو ایڑ لگائی اور اپنے محافظوں کے ساتھ اس جگہ تک پہنچے جس کے بالمقابل یزدگرد دیوار پر کھڑا تھا۔ فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ وہاں تک تیر پہنچانا ممکن نہ تھا ،چند ایک تیر انداز مجاہدین آگے بڑھے اور انہوں نے تیر چلائے لیکن تیر ذرا نیچے دیوار پر لگتے تھے۔ تیر انداز اور آگے بڑھے تو فاصلہ اتنا کم ہو گیا کہ مجاہدین دیوار کے تیر اندازوں کی زَد میں آگئے اوپر سے آیا ہوا تیر اپنا کام کر جاتا تھا۔

’’انہیں پیچھے ہٹا لو۔‘‘ سعدؓ نے حکم دیا۔’’ ہم بلا جواز جانی نقصان کے بغیر یہ شہر لے لیں گے ۔ایک منجیق کا منہ اُدھر کر کے پتھر پھینکو۔‘‘

فوراً ایک منجیق کو گھسیٹ کر وہاں تک لے گئے اور اس میں پتھر ڈال ہی رہے تھے کہ یزدگرد نے دیکھ لیا اور وہ فوراً نورین اور پوران کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا تھوڑی ہی دیر بعد وہ دیوار پر ایک اور جگہ نظر آیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔وہ اپنے حملہ آور دستوں کو اوپر سے للکار رہا تھا۔ لیکن اس کی للکار رائیگاں جا رہی تھی۔ جس کی ایک وجہ تو سنگباری تھی اور دوسری وجہ جو زیادہ تر مؤرخوں نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یزدگرد کی تما م فوج پر جرنیل سے لے کر نیچے سپاہیوں تک یہ تاثر مکمل طور پر پختہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دی ہی نہیں جا سکتی ، لہٰذا فارس کی فوج پر مسلمانوں کی جو ہیبت طاری تھی وہ سنگباری نے اور زیادہ پختہ کر دی۔

جوش و خروش سے نعرے تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن میدانِ جنگ میں نعرے محض بیکار ثابت ہوتے ہیں۔اگر جذبہ اور حوصلہ مضبوط نہ ہو تو میدانِ جنگ میں گھوڑے اور ہتھیار بھی بیکار ہو جاتے ہیں ۔آتش پرستوں کو اپنے بیشمار ہاتھیوں پر بھروسہ تھا ۔وہ سمجھتے تھے کہ انسان ہاتھی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔بلکہ ہاتھی انسانوں کو کچل اور مسل ڈالتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے ہاتھیوں کو بھی کاٹ کر دکھا دیا اور جو بچ گئے تھے انہیں بھگا بھی دیا تھا۔ فارس کی فوج پر یہی دہشت کافی تھی ۔یورپی مؤرخوں نے تعصب کے باوجود پوری تفصیل سے لکھا ہے کہ فارس کی فوج پر مسلمانوں کی جو دہشت اور ہیبت طاری ہو گئی تھی۔ اس نے اس فوج کے کہیں بھی قدم نہ جمنے دیئے ۔اس حملے کے متعلق جو ہم بیان کررہے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ شجاعت جنگی قیادت اور جنگی مہارت کے لحاظ سے جو فارسی افسر اور سپاہی شامل تھے ان کی جانبازی میں کوئی شک نہیں تھا ۔انہوں نے جو حملہ کیا وہ بھی کم شدید نہیں تھا ۔پھر بھی مسلمانوں کے آگے وہ ٹھہر نہ سکے۔

جب دونوں فوجیں معرکے میں الجھ گئیں تو سنگباری روک دی گئی۔ ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہوئی جس میں مسلمانوں پر فارسیوں کا دباؤ اچھا خاصا بڑ ھ گیا تھا لیکن مسلمانوں میں لڑنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنا شدید تھا کہ مسلمان صورت ِحال پر غالب آجاتے تھے اور جب دو تین مرتبہ مسلمانوں نے فارسیوں کے دباؤکو برداشت کر کے اپنا دباؤ ڈالا تو فارسیو ں کا حوصلہ ٹوٹے لگا ۔دونوں طرف کی فوجوں میں ایک فرق تھا وہ یہ کہ فارسی جوش اورجذبے سے لڑرہے تھے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے سالار عقل سے کام لے رہے تھے۔ مثلاً ایک جگہ مسلمان اس طرح پیچھے ہٹتے گئے جیسے پسپا ہو رہے ہوں۔ فارسی ان پر دباؤ ڈالتے آگے ہی آگے بڑھتے گئے ۔انہیں اس وقت ہوش آیا جب وہ مجاہدین کے گھیرے میں آچکے تھے۔ اس وقت انہیں پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی ایک چال تھی اور مجاہدین نے انہیں اس طرح گھیرے میں لینا تھا۔ اب فارسی اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑنے لگے لیکن جس پھندے میں وہ آگئے تھے اس سے بچ نکلنا ان کیلئے ممکن نہ تھا۔

دوسرے فارسیوں نے جب یہ حال دیکھا تو وہ محتاط ہو گئے اور پیچھے دیکھنے لگے کہ ان کی پسپائی کا راستہ صاف ہے یا نہیں۔ دیوار پر یزدگرد کھڑا دیکھ رہاتھا۔ پہلے تو وہ اپنے حملہ آوروں کو للکار رہا تھا لیکن میدانِ جنگ کی نئی صورتِ حال دیکھ کر اس کی زبان بند ہو گئی۔ اس نے اپنی ماں اور پھر پوران کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کا تاثر بڑا ہی گہرا تھا۔ اس نے میدانِ جنگ سے نظریں پھیر لیں اور آہستہ آہستہ چل پڑا۔ دیوار سے اس نے اندر کی طرف دیکھا تو اسے ایسا منظر نظر آیا جو اس کی برداشت سے باہر تھا۔ اس کے زخمی فوجی کھلے ہوئے دروازوں سے اندر آرہے تھے۔ بعض اچھے بھلے سوار اور پیادے بھی باہر سے بھاک کر اندر آرہے تھے۔ پوران اور نورین بھی اس کے پاس آگئیں ۔یزدگرد نے دونوں کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دیوار سے اتر گیا۔

فارس کی فوج کا جانی نقصان بے تحاشہ تھا ۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بہت ہی کم تھا۔ کسی بھی تاریخ میں مسلمانوں کے نقصان کے اعدادوشمار نہیں ملتے۔ صرف ایک مجاہد کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے یہ تھا’’ زہرہ بن حویہ‘‘ جس کا پہلے کئی معرکوں میں ذکر آچکا ہے ۔زہرہ سالار تھا اور غیر معمولی طور پر بہادر اور نڈر تھا۔ اس کی شجاعت کے واقعات کچھ کم نہیں کہ یہاں پھر سنائے جا سکیں۔ قارئین کی یاد دہانی کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ جب فارسیوں کو شکست دے کر قادسیہ سے مجاہدین کے لشکر نے بھاگتے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں مدائن کی طرف پیش قدمی کی تھی، تو سعدؓ بن ابی وقاص نے زہرہ بن حویہ کو سالار بنا کر مجاہدین کے ایک دستے کے ساتھ بُہر شیر بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ سالار ہاشم بن عتبہ بھی تھا ۔بُہر شیر کے باہر زہرہ نے بڑا ہی سخت معرکہ لڑا تھا اور فارسیوں کی فوج بیشمارنقصان اٹھا کر شہر میں چلی گئی تھی۔

علامہ شبلی نعمانی نے طبری اور بلاذری اور چند مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ بُہر شیر کے محاصرے میں زہرہ بن حویہ نے فارس کے کسی فوجی کی زرہ پہن رکھی تھی۔ قادسیہ کی چار روزہ جنگ میں اور اس سے پہلے کے معرکوں میں اس نے یہی زرہ استعمال کی تھی۔ اس زرہ نے تلواروں اور برچھیوں کے بے شمار وار روکے تھے ۔اس زرہ نے نہ جانے کتنے ہی تیر روکے تھے ۔زہرہ تو محفوظ رہے تھے لیکن زرہ کی کئی کڑیا ں ٹوٹ گئی تھیں۔

یزدگرد نے بُہر شیر کی فوج سے یہ حملہ کرایا جو اوپر بیان ہوا ہے، تو اس روز بھی زہرہ نے یہی ٹوٹی ہوئی کڑیوں والی زرہ پہن رکھی تھی۔ اس کے کسی ساتھی نے اسے یہ کہا کہ یہ زرہ بیکار ہو گئی ہے ، اسے بدل لو۔ ’’فارسیوں کی کئی زرہیں موجود ہیں۔‘‘

ؔؔ’’ہاں ابنِ حویہ!‘‘اس کے ایک اور ساتھی نے کہا۔’’ یہ زرہ تیر کو نہیں روک سکے گی۔‘‘

’’میں ایسا خوش نصیب کہاں!‘‘زہرہ بن حویہ نے خوشگوار لہجے میں کہا۔ ’’میرے نصیب اتنے اچھے نہیں کہ دشمن کے تیر دوسروں کو چھوڑ کر میری طرف آئیں۔‘‘

یہ تھا شوقِ شہادت……مسلمانوں کی اصل طاقت یہی تھی کہ ہر مجاہد اﷲ کی راہ میں جان دینے کو سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا تھا۔ یہ اتفاق تھا یا اﷲ تعالیٰ نے زہرہ کی دعا قبول کر لی تھی کہ فارسیوں کی طرف سے جو پہلا تیر آیا وہ زہرہ بن حویہ کے پہلو میں اتر گیا۔ وہاں سے زرہ کی زیادہ کڑیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ۔تیر جسم کے اندر خطرناک حد تک چلا گیا تھا۔

’’ابنِ حویہ، ٹھہر جا! ‘‘اس کے ایک ساتھی نے کہا۔’’ میں یہ تیر نکال دیتا ہوں، پھر تم پیچھے چلے جانا۔‘‘

چار پانچ مجاہدین اس کے پاس آگئے۔ سب کہہ رہے تھے کہ تیر نکال دیتے ہیں۔

’’نہ میرے بھائیو! ‘‘زہرہ نے کہا۔’’ اسے نہ نکالنا۔ میں اسی وقت تک زندہ ہوں جب تک یہ میرے جسم میں ہے۔‘‘

طبری اور بلاذری وغیرہ نے لکھا ہے کہ زہرہ نے پہلو میں تیر لیے ہوئے ایک جگہ فارسیوں کے ایک دستے پر حملہ کیا۔ اس دستے کے ساتھ فارس کا ایک نامور جرنیل شہربراز تھا۔ زہرہ نے اس کا پرچم دیکھ لیا تھا۔ اس نے چند ایک مجاہدین کے ساتھ شہربراز کے گرد محافظوں کا جو حصار تھا وہ توڑا اور اسے تلوار سے مار ڈالا۔ زہرہ بن حویہ کو یقینا یہ احساس تھا کہ وہ اپنی زندگی کا آخری معرکہ لڑ رہا ہے۔

اس فارسی جرنیل کا پرچم گرنے سے اوراس کے مارے جانے سے ان فارسی جانبازوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ شہر کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔

کچھ دیر بعد زہرہ بن حویہ پہلو میں تیر لیے ہوئے شہید ہو گئے۔

یزدگرد کا حملہ بھی ناکا م ہو چکا تھا۔ اس نے جس جانباز اور منتخب فوج کو باہر نکالا تھا اس کی بہت تھوڑی سی نفری واپس شہر میں جا سکی تھی ۔باقی سب باہر مرے پڑے تھے یا زخمی تھے، جو مجاہدین کی منت سماجت کر رہے تھے کہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کی مرہم پٹی کر دیں۔

بُہر شیر کو مسلمانوں سے بچانا ناممکن ہو گیا تھا۔

٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔